Dasht E Ulfat Novel By Shazain Zainab Episode no 2


 



















بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

 ناول

 

دشتِ الفت

 

شازین زنیب

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

Ep# 2

 

 

 

 

 

 

ماما بابا مجھے نکالیں یہاں سے میرا سانس بند ہو رہا ہے۔۔۔ ماما بابا ادھر بہت اندھیرا ہے ۔۔۔ کوئی جواب تو دیں۔۔۔ ماما بابا۔۔۔۔

وہ اچانک سے اٹھ کر بیٹھ گئی ۔۔ شکر اللّٰہ جی یہ خواب تھا۔ جزا نے اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بولا ۔

پھو سے ڈرا دینے والا خواب اللّٰہ جی پلیز میری فیملی کو ہر مصیبت سے محفوظ رکھیے گا۔۔ جزا نے دعا کی اور اٹھ کر باتھ روم کی  طرف بڑھی ۔

تھوڑی ہی دیر میں وہ تہجد کے لیے نیت باندھ چکی تھی۔۔ جبکہ دل ابھی بھی بہت  زور سے دھڑک رہا تھا کوئی انجانا سا ڈر تھا جیسے کچھ ہونے والا ہو۔۔ اس کے انسوں  خاموشی سے اس کی آنکھوں سے بہے رہے تھے ۔

یوں ہی بھیگی آنکھوں کو ساتھ وہ  دوسری رکعت کے رکوع میں گئی ۔۔ انسوں میں بھی روانی آ گئی ۔

رکوع کے باد سیدھا کھڑی ہوئی تو جیسے اب دل کا ڈر جسم پر ہاوی ہو رہا تھا۔۔۔ وہ سجدے کے لیے بیٹھی تو اس کا وجود تھکا ہوا تھا۔۔ ایک سجدہ کر چکی تھی وہ اب باری دوسرے سجدے کی تھی۔

اور یہاں اس کی ہمت جواب دے گئی یہاں اس کا دل کانپ گیا تھا اس ڈر سے انجانا ڈر تھا وہ۔ اور یہاں وہ اپنے رب کے سامنے سیسک رہی تھی اپنے اندر کے خوف کو سجدے میں باہر نکل رہی تھی۔ اس کا جسم کانپ رہا تھا۔ وہ رو رہی تھی بے تحاشا ۔۔ وہ نہیں جانتی تھی کیوں ۔ وہ سجدے سے اٹھی اس کا جسم نڈھال تھا۔ اس کا خوبصورت چہرہ آنسوؤں سے تر تھا۔  سلام پھر کر دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے ۔۔

ہونٹ کانپ رہے تھے آنکھیں پھر سے برس پڑی تھی۔

یا اللّٰہ بے شک تو ہر شئے پر قدر ہے۔ تو رحم کرنے والا ہے تجھ سے بڑا مددگار کوئی نہیں ۔ تجھ سے بہتر بچانے والا کوئی نہیں ۔ میرے مالک میں گناہگار بندی ہوں تیری۔میرے مولا میں ادنا سی بندی ہوں ۔میرے مالک میں حکیر ہوں۔ تو عظیم ہے میرے اللّٰہ ۔ تو بخشنے والا ہے۔ یا اللّٰہ میں نہیں جانتی میرا دل کیوں ڈر رہا ہے ان خوابوں کا کیا مطلب ہے میرے مالک میرے مولا مجھے بس سخت آزمائش سے بچا لینا میرے اللّٰہ۔ میرے ماں باپ کو میری بہن کو اپنی حفاظت میں رکھے گا اللّٰہ ۔۔۔

وہ دعا منگ کر اٹھی تھی ۔۔ جائنماز رکھنے کے بعد اپنے  کمرے سے باہر نکل کر کچن میں چلی گی

جیسے ہی کچن میں داخل ہوئی تو اس کو لگا جیسے اس نے کچن کے پیچھے والے دروازے کے سامنے سے کیسی کو گزارتے دیکھا ہے جب وہ فوراً اس جگہ گئی تو ادھر کوئی بھی نہیں تھا۔

اف جزا تو پاگل ہو جائے گئی۔ بلی بھی ہو سکتی ہے ۔۔ خود کو ہی کوستی اپنے لیے چائے بنانے کے لیے رکھ دی کیونکہ صبح اس کا پیپر تھا اور اب اس نے سارا ایک بار دہرانا تھا۔

چائے بنا کر اپنے کمرے میں آئی اور اپنے فون سے نور کو کال ملائی۔۔

مسلسل بل جا رہی تھی۔۔ یہ سو مر تو نہیں گئی ۔۔۔ جزا غصہ میں بولی۔۔۔

اور دوبارہ کال کی۔۔۔۔

ہیلو نور کی نیند میں ڈوبی آواز فون پر سے گونجی۔۔۔ جزا کا دل کیا اس کو فون میں سے نکال کر باتھ ٹب میں پھینکے ۔۔۔

کیسی ہے میری جان ۔ جزا تپ کر تنزانیہ بولی۔۔

کون بات کر رہا ہے۔۔ نورنیند میں بمشکل بول پائی۔۔

نورررررررررر ۔۔۔۔ جزا نے اونچی آواز میں نور کا نام غصہ سے لیا کے ساتھ سوئی سویرا اٹھ کر بیٹھ گئی اور غصہ سے جزا کو دیکھنے لگی۔۔

جبکہ کے دوسری طرف نور میڈم مکمل بے ہوش ہو چکی تھی نیند میں ۔۔

کیا مسلہ ہے جزا  ڈرا کر رکھ دیا ہے مُجھے سویرا غصہ سے جزا کو تکیا مارتی پھر سے لیٹ گئی ۔۔

اور جس کو تم اٹھا رہی ہیں نہ مت بھولیں میڈم آپ کی ہی دوست ہے جتنی نیند آپ کو پیاری ہے اتنی ہی اس کو پیاری ہے۔۔ اور آمنہ آپی کو بھی آپ کال نہیں کر سکتی کیونکہ ماشاءاللہ سے وہ بھی آپ دونوں جیسی ہی ہیں ۔۔۔ سویرا اپنی نیند خراب ہونے کا بدلا جزا کو نیند کے تانے مار کر لے رہی تھی

تم میری ماں نہ بنو سمجھ آئی نہ۔۔ جزا نے غصہ سے سویرا کو گھورا۔۔

معاف کریں اتنی نافرمان اولاد مجھے نہیں چاہیے ۔۔۔ سویرا نے بھی ثابت کیا تھا کہ وہ اس کی بہن ہے۔۔

تمہیں تو میں بعد میں ٹھیک کرتی ہوں ابھی میں اس سوتی عوام کو اٹھا لوں۔ جزا غصے میں سویرا پر تکیا واپس پھینکتے بولی۔

اور سویرا نے مقابل اس کو منہ چڑھیا۔۔

•••••••••••••••

رات کو کیا کھا کر سوئی تھی تم۔۔ میں اتنی کالز کی تھی تمہیں ۔۔ ایگزامینیشن ہال پر پہنچ کر جزا نور کے سر پر سوار تھی۔۔ یار وہ میں پڑھتے پڑھتے سو گئی تھی.. نور معصوم شکل بنا کر اپنی صفائی دے رہی تھی ۔۔

 مجھے یہ بتاؤ ذرا کتنا کوئی تم نے پڑھ لیا تھا  جو تم ہوش میں نہیں آ رہی تھی لاش بن کر سوئی ہوئی تھی۔ میں تمہیں کتنی کالز کی تمہیں اندازہ بھی ہے؟؟  تنگ آ کر میں انٹی کی نیند خراب کی کہ اپنی اس اولاد کو اٹھا دیں۔۔ جزا نور پر تپ کر بولی۔

 یار پلیز پیپر کے بعد ذلیل کر لینا مجھے صرف آدھا گھنٹہ پڑا ہے۔ ایک بار سب پوانٹس کو نظر مر لیں ہم دونوں ۔۔۔ نور جزا کے سامنے ہاتھ جوڑے کھڑی تھی کیونکہ اگر وہ جزا کو ابھی نہیں روکے گئی تو پھر شاہد ہی روک پائے گئی۔

تمہیں تو میں پیپر کے بعد منہ نہ لگاوں ۔ اور ایک کام کرنا آج بھی جا کر سو ہی جانا پیپر تمہارے فرشتے دے لیں گے تم ٹینشن مت لینا۔۔ جزا کی اندر کی بھڑاس ابھی تک نہیں نکلی تھی۔

اچھا یہ بک پکڑ اور چپ کر کے پڑھ لے نہ پلیز ۔۔ نور نے اپنے دانتوں کا اشتہار دیتے ہوئے بولی ۔۔

جزا نے غصہ سے بک نور کے ہاتھوں سے چھینی اور اس کو گھوری سے نوازا ۔۔

یہ تمہارے سر پر نہ مار دوں میں ۔۔۔ جزا غصہ سے نور کو دیکھتی کتاب کھول چکی تھی۔

•••••••••••

 

پیپر کیسا ہوا تمہارا۔۔ نور پیپر دے کر ابھی باہر نکلی تھی۔۔  جبکہ جزا باہر اس کے آنے کا انتظار کر رہی تھی اور جیسے ہی نور اس کے پاس آئی اس نے نور سے فوراً پیپر کا پوچھا۔

اچھا ہوا ہے یار بس پیپر دیا بہت لمبا تھا لکھ لکھ کر میرے تو ہاتھ ٹوٹ گئے ہیں ۔۔ نور نے اپنا رونا رویا ۔۔

ویسے اتنا لمبا تو نہیں تھا یار ہر پارٹ میں لکھا تھا کہ اس میں سے اتنے سوال کرنے ہیں ۔۔  اور اتنا زیادہ ٹائم بھی نہیں لگا اور جلدی ہو گیا تھا پیپر ۔۔ میں تو باپر کب سے تمہارا انتظار کر رہی تھی کہ ابھی تک آئی نہیں تم۔۔ ایسا بھی کیا لکھ رہی تھی تم بتانا ذرا ۔۔ جزا نے بہت سکون سے اپنی بات کر کے نور سے سوال کیا جبکہ نور کی شکل اس وقت دیکھنے والی تھی۔۔۔

کیا مطلب ہر پارٹ میں کواسچنز میں چوائس تھی؟؟؟؟ نور نے مکمل  حیرت سے پوچھا ۔۔

ہاں یار مختصر سوالوں میں کوئی سے چھ کرنے تھے، تشریح کوئی سے دو اشعار کی کرنی تھی۔ خلاصہ کوئی ایک کرنا تھا۔ مضمون بھی کوئی ایک لکھنا تھا۔ اور کوئی سے 5 الفاظ کر جملے بنانے تھے۔ اور کیسی ایک سبق کا سیاق و سابق لکھنا تھا۔۔ جزا نے نور کو سارے پیپر کے بارے میں بتایا جبکہ نور کی شکل رونے والی ہو گئی تھی۔۔

