بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
ناول
دشتِ الفت
شازین زینب
Ep#7
شام ہو چکی تھی ۔۔زوریز، دوراب، حدید اور
رحیان اس وقت آیان کے کمرے میں بیٹھے تھے۔ اور آیان صاحب اپنا سامان پیک کرنے میں
بیزی تھے۔۔۔
یار یہ بیلو کلر کا سوٹ رکھ لوں کے نہیں
۔۔ آیان اپنے دھیان میں لگا ان سے پوچھ رہا تھا جبکہ وہ چاروں اس کو ایسے دیکھ رہے
تھے کہ ایک منٹ میں اس کی خال ادھیڑ دیں۔۔۔۔۔
کوئی جواب نہ پا کر جب آیان نے پیچھے دیکھا تو سب اس کو گھورنے لگے
ہوئے تھے۔۔۔
کیا ہوا تم سب مجھے ایسے کیوں گھور رہے
ہو۔۔۔ آیان نے بےانتہا معصومیت سے پوچھا تھا۔۔ زوریز، دوراب ، اور حدید اس کی اس
معصومیت پر آش اش اٹھے تھے جبکہ رحیان نے اپنے منہ پر ہاتھ پھیر کر اپنی ہنسی
کنڑول کی تھی ۔۔۔۔
سالے تو میرا نکاح اٹینڈ کرنے آ رہا ہے
یہ اپنی رقصتی دے رہا ہے۔۔۔ دوراب نے دانت
پس کر اس کے تین بیگز کی طرف اشارہ کیا تھا ۔۔۔
میرے اتنے برے دن نہیں آئے کے تمہیں اپنی
رقصتی دوں مسٹر مگرمچھ ۔۔۔۔۔ آیان جل کر بولا تھا۔۔۔
تیری تو میں ۔۔۔ تجھے کتنی بار کہا ہے
مجھے مگرمچھ نہ بولا کر کیسی دن تیرا باربی کیو بنا کر کھا جاؤ گا میں۔۔ دوراب اس
کا گریبان پکڑ کر کھڑا تھا۔۔
بس تیری ان ہی حرکتوں کی وجہ سے تو مجھے
مگرمچھ لگتا ہے۔۔۔ آیان نے جلتی پر تیل چھڑکنا اپنا فرض سمجھا تھا۔۔۔۔
تو مر مرا جائے گا میرے ہاتھوں کیسی دن
سمجھ آئی نہ۔۔۔ دوراب نے اس کو بیڈ پر دھکا دیا تھا۔۔۔
اچھا یار لڑنا بند کرو دونوں بندروں کی
طرح۔۔۔ زوریز نے ان دونوں کو گھورتے ہوئے کہا تھا۔۔۔
میں تو نہیں لڑ رہا۔۔ آیان موقعے پر مکرا
تھا۔۔۔
نہیں میں اکیلا بولی جا رہا ہوں ۔۔۔ ہے نا؟؟ دوراب نے آیان کو
گھور کر دیکھا تھا۔
میں نہیں جا رہا اس کے نکاح پر۔۔ ایان
دوسری طرف منہ کر کے بیٹھ گیا۔۔
چلو جی اب پہلے اس بیگم کو مناؤ باقی کام
بعد میں ہوتے رہے تھے۔۔ حدید آیان کو گھورتے ہوئے بولا تھا ۔۔۔۔
ویسے جتنا ہم اس کو منا چکے ہیں یقین
مانو اپنی بیویوں کو بڑی آسانی سے منا لیں گئے ۔۔ کیوں بیگم جی صحیح کہا نا میں
نے۔۔۔ رحیان نے آیان کی تھوڈی پکڑے ہوئے کہا تھا ۔۔۔
جبکہ اس کی اس حرکت پر دوراب ، حدید اور
زوریز کا قہقہہ پورے کمرے میں بلند ہوا تھا۔۔۔ تب ہی دروازہ کھول کر ماہر اندر آیا
تھا ۔۔۔۔ اور آیان کو منہ دوسری طرف کر کے بیٹھا دیکھ کر سر نفی میں ہلاتا اندر آیا تھا۔۔
یہ آج کس کی بیگم بن گیا ہے۔۔۔ ماہر
نے زوریز اور حدید کے ساتھ بیٹھتے بولا
تھا۔۔
دوراب کی۔۔۔ سب نے ایک ساتھ بولا اور
آیان نے منہ اور موڑ لیا تھا۔۔۔
ابے اوو کبھی نہ راضی ہونے والی بیوی آگے
اس بیچارے کو اس کی سالیوں اور بہن نے ذلیل کر رکھا ہے رہی سہی قصر تم کیوں پوری کر
رہے ہو۔۔ ماہر نے ایک تیر سے دو نشانے لیے تھے ۔۔ جہاں دوراب نے اس کو غصہ سے
گھورا تھا وہاں آیان نے پاس پڑا پیلو اٹھا
کر ماہر کی طرف پھینکا تھا۔۔
بیوی نہیں ہوں میں تم سب کی سمجھ آئی ۔۔
ادھر مجھے اپنے لیے بیوی مل نہیں رہی تم لوگوں نے مجھے الگ اپنی بیوی بنا رکھا
ہے۔۔ اگر بیوی ہوں تم لوگوں کی تو خرچہ بھی اٹھاؤ میرے۔ آئے بڑے۔۔۔۔ اچھا بھلا مرد
ہوں ۔۔۔ ایان تپ کر بولا تھا۔۔
تو میری جان بات بات پر تو ایسے ہی ناراض
ہوتا ہے جیسے بیگم صاحبہ ہوں۔۔۔ رحیان نے آیان کے کندھے پر بازوؤں پھیلائے تھے ۔۔
سالے تو پہلے مرے گا میرے ہاتھوں ۔۔۔
آیان نے رحیان کو گریبان سے پکڑ لیا تھا۔۔
یہ لو یہ پھر سے شروع ہو گیا۔۔ حدید نے
صوفے کے ساتھ سر ٹھیکا لیا تھا۔۔۔
اس کو تو مار گولی مجھے یہ بتا تو کیوں
نے چل رہا۔۔ حور کو بھی ساتھ لے کے چل وہ بھی آمنہ ، نور ، جزا اور سویرا کے ساتھ
انجوائے کر لے گی۔ دوراب آیان کی طرف اس کی بلیو شرٹ پھیکتے ماہر سے بولا تھا۔۔
یار میں حور کو لے تو آتا بٹ آج اس کو ڈاکٹر
کے پاس لے کر جانا ہے۔۔ ماہر نے اپنی
مجبوری رکھی۔۔
یہ حال ہوتا ہے شادی کے بعد سب کام بیوی
کے حساب سے جب وہ بولے گی تب جائیں گے جب
اس کی طبعیت خراب تو ہم بھی ساتھ پھیکا کھانا کھائیں۔۔۔۔۔ نصحیت لے لو ۔۔ رحیان
دوراب کو دیکھتا بول رہا تھا۔۔
جبکہ ماہر، حدید ، آیان ، زوریز ، دوراب۔
رحیان کو ایسے دیکھ رہے تھے جیسے ان کو یقین نہ ہو۔۔
کیا ہے؟؟؟ رحیان نے سب کو خود کی طرف
دیکھ کر حیران ہو کر پوچھا۔۔
تجھے بڑا ایکسپیرنیس ہے؟؟ کوئی نکاح
وغیرہ تو نہیں کر کے بیٹھا۔۔۔۔ زوریز نے اس کو جانچتی نظروں سے دیکھا ۔۔
مجھے تو شک ہو رہا ہے۔۔۔ حدید نے اب کی
بار رحیان کو گھورا تھا۔۔۔
مجھے تو یقین ہے۔۔۔۔ یہ تو نظر بھی بہت
کم آتا ہے کیا پتا کر کے بیٹھا ہو۔۔ ماہر نے مشکوک نظروں سے رحیان کو دیکھا۔۔۔
صحیح صحیح بتا دے کیا چھپا رہا ہے۔۔۔
دوراب نے ایک آئی برو اٹھا کر اس کی طرف دیکھا تھا۔۔۔
جبکہ بچارا رحیان بول کر پچھتایا تھا۔۔۔
یار بتا دے ان کو سچ ۔۔ نہ چھپا نکاح ہی
کیا ہے کوئی گناہ نہیں کیا۔۔ مجھے پتا ہے تیرے پہلے پچاس بریک آپ بھی ہوئے ہیں اور
پچاس بریک آپ کے بعد ایک نکاح تو بنتا ہے نہ۔۔۔۔۔ اب شرما مت بول دے سچ کے تیرے
چار بچے بھی ہیں ۔۔۔ آیان نے رحیان کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے اس کو حوصلا دیا
تھا۔۔۔
جبکہ آیان کی ساری بات سن کر رحیان کی
آنکھیں باہر آ گئی تھی۔۔ پتا نہیں وہ اس کے کون سے پچاس بریک اپ اور چار بچے پیدا
کر کے بیٹھ گیا تھا۔۔ رحیان کا تو میٹر ہی گھوم گیا تھا۔۔
ہاں اور ان چار بچوں کی ماں تو ہے۔۔۔ رحیان
جل کر بولا تھا۔۔ جبکہ حدید جو پانی پی رہا تھا رحیان کی بات پر پانی اس کے منہ سے
نکالا تھا۔۔۔ اور باقی سب اس کی بات پر اپنا قہقہہ روک رہے تھے۔۔
دفع ہو ۔۔۔ آیان نے اس کو دور دھکیلا تھا
خود سے۔
تو کس نے کہا تھا بکواس کر۔۔ کون سے پچاس
بریک اپ دیکھ لیے تو نے میرے۔۔ اور چار بچے استغفر اللہ ۔ رحیان نے باقاعدہ کانوں
کو ہاتھ لگایا تھا ۔
تو مان جا نہ کتنی دیر سچ چھوپائے گا۔۔۔
آیان نے آنکھ ونک کی تھی۔۔
کیا بکواس کر رہا ہے ایسا کچھ نہیں ہے۔۔۔
جھوٹا ۔۔۔ رحیان نے آیان کو گھورا تھا ۔ پتا نہیں کون سی منہوس گھڑی میں بول بیٹھا
تھا وہ۔۔۔
چل تیری ماں کو بتاتا ہوں پھر وہ جانے
اور تو جانے۔۔۔ آیان نے رحیان کو دیکھتے بولا تھا۔۔
تیری تو۔۔ روک ذرہ تو۔۔۔ رحیان آیان کی
طرف لپکا تھا۔۔۔
اور اب وہ دونوں بندر کبھی کمرے کے ایک
کونے یا کبھی دوسرے کونے میں بھاگ رہے تھے اور کمرا انہوں نے استبل بنا دیا تھا۔۔۔ بڑی مشکل سے دونوں کو ان چاروں
نے روکا تھا اور آیان کا سامان پیک کر کے کمرے کی حالت ٹھیک کر کے نکلے تھے۔۔۔
•••••••••••••
قریب نو بجے وہ پانچوں آگے پیچھے دوراب
کے گھر داخل ہوئے تھے۔۔ کھانے کا وقت تھا اور دوراب گھر پہلے ہی بتا چکا تھا کہ اس
کے ساتھ زوریز ، حدید ، رحیان اور آیان آ رہے ہیں ۔۔
وہ پانچوں اندر ایک ساتھ آئے تھے۔۔۔ روحا
بیگم، امل بیگم جو کچن میں کام کر رہی تھی ان پانچوں کو دیکھ کر باہر آئی تھی۔۔۔
جبکہ آمنہ ، جزا اور سویرا ڈرائنگ ارینج کروا رہی تھی۔۔۔۔۔
کیسے ہو بچوں ۔۔۔ وہ دونوں ٹی وی لاؤنج
میں آتے ہوئے بولی تھی ۔۔۔ جبکہ حدید کو انہوں نے ایک عرصے بعد دیکھا تھا۔۔۔
ہم سب ٹھیک ہیں انٹی۔۔ آیان اور رحیان نے
امل بیگم اور روحا بیگم کو گلے لگا کر بولا۔۔۔
تم کیسے ہو حدید ۔۔ ان دونوں نے آیان اور
رحیان کا ماتھا چوم کر اب حدید کو گلے لگایا تھا۔۔
آپ کے سامنے کھڑا ہوں کیسا لگ رہا ہوں
بیوٹی فول لیڈیز ۔۔ حدید نے دونوں کو گلے لگاتے بولا۔۔۔ جبکہ امل بیگم اور روحا
بیگم مسکرا گئی تھی۔۔۔
ہم دونوں بھی ادھر ہیں دوراب نے آگے ہو
کر دونوں کو اپنی اور زوریز کی موجودگی کی
اطلاع دی تھی۔۔
تم تو سائیڈ ہو مجھے میرے اس موسٹ وانٹیڈ
بیٹے سے ملنے دو ۔۔ امل بیگم اور روحا بیگم ایک ساتھ بولی تھی۔ جبکہ دوراب ماں اور
تائی کا منہ دیکھتا رہے گیا۔۔
ان دونوں نے زوریز کو گلے لگایا ہوا تھا
اور زوریز مسینی مسکراہٹ سجائے دوراب کو دیکھ رہا تھا۔۔
دلہے میاں آپ کی تو گھر میں بھی عزت نہیں
۔۔ آیان اور رحیان نے لکمہ دیا تھا۔۔
جبکہ حدید ، زوریز ، روحا بیگم اور امل
بیگم اپنی ہنسی کو کنڑول کرنے کی کوششوں
میں تھے۔۔
تم دونوں کی جیسے بڑی ہے؟؟؟ دوراب نے جل
کر ان کو سر سے پیر تک دیکھا تھا ۔
اچھا اچھا اب لڑنے نہ لگ جانا تم لوگوں
کے روم ریڈی ہے چلو جا کر فریش ہو۔۔ اور دوراب ماہر اور حور کو کیوں نہیں لائے تم۔۔۔۔
اس سے پہلے وہ لڑ پڑتے روحا بیگم نے ان سب کو ان کے کمروں میں جانے کا بولا تھا۔۔
