Dasht E Ulfat Novel By Shazain Zainab Episode no 4



























بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

ناول

 

دشتِ الفت

 

شازین زنیب

 

 

 

 

 

Ep # 04

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

یہ منظر دبئی کے سب سے مہنگے ترین ہوٹل کا ہے۔۔۔ ہوٹل پلازو ورسکے دبئی کے مہنگے ترین ہوٹل میں آتا ہے۔۔۔ یہ ہوٹل وسیع رقبے پر بنا ہوا ہے ایک بہت ہی عالیشان عمارت جو دیکھنے والوں کو دنگ کر دے۔۔۔ آج یہاں کی انتظامیہ معمول سے زیادہ مصروف تھی کیونکہ اور تھوڑی دیر میں دبئی کے ڈان کی طرف سے رکھی گئی پارٹی نائٹ شروع ہونے والی تھی۔۔ پلازو ورسکے کا گالا بال روم مکمل طور پر تیار کیا گیا تھا ہر چیز اپنی قیمت کا منہ بولتا ثبوت خود تھی ۔۔ وسیع بال روم کے۔ ساتھ ساتھ پول آیریا بھی تیار کیا گیا تھا۔۔ ہر چیز بلکل پرفیکٹ تھی۔۔۔

تھوڑی ہی دیر میں تمام مہمانوں نے آنا شروع کر دیا۔۔  دنیا بھر سے بڑے ںڑے بزنس مین ، سیاسی لیڈر ، انڈر ورلڈ کے بہت سے گینگسٹر ، مافیا لیڈرز ، اور بہت سے ممالک کے انڈر کور ایجنٹ اور دبئی کی ہی بہت سی جانی پہچانی امیر شخصیات اور ساتھ ہی ساتھ دبئی کے شہزادے بھی مدعو تھے  زیک کی اس پارٹی نائٹ پر۔۔۔

شہزاد جو ابھی ابھی پلازو ورسکے میں داخل ہوا تھا اس کے ساتھ اس کی موجودہ گرل فرینڈ للی بھی تھی۔۔ سیاہ پنٹ ، برانڈیڈ جوتے، سفید شرٹ ، بلیک ٹائے اور بلیک کوٹ پہنے ،، بالوں کو نفاست سے سیٹ کیے وہ بہت ہنڈسم لگ رہا تھا۔۔ جبکہ اس کے ساتھ آئی للی نے بلیک میکسی پہن رکھی تھی، اس کے نیچے بلیک ہیل اور سنہری بالوں کو لائیٹ کرل کیے ڈیپ ریڈ لیپ سٹک لگائے ہلکی نیلی آنکھوں پر لئنر اور مسکارا لگائے وہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی ان دونوں کی جوڑی مکمل لگتی تھی۔۔ وہ دونوں ایک دوسرے کو کی باہوں میں باہیں ڈالے بال روم کی طرف جا رہے تھے ہر دیکھنے والوں کی نظر ان پر ہی تھی۔۔۔

مگر کوئی ایک شخص ایسا تھا جس کو ان کا ایک ساتھ ہونا چبا تھا اس کے دل کو کچھ ہوا تھا۔۔ وہ نظریں موڑ گیا ۔

شہزاد تم کس کو ڈھونڈ رہا  ہو کیا اِدھر اُدھر دیکھ رہا  ہو تم ۔۔ للی نے اپنی  ٹوٹی پھوٹی اردو میں بولا۔۔

اس کو جس نے یہ پارٹی آرگنائز کی ہے۔۔۔ شہزاد نے آس پاس ایک گہری نظر ڈالتے ہوئے کہا ۔

•••••••••••••

وہ شیشے کے سامنے کھڑا اپنی بلیک شرٹ کر بیٹن بند کر کے کوٹ پہن رہا تھا کہ کیسی نے دروازہ نوک کیا ۔

کون ؟؟ یک لفظی سؤال کیا گیا ۔

زیک میں حدید ہوں۔۔۔ حدید جو باہر کھڑا تھا ٹھنڈی آہ بھر کر بولا۔

آجاؤ اندر ۔۔۔ اس نے اپنے کوٹ کو سہی کرتے ہوئے کہا۔۔

تم تیار ہو زیک؟؟؟ حدید نے اندر آتے ساتھ سوال کیا۔

نہیں سو رہا ہوں ۔۔ زیک نے بیزار سا جواب دیا۔۔

اف یہ بندہ کبھی سیدھا جواب نہیں دے گا۔۔۔ وہ بس سوچ کر رہ گیا ۔

بتاؤ کیا انفورمیشن لائے ہو؟؟ زیک نے صوفے پر بیٹھتے ہوئے پوچھا۔۔

سارے مہمان آ گئے ہیں۔۔۔ اور سلیم صاحب کو بھی لے آئیں ہیں ہمارے آدمی ۔۔۔ حدید نے ساری بات بتائی ساتھ ہی سامنے صوفے پر بیٹھ گیا۔۔

گڈ ۔۔ زیک نے حدید کو غور سے دیکھتے ہوئے کہا ۔

خود پر زیک کی نظریں محسوس کر کے حدید سیدھا ہو کر بیٹھا۔۔

حدید تم جانتے ہو وہ تمہاری نہیں ہو سکتی۔۔ وہ کیسی اور سے محبت کرتی ہے۔۔ اور سب سے بڑی بات وہ مسلمان نہیں ہے اور وہ کبھی بھی تمہاری نہیں ہو سکتی تم کیوں نہیں سمجھ رہے یار۔۔ زیک نے ہی بات شروع کی۔۔

زیک دل پر میرا اختیار نہیں میں نہیں جانتا کیوں مگر جب بھی میں اس کو اس کے ساتھ دیکھتا ہوں تو میرا خون کھولتا ہے ۔ حدید نے تھک کر سر کو صوفے کی پشت کے ساتھ لگایا۔۔

حدید۔۔۔ زیک نے اس کو غصے سے گھورا۔۔۔

کیا تم جانتے نہیں ہمارے کام کو ہم مافیا اگر ان جزبات کو احساسات کو خود پر ہاوی کرنے لگے تو ہو گیا ہمارا کام۔۔ ایک منٹ ہے تمہارے پاس خود کو نارمل کرو ورنہ پوری پارٹی میں اور اس کے بعد مجھے اپنی شکل بھی مت دیکھانا۔۔ انڈرسٹنڈ ؟؟؟۔۔۔ اس کی غصے سے بھری آواز اس کے کمرے میں گونجی تھی اور ایک لمحہ میں حدید کو سیدھا کر گئی تھی۔۔۔

میں ٹھیک ہوں زیک بس یہ دل کبھی کبھی بغاوت کر دیتا ہے۔۔ حدید تھکے ہوئے لہجے میں بولا ۔

اپنے دل کو سنھبال لو حدید ورنہ نکل باہر پھینکوں اس کو اگر تمہارا اس دل پر قابو نہیں تو اس کے ہاتھوں کمزور بھی نہ ہو ۔ پارٹی میں تم مجھے وہ والے حدید چاہیے ہو جس نے کبھی اپنے دل کی غلامی نہیں کی۔۔ ورنہ جہاں میں اپنے اتنے وفادار ساتھیوں پر فاتحہ پر چکا ہوں وہاں تم پر بھی پڑھ دوں گا کہ میرا ایک ساتھی دل کے ہاتھوں مرا گیا ۔ حدید اپنے میشن اپنی منزل کو مت بھولو سمجھ آئی ۔۔ اگر اس کا ساتھ تمہارے نصیب میں ہوا تو کوئی بھی اس کو تم تک آنے سے نہیں روک سکتا۔ سمجھ آ گئی ہو تو آ جانا باہر ورنہ اپنی شکل گم کر لینا ۔۔ وہ بول کر جانے کے لیا موڑا ہی تھا جب حدید بولا

زیک محبت کا سانپ بہت زہریلا ہوتا ہے۔۔ یہ کیسی دشمن کو بھی نہ ڈسے ۔۔ وہ کمرے کی سیلنگ کو دیکھتے بولا اس کا لہجا بھاری تھا ۔

اگر اب تم سیدھے نا ہوئے تو میرا سانپ تمہیں ضرور ڈاس لے گا۔۔ زیک نے اس مجنوں کو گھوری کروائی ۔۔ جس پر وہ ہستا ہوا اٹھا تھا۔۔

اب وہ ایک ساتھ باہر کی طرف بڑھے تھے۔۔ ابھی وہ بیلڈنگ سے نکلے ہے تھے کہ سامنے تین شناسا چہرے موجود تھے۔ وہ دونوں ان تینوں کو دیکھ کر ہلکا سا مسکرائے تھے۔۔۔

اب وہ پانچوں پارٹی پر جانے کے لیے اپنی اپنی گاڑیوں میں بیٹھے تھے۔۔ پانچوں کی کالی گاڑیاں آگے پیچھے نکلی تھی۔ 

••••••••••••••••

بال روم مہمانوں سے بھرا ہوا تھا ۔ ہر کوئی کیسی نا کیسی کے ساتھ کوئی بات کرنے میں مصروف تھا۔۔۔ ہر کوئی زیک کے آنے کا انتظار کر رہا تھا ۔۔ وہ دبئی کا ڈان تھا کیسی نے بھی اس کا چہرہ آج تک نہیں دیکھا تھا جس نے بھی آج تک اس کا چہرہ دیکھا تھا وہ تب ہی دیکھا تھا جب اس کے سامنے موت ہوتی تھی اس کی۔۔ مگر اس کے باوجود لڑکیاں اس پر مرتی تھی اس کی پراسرار آش گرے آنکھوں پر اس کی پرسنیلٹی پر۔۔۔