ان لوگوں نے میرے ساتھ دھوکا کیا ہے ۔۔ نور حیرات کے مارے بہت مشکل سے بولی۔

تو تو سارے کا سارا پیپر لکھ کر آئی ہے؟.. جزا نے حیران ہو کر نور سے پوچھا۔

ہاں۔۔۔ ہاں ۔۔ نور نے فوراً بولا۔

کیا واقع ہی ۔؟  جزا نے سوالیہ انداز میں پوچھا اور پھر اس کا قہقہہ پورے ہال میں گونجا۔۔

نور بی بی زیادہ پڑھ آئی تھی کیا ؟ یا پیپر بہت زیادہ آتا تھا؟ جو سارے کا سارا پیپر ہی لکھ آئی ہو تم۔ جزا  ہنستے ہوئے نور سے پوچھ رہی تھی اور نور کھا جانے والی نظروں سے اس کو دیکھ رہی تھی۔

اگر تم اور ہنسی نہ تو یقین کرو میں تمہارے سر میں کچھ دے ماروں گی ۔۔ نور سرخ چہرے سے بولی اس کو تو یہ ہی غم کھائے جا رہا تھا وہ سارے کا سارا پیپر لکھ آئی ہے اس نے پیپر دھیان سے کیوں نہیں پڑھا۔۔۔

ہاہاہا ۔۔۔ میں کہاں ہنس رہی ہوں یار ۔۔ جزا نے منہ پر  ہاتھ رکھ کر اپنے اٹھتے قہقہہ کو روکا ۔۔

جزااااا۔۔ نور نے جزا کی کمر میں مکا دے مارا اور نہ چاہتے ہوئے بھی جزا کا قہقہہ  پھر سے ہال میں گونجا۔۔۔

•••••••••••••

مجھے معاف کر دو ذیک پلیز میری جان بخش دو ۔۔ دیکھو میں پھر سے ایسا کوئی کام نہیں کروں گا ذیک ۔۔۔۔

وہ شخص اس کے قدموں میں بیٹھا اپنی زندگی کی بھیک مانگ رہا تھا۔۔

ذیک نے اس شخص کے چہرے کو اور پھر اس کی حالت کو دیکھا جو کافی دن تشدید جھلنے کے بعد ہو گئی تھی۔۔۔۔ اس وقت وہ اپنی حالت سے کہیں سے بھی ایک امیر کبیر بیزنیس مین نہیں لگ رہا تھا۔۔۔

دیکھیں مسٹر رؤف میں آپ کو پہلے ہی تین بار اس کام کو روکنے کا بول چکا ہوں۔۔ اور آپ کو تو پتا ہے جب میں بول دوں کہ ہہ آخری بار روکنے کا کہا رہا ہوں اس کے بعد آپ کو اپنے حال کا ذمہ خود لینا ہو گا تو مطلب وہ آخری بار ہی ہوتا ہے کیونکہ اس کہ بعد میرا ڈان موڈ آن ہو جاتا ہے نہ کیا کروں میں ۔۔۔۔ ذیک نے اپنے سامنے بیٹھے شخص کے کندھے کو اپنے ہاتھ سے بہت زور سے دبا کر ایک ایک الفاظ ایسے سکوں سے بولا کہ سامنے والے کو اپنی کمر کی ہڈی میں سرسراہٹ پیدا ہوتی محسوس ہوئی۔۔

ذیک خدا کے لیے رحم کرو مجھ پر۔۔ اس نے ہاتھ جوڑ لیے تھے۔

اچھاااااااا۔۔۔ ذیک نے بہت تنزایا مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔۔

چلو آؤ تم پر رحم کرتا ہوں میں ۔۔ ذیک نے رؤف کو گریبان سے پکڑ کر اٹھایا اور اپنے ساتھ گھسیٹتا ہوا لے کر گیا۔۔

ایک کمرے کا دروازا کھل کر اس کو کمرے میں پھینکا اور خود بھی اس کمرے کے اندر گیا۔۔

کمرے میں ایک میز رکھا کوئی تھے جس کے اطراف چار کرسیاں تھی۔ اور سامنے دیوار پر ایک بڑی سی ال-سی-ڈی لگی تھی۔ اور ساتھ ہی ایک اور میز رکھی تھی جس پر مختلف قسم کے تیزاب اور ہتھیار اور اوزار پرھے تھے۔۔

روف نے سارے کمرے کو دیکھ کر ایک خوفزدہ سی نظر اپنے پیچھے سے آتے ذیک پر ڈالی تھی ۔۔

ہاں تو رؤف صاحب آپ نے کہا تھا آپ پر رحم کروں میں ۔۔۔ ایسا ہی کہا تھا نہ آپ نے؟ اس نے تنزایا انداز میں اپنے سامنے بیٹھے آدمی کو مخاطب کیا۔۔

ذیک مجھے چھوڑ دو اس میں تمہاری ہی بھلائی ہے ورنہ بیسٹ تمہیں مار دے گا۔۔ رؤف نے تھوڑی ہمیت کر کے ذیک کو دھمکی دی۔۔

ہاہاہاہاہاہا ۔۔ واقع ہی بیسٹ مجھے مار دے گا۔۔ او ہار کیا کہوں میں تمہیں ۔۔۔ ویسے ایک بات بولوں آج تک میں کیسی کے ساتھ اتنا آرام سے پیش نہیں آیا جتنا تمہارے ساتھ آ رہا ہوں۔۔ اور پتا ہے کیوں کیونکہ تمہارے لیے ایک کمال کا سرپرائز ہے میرے پاس دیکھو گے۔۔ ذیک کی آواز میں کچھ تھا جس سے رؤف نہ چاہتے ہوئے بھی ڈر رہا تھا۔۔

ذیک نے ال-سی-ڈی آن کی اور جو منظر روف نے سکرین پر دیکھا  تھا نہ چاہتے ہوئے بھی روف کا  ہاتھ دل کہ مقام پر گیا۔۔

ہاں تو کیسا لگا سرپرائز ڈان کی طرف سے۔ اب پتا چلا جب لمحوں میں آپ کا سب کچھ برباد ہو جائے تو کیسا لگتا پے۔۔ جب آپ کا سب کچھ تباہ ہو جائے تو کیسے اذیت ہوتی ہے۔۔ ذیک نے اس کے بالوں کو مٹھی میں جکر رکھا تھا اور آواز میں بلا کا سرد پن تھا۔

ذیک رحم کرو مجھ پر دیکھو تم سب تباہ تو کر چکے ہو مجھے بخش دو۔۔۔ رؤف ہاتھ جوڑ کر التجاء کر رہا تھا۔۔۔

رحم تم پر واقع ہی؟؟ تمہیں ان معصوم لڑکیوں پر رحم آیا جن کو تم نے اور تمہارے ساتھیوں نے اپنی  درندگی کا نشانہ بنایا تھا۔ ان نوجوانوں پر رحم آیا جن کو نشے کا عادی بنایا ۔۔ ان بچوں پر رحم آیا جن کو یتیم کرنے میں تم نے ایک لمحہ نہ لگایا۔۔  تم پر رحم کروں میں تم جیسے ایک درندے پر رحم کروں تم رحم کے لائق ہو؟۔۔ ذیک نہ اس کے بالوں کو اپنی مُٹھی میں جکر رکھا تھا  اور ایک جھٹکے سے اس کے بالوں کو چھوڑا تھا۔۔

رؤف کو اپنی گردن کی ہڈی ٹوٹتی محسوس ہوئی۔۔

ذیک کے ہاتھ میں ایک باریک اور تیز دھار آلے کو دیکھ کر رؤف کو اپنی موت بہت نزدیک لگی تھی۔۔

ذیک اگر تم نے مجھے مار دیا تو بیسٹ تمہیں چھوڑے گا نہیں ابھی بھی وقت ہے روک جاؤ ۔۔ اس نے اپنی جان بچانے کے لیے آخری ہتھیار استعمال کیا۔

فکر مت کریں رؤف صاحب آپ کے ٹکڑے بیسٹ کو ہی بھیجوں گا ۔ ذیک کا پر سکون لہجہ رؤف کی جان نکالنے کو کافی تھا۔

ذیک نے اپنے ہاتھ میں پکڑا وہ تیز دھار آلا رؤف کے جسم پر چلانا شروع کیا۔ وہ آلا کیسی سانپ کی طرح اس کے جسم پر رینگ رہا تھا۔ اور پورے بیسمنٹ میں رؤف کی چیخیں سنائی دے رہی تھی۔۔

رؤف کا پورا وجود خون سے تر تھا اور ذیک کا ہاتھ بھی خون سے بھرے ہوئے تھے۔ رؤف نیم مردہ حالت میں ذیک کے ہاتھ میں ایک انجیکشن دیکھ کر کچھ حوش میں آیا ۔۔

نہ۔۔۔ نہی۔۔۔۔ نہیں ذیک ۔۔۔ رؤف نے بمشکل الفاظ ادا کیے ۔۔

ہاہاہاہاہاہا ۔۔۔ آف میں کیا بتاؤں تمہیں کہ تمہاری یہ بےبسی مجھے کتنا سکون دے رہی ہے۔۔۔ وہ  رؤف کی بےبسی پر ہنس رہا تھا۔۔۔۔۔

ذیک نے سانپ کے زہر سے بھرا انجکشن اس کی شہ رگ پر رکھا ۔۔

پوچھو گے نہیں اس میں کیا ہے؟  چلو میں بتا دیتا ہوں اس میں کیا ہے اس میں انلینڈ تائپن کا زہر ہے۔ جو سب سے زیادہ زہریلا سانپ ہے۔۔ مجھے یقین ہے کہ یہ زہر تمہارے اندر کے درندے کو سکون دے گا۔۔۔۔ ذیک پُرسکون ہو کر رؤف کے چہرے کو دیکھ رہا تھا جو موت کے ڈر سے سفید ہو گیا تھا۔

ذیک نے وہ انجکشن اس کی شہ رگ پر رکھ کر سارا زہر اس کی شہ رگ میں اتار دیا۔۔ اور چند لمحوں میں رؤف کی روح اس کے جسم سے آزاد ہو چکی تھی۔۔  

یہ تھا اختتام ایک امیر کبیر بیزنیس مین کا جس کو ایک دنیا جانتی تھی۔۔ مگر اس کے سیاہ کاموں نے اس کا کیا انجام کیا تھا۔۔ ایسے ہی تو نہیں کہتے جب ظالم کے ظلم کی حد ہو جائے تو اس کا اختتام بہت خوفناک ہوتا ہے جیسے رؤف کا ہوا۔۔

اس کو ادھر سے لے جاؤ اور اس کے ٹکڑے کر کے اس کے ٹھکانے پر بھیج دو اور جگہ کو صاف کرو ۔ ذیک اپنے ایک آدمی کو آڈر دے کر ادھر سے نکل گیا۔۔

••••••••••••••••

ڈیڈ مسڑ روف سے کوئی کنٹیکٹ ہوا کہ نہیں ۔۔ شہزاد نے اکرم صاحب کو مخاطب کیا۔۔

نہیں کب سے کوشش کر رہا ہوں نہیں ہو رہا پتا نہیں کدھر مرا ہوا ہے ۔ اِدھر اگر بیسٹ کو پتا چل گیا یہ سب کچھ تونہ جانے وہ کیا حال کرے گا۔۔ اکرم صاحب پریشانی سے بولے۔۔