انٹی حور کو ڈاکڑ کے پاس لے کر جانا تھا
اس وجہ سے ماہر اور وہ نہیں آئے بٹ کل تک آ جائیں گے وہ ۔۔ آیان نے دوراب کے بولنے
سے پہلے روحا بیگم کو ساری تفصیل دے دی تھی ۔
اور اب وہ سب اپنے اپنے کمروں کی طرف جا
رہے تھے اس بات سے انجان کے دشمنوں کی نظروں میں ہیں وہ سب ۔۔
••••••••••••••
جزا، آمنہ اور سویرا ڈائنگ روم میں کھڑی
ان سب کو دیکھ رہی تھی۔۔
ہممممم تو بھائی جان اپنی فوج لائیں ہیں
۔۔۔۔ آمنہ نے ان سب کو کمروں کی طرف جاتا دیکھ کر بولا۔۔
مہمانوں کی خدمت میں کمی نہیں ہونی چاہیے
۔۔۔ جزا چہرے پر مسکراہٹ سجا کر بولی تھی۔۔۔
مزہ تو اب آئے گا۔۔۔ سویرا جزا اور آمنہ کے
ساتھ آ کر کھڑی ہو گئی۔۔۔۔۔
وہ تینوں چہرے پر مسکراہٹ سجائے کھڑی تھی۔۔۔
مگر یہ مسکراہٹ کیسی کے لیے خطرے کی گھنٹی بنے والی تھی۔۔۔
تھوڑی دیر میں کھانا لگ گیا تھا سب کھانے
کے لیے ٹیبل پر آ کر بیٹھ گئے تھے۔۔ جب کچن سے سویرا ، جزا، اور آمنہ نکلی تھی۔۔۔ رحیان کی سب سے پہلی نظر سویرا پر پڑی تھی۔۔ وہ
نازک سی معصوم سی پھولے گالوں والی لڑکی اس کو دل میں اترتی محسوس ہوئی تھی۔۔ وہ
اس کی طرف سے نظریں ہٹانا بھول گیا تھا جب پاس بھیٹے ۔۔ حدید نے اس کو کہنی ماری
تھی۔۔
بھائی نظر ہٹا لے ۔۔۔ کیوں روٹی سے پہلے جوتے
کھانے ہیں۔۔۔ حدید رحیان کے کان کے قریب بولا تھا۔
حدید کی آواز پر وہ ہوش میں آیا تھا اور
اپنی ہچکچاہٹ کو چھپانے کے لیے اس نے حدید کو گھورا تھا ۔۔۔
جبکہ آیان بیچارہ منہ نیچے کر کے بیٹھا
تھا ۔۔۔ کیونکہ دوراب اس کے ساتھ بیٹھا تھا جبکہ آمنہ سامنے کھڑی تھی۔۔۔۔
واہ اللّٰہ جی کیا قسمت ہے میری۔۔ مگرمچھ
بغل میں بیٹھا ہے اور اس کی بہن سامنے کھڑی ہے میں تو ایک نظر دیکھنے سے بھی
گیا۔۔۔ آیان نے اس قدر مدہم آواز میں بولا کے پاس بیٹھے دوراب کے کان تک بھی آواز
نہ گئی۔۔۔۔
زوریز جو کامران صاحب کے ساتھ بیٹھا تھا
خود کو کنٹرول کرنے کی کوشش میں تھا کہ وہ جزا کو نظر اٹھا کر نہ دیکھے ۔۔ کیونکہ
پھر دل اس کو دیکھتے رہنے کی ضد کرے
گا۔۔۔۔ مگر دشمن جاں سامنے ہو اور عاشق نظر بھی نہ اُٹھے ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔۔ عشق
میں تو اچھے اچھوں کی گردانیں جھک جاتی ہے۔۔ تو پھر زوریز ابراہیم کیا تھا۔۔ وہ جس
نے کبھی کیسی لڑکی کی طرف نظر اٹھا کر نہ دیکھا تھا آج اس کا دل بار بار اس کو
کیسی کی طرف دیکھنے کا بول رہا تھا۔۔ اخر دماغ اور دل کی لڑائی میں دل جیتا تھا
اور زوریز کی نیلی آنکھیں جزا کی طرف اٹھی تھی ۔۔۔ اور وہ اس وقت دل کو اتنی حسین
لگی تھی کہ دل نے شدت سے خواہیش کی کہ اس کو چھپا دیا جائے۔۔۔ زوریز کی نظریں جزا
سے ہٹنے کو انکاری تھی۔۔ مگر پھر جزا کی آواز سے وہ ہوش میں واپس لوٹا تھا ۔۔
اوکے انٹی اب آپ سب لوگ کھانا کھائیں ہم
تینوں اوپر روم میں ںور کے پس جا رہی کھانا لے کر ۔۔ جزا نے لاپرواہی سے بولتے
دوراب کو چور نظروں سے دیکھا تھا۔۔ جبکہ جزا کی بات پر دوراب کے کان کھڑے ہو گئے
تھے۔۔
بیٹا کچھ چاہیے ہو تو بتا دینا میں روم
میں بھیج دوں گئی۔۔ روحا بیگم نے جزا کو پیار سے دیکھتے بولا تھا۔۔
یہ لوگ سب کے ساتھ کھانا کیوں نہیں کھا
رہی ۔۔ دوراب کو ان کی بات ہضم نہ ہوئی تھی تبھی بول پڑا تھا۔۔۔
وہ دراصل آپ کا اور نور کا پردہ ہے نہ
دوراب بھائی۔۔ سویرا معصوم سی شکل بنا کر بولی تھی۔۔ اور رحیان کو اس کا دل اپنے
کانوں میں بیجتا سنائی دیا تھا۔۔ جبکہ دوراب منہ کھولے بیٹھا تھا۔۔
یہ غلط ہے۔۔ دوراب بےچارگی سے منمنایا
تھا۔۔
بکل بھی نہیں ۔۔ اب کی بار آمنہ بولی
تھی۔۔ اور آیان نے اس لاپرواہ سی حسینہ کو دیکھا تھا جو شان بے نیازی سے اپنے
بھائی کی جان منہ کو لے آئی تھی۔۔
دیکھو کھانا سب کے ساتھ مل کر کھانا چاہے
اچھی بات ہوتی ہے۔۔ دوراب نے ان کو پیار سے منانا چاہا تھا ۔۔
چلیں ٹھیک ہے ہم کھانا ادھر کھا لیتی ہیں
۔۔ آمنہ نے بول کر جزا کو دیکھا تھا ۔۔
اور نور کو کھانا روم میں دے آتی ہیں۔۔
ٹھیک ہے نہ ۔۔ جزا نے اپنی بات مکمل کر کے ایک نظر سویرا اور ںور کو دیکھا پھر روحا
اور امل بیگم کو دیکھا تھا۔۔ جبکہ بیچارہ دوراب منہ دیکھتا رہے گیا تھا۔۔ اور
زوریز نے اپنا منہ نیچے کر کے ہنسی کنڑول کی تھی۔۔
وہ تینوں ایک ایک ٹرے لے کر روم کی طرف
چلی گئی تھی۔۔ جبکہ دوراب زہر مار کر کھانا کھا رہا تھا۔۔۔
•••••••••••••••
وہ۔ دونوں اس وقت ہاسپٹل میں تھے۔۔ حور
بہت نرویس ہو رہی تھی۔۔ ماہر نے اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا تھا ۔
پریشان مت ہو میری جان سب ٹھیک ہو گا۔۔
ماہر نے اس کو حوصلا دیا تھا۔۔
ہممم۔۔۔ حور سر ہلا کر بس اتنا ہی بول
پائی تھی۔۔۔ جب ڈاکٹر ہاتھ میں ایک فائل لے کر روم میں آئی تھی۔۔۔
پیپلز بیٹھے آپ دونوں۔۔۔ ماہر اور حور کو
اٹھتا دیکھ کر اس لیڈی ڈاکٹر نے ان کو بیٹھنے کا کہا تھا۔۔ اور خود اپنی جگہ پر جا
کر بیٹھ گئی تھی ۔۔
آپ کیسا فیل کر رہی ہیں مسیز ماہر ۔
ڈاکٹر نے اپنے پروفیشنل انداز میں حور سے پوچھا تھا ۔۔
بہتر۔۔۔ حور نے ہچکچاہٹ کے ساتھ جواب دیا تھا۔۔
ڈاکٹر کیا ریپوٹیس ٹھیک ہیں ۔۔۔ ماہر نے ہی
ہمت کر کے پوچھا تھا۔۔
جی بلکل ۔۔ اور اب شاید آپ کو ایک نیو
میمبر کے آنے کی تیاری کرنی چاہیے ۔۔۔ ڈاکٹر نے ریپوٹیس ماہر کے آگے کرتے کہا
تھا۔۔ جبکہ ماہر اور حور کو ابھی تک یقین نہیں آ رہا تھا۔۔
ڈاکٹر کیا یہ ۔ حور نے کچھ پوچھنا چاہا۔۔
جی مسیز ماہر ۔۔ ڈاکٹر نے اس کی بات کو
سمجھتے اس کی پریشانی کو دور کیا تھا۔۔
آپ کو حور کا بہت خیال رکھنا ہو گا
کیونکہ وہ کچھ کمزور ہے۔۔ ڈاکٹر ماہر سے حور کی ساری ریپوٹیس ڈیسکس کر رہی
تھی۔۔ اور کچھ ہی دیر میں وہ ایک خوبصورت
سی خوش خبری لے کر ہاسپٹل سے نکلے تھے۔۔
ماہر ڈرائیو کر رہا تھا جبکہ اس کی خوشی
اس کے چہرے سے پتا چل رہی تھی۔۔۔ اور حور شرمائی شرمائی سی ساتھ والی سیٹ پر بیٹھی
تھی۔۔ ماہر بار بار ایک نظر اٹھا کر حور کی طرف دیکھ رہا تھا ۔ اس بات پر کوئی شک
نہ تھا اس کو حور سے محبت نہیں تھی۔۔ اس کو حور سے بےتحاشہ محبت تھی۔۔ اور آج اس
ایک نئی خبر نے ماہر کے دل اور نظر میں حور کے لیے محبت اور چاہت اور بڑھا دی
تھی۔۔۔
جبکہ نور ابھی تک اس بات پر یقین ہی نہیں
کر پا رہی تھی جس خبر کا اس نے اتنے عرصے سے انتظار کیا تھا آخرکار اس کو اس کی
نوید سنا دی گئی تھی۔۔ اس کی جھولی بھر دی گئی تھی اس کو مکمل ہونے کا احساس دے
دیا گیا تھا۔۔۔ ثبات ہوا تھا دعا کبھی رائگاں نہیں جاتی اس کی قبولیت میں دیر ہو
سکتی ہے مگر مراد پوری کر دی جاتی ہے۔۔ خالی ہاتھ خالی جھولیاں بھر دی جاتی ہیں
۔۔۔
وہ دونوں مسکراتے گھر آئے تھے۔۔ ابیہا
بیگم اور افضل صاحب ٹی-وی لاؤنج میں ہی بیٹھے تھے۔۔ حور ان سے مل کر اپنے کمرے میں
چلی گئی تھی۔۔ جبکہ ابیہا نے ماہر کو روک لیا تھا۔۔۔
حور ٹھیک ہے ماہر؟؟ ابیہا بیگم نے فوراً
اس سے پوچھا تھا۔۔۔
بتاتا ہوں بتاتا ہوں۔۔۔ ماہر ان کو بول
کر کچن کی طرف گیا تھا اور جب کچن سے باہر آیا تو اس کے ہاتھ میں کیک تھا جو آج
صبح حور نے بنایا تھا۔۔
منہ میٹھا کریں پہلے پھر بتاتا ہوں دونوں
کو۔۔ اس نے تھوڑا سا کیک ماں کے منہ میں ڈالا تھا پھر باپ کے منہ میں ڈالا تھا۔۔
اور وہ دونوں اس کو حیرات سے دیکھ رہے تھے۔۔
بتا بھی دو یار۔۔ افضل صاحب سے صبر نہ
ہوا تو پوچھ ہی لیا انہوں نے ۔
آپ دونوں اب بزرگ ہو گئے ہیں ۔۔۔ ماہر نے
اپنی ہنسی چھپاتے ہوئے کہا۔۔۔
کیا بکواس ہے۔۔۔ افضل صاحب نے اس کو
گھوری کروائی جبکہ ابیہا بیگم کنفیوز سی ماہر اور افضل صاحب کو دیکھ رہی تھی ۔
بکواس تو نہیں کر رہا اب اپ لوگ واقع ہی
بزرگ ہو گئے ہیں ۔۔۔ ماہر نے چہرے پر سنجیدگی لاتے کہا تھا۔۔
تو تم نے ہمیں یہ بتانے کے لیے ہمارا منہ
میٹھا کروایا ہے کہ ہم بزرگ ہو گئے ہیں ۔۔۔ افضل صاحب تپ ہی گئے تھے۔۔۔
کیا ہو گیا ہے اتنا غصہ کیوں کر رہے ہیں
آپ ؟؟ اب آپ اس عمر میں بھی خود کو جوان کہلوانا چاہتے ہے۔۔ بوڑھے تو ہو گئے ہیں
آپ ۔۔ پتا نہیں کیوں آج اس کا دل کر رہا تھا باپ کو تپانے کا ۔۔
ماہر کی بات سن کر ابیہا بیگم نے اپنے
قہقہے کا گلا گھونٹا تھا۔۔
بوڑھے ہو گے تم ۔۔۔ میں ابھی بھی تم سے
زیادہ جوان ہوں۔۔ افضل صاحب نے جوتا اٹھا لیا تھا۔۔
رہنے دیں ہڈیاں بوڑھی ہو گئی ہیں آپ کی۔۔
ماہر نے مزید تیلی لگائی تھی۔۔
تم میری بوڑھی ہڈیوں کو چھوڑں اور سہی