اچانک سب مہمانوں کے آگے ماسک  پیش کیے گئے تھے۔۔ سب نے اپنی اپنی مرضی کے ماسک اٹھا کر اپنی آنکھوں پر لگا لیے تھے جس سے اب کیسی کا بھی  چہرہ پہچان میں نہیں آرہا تھا۔۔۔  ابھی سب مہمانوں نے ماسک لگائے ہی تھے کے اچانک سے سارے بال روم کی لائٹ بند کر دی گئی تھی۔ صرف ایک  لائٹ آن تھی جس کا روخ داخلی دروازے کی طرف تھا۔۔ سب مہمانوں نے حیران ہو کر داخلی دروازے کی طرف دیکھا تھا جہاں سے پانچ اونچے لمبے قدد والے مرد چل کر آ رہے تھے۔۔ سب کی چال ایک جیسی باروب تھی باوقار تھی۔۔اس کے ایک جانب سنہری آنکھوں والا حدید اور بھوری آنکھوں والا حانی تھا جبکہ دوسری جانب بھوی آنکھوں والا سکندر اور سیاہ آنکھوں والا فاروق تھا اور درمیان میں آش گرے آنکھوں میں دہشت لیے زیک چل رہا تھا۔۔ حدید، سکندر، فاروق اور حانی نے بلیک پنٹ کوٹ اور وئٹ شرٹیس کے ساتھ بلیک ٹائے پہن رکھی تھی۔۔۔ جبکہ زیک نے بلیک ڈنر ڈریس پہن رکھا تھا ۔۔ وہ اس پارٹی میں سب سے الگ لگ رہا تھا۔۔۔ ان چاروں کے ماسک وائٹ تھے جبکہ زیک نے بلیک ہی ماسک پہن رکھا تھا کیونکہ اس کو کالا رنگ بہت پسند تھا اور وہ خود بھی اس سیاہ رنگ کی طرح ہی تھا جس طرح سیاہ رنگ کیسی رنگ میں ملا دیا جائے تو بس پھر وہ سیاہ ہوجاتا ہے ایسی طرح جس جگہ پر زیک ہوتا تھا تو بس وہ جگہ اس کی ہو جاتی تھی وہاں پھر کیسی اور میں ہمت نہ ہوتی تھی اس کا مقابلہ کرنے کی وہ شے اور مات ایک ساتھ دینا جانتا تھا وہ آش گرے آنکھوں والا عربی شہزادہ آنکھوں میں دہشت لیے اپنے وفادار ساتھیوں کے ساتھ بال روم میں داخل ہوا تھا۔۔

ان کے داخل ہوتے ہی جہاں بڑے بڑے بزنس مین ، مافیا اور انڈر ورلڈ کے لیڈرز  کانپ گئے تھے وہاں ہی نہ جانے کتنی حسینائیں ان کی وحشت زدہ آنکھوں پر اپنا دل وآر بیٹھی تھی۔۔ یہ تو شکر تھا وہ پانچوں ماسک میں تھے اس میں کوئی شک نہ تھا وہ پانچوں ایک سے بڑھ کر ایک تھے خوبصورتی میں وجاہت میں اور شجاعت میں ۔ ہر کوئی ان کے دل کی ملکہ بنے کے سپنے دیکھنے لگی تھی مگر کون جانتا تھا کہ ان پتھر دلوں میں  محبت کا چشمہ کن کے ہاتھوں  پھوٹنا تھا۔۔

وہ پانچوں کچھ ہی لمحوں میں پوری محفل کو اپنی جانب متوجہ کروا چکے تھے ۔۔۔

زیک چلتا چلتا بال روم کے درمیان میں بنے سٹیج پر آیا اور وہ چاروں اس سٹیج کے ایک ایک کونے میں کھڑے ہو گئے تھے۔۔

لیڈیز اینڈ جنٹلمین شکریہ آپ سب کا آج کی اس پارٹی میں آنے کر لیے ۔۔ اور امید کرتا ہوں آج کی یہ پارٹی آپ سب لوگ بہت اچھے سے یاد رکھیں گئے ۔۔۔۔ وہ پراسرار مسکراہٹ کے ساتھ بولا جبکہ حدید ، سکندر، فاروق اور حانی کے چہرے پر بھی ایسی ہی مسکراہٹ تھی۔ کیونکہ وہ لوگ بہت اچھے سے جانتے تھے کہ آج زیک ان سب کے ساتھ کرنے کیا والا ہے۔۔۔

انجوائے دا نائٹ ۔۔۔ وہ یہ کہہ کر مائک واپس رکھتا سٹیج سے اتر گیا اور چلتا ماسٹر ٹیبل کی طرف بڑھا ۔۔۔

حدید ، سکندر ، فاروق ، حانی چاروں اس کے اطراف میں بیٹھے تھے جب کے درمیان میں رکھی سربراہی نشست پر زیک بیٹھا تھا۔۔

ہائے زیک ۔۔۔ شہزاد نے زیک کو ساری پارٹی سے الگ ایک طرف اپنےساتھوکے ساتھ بیٹھے دیکھا تو للی کے ساتھ اس کی طرف بڑھا تھا۔۔

اس نے کوئی جواب نہ دیا جبکہ شہزاد کو سر تا پیر غور سے دیکھا ۔

شہزاد نے ایک نظر اپنے آگے بڑھے ہاتھ کی طرف دیکھا اور پھر زیک کی طرف۔۔ اور تنزایا مسکراہٹ کے ساتھ بولا۔۔۔ کیا آپ کے یہاں مہمانوں کا بڑھا ہاتھ تھاما نہیں جاتا زیک۔۔۔ انداز کچھ جتانے والا تھا ۔

میں منافقوں سے اور آستین کے سانپوں سے ہاتھ نہیں ملاتا شہزاد اکرم۔۔۔ برف کی طرح ٹھنڈا اور ٹھہرا ہوا لہجہ تھا اس کا۔۔

کیا مطلب سمجھوں میں اس بات کا۔۔ وہ اس کے الفاظ پر اپنا غصہ کنٹرول کرتا بولا

مطلب تمہیں بہت اچھے سے پتا ہے شہزاد اکرم۔۔۔۔ اس کی تنزایا نظریں شہزاد کو طلملا گئی تھی۔۔

کیا ہم کچھ بات کر سکتے ہیں ؟؟؟ شہزاد نے زیک کو دیکھتے پوچھا اور آس پاس چاروں پر نظر ڈالی جیسے کہا رہا ہو اکیلے میں ۔۔

جو بات کرنی ہے کرو بیٹھو ۔۔۔۔ زیک نے اس کو ہاتھ کے اشارے سے بیٹھنے کا کہا۔۔

شہزاد للی کو اپنے ساتھ لے کر بیٹھ گیا جو کافی زیادہ بور ہو رہی تھی ان کی باتوں سے۔۔۔

زیک اگر تم چاہو تو میں تمہاری مدد کر سکتا ہوں بیسٹ کو انڈر ورلڈ سے ہٹانے میں اور مارنے میں۔ شہزاد بہت مکار نظروں سے زیک کو دیکھ رہا تھا۔۔

شہزاد کی بات سن کر زیک نے صوفے کی پشت سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔۔ انداز ایسا تھا جیسے کہہ رہا ہو بلی کو خواب میں چھیچھڑے نظر آئے ۔۔۔

او تو شہزاد اکرم آپ میری مدد کریں گے وہ بھی بیسٹ کو مارنے میں ۔۔ زیک اس کو تنزایا مسکراہٹ کے ساتھ دیکھتا بولا ۔

ہیں میں مدد کروں گا ہر لحاظ سے ۔۔ شہزاد نے مکرو مسکراہٹ سے  زیک کی طرف دیکھا ۔۔

شہزاد اکرم زیک نے اپنی زندگی میں بہت سے کتے اور ثور دیکھے ہیں مگر قسم لے لو تم انتہائی گندی اور حقیر نسل کے کتے اور ثور ثابت ہوئے ہو۔۔ جس کی تھالی میں کھا رہے ہو جس کے تلوے چاٹ رہے ہو آج اس کو ہی مارنے کے لیے تم میری طرف ہاتھ بڑھا رہے ہو۔۔ ایک بات یاد رکھو زیک ہاتھ بھی بندہ دیکھ کر ملاتا ہے اور کتا نسل دیکھ کر پلتا ہے۔۔ تم تو پھر در در تلوے چاٹتے کتے ہو میری نظر میں اور کیا ہی ہو اگر تمہاری یہ ساری باتیں جو تم نے مجھ سے کی ہے وہ بیسٹ تک پہنچا دی جائیں ۔۔ تو یقیناً تمہارا وہ بیسٹ اپنے ہاتھوں سے تمہیں جان سے مار ڈالے گا۔۔۔ زیک نے ایک ایک لفظ بلا کے سکون سے بولا اور شہزاد کو بے سکون کر گیا۔۔ جبکہ اس کی نظریں ایسی تھے جیسے اس کے سامنے کوئی غلاظت رکھی ہو کیسی نے۔ اور اس کے اطراف میں بیٹھے وہ چاروں شہزاد کی طرف تنزایا مسکراہٹ اچھال رہے تھے جبکہ سنہری آنکھوں میں تب تب سرد پن اور زیادہ ہو جاتا تھا جب جب وہ شہزاد کو اور اس کے پہلو میں بیٹھی لڑکی کو دیکھتا تھا۔۔