رؤف نے تو بولا تھا اس ٹھکانے کا ڈان کیا فوج کو بھی  پتا نہیں چلے گا مگر ادھر تو سب جل کر راکھ ہوگیا ہے ۔۔۔ عثمان صاحب پرسوچ انداز میں بولے۔۔

میں پہلے ہی کہا رہا تھا رؤف پر اتنا یقین مت کرو دیکھ لیا نتیجہ کروڑوں کا نقصان ہوا ہے لڑکیاں پتا نہیں کدھر ہیں رؤف کا کچھ پتا نہیں بیسٹ کے آگے ہم نے جواب دیںا ہے وہ تو ہم سب کو کچا چبا جائے گا۔۔ عمران لغاری آفس میں داخل ہوتے ساتھ ان سب پر پھٹ پڑا ۔۔

دیکھو عمران نقصان صرف تمہارا نہیں سب کا ہوا ہے اور مصیبت میں بھی سب ہیں ۔۔ عثمان صاحب نے عمران صاحب کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی ۔۔۔

تم کیا سوچ رہے ہو شہزاد ۔۔ اکرم صاحب نے اپنے جوان بیٹے کو خاموش دیکھ کر بولیا۔۔

شہزاد اکرم گندمی رنگت والا سیاہ آنکھوں والا ایک خوبصورت  مرد تھا اس کی پرسنلیکو دیکھ کر کوئی بھی لڑکی اس سے محبت کر سکتی تھی۔ اونچا لمبا قد، جم کرنے کی وجہ سے اچھی جسامت کا مالک تھا۔ ذہین اور بہت اچھا فائٹر تھا۔۔ وہ کیسی بھی لڑکی کا آئیڈیل ہو سکتا تھا۔۔ بس اس میں ایک چیز جو بری تھی وہ یہ کہ وہ اپنے باپ کے ساتھ اس کے کام میں شامل تھا۔۔۔

کچھ نہیں ڈیڈ میں بس یہ سوچ رہا ہوں اگر وہ لڑکیاں گودام میں نہیں ہیں آس پاس کے علاقوں میں نہیں ہیں تو پھر ہیں کہاں؟ کیونکہ ان میں سے کیسی میں بھی اتنی ہمت نہیں کہ بہت دور تک بھاگ سکیں۔۔ اگر تو وہ آرمی کے ہاتھ لگ گئی یا ڈان کے آدمیوں کے ہاتھ لگ گئی تو بہت بڑی مصیبت بن سکتی ہیں ۔۔ ہمارے لیے پریشانیاں بہت زیادہ ہو جائیں گئی ۔۔ اس لیے کچھ بھی کر کے سب سے پہلے ان لڑکیوں کا پتا لگانا ہو گا کہ وہ کدھر ہیں جہاں بھی ملیں ان کو مرنا ہوگا۔۔  شہزاد نے اپنی بات سب کے سامنے رکھی۔۔

یار مسئلہ ہی یہ ہے کہ پتا کہاں سے لگوائیں ۔۔ عثمان صاحب کا بیٹا نواز بولا تھا۔

جن کتوں کو پال رکھا ہے کیا ان سے مفت کی روٹیاں توڑوانی ہیں ؟؟ شہزاد نے نواز اور نوریز کو گھور کر دیکھا۔۔

اپنے اپنے آدمیوں کو کہو کتوں کی طرح گلی گلی چھان ماریں مگر کیسی بھی صورت ان لڑکیوں کا پتا چلنا چاہیے ۔۔ سمجھ آ گئی ؟؟ شہزاد نے ایک نظر ان پر ڈالی اور باہر جانے کے لیے بڑھا ہی تھا کہ اکرم صاحب کا فون بج اٹھا۔۔

شہزاد نے سوالیہ نظروں سے اکرم صاحب کو دیکھا مگر ان کے چہرے کے رنگ کو دیکھ کر کچھ سمجھتے ہوئے اس نے ان کے ہاتھ سے فون لے کر کال اٹینڈ کی۔۔

ہیلو...... شہزاد نے کال اٹینڈ کرتے ساتھ بولا۔

ہیلو شہزاد اکرم لگتا ہے باپ ڈر گیا ہے تمہارا جو اس بار فون تمہیں دے دیا ہے اس نے ۔۔ ذیک کی باروب آواز فون کے سپیکر میں سے گنجی ۔۔

تم۔۔۔۔۔ شہزاد نے کچھ بولنا چاہا ۔۔

ارے آرے شہزاد صاحب غصہ کم کریں اور ذرا گور سے میری بات سنے۔۔ پہلی بات تو یہ کہ اس آفس کے باہر تھوڑا آگے ایک درخت ہے ادھر تم سب کے لیے ایک تحفہ ہے جو تم لوگ بیسٹ کو دو گے جا کر۔ دوسری بات جس آفس میں تم سب اکھٹے ہوئے ہو اس آفس میں بم ہے اب چاہو تو اپنی جان بچا لو یہ مجھ سے بھس کر لو۔۔ ہاہاہاہاہاہا ۔۔ ذیک کا جاندار قہقہہ فون پر سے گنجا۔۔

ہیلو ہیلو ۔۔۔ شہزاد ہیلو کرتا رہ گیا جب کہ دوسری طرف سے کال کاٹ دی گئی تھی۔۔۔

بھاگو سب یہاں سے نکلو سب ادھر  سے ابھی کے ابھی اس آفس میں بم ہے۔۔ شہزاد نے سب کے سر پر دھماکہ کیا تھا۔۔

شہزاد یہ تم اس سے پہلے اکرم صاحب اپنی بات پوری کرتے عثمان صاحب بولے یہاں پر ساری رقم جمع ہے ۔۔  انکل حوش سے کام لیں زندہ نہیں رہیں گے تو اس رقم کا کیا کریں گے پہلے اپنی زندگی تو بچا لیں۔۔ شہزاد چیچ اٹھا۔۔

اور ان سب نے  باہر کی طرف دوڑ لگا دی۔۔۔۔ سب ورکرز کو نکالو باہر ۔ جلدی کرو بم ہے ادھر۔ اور الگے چند لمحوں میں آفس کھالی تھا۔۔۔

مجھے لگتا ہے اس نے ہمیں بیوقوف بنایا ہے اور تم  ہمیں  نواز  کی بات ابھی منہ میں  ہی تھی کہ ایک زوردار دھماکہ نے اس کی بولتی بند کر دی۔۔۔

تمہیں لگتا ہے وہ ہمارے بچپن کا دوست ہے نہ جو ہمارے ساتھ مزاق کرے گا۔۔ شہزاد نے دات پیس کر نواز کی طرف دیکھا۔۔ اس وقت شہزاد کی آنکھوں میں خون اترا ہوا تھا۔۔۔

اکرم صاحب ، عثمان صاحب اور عمران صاحب کے تو کاٹو تو لہو نہ ہو جسم میں والا حال تھا۔۔

شہزاد نے آس پاس نظر دوڑائی تو اس کو ایک درخت کے نیچے بیگ نظر آیا ۔۔ میرے ساتھ آؤ آپ سب ۔ شہزاد نے سب کو اپنے پیچھے آنے کے لیے بولا۔۔  

یہ بیگ کس کا ہے۔۔ نوریز نے پوچھا۔۔

میرا ہے گھر سے لایا تھا ادھر چھوڑ دیا۔۔ شہزاد پھار کھانے کو دوڑا۔۔

اچھا اچھا ریلیکس یار میں تو بس پوچھ رہا تھا۔۔  نوریز نے شہزاد کے تیور دیکھ کر بات بدلی۔

شہزاد بیگ کھولنے کے لیے آگے بڑھا ہی تھا کہ اکرم صاحب نے روک لیا۔۔ شہزاد مت کھولو کہیں اس میں بھی کوئی بم نہ ہو۔۔ ڈیڈ اگر اس میں بم ہوتا تو ابھی تک پھیٹ چکا ہوتا  یہ شاید وہ ہی تحفہ ہے جو ذیک نے بیسٹ کے لیے بھیجا ہے۔۔ شہزاد نے بیگ کی زیپ کھولتے ہوئے بولا۔۔

زیپ کھولتے ساتھ ہی ایک عجیب سی بدبو اٹھی تھی۔۔۔ سب نے اپنے ہاتھ منہ پر رکھ لیے مگر جیسے ہی بیگ میں پرے روف کے جسم کے ٹکڑوں اور سر پر گئی سب کی آنکھیں ڈر اور خوف سے باہر آگئی تھی۔۔۔

بیسٹ ہمیں جان سے مار ڈالے گا ۔۔ اکرم اور عثمان صاحب کے منہ سے ایک ساتھ ایک ہی الفاظ نکلے تھے ۔۔

••••••••••••••••

دراب بھائی آپ کو ڈیڈ نیچے بولا رہے ہیں ۔۔ آمنہ آ کر اپنے باپ کا پیغام دے کر یہ جا وہ جا ہوئی تھی۔۔

یہ لڑکی ہمیشہ ہوا میں ہی سوار ہوتی ہے۔۔ دوراب اس کی سپیڈ دیکھ کر بولا اور سیڑھیوں کی طرف بڑھا ۔۔۔

مگر جیسے ہی ڈرائنگ روم میں قدم رکھا تو اپنے ماں باپ اور تایا تائی کو دیکھ کر اس کو کچھ کھٹکا تھا۔۔ آپ نے بولیا تھا ڈیڈ۔۔ دوراب نے اندر آتے ساتھ اپنے باپ کو مخاطب کیا۔

آجاؤ برخوردار بیٹھو اِدھر کچھ ضروری کام تھا اس لیے بولیا تھا تمہیں ہم نے۔۔  کامران صاحب نے دوراب کو اپنے پاس بیٹھیا ۔۔

جی ڈیڈحکم کریں آپ ۔ وہ بولا۔

حکم میں نہیں تمہارے بڑے ابو کریں گئے کیونکہ وہ اس گھر کے بڑے ہیں مسڑ ۔ کامران صاحب نے دوراب کا کندھا تھپتھپاتے ہوئے کہا۔۔

دوراب ہم سب چاہتے ہیں اس سے پہلے کہ تم دوبارہ اپنے کام میں مصروف ہو اور واپس جاؤ تمہارا اور نور کا نکاح کروا دیا جائے کیا کہتے ہو؟؟ احسن صاحب نے اپنی بات مکمل کر کے دوراب کی طرف دیکھا۔۔

دوراب بمشکل اپنے منہ پر سنجیدگی لاتے ہوئے بولا ۔ آپ مجھ سے کس چیز کی اجازت لے رہے ہیں بڑے ابو اگر آپ چاہتے ہیں تو بس بسم اللہ کریں ۔۔

ماشاللہ بہت بہت مبارک ہو پھر اس جمعہ  نور اور دوراب کا نکاح ہو گا بادشاہی مسجد میں جمعہ کی نماز کے بعد ۔۔ احسن صاحب نے نکاح کا دن اور وقت بتا کر اٹھ کر اپنے بھائی اور اپنے داماد جو داماد کم اور بیٹا زیادہ تھا اس کو گلے لگایا ۔۔۔ اور دوسری طرف روحا بیگم اور امل بیگم نم آنکھوں سے ایک دوسرے کے گلے لگی اور مبارک باد دی آخر ان کی دلی خواہش جو پوری ہوئی تھی ۔۔ پھر دونوں نے دوراب کو گلے لگایا اور اس کے منہ کو گلاب جامن سے بھر دیا۔۔