بات بتاؤ ۔۔ ورنہ میں تمہاری ہڈی پسلی توڑنے میں منٹ نہیں لگاؤں گا۔۔ افضل صاحب نے
دور سے ہی جوتی ماہر کی طرف پھینکی تھی ۔
افضل تھوڑا خیال کریں جوان بچہ ہے آپ کا۔
ابیہا بیگم نے ان کو ٹوکا تھا۔۔
آپ کی اس جوان اولاد نے میرا بی پی ہائی
کرنے کی جو قسم کھائی ہے آپ کو وہ نظر نہیں آتی ؟؟ افضل صاحب نے ابیہا بیگم سے شکوہ
کیا تھا۔۔
بچے ہیں وہ۔۔۔ ابیہا بیگم نے معصوم سا
دفاع کیا تھا اور ان کے اس دفاع پر افضل صاحب آش اش اٹھے تھے۔۔
ماہر انسانوں کی طرح بتا دو حور کی طبعیت
کے بارے میں ڈاکٹر نے کیا بولا ہے۔۔ ابیہا بیگم نے ماہر کو گھورا تھا ۔
بولا تو ہے آپ دونوں اب بزرگ ہو گئے کو۔۔
ماہر نے ہنسی چھپائی تھی۔۔
میں بول رہا ہوں ابیہا اب یہ اچھی خاصی
مار کھائے گا مجھ سے۔۔ وہ مصیبت آج گھر نہیں تو بی پی ہائی کرنے کی قسم یہ کھا کر
بیٹھا ہے۔۔ افضل صاحب نے دوسرا جوتا بھی ہاتھ میں پکڑا تھا۔۔
اچھا اچھا بتاتا ہوں اس کو نیچے رکھیں۔۔
ماہر نے باپ کے ہاتھ میں دوسرا جوتا دیکھا تو فوراً بولا تھا۔
بتاؤ ۔۔ ابیہا بیگم نے اب کی بار گھوری
کروائی تھی ۔۔
آپ دونوں دادا دادی بنے والے ہو بزرگوں
۔۔۔ ماہر نے دونوں کو دیکھتے ہوئے بولا تھا۔۔
جبکہ ابیہا بیگم اور افضل صاحب کو ابھی
بھی یقین نہیں آ رہا تھا۔۔
تم سچ بول رہے ہو نہ۔۔ ابیہا بیگم تو
خوشی سے رونے لگی تھی۔۔۔
جی موم میں کیا ایسا مذاق آپ لوگوں کے
ساتھ کروں گا۔۔ اس نے ماں کو سینے سے لگایا تھا۔۔ ابیہا بیگم اس کا ماتھا چوم کر
فوراً حور اور اس کے کمرے کی طرف بڑھی تھی
آپ کدھر۔۔ ماہر نے ماں کو آواز دی تھی ۔
اپنی بیٹی کے پاس ۔۔ وہ خوشی سے بولتی آگے
بڑھی تھی۔۔
دوسری طرف افضل صاحب نے آگے بڑھ کر ماہر
کو گلے لگا لیا تھا۔۔
بہت بہت مبارک ہو بیٹا۔۔ انہوں نے اس کا
ماتھا چوما تھا۔۔
آپ کو بھی۔۔ ڈیڈ ۔۔ اس نے ان کو دوبارہ
گلے لگایا تھا۔۔
ہم واقع ہی بزرگ ہو گئے ہیں اب۔۔ افضل
صاحب نے اس کی طرف دیکھ کر بولا تھا۔۔ اور دونوں کا جاندار قہقہہ ٹی-وی لاؤنج میں
گونجا تھا۔۔۔۔
•••••••••••••••••
یار تیری سالیاں تو بہت خطرناک ہیں ۔۔
آیان دوراب کے بیڈ پر لیٹا بولا تھا۔۔
واقع ہی بہت زیادہ ۔۔۔ رحیان اپنے خیالوں
میں کیسی کی معصوم شکل میں الجھا الجھا سا بولا تھا۔۔۔
خطرناک ہونے کے ساتھ چلاک بھی کمال کی
ہیں ۔۔۔ حدید نے اپنی رائے رکھی تھی ۔۔۔
زبان بھی ماشاللہ ہے ۔ زوریز کو کیسی کی
قینچی جیسی زبان چلانا یاد آئی تھی۔۔۔
میں نے ادھر تم سب کو ان پر رائے دینے کے
لیے نہیں بولیا۔۔ مجھے بتاؤ ان ناگینوں سے کیسے بیچ بیچا کر نور سے میلوں۔۔۔ دوراب جل کر بولا تھا۔۔۔
غصہ کیوں کر رہا ہے ۔۔ سوچتے ہیں کچھ۔۔۔
حدید نے دوراب کے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا ۔۔
میں کہتا ہوں کیوں نہ ہم ان تینوں سے ایک
ڈیل کر لیں؟؟؟ آیان نے کچھ سوچتے ہوئے کہا
تھا۔۔
بات میں دم ہے۔۔ رحیان نے آیان کی بات پر
ہامی بھری تھی ۔۔
کہاں کا دم ۔۔۔ جاؤ جا کر کرو ڈیل ان سے
کوئی۔۔ تم دونوں کی عقل ٹھکانے نہ لگا دی ان تینوں نے پھر کہانا۔۔ ان تینوں نے تم
دونوں کی ڈیل کر دینی ہے اور تم دونوں کو پتا بھی نہیں چلنا۔۔۔ ڈیل کر لیتے ہیں ان
سے ہم لوگ۔۔ دوراب جل بھون کر بولتا آخر میں آیان کی ناکل کرتا ہے۔۔ جبکہ حدید اور
زوریز اپنا قہقہہ چپانے کے چکر میں منہ پر ہاتھ پھرتے ہیں ۔۔۔
ویسے یار ایک بار عمل کرنے میں تو کوئی ھرج
تو نہیں ۔۔ آیان ابھی بھی باز نہ آیا تھا ۔۔
ہاں تو اور رحیان کر لینا ٹرائے صبح ۔۔۔
دوراب کی بجائے زوریز بولا تھا۔۔۔
ہمیں کوئی مسلئہ نہیں کیوں رحیان ۔۔۔
آیان نے رحیان کی طرف دیکھا تھا۔۔
بلکل نہیں ہم صبح ڈیل کریں گے۔۔ تم لوگ
ہمیں بہت انڈر اسٹیمیٹ کرتے ہو کل تم لوگوں کو ہماری سکیلز کا پتا چلے گا۔۔۔
ہاں ہاں دیکھ لیں گے کال ۔۔۔ یہ کہتے
ساتھ زوریز اپنی جگہ سے اٹھا تھا۔۔ ساتھ ہی حدید اور دوراب بھی اٹھے تھے۔۔
اب تم لوگ کدھر۔۔۔ ایان نے مشقوق نظروں
سے ان تینوں کو دیکھا تھا۔۔
تیرا رشتہ دیکھنے ۔۔۔ حدید نے اپنی ہنسی
چھپا کر بولا تھا۔۔
نہ کر۔۔۔ آیان فوراً سیدھا ہوا تھا۔۔۔
شدید سنگل۔۔۔ زوریز اور دوراب ایک ساتھ
بربرائے تھے ۔
جبکہ ان کے الفاظ سب نے سن لیے تھے۔۔
حدید اور رحیان ہنس پڑے تھے ۔۔۔ اور آیان ان کو گھور کر رہ گیا تھا۔۔۔
جس دن میری شادی ہوئی نہ۔۔ ابھی آیان کچھ
بولتا کہ دوراب بولا تھا۔۔
بیٹا ابھی تک دنیا میں ایسا کوئی دن نہیں
بنا۔۔ سکون سے بیٹھ ۔۔۔ دوراب نے آیان کو تیلی لگائی تھی۔۔
تم سب تو چاہتے ہی یہ ہو کہ میں کنوارا
رہ جاؤ ۔۔۔ آیان غصہ سے بولا تھا۔۔
یار ہم نہیں چاہتے ایسا۔۔ اصل مسئلہ یہ
ہے کیسی نے تیرے لیے نہیں مانا۔۔ رحیان نے آیان کے کندھے ہر ہاتھ رکھ کر اس کو
دلاسا دیا تھا۔۔۔
میں تیرا منہ توڑ دوں کا منہوس انسان ۔۔
تیرا اپنے بارے میں کیا خیال ہے ۔۔ آیان نے رحیان کو دور دھکیلا تھا۔۔۔
الحمدللہ ایک دنیا مرتی ہے میرے حسن پر۔۔
رحیان نے آیان کی طرف دیکھ کر آنکھ ونک کی تھی۔۔
وہ دنیا زہر کھا کر مر جائے ۔۔ آیان یہ کہتا
اپنی جگہ سے اٹھا تھا۔۔۔
ہو گیا تم دونوں کا تو چلیں۔۔ زوریز جو
کب سے ان کی نوک جھوک دیکھ رہا تھا تپ کر
بولا۔۔
جانا کدھر ہے؟؟ آیان اور رحیان ایک ساتھ
بولے تھے۔۔۔
بائیک ریس ۔۔۔۔۔ زوریز ، حدید اور دوراب
ایک ساتھ بولے تھے۔۔۔۔
وہ پانچوں آگے پہچھے بائیک لے کر نکلے
تھے اور آدھی رات کو لاہور کی سڑکوں پر پانچ ہیوئ بائیک آگے پیچھے بہت تیز رفتار
میں چل رہی تھے۔۔ وہ پانچوں ایک سے بڑھ کر ایک تھے ہر معاملے میں ۔۔۔۔۔
زوریز کی بائیک سب سے آگے تھی ۔۔ دوراب
اور حدید اس کے تھوڑا قریب آتے تو وہ اپنی بائیک کی سپیڈ اور تیز کر دیتا تھا۔۔
جبکہ آیان اور رحیان دوراب اور حدید کے پیچھے تھے۔۔۔۔ وہ پانچوں ایک ساتھ کیسی مضبوط
مٹھی کے برابر تھے۔۔ کوئی بھی ان سے ٹکراتا تھا تو اپنا نقصان خود کرتا تھا۔۔۔
••••••••••••••
واہ یار کیا گھر ہے یہ۔۔۔۔ حانی جس نے
بلیک جیکٹ پہن رکھی تھی ساتھ ہی بلیک ماسک لگا رکھا تھا۔۔ اپنے سامنے ایک عالیشان گھر
کو دیکھ کر بولا تھا جو گھر کم اور محل زیادہ لگ رہا تھا۔۔۔
حرام کا مال دور سے بہت خوبصورت لگتا ہے
جب قریب سے دیکھو تو اصل نظر آتا ہے۔۔۔۔ حانی کے پیچھے کھڑا ایم-زی بولا تھا۔۔۔
یہ بات تو ہے۔۔۔ حانی نے ایم-زی کی بات
پر اعتراف کیا تھا۔۔۔
اب میری بات کان کھول کر سنو سب ۔۔۔
انفورمیشن کے مطابق ڈرگز، اسلحے، اور لڑکیوں کی اسمگلنگ کا جو نیا پلین بنایا گیا
ہے وہ عمران لغاری کے اس عالیشان محل میں رکھا گیا ہے۔۔۔ ایم-زی نے اپنے سامنے
کھڑے اپنے ساتھیوں کو بولا تھا۔۔
اندر کس طرح جائیں اور پلین کیسے لیں گے
ایم-زی۔۔۔ فاروق نے اپنی پریشانی اس کے سامنے رکھی تھی۔۔۔
سامنے جو چوکیدار کھڑا ہے نہ سب سے پہلے
اس کے پاس جائیں گے ۔۔ اس کو کہیں گے لغاری صاحب سے ذرہ اجازت تو لے کر آؤ ان کے
گھر جو نیا اسمگلنگ کا پلین بنا ہے نہ وہ پاک آرمی کے ایجنٹ لینے آئیں ہیں اگر آپ
جازت دیں تو ان کو اندر لے آؤ ۔۔۔ اور جب لغاری صاحب اجازت دیں گے ںہ تب ہم اندر
جا کر لغاری صاحب سے سلام دعا کر کے پلین مانگے گئی۔۔ وہ ہمیں دے دیں گے اور وہ لے
کر ہم واپس آ جائیں گئے۔۔ سکندر نے نے ایک ایک لفظ چبا کر بولا تھا ۔۔۔۔۔
یہ تو بہت سینپل ہے چلو پھر چلیں کس چیز
کا انتظار ہے۔۔۔ فاروق یہ کہتا آگے بڑھںے لگا تھا کہ ایم-زی اور سکندر نے اس کو
واپس پیچھے کھنچا تھا ۔۔
اس کو آرمی میں سلیکٹ کس نے کیا ۔۔ چلو
سلیکٹ کر ہی لیا اس کو سیکرٹ فورس میں کس نے بھیجا ۔۔۔ سکندر فاروق کی عقل پر ماتم
کرتا چیر کر بولا تھا۔۔
میرے باپ نے ۔۔۔ ایم-زی جل کر بولا تھا۔۔
کیا۔۔ حانی کو حیرات کا جھٹکا لگا۔۔
مجھے کیا پتا اس کو کس نے سلیکٹ کیا ہے
جس طرح ہم سلیکٹ ہوئے ہیں یہ بھی ہو گیا ہو گا۔۔ اور سب سے بڑی غلطی شاید اس کی
سلیکشن ہو گی۔۔ ایم-زی نے فاروق کو گھورا تھا۔۔۔
اب اس کو گولی مارو۔۔ میری بات دھیان سے
سنو۔۔ میں اور سکندر بیک سائیڈ سے جائیں گے جبکہ حانی تم اور فاروق گارڈز کو بے
ہوش کر کے اور سارے کتوں کو بے ہوش کر کے اندر آؤ گے۔ تم دونوں نیچے کے پورشن کی
اچھے سے تلاشی لو گے ایک ایک کمرا ہر کونا چھان مرنا جبکہ میں اور سکندر اوپر کی
ساری تلاشی لیں گے۔ اور اپنے کان ، دماغ اور آنکھوں کو کھول کر رکھنا اور زبان کو
بند رکھنا۔۔ آخری الفاظ خاص طور پر فاروق کے لیے تھے۔۔۔ ایم-زی نے ان کو ان کا کام
بتایا تھا۔۔
ویسے ایم-زی سارا سکیورٹی سیسٹم ؟؟.
