Dasht E Ulfat Novel By Shazain Zainab Episode no 5


 






















بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

 ناول

 

دشتِ الفت

 

شازین زنیب

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

Ep # 05

 

 

 

اسلام وعلیکم ۔۔۔۔۔ وہ اپنے آفس میں بیٹھی کچھ فائیلز دیکھ رہی تھی جب اچانک ایک جانی پہچانی آواز سنائی دی ۔۔ عزیزہ نے فوراً اپنا سر اٹھا کر دیکھا۔۔ ہاں یہ وہی شخص تھا ڈارک براؤن آنکھیں، سیاہ بال جن میں اب کچھ بال سفید ہو چکے تھے عمر کی وجہ سے، بارعب شخصیت ، چہرے پر ہر وقت رہنے والا سکون ،  مدہم لہجہ وہ واقع ہی الفا تھا آج بھی اس کی شخصیت میں رعب کم نہ ہوا تھا۔

الفا۔۔۔ عزیزہ  اپنی کرسی سے کھڑی ہوئی تھی۔۔

سلام کا جواب دیتے ہیں عزیزہ تم کب سمجھو گئی ۔۔ وہ آگے آتے ہوئے بولے اور ایک کرسی کھینچ کر بیٹھ گئے۔۔

بندہ کم آواز میں بھی جواب دے سکتا ہے الفا ۔۔۔ عزیزہ نے ہر بار بولنے والا جملہ بولا۔۔

الفا منہ نیچے کر کے مسکرائے اور اپنا سر نفی میں ہلانے لگے۔۔

آپ اتنے وقت سے کہاں تھے کیا کر رہے تھے ؟؟ عزیزہ نے فوراً ہی سوال جواب شروع کر دیے تھے ۔

میں ادھر ہی تھا عزیزہ اپنی فیملی کے پاس بس اپنے آپ کو ایک نارمل سٹیزن شو کروا رہا تھا جبکہ کے میں اکرم کے خلاف ثبوت اکھٹے کر رہا تھا اور یہ جانے کی کوشش کر رہا تھا کہ اس کو انڈر ورلڈ میں لے کر جانے والا کون ہے، ںہ تو میں نے آرمی کو چھوڑا ہے اور ںہ میرے اندر سے الفا نکلا ہے میں الفا تھا اور الفا ہی رہوں گا اور میرے بعد اس نام کا حقدار جو ہے وہ تو میں پہلے ہی بتا چکا ہوں میں اتنے سالوں سے اکرم کے خلاف ثبوت ڈھونڈ رہا ہوں۔۔ الفا نے بہت پر سکون لہجے میں بتایا تھا ۔

مگر آپ یہ سب کر کیسے رہے ہو الفا ۔ عزیزہ حیران ہوئی تھی ۔۔

تمہیں نہیں پتا عزیزہ میری بہن اکرم کی بیوی ہے؟  وہ ہلکا سا مسکرائے تھے۔

تو کیا آپ کی بہن نے۔۔ عزیزہ نے کچھ بولنا چاہا۔۔

نہیں اس نے نہیں میرا ایک اصول ہے عزیزہ میں اپنے مفاد کے لیے اپنے رشتوں کا استعمال نہیں کرتا اور میں اس کام میں اپنی بہن کا ہر گز استعمال نہیں کیا کیونکہ اگر اکرم کو ذرہ بھی بھنک لگ جاتی تو وہ میری بہن کے ساتھ بہت غلط کرتا اور یہ چیز میں ہر گز برداشت ںہ کرتا۔۔ مجھے بس اس بات کا افسوس ہے شہزاد کو اس سب کاموں میں نہیں پڑنا چاہیے تھا اس نے میری بہن کو زیادہ تکلیف دی ہے۔۔ وہ سامنے پڑے پیپر ویٹ کو دیکھ کر بولے۔

تو اب آگے کیا کرنا ہے ہم نے الفا۔۔ عزیزہ اپنی کرسی پر آگے کو ہو کر بیٹھی۔۔۔

عزیزہ میں اکرم کو اس کے اختتام پر ہر حال میں پہنچانا چاہتا ہوں اور اگر میں اپنے مقصد میں نا کام ہوا یا مارا گیا تو اس کام کو سیکنڈ الفا پورا کرے گا۔۔ وہ مضبوط لہجے میں بولے تھے۔۔

اور ہاں ایک اور بات میں اپنی بیٹی کو بھی آرمی میں لانا چاہتا ہوں، وہ بہادر ہے ناڈر ہے ۔ وہ کچھ سوچتے ہوئے بولے ۔

ہممم سویرا کو؟؟  عزیزہ نے اپنی مسکراہٹ کو دبایا ۔۔

میری سویرا بہت معصوم اور احساس دل کی مالک ہے، تم تو جیسے جانتی نہیں ہو ۔ انہوں نے عزیزہ کو گھور کر دیکھا تھا۔۔

اور پہلی تو جنگلی بلی پیدا کی ہے آپ نے ۔۔ عزیزہ دبی دبی ہنسی سے بولی ۔

وہ جنگلی بلی بہت خطرناک بنا دوں گا میں سمجھ آئی نہ انڈراسٹیمیٹ مت کرو اس کو۔۔  الفا نے شان بے نیازی سے کہا۔۔

ایم-زی سے بھی زیادہ ؟؟ وہ تجسس سے پوچھ رہی تھی۔۔

بلکل کوئی شک ہے؟ وہ ایم- زی کے ٹکر کی ہو گئی ۔۔ وہ کچھ سوچ کر بولے تھے آخر پر ہلکا سا مسکرا دیے ۔۔

اور تم یہ بتاؤ کیسا جا رہا ہے کام آرمی سے ریٹائرمنٹ کیوں نہیں لے رہی ابھی تک تم۔۔ انہوں نے عزیزہ کو گھورا تھا۔۔

الفا آرمی اپنی مرضی سے جوائین کی تھی اپنی مرضی سے چھوڑوں گئی۔۔ مجھے نہیں چاہیے ابھی ریٹائرمنٹ ۔۔ عزیزہ نے لاپرواہی سے کہا۔

تمہارا کچھ نہیں ہو سکتا۔۔ انہوں نے سر نفی میں ہلایا۔۔ تم یہ بتاؤ تمہارا بیچارا آفریدی کیسا ہے۔۔ اب کی بار انہوں نے جان کر بولا تھا۔۔

الفااااا۔۔۔ عزیزہ تپ ہی گئی تھی۔۔

وہ میرا  شوہر ہے تمیز کا مظاہرہ کریں ۔۔ عزیزہ نے گھوری کروائی تھی۔۔

تم سے تو زیادہ تمیز کا مظاہرہ کر رہا ہوں۔۔ الفا کا نشانہ مچھلی کی آنکھ میں لگا تھا اور اس بات کا گواہ عزیزہ کا سرخ چہرہ تھا۔ وہ کیسے بھول گئی تھی کہ انہوں نے آرمی کے بھرے ہوسپیٹل میں  سینیئر ڈاکٹر آغا آفریدی کے سر پر گلدان دے میرا تھا وہ بھی صرف اس وجہ سے کہ وہ آج کل ان کو تھوڑا نظر انداز کر رہے تھے۔۔۔

الفا آپ ادھر میرے پرانے قصے سنانے آئے ہو کیا؟؟ عزیزہ نے دانت پس کر بولا۔

نہیں نہیں پیاری بہن اتنی میری ہمت ۔۔ الفا نے دونوں ہاتھ اٹھا لیے تھے۔

الفا ایک بات کرنی تھی کل میری خان سے بھی اس سلسلے میں بات ہوئی ہے آج آپ سے بھی کرنا چاہتی ہوں لڑکیوں کی اسمگلنگ پھر سے شروع ہو گئی ہے۔۔ عزیزہ ا ب کی بار سنجیدہ تھی۔۔۔

عزیزہ لڑکیوں کی اسمگلنگ روکی ہی کب تھی جو پھر سے شروع ہو گئی۔۔۔ جب تک معاملا پولیس کے پاس تھا اسمگلنگ آسان تھی اب دوبارہ آرمی اس معاملے میں اتر پڑھی ہے تو سب پھر سے سامنے آنے لگا ہے۔۔ الفا نے بہت سکون سے بتایا تھا۔۔۔

الفا آپ ۔۔ عزیزہ نے کچھ بولنا چاہا ۔

ائی جی پی  پنجاب پولیس اس کو میں نے مرا تھا وہ سوسائیڈ نہیں تھی۔۔ محترم ٹھیک ٹھاک ضمیر فروش تھے ۔ ڈی اس پی عبداللہ رانا کا کاڑ آکسیڈنٹ نہیں تھا۔۔ میں نے مارا تھا اس کو ۔۔ شکر کرو اس پر تھوڑا رحم کیا تھا تاکہ کاڑ آکسیڈنٹ ہی لگے ورنا دل تو اس کو کتے کی موت مارنے کو تھا۔۔ اور باقی بھی جتنے  پولیس آفسر اب تک مرے ہیں میرے کھاتے آتے ہیں ۔۔ سب کہ سب ضمیر فروش تھے ۔ وہ اتنے آرام سے بتا رہے تھے جیسے کوئی کہانی سنا رہے ہوں ۔

مجھے لگا ہی تھا۔۔ عزیزہ مسکرائی تھی۔

اب کدھر جانے لگے ہیں آپ روک جائے تھوڑی دیربھائی۔۔۔الفا کو اٹھتا دیکھ عزیزہ بولی تھی۔۔ جب سے وہ آیا تھا اس وقت سے اب تک پہلی بار عزیزہ نے اس کو بھائی بولیا تھا ۔

تم چاہتی ہو کے تمہاری بھابھی آج میری جان نکال دیں ؟؟ ان کو شوپنگ پر لر کر جانا ہے میں نے۔ آگے  ہی لیٹ ہو گیا ہوں۔۔ الفا نے بے چارگی سے عزیزہ کو دیکھا۔۔ جبکہ عزیزہ ایسے دیکھ رہی تھی جیسے کہہ رہی ہو بچت تو ابھی بھی نہیں ہونی ۔۔۔۔

••••••••••••

وہ اکیلی بیٹھی بور ہو رہی تھی جبکہ ہر مرد کی نظر موڑ موڑ کر اس کو دیکھ رہی تھی اس میں کوئی شک نہیں تھا اس کی ہلکی نیلی آنکھیں بہت خوبصورت تھی ۔۔ اور اب چہرے پر پہنے وائٹ ماسک سے اس کی آنکھیں اور بھی دلکش لگ رہی تھی ۔۔

آخر وہ اپنی کرسی سے اٹھی تھی اور باہر کی جانب بھری کیونکہ اس کو پول آیریا کی طرف جانا تھا جب  اچانک کیسی نے اس کا بازوؤں پکڑ کر ایک طرف کھینچ لیا تھا۔۔۔

حدید جو  باہر کیسی کام سے گیا تھا اور اب فاروق کو بلا کر اس کے ذمہ باقی کا کام لگا کر اس کو بھیج چکا تھا۔۔۔ اب وہ اندر کی طرف جا رہا تھا جب دوسری راہداری سے اس کو للی پول سائیڈ کی طرف جاتی نظر آئی تھی وہ فوراً اس کے پیچھے گیا اور اس کو بازوؤں سے اپنی طرف کھینچا تھا ۔

وہ دونوں اس وقت راہداری کی ایک طرف ایک بڑے سے پیلر کے  پیچھے تھے جہاں ان دونوں کو کوئی نہیں دیکھ سکتا تھا۔ اور ویسے بھی سب پارٹی میں بزی تھے۔۔۔۔  

حدید نے ایک ہاتھ پیلر پر رکھا تھا جس سے اس کا اور للی کا چہرہ تھوڑا ڈھکا گیا تھا۔۔ اور دوسرا ہاتھ اس کی کمر کے گرد تھا۔۔ وائٹ ماسک سے جھانکتی حدید کی سنہری آنکھیں  وائٹ ماسک سے جھانکتی للی کی ہلکی نیلی آنکھوں سے ٹکرا رہی تھی۔۔ اور اتفاق سے دونوں کا ماسک بھی ایک جیسا تھا۔۔  للی کے سنہری سیلکی بال حدید کے ہاتھوں کو چھو رہے تھے جس  سے حدید کے جذبات مزید گدگدانے لگے تھے ۔۔۔

Who are you.....

