Dasht E Ulfat Novel By Shazain Zainab Episode no 6


 










بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

 ناول

 

دشتِ الفت

 

شازین زینب

 

 

 

 

 

Ep # 06

 

 

 

 

اللّٰہ جانے یہ لڑکا کر کیا رہا ہے مجال ہے جو اس کو تھوڑا خیال بھی ہے کہ اس کا نکاح  سر پر ہے اور یہ ہاتھ نہیں  لگ رہا گھر نظر یہ نہیں آتا ۔۔  بیٹے پر نظر نہیں رکھی جاتی آپ سے ۔۔ روحا بیگم غصہ سے کامران صاحب سے بولی تھی۔۔

کیا ہو گیا ہے روحا کیوں اتنا غصہ کر رہی ہو بچہ کام میں مصروف ہے۔۔ کامران صاحب نے روحا بیگم کو ریلیکس کرنے کی کوشش کی۔۔۔

بچے کو بولیں کام سے ہی نکاح کر لے گھر آیا تو ٹانگیں توڑ کر ہاتھ میں دوں گی اس کے۔۔ روحا بیگم پھر سے بھرکی تھی ۔۔۔

روحا کیوں اپنا بی پی ہائی کروانے لگی ہوئی ہیں ۔۔ کامران صاحب نے پیار سے ان کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا تھا۔۔۔

آپ نے اور آپ کی اولاد نے ہمیشہ میرا بی پی ہائی ہی کیا ہے۔۔ روحا بیگم نے غصہ سے گھورا تھا کامران صاحب کو۔۔ جبکہ وہ منہ نیچے کر کے اپنی ہنسی روکنے کی کوشش کر رہے تھے کیونکہ اس ٹائم ہسنا یعنی کہ کمرے سے بے داخل ہونا تھا۔۔۔

دوراب جو ماں سے ملنے ان کے کمرے میں آ رہا تھا باہر آتی آوازیں سن کر روک گیا۔۔۔ ایک ٹھنڈی آہ بھر کر اس نے دروازہ نوک کیا اور کھولا تھا کیونکہ اس کو پتا تھا اب ماں سے کلاس تو پکا لگنی ہے۔۔

اسلام وعلیکم ۔۔۔۔ اس نے دروازہ کھولتے ساتھ سلام کیا ساتھ ہی باپ کو آنکھ سے اشارہ کیا ۔۔ جبکہ کہ کامران صاحب نے ایسے دیکھا جیسے کہہ رہے ہوں ابھی بھی نہ آتے جدہر دفع تھے ادھر ہی رہتے.

 

وعلیکم السلام ۔۔۔ روحا بیگم نے جواب دے کر منہ پھیر لیا تھا۔۔

دوراب چلتا اپنی ماں کے پاس آیا اور ان کے قریب بیڈ کے پاس بیٹھ گیا۔۔۔

روحا بیگم ناراض ہیں آپ مجھ سے۔۔ اپنی ماں کو گلے لگا کر بولا تھا ۔۔ جبکہ اس کے اس طرح بولنے پر کامران صاحب کا دل کیا تھا اس کو اٹھا کر کمرے سے باہر پھینکیں ۔۔

دور رہوں مجھ سے بات نہیں کرو۔۔ اور نور کی بجائے اپنے کام سے شادی رچا لو جس ماں کے پاس ہر وقت رہتے ہو گھر کی تو ہوش ہی نہیں ۔۔ نہ ماں کی پرواہ ۔۔ روحا بیگم نے اس کو خود سے دور کیا تھا۔۔۔

اچھا جیسا آپ کا حکم میری پیاری سی بٹرفلائی۔۔ دوراب نے روحا بیگم کے ہاتھ کو اپنی آنکھوں سے لگایا اور پھر چوما تھا ۔

دوراب ۔۔۔۔  روحا بیگم نے اس کے کان پکڑ لیے تھے۔۔ جبکہ اب کی بار کامران صاحب کو سکون ملا تھا۔ دوراب جان کر باپ کے سامنے ماں کو ان الفاظ سے بولتا تھا صرف باپ کو جلانے کے لیے ۔۔۔

اچھا اچھا کان تو چھوڑ دو روحا بیگم ۔۔۔ دوراب پھر سے شروع ہو گیا تھا۔۔ جبکہ اب جوتی کامران صاحب کے ہاتھ میں تھی۔۔

روحا بیگم نے اپنی بیٹے کو گلے لگایا تھا آخر تھی تو ماں ہی ناراض ہو سکتی تھی مگر زیادہ دیر نہیں ۔۔

اور دوراب کو اب شرارات سوجھ رہی تھی تبھی ماں کو گود میں سر رکھ کر لیٹ گیا اور باپ کی طرف دیکھ کر آنکھ ونک کی تھی۔۔

روحا بیگم ذرہ سر دبا دو ۔ دوراب نے معصومیت کے ریکارڈ توڑے تھے۔۔۔

اگر تم ابھی کہ ابھی دفع نہ ہوئے تو تمہارا حال بیگار دوں گا۔۔ کامران صاحب کی ہمت جواب دے گئی تھے۔۔۔

کیا ہو گیا ہے ماں ہیں وہ میری۔۔۔ دوراب بےچارگی سے بولا تھا۔۔

تو ماں کہہ کر بولا نہ یہ روحا بیگم اور بٹرفلائی کہنے کا مقصد ؟؟؟ کامران صاحب نے اس کو گھوری کروائی تھی ۔۔۔

میں تو جان بھی کہتا ہوں آپ بھول گئے۔۔ دوراب نے ڈھیٹ ہونے کا پورا پورا ثبوت دیا تھا۔۔

کامران صاحب اپنی جگہ سے اٹھے تھے اور دوراب نے بھی ماں کی گود سے سر اٹھایا ماتھے پر بوسا دیا اور باہر کی طرف دوڈ لگا دی ۔۔۔

کام میں ہی مصروف رہا کر ۔۔۔ ذلیل آدمی ۔۔ کامران صاحب غصہ میں بولے تھے۔۔ جبکہ روحا بیگم باپ بیٹے کی ان حرکتوں کی عادی ہو گئی ہوئی تھی تبھی مسکرا کر رہے گئی۔۔

جبکہ دوراب اپنے روم میں آنے کے بعد فون نکال کر کامران صاحب کو مسیج کرنے لگا۔۔

میری بٹرفلائی کا خیال رکھیے گا۔۔ ساتھ منہ چھپتا اور شرمانے والا ایموجی تھا۔۔

کامران صاحب نے جیسے مسیج پڑھا ان کا دل کیا اس کو گھر سے باہے پھینک آئیں ۔۔۔ مگر دانت پس  کر انہوں نے رپلئے کیا۔۔

چپ کر کے سو جا اس سے پہلے میری جوتی تجھ پر ٹوٹے نافرمان اولاد ۔۔۔ ساتھ غصہ والے ایموجی تھے۔۔

دوراب باپ کا مسیج دیکھ کر ہنس پڑا ۔۔۔۔ اور فون سائیڈ پر رکھ دیا ۔۔ کیونکہ آج کے لیے اتنا بہت تھا اگر مزید تنگ کرتا تو اس کے باپ نے واقع ہی اس پر آج جوتی توڑ دینی تھی۔۔

••••••••••••••

وہ اپنے کمرے میں اپنے بستر پر لیٹا ہوا تھا اس نے میرون کلر کی ٹی-شرٹ اور وئٹ ٹراؤزر پہن رکھا تھا۔۔ بال تھوڑے خشک تھوڑے گیلے تھے جو ماتھے پر بکھرے ہوئے تھے۔۔ جیسے تھوڑی دیر پہلے شاور لے کر نکلا ہو۔۔ نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔۔ خیالوں پر کیسی دشمن جاں کا تصور سوار تھا۔۔۔ دل نے اچانک دیدارِ یار کی خواہش کی تھی ۔۔ اس نے لمحہ میں دل کی صدا پر لبیک بولا اور اپنے بستر سے اٹھ بیٹھا ۔۔۔۔

وہ اپنے کمرے سے نکالا اور سیڑھیاں اترتا ٹی-وی لاؤنج سے گزار کر کچن میں گیا اور ادھر سے بیک گارڈن کی  طرف آیا ۔۔۔ سر اٹھا کر اوپر کمرے کی بالکنی کی طرف دیکھا پردے ہوا میں ناچ رہے تھے دروازہ کھولا تھا اور کمرے کی لائٹ اوف تھی۔۔ اس نے اس لمحے کو غنیمت جانا۔۔

وہ پاس لگے پائیپ کی مدد سے اوپر چڑنے لگا اور بالکنی کے پاس پہنچ کر ایک پاؤں بالکنی پر رکھا پھر آیک ہاتھ سے بالکنی پر لگی ریلنگ کو پکڑا اور ایک لمحے میں وہ نور کے کمرے کی بالکنی پر تھا۔۔

ہوف۔۔۔ دوراب نے خود کو نارمل رکھتے ہوئے آگے کی طرف قدم بڑھائے ۔۔۔

کمرے میں ہر طرف اندھیرا تھا۔۔ وہ دبے پاؤں خود کو کیسی چیز سے ٹکرانے سے بچاتا بیڈ کی ایک طرف گیا۔۔۔۔

بیڈ پر لیٹا وجود سر تا پیر کمبل میں لیپٹا ہوا تھا۔۔۔۔

نور اٹھو۔۔ دوراب نے ہاتھ بڑھا کر اس کو تھوڑا سا ہلایا تھا۔۔

نور اٹھ بھی جاؤ یار۔۔ کوئی جنش نہ پا کر دوراب نے دوبارہ ہلایا تھا۔۔

جبکہ کمبل میں لیٹی آمنہ کی آنکھ کھول گئی تھی ۔۔۔

نور پلیز اٹھ  جاؤ میری جان۔۔ میری پیاری سی بےبی گرل ۔۔۔ دوراب بہت پیار سے بولا تھا۔۔

جبکہ کمبل میں لپٹی آمنہ نے اپنے منہ پر ہاتھ رکھ کر اپنی ہنسی کنڑول کی ۔۔ اور صوفے پر سوتی جزا کی بھی آنکھ کھول گئی تھی۔۔

نور بےبی اٹھ بھی جاؤ کیا کھا کہ سوئی ہو۔۔ دوراب اجیز آ جاتا ہے ۔۔

تب ہی باتھ روم کا دروازہ کھول کر نور باہر آتی ہے۔ اور روم کی لائٹ آون کرتی ہے اور جیسے ہی سامنے دیکھتی ہے تو دوراب کو کھڑا پاتی ہے۔۔۔