سکندر نے اس سے پوچھا تھا ۔۔
وہ میں سارا ہیک کر چکا ہوں۔۔ اور اس وقت
اس کو ڈان کا آدمی امیل دیکھ رہا ہے۔۔ جو بھی کوئی پروبلم ہو گی وہ ہمیں فوراً بتا
دے گا۔۔
اپنے بلیو توتھ ایکٹیو اور کنیکٹ رکھانا
سب اور ہر چیز سے ہوشیار ۔۔۔ چلو اب اٹھو سب۔۔ ایم-زی یہ کہتا اٹھ کھڑا ہوا تھا۔۔
ساتھ ہی وہ سب بھی اٹھے تھے۔۔ رات کے اس اندھیرے میں وہ چاروں اندھیرے کا حصہ لگ
رہے تھے۔۔
ایم-زی اور سکندر چھپ چھپاتے بیک سائیڈ
پر گئے تھے احتیاط سے دیوار پھلانگتے وہ دونوں اس وقت اس عالیشان محل نما گھر کے بڑے
سے گارڈن میں تھے۔۔ جبکہ دوسری طرف فاروق اور حانی بہت احتیاط سے داخلی دروازوے سے
تھوڑا دور کھڑے دیوار کے ساتھ کھڑے تھے دیوار کی ایک طرف سے فاروق اندر کودا تھا
اور دوسری طرف سے حانی اندر کودا تھا۔۔
ایک بائیں جانب تھا اور ایک دائیں جانب تھا دونوں دبے پاؤں آگے بڑھ رہے تھے اور
جیسے ہی وہ دونوں چوکیداروں کے نزدیک گئے ایک لمحہ کے اندر دونوں نے ان کی ایک
مخصوص رگ دبا کر بے ہوش کر دیا تھا ۔ ایسے ہی دبے قدم چلتے وہ دونوں کتوں کے پاس
گئے تھے اس سے پہلے وہ کتے بھونکتے آنکھوں نے اپنی جیب سے ایک چھوٹی سی پیسٹل
نکالی جو سائیلینٹ پر تھی ان پر لگے انجیکشن کا منہ سامنے بیٹھے چاروں کتوں کی طرف
کیا اور فوراً انجیکشن ان پر انجیکٹیڈ
کرتے وہ دونوں آگے بڑھے تھے اور سرنیج ان کے جسم سے نکال دی تھی۔۔ ان کے کام کا
ایک اصول تھا وہ بے زبان جانور کو نہیں مارتے تھے بلکہ اپنا کام سکون سے کرنے کے
لیے ان کو بےہوش کر دیتے تھے۔۔۔
فاروق اور حانی آگے بڑھے تھے کہ سامنے سے
سکندر اور ایم-زی آتے دیکھائی دے۔۔ فاروق نے ان کو تھمز اپ کا اشارہ کیا تھا۔۔۔ وہ
چاروں دبے قدموں عمران لغاری کے اس عالیشان گھر میں داخل ہوئے تھے۔۔۔
ہر طرف اندھیرا تھا۔۔ اس گھر میں فرنیچر
سے لے کر شوپیس تک اپنی قیمتی کا منہ بولتا ثبوت تھا۔۔ ایم-زی اور سکندر دبے قدموں
اوپر کی ظرف بڑھے تھے۔۔ جبکہ فاروق اور حانی نیچے کے سارے کمرے اور ہر چیز کی تلاشی
لے رہے تھے۔۔
سکندر تم رائیٹ سائیڈ کے سب روم اور ہر
چیز کو چیک کرو ۔۔ میں لیفٹ سائیڈ کی کرتا ہوں۔۔ فاروق تم اور حانی بھی ایک ایک
سائیڈ ہو جاؤ ۔۔ ایم-زی نے بہت مدہم آواز میں بولا تھا بلیو توتھ لگے ہونے کی وجہ
سے وہ سب اس کی بات کو آسانی سے سمجھ گئے
تھے تبھی وہ ایک ایک سائیڈ ہو گئے تھے۔۔
ایم-زی نے لیفٹ سائیڈ کا پہلا روم کھولا
تھا۔۔ روم کیسی لڑکی کا تھا کیونکہ روم میں بیڈ کے اوپر ایک لڑکی کی شوٹ سکرٹ اور بلاؤز
میں بڑی سی تصویر لگی تھی ۔۔ اس کے بوب کٹ بال اس تصویر میں ایک طرف ہوئے ہوئے
تھے۔۔ تصویر کے نیچے سونے سے ایک نام لکھا تھا۔۔ لینا لغاری۔۔ اس تصویر کا فریم
بھی سونے کا تھا ۔ ایم-زی نے ایک نظر بھی اس تصویر پر نہ ڈالی تھی اور کمرے کی
تلاشی لینے لگ گیا۔۔ جب اس کو بیڈ پر کیسی وجود کا احساس ہوا تھا۔۔ اس نے آگے بھر
کر دیکھا تولینا سکین کلر کے نائیٹ ڈریس میں لیٹی ہوئی تھی اور اس ڈریس کا گلا دیپ
ہونے کی وجہ سے گالا ایک سائیڈ سے کندھے
سے کافی نیچے ہوا ہوا تھا اور پاس شراب کی تین خالی بوتلیں بستر پر پڑھی ہوئی
تھی۔۔ ایم-زی نے ایک بےزار نظر اس پر ڈالی اور سارے کمرے کی تلاشی لینے لگا۔۔ اس
کو کچھ اور نہیں ملا تھا مگر جب وہ واپس موڑا تھا تو اس کی نظر لینا لغاری کی آرٹ
بک پر گئی تھی جہاں سبز آنکھیں بنی ہوئی تھی۔۔ ایک لمحہ کے لیے ایم-زی کی نظر اس
پر پڑھی تھی مگر پھر ہٹنا بھول گئی تھی۔۔۔
گہری سبز رنگ کی آنکھیں ۔۔ سیاہ ماسک، سیاہ کیپ ۔۔۔۔ سبز آنکھوں کے کونے
تھوڑے سرخ تھے جیسے خون اترا ہو۔۔۔
بیسٹ ۔۔۔ ایم-زی کے منہ سے باساختا نکلا
تھا۔۔۔
اس تصویر کے نیچے ایک تحریر لکھی تھی ۔۔۔
تمہاری آنکھیں اتنی خوبصورت ہیں تم خود
کتنے خوبصورت ہو گے۔۔ تمہیں میرا ہونا ہو گا ۔۔ پھر بے شک تمہاری قربت ایک رات کے
لیے میسر ہو۔۔ لینا جس کو چاہے پا لیتی ہے تمہیں میرا ہی ہونا ہو گا۔۔۔۔ یہ تحریر
پڑھ کر نا چاہتے ہوئے بھی ایم-زی کی نظر ایک بار بیڈ پر اندھے منہ ہوش و حواس سے
بے گانے وجود پر گئی تھی۔۔۔
بیوقوف لڑکی ۔۔ ایم-زی بربراتا کمرے سے
باہر نکلا تھا۔۔
یو ہی باقی کمروں کو بھی چیک کر کے وہ
باہر نکلا تھا اس کو کیسی جگہ کچھ نہ ملا تھا۔۔۔ وہ واپس سیڑھیوں کی طرف آیا تھا
جب دوسری طرف سے سکندر بھی آیا تھا۔۔
کچھ ملا۔۔۔ ایم-زی نے سب سے پہلے سوال
کیا تھا۔۔
نہیں ۔۔ اور تمہیں ۔۔۔ سکندر نے بھی سوال
کیا تھا۔۔
نہیں ۔۔ چلو نیچے ان دونوں سے پوچھتے ہیں
۔۔۔ ایم-زی یہ کہتے ساتھ سیڑھیاں اترتا نیچے گیا تھا۔۔۔
سامنے سے فاروق اور حانی آتے نظر آئے تھے
۔
ملا تم دونوں کو کچھ۔۔۔ ایم-زی نے دونوں
کو دیکھ کر سوال کیا تھا۔۔
ہر جگہ دیکھ دی ہے۔۔ سٹیڈی ، رومز، دراز،
سب کچھ دیکھ دیا ہے مگر کچھ نہیں ملا۔۔۔ فاروق نے تھکے ہوئے لہجے سے بولا۔۔ کیسی
روم میں نہیں سٹیڈی میں نہیں تو پھر کدھر ہے۔۔۔ ایم-زی سخت بیزار ہوا تھا۔۔۔
ایک کام کرو ہر دیوار کو چیک کرو۔۔ کچھ
بھی ہو پلین فائل ادھر ہی ہے ۔۔ ایم-زی کچھ سوچتے ہوئے آگے بڑھا تھا۔۔
وہ لوگ ہر دیوار پر ہاتھ مار کر چیک کر
رہے تھے جب اچانک ایک وال ڈیکور کو ہلانے سے دیوار میں سے ایک خوفیہ راستہ نکلا
تھا۔۔ ایم-زی نے ان سب کو دیکھ کر آنکھ ونک کی اور اندر چلا گیا۔۔
کیا کمال کا دماغ پایا ہے اس نے۔۔ حانی
نے اندر آتے ساتھ بولا تھا۔۔
انڈر ورلڈ میں وہ چینے تو بیچنے نہیں گیا
۔۔۔ جو تم نے اس کو پاگل سمجھ رکھا ہے۔۔۔ ایسے لوگ تو ایک ایک قدم پھونک پھونک کر
رکھتے ہیں ۔۔۔ ایم-زی نے یہ کہتے ساتھ سامنے ٹیبل پر پڑھے میپ اور بہت سی دوسری چیزوں
کی طرف اشارہ کیا تھا۔۔۔
کیا اب یہ سب ادھر سے لے کر جانا ہے؟؟
فاروق اور حانی نے ایک ساتھ بولا تھا ۔۔
بلکل نہیں ۔۔۔ ایم-زی نے کہتے ساتھ اپنی
جیب سے فون نکلا تھا اور ہر چیز کی تصویر لے لی تھی ۔۔ اور پھر اپنے کندھے سے بیک
اتارا اور اس میں سے جدید ٹیکنالوجی کے مائیکرو کمیرا نکالے تھے جن کے ساتھ سیپکر اوٹو کنیکٹ تھے وہ
باریک سے باریک آواز کو بھی ریکارڈ کر
سکتے تھے۔۔ جبکہ وہ کمیرا بہت کلیر پیکچرز اور ویڈیو بنا سکتا تھا۔۔ اس نے کچھ کچھ
فاروق اور حانی کی طرف بڑھائیں اور کچھ سکندر کو دے تھے ۔ تھوڑی ہی دیر میں وہ سب
اس جگہ پر وہ کیمراز لگا کر ہٹے تھے۔۔ ان سب نے کیمرا اتنی مہارت اور صفائی سے
لگیا تھا اور ایسی ایسی جگہ لگیا تھا جہاں کوئی سوچھ بھی نہیں سکتا تھا ۔۔ ایم-زی نے فوراً اپنے بیگ
سے ایک ڈرائیو نکالی تھی۔۔۔ اور اس کو ان کیا۔۔
ہیلو امیل تم سن رہے ہو ۔۔ ایم-زی نے
اپنے بلیو توتھ پر ایک انگلی رکھ کر آمیل سے کنٹیکٹ کی کوشش کی تھی۔۔
ہاں سن رہا ہوں ایم-زی۔۔ آمیل نے فوراً
رسپانس دیا تھا۔۔
میں ڈیوائس ایکٹیویٹ کر چکا ہوں دیکھو سب
کیمرا کنیکٹ ہوئے ہیں کے نہیں ۔۔۔ ایم-زی نے اس کو ڈیوائس کنیکٹ کرتے ساتھ کہا تھا
۔
ایم-زی سب کنیکٹ ہو گئے ہیں ۔۔ اب جلدی
سے نکلو باہر تم سب ۔۔ آمیل نے یہ کہتے ساتھ لیپ ٹاپ کو اٹھیا تھا۔۔
دوسری طرف وہ سب جس خاموشی سے اس عالیشان
گھر میں آئے تھے اسی خاموشی سے باہر نکلے تھے۔۔ عمران لغاری غفلت کی نیند سوتا رہ
گیا تھا جبکہ ان کا پلین آرمی کے ہاتھ لگ چکا تھا اور اب ان کے ساتھ ایم-زی کیا
کرنے والا تھا وہ انجان تھے۔۔۔۔۔
••••••••••••••
امل بیگم اور روحا بیگم کچن میں ناشتا
بنا رہی تھی۔۔۔
جبکہ آمنہ ، جزا اور سویرا باہر ڈائینگ
سیٹ کروا کر اب اپنے اور نور کے لیے ناشتا ٹرے میں ڈال کر اوپر لے کر جا رہی تھی۔۔
اور دوراب ان کی ساری کاروائی دیکھ کر صبر کے گھونٹ بھر رہا تھا۔۔۔
وہ واپس اپنے کمرے میں آیا تھا ۔۔
تو فکر نہ کر میں اور رحیان ڈیل کریں گے
آج ان سے۔۔ آیان نے دوراب کو صبر کرتا دیکھ کر بولا تھا۔۔
ویسے یار اتنا برا آئیڈیا نہیں ہے ہمارا
ایک بار تم سب اس میں ہمارے ساتھ شامل تو ہو جاؤ ۔۔۔ رحیان نے حدید، زوریز اور
دوراب کو دیکھ کر بولا تھا۔۔
یار ایک بار ہماری مان جاؤ ۔۔ آیان نے اب
ان تینوں کو دیکھا تھا۔۔ دوراب نے نہ چاہتے ہوئے بھی ہامی بھرلی تھی۔۔ تو مجبوراً
حدید اور زوریز کو بھی ہامی بھرنی پڑی۔۔۔
ان کو یہ ہامی کتنی مہنگی پرنی تھی اس کا
ان کو اندازہ نہ تھا۔۔۔
امل بیگم، روحا بیگم آمنہ ، جزا اور
سویرا کو گھر اور نور کا خیال رکھنے کو بول کر خود مارکیٹ کے لیے نکل گئی تھی۔۔
جبکہ وہ سب ابھی ناشتا کر کے ہٹی تھی۔۔۔
کیا یار اب یہ سب کام ہمیں کرنے پڑیں
گے۔۔ آمنہ رونے والی ہو گئی تھی ۔۔
جی بلکل ۔۔۔ جزا نے بیچارگی سے بولی
تھی۔۔
تم دونوں ہی کرنا میں تو بچی ہوں۔۔ سویرا
نے معصومیت سے کہا تھا جبکہ جزا اور آمنہ اس کی شکل دیکھتی رہ گئی۔ اور پاس بیٹھی
نور ہنس پڑی تھی ۔۔
تم ہنسوں مت۔۔۔ آمنہ نے نور کو گھورتے
ہوئے بولا تھا۔۔
جتنا تم دونوں دوراب پر ظلم کر رہی ہو تو
اتنا تو میرا حق بنتا ہے نہ کہ میں تم دونوں کی اس حالت پر ہنسوں۔۔۔ نور دونوں کو
منہ چیراتے ہوئے بولی تھی ۔
فور یور کئنڈ انفورمیشن ۔۔ آپ خود بھی اس
ظلم میں پیش پیش ہیں ۔۔۔
جزا نے نور کو گھوری کروائی تھی۔۔
اچھا اچھا ٹھیک ہے زیادہ باتیں نہ سناؤ
۔۔۔ نور نے ناک پر سے مکھی اڑائی تھی۔۔
••••••••••••••
وہ ابھی سو کر اوٹھی تھی۔۔ اس کا سر
مسلسل چکرا رہا تھا۔۔ سائیڈ ٹیبل پر پرا پانی کا گلاس اٹھایا اور دو گھونٹ پانی کے
لیے تھے۔۔ کچھ دیر یوں ہی بیٹھی چھت کو
گھورتی رہی تھی۔۔۔ جیسے زندگی سے بیزار ہو رہی ہو ۔۔۔ جیسے کیسی نئی امید کی تلاش
میں ہو۔۔ جیسے کچھ غلط ہونے کا احساس ہو۔۔ جیسے کچھ غلط کرنے کی ندامت ہو۔۔۔ وہ آج
کل خود میں اور اپنے بے شمار خیالوں میں الجھ چکی تھی۔۔ وہ اپنی سوچوں کو ایک طرف
کرتی اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔۔ بستر سے نکلی آگے بڑھ کر کھڑکی کے آگے سے پردہ اٹھایا
تھا۔۔۔ تو سامنے ہی دبئی کی بلندی عمارتوں کا منظر تھا۔۔۔ للی کو اچانک اپنا سر
گھومتا محسوس ہوا فوراً صوفے پر بیٹھ گئی۔۔۔
کچھ دیر ایسے ہی بیٹھی رہی پھر اٹھی اور
اپنے کپڑے نکال کر فریش ہونے چلی گئی ۔ آج شام میں اس کی امریکہ کی فلائٹ تھی۔۔۔ شہزاد
کے جانے کے بعد اس نے اپنی بہن کے پاس جانے کا فیصلہ کیا تھا جو امریکہ میں رہتی
تھی ۔۔۔ مسلسل خراب ہوتی طبعیت کی وجہ سے وہ آج پہلے ڈاکٹر کے پاس جانا چاہتی تھی
اور پھر وہاں سے آ کر اس نے امریکہ کے لیے نکلنا تھا۔۔۔۔ شیشے کے سامنے کھڑی وہ
میک آپ کرنے لگی تھی جب اس کی نظر اپنے ہونٹ پر بنے زخم پر گئی تھی جو اب تھوڑا
مدہم ہو گیا تھا ۔۔۔ اس کو شہزاد کا خود پر ہاتھ اٹھانا یاد آیا تھا۔۔۔ ایک لمحے کے
لیے اس کی آنکھیں بھیگی تھی مگر پھر اپنے آنسوؤں کو اندر اُترتی تیار ہونے لگ گئی
تھی۔
کتنا اذیت ناک لمحہ ہوتا ہے جب آپ رونا
چاہتے ہو جو انسو نکلنے کے لیے بےتاب ہوتے ہیں ان کو بھانا چاہتے ہو مگر آپ جانتے
ہو کہ آپ اکیلے ہو آپ کے پاس کوئی ہمدرد نہیں کوئی آپ کے آنسو نہیں صاف کرے گا۔۔
تب آپ اپنے آنسوؤں کو واپس خود میں اتر لیتے ہو۔۔ وہ آنسوں جو نکلنے کو بیتاب ہوتے
ہیں جب ان کو واپس اندر اتارا جائے تو بہت تکلیف ہوتی ہے دل کٹتا ہے اس وقت اس وقت
انسان کو اپنی بے بسی پر رونا آتا ہے۔۔۔
وہ اس وقت ہاسپٹل روم میں تھی۔ جب اس کے
سامںے ایک لیڈی ڈاکٹر آ کر بیٹھی تھی۔۔
MISS LILY
Didn't your husband come with you?