زبان سنھبال کر بولو زیک۔۔ شہزاد دبے دبے غصہ میں دھارا ۔۔۔

اوقات دیکھ کے بھنکوں شہزاد اکرم ۔۔ مجھے کتوں کا بھکنا پسند نہیں ہے اور جب کوئی کتا زیادہ بھونکنے لگے تو میں لمحہ نہیں لگتا مارنے میں سمجھ آئے ۔۔ تم تو اپنے مالگ کے وفادار نا نکلے کتنی نیچ نسل کے کتے ہو  مجھے جب بیسٹ کو مارنا ہو گا تب مجھے تم جیسوں کی تو پر گیز ضرورت نہیں پڑھے گئ۔۔ جو آج میرے ساتھ مل کر بیسٹ کو مارنے کا پلین بنا رہا ہے کیا کل کو وہ کیسی اور کے ساتھ مل کر مجھے مارنے کا پلین نہیں بنائے گا۔۔ ادھر پارٹی اٹینڈ کرنے آئے ہو کرو اور دفا ہو جاؤ۔۔۔ زیک برف کی طرح سرد لہجے میں بولتا شہزاد کو آگ لگا گیا تھا۔۔ جبکہ اس کی اس قدر عزت افزائی پر سنہری آنکھوں کی جلن کچھ کم ہوئی تھی۔۔

زیک ایک بار پھر کہا رہا ہوں سوچ لو اس بارے میں کہیں ایسا نہ ہو میں تمہارے واقع ہی بہت کام کا ہوں۔۔ شہزاد نے خود کو حد درجے نارمل رکھتے ہوئے کہا ۔

تم جیسے کتے بھونکنے کے علاؤہ کس چیز کے کام آ سکتے ہیں ۔۔ زیک تنزایا نظر اس پر ڈالتا اٹھ کر جانے لگا جب اچانک کچھ سوچ کر روکا۔

اور ہاں دبئی سے جانے سے پہلے کیا تم کیسی سے ملنا چاہو گے۔۔ اس نے موڑ کر پوچھا۔۔

شہزاد نے سوالیہ نظروں سے زیک کی طرف دیکھا۔۔ تب ہی حدید چپ کر کے اٹھا اور چلا گیا۔۔ جبکہ باقی چاروں زیک کی طرف دیکھ رہے تھے۔۔

لے کر آؤ اس کو۔۔ اس نے سکندر کی طرف دیکھتے ہوئے بولا تھا۔ اور خود بال روم سے باہر کی طرف بڑھا تھا ۔۔ بال روم سے نکلنے کے بعد وہ میٹنگ روم کی طرف بڑھ رہا تھا فاروق ، سکندر اور حانی اس کے ساتھ تھے۔

حدید۔۔ ابھی فاروق کچھ بولا زیک نے ہاتھ کے اشارے سے چپ رہنے کا کہا۔۔

وہ کیسی کام  میں مصروف ہے۔۔ زیک نے مدہم آواز میں جواب دیا ۔۔ جبکہ اس کے گارڈز کے ساتھ چلتا شہزاد خود کو نارمل رکھنے کی کوشش میں تھا۔۔

وہ لوگ میٹنگ روم میں داخل ہوئے تھے جب وہاں موجود اس کے آدمیوں میں سے ایک نے  آگے بڑھ کر ایل سی ڈی آن کر دی۔۔

اور سامنے سکرین پر چلتے منظر میں جو آدمی لوہے کی زنجیروں کے ساتھ لٹکا ہوا تھا اس کو اور اس کی حالت کو دیکھ کر شہزاد کو ایک بار اللّٰہ ضرور یاد آ گیا تھا ۔۔ اس کے ماتھے پر پسینے کے چھوٹے چھوٹے قطرے نمودار ہوئے۔۔۔

یہ تو۔۔ شہزاد نے کچھ بولنے کے لیے منہ کھولا ہے تھا ۔۔

ہاں یہ ۔۔ اگر تم چاہتے ہو تمہارا یہ حال نہ ہو تو جتنا ہو سکے میری نظروں سے دور رہو کیونکہ جو شخص زیک کی نظروں میں آ جائے اس کا پھر اس کی سانس تک پر زیک نظر رکھتا ہے۔۔۔ اس نے شہزاد کو اس کی گردن سے پکڑ رکھا تھا۔۔

زیک۔۔۔۔ شہزاد نے پریشان نظریں اٹھا کر زیک کی طرف دیکھا ۔۔

۔۔۔۔۔ اس نے شہزاد کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور باہر نکل گیا۔Hope you really enjoy tonights party...

زیک شہزاد کو تو اس کا سرپرائز دے دیا باقی سب کا کیا کرنا ہے۔۔ سکندر نے ساتھ چلتے ہوئے بولا۔

حدید ان کا ہی انتظار کرنے گیا ہے بہت جلد ان کو بھی ان کے سرپرائز ملیں گیں ۔۔ ان سب کو لگتا تھا ڈان اگر کچھ وقت کے لیے چپ کر گیا ہے تو مر گیا ہے ۔۔ ان کو یہ نہیں پتا ان سب کے ایک ایک قدم پر نظر ہے ۔ مزہ تو اب آئے گا۔۔۔ زیک قہر برساتی مسکراہٹ کے ساتھ آگے بڑھتا چلا گیا۔۔

کس کو خبر اس پارٹی نائٹ کا اختتام کیا ہونا تھا ۔۔۔

•••••••••••••••••••••

اوچ ۔۔۔ مر گئی میں تو۔۔۔ نور نے ایک اونچی سدا لگائی۔۔ یار ذرہ ہاتھ ہلکا رکھ لو میں کون سا تمہارے بچے کو مارا ہے۔۔ وہ بیوٹیشن سے بولی جس کو امل بیگم نے گھر بولا رکھا تھا سب لڑکیوں کے ٹریٹمنٹ کے لیے ۔۔۔

نہیں نہیں میں کوئی بدلے نہیں لے رہی اب اتنی تو درد ہوتی ہی ہے پلیکنگ کے ٹائم ۔۔ وہ بیوٹیشن پروفیشنل انداز میں بولی۔ لہجہ بہت مدہم اور دھیما تھا۔ اس کو بھی یہ تین سہلیاں پسند ائی تھی۔۔

اچھا کیا اب میں جاؤ ؟؟ نور نے بیچارگی سے بیوٹیشن کی طرف دیکھا۔۔

نہیں نہیں ابھی کہاں ابھی تو شروع ہوئی ہے ۔۔۔ بیوٹیشن نے یہ کہتے ساتھ ہی دھاگا پھر نور کی آنکھوں کی طرف بڑھیا ۔۔

آمنہ تم بھی وہ ہی کرنے کا سوچ رہی ہو نہ جو میں سوچ رہی ہوں ؟؟ جزا آمنہ کے کان کے پاس جھکی۔

بلکل جزا ۔۔ آمنہ نے بیچارگی سے جزا کی طرف دیکھا۔۔۔

چل اٹھ چلیں یہاں سے ورنہ جیسے ابھی نور کی چیخیں نکل رہی ہیں ویسے ہماری نکلیں گئی۔۔ جزا یہ کہتے ساتھ اٹھ کر باہر کی طرف جانے لگی تھی اور آمنہ اس کے پیچھے نکلی۔۔

ابھی دروازہ کھلا ہی تھا کہ باہر سے امل بیگم اور روحا بیگم اندر آئی ۔

کدھر جا رہی تھی دونوں ؟؟ امل بیگم اور روحا بیگم ایک ساتھ بولی ۔

وہ ہمیں یہ سب نہیں کروانا ۔۔۔ آمنہ کی زبان میں کھجلی ہوئی ۔

کیوں ؟؟ روحا بیگم نے گھور کر اپنی اس نافرمان اولاد کو دیکھا تھا۔

دلہن نور ہے ہم دونوں تو نہیں نہ تو پلیز ہمیں بخش دیں۔۔ جزا بیچارگی سے بولی ۔۔ کیونکہ نور کی حالت دیکھ کر ان دونوں کا دل منہ کو آ رہا تھا ۔۔ ان کو کہاں عادت تھی ان سب چیزوں کی جو آج ان کے ساتھ ہونے والی تھی ۔

روحا بیگم نے آمنہ کا کان پکڑا جبکہ امل بیگم نے جزا کا کان پکڑا تھا۔۔ وہ دونوں ان دونوں کو لے کر وآپس کمرے میں گئی اور ساتھ ہی دو اور لڑکیاں کمرے میں آئی تھی۔۔

اب منظر کچھ یہ تھا کہ نور کے ایک طرف جزا اور دوسری طرف آمنہ تھی اور باقی دونوں لڑکیاں ان کی پلیکنگ اور اپر لیپس کرنے کی کوشش میں تھی کیونکہ زدہ سا دھاگا لگنے سے دونوں پھر سے کھڑی ہو جاتی تھی۔۔ اور تھوڑی دیر پہلے جو یہ دونوں نور پر ہنس رہی تھی اب نور ان دونوں کو دیکھ دیکھ کر ہنس رہی تھی ۔۔

••••••••••••

کون سا بدلا لیا ہے یار ان عورتوں نے۔۔ جزا اپنا منہ دیکھ کر بولی۔۔

میرا تو سارا منہ ہی چھیل دیا ہے۔۔ آمنہ روتی آواز میں بولی۔۔

صرف تیرا نہیں ہم تینوں کا ۔۔۔ نور نے آمنہ کو سائیڈ پر کرتے خود شیشے کے سامنے کھڑی ہوتی بولی۔۔۔

میری توبہ یار۔۔ کتنی درد ہوتی ہے ۔۔ جزا بیڈ پر گرنے والے انداز میں بولی

مجھے تو گانا یاد آ رہا۔۔ آمنہ کو تو آج کل بات بات پر گانے یاد آ رہے تھے۔

کون سا گانا اب تمہیں یاد آ گیا اتنا منہ کا ستیاناس کروانے کے بعد ۔۔ نور نے آمنہ کو گھور کر دیکھا ۔