دوراب آپ اس ٹائم ادھر ۔۔۔ نور کو حیرات کا جھٹکا لگا تھا اور وہ فوراً باتھ روم میں بھاگی تھی کیونکہ اس کا دوراب  سے پردہ کروا رکھا تھا ظالموں نے۔۔۔ جبکہ دوراب نور سے زیادہ حیران ہوتا ہے۔۔

تم اُدھر ہو تو اِدھر کون ہے؟؟ دوراب جتنا حیران ہوتا کم تھا۔۔

جب آمنہ کی ہنسی کمبل میں سے سنائی دی اور صوفے پر لیٹی جزا نے بھی کمبل سے منہ باہر نکالا تھا۔۔۔

میری پیاری سے بےبی گرل۔۔۔ یہ کہتے نور کمبل میں سے نکل کر سیدھی کو کر بیٹھی تھی

نور بےبی۔۔۔ اب کے جزا سیدھی ہو کر بیٹھی تھی۔۔۔ جبکہ باتھ روم میں کھڑی  نور ان کی آواز اور الفاظوں سے شرم سے دھوڑی ہو رہی۔۔

تم دونوں نور کے کمرے میں کیا کر رہی ہو۔۔ دوراب نے اپنی ہچکچاہٹ کو چھپانے کے لیے آمنہ اور جزا کو گھورا۔۔

بھائی جان پہلے تو آپ بتائیں آپ اس ٹائم ادھر کون سی سیر کرنے آئے تھے۔۔۔ آمنہ سینے پر بازوؤں باندھ کر اپنے بھائی کو جانچتی نظروں سے دیکھنے لگی۔۔

یا اب آپ یہ بولیں گے کہ آپ اپنے کمرے کا راستہ بھول گئے تھے ۔۔ جزا نے اپنی ہنسی دبائی تھی۔۔

ویسے دروازہ کھولنے کی آواز نہیں آئی آپ کدھر سے آ ٹپکے؟؟ آمنہ نے آنکھیں چھوٹی کر کے اپنے بھائی کو دیکھا۔۔

تم دونوں کو رات کے پونے دو بجے میری انوسٹیگیشن کرنا کیوں یاد آ گیا ہے۔۔ دوراب بس ان مصیبتوں سے جان چھڑانے کی کوشش کر رہا تھا جن کو جانے انجانے میں چھڑ بیٹھا تھا ۔۔ اس کی تو قسمت ہی پھوٹی تھی جو رات کے اس ٹائم نور کے کمرے میں آ گیا تھا۔۔

ہمیں کوئی شوق نے رات کے پونے دو بجے انوسٹیگیشن کا۔۔ موقع آپ نے خود دیا ہے۔۔ آمنہ نے اپنے بھائی کو گھوری کروائی تھی۔۔

شکر ادا کریں سویرا آج رات ادھر نہیں روکی ورنہ کتنا برا ایمپریشن پڑھتا اس پر ۔۔۔ جزا صوفے سے اٹھ کر بیڈ پر بیٹھی تھی۔۔ جبکہ نور اندر دوراب کے لیے دعائیں مانگ رہی تھے کے وہ بیچارہ جلدی سے نکل جانے باہر ۔۔۔

ویسے دوراب بھائی آپ تو بہت بے صبرے نکلے ہیں ۔۔ آمنہ نے نفی میں سر ہلایا ۔۔

تم دونوں کو مسسلہ کیا ہے یار ۔۔ دوراب تنگ اکر بول ہی پڑا۔۔

مسلہ ہمیں نہیں آپ کو ہے بھائی جان ۔۔ آمنہ اور جزا ایک ساتھ بولی۔۔۔

کیا مطلب ۔۔ دوراب نے دونوں کو گھورا تھا۔۔

اس ٹائم یہاں پر آپ کون سی سیر کرنے آئے تھے۔۔ آمنہ نے بھی گھوری کروائی تھی ۔۔

میں کوئی سیر کرنے نہیں آیا تھا۔۔ دوراب تپ کر بولا تھا۔۔ اس کو تو نور پر غصہ آ رہا تھا کیا تھا جو ایک منٹ باہر روک جاتی فوراً تو ایسے بھاگی تھی جیسے جن دیکھ لیا ہو۔۔

آمنہ وہ سیر کرنے نہیں اپنی بےبی گرل سے ملنے آئے تھے۔۔جزا نے آمنہ کو کہنی ماری تھی ۔۔۔

او ہاں بلکل۔۔ تو مل لیا آپ نے اپنی بےبی گرل سے ؟؟ آمنہ نے اپنی ہنسی چھپاتے ہوئے کہا۔۔

مہربانی کرو پانچ منٹ دے دو بس۔۔ اور یہ گئی دوراب بے چارے کی نییا پانی میں ۔۔ کیونکہ دشمنوں سے مدد مانگ بیٹھا تھا۔۔۔

جی جی ابھی لیں پانچ منٹ ۔۔ وہ دونوں بیڈ سے نیچے اتری تھی۔۔ دوراب کو بازوؤں سے پکڑا اور کمرے کا دروازہ کھول کر باہر نکال دیا۔۔۔

ادھر پانچ منٹ پورے کر کے جا سکتے ہیں آپ سونے۔۔۔ گڈ نائٹ۔۔ وہ دونوں یہ بول کر دروازہ بند کر چکی تھی ۔۔ جبکہ دوراب آمنہ اور جزا کی حرکت پر حیران کا حیران رہ گیا تھا۔۔۔

 چھوڑوں گا نہیں میں تم دونوں چڑیلوں کو۔۔ دوراب دانت پستا اپنے کمرے کی طرف گیا تھا۔۔۔

جبکہ اندر آمنہ اور جزا نے باتھ روم کا دروازہ نوک کیا اور بولی۔۔

بےبی گرل آپ باہر آ سکتی ہو۔۔۔۔۔ ان دونوں نے اپنا قہقہہ روکا تھا اگر آدھی رات کا وقت نہ ہوتا تو اس ٹائم وہ دونوں پاگلوں کی طرح ہنس رہی ہوتی۔۔

نور باہر نکلی تو اس کا چہرہ ٹماٹر کی طرح سرخ تھا۔۔۔

Omg

شرمیں تو چیک کرو لڑکی کی۔۔ جزا نے نور کو کندھا مارا تھا۔۔

تم دونوں جا کر سو جاؤ مجھے تنگ مت کرو۔۔ نور فوراً بستر میں جا کر لیٹ گئی تھی اور خود کو سر تا پیر کمبل میں چھپا لیا۔

جبکہ اس کے فون پر دوراب کا مسیج آیا ہوا تھا۔۔

تمہیں سے تو میں نکاح کے بعد بہت اچھے سے وصولی لوں گا آج کی رات کی۔۔

اور نور مزید جھجھک گئی تھی۔۔ وہ کمبل میں لیٹی ہوئی تھی اور نیند اب اس کو بھی نہیں آنی تھی۔۔

•••••••••••••

شہزاد  پاکستان آتے ساتھ اپنے باپ کے پاس گیا تھا۔۔۔

اکرم صاحب جو سٹڈیز میں بیٹھے کیسی فائل کو دیکھنے میں مصروف تھے شہزاد کو اندر آتا دیکھ روک گئے ۔۔۔

شہزاد نے اندر آتے ساتھ دروازہ بند کیا۔۔۔ اور اپنے باپ کی طرف موڑا تھا۔۔۔ سٹڈیز ساؤنڈ پروف تھا۔

شہزاد کیا بات ہے ابھی آئے ہو پاکستان ۔۔۔ کس بات کی جلدی ہے تمہیں کیا ہو گیا ہے۔۔۔ اکرم صاحب نے  بیٹے کو  باغور دیکھا تھا جس  کے  چہرے کے رنگ اڑے ہوئے تھے۔۔۔۔

میں آپ کو کب سے کالز ملانے کی کوششیں کر رہا ہوں آپ کدھر غائب تھے ۔۔ فون کدھر تھا آپ کا۔ آپ کو پتا بھی ہے زیک کیا کرنے والا ہے۔۔۔ شہزاد چیخ کر بولا تھا ۔۔

کیا ہوا ہے کوئی قیامت آ گئی ہے؟؟؟ اکرم صاحب بے زاری سے بولے تھے۔۔۔

آپ اپنے بھائی کا فون نمبر ڈائل کریں گئے ؟؟ شہزاد نے اکرم صاحب کو دیکھتے بولا تھا۔۔

کیوں سب خیریت ؟ اکرم صاحب اب کی بار سنجیدہ ہوئے تھے ۔۔

آپ ایک بار کال تو کریں ۔۔۔ شہزاد پھر سے بولا تھا۔۔

اکرم صاحب نے سائیڈ پر پڑا اپنا فون اٹھایا اور اپنے بھائی کو کال کی تھی ۔۔ مسلسل بل جا رہی تھی مگر فون کوئی نہیں اٹھا رہا تھا۔۔۔

ایک بار دو بار تین بار لاتعداد بار کوشش کرنے پر بھی فون نہیں اٹھایا گیا تھا۔۔۔ اکرم صاحب اب کی بار پریشان ہوئے تھے۔۔ جبکہ وہ یہ جانتے ہی نہیں تھے کہ سلیم کا باب بند ہو چکا ہے اور اس کا فون لیپ ٹاپ، پراپرٹی پیپر سب کچھ اس وقت کیسی اور کے پاس ہے۔۔۔ جو اس وقت سلیم کے فون پر آتی اکرم کی کالز دیکھ کر بہت پرسکون ہو رہا تھا۔۔

کیا ہوا ڈیڈ ؟؟ نہیں اٹھا رہے فون۔۔ شہزاد نے تنزایا نظروں سے باپ کو دیکھا تھا۔۔

سلیم کدھر ہے شہزاد تم جانتے ہو؟؟ اکرم صاحب نے شہزاد کو پریشان نظروں سے دیکھا تھا۔۔

وہ زیک کے پاس ہے اس کے قابو میں ۔۔ شہزاد پاس پڑھے صوفے پر بیٹھ گیا تھا۔۔

کیا بکواس کر رہے ہو ذلیل انسان ۔۔۔ وہ زیک کے پاس کیسے ہو سکتے ہیں وہ تو۔۔۔ اکرم صاحب  کو سمجھ نہیں آ رہی تھی وہ کیا بولیں ۔۔

وہ امریکہ جانے والے تھے مگر زیک کے آدمیوں نے ان کو اٹھا لیا اور دبئی زیک کے پاس لے گئے ہیں ۔۔۔ شہزاد نے ان کو ساری بات بتائی ۔۔۔