ڈاکٹر نے پروفیشنل انداز میں اس سے پوچھا
تھا۔۔۔
Husband.......
للی نے اس الفاظ کو دہرایا تھا۔۔۔۔ اس کے
کو شہزاد کا خیال آیا تھا۔۔ مگر وہ اس کا شوہر نہیں تھا تبھی سر نفی میں ہلایا۔۔۔
No, they
are not here.
للی نے چہرے پر بامشکل مسکراہٹ سجا کر
بولا تھا جبکہ ابھی اس کا دل کٹنے کو دوڑا تھا۔۔
Oh no
problem, there is good news for you and your husband. Both of you are going to
be parents.
ڈاکٹر نے اس کو مسکرا کر دیکھا تھا۔۔۔ جبکہ ڈاکٹر کے الفاظ سن کر للی کو حیرت
ہوئی تھی۔۔۔۔
ڈاکٹر اور بھی کچھ بول رہی تھی مگر وہ سن
کہاں رہی تھی۔۔ اس کو تو ابھی تک ڈاکٹر کے پہلے بولے گئے الفاظ سنائی دے رہے تھے
۔۔۔۔
کچھ دیر میں وہ اپنی فائل وغیرہ لے کر
ہاسپٹل سے نکلی تھی۔۔ وہ ابھی تک شاکڈ تھی۔۔ وہ خاموشی سے چلتی پاس بنے کیفے میں آ
گئی تھی۔۔ ڈاکٹر کی باتوں کا سوچ سوچ کر سر پھٹنے کو ہو گیا تھا۔۔۔ اپنے لیے کافی
آرڈر دے کر وہ مسلسل اس بات کے بارے میں سوچتی چلی جا رہی تھی۔۔ کہ وہ شہزاد کو
کیسے یہ بات کیسے بتائیں گئی ، وہ کیسا ریایکٹ کرے گا۔۔ کیا وہ اس بچے اور اس کو
اپنائے گا۔۔ نہ جانے کتنے سوال اس کے دماغ میں اس وقت گھوم رہے تھے ۔۔ جب ایک ویٹر
نے اس کے سامنے کوفی لا کر رکھ دی تھی۔۔۔۔
للی خاموش بیٹھی کوفی کے کپ کو دیکھ رہی تھی۔۔ اور اپنے ماضی، حال اور
مستقبل کی الجھنوں میں گم تھی۔۔۔۔۔ اس نے کوفی کا ایک گھونٹ بھرا اور بےزار سی
اپنی جگہ سے اٹھی تھی اور واپس ہوٹل جانے لگی اپنا سامان لینے۔۔۔۔
خاموش آنکھیں ، اداس چہرے کے ساتھ وہ
دبئی کے ائیرپورٹ پر بیٹھی تھی ۔۔ بار بار نظریں اٹھا کر آس پاس دیکھتی تھی کیسی
آس سے۔۔ مگر وہ نہیں جانتی تھی وہ جس کو دیکھانا چاہتی ہے اور جس کو دیکھنے کے لیے
دل بے چین ہے وہ ادھر ہے ہی نہیں ۔ اس کی فلائٹ کا وقت ہو گیا۔۔ کچھ ہی دیر میں
جہاز ہوا میں پرواز کر رہا تھا ایک آخر نظر دبئی پر ڈالے وہ دبئی کے حدود سے باہر
نکل گئی تھی اس بات سے انجان کے یہ سفر اس کی زندگی میں کون سی تبدیلیاں لانے والا
ہے ۔۔۔
•••••••••••••
پلین امریکہ کے سٹیٹ کیلیفورنیا کے شہر
لوس اینجلس میں لینڈ کیا تھا۔۔ اس شہر کو انجلیز کا شہر کہا جاتا ہے۔۔ یہ نیوروک
کے بعد امریکہ کا دوسرا بہت مشہور شہر ہے اور اس کی شہرت کی وجہ اس کے بہت خوبصورت
سیاحتی مقامات۔۔۔
وہ ائیرپورٹ سے باہر آئی اور اپنے لیے
ایک کیب کی تھی۔۔ اس نے اپنی بہن کو اپنے آنے کا نہیں بتایا تھا وہ اتنے سالوں بعد
اس سے ملنے والی تھی تو وہ اس کو سرپرائز دینا چاہتی تھی۔۔ وہ تو اس وقت بھی اپنی
بہن سے ملنے نہ آ پائی تھی جب اس کا بیٹا ہوا تھا۔۔۔
وہ کیب میں بیٹھی پاس سے گزارتی گاڑوں کو
دیکھتی خاموش اور اولجھی سی اپنی منزل کی
طرف بڑھ رہی تھی ۔۔۔ کار ایک خوبصورت گھر
کے سامنے روکی تھی جس کے باہر لون حصے میں ہر قسم کا پھول تھا ۔ اس علاقے میں
تقریباً سب گھر ہی کافی حد تک ایک جیسے تھی۔۔
وہ جس گھر کے سامنے کھڑی تھی وہ باہر سے
سفید تھا اور اس کی چھت بلیک کلیر میں پینٹ تھی۔۔ اس نے گھر کی بیل بجائی تھی اندر
سے کوئی لڑکی بولتی ہوئی آ رہی تھی ۔۔ جیسے ہی دروازہ کھولا تھا تو کھولنے والی
لڑکی بلکل حیران کھڑی تھی جیسے اس کو اپنی آنکھوں پر یقین نہ آ رہا ہو۔۔۔
Lilly......
گولڈن بالوں والی اور سبز آنکھوں والی
لڑکی نے حیران ہوتے ہوئے کہا تھا۔۔۔
Rosina...
للی نے آگے بڑھ کر روزینہ کو گلے لگا لیا
تھا۔۔۔
I can't
believe you are here in front of me۔۔
روزینہ بھری ہوئی آواز میں ںولی تھی۔۔۔
I'm here,
trust me۔۔
للی نے یہ کہتے ہوئے اس کے گال پر اپنے
ہونٹ رکھے تھے ۔۔
I can't
tell you how much I miss you, I have many complaints against you... I hate
you lilly...
روزینہ نے روتے ہوئے اس کو پھر سے گلے
لگیا تھا۔۔
But I love
you sissy ...
للی اس کو دیکھ جر آنکھ ونک کرتی ۔۔
Let's go
inside. I have to talk to you a lot. Oh, I forgot, you have traveled so much,
first eat something and then rest. Then both sat and talked a lot and I also
introduced you to your nephew. Let's hurry .
روزینہ اس کا ہاتھ پکڑ کر اس کو اندر لے کر گئی
تھی اس کی خوشی کی کوئی حد نہ تھی۔۔۔۔ اتنے وقت بعد وہ اپنی بہن سے ملی تھی۔۔۔۔
روزینہ للی کو لے کر اندر آئی تھی۔۔
سامنے کی بے بی کاٹ میں ڈھیڈ سال کا نیک لیٹا ہوا تھا۔۔۔۔ للی اپنا ہاتھ چھوڑا کر
فوراً سے اس کے پاس گئی تھی اور اس کو اپنی گود میں اٹھا لیا۔۔۔۔ سرخ سفید رنگ،
پھولے ہوئے گال، نرم سا جسم، سیاہ بال اور سیاہ موٹی اور چمکتی آنکھوں والا نیک للی
کو بہت پیار لگا تھا۔۔۔ مگر للی نے جب اس کی سیاہ آنکھوں میں دیکھا ایک لمحہ کے
لیے اس کو کیسی اور کی سیاہ آنکھیں یاد ائی تھی۔۔۔ اس کو وہ آنکھیں بہت دیکھی
دیکھی لگی تھی۔۔۔ مگر پھر اس نے اپنا سر نفی میں ہلاتے نیک کے منہ کو چوم ڈالا
تھا۔۔ اور وہ بچارا اپنی خالہ کے اس پیار
کی وجہ سے رونے لگ گیا تھا۔۔ اور اپنی موٹی سیاہ آنکھوں سے اپنی اس خوبصورت
خالہ کو گھورنے لگا تھا۔ اس کی گھوری پر للی نے اس کو منہ چرایا اور دوبارہ اس کے
منہ کو چُومنے لگی تھی۔۔ روزینہ للی کو
اپنے بیٹے پر تشدد کرتا دیکھ کر سر نفی میں ہلانے لگی تھے۔ نیک کو واپس بے بی کارٹ
میں ڈالا اور روزینہ کے ساتھ صوفے پر بیٹھ گئی تھی۔۔ وہ دونوں اتنے سالوں بعد ملی
تھی دونوں کے پاس ہی باتوں کا انبار تھا۔۔ وہ دونوں مسکراتی ایک دوسرے سے باتیں کر
رہی تھی اور وقت گزارتا چلا جا رہا تھا۔۔
للی اور روزینہ دونوں ہی اس بات سے انجان
تھی کہ ان پر بہت جلد کون سی آفت آنے والی ہے۔۔ وہ کس حادثہ کا شکار ہونے والی ہیں
۔۔ کیا یہ ان کی آخری ملاقات تھی۔۔
•••••••••••••
اب یہ بتاؤ تم لوگوں میں سے کون جائے گا
ان کے پاس ڈیل ڈان کرنے۔۔ وہ سارے اس وقت دوراب کے کمرے میں ڈیرا جما کر بیٹھے
تھے۔۔ جب حدید بولا تھا۔۔
جنہوں نے ڈیل کرنے کا بولا ہے نہ ان کو
ہی بھیجوں ۔۔ زوریز نے شان بے نیازی سے بولا تھا۔۔۔
چلو اٹھو دونوں جاؤ جا کر ڈیل ڈان کر کے
آؤ کوئی۔۔ دوراب نے پاس پڑا پیلو اٹھا کر آیا اور رحیان کی طرف پھینکا تھا ۔
دیکھو بات سنوں تم سب بھی ساتھ چلو گے۔۔
اور ڈیل ہم دونوں کر لیں گئے ۔۔ آیان نے ان سب کی طرف دیکھتے ہوئے کہا تھا۔۔
ہمممم چلو پھر اٹھو۔۔۔ دوراب فوراً کھڑا
ہوا تھا۔۔۔
بہت جلدی ہے سرکار۔۔۔ رحیان نے دوراب کو
دیکھ کر آنکھ ونک کی تھی۔۔
یار سمجھا کر نہ نکاح میں ایک دن رہ گیا
ہے اور بھائی صاحب نے ابھی تک بھابھی کو دیکھا تک نہیں ہے۔۔ آیان نے بھی دوراب کا
تاوا لگایا تھا۔۔
کیا کریں مجبوراً ہی بہت ہیں ۔۔۔ رحیان
پھر سے بولا تھا۔۔
تم دونوں اٹھ رہے ہو یا اٹھا کہ گھر سے
باہر پھینکوں ۔۔ دوراب سخت بیزار سا بولا تھا۔۔
اب وہ پانچوں آگے پیچھے کمرے سے باہر
نکلے تھے۔۔ مگر ان کو کون بتاتا کہ وہ پانچوں یہ نہیں جانتے تھے کے آج مشہور اور
شارپ بزنس مین خود چل کر بالی کا بکرا بنے جا رہے تھے۔۔
دوسری طرف جزا ، آمنہ اور سویرا کچن میں
کھڑی تھی ڈوپٹہ تینوں نے ایک سائیڈ پر باندھ رکھے تھے۔۔ ان کو کچھ سمجھ نہیں آ رہی
تھی کہ وہ اب اس گھر کے کاموں کا کیا کریں۔۔ تب ہی دوراب ، زوریز ، حدید ، آیان
اور رحیان کچن میں آئے تھے۔۔۔
بات کرنی ہے تم تینوں سے۔۔ دوراب سیدھا
پوائنٹ پر آیا تھا۔۔
جی بولیں ۔۔ آمنہ نے اپنے بھائی کو
دیکھتے بولا ۔
وہ ایسا ہے کہ ہم ایک ڈیل کرنے آئیں ہے۔۔
دوراب سے پہلے آیان بولا تھا۔۔
ڈیل؟؟ کیسی ڈیل؟؟؟ آمنہ نے ان کو الجھ کر
دیکھا تھا۔۔ جبکہ آمنہ کے اس طرح دیکھنے پر آیان کو اس کا دل بے قابو ہوتا ہوا لگا
تھا۔۔
ہاں وہ ہم یہ کہنا چاہا رہے تھے کہ آپ
لوگ ہماری ایک بات مان جائیں بدلہ میں ہم آپ کی ایک بات مان جائیں گے۔۔۔ رحیان اب
کی بار بیچ میں بولا تھا۔۔۔
اچھا اور آپ سب ہم سے کون سی بات منوانا
چاہتے ہیں ۔۔ سویرا ناک چرا کر کمر پر ہاتھ رکھ کر بولی تھی۔۔ زوریز ، حدید ،
دوراب اور آیان نے حیران ہو کر اس چھوٹی سی آفت کو دیکھا تھا ۔۔ جبکہ رحیان سویرا
کی اس ادا پر دل وار بیٹھا تھا۔۔
بتا بھی دیں ۔۔ آمنہ اب کے بولی تھی۔۔
وہ بات یہ ہے کہ دوراب کو صرف تھوڑی دیر
کے لیے نور سے ملنے دو بدلے میں کہوں گئی وہ ہم سب مانے کے لیے تیار ہے۔۔ آیان نے