آمنہ جو باہر کھڑی سب سن رہی تھی اس نے نور کے کمرے کی طرف دوڑ لگا دی آخر کار ایک اچھی دوست اور کزن اب کنفورم بھابھی ہو گئی تھی۔۔

دوراب سب سے اجازت لے کر اپنے کمرے کی طرف بڑھا آخر کب تک اپنی اٹھتی خوشی کو چھپاتا ۔۔ کمرے میں جاتے ساتھ سب سے پہلے سجدے میں گیرا ۔۔ اپنے خالق کا شکر ادا کیا جس نے اج اس کی محبت کو نکاح تک پہنچیا تھا۔ سجدے سے اٹھ کر گروپ میں  زوریز اور آیان کو میسج کیا کہ تم دونوں جدھر بھی مرے ہو مجھے ٹھیک  دو گھنٹے میں مونال میں نظر آؤ ۔۔ اور اس کے بعد بیڈ پر گرنے والے انداز میں لیٹ گیا۔۔ دوراب کو سمجھےئ نہیں آ رہی تھی وہ اپنی خوشی کا کس طرح اظہار کرے۔۔ کبھی تکیے میں منہ کو چھپا رہا تھا تو کبھی کروٹ بدل رہا تھا ۔۔ وہ شاید پہلا دولہا تھا جس سے اس کے نکاح کی خوشی ہی نہیں سنبھالی جا دہی تھی۔۔

اِدھر آمنہ نور کے کمرے میں اس کو جگانے میں ہلکان ہو رہی تھی۔۔ وہ جو اپنے پیپر سے آج ہی فارغ ہوئی تھی۔۔ اور آپنی نیند سے انصاف کر رہی تھی۔۔ وہ نیند کی دیوی کیسے اٹھتی اتنی آسانی سے۔۔ تنگ آ کر آمنہ نے پاس پرے پانی کے جگ میں سے گلاس میں پانی ڈالا اور ںور کے منہ پر پھینک دیا۔۔

نور ہربرا کر اٹھی اور جیسے تھوڑا حوش آیا  آمنہ کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھنے لگی۔۔

آرے آرے بھابھی جان ایسے نہ دیکھیں پلیز ۔۔ آمنہ نے آگے بڑھ کر نور کے گلے میں اپنی باہوں کا ہار بنا کر اس کو گلے لگایا ۔ نور نے بھی فوراً اس کو خود سے دور کیا۔۔ نہیں ہوں میں تمہاری بھابھی جب دیکھو تمیارا بھائی چھوڑ جاتا ہے ۔۔ نور نے بھیگے لہجہ میں آمنہ سے شکوہ کیا۔۔ اچھا ویسے ایک اڑتی اڑتی خبر میرے کان میں پڑھی ہے وہ کیا تھی کیا تھی ہاں کیسی کے نکاح کی خبر تھی پر خیر تم سو میں چلتی ہوں۔۔ آمنہ نے نور کو نظر انداز کرنے کی بھرپور اداکاری کی تھی۔

آس کی بات سن کر نور جو ادھےحوش میں تھی مکمل حوش میں آگئی ۔۔

کیا کس کا نکاح مجھے بتاؤ نہ گھر میں شادی ہے کیسی کی۔۔ جلدی کرو۔ وہ فوراً اٹھ کر آمنہ کے پیچھے بھاگی اور اس کو واپس اپنے کمرے میں گھسیٹا۔

وہ نہ دوراب بھائی کا نکاح تہ ہو گیا ہے۔۔ آمنہ نے اپنی شرارتی مسکراہٹ چھپا کر سنجیدہ ہو کر بولا۔

جبکہ نور اس بات پر ہی روک گئی کہ دوراب کا نکاح تہ ہو گیا ہے۔۔

دوراب کا نکاح کس سے تہ ہوا ہے؟؟ وہ ہمت کر کے بولی۔۔

یار جہاں انہوں نے اپنا بزنس سیٹ کر رکھا ہے وہاں انہیں ایک لڑکی بھی پسند آ گئی تھی۔۔ تو بس آج صبح سب میں بول دیا کہ ان کو اس سے نکاح کرنا ہے۔ آمنہ ایسے سکون سے بول رہی تھی جیسے نور کو چاول ابالنے کا طریقہ بتا رہی ہو۔

نہیں ایسا نہیں ہوسکتا دوراب ایسا نہیں کر سکتے تم جھوٹ بول رہی ہو۔۔ میں ابھی دوراب سے جا کر پوچھتی ہوں۔۔ ںور خود پر قابو رکھنے کی ہر ممکن کوشش کر رہی تھی۔۔

یار میں جھوٹ بولوں گئی؟؟  بےشک خود جا کر پوچھ لو دوراب بھائی نے نکاح کے لیے بات کی تھی اور سب بڑوں نے  ہامی بھی بھری ہے۔۔ آمنہ تیل چھڑک چکی تھی۔۔

روکو تم میں امی اور بڑی امی سے پوچھتی ہوں پتا نہیں کیا بق رہی ہو تم۔ نور اپنے انسو صاف کرتی باہر کی طرف بڑھی تھی۔۔ آمنہ نے بھی نور کہ پیچھے دوڑ لگائی۔

بڑی امی ماما بات سنے میری یہ آمنہ کیا کہا رہی ہے دوراب نے آپ لوگوں سے کیسی اور سے نکاح کی بات کی ہے اور آپ سب لوگ مان گئے ہو۔ وہ اپنی ماں اور چچی سے پوچھ رہی تھی۔۔

روحا بیگم اور امل بیگم پیچھے سے آمنہ کی منت والے اشارے سمجھ چکی تھی کہ یہ محترمہ کوئی تماشا کر چکی ہیں اب انہوں نے اس مزاق میں اس کا تھوڑا ساتھ دینا ہے ۔ دوسرا نور کے سوال سن کر ان کو یہ اندازہ تو ہو گیا تھا کہ شاید آج کیسی کی خیر نہیں ہے۔

وہ نور بیٹھا یہ بات سچ ہے اب ہمیں مجبوراً ہامی بھرنی پڑی ہے ۔۔ امل بیگم نے اپنی بیٹی کو سمجھنے کی کوشش کی اور اور ساتھ اپنی ہنسی بھی چھوپا رہی تھی جبکہ دل آمنہ کو تھپڑ لگانے کا کر رہا تھا اور کچھ یہ ہی حال روحا بیگم کو بھی تھا کیونکہ ان کو پتا تھا ان کی یہ نالائق اولاد کیسی تماشہ کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی ۔

آپ لوگ ایسے کیسے کر سکتے ہیں آپ لوگ سب جانتے ہوئے بھی کیسے مان گئے بڑی امی آپ کیسے مان گئی آپ سب نے میرے ساتھ ناانصافی کے ہو وہ میرا حق ہے میرا صبر ہے وہ میں اتنے سال اس کے انتظار میں رہی ہوں اور رہ رہی ہوں آپ لوگوں کو فیصلہ کرتے مجھے پر ترس بھی نہ آیا ماں تو بیٹی کہ دل کے حال سے واقف ہوتی ہے میری دو مائیں تھی اُدھر وہ بھی میرے حق میں نہ لڑ سکی ۔ کیوں کیا آپ لوگوں نے ایسا ۔۔ بولیں نہ۔ نور روتے ہوئے اپنی دونوں مائوں سے جواب مانگ رہی تھی اس میں کوئی شک نہ تھا کہ روحا بیگم نے نور کو ماں کے جیسا پیار نہ دیا ہو ان کو اپنے دوراب کے بعد نور پیاری تھی پھر ان کی خود کی بیٹی ۔ اب نور کی یہ حالت اور باتیں سن کر ان کا دل کر رہا تھا کہ آمنہ کو کمرے میں لے جا کر ذرا اچھی سی خوراک دے دیں ۔۔

نور بیٹا ہم مجبور تھے۔۔ امل بیگم اپنی بات پوری کرتی  نور بول اٹھی نہیں ماما  مجھے اب جواب دوراب ہی دیں گئے میں انہیں معاف نہیں کروں گی۔۔ یہ کہہ کر نور واپس اپنے کمرے میں چلی گئی ۔۔

اس سے پہلے آمنہ ادھر سے جاتی اس کا ایک کان امل بیگم اور ایک کان روحا بیگم کے ہاتھ  میں تھا۔

آپ کدھر جا رہی ہیں محترمہ ۔۔ ذرا بات تو سن لیں ۔۔ روحا بیگم نے تو بچاری کا کان مور ہی دیا تھا۔

ائی ماما میرا کان چھوڑ دیں پلیز میں کچھ نہیں کیا۔ یار قسم لیں صرف چھوٹی سے شرارات کی ہے میں نے ۔ آمنہ معصومیت کے ریکارڈ توڑتے ہوئے بولی۔

اتنے میں احسن صاحب اور کامران صاحب بھی ٹی-وی لاؤنج میں آئے اور سامنے آمنہ کو اپنی ماں اور تائی کے ہاتھ دیکھ کر روک گئے ۔۔

آرے امل بیگم ، روحا بھابھی بچی کا کان چھوڑیں کیا کر رہیں ہیں آپ لوگ۔۔ احسن صاحب آمنہ کی مظلوم شکل دیکھ کر بول پڑے ۔۔

بھائی کوئی بچی نہیں ہے یہ آفت ہے پوری ابھی اس کے بھائی کا نکاح ہوا نہیں آگ پہلے لگا دی ہے اس نے۔ روحا بیگم نے اس کا کان چھوڑ کر بازو پر تھپڑ مارا۔۔

ایسا کیا کر دیا ہے ہماری بچی نے احسن صاحب نے روحا اور امل بیگم کی طرف دیکھ کر پوچھا جبکہ کامران صاحب خاموش کھڑے تھے وہ جانتے تھے اپنی بیٹی کو گھر میں ہر الٹے کام میں پیش پیش ہوتی تھی پھر جب ڈانٹ کی باری آتی تو سیدھا اپنے بڑے ابو کہ پاس جاتی تھی اس وجہ سے کامران صاحب سکون سے بیٹھ کر اب شو دیکھنے لگے تھے جو ہونے والا تھا۔۔

میں بتاتی ہوں بڑے ابو میں معصوم سی بچی صرف چھوتو سا مذاق کیا ہے میں نے یہ دونوں تو مجھے مارنے کو آگی ہیں مجھ سے تو کیسی کو پیار ہی نہیں ہے آپ کے علاوہ۔۔۔ یہ کہتے ساتھ ہی وہ احسن صاحب کے گلے لگ کر رونے کا ڈرامہ کرنے لگی۔۔ اور احسن صاحب کو بھی اندازہ ہو گیا تھا  کہ آج پھر سے اس کی ماں کی جوتی سے اس آفت کو بچینا ہے ۔

