Dasht E Ulfat Novel By Shazain Zainab Episode no 1

 




















بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ 

 ناول

 

دشتِ الفت

 

شازین زنیب

 

 

ایک داستان  جوابھی جاری ہے

ایک الفت جو ابھی جاگی ہے

ایک نفرت جو لے رہی انگڑائی ہے

ایک انتقام جو ابھی باقی ہے

ایک دشت جو ابھی جاری ہے

ایک بوجھ جو بہت بھاری ہے

 

اذقلم: شازین زنیب

 

 

 

Ep #1

 

اللہ ہی اس لڑکی کو ہدایت دے ساری رات جاگ کر ناول پڑھے گی مجال ہے جو کتابوں کو ہاتھ لگا لے۔ اور سوئے گی ایسے جیسے ساری رات کتابوں میں سر مارا ہو۔ مجال ہے جو کان پہ جوں بھی رانگی ہو۔

انعم بیگم کی برداشت بس یہاں تک ہی تھی۔

جزا انسان بن کے اٹھ جاؤ اس سے پہلے میرا جوتا اٹھے۔

اور وہ جو اتنی دیر سے ماں کی باتیں کمبل سر تک لپیٹے سن رہی تھی جس کی نیند یقیننا ابھی بھی پوری نہیں ہوئی تھی۔ اپنی نیند سے بھری آواز میں ماں کو جواب دیا۔

ماما بس پانچ منٹ اور سو لینے دیں پلیزززززز۔

انعم بیگم کا دماغ اس کی بات سن کر گھوم کر ہی تو رہ گیا تھا۔

پانچ منٹ کی بچی 9 بجنے میں پانچ منٹ رہ گئے ہیں۔ تم نے کالج جانا ہے کہ نہیں یا جوتیاں کھا کر اٹھنا ہے بتا دو؟

وقت کا سن کر وہ واقع ہی ہوش میں آگئ تھی۔

فوری اپنے بستر سے اٹھی اور ماں کو بولنے لگ گئی کہ ماما کم سے کم ٹائم سے اٹھا دینا تھا کتنا لیٹ ہو جاؤں گئی میں کالج کے لیے ۔

اوراس کی بات سن کر انعم بیگم کا دل کیا یا تو جوتی اتار کر بغیر عمر کا لحاظ کیے اس محترمہ کو خراج پیش کر دیں یا اپنا سر دیوار پر مار دیں۔

اور اس پہ ایک نگاہ ڈال کر اس کو کھانے کا کہہ کر انعم بیگم نیچے چلی گئیں جہاں ان کے شوہر شاہد صاحب اپنی چھوٹی بیٹی سویرا کے ساتھ ڈائنگ روم میں بیٹھے تھے۔

انعم بیگم کو آتا دیکھ ان سے  پوچھا کہ میری بیٹی جزا اٹھ گئی؟ انعم بیگم نے اپنے شوہر کی طرف دیکھا اور بولا اللہ جانے کیا سوچ کہ آپ نے اس کا نام جزا رکھا ہے ناک میں دم کر دیا ہے آپ کی اس جزا نے میرے مجال ہے جو اس کی آنکھ کبھی وقت پہ کھل جائے یا اس کی نیند پوری ہو جائے ۔

شاہد صاحب بس مسکرا کر رہے گئے اور بولا کیوں اتنا غصہ کر رہی ہیں آپ میری شہزادی پہ وہ تو میرے لیے جزا ہی ہے آخر کو میری پہلی اور آخری محبت سے ملا  سب سے پہلا تحفہ  ہے۔ میرے گھر کی سب سے پہلی رحمت ہے وہ۔

اچھا اچھا آپ کم سے کم خیال کر لیں  بچی پاس بیٹھی ہے۔ انعم بیگم اپنے شوہر کے انداز محبت سے بہت اچھے سے واقف تھی۔

ایکس سال ہونے والے تھے ان کے رشتے کو اور وہ پہلے دن کی طرح ہی اپنی محبت اور اپنی محبوب بیوی پہ جان وارتے تھے۔

 

وہ شیشے کہ سامنے کھڑی اپنی موٹی اور شہد رنگ آنکھوں میں کاجل لگا رہی تھی۔ جو کہ اس کی آنکھوں میں جچتا بھی بہت تھا اور اس کی آنکھوں کو مزید خوبصورت بنا دیتا تھا ۔ شہد رنگ آنکھوں پہ خمدار اور گھنی پلکوں کا امتزاج ہی بہت حسین تھا۔ کالج یونیفارم میں اپنے گھنے شہد رنگ بالوں کو انچی سے پونی ٹیل بنائے۔ موٹی خوبصورت آنکھوں کو کاجل سے مزید خوبصورت بنا کر اور ہلکا سا لپ گلو اپنے باریک اور گلابی ہونٹوں پہ لگائے۔ وہ سادگی میں بھی کسی قیامت سے کم نہ تھی۔ گورا رنگ، خوبصورت آنکھیں ، نرم اور باریک ہونٹ ، لمبے گھنے بال، اونچا قد۔ وہ ہر لحاظ سے کیسی کا بھی دل دھڑکا دینے کا ہنر رکھتی تھی ۔

خود پہ ایک آخری نظر ڈالے اپنا بیگ اٹھا کر نیچے ناشتے کے لیے اتری۔

گڈ مارننگ بابا ۔۔ ڈائنیگ روم میں داخل ہوتے ہے اس نے اپنے بابا کی طرف جاتے کہا

شاہد صاحب اور انعم بیگم نے ایک ساتھ اپنی اس بیٹی کو دیکھا جو بےحد خوبصورت تھی۔ دونوں نے ہی دل میں اس کی نظر اتاری اور اس کے اچھے نصیب کی دعا کی۔

شاہد صاحب کو مل کے اپنے ناشتے کے لیے بیٹھی مگر جیسے ہی نظر گھڑی پر گئی فورآ اٹھی۔۔

یا اللہ بہت در ہو گئی ۔۔ بابا جان جلدی اٹھیں میں کالج کے لیے لیٹ ہو گئی ہوں وین چلی گئی ہو گئ۔ اب آپ چھوڑ کر آئے گے۔

شاہد صاحب نے اپنی بیٹی کی تیزی دیکھتے ہوئے سر نفی میں ہلایا کیوں کہ وہ محترمہ ناشتے کھا کم اور نگل زیادہ رہی تھی۔۔ جاتے جاتے اپنی ماں کے گال کہنچنا نہ بھولی ۔ اور پیچھے انعم بیگم اپنی اس آفت کے لیے ہدایت کی دعا مانگتی رہ گئی ۔ اور اپنی چھوٹی بیٹی سویرا کی طرف بھری جو کہ اپںا ںاشتا ختم کر کے اپنی بڑی بہن کے کارنامے دیکھ رہی تھی۔ اج سویرا اپنے سکول سے چھٹی پر تھی کیونکہ ان کے سکول کا ٹریپ مری گیا ہوا تھا اور وہ نہیں گئی تھی کیونکہ کہ اس کی کوئی دوست اس ٹریپ پر نہیں جا رہی تھی۔

 

شاہد صاحب نے جزا کو اس کے کالج چھوڑا اور خود اپنے کالج کے لیے چلے گے۔ شاہد صاحب پیشہ کے پروفیسر تھے جو حال ہی میں اپنے کالج کہ سب سے پرانے پروفسر ہونے اور بہترین استاد ہونے کی حیثیت سے اب اس کالج کہ پرنسپل بن چکے تھے ۔ اور اپنی حلال کمائی سے اپنے گھر والوں کو ایک اچھی زندگی فراہم کی ۔

 

ادھر جزا جو ابھی ابھی کالج میں داخل ہوئی تھی جلدی میں اپنے بیگ میں کچھ ڈھونڈ تی جا رہی تھی کے سامنے سے آتے ایک بھاری وجود سے ٹکرا کر پیچھے کی طرف گرنے لگی تب ہی بہت تیزی سے اس وجود نے اس کو اپنے حصار میں لے لیا ۔ وہ جو گرنے کے ڈر سے آنکھوں پہ ہاتھ رکھ چکی تھی۔  خود کو کسی کی گرفت میں محسوس کر کے  خود سے ہی مخاطب ہوئی میں بچ گئی ہوں کیا ؟ مگر مخالف اس کی آواز باخوبی سن سکتا تھا تبھی بولا جی محترمہ آپ بچ بھی گئی ہیں اور میرے بازوؤں میں جھول بھی رہی ہیں ۔ ایک مردانہ آواز سن کر اس  جیسے ہی اپنی شہد رنگ آنکھوں سے ہاتھ ہٹایا تو شہد رنگ آنکھیں نیلی آنکھوں سے ملی۔ یہ آنکھوں کا ملنا جاسے پانی اور اگ کا آمنا سامنا تھا کیونکہ جزا کی آنکھیں سورج کی روشنی میں سورج کی طرح ہی چمک رہی تھی۔ اور دوسری طرف نیلی آنکھوں والا وجود جیسے اپنی آنکھوں میں ہی سمندر کو لیے پھرتا ہو۔ اس لمحہ وہ نیلی آنکھیں شاید پہلی بار الجھی تھی۔۔

جزا کو اپنی پوزیشن کا احساس ہوا اور فورا اس وجود کو دور دھکیلا۔ اور اس کو غصہ سے دیکھنے لگی۔

وہ نیلی آنکھوں والا شہد رنگ آنکھوں میں غصہ دیکھ کر ماسک کے پیچھے ہلکا سا مسکرایا اور اگر وہ خود کو انئیہ میں اس مسکراہٹ کہ ساتھ دیکھ لیتا تو یقیناً خود ہی انکاری ہو جاتا۔  اوراگر جزا اس کی یہ مسکراہٹ دیکھ لیتئ تو یقیناً اب تک اس کا سر پھار چکی ہوتی مقابل کو خاموش پا کر اور خود کو غور سے دیکھتا پہ کر  جزا غصہ میں بغیر کسی لحاظ کے اس اونچے لمبے شخص سے مخاطب ہوئی۔۔

سنو مسڑ یہ کالج آپ کے ابا جی کے گھر میں بنا ہوا ہے جہاں منہ اٹھا کے چلی جا رہے ہو اور اگر چل رہے ہو تو کم سے کم اپنی آنکھیں تو کھول کے چل لو سامنے سے کوئی انسان آتا دیکھئ نہیں دیتا کیا آپ کو؟؟

اپنے سے چھوٹی لڑکی کی قینچی جیسی زبان چلتی دیکھ وہ تو سپٹا ہی گیا تھا جو ایک سیکنڈ میں سارا الزام اس پہ ڈال چکی تھی جب کہ وہ محترمہ خود اس کالج کو اپنے ابا جی کا گھر سمجھ کے چل رہی تھی۔۔

دیکھیں محترمہ ۔۔

کیا کہا محترمہ۔۔۔؟؟؟ میں آپ کو محترمہ لگتی ہوں ؟؟؟ آپ کی آنکھوں کے ساتھ دماغ بھی خراب ہے کیا لڑکی اور عورت میں فرق نہیں پتا کیا؟؟؟؟

جی ہاں بلکل پتا ہے۔۔ اب کی بار نیلی آنکھیں بھی میدان میں اتر آئی تھی ۔  محترمہ لڑکی اور عورت دونوں کے لیا استعمال کیا جاتا ہے مگر زیادہ تر عورتوں کے لیے اب جب آپ عورتوں کی طرح لڑیں گی تو محترمہ ہی بولوں گا نہ ۔۔۔

یہ بات سن کر جزا کا دل کیا کہ اس شخص کا منہ ہی نوچ لے مگر بس غصہ سے گھور ہی سکی۔ کیونکہ اگے ہی وہ اپنی کلاس کی لیے لیٹ ہو چکی تھی اور اوپر سے یہ نیلی آنکھوں والی بلا جس کو وہ چھر بیٹھی تھی ۔۔

دیکھو مسٹر آپ مجھ سے ٹکرائیں ہیں غلطی آپ کی ہے معافی مانگے مجھ سے ۔۔۔ یقین کریں میرا دل بہت بڑا ہے معاف کر دوں گی ۔۔ جلدی سے معافی مانگیں مجھے میری کلاس کہ لیے جانا ہے جلدی کریں ۔۔

اور وہ بیچارہ چکراتا چکراتا رہ گیا کہ ایک تو یہ میڈم اس پہ بغیر کسی غلطی کے الزام لگا چکی ہیں اور اب معافی کا بول رہی۔۔

اچھا اگر اتنا ہی بڑا دل ہے آپ کا تو ایک کام کریں بغیر معافی کہ ہی معاف کر دیں اور رہی بات کلاس سےدیر کی تو میں نے آپ کو نہیں روکا آپ کا خود کا لڑنے کا شوق ختم ہو تو آپ کلاس کے لیے جائیں نا۔۔۔ اب ذرا ہٹ جائیں میرے راستے سے مجھے اور بھی کام ہیں آپ سے لڑنے کے علاوہ۔۔

یہ کہا کر وہ وہاں سے نکل گیا مگر جاتے جاتے نہ چاہتے ہوئے بھی ایک بار پیچھے مڑ کر دیکھا اس نے۔۔ وہ جس نے اج تک کبھی کسی کو نہ مڑ کر دیکھا جس کو لوگ خاص طور پر لڑکیاں مڑ کر دیکھتی ہیں آج نہ جانے کیوں اس کی نظروں نے بغاوت کر دی اور وہ  ان شہد رنگ آنکھوں کو پھر سے دیکھنے کے لیے مڑی۔

اور دوسری طرف وہ شہد رنگ آنکھیں اس کی باتوں کو اپنے پر ٹونٹ سمجھ کر اس کو بہت عظیم الفاظ سے نواز رہی تھی ۔۔ جزا اس کو دل ہی دل میں کوستی اپنی کلاس کو طرف بھرہی جہاں اس کو اس کی دوست نور انتظار کرتی ملی۔

)

جزا اور نور بچپن سے ہی ایک دوسرے  کے ساتھ رہی ہیں اور اب کالج کہ آخری سال بھی دونوں ایک دوسرے کی ساتھ ہی تھی ۔ نور کی ماما ور جزا کی ماما دونوں ہی بہت اچھی دوست تھی جس کی وجہ سے  نور اور جزا بھی آپس میں اچھی دوست بن گئی۔۔ نور اپنے ماں باپ (امل بیگم اور احسن صاحب) کی ایک لوتی بیٹی ہے جو کہ احسن صاحب کے چھوٹے بھائی (کامران صاحب) کے ایک لوتے بیٹے ( دوراب) سے منگنی کے رشتے میں جوڑی ہے  نور کی دیر سے پیدائش کی وجہ سے وہ اپنے چچا کے دونوں بچے( دوراب اور  امنہ) دونوں سے چھوٹی اور گھر میں سب سے لاڈلی ہے

(

نور جزا کو گھور کے دیکھ رہی تھی اور جزا نے ہاتھ جوڑ دیے یہ دیکھ لو ںور اگے صبح ماما سے ڈانٹ کھا  کر اٹھی ہوں اور آگے سے کالج اتے ساتھ ایک نیلی بلا سے سامنا ہو گیا اب تو نہ کچھ بولی یہ یاتھ دیکھ لے میرے۔۔ نہ نہ میری جان میں نہیں کچھ کہوں گی۔۔ کہیں گئی تو میم شمیم آپ کو ۔۔ چلیں اند بعد میں ساری بکواس سنوں گی تمہادی میں ۔۔

ماشاءاللہ ماشاءاللہ آئیں آئیں آپ دونوں کا ہی انتظار ہو رہا تھا ۔۔ ہماری کلاس کی بہت وی-ائی-پی سٹوڈنٹس ۔۔ میم شمیم ماتھے پہ بل ڈالیے ان دونوں کو غور رہی تھی۔۔  جو عادت سے مجبور ہمشہ جزا کی وجہ سے لیٹ تھی۔

تھینکس میم اتنی تعریف کے لیے ۔ جزا نے شرماتے ہوئے سر نیچے جھکا لیا۔۔ جب کے نور اپنا غصہ کنٹرول  کرنے کی کوشش کر رہی تھی جو اس کو جزا پر آرہا تھا۔

ڈھیٹ۔۔ جائیں اپنی سیٹ پر جا کر یہ لاسٹ چانس ہے آپ دونوں کے لیے اب اکر لیٹ ہوئی تو دونوں پرنسپل آفس جائی گی۔۔ میم شمیم غصہ میں دونوں کو غورتئ بول رہی تھی۔

جزا اپنی ہنسی کنڑول کر رہی تھی۔ جب کہ نور نے غصہ میں جزا کی کمر میں مکا میرا اور اس کے کان کے پاس  جھک کر بولی ،، تو ہر جگہ عزت کا جنازہ نکالا کر میری  لیٹ خود آتی ہے ساتھ مجھے بھی ذلیل کرواتی ہے واہ رے تیری دوستی ۔  نور غصہ می اس کو کوستی جا کہ اس کے ساتھ جگہ پر بیٹھ گئی ۔

وہ دوستی ہو کیا جو آپ کو ذلیل نہ کروائے ۔ جزا نے نور کو چھرنے کے لیے ایک ادا سے بولا۔

واہ کیا انداز ہیں آپ کے۔ نور نے جزا کو گھوری کروائی ۔۔

••••••••••••••••

 

کیا یار دماغ خراب کر دیا آج کی کلاس نے آخری دو ہفتوں میں ان سب کو پڑھنا یاد آیا ہے کیا؟؟؟

کلاس سے فارغ ہونے کے بعد جزا اپنی دوہیاں دینے میں مصروف تھی جب اس سے نور نے پوچھا یہ نیلی بلا کون ہے۔

میری پھوپھو کا بیٹا اس نے جل کے بولا ۔۔۔

ہئیں ہئیں ہئیں ۔۔ ۔۔۔۔ یہ تمہاری پھوپھو کی طرف ایک اور بیٹا کب پیدا ہوا۔۔۔ مجھے بتایا کیوں نہیں یار ۔۔۔

تو نے جا کے ڈیلیوری کرنی تھی جو تجھے بتاتی۔۔۔ جزا نے نور کی عقل پہ ماتم کرتے ہوئے جل کے کہا ۔۔۔۔

پھر بھی ایک بار بتا تو دیتی ۔۔ویسے تمہاری پھوپھو نے اس عمر میں ۔۔

نورررررر۔۔۔اس سے آگے بکواس نہ کرنا۔۔۔ میری ماں جب میں کالج  آئی تب میں کسی سے ٹکرائی تھی اندھوں کی طرح چل رہا تھا وہ۔۔ تو اس سے بس بحث ہو گئ اب مجھے اس کا نام نہیں پتا اس وجہ سے اس کا نام نیلی بلا رکھ دیا ۔۔

ویسے کیا اس کا رنگ نیلا تھا جو تو نے اس کا نام نیلی بلا رکھ دیا۔ نور نے کافی دیر سوچنے کے بعد پوچھا۔

تو آج ناشتہ کر کے آئی ہے کہ نہیں ؟ جو اب میرا دماغ چاٹ رہی ہو۔ جزا نے نور کو عضے سے غورا۔۔

نہیں نہیں ناشتہ کر کے آئی ہوں۔ مگر بتا نا اس کو تم نے نیلی بلا کیوں بولا پلیزززززز نور نے معصوم شکل بنا کر جزا کی طرف دیکھ کے پوچھا۔

اب تم نے اس کے علاوہ اس کے بارے میں ایک اور سوال پوچھا تو پھر دیکھنا اپنا حال۔۔ جزا نے نور کو گھور کر دیکھا۔

اچھا بتا تو سہی ۔ نور نے ایک آنکھ وینک کر کے جزا کو دیکھا ۔

اس کی آنکھیں نیلی تھی۔۔ جزا نے نور کی طرف دیکھ کر بولا

اووووووو۔۔ دیکھنے میں ہینڈ سم تھا؟؟نور نے  جزا کے کندھوں پر اپنی بازو پھیلا کر جزا کو اپنے تھوڑا قریب کر کے بہت رازداری سے ایک اور سوال پوچھا