بات کلیر کی تھی۔ جبکہ آیان کی بات سن کر جزا کے دماغ میں ایک آئیڈیا آیا تھا اور اس کے چہرے پر ایک خاص مسکراہٹ
تھی۔۔ اور جزا کے چہرے کی مسکراہٹ زوریز کے دل پر چھڑی کا کام کر رہی گئی تھی۔۔
مگر زوریز کو اس کی اس مسکراہٹ سے خطرے کی گھنٹی بجتی محسوس ہوئی تھی۔۔۔
جو بھی کام بولیں ہم وہ آپ لوگ کریں گے
۔۔ جزا نے ان کی بات کی تصدیق کرنی چاہی۔۔
ہاں ہاں بلکل جو کام بھی بولو گی آپ لوگ وہ کریں گے۔۔۔ آیان رحیان
ایک ساتھ بولے تھے ۔۔۔
اوکے ویٹ ۔۔ میرے ساتھ آؤ گرلز۔۔۔ جزا یہ
کہتے ساتھ کچن سے باہر نکلی تھی اور اس کے پیچھے آمنہ اور سویرا بھی باہر نکلی تھی
۔
اب یہ کدھر گئی ہیں ۔۔۔ آیان نے دوراب ،
زوریز اور حدید کی طرف دیکھ کر بولا تھا جبکہ رحیان ابھی تک سویرا کے معصوم چہرے
کے تصور میں گم تھا۔۔
ہمارے لیے کام کا بندوبست کرنے۔۔ زوریز
بولا تھا۔۔
جبکہ باقی سب کو ان کے آنے کا انتظار
تھا۔۔ اور وہ تینوں ایک ساتھ بیٹھی سر کے ساتھ سر جوڑے لگی ہوئی تھی۔۔
جزا تم کرنا کیا چاہتی ہو ۔ آمنہ نے جزا
سے پوچھا تھا۔
ڈیل۔۔ جزا نے چہرے پر مسکراہٹ سجائے بولا
تھا۔۔
تو کیا ہم بدلے میں نور کی ملاقات دوراب
بھائی سے کروائیں گے؟؟؟ سویرا نہ حیران ہو کر پوچھا تھا۔۔
ایسا کس نے بولا کہ ہم دوراب بھائی کو
نور سے ملنے دیں گے ۔۔ ہم تو بس اپنا فائدہ نکالیں گے ۔۔ ان کو بھی تو مزہ چکھنا
ہے نہ تاکہ اگلی دفعہ ڈیل کرنے سے پہلے سو
بار سوچیں یہ لوگ۔۔ جزا نے بہت معصومیت سے بولا تھا۔۔
تو اب ہم کیا کریں گے۔۔ آمنہ نے اپنا
سوال اس کے سامنے رکھا تھا۔۔
سارے گھر کے کام جو ہم نے کرنے تھے اب یہ
کریں گے۔۔ جزا نے اپنی مسکراہٹ دباتے کہا تھا ۔ جبکہ اب کی بار آمنہ اور سویرا کے
منہ پر بھی شرارتی مسکراہٹ آ گئی تھی۔۔ وہ تینوں اٹھی اور واپس کچن میں گئی تھی۔۔
جہاں وہ پانچوں ابھی تک کھڑے تھے۔
ہاں تو پھر آپ کو ہم جو بھی کہیں گئ آپ
کوگ مانے گے نہ۔۔ جزا نے بلا کی معصومیت سے پوچھا تھا ۔۔ اور اس کی اس معصومیت پر زوریز
اش اش اٹھا تھا۔۔۔
جی بلکل ۔۔ آیان نے ہامی بھر لی تھی۔۔
اوکے تو پھر ہماری ڈیل کچھ ایسی ہے کہ آپ
لوگوں کو کچن صاف کرنا ہے ، کھانا بنانا ہے گھر کی صفائی کرنی ہے اور کچھ کپڑیں
ہیں وہ بھی دھونے ہیں۔۔ اور ساتھ باہر گیراج بھی دھولنے والا ہے وہ بھی دھونا ہے۔۔
منظور ہے کہ نہیں ۔۔۔ جزا نے ان سب کے سر پر بم پھاڑ کر اتنے آرام سے پوچھ رہی تھی
جیسے کہہ رہی ہو آپ لوگ چائے لیں گے یہ پانی ۔
جبکہ ان پانچوں کا چہرہ اس وقت دیکھنے کے
قابل تھا۔۔ دوراب آیان کو ایسے دیکھ رہا تھا جیسے ابھی کھا جائے گا۔۔
سوچ لیں سوچ لیں پھر آرام سے بتا دیجیے
گا۔۔ جزا اور آمنہ ایک ساتھ بولتی باہر ٹی-وی لاؤنج کی طرف بڑھی تھی ۔
آ گیا سکون سن لیا ۔۔ ان کے جاتے ہی حدید
بولا تھا۔۔
میں تو پہلے بولا تھا رسک ہے۔۔ زوریز نے
کندھے اوچکے تھے۔۔
بتاؤ اب کیا کرنا ہے؟؟دوراب نے ان سب کی
طرف دیکھ کر بولا تھا ۔
دیکھ بھائی ملنا تو نے ہیں ہمیں کس جرم
کی سزا۔۔ حدید تپ کر بولا تھا۔۔
اس کا دوست ہونے کی۔۔ اس سے پہلے دوراب
کچھ بولتا زوریز بول پڑا تھا۔۔۔ دوراب بس زوریز اور حدید کو گھورتا رہ گیا۔۔
تجھے ملنا ہے تو ہمیں پھر یہ کرنا پڑے
گا۔۔ آیان نے دوراب کو دیکھ کر بولا تھا ۔
چلو پھر اپنی دوستی کا ثبوت دو۔۔ دوراب
نے ان سب کو دیکھ کر بولا ۔
سالے اتنے سالوں کی دوستی کے بعد آج تجھے
ثبوت چاہیے ۔۔ میں تیرا منہ نہ توڑ دوں۔۔ زوریز آگے کو بڑھا تھا اور اس کا گریبان
پکڑ لیا ۔
اچھا اچھا معاف کر دے ۔۔ بس آج میرے لیے
کر لو۔۔ دوراب نے زوریز کو بیچارگی سے دیکھا تھا۔۔
دل تو کر رہا ہے اس کا سر کھول دوں میں
جو اس کے دماغی میں یہ آئیڈیا آیا تھا۔۔ حدید نے آیان کو گھور کر بولا تھا ۔۔
اب وہ پانچوں ان تینوں کے پاس تھے اور
ڈیل ڈان کر چکے تھے۔۔۔
••••••••••••••
آیان سنک کے سامنے کھڑا ہاتھ میں سپنچ
لیے برتن دھو رہا تھا ۔۔ جب آمنہ نے ایک بڑی سی دیگچی نکال کر دی تھی۔۔
اس کو بھی دھو دینا آپ۔۔ آمنہ شان بے
نیازی سے بولی تھی ۔
اور دھولنے والے برتن بھی دیکھ لیں ۔۔
آیان چہرے پر جبران مسکراہٹ سجائے بولا تھا سامنے دشمن جاں تھی اس کو تو کچھ کہہ
نہیں سکتا تھا۔۔
اوکے ویٹ۔۔ یہ کہتے ساتھ آمنہ کچن میں
برتن دیکھنے لگی تھی۔۔ اور تھوڑی ہی دیر میں آمنہ میڈم آیان کے سامنے برتنوں کا
پہاڑ کھڑا کر چکی تھی۔۔
یہ سارے برتن دھو دینا اوکے۔۔ یہ کہہ کر
وہ باہر نکل گئی تھی جبکہ پیچھے آیا رونے والا ہو گیا تھا برتنوں کا انبار دیکھ
کر۔۔
لعنت ہے تیرے پر آیان کون سی منہوس گھڑی
میں ڈیل کا پلین سوچا تھا ۔۔ آیان خود کو کوستا ہوا دوبارہ برتن دھونے لگ گیا تھا
۔
دوسری طرف رحیان اس وقت ٹی-وی لاؤنج اور
سیڑھیوں کی صفائی کر رہا تھا۔۔ جب سویرا اس کے پاس آ کر کھڑی ہوئی تھی۔
آپ کے پیچھے ابھی بھی گند ہے جھاڑو ٹھیک
سے لگائیں ۔۔۔ رحیان جو اپنی دھن میں کام کر رہا تھا سویرا کی آواز پر سیدھا ہوا ۔
پیچھے کدھر۔۔ رحیان نے پریشان ہو کر
سویرا کی طرف دیکھا تھا۔۔
وہ پیچھے ۔۔ سویرا نے ہاتھ کے اشارے سے اس
کو بتایا تھا ۔
جب رحیان نے پیچھے موڑ کر دیکھا تو اس کا
منہ کھولا رہ گیا تھا جہاں ڈھر سارے ریپرز پڑے تھے جبکہ وہ تو ابھی ادھر سے صاف کر
کے آیا تھا ۔
آنکھیں کھول کر صفائی کریں ۔۔۔ سویرا
چیرانے والی مسکراہٹ رحیان کی طرف اچھالتی بولی تھی اور ادھر سے چلی گئی۔۔۔
کون سی منہوس گھڑی میں آیان کا ساتھ دیا
تھا میں نے۔۔۔ رحیان آہ بھرتا رہ گیا تھا۔۔
اللّٰہ یہ ےو عزت کا فالودہ کر رہی ہیں
۔۔ رحیان نے اوپر دیکھتے ہوئے سدا دی تھی۔۔
••••••••••••
حدید باہر گیراج دھو رہا تھا۔۔ اور ساتھ
ہی غصہ میں کچھ بربرا رہا تھا۔۔
کوئی مانے گا کہ میں دبئی نے ڈون کا رائیٹ
ہینڈ ہوں۔۔ ایک دنیا مجھے آمیل کے نام سے جانتی ہے اور میری دہشت سے ڈارتی ہے ۔۔
اور کہاں میں ادھر گیراج دھو رہا ہوں۔۔ وہ بھی چٹاکی جتنی لڑکیوں کی وجہ سے۔۔
حدید بھائی گیراج اچھے سے دھوئیں ۔۔۔
آمنہ اور سویرا ایک ساتھ بولی تھی۔۔ حدید نے نظر اٹھا کر ان کو دیکھا تو وہ دونوں
معصوم شکلیں بنا کر کھڑی ہو گئی تھی ۔۔
معصوم آفتیں ۔۔۔ حدید منہ میں بربرایا
تھا۔۔۔
حدید بھائی یہ ادھر سیڑھیاں بھی ہیں اس
کو بھی دھونا ہے۔۔ سویرا نے حدید کو دوبارہ بولیا تھا۔۔۔
ہاں ہاں دھو رہا ہوں۔۔ حدید بامشکل نرم
لہجے میں بولا تھا اس کو رہ رہ کر آیان پر غصہ آ رہا تھا۔
گڈ گڈ جلدی کریں ابھی کھانا بھی بنانا ہے
آپ لوگوں نے۔۔ آمنہ یہ کہتی واپس اندر کی طرف موڑی تھی اور سویرا اس کے پیچھے گئی
تھی۔۔
واقع ہی دوراب صحیح کہہ رہا تھا یہ لوگ بہت
تیز ہیں۔ حالت خراب کروا دی ہے انہوں نے تو۔۔ حدید نے دوہائی دی تھی ۔۔۔
•••••••••••••••
جزا کب کی کھڑی زوریز اور دوراب کو کپڑے
دھوتا دیکھ رہی تھی۔۔۔ جو کپڑوں میں ہی الجھے پڑے تھے۔۔۔
کیا مصیبت ہے یہ۔۔ زوریز نے تنگ آ کر
ہاتھ میں پکڑی ایک شڑٹ ایک طرف پھینکی تھی۔۔
حالت خراب کروا دی ہے انہوں نے تو۔۔
دوراب نے ماتھے پر آیا پسینہ صاف کیا تھا ۔
تو تو یہ نہ ہی بول تو بہتر ہے۔۔ جہاں
اتنے دن صبر کیا تھا وہاں ایک آدھ دن اور صبر کر لیتا تو مر جانا تھا تو نے ۔۔۔ زوریز نے دوراب کو غصے سے گھورا تھا۔۔۔
میں کیا کیا ہے؟؟ دوراب بےچارگی سے بولا
تھا۔۔
میرا سر کیا ہے۔۔ زوریز تپ کر بولا اور
دوراب کو گھور کر دیکھا تھا ۔
ہمم ہمم ۔۔۔ جزا نے تھوڑا آگے آ کر ان کو
اپنی طرف متوجہ کیا تھا۔ ان دونوں نے ایک ساتھ موڑ کر پیچھے دیکھا تھا۔۔
دیکھیں جو غصہ ہے یا جو بھی معاملا ہے اس
کا غصہ ان بیچارے کپڑوں پر مت نکالیں۔ پھٹ جائیں گے یہ۔۔۔ جزا نے ان دونوں کے
ہاتھوں میں پکڑے کپڑوں کی طرف۔ اشارہ کیا تھا ۔۔ جہاں ان دونوں مردوں کے ہاتھوں میں موجود کپڑے
اپنی قسمت پر رو رہے تھے۔۔۔
نہیں نہیں ہم تو غصے سے نہیں دھو رہے۔۔
دوراب نے چہرے پر مسکراہٹ سجائی تھی اپنی شرمندگی چھپانے کے لیے ۔۔۔
او اچھا اچھا۔۔۔ جزا نے اپنی ہنسی کا گلا
گھونٹتے ہوئے سر ہاں میں ہلایا تھا اب وہ ان کو کیا بتاتی کے وہ ان کی سری بربراہٹ
سن چکی ہے۔۔۔
ویل تھوڑے پردے بھی ہیں وہ میں لائی ہوں یہ بھی دھو دیں۔۔ جزا نے معصومیت
سے پاس پڑی ٹوکری کی طرف اشارہ کیا تھا۔۔ جبکہ اس میں موجود پردے دیکھ کر دوراب
گرنے والا ہو گیا تھا اور زوریز تو حیرت سے کبھی اس ٹوکری اور کبھی جزا اور اپنے