بھائی اس کی بات پر بلکل مت جائیں یہ عقل سے پیدل لڑکی نور کو بول کر ائی ہے کہ دوراب کا نکاح کیسی اور سے تہ ہوگیا ہے اب وہ بچاری الگ رو رہی ہے اور دوراب کی شامت الگ آنی ہے۔۔ روحا بیگم نے آمنہ کو گھورتے ہوئے ساری بات بتا دی۔۔

پانی پیتے کامران صاحب کے ہاتھ سے گلاس گرتے گرتے بچا جبکہ احسن صاحب کامران صاحب کو دیکھ رہے تھے اور کامران صاحب نے ایسے نظر انداز کیا جیسے کہہ رہے ہوں میں تو جانتا ہی نہیں ہو آپ کی لاڈلی ہے اب خود سنبھالوں ۔۔۔

میں نےصرف مذاق کیا ہے روحا بیگم آپ کے بیٹے کا کیسی اور کے ساتھ نکاح نہیں کروا دیا۔۔ وہ بھی آمنہ تھی کب تک اپنی زبان کی کھجلی پر قابو کرتی۔۔

ادھر روحا بیگم نے جوتی اپنے ہاتھ میں پکڑی اُدھر آمنہ نے اپنے کمرے کی طرف دوڑ لگا دی۔۔

نالائق لڑکی تنگ کر رکھا ہے اس نے مجھے۔۔ ایسی زبان کے ساتھ کوئی نہیں لے کہ جائے گا تمہیں باز آ جاؤ تم۔ روحا بیگم اس کے کمرے کا بند دروازہ دیکھ کر بول رہی تھی ۔۔

ماما ایسا لڑکا لینا ہی کیوں ہے جو مجھے جھیل نہ سکے جس نے لے کہ جانا ہے وہ مجھے یو ہی لے کے جائے گا۔ وہ کہاں چپ رہتی تھی ماں کا بی پی ہائی رکھنے کا ٹھیکا اٹھا رکھا تھا اس اکیلی جان نے۔۔

روک جا بےشرم کوئی شرم حیا نہیں بچی اس لڑکی میں ۔۔ اور روحا بیگم کے ہاتھ سے اب کے جوتا آزاد ہوا تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ جوتا آمنہ کے ماتھے پر سالامی دیتا اس نے دروازہ بند کر دیا تھا ۔

میں کہتا تھا نہ آمنہ تم پر گئی ہے۔ احسن صاحب کامران صاحب کے کان کے پاس جھک کر بولے۔

بھائی آرام سے بول لیں نہیں تو اگلا جوتا میری طرف آئے گا اور اس عمر میں بیوی سے مار کھاتا اچھا نہیں لگوں گا میں ۔۔ کامران صاحب نے بچاری شکل بنا کر بھائی کو دیکھا تھا اپنے۔۔

احسن صاحب کا قہقہہ پورے ٹی-وی لاؤنج میں گونجا تھا۔۔ مان جاؤ کامران وہ تمہارا فی میل ورین ہے۔۔ یہ کہا کر احسن صاحب ٹی-وی لاؤنج سے نکل کر سٹیڈی میں جانے لگے اور موڑ کر کامران صاحب کو دیکھنا نہ بھولے نظریں ایسی تھی جیسے کہہ رہے ہوں اپنی لاڈلی تو میں نے بچا لی تم اپنا سوچو اب ۔۔

اور کامران صاحب بس بے بسی سے کبھی بھائی اور کبھی اپنی محبوب بیوی کو دیکھ رہے تھی جو ان کو ایسے گھور رہی تھی جیسے کہہ رہی ہوں تھوڑے ماں باپ کہ فرمابردار ہو جاتے تو یہ آفت نہ ملتی مجھے ۔

امل بیگم اپنے چھوٹے دیور کی شکل پر ترس کھا کر بولی۔ اچھا بس ٹھیک ہے روحا اپنی آفت کے حصہ کی گھوری میرے معصوم بھائی پر نہ نکالو۔۔

کامران صاحب نے سکھ کو سانس لیا تھا کہ کوئی تو ہے جو ان کہ حق میں بولا ۔

ان سب کو ادھر ہی چھوڑ کر ہم ذرا دوراب صاحب کی طرف جاتے ہیں جن کو یہ بھی نہیں پتا کہ ان کی پیاری بہن ان کی زندگی میں کون سا طوفان لے آئی ہے۔۔

••••••••

کیا آفت آ گئی تھی جو یو بولا لیا تونے آیان آتے ساتھ دوراب پر بولا اس کو کہا ہضم ہوتا تھا سسپینس۔

روک ذرا زوریز کو بھی آنے ابھی وہ بات مکمل کرتا کہ زوریز آتا دیکھائی دیا۔

سب خیریت ہے تو نے آتی جلدی بولیا ہے ۔ زوریز نے آتے ساتھ پوچھا۔۔

وہ چاروں اس وقت مونال میں ٹوپ فلور پر بیٹھے تھے ۔ لاہور کا موسم بھی آج کافی خوشگوار تھا بادلوں کے تیور دیکھ کر لگتا تھا کہ وہ برسیں گے۔۔

اچھا سنو میری بات تم لوگ تیاری پکڑوں آخر کار لڑکے والے ہو کوئی کمی نہیں ہونی چاہیے ۔۔ دوراب نے بولنا شروع کیا۔

تو بات کھل  خود ہی  کرے گا یا مکا کھائے گا۔۔ زوریز نے دوراب کی بات سن کر گھوری سے نوازا ۔

اچھا یار سنو اس جمعہ جمعہ کی نماز کے بعد میرا نکاح ہے نور کہ ساتھ ۔۔ اس نے اپنی بات مکمل کر دی۔۔

کیا مطلب تو اب نکاح کرے گا۔۔ آیان افسردگی سے بولا۔۔

تو کیا ساری زندگی تم دونوں کی طرح کنوارا رہوں۔ دوراب بھی جل کر بولا ۔

تو تم کون سا شادی شدہ ہو جاؤ گے صرف نکاح شدہ ہو گئے تمہیں رُخصتی تو مل نہیں رہی آیا بڑا۔۔ ایان بھی کہاں چپ رہ سکتا تھا۔

زوریز یار پلیز اس کو چپ کروا لے میرا موڈ خراب نہ کرے۔۔ دوراب نے زوریز کو بیچ میں گھسیٹا۔۔

بھائی تو کس کو بیچ میں لا رہا ہے تیرے نکاح پر تو وہ محترمہ بھی ہوں گئی جس کی وجہ سے زوریز کا دماغ گھوم جاتا ہے۔ آیان ںے زوریز کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ ۔

دوراب ایک کام کرتے ہیں اس کو یہاں سے ہی نیچے پھینک دیتے ہیں کیا خیال ہے ؟؟  زوریز نے سامنے دیکھتے ہوئے بہت پرسوچ انداز میں کہا۔

بات تو تیری ٹھیک ہے آج کل کافی پٹر پٹر کر رہا ہے ایک بار ہی سکون مل جائے گا۔۔ دوراب نے اس کی بات پر اپنی رائے دی۔

جبکہ آیان بس اپنے ان دو دوستوں کو دیکھ کر رہ گیا جو دوست کم دشمن زیادہ ثابت ہو رہے تھے ۔۔

•••••••••••••

سویرا سویرا کدھر ہو ۔۔ جزا سویرا کو آواز دیتی اپر کمرے میں آئی تھی جہاں سویرا اپنے سامنے کتابیں رکھے پڑھنے میں مصروف تھی۔۔

تم ادھر ہو اور میں تمہیں سارا گھر ڈھونڈ ائی۔ اچھا یہ بتاؤ تیاری کہاں تک ہو گئی ہے۔۔ جزا نے اس سے اس کے انٹیری ٹیسٹ کی تیاری کا پوچھا۔

یار کافی حد تک ہو گئی ہوئی ہے بس تھوڑی سی نرویسنیس ہے۔۔ سویرا جزا سے صرف دو سال ہی چھوٹی تھی تبھی اب جب جزا اپنے کالج کو مکمل کر چکی تھی تو سویرا اب کالج میں داخلہ لینے کے لیے انٹیری ٹیسٹ دینے کی تیاری کر رہی تھی ۔

وہ دونوں بہنیں ہی خوبصورت تھی۔۔ سویرا سیاہ بالوں اور ڈارک براؤن آنکھوں والی کوئی نازک سی گڑیا لگتی تھی معصوم سا چہرہ سرخ گلاب رنگت مغرور اور تیکھی ناک اور اس میں چمکتی لونگ۔۔  اس بات میں کوئی شک نہ تھا کہ وہ خوبصورت نہیں تھی وہ خوبصورت تو تھی بلا کی خوبصورت تھی اس کی اس خوبصورتی کو اس کم معصومیت چار چاند لگا دیتی تھی۔ جزا اور سویرا اگر آیک ساتھ ہوتی تو وہ واقع ہی شاہد صاحب اور انعم بیگم کی بیٹیاں لگتی تھی۔۔ سویرا  ماں کی طرح معصوم تھی جبکہ اس کہ بالوں اور آنکھوں کا زنگ باپ سے ملا تھا۔ اور دوسری طرف جزا تھی جس نے اپنی ماں سے بالوں اور آنکھوں کا رنگ لیا تھا مگر تھی وہ اپنےباپ کھ جیسی باروب ، باوقار ، مشکل کے سامنے ڈیٹ کر کھڑی ہونے والی ، وہ ایک مضبوط لڑکی تھی۔۔اس کی آنکھوں کی چمک اس کے باپ جیسی تھی اس کا چلنےئکا طریقہ اس کا مزاج سب کچھ اس نے اپنے باپ سے وراثت میں لیا تھا مگر کون جانتا تھا اس کو اس کے باپ سے ملی یہ وراثت یہ شجاعت اس کی زندگی کے کس موڑ پر کس طرح کام آنی تھی ۔۔

تم پریشان مت ہو یار انشاللہ سب اچھا ہو گا بس تم اپنی تیاری مکمل رکھو۔ کیا تم نہیں جانتی اللّٰہ ہماری محنت رائگا نہیں ہونے دیتے ۔۔ وہ مالک ہماری کوشش اور لگن سے واقف ہوتا ہے تم بس اپنا 100٪ دو باقی اللّٰہ پر چھوڑ دو پھر اللّٰہ جانے اور کام جانے اور بے فکر ہو جاؤ وہ مالک بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔۔ جزا نے سویرا کو پریشانی میں دیکھ کر اس کو سمجھانا چاہا جس میں وہ کامیاب بھی ہو گئی تھی۔۔

انشاء اللہ سب اچھا ہو میں جانتی ہوں میرے اللّٰہ بہت رحیم اور کریم ہیں ۔۔ سویرا نے اپنی رائے دی اور اٹھ کھڑی ہوئی ۔

اب یہ سواری کدھر کو چلی ۔۔ وہ سویرا سے پوچھے بغیر  نہ سکی ۔

وہ دراصل میں نے اپنی لیے کچھ فریج میں رکھا تھا وہ ہی لینے جا رہی ہوں۔ سویرا جزا کو بتاتی اپنی جوتی پہنے لگی تب تک جزا کمرے کے دروازے پر تھی۔۔