بکواس بند کرو اپنی سمجھ آئی ہے وہ زیک ان تک کیسے پہنچ سکتا۔۔ زیک کو تو پتا بھی نہیں تھا کہ وہ امریکہ جانے والے ہیں ۔۔۔ اکرم صاحب ہزیاتی انداز میں بولے تھے ان کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا زیک ان تک کیسے پہنچ گیا تھا۔۔۔

شہزاد نے اپنے کوٹ کی جیب سے ایک لفافہ نکال کر اکرم صاحب کے سامنے رکھا۔۔

جیسے ہی اکرم صاحب نے وہ لفافا کھولا تو اپنی نشست پر گر سے گئے تھے ۔

وہ ہماری ایک ایک حرکت پر نظر رکھ کر بیٹھا ہے اس کے لیے کیا مشکل تھا تایا جان کو اٹھا لینا ۔۔۔۔ شہزاد صوفے پر دوبارہ بیٹھتا اپنے سر میں ہاتھ پھیر رہا تھا۔۔۔

یہ سب بکواس ہے بالکل بکواس ہے میں نہیں مانتا اس سب کو ۔۔ تم صرف بکواس بق رہے ہو ۔۔ اکرم صاحب نے وہ لفافا دور پھینکا تھا۔۔

وہ ہماری گردانیں پکڑنے کو آیا ہے اور آپ کو بکواس لگ رہا ہے۔۔ شہزاد چیخ اٹھا تھا۔۔

میں تمہیں بول رہا ہوں اپنی بکواس بند کر لو اور اپنی شکل گم کرو ادھر سے منہوس انسان ۔۔ اکرم صاحب نے اس کا گریبان پکڑ لیا تھا۔۔

جب ان کی لاش مل جائے گئی ںہ آپ کو تب یقین آئے گا کیونکہ زیک بخشنے والوں میں سے نہیں ہے۔۔ وہ اپنا گریبان چھیرواتا باہر نکالا تھا جب اس کی نظر کچن سے نکلتی اپنی ماں پر گئی تھی۔۔۔ وہ سیڑھیاں اترتا نیچے آیا تھا ۔۔

کیسی ہیں آپ ۔۔۔ اس ںے ان کو مخاطب کیا تھا۔

تمہیں بتانا ضروری نہیں سمجھتی میں ۔۔ خدیجہ بیگم نے اس کی طرف ایک نگاہ بھی نہ اٹھائی تھی۔۔

بیٹا ہوں میں آپ کا آپ کو میری کوئی پرواہ ہے کہ نہیں ؟؟ آپ سے جزا کے رشتے کی بات کی تھی آپ نے اس سے انکار کر دیا ۔۔ میں اتنے دن گھر نہیں آیا ایک دن بھی آپ نے مجھ سے رابطہ کرنے کی کوشش کی؟؟ شہزاد اونچی آواز میں بولا تھا۔۔

تم میرے بیٹے نہیں ہو تم اس درندے کے بیٹے ہو جس کے نقشے قدم پر تم آج چل رہے ہو۔۔ میں نے تمہاری تربیت ایسی نہیں کی تھی شہزاد اکرم ۔۔ تم وہ ہو ہی نہیں جس کو میں نے پالا تھا تم بلکل اس درندے پر گئے ہو۔۔ اور میں اپنے بھائی کی بیٹی کبھی بھی تم جیسے گھٹیا انسان کے لیے نہیں مانگوں گئی سمجھ آئی ۔۔ اور تم جدھر بھی تھے اتنے دن سے نہ مجھے بتا کر گئے نہ میرا پوچھنا بنتا ہے کیونکہ جس طرح کی تمہاری حرکتیں اور فطرت ہے زور کہیں راتوں کو رنگین کر رہے ہو گے یا کچھ حرام کر رہے ہو گئے ۔۔۔ خدیجہ بیگم انتہائی نفرت سے بولی تھی۔۔ ان کو رہ رہ کر اکرم پر غصہ آتا تھا جس نے ان کی ایک لوتی اولاد کو بھی اپنے ساتھ اس جہنم میں کھینچ لیا تھا۔۔

کیا کر رہا ہوں میں ۔۔ ہاں ہوں اپنے باپ جیسا کیا کر لیں گئی آپ ۔۔ بولیں نہ۔۔ شہزاد نے خدیجہ بیگم کا روخ اپنی طرف موڑا تھا ۔۔

یہ تمہیں وقت بتائے گا تم نے کس دلدل میں خود کو پھسایا ہے۔۔ خدیجہ بیگم یہ کہتے ساتھ ایک طرف سے نکل گئی تھی ۔ جبکہ شہزاد ادھر ہی کھڑا رہا تھا پھر اپنے کمرے کی طرف بھر گیا ۔۔۔۔

••••••••••••••

اگلا دن آفندی ہاؤس پر کیسی قیامت سے کم نہ تھا۔۔

کچھ ملازم اس محل نما گھر کے باہر صفائی کر رہے تھے جب اچانک ایک کی نظر دور پڑے ایک سیاہ بیگ پر گئی۔۔ اس نے قریب جا کر اس بیگ کی زیپ کھولی تھی۔۔ اور اندر پڑھے وجود کو اور اس کی حالت کو دیکھ کر چیخیں مارتا دور ہوا تھا اور اندر کی طرف دوڑ لگا دی جبکہ کے باقی کے تین ملازم بھی ڈر کر دور ہو کر کھڑے ہو گئے ۔۔۔۔

صبح کے نو بج رہے تھے اکرم صاحب اپنے کمرے سے ابھی نکلے تھے جب ایک ملازم ڈرا سہما اندر کی طرف آیا اور اکرم صاحب کو دیکھ کر ادھر ہی روک گیا۔۔۔ اکرم صاحب کو اس کی حالت سے کچھ غلط ہونے کا احساس ہوا۔۔۔۔

کیا ہوا ہے کوئی بھوت دیکھ لیا ہے ۔۔۔ اکرم صاحب کی آواز پورے منشن میں گونجی تھی۔۔

و۔۔۔وہ۔۔۔ صا۔۔۔صاحب۔۔ب۔۔باہ۔۔باہر۔۔۔ا۔۔ای۔۔ایک۔۔۔۔ ب۔۔بی۔۔بیگ ۔۔می۔۔میں۔۔سل۔۔سلی۔۔۔۔سلیم۔ص۔۔صاحب ۔۔۔کی ۔۔لا۔۔لاش۔۔ پڑ۔۔۔پڑی ہے۔۔۔۔ ڈر کے مارے اس سے الفاظ بہت مشکل سے ادا ہوئے تھے ۔۔

جبکہ اس کے الفاظ نے اکرم صاحب پر پہاڑ توڑ دیا تھا۔۔۔ وہ فوراً شہزاد کے کمرے کی طرف بھاگے تھے تبھی شہزاد کمرے میں سے۔ ہاہر نکالا تھا۔۔ باپ کا سفید پڑتا چہرہ دیکھ وہ پریشان ہوا تھا۔۔۔

کیا ہوا ہے ڈیڈ آپ ٹھیک ہیں ۔۔۔ شہزاد نے آگے بڑھ کر باپ کو بازوؤں سے پکڑا ۔

وہ لاش۔۔ سل۔۔سلیم کی۔۔۔۔ اکرم صاحب  کے منہ سے الفاظ بے ترتیب نکلے تھے۔۔۔۔

شہزاد فوراً نیچے کی طرف بھاگا تھا ۔۔۔

کدھر ہے لاش۔۔۔ اس نے ملازم سے پوچھا اور اس کے ساتھ باہر نکالا تھا۔۔ جبکہ اکرم صاحب مرے مرے قدم اٹھا کر سیڑھیاں اتر رہے تھے۔۔۔

شہزاد باہر گیا تو ایک سیاہ بیگ میں سلیم صاحب کی لاش خون سے لت پت پڑھی ملی تھی۔۔ جگہ جگہ گولیوں کے نشان تھے۔۔ لاش سے اس وقت بدبو اٹھ رہی تھی ۔۔ وہ لاش کو اٹھا کر اندر لے گیا۔۔

اکرم صاحب بڑے سے ٹی-وی لاؤنج میں بیٹھے تھے سامنے ان کے سلیم صاحب کی لاش پڑی تھی۔۔ ان کی آنکھیں سرخ ہو گئی ہوئی تھی۔ شہزاد کی آنکھیں غصہ کی وجہ سے سرخ ہو رہی تھی اس کا بس نہیں چل رہا تھا زیک کی جان نکال دے۔۔

خدیجہ بیگم اپنے کمرے سے نکلی تھی اور سامنے کا منظر دیکھ کر ان کا دل کانپ گیا تھا ۔۔ وہ ڈرتے ہوئے قدم اٹھاتی ٹی-وی لاؤنج کی طرف بڑھ رہی تھی۔۔

یہ شخص بلکل اچھا نہیں ہے بہت گھٹیا انسان ہے یہ۔۔ ایک آواز ان کے کان میں پڑی تھی ۔۔۔

میری زندگی کی سب سے بڑی غلطی اس انسان سے محبت تھی ۔۔ وہ آواز دوبارہ گونجی تھی۔۔۔

میں نے کیا کچھ نہیں کیا خدیجہ اس آدمی کے لیے اپنی ساری دولت دی اس کو اس کو بیٹا دیا اور دیکھو اس نے کیا کیا ۔۔۔ بے وفائی کی اس نے روز رات پرائی عورتوں کے ساتھ گزارتا ہے۔۔۔ ہر ایک قدم کے ساتھ میراب کی آواز ان کے کانوں میں گونج رہی تھی ۔۔۔۔

خدیجہ کیا میں اتنی بےمول ہوں کیا میری کوئی عزت نہیں اس شخص نے آج اپنے مفاد کے لیے میرا سودا کر دیا۔۔ میراب کی روتی آواز ایک بار پھر سے کانوں میں گونجی تھی ۔۔

میں اس انسان کو کبھی معاف نہیں کروں گی۔۔ خدا اس کو عبرتناک موت دے اس کی موت دیکھ کر لوگوں کی روح تک کانپ اٹھے ۔۔۔ اس پر اللہ کا عذاب نازل ہو۔۔ اس نے مجھے برباد کر دیا ہے ۔۔۔ میں اس کو مر کے بھی معاف نہیں کروں گئی ۔۔ یہ بے رحم موت مرے گا ۔۔ یہ میرا مجرم ہے میں اپنا مقدمہ اللہ کو دیتی ہوں میرا اللہ اس سے جواب لے گا۔۔ میراب کی آخری کال پر بولے گئے الفاظ خدیجہ بیگم کے کان میں گونجے تھے۔۔ اس کے  بعد کبھی دوبارہ میراب کا فون نہیں آیا پھر ایک دن اس کو اکرم سے سلیم کی دوسری شادی اور میراب کی اور اس کے بیٹے کی موت کا پتا چلا تھا۔ وہ دن خدیجہ کے لیے قیامت تھا جس سے وہ اپنا غم بانٹتی تھی جو ان سے اپنا غم بانٹتی تھی وہ چلی گئ تھی۔ اور آج اکرم کے لیے قیامت تھی۔۔۔ اور ان کی آنکھوں سے ایک آنسو ٹوٹ کر گیرا تھا ۔۔