اتنا گھور کے نا دیکھیں بھابھی جان ۔۔ آمنہ نے شرماتے ہوئے ڈوپٹہ دانتوں میں دبایا۔۔

اچھا گانا سنا نا کون سا یاد آیا ہے۔ اس کی ڈرامہ بازی دیکھ کر جزا ہستے ہوئے بولی۔

توبہ کرا دیتی تو ظالماں ۔۔ ابھی وہ اس سے آگے گاتی جزا اور نور نے اٹھ کر اس کے منہ پر ہاتھ رکھا۔۔۔

تیری مہربانی اس سے آگے ایک لفظ نہ گائی۔۔ جزا نے اس کو گھوری کروائی۔

بہت ہی فارغ آواز ہے تمہاری میں بہری بلکل نہیں ہونا چاہتی۔۔۔ نور نے بھی اس کو گھوری کروائی۔۔

نہیں نہیں اب تو میں پورا گانا گا کر ہی روکوں گی کر لو جو کرنا ہے۔۔ وہ ان دونوں کو سائیڈ پر دھکیلتی اٹھی تھی ۔۔۔

ہمم ہمم ۔۔ وہ دوبارہ گانے لگی ہی تھی کے  نور نے اور جزا نے اس کو واپس پیچھے کی طرف کھینچا ۔۔ اور ایک نے اس کے منہ  پر دوپٹہ باندھا جبکہ دوسری نے اس کے ہاتھوں کو باندھ دیا۔۔

چپ بلکل چپ۔۔۔ وہ دونوں آمنہ کو گھورتی بولی جبکہ آمنہ ان کو ایسی نظروں سے دیکھ رہی تھی کہ ایک بار کھولو سہی پھر بتاتی ہو دونوں کو۔۔۔

اچھا بچیوں بات سنو ۔۔۔۔۔  اندر آتی امل بیگم اپنی بات مکمل کرنے ہی والی تھی کے سامنے آمنہ کے منہ اور ہاتھ کو ڈوپٹہ میں باندھا دیکھ کر روک گئی۔۔ جبکہ ہاتھ جھاڑتی جزا اور نور کی نظر سامنے کھڑی امل بیگم پر پڑھی تو سیدھی ہو گئی ۔

ماما آپ، انٹی آپ۔۔۔ نور نے اپنی ماں جزا نے امل بیگم  کو دیکھ کر بولا۔۔

ماما اور انٹی کی بچیوں روکو دونوں ذرہ ۔۔ امل بیگم نے جوتی اتار لی تھی ۔

یہ کوئی طریقہ ہے اس بیچاری کے ساتھ کیا کیا ہے تم دونوں نے۔۔ امل بیگم کے ہاتھ سے جوتی آزاد ہوئی تھی اور سیدھا نور کی کمر میں لگی۔۔

کوئی بیچاری نہیں ہے وہ آنٹی ۔۔ جزا جو اپنی آپ کو بچانے کے لیے صوفے پر چھرہی ہوئی تھی بولی ۔

ہاں اور تم دونوں کا اپنے بارے میں کیا خیال ہے؟؟ اب کی بار امل بیگم کی جوتی جزا کی طرف پڑھی تھی۔۔۔ جس کو اس نے کیچ کر لیا۔۔

نائس کیچ ۔۔ نور نے  ایکسئٹیڈ ہو کر بولی۔۔۔

نائیس کیچ کی کچھ لگتی۔۔ اس سے پہلے میں تمہیں اچھی طرح سے پھینٹی لگائوں کھولو اس کو۔۔

نور نے جزا کی طرف دیکھا ۔۔ جزا نے اس کو آنکھوں سے ایسے اشارہ کیا جیسے کہہ رہی ہو اور مار کھانی ہے تو بیشک نہ کھول۔۔

نور نے آگے جا کر آمنہ کو کھولا۔۔۔ اور آمنہ ایسی معصومیت سے بیٹھی کے ںور اس کی معصومیت دیکھ کر گرتے گرتے بچی تھی۔۔

امل بیگم نور اور جزا کو کافی دیر لیکچر دینے کے بعد کمرے سے نکلی تھی کہ ساتھ ہی آمنہ کا قہقہہ  پورے کمرے میں گنجا تھا۔۔۔

جزا اور نور نے ایک دوسرے کو دیکھا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے آمنہ کے قہقہے مزید اونچے ہوئے اور پھر اس کی فریادیں سنائیں دنے لگی۔۔۔

میری توبہ اب۔۔۔ کچ کچھ نہیں کرتی ۔۔ وہ ہنستے ہوئے بامشکل بولی۔

نہیں نہیں اب بھی گانا گا کر سناؤں نہ  وہی والا ۔ جزا اس کو گدگدی کرتی پھر سے بولی۔۔

کافی دیر اس کو گدگدانے کے بعد وہ آخر تھک کر اس کے پاس ہی لیٹ گئی تھی اور اب وہ تینوں ہی ہنس رہی تھی ۔۔ تبھی سویرا اندر آئی ۔۔

تم کب ائی ہو۔ جزا نے اس کو دیکھ کر بولا۔

ابھی آئی ہوں ماما کے ساتھ ۔۔ سویرا آتے ساتھ بیڈ پر بیٹھ گئی ۔

ویسے مجھے لگ رہا ہے میں بہت کچھ مس کر دیا ہے ۔ سویرا ان کی شکلوں اور کمرے کی حالت کو دیکھ کر بولی۔۔

جی جی بلکل بہت کچھ مس کیا ہے۔۔ اور سب سے بھڑھ کر ہونے والی دلہن کو پڑھتی جوتی مس کی ہے۔۔ یہ کہہ کر آمنہ نے باہر کی طرف دوڑ لگائی اور نور نے اپنی چیپل اتر کے آمنہ کی طرف پھنیکی۔۔ جبکہ جزا اور سویرا ہنس رہی تھی آمنہ کو کمر رگرتا دیکھ کر ۔

••••••••••••••

شاباش لڑکیوں بہت خوب تم لوگ تو بہت جلد ہی سب کچھ سیکھ رہی ہو ۔ عزیزہ اپنے سامنے کھڑی ان سب لڑکیوں کو دیکھ رہی تھی تو آج کہیں سے بھی کمزور نہیں لگ رہی تھی بلکہ بہت مضبوط اور باہمت لگ رہی تھی ۔

سیکھنے کی جتنی لگن ہو اتنا ہی جلدی سیکھا جاتا ہے میم۔۔ ان میں سے ایک لڑکی بولی تھی۔۔

بہت خوب ۔۔ عزیزہ نے شتائسی نظروں سے ان سب کو دیکھا ۔۔۔

اچھا لڑکیوں بات سنوں تم سب کو ہماری ایک میشن پر مدد کرنی ہے جس کی وجہ سے تم سب کو تیار کیا جا رہا ہے۔۔۔ مزید  کچھ ہفتے تم لوگوں کی اور ٹریننگ ہوگی جس میں تم لوگوں کو گن چلنا نشانہ باندھنا، بلند عمارتوں سے چھلانگ لگانا ، اگر کوئی انجری ہو جائے تو خود کو وقتی طور پر فیسٹ ایڈ کس طرح سے دی جائے، اپنے ساتھی کی مدد کرنا اور بھی بہت کچھ سیکھیا جائے گا۔۔ اور میں امید کرتی ہوں تم سب وہ بہت جلدی سیکھ لوگی ۔۔ عزیزہ ان سب کو دیکھتے ہوئے بولی۔۔

انشاللہ میم ۔۔ وہ سب یک زبان بولی تھی۔۔۔

مگر میم ہم سب کس میشن کے لیے تیار کی جا رہی ہیں ۔؟ ان میں سے ایک نے پوچھا۔۔

یہ تم سب کو آنے والا وقت بتائے گا لڑکیوں کے تم لوگوں کو یہ سب کس لیے سیکھیا جا رہا یے ۔ مگر اس بات کا یقین  رکھو جس  جس نے تم لوگوں کو تکلیف دی ہے ان سب کو تم لوگ اپنے ہاتھوں سے سزا دو گی اور وعدہ کرو مجھ سے تم لوگ ان کو عبرتناک سزا دو گی۔۔۔ عزیزہ سامنے دیوار کو دیکھتی بولی تھی۔۔

ہم وعدہ کرتی ہیں ۔۔ سب ایک ساتھ بولی ۔۔

اور ایک اور وعدہ کرو کبھی بھی ضرورت پڑنے پر اس ملک  کے لیے اس ملک کے بچوں کے لیے اس ملک کی نسل کے لیے اس ملک کی بیٹیوں کے لیے اس ملک کی حفاظت کے لیے جب کبھی بھی تم لوگوں کی ضرورت ہو گئ کبھی بھی اپنی جان کی بازی لگانے سے پیچھے نہیں ہٹوں گی۔۔ ہمیشہ بلند حوصلہ رکھو گی ، کبھی نہیں ڈرو گی۔۔ باوقار ہو کے جیو گی اور باوقار موت کو گلے لگاؤ گی۔۔ کبھی کیسی کے سامنے نہیں جھوکی گی اللہ کے سوا ۔۔۔۔  عزیزہ نے ان سب کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولا ۔

ہم وعدہ کرتی ہیں میم۔۔ جب جب اس ملک کو ضرورت ہو گی تب تب ہم اس ملک کے لیے جان کے نذرانے پیش کریں گی۔۔ وہ سب ایک ساتھ بولی تھی ان کی آواز میں ایک عزم تھا ایک جوش تھا ایک جنون تھا۔۔

