بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
ناول
دشتِ الفت
شازین زینب
Ep# 08
رات کا
وقت تھا۔۔ ہلکی ہلکی ہوا چل رہی تھی ۔ آسمان میں چاند بادلوں کے ساتھ لکا چھپی
کھیل رہا تھا۔۔ باہر سبز لاون فیری لائیٹس سے سجایا گیا تھا۔۔۔ سفید رنگ کی چادریں
لاون کے کچھ حصے پر بیچھا دی گئی تھی ساتھ ہی میرون رنگ کے گاؤ تکیے رکھے گئے تھے۔۔۔ بیچ میں ڈھولک
رکھی گئی تھی جس پر گیندے کے پھولوں کی لریاں لگی ہوئی تھی اور کچھ کچھ پتیاں سفید
چادر پر بھی پھینکی ہوئی تھی۔۔۔۔۔ یہ حصے آج رات کی ڈھولک کے لیے سجایا گیا تھا۔۔
دوراب
اپنے کمرے سے تیار ہو کر نکلا تھا اور تھوڑا آگے بھر کر اس نے ریلنگ پر ہاتھ رکھا
تھا وہ سامںے ٹی-وی لاؤنج میں کام کرتے ملازمین کو دیکھ رہا تھا۔۔۔ جب اس کے پیچھے
زوریز اور حدید آ کر کھڑے ہوئے تھے۔۔۔
مجھے
سمجھ نہیں آ رہی صبح سب ملازم کیدھر تھے۔۔ دوراب دانت پس کر بولا تھا۔۔۔
وہ بھائی
ہم نے ملازمین کو رات تک چھٹی دی تھی نہ ۔۔ پاس سے گزارتی آمنہ دوراب کی بات سن
چکی تھی تبھی بولی۔۔۔ اور یہ بول کر وہ وہاں سے جیسی خاموشی سے آئی تھی ویسی خاموشی
سے آگے بڑھ گئی تھی۔۔
جبکہ
زوریز اور حدید نے اپنی ہنسی روکی تھی اور دوراب موڑ کر اس آفت کو جاتا دیکھ رہا
تھا جس کو اس کی بہن بولا جاتا تھا۔۔
کیا آفت
پیدا کی ہےمیری ماں نے بھائی کی زندگی میں ہی طوفان لے کر آئی ہوئی ہے۔۔۔ دوراب
دانت پس کر بولا تھا۔۔
ویسے جو
بھی کہو۔۔ بہن تجھے ٹکر کی ملی ہے ۔ حدید نے دوراب کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر آنکھ ونک
کی تھی ۔۔
ٹکر کی
نہیں اس سے بھی دو ہاتھ آگے ہے وہ۔۔ زوریز نے اس کی طرف مسکرا کر دیکھا تھا ۔۔۔
چلو یار
چل کے تیار ہوں ۔۔ صرف آدھا گھنٹہ بچا ہے پھر مہمانوں نے آنے لگ جانا ہے ۔ دوراب
یہ کہتا آگے بڑھا تھا ۔۔ جبکہ زوریز اور حدید
نے کندھے اوچکے اور اپنے اپنے کمرے میں چلے گئے ۔۔۔
••••••••••
نور شیشے
کے سامںے بیٹھی ہوئی تھی اس نے بوٹل گرین کلر کا لمبا کرتا اور اس کے نیچے ہم رنگ
کیپری پہن رکھا تھا۔۔ شانے پر ہم رنگ ڈوپٹہ
لیے۔۔ چہرہ پر میک آپ کے نام پر صرف بےبی پینک لیپ گلو لگئے وہ معصوم سی شہزادی
آج بلا کی خوبصورت لگ رہی تھی۔۔۔۔
آمنہ نے اویلیو
کلر کی فروک پہن رکھی تھی اور اس کے ساتھ ہم رنگ ڈوپٹہ کندھے پر لے رکھا تھا۔۔ اور
اپنی آنکھوں میں کاجل لگا کر اپنا فائینل لوک سشیشے میں دیکھنے لگی تھی۔۔۔ یہ رنگ
اس پر بہت جیچ رہا تھا ۔۔ اور اس کی بھوری آنکھیں کاجل سے بھری اور بھی شرارتی لگ
رہی تھی۔ سیاہ بالوں کو کھولا چھوڑ رکھا تھا اس نے۔
سویرا کب
سے اپنی زینک کلر کی فروک کی پیچھے سے ڈوری باندھنے میں الجھی ہوئی تھی جو اس سے
نہیں باندھی جا رہی تھی تنگ آ کر اس نے جزا کو آواز دی تھی۔۔۔
جزا یار
میں الجھ گئی ہوں اس ڈوری سے ۔۔۔ سویرا تھک کر بولی تھی کیونکہ وہ پچھلے بیس منٹ
سے اس ڈوری کو بند کرنے کی کوشش میں تھی۔۔۔
جب میں
نے پہلے بکواس کی تھی بند کروا لو ڈوری مجھ سے تب کیا تکلیف تھی۔۔ اس تمہارے کپڑے
تیار کر کے دوں اوپر سے تمہارے یہ چونچلے بھی دیکھو۔۔ میں نے بھی تیار ہونا ہے۔۔
جزا جو کب سے سویرا کی چھوٹی چھوٹی چیزیں پوری کر کے اس کو دے رہی تھی تپ کر بولی
تھی۔۔
میں
تمہاری چھوٹی بہن ہوں۔ بڑی بہنیں ماں جیسی ہوتی ہیں ۔۔ سویرا نے اپنی طرف سے بہت
پتے کی بات کی تھی۔۔
میں صدقے
جاؤ آؤ تمہیں گود لے لوں میں ۔۔ میرے بچے کا فیڈر کہاں ہے ۔۔ جزا طنزاً مسکرا کر
بولی تھی۔۔۔
اب میں
یہ بھی نہیں بولا تھا۔۔ ماما ہوتی نہ ادھر تو میں تمہیں منہ بھی نہ لگاتی ۔۔۔ ذرا
سا کام کیا بول دیا تم تو ذلیل کر رہی ہو۔۔ سویرا کا ڈرامہ دیکھ کر جزا نے اپنا سر
پکڑ لیا تھا جبکہ آمنہ اور ںور ان دونوں کی نوک جھوک دیکھ کر مسکرا رہی تھی۔۔
سویرا کی حرکتوں سے وہ تینوں ہی واقف تھی کہ وہ تیار ہونے میں بہت تنگ کرتی ہے
کیسی چیز سے مطمئن نہیں ہوتی وہ۔۔
بیٹا
ماما ادھر ہوتی نہ تو ابھی تک ان کی جوتی ان کے ہاتھ میں ہونے تھی جتںا تم مجھے
تنگ کر چکی ہو۔۔ او اب انسان بن کر کھڑی رہنا ورنہ ایسے ہی کھولی ڈوری کے ساتھ
نیچے جانا ڈھولکی کے لیے۔۔ جزا نے آگے بڑھ کر اس کی فروک کی ڈوری باندھنا شروع کی
تھی ۔
جزا اس
کی ڈوری باندھنے کے بعد تم فریش ہو کر تیار ہونے لگ جانا اس کی باقی کی تیاری میں
اور آمنہ دیکھ لیں گئے ۔۔ جزا کو ابھی تک صبح والے ہولیے میں دیکھ کر نور بولی تھی
۔
یہ لو
میری بندری تم لوگوں کے ہوالے میں چلی اب خود تیار ہونے۔۔ اس نے سویرا کو آمنہ اور
نور کی طرف دھیکلیا تھا اور اپنے کپڑے اٹھا کر باتھ روم میں چلی گئی جب اس کے
کانوں میں سویرا کی آواز پڑی تھی۔۔
تم ہو گئ
بندری میں نہیں ہوں۔۔ سویرا تپ کر بولی تھی جب نور نہ اپنا سر پیٹ لیا۔۔ اور آمنہ نے
اس کا بازوؤں پکڑ کر اس کو شیشے کے سامنے کھڑا کیا تھا۔۔
تھوڑی ہی
دیر میں سویرا تیار تھی۔۔ زینک کلر کی فروک پر بےبی میک آپ کیے۔ بھوری آنکھوں میں
ہلکا سا کاجل لگئے قدرتی سرخ ہونٹوں پر گلوز لگئے۔۔ سیاہ بالوں کو چوٹیا میں
باندھے وہ بہت معصوم سی لگ رہی تھی۔۔۔
جزا شیشے
کے سامنے کھڑی اپنے کانوں میں سیلور سٹون والے سٹڈ ڈال رہی تھی۔۔ اس نے نیوی بلیو
کلر کی لونگ فروک پہن رکھی تھی جس کی بازوؤں چوڑی دار تھی۔۔ ہم رنگ دوپٹہ کندھے پر
ایک طرف ڈال رکھا تھا ۔۔ ہنی براؤن آنکھیں کاجل سے بھری ہوئی تھی۔۔ لمبی خمدار
پلکوں پر ہلکا سا مسکارا لگیا ہوا تھا۔۔ بےبی پینک کلر کا گلوز لگئے اپنی تیاری پر
آخری نظر ڈالتے وہ موڑی تو اس کے شہد رنگ بال جن کو آج اس نے نیچھے سے تھوڑا کرل