دیکھو میراب تمہارا مقدمہ کیا خوب لڑا ہے ۔۔ دیکھو کیسا عبرتناک انجام ہوا ہے اس کا جس نے تمہیں تکلیف دی تھی ۔۔ دیکھو کتنی اذیت کی موت مرا ہے وہ آج ۔۔۔ خدیجہ خود سے ہی مخاطب تھی۔۔۔

ہم انسان کیسی کی زندگی تباہ کرنے سے پہلے کیسی معصوم پر بے رحمی کرنے سے پہلے ایک بار بھی نہیں سوچتے اگر اس نے اپنا مقدمہ اس کے ہاتھ میں دے دیا جس کے ہاتھ میں ہماری جان ہے تو کیا ہو گا۔۔ اگر وہ اسکے سامنے ایک بار ہمارے دیے درد کی وجہ سے رو پڑا جو اپنے بندے کے ایک انسو پر  جہنم کی آگ کو ٹھنڈا کر دیتا ہے وہ اس معصوم کے گیرنے والے ان آنسوں کا حساب تم سے کیسے لے گا جن کی وجہ تم ہو گے۔۔ تم آج وقت کے حکیم بن کر کیسی معصوم کو بے وجہ مار دو گے تو کیا وہ حکیم ازل تا ابد تمہیں یوں ہی چھوڑ دے گا۔۔ اللہ کو اس کے معصوم، مظلوم ، کمزور اور بےبس لوگ بہت پیارے ہوتے ہیں ان پر ہوئے ہر ظلم کو حساب وہ خدا ظالموں سے اس دنیا میں  بھی لیتا ہے اور محشر میں بھی لے گا۔۔ وقت کے فرعون ظلم کر کے بھول جاتے ہیں ایک ذات ایسی بھی ہے جو الْمَلِك، الحَفِيظ ، الحَسِيب،الوَكِيل، المُنْتَقِم ، المُقْسِط، مَالِكُ ٱلْمُلْك، الأَوَّل، الآخِر،  القَوِيُ،  الحَسِيب، الخَبِير، العَدَل، القَھًار،  وہ ذات ایسی ہے جس کی  ایک ایک صفت کو بیان کرنا انسان کے بس سے باہر ہے جب وہ ذات اپنے جلال میں آتی ہے تو ظالم کی رسی کیھنچ لیتا ہے تب صرف اس کی ذات ہوتی ہے تب وہ مظلوم کا کمزور کا بےبسوں کا معصوم کا وکیل ہوتا ہے تب عدل بھی اس کا ہوتا ہے انصاف بھی اس کا ہوتا ہے عدالت بھی اس کی ہوتی ہے اور حساب کرنے والی ذات بھی وہ ہی ہوتی ہے تب صرف اللّٰہ ہوتا ہے جو ازل سے ابد تک ہے جو اول ہے جو آخر ہے جس کے ایک کن کی محتاج ہر شے ہے۔۔  

ایسے ہی آج ایک اور فرعون اپنے انجام کو پہنچا تھا۔۔ انصاف خدا کی عدالت میں ہوا تھا۔۔ سزا تہ کر دی گئی تھی اور جو سزا تہ پائی تھی اس نے ہر ایک کی روح کو کانپنے پر مجبور کر دیا تھا۔۔۔۔

سب عزیز اور دوستوں اور رشتے داروں اور بزنس پارٹنر وغیرہ کو سلیم آفندی کی موت کا بتا دیا گیا تھا۔۔ کچھ ہی دیر میں گھر لوگوں سے بھرا پڑا تھا ۔ لاش کی حالت دیکھ کر کیسی میں بھی ہمت نہیں ہو رہی تھی کہ اس کے پاس جا کر اس کو آخری غسل ہی دے دیں ۔۔۔ سلیم آفندی کی لاش کی حالت اس قدیر بدتر تھی لوگوں کو قریب جانے پر خوف آ رہا تھا۔۔ آخر کچھ لوگوں کو بلوایا گیا اور رقم ادا کر کے غسل کا بولا گیا۔۔ لیکن اس کی حالت دیکھ کر انہوں نے بھی نہ بولا کہ وہ کفن میں باندھ دیں گے غسل دینا نہ ممکن ہے کیونکہ جسم میں اس قدر گولیاں ماری گئی ہے وہ سب کی سب ابھی تک جسم میں ہے اور یہ نکالنا بھی بہت مشکل ہے ۔۔۔ کیسا انجام تھا سلیم آفندی کا کوئی غسل تک دینے کو راضی نہیں تھا۔۔ آخر میت کو کفن میں باندھ دیا گیا تھا ۔۔۔

اکرم آفندی کے تمام دوست ، سلیم آفندی کو جانے والے سب لوگ ، اکرم آفندی اور سلیم آفندی کے بزنس پارٹنر ، انڈر ولڈ میں  جو لوگ ان کو جانتے تھے  وہ سب اور بہت سے مشہور بزنس مین اور بیلڈیز اس وقت ان کے گھر میں موجود تھے۔۔ اکرم صاحب کو چپ لگی ہوئی تھی شہزاد سب سے تازیت وصول کر رہا تھا۔۔

اسلام وعلیکم مامو ۔۔۔ سامنے سے شاہد صاحب کو آتا دیکھ شہزاد ان کے پاس گیا۔۔

وعلیکم اسلام ۔۔۔ شاہد صاحب نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔۔

بہت افسوس ہوا تمہارے تایا کی موت کا سن کر بابا کدھر ہیں تمہارے۔۔ انہوں نے تازیت کرنے کے ساتھ ہی اکرم صاحب کا پوچھا۔۔

وہ اندر ہیں ۔۔ شہزاد نے شاہد صاحب کو جواب دیا جبکہ نظر اندر آتے زوریز ، دوراب، آیان پر اور ان کے پیچھے آتے ابراہیم صاحب ، احسن صاحب ، کامران صاحب اور افضل صاحب پر تھی۔۔ اس جو یقین نہیں تھا کہ یہ سب ادھر آ سکتے ہیں ۔۔ زوریز کے ساتھ تو اس نے حال میں ہی ایک پروجیکٹ سائن کیا تھا جبکہ باقی سب سے وہ جب بھی ملا تھا تو۔ بزنس نائٹ پر ہی ملتا تھا وہ بھی اس کے باپ اور تایا کی بدولت اور شاہد صاحب کی دوستی ہونے کی وجہ سے۔۔۔ جبکہ آیان اور دوراب سے وہ زوریز کے آفس میں ایک بار مل چکا تھا۔۔

کیسے ہو زوریز بہت افسوس ہوا تمہارے تایا کی ڈیتھ کا سن کر ۔۔ زوریز نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔۔

کیا کہا جا سکتا ہے بس اللہ کی مرضی۔۔ شہزاد نے ٹھنڈی آہ بھری تھی۔۔

ویسے سنا ہے تمہارے تایا کو مارا گیا ہے کوئی دشمن تھا ان کا؟؟ اب کی بار دوراب بولا تھا ۔۔

اچھے لوگوں کا کون دشمن نہیں ہوتا دوراب۔۔ شہزاد نے زخمی مسکراہٹ چہرے پر سجائی ۔۔

استغفر اللہ۔۔ پیچھے کھڑے ابراہیم صاحب مدہم آواز میں بولے تھے ۔۔۔

خیر آپ لوگ اندر چلیں کچھ ہی دیر میں جنازے کا وقت ہے۔۔ شہزاد نے ان سب کو اندر جانے کے لیے راستہ دیا تھا۔۔۔

وہ سب اندر داخل ہوئے تو میت کی حالت دیکھ کر ان کو افسوس ہوا تھا۔۔۔ وہ سب اکرم صاحب کے پاس تازیت کر رہے تھے جبکہ ابراہیم کی نظر کیسی کو ڈھونڈ رہی تھی۔۔اور وہ شخص کونے میں اپنی بہن کر پاس کھڑا تھا۔۔

مجھے افسوس ہوا ہے تمہارے جیٹھ کی موت کا ۔۔ شاہد صاحب نے خدیجہ کو مخاطب کیا۔۔

مجھے اس شخص کی موت کا کوئی افسوس نہیں شاہد بس افسوس اس کے انجام کا ہوا ہے ۔۔ خدیجہ بیگم نے سرد آہ بھری تھی۔۔۔

ہمممم جب ظالم کی رسی کیھنچ لی جائے تو اس کا انجام دردناک ہی ہوتا ہے۔۔ شاہد صاحب نے میت کی طرف دیکھ کر بولا تھا۔۔

شاہد تمہیں کیسے۔۔۔۔ خدیجہ بیگم نے کچھ بولنا چاہا ۔۔

آپا سلیم آفندی کے کرتوتوں سے کون واقف نہیں تھا۔۔۔ انہوں نے اپنی بڑی بہن کی طرف دیکھا تھا۔۔۔

اللّٰہ اس کی روح کو سکون دے بہت سی معصوموں کی بددعائیں لی ہیں اس نے ۔۔ خدیجہ بیگم افسوس سے بولی تھی۔۔

میں نے بہن بھائی کو تنگ تو نہیں کیا۔۔ ابراہیم صاحب کی آواز پر شاہد صاحب نے موڑ کر دیکھا تھا۔۔

نہیں نہیں آپ دونوں دوست آرام سے سلام دعا کر لیں میں ذرہ دوسرے کام دیکھ لوں ۔۔ یہ کہہ کر خدیجہ ادھر سے چلی گئی تھی ۔۔

کیسے ہو الفا ابراہیم صاحب پاس کھڑے ہو کر بولے تھے ۔

تمہارے سامنے ہوں خان۔۔ شاہد صاحب نے ابراہیم صاحب کو دیکھا تھا ۔۔

تمہیں کیا لگتا ہے اس کا یہ حال کس نے کیا ہے؟؟ ابراہیم صاحب نے شاہد صاحب کی طرف دیکھا ۔