نور بی بی آپ کو بہت زیادہ دلچسپی نہیں ہو رہی اس میں ؟؟ آپ کے منگیتر سے رابطہ کر کے ان کو بتا دوں کے آپ کی پیاری سی ہونے والی بیوی آج کل اور ہی شوقوں میں ہیں ۔۔ جزا نے نور کو عضے سے گھورتے ہوئے بولا

اچھا اچھا چل۔ غصہ تھوک دے۔۔ کیوں مجھ معصوم کو جان سے مروانا ہے۔۔ نور نے معصوم سی شکل بنا کر اپنی اس ظالم دوست کو دیکھا تھا۔۔۔

جزا بس اہ بھر کر رہ گئی کیا بولتی وہ اس کو۔

پتا نہیں تو میرے کون سے  نیک کاموں کی جزا ہے جس نے میرا جینا حرام کر رکھا ہے ہر روز تیری وجہ سے کوئی نہ کوئی کلاس مس ہوتئ ہے۔۔۔ نور نے اپنی دوہائی دی ۔

اور تو پتا نہیں میرے کون سے نا کردا گناہوں کی سزا ہے جو مجھے سکون کا سانس بھی نہیں لینے دیتی۔۔۔۔۔۔ جزا بھی پیچھے نہ رہی۔

اور دونوں اپنی ہی باتوں پہ ہنس پڑی یہ دونوں ایسی ہی تھی اپنی مستی میں رہنے والی۔۔۔۔۔

ہستے ہستے نور کی نظر جزا کے گلے کی طرف گئی۔۔۔۔۔جزا تیرا

پینڈنٹ  کہاں ہے آج نہیں پہنا کیا؟؟؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا مطلب میرا پینڈنٹ میں اتارتی ہی نہیں ۔۔۔۔۔ اور جزا پریسشانی سے اپنے پینڈنٹ کو دیکھنے کے لیے گلے پہ ہاتھ رکھا تو وہ وہاں نہیں تھا۔۔ وہ پریشانی میں ہر اس جگہ ڈھونڈ نے لگ گئی جہاں جہاں وہ گئی تھی ۔۔۔۔۔ چھٹی کا وقت بھی ہونے والا تھا اور وہ ہر جگہ دیکھ دیکھ کے تھک گئی تھی۔۔ نور نے کچھ سوچ کہ بولا تم گھر دیکھنا کہیں گھر نہ گیرا ہو۔۔ جزا نے کہا نہیں

 میں وہ اتارتی ہی نہیں گیرےگا کیسے میں جب گھر سے نکلی تھی تب بھی میرے گلے میں تھا ۔۔۔۔۔

اچھا نہ جزا رونا مت مل جائے گا ۔۔۔۔۔۔

کیسے نہ روں وہ بابا نے دیا تھا مجھے بہت پسند ہےوہ اور بہت عزیز بھی۔۔۔۔۔

دیکھو اگر ادھر کیسی کو بھی ملا وہ تمہیں دے دیں گے آخر اس پہ تمہارا نام لکھا ہے اور تمہاری اور تمہارے بابا کی تصویر ہے اس میں ۔۔۔ اور تم نے بتایا تھا نہ جب تم کالج ائی تھی تب تم کیسی سے ٹکرائی تھی۔۔۔ کہیں ادھر نہ گیرا ہو۔۔۔۔۔۔۔

ہاں ہو سکتا ہے چلو چل کے دیکھتے ہیں ۔۔۔۔

 

اسلام وعلیکم موم ۔۔۔۔

آگے ماں کی جان۔۔۔۔ عائشہ بیگم نے اپنے شہزادوں جیسی شان رکھنے والے بیٹے کو پیار کیا اور دل میں ہی نظر اتاری۔۔۔ کیونکہ زوریز خان واقع ہی نیلی آنکھوں والا ایک باروب کیسی سلطنت کا بے تاج بادشاہ ہی لگتا تھا جس کو دیکھنے والی ہر آنکھ ٹھہر کر دیکھتی تھی۔۔ 6 فٹ سے نکلتا قد بھورے گھنے بال، سرخ و سفید رنگت ، کسراتی جسامت، سفید سنجیدہ چہرے پہ سیٹ ہوئی ہوئی داڈھی اس کی وجاہت کو چار چاند لگاتی تھی۔۔ بھوری پلکوں کے احتے میں نیلی (برف کی طرح سرد) آنکھیں ۔۔۔۔۔۔

وہ مردوں میں حسین ترین مرد تھا۔۔۔

گڈ مارننگ ینگ مین ۔۔۔۔۔

ابراہیم خان جو کے پاک آرمی میں جنرل تھے اپنے ایک لوتے بیٹے سے ملے۔۔۔

)

 ابراہیم صاحب خود بھی ایک لوتے تھے اور اللہ نے ان کو بھی ایک لوتے بیٹے سے نوازا تھا جس کی تربیت ان کی بیوی نے بہت اچھی کی  تھی)کیسے ہو میں ٹھیک ہوں ڈیڈ آپ کیسے ہیں ؟؟

میں بھی ٹھیک ہوں۔۔ اور بتاؤ کیا کرنا ہے اب تم نے آگے ۔۔۔

اپنے شوہر کی باتیں سن کر عائشہ بیگم کا دل کیا سر پہٹ لیں۔۔۔۔۔۔۔

ابراہیم صاحب میرا بیٹا ابھی آیا ہے باہر سے اس کو کچھ دن سکون تو کرنے دیں ۔۔۔۔۔

عائشہ آپ کا بیٹا کل رات کا پاکستان میں ہے مسٹر گھر ابھی آ رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔  دوستوں سے فرصت ملے تو ماں باپ یاد آئیں نہ اس کو۔۔۔ یہ بات ابراہیم صاحب نے بہت آرام سے بولی تھی کہ صرف زوریز ہی سن سکا۔۔۔۔

تم کل رات سے آئے ہو گھر کیوں نہیں آئے ؟؟ کیا ماں یاد نہیں آتی ۔۔

عائشہ بیگم بہت دکھی ہو گئی تھی اور زوریز اپنے باپ کو دیکھ رہا تھا کہ مل گیا رولا کے سکون ۔۔

ابھی وہ اپنی ماں کو چپ کرواتا اتنے میں ہی دوراب اور  آیان دونوں ا گے۔۔۔۔۔۔۔

)

دوراب ، ایان اور زوریز تینوں ہی بہت اچھے دوست تھے ایک دوسرے کے ہم راز اور ایک دوسرے پہ جان وارنے والے۔۔۔۔دوراب دبئی سے ایان ترکی سے جب کے زوریز امیریکہ سے پاکستان واپس  آئے تھے آپنے اپنے بزنس کو اسٹینڈ کر کے جبکہ زوریز ترکی اور دبئی میں بھی اپنے کام کی جڑیں مضبوط کر چکا تھا اب وہ کام کیا تھا یہ ان کی علاوہ کسی کو بھی نہیں پتا تھا)

اسلام وعلیکم انکل اور پیاری سی انٹی۔۔۔۔۔۔

وعلیکم السلام ۔۔۔ ابراہیم صاحب نے تھوڑے روب سے کہا مگر وہ دونوں تو ڈھیٹ تھے اور ان کا لیڈیر خود ان کا بیٹا تھا۔۔۔۔

کیا انکل اب ہماری انٹی اتنی پیاری ہیں اور وہ آنٹی لگتی بھی نہیں ابھی وہ تو بس آپ کی وجہ سے انٹی بول دیتے ہیں ۔۔۔۔

کچھ کھا کہ آئے ہو یا۔ مار کھانی ہے ابراہیم صاحب کا بس نہیں چل رہا تھا دونوں کو ایک ایک لگا دیں۔۔

اچھا اچھا نہیں کہتے آپ کی زوجہ کے بارے میں کچھ۔۔۔۔

ابراہیم صاحب چیر سے اٹھے اور دوراب،زوریز اور آیان نے باہر کی طرف دور لگا دی۔۔۔

الو کے پٹھے ۔۔ نکمیے ، نالائق ۔۔۔۔ ابراہیم صاحب تینوں کو کوس رہے تھے بیٹھ کر ۔۔

ادھر وہ تینوں باہر اکے ہنس رہے تھے تبھی آیان نے دوراب کو روکا اور زوریز کی طرف اشارہ کیا۔۔۔۔۔۔۔

ان کو خاموش دیکھ کے زوریز کی بھی ہنسی روکی اور دونوں

سے پوچھا کیا ہوا ہے ایسے کیوں دیکھ رہے ہو ۔۔

آیان اور دوراب بولےتو واقع ہی ہنسا ہے؟؟؟

 

اس سے پہلے  زوریز کچھ بولتا دوراب کی  نظر زوریز کے شرٹ کے بٹن میں الجھی چین کے طرف گئ اور اس نے فوراً نکال کر چین زوریز کے سامنے کیا.......

ہاں تو زوریز خان صاحب آپ اس کے بارے میں اور اپنی ہنسی کے بارے میں کیا کہیں گے؟؟

یار دوراب لگ تو کیسی لڑکی کا رہا ہے دیکھ کچھ اور تو نہیں ۔۔ 

آیان نے بچ میں مصالحہ لگنا اپنا حق سمجھا ۔۔

ادھر زوریز اس سوچ میں تھا کہ یہ کس کا ہے اوربٹن میں کسے الجھ گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تب ہی اس کو اپنی شہد رنگ آنکھوں والی لڑکی سے ٹکر یاد آئی اس سے  پہلے وہ ان سے پینڈنٹ لیتا وہ دونوں بول پڑے ۔۔۔۔

 

یہ جزا کون ہے؟؟؟؟؟؟؟؟؟

ابھے یہ تو کھولتا ۔۔۔۔۔۔۔ یہ الفاظ آیان کے منہ میں ہی تھے  کیونکہ جس لڑکی کی تصویر تھی اندر اس کے باپ کے ساتھ وہ کیسی اپسرا سے کم نہ تھی۔۔۔۔۔۔۔

کیا ہوا؟؟؟؟؟؟ دوراب نے پوچھا

یہ ادھر دو آیان زوریز نے کہا۔۔۔۔

یار بھابھی ٹکر کی ڈھونڈی ہے تم نے ۔۔۔۔۔

ایسا کچھ نہیں ہے بکواس بند کر لو ۔۔۔ زوریز سٹپٹا ہی گیا تھا۔۔۔۔

روکو انٹی کو دیکھاتا ہوں میں ۔۔۔ آیان اور دوراب نے اندر کی طرف دور لگائی

اور زوریز ان کے پیچھے بھاکا مگر جس کا اس کو ڈر تھا وہ ہو چکا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

موم ڈیڈ۔۔۔۔ زوریز یہ کس کا ہے اور یہ کون ہے ؟؟؟ عائشہ بیگم نے ہی اپنے لاڈلے سے پوچھ لیا۔

موم ڈیڈ جو آپ لوگ سوچ رہے ہو ویسا بلکل نہیں ہے۔۔۔۔

ہاں انٹی اس سے بہت زیادہ ہے۔۔۔۔۔ آیان نے جلتے ہوے کہا کیوں کہ اس کو تو یہ ہی دکھ کھا رہا تھا کہ اس کا جگری دوست ایک لڑکی سے ملا اور اس کو بتایا بھی نہیں ۔۔

آیان اگر تو نے ایک الفاظ اور بولا تو گولی مار دوں گا میں تجھے ۔۔ زوریز نے تنگ آ کر آیان کو گھوری کروائی۔۔۔

میری تو ابھی شادی بھی نہیں ہوئی کیوں میری ہونے والی بیوی کو میری دلہن بننے سے پہلے میری بیوہ بنانے لگا ہے ۔۔۔۔۔ آیان کو زوریز کی بات سن کر اپنا ایک اور ہی دکھ یاد آگیا تھا۔۔

ویسے آیان تمہاری معلومات میں اضافہ کرنے کے لیے بتا دوں کے تم ابھی تک سنگل ہی ہو ۔۔ دوراب نے آیان کی دکھتی رگ دبا ڈالی۔

ہاں ہاں ایک منگنی کر کے بیٹھا ہے ایک نے لڑکی پسند کر لی اور میرا تم لوگ ریلیشن بنے نہیں دیتے میں نے تم دونوں کا کیا بیگارا ہے۔۔۔۔۔ آیان عورتوں کی طرح لڑنے لگ گیا دونوں سے۔۔۔

ویسے تمہیں بتا دوں کہ میں کیسی لڑکی کو پسند نہیں کرتے۔ آج میں کالج گیا تھا ڈونیشن کی رقم دینے اور کالج دیکھنے تو ادھر ایک لڑکی ٹکرائی تھی مجھ سے شاید اس کا ہی ہو گا۔۔۔ تو اب اپنی بکواس بند کر لو زوریز نے آیان کو گھورتے ہوئے کہا۔۔۔

اور دوراب کی طرف دیکھا جو اس پینڈنٹ کو بہت گھور سے دیکھ رہا تھا۔۔۔۔

دوراب صاحب اگر پوسٹمارٹم ہو گیا ہو اس پینڈنٹ کا تو ذرا دے دیں۔۔۔ زوریز نے ہاتھ اگے کیا،،

مجھے پتا نہیں ایسا کیوں لگ رہا جیسے میں نے اس کو کہی دیکھا ہے۔۔ خیر یہ لو جس کا ہے دے دینا۔۔۔ دوراب نے پینڈنٹ زوریز کو دیا۔۔۔

ویسے بچی بہت خوبصورت ہے اللہ اس کے نصیب اچھے کرے۔۔ عائشہ بیگم نے اپنے بیٹے کے ہاتھ میں پینڈنٹ کو دیکھتے ہوئے کہا۔

جی اور زبان اس سے بھی زیادہ خوبصورت ہے اللہ اس لڑکے پہ رحم کرے جس کے نصیب میں اس نے جانا۔۔۔۔ یہ زوریز نے اپنے دل میں بولا۔۔۔۔

اور اس سے پہلے دوراب اور آیان کوئی اور تماشا لگاتے ان کو بازوؤں سے پکڑ کر اپنے ساتھ  باہر لے گیا۔۔۔

اور ابراہیم صاحب اور عائشہ بیگم ان تینوں کو جاتا دیکھ مسکرا پرے۔۔۔

 

بیسسٹ اس بندے کا کیا کرنا ہے اب؟؟  ولف نے بیسٹ کی طرف دیکھ کر بولا۔۔۔

اس سے پہلے بیسسٹ کچھ بولتا۔۔۔۔۔۔۔ میز کے  ساتھ ٹیک لگا کر کھڑا

 لیو بولا۔۔ میں تو کہتا ہوں اس کا قورمہ بنا دو۔۔۔۔

تمہیں کھانے کے علاوہ بھی کچھ سوجھتا ہے ؟؟؟ ولف نے لیو کو گھوری کروائی ۔۔۔۔

تم دونوں منہ بند کر لو گے یہ میں کروائیوں ؟؟؟ بیسسٹ کی روبدار اور غصہ سے بھری آواز نے دونوں کو چپ کروا دیا۔۔۔۔۔

اب جبکہ ہم لوگ اس سے سارے راز اگلوہ چکے ہیں تو یہ ہمارے کسی کام کا نہیں۔۔۔ مگر جو جو یہ کر چوکا ہے اس کی سزا تو لازم ہے نا۔۔۔ بیسسٹ اپنی کرسی سے اٹھتا اس آدمی کے پاس گیا جو مسلسل ان کا ظلم برداشت کر کر کہ اب خوف کے مارے کانپ رہا تھا۔۔۔۔

تمہیں پتا ہے تمہاری آنکھوں کا خوف مجھے کتنا سکون دے رہا ہے ۔۔۔ بیسٹ نے اس کی آنکھوں پہ اپنے ہاتھ میں پکڑا تیزدھار چاقو نما ہتھیار پہرا جس سے اس کے دونوں آنکھیں کٹ کر باہر کی طرف گیری اس ہی طرح اس کے چہرے پہ اس کا یہ ہتھیار رنیگ رہا تھا اور اس آدمی کی چیخوں پورے بسمنٹ میں سنائی دے رہی تھی مگر ادھر موجود تینوں وجودوں کو وہ آواز سکون دے رہی تھی۔۔

بیسسٹ  کے ہاتھ میں جو تیزدھار ہتھیار تھا اب وہ اس آدمی کے جسم پر جگہ جگہ پھیرتا جا رہا تھا اور کاٹتا جا رہا تھا۔۔۔ اس آدمی کو تقریباً ادھیر کر بیسسٹ پیچھے ہٹا۔۔۔ اور ولف اور لیو نے اس کے پورے جسم پہ جہاں جہاں سے خون نکل رہا تھا نمک لگانا شروع کر دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس آدمی کی چیخوں میں مذید اضافہ ہو گیا۔۔۔۔۔ درد کی شدت اور جلن سے وہ نیم مردہ ہو چکا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بیسسٹ نے اپنے ایک آدمی کو بلایا جو آ کے خاموشی سے اس کے آگلے آرڈر کا انتظار کر رہا تھا۔۔۔۔۔۔ اس کو اٹھا کر کتوں کے سامنے ڈال دو۔۔۔ اور یہ غلاظت صاف کرواؤ ۔۔۔۔۔۔

یہ کہا کر بیسسٹ ، ولف اور لیو تینوں ادھر سے چلے گئے ۔۔۔

یہ تینوں ہی کسی حیوان سے کم نہیں تھے ایک زمانہ ان  کے نام سے ڈرتا تھا۔۔۔ جرائم کی دنیا میں ان کے نام سے لوگوں کی روح کانپ جاتی تھی ۔۔ کیوں کے ہر کوئی جانتا تھا یہ کس طرح سزا دیتے ہیں کہ موت کی بھیک مانگو گے تب بھی آرام کی موت نہیں دیں گے ۔۔ جرائم کی دنیا کے بے تاج بادشاہ تھے یہ تینوں ۔

 

وہ بہت اداس بیٹھی تھی۔  اور نور اس کی اداسی کی وجہ سے چپ تھی جب کہ امنہ دونوں کا موڈ ٹھیک کرنے کا طریقہ سوچ رہی تھی۔۔

آج وہ دونوں کالج نہیں گئی تھی تبھی امنہ بھی نور کے ساتھ جزا کی طرف آگئ ۔ آمنہ ، نور اور  جزا تینوں کی ہی اپس میں بہت دوستی تھی۔۔ کیونکہ  کچھ اس میں ان کی عمر کا بھی تعلق تھا آمنہ نور اور جزا سے صرف سال بڑی تھی۔۔ تب ہی اپنا کالج ختم کرنے کے بعد وہ  نور اور جزا کا کالج ختم ہونے کا انتظار کر ہی تھی تاکہ تینوں ایک ساتھ اگے کی تعلیم شروع کریں۔۔

 اچھا سنو دونوں میری بات۔۔۔ اچانک آمنہ بولی۔۔۔ نور جو اپنے خیالوں میں گم تھی ڈر گئی تھی آمنہ کی آواز پہ ۔۔

اللہ کی بندی مانا تجھے اللہ نے گلا نہیں سپیکر دیا ہے اس کا مطلب یہ نہیں کہ تو ہمارے کان کے پردے پھار دےےے۔۔ نور نے آمنہ کی طرف تکیا پھینکا ۔۔۔

اچھا بھابھی سوری نہ۔۔۔ آمنہ نے نور کو تنگ کرنے کہ لیے بھابھی بولا۔۔۔

آمنہ۔۔۔۔۔ نور اس کو مارنے کے لیے بیڈ سے اتری ۔۔

اچھا اب قسم سے نہیں چھیروں گی پکا ۔۔۔ آمنہ نے خود کو بچانے کے لیے ہتھیار ڈال دے کیونکہ وہ اپنی ہونے والی بھابھی کے وحشی انداز سے بہت واقیف تھی ۔۔

اچھا بولو تم کیا بول رہی تھی اس سے پہلے یہ دونوں لڑتی جزا نے پوچھا۔

وہ میں یہ کہا رہی تھی کے ہم لوگ کہیں باہر چلتے ہیں تمہارا موڈ بھی اچھا ہو جائے گا ۔