کیا تھا وہ ایک سائیڈ کو ڈہلکے تھے۔۔ وہ بےانتہا خوبصورت لگ رہی تھی۔۔ اس بات میں
کوئی شک نہ تھا آمنہ ، نور اور سویرا تینوں خوبصورت تھی مگر جزا ان تینوں سے بھی
زیادہ خوبصورت تھی اور اس بات کا اعتراف وہ تینوں خود بہت ناز سے کرتی تھی ان
چاروں کو کبھی بھی ایک دوسرے سے خوبصورت یا کیسی بھی معاملے میں حسد نہیں ہوا تھا
۔۔۔ وہ ایک دوسرے کی خوشی میں خوش اور دکھ میں ایک دوسرے سے زیادہ دکھی ہوںے والی
سہلیاں تھی ۔
دیکھ نور
جو پیکس لینی ہے ادھر لے لے نیچھے ہم نے تیرے چہرے پر گھونگھٹ رکھنا ہے۔۔۔ آمنہ نے
شان بے نیازی سے بولا تھا۔۔
آج بھی
گھونگھٹ ؟۔۔ نور نے بیچارگی سے ان کی طرف دیکھا تھا۔۔
زیادہ
باتیں نہ کرو ۔۔ منہ دیکھائی تو تمہاری نکاح کے بعد ہی ہو گئی ۔۔ جزا نے نور کو
گھور کر دیکھا تھا۔۔
بہت ظالم
ہو تم لوگ۔۔ کم سے کم مجھے میری ڈھولکی تو انجوائے کرنے دو۔۔۔ نور نے ان تینوں کو آنکھیں
دیکھائی تھی ۔
شکر ادا
کرو کے تمہیں نیچھے لے کر جا رہی ہیں ہم ورنہ تو ہمارا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا۔۔
آمنہ نے بھی اس کو گھورا تھا۔۔
ویسے یار
اگر ڈھولکی میں ان لوگوں نے کمپیٹیشن رکھا تو۔۔ سویرا کو الگ مسلہ یاد آیا تھا۔۔
سویرا
پہلے میرے گھونگھٹ والا مسئلہ حل ہو لینے دو بعد میں یہ کمپٹیشن کا مسئلہ رکھنا۔۔
نور نے اس کو گھورا تھا۔۔
نور دوراب
بھائی کو آج کی تاریخ میں تو ہم آپ کی شکل دیکھنے سے رہے اس لیے چپ کر کے بیٹھیں آپ میڈم اور مجھے ان سے اپنا مسئلہ حل کروانے
دیں۔ سویرا نے ہاتھ ہلا ہلا کے نور کی بات کو ناک سے مکھی کی طرح اڑاتے اپنی بات
مکمل کی تھی۔ اور نور اپنے سے سال چھوٹی آفت کی بات پر منہ کھل کر رہ گئی تھی۔ اور
صحیح معنوں میں نور کو چپ لگی تھی کیونکہ اس کو اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ اس کو
گھونگھٹ کروا کہ ہی رہیں گی۔۔
اب میری
بات کا جواب دے بھی دو۔۔ سویرا نے جزا اور آمنہ کو گھورا تھا۔۔۔
ہاں تو
کر لیں ہم کون سا کیسی سے کم ہیں ۔۔ آمنہ نے اپنے سیاہ بال ایک ادا سے کندھے سے
پیچھے پھینکے تھے۔۔
ہم بھی
مکمل تیار ہیں ہمیں بھی گانا آتا ہے۔۔ جزا نے اپنی کمر پر ہاتھ رکھ کر ایک ادا سے
بولا تھا ۔۔
وہ بھی
ایک سے بڑھ کر ایک۔۔۔ آمنہ نے جزا کی بات کو آگے
بولا ۔
ماشاءاللہ
ماشاءاللہ ،،، مجھے پتا ہی تھا کہ تم دونوں پارٹ ٹایم مراسی بھی ہو۔۔ سویرا نے ان
دونوں کو سر تا پیر دیکھتے ہوئے بہت مطمئن انداز میں بولی تھی۔۔ جتنی مطمئن ہو کر وہ
بولی تھی اتنا ہی جاندار قہقہہ ںور کا تھا۔ جبکہ آمنہ اور جزا سویرا کو منہ کھولے
دیکھ رہی تھی۔۔۔
تم بیٹا ایک
کام کرو اٹھ کر نہ دوسری ٹیم میں چلی جا ان کے ساتھ تع بیٹھ کر تو گیٹکیں پڑھی گی
نہ۔۔ آمنہ سویرا کے سر پر بولی تھی ۔
نہیں
نہیں بہن تم تو ایسے بول رہی ہو جیسے تمہیں تو گانے آتے نہیں ۔۔ جزا نے اس کو
گھورا تھا۔ جبکہ سویرا آئیں بائیں شائیں کرنے لگی تھی ۔
•••••••••••
وہ پانچوں
تیار ہو کر اس ٹائم لاون میں کھڑے تھے۔۔
دوراب نے
بوٹل گرین کلر کا شلوار قمیض پہن رکھی تھی ۔۔ بال نفاست سے سیٹ کیے گئے تھے ۔
بھوری آنکھوں میں کیسی کو دیکھنے کی بے صبری تھی ۔ جبکہ اس کے ایک طرف زوریز نیوی
بلیو شلوار قمیض پہنے، قمیض کے بازوؤں کو کہنیوں تک فولڈ کیا ہوا تھا۔۔ اس کے ساتھ
کھڑے حدید نے بلیک کلر کی شلوار قمیض پہنے کہنیوں تک بازوؤں کو موڑے ہاتھ کمر کے
پیچھے کر کے کھڑا تھا۔۔
جبکہ ان
تینوں کے سامنے سے آیان اور رحیان آ رہے تھے دونوں کے بال ماتھے پر بکھرے ہوئے تھے
آیان نے اویلیو کلر کی شلوار قمیض پہنی ہوئی تھی اور رحیان نے ڈارک زینک کلر کی
شلوار قمیض پہنی ہوئی تھی۔۔ وہ دونوں لاپرواہ سے شہزادے لگ رہے۔۔ دونوں کہنیوں تک
اپنے بازوؤں کو فولڈ کرتے آ رہے تھے۔۔۔
ہاں
بھائی کچھ پتا چلا کیا سین ہے لڑکیوں کا۔۔۔ دوراب نے ان دونوں کے آتے ساتھ ان
دونوں سے پوچھا تھا۔۔
پہلے تو
مجھے ایک بات بتا کون سی ایجنسی میں کام کرتی ہیں یہ لوگ۔۔ آیان تپ کر بولا تھا۔۔
کیوں کیا
ہوا۔۔ دوراب ، حدید ، زوریز ایک ساتھ بولے تھے۔۔
یار
اللّٰہ جانے کون سے کھچری پکا رہی ہیں یہ لوگ مجال ہے جو ذرہ سی خوشبو بھی لگنے دے
رہی ہوں۔۔ اتنی دیر سے دروازے کے ساتھ کان لاگا کر کھڑے ہیں ۔۔ سوائے ایک قہقہہ کے
کچھ نہیں سنائی دیا ۔ آیان منہ لٹکا کر بولا تھا۔۔
بھائی تو
مان نا مان یہ لوگ واقع ہی بہت بھاری پڑنے والی ہیں ہم پر۔۔ رحیان نے اپنی رائے دی
تھی ۔
مجھے یہ
بتاؤ تم سب کو گانے تو آتے ہیں نہ۔۔ دوراب نے فکر مندی سے پوچھا تھا ۔۔
کیوں ہم
تجھے مراسی لگتے ہیں۔۔ حدید جل کر بولا تھا۔۔
تھوڑی
دیر کے لیے بن جاؤ نہ۔ دوراب نے حدید جو بیچارگی سے دیکھا تھا ۔
پہلے
تیرے لیے دھوبی، باورچی اور پتا نہیں کیا کیا نہیں بنے اب اس کی قصر رہتی ہے۔۔۔ زوریز
تپ کر بولا تھا ۔۔
تو اتںی
خوبصورت آوازوں کو لے کر تم لوگوں نے کدھر جانا ہے۔۔ دوراب بھی تپ کر بولا تھا۔۔
پھر تو
تو بھی بیچ میں شامل ہے ۔۔ تو بھی ساتھ گائے گا۔۔ آیان نے دوراب کو سر سے پیر تک
دیکھا تھا۔۔ تب ہی حور اور ماہر آتے نظر آئے تھے۔۔ ان دونوں نے ہی ہم رنگ جوڑا پہن
رکھا تھا۔۔ ماہر نے رسٹ کلر کی شلوار قمیض پہنی ہوئی تھی۔۔ اور حور نے رسٹ کلر کی
لونگ فروک پہنی ہوئی تھی۔۔
کیا ہو
رہا ہے ادھر ۔ ماہر ںے آتے ساتھ بولا تھا۔۔
بندا
پہلے سلام کرتا ہے ۔۔ پڑھا لکھا جاہل ۔ آیان نے آنکھ گھوما کر کہا۔۔
سب کو اسلام
وعلیکم ۔۔ سوائے اس منہوس آدمی کے ۔ ماہر بھی اس کو بھائی تھا اس کے انداز میں ہی
بولا۔۔ اور اس کی بات پر سب ہنس پڑے تھے ۔