للی دانت پیس کر بولی تھی۔۔ مگر جو بھی تھا وہ ایک لمحہ کے لیے ان سنہری آنکھوں میں کھو گئی تھی کچھ تھا اس کی آنکھوں میں جو آج تک اس نے کیسی کی آنکھوں میں نہ دیکھا تھا۔۔۔ اس کو یہ آنکھیں دیکھی دیکھی لگی تھی۔۔۔

You don’t  remember who I am??..

حدید مدہم لہجہ میں بولا تھا۔۔ ایک لمحہ کو للی حیران ہوئی تھی اس نے یہ آواز سن رکھی تھی تو شاید یہ اس کی زندگی میں پہلی آواز تھی جو اس کو یاد رہی تھی ۔۔۔ وہ نہیں جانتی تھی کیوں مگر شاید اس نے اگر کبھی دوبارہ  کچھ سنے کی چاہ رکھی تھی تو وہ یہ آواز تھی۔۔ ہاں وہ یہ ہی آواز تھی۔۔ وہ کیسے بھول گئی تھی جب جب وہ کیسی مشکل میں پڑھی تھی  کوئی اس کا سایا بن کر ہمیشہ اس کی مدد کو آیا تھا۔۔  مگر وہ کبھی اس کا چہرہ نہ دیکھ پائی تھی بس آواز سے واقف تھی۔۔ نرم ،مدہم ،دھیما لہجہ جب جب اس نے اس آواز کو سنا تھا تب تب اس نے خود کو اس آواز میں کھوتے محسوس کیا تھا۔۔۔

You.....

للی نے کچھ بولنا چاہا تھا۔۔

Yes I’m..... MY fairy

حدید نے بے انتہا گھمیر لہجہ میں بولا۔۔۔۔

Fairy......

اس نے اس لفظ  کو دہرائیا  تھا۔۔ دور منظر میں کیسی لڑکے کی آواز گونجی تھی جو خود سے کچھ سال چھوٹی  سی روتی لڑکی کو چپ کروانے کی کوشش کر رہا تھا آخر تھک کر اس نے اس کو فیری بولا تھا تو وہ خاموش کو کے اس کو دیکھنے لگی تھی۔۔

للی نے دوبارہ آنکھیں سنہری آنکھوں کی طرف اٹھائی تھی۔۔۔ وہ ٹین ایج لڑکا بھی تو سنہری آنکھوں والا تھا اور وہ لڑکی بھی تو ہلکی نیلی آنکھوں والی تھی۔۔۔۔

سہی ہی کہتے ہیں انسان کو اپنے ماضی کا ہر خاص لمحہ اور اذیت ناک لمحہ یاد رہتا ہے ۔۔ یادیں کبھی بہت  ظالم ثابت ہوتی ہیں اور کبھی بہت رحم کرنے والی۔۔ کبھی کیسی حسین لمحے کو دوبارہ یاد کروا دیتی ہیں کبھی کیسی قرب سے بھرے لمحے کو جس کی اذیت آپ کے حال میں بھی ماضی جیسی ہی محسوس ہوتی ہے ۔۔ کبھی کیسی کے مل جانے کی خوشی کبھی کیسی کے جودہ  ہونے کا غم۔ کبھی کیسی حاصل کا خمار کبھی لاحاصل کا ملال ۔۔۔ کبھی کیسی ایسے بیگانے کی یاد جو اپنا لگا ہو کبھی کیسی ایسے اپنے کی یاد جو اپنا ہو کر بھی غیر تھا۔۔ یادیں اپنے ساتھ ماضی کی کہانی لاتی ہیں کیسی کو خوشی دیتی ہیں تو کیسی کو غم ۔۔ مگر جو بھی ہے جب جب انسان کی یاداشت کی کتاب میں ماضی کا کوئی پنا پلٹا جاتا ہے وہ اس کے حال پر اپنی ایک نئی چھاپ چھوڑ جاتا ہے۔۔

ایسے ہی للی کو سمجھ نہ آرہی تھی کہ یہ واقع ہی وہ ہے یا کوئی اور۔۔ وہ الجھ چکی تھی اپنے ماضی میں اور حال میں۔۔  وہ کچھ پوچھنا چاہتی تھی اس سے ابھی اس نے لب کھولے ہی تھے کہ مقابل نے اب کی بار اپنی انگلی اس کے نازک ہونٹوں پر رکھ دی تھی اور اس کے کان کے قریب جھکا۔۔۔۔

I think I should go now. See you again soon, Fairy...

وہ یہ کہہ کر واپس موڑ گیا تھا ۔۔۔ اور جاتے جاتے ایک نظر پیچھے کھڑی للی پر ڈالنا نہیں بھولا تھا وہ ادھر ہی کھڑی رہی تھی۔۔  اس کی آنکھوں میں کچھ تھا جس نے ایک لمحہ کے لیے حدید کے دل کو تڑپایا  تھا مگر وہ پلیٹ گیا تھا۔۔ کیونکہ ابھی یہ اس سب کا صحیح وقت نہیں تھا۔۔ ابھی بہت کچھ ہونا تھا بہت سے چہروں سے نقاب اترنے تھے۔۔

Why do you always leave me alone? Why don't you show me your face? Why don't you tell me what the truth is? Why don't you tell me who you are? I don't know what kind of feeling it is? Why don't I feel the same for Shahzad when he is my boyfriend? Why are you playing hide and seek with me? Why??????

وہ کھڑی سوال کر رہی تھی اس سے جو کب کا جا چکا تھا ۔۔ جس کو ابھی جانا ہی تھا ۔۔ جو خود اس کے لیے تڑپ رہا تھا مگر وہ اس کو کیسی اور کے ساتھ قبول ہر گز نہیں کر سکتا تھا۔۔ مگر ایک چیز اس پر وضع ہو گئی تھی جو جزبات شہزاد کے لیے تھے اور جو جزبات اس شخص کے لیے تھے وہ بہت مختلف تھے بہت زیادہ ۔۔۔ ایک انسو ثوٹ کر اس کی گال پر گیرا تھا۔۔ وہ پول آیریا کی طرف جانے کی بجائے واپس بال روم کی طرف بھری تھی۔۔۔

مگر کوئی تھا جو یہ سب دیکھ چکا تھا۔۔۔

••••••••••••••

سب مہمانوں کے سامنے ایک ایک بلیک کلر کا انویلپ رکھا گیا تھا۔۔ زیک کا ہر ایک گاڑڈ ہر ایک ہر اس شخص کے پاس کھڑا تھا جن جن کے سامنے انویلپ رکھا گیا تھا۔۔ زیک ان سب کو دہشت بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا ہونٹوں پر مسکراہٹ بہت خطرناک تھی۔۔

Gentle men open the envelopes......

بہت پر سکون لہجے میں کہا گیا تھا۔۔۔ جبکہ آنکھوں میں خون اترا ہوا تھا۔۔۔۔

جیسے ہی ان سب نے انویلپ کھولے تو اندر سے نکالنے والی تصویروں سے ان کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئی تھی۔۔۔ ان سب کے کرتوتوں کا منہ بولتا ثبوت تھی یہ تصویریں ۔۔۔۔

Perhaps you all thought that Don was dead. Am I right??اس کی آواز بارعب تھی ایک لمحے کہ لیے سب کو ہی سانپ سھنگ گے تھے۔۔ 

You all are on my target so if you stand against me or join with my enemies then first of all remember this…. I will not miss a moment to make all these an interesting headline on all TV channels and social media..

وہ ایسے بول رہا تھا جیسے کوئی بہت عام سی بات ہو جبکہ اصل میں وہ ان سب کی نیند تک آڑا چکا تھا۔۔۔ کیسی میں کچھ بولنے کی ہمت  نہ تھے جبکہ شہزاد کا تو کاٹو تو بدن میں خون نہیں والا حساب تھا۔۔۔

Enjoy the night everyone.....

یہ کہہ کر وہ جس شان بے نیازی سے آیا تھا ویسے ہی واپس چلا گیا تھا جبکہ پیچھے سب ایک دوسرے سے نظریں چورا رہے تھے۔۔ سب کے ماتھے پر ٹھنڈے پسینے آئے ہوئے تھے۔

ہمیں شاید اب جانا چاہیے۔۔ وہ لوگ انٹیرنس کی طرف جا رہے تھے جب سکندر بولا۔۔

ہممم۔۔ فاروق چلا گیا ہوا ہے۔۔ اب حانی تم جاؤ گے دو گھنٹے بعد تمہاری فلائٹ ہے۔۔ زیک نے حانی کو دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔

اور میں ؟؟ سکندر نے اپنی طرف اس کو متوجہ کروایا تھا۔۔

تمہارے لیے ایک کام ہے وہ کر کے چلے جانا۔۔ حدید نے اپنی ہنسی چھپاتے ہوئے بولا۔۔

سکندر نے گردن موڑ کر زیک کی طرف دیکھا تھا۔۔ جو ایسے شو کروا رہا تھا جیسے جانتا ہی نہ ہو۔۔

کمینا۔۔۔۔ ابھی وہ کچھ اور بولتا کہ زیک نے  اس کو گھوری کروائی  تھی۔۔ اور ساتھ ہی سکندر کی زبان کو بریک لگی تھی۔۔۔

••••••••••••••••••

شہزاد بہت تیز ڈرائیو کر رہا تھا ۔۔ جبکہ ساتھ سیٹ پر بیٹھی للی  اس کی رش ڈرائیونگ سے ڈری ہوئی تھی۔۔۔

Shahzad please......

للی کچھ بولنے لگی تھی ۔۔ جب اچانک شہزاد کی گرج دار آواز گونجی ۔۔

Can you please just shut up.....

وہ خاموش ہو گئی تھی کیونکہ وہ اکثر غصہ میں اس پر چیلا بھی دیتا تھا ۔۔۔

اس نے ہوٹل میں پہنچتے ساتھ اپنا  کوٹ اتار کر بیڈ پر پھینکا تھا۔۔۔ اس کا غصہ کیسی صورت کم نہیں ہو رہا تھا۔۔

للی  صوفے پر بیٹھی اس کو دیکھ رہی تھی ۔۔ جو مسلسل اپنے فون پر کوئی نمبر ڈائل کر رہا تھا ۔

کدھر مر گئے ہو تم سب کے سب ۔۔۔ گھر کے ایک ملازم نے کال اٹھائی تھی ۔۔ شہزاد اس پر دھار تھا۔۔۔

شہزاد صاحب  وہ  گھر پر سب سو رہے ہیں میں ابھی سرونٹ کوارٹر سے آیا تھا۔۔ اسلم بابا جو کافی  عرصہ  سے ان کے گھر ملازم تھے ڈر کر بولے۔۔۔

ڈیڈ کدھر ہیں ؟؟ فون کیوں نہیں اٹھا رہے؟؟؟ وہ غصے سے پوچھ رہا تھا۔۔۔

شہزاد صاحب اکرم صاحب ابھی تک گھر ہی نہیں آئے ۔۔ آپ کہیں تو بی بی جی سے بات کروا  دوں ۔۔۔ اسلم بابا سہمے ہوئے بولے تھے۔۔ جتنی اچھی خدیجہ بیگم تھی۔۔ اس سے ہزار درجے برے یہ دونوں باپ بیٹے تھے۔۔۔۔

دماغ خراب نہ کرو فون رکھو۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ کہتے ساتھ اس نے کال کاٹ دی اور اپنے باپ کا نمبر پھر سے ملانے لگا۔۔۔

کم آن ڈیڈ۔۔۔۔۔ کال اٹینڈ کریں ۔۔۔ وہ غصے سے بولا تھا۔۔۔

تنگ آ کر اس نے اپنا فون سائیڈ  پر پھنکا تھا ۔۔ تب اچانک اس کی نظر صوفے پر بیٹھی للی پر  پڑی تھی۔۔۔۔ اور اس کو وہ منظر یاد آیا تھا جب وہ میٹنگ روم سے نکل کر واپس بال روم کی طرف جا رہا تھا تو للی کے ساتھ کوئی اور مرد کھڑا تھا اور وہ اس کے بہت قریب تھا۔۔۔

وہ ایک لمحہ میں اٹھا تھا اور للی کے سنہری بالوں کو اپنی موٹھی میں جکر لیا تھا۔۔۔۔

Who’s he???