ہاں یہ ٹھیک رہے گا ۔۔ نور ںے بھی ہمی بھری ۔۔

چلو ٹھیک ہے چلتے ہیں ۔۔۔ اور میرا نہ دل کہا رہا ہے وہ جو اس دن نیلی بلا ملی تھی نہ میرا پینڈنٹ اس نے ہی چوری کیا ہونا ہے۔۔۔ دیکھنے میں اتنا امیر لگ رہا تھا اور کام دیکھو ذرا ۔۔۔ بےشرم آدمی چور کہیں کا ۔۔

اللہ جزا بس کر دے تو نا جانے اس کو کتنی بار کوس چکی ہے۔۔ آمنہ اور نور ایک ساتھ بولی۔۔۔

چل اٹھ چلیں باہر ہم تینوں انٹی سے اجازت لے کر۔۔

انٹی ہم یہاں پاس آئس کریم پارلر تک جا رہی ہیں ۔۔

ٹھیک ہے بیٹا جاؤ مگر  دھیان سے جانا۔۔۔ انعم بیگم جو کچن کے کام میں مصروف تھی ان کی طرف دیکھ کر بولی۔۔۔

ابھی وہ تینوں پلٹی ہی تھی کہ جزا کی پھوپھو کے بیٹے شہزاد  نے اندر آ کر سلام کیا۔۔۔

کیسی ہیں ممانی جان آپ ؟؟ اس نے انعم بیگم کا حال پوچھا جب کہ نظریں اس کی جزاپہ تھی۔۔۔ اور اس ہی وجہ سے جزا کو وہ بےحد برا بھی لگتا تھا۔۔۔۔

میں ٹھیک ہوں بیٹا تم کب آئے ۔۔۔ انعم بیگم نے شہزاد سے پوچھا۔۔

بس ابھی آیا ہوں اور یہ تینوں کہا جا رہی ہیں ؟؟؟ شہزاد نے جزا کو غور سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔۔۔۔۔۔

کچھ نہیں بس بچیاں ائس کریم کھانے جا رہی ہیں ۔۔ انعم بیگم نے شہزاد کی بات کا جواب دیا۔۔۔

 

انٹی یہ تینوں اکیلی جائیں گئی؟؟ اگر آپ اجازت دیں تو میں ان کہ ساتھ چلا جاؤں ؟ کیونکہ آج کل جوان لڑکیوں کو باہر اکیلے بھیجنا مناسب نہیں ۔۔۔۔۔

شہزاد کی بات سن کر جزا کا دل کیا اس کی عقل ٹھیکانے لگا دے ۔۔۔

وہ دراصل شہزاد بھائی تین لوگ نہ اکیلے نہیں ہوتے۔ اور آج کل زمانے سے بھی زیادہ گھر کے لوگوں سے ڈر ہوتا ہے کیونکہ اکثر ان کی نیت میں کھوٹ ہوتا ہے۔۔ اور ہم اپنی حفاظت کرنا جانتی ہیں ۔ جزا نے ایک ایک الفاظ شہزاد کو باور کرانے والے انداز میں بولا اور آمنہ اور نور کے ساتھ باہر نکل گئی ۔

•••••••••

 

زوریز ۔۔۔۔ آیان نے زوریز کو بلایا ۔

بولو! زوریز جو لیپ ٹاپ پہ کچھ کام کر رہا تھا آیان کی طرف دیکھا ۔

وہ نہ میں یہ کہا رہا تھا کہ۔۔۔۔۔۔۔

اب بک بھی چوکو  ؟؟ زوریز نے تیوری چڑھا کر آیان کو دیکھا۔۔

وہ میں کہا رہا تھا یہ جو پینڈنٹ والی لڑکی ہے کیا نام تھا اس کا ۔۔۔ جرا، نہیں نہیں زرا نہیں کیا نام تھا اس کاااا یاررررر۔۔۔ آیان نے کافی سوچنے والے انداز میں کہا ۔۔۔

جزا۔۔ زوریز نے مٹھیاں  بھینچ کر کہا۔۔

واہ جی واہ ۔۔۔۔ زوریز خان  صاحب کو بھی کیسی لڑکی کا نام یاد ہےاور ابھی وہ اس لڑکی کو جانتے نہیں ؟ آیان لڑاکا عورت کی طرح کمر پہ ہاتھ رکھ کر زوریز کے سامنے کھڑا ہو گیا۔۔۔

اگر تم نے ایک منٹ میں اپنی بکواس بند نہ کی تو یہاں سے دھکے دے کر نکالوں گا تمہیں میں ۔۔ زوریزنے اس کو آنکھیں دیکھائی۔۔۔

نا بتا ایک دن تیرا بھانڈا بھی پھوٹے گا ۔۔ اس دن پوچھوں گاتجھ سے۔ وہ بھی اگے سے آیان تھا۔

تو بکواس بند کرے گا یہ کوئی ہڈی توڑواکر مانے گا ؟؟؟ زوریز نے اس کو غوری سے نوازا ۔۔۔۔

اچھا اچھا نہیں بولتا اب کچھ۔۔۔ آیان منہ بنا کہ اپنی کرسی پر بیٹھ گیا ۔۔۔

ہیلو مسڑ یہ آرام کس خوشی میں کر رہے ہو اپنا تھوڑا فائدہ تو دو۔ یہ فائل پکرو اور اس کی کاپی کر کے لاؤ ۔۔۔ زوریز نے آیان کو حکم دیا ۔

جا رہا ہوں اور روب کم ڈالو مجھ پہ سمجھ ائی نہ۔۔۔۔ کمینا ۔۔۔۔۔یہ الفاظ اس نے دل میں بولے تھے کیونکہ اگر زوریز کے سامنے بولتا تو وہ اس کی حالت فقیروں جیسی کرنے میں منٹ نہ لگاتا ۔۔۔

 

••••••••

 

آج موسم بہت خوبصورت تھا۔۔ ہر طرف کالے بادل چھائے ہوئے تھے ۔۔۔صبح سے  ہلکی ہلکی بارش ہو رہی تھی مگر اب۔ بادلوں کے شور سے اندازہ ہو رہا تھا کہ وہ  خوب برسنے والے ہیں  اور ویسے بھی بارش کا موسم لاہور کو تو بےحد خوبصورت کر دیتا ہے۔۔۔

جزا آپی جلدی آ جائیں بارش شروع ہو گئی ہے ۔۔ جزا سے ایک سال چھوٹی سویرا نے جزا کو بلایا ۔ آ گئی میں ۔۔۔ جزا نے کچن سے آواز دی۔

اچھا ماما میں بارش میں نہانے جا رہی ہوں اب ۔۔ یہ بابا کی چائے بنا دی ہے دے دیجیے گا ۔۔۔

یہ کہا کر وہ کچن میں سے نکل گئی ۔۔۔ اور انعم بیگم اس کو جاتا دیکھ مسکرا رہی تھی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ ان کی بیٹی کو بارش بہت پسند ہے۔۔۔

بارش کی بوندیں اس کی سرخ و سفید رنگت کو اور بھی نکھر چکی تھی۔۔ اس کے کمر سے نیچے تک آتے شہد رنگ بال بارش میں بھیگ کر موٹی موٹی لیٹوں کی صورت میں بن گئے تھے۔۔ باریک تیکھی ناک بارش میں زیادہ دیر رہنے کی وجہ سے سرخ ہو گئی تھی ۔ اس وقت کوئی بھی اس کو دیکھتا تو دل وار دیتا اس پہ۔۔۔

وہ اپنی مستی میں بارش کے پانی میں اپنی بہن کے ساتھ شرارتوں میں مگن تھی۔ جب اس نے خود پر کیسی کی نگاہ کو محسوس کیا ۔۔

اس نے گردن گھوما کر دیکھا تو  ڈائنیگ روم کے دوسرے دروازے پر شہزاد کو کھڑا پایا۔۔ ڈائنیگ روم کا دوسرا دروآزا پیچھے لون کی  طرف کھلتا تھا جہاں اس وقت جزا اور سویرا بارش میں نہا رہی تھی ۔

جزا کا خون کھول گیا تھا شہزاد کی اس حرکت پر اس سے پہلے وہ کچھ بولتی۔۔ شہزاد لون میں گیا۔ اب تو بارش بھی تھم چکی تھی۔۔

سویرا بچے آپ کو ممانی جان بلا رہی ہیں ۔۔۔ شہزاد نے سویرا کو

وہاں سے بھیجنے کے لیے جھوٹ بولا۔

سویرا وہاں سے گئی تو اب جزا اور شہزاد لون میں اکیلے کھڑے تھے۔۔۔ جزا بھی جانے لگی تھی کہ شہزاد نے اس کی کلائی پکڑ لی۔۔ جزا کہ تو مانو تن بدن میں آگ ہی لگ گئی تھی غصہ سے اس کا برا حال ہو رہا تھا۔۔۔

میری کلائی چھوڑیں ۔۔ جزاء نے غصہ سے ایک ایک لفظ چبا کر بولا۔۔

اتنی بھی کیا جلدی ہے ڈئیر کزن ۔۔ تمہارے حسن کو ذرا آرام سے دیکھ تو لینے دو۔۔۔ خدا کی قسم کلا رنگ بہت جچتا ہے تم پر۔۔۔ شہزاد خباست سے بولا اور جزا کو کھینچ کر اپنے قریب کیا۔۔۔

اپنی بکواس کو لگام دو سمجھ آئی نہ۔۔ جزا نے شہزاد کو خود سے دور دھکلتے ہوئے کہا۔۔

کتنا دور کرو گی خود سے آخر کو آنا تو میرے ہی پاس ہے تو ذرا ابھی بھی آ لینے دو یہ کہتے ہوئے شہزاد نے دوبارہ جزا کا ہاتھ

پکڑنا چاہا۔۔۔۔۔۔ مگر اس بار جزا نے بغیر کوئی لحاظ رکھیے شہزاد کے منہ پر تھپڑ جڑ دیا۔۔۔۔۔ اپنی حد میں رہو سمجھ آئی نہ اور میں کبھی بھی تم جیسے گھہٹیا انسان کو اپنے قریب نہیں آنے دوں گی تم نے مجھے کیا کمزور سمجھ رکھا ہے؟؟ میں جزا شاہد ہو کمزور نہیں ہوں میں۔۔۔۔ اور مجھے کوئی بھی چیز میری عزت سے زیادہ عزیز نہیں ہے سمجھ ائی دوبار اگر مجھے ہاتھ لگانے کی کوشش کی تو پھر دیکھنا اپنا حال ۔۔۔۔۔۔

شہزاد اپنی اتنی۔ ےعزتی پر غصہ سے پاگل ہو رہا تھا۔۔۔۔۔ بات سن لو میری۔۔ یہ جو تم اتنا بول رہی ہو ںہ بولنے لائیک نہیں چھوڑوں گا تمہاری عزت کو دو کوری کا نہ کر دیا تو میں بھی شہزاد اکرم نہیں ۔۔ میں تمہارے پاس بھی آؤ گا اور تمہیں رسوا بھی کروں گا ت بس دیکھتی جاؤ ۔۔۔۔ اس تھپڑ کا بدلا سود سمیت لوں گا۔۔۔ شہزاد غصہ سے بولتا جا رہا تھا۔۔۔۔۔

اچھا ایسی بات ہے کر لو جو کرنا ہے مسٹر شہزاد اکرم۔۔۔۔۔ اگر میرے نصیب میں ذلت لکھی ہے تو میں خود کو سترہ پردوں میں بھی چھاپا لوں ذلت میرا مقدر بنے گی۔۔ اور اگر عزت لکھی ہے تو تم جیسے دو ٹکے کے  ہزاروں لوگ مل جائیں مجھے ذلیل کرنے کے لیے میرا رب نہیں ہونے دے گا ۔۔ عزت اور ذلت دینے والی ذات خدا کی ہے ۔ تمہاری اوقات ہی کیا ہے شہزاد اکرم ۔۔۔۔۔۔ یہ کہا کر جزا ادھر سے اندر کی طرف چلی گئ ۔

جبکہ شہزاد باہر ہی رہا اور جزا سے تھپڑ کے انتقام کے بارے میں سوچنے لگا ۔۔۔۔

•••••••••••••••

 

یہ منظر ہے  باہر سے دیکھنے والی بہت خوبصورت اور عالیشان حویلی کا جو اسلام آباد کی  خوبصورت سرزمین پر اپنے پورے آب و تاب سے کھڑی تھی۔ مگر اس حویلی کے اندر کی کہانی اتنی ہی تاریخ اور داغدار ہے۔۔۔۔۔۔

ایک بڑے سے ہال میں جابجا نیم برہنہ لباس میں دوشیزائیں اپنے رقص سے دیکھنے والوں  کو اور بدہوش کر رہی تھی جو اگے ہی ساقی کی طرف سے دے گے شراب کے نشیے میں چور تھے۔۔۔۔۔

اور وہاں بیٹھی ہوئی شخصیات کوئی اور نہیں بلکے پاکستان کے مشہور بزنس مین اور سیاسی لیڈرز اور دوسرے ممالک سے آنے ہوئے مشہور بزنس مین اور سیاسی لیڈرز تھے جو دنیا کے سامنے کسی اور حثیت سے جاتے ہیں مگر انڈر ورلڈ میں ان سب کا روپ بہت بھیانک ہے۔۔۔

یہ سب ہی یہاں اپنا ضمیر بچیتے ہیں ۔۔۔ اور اپنے اپنے ملک سے غداری کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔

وہ سب یو ہی نشے میں چور تھے جب ان کے کانوں میں بھاری جوتوں کی چھاپ کی آواز سنائی دی۔۔۔۔ سب نے سر اٹھا کر راہداری کی طرف دیکھا تو سب کو جیسے سانپ سونگھ گیا ہو۔۔۔۔۔

وہ ہمیشہ کی طرح لونگ بلیک کوٹ پہنے منہ کو ماسک سے چھپائے اور سر پر کیپ اس طرح سے پہنے کہ سر جھکائے تو چہرہ نہ دیکھے اور اٹھائے تو صرف آنکھیں نظر آئے کیونکہ ہمیشہ کی طرح چہرے پر کالے رنگ کا ماسک پہن رکھا تھا۔۔۔۔ اپنی مخصوص چال  چلتے اپنے دونوں ساتھی جن کو سب اس کا  لیفٹ ہینڈ اور رائیٹ ہینڈ کہتے تھے اس کے جیسے ہی حولیے میں اس کے دائیں بائیں چل رہے تھے۔۔۔۔۔۔

وہ تینوں چلتے ہوئے بڑے سے ہال میں داخل ہوئے تھے جہاں ان کو دیکھ  کر سب کہ پسنے چوٹ گئے تھے۔۔

وہ تینوں  بڑی شان سے اپنی اپنی نشست پر بیٹھ گئے تھے۔۔۔

بیسسٹ اپنی سبز آنکھوں میں غصہ ، روب ، دہشت لیے سربراہی کرسی پر بیٹھا تھا۔۔۔ کالا ماسک ابھی تک منہ پر لگا تھا۔۔۔ اس ہی طرح اس کے دائیں ہاتھ کی جانب ہمیشہ کی طرح ولف بیٹھا تھا۔ اور بائیں ہاتھ کی جانب لیو ہیٹھا تھا۔۔۔ اور ان تینوں کی موجودگی سب کے لیے خطرے کے مترادف تھا۔۔۔اور سب سے بڑا خطرہ بیسسٹ تھا ۔۔۔۔ جن کا صرف ان لوگوں نے نام سن رکھا تھا ۔۔۔ آج پہلی بار بیسسٹ ان سب کے سامنے آیا تھا مگر تب بھی اس نے اپنا چہرہ ان کے سامنے بےنقاب نہیں کیا تھا نہ ہی اج تک ولف اور لیو نے اپنا چہرہ ظاہر کیا تھا۔۔۔

کیا ہوا ہے تم۔سب کے رنگ کیوں پیلے ہو گئے ہیں ۔۔۔ کیا میرا آنا اچھا نہیں لگا۔۔۔۔

بیسسٹ نے سب کو جنچتی نظروں سے دیکھ کر پوچھا ۔۔۔۔۔

ایسا نہیں ہے ببب ییسسسٹ۔۔۔۔۔ اکرم صاحب اور ان کا دوست عثمان صاحب ایک ساتھ بولے۔۔۔۔

اکرم اور عثمان صاحب دونوں ہی مشہور بزنس مین تھے مگر ان کے بزنس میں بہت سے کام کالے کاموں کے طور پر ہوتا تھا ۔۔۔۔۔ جیسا کے لڑکیوں کی اسمگلنیگ ۔ شراب ، اسلحہ ، ڈراگز ، انسانی جسم کے آزا وغیرہ ۔۔۔ اور اس کام میں  اب اکرم صاحب کا بیٹا شہزاد اور عثمان صاحب کے دو بیٹے نواز اور نوریز بھی شامل ہو گئے تھے۔۔۔۔۔

اچھا ایسی بات ہے۔۔۔ ہممممم۔۔۔۔ بیسٹ نے ان دونوں کو دیکھتے ہوئے بولا۔

تم سب یہ بتاؤ آج کل کافی سیکیورٹی ٹائیٹ کی ہوئی ہے سب خیریت ہے نا؟؟؟؟ بیسسٹ نے طنزکرتے ہوئے کہا۔

وہ بیسسٹ آج کل دبئی کے ڈون نے ناک میں دم کیا ہوا ہے ۔۔۔ ہمارا ہر ارادہ ہر کام خراب کر دیتا ہے ابھی تک اس نے دبئی میں ہمارا کوئی بھی مال نہیں پہنچنے دیا بیچ راستہ میں یا تو تباہ کر دیتا ہے یا  اس مال کو خفیہ طور پر نکال لیتا ہے ۔۔۔ اب تو ہم سب کو دھمکیاں بھی دنیے لگا ہے ۔۔۔ اس وجہ سے اب ہمیں اپنی حفاظت کے لیے سکیورٹی زیادہ کر دی ہے۔۔۔ بیسسٹ پیلز تم ہماری مدد کرو ۔۔ وہ بہت طاقتور ہے۔ سلیم صاحب جو کے مشہور سیاسی لیڈر تھے التجائیا انداز میں بولے۔

میں ایک کام کرتا ہوں تم لوگوں کے گھروں کے باہر رکھوالی کرنا شروع کر دیتا ہوں کیسا؟؟؟؟۔۔۔ طنزیہ کہتے ہوئے بیسسٹ نے سب کی شکل دیکھی ۔۔ اور یہ دو ٹکے کے کتے کس لیے پالے ہیں تم لوگوں نے اگر یہ تمہاری حفاظت نہیں کر سکتے؟؟؟ اور کتنا کوئی طاقتور ہے وہ ڈون جس کی دھمکیوں سے تم لوگ ڈر گئے ہو نام کیا ہے اس کا؟؟؟؟؟ بیسسٹ طنز پر طنز کرتے ان کا منہ بند کروا چکا تھا ۔

وہ بہت طاقتور ہے بیسسٹ کیسی کے سامنے نہیں آتا کوئی نہیں جانتا وہ کیسا ہے ۔ کب کیا کرتا ہے کیدھر جاتا ہے کہاں رہتا ہے ۔۔۔ بس سب یہ جانتے ہیں کہ وہ بہت ظالم ہے ظالموں کے ساتھ ۔۔۔ جس کو جو دھمکی دیتا ہے اگر وہ نہ روکے تو اس کا انجام بہت درد ناک کرتا ہے۔۔۔ دبئی میں اس کو سب   کہتے ہیں۔۔۔ZAK

سب نے اپنی اپنی معلومات بیسسٹ کے سامنے رکھی۔۔۔۔

اور حال ہی میں اس نے ترکی کے ڈون کو مار کر ترکی کی مافیا کو بھی اپنے کنٹرول میں لر لیا ہے ۔۔ اکرم صاحب نے مزید معلومات بیسٹ کے آگے رکھی۔۔

ترکی کے ڈون کے وفادار آدمی کدھر ہیں ؟ ولف نے اکرم صاحب کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔۔

اس نے ترکی کے ڈون کے سارے وفادار آدمی مار ڈالے ہیں ۔۔ عثمان صاحب نے اب کی بار جواب دیا۔۔