چلو لڑکیوں اب اپنی  پریکٹس پر دھیان دو۔۔ یہ کہہ کر عزیزہ ان کو ان کی پریکٹس کرتا دیکھنے لگی اور دور کہیں وہ بہت گہری سوچوں میں تھی۔۔ کہ اچانک ان کا فون بجنے لگا۔۔ سکرین دیکھ کر وہ ایک بار حیران ہوئی تھی پھر ان کے چہرے پر ایک خوبصورت سی مسکراہٹ آ گئی تھی جیسے بہت عرصے بعد کیسی عزیز کو دیکھنے پر آئے ۔۔ وہ کال اٹینڈ کرتی باہر کی طرف بڑھی تھی ۔۔

ہیلو پاٹنر ۔۔۔ عزیزہ نے پرجوش انداز میں بولا۔۔

کیسی ہو عزیزہ ۔۔ مقابل کا ہمیشہ کی طرح مدھم لہجہ فون پر سے گنجا۔۔

میں ٹھیک ہوں  آپ یہ بتائیں کافی عرصے بعد کنٹیکٹ کیا ہے بیوی بچوں سے فرصت مل گئی۔۔ عزیزہ کا اندازہ تھوڑا روٹھا ہوا سا تھا جیسے کوئی بہن بھائی سے شکوہ کر رہی ہو۔۔

آرے آرے چھوٹی تم تو غصہ کرنے لگی ہو خیر آج رات میں آ رہا ہوں تم سے کوئی بات کرنی ہے ساتھ سارے شکوے بھی ختم کروں گا۔۔۔۔ مقابل نے ہستے ہوئے کہا۔۔

سب خیریت تو ہے نہ کوئی پریشانی کوئی مسلہ ہے تومیں ابھی ایم-زی، سکندر اور فاروق کو اطلاع کر دیتی ہوں۔۔ وہ پریشان ہوئی تھی ۔

نہیں نہیں مسئلہ نہیں بس ایسے ہی کیسی کام کے مطالق بات کرنی ہے رات میں ملاقات ہوتی ہے۔۔ یہ کہتے ساتھ مقابل نے کال کاٹ دی۔۔۔

آف الفا تمہاری پرانی عادت ہمیشہ پریشان کر کے کال کاٹ دیتے ہو۔۔ وہ فون کی سکرین کو دیکھتے بولی۔۔ دور یادوں میں ایک منظر تازہ ہوا تھا۔۔۔

ماضی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

الفا۔۔۔ کدھر ہو یار آپ خدا کا نام ہے کال اٹھائیں یار۔۔ عزیزہ رونے والی ہو گئی تھی۔۔۔

کیا ہوا ہے عزیزہ مت ہو اتنی پریشان وہ ٹھیک ہی ہو گا۔۔ خان ساتھ بیٹھا بولا تھا۔۔

آپ ایسے کیسے ریلیکس ہو سکتے ہیں وہ دوست ہیں ہمارے اور بھائیوں کی طرح ہیں ۔۔۔ آپ کا تو پتا نہیں میرا تو خاندان ہی اب وہ ہیں ۔۔ آپ رہیں ادھر اور میں جا رہی ہوں ان کی مدد کو۔۔ یہ کہہ کر وہ ابھی  آگے بڑھی ہی تھی کے فوراً سے دھماکہ ہوا اور ہوا بھی اس جگہ پر تھا جہاں الفا گیا تھا۔۔۔

ایک ہی لمحہ میں خان گاڑی سے اترا تھا۔۔۔

نہ ۔۔۔ نہیں ۔۔۔ ال۔۔۔ الفا۔۔۔۔ عزیزہ آگے کی طرف بڑھنے لگی تھی خان بھی ساتھ ہی آگے بڑھا تھا۔۔۔

دونوں کی حالت دیکھنے لائق تھی۔۔ جیسے کچھ کھو دیا ہو۔۔۔۔

ہر طرف آگ تھی عزیزہ اور خان کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کس طرف جائیں کہاں الفا کو ڈھونڈیں ۔۔ اور الفا کے بغیر تو وہ دونوں ادھر سے جانے والے نہیں تھے ۔۔۔

کافی دیر وہ دونوں الفا کو ڈھونڈتے رہے تھے۔۔ عزیزہ کا رو رو کر برا حال تھا جبکہ خان کی آنکھوں میں آنسوں تھے وہ مضبوط مرد تھا کبھی بھی نہیں رویا تھا لیکِن آج ایک دوست کو کھودینے کے دکھ نے اس کے دل کو بہت تکلیف دی تھی ۔۔ الفا اس کے لیے صرف دوست نہیں تھا وہ اس کے لیے بھائی سے بڑھ کر تھا۔۔

وہ دونوں تھک کر ایک کونے میں بیٹھ گئے تھے ایسی کوئی جگہ نہ تھی جو انہوں نے نہ دیکھی ہو۔۔

الفا کدھر ہو یار۔۔۔ تم مجھے نہیں مل رہے۔۔ خان کا لہجہ بہت تھکا ہوا تھا۔۔ ایک ایسے راہگیر جس کا سب کچھ لٹ چکا ہو۔۔

گائز کچھ دھونڈ رہے ہو تم لوگ۔۔  اچانک ایک آواز نے ان کو اپنی طرف متوجہ کیا۔۔

ان لفظوں نے عزیزہ اور خان دونوں کو سر اٹھانے پر مجبور کیا ۔۔ پہلے ان دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا۔۔ پھر اپنے پیچھے دیکھا جدھر سے آواز ائی تھی۔۔

وہ شان بے نیازی سے ایک درخت کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑا ٹھا ۔۔ سر سے ایک جگہ سے تھوڑا خون نکل رہا تھا۔۔ جو شرٹ پہن رکھی تھی وہ بھی گردآلود ہو چکی تھی ۔۔ ہاتھ اور بازو بھی زخمی ہوا ہوا تھا۔۔۔

تم کدھر تھے۔۔ خان دھارا تھا اس پر غصہ اور غم کا تاسر ملا جلا تھا۔۔

میں تو ادھر ہی تھا تم لوگوں پتا نہیں کیا ڈھونڈ رہے تھے۔۔ الفا کا لہجہ  انتہا کا سکون بخش تھا۔۔

اب عزیزہ اور خان کا دل کر رہا تھا اس بندہ کو اٹھا کر کہیں پھینک دیں ایک وہ اس کی وجہ سے پریشان ہو رہے تھے کہ وہ ٹھیک ہو اس کو کچھ نہ ہو دوسری طرف وہ ان کا اس حالت میں بھی شوگل لگا رہا تھا۔۔

آؤ ہم کیسے بھول گئے کہ الفا کی عادت ہے سب کو پریشان کر رکھ دینے کی۔۔۔ یہ کہتے ساتھ خان نے اپنے پاؤں سے جوتا نکالا تھا اور الفا کے پیچھے بھاگا ۔۔ الفا خود کو بچانے کے لیے کبھی ایک طرف تو کبھی دوسری طرف بھاگ رہا تھا۔۔ اور پیچھے پیچھے خان اس کو اونچی آواز میں کوس رہا تھا۔۔

جبکہ عزیزہ ایک طرف بیٹھ کر اس منظر کو دیکھ رہی تھی اور نم آنکھوں سے مسکرا رہی تھی۔ جو کچھ عزیزہ کے ساتھ ہوا تھا اس سب سے عزیزہ کو باہر نکالنے میں الفا نے بہت محنت کی تھی۔۔ وہ عزیزہ کے لیے اس کے سگے بھائی سے بھی بڑھ کر ہو گیا تھا۔۔۔۔

 

حال۔۔۔۔۔۔۔

وہ مدہم سا مسکرائی اور اپنے آفس کی طرف بڑھی تھی۔۔۔

••••••••••••••••••

وہ ابھی کچھ دیر پہلے ہی واپس آیا تھا لاہور اور اب کمرے میں اپنے بستر پر لیٹا ہی تھا کہ ماہر نے اس کے کمرے کا دروازہ کھولا اور اندر آیا ۔۔۔

اس نے اپنے بھائی کو غصہ سے دیکھا ۔۔

ایسے کیا دیکھ رہے ہو ؟؟ ماہر نے اس کو آنکھیں دیکھائی ۔۔

اتنے بڑے ڈنگر ہو گے ہو یہ تمیز نہیں آئی کیسی کے کمرے میں جائیں تو دروازہ نوک کرتے ہیں پہلے۔ آیان تپ کر بولا تھا کیونکہ اس کو نیند آئی ہوئی تھی اور ماہر نے آ کر اس کی محبوب نیند اور اس کے درمیان ٹانگ اڑائی تھی۔۔۔

تمہاری کون سی پرائویسی ہے جو دروازہ نوک کر کے آؤ ؟؟ ماہر نے اس کو غور سے دیکھا ۔۔

کیا مطلب ؟؟ آیان نے اس کو مقابلے پر گھورا۔۔

نہیں مطلب یہ نہ کہ نہ تو شادی شدہ ہے اور نہ تیرا کوئی ریلیشن شپ ہے کہ تو ابھی اپنی بابو شونا کہ ساتھ بیزی ہو اور  تیری کوئی پرائویسی ہو اور تجھے میں نے ڈسٹرب کر دیا ہو۔۔ ماہر نے اس کی دکھتی رگ دبائی تھی ۔۔

نہیں مطلب کیا ہے تمہارا اگر میری شادی نہیں ہوئی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ میری کوئی پرائویسی نہیں ۔۔۔۔ آیان تپ ہی تو پڑھا تھا۔۔

