Dasht E Ulfat novel by Shazain Zainab episode no 9
















بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

 ناول

 

دشتِ الفت

 

شازین زینب

 

 

 

 

 

 

 

 

Ep # 09

 

 

 

 

 

 

آج نور اور دوراب کے نکاح کو ایک ہفتہ ہو گیا تھا۔ ۔ سویرا اور جزا اس وقت اپنے گھر میں بیٹھی لیپ ٹاپ پر ایک سائٹ کھول کر بیٹھی تھی۔۔

دونوں کی نظریں اس وقت لیپ ٹاپ سکرین کے اوپر ٹکی ہوئی تھی۔۔ دس بجنے میں کچھ منٹ باقی تھے ۔ لاہور بورڈ کا مٹریک کا رزلٹ دس جبے اناؤنس ہونا تھا۔۔۔

یار 10 بجنے میں کتنی دیر باقی ہے۔۔۔ سویرا نروس سی  جزا کو دیکھتے ہوئے بولی۔۔۔

بس پانچ منٹ ویٹ کر جاؤ دس بجنے والے ہیں ۔۔ جزا لیپ ٹاپ کی سکرین کو دیکھتے ہوئے بولی تھی ۔۔

جزا کی نظر مسلسل لیپ ٹاپ سکرین کے اوپر تھی جبکہ سویرا کی نظریں اس وقت گھڑی کی سوئیوں پر تھی جو دس بجنے کا اشارہ دینے ہی والی تھی۔۔

آگیا رزلٹ۔۔ جزا کی پرجوش آواز کمرے میں گونجی تھی اور سویرا اس کی آواز پر ڈر کر رہ گئی۔۔

جزا نے سویرا کا رول نمبر لکھ کر انٹر کیا تھا۔۔۔ ویب پیچ لوڈ ہو رہا تھا اور اس کے ساتھ ساتھ سویرا کی دھڑکنیں تیز ہو رہی تھی۔۔ اور کچھ ہی لمحوں میں سویرا شاہد کا مٹریک کا رزلٹ سکرین پر تھا ۔۔۔ رزلٹ دیکھ کر سویرا کی انکھوں میں سے ایک انسو ٹوٹ کر اس کی گال پر پھسلا تھا۔۔ اس کو ابھی بھی یقین نہیں آرہا تھا اپنی انکھوں پہ کہ اس نے جو سکرین پر دیکھا تھا وہ سچ تھا۔۔۔ تبھی جزا کا پاس پڑا فون بجا۔۔

جزا نے ایک لمحے کے اندر کال اٹھائی کیونکہ کال اس کے بابا کی تھی۔۔۔

السلام علیکم ڈیڈ ۔۔۔ جزا کے پرجوش آواز فون کے سپیکر پر سے گونجی۔۔

وعلیکم السلام میری بات جلدی سے سویرا  سے کرواؤ۔۔ شاہد صاحب کی اواز بے قرار سی لگ رہی تھی۔۔۔

جزا ںے فوراً فون سویرا کو دیا تھا جو ابھی بھی لیپ ٹاپ کی سکرین کو بھیگی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی۔۔ سویرا کی نظروں کو لیپ ٹاپ سکرین پر دیکھ کر جزا نے فون اس کے کان کے ساتھ لگایا۔۔۔

مبارک ہو بابا کی جان پورے لاہور میں ٹاپ کیا ہے میری بیٹی نے۔۔۔۔ شاہد صاحب کی محبت سے بھری آواز سویرا کے کان میں گونجی تھی۔۔۔

اپنے باپ کی آواز سن کر وہ بھیگی آنکھوں کے ساتھ مسکرائی تھی۔۔ اس کو اس کی محنت کا پھل دیا گیا تھا ۔ اس کی سارے سال کی محنت رائگاں نہ گئی تھی۔۔۔ اللّٰہ نے اس کو اس کی محنت کا پھل اس کے وہم و گمان سے بھی زیادہ دیا تھا۔۔۔

خیر مبارک بابا جان۔۔۔ سویرا نے فون جزا کے ہاتھ سے لیا تھا۔۔ اس کی آواز بھی اس کی آنکھوں کی طرح بھیگی ہوئی تھی۔۔۔

میں آپ  کو بعد میں فون کرتی ہوں پہلے مجھے اس کا شکریہ ادا کرنا ہے جس نے مجھے میری محنت کا سیلا میری امید سے بھی زیادہ دیا ہے۔۔ یہ کہتے ساتھ اس نے فون واپس جزا کو دیا اور خود وضو کرنے چلی گئی تھی۔۔

کچھ ہی دیر میں وہ شکرانے کے نوافل پر کے فارغ ہوئی تھی جب انعم بیگم کمرے میں داخل ہوئی تھی۔۔۔