ہاتھ میں پکڑے سرف کی جھاگ سے بھرے کپڑے دیکھ رہا تھا۔۔۔
ایک کام کریں آس پڑوس سے بھی پوچھ لیں
کیسی نے کپڑے دھلوانے ہوں۔۔ زوریز نے جزا کی طرف دیکھ کر طنزیہ بولا تھا ۔
آپ کو کپڑے دھونا اتنا مزے کا کام لگے گا
مجھے اندازہ نہیں تھا۔۔ چلیں آپ ادھر سے فری ہو کر آس پڑوس خود جا کر پوچھ لیجیے
گا اور کپڑے دھو آئیے گا۔۔۔ کیونکہ میرے پاس اتنا ٹائم نہیں ورنہ پکا آپ دونوں کو
خود چھوڑ آتی۔۔۔ جزا نے چاشینی بھرے لہجے میں بولا تھا۔۔ جبکہ اس کی بات سن کر
زوریز گرتا گرتا بچہ تھا کہ ایک چٹاک بھر کی لڑکی اس کے سامنے اتنے کنفیڈنس سے
زبان چلا رہی تھی ۔ جبکہ دوراب تو جزا کے جواب پر اپنا قہقہہ روک رہا تھا۔۔
نہیں ضرورت نہیں اس کی۔۔ زوریز جل کر
بولتا واپس سے مشین کی طرف موڑا تھا اور اس میں سے کپڑے نکالنے لگا تھا۔۔
چلیں جو بھی ہو دیکھ لیجیے گا۔۔ اگر مزید
کپڑے دھوںے کا موڈ ہوا تو۔۔۔ جزا یہ کہہ کر وہاں سے چلی گئی تھی۔۔ اور اس کے جاتے
ساتھ دوراب کا قہقہہ گونجا تھا ۔۔۔
خبیث انسان ہسنا بند جر ورنہ نکاح سے پہلے
تیرے سارے جے سارے دانت توڑ دوں گا میں۔۔۔ زوریز نے دوراب کو دور دھکیلا تھا۔۔ جبکہ
دوراب کی ہنسی کو بریک نہیں لگ رہی تھی۔۔
دانت میرے بعد میں توڑ لینا پہلے تو یہ
بتا تو اب کب جا رہا ہے آس پڑوس کپڑے دھونے۔۔ دوراب نے ایک آنکھ ونک کر کے زوریز
کی طرف دیکھا۔۔
تجھے دھو کر۔۔ اور یہ کہتے ساتھ زوریز نے
دوراب کی طرف پانی سے پھری بالٹی پھینکی تھی۔۔ اور دوراب پھر سے ہسنے لگا تھا۔۔ اب
کی بار زوریز کے چہرے پر بھی ہلکی مسکراہٹ آئی تھی۔۔۔۔۔
جو بھی کہو ان جو لڑکیاں ملی ٹکڑ کی تھی
۔۔
•••••••••••••
جزا ، آمنہ اور سویرا نور کے پاس کمرے
میں بیٹھی ٹی-وی پر مووی دیکھ رہی تھی جب نور کو کچھ یاد آیا ۔۔
تم لوگوں نے کام کر لیا ہے۔۔ نور نے ان
کو گھورتے دیکھا تھا ۔۔
کیونکہ وہ تینوں بہت جلدی روم میں آ گئی
تھی۔۔ اور یہ بات نور کو ہضم نہیں ہو رہی تھی۔۔
ہم کام کروا آئی ہیں ۔۔ جزا کچھ بولنے
لگی تھی کہ سویرا بول پڑی تھی۔۔ اور آمنہ اور جزا نے اپنا سر پیٹ لیا ۔۔ جبکہ نور
ان کو مشقوق نظروں سے دیکھ رہی تھی۔۔
کس سے کروا کر آئی ہو ۔ نور نے ان تینوں
کو گھور کر دیکھا تھا۔۔۔
کیسی سے بھی تو نہیں ۔۔ آمنہ موقع پر
مکری تھی۔۔
جھوٹ بول رہی ہو تم۔ سچ سچ بتاؤ ورنہ میں
باہر جا کر خود دیکھوں گی۔۔ نور نے آمنہ ،جزا کو آنکھیں دیکھائی تھی ۔۔
اچھا نہ ایسے نہ گھور۔۔۔ ایسا کچھ نہیں
ہے تو ریلیکس رہ۔۔ جزا نے نور کو کام-ڈائون کرنے کی کوشش کی تھی۔۔۔
میں ریلیکس ہی ہوں ۔۔ تم لوگ بتاؤ کیا کر
کے آئی ہو۔۔ یا میں باہر جا کر خود دیکھ لوں۔۔۔ نور کمر پر ہاتھ رکھ کر لڑاکا
عورتوں کی طرح بولی تھی۔۔
زیادہ کچھ نہیں بس ایک ڈیل کرنے کی کوشش میں تھے وہ لوگ توہم نے بھی ان کو مزہ چکھنا اپنا
فرض سمجھا۔ آمنہ منہ بسور کر بولی تھی۔۔
کون سی ڈیل کون سا فرض۔۔ سیدھی طرح بات کرو۔۔
ایک تم لوگوں نے مجھے کمرے میں بند کر کے رکھا ہے اوپر سے تم لوگ باہر ڈیل کرتی
پھر رہی ہو۔۔ آخر کر کیا رہی ہو تم لوگ بتاو گئی کچھ مجھے کہ نہیں۔ نور تپ کر بولی
تھی ۔۔
آپ کے پیارے منگیتر صاحب آئے تھے اپنے
دوستوں کے ساتھ ایک ڈیل لے کر۔۔ کہ ہم آپ کو ان سے ملوا دیں بدلے میں ہم جو بولیں
گئی وہ لوگ کریں گے۔۔ تو بس اب وہ لوگ ہمارے بتائیں کام کر رہے ہیں ۔۔۔ چلو کم سے
کم ہمیں پتا تو چلے گا تمہارے میاں صاحب اور دیور کتنے سوگھر ہیں ۔۔ جزا نے ناک سے
مکھی اوڑائی تھی جبکہ نور منہ کھولے اس کو دیکھ رہی تھی۔
بے شرموں شرم سے ڈوب مروں تم لوگوں کو
حیا نہ آئی میری ڈیل کرتے ہوئے۔۔ اور دوراب وہ مجھ سے ملنے کے لیے ڈیل کرتے پھر
رہے ہیں ۔۔ میں کوئی چیز ہوں کیا ۔ نور تو ان تینوں پر پھٹ پڑی تھی۔۔۔
ان کی عقل ٹھکانے لگانے کے لیے کیا ہے یہ
سب ۔۔ ہم تمہیں کوئی نہیں ملنے دیں گئی دوراب بھائی سے۔۔ جزا نے نور کا بازو کھینچ
کر پاس بیٹھایا تھا ۔۔
کیا مطلب ۔۔ اس نے ناسمجھی سے جزا کی طرف
دیکھا تھا ۔۔
مطلب یہ کے ان سے سارے گھر کے کام کروا
کر کھانا بناوا کر ہم لوگ بات سائیڈ ہو جائیں گی۔۔ تجھے ملنے نہیں دیں گئی۔۔ جزا
ایک ادا سے بولی تھی۔۔۔
ویسے یار تم لوگ دوراب سے بھی کام کروا
رہی ہو۔۔ نور کو دوراب کی فکر لاحق ہوئی تھی ۔۔
دیکھو انہوں نے خود یہ ڈیل ڈان کی تھی ہم
نے سر پر بندوق تو نہیں رکھی ہوئی تھی۔۔ آمنہ نے منہ بنا کر بولا تھا ۔
اور اگر تمہیں اتنی ہی ہے تو جاؤ جا کر
کھانا بنا دو ان کے حصے کا۔۔ جزا نے نور
کو غصے سے دیکھا تھا۔۔ جبکہ وہ بیچاری بس منمنا کر رہ گئی ۔۔
•••••••••••••••
وہ پانچوں اب کچن میں کھڑے تھے۔۔ ان سب
کی حالت ہی دیکھنے لائق تھی ۔۔
کھانے کا کیا کرنا ہے اب۔۔ حدید تھکی
ہوئی آواز میں بولا تھا ۔۔
میں تو کہتا ہوں ان دونوں کا بےکار دماغ
بنا دوں کم سے کم کیسی کے پیٹ بھرنے کے تو کام آئے گا ویسے تو کیسی کام کا ہے نہیں
یہ ۔۔ دوراب نے آیان اور رحیان کو گھور کر دیکھا تھا ۔۔
رہنے دو ان کا دماغ بنا کر بھی سب کا پیٹ
ہی خراب کرنا ہے۔ تھرڈ کلاس قسم کو دماغ ہے ان دونوں کا۔۔ زوریز تپ کر بولا تھا۔۔
ہم دونوں نے انویٹیشن نہیں دیا تھا تم سب
کو کے ہمارے ساتھ چل کر ڈیل کرو۔۔ آیان تپ کر بولا تھا۔۔
قسم سے بندا اتار جوتی لے اور اس کو سو
مار کر ایک گینے۔۔ حدید آگ بگولا ہوا تھا۔۔
میں تو کہتا ہوں جوتی ٹوٹنے تک ان دونوں
کو مارے۔۔ زوریز غصے میں بولا تھا۔۔
ہمیں جوتیاں بعد میں مار لینا پہلے کھانے
کا کچھ کر لو۔۔ رحیان منہ بسور کر بولا تھا۔۔
اچھا یہ بتاؤ تم سب کیا کیا بنا سکتے
ہو۔۔ زوریز نے ان سب کی طرف دیکھ کر سوال کیا تھا۔
میں تو منہ بنا سکتا ہوں۔۔ رحیان سب سے
پہلے بولا تھا۔۔
اور میں تیرا وہ ہی منہ توڑ دوں گا۔۔
زوریز بھی اس کو آنکھیں دیکھا کر بولا تھا۔ اور رحیان منہ کھولے اس ظالم انسان کو
دیکھ رہا تھا۔
اب سنو میری بات ایک بندہ سبزی کاٹے گا ۔
ایک آٹا گوند کر روٹی بنائیے گا اور ایک سیلیڈ بنائے گا۔ ایک ہنڈی بنائیں گا اور
ایک بریانی بنائیں گا۔۔ دوراب نے سب کی طرف دیکھ کر بولا تھا۔۔
گڈ ۔۔ چل حدید آٹا گند اور روٹیاں بنا،
رحیان سبزی کاٹ کر دے، آیان سیلیڈ بنا، دوراب تم ہنڈی بناؤ گے۔۔ اور میں بریانی
۔۔۔ زوریز نے سب کے کام ڈیوائیڈ کیے تھے۔۔ جب حدید بولا ۔
مجھے آٹا گوندنا اور روٹی بنانا نہیں آتی
۔ حدید پریشانی سے بولا تھا۔۔
تو تو اتنے سال کیا سکھیتا رہا ہے باہر
۔۔ دوراب حیرت سے بولا تھا ۔۔
میں ادھر گھر گھرستی سیکھنے نہیں بیٹھا
تھا۔ اور ںہ مجھے یہ پتا تھا کہ کے تیری شادی سے پہلے تیری سالیوں نے یہ سارے کام
کروانے ہیں۔۔۔۔۔ حدید جل کر بولا تھا۔۔
زیادہ تانے نہ مار۔۔ دوراب بھی اس کے
انداز میں بولا تھا۔۔
لڑنا بند کرو دونوں ۔۔ زوریز کی گرجدار
آواز کچن میں گونجی تھی ۔
مجھے بتاؤ آٹا کیسے گوندنا ہے ۔۔ حدید نے
زوریز سے پوچھا تھا۔۔
سالے مجھے سے ایسے پوچھ رہا ہے آٹا
گوندھنے کا جیسے میں کوکنگ کلاسز دیتا ہوں۔۔ یا کوئی سوگھر بہو ہوں۔۔ زوریز تپ کر
بولا تھا۔۔
تو پھر کیسے گوندھوں آٹا ۔۔ حدید بیچارگی
سے بولا تھا۔
یوٹیوب کا نام سنا ہے؟؟ زوریز نے اس کو
گھور کر دیکھا ۔۔
ہاں سنا ہے۔۔ حدید نے سوالیا نظروں سے اس
کی طرف دیکھا۔۔
تو یوٹیوب پر دیکھ لے کیسے گوندھنا ہے
آٹا اور روٹیاں کیسے بنانی ہے۔۔ اب سب کام پر لگو۔۔ یہ کہتے ساتھ زوریز نے اپرین
پہن لیا تھا ۔۔
او تجھے یاد نہ میری آئی
کیسی سے اب کیا کہنا۔
نہ لگے دعا نہ لگے دوائی۔
او میری موت ہے تیری جدائی
کیسے سے اب کیا کہنا۔
او تجھے یاد نہ میری ائی
کیسے سے اب کیا کہنا ۔
وہ سب اپنا اپنا کام شروع کرنے لگے تھے
جب ان کے کانوں میں رحیان کی دکھ بھری آواز آئی ۔۔ زوریز جو بریانی کے لیے مسالہ
تیار کر رہا تھا اس نے اپنے سامنے کھڑے دوراب کو دیکھا جو چولے پر ہانڈی رکھ کر
زوریز کو دیکھ رہا تھا پھر دونوں نے موڑ کر رحیان کی طرف دیکھا۔۔ ایسے ہی حدید جو
ابھی آٹا نکال کر ہٹا تھا اور آیان سیلیڈ کے لیے سبزی فریج میں سے نکال رہا تھا
دونوں نے حیران ہو کر رحیان کو دیکھا۔۔
رحیان سب سے بے پرواہ ہو کر اپنے سامنے
پیاز رکھ کر سرخ آنکھوں اور ناک کے ساتھ پیاز کاٹ رہا تھا ساتھ رو رہا تھا ساتھ
گانا گا رہا تھا۔۔۔
کیا ہی زمانے تھے۔۔۔
تم میرے دیوانے تھے۔۔۔
وے ہون حال نہ پوچھیا شودائی۔