یک لفظی سوال کیا گیا تھا۔۔۔ اس کی آنکھوں میں خون دوڑ رہا تھا۔۔۔

I don’t know  what you want to ask me ...

للی نے کانپتی آواز سے جواب دیا کیونکہ اس کو بہت تکلیف ہو رہی تھی شہزاد نے اس کے بالوں کو بہت مضبوطی سے پکڑ رکھا تھا۔۔

Do you think I look crazy??? Who was the one with whom you stood on Pilar’s side?

شہزاد غصہ سے بولا تھا اور بال ابھی تک اس کے جکڑے ہوئے تھے۔۔

I don’t  know...

للی روندی آواز میں بولی اور آنسو ٹوٹ کر اس کی گال پر گیرے تھے۔۔۔

You don’t  know ahan???? Sooo how can you allow him to touch your back and put finger on your lips?? Give me the answer....

اس نے اس کے بالوں کو مزید زور سے خینچا جس سے اس کا سر مزید پیچھے کی طرف جکا تھا ۔۔ شہزاد اس کے چہرے کے پاس دھارا تھا۔۔۔۔

I ..... Sai.. said ... I... Do..don...don’t ... Kn..kno...know...hi.him...

وہ درد برداشت کرتی روتے ہوئے بامشکل بول پائی تھی۔۔ آنسو اس کی آنکھوں سے بہے رہے تھے۔۔ اس کا مسکارا رونے سے پھیل گیا تھا۔۔ ناک اس کی سرخ ہو گئی تھی۔۔۔۔۔

چٹاخ۔۔۔۔۔۔ شہزاد کا مردانہ ہاتھ اس کے نازک گال پر اپنا نشان چھوڑ گیا تھا۔۔ اس کا ہونٹ ایک طرف سے پھیٹ گیا تھا۔۔

You bloody lier..........

ایک اور تھپڑ اس کے دوسرے گال پر پڑا تھا۔۔ للی کی آنکھیں دھندلا گئی تھی اس کی نازک سی جان کہاں اس کا یہ جاہلانہ رویہ برداشت کو سکتی تھی۔۔۔

اس نے دوبار اس کے بالوں کو اپنی گرفت میں لیا ۔۔۔۔

Ahhhhh..... Sha...shah...shahzad...its ... Hu.....hur....hurt....me..

وہ بامشکل بول پا رہی تھی ۔۔۔ آنکھیں آنسوں سے بھری ہوئی تھی۔۔۔ شہزاد کا چہرہ بار بار دھندلا رہا تھا۔۔۔۔

If I again see you with any one else I will kill you understand...

اس نے اب کی بار اس کے منہ کو اپنے ہاتھ میں جکر لیا تھا۔۔۔۔ ایک لمحہ کو للی کو لگا اس کا جبڑا ہل گیا ہے۔

شہزاد نے اس کو صوفے پر پیٹکھنے کے انداز میں پھینکا تھا۔۔۔۔۔

وہ روتی رہی تھی اس کا منہ درڈ کر رہا تھا ہونٹ سے خون نکل کر گردن تک آگیا تھا ۔۔ اس نے اپنے ہاتھ سے اپنے آنسوؤں کو صاف کیا تھا۔۔ صوفے سے اٹھنے کی کوشش کرنے لگی تھی کہ اچانک اس کا سر بھاری ہوا تھا وہ لڑکھڑا کر واپس صوفے پر گری تھی۔۔۔ صوفے کے پاس پرے ٹیبل پر رکھے جگ میں سے گلاس میں پانی ڈالتے وقت بھی اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔۔۔۔ ایک گھونٹ پانی کا پیا ہی تھا کہ اس کو فوراً قہہ آئی تھی ۔۔ وہ اٹھی اور واشروم کی طرف بھاگی تھی۔۔۔

شہزاد اس کی ساری حالت دیکھ رہا تھا بے حس بنا بیٹھا رہا تھا۔۔۔

وہ واشروم سے باہر آ کر صوفے پر گرنے والے انداز میں بیٹھتی تھی۔۔ اور اس ہی وقت شہزاد اٹھا تھا اور اپنی کاڑ کی چابی اور اپنا ولیٹ اٹھا کر باہر کی طرف نکل  گیا تھا۔۔۔۔۔

•••••••••••••••••

وہ کافی دیر سے سڑکوں پر گاڑی یو ہی بے مقصد دوڈا رہا تھا ۔۔۔ اس کا غصہ کیسی صورت۔ کم نہیں ہو رہا تھا۔۔ اس نے زیک کو بہت ہلکا لیا تھا اور وہ اس وقت اس کے گلے میں اس ہیڈی کی مانند بن گیا تھا جس کو نہ وہ اگل سکتا تھا نہ نیگل سکتا تھا۔۔

اس کو رہ رہ کر زیک کا ایک ایک الفاظ یاد آ رہا تھا۔۔۔ اس کے سامنے بار بار سلیم آفندی کی حالت آ رہی تھے کیسے ایک لمحے میں ایک لمحے میں زیک نے اس کی زندگی میں طوفان کھڑا کر دیا تھا۔۔ زیک کا ایک ایک لفظ اس کے کان میں گنج رہا تھا۔۔

آآآآآآآآ۔۔۔۔ اس نے اچانک کاڑ کو روکا تھا اور اسٹیرنگ ویل پر زور زور سے ہاتھ مارنے لگا تھا۔۔۔۔۔

میں تمہیں جان سے مار ڈالوں گا زیک۔۔۔ تمہاری ہمت کیسی ہوئی مجھے کتا بولنے کی شہزاد اکرم کو کتا بولنے کی۔۔۔۔ میں تمہیں کتے سے بھی بری موت ماروں گا زیک میں تمہاری ہستی تباہ کر دوں گا۔۔۔ تمہاری ہمت کیسے ہوئی میرے تایا کو اس حال میں پہچانے کی میں تمہیں چھوڑوں گا نہیں زیک۔۔۔۔۔ وہ مسلسل غصے میں بولی جا رہا تھا ساتھ اسٹیرنیگ ویل پر ہاتھ مار رہا تھا۔۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا وہ زیک کو آگ لگا دے یہ کچھ کر ڈالے ۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ بیچ سائیڈ پر تھا جہاں اس نے کار روکی تھی۔۔ وہ اپنی کار  سے اترا تھا اور باہر نکل کو ساحل کو دیکھنے لگا تھا۔۔۔۔

اس کو کیسی طور سکون نہیں مل رہا تھا بدلہ کی آگ بہت بری طرح جل رہی تھی ساتھ اس کو بھی جلا رہی تھی ۔۔ ایک طرف بیسٹ تھا، ایک طرف زیک تھا اس کو سمجھ نہیں آ رہی تھی پہلے کس کو مارے۔۔

خدا کے سوا کون جانتا تھا کے آگے ہونے کیا والا ہے ۔۔ موت نے کس کو گلے لگانا ہے جو آج کیسی اور کی ہستی تباہ کرنے کا کیسی اور کو  مارنے کا سوچ رہا تھا اس کے خود کے ساتھ کیا ہونا تھا اس کا خود کا انجام کیا ہونا تھا ۔۔۔

•••••••••••••••••

 

چھوڑو مجھے ۔۔۔ کوئی ہے یہاں ؟؟؟ میں کہہ رہا ہوں مجھے چھوڑو میں تم سب کی نسلیں تباہ کر دوں گا ۔۔۔۔ وہ دونوں ال-سی-ڈی کے سامنے بیٹھے سکیرین پر یہ منظر دیکھ رہے تھے اس کا چیخنا چلانا ان کو سکون دے رہا تھا ۔۔ اس کی حالت بدتر تھی آنکھوں پر پٹی باندھی ہوئی تھی۔۔ ہاتھ  پاؤں زنجیر سے بندھے ہوئے تھے۔۔

وہ دونوں ابھی سکندر، فاروق اور حانی  کو  چھوڑ کر واپس ائے تھے آدھی رات ہو چکی تھی ۔۔ سب مہمانوں کو جو انہوں نے سرپرائز دیا تھا وہ ان کے پاؤں سے زمین کھینچ کے لیے کافی تھا۔۔ وہ لوگ شکر ادا کر رہے تھے کہ زیک نے یہ صرف ابھی ان کو دیکھیا تھا ان کے گھر والوں کو نہیں ورنہ وہ کیسی کو منہ دیکھنے لائق نہ رہتے۔۔ ان سب کے سامنے ان کے کالے کرتوتوں کی تصویریں تھی۔۔ وہ لوگ سمجھ رہے تھے زیک خاموش تھا تو وہ اپنی من مانی کر سکتے تھے۔۔ مگر وہ کیسے بھول گئے تھے وہ ڈان تھا ان کی ایک ایک حرکت پر خاموشی سے نظر رکھ کر بیٹھا تھا۔۔ وہ شیر تھا اگر خاموش تھا تو اس کا مطلب یہ نہیں تھا وہ پیچھے ہو گیا ہے اس کا مطلب یہ تھا وہ اب اپنے ہر شکار پر نظر رکھ کر بیٹھا ہے وقت آنے پر وہ دھارے گا بھی اور وار بھی کرے گا۔۔۔ کل کی پارٹی میں اس نے ان سب کو باور کروا چکا تھا کہ وہ سب اس کے نشانے پر ہیں بس ایک وار کی بات ہے اس کی ۔۔۔ اور اب وہ دونوں پُرسکون ہو کر سیلم افندی کو دیکھ رہے تھے جو ایک مشہور بزنس ٹیکون تھا اکرم افندی کا بڑا بھائی جو سب سے زیادہ عیاش بزنس مین سمجھا جاتا تھا جس کی ہر رات ایک نئی لڑکی کی باہوں میں ہوتی تھی زنا اس کے لیے ایک عام کام تھا ۔۔ دولت کا نشہ اس کے سر پر ہر وقت سوار رہتا تھا اس نے دولت کمانے کے لیے ہر جائز ناجائز کام کیا تھا ۔۔ وہ ہیرے جواہرات کا سوداگر اپنی ہی بیوی کا سودا کر چکا تھا دولت کی خاطر اور اس کو موت کی نیند سلانے کے بعد اس کی ہی سہیلی سے شادی کر لی تھی۔۔۔۔ اس نے کوئی گناہ نہ چھوڑا تھا  ۔۔ اور شاید آج اس کی زندگی کا سیاہ باب ختم ہونے والا تھا اور کرنے والا بھی وہ  تھا جس کو اس نے 23 سال سے مارا ہوا سمجھا تھا۔۔

زیک خانوشی سے اپنی جگہ سے اٹھا تھا جبکہ اس کے ساتھ بیٹھے حدید  کی سنہری آنکھوں میں خون اترا ہوا تھا مگر وہ اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہیں ہوا تھا۔۔