مجھے ایسے نہ دیکھو یہ میرے ہاتھ نہیں لگا۔۔ شاہد صاحب نے ابراہیم صاحب کو گھوری کروائی تھی۔

پھر کس کا ہاتھ ہے اس میں ۔۔۔ ابراہیم صاحب کچھ سوچتے ہوئے بولے تھے ۔

یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ کون ہے اس کے پیچھے۔۔ مجھے تو ڈان کا  ہاتھ لگ رہا ہے باقی کچھ کہا نہیں جا سکتا۔۔۔۔۔ شاہد صاحب نے سلیم کی میت کو دیکھتے بولا۔۔

اور تمہیں ڈان کا ہاتھ کیوں لگتا ہے الفا ۔ ابراہیم صاحب حیران ہوئے تھے۔۔

کیونکہ آج کل ڈان ایکشن میں آیا ہوا ہے۔۔ لاسٹ اس نے پارٹی نائٹ بھی ارینج کروائی تھی ۔۔ اب تم یہ نہ کہانا تمہیں پتا نہیں ہے۔۔ شاہد صاحب نے ابراہیم صاحب کی گرے آنکھوں میں دیکھ کر بولا تھا ۔۔

کچھ کہا نہیں جا سکتا ۔۔ ابراہیم صاحب نے اب کی بار موڑ کر میت کو دیکھا تھا۔۔

کچھ ہی دیر میں جنازے کا وقت ہو گیا تھا۔۔ سلیم کی نماز جنازہ ادا کر دی گئی تھی اور اس کو قبر میں اتار دیا گیا ۔۔ وہ سب وہاں سے سیدھا اپنے کام پر آئے تھے۔۔۔

اکرم صاحب گھر واپس آ کر سٹڈیز میں گئے تھے۔۔ مہمان تقریباً سب ہی جا چکے تھے۔۔

شہزاد بھی سٹڈیز میں آیا تھا۔۔ ڈیڈ کیا سوچ رہے ہیں آپ ؟؟ اس نے آتے ساتھ سوال کیا تھا۔۔

میں سوچ رہا ہوں سلیم کے پراپرٹی پیپرز کدھر ہیں ۔۔۔ اب وہ نہیں ہے تو اس کی ساری دولت سب کچھ ہماری ہی ہو گئی نہ۔۔ اکرم صاحب مکرو مسکراہٹ سے بولے تھے۔۔

اس کے لیے ہمیں ان کے آفس وغیرہ میں یہ کمرے میں چیک کرنا ہو گا۔۔۔ شہزاد نے اپنی رائے دی تھی ۔۔

اور ایک اور بات ان کی دوسری بیوی ابھی زندہ ہے اگر اس نے پراپرٹی کا مطالبہ کیا تو۔۔ شہزاد نے  اکرم صاحب کی طرف دیکھا۔۔

جب وہ ہو گئی ہی نہیں تو مطالبہ کیسے کرے گئی۔۔اور ویسے بھی وہ کافی سالوں سے طلاق کا مطالبہ کر رہی ہے اس کو تو شاید یہ بھی پتا نہیں ہوگا کہ سلیم مر گیا ہے۔۔ اکرم صاحب نے شاتر نظروں سے شہزاد کو دیکھا تھا ۔

سہی ۔۔ شہزاد کے منہ پر مکرو مسکراہٹ کے ساتھ باپ کی طرف دیکھا تھا ۔

یہ تھی انسان حقیقت ۔۔ سلیم کو ابھی قبر میں اترے چند گھنٹے ہوئے تھے اور اس کے بھائی کو اس کی دولت کی اپنے نام کروانے کی پڑھ گئی تھی۔۔ دولت کی ہوس تو انسان کی پڑی میت پر ہوتی ہے۔۔ اگر میت کے کفن میں جیب ہوتی تو اس میت کے عزیز ہی اس جیب کو کھالی کرنے میں منٹ نہ لگاتے ۔۔ انسان تو میت کو زمین میں بعد میں

اتارتا ہے پہلے اس کی دولت پر نظر رکھ لیتا ہے اس وقت سب رشتے اور واسطے یاد آ جاتے ہیں ۔۔۔

ایسی طرح اب اکرم کی نظر بھی سلیم آفندی کی دولت پر تھی۔۔ یہ دوکت کی ہوس بھی بہت بری بلا ہے رشتہ کا احساس بھی مار دیتی ہے۔۔۔

••••••••••••••••••••

پلین لاہور ائر پورٹ پر لینڈ کر گئی تھی۔۔۔ سب مسافر پلین میں سے اتر رہے تھے۔۔ آج پچیس سالوں بعد اس نے اس سر زمین پر دوبارہ قدم رکھا تھا ۔۔ اس کو یاد تھا وہ تب چار سال کا تھا  جب وہ لوگ ادھر سے جانے لگے تھے وہ بہت رویا تھا اس کو پاکستان میں ہی رہنا تھا اس کو اس کے دوستوں کے ساتھ رہنا تھا مگر وہ لوگ نہیں روکے وہ لوگ دبئی کے لیے چلے گئے تھے ۔۔ تب وہ اپنے ماں باپ کے ساتھ گیا تھا آج وہ تنہا اس سر زمین پر لوٹا تھا ۔۔ اپنی ماں کا بدلہ لے کر وہ ملک واپس آیا تھا۔۔ سیاہ پینٹ شرٹ پہنے سیاہ کوٹ بازوں پر رکھے مغرور چال چلتا آگے بڑھ  رہا تھا ہر کوئی اس کو موڑ موڑ جر دیکھ رہا تھا۔۔ اس نے اپنی سنہری آنکھوں پر سے سیاہ سن گلاسسز اتری تھی۔۔۔ وہ ہر ایک کو خود کو موڑ کر دیکھنے پر مجبور جر رہا تھا وہ واقعی ہی بہت خوبصورت تھا۔۔۔

وہ ائر پورٹ سے باہر نکالا تھا سامنے کی اس کی گاڑی کھڑی تھی ۔۔ سیاہ رنگ کی مرسیڈیز بینز اے کلاس کھڑی تھی۔۔۔ سامنے ہی ایک آدمی کھڑا تھا۔۔ جس نے اس کس دیکھتے ساتھ گاڑی کا دروازہ کھولا تھا ۔ حدید کار کی بیک سیٹ پر بیٹھ گیا تھا جبکہ وہ آدمی ڈرائیور کر ساتھ فرنٹ سیٹ پر بیٹھا تھا۔۔۔

سر ویلکم ٹو پاکستان ۔۔۔ اس آدمی نے سہی چاپلوسی کرنے والے انداز میں کہا۔۔

ہمممم ۔۔ حدید اس سے زیادہ کچھ نہ بولا تھا ۔۔

سر آپ اتنا لیٹ آئے ہیں کچھ دیر پہلے ہی آپ کے ڈیڈ کی تدفین ہوئی تھی۔۔۔ وہ آدمی اپنی ہی دھن میں بول رہا تھا۔۔ جبکہ حدید کا سلیم کے ذکر پر شدید غصہ آیا تھا مگر برداشت کر گیا۔۔

تم سلیم آفندی کے پرسنل سیکرٹری ہو نہ؟؟ حدید نے اس سے سوال کیا تھا۔۔

جی سر بلکل ۔۔۔ اس آدمی نے سر بلند کر کے فخر سے بولا تھا۔۔

تمہاری اتنی بکواس سنے کی عادت ان کو ہو گئ مجھے نہیں تو جب ضرورت ہو تب ہی بولنا یا تب بولنا جب میں کچھ پوچھوں ورنہ ضرورت نہیں بولنے کی۔۔ حدید  کا سرد لہجہ اس کو چپ کروا گیا تھا۔۔

نام کیا بتایا تھا تم نے اپنا۔۔۔ حدید کی روبدار آواز کار میں گونجی تھی۔۔

خاور۔۔۔ اس آدمی نے مدہم آواز میں جواب دیا تھا۔۔

ہممم خاور۔۔۔۔ ایک کام کرو سلیم آفندی کی دوسری بیوی کے گھر لے کر چلو۔۔۔ حدید نے کچھ سوچتے ہوئے اس کو حکم دیا تھا۔۔۔

•••••••••••••••

گاڑی اس وقت لاہور  ڈی-ایچ-اے میں داخل ہوئی تھی اور کچھ مسافت تہ کرنے کے بعد ایک سفید رنگ کے وسیع بنگلے کے سامنے روکی تھی۔۔ خاور باہر نکلا تھا ۔۔ خاور کو دیکھ کر  چوکیدار نے دروازہ کھول دیا تھا۔۔ اب ایک لمبے سے ڈرائیوے سے گزارتے گاڑی گھر کے  مین ڈور کے سامنے روکی تھی۔۔ اور خاور فوراً باہر نکلا تھا اور حدید کے لیے دروازہ کھولا تھا۔۔

حدید کار سے باہر نکلا اپنے کوٹ کا ایک بیٹن کھولا اور آگے کی طرف قدم بڑھائے تھے۔۔۔

خاور نے آگے جا کر فوراً گھر کا دروازہ کھولا تھا۔۔ حدید نے گھر میں قدم رکھا تھا اور ایک نظر اس گھر کو دیکھا تھا۔۔ ساری عمارت ویسی ہی تھی بس وقت کے ساتھ کچھ کچھ تبدیلیاں کی گئی تھی۔۔۔۔

سلیم آفندی تم نے میرے نانا کا گھر بھی نہیں چھوڑا ۔ حدید زخمی مسکراہٹ سجائے بولا تھا۔۔

کون آیا ہے باہر۔۔۔ ایک ملازمہ باہر آئی تھی  خاور کو سامنے دیکھ کر خاموش ہو گئی اور جب نظر پیچھے کھڑے حدید پر گئی  تو اس کو حیرت کا جھٹکا لگا تھا۔۔

کون آیا ہے باہر نرگیس۔۔۔ ایک مدہم سی آواز ڈانیگ روم میں سے آئی تھی۔۔ ایک پچاس سال کی عورت ڈرائنگ روم سے باہر آئی تھے ۔ سر پر سفید رنگ کا دوپٹہ  تھا ،، سفید رنگ کا جوڑا پہن رکھا تھا ۔۔ بال  گرے رنگ کے ہو گئے تھے۔۔ سیاہ گہری آنکھوں پر اب عمر کی وجہ سے عینک لگ گئی ہوئی تھی ۔۔ وہ عمر کے اس حصہ میں بھی خوبصورت لگ رہی تھی۔۔۔ ڈاینگ روم سے باہر آئی تو پہلی نظر خاور پر گئی تھی اور جب دوسری نظر سامنے کھڑے حدید پر گئی تو وہ اپنی آنکھوں کو پلٹنا بھول ہی گئی تھی ۔۔۔