کیا ہو گیا ہے اتنا بھرک کیوں رہا ہے۔۔ ماہر نے اپنی ہنسی کا گلا گھونٹا ۔۔

نہیں پہلے تم میں سوال کا جواب دو اگر میری شادی نہیں ہوئی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ میری کوئی پرائویسی نہیں ؟؟؟ آیان لڑنے کے لیے کھڑا ہوگیا تھا۔۔

اچھا پہلے تم مجھے اپنی پرائویسی بتا نہ جس کے لیے اتنا تم بھرک رہے ہو ۔۔ اکیلے  بندے کی کون سی پرائویسی ہے ؟؟ ماہر تپا دینے والی مسکراہٹ کے ساتھ بولا تھا۔۔۔

تم مجھے میرے سنگل ہونے کے تانے زیادہ نہیں دینے لگ گئے؟؟جس دن میری شادی ہوئی نہ اس دن منہ بھی نہیں  لگاؤں گا تجھے میں ۔۔۔ آیان نے ماہر کو اس کی کلر سے پکڑ لیا تھا۔۔

نہیں اب تم سنگل ہو تو تمہیں میں یہ یاد بھی نہ کرواں۔ اور منہ لگانے والی بات ابھی ایسے نہ کرو یہ نہ ہو تمہاری بیوی ہی تمہیں منہ نہ لگائیے پھر رونے کے لیے تم میرے پاس ہی آؤ گے نہ۔۔ ماہر بے نیازی سے بولا۔

تیری تو میں ۔۔۔ ابھی آیان ماہر کو کچھ اور بولتا افضل صاحب کی آواز سنائی دی۔۔

یہ کیا ہو رہا ہے؟؟ کوئی تمیز کوئی شرم کچھ ہے کہ نہیں ؟؟؟ افضل صاحب نے آیان کو گھور کر دیکھا جو بھائی کا گریبان پکڑے کھڑا تھا۔۔۔

وہ ڈیڈ وہ میں ۔۔۔ آیان نے کچھ بولنا چاہا۔۔

یہ میں میں بند کرو چپ کر کے میرے ساتھ سٹیڈی میں چلو۔۔۔ یہ کہہ کر افضل صاحب باہر نکل گئے۔

جبکہ آیان ماہر کے پیٹ میں مکا مرنا نہ بھولا تھا۔۔ 

ظالم انسان ابھی قیمے والا پراٹھا کھا کر آیا تھا میں۔۔ ماہر نے دوھائی دی تھی۔۔

میرے لیے بنایا ہے موم نے؟؟ آیان کے منہ میں پانی آ گیا تھا قمیے والے پراٹھے کا سن کر۔۔

تمہارے لیے ہی بنا تھا میں کھا آیا ۔۔ یہ کہہ کر ماہر آیان کے پاس سے گزرا کر باہر جانے ہی لگا تھا کہ آیان نے اس  کی ٹی-شرٹ کے پیچھلے گلے میں ہاتھ ڈال کر اس کو اپنی طرف کھینچا۔۔

میں تمہیں جان سے مار دوں گا۔۔ آیان غصہ میں اس کو مارنے کے لیے لپکا تھا۔۔ ماہر نے فوراً آیان کو دور دھکیلا ۔۔۔

شرم کر بڑا ہوں تجھ سے۔۔ ماہر نے اپنے بچاؤ کے لیے کشن آگے کیا ۔

تو بڑا ہے تو دل بھی بڑا دیکھاتا نہ میرا پڑاٹھا بھی کھا گیا۔۔ بھوکا ندیدا ۔۔ اس نے پیلو اٹھا کرماہر کی طرف پھینکا۔۔

ویسے پراٹھا تمہارا نہیں قمیے کا تھا ۔۔ اس نے آیان کی طرف دیکھ کر آنکھ ونک کی۔۔

آیان تمہیں میں نے سٹیڈی میں آنے کا بولا تھا۔۔ ابھی آیان کچھ اور بولتا افضل صاحب کی آواز آئی تھی سٹیڈی میں سے۔۔۔

آیا ڈیڈ ۔۔ آیان یہ بول کر کمرے میں سے نکلا تھا اور کچھ یاد آنے پر واپس کمرے میں آیا اور ماہر کی کمر میں مکا مار کر بھاگ گیا۔۔۔

تیری روک تو۔۔ ماہر آیان کے پیچھے بھاگا جبکہ آیان نیچھے سٹیڈی روم میں جانے سے پہلے ماہر کو منہ بنانا نہ بھولا تھا۔ اور سڑیوں سے اترتا ماہر اس کو گھور کر رہ گیا۔۔

••••••••••••••••

جی ڈیڈ بولیں ۔۔ اس نے اندر جاتے ساتھ افضل صاحب سے پوچھا۔۔

بیٹھو۔۔ افضل صاحب نے اس کے سامنے ایک فائل کی۔۔۔

کیا آپ مجھے پراپرٹی میں سے حصہ دے رہے ہیں ؟؟ آیان نے ایکسئٹیڈ ہو کر پوچھا۔۔ اور افضل صاحب کا دل کیا سر پیٹ لیں۔۔

جب تک تم ایک ذمہ دار آدمی نہیں بنتے گھر بار نہیں بناتے اپنا تب تک تو سوچنا بھی مت مسٹر۔۔۔ افضل صاحب نے اس کو گھوری سے نوازا ۔۔

اتنا تو ذمہ دار ہوں میں ۔ گھر چھوڑے آس پاس بھی کوئی کام غلط ہو جائے سارا ذمہ مجھ معصوم کے کندھوں پر آ جاتا ہے اور رہی بات گھر بار والی میں تو کب سے بول رہا ہوں میری شادی کروں آپ لوگ ہی نہیں کروا رہے۔۔۔۔۔ آیان نے معصوم سی شکل بنائی۔۔

معصوم اور  تم استغفر اللہ ،، اور تمہاری ابھی شادی کروا کر کیسی کی بیٹی کی زندگی مشکل میں ڈالنے کے موڈ میں تو میں بلکل بھی نہیں۔۔ افضل صاحب نے اپنی اس نالائق اولاد کو دیکھا ۔۔

آپ تو ویسے ہی جلتے ہیں مجھ سے میری معصومیت سے اور مجھ سے شادی کر کے کیسے کیسی کی بیٹی کی زندگی خراب ہو گی۔۔۔۔ وہ برا مانتے ہوئے بولا تھا۔

سیدھی سی بات ہے تم نے اس بچاری کی ذمہ داری کیا اٹھانی الٹا اس بچاری کو ایک پلے پلائے اتنے بڑے بچہ کی ذمےداری مل جانی ہے۔۔۔ انہوں نے منہ نیچے کر کے اپنی مسکراہٹ چھپائی تھی۔۔۔

ڈیڈ ۔۔ وہ بیچارگی سے اپنے باپ کو دیکھتا رہ گیا۔۔

اب سنوں برخوردار آج افرریدئز کے ساتھ میٹنگ ہے اس فائل میں ساری ڈیٹیل ہے ۔۔ تم نے ہر ممکن کوشش کرنی ہے یہ ڈیل نہ ہو  سمجھ آ رہی ہے نہ ؟؟ انہوں نے آیان کی طرف دیکھتے بولا۔۔

ہممم آفریدی صاحب وہ ہی ہیں نہ جن کی لاسٹ آپ کے ساتھ ڈیل ختم ہونے پر آپ بہت خوش ہوئے تھے اور ساری فیملی کو پارٹی دی تھی ۔۔ اس نے کچھ سوچتے ہوئے بولا تھا۔۔۔  

ہیں یہ وہ یی ہیں ۔ یار بس کچھ بھی کر کے یہ ڈیل نہ ہونے دینا اج تمہاری سکیلز کا امتحان ہے۔۔ آگے مر مر کے جان چھڑائی ہے اس پاگل آدمی سے دوبارہ گلے نہیں ڈالنا مجھے اس کو روز روز آفس میں آ کر سر کھاتا ہے بولنا شروع کرے تو روکتا ہی نہیں ہے عجیب آدمی ہے ۔۔۔ انہوں نے آیان کو اصل بات  بتائی  اور یہ ہی ان کی سب سے بڑی بدقسمتی تھی کے وہ اس ٹائم آیان صاحب کو سب بتا بیٹھے تھے۔۔۔

آپ فکر نہ کریں ڈیڈ میں سب سنبھال لوں گا۔۔ میٹنگ کب ہے؟ وہ اٹھاتا ہوا بولا تھا۔۔

چار گھنٹے بعد۔۔ انہوں نے اس کو دیکھ کر بولا جس کے چہرے کی چمک ان کو سمجھ نہیں آ رہی تھی۔۔

اوکے ۔۔ وہ یہ کہتا باہر نکل گیا۔۔

اب آئے گے دو اونٹ پہاڑ کے نیچے ۔۔ مجھ سے پنگا لیا ہے نہ دونوں نے ایک نے میرا پراٹھا کھایا اوپر سے سنگل ہونے کے تانے دیے دوسرے نے مجھے ناکامہ اور نالائق سمجھ رکھا ہے اب ان کو تومیں مزہ چکھتا ہوں۔ وہ خود سے بولتا کمرے سے باہر نکالا تھا۔۔

جبکہ اندر افضل صاحب تھوڑے پریشان بھی تھے کیونکہ چلتی پھرتی آفت کو چھڑ کر اس کو کام بول دیا تھا

 

وہ میٹنگ شروع ہونے سے دو گھنٹے پہلے ہی آفس میں مجود تھا۔۔ اور یہ بات افضل صاحب کو ہضم نہیں ہو رہی تھی۔۔ اس کی تیاری سے آج وہ مکمل طور پر ایک بزنس مین لگ رہا تھا۔۔