تم نہیں اٹھ رہے؟؟ زیک نے موڑ کر اس کی طرف دیکھا۔۔

حدید؟؟؟؟؟ کوئی جواب نہ پا کر زیک نے پھر سے بولیا اور اب کی بار واپس اندر آ کر اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا۔۔ بیشک وہ ایک ڈان تھا بے رحم سفاک مگر وہ اپنے دوستوں کو تکلیف میں نہیں دیکھ سکتا تھا اس کے لیے اس کے یہ دوست کیسی نعمت سے کم نہیں تھے وہ خود بولتا تھا کہ وہ دوستی کے معاملے میں بہت خوش قسمت ہے اس کو ایک سے بڑھ کر ایک بہترین اور خالص دوست سے نوازا گیا ہے۔۔۔

اور اس بات میں کوئی شک نہیں انسان کی زندگی میں بہترین دوست ہونا بہت ضروری ہے۔۔ جس کے پاس بہترین اور مخلص دوست نہیں وہ سب سے غریب انسان ہے اس دنیا میں ، کیونکہ اس کے پاس ضرورت کے وقت کوئی اچھا مشورہ دینے والا کوئی نہیں اس کے ساتھ ہر مصیبت میں ساتھ کھڑا ہونے والا کوئی نہیں وہ انسان سب سے زیادہ غریب ہے اس دنیا میں ۔۔ 

ہمم ۔۔ کچھ کہا تھا تم نے؟؟ حدید نے سر جھکا کر کہا تھا۔۔

حدید اٹھو ۔۔ زیک نے اپنا چوڑا ہاتھ اس کے سامنے پھیلایا تھا

حدید نے ایک لمحہ کہ لیا اس کی طرف دیکھا تھا ۔۔ اور دور ایک بہت پورنا منظر نظر آیا تھا۔۔

ماضی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک بچہ اس وقت پارک میں گیرا ہوا تھا سر سے خون نکل رہا تھا گلے پر کیسی کی انگلیوں کے نشان تھے۔ جسم پر بھی جگہ جگہ نیل بنے ہوئے تھے جیسے کیسی کو کیسی سے بچانے کے لیے وہ بار بار بیچ میں جا رہا ہو اور بار بار اس کو دور دھکیلا دیا گیا ہو۔۔ اس کے چہرے پر آنسو کی لکیریں وضع تھی ۔

کیسی کے چھوٹے ہاتھ اس معصوم جے چہرے پر پڑھے تھے ۔۔

Hey.. open your eyes....

وہ بچہ بار بار اس کے منہ پر ہاتھ مار رہا تھا جب دور سے اس کے باپ نے دیکھ لیا۔۔۔

What’s happened??

اس کے باپ نے اپنے بیٹے کی طرف دیکھ کر بولا اور جھک کر بچے کو دیکھا جو اس وقت بے حوش تھا ۔۔ وہ فوراً بھاگ کر اپنی بیوی کے پاس گے ان  کو بچوں کے پاس بھیجا اور خود کار کی ڈیگی میں سے  فیسٹ ایڈ باکس نکالنے لگے ایک ہاتھ میں پانی تھا اور ایک ہاتھ میں باکس وہ واپس دوڑ کر ان سب کے پاس پہنچے تھے۔

اس بچہ کے منہ پر پانی پھینکا اسکو کچھ ہوش آیا تھا اس کو فوری طور پر فیسٹ ایڈ دی۔۔

Boy are you fine ...

اس بچہ نے سامنے کھڑے اپنے سے دو سال بڑے بچے کو دیکھا تھا جو اس سے مخاطب تھا ۔ اور اس کا ہاتھ اس کے سامنے پھیلا ہوا تھا۔۔ جب اس نے خود اس کے ہاتھ کی طرف ہاتھ نہ بڑھیا تو اس نے آگے بڑھ کر اس کا ہاتھ خود تھاما تھا اور اس کو کھڑے ہونے میں مدد کی اور پھر دوسرا ہاتھ اپنے کندھے پر ڈال کر اس کو سہارا دیا تھا ۔۔ یہ حدید کی پہلی ملاقات تھے زیک سے ۔۔

حال۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

کیا آج پھر میں ہی ہاتھ تھاموں گا یا تم خود تھامو گے؟  زیک بھی اس پرانے منظر کو یاد کر چکا تھا۔

حدید ہلکا سا مسکرایا تھا۔۔ اور اس کا ہاتھ تھام کر اٹھ کھڑا ہوا تھا۔۔۔۔

•••••••••••••••

دروازے کھولنے کے ساتھ ہی دو بھاری قدموں کی چھاپ سنائی دی تھی۔۔

سلیم جو ابھی چیلا چیلا کر تھک کر بیٹھا تھا ایک دم اس نے آواز پر سر اُٹھایا آنکھوں پر سیاہ پٹی بندھی ہوئی تھی منہ پر جگہ جگہ نیل تھے ایسے ہی نیل کے نشان اس کے باقی جیسم پر بھی تھے۔۔۔

کون ہو تم لوگ مجھے چھوڑ دو میں تم لوگوں کو جان سے مار ڈالوں گا۔۔۔۔ قدموں کی آواز اپنی  طرف آتا محسوس کر کے وہ پھر سے بولے تھے۔۔۔۔

وہ دونوں کچھ نہ بولے تھے اور قدم اس کی طرف بھراتے رہے تھے۔۔۔۔۔۔

زیک پاؤں کے بھار بیٹھا تھا اور اپنے سیدھے ہاتھ سے سامنے زمین پر بیٹھے سلیم آفندی کے بالوں کو اپنی مُٹھی میں جکڑا تھا۔۔۔۔

بہت شوق ہے نہ جاننے کا  کہ ہم کون ہیں ، تو سن لو سلیم آفندی ہم تمہاری موت ہیں ۔۔ ایک دردناک اور اذیت ناک موت۔۔۔۔ زیک نے ایک جھٹکے سے اس کے بالوں کو چھوڑا تھا۔۔۔۔ اور اٹھ کھڑا ہوا دور کھڑے اپنے ایک آدمی کو اشارہ کیا جس نے آگے بڑھ کر سلیم آفندی کو زمین پر سے اٹھا کر ایک کرسی پر بیٹھیا تھا اور رسی سے باندھ دیا تھا۔۔ رسی کا ایک پھندا بنا کر اس کی گردن میں ڈالا تھا اور پیچھے ہو کر کھڑا ہو گیا تھا۔۔۔۔

زیک اور حدید سامنے رکھے صوبوں پر بیٹھ گئے تھے۔۔۔ دونوں نے گلے میں پھینی ٹائے کی نوٹ ڈھیلی کر دی تھی۔

کون ہو تم لوگ؟ سلیم نے بار بار بولنے والا سوال پھر سے کیا تھا۔۔۔

بتایا تو ہے تمہاری موت سلیم آفندی ۔۔۔ زیک نے بہت پر سکون لہجے میں کہا تھا۔۔ اور ہاتھ کے اشارے سے اپنے آدمی کو اس کی آنکھوں کی پٹی اتارنے کے لیے بولا۔۔۔

آنکھوں سے پٹی ہٹی ہی تھی کہ فوراً روشنی پرنے سے اس آنکھیں چندھیا گئیں تھیں اور سامنے کا منظر دھندلا ہوا تھا۔۔ اب کی بار سلیم آفندی نے اپنی آنکھوں کو پورا کھولا تھا اور سامنے بیٹھے دونوں وجود کو دیکھ کر اس کی سنہری آنکھیں حیرت سے پھیل گئی تھی۔۔۔ ( آپ لوگوں کو سنہری آنکھوں سے کوئی یاد آیا ؟؟)

زیک ، امیل ۔۔۔۔۔ سلیم  کو اپنی آواز خائی سے آتی محسوس ہوئی تھی۔۔

امیل لفظ پر ماسک کے پیچھے حدید کے ہونٹ ہلکا سا مسکرائے تھے اس مسکراہٹ میں بلا کا سرد پن تھا۔۔۔ کون نہیں جانتا تھا زیک کہ ساتھ خوبصورت سنہری آنکھوں والا مرد ہر وقت ہوتا تھا اس کی اور زیک دونوں کی ہی انکھیں مقابلے پر خوبصورت تھی لوگ روک کر دیکھتے تھے ان دو خوبصورت آنکھوں والے مردوں کو مگر ان کا چہرہ دیکھنا حسرت رہ جاتی تھی ۔۔ سب جانتے تھے آش گرے آنکھوں والا زیک ہے جبکہ سنہری آنکھوں والا امیل کے نام سے مشہور تھا اس کی آنکھیں کیسی شاہین کی طرح تیز تھی اس کی اپنے شکار پر گرفت بھی شاہین جیسی تھے وہ بلند اصولے کا مالک تھا ناڈر اپنی پرواز کو بلند رکھنے والا۔۔۔ وہ واقعی ہی امیل تھا۔۔۔۔

ہاں ہم۔۔۔۔۔ زیک اور حدید (امیل) ایک ساتھ بولے تھے۔۔۔

کیا چاہتے ہو مجھ سے تم لوگ چھوڑ دو مجھے ۔۔۔۔  سیلم آفندی آج اپنی جان کی بھیک مانگ رہا تھا اور کیسی کو اس کی یہ بھیک بہت سکون دے رہی تھی ۔۔

تمہاری یہ بےکار جان ۔۔۔۔ زیک مدہم لہجہ میں بولا ۔۔

رؤف کا جو حال کیا تھا اس کے بارے میں تو پتا چل ہی گیا ہو گا نہ تمہیں ؟؟؟ زیک اپنی کرسی سے اٹھا تھا اور درمیان میں رکھی ٹیبل پر دونوں ہاتھ ٹیکا کر کھڑا ہو گیا۔۔۔۔۔

ایک لمحہ کے لیے سلیم کو اپنی روح فنا ہوتی محسوس ہوئی تھی وہ کیسے بھول سکتا تھا جو کچھ روف کے ساتھ کیا تھا زیک نے۔۔۔۔۔

زیک میری جان بخش دو بدلے میں میں تمہیں اتنا دوں گا کہ خوش ہو جاؤ گے۔۔۔۔۔ سلیم نے یہ بات غلط بندے کے سامنے کی تھی ۔۔۔

ایک لمحہ میں سلیم  کے بال زیک کی مضبوط گرفت میں تھے۔۔۔ تو مجھے خوش کرنے کی بات کر رہا ہے؟؟؟ زیک کو تمہارے حرام کی ضرورت نہیں سلیم میرے پاس حق حلال کا بہت ہے۔۔۔۔ یہ کہتے ساتھ زیک نے اس کے بالوں کو اپنی گرفت سے آزاد کیا اور اس کے منہ پر رکھ کر ایک مکا مارا تھا۔۔

آآآہہ۔۔۔ سلیم کی آواز پورے بیس منٹ میں گونجی تھی۔۔۔۔۔

مجھے چھوڑ دو زیک ورنہ وہ تمہیں مار ڈالے گا تمہاری ہستی تک مٹا دے گا وہ۔۔ سلیم نے اپنی جان بچانے کے لیے آخری کوشش کر رہا تھا۔۔۔

کیوں چھوڑ دوں تمہیں، تمہیں کتنی بار بولا تھا سلیم آفندی اپنی حرکتوں سے روک جاؤ نہ تم روکے نہ رؤف روکا روف کو اس کے انجام پر پہنچا دیا تھا اب تمہاری باری ہے۔۔۔۔ زیک نہ اپنے ہاتھ میں پکڑا باریک تیز دھار آلا سلیم آفندی کی ایک گال پر مارا تھا وہ ترپ اٹھا تھا۔۔۔۔۔