سنہری آنکھیں ، مغرور ناک، وجیہہ چہرہ خوبصورت نقوش ۔۔ برائون بالوں کو اور بیئرڈ کو نفاست سے سیٹ کیے ہوئے تھے۔۔ وہ سلیم آفندی کی جوانی کا عکس تھا۔۔ مزمل بیگم بس اس کو دیکھتی رہ گئی تھی۔۔ وہ ایک ایک قدم اٹھاتی آگے کی طرف آ رہی تھی ۔

حدید ۔۔۔۔ میراب کا حدید۔۔۔۔ مزمل بیگم مدہم آواز میں بولی تھی مگر پھر بھی ان کی آواز حدید کے کان میں پر گئی تھی۔۔

جی میں حدید ہی ہو ۔۔ میراب کا حدید۔۔۔ اور آپ کا حادی۔۔۔ حدید مدہم سا مسکرایا تھا۔۔۔

سلیم نے تو بولا تھا اس نے تمہیں ۔۔ مزمل بیگم سے اگےکے الفاظ بولے نہیں گئے تھے۔۔

ان کی کوشش تو پوری تھی۔۔ مگر وہ ناکام ہو گئے تھے ۔ آپ نہیں جانتی مجھے سانس روکنا آتا ہے۔۔ حدید نے ایک قدم آگے کی طرف بڑھیا تھا۔۔

وہ آگے بڑھی تھی اور حدید کے چوڑے سینے سے لیپٹ کر رونے لگی تھی۔۔۔

تم کہاں تھے اتنے وقت سے حادی۔۔ ان کی آواز میں شکوہ تھا۔۔۔

تم کیوں تھے اتنا دور ایک بار بھی نہیں آئے مجھ سے ملنے۔۔ ایک بار بھی نہیں جانا چاہا اس درندے نے میرے ساتھ کیا کیا۔۔۔۔ وہ مسلسل رو رہی تھی۔۔ حدید نے ان کو خود میں چھپا لیا۔۔

بس چپ کر جائیں اب میں آ گیا ہوں نہ۔۔۔ حدید نے ان کو چپ کروانے کی کوشش کی اب کیسے بتاتا وہ ان کے ہر دکھ سے ہر حال سے واقف تھا وہ دور ہو کر بھی دور نہ تھا۔۔۔

وہ بہت ظالم ہے  حدید تم جاؤ یہاں سے وہ تمہیں کچھ کر دے گا۔۔۔ مزمل بیگم ڈر کر بولی تھی۔۔۔

آپ بے فکر رہیں وہ اب اس دنیا میں نہیں ہے۔۔ وہ مجھے کچھ نہیں کہہ سکتا۔۔ حدید نے بہت سکون سے بولا تھا۔۔ مزمل بیگم جتنی حیران ہوتی کم تھا۔۔

سلیم۔۔۔۔ مزمل بیگم نے کچھ بولنا چاہا۔۔

ہاں وہ مر گئے ہیں ۔۔۔ حدید کا سکون قابلِ دید تھا۔۔

کس نے کیا یہ نیک کام ۔۔ مزمل بیگم کے چہرے پر خوشی کے تاثرات تھے۔۔۔

بس تھا کوئی۔۔۔۔ حدید نے بات ٹالی تھی اور ان کو اپنے ساتھ لے کر صوفے پر آ کر بیٹھ گیا تھا۔۔۔

تم کتنے بڑے ہو گئے ہو۔۔۔ مزمل نے اس کے چہرے کو اپنے ہاتھوں میں لیا تھا ان کی انکھیں نم تھی۔۔

وقت سے پہلے بڑا ہوا تھا میں ۔۔ حدید کے لفظوں میں ایک درد چھپا تھا۔۔ ایک ازیت تھی۔۔ ایک غم تھا۔۔۔

مزمل نے اس کو اپنے گلے لگا لیا تھا۔۔۔ وہ اس کے لفظوں میں چھپا درد سمجھ گئی تھی۔۔ ان کو اس کے وجود سے آج بھی اپنی دوست کی خوشبو آتی تھی۔۔۔

میں سلیم کو اس کے کیسی گناہ کے لیے معاف نہیں کروں گئی ۔۔ مجھے بس لگا تھا کہ اس نے میرے شوہر کو کار آکسیڈنٹ میں مروایا ہے مگر میں غلط تھی وقت کے ساتھ ساتھ ایک ایک راز مجھ پر کھولتا گیا تھا۔۔ اس نے میرا بچہ مارا تھا اس نے میراب کو مارا تھا ۔۔ اس نے تمہارے نانا کو مارا تھا۔۔ اس نے نہ جانے کتنی لڑکیوں کی زندگی خراب کی ۔۔ میں اس سے کب سے طلاق مانگ رہی تھی وہ نہیں دے رہا تھا۔۔ اس نے ہر ظلم کیا تھا۔ وہ بہت برا تھا۔۔ مزمل بیگم کی انکھو سے آنسو بہہ رہے تھے۔۔۔

حدید نے ان کو اپنے ساتھ لگا لیا۔۔

تم ادھر بیٹھو میں تمہارے لیے کھانا لگواتی ہوں۔۔ یہ کہہ کر مزمل اٹھی تھی اور کچن میں گئی تھی۔۔

اور نہ جانے آج وہ کتنے سالوں بعد کچن میں گئی تھی اور خوشی سے کچھ بنانے لگی تھی۔۔ آج جیسے ان کی ممتا کی پیاس بھوجی تھی۔۔ وہ ساری زندگی اولاد کے دکھ میں رہی تھی آج ان کے پاس وہ آیا تھا جس کے پیدا ہونے پر وہ سب سے زیادہ خوش تھی۔۔ جس کو وہ ہر وقت اپنی گود میں رکھتی تھی ۔ دیر سے ہی سہی ان کی خالی گود بھر دی گئی تھی۔۔۔

•••••••••••••••

میں ہر دراز ہر جگہ ان کے کمرے کی دیکھ دی ہے کہیں بھی نہیں ہیں پراپرٹی پیپرز ۔۔ شہزاد سر پکڑ کر بیٹھا تھا۔۔۔

ان کے آفس میں چیک کرنا پڑے گا۔۔۔ شہزاد نے کچھ سوچتے ہوئے کہا ۔۔

جو بھی ہے جلدی سے وہ پیپرز ڈھونڈوں شہزاد ۔۔۔ اکرم صاحب بے سکونی میں بولے تھے ۔۔۔

ویل میں اب بریک فاسٹ کر کے آفس کے لیے نکلنے لگا ہوں آج زوریز ابراہیم کے ساتھ میٹنگ ہے۔ شہزاد یہ کہہ کر اپنے باپ کے کمرے میں سے نکلا تھا اور اس کے پیچھے ہی اکرم صاحب  نکلے تھے۔۔۔

ابھی وہ دونوں آ کر ٹیبل پر بیٹھے تھے کہ خدیجہ بیگم اپنی پلیٹ لے کر ڈائنگ روم سے باہر جانے لگی تھی ۔۔ ایک عرصہ ہو گیا تھا خدیجہ بیگم نے ان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانا چھوڑ دیا تھا۔۔

ابھی وہ اٹھ کر جانے لگی تھی  کہ اچانک باہر پروچ میں گاڑی کے روکنے کی آواز آئی تھی۔

شہزاد اور اکرم صاحب نے ایک دوسرے کو دیکھا تھا اور خدیجہ بیگم نے موڑ کر دروازے کی طرف دیکھا تھا۔۔۔

جب کیسی کے بھاری قدموں کی آواز آئی تھی۔۔ وہ میرون شرٹ اور بیج پنٹ پہنے شاہانا چال چلتا اندر داخل ہوا تھا۔۔ سنہری آنکھوں میں آج کچھ الگ ہی چمک تھی۔۔  بالوں کو ہمشہ کی طرح نفاست سے سیٹ کیے ۔۔ ہاتھ میں بیش قیمتی گھڑی پہنے۔۔ وہ کیسی ریاست کا شہزادہ ہی لگ رہا تھا جو آج اپنی فاتح کی منزل کے پاس تھا۔۔

اس کو دیکھ کر اکرم صاحب کو اپنا سانس روکتا محسوس ہوا تھا ۔۔ جبکہ شہزاد حیران تھا۔۔

نہیں ایسا نہیں ہو سکتا ۔۔۔ اکرم صاحب خود سے بولے تھے۔۔

جبکہ خدیجہ بیگم حیران تھی۔۔۔ کہ وہ واقع ہی ہے یہ ان کی نظروں کا دھوکا ہے۔۔

یہ تو بالکل تایا جان کی طرح دیکھتا ہے ۔ شہزاد حیران سا بولا تھا۔۔۔

کیا ہوا ۔۔ میرا آنا اچھا نہیں لگا۔۔۔ یہ امید نہیں تھی کہ میں کبھی ایسے سامنے آ جاؤ گا۔۔ حدید نے اکرم صاحب اور شہزاد کی طرف دیکھ کر بولا۔۔

حدید ۔۔۔  خدیجہ بیگم حیرت سے بولی تھی ۔

جی۔۔ وہ مدہم سا مسکرا کر خدیجہ بیگم کی طرف دیکھتا ہے۔۔

تم۔۔تم تو مر۔گئے تھے نہ۔۔ اکرم صاحب بامشکل بول پائے ۔۔

ویل ویل ویل مجھے مارنے کی آپ کے بھائی نے بہت بےکار کوشش کی تھی۔۔ حدید بے حد سکون سے صوفے کی سربراہی نشست پر جا کر بیٹھ گیا تھا۔۔

اےےے اٹھو ادھر سے یہ جگہ گھر کے سربراہ کی ہے ۔۔ شہزاد آگے بڑھا تھا ۔۔

تو گھر کا سربراہ ہی بیٹھا ہے۔۔ اس کا اطمینان قابلِ دید تھا۔۔

کیا بکواس ہے پتا نہیں کدھر سے اٹھ کر آ گئے ہو۔۔ تمہارے پاس کیا ثبوت ہے کہ تم سلیم آفندی کے بیٹے ہو؟؟ اکرم صاحب غصہ میں بولے تھے ان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ حدید کو جان سے مار دیں۔۔

آپ جو ابھی بھی ثبوت چاہئے ؟؟؟ جبکہ میری شکل آنکھیں سب کچھ سلیم آفندی کی طرح ہیں۔۔۔۔۔ حدید نے تنزایا نظروں سے اکرم صاحب کو دیکھا تھا ۔۔