آپ سب
اپنا ہنسی مذاق جاری رکھیں میں انٹی سے مل کر نور وغیرہ کے پاس جا رہی ہوں۔۔ یہ
کہہ کر حور اندر کی طرف چلی گئی تھی۔۔۔
•••••••••••
کچھ ہی
دیر میں سب مہمان آ چکے تھے۔۔ دوراب اور نور کے ساب کزن ، احسن صاحب کے اور کامران
صاحب کے بزنس فرینڈ اور ان کے بچے ۔۔ وسیع سبز لاون مہمانوں سے بھرا ہوا تھا۔۔۔
جب حور،
جزا، آمنہ اور سویرا نور کے چہرے پر دارک پینک کلر کے دوپٹے کا گھونگھٹ بنا کر اس کو
لے کر آئی تھی۔۔۔
دوراب
بیچارہ اپنی ماں کو بےبسی سے دیکھتا رہ گیا۔۔ اور انہوں نے اپنی مسکراہٹ روکی جیسے
کہہ رہی ہو تمہاری سالیاں ہیں میں کیا کروں۔۔
جبکہ
دوسری طرف جزا، آمنہ اور سویرا اپنے حسن سے نور کے تینوں دیوروں کے شانے چت کر چکی
تھی ۔۔
ماشاءاللہ
ادھر تو مکمل کپل گولز چل رہے ہیں ۔۔۔ حدید نے اپنے ساتھ کھڑے آیان ، زوریز ، رحیان
کو ایک نظر دیکھا تھا اور ایک نظر سامنے سے آتی جزا ، آمنہ اور سویرا کو دیکھا
تھا۔۔ حدید کی بات پر نہ چاہتے ہوئے بھی دوراب اور ماہر نے اس کی نظروں کا اشارہ
دیکھا اور پھر سوالیہ نظروں سے زوریز، آیان اور رحیان کو دیکھا تھا۔۔
اب ہمیں
کیا پتا ان تینوں نے بھی یہ رنگ پہنے تھے۔۔ زوریز نے اپنی صفائی دی تھی۔ اور اس کی
صفائی پر آیان اور رحیان نے زور و شور سے سر ہلایا تھا۔۔
ہاں ہاں
بلکل بلکل ۔۔ حدید نے زو معنی انداز میں ان تینوں کو دیکھا تھا۔۔
ویسے یار
دوراب بیچارے کے ساتھ بہت زیادتی نہیں ہو گئی۔۔ ماہر نے دوراب کی بیچاری شکل دیکھ کر بولا تھا۔۔
اس کے
چکر میں ہم معصوموں کے ساتھ جو ہو گیا ہے تم اندازہ بھی نہیں لگا سکتے۔۔ آیان نے
دوراب سے بھی بیچاری شکل بنا کر ماہر کو اپنا رونا سنایا تھا ۔
ویل تم
سب تو معصوم کہیں سے نہیں ہو پھر بھی اتنی بیچارگی سے بول رہے ہو تو ترس کھا کر مان
لیتا ہوں۔۔ ماہر نے اپنی ہنسی چھپائی تھی۔۔۔
چلو
لڑکوں ڈھولک کے لیے آ بھی جاؤ ۔۔۔ ابھی وہ لوگ کچھ اور بولتے کہ امل بیگم نے ان سب
کو آواز دے کر بولیا تھا۔۔
ایک طرف
ساری لڑکیاں بیٹھی تھی ۔۔۔ سب سے آگے نور بیٹھی تھی اس کے ایک طرف جزا اور سویرا
تھی۔۔ جبکہ دوسری طرف آمنہ اور حور تھی ۔۔۔
ایسی طرح
لڑکوں کی پہلی لائن میں سب سے آگے دوراب اور اس کے ایک طرف زوریز ، حدید اور رحیان
تھے ۔۔ جبکہ دوسری طرف ماہر، اور آیان تھے۔۔۔۔
مجھے تو
لگتا ہے دوراب کی سالیاں دوراب کا صحیح امتحان لے رہی ہیں ۔۔۔ عائشہ بیگم جو روحا،
امل، انعم ، ابیہا کے ساتھ ایک طرف صوفے پر بیٹھی تھی دوراب کی طرف دیکھ کر شرارت
سے بولی تھی ۔
بس انٹی
کیا کہیں جب اپنی بہنیں ہی سالیاں بن جائیں تو سمجھ جائیں آپ کی کمزوری کا قدم قدم
پر فائدہ اٹھایا جائے گا۔۔ دوراب نے ایک ٹھنڈی آہ بھر کر سامنے بیٹھی ناگینوں کو
دیکھا تھا جو آج بھی اس کی محبت پر پہریداری دے رہی تھی۔۔۔
چلو بچوں
ڈھولک شروع کرو اب ۔۔۔ امل بیگم نے ان سب کو مخاطب کیا تھا۔۔
ہم تو
شروع کرتے ہیں پر کیا لڑکیاں ہمیں ٹکر دے پائیں گی؟؟۔ دوراب ںے اپنے سامنے بیٹھی
اپنی سالیوں کو دیکھ کر بولا تھا۔۔
آپ شروع
کریں ہم بھی تیاری سے آئی ہیں ۔۔۔ آمنہ نے دوراب کو ناک چرا کر بولا تھا۔۔ وہ جھلی
اپنی ان حرکتوں سے کیسی کے دل پر تیر چلا رہی تھی اس بات سے انجان تھی۔۔
چلو ذرہ
ڈھولک تو بجاؤ اب۔۔ دوراب ، حدید ، زوریز ، آیان ، رحیان اور ماہر ایک ساتھ بولے
تھے۔۔ ساتھ ہی ڈھولک کی تھاپ بجنا شروع ہو گئی تھی ۔۔۔
ذرہ
ڈھولکی بجاؤ گوریوں ۔۔
میرے سنگ
سنگ گاؤ گوریوں۔۔
زوریز کی
خوبصورت آواز ڈھولک کی تھاپ کے ساتھ گونجی تھی۔۔ اور ایک لمحہ کے لیے سب لڑکیاں
خاموش ہو کر اس کی آواز میں کھو گئی تھی ۔۔
ذرہ
ڈھولکی بجاؤ گوریوں ۔۔
میرے سنگ
سنگ گاؤ گوریوں ۔۔۔
شرماؤ نہ
لگا کر مہندی ۔۔۔
ذرہ تالیاں
بجاؤ گوریوں ۔۔
ایک
ٹرانس کی کیفیت میں سب لڑکیاں تالیاں جبانے لگی تھی اب ڈھولک کی تھاپ کے ساتھ ساتھ
سب لڑکے لڑکیوں کی تالیاں بھی گونج رہی تھی۔۔
یہ گھڑی
ہے میلن کی
ایک سجن سے سجن کی۔۔
یہ گھڑی
ہے میلن کی ۔
ایک سجن
سے سجن کی ۔۔۔
زوریز نے
یہ لائین بولتے ساتھ لڑکیوں کی طرف دیکھا
تھا کیونکہ اب لڑکیوں کی باری تھی۔۔۔۔
کچھ لمحے
لڑکیوں کی سائیڈ پر خاموشی رہی تھی جب اچانک سے جزا کی آواز گونجی تھی۔۔
گیت ایسا
کوئی گاؤ گوریوں ۔۔۔
ایسی
ڈھولکی بجاؤ گوریوں ۔۔۔
جزا کی
آواز نہلے پہ دہلے والا کام کر گئی تھی۔۔ ایک لمحہ کے لیے زوریز حیران ہو گیا تھا
پھر منہ نیچھے کر کے مسکرا دیا۔۔
جبکہ
دوسری طرف عائشہ بیگم کی نظریں جزا پر ٹھہر گئی تھی ان کو وہ پنڈنٹ والی لڑکی یاد
آئی تھی۔۔۔
گیت ایسا
کوئی گاؤ گوریوں ۔۔
ایسی
ڈھولکی بجاؤ گوریوں ۔۔
ذرہ ان
کی بھی تال دیکھ لو۔۔
آج ان کو
بھی نچاؤ گوریوں ۔۔
جزا نے ایک
نظر سب لڑکوں پر ڈال کر لڑکیوں کی طرف دیکھا تھا۔۔
یہ گھڑی
ہے میلن کی ۔۔
ایک سجن
سے سجن کی۔۔۔
یہ گھڑی
ہے میلن کی ۔۔
ایک سجن
سے سجن کی۔۔۔
جزا نے
باری لڑکوں کی طرف پاس کی تھی۔۔
ایسا ہو
گا ناچ گانا۔۔
جھوم اٹھے
گا یہ زمانہ ۔۔
آج تم
بھی آزمانہ ۔۔۔
یہ
ادائیں دل بھرانا۔۔۔
زوریز نے
جزا کی طرف ایک نظر دیکھ کر گانا آگے گایا۔۔
ایسا ہو
گا ناچ گانا ۔۔
جھوم
اٹھے گا یہ زمانہ ۔۔
آج تم
بھی آزمانہ ۔۔
یہ
ادائیں دل بھرانا۔۔
آیان نے
گانے کی ان لائینوںکو دوبارہ سے گایا تھا ۔ اور ایک لمحے کو اس کی نظر آمنہ کی طرف
اٹھی تھی اور پلٹنا بھول گئی۔۔ مگر ہوش اس کو آمنہ کی آواز پر آیا تھا۔۔
ذرہ جلدی
سے جاؤ گوریوں ۔۔
آمنہ نے ایک
نظر آیان کی طرف اٹھائی تھی۔۔ نہ جانے کیوں اس کو کیسی کی نظروں کا خود پر احساس
ہوا تھا ۔
ذرہ جلدی
سے جاؤ گوریوں ۔۔