ہممممممم۔۔ وہ چاکلیٹ تو نہیں تھی؟؟  اس نے سویرا سے پوچھنا ضروری سمجھا ۔۔

کیا مطلب؟ سویرا اس کی بات کو سمجھنے کی کوشش کرنے لگی لیکن جو چیز اس کے ذہن میں آئی اس نے اس کی تصدیق کرنے کے لیے جزا کی طرف دیکھا ۔

نہیں جزا ایسا نہیں کر سکتی تم۔ سویرا نے جزا کی طرف ایک امید بھری نظر اٹھائی۔۔

سووووو سوری میری پیاری بہن مگر میں ایسا کر چکی ہوں وہ بھی کب کا۔۔ اس نے معصومیت سے بھرپور اداکاری کرتے ہوئے اپنی چھوٹی بہن کی طرف دیکھا اور باہر کی طرف دوڑ لگا دی۔

جزا خدا کی قسم آج یا تو تم اس گھر میں رہو گی یا میں۔۔ میں تمہیں زندہ نہیں چھوڑں گئی بھوکی عورت جب دیکھو تم میری پڑی چیز پر ڈاکا ڈالتی ہو۔۔ کدھر بھاگ رہی ہو ادھر آؤ ۔۔ سویرا اس پر چیخ رہی تھی ساتھ اس کے پیچھے بھاگ رہی تھی۔۔

تم پاپا سے فیصلہ کروا لو انہوں نے گھر میں کس کو رکھنا ہے وہ تو پہلے کہتے ہیں تم اڈاپٹیڈ چائلڈ ہو۔۔ جزا بھی پیچھے نہ رہی۔۔

جبکہ سویرا نے اب ہاتھ میں کشن پکڑ لیا تھا ۔ اور منظر کچھ ایسے تھا کے شاہد صاحب کے گھر کے ٹی-وی لاؤنج میں ان کی دو شہزادیاں بہت محبت اور شفقت سے پروان چڑھتی آج جوان ہوئی کھڑی تھی۔۔اور وہ دونوں شہزادیاں اس گھر کی رونق تھی ان کا لڑنا جھگڑنا ہسنا رونا سب کچھ اس گھر کے ایک ایک کونے میں بسا تھا۔۔ جیسے اس وقت وہ شہزادیاں ایک دوسرے کے ساتھ پھر سے نوک جھونک میں لگی تھی۔ ماں کبھی ایک کے حق میں بولتی تو کبھی دوسری کے حق میں بولتی تھی۔ جب کہ شاہد صاحب اوپر سیڑھیوں میں کھڑے اپنی زندگی کی ان تین عزیز ترین عورتوں کو ایک دوسرے میں لجھا دیکھ کر مسکرا رہے تھے ۔۔ کیونکہ وہ تینوں ہی ان کی زندگی تھی۔۔ آیک وہ جس نے ان کا آدھا ایمان مکمل کیا ان کی ہمراز ان کی بیوی ان کی بیٹیوں کی ماں تھی ۔ ایک ان کی بڑی بیٹی جو خدا کی طرف سے ان کے لیے تحفہ تھی ۔۔ جو بلکل ان کے جیسی تھی۔  ایک ان کی چھوٹی بیٹی جو واقع ہی ان کی زندگی میں ایک نئی صبح تھی ایک اجالا ایک روشن سویرا تھی وہ سب کی لاڈلی تھی نازک سے نرم مزاج کی جس کو بہت نرمی سے پروان چڑھایا گیا تھا۔۔

•••••••••••••••••

وہ سب اس وقت اس عالیشان عمارت میں جمع تھے جس کو سفید حویلی بھی بولا جاتا تھا جو سارے مشہور اور امیر لوگوں کے سیاہ کاموں کو ہر رات خود میں دفن کرتی تھی۔۔۔۔

سامنے ٹیبل پر ایک سیاہ رنگ کا بیگ پڑا تھا جس میں رؤف کے ٹکڑے تھے۔۔ اور باقی سب کو سانپ سونگھ چکا تھا۔۔ کیونکہ وہ نہیں جانتے تھے ڈان کے کہنے پر بھی نہ روکنے سے ڈان ایسا سلوک کرے گا۔ اور بیسٹ کیا کرنے والا تھا اب یہ کوئی بھی نہیں جانتا تھا۔۔ ان لوگوں کے تو مانو آگے کنواں پیچھے کھائی تھی ۔ ایک طرف دبئی کا ڈان تھا تو دوسری طرف اٹلی سے آیا بیسٹ۔۔

اکرم بیسٹ کو کیا جواب دیں گئے اگر اس نے کچھ پوچھا تو ۔۔ عمران صاحب نے کرام صاحب کو بولیا ابھی اکرم صاحب کچھ بولتے بھاری جوتوں کی چھاپ ان کے کانوں میں پڑی تھی ۔

وہ تینوں ایک ساتھ  چلتے آ رہے تھے ۔۔۔ تینوں کی چال میں ایک روب تھا ۔۔ تینوں کے چہروں پر سیاہ ماسک تھا سر پر سیاہ رنگ کی کیپ تھی۔ ان کی صرف انکھی نظر آ رہی تھی۔۔ سیاہ لنگ کوٹ میں وہ اندھیرے میں اندھیرے کا ہی حصہ لگتے تھے۔۔۔ وہ اپنی مخصوص نشست پر جا کر بیٹھ گئے جبکہ باقی سب ابھی تک کھڑے تھے۔۔۔

بیسٹ کی سبز آنکھوں میں دہشت تھی جنون تھا خون تھا ۔  جس نے سب کو ان کی جگہ برف کر دیا تھا۔۔۔ آس پاس نم برہنہ لباس میں بہت سی لڑکیاں اپنے رقس میں مصروف تھی کچھ فی میل واٹریسٹ بھی تھی جنہوں نے منی سکلٹس کے اوپر وائٹ شرٹیس پہن رکھی تھی۔ اور ان کے گریبان بھی آدھے کھولے تھے۔۔ آج تک وہاں موجود کیسی بھی لڑکی میں اتنی ہمت نہ ہوئی کہ وہ بیسٹ ، ولف، اور لیو کے نزدیک آ سکے۔۔

مگر اس بار ایک لڑکی ایسی تھی جس کی نظر بار بار بیسٹ کی سبز آنکھوں پر جا رہی تھی۔ اور چہرے پر بےحیائی کا ہر رنگ پھیلائے وہ کیسی کمینی نظر سے دیکھ رہی تھی۔۔

یہ کیا ہے؟ بیسٹ نے اپنے سامنے پڑے بیگ کی طرف اشارہ کر کے پوچھا۔

یہ ۔یہ ڈان نے بھیجا ہے۔۔ اکرم صاحب بامشکل ہی بول پائی۔۔

ہممممممم چلو دیکھتے ہیں ۔۔۔ اکرم صاحب ذرا بیگ تو کھولیں ۔۔ بیسٹ نے اکرم صاحب کو  بہت غور سے دیکھتے ہوئے حکم دیا۔۔

می۔۔مم۔میں؟۔  ان سے لفظ بمشکل ہی ادا ہوئے تھے۔۔

نہیں میں ۔ اکرم میرا نام ہے یا تمہارا۔۔ وہ گرج ہی تو پڑا تھا۔۔

اکرم صاحب نے جلدی سے آگے بڑھ کر بیگ کی زپ کھول کر بیسٹ کے سامنے کی۔۔

بیسٹ اپنی جگہ سے اٹھا اور بیگ میں موجود رؤف کا سر اور اس کے جسم کے ٹکڑے دیکھ کر غصہ سے بھری نگاہ سب پر ڈالی اور بیگ میں سے رؤف کا سر نکالا۔ اس نے سر کو بالوں سے پکڑ رکھا تھا اور ان سب کی طرف قہر برساتی نظروں سے دیکھا۔۔ تم لوگ اپنے ساتھی تک کو اس ڈان سے بچا نہیں پائے ہو اور چلے ہو خود کو انڈر ورلڈ کی مافیا کہلوانے ۔۔۔ آفرین تم لوگوں پر۔۔ اور یہ بتاؤ گوداموں کا کیا ہوا۔۔ سب کچھ سپلائی ہو گیا کہ نہیں ۔۔۔ اس نے ان سب کی طرف دیکھتے ہوئے غصے سے پوچھا۔۔۔

وہ بیس۔بیسس۔۔ ۔ ابھی عثمان صاحب کی بات مکمل بھی نہ ہوئی۔

وہ بیس۔۔ بیسس کیا ؟ میں جواب مانگ رہا ہوں یہ نہیں بول رہا ہقلا کر دیکھاؤ مجھے...  بات بات پر ہقلانے لگا جاتے ہو تم لوگ۔۔ اتنے آرام سے تم لوگ آ کر اپنے ساتھی کا سر اور جسم کے ٹکڑے میرے سامنے رکھ رہے ہو بجائے اس ڈان کی لاش کے۔۔ تم لوگ تو اس ڈان کو مارنا چاہتے تھے کیا بنا۔ تم لوگ مارو گے اس کو تم جیسے چوہے ماریں گے اس کو۔۔۔ وہ برس ہی پرا تھا ان سب پر۔۔ صرف ایک لمحہ لگا تھا اگلے لمحے رؤف کا سر سامنے گلاس ول پر مارا تھا اور لمحوں میں گلاس ول کرچی کرچی ہو کر زمین پر تھی۔ اور سب کے سب سہم کر کھڑے تھے ۔۔

بیسٹ گودام کو آگ لگ گئی تھی ساری لڑکیاں نکال لی انہوں نے اور اسلحہ ، اور ڈرگز وغیرہ سب جل گیا اور مین افو بھی بلاسٹ کروا دیا اس ڈان نے۔۔ آخر شہزاد ہی ہمت کر کے بولا۔۔

تم سب کدھر مارے تھے راتیں رنگ کرنے سے فرست مل جائے تم لوگوں کو تو اپنے کام پر دھیان دو نہ تم لوگ ۔۔ اس نے شہزاد کے منہ کو اپنے ہاتھ سے جکر رکھا تھا ایک لمحہ کے لیے شہزاد کو ایسا لگا تھا جیسے اس کا جبڑا ٹوٹ گیا ہو۔۔

دل تو یہ چاہا رہا ہے کہ تم سب کو گولی سے اڑا دوں۔۔ اس نے شہزاد کا  منہ آزاد کرتے ہوئے بولا۔۔

اب تم لوگ ڈان کی ساری معلومات کیسے اکھٹی کرو گے مُجھے وہ بتاواور اس غلاظت کو ادھر سے ہٹاؤ ۔۔ اپنی جگہ پر  بیٹھتے ہوئے بولا۔۔

عمران لغاری کی بیٹی  لینا لغاری اپنی جگہ سے اٹھی ریڈ پنسل ہیل ، ریڈ شارٹ ڈریس پہنے جس کا گلا آگے سے کافی ڈیپ تھا اور باریک سی سٹریپس کندھوں پر تھی ، پیچھے سے یہ ڈریس بیک لیس تھا۔۔ ہونٹوں پر ڈیپ ریڈ  لیپ سٹک لگائے انکھوں پر لئنر اور مسکرا لگائے سیاہ بوب کٹ بالوں کو ایک طرف پھینک رکھا تھا۔۔ بے شک وہ ایک خوبصورت لڑکی تھی۔۔ مگر کہتے ہیں نہ ظاہری خوبصورتی کچھ معنی نہیں رکھتی جب تک انسان کا دل اور اس کی سوچ اور کردار خوبصورت نہ ہو۔۔۔