میں نہیں مانتا ۔۔۔ اکرم صاحب غصہ میں چلائے تھے ۔۔

مجھے دیکھ کر تو کوئی اندھا بھی بول دے کہ میں سلیم آفندی کا بیٹا  ہوں۔۔ حدید نے ناک سے مکھی اڑائی تھی۔۔۔

تمہارے پاس کوئی ڈی-این-اے پروف ہے؟؟ اکرم صاحب غصہ سے پاگل ہو رہے تھے۔۔

یہ دیکھ لو آنکھیں کھول کر دیکھو۔۔۔ اگر ابھی بھی یقین نہ ائی تو ایک بار اپنا ڈی-این-اے کروا لو کہ تم واقع ہی آفندی خاندان کی اولاد ہو کہ نہیں ۔۔ حدید نے اکرم صاحب کی طرف دیکھ کر ایک آنکھ ونک کی تھی ۔۔

تمہاری تو میں ۔۔ شہزاد کچھ بولتا اس سے پہلے حدید بول اٹھا ۔

تمہارے باپ نے تمہیں یہ نہیں سکھایا جب دو بڑے بات کر رہے ہوں تو بچوں کو اپنی زبان کو بند رکھنا چاہیے ۔۔۔ حدید  سرد لہجے میں بولا تھا۔۔ اس سارے معاملے کو خدیجہ بیگم خاموش کھڑی دیکھ رہی تھی۔۔ اور دل ہی دل میں خوش ہو رہی تھی۔۔۔۔

ہاں تو آ گیا یقین ۔۔۔۔ حدید نے اکرم صاحب کو سر تا پیر گھورا تھا۔۔ جبکہ اکرم صاحب کو صحیح معنوں میں چپ لگ گئی تھی ۔۔

اٹھو دفع ہو ہمارے گھر سے ۔۔ شہزاد نے آگے بڑھ کر حدید کو گریبان پکڑنا چاہا جب حدید کے جاندار قہقہے نے اس کے قدم ادھر ہی روک دیے۔۔۔

کس کا گھر؟؟ حدید نے اپنے قہقہہ کا گلا گھونٹتے ہوئے سوال کیا؟؟.

For your information, let me tell you that Mr. Shahzad Akram Afandi, I am the sole heir to all the property and wealth of Saleem Afandi.

حدید کی روبدار آواز پورے ٹی-وی لاؤنج میں گونجی تھے۔۔۔

اور اگر یقین نہیں ہو رہا تو یہ پیپرز دیکھ لو۔۔۔۔ حدید نے سیاہ رنگ کی فائیل شہزاد اور اکرم صاحب کے سامنے پھینکی تھے۔۔ جس کو اکرم صاحب نے فوراً اُٹھایا اور کھولا تھا۔۔ اور اس کو پڑھ کر اکرم صاحب صوفے پر گرنے کے انداز میں بیٹھے تھے۔۔ جس دولت اور جائیداد کو لینے کے چکروں میں وہ تھے ۔۔ اس پر  اس کا وارث آ کر بیٹھ گیا تھا ۔۔۔۔

چلو بریک فاسٹ کرو اور آفس کے لیے نکلو۔۔ تمہاری میٹنگ ہے نہ زوریز ابراہیم کے ساتھ ۔۔ مجھے کیسی قسم کی کوئی کوتاہی نہیں چاہیے کام میں ۔۔۔ ایک ایک پائی کا حساب لوں گا میں تم دونوں سے۔۔ یہ کہا کر حدید صوفے سے اٹھا تھا اور ڈائنگ روم کی طرف جانے لگا تھا۔۔۔ جب وہ خدیجہ بیگم کے پاس روکا تھا۔۔۔

کیا آپ مجھے ناشتا دے دیں گئی۔۔۔ اس نے خدیجہ بیگم کی طرف دیکھ کر آنکھ ونک کی تھی جس کو اکرم اور شہزاد نہیں دیکھ پائیں تھے۔۔

تم بیھٹو میں ناشتا لاتی ہوں تمہارے لیے ۔۔ خدیجہ بیگم نے اپنی مسکراہٹ کو روکتے ہوئے  سنجیدہ لہجے میں کہا تھا اور کچن کی طرف چلی گئی ۔۔

گئز بھوکے جانے کا موڈ ہے تو ایسے ہی تیار ہو کر نکل لو ۔۔ خبردار جو آفس میں لیٹ ہوئے۔۔ اور شاید آج میں بھی آفس آؤ ۔۔۔ آب بھوکے جانا ہے یہ ناشتا کرنا ہے وہ آپ دونوں پر ہے۔۔ حدید ان کے زخموں پر نمک چھڑکنا بھولا نہیں تھا۔۔۔

شہزاد  نے جو فائیل اکرم صاحب کے ہاتھ سے لی تھی وہ وہاں صوفے کے سامنے رکھی گلاس ٹیبل پر پھینکتا غصہ سے اپنے روم کی طرف گیا تھا۔۔ جبکہ اکرم صاحب ابھی تک سکتے کی حالت میں ہی تھے۔۔۔ ان کو سمجھ نہیں آ رہی تھی جہ سب ہوا کیسے۔۔

حدید ڈائنگ روم میں ناشتا کر رہا تھا جب اکرم صاحب بھی اٹھ کر اپنے کمرے میں جانے لگے تھے کہ پیچھے سے ملازم کچھ بیگز لیتا اندر آیا ۔۔

یہ کس کا سامنا ہے۔۔۔ اکرم صاحب نے غصہ سے پوچھا تھا۔۔۔

یہ میرا سامنا ہے میں ادھر ہی رہوں گا۔۔۔ ملازم کی بجائے جواب حدید نے دیا تھا۔۔

یہ تمہارے باپ کا گھر۔۔۔۔ اکرم صاحب ابھی کچھ بولتے کے حدید بولذ۔۔

یہ جیتی ساری پراپرٹی ہے سلیم آفندی کی تھی جو کہ اب میری ہو گئی۔۔۔ کتنے بیوقوف تھے آپ پراپرٹی خرید خرید کر سلیم آفندی کے نام کر رہے تھے۔۔ بندہ اپنے نام بھی کچھ کر لیتا۔۔ آپ کو شور تھا کہ وہ آپ کو آپ کا حق دے گا؟؟؟؟ حدید نے تنزایا مسکراہٹ سے پیچھے موڑ کر اکرم افندی سے سوال کیا تھا۔۔۔

تم دفع ہو جاؤ ادھر سے سمجھ آئی نہ ۔۔۔ اکرم آفندی چیلائے تھے۔۔۔

آواز کو نیچا رکھو اکرم آفندی ورنہ ایک لمحہ میں سڑک پر لے آؤ گا تمہیں ۔۔۔ تمہارے پاس تمہارا اپنا ہے ہی کیا۔ اور جس گھر کو اپنا بول رہے ہو وہ بھی تمہارا نہیں ہے میرا ہے۔۔ آفندئز کی ساری جائیداد اور دولت کا ایک لوتا وارث صرف حدید آفندی ہے۔۔۔ حدید کی گرجدار آواز نے اکرم صاحب کے منہ سے زبان چھین لی تھی۔۔

اکرم صاحب مرے ہوئے قدموں سے اپنے کمرے کی طرف گئے تھے۔۔۔۔

جبکہ شہزاد آفس کے لیے تیار ہو کر غصہ میں سیڑھیاں اترتا گھر سے باہر نکل گیا تھا۔۔۔۔

•••••••••••••••••••

وہ تیار کو کر اب اپنے شوز پہن رہا تھا ساتھ ہی کیسی کو کال کر رہا تھا ۔۔۔

دوسری طرف کال اٹھا لی گئی تھی۔۔۔

ہیلو ۔۔۔۔۔ دوراب کی نیند میں ڈوبی آواز فون پر گونجی تھی۔۔۔

تو ابھی تک سو رہا ہے۔۔ زوریز حیران ہوا تھا۔۔

ہاں یار ۔۔۔ دوسری طرف دوراب بولا۔۔

اگر تو پانچ منٹ میں اٹھ کر ریڈی نہ ہوا تو اپنا حال دیکھی تو۔۔۔ ذلیل انسان تو نے میرے ساتھ اکرم بیلڈیرز کی طرف جانا ہے میٹنگ کے لیے ۔۔۔ زوریز دانت پس کر بولا تھا۔۔ دوسری طرف دوراب کو اس کے دبے دبے غصہ والی آواز سے ہوش آ گیا تھا۔۔۔

میں اٹھ گیا ہوں۔۔ آیان کو بھی اٹھاتا ہوں تو نکل ہم دونوں پہچھے ہوں گے ۔۔۔ دوراب طوطے کی طرح بولا تھا۔۔

وہ کب کا اٹھا ہوا ہے جس کو تو نے اتھانا ہے۔۔۔ تو خود بس جلدی پہنچ۔۔ زوریز غصہ میں بولا تھا۔ اور ساتھ ہی کال بھی کاٹ دی تھی۔۔۔۔

پتا نہیں کون سی منہوس گھڑی تھی جب ان دونوں کو چھ سال کے لیے اپنا بزنس پارٹنر بنایا تھا ۔ زوریز فون کو گھورتا بولا تھا۔۔۔

اور اٹھ کر کمرے سے باہر نکلا تھا۔۔۔

گڈ مارننگ موم ، ڈیڈ۔۔۔ زوریز سیڑھیاں اترتا بولا تھا۔۔۔

گڈ مارننگ یونگ مین۔۔ ابراہیم صاحب نے اپنے بیٹے کو باغور دیکھا تھا ۔۔۔ وہ واقع ہی بہت خوبصورت تھا اس کی آنکھوں کو رنگ بس ماں پر گیا تھا باقی وہ ابراہیم صاحب کی کاپی لگتا تھا مگر وہ ان سے بھی زیادہ خوبصورت تھا۔۔۔

گڈ مارننگ میری جان ۔۔۔ عائشہ بیگم نے اپنے اس کو گلے لگایا تھا۔۔۔

ناشتا دے دیں یار جلدی سے ۔۔۔ زوریز اپنی چیر پر بیٹھتے ساتھ بولا۔۔

خیر ہے لگتا ہے آج بھوک بہت لگی یے مسٹر کو۔۔ ابراہیم صاحب نے زوریز کو گھورا۔۔

کل سے کام میں اتنا بیزی تھا کچھ کھانے کا موقع نہیں ملا اب بھوک لگی ہے۔۔ زوریز نے ناک سے مکھی اڑائی تھی۔۔