کچھ ہی دیر میں میٹنگ شروع ہو گئی تھی۔۔۔ آیان جو نیوی بلو پنٹ کوٹ کے ساتھ وائٹ شرٹ پہنے اور گلے میں نیوی بلو ٹائے بدھے آج بہت زیادہ ہنڈسم لگ رہا تھا۔۔ وہ بلکل پروفیشنل طریقے سے ہر پوئٹ کو ڈیسکس کر رہا تھا۔۔ اگر آج کیسی اور کے ساتھ میٹنگ ہوتی تو یقیناً آج افضل صاحب اس کی سکیلز کی دعات دیے بغیر نہ رہتے مگر وہ کیا جانتے تھے کہ اج اس نے یہ جوہر دیکھائے ہی اپنے باپ سے اور بھائی سے بدلہ لینے کے لیے  تھے۔۔۔ افضل صاحب اس کو ایسی نظروں سے دیکھ رہے تھے کہ گویا ان کا بس نہ چل رہا ہو اور وہ اس کو ادھر ہی جوتے مارنا شروع کر دیں ۔۔ جبکہ ماہر اس کے آج کہ جوہر دیکھ کر ہی اندازہ لگا چکا تھا کہ یہ سب اس کا پلین ہے بدلہ لینے کا۔۔

میں واقع ہی بہت ایمپریس ہوا ہوں آپ کے چھوٹے بیٹے سے افضل صاحب اور ہماری طرف سے یہ ڈیل فائنل ہو گئ ہے ۔۔۔ مراد آفریدی جو عمر میں بڑے اور باروب شخصیت کے مالک تھے افضل صاحب سے ہاتھ ملا کر جھک کر کنٹریکٹ سائن کرنے لگے۔۔ جیسے ہی انہوں نے سائن کیے تو مجبوراً افضل صاحب کو بھی سائن کرنا پڑا اور یہ وہ ہی جانتے تھے کس طرح انہوں نے سائن کیے تھے۔۔

ماہر کو اپنے باپ پر ترس آ رہا تھا کہ ضرورت کے وقت کس مصیبت سے مدد مانگی تھی انہوں نے۔۔

چلیں افضل صاحب آئیں اب کچھ دیر باتیں کرتے ہیں ۔۔۔ اور یہ وہ چیز تھی جس سے افضل صاحب کی جان جاتی تھی یعنی کہ اب افضل صاحب کو چھ / سات گھنٹے مراد آفریدی کی باتیں سنی تھی۔۔

انہوں نے غصہ سے آیان کی طرف دیکھا جبکہ کے آیان نے اس غصہ والی گھوری کا کوئی اثر نہ لیا اور آگے بھر کر مراد آفریدی سے ہاتھ ملایا اور اپنے باپ کے گلے لگا اور بولا۔۔

چلیں پھر میرا کام ہو گیا میں گھر جا رہا آپ آرام سے آئیں گا۔۔ اس نے باپ کو گلے لگا کر بولا ۔

دل تو کر رہا ہے تمہارا گلا دوبا دوں آج ۔۔ افضل صاحب نے چہرے پر جبران مسکراہٹ سجا کر کہا۔۔

پہلے ان سے تو جان چھڑا لیں۔۔ اس نے چور آنکھوں سے مراد صاحب کی طرف دیکھ کر باپ کو آنکھ ماری۔۔ اور پیچھے کھڑے اپنے بڑے بھائی کو دیکھا جو اس وقت اس کو گھور رہا تھا۔۔

وہ میٹنگ روم سے نکلا تھا اور گھر جانے کا ارادہ ترک کرتے اپنے آفس کی طرف بڑھا تھا۔۔

آفس میں جا کر اس نے اپنے لیپ ٹاپ کو آن کیا اور اپنے باپ کے آفس کی کیمرا ریکارڈنگ آن کر لی ساتھ ہی اپنے کھانے کا آرڈر دیا ۔۔

اب منظر کچھ یہ تھا کہ آیان صاحب اپنے آفس میں بیٹھے سکرین پر نظر جمائے چہرے پر مسکراہٹ سجائے سامنے کا منظر دیکھ رہے تھے جہاں مراد آفریدی صاحب بولی جا رہے تھے اور ان کے سامنے افضل صاحب اور ماہر بیٹھے ان کی باتیں سنی جا دیے تھے۔۔ اس نے سائڈ پر رکھا کوک کا ٹین منہ سے لگایا اور ایک لمحے کے لیے بھی سکرین پر سے نظر نہ ہٹائی اس نے جیسے اس کا فیوریٹ شو چل رہا ہو۔۔

مراد صاحب کافی دیر افضل صاحب اور ماہر کے کان کھانے کے بعد واپسی کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔۔ جیسے ہی وہ آفس سے نکلے ساتھ ہی آیان صاحب بھی اپنے آفس سے نکلے تھے اور افضل صاحب کے آفس کی طرف بڑھے۔۔۔ اندر افضل صاحب جو آیان کو قوس رہے تھے اس کو دروازے کے ساتھ کھڑا دیکھ کر کھول اٹھے۔۔ وہ بھی پیدائشی ڈھیٹ ہونے کا ثبوت دیتا اندر داخل ہوا۔۔

ہیم ہیم ۔۔ وہ میں یہ پوچھنے آیا تھا کیسی رہی میٹنگ ۔۔ وہ کرسی پر بیٹھتا ڈھیٹائی سے بولا تھا۔۔ جبکہ ماہر اس کی سلامتی کی دعا کرنے لگا۔۔

میں تمہاری ہڈیاں توڑ دوں گا ذلیل انسان اپنی خکل گم کرو یہاں سے۔۔ افضل صاحب اپنی کرسی سے اٹھ کر اس کی طرف بڑھے وہ بھی اتنی ہی تیزی سے اٹھ کر تھوڑا دور ہوا۔

میں نے کیا کیا ہے یار۔۔ وہ بلا کی معصومیت سے بولا تھا۔۔

میری جان عذاب میں ڈال دی ہے منہوس انسان ۔۔ انہوں نے آگے بڑھ کر اس کو پکڑنا چاہا ۔۔ جو اب ماہر کے پیچھے چھپ گیا تھا۔۔

آپ نے میٹنگ کا بولا تھا میں کر دی میٹنگ اب اس میں میرا کیا قصور ؟؟ وہ انتہا کی بیچارگی سے بولا۔۔

تمہیں طوطے کی طرح رٹا کر بھیجا تھا کہ یہ ڈیل کیسی صورت نہ ہو۔۔ اور تمہیں آج ہی اپنے سارے جوہر دیکھانے تھے۔۔ اب کی بار افضل صاحب نے صوفے کے سائڈ پر پڑا ایک آئرن سکیل اٹھا لیا ۔

ارے ارے کیا کر رہیں رکھیں اس کو لگ جائے گی مجھے۔۔ اور رہی بات جوہر کی تو شاید آپ نے ہی کہا تھا آج اپنے سکیلز دیکھانا۔ اس نے ابھی بھی اپنے بچاؤ کے لیے ماہر کو ڈھال بنا کر رکھا تھا۔۔

عقل کے اندھے میں نے تمہیں تمہاری بےقار سکیلز کا بولا تھا۔۔ افضل صاحب نے ایک ایک لفظ چبا کر بولا اور اس کو مارنے کے لیے آگے بڑھے۔۔

ڈیڈ ایسے نہ کریں باہر سب ایمپلائز ہیں ۔۔ اب کی بار ماہر بیچ میں آیا ۔۔۔

تم سائڈ ہو گے یا پہلے تمہاری ہڈیاں توڑوں ؟؟ افضل صاحب نے اس کو گھوری کروائی ۔۔

یار میں اپکا فائدہ کیا ہے اور آپ مجھے ہی مارنے پر تولے ہیں ۔۔ آیان نے معصومیت کے ریکارڈ توڑے تھے ۔

تم دفاع ہو جاؤ میرے افس سے ۔اب کی بار افضل صاحب نے جوتا اتار ہی لیا تھا۔۔ آیان نے بھی باہر کی طرف دوڑ لگا دی کیونکہ اب اس کو اپنی مار صاف نظر آ رہی تھی۔۔

نالائق ، عقل کا اندھا ، اپنی شکل بھی اس آفس میں دیکھائی تو تمہاری میں ٹانگیں توڑدوں گا۔۔ افضل صاحب اس کو قوستے جا رہے تھے۔۔

ڈیڈ پلیز غصہ کم کریں بی پی ہائی ہو جائیں گا آپ کا۔ ماہر نے باپ کو ریلیکس رکھنے کی کوشش کی تھی۔۔

اگر یہ مجھے ادھر دوبار نظر آیا تو میں اس کے ساتھ تمہاری ہڈیاں بھی توڑ دوں گا۔ افضل صاحب کا غصہ کم نہیں ہو رہا تھا۔۔ جبکہ ماہر منہ نیچے کر کے اپنی ہنسی چھپا رہا تھا کیونکہ اس کو اس کی ماں کی بات یاد ائی تھی جو اکثر کہتی تھی افضل صاحب اور آیان ٹوم اینڈ جیری ہیں ۔۔ اور تاریخ گواہ تھی افضل صاحب کا یہ  ہنڈسم بیٹا جب جب آفس آیا تھا تب تب جوتے کھا کر اور باپ کا بی پی ہائی کروا کر گیا تھا۔۔۔

•••••••••••••••

کدھر ہو تم۔۔۔ ابراہیم صاحب کی باروب آواز فون پر سے گنجی ۔۔۔

میں ۔۔۔۔ زوریز نے کافی سوچتے ہوئے کچھ بولنا چاہا۔۔

نہیں تم نہیں میں میں تمہیں فون کر کے اپنے بارے میں پوچھ رہا ہوں۔۔ ابراہیم صاحب غصہ میں بولے۔۔۔