کوئی
آئینہ تو لاؤ گوریوں ۔۔
انہیں
ناز ہے بہت خود پر ۔
انہیں
آئینہ دیکھاؤ گوریوں ۔۔
آمنہ نے
اپنے بھائی کی طرف دیکھ کے ہنسی دبائی تھی۔۔۔
یہ گھڑی
ہے میلن کی۔۔
ایک سجن
سے سجن کی۔۔
یہ گھڑی
ہے میلن کی۔
ایک سجن
سے سجن کی۔۔
اب پھر
سے باری لڑکوں کی طرف گئی تھی ۔
کیسی وید
کو بلائو گوریوں۔
ان کی
نبز کو دیکھاؤ گوریوں ۔۔
ان کو
حسن پر غرور ہے بہت ۔۔
ان کا
پارا نیچھے لائو گوریوں ۔۔
دوراب نے
نور اور رحیان نے سویرا کو دیکھ کر گانا آگے جاری رکھا تھا ۔۔
یہ گھڑی
ہے میلن کی۔۔
ایک سجن
سے سجن کی۔۔
دوراب کے
گانے سے محفل میں اور جان آ گئی تھی۔۔۔
اب باری
لڑکیوں کی تھی۔۔
ہم غلط
تھے ہم نے مانا ۔۔
تم بھی
واپس لے کو تانا۔۔
سویرا نے
گانے کو آگے جاری کیا تھا جب بیچ میں نور گنگنائیں تھی۔۔
لڑنے کا
یہ کب ہے موقع ۔۔
کیا کہہ
گا یہ زمانہ ۔۔
نور نے گھونگھٹ
میں گانے کو آگے جاری کیا تھا ۔
اس کی
آواز پر دوراب کو اپنی ہارٹ بیٹ مس ہوتی محسوس ہوئی تھی آج نہ جانے کتنے دنوں بعد وہ اس کی آواز سن
رہا تھا۔۔
کیسی
قاضی کو بلاؤ گوریوں ۔۔
دوراب نے
ایک نظر اپنی ساری سالیوں کو دیکھ کر گھونگھٹ میں چھپی نور کی طرف شرارت سے دیکھا
تھا۔ اور گانے کو جاری رکھا تھا۔
کیسی
قاضی کو بلاؤ گوریوں ۔۔
آج فیصلہ
کراؤ گوریوں ۔۔
کہاں
میلے گا کوئی ہم سا دلہا ۔
ان کو
دلہن بناؤ گوریوں ۔۔
اس نے لو
دیکھتی نظروں سے نور کی طرف دیکھا تھا۔۔ جبکہ دوراب کی آواز اور گانے کی لائنوں پر
نور گھونگھٹ میں بھی شرم سے لال ہو گئی تھی۔۔
یہ
گھڑیہے میلن کی۔۔
ایک سجن
سے سجن کی۔۔
اب کی
بار یہ لائین زوریز ، آیان ، رحیان ، حدید ، ماہر اور دوراب نے مل کر گئی تھی۔۔
آپ کرتے
ہیں کیسی باتیں ۔۔۔
نور،
آمنہ ، جزا، حور، سویرا نے یہ لائین ایک ساتھ گائی تھی ۔
آپ کرتی
ہیں جیسی باتیں ۔۔۔
دوسری
طرف دوراب ، زوریز ، آیان ، حدید ، رحیان ،ماہر نے مل کر گایا تھا سب کی نظریں
اپنی اپنی دشمن جان پر تھی۔۔
ارے ان
کو سمجھاؤ گوریوں ۔۔۔ وہ پانچوں اکھٹی گائی تھی۔۔
اب سلا
تو کرواؤ گوریوں ۔۔
دوسری
طرف وہ چھ بھی اکھٹے گائے تھے۔۔
یہ گھڑی
ہے میلن کی۔۔
ایک سجن
سے سجن کی ۔
پورے
لاون میں لڑکے اور لڑکیوں کی آواز گونج رہی تھی ۔۔۔ ڈھولکی تھاپ ساری رات بجتی رہی
تھی۔۔ ساری رات وہ سب محفل سجا کر بیٹھے رہے تھے۔۔۔
•••••••••
آج صبح
سے ہی سکندر ہاؤس میں بہت چہل پھل تھی ۔۔ روحا بیگم اور امل بیگم کی خوشی کا کوئی
ٹھکانہ نہ تھا۔۔۔ آج ان دونوں کی دل کی مراد پوری ہونے جا رہی تھی۔۔ ان دونوں کے
بچے آج ایک حلال رشتے میں جڑنے والے تھے۔۔۔
روحا تم
ذرہ یہ سارا کام دیکھو میں ان سب کو جا دوں ساری رات ڈھولک پیٹتے رہے ہیں اور اب
ہاتھی گھوڑے بینچ کر سو گے ہیں ۔۔ امل بیگم یہ کر سیڑھیاں چڑھنے لگی تھی جب روحا
بیگم کی آواز پر روکی تھی ۔
زوریز ،
حدید ، ماہر اور دوراب تو صبح سے ہی اٹھے ہیں اور احسن بھائی اور کامران کے ساتھ
کام کروا رہے ہیں ۔۔ بس ایان اور رحیان سو رہے ہیں ان کو اٹھا دو تاکہ وہ ناشتا کر
کے نور کو پارلر چھوڑ آئیں ۔۔ اور ہاں حور کو سب سے پہلے اٹھاؤ اتنا ٹائم ہو گیا
ہے کچھ کھایا نہیں اس نے۔۔ روحا بیگم فکر مندی سے بولی تھی۔۔
تم فکرنک
کرو ان بچوں کے لیے ناشتہ بناؤ میں تب تک سب کو اٹھاتی ہوں ۔ یہ کہہ کر امل بیگم
سیڑھیاں چڑھ گئی تھی ۔
نور کے
کمرے کا دروازہ کھولا تو ۔۔ تو وہ سر ہیٹ کر رہ گئی تھی کمرے کا حال خراب تھا وہ
سب رات والے کپروں میں ہی سوئی ہوئی تھی۔۔
نور کے
ساتھ بیڈ ہر سویرا اور حور سوئی ہوئی تھی۔۔ جب ان سب کو حور کی طرف سے ملنے والی
نیوز کا پتا چلا تھا تو انہوں نے حور کے لاکھ کہنے پر بھی اس کو اوپر بیڈ پر سولیا
تھا۔۔
جبکہ
آمنہ بیڈ کے سامنے فرش پر گدہ ڈال کر سوئی ہوئی تھی اور جزا صوفے پر خواب خرگوش کے
مزے لے رہی تھی ۔۔
امل بیگم
نے سب سے پہلے حور کو اُٹھایا تھا۔۔ جو دوسری آواز پر ہی اٹھ گئی تھی۔۔
اب امل
بیگم بار نیند کی رانیوں کو اُٹھانے لگی تھی جو اٹھنے کا نام نہیں لے دہی تھی۔۔
نور میں
کہہ رہی ہوں اٹھ جاؤ اس سے پہلے میں جوتا اٹھا لوں۔ تنگ آ کر امل بیگم نے اس کے
اوپر سے کمبل کھینچا تھا۔۔ اور نور بغیر کیسی اثر کے سوئی رہی تھی ۔۔
اتنے میں
حور باتھ روم سے فرش ہو کر آ گئی تھی ۔
انٹی میں
آپ کی مدد کرواتی ہوں ان کو اُٹھانے میں جہ ایسے نہیں اوٹھے گئی۔ حور یہ کہتے ساتھ
آمنہ کی طرف موڑی تھی۔۔
نور
انسان کی بچی بن جے اٹھ جاؤ نکاح ہے تمہارا آج ۔۔ امل بیگم نے پاس پڑے پانی کے
گلاس میں سے تھوڑا سا پانی لے کر نور کے منہ پر چھینٹیں ماری تھی۔۔ جس سے اس کی پلکوں میں تھوڑی جنش پیدا ہوئی
تھی۔۔
کیا ہے
یار ماما۔۔ نور کی نیند میں ڈوبی آواز امل بیگم کے کان میں پڑی تھی۔۔
کیا ہے
ماما کی بچی تمہارا نکاح ہے اور کچھ گھنٹوں میں ۔۔۔ امل بیگم تپ کر بولی تھی ۔
قبول ہے
قبول ہے قبول ہے ۔۔ اوکے اب جب مولوی صاحب آئیں تو میرے حصے کے سائین کر دیجئے گا
مجھے سونے دیں ۔۔ نور نیند میں دوبی آواز میں بولی تھی ۔۔ جہاں اس کی بات سن کر
حور کا منہ کھولا کا کھولا رہ گیا تھا وہاں امل بیگم نے پانی کا جگ ہاتھ میں لے
لیا تھا۔۔
اس سے پہلے
وہ اس پر پانی کا جگ پھینکتی حور نے فوراً ان کے ہاتھ سے جگ لیا تھا۔۔
انٹی آپ
نیچے جائیں میں ان چاروں کو لے کر آتی ہوں۔ حور نے امل بیگم کا غصہ دیکھتے ہوئے ان
کو نیچھے جانے کا کہا تھا۔۔
ان چاروں
کو اٹھا کر جلدی سے لاؤ پتا نہیں کیا کھا جر سوتی ہیں یہ چاروں ۔۔ امل بیگم نے ان
چاروں سوتی لاپرواہ آفتوں کو گھور کر دیکھا تھا۔۔ جو کمرے میں اتنے شور کے بعد بھی