اچھا ایسی بات ہے ۔۔ بیسسٹ کے چہرے پر ماسک کے پیچھے خوف زدہ کر دینے والی مسکراہٹ آئی ۔۔۔۔۔ چلو دیکھ لیں گے اس کو بھی۔۔۔۔ یہ کہا کر یسسٹ ادھر سے باہر نکلنے لگا اور ساتھ ہی ولف اور لیو بھی نکلے۔۔۔

اب یہ  کوئی نہیں جانتا تھا کہ ان کے چہروں پر آئی یہ خاموش مسکراہٹ کون سے طوفان کے آنے کی نشانی تھی۔۔۔۔

 

••••••••••

 

وہ اپنے کمرے میں ہیٹھا ہاتھ میں پینڈنٹ پکرے اپنے ہی خیالوں میں گم تھا۔۔ آج ایک ہفتہ ہو چکا تھا وہ ابھی تک ان شہد رنگ آنکھوں کے آثار سے نہیں نکل پایا تھا۔۔ یا اس نے نکلنا نہ چاہا تھا۔۔۔

اس نے اپنی اب تک کی زندگی میں حسین سے حسین لڑکی دیکھی تھی مگر وہ  کبھی ان کو دیکھ کے متاثر نا ہوا تھا نہ کبھی کیسی کو دیکھ کر دل میں دوبارہ اس سے ملنے کی خواہش بعدار ہوئی تھی۔۔۔ یہ سب احساس اس کے لیے نئے تھے وہ پہلے ان سب احساس سے بے خبر تھا۔۔

جزا۔۔۔۔۔۔ اس نے اس کا نام دھرایا ۔۔۔ کیا نہ تھا اس کی آواز میں مجبت، نرمی، احترام ، حسرت ۔۔۔

زوریز کا دل نہ جانے کیوں مگر ایک بار پھر اس سے ملنے کے لیے بےتاب ہو رہا تھا۔۔۔

وہ لاکھ اپنے دل کی بات نظر انداز کر دیتا مگر نہ کر پاتا۔۔ وہ اپنے دل اور دماغ میں الجھ کر رہ گیا تھا۔۔

ابھی وہ اپنے ان ہی خیالوں میں تھا جب اس کو اپنے کندھے پر نرم ہاتھوں کی نرمی محسوس کی تو فوراً سیدھا ہوا اور پینڈنٹ چھپا لیا۔۔۔

موم آپ ۔ کوئی کام تھا تو بلا لیتی۔۔ زوریز نے ماں کو دیکھ کر بولا۔۔

میں بھی موجود ہوں ابراہیم صاحب نے کہا۔۔ تو زوریز نے اپنی ماں کے پیچھے دیکھا۔۔۔

خیریت ہے آپ دونوں آج میرے کمرے میں ؟؟ کوئی ضروری کام تھا تو مجھے بلا لیتے۔۔ زوریز نے پریشانی سے پوچھا ۔۔۔

نہیں تو اتنا ضروری کام بھی نہیں تھا بس تمہارے پاس بیٹھنے کا دل کیا تو تم صبح سے اپنے کمرے میں ہو تو ہم ادھر ہی آ گئے ۔۔ مگر لگتا ہے تم بہت مصروف ہو۔۔ ابراہیم صاحب نے اس کی طرف جنچتی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔

زوریز اپنے باپ کی مشقوق نظرئیں خود پر محسوس کر کہ تڑپ ہی تو گیا تھا۔۔

نہیں میں مصروف تو نہیں تھا بس ویسے ہی بس بیٹھا ہوا تھا۔۔

اچھا ۔۔ ابراہیم صاحب نے کافی  سوالیہ انداز میں کہا ۔۔

ہمیں تم سے بات کرنی تھی زوریز ۔۔۔۔ عائشہ بیگم نے بات کا آغاز کیا ۔۔

حکم کریں آپ ۔۔ اس نے ماں کی طرف دیکھا ۔۔

ہم چاہتے  ہیں کہ تم اب شادی کے بارے میں سوچو۔۔ میں اب اپنے پوتے پوتیوں کو اپنی گود میں کھیلنا چاہتی ہوں تمہیں اپنے کاموں سے فرست ملے تو ہماری خواہشات کو دیکھو ۔۔۔ عائشہ بیگم نے شکوہ کرتے ہوئے اپنے بیٹے سے اپنی خواہش ظاہر کی ۔۔

موم میں آپ کو پہلے بھی بول چکا ہوں جب کوئی پسند ائے گی تو کر لوں گا۔ میں اپنی زندگی کا اتنا بڑا فیصلہ ایسے ہی نہیں کر سکتا۔ جس سے محبت ہو گی اس سے شادی کر لوں گا ۔۔ زوریز نے اپنی ماں کو سمجھنا چاہا۔۔۔

اللہ ہی جانے کب تمہیں کوئی لڑکی پسند آئے گی۔ مجھے تو لگتا میں تو اپنے ایک لوتے بیٹے کی خوشی دیکھے بغیر ہی مر جاؤں گی۔ عائشہ بیگم روٹھ کر یہ بول کر کمرے سے نکل گئی ۔۔

اور پیچھے زوریز نے اپنا سر پکڑ لیا۔۔ جبکہ ابراہیم صاحب مسکرا کر رہے گئے۔۔۔

ویسے اگر کیسی کے بارے میں مسلسل سوچا جائے نا تنہائی میں بھی جس کی سوچیں آپ کو تنہا نہ چھوڑے وہ شخص آپ کے دل ودماغ پر بہت جلد سوار ہونے لگتا ہے اور آپ کو پتا بھی نہیں چلتا کہ کب آپ کو محبت کا سانپ ڈس جاتا ہے اور اس کا زہر پوری وجود میں اتر جاتا ہے۔۔ تو بہتر یہ ہی ہے کہ جس کے لیے جزبات پیدا ہو رہے ہیں اس کو بتا دیا جائے۔۔۔ ابراہیم صاحب  یہ کہا کر اور اس کی بند موٹھی کی طرف ایک نظر دیکھ کر چلے گئے ۔۔۔

آہہہہ۔۔ باپ باپ ہی ہوتا ہے۔۔ زوریز نے آہ بھر کر کہا ۔ اور پینڈنٹ کی طرف دیکھ کر مسکرا گیا۔۔۔

•••••••••••

 

آمنہ یار یہ دیکھ کتنا پیارا کرتا ہے اور دیکھو ہم تینوں کے سائز میں پڑھا ہے ۔۔۔ ہم تینوں یہ ایک ساتھ لے لیتی ہیں ۔۔ نور بہت خوشی اور جوش میں بولی۔۔

ہیں یار ہے تو بہت پیارا کیا خیال ہے جزا۔۔ آمنہ نے جزا کو مخاطب کیا جو کہ جینز وغیرہ دیکھ رہی تھی ۔۔۔

جزا نے منہ موڑ کر آمنہ اور نور کے ہاتھ میں کرتے دیکھے۔ ہاں یار اچھے ہیں اس کو بھی بہت پسند آئے ۔۔ اور اگر ان کی نیچے یہ بلیو جینز ہو جائے تو کیسا۔۔ اس نے ساتھ ہی اپنے ہاتھ میں پکڑی جینز دیکھائی

ڈون بوس ۔ آمنہ اور نور نے ایک ساتھ بولا۔۔۔

تینوں اپنا اپنا سامان۔ پیک کروا کر شاپ سے باہر نکلی۔۔

یار یہ اب ہماری مائیں کہاں چلی گئی ۔۔ ذرا خیال نہیں جوان جہاں بیٹیاں ساتھ لائیں ہیں ہے کوئی ان  کو ہماری فکر۔۔ نور نے ڈامےبازی جے سارے ریکوڈ توڑے تھے۔۔

اووو جوان جہاں بیٹی شاید آپ نے ہی ہماری اور اپنی مائوں سے بولا تھا آپ لوگ اپنی شوپینگ کر لیں ہم نے اپنی کرنی ہے ہم آپ لوگوں کے ساتھ بور ہو جاتی ہیں ۔۔۔ جزا نے نور کے بازو پر تھپڑ رسید کیا۔

ہائے اللہ تمہارا ہاتھ کیتنا بھاری ہے میری بازو توڑ دیا۔۔۔ نور کا ڈرامہ پھر شروع ہو گیا تھا۔۔۔

نور کچھ خیال کر لو ہم گھر نہیں ہیں ۔۔ آس پاس لوگوں کو دیکھتے ہوئے آمنہ نے بولا ۔۔

اچھا سوری سوری۔۔۔ نور نے دونوں کو اپنے دانت دیکھتے ہوئے معافی مانگی۔۔

ویسے یہ تم آج کل کافی زیادہ ہی خوش نہیں ہو۔۔ جزا نے نور کو گھورتے ہوئے کہا۔۔۔

نہیں تو ایسا تو نہیں ہے۔۔ نور نے خود کو نارمل کرنے کی ناکام کوشش کی ۔

میں بتاتی ہوں ان کی خوشی کا راز۔۔۔ آمنہ کی زبان میں کھجلی ہوئی۔۔

ہاں ہاں بتاؤ نہ ۔۔ جزا نے چھڑنے والے انداز میں کہا۔۔۔

آہ۔۔ جزا ۔۔۔ تم ٹھیک ہو  آمنہ اور نور نے ایک ساتھ جزا کو پکڑا اور اس شخص کو دیکھا جس سے جزا ابھی ٹکرائی تھی۔ اگر وہ دونوں  جزا کو نا پکڑتی تو یقیناً وہ گیر جاتی

یو۔۔ ۔۔۔ جزا نے غصہ سے اپنے سامنے کھڑے شخص کو دیکھا ۔۔۔

اور وہ بس اس کی شہد رنگ آنکھوں کو دیکھ رہا تھاجن میں ایک بار پھر غصہ تھا۔۔۔۔

آندھے ہو کیا آپ دیکھ کے چلنا نہیں آتا ؟ بغیر کوئی لحاظ رکھے جزا نے  بول دیا۔۔

جزا جانے دے نہ پلیز ۔۔۔۔ نور آگئے آئی ۔۔

تو سائڈ پر ہو۔۔ جزا نے نور کو ایک طرف ہٹایا۔۔۔

 

••••••••••••••

ہیں تو مسٹر آج ایک بات تو کلیر کریں آپ کی آنکھوں میں کوئی مسلہ ہے یا آندھے ہیں آپ ؟؟؟؟؟

اس دن کالج میں بھی مجھ سے ٹکرائیے تھے اور سوری بھی نہیں بولا تھا اوپر سے آپ کی وجہ سے میرا سب سے امپورٹینٹ پینڈنٹ بھی گم کیا۔۔ خود کا تو اتنا بھاری بھرکم وجود ہے اپ کو تو محسوس بھی نہیں ہوتا کہ کوئی آپ سے ٹکرایا ہے مگر سامنے والے کا سارا نظام ہل جاتا ہے۔۔۔ جزا غصہ میں بس نون سٹوپ بولی جا رہی تھی۔۔۔ یہ جانے بغیر کہ سامنے والا وہ ہی شخص ہے یا کوئی اور ۔

زوریز اس کو غصہ میں بولتا دیکھ بس مسکرا گیا۔۔

جزا کیا تمہیں لگتا ہے کہ یہ وہ ہی لڑکا ہے جس سے تم ٹکرائی تھی۔۔ انہوں نے تو ماسک پہن رکھا ہے ۔۔ نور نے جزا کو تھوڑا اپنی طرف کھینچ کر بولا۔۔

تو ایک بار چوپ کرے گئی ۔۔ جزا نے اپنے بازوؤں چھوروائی

اب کیا گونگے بھی پو گئے ہو اس دن تو بڑی زبان چل رہی تھی آج کیا زبان کو تلا لگ گیا ہے۔ ویسے چور لگتے تو نہیں ہو۔۔ جزا شاید آج سارا حساب بےباک کرنے والی تھی

وہ جو اس کو مسکرا کر دیکھ رہا تھا خود پر لگے الزام کی وجہ سے غصہ میں آگیا ۔۔

دیکھیں محترمہ آپ کا کیا سامان میں نے چوری  کیا ہے مجھے پہ بےبنیاد الزام نہ ہی لگائیے تو بہتر ہو گا۔۔ اور دوسری بات آپ سے تو کم ہی زبان چلتی ہے میری ۔۔ آپ کی زبان تو ماشاء اللہ سے بگاٹی کو بھی پیچھے چھوڑ دے ۔

میں آپ کا منہ نوچ لوں گی۔ ہمت بھی کیسے کوئی میری بےعزتی کرنے کی۔۔۔  جزا کا غصہ سے چہرہ سرخ ہو گیا تھا۔

جی محترمہ آپ جس کو دل چاہیں چور بنا دیں سامنے والا آپ کو کچھ بھی بولے نا اگر بول دے تو آپ منہ نوچنے کی دھمکی دیں گی۔۔ زوریز بھی حساب برابر کرنے کو آیا تھا۔۔ اور ہاں آپ کا پینڈنٹ میرے پاس نہیں ہے پتا نہیں کرھر گیرا کر میرے پر الزام لگا رہی ہیں آپ اور نہ جانے آپ کون سے ٹکرنے کی بات کر رہی ہیں میں تو آج آپ سے غلطی سے ٹکرایا ہوں۔۔ مجھے توپتا بھی نہیں آپ جس پینڈنٹ کا الزام مجھ پر لگا رہی ہیں وہ دیکھتا کیسا ہے۔ کیسی کا الزام کیسی پہ نہ لگائیں آپ ۔ اور میں واقع ہی کوئی چور نہیں ہوں۔

آیان دوراب جو زوریز کو ڈھونڈ رہے تھے اچانک ان کے کانوں میں زوریز کی آرزو ائی جہاں وہ کیسی لڑکی سے بحث میں تھا۔۔

دونوں کو تو حیرات  کا ہی جھٹکا لگا تھا۔۔ وہ جو کیسی لڑکی کو منہ نہیں لگاتا تھا آج کیسی لڑکی سے بحث کر رہا ہے۔۔۔

دیکھیں آپ دونوں بحث چھوڑ دیں لوگ دیکھ رہے ہیں ۔۔ آمنہ اور نور نے دونوں کو روکنا چاہا۔

تو دیکھیں لوگ میں کیا کروں ۔۔۔ اگر چلنا نہیں آتا تو گھر پر کیوں نہیں بیٹھ جاتے۔۔ جس دن چلنا آ جائے اس دن باہر نکلنا آپ ۔۔ اجزا پھر سے بول پری۔۔

جزا پلیز چپ کر جا وہ بول رہے ہیں نہ کہ وہ نہیں ہیں وہ  جو تو سمجھ رہی ہے۔ غلطی سے ٹکرائیں ہیں وہ۔  نور اور آمنہ نے جزا کو سمجھانا چاہا۔

پر اس نے بھی ماسک پہن رکھا تھا جیسے انہوں نے پہنا ہے ۔ جزا دونوں کو  گھوری کروا کر بولی ۔۔

دیکھیں بی بی ایسے ماسک آپ کو مارکیٹ میں کوئی سو دوکانوں میں مل جائیں گے۔۔ زوریز سے بھی چپ نہ رہا گیا ۔

بی بی کس کو بولا ؟؟ بی بی ہو گئی آپ کی اگلی پیچھلی فلانی فلانیاں۔۔ جزا تو بی بی لفظ پر تپ ہی گئی تھی۔

نور اور آمنہ نے سر پیٹ لیا تھا اپنا۔ کیوں کہ لڑائی ان کے قابو سے باہر تھی

یہ یو ہی بولتی ہیں یا آج کوئی خاص موقع ہے؟؟ زوریز نے آمنہ اور نور کی طرف دیکھ کر پوچھا ۔۔۔

مطلب کیا ہے آپ کی اس بات کا؟ایک تو آپ مجھ سے ٹکرائیے اوپر سے آپ نے مجھے بی بی بولا ہے۔ سنو مسڑ سوری بولو مجھے۔ مجھے ابھی اور شوپینگ بھی کرنی ہے آگے ہی آپ سے بحث کر کے میرا بہت وقت برباد ہو گیا ہے۔۔۔ جزا نے خود کو نارمل کرنے کی کوشش کی۔۔

اس کی بات سن کر آمنہ اور نور گرتے گرتے بیچی ۔۔ جبکہ زوریز تو گھوم کر رہ گیا۔۔۔

میں نہیں مانگوں گا معافی اور شاید چلنا آپ کو بھی سیکھانا چاہیے اور یہ بھی کہ اپنے سے بڑوں سے عزت سے بات کرتے ہیں ۔۔۔ زوریز نے جزا کو گورتے ہوئے کہا۔۔

آپ جیسے بڑوں کو آپ کہا کے بولا رہی ہوں یہ ہی غنیمت سمجھ لیں آپ ۔۔۔ جزا نے بھی گھوری کے بدلے گھوری سے ہی نوازا۔۔ اور ہو سکے تو اپنی آنکھوں کا علاج بھی کروا لینا ۔۔۔

یہ سب کیا ہو رہا ہے ۔ دوراب اور آیان نے آ کر پوچھا ۔

بھائی ، دوراب ۔۔ آمنہ اور نور نے پہلے دوراب کو دیکھا پھر ایک دوسرے کا منہ دیکھا۔۔

تم دونوں ادھر کیا کر رہی ہو؟؟ دوراب بھی ان کو دیکھ کر حیران ہوا۔۔ اور جب نظر جزا پر پری تو اس کو سمجھ آئی کے اس دن اس کو جزا کا چہرہ دیکھا دیکھا کیوں لگا تھا ۔۔۔

جبکہ دوسری طرف آیان صاحب تو بس آمنہ کو ہی دیکھی جا رہے تھے۔۔ جو کے ریڈ لونگ فاروک میں اپنے کالے لمبے بالوں کو کھولا چھورے۔۔ میک اپ کے نام پر صرف لیپ گلو اور آنکھوں میں کاجل لگیے ۔۔ آیان کو چاروں شانے چت کر گی تھی۔۔۔

تم جانتے ہو ان کو۔۔۔ زوریز نے دوراب کو دیکھ کر پوچھا۔۔۔

ہیں میری بہن اور منگیتر ہیں اور یہ جزا شاہد انکل کی بیٹی ہے ۔۔ دوراب نے زوریز کو بتایا ۔۔۔

جب کہ یہ جان کر کے جس کے لیے آیان صاحب کے دل میں گھنٹی بجی تھی وہ دوراب کی بہن ہے۔۔۔ یہ بات سن کر آیان تو رونے والا ہی ہو گیا تھا اور دل میں بولا مطلب مگرمچھ کی بہن پر آیان صاحب آپ کا دل آگیا لعنت ہے آپ پر ۔۔

اور تم دونوں لڑ کیوں رہے ہو؟؟ دوراب نے زوریز سے پوچھا۔۔

دوراب بھائی آپ کے دوست کی آنکھوں میں مسئلہ ہے ان کو دیکھ کر چلنا نہیں آتا ۔۔ جزا بولی۔۔

مسئلہ میری آنکھوں میں نہیں ان محترمہ کی عقل میں ہے۔۔ زوریز بولا۔۔

دوراب تو زوریز کا یہ روپ دیکھ کر گرتے گرتے بچا۔۔۔

بھائی خدا کا نام ہے جزا کو ہم سنبھال لیں گی آپ ان کو لے کر جائیں پلیز کب سے بحث کر رہے ہیں یہ دونوں۔۔۔۔

آپ فکر نہ کریں اس کو ہم سنبھال لیں گے۔۔ اس سے پہلے دوراب کچھ بولتا آیان بیچ میں آیا ۔۔۔ دوراب تو اس کا منہ ہی دیکھ رہا تھا۔۔

اور آمنہ اور نور جزا کو لے کر جانے لگی تھی۔۔۔ ادھر دوراب اور آیان زوریز کو لے کر جانے لگے ۔۔۔۔

جب پیچھے سے جزا کی آواز آئی ۔۔

ہاں ہاں لے کر جانے اس کو اور سب سے پہلے کیسی اچھے ای سپیشلسٹ کے پاس لے جائے گا۔۔۔ جزا کی بات سن کر نور کا تو دل کیا جوتا اتر لے اب ۔۔۔