جب عائشہ بیگم نے اس کے سامنے ٹوس اور دو ہاف فرائی آنڈے رکھے تھے ۔۔۔

وہ اپنے ناشتے سے انصاف کرتا فون پر کچھ سکرول کر رہا تھا جب عائشہ بیگم بولی۔۔

میرے خیال سے اب تمہیں شادی کے بارے میں سوچنا چاہیے ۔۔ عائشہ بیگم نے سالئس پر مکھن لگا کر اس جے آگے کیا۔۔

موم ایک بار میں ذرہ کچھ فری ہو لو اپنے کاموں سے پھر اس بارے میں بھی سوچوں گا۔۔ زوریز نے ماں کو ٹالنا چاہا۔۔

دوراب بھی تو کر رہا ہے۔۔ عائشہ بیگم اس کے ان لاروں سے تنگ آگئی تھی۔۔

وہ صرف نکاح کر رہا ہے ۔۔ شادی وہ بھی کام سے کچھ فری ہو کر کرے گا۔۔ زوریز مدہم لہجے میں بولا۔۔

تو تم بھی کر لو ۔ عائشہ بیگم بھی اس کے ہی اندازہ میں بولی۔۔

لڑکی درخت پر لگی ملتی ہے ؟؟ اس نے ماں کو دیکھ کر آنکھ ماری تھی ۔۔

تم چاہتے ہو میں اپنی جوتی اتار لوں۔۔ عائشہ بیگم نے ایک اور سالئیس اس کے سامنے کیا۔۔۔

آپ جوتی نہ اتارے میں ویسے ہی جا رہا ہوں میٹنگ ہے اور کچھ دیر میں ۔۔ یہ کہا کر زوریز اپنی جگہ سے اٹھا تھا ابراہیم صاحب کے سامنے سے جوس کا گلاس اٹھا کر منہ سے لگایا ۔۔ اور سارا جوس پی کر گلاس واپس رکھا اور ان کے کان کے پاس جھکوا۔۔

خان صاحب ذرہ اپنی بیگم کو سمجھائیں کیوں مجھ معصوم کے پیچھے ہاتھ منہ دھو کر پر گئی ہیں۔۔ وہ ان کے کان کے پاس جھک کر بولا تھا۔۔ جبکہ عائشہ بیگم گھور کر ان باپ بیٹے کو دیکھ رہی تھی۔

پتا نہیں خود کو سمجھتے کیا ہیں یہ دونوں ۔۔ وہ غصہ سے اپنی جگہ سے اٹھی تھی اور زوریز مسکراتا پیچھے ہٹا تھا۔۔۔

چلیں آپ ان کو منائیں میں آفس جا رہا خدا حافظ ۔۔۔ زوریز مسکراتا باہر کی طرف بڑھا اور ابراہیم صاحب اس طوفان کو دیکھ رہے تھے جو اپنے گھر میں بھی طوفان لانے سے باز نہیں آتا تھا۔۔۔

اللّٰہ تمہیں تمہاری ٹکر کی لڑکی دے زوریز ۔۔۔ ابراہیم صاحب اس کو جاتا دیکھ غصہ میں بولے تھے۔ اب یہ کس کو پتا تھا اس کہ لیے کون سی لڑکی رکھی گئی تھی ۔۔

••••••••••••••••••

وہ تینوں اس وقت اکرم بیلڈیرز کے آفس میں میٹنگ روم میں بیٹھے ہوئے تھے۔۔۔ جبکہ شہزاد بڑی سی سکرین کے سامنے کھڑا تھا۔۔۔ زوریز شہزاد سے دوراب اور آیان کو پہلے ہی انٹروڈیوز کروا چکا تھا۔۔۔

ابھی وہ میٹنگ شروع کرتا کہ حدید بلیو تھری پیس میں میٹنگ روم میں داخل ہوا تھا۔۔ اس کو دیکھ کر شہزاد  کا چہرہ غصے سے سرخ ہو رہا تھا مگر وہ خود کو نارمل رکھنے کی ہر ممکن کوشش کر رہا تھا۔۔۔

کیا ہوا میٹنگ شروع کرو شہزاد ۔۔۔ حدید آگے آتے ہوئے ہیڈ چیر پر بیٹھا تھا۔۔۔ جبکہ شہزاد مٹھیاں بھینچ گیا تھا۔۔

کیا ہوا ایسے کیا دیکھ رہے ہو۔۔ حدید نے شہزاد کو تنزایا نظروں سے دیکھا۔۔

شہزاد نے خود کو نارمل کرتے ہوئے بولنا شروع کیا۔۔۔

پہلے میں اپ تینوں کا ان سے انٹرو کرواتا ہوں۔ یہ۔۔ شہزاد کی بات ابھی مکمل نہیں ہوئی تھی حدید بولا تھا۔۔

یہ تینوں مجھے جانتے ہیں اور میں ان تینوں کو جانتا ہوں ۔۔ افٹڑ آل ایک لمبے عرصے کی دوستی رہی ہے ان سب سے۔۔ حدید ان تینوں کو دیکھ کر مسکرایا تھا ۔۔ جبکہ زوریز نے اس کو دیکھ کر آنکھ ونک کی تھی۔ اور دوسری طرف شہزاد کو حیرت کا جھٹکا لگا تھا کہ حدید ان تینوں کو جانتا ہے۔۔

مسٹر شہزاد آپ میٹنگ شروع کریں ۔۔ اب کی بار دوراب بولا تھا۔۔

جی ضرور ۔۔ شہزاد نے یہ کہاتے ساتھ۔ ۔ لیپ ٹاپ کھولا جو آل ریڈی بیک سکرین سے کنیکٹ تھا ۔۔

شہزاد  پروجیکٹ کی موجود صورت حال بتا رہا تھا اور آگے اس پر کتنا وقت لگنا تھا ہر ایک چیز کو تفصیل سے ڈسکس کر رہا تھا ۔۔ زوریز ہر ایک پوائنٹ کو باغور دیکھ رہا تھا۔

مسٹر شہزاد جیسے کہ میں پہلے بھی کہا چکا ہوں میں کوالیٹی پر کیسی قسم کا سمجھوتا نہیں کروں گا۔۔ کیونکہ میں  کافی وقت سے ان رہا ہوں کہ آپ کے کنسٹرکشن پروڈاکٹ اچھی کوالیٹی میں نہیں ہے۔۔ زوریز نے شہزاد کو دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔

بے فکر رہوں زوریز کوالیٹی میں کوئی کمپرومائز نہیں ہو گا۔۔۔ شہزاد سے پہلے حدید بولا تھا۔۔

امید کرتا ہوں ۔۔ زوریز حدید  کی طرف دیکھ کر بولا تھا ۔۔ اور سب اٹھ کھڑے ہوئے تھے ۔۔

خیر مجھے کچھ ضروری کام ہے میں چلتا ہوں پھر ملاقات ہوتی ہے۔۔۔ شہزاد یہ کہہ کر ادھر سے نکلا تھا۔۔

آخر یہ خود جوس سمجھتا کیا ہے ۔۔۔ شہزاد باہر نکلتے ساتھ بولا تھا ۔۔ اس کو حدید ایک آنکھ نہ بھایا تھا۔۔

حدید آگے بڑھ اور زوریز سے بگل گیر ہوا  تھا۔۔۔

کیسے ہو یار ۔۔ زوریز اس سے الگ ہوتے بولا تھا۔۔

میں بلکل ٹھیک ہوں تم سب بتاؤ ۔۔ وہ اب آیان اور دوراب سے ملتے بولا تھا۔۔

ہم تو ٹھیک ہیں ۔۔ بس اس کو چھوڑ کر۔۔۔ آیان  نے دوراب کی طرف اشارہ کیا ۔

کیوں بھائی تیرے منہ پر بارہ کیوں بجے ہیں ۔ حدید نے دوراب کی طرف دیکھا۔۔ جبکہ زوریز اور آیان مسکراہٹ چھپا رہے تھے۔۔۔

لنچ پر چل سب بتا تا ہوں تجھے میں ۔۔ دوراب جل کر بولا تھا۔۔

•••••••••••••

وہ پانچوں آرکیڈین کیفے میں بیٹھے تھے۔۔ آیان نے رحیان کو بھی کال کر کے بولا لیا تھا۔۔۔

ہاں تو اب بتاؤ کیا مسئلہ ہے۔ حدید نے دوراب سے پوچھا تھا۔۔

یار مجھے لگتا ہے میں پہلا دولہا ہوں گا جس کی بہن بھی اس کی سالی کے ساتھ مل کر اس کی زندگی اجیرن کر رہی ہے۔۔ دوراب مسکین شکل بنا کر بولا تھا۔۔ جبکہ آمنہ کے ذکر پر آیان کی بیٹ مس ہوئی تھی۔۔۔ کیسی محبت تھی اس کی محبوب کے ذکر پر بھی دل قابو میں نہ رہتا تھا۔۔۔

اوو تو اب کیا کیا ہے انہوں نے تیرے ساتھ۔۔۔ حدید اپنی مسکراہٹ چھپائی تھی۔۔

دوراب نے ساری حرکتیں ان کو شرع سے آخر تک بتا دی ۔۔

یہ تو واقع ہی بہت غلط ہے اتنا ظالم بھی نہیں ہونا چاہیے ۔۔ چلو ایک بار شکل ہی دیکھا دے بندا ۔۔۔ یہ واقع ہی بہت ظلم ہو رہا ہے۔۔ حدید نے دوراب کی ہمیت کی تھی۔۔۔

ویسے تو آدھی رات کو نور کے کمرے میں لینے کیا گیا تھا ایسی بھی کون سی آگ لگی ہوئی تھی۔۔۔ زوریز نے اپنے قہقہے کا گلا گھونٹتے ہوئے کہا تھا۔۔ جبکہ اس کی بات پر حدید، آیان اور رحیان کا قہقہہ ضرور نکلا تھا ۔۔ اور دوراب اس کی شکل دیکھ رہا تھا ۔۔

اچھا یہ بتا اب ہم تیری کیا مدد کریں.... آیان نے دوراب کے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا۔۔

اب ہو گا بوائز وی-س گرلز دوراب نے کچھ سوچتے ہوئے بولا۔۔

اب وہ پانچوں سر کے ساتھ سر جوڑے کوئی پلین بنا رہے تھے۔۔ مگر ان کو یہ نہیں پتا تھا ان  بچاروں کے ساتھ ہونا کیا ہے۔  دوراب کی سالیاں اس کے ساتھ ساتھ اس کے دوستوں کا کیا حشر کرنے والی ہیں۔۔۔

••••••••••

 

جاری ہے

 

Don’t  copy without permission..... Must share with your friends and also share your reviews with us .. thank you<3


Comments