میں ۔۔۔۔ تم۔۔۔۔۔۔تمہیں ۔۔۔۔ زن۔۔۔۔زندہ ۔۔۔۔۔ نہ۔۔۔نہی۔۔۔۔نہیں چھ۔۔۔ چھوڑ۔۔۔روں گا ؟؟؟ وہ چہرے پر اٹھتی درد کی وجہ سے بامشکل بول پایا تھا۔۔۔۔۔

تم زندہ بچو گے تو پھر مار پاؤ گے نہ۔۔۔۔ زیک نے تنزایا مسکراہٹ کہ ساتھ کہا اور ساتھ ہی اپنے چہرے سے ماسک اتارا ۔۔۔۔

جیسے ہی اس نے اپنے چہرے کے ماسک پر ہاتھ رکھا تھا سلیم کو یقین ہو گیا تھا آج اس کی بخشش آسان نہیں کیوں کہ جس جس نے زیک کا چہرہ دیکھا تھا یہ دیکھنے کی کوشش کی تھی وہ وہ جان سے گیا تھا۔۔۔۔ جیسے ہی زیک نے اپنا ماسک اتارا تھا سلیم صاحب پر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹے تھے ان کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا۔۔۔۔

ت۔۔۔تت۔۔۔۔۔تم ؟؟؟ وہ بامشکل یہ ہی بول پائے تھے۔۔۔

ہاں میں۔۔ زیک قدرے جھک کر بولا۔۔۔

نہیں تم ایسے کیسے۔۔۔۔۔ سلیم نے کچھ بولنا چاہا تھا۔۔۔۔۔۔

میں کیوں نہیں ؟؟ سلیم آفندی ۔۔۔۔ زیک نے تنزایا مسکراہٹ کے ساتھ سوال کیا۔۔۔۔۔۔

نہیں تم کیسے ۔۔۔۔ سلیم نے کچھ بولنا چاہا ۔۔۔۔

جدی پشتی مافیا خاندان کا ایک لوتا وارث ہوں ۔۔ زیک نے کافی رازداری سے بولا تھا

تم۔۔ بلیک۔۔۔ ؟ سلیم کی بات اُدھوری رہی تھی ۔۔۔۔

ہاں میں ہی بلیک ڈیول کا بیٹا ہوں اس ہی بلیک ڈیول کا جس کو تم نے اور کیبر خاور نے جان سے مارنے کی کوشش کی تھی ۔۔ میں ایسی بلیک ڈیول کا بیٹا ہوں۔۔۔ تمہیں لگتا ہے تمہیں میں چھوڑ دوں گا ؟؟ ایسا ہر گز نہیں ہو گا نہ تو تمہیں چھوڑوں گا نہ ہی کبیر خاور کو جو آج کل کنگ کے نام سے انڈر ورلڈ میں ہے۔۔۔ اس کا میں ایسا انجام تیار کروں گا کہ دوبارہ کیسی میں بھی زیک سے اور اس کے خاندان سے ٹکرانے کی ہمت نہ ہو گئی۔۔۔ اور ایک راز کی بات باتوں ؟؟ تم لوگوں کی کوشش صرف کوشش ہی رہی تھی بلیک ڈیول آج بھی زندہ ہے۔۔۔۔ یہ کہتے ساتھ زیک نے ہاتھ میں پکڑا آلا سلیم کی دوسری گال پر مارا تھا۔۔

سلیم درد سے بلبلا اٹھا تھا۔۔ تب ہی حدید اپنی جگہ سے اٹھا تھا اور چلتے چلتے سلیم کے سامنے آ کھڑا ہوا ۔۔۔ اور اس کے بالوں کو اپنی مُٹھی میں جکڑا تھا۔۔۔

درد تو نہیں ہو رہی سلیم آفندی ۔۔۔۔ حدید نے اس کا خون سے تر چہرہ اوپر کر کے پوچھا تھا۔۔۔۔

امیل۔۔۔۔۔ سلیم آفندی اپنے سامنے کھڑے اس شخص کو دیکھ کر بولے تھے جس کی آنکھیں ان کی آنکھوں کی طرح ہی سنہری تھی ۔۔ ایک لمحہ کے لیے ان کو حیرت کا جھٹکا لگا تھا۔۔۔ جب اچانک حدید نے اپنا ماسک اتارا ۔۔۔

سنہری خوبصورت آنکھوں ، تیکھے نقوش ، مغرور ناک، دودھیا سفید رنگت ، اگر آج سلیم آفندی کے ساتھ کوئی اس کو دیکھ لیتا تو وہ بس یہ ہی بولتا کہ وہ واقع ہی سلیم آفندی کا بیٹا ہے۔۔۔۔۔ اس کا چہرہ دیکھ کر سلیم آفندی کو ایک چھوٹا سا بچہ یاد آیا تھا۔۔۔۔

تم ۔۔۔ وہ نہیں ہو سکتے تم امیل ہو ہے نہ؟ سلیم آفندی بہت ہلکی آواز میں بولے تھے مگر زیک اور حدید سن چکے تھے ۔۔۔

میں حدید  ہوں سلیم آفندی ،، مجھے مافیا میں امیل کہا جاتا ہے میرا نام میری ماں نے حدید آفندی رکھا تھا۔۔۔ حدید نے سلیم آفندی کی آنکھوں میں آنکھیں گار کر کہا تھا۔۔۔

تم زندہ کیسے ہو میں نے خود تمہیں اپنے ہاتھوں سے مارا تھا۔۔۔ سلیم آفندی کو یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ وہ آج زندہ ہے اور ان کے سامنے ان کی موت کی صورت میں کھڑا تھا۔۔۔

ہیں تو بہت ناکام کوشش تھی تمہاری سلیم آفندی ۔۔۔۔ حدید حقارت سے بولا تھا۔۔

تمہیں آج کوئی بھی مجھ سے نہیں بچا سکتا سلیم آفندی ۔۔۔ تم نے میرے سامنے میری ماں کو مارا تھا ، میرے سامنے تم نے ان کا قتل کیا تھا ۔۔ میں تمہیں زندہ نہیں چھوڑں گا۔۔۔۔ حدید نے بیچ میں پڑھی میز کو ٹانگ ماری تھی جو سلیم آفندی پر گری تھی اور اس کو کرسی سمیت نیچے گرا چکی تھی۔۔۔ حدید نے ایک طرف کھڑے آدمی کو اشارہ کیا جس نے آگے بڑھ کر سلیم آفندی کی رسیاں کھول دی تھی۔

مجھے معاف کر دو حدید میں تمہارا باپ ہوں ۔ تم جو چاہو گے میں تمہیں دوں گا مجھے معاف کر دو ۔۔ دیکھو بیٹا تمہاری ماں ایک اچھی عورت نہیں تھی اس وجہ سے میں ۔۔ سلیم اپنی بات پوری کرتا کہ حدید نے اس کے سینے پر اپنے پاوں سے ضرور دار ٹھوکر ماری تھی۔۔ سلیم آفندی کو یہ ٹھوکر یاد آئی تھی کبھی اس نے بھی یہ ٹھوکر کیسی معصوم کے وجود کو ماری تھی ۔۔۔ حدید پاؤں کہ بل بیٹھا تھا اور سلیم آفندی کو اس کے بالوں سے پکڑ کر اس کا منہ تھوڑا اوپر اٹھایا تھا۔۔۔ میری ماں کے بارے میں ایک لفظ اور بولا تو تمہاری موت کو بہت مشکل بنا دوں گا سلیم آفندی۔ تم خود کو میرا باپ کس حق سے بول رہے ہو؟؟ میری ماں کو تم نے مارا میری ماں کا سودا تم نے کیا تھا، مجھے جان سے مارنے کی کوشش تم نے کی ، آج  اپنے سامنے موت دیکھ کر تمہیں یاد آ گیا کہ میں تمہارا بیٹا ہوں؟ تم میرے باپ ہو ؟ جس دن جس دن تم نے میری ماں کا سودا کیا تھا میرا باپ اس دن ہی مر گیا تھا سلیم آفندی آج تم میری ماں کے خون کا قرض ادا کرو گے ۔۔۔ حدید نے ایک لمحہ میں اس کے بالوں کو چھوڑا تھا  اس کا سر زمین پر لگا تھا۔۔۔۔

حدید اٹھ  کھڑا ہوا تھا اور رسی کا ایک سیرا پکڑ لیا تھا جو سلیم کے گلے میں ڈالی گئی تھی اور اس کس گھسیٹتا ہوا ایک کونے میں لے کے جانے لگا تھا۔۔ رسی کھنچنے سے سلیم کو اپنا سانس بند ہوتا محسوس ہو رہا تھا اس کو وہ وجود یاد آ رہا تھا جو اس سے رحم کی بھیک مانگ رہا تھا مگر وہ اس کے گلے میں ڈالے ڈوپٹہ کو اس کے گلے میں باندھ کر اس کو اس ڈوپٹہ سے کنچھتا باہر لے جا رہا تھا۔۔۔ جیسی موت اس نے کبھی کیسی مصعوم کو دی تھی آج اس کو کوئی دے رہا تھا۔۔۔۔

•••••••••••••••••••••

سلیم میں آپ کا ہر ظلم برداشت کیا ہے میں یہ ہر گز نہیں کروں گئی کتنے بےغرت اور ذلیل انسان ہو تم اپنی ہی بیوی کا سودا کر کہ آئے ہو ۔۔۔ وہ معصوم سی عورت آج اس کے سامنے کھڑی چیلا رہی تھی۔۔۔ سیاہ آنکھیں ، لمبے سیاہ ریشمی بال، سرخ سفید رنگت وہ ایک چھوٹی سی نازک سی گڑیا لگتی تھی کہیں سے بھی وہ چھ سال کے بچے کی ماں نہیں لگتی تھی ۔۔۔

اپنی بکواس بند کرو میراب۔۔ صرف تین راتوں کی بات ہے تمہیں اس شخص کے ساتھ صرف تین راتیں۔۔۔ سلیم کے الفاظ ابھی منہ میں ہی تھے کہ میراب کا نازک ہاتھ اس کے گال پر پڑا تھا۔۔۔

گھٹیا ، ذلیل ، کم ضرف بے غیرت آدمی بیوی ہو تمہاری تمہارے بیٹے کی ماں ہوں میں کیا نہیں دیا تمہیں میں نے عزت دی اپنی ساری دولت دی تمہیں اپنے باپ کا سارا کاروبار دیا جو کہ میرے نام تھا آج یہ جو شہرت تمہارے پاس ہے میری وجہ سے ہے اور تم آج میرا سودا کر رہے ہو ۔۔ لعنت ہو تم پر سلیم آفندی لعنت ہو تم پر۔۔۔ میراب پھٹ پڑی تھی اس پر۔

سلیم غصہ سے بے قابو ہوتا  میراب کو مارنے لگا تھا ایک کہ بعد ایک تھپڑ اس کے منہ پر مار رہا تھا اس بات سے بے خبر کر دروازے کے دوسری طرف ایک چھوٹا وجود یہ سب دیکھ رہا ہے۔۔۔ آخر وہ وجود اندر آیا تھا ماں کہ ساتھ اولاد کی محبت ہوتی ہی الگ ہے وہ اپنی ماں کے ساتھ یہ سب ہوتا نہیں دیکھ سکتا تھا۔۔

بابا چھوڑو ماما کو ۔۔ وہ چھوٹا سا بچہ اپنے باپ کی ٹانگ پر اپنے ننھے ہاتھ مار رہا تھا۔۔ اچانک اس کے باپ نے ٹانگ مار کر اس کو ایک طرف پھینکا تھا۔۔۔

سلیم نے میرا ب کو بیڈ پر پھینکا تھا اور اس کے گلے کو اپنے ہاتھوں میں لے کر دبانے لگا جب دوبارہ وہ چھوٹا سا وجود بیچ میں آیا تھا ۔۔۔