وے تیری کوئی نہ چیٹھی آئی ۔۔
کس کی چیٹھی نہیں آئی تمہیں ۔۔ اور اس کا
سوگ منا رہے ہو بیٹھ کر ۔ اس سے پہلے وہ اور گاتا زوریز اور دوراب بولے تھے۔۔۔
مجھے نہیں پتا ۔ رحیان روتی آواز میں اپنا سرخ چہرہ ان کی طرف کیے بولا تھا۔۔ جبکی اس
کی حالت دیکھ کر حدید نے اپنی ہنسی کو بریک لگانے کی کوشش کی تھی اور آیان نے اپنے
ہاتھ میں پکڑے پیاز کو ایک نظر دیکھا اور ایک نظر رحیان کی حالت تو دیکھا تھا ۔۔۔۔
اس سے پہلے زوریز اور دوراب کچھ بولتے
آیان فوراً آگے بڑھا تھا اور اپنے ہاتھ میں پکڑے پیاز اس نے رحیان کے سامنے رکھے
تھے ۔۔
بھائی میرے یو ہی روتے گاتے یہ بھی کاٹ
دے ۔۔ آیان نے رحیان کے سامنے اپنے ہاتھ میں پکڑے پیاز رکھتے ہوئے کہا تھا۔
زلیل انسان میں ادھر رو رہا ہوں بجائے تو
چپ کروانے کے میرے سامنے پیاز رکھ رہا ہے ۔۔ زہر کھا کر مر جا تو۔۔ رحیان نے آیان
کے سامنے چھوڑی کی نوک کی تھی۔۔ تب ہی زوریز نے کچھ سوچتے ہوئے مسکرا کر ان دونوں
کو دیکھا تھا۔۔۔
ویسے یہ ڈیل والا آئیڈیا تم دونوں کا تھا
نہ۔۔ زوریز ان دونوں کے پاس گیا تھا۔۔
آیان اور رحیان نے ہاں میں سر ہلایا ۔۔
ہممم تو مسٹر تم بھی اِدھر بیٹھو ۔ مل کر
رو اور پیاز کاٹ کر دو شاباش ۔۔۔ زوریز نے اپنے ہاتھ میں پکڑا کٹینگ بورڈ جس پر وہ
بریانی کے لیے پیاز کاٹ رہا تھا آیان کے سامنے رکھا ۔۔ اور آیان اس کو شکل دیکھ
رہا تھا ۔۔ اس کو تو ابھی سے رونا آنے لگا تھا۔۔ جبکہ حدید ان دونوں کی شکلیں دیکھ
کر مطمئن ہوا تھا۔۔ آخر وہ سب ان دونوں کے پلین کی وجہ سے آج خوار ہو رہے تھے ۔ اب
وہ خود یوٹیوب پر ویڈیو دیکھ کر آٹا گوندھنے لگا تھا ۔۔
اب کچن میں صورت حال کچھ ایسی تھی کہ حدید یوٹیوب سے ویڈیو
دیکھ کر آٹا گوندھنے رہا تھا۔۔ دوراب ہانڈی کے لیے باقی سامان تیار کر رہا تھا ایسی
طرح زوریز بھی بریانی کا باقی سامان تیار کر رہا تھا ۔۔ اور ساتھ یہ تینوں آیان
اور رحیان کے روتی آواز میں گانے سن رہے تھے۔۔ اور وہ دونوں نہ جانے اس وقت اپنے
کون سے عشق کو یاد کر کے گانا گانے میں مصروف تھے۔۔۔
••••••••••••
روحا بیگم اور امل بیگم جب گھر آئی تو
گھر مکمل طور پر صاف تھا۔۔ کچن سےکھانے کی خوشبو بھی آ رہی تھی ۔
مجھے یقین نہیں ہو رہا جزا، آمنہ اور
سویرا نے گھر کا اتنا اچھا خیال رکھا ہے اتنی اچھی صفائی کی ہے اور کھانا بھی بنا
ڈالا ۔ امل بیگم تو صدقے واری جانے لگی تھی۔۔
قسم سے امل مجھے بھی یقین نہیں آ رہا۔۔
روحا بیگم بھی بے انتہا خوش تھی ۔۔ اب ان دونوں کو کون بتاتا کہ یہ کن کی محنت
ہے۔۔۔
امل بیگم اور روحا بیگم فوراً کچن میں گئی
تھی کیونکہ اور کچھ دیر میں کھانے کا وقت تھا اور پھر ان سب نے ڈھولکی رکھنی تھی
دوراب اور نور کی۔۔۔
کھانے کی ٹیبل پر سب اکھٹے تھے۔۔۔ آمنہ ،
جزا ، سویرا کمرے سے نکلی تھی اور روحا بیگم اور امک بیگم نے باری باری ان کو پیار
کیا تھا۔۔ جبکہ وہ پانچوں صبح کے تھکے ہارے تھے حیرت سے منہ کھولے یہ منظر دیکھ
رہے تھے۔۔
ماشاءاللہ میری پیاری بیٹیاں ۔۔ امل بیگم
نے تو تینوں کے گال چوم ڈالے تھے ۔۔
آپ کو پتا ہے آج ہماری بچیوں نے سارے گھر
کا کام کیا اور کھانا بھی بنایا ہے ۔۔ روحا بیگم نے تینوں کو پیار کرتے ہوئے کامران
صاحب اور احسن صاحب کو بتایا۔۔ جبکہ وہ پانچوں منہ کھولے بیٹھے تھے ۔
آپ سب کھانا کھا کر بتائیں نہ کیسا بنا
ہے۔۔ وہ تینوں ایک ساتھ بولی تھی۔۔ جبکہ کامران صاحب اور احسن صاحب نے کھانا شروع
کیا اور وہ واقع ہی تعریف کیے بنا رہ نہ سکے کیونکہ کھانا بہت لذیز بنا ہوا تھا۔۔
آپ لوگ بھی کھائے نہ۔۔ سویرا نے معصومیت
سے ان پانچوں کو بولا تھا۔۔
وہ بچارے دل پر جبر کرتے اپنے ہی بنے
کھانے کی تعریف کیسی اور کے لیے کر رہے تھے۔۔ جب کامران صاحب اور احسن صاحب نے اپنی
جیب سے کچھ نوٹ نکال کر آمنہ ، جزا اور سویرا کی طرف بڑھائے تھے۔۔
اور روحا بیگم کے گھورنے پر دوراب نے بھی
کچھ نوٹ نکال کر ان تینوں کو دیے تو زوریز ، حدید ، رحیان اور آیان کو بھی نکالنے
پڑے تھے۔۔۔ وہ تینوں سب سے داد وصول کر کے پیسے لے کر کھانا ٹرے میں لے کر ڈاینگ
سے باہر نکلی تھی جب دوراب پیچھے آیا تھا۔۔
بات سنوں میری تینوں ۔۔ دوراب نے ان
تینوں کو روکا تھا۔۔
اپنی ڈیل پوری کرنی ہے ڈھولک سے پہلے ۔۔
دوراب نے ان کو ڈیل یاد کروائی تھی۔۔
آپ فکر مت کریں دوراب بھائی ڈیل ایسی
پوری ہو گی آپ یاد کریں گے۔۔ جزا اور آمنہ پر سکون انداز میں بولی تھی ۔۔
کیا مطلب ۔۔ دوراب نے سوالیہ نظروں سے ان
کو دیکھا تھا کیونکہ ان کی بات اس کے سر پر سے گزری تھی ۔
مطلب آپ کو کھانے کے بعد پتا چل جائے
گا۔۔ آمنہ نے اس کی گال کھینچتے ہوئے کہا تھا اور وہ تینوں ادھر سے روم کی طرف چلی
گئی۔
••••••••••••••
کھانا کھائے کافی وقت ہو گیا تھا ۔۔ وہ
اپنے کمرے میں حدید ، زوریز اور آیان، رحیان کے ساتھ موجود تھا۔۔۔
تجھے یقین ہے کہ وہ تینوں نور سے ملوا
دیں گئی۔۔ حدید نے دوراب کو دیکھتے پوچھا تھا۔۔
امید تو ہے۔ دوراب نے سیلنگ کو دیکھتے
کہا۔۔
ابھی وہ یہ ہی بولا تھا کہ اچانک دروازہ
نوک ہوا تھا وہ فوراً اٹھا اور دروازہ جا کر کھولا تھا۔۔ مگر دروازہ نوک کرنے والا
شاید اس سے بھی تیز تھا۔۔ دروازے پر کیسی کو نہ پا کر وہ واپس موڑا تھا جب نیچے
گری ایک پرچی پر اس کی نظر گئی ۔۔ اس نے جھک کر پرچی اٹھائی اور کھولی تھی ۔۔ جیسے
جیسے اس نے وہ پرچی پڑھی ویسے ویسے اس کے تاثرات بدلے تھے۔۔
زوریز نے بجائے اس سے پوچھنے کے پرچی اس
کے ہاتھ سے لی اور پڑھی اور اس کو پڑھنے کے بعد وہ ایسے دوراب کو دیکھ رہا تھا جیسے کہہ رہا ہو کیا سالیاں پائی ہے
تونے۔۔
کیا لکھا ہے پرچی پر۔۔ حدید نے تنگ آ کر پوچھ لیا ۔۔
یہ لے پر لے اور ان دو عقلمندوں کو بھی
پڑھا۔۔ زوریز نے پرچی اس کی طرف کی تھی۔۔ جب وہ پرچی پر چکے تب زوریز بولا تھا۔۔
تم دونوں سے زیادہ عقل والی تو وہ تینوں
نکلی۔۔ سارا کام بھی کروا لیا داد بھی لے لی انعام بھی لے لیا اور گیم بھی کھیل
گئی۔۔
مجھے یقین نہیں آ رہا۔۔ دوراب بولا تھا۔۔
تجھے ابھی بھی یقین نہیں آ رہا۔۔ صاف صاف
لکھا ہے۔۔ ہمیں ہماری ڈیل یاد ہے انشاء اللہ نکاح والے دن نکاح کے وقت آپ نور سے
ملیں گے ۔۔ اور تو کہہ رہا ہے تجھے یقین نہیں آ رہا۔۔ زوریز دوراب کو گھورتے ہوئے
بولا۔۔
اور عمل کر ان کے آئیڈیا پر۔۔ حدید بولا
تھا ۔
دماغ چل گیا تھا میرا۔ میں بھول کیسے گیا
جب یہ سب اکھٹی ہوتی ہیں تو ان سے زیادہ تیز کوئی نہیں ہوتا۔۔ دوراب غصے میں بولا
تھا۔۔
اب ان کو اگر تم لوگوں نے ڈھولکی میں
جیتنے دیا میں تم سب کو جان سے مار ڈالوں گا۔۔ دوراب نے ان سب کو گھوری کروائی
تھی۔۔
ہم رہے تیری سالیوں سے۔۔ رحیان اور آیان
نے باقاعدہ ہاتھ جوڑ لیے تھے اور ان کی اس حرکت پر نہ چاہتے ہوئے بھی دوراب، زوریز
اور حدید کا قہقہہ کمرے میں گونجا تھا ۔۔۔
کچھ اور ہوا ہے کہ نہیں ان دونوں کا دماغ
سیٹ ضرور ہو گیا ہے۔۔۔ حدید ہستے ہوئے بولا تھا ۔۔۔
••••••••••••••
وہ ابھی تھوڑی دیر پہلے آفس سے آیا تھا۔۔
بیڈ پر پڑا اس کا فون مسلسل بج رہا تھا۔۔ کوئی انٹرنیشنل نمبر تھا ۔۔
اس نے تنگ آ کر فون کی سکرین اپنے سامنے
کی جب اچانک پھر سے کال آنے لگی۔۔
وہ پہلی نظر میں ہی نمبر پہنچان گیا
تھا۔۔ اس کے ماتھے پر بل آئے تھے۔۔ اس نے فون واپس بیڈ پر پھینکا تھا ۔۔ اور ہاتھ
میں پکڑا سگریٹ لبوں سے لگایا تھا۔۔۔
فون مسلسل بج بج کر بند ہو گیا تھا شاید
کرنے والے کو امید ہو گئ تھی کک اس کا فون نہیں اٹھیا جائے گا۔۔ تب ہی بند کر دیا
تھا۔۔۔
وہ سگریٹ پتا اپنی جگہ سے اٹھ تھا اور
اپنے کمرے میں بنی بلکہنی میں کھڑا ہو گیا تھا ۔۔
اس نے اپنی سیاہ آنکھیں بند کی تو کیسی شہد
رنگ آنکھوں والی دلربا نے اس کے خیالوں پر پھیرا ڈالا تھا۔۔ جب اس نے آنکھیں کھولی
تو اس کا چہرہ خباثت سے مسکرا رہا تھا ۔۔
•••••••••••••••
اب دھولک کے وقت کیا تماشا لگنا تھا کون
کس پر بھاری ہوتا ہے۔۔ کیا یہ پانچوں جزا، آمنہ اور سویرا کے سامنے ٹیک پائیں گے
یا وہ تینوں ان کی ٹکر میں آ پائیں گی؟؟؟ کہانی میں آگے کیا ہونے والا ہے۔۔
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔
Don’t copy without my permission and must share
your reviews with us.... Also share your feedback..... Thank you.<3
Comments
Post a Comment