وہ چلتی چلتی بیسٹ کے پاس آئی اور اس کی کرسی کے پیچھے کھڑے ہو کر ایک بازو اس کے کندھوں پر پھیلائے اور ایک ہاتھ اس کے ہاتھ کی پیشت پر رکھے جھک کر  اس کے تھوڑا قریب ہوئی اور بولی ۔۔۔

ریلیکس بیسٹ بہت جلد ڈان کا پتا چل جائے گا ہنی تم اتنا غصہ تو مت کرو۔ چلو ہم دونوں یہ نائٹ انجوائے کرتے ہیں ۔۔۔ وہ انتہا کی بےباکی سے بولی تھی۔۔

ایک طرف بیسٹ تھا جو بس اپنے آپ کو کچھ غلط کرنے سے روک دہا تھا اس کو کہا برداشت تھا کیسی لڑکی کا یوں قریب آنا ۔۔۔ دوسری طرف لیو تھا جو حیران سا کبھی بیسٹ کی مزید سرخ ہوتی آنکھوں اور کبھی لینا کی اس بے باکی کو دیکھ رہا تھا۔۔ جبکہ ولف دل ہی دل میں اس لڑکی کی عقل پر بول رہا تھا جو  خود اپنا نقصان کرونے پر تولی تھی۔۔

اس سے پہلے لینا مزید جھک کر اس کی گردن پر اپنے لب رکھتی ۔۔ بیسٹ نے اپنے ہاتھ کی پشت پر رکھا اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور کہنچ کر اپنے سامنے کیا۔۔ اور اٹھ کر اس کی گردن کو اپنے ہاتھ میں لیا۔۔ وہ درد کی شدت سے قہرا اثھی تھی ۔۔۔

آج یہ غلطی کی ہے آج کے بعد ایسی غلطی کی تو جان سے مار ڈالوں گا میں تمہیں ۔۔ سمجھ آئی میرے قریب مت آنا لڑکی اگر زندہ رہنا چاہتی ہو۔۔۔وہ ایک ایک لفظ چبا چبا کر بول رہا تھا۔

بیسٹ اس کو چھوڑ دو پلیز وہ میری بیٹی ہے دوبارہ ایسی غلطی نہیں کرے گی ۔۔ عمران لغاری اپنی بیٹی کی گردن اس کر ہاتھوں میں دیکھ کر ترپ اٹھے تھے ۔۔

اپنی بیٹی کو اچھے سے سمجھا لو لغاری ورنہ مفت میں ماری جائے گی ۔۔۔ یہ کہتے ساتھ ہی اس نے اس کی گردن کو آزاد کیا تھا۔۔

اور تم بھی جان لو بیسٹ لینا لغاری کا جس چیز پر دل آیا ہے وہ صرف اس کی ہی ہوئی ہے ۔۔۔ لینا اپنی گردن  کو دباتی بے باک نظروں سے بیسٹ کو دیکھتے بولی ۔۔

وہ چیزیں ہی ہوں گئی جن پر تمہارا دل آ جاتا ہے تو تم پا لیتی ہو ۔۔ میں بیسٹ ہو کوئی چیز نہیں جیسے تم آسانی سے پا لو گئی اور میرا معیار اتنا گندہ اور گیرا ہوا نہیں ہے سمجھ آئی ۔۔ آج کے بعد میرے قریب بھی مت آنا ورنہ ایک لمحہ لگاؤ گو تمہیں جان سے مارنے میں ۔۔اس نے لینا کو ورانیگ دیتے انداز میں کہا اور خود سے دور دھکیل دیا ۔

تم سب کے پاس ایک ہفتے کا وقت ہے ڈان کی معلومات اکٹھی کرنے کے لیے ۔۔۔ اور ان سب لڑکیوں کا بھی پتا لگاؤ کدھر ہیں نہیں تو اس بار تم لوگ ڈان کے  نہیں میرے ہاتھے لگ جاؤ گے۔۔۔ ورنہ  اپنے انجام کے لیے تیار رہنا سمجھ ائی تم سب کو۔۔۔ انگلی اٹھا کر ایک ایک کو ورانیگ دیتا وہ اپنے دونوں ساتھیوں کے ساتھ باہر کی طرف بڑھا تھا۔۔۔

یہ خود کو سمجھتا کیا ہے مجھے بس ایک بار مواقع مل لینے دو اس کو ہی جہنم پونچھا کر انڈر ورلڈ کا بادشاہ بنو گا۔۔۔ شہزاد بیسٹ ، ولف، لیو کے جانے کے بعد بھرک کر بولا۔

•••••••••••••••••••••••

وہ سب لڑکیاں ڈری سہمی سی بیٹھی اپنے سامنے بیٹھے تین آدمیوں اور ایک عورت کو دیکھ رہی تھی۔۔۔ تینوں نوجوانوں نے بلیک لئیدہڑ جیکٹ پہن رکھی تھی۔ ایک نے جیکٹ کے نیچے وائٹ شرٹ ، ایک نے میرون شرٹ اور ایک نے بلیک شرٹ پہن رکھی تھی۔ تینوں کے چہرے پر ماسک تھا ۔ مگر اج ان تینوں کی آنکھوں میں ایک چیز مشترکہ تھی۔ نیلی آنکھیں بھوری آنکھیں اور سیاہ آنکھیں  بےخوابی کی وجہ سے سرخ تھی اور کچھ ان لڑکیوں کی حالت دیکھ کر ان کو اس حال میں پہچانے والوں پر غصے کی وجہ سے سرخ تھی۔۔

درمیان میں بیٹھی عزیزہ بیگم نے بات کا آغاز کیا۔ لڑکیوں  ڈرو مت  اس جگہ تم سب محفوظ ہو اس جگہ ان درندوں کا  سایا تک بھی نہیں آ سکتا۔۔۔

وہ مسلسل کانپ رہی تھی۔ کیسی میں اتنی ہمت نہ تھی کہ ان سے پوچھ سکیں کر وہ کون ہیں ان کو ادھر کیوں رکھا ہے وہ ادھر کیسے آئی یہ لوگ کیا کریں گئے ۔۔ کیونکہ ماضی میں وہ وہ سب جھیل چکی تھی جس کا انہوں نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا ۔۔  کچھ تو ان میں اس حد تک ذہنی طور پر بیمار ہو چکی تھی کہ اپنے سامنے کیسی بھی انسان کو دیکھ کر چیخ اٹھتی تھی۔۔

ان سب کے ڈر سے کانپتے وجود کو دیکھ کر آخر عزیزہ نے ان کو نارمل  کر کے ساری بات سمجھنے اور اس پر عمل کروانے کا فیصلہ کیا۔۔  عزیزہ نے اپنے پیچھے کھڑی لڑکیوں کی طرف اشارہ کیا تو وہ سب ہاتھ میں پانی کی بوتلیں لے کر ان لڑکیوں کی طرف بھری ۔ ان سب لڑکیوں کے آگے انہوں نے وہ بوتلیں کی تو وہ  لڑکیاں  بوتلیں  پکڑنے سے بھی ڈر رہی تھی۔ عزیزہ نے ایک سرد آہ بھری اور اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔۔ وہ اپنی جگہ سے اٹھی اور ان لڑکیوں کے پاس گئی خود ایک ایک کو پانی کی بوتلیں دی جب وہ سب پانی پی چکی تھی تب عزیزہ بولنا شروع ہوئی بچیوں میری بات سنو تم سب اس وقت بلکل محفوظ جگہ پر ہو یہاں تم لوگوں کو کوئی خطرہ یہ پریشانی نہیں ہو گئی ۔۔ یہاں پر تم سب لوگوں کی ایک نئے سرے سے تربیت کی جائے گئی۔ یہاں تم سب لوگ اپنے آپ کو اس قابل بنا پاؤ گئی کے جس جس نے تمہارے ساتھ ظلم کیا ہے اس ظلم کا بدلا تم خود لو گئی تم لوگ اس قابل ہو گئی کہ کوئی تم لوگوں پر ظلم نہیں کر سکے گا۔۔ اور اس سب کے  لیے ہمیں تم لوگوں کے ساتھ کی ضرورت ہے جب تک تم لوگ خود کے لیے خود کھڑی نہیں ہو گئی تم لوگوں میں خود پر ہوئے ظلم کے خلاف کرنے کی خواہش نہیں جاگے گئی تب تک ہم لوگ تم لوگوں کی مدد نہیں کر پائیں گے ۔۔ بچیوں میری بات سنو اس جگہ تم سب جیسی اور بھی بہت سی لڑکیاں ہیں جو تم لوگوں کی ہی طرح کیسی نہ کیسی کی درندگی کا شکار ہوئی ہیں ۔۔  آج وہ سب ایک الگ پہچان اور ایک الگ عظم کے ساتھ اس معاشرے میں اپنی زندگی گزار رہی ہے ۔۔ میں تم لوگوں کو کیسی سے ملواتی ہوں۔

اندر آجاؤ میری جان انہوں نے آواز دی تو ایک سولہ سال کی خوبصورت سی بچی اندر داخل ہوئی تھی جس نے اونچی پونی کر رکھی تھی آنکھیں اس کی اوشن گرین تھی۔۔ وہ بے انتہا خوبصورت اور معصوم تھی۔ اس نے اندر آتے ساتھ سب سے پہلے ایم-زی کو گلے لگایا اور ہمیشہ کی طرح اس کے کان میں بولنا نہ بھولی (او ہنڈسم میں نے تمہیں بہت مس کیا تھا) اس کے بعد سکندر کے ساتھ ہائی فائی کیا اور عادت کے مطابق فاروق کو منہ چرایا جس پر فاروق نے بھی اس کو منہ چرایا تھا اور سر جھکا کر ہنس پڑا پھر سامنے بیٹھی عزیزہ کے پاس گئی اور ان کا ہمیشہ کی طرح سب سے پہلے ان کا ماتھا چوما اور پھر ان کے ہاتھوں کو چوما۔۔

آپ نے بولیا تھا مجھے۔۔ بولی تو جیسے آواز میں شہد ٹپکا ہو۔۔ اس کی آواز بھی اس کی طرح خوبصورت اور روح میں اترنے والی تھی۔۔۔ سامنے بیٹھی تمام لڑکیاں اس بچی کو حسرت سے دیکھ رہی تھی کہ وہ کتنی خوبصورت ہے۔

منساء ان سب سے میلو۔۔ آپ کی بڑی بہنیں ہیں یہ۔۔ عزیزہ کے کہنے پر جب منساء نے ان لڑکیوں کی طرف دیکھ تو اس کے چہرے کی مسکراہٹ  سمٹ  گئی ۔۔۔

اچھا تم لوگ باتوں کیسی ہے یہ خوبصورت ہے نہ ؟ عزیزہ نے ان سب کو مخاطب کر کے پوچھا۔