آپ کتنے گندے بابا ہو میری ماما کو چھوڑو ۔۔ ہاتھ ہٹاؤ ۔۔۔ وہ اپنے ہاتھوں سے سلیم کے ہاتھوں کو اپنی ماں کے گلے پر سے ہٹانے کی کوشش کر رہا تھا۔۔ جب سلیم نے اب کی بار اس کی ماں کے گلے پر سے ہاتھ ہٹا کر اس کی طرف کیا اور اس کو اٹھا کر بیڈ سے نیچے پھنکا تھا ۔۔ وہ بہت برا نیچے گیرا تھا ۔۔

میر۔میرا۔حد۔۔۔ حدید۔۔ میراب بے چینی سے بولتے خود کو سنبھالتی اٹھی تھی۔۔

آگے بڑھنے لگی تھی کہ سلیم نے ان کے گلے میں دوپٹہ باندھ دیا۔۔۔۔

بول چلے گئ کہ نہیں ۔۔ سلیم نے ڈوپٹہ پر دباؤ زیادہ کیا۔۔

میراب کو اپنا سانس بند ہوتا محسوس ہو رہا تھا۔۔

نہ۔۔۔نہ۔۔۔ نہیں ۔۔۔ میراب کا جواب وہ ہی تھا۔۔

سلیم اس کو گھسیٹتا ٹی-وی لاؤنج میں لے جانے لگا جبکہ ہو اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کر رہی تھی ۔۔۔

حدید کے سر سے خون نکل رہا تھا وہ اپنی ماں کو بچانے کے لیے بیچھے بھاگا تھا۔۔

سلیم خدا کہ لیے مجھ پر یہ  ظلم مت کریں پلیز ۔۔وہ ان کے قدموں میں  گیری ان سے رحم کی بھیک مانگ رہے تھی ۔۔ جب سلیم نے ان کو ٹھوکر ماری تھی اور وہ تھوڑا دور ہوئی تھی۔۔ پیٹ پر درد کی ایک لہر اٹھی تھی۔۔ ان کو اپنے ایک نقصان کا اندازہ شدت سے ہوا تھا۔۔ وہ درد سے ابلبلا اٹھی تھی۔۔ سلیم کو کیسی بات سے کوئی فرق نہ پڑا تھا وہ ٹھوکر پر ٹھوکر مارتا گیا ۔۔ حدید بھاگ کر آ کر ماں سے لپٹا تھا کچھ ٹھوکریں اس کو بھی لگی تھی۔۔۔

سلیم نے جھک کر  حدید کا بازوؤں پکڑ اور اس کو ایسی بازوؤں سے گھسیٹ کر صوفے پر مارا تھا۔۔

میرا۔۔۔ ب۔۔۔بچہ۔۔۔ میراب ترپ اٹھی تھے ایک بچہ ان کا دنیا میں آنے سے پہلے مار دیا گیا تھا اس کے باپ کے ہاتھوں دوسرے کو وہ مرتا نہیں دیکھ سکتی تھے۔۔۔

سلیم نے میراب کے بالوں کو اپنی ہاتھ میں جکڑا تھا اور سر کو زور سے جھٹکا دیا تھا۔۔ مان جاؤ میری بات اگر جینا چاہتی ہو۔۔۔ وہ بے رحمی سے بولے تھے۔۔۔۔

نہیں ۔۔ میراب کا یک لفظی جواب تھا۔۔

سلیم نے ہاتھ میں پکڑا چاقو میراب کے پیٹ میں مرا تھا۔۔ ایک چیخ پورے گھر میں گونجی تھی ۔۔۔ سلیم نے چاقو باہر نکال تھا اور اب دوبارہ میراب کے پیٹ میں مرا تھا۔۔۔۔

میراب نے اپنا خون سے بھرا ہاتھ سلیم کے گریبان پر رکھا۔۔۔ اور اس کو پکڑ لیا۔۔۔

ی۔یہ دن۔دنیا۔۔ مکا۔۔فا۔۔تے ۔۔۔۔عم۔۔ل۔۔ ہے۔۔۔ سل۔۔۔سلیم۔۔۔ تم۔تمہا۔ری موت۔۔۔ بہت بر۔۔۔بری ہو۔۔ گئی ۔۔۔ میراب درد کی شدت سے قہراتی بولی تھی ۔۔۔

سلیم نے ان کو دور دھکیلا اور حدید کی طرف بڑھا تھا جو نیم بے ہوش تھا ۔۔۔

تمہیں مرنا ہو گا حدید ورنہ تم میرے لیے مصیبت بن جاؤ گے ۔۔ یہ کہتے ساتھ وہ حدید کے گلے پر دباؤ ڈالنے لگے تھے۔۔ چند لمحوں میں ان کو حدید کی سانس بند محسوس ہوئی تھی۔۔۔ وہ اٹھے جتنا ضروری سامان تھا جو رقم تھی ایک بیگ میں ڈالی اور گھر سے باہر نکل گئے ۔۔ ان کے لیے یہ باب ختم ہو گیا تھا مگر ان کی موت کا باب اب شروع ہو گیا تھا۔۔ وہ یہ بھول گئے تھے حدید اپنی سانس روک کر رکھنے میں ماہر تھا۔۔۔

جیسے وہ باہر نکلے تھے حدید اٹھا تھا اور گرتا پڑتا ماں کہ پاس آیا تھا  وہ بھی بہت زخمی ہوا تھا۔۔

ماما آنکھیں کھولا نہ۔۔ میراب جو نیم مردہ حالت میں تھی اپنے بیٹے کے ننھے ہاتھوں کو اپنے چہرے پر محسوس کر کے اپنی آنکھیں کھولنے لگی۔۔۔

ماما آپ کو کچھ نہیں ہو گا وہ چھوٹا سا حدید بلک بلک کر رو  رہا تھا ۔

بی۔۔۔ بیٹا۔۔۔ اپ۔۔اپنے با۔۔با جی۔۔جیسے نہ۔۔۔۔ بنا۔۔۔۔ تم۔۔۔۔ مض۔۔۔۔ مضب۔۔۔۔۔ مضبوط۔۔۔ ب۔۔بن۔۔ بنو گے ۔۔۔ تمہ۔۔۔۔تمہا۔۔را ۔۔۔ س۔۔سفر۔۔۔۔ اب۔۔۔ ماں۔۔۔ کے۔۔ بغ۔۔۔بغیر ہے۔۔ تم۔۔۔۔۔ می۔۔۔۔میرے۔۔۔ حد۔۔ید ب۔۔۔۔بنو۔۔۔ گئے۔۔۔۔۔۔ می۔۔۔ میری۔۔۔ جا۔۔ن ۔۔۔ خد۔۔۔ا۔۔۔۔۔۔تم۔۔تمہیں۔۔۔۔۔ ہر۔۔۔۔ بر۔۔ا۔۔ئی ۔۔سے ۔۔ دو۔ر رکھ۔۔۔ے۔۔۔ حد۔۔ید۔۔۔۔۔ وہ اکھڑتی سانسوں کے ساتھ بول رہی تھی جبکہ حدید کا دل منہ کو آ رہا تھا۔۔۔

میر۔۔۔۔ا۔۔۔۔۔ حد ۔۔۔۔ید۔۔۔ میراب کی سانسوں نے اس کا ساتھ چھوڑ دیا تھا۔۔ اس کی روح اس کے جسم کو آزاد کر گئی تھی۔۔ وہ معصوم ایک درندے کے ہاتھوں لگ کر آج اپنی جان کھو بیٹھی تھی۔۔ مگر وہ اپنا بیٹا چھوڑ گئی تھی۔۔۔اور آج وہ چھ سال کا بچہ اب بچہ نہیں رہا تھا اس نے اپنی ماں کو کھو دیا تھا اس کا باپ ہی قاتل تھا۔۔ اس کو اب اس دنیا میں اکیلے سفر کرنا تھا۔۔۔

ماما۔۔۔ وہ اپنی ماں کے بے جان وجود کو ہیلا رہا تھا کہ شاید کوئی حرکت ہو اس کی ماں اس کو بولائے۔۔۔

ماما اپنے حدید کو جواب دیں نہ ۔۔۔ ماما اٹھو نہ۔۔ میں اکیلا کیا کروں گا ماما۔۔۔۔ ماما اٹھ جاؤ نہ ماما ماما۔۔۔۔۔ وہ بچہ رو رہا تھا۔۔۔

اللّٰہ میری ماما ۔۔۔۔ وہ چیخ رہا تھا۔۔۔

میں زندہ نہیں چھوڑوں گا اس کو اس نے میری ماما کو مار دیا۔۔۔۔۔ چھ سال کے بچے نے کھولی آنکھوں سے خون ہوتا دیکھا تھا اپنی ماں کا اور اب وہ چھ سال کا بچہ بدلہ لینے کے راستے پر نکلنے والا تھا ۔۔ کون جانتا تھا ان معصوم خوبصورت آنکھوں نے اتنی سی عمر میں کیا دیکھا تھا۔۔۔ وہ اپنے ہاتھ پر اپنی ماں کا خون لے کر اٹھا تھا۔۔۔ اس کا معصوم سا دل زخمی تھا۔۔ مگر خون اس کی آنکھوں میں تھا ۔۔۔ آج کی رات اس کی سنہری آنکھیں بہت روئی تھی کیونکہ روز رات ان آنکھوں کو چوم کر سولانے والی آج خود خاموش نیند سو گئی تھی اپنا بیٹا اور اپنی موت کا مقدمہ خدا کو دے گئی تھی۔۔ مکافات کا چکر انقریب گھومنے والا تھا۔۔۔۔

 آگلے دن ملازمہ کام کرنے آئی تھے سامنے کا منظر دیکھ  کر دل پر ہاتھ رکھ چکی تھی اس نے سب کو خبر دی تھی لوگوں کو اکھٹا کیا تھا۔۔ اس نے آگے بڑھ کر حدید کو گلے سے لگایا تھا۔۔ سب کو پتا تھا یہ کام کون کر سکتا ہے سب خاموش تھے کیونکہ اس سے لڑنے کی کیسی میں ہمت نہیں تھی۔۔۔ علاقے کی عورتوں نے میراب کو آخری غسل دیا تھا ۔۔ میراب کو اس کی آخری آرام گاہ تک پہنچا دیا گیا تھا۔۔

ایک دن گزرا ، دوسرا دن ، تیسرا دن ، اور پھر سب بھول گئے میراب کون تھی حدید بھی کوئی ہے۔۔۔

یہ ہی تو انسان کی حقیقت ہے مرنے کے بعد لوگ چند دن یاد رکھتے ہیں پھر بھول جاتے ہیں ۔۔ مگر جو آپ کے قریب ہوں وہ بھولتے نہیں ہیں ان کو آپ کے نہ ہونے کا احساس ہر وقت ہوتا ہے ۔۔ جیسے کہ حدید کو ہو رہا تھا۔۔ چار دن ہو گئے تھے وہ بغیر کچھ کھائے ان ہی کپروں میں جن پر اس کی ماں کا خون لگا تھا بیٹھا ہوا تھا حالت بیماروں جیسی ہو گئی تھی ۔۔وہ گھر سے باہر نہ نکال تھا ۔۔۔ آج اس نے باہر جانے کا سوچا تھا ۔۔۔ دبئی کی اس گرمی میں وہ باہر نکلا تھا گھر سے دور ایک پارک کی طرف جا رہا تھا جہاں وہ اکثر اپنی ماں کے ساتھ جاتا تھا کچھ نہ کھانے کی وجہ سے اس کو چکر آ رہے تھے ۔۔  پارک کے پاس پہنچتے ساتھ وہ  بھوک سے بے ہوش ہو گیا تھا جہاں پہلے سر پر چوٹ لگی تھی ادھر سے پھر سے خون بھنے لگا۔۔ جسم پر زحم کے نشان اب نیل میں بدل گئے تھے ۔۔۔

کیسی بچے نہ اس کو دیکھا تھا اس کے باپ نے اس کو فیسٹ ایڈ دی ۔۔ اس کی حالت سے ان کو کیسی چیز کے غلط ہونے کا اندازہ ہوا۔۔

Whats your name ....