زوریز نے جزا کی بات سنی اور فوراً مڑ کر بولا۔ اور آپ لوگ ان کو ایک بار کیسی اچھے سائیکیٹراسٹ کے پاس لے جائیں ۔۔۔۔

یار تیری مہربانی چپ کر جا۔۔۔ دوراب نے ہاتھ جوڑے ۔۔

اس کی زبان نہیں دیکھی ۔۔۔۔ زوریز بولا۔۔۔

دوسری  طرف جزا جو دوبارہ جواب دینے کے لیے موڑنے لگی تھی۔۔ آمنہ اور نور نے فوراً اس کا بازو پکرا اور اس کو ادھر سے کہنچتے ہوئے لے کر گی۔۔۔۔

 

•••••••••••••

 

وہ کھولے گریبان ، سرخ انکھوں اور کوٹ ہاتھ میں پکڑے لڑکھڑاتا ہوا گھر میں داخل ہوا۔۔۔ خدیجہ بیگم اپنے بیٹے کو یو دیکھ کر فورا اس کے پاس گئی مگر اس سے پہلے وہ اس کو تھامتی اس کے پاس سے آتی شراب کی بو نے ان کو ادھر ہی روک دیا اور اس کے ہونٹوں اور گردن کے پاس لیپ سٹیک کے نشان نے خدیجہ بیگم کو منہ موڑ دینے پر مجبور کر دیا۔۔۔۔

اسلم۔۔ خدیجہ بیگم نے ایک ملازم کو بلایا ۔۔۔

جی بی بی ۔۔ اسلم سر جھوکا کر کھڑا تھا۔۔۔۔ اس کو اس کے کمرے میں چھوڑ آؤ ۔۔۔ اپنے بیٹے کی طرف دیکھتے خدیجہ بیگم نے بولا۔۔ ان کا دل تو اگے ہی خون کے آنسو روتا تھا۔۔ اوپر سے گناہگار اولاد کا بوجھ وہ ٹوٹ ہی تو گئی تھی۔۔۔۔

اپنے ماں باپ کے گھر کی سب سے لاڈلی سب سے بڑی بیٹی تھی ۔ زندگی نے ان کا امتحان بھی بڑا ہی لیا تھا۔۔ بہت دھوم دھام سے شادی کی تھی ان کے ماں باپ نے ان کی ان کے چھوٹے بھائی شاہد نے بھی اپنی طرف سے ہر ضرورت پوری کی تھی۔۔ شاہد صاحب اپنی بہن خدیجہ سے پانچ سال چھوٹے تھے۔ شادی کے پہلے سال میں ہی اللہ نے ان کو دو بیٹوں سے نوازا تھا جو کے جڑواں تھی مگر ان میں سے ایک بچہ کمزور ہونے کی وجہ سے زیادہ دیر تک زندہ نا ہے سکا۔۔ مگر انہوں نے ناشکری نا کی کیوں کے اللہ نے ایک بیٹا تو دیا تھا۔۔ جس کا نام انہوں نے شہزاد رکھا تھا۔۔ ان کو اور اولاد کی خواہش تھی مگر اکرم صاحب جو ان کے شوہر تھے ان کے پاس وقت نہیں تھا۔ پہلے پہلے تو خدیجہ بیگم کولگا کے شاید کام کو عروج پر پہنچانے کےلئے دن رات محنت کر رہے ہیں ۔ مگر وہ رات ان کے لیے قیامت تھی جب وہ گھر اپنے ماں باپ کے گھر سے واپس آئی اور سامنے ہال میں ان کا شوہر اپنے دوست عثمان صاحب کے ساتھ اور کچھ اور دوستوں کے ساتھ بیٹھا تھا اور زمین پر بہت سی لڑکیاں نیم برہنہ حالات میں تھی ان کی حالات ان کی کہانی چیخ چیخ کے سنا رہی تھی۔ ان لڑکیوں سے اپنی رات تو رنگ کر لی ہے اب بس ان کو اس ملک سے باہر بھیجنا ہے اور کچھ کو ریڈ لائٹ ایریا میں بیچنا ہے۔۔

 اور اکرم صاحب کے الفاظ تو جیسے ان کے کانوں میں سیسے کی طرح اترے تھے۔۔۔

اس سے پہلے وہ بایر نکلتی اپنے بیٹے کو لے کر رہا داری میں رکھے سائیڈ ٹیبل پر رکھے گلدان میں پرے ارٹیفپشل پھولوں میں ان کا دوپٹا الجھا جس کی وجث سے وہ گلدان گر کر ٹوٹ گیا اور اکرم صاحب نے خدیجہ کو دیکھا جو خوف سے کانپ رہی تھی۔۔

تم نے تو کہا تھا تمہاری بیوی دیر سے آنے گی اپنے ماں باپ کے گھر سے۔۔ عثمان صاحب نے اکرم کو دیکھا۔۔

میں اس کی زبان کاٹ دوں گا اگر یہ کچھ بولے گی تو ۔۔ اس کو میں کمرے میں چھوڑ کر آتا ہوں تم لوگ ان لڑکیوں کو ادھر سے لے کر ٹھیکانے لگاؤ ۔۔ اکرم صاحب یہ کہا کر خدیجہ بیگم کی طرف بڑھے ۔۔۔

جبکہ خدیجہ بیگم نے اپنے بیٹے کا ہاتھ پکڑا اور باہر کی طرف بھاگی مگر اس سے پہلے کے وہ باہر نکلتی اکرم صاحب نے ان کا ہاتھ پکڑا اور واپس اندر کھینچ لیا ۔

چھوڑو مجھے میں تم جیسے آدمی کے ساتھ ایک پل نہیں روکوں گی۔ میرا بیٹے کو ہاتھ مت لگانا ۔۔۔جب اکرم صاحب نے اگے بڑھ کر شہزاد کا ہاتھ پکڑ کر ملازمہ کو دیا اور خود خدیجہ کو گھسیٹتے کمرے کی جانب لے جانے لگے تو خدیجہ بیگم مسلسل چیخ رہی تھی۔۔۔

کمرے کا دروازہ کھول کر اکرم صاحب نے خدیجہ کو بستر پر دھکا دیا۔۔۔ میں کہا رہی ہوں مجھے نہیں رہنا آپ کے ساتھ چھوڑے مجھے میں اپنا بیٹا لے کر جا رہی ہوں یہاں سے۔۔ خدیجہ بیگم چیلائی تھی۔

چیٹخ ۔۔۔۔۔ اکرم صاحب نے پہلی بار اپنی بیوی پر ہاتھ اٹھایا تھا۔۔ اور آج پہلی بار ہی ان کے سامنے ان کا یہ روپ بھی آیا تھا۔۔۔

اگر تو یہاں سے گی تو تمہارا پورا خاندان تباہ کر دوں گا۔ اس لیے بہتری ایسی میں ہے اپنا منہ بند رکھو ساری عمرکے لیے۔۔۔ نہیں تو تمہیں طلاق بھی دوں گا ۔۔ تمہاری اولاد بھی لے لوں گا۔ اور بس اتنا نہث تمہیں برباد بےابرو کر دوں گو اور تمہارے ماں باپ سمیت تمہارے بھائی اور اس کی بیوی کو بھی مار دوں گا ۔۔۔

اور خدیجہ کو بھی یقین تھا  کے وہ ایسا کر بھی جائے گا کیونکہ اس کے سر دولت اور طاقت کا نشہ سوار تھا۔۔۔۔

حال۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اپنے بیٹے کی حالت دیکھ کر وہ خاموش انسو روتی رہی کیسی کو کیا بتاتی ۔۔۔ اپنے گھر والوں کو بچانے کے لیے اپنے بیٹے سے جدائی کے ڈر سے کتنا ازیت سے بھرا گھونٹ پیا تھا انہوں نے۔۔ خود کو مار ڈالا تھا انہوں نے۔۔ اور آج اس آدمی نے ان کا بیٹا بھی اپنے جیسا بانا دیا تھا۔۔

مگر خدا خاموش آنسو کو رد نہیں کرتا۔۔۔

•••••••••••••

وہ ایک ٹیبل  کے سامنے کھڑے تمام اوفسرز کو ان کے نئے پلین کے بارے میں لیڈ کر رہے تھے۔۔۔

یہاں پر موجود ایک ایک جوان آئی ایس آئی کا ایجنٹ تھا۔ جو اپنے دشمن کو کبھی بھی کیسی بھی جگہ اس کے ناپاک عزائم میں کامیاب نہیں ہونے دیتے تھے۔

ملک کی حفاظت کے لیے خود کی جان تک کا نظرانہ پیش کر دینے کی ہمت رکھتے ہیں ۔۔

اور ابھی بھی اپنے ملک کو کچھ ملک غداروں اور دشمنوں کے ناپاک ارادوں سے بچانے کے لیے ادھر ایک خوفیا مشن کے لیے آکھٹے ہوئے تھے۔

آپ سب گروپ کی صورت میں ملک کے ہر صوبے میں پہل جائیں گے۔۔

ان سب لوگوں کی ایک ایک اکٹیویٹی پر نظر رکھنی ہے۔۔۔

ایم -زی تم اور تمہاری ٹیم کی پروگریس ابھی تک سب سے اچھی جا رہی ہے اس لیے میں تمہیں سب گورپ کو  لیڈ کرنے کا اوڈر دے رہا ہوں۔۔۔

ان لوگوں نے سمجھ رکھا ہے کہ پاکستان کی بچیاں ان کے لیے کھیلونا ہے۔۔ جہاں تک ہو سکے گالز اسمگلنگ کو روکو۔۔ ڈرگز ، اسلحہ ، ہیروئن ، شراب، یہ سب اسمگل کیا جاتا ہے ساتھ ساتھ۔۔۔۔

ان سب کو روکنا ہو گا۔۔ اس میں اس ٹائم پاکستان کے سب سے بڑے بزنس مین ، اور بہت سے سیاسی لیڈرز بھی شامل ہیں ۔۔ ایم-زی نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر بنائی ہوئی فائل اپنے ہیڈ کو دی۔۔۔ اس میں ساری ڈیٹیل ہے سر۔۔۔۔۔۔

گیڈ۔۔۔ ہیڈ نے فائل کو دیکھتے کوئے کہا۔۔۔۔

سووووو بوائز ۔۔۔۔ اب ان سب کو گین گین کر جہنم پہنچانا ہے۔۔۔

ان لوگوں نے سمجھ رکھا ہے آرمی سو رہی ہے ۔۔ یہ جو دل کریں کر سکتے ہیں ۔۔۔ بس اب ان سب کی زندگی  کی الٹی گنتی شروع کرو تم سب۔۔۔۔

اللہ اس میشن میں ہم سب کو کامیاب کرے اور اپنے پاک ملک سے اس گندگی کو ختم کرنے میں مدد کرے۔۔ آمین ۔۔۔۔

••••••••••••

بھائی یار ابھی کچھ دن ہی ہوئے تھے آپ جو آئے ہوئے پھر سے جا رہے ہیں ۔۔

آمنہ اپنیے بھائی کے سر پر کھڑی بول رہی تھی۔۔ دیکھو چندہ بہت کام ہے اوفس کا اس لیےجاناپر رہا ہے۔۔۔ جلدی انے کی کوشش کروں گا۔۔۔دوراب نے اپنی لاڈلی کو مناتے ہوئے کہا ۔

اس بر آ لیں آپ آپ کو شادی کے بغر تو نہیں جانے دوں گی ۔۔۔۔

آمنہ کی اس بات پر دوراب کے چہرے پر مسکراہٹ آئی ۔

اچھا اب اپنے روم میں جاؤ شاباش ۔۔۔ دوراب یہ کہتے پھر سے اپنے سامان کو دکھنے لگا تھا ۔۔

•••••••

تم سوئی نہیں ۔۔۔۔۔ دوراب نے نور کو دیکھتے ہوئے کہا۔

وہ پانی لینے کے لیے اپنے کمرے  سے نکلا تھا جب کچن کی طرف بڑھا تو نور کو باہر لون میں بیٹھا دیکھ ادھر آ گیا۔۔۔

ایسے ہی بیٹھی ہوں۔۔ نور نے  دوراب کی طرف دیکھنے سے گراز کیا۔۔

نور۔۔۔ دوراب نے بہت پیار سے اس کا نام لیا تھا۔۔۔۔ وہ نہیں جانتا تھا کب کیسے مگر نور اس کے دل میں اتر گی تھی ۔ وہ اس کی ہی نور تھی۔۔ اس کے دل کو محبت جیسا نور دینے والی نور تھی۔۔۔

وہ جانتا تھا وہ اس کے یو جانے سے اداس تھی۔۔مگر اس کو اپنے کام کے لیے جانا تھا۔۔۔

نور یار اب ایسے نہ کرو تم پلیز۔۔۔ دوراب اس کے آنسوں کے سامنے ہار ہی تو جاتا تھا۔۔

دیکھو بس کچھ وقت اور پلیز ۔۔۔ یقین کرو کام نہ ہوتا تو ایسے نہ جاتا۔۔ دوراب اپنی صفائی دے رہا تھا۔۔ وہ کیسی کے سامنے کوئی بات کلیر نہیں کرتا تھا جس کو جو سمجھنا سمجھے مگر نور کے سامنے وہ اپنی ہر بات کی صفائی دیتا تھا۔۔۔

مرد سب کے ساتھ ایک جیسا ہو سکیا ہے مگر اپنی پسندیدہ عورت کی ساتھ بلکل مختلف ہوتا ہے۔۔ اور دوراب وہ ہی تھا جس کو اس کی پسندیدہ عورت سب سے عزیز تھی۔

دوراب میں جانتی ہوں آپ کام کی وجہ سے دوبارہ جا رہے ہیں ۔۔ بس یہ خیال رکھے گا کوئی آپ کا انتظار آنکھوں میں لے کر بیٹھی ہے۔۔۔

یہ کہا کر نور اپنے کمرے میں جونے لگی۔۔۔ کے دوراب نے آواز پر روک گی۔

جانتا ہوں نور ۔۔ اس لیے اب جب آؤں گا تو دوری کی ہر رات میٹانے اوںگا۔۔

نور دوراب کے بات کا مطلب سمجھ کر شرما گئی تھی۔۔ اور بھاگ کر روم میں چلی گئی جب کے دوراب اس کا چھوڑا چائے کا کپ اپنے ہونٹوں سے لگا چکا تھا۔۔

••••••••••••••

 

وہ اندھیرے کمرے میں چیخ رہی تھی ۔۔ مدد کے لیے سب کو بولا رہی تھی۔۔۔۔۔ ماما بابا کوئی ہے مجھے ادھر سے نکالو پلیز میں مر جاؤں گی اس اندھیرے میں ۔۔۔۔ وہ مسلسل دروازہ بجا رہی تھی کوئی اس کی آواز نہیں سن رہا تھا کوئی اس کی مدد کو نہیں آ رہا تھا۔۔۔۔۔۔

فورآ اس نے انکھں کھولی ۔۔ وہ مکمل پسینے میں  ڈوب چکی تھی خود کو اپنے بستر پر پہ کر اور اپنے ساتھ والے بیڈ پر اپنی چھوٹی بہن سویرا کو پا کر وہ متعین ہو گئی تھی کے وہ خواب تھا مگر جو بھی تھا ایک ڈر ڈال گیا تھا اس کے دل میں ۔۔

جزا نے وقت دیکھا تو تہجّد کا وقت تھا  اپنا بستر چھوڑا اٹھ کر باتھ روم گئی وضو کیا اور تہجّد کی نیت کے لیے کھڑی ہو گئی ۔۔۔۔۔

تہجّد پڑھنے کے بعد دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے تو آنکھیں آنسوں سے نم ہو گئی جسیے وہ کچھ کھو نا دے۔۔

•••••••••••••••••

 

 ہیلو موم کیسی ہیں آپ ۔۔ آیان نے اپنی ماں کو پیچھے سے ہگ کیا۔۔۔ ہٹو پیچھے۔۔۔۔ ابیہا بیگم نے روٹھے ہوئے آنداز میں اپنے بیٹے کو دور کیا خود سے۔۔۔

موم۔۔ آیان نے اپنی گال ماں کی گال کے ساتھ لگائی ۔۔۔ ابیہا بیگم نے اس کو گھور کے دیکھا اور اس کو اپنے سامنے کیا اس کے کان پکر کر ۔۔

یہ تم نے باہر ایک اور ماں رکھی ہوئی ہے کیا؟؟ جو پورا پورا ہفتہ یا مہینا اپنی شکل نہیں دیکھتے۔۔ ابیہا بیگم نے اپنے اس نمونے کے کان کھینچے ہوئے کہا ۔۔

اب اس بات کا جواب تو آپ کو ڈیڈ ہی دے سکتے ہیں کے باہر میری ایک اور ماں ہے کہ نہیں مجھ معصوم کو کیا پتا اس بارے میں۔۔ ایان نے معصومیت کے ریکارڈ ہی تو توڑے تھے۔۔

ایان۔۔۔ ابیہا بیگم نے اس کے کان مزید زور سے کھینچے تھے۔۔

موم کان چھوڑ دیں میرا اگر ہوبو کی طرح ہو گیا تو کیسی نے اپنی بیٹی نہیں دینی مجھے۔۔۔ آیان نے مسکین شکل بنا کر ماں کو دیکھا ۔اس کی بات کو سن کر ابیہا بیگم نے اس کو سر پر چیپت لگائی ۔۔۔ نالائق ۔۔۔۔۔ یہ کہہ کر اس کو اپنی ممتا کے آگوش میں لے لیا تھا۔۔۔۔

تم کب آئے ہو ۔ اپنے باپ کی آواز سن کر آیان کا دل کیا کہ بس یہاں سے گم ہو جائے ۔۔۔۔

افضل صاحب جو بہت مشہور بزنس مین تھے۔ ان کے پاس ہر مسلہ کا حل تھا  سوائے اس کے جو اللہ نے ان کو دوسرے بیٹے کی صورت میں دیا تھا۔۔

وہ میں 27 سال پہلے آیا تھا۔ اب تو خیر 28 ہونے والے ہیں ۔۔۔۔ آیان نے دانتوں کا اشتہار دیتے ہوئےاپنے باپ کو دیکھا۔۔

ادھر افضل صاحب نے جوتی اپنے ہاتھ میں پکڑ لی تھی۔۔۔ اور آیان نے اپنی ماں کا چہرہ چومتے باہر کی طرف دور لگا دی۔۔۔

ادھر سے افضل صاحب نے جوتی اس کی طرف پھینکی۔۔۔۔۔۔ یہ گھر آیا تو اس کی ٹانگیں تور دوں گا میں ۔۔۔ ماں باپ تو شو پیس کے لیے رکھے ہیں نہ بتاکر جاتا ہے نہ آتا ہے ۔۔ افضل صاحب نے اپنے دل کی بھڑاس نکالی ۔۔۔

ابھی تو آیا تھا وہ ۔۔۔ ابیہا بیگم نے اپنے شوہر کی طرف افسوس سے دیکھ کر کہا۔۔

ابھی نہیں آپ کا یہ نواب زادہ دو ہفتے سے پاکستان میں ہیں اور گھر آج ائیں ہیں ۔۔ افضل صاحب نے اپنی بیگم کی معلومات میں اضافہ کیا۔۔

اور آپ آب بتا رہے ہیں ۔۔ ابیہا بیگم نے شوہر کو ناراضگی سے دیکھا۔۔

مجھے خود کل پتا چلا ہے جب میں نے ابراہیم صاحب کو فون کیا تھا کسی کام کے سلسلہ میں تب انہوں نے بتایا ۔۔ افضل صاحب نے اپنی بیوی کو اپنی صفائی دی۔

چلیں آگر ابھی گھر آ ہی گیا تو واپس کیوں نکالا اس کو میں تو ابھی اپنے بیٹے کو صحیح سے ملی بھی نہیں تھی۔۔ ابیہا بیگم نے اپنے شوہر سے شکوہ کیا ۔۔