ٹس سے مس نہ ہوئی تھی۔۔ جیسے ہی امل بیگم کمرے سے گئی تھی۔۔ حور سب سے پہلے سویرا
کی طرف بھری تھی ۔
اس نے
سویرا کو کندھے سے پکڑ کر تھوڑا ہلایا تھا جس سے اس کی تھوڑی آنکھ کھولی تھی ۔۔
سویرا
اٹھو۔۔۔ جلدی کرو تیار بھی ہونا ہے ٹائم تھوڑا ہے۔۔ حور نے اس کے اوپر سے کمبل
کھینچ کر سائیڈ پر کیا تھا ۔۔ سویرا سوئی جاگی کیفیت میں اٹھ کر بیٹھ گئی تھی۔۔
آمنہ اٹھ
جاؤ ۔۔۔ حور نے اس کو اچھی طرح سے جھنجھوڑا تھا جس سے وہ نیند سے ہوش میں آ گئی
تھی۔۔
سویرا
اٹھی تھی اور جزا کے فون پر ایک ایک منٹ کے بعد الارم لگا کر اس کے کان کے نیچھے
رکھ چکی تھی۔۔
آمنہ تو
جیسے تیسے آٹھ کر فرش ہونے باتھ روم چلی گئی تھی۔۔ جبکہ پیچھے حور اور سویرا نور
کو اٹھانے لگی تھی۔۔۔ جو اٹھنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔۔
حور نے
تنگ آ کر پانی کا گلاس اس کے منہ طر پھینک ہی دیا تھا ۔۔ نور ڈر کر ہربرا کر اٹھی
تھی۔۔ اور اس کی چیخ سے جزا بھی ہربرا کر اٹھی تھی ۔
بلآخر وہ
چاروں اٹھ گئی تھی۔۔
کیا کھا
کر سوتی ہو تم لوگ اتنی گہری نیند۔۔۔۔ حور نے ان سب کو گھور کر دیکھا تھا۔۔
حور آپی
وہ نہ۔۔ جزا اور آمنہ نے کچھ بولنا چاہا ۔۔
وہ نہ جو
بھی ہے بعد میں پوچھوں گئی تم سب سے۔۔ پہلے نیچے چل کر ناشتہ کرو تیار بھی ہونا
ہے۔۔ جمعہ کی نماز کے بعد نکاح ہے۔۔ مسجد وقت پر پہنچنا ہے ۔ چلو اٹھو سب۔۔ حور ان
سب کے سر پر کھڑی تھی ۔ اور ان کو کمرے میں سے اطنے ساتھ لے
کر نکلی تھی۔۔ جبکہ نور باتھ لینے چلی گئی تھی۔۔
••••••••••
اللہ کی
پناہ ہے ان بچوں کو اٹھانا۔۔۔ امل بیگم جو ابھی اللہ اللہ کر کے آیان اور رحیان کو
اٹھا کر آئی تھی۔۔
کیا ہوا
امل۔۔ عزیزہ اور ابیہا بیگم جو ابھی ابھی ان کی طرف ائی تھی امل بیگم کی سدا سن
چکی تھی۔۔
ہونا کیا
ہے۔۔ مجھے لگا تھا صرف اپنی نور، جزا ، آمنہ اور سویرا کو اٹھانا مشکل ہے مگر میں
غلط تھی۔۔ آیان اور رحیان کو اٹھانا اس سے بھی زیادہ مشکل کام ہے ۔ امل بیگم سر پر
ہاتھ رکھ کر بولی تھی۔۔
ایک ایک
جوتی مارنی تھی دونوں کا۔۔ عزیزہ کو رحیان پر غصہ آ رہا تھا ۔۔
جوتی
مارنی کیا سونگھائی تھی تب جا کر ان دو بےہوشوں کو ہوش آئی تھی۔۔۔۔۔ امل بیگم نے
ٹھنڈے پانی کا گلاس منہ سے لگیا تھا اور ساتھ ہی پاس کھڑی ملازمہ کو عزیزہ اور
ابیہا کے لیے کچھ لانے کے لیے کہا تھا۔۔
تم یہ
باتوں تمہارا بی پی ٹھیک ہے۔۔ کچن سے آتی روحا بیگم نے امل کی طرف دیکھا تھا۔۔
بی پی
ٹھیک ہے بس کام کی ٹینشن ہے ۔۔۔ امل بیگم سر پکڑے بولی تھی ۔
کام کی
ٹینشن نہ لو۔۔ احسن بھائی، کامران ، زوریز ، ماہر حدید ، دوراب سب دیکھ لیں گے
باہر کے کام اور انتظام اور گھر پہ جو تھوڑا بہت باہر اندر کا کام ہے وہ آیان اور
رحیان دیکھ لیں گے۔۔ روحا بیگم نے ان کی پریشانی دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کی
تھی۔۔۔
اور
تھوڑی دیر میں عائشہ بیگم بھی آ گئی تھی اور ساتھ ہی انعم بیگم بھی آ گئی تھی۔۔
جبکہ ابراہیم صاحب ، شاہد صاحب ، افضل صاحب ، احسن صاحب اور کامران صاحب کے پاس
پھنچ گئے تھے۔۔
••••••••••••••
یہ منظر
لاہور کی بادشاہی مسجد کا ہے۔۔ جہاں اس
وقت جمعہ کی نماز کے لیے صفیں سیدھی کی جاری تھی۔۔ تمام عورتیں عورتوں کی نماز ادا
کرنے کے مخصوص جگہ پر تھی۔۔ امام مسجد نے جمعے کی نماز شروع کروا دی تھی۔۔۔
بادشاہی
مسجد نے جمعے کی نماز کا منظر بہت سحت انگیز تھا۔۔ دیکھنے والوں کو اپنی طرف متوجہ
کرتا تھا یہ منظر ۔۔۔
جمعے کی
نماز ختم ہو چکی تھی سب کے ہاتھ دعا کے لیے بلند تھے ۔۔
یا
اللّٰہ آپ کا میں جتنا شکر ادا کروں کم ہے۔۔ اپنے مجھے اس سے نواز دیا ہے جس کو
میں نے چاہا تھا۔۔۔ میرا اور دوراب کا زندگی کا یہ سفر بہت خوبصورت لکھے گا میرے
مالک ۔۔ مجھے سے ہر لمحہ سجدہ شکر ادا کروائیں گا میرے اللّٰہ ۔۔۔ نور نے یہ دعا
مانگتے ساتھ اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرا تھا۔۔
تب ہی
پاس بیٹھی جزا اور آمنہ اٹھی تھی اور نور کی اٹھنے میں مدد کی تھی ۔
نور نے
آف وائٹ لونگ فروک پہن رکھی تھی جس کے دامن اور گلے پر نفیس کام تھا اور ایسا ہی
کام اس کی فروک کے بازوؤں پر تھا۔ اس کگ نیچھے اوف وائٹ کلر کا گرارا تھا۔۔ سر پر
میرون رنگ کا دوپٹہ سیٹ کیا گیا تھا جس کا فرنٹ بوڈر کامدار تھا اور باکی دوپٹہ پر
اس ہی کام کی چھاٹ تھی۔۔ گلے میں نفیس ہیرے اور یاقوت کا سیٹ پہن رکھا تھا اس سیٹ
کے ہی جھمکے اور بندیا پہنے۔ ہلکے میک آپ میں ۔۔ گرے آنکھوں کو خوبصورتی سے کاجل
سے اجائے، گھنی پلکوں پر مسکرا لگئے وہ دلہن کے روپ میں بے انتہا خوبصورت لگ رہی
تھی ۔۔ آج اس کا روپ ہی الگ تھا۔۔ اس کو دیکھ کر بار بار امل بیگم کی آنکھیں بھیگ
جاتی تھی۔۔ روحا بیگم تو اس کے صدقے جاتے نہیں تھک رہی تھی ۔۔
میرے
دوراب کی دلہن بہت پیاری ہے۔۔ روحا بیگم نے آگے بڑھ کر اس کا ماتھا چوما تھا ان کی
دلی مراد پوری ہوئی تھی آج ان کی لاڈلی ان کے لاڈلے کی دلہن بن گئی تھی۔۔۔
امل بیگم
اور انعم بیگم نے آگے بڑھ کر نور کے سر پر سرخ رنگ کا جالی دار دوپٹہ رکھا تھا جس
سے اس کا چہرہ چھپ گیا تھا۔۔
ماما ،
تائی امی آپ چلیں ہم نور کو لے کر آتی ہیں ۔۔ ڈیڈ کی کال آئی ہے نکاح کا وقت ہو
گیا ہے۔۔ آمنہ جو ایک طرف کامران صاحب کی کال اٹینڈ کرنے گئی تھی آ کر بولی تھی۔۔
امل نور
کی اببی رخصتی نہیں ہو رہی ۔۔ اور اگر ہوتی بھی تو اس نے تمہارے پاس ہی آنا تھا
ایسے تو نہ رو اب بچی بھی رو دے گئی۔۔ عائشہ بیگم نے آگے آ کر امل بیگم کے کندھے
پر ہاتھ رکھ کے کہا تھا جو نور کو گلے لگائے رو رہی تھی۔۔ کیا کرتی آخر ماں تھی