اس آدمی نے اس کے کندھے ہر ہاتھ رکھا۔۔۔ حدید کو وہ شخص رحم دل لگا تھا وہ خوبصورت اور بارعب شخصیت کے مالک تھے اور ان کے ساتھ کھڑا ان کا بیٹا بھی حدید کو بہت خوبصورت لگا تھا ۔۔ جبکہ حدید خود کیسی سے کم خوبصورت نہیں تھا۔۔

حدید۔۔۔ یک لفظی جواب دیا گیا۔۔

Is everything ok... I think something wrong with you..

اس آدمی نے پھر سے پوچھا ۔۔۔

Im in search of black devil ... You know him..

حدید نے جواب دینے کے بجائے اولٹا سؤال کیا۔۔۔

Why you finding me little boy....

مقابل نے مسکرا کر اس بچے کو دیکھا تھا۔۔۔

آپ بلیک ڈیول ہو؟؟؟  اب کی بار حدید اُردو میں بولا تھا۔

ارے تمہیں تو اُردو بھی آتی ہے۔۔۔ بلیک ڈیول نے اس کی بات کو نظر انداز کیا۔

ہاں کیونکہ میرے پیرنٹس  پاکستان سے تھے۔۔۔ حدید کی آواز میں ایک قرب تھا جو مقابل سے بچ نہ سکا۔۔۔

ہمممممم ہمیں گھر چل کر بات کرنی چاہیے ۔۔ چلو اٹھو۔۔۔ بلیک ڈیول نے اس کا ننھا سا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا تھا۔۔۔

کون جانتا تھا آج بلیک ڈیول جس چھوٹے سے بچے کو اپنے ساتھ لے کر جا رہا تھا اس کی ساری کہانئ سنے کے بعد اس کو امیل بنا کر مافیا میں انٹروڈیوز کروائے گا اور ایک دن وہ امیل اپنی ماں کے خون کا بدلہ خود لے گا۔۔۔

••••••••••••••••••

آج وہ چھ سال کا بچہ امیل بن گیا تھا اور اب وقت تھا اس کی ماں کے بدلہ کا ۔۔ وہ واقع ہی اپنے باپ کے جیسا نہیں بنا تھا وہ ظلموں کو مارنے والا تھا وہ اپنی ماں کا حدید تھا۔۔ اور آج سلیم اپنے مکافات کے قریب تھا اس کا اختتام اس کے اپنے خون کے ہاتھوں لکھا تھا قدرت نے اس نے اپنا خون اپنی بیوی کی کوک میں مارا تھا قدرت نے اس کی موت ہی اس کے خون کے ہاتھوں میں لکھی تھی۔۔۔۔ وہ پہلا بیٹا تھا جو اپنے باپ سے اپنی ماں کے خون کا بدلہ لے رہا تھا آج اپنے باپ کو ایک اذیت ناک موت دینے لگا تھا۔۔ اس کا باپ درندہ تھا وہ اس جیسے درندوں کو مارنے کے لیے درندہ بنا تھا۔۔۔۔۔۔

حدید۔۔۔۔۔۔۔ سلیم آفندی نے اس کو بولنا چاہا۔۔۔۔

امیل۔۔۔۔۔ امیل ہوں میں تمہارے لیے سلیم آفندی حدید میں صرف اپنی ماں لے لیے ہوں ۔۔۔۔ یہ کہتے ساتھ اس نے ایک ٹھوکر سلیم کو ماری تھی ٹھیک ایسی جگہ جس جگہ اس نے اس کی ماں کو ماری تھی۔۔۔ دور بیٹھا زیک خاموشی سے اس کو دیکھ رہا تھا۔۔۔ وہ اس کے ایک ایک لمحہ سے واقف تھا وہ چھ سال کی عمر سے اس کے ساتھ تھا۔۔

سلیم نے اٹھنے کی کوشش کی تھے جب دوبارہ سے اس نے سلیم کو ٹھوکر ماری تھی ۔۔۔۔۔ اور جھیک کر اس کے بالوں کو اپنی گرفت میں لیا تھا۔۔۔۔ آج تم میری ماں کی تکلیف کا قرض ادا کرو گے سلیم۔۔۔۔ میں تمہاری موت ہوں ۔۔ وہ مکافات ہوں جو میری ماں نے بولا تھا تمہیں ۔۔۔۔ میں ہوں تمہاری بری موت ، اذیت سے بھری موت تکلیف سے بھری موت۔۔۔اور ایک جھٹکے سے اس کے بالوں کو آزاد کیا تھا۔۔۔۔۔

مجھے معاف کر دو ۔۔۔ رحم کرو مجھ پر ۔۔۔۔ سلیم نے اپنے دونوں ہاتھ اس کے سامنے جوڑ لیے تھے۔۔۔۔

مانگوں بھیک مانگوں ۔۔۔ میری ماں نے بھی تم سے رحم کا بولا تھا تم نے سنی؟؟ نہیں نہ۔۔۔ ایک اور ٹھوکر سلیم کو مار کر دور کیا تھا خود سے اس نے۔۔۔

وہ موڑا تھا اور ٹیبل پر سے کچھ پیپرز اٹھا کہ لایا تھا۔۔۔۔۔ اس نے وہ پیپرز سلیم کے سامنے کیے تھے۔۔۔۔

یہ دیکھو سلیم آفندی تمہاری بربادی کا پروانہ۔۔۔۔۔جس دولت کے لیے تم نے سب کیا تھا ہر ناجائز کام کیا تھا دیکھو اب وہ تمہاری نہیں رہی۔۔۔ دیکھو تم نے اپنے ہر گناہ کا اعتراف کیا ہے دیکھو ۔۔۔ اس نے وہ پیپرز سلیم کے آگے کیے تھے جن پر صاف لکھا ہوا تھا کہ وہ اپنی پہلی بیوی کا قتل قبول کرتا ہے کہ اس نے اپنی پہلی بیوی کو خود قتل کیا تھا اس کہ باپ کی ساری پراپرٹی اپنے نام کی تھی اس کی ساری دولت پر قبضہ کیا تھا۔۔۔ اس نے اپنی پہلی بیوی کا سودا کیا تھا۔۔۔ اس نے اپنی بیوی  سے لی پراپرٹی میں سے 30٪ اپنی بھائی اکرم کو دی تھی جس پر  اکرم بیلڈیرز بنائی گئی تھی۔۔۔۔ وہ اپنی دوسری بیوی کے پہلے شوہر کو کار آکسیڈنٹ میں ماروانے کا بھی اعتراف کر رہے تھے ۔۔ اور آج وہ پورے ہوش و حواس میں اپنی تمام تر دولت پراپرٹی اپنے بیٹے حدید کے نام کر رہے ہیں جس کو انہوں نے قتل کرنے کی کوشش کی تھی۔۔

یہ ۔۔یہ سب جھوٹ ہے۔۔ اور اور اس اس پر میرے سائن کیسے آئے ۔۔ یہ پیپر میں نے سائن نہیں کیے۔۔۔ سلیم آفندی کو اس مقام پر بھی اپنی دولت کیسی اور کے ہاتھ جاتے دیکھ کچھ ہو رہا تھا جبکہ وہ دولت ان کی تھی بھی نہیں ۔۔۔۔

یہ سائن تمہارے ہی ہیں سلیم آفندی ۔۔۔ اس لیے کہتے ہیں سائن جس بھی پیپر پر کرو اس کو ایک بار پڑھ ضرور لیا کرو۔۔۔ حدید یہ کہہ کر مسکرایا تھا۔۔۔

ایک ہفتے پہلے کا منظر تھا۔۔

جب سلیم آفندی پاکستان کو چھوڑنے کی تیاری میں تھا۔۔ تب وہ کچھ ضرور کام کے پیپر پر سائن کر رہا تھا۔۔ جب اس کی سیکرٹری نے آ کر بتایا تھا کہ اس سے کوئی ملنے آیا ہے۔۔۔

اس نے اندر آنے کا کہا کیونکہ اس کو کینگ نے کچھ پیپرز بھیجیے تھے جن پر اس کو سائن کرنے تھے۔۔ وہ سیاہ ڈریس پر سیاہ لونگ کوٹ پہنے آفس میں داخل ہوا تھا۔۔ سلیم نے اس کی طرف دیکھا تھا ۔۔۔

بولو کیا کام ہے۔۔۔ سلیم نے اس کو دیکھ کر پوچھا تھا ۔۔

کینگ نے بھیجا ہے کچھ پیپرز دے کر۔۔۔ اس نے سیدھا کام کی بات کی تھی ۔۔۔

دو ادھر ۔۔۔ سلیم نے اس کے سامنے ہاتھ کیا تھا۔۔۔

اس نے اپنے ہاتھ میں پکڑا گرے رنگ کا لفافا اس کے آگے کیا تھا۔۔ کیونکہ کینگ گرے رنگ کا لفافا استعمال کرتا تھا جب بھی کوئی کاغذات وغیرہ بھیجنے ہوتے تھے۔۔۔

سلیم نے وہ لفافا کھولا اور اس میں سے پیپرز نکال کر ان پر سائن کر دیے ایسے یہ بھی نہ پتا تھا اس نے اپنی ساری دولت لٹا دی ہے جس کو پانے کر لیے اس نے ہر ناجائز کام کر ڈالا تھا۔۔۔ سائن کرنے کے بعد اس نے پیپر واپس لفافے میں ڈال دے اور اس آدمی کے آگے بڑھیا۔۔۔

ماسک کے پیچھے چھوپا چہرہ مسکرا رہا تھا۔۔۔۔۔وہ لفافا لے کر آفس سے باہر آیا تھا۔۔ جیسے ہی وہ اپنی گاڑی کے پاس پہنچا تھا اس نے سب سے پہلے اپنی آنکھوں پر سے سیاہ لینز اتارے تھے جس کے پیچھے اس کی سنہری آنکھیں چھوپی ہوئی تھی ۔۔ بیوقوف ۔۔۔ بغیر پڑھے پیپر کون سائن کرتا ہے۔۔ اب دیکھو میں تم آفندئز کا حال کیا کرتا ہوں۔۔۔ وہ مسکرایا تھا اور اپنی گاڑی میں بیٹھ گیا ۔۔

جو پیپرز کینگ نے سلیم کو بھیجے تھے وہ پیپرز وہ کب کے لے چکا تھا اب اس کو بس وہ پیپرز زیک کو دینگ تھے۔۔۔

حال۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کچھ یاد آیا ۔۔۔۔۔ سلیم کے چہرے کے اترتےرنگ دیکھ کر وہ دلچسپی سے بولا تھا۔۔۔

نہیں تم تم ایسا کیسے کر سکتے ہو میرے ساتھ۔۔۔۔ سلیم آفندی بے یقینی سے بولا تھا۔۔۔

بہت آسانی سے۔۔ حدید کا سکون قابلِ دید تھا۔

حدید نے پاس پڑے ٹیبل پر سے چاقو اُٹھایا تھا اور  اس کو پاس پڑے ایسڈ میں ڈال دیا۔۔ اور پھر نکال کر سلیم کی طرف بڑھا تھا۔۔۔ سلیم نے اس کو اپنے پاس آتا دیکھا تو پیچھے ہونے لگا تھا۔۔۔