آپ فکر مت کریں آ جائے گا وہ ڈھیٹ تھوڑی دیر میں ۔۔۔۔ افضل صاحب نے اپنی بیوی کو بولا۔۔۔

ادھر آیان گھر کے گیٹ کے سامنے بنے لون میں بیٹھا تھا جب اس نے اپنے بھائی اور بھابھی کو آتا دیکھا جو یقیناً کہیں باہر گئے تھے۔۔۔

ہیلو برو۔۔ کیا حال ہے آپ کا۔۔۔ اپنے بھائی سے ملتے ہوئے اس نے پوچھا میں ٹھیک تم بتاؤ ۔۔۔ ماہر نے آیان سے پوچھا ۔۔۔

بتا تا ہوں پہلے اپنی چھوٹی سی بھابھی سے تو حال پوچھ لوں ۔۔ آیان نے حور کو تنگ کرتے ہوئے کہا۔۔۔

آیان بھائی حور نے آیان کو گھورا ۔۔

حور افضل صاحب کے چھوٹے بھائی کی بیٹی تھی۔۔ جب اکبر صاحب اور ان کی بیوی نیہا آکسیڈنٹ میں وفات پا گئے تھے اس وقت حور صرف دو سال کی تھی۔۔۔ وہ تو حور کی خوش قسمتی تھی کہ اس دن وہ اپنے ماں باپ کے ساتھ نہیں گئی تھی کیونکہ وہ بخار میں گھر تھی۔۔ تب ہی افضل صاحب کے پاس اپنے بھائی کی بس ایک نشانی بچی تھی جو ان کو بہت عزیز تھی۔ ابیہا نے بھی حور کو کبھی ماں کی کمی محسوس نہ ہونے دی جیسے وہ بڑی ہوئی اس کو خود سے دور کرنے کا سوچ کر ان کی جان جاتی تھی۔ تبھی انہوں نے اپنی لاڈلی کو اپنے بڑے بیٹے کے ساتھ ایک خوبصورت رشتے میں بندھ دیا۔۔۔ جس رشتے کو ماہر اور حور دونوں نے ہی بہت محبت سے نبھایا ۔۔۔

حال ۔۔۔۔۔۔

اچھا اچھا کچھ نہیں کہتا ۔۔ ویسے تم دونوں کدھر گئے تھے ۔۔ بتانا ذرا۔۔۔ ایان نے ظالم ساس بنے کی بھر پور ایکٹینگ کی ۔۔

ایسے ہی واک کے لیے گئے تھے زلیل انسان ۔۔۔ ماہر نے آیان کے کندھے پر مکا جڑا۔

اور تم ادھر کیا کر رہے ہو ۔۔۔ ماہر نے آیان سے پوچھا

کچھ نہیں یار مجھے لگتا ہے اگر میں نے ابا حضور کے سامنے اپنی زبان کو لگام نہ دی تو یقین کرو بہت جلد گھر سے بے گھر ہو جائے گا تمہارا بھائی۔۔۔۔ آیان نے اپنا دکھ سنایا۔۔۔

شاباش بیٹا۔۔۔ ایسے ہی کرتے رہو جب تک سڑک پر نہ آجاؤ ۔۔ ماہر نے اپنی ہنسی روکتے ہوئے اس کو بہت میٹھی چھوری سے مرا تھا۔۔

ماہر یقین مانو میں بھول جاؤں گا تم میرے بڑے بھائی ہو۔۔ دفاع ہو جاؤ یہاں سے تم ۔۔ آیان غصہ سے بولا۔۔

حور تم مجھے اندر لے جاؤ تمہارا تو پھر خیال کر لیں گے ڈیڈ ۔۔ میری تو انہوں نے ہڈیاں توڑ دینی۔۔ آیان نے مسکین شکل بنائی ۔۔۔

حور اور ماہر دونوں  کی ہی اس کی حالت دیکھ کر ہنسی چھوٹ گئی ۔۔۔۔

شرم کر جاؤ یار ۔۔ آیان نے دونوں کو گھورا۔۔

 

•••••••••••

ارے حور ماہر آگے ہو آپ دونوں ۔۔ ابیہا بیگم نے حور اور ماہر کو اندر آتے دیکھا تو بولی۔

لیکن جیسے ہی نظر پیچھے چھپ کر آتے ایان پر گئی تو ان کو غصہ اور ہنسی دونوں آئی تھی۔۔۔۔

تم پھر سے آگے ہو دفاع ہو جاؤ یہاں سے جہاں اتنے دن رہے ہو ادھر ہی رہ لو اب۔ اس سے پہلے ابیہا بیگم کچھ بولتی افضل صاحب بول پڑے ۔۔۔

وہ ڈیڈ ایان بھائی کو میں اندر لائی ہوں۔ اتنے دنوں بعد تو بھائی گھر آئے ہیں تو پلیز ان کو مت ڈانٹنے نہ۔۔ ایان کی بجائے حور ایان کے حق میں بولی تھی ۔۔

جب کے ایان صاحب کا دل تو اپنی بہن+بھابھی کی ہمایت پا کر ڈانس کر رہا تھا۔۔۔

جتنا معصوم بیٹا آپ اپنے اس بھائی کو سمجھتی ہو نا یہ اتنی ہی بڑی فلم ہے ۔۔ افضل صاحب نے ایان کو گھور کر بولا تھا۔۔

ڈید کوئی بات نہیں نہ اس بار بھائی کو میرے کہنے پر بخش دیں پلیز ۔۔۔۔ حور نے افضل صاحب کی منت کی۔

جبکہ افضل صاحب تو بس ایان کو گھور کر رہ گئے تھے کیونکہ وہ اتنا تو جانتے تھے کہ ان کی یہ اولاد لوگوں کی کمزوریوں کو پکڑ کر اپنا راستہ آسان کرتا ہے مگر یہ امید نہ تھی کہ ان کی یہ نالائق اولاد ان کے ساتھ بھی ایسا ہی کرے گئی۔۔ اور ابیہا بیگم اپنے بیٹے کی اس حرکت پر مسکرا گئی تھی۔ کہ گھر میں آنے کے لیے اپنے باپ کی لاڈلی کو آگے کر دیا۔

ایان تم اپنی حرکتوں سے باز آجاؤ ۔۔ اب کی بار ابیہا بیگم بولی تھی ۔

انشاللہ موم اگر اللّٰہ نے توفیق دی تو ضرور آ جاؤ گا ورنہ مجبوراً آیسے ہی کام چلانا پڑے گا۔۔ ایان نے ماں کو گلے لگاتے ہوئے کہا۔۔

ایان کی بات سن کر ماہر اور حور ایک ساتھ بولے یہ واقع ہی گھر سے بےگھر ہو گا۔۔ اور ابیہا بیگم اس نالائق کا منہ دیکھتی رہے گئی۔۔

جبکہ دوسری طرف افضل صاحب کا جوتا پھر سے ان کے ہاتھ میں تھا۔۔۔

اور ایان نے باپ کے ہاتھ میں جوتا دیکھ کر اس بار اپنے کمرے کی طرف دوڑ لگائی تھی۔۔ کیونکہ اگر اس بار وہ گھر سے باہر نکلتا تو واپسی اس کی مشکل نہیں نہ ممکن تھی۔۔

اور افضل صاحب اس کی حرکت دیکھ کر مسکرا پڑے تھے۔۔ جو بھی تھا ان کا یہ بیٹا ان کو پیارا بھی بہت تھا اس کے ساتھ  ان کا پیار بہت الگ تھا۔۔۔ وہ ان کے گھر کی رونق تھا۔۔

••••••••••••

 

 

 

وہ اپنے اوفس میں بیٹھا کیسی سوچ میں گم تھا جب اس کو اس کے ایک خاص آدمی نے بلایا ۔۔۔۔۔

Sir those people are again smuggling girls, drugs and alcohol in Dubai despite your stop.

ہممممم۔۔۔۔۔زیک نے اپنے آدمی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔

 ۔ زیک بولا۔۔۔Let them smuggle

۔۔۔  اس کے آدمی نے بولنا چاہا۔۔But sir...

ششششش۔۔۔۔۔ زیک نے انگلی اپنے منہ پر رکھ کر اس کو کچھ بھی بولنے سے ورکا۔۔۔۔

Neither their smuggling goods will leave Pakistan nor will they come to Dubai. Just watch what I’m  doing with them now.

زیک نے بہت متعین ہو کر بولا ۔۔ مگر اس کا خاص آدمی جانتا تھا وہ جب متعین ہو کر کچھ بولتا ہے تو مخالف کی نیند تک چھین لیتا ہے ۔۔

وہ اپنی کرسی سے اٹھا۔۔۔ اس کا چھ فیٹ سے نکلتا قد۔۔ خوبصورت آش گرے آنکھیں جو اس وقت غصہ سے سرخ ہو رہی تھی چہرے پر ہلکی داڑھی ، بال نفاست سے سیٹ کیے ہوئے۔ بلیک تھیری پیس سوٹ میں وہ کیسی عربی  شہزادے سے کم نہیں لگ رہا تھا۔۔۔

اس کو سب دبئی میں  زیک   کہتے تھی۔ وہ ظالموں پر قہر بن کر برستا تھا۔۔ وہ  ظالموں کے لیے بہت ظالم تھا۔ شیر سی آنکھیں تھی اس کی اور گرفت بھی اس کی شیر جیسی تھی اپنے دشمن کو چھوڑتا نہیں تھا۔۔

•••••••••

 

میں آپ کو بار بار بول رہا ہوں آپ جائیں گی اپنے بھائی کے پاس اور جزا کا رشتہ مانگے گی میرے لیے۔۔۔ شہزاد ماں پر برستے ہوئے بولا۔

بھول جاؤ تم میں کبھی بھی اپنے بھائی کی لاڈلی تم جیسے کے لیے نہیں لاؤ گی۔۔۔ خدیجہ بیگم نے اس کو صاف جواب دیا۔۔

کیوں ایسا کیا برا ہے مجھ میں جو آپ اس کے لیے میرا رشتہ نہیں مانگ سکتی۔ شہزاد چیخا تھا۔

اپنے گریبان میں جھانک لو شہزاد اکرم تمہیں سب سوالوں کا جواب مل جائے گا۔۔ جیسی زندگی میں نے گزار دی ہے تمہارے باپ جیسے انسان کے ساتھ میں نہیں چاہتی کہ میرے بھائی کی بیٹی ویسے زندگی گزارے۔۔۔۔ اور میں تو اللہ کا شکرادا کرتی ہوں اس نے مجھے بیٹی نہیں دی نہیں تو وہ اپنے بھائی اور اپنے باپ کا قرض اتارتی۔۔ خدیجہ بیگم آپنے بیٹے کے منہ پر لفظوں کا تھپڑ مارتے اٹھ کر کمرے سے باہر چلی گئی ۔۔۔

آپ کی اس بھانجی کو زلیل نہ کر دیا تو نام بدل دیجئے گا میرا موم آپ ۔۔ شہزاد اونچی آواز میں  بولتا اپنے کپرے لے کر باتھ روم میں چلا گیا ۔

جبکہ اس کی بات سن کر خدیجہ بیگم نے اپنے دل پر ہاتھ رکھ دیا جو کچھ بہت برا ہونے کا احساس دیلا رہا تھا۔۔

اب یہ تو خدا جانتا تھا کہ کیا ہونے والا ہے۔۔

 

•••••••••••

 

تمہیں ٹھوسنے سے فروصت مل گئی ہے تو کچھ بولوں میں ۔۔۔ نور جو جزا کو سموسوں سے انصاف کرتا دیکھ رہی تھی ۔ غصہ سے بولی۔ کیوں کے جزا میڈم اس کا بھی سموسا کہا گی تھی۔۔

ہیں ہیں بول۔۔ جزا نے سموسا ختم کرتے ہوئے بولا۔

ڈیٹ شیٹ لگ گئی ہے۔۔۔ نور نے بتایا ۔۔۔

اچھی بات ہے میں تو ویسے بھی پیپر سے ایک رات پہلے پڑھتی ہوں۔ جزا نے بولا۔۔۔

اور میڈم یہ دیکھ میری تیاری کروا دے نہ۔۔ نور نے بچاری شکل بنائی ۔۔۔

اچھا پھر گول گپے کھلائی گئی ؟؟ جزا نے معصوم سی شکل بنا کر کہا۔۔۔

تو میرا سموسا کہا چکی ہے۔۔ نور نے غصہ سے دیکھتے ہوئے کہا تھا۔۔

اب بھوک لگی تھی کیا کرتی میں ۔۔ جزا نے اور معصوم شکل بنائی ۔۔۔

اتنا تو ٹھوستی ہے پتا نہیں تیرا سب جاتا کہا ہے ۔۔۔ نور نے اس کو دیکھ کر کہا ۔ کیوں کے جزا  کھاتی نہیں ٹھوستی تھی کھانا اس کی کمزوری تھی مگر وہ پھر بھی پتلی تھی۔۔ پتلی تو نور بھی تھی مگر اس کی نسبت نور بہت کم کھاتی تھی۔

دیکھ بہن میرے کھانے پر نظر نہ رکھ ہضم ہونے دے۔۔ جزا نے نور کو گھوری کروائی ۔۔

اچھا سن پیپرز کب سٹارٹ ہو رہے۔۔ جزا نے پوچھا۔۔

اس ہفتہ کے آخر میں اور میرے نوٹس بھی تیار نہیں ۔۔ ںور نے رونے والی شکل بنائی ۔۔۔۔

ایک تھپڑ لگاؤں گی اگر یہ شکل بنائی ، ہم مل کر تیاری کرتی ہیں نہ تو کس بات کی ٹنشن ہے تجھے۔۔ جزا نے غصہ سے نور کو دیکھا

اچھا میری ماں تو ایسے نہ دیکھ ۔۔ نور نے جزا کے آگے ہاتھ جوڑ

 

••••••••••••••

 

اور تم وآپس جا رہے ہو؟ کامران صاحب نے اپنے بیٹے سے پوچھا۔۔

وہ سب دسترخوان پر بیٹھے تھے ۔

جی ڈیڈ کام کی وجہ سے جانا پر رہا ہے۔۔ دوراب نے جواب دیا۔۔

امل بیگم نے اپنی بیٹی کی طرف دیکھا تھا وہ جانتی تھی نور کے جذبات دوراب کے لیے انہوں نے نظریں جھکا لی۔۔ یہ ہی حال روحا بیگم کا تھا۔ وہ دونوں جانتی تھی دوراب اور نور کے دل کے راز تبھی تو انہوں نے دونوں کو ایک دوسرے کا ہمسفر بنا نے کا فیصلہ کیا تھا۔۔۔

تم ایک کام کیوں نہیں کرتے اپنا کام پاکستان میں ہی سیٹ کر لو۔۔ احسن صاحب نے دوراب سے کہا ۔

جی بڑے ابو یہ ہی کوشش کروں گا۔۔۔ دوراب نے جواب دیا۔۔

ویسے نہ اس بار بھائی جلدی آئے گا۔۔۔ آمنہ نے بھائی کو ناراضگی سے کہا۔۔۔

اچھا گڑیا۔۔۔ دوراب نے آمنہ کو بہت پیار سے کہا اور اس کی نظر نور پر تھی جو بہت خاموش تھی۔ دوراب نے نظریں جھکا لی اس کو کہاں برداشت تھا نور کو اداس دیکھنا مگر وہ ابھی مجبور بھی تھا اپنے کام کی وجہ سے۔۔۔

•••••••••••

 

نور اس شعر کی تشریح کر لی ہے تم نے؟؟ جزا اپنے ریجسٹر پر جھوکی شعر کی تشریح لکھ رہی تھی ساتھ ہی نور کو مخاطب کیا۔۔

جب کوئی جواب نہ ملا تو جزا نے سر اٹھا کر دیکھا اور نور کو دیکھ کر اس کا دل کیا اس کی ہڈیاں ہی توڑ دے یا گھر سے دھکے مارکر نکل دے کیوں کے وہ مہارانی صاحبہ اپنے ریجسٹر پر سر رکھ کر خواب خرگوش کے مزے لے رہی تھی ۔۔۔

نورررررر۔ جزا اس کے کان کے پاس چیلائی ۔۔

کون ہے کون ہے نور ڈر کے مارے گھبرا کر بولی۔۔۔۔۔ جزا کو دیکھ کر اس کا دل کیا اپنی چیپل اٹھا لے لیکن جلد ہی اس کو احساس ہوا کہ اس کے ساتھ ایسا کیوں کیا گیا ہے۔۔۔۔

وہ نہ میں نہ۔۔۔ نور الفاظ جمع کر رہی تھی ۔۔

جی جی وہ نہ آپ نہ کیا ؟؟؟ جزا بھی اس کے ہی انداز میں بولی۔

میں بتاتی ہوں اپ نہ خواب میں میر تقی میر سے ہی ان کے اشعار کی تشریح لکھوا رہی تھی۔۔ صحیح کہا نا؟؟ جزا نے خود ہی اس کے الفاظ مکمل کیے۔۔

یار مجھے نیند آ رہی تھی ایک تو رات کو سو نہیں سکی اوپر سے تو نے اتنی جلدی بلا لیا۔۔ نور نے اپنی صفائی دی۔۔

نور تو ٹھیک ہے نہ۔۔ میں کچھ دن سے دیکھ رہی تو بوجھی بوجھی سی ہے جزا نے پریشان ہو کر کہا۔

نہیں یار وہ ایسے ہی۔۔ نور نے خود کو نارمل ظاہر کرنا چاہا۔

نور۔۔ جزا نے اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھا۔۔۔

نور اس کے گلے لگ گئی ۔۔ یار وہ جانتا ہے میں اس سے پیار کرتی ہوں پھر بھی وہ مجھے تڑپتا ہے۔۔ میں چاہتی ہوں وہ میرے سامنے رہے اور وہ اتنا ہی دور چلا جاتا ہے اس کو آئے ابھی دن ہی کتنے ہوئے ہیں اور وہ پھر سے واپس جانے لگا ہے ۔۔ ایک انسو نور کی انکھ سے نکلا تھا۔۔

نور ادھر دیکھو۔ وہ اپنے کام کے لیے جا رہے ہیں نہ واپس تم پریشان کیوں ہوتی ہو بس دعا کیا کرو نہ کے وہ جلدی سے اپنا سارا کام پاکستان سیٹ کر لیں۔۔ جزا نے ںور کو سمجھانا چاہا۔۔

ہممم ۔۔ جزا تم نے کبھی محبت کی ہے ؟ نہیں نہ۔۔ نور نے جزا کی طرف دیکھا۔۔

نور ہم بچپن سے ایک ساتھ ہیں میرا کچھ بھی نہیں چھپا تم سے پھر بھی تم پوچ رہی ہو تو میری جان میں نے ابھی تک اپنے ماں باپ بہن اور تیرے علاوہ کیسی کو اپنے دل میں جگہ نہیں دی میں نہیں جانتی کہ ہمسفر سے محبت کیسی ہوتی ہے۔۔ جزا نے نور کی بات کا جواب دیا اور یہ جواب نور کو بھی پتا تھا۔۔ کیوں کے ان دونوں کی زندگی ایک دوسرے کے لیے کھولی کتاب تھی۔

جزا تو ابھی تو وہ محسوس نہیں کر سکتی جو میں کر رہی ہوں ۔ نور نے اپنی نم آنکھیں بند کی۔۔ اور جزا نے اپنی جان سے پیاری دوست کو گلے لگا لیا وہ کہاں اس کی آنکھوں میں آنسو دیکھ سکتی تھی ۔۔

اچھا چپ کر یہ سب سمیٹو اور اٹھو ہم دونوں اپنے لیے چائے بناتی ہیں کیونکہ تمہیں اور مجھے وہ ہی اچھی بنانی آتی ہے۔۔۔یہ کہہ کرجزا ںور کو اپنے ساتھ اٹھاتی سامان سمٹنے لگی تھی۔۔

•••••••••••••

جزا چائے کی پتی کدھر ہے۔ نور نے جزا کو آواز دی۔۔

جزا نے جب پیچھے دیکھا تو نور کیبنٹ میں ٹی جار ڈھونڈی رہی تھی۔۔۔ تم نہ آنکھیں چیک کروا لو آندھی ۔۔جزا نے نور کے سر پر سامنے سے اٹھا کرٹی جار ہلکا سا مارا ۔۔

او یہ تو ادھر پرھا ہے۔۔نور نے معصوم شکل بنا کر کہا۔۔

یہ ادھر ہی ہوتا ہے ۔۔ جزا نے اس کی نکل اتاری ۔

اور دونوں ہی ہسنے لگی۔۔ جزا نے نور کی مسکراہٹ دیکھ کر سکون کا سانس لیا کہ شکر ہے وہ ہنسی ہے۔۔

••••••••••••

جب بھی کوئی لڑکی دیکھے میرا دل دیوانہ

بولے اولے اولے اولے اولے اولے اولے

گائے ترانہ یارا جھوم جھوم کے ہولے ہولے

اولے اولے اولے اولے اولے۔۔۔

اوے بندر اپنی یہ بکواس بند کر۔۔۔ سکندر نے اپنے ساتھ چلتے اس عجیب نمونے کو گھورا تھا۔۔ ایم -زی کو ذرا بھی خبر مل گی نہ تیری اس حرکت کی بغیر کیسی لحاظ کے دونوں کو الٹا لٹکا کے مارے گا۔۔

اوے مسڑ میرا نام فاروق ہے میں کیسی سے نہیں ڈرتا۔۔۔ سکندر کے ساتھ چلتے فاروق نے بہت اکڑ کر کہا۔۔

مسٹر فاروق میں آپ کی ساری بکواس سن رہا ہوں ۔

 For you kind information your mini microphone is activated..