اپنی بیٹی کو اس روپ میں دیکھ کر پرآئی ہونے کا احساس ہو رہا تھا۔۔
یہ
بیٹیاں کتنی جلدی بڑی ہو جاتی ہے ۔۔ اور اپنے ہی ماں باپ کے گھر مہمان بن جاتی ہیں
پتا بھی نہیں چلتا ۔۔ بیٹیاں تو ایک ایسا پودا ہوتی ہیں جو جب بڑی ہو کر مہکنے
لگتی ہیں تو ان کو کیسی اور کے آنگن میں لگا دیتڑ ہیں۔۔ اور وہاں کہانی اس کے نصیب
کی ہو جاتی ہے اگر اس آنگن کے لوگ اور اس کا ہمسفر اچھا ہو تو اس کی مہک اس کی خوشبو
اس کے باپ کے آنگن تک جاتی ہے۔۔ اگر وہ لوگ ظرف کے کم نکلے اس کا ہمسفر اچھا نہ ہو
تو وہ مہکنے سے پہلے ہی مرجھا جاتی ہے اور خوشبو ایسے چپ ہوتی ہے کہ اس کے باپ کے
آنگن تک بھی خبر نہیں جاتی کہ جو پھول کھمنے کے لیے کیسی اور آنگن میں دیا تھا اس
پھول کو کھلنے سے پہلے ہی اس کے سب رنگ چھین لیے گئے اس کی مہک کو دبا دیا گیا۔۔
اس کا اندر مار دیا گیا۔۔ تب ہی تو ماں باپ بیٹیاں پیدا ہونے سے نہیں ان کے نصیب
سے ڈرتے ہیں ۔۔ وقت سے پہلے ان کے بوڑھے ہونے سے ڈرتے ہیں ۔۔ کیوں بیٹوں کو مائیں
پہلا سبق صبر کا دیتی ہیں ۔۔ کیوں ان کو بات بات پر ٹوکتی ہیں ۔۔ تا کے جب آگے
ٹوکی جائیں تو صبر کر جائیں بس گھر بنا لیں۔۔ ہم بیٹیوں کی کتاب بہت مشکل ہوتی ہے
۔۔ ہم تو اکثر اپنا دکھ اس وجہ سے بھی ماں باپ کو نہیں بتاتی کے آگے ایک عمر وہ
امتحان میں کاٹ چکے ہیں ۔۔ کیا اب اپنا دکھ بھی دے دیں ۔۔ تبھی چپ کر کے صبر کر کے
اپنے دکھ سے اپنے غم سے اپنی تکلیف سے اکثر خود ہی لڑ لیتی ہیں ۔۔ ہم بیٹیاں تو
اپنی ہو کر بھی ہمیشہ پرآئی ہی رہتی ہیں ۔۔
••••••••••••••
بادشاہی
مسجد کے اندرونی حصے کو خوبصورت سفید پھولوں سے سجاوٹ کی گئی تھی۔۔
دوراب
اوف وائٹ شلوار قمیض اور اس پر اوف وائٹ ویس کوٹ پہنے کھڑا تھا۔۔ اس کی آنکھیں بے
صبری سے کیسی کے آنے کا انتظار کر رہا تھا۔ جب سامنے سے اس کو اپنی ماں تائی اور
ساری خالہ آتی نظر ائی تھی۔۔
بے صبری
اون پیک۔۔۔۔ آیان نے اس کو کندھا مارا تھا۔۔
تو نے
ادھر میرے نکاح سے پہلے مرنا ہے کیا ۔۔ دوراب نے دانت پیس کر بولا تھا۔۔
دولہے
میاں سامںے تو دیکھوں ۔۔ حدید نے دوراب کے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا۔۔ جب دوراب کے
ساتھ ساتھ آیان ، زوریز ، رحیان اور ماہر نے بھی سامنے دیکھا تھا۔۔۔
دوراب کی
ہارٹ بیٹ نور کے سجے سجے سراپے کو دیکھ کر مس ہوئی تھی۔۔ جبکہ زوریز جزا کو اوف
وائٹ شرارے اور پسٹیشیو کل کی کرتی میں ہلکے پھلکے میک آپ کے ساتھ شہد رنگ آنکھوں کو
کاجل سے سجائے اپنے دل و دماغ پر سوار ہوتی محسوس ہوئی تھی۔۔۔
جبکہ
آیان کی نظر سامنے سے آتی آمنہ پر پڑھی تھی جس نے اوف وائٹ شرارے کے اوپر لائیٹ
فروزی کلر کی کرتی پہن رکھی تھی ہلکے میک
آپ میں وہ بے انتہا خوبصورت لگ رہی تھے۔۔ آیان کا ہاتھ بے اختیاری میں اس کے دل کے
مقام پر گیا تھا ۔۔
رحیان تو
سویرا کو دیکھ کر اپنے آپ میں نہیں تھا۔۔ سویرا اوف وائٹ شرارے کے اوپر کوپر کلر
کی کرتی پہنے براؤن آنکھ کو کاجل سے سجائے
بےبی میک آپ میں کیسی چھوٹی سی شہزادی کی طرح لگ رہی تھی۔۔ رحیان کو ایسا لگ رہا
تھا جیسا سویرا قدیم قدیم چلتی اس کے دل
کی سلطنت پر پاؤں رکھ رہی ہے۔۔ وہ بے خودی میں بس اس کے اس معصوم سراپے جو دیکھ
رہا تھا۔۔
ماہر کی
نظر تو حور سے ہٹنے سے انکاری تھی۔۔ ایک نئی نئی خوشی کا روپ تھا اس کے چہرے پر دوسرا وہ اوف وائٹ اور پیچ کے
کوبینیشن میں لگ بھی بہت پیاری رہی تھی ۔ ماہر کا دل کر رہا تھا نکاح کو چھوڑے اور
اس کو اپنے ساتھ لے جائے ۔۔ اس کا دل بہکنے کو تیار بیٹھا تھا۔۔
جبکہ
دوسری طرف حدید ان سب کو دیکھ رہا تھا جو یہاں ہو کر بھی یہاں نہ تھے ۔۔۔
ویسے
دوراب تیرے نکاح پر تو بہت کچھ سیم سیم چل رہا ہے۔۔ حدید نے دوراب کے کندھے پر
ہاتھ رکھ کر بولا تھا۔۔ اور حدید کی آواز پر دوراب سمیت وہ چاروں بھی ہوش میں آئے
تھے۔۔
کیا
سیم؟؟ دوراب نے سوالیہ نظروں سے حدید کو دیکھا ۔
ادھر
دیکھ اور ادھر دیکھ۔ ۔۔ حدید نے ایک نظر سامنے کھڑے زوریز ، آیان ، رحیان پر ڈالی
اور ایک نظر سامنے سے آتی جزا، آمنہ ، اور سویتاث پر ڈالی۔۔
دوراب نے
حدید کی نظروں کا اشارہ دیکھا تو بات سمجھ گیا تھا۔۔ جبکہ وہ تینوں اب اپنے کپڑوں
کو دیکھ رہے تھے۔۔
زوریز اوف
وائٹ شلوار قمیض پر پسٹیشیو کلر کا ویس کوٹ پہنے کھڑا تھا۔۔ جب کے آیان نے لائیٹ
فروزی کلر کا پہن رکھا تھا اور رحیان نے کوپر کلر کا۔۔ اور دوراب ان تینوں کو
مشکوک نظروں سے دیکھ رہا تھا۔۔
ایسے نہ
دیکھو بس ایک اتفاق ہے یہ اور کچھ نہیں ۔۔ زوریز نے دوراب کے کندھے پر ہاتھ رکھ کے
کہا تھا۔۔
اتفاق سے
بہت کچھ ہو جاتا ہے۔۔ حدید نے لکمہ دیا تھا ۔۔
میں تیرے
دانت توڑ دوں گا۔۔ زوریز نے حدید کو گھوری کروائی تھی۔۔
چل دوراب
چل کے بیٹھ تیرا صبر ختم ہونے والا ہے۔۔ ماہر نے دوراب کو کندھا مارا تھا۔۔
دوراب
پھولوں سے بنے پردے کی ایک طرف جا کر بیٹھ گیا تھا۔۔ جبکہ نور کو دوسری طرف بیٹھا
دیا گیا تھا۔۔
مولوی
صاحب نکاح شروع کریں ۔۔ کامران صاحب نے مولوی صاحب کو مخاطب کیا تھا۔۔
بیٹا ذرہ
کلمہ سنائیں ۔۔۔ مولوی صاحب نے دوراب کی طرف دیکھ کر بولا تھا ۔
مجھے پہلے
ہی پتا تھا یہ مسلمان نہیں ہے۔۔ آیان نے رحیان کے کان کے پاس جھک کر بولا تھا جبکہ
آواز اس کی سب نے سنی تھی۔۔
اتنا بول
جتنی مار بعد میں برداشت کر سکے ۔۔۔ ماہر آیان کے کان کے پاس تھوڑا جھوک کر بولا
تھا۔۔
الحمدللہ
میں مسلمان ہوں۔۔ مولوی صاحب کو پریشان دیکھ کر دوراب بولا تھا اور کھا جانے والی
نظروں سے ایان کی طرف دیکھا تھا۔۔
مولوی
صاحب نے نکاح کے کلمات پڑھنے شروع کیے تھے