حدید نے آگے بڑھ کر وہ تیزاب والا چاقو سلیم کے پیٹ میں مارا تھا۔۔۔

آاااااااا۔۔۔۔۔۔۔ سلیم آفندی درد سے بلبلا اٹھا تھا۔۔۔۔

حدید نے چاقو کو اندر ایک بار گھومیا تھا اور پھر باہر نکالا تھا اور دوبارہ اس کے پیٹ میں چاقو مارا تھا ۔۔۔

حد۔۔۔۔ید۔۔۔۔۔ سلیم آفندی درد کی شدت سے بامشکل بول پایا تھا۔

تمہارے لیے امیل ہوں میں ۔۔۔ حدید صرف اپنی ماں کے لیے ہوں۔۔ حدید نے اس کے منہ کو اپنے ہاتھ میں جکڑ لیا تھا۔۔۔  کی زبان کو اس نے سلیم  آفندی کی زبان اس کے منہ سے کھینچ کر نکال تھا۔۔۔

اس زبان سے تم نے میری ماں کا سودا کیا تھا نا؟؟؟۔۔ وہ وحشی ہوا پڑا تھا اس وقت۔۔۔

ایک دھار سے اس نے اس کی زبان کاٹ دی تھی۔۔۔۔۔ سلیم کا منہ خون سے بھر گیا تھا ۔۔ اور عجیب سی آوازیں نکال رہا تھا۔۔

اب وہ اس کے جیسم پر جگہ جگہ گہرے کٹ بنا رہا تھا۔۔ سلیم آفندی سے یہ اذیت برداشت سے باہر تھی۔۔ اس نے ہاتھ جوڑے چاہیے تھے مگر وجود میں ہمت نہ تھی ۔۔

میں تمہیں اتنی آسانی سے مرنے نہیں دوں گا سلیم تم اپنی موت کی تکلیف کو شدت سے  محسوس کرو گے ۔۔ سلیم آفندی کو غنودگی میں جاتا دیکھ اس نے اس پر نمک ملا پانی پھینکا تھا جس سے وہ پھر سے بلبلا اٹھا تھا۔۔۔

حدید نے اپنی گن نکالی تھی اور اب وہ سلیم کے جسم کے ہر حصہ پر گولیوں پر گولی چلا رہا تھا وہ اب تک تین بار اپنی گن کی میگزین لوڈ کر چکا تھا اور اب اس کے گن میں دو گولیاں تھی ایک اس نے سلیم کے سر پر ماری تھی اور آخری گولی اس نے اس کے دل کے مقام پر چلائی تھے اور یہاں ۔۔ سلیم کے سیاہ باب کا اختتام ہوا تھا۔۔۔

جس نے کبھی  خود اپنے ہونے والے بچے کو دنیا میں آنے سے پہلے مارا تھا ،، اور ایک کا مارنے کی کوشش میں ناکام ہوا تھا۔۔ جو نہ جانے کتنے ہی لوگوں کی جان لے چکا تھا دولت کے نشہ میں ۔۔۔ جس نے نہ جانے کتنی ہی لڑکیوں کی عزتوں کو لوٹا تھا اپنی ہی بیوی کا سودا کر نے والا۔۔۔ آج اس کا اختتام قدرت نے اس کے ہی خون کے ہاتھوں لکھا دیا تھا۔۔۔ جس کو کبھی وہ مارا ہوا سمجھ  کے آیا تھا آج اس کا وہ ہی بیٹا اس سے اپنی ماں کا بدلہ لے چکا تھا۔۔۔ اس کی بری موت اس کا اپنا بیٹا تھا۔۔ وہ اپنے اختتام پر پہنچ گیا تھا ۔۔۔ حدید کا بدلہ پورا ہو گیا تھا ۔۔۔۔اس نے اپنی ماں کا قاتل مار دیا تھا اس شخص کو مار دیا تھا جس نے اس کی ماں کا سودا کیا تھا۔۔

حدید نے ایک بھاری سانس لی تھی اور ادھر ہی بیٹھ گیا تھا۔۔۔

زیک اپنی جگہ سے اٹھا تھا ۔۔ اس نے ادھر آنے سے پہلے وعدہ کیا تھا سلیم کو حدید مارے گا وہ بیچ میں نہیں آئے گا۔

اور اب وہ حدید کی طرف بڑھا تھا۔ اس کے کندھے پر ہاتھ  رکھا اور اس کے پاس ہی پاؤں کے بھار اس جگہ بیٹھ گیا۔ میں نے اپنی ماں کو بدلہ لے لیا زیک۔۔۔ میں نے خون کا بدلہ لے لیا زیک۔۔ میں نے مار دیا آج اس آدمی کو۔۔۔ ایک آنسو ٹوٹ کر اس کی آنکھوں سے نکالا تھا۔۔۔ اس کے ہاتھ خون سے بھرے تھے یہ وہ ہی خون تھا جو اس کی رگوں میں بہہ رہا تھا۔۔۔

حدید ۔۔۔۔۔ زیک نے اس کو گلے لگا لیا تھا۔۔۔

میں نے اپنی ماں کا بدلہ لے لیا زیک۔۔۔ وہ پھر سے بولا تھا۔۔۔۔ جیسے کوئی آگ کم ہوئی ہو۔۔ جیسے کیسی  درد کو آج سکون ملا ہو۔۔۔

•••••••••••••

وہ آج 23 سالوں میں پہلی بار اپنی ماں کی قبر پر گیا تھا اپنی ماں کی تدفین کے بعد۔ اس نے اپنی ماں کی تدفین کے وقت اپنی ماں سے وعدہ کیا تھا  کہ اب جب تک وہ اس آدمی کو نہیں مار دیتا تب تک وہ اس قبر پر نہیں آئے گا۔۔۔۔

وہ فاتحہ پر کر قبر کے سامنے بیٹھا تھا۔۔ ابھی اس نے قبر کی مٹی پر ہاتھ رکھا ہی تھا کہ اس کی آنکھوں سے آنسو گرنے لگے تھے اور کچھ ہی دیر میں وہ 29 سال کا مرد بچوں کی طرح بلک بلک کر رونے لگا تھا ۔۔  23 سال کے بعد وہ آج  رویا تھا ۔۔ وہ تو بلیک ڈیول کو بھی سارا واقع بتاتے وقت نہ رویا تھا ۔۔ جب بلیک ڈیول نے اس سے پوچھا کہ تم اپنی ماں کی موت کا بتا رہے ہو مگر تمہاری آنکھ سے ایک آنسو بھی کیوں نہیں نکلا ۔۔ تب اس نے بس یہ ہی کہا تھا جب تک میں ان کے خون کا بدلہ نہیں لے لوں گا اس درندے کو مار نہیں دوں گا ایک آنسو بھی بھانا مجھ پر حرام ہے۔۔ اور وہ  23 سال سے اس درد کو تکلیف کو اپنے اندر چھپائے پھرتا تھا ۔۔ مگر آج وہ رو پڑا تھا آج اس کے تمام وعدے پورے ہوئے تھے۔۔۔ اس  نے اس حیوان کو مار دیا تھا۔۔۔ آج تئیس سالوں کا غم باہر نکل رہا تھا وہ آج انتیس سال کا نہیں چھ سال کا حدید لگ رہا تھا۔۔۔۔

زیک جو دور کھڑا اس کو دیکھ رہا تھا اس سے چھپ کر اس کے پیچھے آیا تھا۔۔ اب اس کے پاس آ کر قبر پر بیٹھ گیا تھا۔۔۔ اس نے حدید کو اس کے کندھے سے پکڑ کر سیدھا کیا تھا۔۔ حدید اس کے گلے لگ کر روںے لگا تھا ۔۔ زیک نے اس کو چپ نہیں کروایا تھا وہ چاہتا تھا وہ آج جی بھر کر رو لے تئیس سال کا غم تھا اس کو باہر نکال دے ۔۔۔

کافی وقت وہ دونوں قبرستان میں ہی رہے ۔  جبکہ زیک حدید کے نارمل ہونے کا ویٹ کر رہا تھا ۔۔۔ جب اس کو لگا کہ وہ اب نارمل ہو چکا ہے تو اٹھا اور حدید کو اپنے ساتھ اٹھایا اور قبرستان سے باہر لے آیا تھا۔۔ راستہ کافی خاموشی سے گزر رہا تھا۔۔۔۔۔۔

•••••••••••••••••••

شہزاد بہت جلدی میں اپنا سامان پیک کر رہا تھا ۔۔ جبکہ للی صوفے پر بیٹھی تھی ۔۔ کل رات سے اب تک ان کی کوئی خاص بات۔ نہیں ہوئی تھے۔۔۔

I want to go now.....

شہزاد نے سامان پیک کرتے ساتھ کہا تھا۔۔

Ok you can....

للی نے اس کو باغور دیکھ کر جواب دیا تھا۔۔ اس کی نظریں خالی تھی۔۔ اس شخص نے ایک بار بھی اس سے اس کی طعبت تک کا نہ پوچھا تھا۔۔۔ ساری رات باہر رہا تھا ۔۔۔ صج کے قریب واپس آیا تھا اور اس سے شراب کی بدبو آ رہی تھی ۔۔ جیسے ساری رات شراب پتا رہا ہو ۔۔

Hmmmm..... Whats wrong with you...

آخر وہ چیر کر بولا تھا۔۔

Nothing I’m  fine ...

للی نے نظریں موڑ لی تھی اس سے۔۔۔

You miss your new boyfriend...

شہزاد تنزانیہ بولا تھا۔۔۔۔

 I said I don’t  know who was he,, whats wrong with you...

للی چیخ اٹھی تھی اس پر۔۔

Ok ok .. relax I’m  sorry ...

شہزاد نے خود کو کافی نارمل رکھنے کی کوشش کی تھے۔ جبکہ للی نے آگے سے کوئی جواب نہ دیا تھا۔۔۔

There is a very important work in Pakistan, so I have to go back. I will meet you very soon۔۔۔ sweetheart.

شہزاد کافی مدہم لہجہ میں بولا تھا جبکہ ۔۔ اپنی انگلیا اس نشان پر رکھی تھی جو کل رات اس کے ہاتھ نے لکی کے منہ پر چھوڑے تھے۔۔۔۔ وہ اس کے ہونٹوں پر جھکا خود کو سیراب کرنے لگا تھا۔۔۔

وہ اپنا بیگ لے کر روم سے باہر نکلا تھا جبکہ للی مسلسل چکر انے کی وجہ سے ہوٹل ہو روک گئی تھی ۔۔

••••••••••••••••••

Have a save journey Amell...

وہ اپنا سامان پیک کر کے ابھی بیڈ پر بیٹھا ہی تھا کہ اس کے نمبر پر مسیج نوٹیفکیشن آیا تھا ریڈ کرتے ساتھ وہ مسکرایا تھا۔۔

You also bro...

اس نے میسج ٹائپ کر کے سینڈ کیا تھا۔۔۔۔

••••••••••••••

جاری ہے۔۔۔۔۔

 

 

اب کون جانتا تھا کہ زیک اور امیل کدھر جا رہے ہیں ۔۔ ان کا اگلا نشانہ کون ہے۔۔ ان کی اب منزل کیا ہے ۔۔۔ یہ کرنے کیا والے ہیں ۔۔۔ حدید (امیل)  سلیم آفندی کے پراپرٹی پیپرز کا کس طرح استعمال کرنے والا ہے۔ کیا للی اور شہزاد کا ریلیشن زیادہ عرصہ چل پائے گا ۔ زیک اور حدید اب کیس سر زمین پر قدم رکھنے والے ہیں ۔

 یہ دونوں اب کیس کی نیند حرام کرنے والے ہیں ۔۔ اور دشتِ الفت کی اگلی قسط میں کیا ہونے والا ہے۔۔۔۔  

 

Follow my account for all new updates about dasth-e-ulfat...

Don’t  copy without permission... Must share your review with us.. also share this novel with your friends .... Thank you <3

Comments