سب کا سر خود با خود ہاں میں ہلا تھا وہ واقع ہی بہت خوبصورت تھی۔۔

تم لوگ یہ ہی دعا کررہی ہو نہ دل میں کہ اس بچی پر کیسی درندے کا سایا بھی نہ پڑے ۔۔ کیا میں سہی کہہ رہی ہوں؟  عزیزہ نے بول کر ان سب کی طرف دیکھا۔۔

اس بار ان میں سے ایک بولی تھی۔۔ بل۔۔۔ بلک۔۔۔۔۔بلکل۔۔اس کے منہ سے الفاظ بہت مشکل سے نکلے جیسے ایک عمر گزرنے کے بعد کیسی نے کچھ بولا ہو۔۔ جیسے کوئی سیلاے ہوئے لب کھلے ہوں۔۔

منساء کی انکھ میں ایک طوفان تھا ایک سیلاب تھا ان سب کی یہ حالت دیکھ کر ۔۔ آپ ایک بار باتا دیں  یہ سب کس نے کیا ۔

عزیزہ نے منساء کے ہاتھ پر ہاتھ رکھا اور بولی بیٹا اگر اجازت دو تو جو تم نے سہا ان کو بتا دوں تا کہ یہ بھی خود کے لیے کچھ بنا چاہیں اور اپنے اوپر ہوئے ظلم کا بدلہ خود لیں ۔۔

آپ مجھ سے اجازت نہ لیں آپ مجھ پر میری ماں جتنا حق رکھتی ہیں ۔ اگر اپ کہیں تو میں خود پر ہوا ظلم خود بتا دوں گئی ان کو۔۔ اس نے عزیزہ کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لے کر کہا۔۔

نہیں میری جان آپ اپنی کلاس کے لیے جاؤ ۔۔ عزیزہ نے اس کے سر پر پیار دیا اور اس کو جانے کا کہا ان کی آواز میں الفاظ میں ماں والا پیار ہی تھا۔۔

منساء اس کمرے سے نکلنے لگی مگر ایک بار اس نے موڑ کر ان لڑکیوں کو دیکھا ضرور تھا ایک وقت تھا جب وہ بھی ایسے ہی ملی تھی  عزیزہ کو  یہ بس وہ اور عزیزہ جانتے ہیں وہ زندگی کی طرف واپس کیسے آئی تھی۔۔

تم سب نے اس بچی کو دیکھا ہے ابھی۔۔ وہ صرف سولہ سال کی ہے وہ مجھے ساتھ سال پہلے ملی تھی ایسی طرح جس طرح آج تم سب ملی ہو۔۔ اس وقت وہ بچی نوسال کی تھی اور وہ دو سال تک ان درندوں کی قید میں تھی اس نے دو سال تک ان کا ہر ظلم سہا تھا ہر زیادتی سہی تھی وہ چھ/سات سال کی بچی تھ اس وقت جب اس پر ظلم ہوا اس کا بچپن چھنا تھا ان لوگوں نے اس کی معصومیت چھینی تھی۔۔ وہ جب میرے پاس آئی اس وقت میں اپنی زندگی میں دوسری بار بہت زیادہ روئی تھی۔۔

پہلی بار تب روئی تھی جب میرے اپنے ہی بھائی نے مجھے جوئے میں بیچا تھا اس کے دوستوں نے میرے ساتھ زیادتی کی تھی۔۔میرے باپ نے روکنا چاہا اس نے میرا باپ مار دیا میری ماں مار دی تھی میں اپنا سب کچھ کھو بیٹھی تھی ایک رات میں ایک رات کی بات تھ صرف ایک رات کی عزیزہ کی عزت نہیں بچی تھی، عزیزہ درندوں کی نظر ہو گئی تھی ، عزیزہ کا بھائی ابلیس نکلا تھاا فرون تھا وہ،، عزیزہ کا باپ نہیں رہا تھا ، عزیزہ کی ماں نہیں رہی تھی ، صرف ایک رات میں صرف ایک میں عزیزہ یتیم ہو گئی تھی، بے ابارو ہو گئی تھی اس پر قیامت گزر گئی تھی وہ جس گھر میں جوان ہوئی تھی اس گھر کی دیواروں نے اس کو یتیم ہوتے دیکھا تھا اس گھر کی دیواروں نے اس کو بے آبرو ہوتے دیکھا تھا اس کا بےغرت بھائی اس سب میں شامل تھا اس رات عزیزہ مر گئی تھی اس رات عزیزہ بہت روئی تھی اس کا سب ختم ہو گیا تھا ۔۔

میں خود کو مارنے کے لیے بھاگی تھی کہ دور دریا میں جا کر خود کو فنا کر دوں۔۔ مگر قسمت کو کچھ اور منظور تھا مجھے ایک شخص نے بچایا اس نے مجھے تعلیم دی مجھے اپنے ساتھ فوج میں لے کر گیا مجھے اس قابل بنایا کے میں ان سب سے خود پر ہوئے ظلم کا حساب لوں۔۔ وہ مجھ سے عمر میں تھوڑا ہی بڑا تھا لیکن اس نے میری زندگی کا ایک مقصد بنیا تھا اس نے مجھے بتایا تھا کہ بے شک میں عورت ہوں میں کمزور نہیں ہوں اگر میں زندگی دنیا میں لا سکتی ہوں تو ان کی زندگی لے بھی سکتی ہوں جو میری عزت پر ہاتھ ڈالے گا۔ اس چیز کا حق مجھے میرے دین نے بھی دیا ہے۔۔

دوسری بار میں منساء کو دیکھ کر روئی تھی جب میرے پاس ایک نو سال کی بچی کو لایا گیا تھا اس کی حالت اس پر ہوئے ظلم کی داستان سنا رہی تھی ۔۔ پہلی بار میرے ہاتھ کانپے تھے۔۔

اس بچی کو واپس زندگی کی طرف لانا بہت مشکل تھا۔ میرے اللّٰہ نے اس میں میری بہت مدد کی ۔۔ آج وہ بچی دس مردوں کے مقابلے میں اکیلی کافی ہے۔۔ کیسی میں جرات نہیں کی اس کو کچھ کہے اس کا اس معاشرے میں ایک اپنا نام ہے ۔۔ وہ آزاد ہے خود مختار ہے باوقار ہے۔۔

میں تم سب کو اس جیسا بنانا چاہتی ہوں تم سب کو اس میں میرا ساتھ دینا ہو گا۔۔ تم لوگوں کی زندگی پر تم لوگوں کا حق ہے۔ تم لوگوں کو بدلہ لینے کا بھی حق ہے ۔۔

اب فیصلہ تم لوگوں کا ہے جو ظلم تم لوگوں پر ہو چکا ہے باقی کی زندگی اس صدمے میں گزارنی ہے۔ یا ان ظالموں کو ان کے ظلم اور درندگی کا جواب دینا ہے ان کی راتوں کی نیند عذاب بنانی ہے۔۔ یہ فیصلہ تم لوگوں کا ہے ۔۔ یہ کہہ کر عزیزہ اٹھ کھڑی ہوئی ان کے چہرے پر ایک سکون تھا جیسا کیسی پہاڑی کو سر کرنے کے بعد ہو، جیسا کیسی بوجھ کے اترنے کا ہو۔۔ ان کو پتا تھا اب وہ لڑکیاں اپنی جنگ خود لڑنے کے لیے تیار ہوں گئی ۔۔

دوسری طرف وہ جو سب پہلے ڈر کر بیٹھی تھی  اور آنکھیں خشک تھی اب ان کی آنکھوں میں آنسوں تھے۔ 

 یہ انسوں بہنے تھے جو درد اندر تھا اس نے نکلنا تھا۔۔ دل نے تھوڑا نرم ہونا تھا کیونکہ اس کو ابھی مضبوط ہونا تھا۔۔ انسان میں جب کچھ  بدلنے والا ہوتا ہے تو پہلے اس کو ٹور دیا جاتا ہے کبھی کیسی انسان کے ہاتھوں ، کبھی کیسی عمل کے ہاتھوں ، کبھی کیسی حادثے میں ۔۔ کبھی کوئی انسان کوئی گناہ کر جاتا ہے جو اس کے دل پر بوجھ بن جاتا ہے اور وہ ٹوٹ جاتا ہے پھر وہ احساسِ ندامت میں روتا ہے پھر اپنے نفس کے خلاف کھڑا ہوتا ہے، کبھی کوئی انسان  کیسی ایسے انسان کے ہاتھوں چوٹ کھاتا ہے جس پر اس نے اپنی تمام تر چاہتیں واری ہوں جس کو اس نے چاہنے کی حد کر دی ہو جب وہ انسان اس کو چھوڑ دیتا ہے تو اس کا دل پھٹ جانے کر قریب ہوتا ہے درد کی شدت حد سے زیادہ ہوتی ہے واللہ ہر انسان دل کی اس اذیت سے پناہ مانگتا ہے جو کیسی انسان نے دی ہوتی ہے جس اذیت کی وجہ کوئی انسان ہوتا ہے جب انسان اس اذیت میں سجدوں میں روتا ہے تو اس کو صبر سے نوازا جاتا ہے صبر ایک ایسی جنگ ہے جو انسان خود سے لڑتا ہے سامنے پسندیدہ شخص بھی ہو صبر کا  پیمانہ لبریز ہونے کو ائ گا وہ دیکھے  گا بھی نہیں یہ صبر خدا خود دیتا ہے تاکہ اس کا بندہ خود کو مزید بےمول نہ کرے اور وہ  ان قریب اس کو بےحد انمول کر دے گا اور اس کو انمول سے ہی نوازوں گا ۔۔  کبھی انسان بغیر کیسی خطا کہ اذمائش کاٹتا ہے وہ روتا ہے مدد مانگتا ہے مگر خدا کو ان کا اس وقت صبر بہت پسند ہوتا ہے وہ ان کی مدد کرتا ہے ایسی مدد کرتا ہے کہ کیسی کے گمان میں بھی نہ ہو مگر اس مدد میں تھوڑی دیر ہوتی ہے کیونکہ خدا کو اس وقت انسان کا مانگنا بہت پسند آ رہا ہوتا ہے۔۔ بے شک اللّٰہ کا وعدہ ہے ہرمشکل کے بعد آسانی ہے۔۔ انسان کو مضبوط بنانے کے لیے قدرت انسان کو خود توڑتی ہے ۔۔ اتنے مضبوط پتھر دیکھیں ہیں تم نے وہ بھی تو پہاڑ کے ٹوٹنے سے بنے ہیں ۔۔ اتنی مضبوط اور بلند عمارتیں ایسے ہی تو نہیں بن جاتی مضبوط پتھروں کو توڑنا پڑتا ہے۔۔ تو پھر کیسے ایک مضبوط انسان بننے کے لیے آپ کو کچھ نہیں کرنا پڑے گا۔۔ ایک مضبوط انسان بنے لے لیے ٹوٹنا پڑتا ہے ہر کوئی الگ حادثوں میں الگ مشکلوں میں ٹوٹتا ہے مگر ایک بار ٹوٹتا ضرور ہے۔۔

•••••••••••••••••••••••

 

جاری ہے

Don’t  copy 

Comments

Post a Comment