۔۔۔ دوراب کے قبول کرنے کے بعد وہ ہی کلمات نور کے سامنے بولے گئے تھے۔۔۔
نور کی
دھڑکنوں کی رفتار ان الفاظ پر بہت تیز ہوئی تھی ۔۔
نور احسن
سکندر آپ کا نکاح دوراب کامران سکندر سے تہ کیا جاتا ہے کیا آپ کو یہ نکاح قبول
ہے۔۔ مولوی صاحب نے دوبارہ الفاظ دھرائے تھے ۔
امل بیگم
اور احسن صاحب نے نور کے سر پر ہاتھ رکھا تھا ۔۔
قبول
ہے۔۔ نور کی بھیگی ہوئی مدہم آواز سنائی دی تھی۔۔ اس کے قبول کرنے پر دوراب نے
اپنی انکھیں بند کی تھی اور دل کے مقام پر ہاتھ رکھا تھا۔۔ وہ جیسے دل میں بسایا
تھا آج وہ پوری حقدار بن گئی تھی۔۔۔ نور احسن سکندر سے نور دوراب سکندر ہو گئی تھی
۔۔
دعا کے
لیے ہاتھ دونوں جانب سے اٹھائے گئے تھے۔۔ سب ان کے اچھے نصیب کی دعا کر رہے تھے۔۔
دعا کے بعد دوراب اپنی جگہ سے اٹھا تھا سب سے مبارک قبول کی اور سفید پھولوں کے
پردے کے پار پہلا قدم رکھا تھا۔۔
اس نے
ہاتھ آگے بڑھیا تھا۔۔ امل بیگم اور احسن صاحب نے اپنی ایک لوتی لاڈلی کا ہاتھ
دوراب کے ہاتھ پر رکھا تھا۔۔ دوراب نے سب
سے پہلے نور کے ہاتھوں کو چوم کے آنکھوں سے لگایا تھا۔۔ جبکہ نور گھونگھٹ میں شرم سے لال ہوئی تھی۔۔
دوراب نے
اس کی اٹھنے میں مدد کی تھی۔۔
اب
دیدارے یار کا وقت تھا کس کافر سے صبر ہونا تھا۔۔ دوراب نے وہ جالی دار گھونگھٹ
نور کے چہرے سے ہٹایا تھا۔۔ نور شرم و حیا سے لال چہرا لیے اس پر کیسی بجلی کی طرح
گری تھی۔۔ دوراب نے ایک قدم نور کی طرف بڑھیا تھا اور آگلے ہی لمحے اس کے ماتھے پر
اپنے ہونٹ رکھ دیے تھے۔۔ پاس کھڑی آمنہ ،
جزا نے ہوٹینگ کی تھی۔۔۔ جبکہ نور کا شرم سے لال ہوتا چہرہ دیکھ جر دوراب نے اس کو
اپنے آپ میں چھپا لیا تھا ۔ اس کی آنکھیں نور کے چہرے سے ہٹنے سے انکاری تھی۔۔۔
زوریز
اور حدید کامران صاحب اور احسن صاحب سے اجازت لے کر دوراب اور نور کو فوٹو شوٹ کے
لیے لے گئے تھے۔۔ مگر جزا، امنہ سویرا ، حور پیچھے پیچھے آ رہی تھی۔۔
فوٹوگرافر
دوراب اور نور کو پوز سمجھا رہا تھا کہ ایسے کھڑے ہو جب آمنہ کی پیچھے سے آواز آئی
۔۔
بھائی ان دونوں
کے درمیان تھوڑا فاصلہ رکھو ابھی ہم نے لڑکی کی رخصتی نہیں دی۔۔ اور لڑکا
ہمارا پیدائشی ٹھرکی ہے۔۔۔ آمنہ بہت پر سکون اندار میں چلتی آ رہی تھی ۔۔
تم سب سے
یہ چاروں نہیں ہینڈل ہوتی ۔ دوراب آمنہ جزا ، سویرا اور حور کو آتا دیکھ کر بولا
تھا۔۔
ہماری
بیویاں ہیں جو ہم ہینڈل کریں۔۔۔ زوریز دوراب کو گھور کر بولا تھا۔۔
ماہر حور
کو بول یار ان کو کنڑول کر لے پیلز میرا شوٹ ہو لینے دیں یہ۔۔ دوراب ماہر کو منت
کرتی نظروں سے دیکھ کر بولا تھا۔۔
وہ مجھے
منہ نہیں لگا رہی ۔۔ مانا پیاری لگ رہی ہے مگر بندہ اپنے شوہر کو بھی منہ نہ
لگائیے ۔۔ ماہر نے اپنا رونا رویا تھا۔۔
تیرے تو
اپنے حالات خراب ہیں ۔۔۔ حدید نے اپنی ہنسی دبائی تھی۔۔ جب دوراب نے زوریز کے ساتھ
ساتھ حدید کو بھی تھپرمارا تھا ۔۔
یہ کیوں
مارا۔۔ حدید اور زوریز ایک ساتھ بولے تھے ۔
کچھ نہیں
بس اگلے بکرے تم دونوں بنوں اب۔۔۔ ماہر نے دونوں کو دیکھ کر آنکھ ونک کی تھی۔۔۔
تو ہمیں
کیوں نہیں مارا ہم کو بھی شادی کرنی ہے۔۔۔ آیان دوراب کو گھورتے بولا تھا۔۔ جبکہ
رحیان نے بھی ساتھ گھوری کروائی تھی۔۔
تن دونوں
شادی کے لائق نہیں ۔۔ دوراب ، حدید ، زوریز اور ماہر ایک ساتھ بولے تھے۔۔
ایک طرف
دوراب اور نور کا فوٹو شوٹ ہو رہا تھا جبکہ دوسری طرف جزا، آمنہ ، سویرا اور حور
بار بار دوراب اور نور کے پوز پر کوئی نہ کوئی بات بول دیتی تھی ۔ اور دوراب صبر
کا مظاہرہ کرتے شوٹ کروا رہا تھا جبکہ دل اس کا کر رہا تھا ان چاروں کے منہ پر ٹیپ
لگا دے۔۔
•••••••••
لنیچ کا انتظام
پی-سی ہوٹل میں کیا گیا تھا۔۔
رحیان
۔۔۔ عزیزہ نے رحیان کو بولیا تھا۔۔
جی جی
موم۔۔۔ رحیان نے فوراً پیچھے موڑ کر عزیزہ کو دیکھ تھا جو آغا آفریدی نے ساتھ کھڑی
ہوئی تھی ۔۔ آج بھی ان دونوں کا کپل پرفیکٹ لگتا تھا۔۔
کیا دیکھ
رہے تھے۔۔۔ عزیزہ نے رحیان کو گھورتے پوچھا۔۔ ان کی نظر پیچھے کھڑی سویرا پر
تھی۔۔۔
می۔۔ میں
کچھ بھی تو نہیں دیکھ رہا تھا۔۔ میں یہ تکے ڈال رہا تھا اپنی پلیٹ میں۔۔ رحیان نے
فوراً اپنی آواز کی لرزش پر قابو پیا تھا۔۔
بیٹا
اپنی نظروں کو لگام دے دو ورنہ اس کا باپ نیکسٹ تمہارا تکہ بوٹی بنا کر سب کو
کھلائے گا۔۔ عزیزہ نے یہ کہتے ہوئے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور آگے بڑھ گئی۔۔
یہ بتا
کر گئی ہیں یہ یا ڈرا کر۔۔۔ رحیان نے اپنے باپ کو دیکھتے ہوئے کہا تھا۔۔
بیٹا گئی
تو بتا کر ہیں مگر میں تمہیں یہ کہوں گا اس کے باپ سے ڈرو۔۔ آغا صاحب یہ کہہ کر
ادھر سے چلے گئے تھے۔۔ جبکہ پیچھے رحیان رونے والا ہو گیا تھا۔۔
شہزاد
ابھی دوراب اور نور کے پاس شادی کی مبارکباد دینے آیا تھا جب اس کی نظر نور کے
ساتھ کھڑی جزا پر پڑھی تھی جو اس وقت نور ما جھمکا ٹھیک کر رہی تھی۔۔۔ جب خود پر
کیسی نظر کا احساس ہوا تھا اس نے موڑ کر دیکھا تو شہزاد اس کو دیکھنے میں بزی تھا
وہ کوئی تماشا نہیں بنا نا چاہتی تھی تبھی اسکیوز کرتے ادھر سے چلی گئی تھی۔۔ مگر
کیسی اور کو شہزاد کا یوں جزا کی طرف دیکھنا سلگا گیا تھا۔۔
شہزاد
دوراب سے مل کر ایک طرف کھڑے نوریز کی طرف
آیا تھا جو کب سے سویرا کی طرف خبیث نظروں سے دیکھنے میں مصروف تھا۔۔
کیا دیکھ
رہے ہو۔۔ شہزاد نے اس کی نگاہوں کا مرکز دیکھتے ہوئے کہا۔۔
یار وہ
لڑکی بہت خوبصورت ہے۔ صرف ایک رات کے لیے چاہیے ۔۔ نوریز خباثت سے بولا تھا۔۔
وہ میری
کزن ہے۔ مگر فکر نہ کر ایک رات کے لیے تجھے ضرور میلے گئ۔۔ بس کچھ صبر کر۔۔۔ شہزاد