دوسری طرف سے ایم- زی کی آواز پر فاروق کی زبان کو بریک لگی۔۔

کپٹن فاروق اپنی ان حرکتوں کو بند کر کے جس کام کے لیے بھیجا ہے اس کام پر گھور کریں ۔۔۔ ایم-زی کا انداز بہت سخت تھا۔۔ اور اس نے کنٹیکٹ ڈورپ کر دیا۔

ایک خود اس نے ہمیں ادھر بھیجا ہے اوپر سے پھر یو کر رہا۔۔ فاروق تو برا ہی مان گیا تھا۔۔

اس نے ہمیں مشین کے لیے بیجھا ہے مٹرگشت کے لیے نہیں ۔۔ سکندر نے دانت پیس کر بولا۔۔

وہ دونوں اس ٹائم لاہور کے ڑیڈ لائیٹ آریا میں تھے۔۔ جہاں ہر جگہ ان کو کوئی نہ کوئی عورت اپنا گاہک بنا نا چاہتی تھی۔ اور یہاں پر زیادہ تر عورتیں مجبوری کی وجہ سے یہ کام کر رہی تھی۔ کیسی نے اپنے محبوب  کے لیے گھر چھوڑا تھا اور وہ اس لڑکی کو ادھر چھوڑ گیا۔تو کوئی اغواہ ہو کر یہاں آئی ۔ کیسی کو ادھر بیچ دیا گیا۔۔۔ ادھر ہر عورت کی اپنی کہانی تھی۔اپنا دکھ تھا۔ یہ وہ عورتیں اور لڑکیاں تھی جو ہمارے معاشرے کے ہوس پرستوں کی ہوس اپنے وجود سے کم کرتی تھیں ۔۔ جن کو جسم کی بھوک ہوتی وہ ادھر آ کر ان کے جسم سے وہ بھوک مٹاتے تھے۔۔ ان مردوں میں ہرقیسم کا مرد آ جاتے تھے۔۔

اب جیسے جیسے فاروق اور سکندر آگے بڑھتے جا رہے تھے ان کا خون کھول رہا تھا۔۔ کیونکہ یہاں انہیں انسان کم اور انسانی شکل میں حیوان زیادہ نظر آئے تھے۔۔۔

او یار تو ادھر ہے ہم کب سے تم کو ڈھونڈ رہے تھے۔۔ فاروق نے  آگے جا کے اس آدمی کے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا۔۔

او یار تمہارا ہی انتظار تھا۔۔۔۔ آؤ اند چلو۔۔ اس آدمی نے فاروق اور سکندر کو دیکھ کر کہا وہ ان دونوں کے اصل سے واقف نہیں تھا انہوں نے اس کو ایک فرضی نام ، کام اور شناخت بتائی تھی۔۔۔

گلشن بائی یہ دو نئے گاہک آئے ہیں ۔۔اس آدمی نے گلشن بائ کو بولا جو یہ کوٹھا چلاتی تھی۔۔

صاحب حکم کرو کون سا مال چاہیے ہر قیسم کی لڑکی اور عورت ملے گی ۔ نشیہ جو چاہو ملے گا۔۔۔ گلشن بائی نے دونوں کو دیکھتے ہوئے بولا۔۔ اور کچھ تربیت یافتہ طوافوں کو  ہاتھ  کے اشارے سے بلایا ۔

ہمیں یہ نہیں چاہیے ہمیں نئی لڑکیاں چاہےہیں۔۔ سکندر نے ہی بات کا آغاز کرنا ضروری سمجھا۔۔۔

بائی کل رات کچھ نئی لڑکیاں آئی ہیں ۔۔ جن کو کچھ دن کوٹھے کے جسم فروشی کے دھندے میں لگا کر باہر ملک بھیجنا ہے۔۔ اس آدمی نے بائی کے کان میں کہا مگر اس کی سرگوشی کے باوجود وہ دونوں سن چکے تھے۔۔

اب گلشن بائی نے ان دونوں کے سامنےساری نئی لڑکیاں ان کے سامنے کھڑی کر دی۔۔ اور ان کی حالت دیکھ کر سکندر اور فاروق کا دل کیا ان سب کو  گولی مار دیں اور ان کو بھی جنہوں نے ان کا یہ حال کیا ہے۔ نہ جانے کتنے گھروں کی عزتیں اٹھا لائے تھے وہ ظالم ادھر۔ کتنے گھر اجاڑ آئے تھے۔۔

ہممم ۔۔ مجھے کوئی پسند نہیں آئی ، تمہیں آئی کیا؟؟ سکندر نے اپنی بات کہہ کر فاروق سے پوچھا۔۔

نہیں یار۔۔ فاروق نے جواب دیا ۔۔

یار تم نے کہا تھا ایک سے بڑھ کر ایک مال آیا ہے۔۔مگر ان میں سے تو کوئی بھی پسند نہیں آئی وقت ہی برباد کروایا ہے تم نے۔۔ چل یار ۔

فاروق نے اس آدمی کو غصہ سے دیکھتے ہوئے کہا اور آب کو چلنے کو کہا۔۔

ارے صاحب بات تو سنے اور دیکھ لو۔ گلشن بائی بولی کیوں کےاس کو اپنا نقصان ہوتا نظر آرہا تھا۔۔۔

ضرورت نہیں ۔۔ سکندر نے دو لفظی بات کی۔۔

••••••••••••••

 

سر اکرم بیلڈرز کے ساتھ آپ کی 1 بجے میٹینگ ہے۔۔

اس کے پرسنل سیکریٹری نے اس کو آج کی میٹینگ کے بارے میں بتایا ۔۔

اچھا۔۔ ان کی طرف سے میٹینگ کے لیے کون آ رہا ہے۔۔ زوریز نے اپنے سیکریٹری سے پوچھا۔۔

سر اکرم صاحب کے بیٹے مسٹر شہزاد آ رہے ہیں ۔۔  زوریز کے سیکریٹری  نے بتایا ۔۔۔

چلو ٹھیک ہے ۔ میٹینگ میں بس دس منٹ ہیں جب وہ آ جائیں تو بتا دینا۔ اب جاؤ ۔ زوریز نے اپنے سیکریٹری کو کہا اور خود پھرسے کیسی شہد رنگ آنکھوں میں لجہ گیا۔۔

او ستا معصومې سترګې زما د زړه قاتل وګرځیدې ( ہائے یہ تیری معصوم آنکھیں میرے دل کی قاتل نکلی)۔ زوریز زیرے لب بول کر مسکرا پڑھا ۔۔

•••••••••••••••

 

مسٹر شہزاد ہم آپ کے ساتھ کوٹیڑاکٹ کر تو لیں مگر کچھ عرصہ سے آپ لوگوں کے کنسٹرکشن پروڈاکٹ  کی کوالٹی اچھی نہیں جارہی یہ سنے میں آیا ہے۔۔

مسڑ زوریز یہ سب افواہیں ہے اور کچھ نہیں آپ امید رکھیں آپ کو اچھا کام ملے گا۔ شہزاد نے خود کو نارمل کرتے ہوئے کہا تھا۔

نہ جانے کیوں مگر اس کو زوریز کی آنکھوں سے کچھ محسوس ہو رہا تھا۔۔

چلیں دیکھیں گے۔۔ زوریز نے شہزاد کے ساتھ ڈیل ڈان کرتے ہوئے کہا ۔

اور اس کے ساتھ لنچ کے لیے باہر جانے لگا جب کے اس کا ایسسا کوئی موڈ نہیں تھا۔۔

•••••••••••••

 

وہ دونوں اپنے بزنس کے متعلق باتیں کرتے اپنے کھانے کا انتظار کر رہے تھے جو کہ وہ آڈارکر  چکے تھے۔۔

یہ ایک چھوٹا سا رستوران تھا جو زوریز کے آفس کے قریب تھا۔

یار میں بول رہی ہوں مجھے برگر نہیں کھانا پیزا آڈار کریں گے۔۔

نہیں برگر نور اور جزا اس بات پر بحث کر رہی تھی جبکہ آمنہ سر پکڑ کر اس وقت کو کوس رہی تھی جس وقت اس  نے ان دونوں کو لنچ کی اوفر دی تھی۔ کیونکہ ان دونوں کے پیپرز میں دو دن تھے اور وہ مسلسل پڑھ پڑھ کر بور ہو گئی تھی۔۔ اب ان کو فریش کرنے کے لیے ادھر تو لے آئی مگر اب ان کی بحث سے تنگ آ گئی تھی۔۔ تم دونوں چپ کرو ہم برگر بھی آڈار کریں گے اور پیزا بھی اب لڑی تو دونوں کو رستوران سے باہر نکلوا دوں گی چپ کر جاو۔۔۔

اوکے۔۔۔ جزا اور نور اچھی بچی ہونے کا ثبوت دینے کے لیے ایک ساتھ بولی۔۔

ادھر زوریز اور شہزاد ںے جانی پہچانی آواز سن کر گردن گما کر دیکھا تو دونوں کی نظر جزا پر ٹھہر گئی ۔۔

 ڑیڈ کلر کی لونگ شرٹ اور اس کے نیچے وائیٹ ٹراؤزر پہننے گلے میں وائٹ دوپٹا لیے بالوں کی اونچی پونی بنائے بےحد خوبصورت لگ رہی تھی۔۔

شہزاد اور زوریز کی نظریں اس پر ٹھہر گئی تھی۔۔ مگر نظروں کا فرق تھا۔

شہزاد کی نظروں میں ہوس تھی بس۔ جبکہ زوریز کی آنکھوں میں محبت تھی، چاہت تھی، وفا تھی، عزت تھی ، احترام تھا۔۔

اسکیوز می۔۔۔ شہزاد یہ کہہ کر اپنی جگہ سے اٹھا۔۔ جبکہ کے زوریز اس کے اٹھنے کی وجہ نہیں جانتا تھا۔۔

جب شہزاد جزا کے پاس جا کر روکا اور اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اس کے کان کے پاس جھکا تب زوریز کے تن بدن میں آگ لگ گئی اس کا غصہ سے برا حال ہو رہا تھا اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ شہزاد کا ہاتھ کاٹ دے۔۔۔

ہیلو ڈیر کزن ۔ شہزاد خباثت  سے بھرے لہجے میں بولا۔۔

شہزاد کو اپنے سامنے دیکھ اور اس طرح جھک کر اس کے کان کے پاس یہ بکواس کرنا اور اس کے کندھے پر ہاتھ رکھنا جزا کی برداشت کا امتحان تھا۔۔

اپنا ہاتھ ہٹا لو۔۔ جزا نے دانت پیس کر بولا

ہمممم نہیں انفیکٹ تم چلو میرے ساتھ ایک لونگ اور رومنیٹیک ۔۔۔ شہزاد کے الفاظ منہ میں تھے ۔۔

جب جزا نے ایک لمحہ میں کھڑے ہو کر اس کا ہاتھ اپنے کندھے سے ہٹا کر تھپڑ اس کے منہ پر مارا۔۔ بولا تھا نہ دوبار میرے آس پاس بھی نہ نظر آنا مگر لگتا ہے تمہیں عزت راس نے تبھی ہر بار اپنے منہ پر تھپڑ کھانے کے لیے میرے پاس آجاتے ہو۔۔ جزا نے شہزاد کو غصہ سے دیکھتے ہوئے کہا۔۔

جبکہ دوسری طرف اس بے عزتی پر شہزاد کا خون کھول گیا تھا۔۔ مگر وہ ابھی خاموش رہا کیونکہ یہاں اس نے کوئی تماشا نہیں بنا نا تھا۔ جبکہ جزا سے بدلہ کی آگ اور زیادہ ہو گی تھی۔۔

زوریز جو شہزاد کی حرکت برداشت کر رہا تھا۔۔ جزا کا شہزاد کو تھپڑ مارنا اس کو سکون دے گیا۔۔ جبکہ اس کے منہ سے بےساختا یہ الفاظ نکلے۔۔

That’s like my girl...

ان الفاظ پر وہ خود ہی مسکرا پڑا ۔۔۔

My girl۔

زوریز نے یہ لفظ دھرایا ۔۔۔۔۔

شہزاد کو واپس آتا دیکھ زوریز نے اپنی مسکراہٹ چھپائی۔۔۔۔

مسڑ شہزاد ۔ آپ ٹھیک ہیں ۔۔۔ زوریز نے شہزاد سے پوچھنا ضروری سمجھا کیونکہ بہت مزے کا تھپڑ کھا کر آئے تھے شہزاد صاحب ۔۔۔

جی وہ دارصل کزن ہے میری کافی ٹائم بعد ملا ہوں تو اس وجہ سے سے اس نے ایسا کیا اس کا میرا چلتا ہے ایسے ۔۔ شہزاد نے بات بنائیی۔

 

او اچھا اچھا۔۔۔ زوریز نے بس اتنا بولا ۔ اب اس کو کیا بتاتا وہ اس کی ساری عزت سن چکا ہے۔۔

•••••••••••••••

 

 

Hello!

سنا ہے تم لوگ ڈرگز سموگل کر رہے ہو دبئی میں ۔۔۔ ایک بار کہنے کی شاید تم لوگوں کو سمجھ نہیں آئی ۔۔  جو اس طرح کی حرکت پھر سے کر رہے ہو۔۔ خیر اب جو ہو گا اس کے ذمہ دار تم لوگ ہی ہو گے۔ تم لوگوں کو کیا لگتا ہے کہ میں تم لوگوں کو ایک بار بول کر بھول گیا ہوں یہ تم لوگوں کی بھول ہے ۔۔۔  مقابل کے ہونٹوں پہ ڈرا دینے والی مسکراہٹ تھی ۔۔

ک۔۔۔ کو۔۔کون۔۔ کون بات ک۔۔ کر ریا ہے ۔۔۔ اے سی کی ٹھنڈک میں بھی اکرم صاحب کے ماتھے پر پسینے کے ننھے قطرے نمایا ہوئے۔۔

وہ ہی جس نے ترکی کے ڈون کو مار ڈالا ۔۔۔ اورپتا ہے میں نے اس کو کیوں مارا تھا؟؟..

نہ۔۔۔۔ نہی۔۔۔۔۔ نہیں ۔۔ اکرم صاحب کے منہ سے الفاظ نکلنا مشکل ہو گئے تھے کیونکہ کے مقابل کی سرد آواز ان کی  ریڑھ کی ہڈی میں سرسراہٹ پیدا کر رہی تھی۔۔

ہممممم ۔۔۔۔ پتا ہے میں نے اس کو کیوں مارا تھا۔۔ کیونکہ  وہ میرے روکنے پر نہیں روکا اور اس نے پھر سے دبئ میں اسلحہ سموگل کرنے کی کوشش کی تھی۔۔۔  جیسے اب تم لوگ کرنے لگے ہو۔۔۔ اگر جان پیاری ہے تو باز آجاؤ ورنہ جان سے بھی جاؤ گے اور مال سے بھی۔۔۔

تم کر لو جو کرنا ہے میں نہیں ڈرتا تم سے سمجھ آئی نہ۔۔ اکرم صاحب نے خود کو مظبوط ظاہر کرنے کے لیے غصے میں بولا ۔۔

ہاہاہاہاہاہا۔۔۔ مقابل قہقہہ لگا اٹھا۔۔۔ تمہارا تو میں وہ حشر کرؤں گا کہ تم خود آ کر موت مانگو گے اکرم ۔۔۔

اکرم صاحب کا چہرہ اس کی بات سن کر سفید ہو گیا تھا۔۔۔۔

کس کی کال تھی اکرم۔۔ عثمان صاحب جو اپنے بیٹوں اور شہزاد کے ساتھ ابھی اکرم صاحب کے آفس میں آئے تھے ان کے چہرے کا رنگ دیکھ کر پوچھ پرھے ۔۔

ڈیڈ آپ ٹھیک ہیں ؟؟ شہزاد جو عثمان صاحب اور ان کے بیٹوں کے ساتھ آیا تھا اپنے باپ کے اڑے ہوئے رنگ کو دیکھ کر پریشان ہو گیا۔۔

اکرم بتا بھی دو کس کی کال تھی کون تھا جو تم اتنے پریشان ہو گئے ہو ۔ عثمان صاحب نے پریشانی سے اکرم صاحب کو دیکھا۔

میں تم لوگوں کو منع کیا تھا کے کچھ وقت کے لیے دبئی میں کچھ بھی سموگل مت کرو مگر تم لوگوں کو سنی کیسی کی نہیں ہوتی ۔۔ وہ ہم پر ہی نظر رکھ کے بیٹے ہے۔۔ اکرم صاحب غصے میں بولے ۔

کون۔۔۔۔ عثمان صاحب نے پریشانی سے اکرم صاحب کو دیکھا ان کو کچھ غلط ہونے کا احساس ہو رہا تھا ۔

 ( زیک).. ZAK

اکرم صاحب کے الفاظ نے کمرے میں  موجود سب کو خاموش کروا دیا تھا۔۔

اب کون جانتا تھا کہ یہ دبئی کا ڈون ان کے ساتھ کیا مرنے والا تھا۔۔۔

••••••••••••••

سر ان کے ٹھکانے کا  پتا چل گیا ہے ۔۔ اس کے خاص آدمی نے اس کو انفورم کیا۔

ہممم۔ گڈ۔۔۔۔ سب سارے سامان کو اچھے سے دیکھنا مجھے یقین ہے کہ یہ لوگ ڈرگز کے ساتھ لڑکیاں بھی سپلائے کرنے والے تھے۔۔ اگر ادھر لڑکیاں ہوئی تو ان سب کو باحفاظت محفوظ جگہ پر لے جانا اور باقی سب جگہ کو آگ لگا دینا۔۔ یہ کہتے ساتھ زیک نے  کال ڈیس کنیکٹ کر دی۔۔  اور ا

وہ لوگ اس جگہ کو اور ایک ایک کنٹینر کو اچھے سے دیکھنے لگے۔ اور ایک کنٹینر کو جب کھولا تو اس میں بہت سی لڑکیاں موجود تھی  جو کہ بہت بری حالت میں تھی۔

سر یہاں بہت سی لڑکیاں موجود ہیں ۔۔ آپ کا شک صحیح تھا وہ لوگ ڈرگز کے ساتھ لڑکیاں بھی پاکستان سے بھیج رہے تھے ۔ اب ان لڑکیوں کا کیا کرنا کے سر ۔۔۔ زیک کا آدمی اس کو ساری ڈیٹیل دینے کے بعد اس کے جواب کا انتظار کرنے لگا۔۔