وہ ڈیڈ میں کچھ کام سے شہر سے باہر آیا ہوں آ کر آپ کو بتاتا ہوں سب کچھ۔۔۔ زوریز نے ابراہیم صاحب کو ٹالنے والے انداز میں کہا۔۔

مسٹر زوریز ابراہیم خان میں تمہارا باپ ہوں تمہارے ایک ایک منٹ پر نظر ہوتی ہے۔۔۔ ابراہیم صاحب کرسی کی پشت سے ٹیک لگا کر بولے ۔۔

اب آپ مجھ پر بھی نظر رکھیں گئے ؟؟؟ کتنے کوئی افیئرز کا پتا چلا ہے میرے بتائیں گا؟؟ زوریز ہلکی مسکراہٹ ہونٹوں پر سجا کر بولا۔۔۔

جتنے تم خشک مزاج ہو تم افیئرز چلا ہی نہ لو کہیں ۔۔ انہوں نے دانت پس پر بولا۔۔

اچھا نہ یہ بتائیں ہوا کیا ہے ؟؟ کہیں کڑیلیے تو نہیں کھلا دیے آپ کی جان نے آپ کو۔۔ وہ  زومعنی انداز میں بولا۔۔

تم کیا واپس آتے ساتھ جوتے کھانے کے موڈ میں ہو۔۔ وہ اس کی بات سن کر بدمزہ ہوئے تھے۔۔

اچھا نہ بتادیں اب مجھ سے کیا چھپانا ویسے بھی آپ کی جان میری زیادہ مانتی ہیں کہیں تو کوئی سفارش وغیرہ کرؤں ؟؟ اس نے اپنے قہقہے کا گلا گھونٹتے ہوئے کہا۔ کیونکہ اگر اس قہقہے کی آواز اس کے باپ کے کان میں پر جاتی تو یقیناً اس کا باپ اس کی چھوٹی چھوئی بوٹیاں کر کے  چیل کوؤں کو کھلا دیتا ۔۔۔

تمہیں ایسا کیوں لگتا ہے کہ وہ تمہاری زیادہ مانتی ہیں ؟؟ وہ جل کر بولے تھے۔۔۔

کیا آپ کو نہیں پتا آپ کی جان میری سویٹ ہارٹ ہیں ؟؟ اس نے اپنی ہنسی کو روکنے کے لیے منہ پر ہاتھ رکھا تھا۔۔۔

تم واپس اب اپنے ریسک پر آنا بہت زبان لگی ہوئی ہے تمہیں کاٹنی پڑھے گئ اب یہ۔۔ انہوں نے ایک ایک لفظ چبا کر بولے تھے۔۔ اور اب کی بار زوریز کا قہقہہ فون پر سے گنجا تھا۔۔۔

باپ کا دشمن ، باپ کی محبت پر ہی ناگ بن کر بیٹھا ہوا ہے۔۔۔ انہوں نے فون پٹھخنے کے انداز میں رکھا تھا۔۔۔

اور سامنے کھولے لیپ ٹاپ کی سکرین پر نظر جما لی تھی۔۔۔ تھوڑی ہی دیر میں ان کے آفس کا دروازہ نوک ہوا ۔۔

آجاؤ اپنے دھیان میں مگن وہ بولے تھے ۔۔ جیسے ہی نظر اٹھا کر دیکھا تو سامنے کامران صاحب اور احسن صاحب کھڑے تھے۔۔

ارے آج آپ دونوں کو راستہ کیسے بھول گیا۔۔ ابراہیم صاحب اٹھ کر ان سے ملے تھے۔۔۔

راستہ نہیں بھولا بس سوچا آج یار دوستوں کے ساتھ تھوڑا وقت گزاریں اور بچوں کے نکاح کا پیغام خود جا کر دے کر آئیں ۔۔۔

کامران صاحب نے بیٹھتے ہوئے کہا۔۔ کامران صاحب احسن صاحب ابراہیم صاحب اور افضل صاحب چاروں ہی بزنس پارٹنر اور دوست تھے ۔۔

ویسے افضل کدھر ہے اس کو بھی بتا دینا تھا اور ساتھ شاہد کو بھی بولنا تھا۔۔ ابراہیم صاحب اپنی کرسی پر بیٹھتے ہوئے بولے۔۔۔

وہ یار میں بھول گیا تھا۔۔ کامران صاحب نے سر پر ہاتھ رکھتے بولا۔

چلو اب وہ آ کر تمہارا سر پھارے تو ہمیں نہ بولنا کچھ ۔ ابراہیم صاحب نے گلاس وال کی طرف دیکھتے کہا جہاں سے افضل صاحب تپے ہوئے آتے دیکھائی دے رہے تھے۔۔

احسن صاحب نے منہ نیچے کر کے اپنی ہنسی روکی۔۔۔ جبکہ ابراہیم صاحب فون میں مصروف ہونے کی اداکاری کرنے لگے ۔ اور کامران صاحب دونوں کو گھور کر دیکھ رہے تھے۔۔

افضل صاحب آفس میں داخل ہوتے ساتھ کامران صاحب کو گھوری سے نوازتے آگے بڑھے اور ابراہیم صاحب اور احسن صاحب سے ملے۔

یار افضل کامران سے نہیں ملو گے ۔۔ یہ بولنے والے احسن صاحب تھے۔۔ جبکہ کامران صاحب ایسے دیکھ رہے تھے جیسے کہہ رہے ہوں کہ یار آپ میرے سگے بھائی ہی ہو نہ ۔۔

اس کا میں گلا نہ دبا دوں۔۔ افضل صاحب غصہ میں بولے ۔۔

کیوں یار کیا ہوا میں کیا کیا ہے؟؟ کامران صاحب حیرت سے پوچھنے لگے۔۔

کل رات سے اس کو میں کالز کر رہا ہوں ایک نہیں اٹھائی اس آدمی نے ، عقل کے دشمن کو بولا تھا کچھ بھی کر  افریدئز کی ڈیل میرے پاس نہ آئے آگے مر مر کے جان چھڑائی تھی اس  پاگل آدمی سے اس نے پھر سے وہ بلا میرے گلے ڈال دی ہے ۔۔ اچھی خاصی تم لوگوں کے  ساتھ ڈیل کر رہا تھا وہ۔۔۔ افضل صاحب نے ساری بھڑاس نکال دی۔

جبکہ احسن صاحب اپنے اس چھوٹے بھائی کو دیکھ رہے تھے جو عمر کے اس حصہ میں بھی اپنی حرکتوں سے باز نہیں آتے تھے۔۔

اور جس کو بھیجا تھا میٹنگ اٹینڈ کرنے کے لیے اس نے بھی اپنے سارے جوہر اس میٹنگ پر دیکھانے تھے۔۔ افضل صاحب کا غصہ کیسی صورت کم نہیں ہو رہا تھا۔۔

ویسے تم نے میٹنگ کے لیے کس کو تیار کیا تھا۔۔ ابراہیم صاحب نے افضل صاحب کا غصہ دیکھ کر بولا۔۔

اس کو جس نے اس کا جوٹھا کھایا ہے۔۔ افضل صاحب نے کامران صاحب کو گھور کر دیکھا۔۔

اوو یہ تو نھلے پر دھلا ہو گیا۔۔ احسن صاحب ہنس کر بولے جبکہ کے ابراہیم صاحب نے اپنی پنسی کنٹرول کرنے کی کوشش کی ۔

تو تمہیں کس نے کہا تھا اس مو بھیجوں میٹنگ کے لیے اور اگر بھیجا ہے تو اب یو تپ کیوں رہے ہو اتنا ہونہار بچا ہے تمہارا۔۔ کامران صاحب نے افضل صاحب کو گھوری کروائی نا کو کہاں برداشت تھا اپنے اس لاڈلے کی برائی سنا۔۔

ہونہار نہیں خوفناک بولو س کو ۔۔ افضل صاحب کا بی پی شاید اج شوٹ کر کے رہنا تھا۔۔

اچھا یار تم تو بیٹھو اپنا بی پی مزید  ہائی نہ کرو پانی پیؤ ٹھنڈے ہو یار۔۔ میں شاہد کو بھی بولتا ہوں اور تم لوگوں کے لیے کچھ منگواتا بھی ہوں۔۔ اور اب ڈینر کر کے ہی گھر جاؤ گے تم لوگ۔۔ ابراہیم یہ کہہ کر اپنا فون آن کر چکے تھے۔

ویسے یہ سب تھے کدھر؟؟  آیان بھی آج صبح ہی آیا تھا۔۔ افضل صاحب کچھ سوچ کر بولے۔۔

دوراب ، زوریز ، آیان کم سے گئے ہوئے تھے دوراب  اور زوریز کل تک آ جائیں گے میری بات ہوئی ہے ابھی۔۔ اس سے پہلے کوئی اور کچھ پوچھتا ابراہیم صاحب بولے۔۔۔

اللّٰہ جانے یہ لڑکے ہوتے کدھر ہیں ۔۔ کامران صاحب بولے تھے۔۔

ابراہیم صاحب مدہم سا مسکرائے تھے جیسے کوئی راز بہت گہرا ہو ۔۔۔۔۔

••••••••••••••

 

 

جاری ہے.............

 

 

 

 Don't copy without my permission......... Must share your reviews with also also share this with novel readers Thanks alot......


 

Comments

  1. Interesting...
    Waiting for next Episodes

    ReplyDelete

Post a Comment