مکرو مسکراہٹ سے بولا تھا۔۔
نوریز نے
اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا۔۔
•••••••••
دوپہر کے
نکلے وہ اب شام میں گھر پہنچے تھے ۔۔ جزا آمنہ ، سویرا نور کو کمرے میں چھوڑ کر
نیچھے گئی تھی۔۔ جبکہ حور اور ماہر ہوٹل سے ہی افضل صاحب اور ابیہا بیگم کے ساتھ
چلے گئے تھے۔۔
جبکہ
باقی سب اس وقت سکندر ہاؤس میں تھے ۔۔۔
زوریز
حدید ، آیان ، رحیان ۔۔ بات سنو یہ تینوں نیچھے ہیں میں تھوڑی دیر روم میں جا رہا
نور سے ملنے ان کو بس کیسی طرح اوپر نہ آنے دینا۔۔ دوراں یہ کہتے ساتھ اوپر کی طرف گیا تھا جبکہ وہ
لوگ کچھ بولنا چاہتے تھے چپ ہو گئیے۔۔
دوراب کی
شاید قسمت اچھی تھی کہ کمرے کا دروازہ کھولا تھا ۔۔ دوراب کمرے میں اندر آیا اور
دروازہ لوک کرنا بھول گیا تھا۔۔ نور بیڈ پر آرام سے نیم دراز تھی ۔ دوراب جو دیکھ
کر سیدھی ہوئی تھی ۔
دوراب آپ
ادھر۔۔ جائیں یہاں سے کوئی آ جائے گا۔۔ نور نے دروازے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔
کوئی
نہیں آئے گا۔۔ بس اس وقت تم میرے پاس آؤ گی۔۔ اور یہ کہتے ساتھ دوراب نے اس کا
بازوؤں پکڑ کر اپنے قریب کیا تھا۔۔۔ دوراب اس کے چہرے کے ایک ایک نقش کو حفیظ کر
رہا تھا۔
دو۔۔
دوراب ۔۔ اس کی ذرا سی قربت سے نور کی سانسیں بے حال ہو رہی تھی۔۔
ششششششش۔۔
دوراب نے اس کے سرخ ہونٹوں پر انگلی رکھی تھی اور اس کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اس کو
خود کے اور قریب کیا تھا۔۔۔
تم نے
مجھے بہت آزمایا ہے میری جان اب اس کا قرض تو ادا کرنا پڑے گا۔۔ دوراب نور کو بھکی
نظروں سے دیکھتا بولا تھا۔۔۔
کون سا
ازمانا کون سا قرض ۔۔۔ نور ناسمجھی سے دیکھتے بولی تھی۔۔۔ جبکہ دوراب کے ہونٹوں پر
مسکراہٹ نے جگہ لی تھی۔۔۔ جبکہ دوارب اپنے جذبات پر لبیک بولتا نور کے کی پیشانی
پر اپنے لب رکھ چکا تھا ۔۔ یہ سب اتںا اچانک تھا کہ نور کے دل کی ڈھرکن برقرار
ہوئی تھی۔۔۔ کیا نہیں تھا دوراب کے اس لمس میں ۔۔ ایک عرصے کی دوری، محبت ، ںے
انتہا پیار ، احترام ۔۔
دو۔۔۔۔۔
دور۔۔۔ دوراب ۔۔۔۔ ںور بامشکل بول پائی تھی۔۔ کیونکہ دوراب کے اس عمل سے اس مے
رخسار تک سرخ ہو گئے تھے۔۔۔
آج اتنا
تو حق لینے دو یار۔۔ نور کی بات سن کر دوراب اس کے دھکتے رخسار کو اپنے انگلی کی پوروں سے
چھوتا بولا تھا۔۔۔ جبکہ نور نے سر دوراب کے چوڑے سینے پر ٹیکا لیا تھا۔۔۔ اور دوراب اطنی اس معصوم سی گڑیا کو اپنے حصار
میں لے چکا تھا۔۔۔
جبکہ
دوسری طرف آمنہ ، جزا اور سویرا ، دوراب کو نیچھے ڈھونڈ رہی تھی کیونکہ زوریز ،
آیان ، حدید اور رحیان نیچھے تھے مگر دوراب نظر نہیں آ رہا تھا۔۔
تب ہی
انعم بیگم نے سویرا کو کیسی کام کے لیے کچن میں بھیجا تھا ۔۔ جہاں رحیان کھڑا پانی
پی رہا تھا۔۔
سویرا کے
دماغ میں کچھ خیال آیا تھا۔۔
اسکیوز
می۔۔۔ اس نے رحیان کو مخاطب کیا تھا۔۔
بہت دلفریب
آواز رحیان کے کانوں میں پڑی تھی اس نے موڑ کر دیکھا تو نہ اس کو اپنی سماعت پر
یقین آیا نہ نظر پر۔۔
جی۔۔ وہ
دوراب بھائی کہاں ہیں۔۔ انکل بلا رہے ہیں ۔۔ سویرا نے معصومیت سے رحیان سے پوچھا
تھا۔۔
وہ دوراب
تو اوپر توم میں نور بھابھی کے پاس ہیں ۔ رحیان بے دھیانی میں سچ بول گیا تھا۔۔
شکریہ یہ
کہتے ساتھ سویرا کچن میں سے بھاگ کر نکلی تھی ۔
جب اچانک
رحیان کو اپنی بیوقوفی کا اندازہ ہوا تھا وہ فوراً زوریز کو فون کرتا باہر بھاگا
تھا۔۔
دوراب
بھائی اوپر نور کے پاس ہیں ۔۔۔ سویرا پھولے سانسوں کت ساتھ بولی تھی ۔۔ اور ان سب
نے اوپر ڈور لگا دی تھی ۔
کیا ہوا
ہے کیا آفت آن پہنچی ہے۔۔ زوریز نے رحیان کے چہرے کو دیکھے بولا تھا۔۔
یار میرے
سے ایک بلنڈر ہو گیا۔۔ وہ سویرا نے مجھ سے دوراب کا پوچھا اور میں نے سچ بتا دیا
پتا نہیں کیسے۔۔۔ رحیان بیچارگی سے بولا تھا۔۔
لعنت ہو
تم پر ایسی بھی کون سی بات تھی کہ جھوٹ نہیں بول سکتا تھا۔۔ حدید تپ کر بولا تھا۔۔
یار مجھے
نہیں پتا بس میں نہیں بول پایا۔۔ رحیان پھر سے بولا تھا۔۔
اب ادھر
کھڑے باتیں کرنا بند کرو روم کی طرف چلو ۔ زوریز دوراب کا نمبر ملاتا اندر بھاگا
تھا اور وہ تینوں اس کے پیچھے۔۔
اس سے
پہلے وہ پہنچتے وہ تینوں دروازے کے سامنے کھڑی تھی اور آمنہ نے ہاتھ بڑھا کر
دروازہ کھول دیا تھا۔۔
اندر
دوراب جو نوت کو سینے سے لگائے کھڑا تھا اس اچانک نازل ہوئی آفت پر فورآ پیچھے ہٹا
تھا ۔۔
ایک کام
نہیں ہوتا ان نکموں سے۔۔ دوراب دانت پیستا بولا تھا۔۔
سامنے کا
منظر دیکھ کر آمنہ ، جزا، سویرا شرم سے سرخ ہو گئی تھی۔۔ جبکہ وہ چاروں سیڑھیوں کی
طرف منہ کر کے کھڑے ہو گئے تھے ۔
بھائی
باہر جائیں آپ ۔۔ آمنہ نے دوراب کو ہاتھ سے باہر نکالا تھا ۔۔
دوراب ان
چاروں کو گھور کر دیکھ رہا تھا اور زوریز آیان اور حدید نے رحیان کی طرف انگلی کی
تھی۔۔ اور دوراب نے اس کو گردن سے پکڑ لیا تھا۔۔
ہاں میڈم
کیا چل رہا تھا۔۔ آمنہ جزا نے ایک ساتھ نور سے پوچھا۔۔
مجھے
نہیں پتا۔۔ اس نے کمبل منہ تک خود پر ڈال لیا تھا۔۔
جبکہ
سویرا منہ نیچھے کئے ہنس رہی تھی ۔
مگر کون
جانتا تھا اس کی اس مسکراہٹ اور معصومیت
کو کس درندے کی نظر لگنے والی ہے وہ کن سازشیوں جا شکار ہونے والی ہے اس کی
معصومیت کیسے درندوں کی نظر ہو گی ۔۔۔
جاری
ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
Don’t
copy without permission........
Must
share your reviews and also share with your friends.... Thanks alot <3
Don’t
copy without permission........
Must
share your reviews and also share with your friends.... Thanks alot <3
Comments
Post a Comment