میں تمہیں ایک جگہ کا ایڈریس بھیج رہا ہوں لڑکیوں کو باحفاظت اس جگہ پہنچا دو۔۔ اور اس جگہ کو جہنم میں بدل کر واپس دبئی کے لیے نکلو۔۔ دوسری طرف زیک نے اپنی بات کر کے کال کاٹ دی اور اپنے آدمی کے نمبر پر ایک میسج بھیجنے کے بعد ایک اور نمبر پر کال میلائی۔

•••••••••••••

وہ ابھی تھک کر آ کر بستر پر لیٹا ہی تھا کہ فون بجنے لگا۔۔۔۔۔

یاررررررر اب کس کو موت پر گئی ہے۔۔۔ بھوری آنکھیں تھکن اور نیند نہ پوری ہونے کی وجہ سے سرخ تھی۔۔

اپنی عادت سے مجبور بغیر نمبر دیکھے کال آٹھا لی۔۔ کون ہے یاررر نہ خود سکون لینا ہوتا ہے نہ کیسی اور کو سکون لینے دینا ہے۔۔  اب  بول بھی  دو کون ہے ۔۔۔ دوسری طرف مکمل خاموشی کے بعد بھوری آنکھوں نے بےزاری سے پوچھا۔۔

اگر تم کہو تو تمہیں مکمل سکون کی نیند سلا دوں پھر تمہیں کیسی سے شکوہ نہیں ہو گا کہ تمہیں سکون نہیں لینے دیا۔۔۔ مقابل کا ٹھنڈا لہجہ اس کو مکمل ہوش میں لایا جو ابھی بس سو دینے کو تھا۔۔

فوراً فون کان سے ہٹا کر نمبر دیکھا ۔۔۔ اللّٰہ خیر کرے یہ ڈون اس ٹائم کال کیوں کر رہا ہے ۔۔۔  بھوری آنکھیں پریشان ہوئی۔۔

زیک سب ٹھیک ہے۔۔ کوئی کام تھا؟؟  بھوری آنکھوں والے شخص نے پریشانی سے سوال کیا۔۔

ہاں بات سنو تمہارے فارم ہاؤس پر ایک ٹرک آ رہا ہے جس میں وہ تمام لڑکیاں ہیں جو پاکستان سے دبئی بھیجی جانی تھی۔۔ کل صبح تک وہ لڑکیاں اپنے اپنے گھر ہوں یاد رکھنا ۔۔۔  تو اٹھو اور اپنے فارم ہاؤس پہنچو ۔۔ یہ کہا کر زیک نے کال کاٹ دی۔۔

جبکہ دوسری طرف بھوری آنکھیں غصہ سے سرخ ہو گئی تھی۔۔ اور ایک نمبر ملاتا اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔

پہلی بیل پر ہی کال اٹھا لی گئی تھی۔۔ اس سے پہلے کال اٹھانے والا کچھ بولتا۔۔ بھوری آنکھوں والا بول اٹھا ۔۔ جلدی سے فارم ہاؤس پہنچو ۔۔۔ اور کال کاٹ دی۔۔

••••••••••••

وہ دونوں سیاہ لیدر کی جیکٹ پہنے سیاہ پینٹ اور سیاہ ہی شرٹ میں اس وقت فارم ہاؤس میں کھڑے تھے اور جو لڑکیاں اس وقت ان کے سامنے تھی ان کو دیکھ کر ان کا بس نہیں چل رہا تھا کے وہ ان لوگوں کو جان سے مار ڈالیں جنہوں نے ان کا یہ حال کیا تھا۔۔

سکندر، فاروق ابھی تک تم  دونوں سوچ ہی رہے ہو کے کیا کرنا ہے ۔۔ اپنے پیچھے سے ایم-زی کی آواز سن کر دونوں نے مڑ کر دیکھا۔

یہ کہاں سے آگیا۔ فاروق کی زبان نے عادت کے مطابق کھجلی کی۔۔

اسی طرح جس طرح تم دونوں ادھر ہو۔۔۔ ایم-زی نے دونوں کے دیکھتے ہوئے بہت اطمینان سے کہا۔

لڑکیوں کی سب ڈیٹیل نکال لی ہے ایم-زی ۔۔ آب نے ایم-زی کے سامنے ایک فائل کی۔

سب کے گھر والوں نے عزت بچانے کے لیے اس بات کی گواہی دی ہے کے ان کی بیٹی مر گئی ہے۔۔ کیونکہ یہ سب مہینوں سے اغواہ ہوئی ہوئی ہیں ۔۔ اور کچھ ایسی بھی ہیں جن کو ان کے ہی عاشق محبت کے جال میں پھنسا کر گھر سے بھاگا کر ان کو ان لوگوں میں بیچ گئے ۔۔ان لوگوں نے اس کام کے لیے ایک سے ایک خوبصورت لڑکا رکھا ہوا ہے۔ جن پہ کوئی بھی لڑکی دل مار دے اپنا اور وہ بعد میں اس ہی لڑکی کی زندگی جہنم بنا دیتے ہیں ۔۔۔۔فاروق نے جو انفوریشن نکالی تھی ساری ایم-زی اور آب کے سامنے رکھی۔۔

اب بتاؤ یار کیا کریں ان کے گھر والے اپنائیں گے نہیں ۔۔ سکندر نے ان لڑکیوں کی طرف رحم دلی سے دیکھا جن کا حال ان پہ ہوئے ظلم پر خود ماتم کر رہا تھا۔۔

ان کو غزیزا آنٹی کے پاس لے کہ چلو ۔ ان کے گرل ہاسٹل۔ ایم-زی نے بہت سنجیدہ ہو کر کہا۔۔

پر یار وہاں تو۔۔فاروق نہ کچھ بولنا چاہا

ہیں وہاں اس جگہ ہی اب ان کو جانا ہے کیوں کہ ان کو اب اس چیل اور گدھوں سے بھرے معاشرے میں خود کو زندہ رکھنا ہے اور ان کو یہ کرنا ہو گا ان کو کمزور نہیں پرنا ان کو اتنا مضبوط ہونا ہے کہ اب کوئی ان کی طرف آنکھ بھی اٹھائے تو یہ اس کا وہ حال کریں جے دوبارہ کیسی میں ہمیت نہ ہو کہ وہ کیسی کی بہن یا بیٹی کہ ساتھ یہ کریں۔۔ چلو اب ان سب کو باحفاظت ہاسٹل لکی لیے لے کر نکلو میں تم لوگوں کو ادھر ہی میلوں گا۔ ۔۔ ایم-زی اپنی بات کر کے اور ان کو آڈر دے کر ادھر سے نکل گیا۔۔

•••••••••••••••

 

ہمارے معاشرے میں عورت کو اتنا مضبوط اور باوقار تو ہونا ہی چاہیے کہ وہ اگر کبھی گھر سے کیسی مجبوری میں  نکلے تو کوئی اس کو غلط نظر سے دیکھے یا کچھ کرنے کی کوشش کرے تو اس کو اپنی حفاظت کے لیے اس وقت مرد کی ضرورت نہ پڑے وہ خود میں ہی ایک مرد ہو جو ان  کمظرف اور نامردوں کو سبق سکھا سکیں کے بےشک خدا نے ان کو عورت پیدا کیا ہے مگر وہ کمزور نہیں ہیں وہ اپنا دفاع کرنا اپنی حفاظت کرنا جانتی ہیں ۔۔ میرے نزدیک عورت کو گھر سے باہر بس اس وقت عورت ہونا چاہیے جب وہ اپنے باپ ، بھائی ، شوہر یا جوان بیٹے کے ساتھ ہے۔ اگر وہ گھر سے باہر تنہا ہے تو اس کو مرد کی طرح ہونا چاہیے تا کہ اپنی حفاظت کر سکے ان کو اپنی حفاظت کے لیے کیسی کو پکارنا بھی نہ پڑے وہ اپنے مسائل سے خود لڑ سکیں ۔۔ عورت کو لمزور نہیں ہونا چاہیے بلکل بھی نہیں ورنہ یہ معاشرہ ان سے جینے کا حق چھیننے میں وقت بھی نہ لگائے گا۔۔

•••••••••••••••

آرے آرے یہ کون آئے ہیں آج ۔۔۔ راستہ تو نہیں بھول گئے تم لوگ ؟؟   یہ آج  اگاور پانی ادھر کیسے آ گئے ۔۔ چاند جیسی صورت والی قیامت کہاں ہے؟؟ عزیزہ  آفتاب جو عمر میں کوئی پنتالیس پچاس کے قریب ایک باروب اور باوقار عورت تھی۔ اپنے سامنے کھڑے دو نوجوانوں کو دیکھ کر خوشی اور ناراضگی سے سوال پوچھنے لگی۔

کیسی نے چاند کی صورت میں قیامت کو یاد کیا کیا؟؟؟ ایم-زی جو اندر آ رہا تھا عزیزہ آفتاب کی  بات سن چکا تھا تبھی ان کے ہی الفاظ میں پوچھا۔۔۔

تم تو مجھ سے بات بھی مت کرو زرا کوئی تھوڑی شرم ہو تم میں ۔۔ ایک تو ملے بغیر چلے جاتے ہو اور پھر جب بھی آتے ہو تو ادھی رات کو چوروں کی طرح آتے ہو مار کھانی ہے کیا؟؟

آپ کو تو پتا ہے سب کہ کدھر ہوتے کب آتے کب جاتے۔۔ ایم-زی نے عزیز ہ کو بہت آرام اور منانے والے انداز میں اپنی بات بتائی ۔

اچھا  اب یہ بتاؤ سب خیریت ہے اس وقت آئے ہو تم تینوں ۔۔۔ عزیزہ نے پریشانی سے پوچھا

 

 

اس وقت ہم کبھی خیریت سے آئے ہیں ؟ سکندر نے پوچھا ۔

ہم لوگ کچھ لڑکیاں لائیں ہے جن کو ملک سے باہر بیچنے کے لیے بھیجا جا رہا تھا۔۔ فاروق نے بات مکمل کی۔

لڑکیاں کدھر ہیں اور کتنی ہیں ۔۔ عزیزہ کی باروب آواز آفس میں گونجی۔

مین روم میں ہیں سب لڑکیاں آنٹی اور میں چاہتا ہوں اب ان سب کو زندگی گزارنے کا ایک نیا موڑ دینا ہو گا۔۔  کیوں کہ ان لڑکیوں کی ہمیں بہت ضرورت ہے ایک خاص مقصد کے لیے ۔ ان سب کی تربیت ایک نا ڈر اور بہادر عورتوں کے طور پر اب اس معاشرے میں لانا ہے ۔ ایم-زی اپنی بات کر کے کمرے میں سے نکل گیا اور اس کے پیچھے ہی عزیزہ، سکندر ،  اور فاروق نکلے تھے۔

••••••••••••

کہاں سے اٹھا کے لائے ہو تم لوگ ان سب کو۔۔۔ عزیزہ غصہ  سے برس پڑی ۔

یہ ہی سمجھ لیں کے ان کو اندھیرے اور خوف کی دلدل سے نکال کے لائے ہیں ۔۔ ایم-زی زخمی مسکراہٹ سے بولا۔۔

ایم-زی ، سکندر ، فاروق کیا تم تینوں اندازہ لگا سکتے ہو کہ وہ سب لڑکیاں کس حال میں ہیں ۔۔ اس قدر ان پر ظلم ہوا ۔ خدا کی قسم اگر یہاں میرے  سامنے وہ حیوان سفت انسان ہوتے تو ایک ایک کو گولیوں سے چھلنی کر دیتی میں ۔۔ عزیزہ غصہ اور زخمی لہجہ میں برس رہی تھی۔ وہ باوقار عورت تھی نہ ڈر تھی مگر ان لڑکیوں کا حال دیکھ کر ان کی آنکھیں غصہ اور غم سے سرخ تھی کہ کس طرح وہ سب حیوانوں کی درندگی کی نظر ہوئی تھی۔۔

اس لیے ان کو ادھر لائے ہیں ہم ۔۔ یہ سب اپنا انتقام بدلہ خود لیں گئ ان کو اتنا مضبوط اور بہادر ہونا پڑے گا کہ ایک ایک درندے کو اپنے ہاتھوں سے مر ڈالیں ان کی اپنی عدالت ہو جہاں یہ خود سزا دیں گی ۔ میں ان کو اتنا مضبوط بنا ہے ۔۔ آپ اس میں ہماری مدد کریں گی۔ ایم-زی نے عزیزہ کو ساری بات بتائی جو وہ چاہتا تھا۔

تم فکر مت کرو ان کو میں وہ بناؤں گی اب کے وہ درندے ان کے سے موت کی بھیک مانگنے گیے۔ بس خدا اس کام میں میری مدد کرے ۔ عزیزہ نے ان لڑکیوں کی طرف دیکھتے ہوئے ایک پختہ اور اٹل لہجہ میں بولا۔

ایم-زی ، سکندر ، فاروق اور عزیزہ  چاروں اہک ساتھ کھڑے ان لڑکیوں کو مستقبل کے لیے تیار کرنے کا منصوبہ بنا رہے تھے۔۔۔

اب اس بات سے کون واقف تھا کہ یہ ان لڑکیوں کو کیا بنا نے والے ہیں اور مستقبل میں یہ لڑکیاں کس کام میں مدد دینے والی تھی ۔۔۔۔

••••••••••••

ہائے میں گر گیا لوٹ گیا برباد ہو گیا تباہ ہو گیا۔۔ ارے آؤ ظالموں اٹھاؤ مجھے ۔ ۔۔ ایان جو سیڑھیوں سے گیرا ہوا تھا اونچی اونچی آواز میں دوہائی دنے میں مصروف تھا۔۔

اس کو جا کے تم اٹھا کے باہر پھینکو گے یا یہ نیک کام میں کروں۔۔ زوریز جو کچن کاؤنٹر کے سامنے  کھڑا  پاستا بنا رہا تھا آیان کی آواز پر جل کر بولا۔

یار کیوں اس بیچارے کے پیچھے پڑا ہے تو۔ دوراب  ہنس کر بولا کیونکہ ایک طرف آیان کے ڈرامے تھے اور دوسری طرف زوریز کا پارا جو اس وقت سوا نیزے پر تھا

اس ذلیل انسان کو ایک کام کہا تھا کھوتا وہ بھی بیڑا غرق کر آیا ہے۔۔  زوریز تپ کر بولا۔۔

آؤ مجھ اٹھاؤ کوئی۔۔۔ آیان نے پھر سدا لگائی۔۔

کیرا مارا رہا۔ اب تیری آواز آئی اٹھا کر باہر پھینکوں گا تجھے میں ۔ زوریز نے غصہ میں بول اٹھا۔

اس نے کیا کیا ہے۔۔ دوراب اپنی ہنسی روکتا زوریز سے پوچھ رہا تھا

خبیث آدمی کو بولا تھا مجھے  اکرم بیلڈیرز کی ساری انفورمیشن چاہیے اور یہ پاگل آدمی شہزاد اکرم کی  سیکرٹری کی انفورمیشن مجھے بھیج رہا ہے ۔۔ زوریز غصہ میں مسلسل بول رہا تھا۔۔

او میرے بھائی گالیاں بعد میں نکل لینا مجھے تو اٹھا لو۔۔ آیان نو زوریز کی باتیں سن رہا تھا مسکین شکل بنا کر بولا ۔

تو جہاں گیرا ہوا ہے ادھر ہی رہے ۔۔ زوریز پھر غصہ میں بولا۔

اچھا یار غصہ تو ذرا کم کر۔۔ میں اس کو جا کر اٹھاتا ہوں۔۔ دوراب اپنی جگہ سے اٹھا جبکہ زوریز میری بلا سے جو مرضی کرو والی نظروں سے دیکھتا واپس اپنے کام میں لگ گیا۔

کتنا ظالم آدمی ہے مجال ہی جو ایک بار آ کے اس نے میرا پاوں دیکھا ہو۔ آیان زوریز کی روٹھی ہوئی بیوی بنے کی ایکٹنگ کرنے لگا۔۔

کیوں تم میری بیوی یا محبوبہ ہو جس کی فکر کروں۔۔ زوریز تپ کر بولا۔

بھائی تو مجھے محبوبہ ہی بنا لے کیونکہ نہ تو مجھے کوئی  ملتی ہے نہ تیری ناک پر کوئی چڑھتی ہے۔۔  آیان نے مسکین شکل بنا کر بولا ۔۔

بات سن میری جیسی تیری حرکتیں ہیں نہ تو یو ہی ٹھیک ہے ایسے ہی کیسی کی بچی پاگل نہیں کرنی ہم نے اور تجھے تو میں  اپنے مجبوبہ تو کیا کام والی بھی نہ بناؤں اتنا  گندہ ٹیسٹ کم سے کم میرا نہیں ۔ زوریز تپ کر بولا ۔

کتنی نہ قدری کرتا ہے یہ میری میں جاا رہا ہوں یہاں سے۔۔ آیان صاحب کا ڈرامہ ابھی تک جاری تھا۔۔

جا جا منٹ لگا نکل یہاں سے۔۔ زوریز تپ کر بولا۔۔

نہیں پاستا کھا کے جاؤں گا میں ۔۔ آیان ڈھیٹ بن کر بیٹھا رہا۔۔

اسکیوز می۔ یار وہ پاستا تو میں کھا گیا۔ دوراب نے بیچ میں ٹانگ اڑائی ۔

کیا۔۔۔ آیان اور زوریز نے ایک ساتھ موڑ کر دیکھا ۔۔

وہ  تم دونوں تو لڑ رہے تھے مجھے بھوک لگی تھی تو بس میں کھا گیا۔۔ دوراب نے اپنی صفائی دی ۔

کتنے سالوں کا بھوکا  تھا تو۔۔  کہ تجھ سے صبر نہیں ہوا۔۔ آیان کو تو ابھی تک صدمہ میں تھا ۔

یار اب تم دونوں اتنا  مزہ کا لڑ رہیے تھے تو میں ساتھ کھاتا گیا پتا ہی نہیں چیلا۔۔ دوراب نے معصومیت کے ریکوڈ توڑے تھے۔

ہیں تو بس اب تم اہم دونوں کے لیے ڈنر بنا رہے ہو دوراب صاحب ۔۔ زوریز نے دوراب کے کندھے پر  بازوؤں پھیلا کر رکھا۔۔۔

نہیں بلکل نہیں ۔ دوراب نے سر نفی میں ہیلایا

جی بلکل جی۔ زوریز اور آیان نے ہاں میں سر ہلایا اور دوراب کو قابو کیا۔۔

اب منظر کچھ یہ تھا ہمارا بے چارہ دوراب کچن میں کھڑا ڈنر بنا رہا تھا ساتھ سنک کی طرف دیکھ رہا تھا کیونکہ زیادہ  نخرے دکھانے پر اس کے ذمہ برتن بھی لگ گئے تھے۔۔۔

زلیلوں کتوں کی طرح تم لوگ لڑ رہے تھے کام مجھ سے کروا رہے ہو۔۔  دوراب کچن سے  غصہ میں بولا۔۔

تو چیسکے لینے والی پھوپھو کی طرح بیٹھ کر  لڑائی انجوائے کرتے پاستا کس نے ختم کیا؟؟ زوریز اور آیان ایک ساتھ بولے۔

اور ادھر دوراب منہ میں بربراتا رہے گیا۔

 

 

 

 

جاری ہے

 

 Note: Don't copy this text file  without pemission 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 


Comments

  1. I read this novel
    It seems interesting and with full of suspense. It's based upon mafia dealers who smuggle drugs,girls and steal things.Hero seems great but mystery isn't solved that what's his business.
    Allover it's a fantastic and interesting novel if you are thriller and romance based reader
    Waiting for next episode.

    ReplyDelete
  2. I LIKE THIS NOVEL SO MUCH PLEASE BATA DIEN IS KI 7 EPISODE KB AYE GI

    ReplyDelete
    Replies
    1. is ki 10 episodes upload ho gaye hain inshaAllah subha episode no 11 bhi upload ho jaye gi

      Delete

Post a Comment