ماما۔۔۔۔۔ وہ فوراً ماں کے گلے لگی تھی۔۔۔

کیا آیا میری بیٹی کا رزلٹ ۔۔ انہوں نے اس کے چہرے کی خوشی کو دیکھتے ہوئے کہا تھا ۔

ٹاپ کیا ہے ہمارے طوفان نے۔۔ جزا نے سویرا کو چھیڑتے ہوئے کہا تھا ۔

ماشاءاللہ ۔۔۔ انعم بیگم نے اس کو دوبارہ گلے لگا لیا تھا ۔۔

•••••••••••••••••

آج اس کے کالج کا پہلا دن تھا اس کا داخلہ اس کے پسند کے کالج میں ہوا تھا۔۔ وہ ایک ڈاکٹر بنا چاہتی تھی۔۔ تبھی اس نے میڈیکل میں ایڈمیشن لیا تھا۔۔۔۔

وہ یونیفارم پہنے تیار ہو کر ناشتہ کر رہی تھی۔۔ جب باہر سے کالج وین کے ہورن کی آواز آئی تھی۔۔

وہ فوراً سے اٹھی تھی اور ماں باپ کو مل کر باہر گئی تھی۔۔ جیسے ہی اس وین کا دروازہ کھولا تو سامنے ہی اس کی بیسٹ فرینڈ زائشہ بیٹھی ہوئی تھی۔۔ سویرا اس کو دیکھ کر فوراً اس کے پاس جا کر بیٹھی تھی۔۔وہ دونوں سارا راستہ باتیں کرتی کالج گئی تھی ۔۔

کالج انٹر ہوتے ساتھ ان دونوں نے اپنی کلاس ڈھونڈی تھی سب سے پہلے۔۔ وہ دونوں کلاس میں جا کر بیٹھی ہی تھی کہ کچھ لڑکیوں ان کے سامنے آ کر کھڑی ہوئی تھی ۔

تم دونوں فرسٹ ایئر کی سٹوڈینٹ ہو؟؟ ایک لڑکی نے ناک چرا کر پوچھا تھا ۔

سویرا کو اندازہ ہو گیا تھا وہ لڑکیاں کس وجہ سے ان کے سر پر سوار ہیں ۔۔

آپ نیو ہو؟؟ سویرا نے بھی اس کے ہی انداز میں پوچھا تھا۔۔

میں نیو کیوں ہوں گئی۔۔ اس لڑکی نے ایک ائی برو اٹھا کر سویرا کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔۔

وہ اس لیے کیونکہ آپ کو یہ بھی نہیں پتا کہ نیو سٹوڈنٹ کون ہیں اور اولڈ سٹوڈنٹ کون ہیں ۔۔ سویرا نے انتہا کے مطمئن انداز میں جواب دیا تھا۔۔

وہ لڑکی سویرا کے اٹیٹیود سے کافی اپریس ہوئی تھی ۔۔ ایم اپریس ۔ وہ لڑکی ستائشی نظروں سے دیکھتے ہوئی بولی۔۔

میرے لیے یہ کمپلیمنٹ پرانا ہو گیا ہے۔۔ کچھ نیا بولیں آپ ۔۔ سویرا کرسی کے بیک سے ٹیک لگاتی بولی تھی ۔ جبکہ مقابل تمام لڑکیوں کے منہ کھولے کے کھولے رہ گئے تھے۔۔ وہ جو ان کو اتنی معصوم لگی تھی کہ اس کو بیوقوف بنانا ان کے لیے آسان ہے وہ کیسے ان کے سامنے اپنی زبان کے جوہر دیکھا رہی تھی ۔۔ جبکہ زائشہ ان کو ایسے دیکھ رہی تھی جیسے کہہ رہی ہو آج کے لیے اتنا بہت ہے۔۔

بچی زبان بہت تیز ہے تمہاری ۔۔ ان لڑکیوں میں سے ایک اور بولی تھی۔۔

الحمدللہ کبھی غرور نہیں کیا ۔ سویرا نے سر کو خم دیتے ہوئے داد وصول کرنے والے انداز میں بولا تھا ۔۔

ڈھیٹ ۔۔۔ ایک اور لڑکی بولی تھی ۔۔

آپ کی سوچ سے بھی زیادہ ۔۔ سویرا شان بے نیازی سے بولی تھی ۔۔ وہ آج  جزا کی بہن لگ رہی تھی سہی معنوں میں ۔۔۔

آج کالج کا پہلا دن تھا تو اس وجہ سے کچھ خاص سٹیڈی نہیں ہوئی تھی ۔ زائشہ تو دوپہر میں ہی گھر چلی گئی تھی۔۔ جبکہ سویرا چھٹی کا انتظار کر رہی تھی ۔۔ انتظار کرتے ہوئے اس کی آنکھ لگ گئی تھی اور جب اس کی آنکھ کھلی تو چھٹی کو بیس منٹ ہو گئے تھے ۔۔

اوف سویرا تمہاری نیند تمہیں لے ڈوبے گئی ۔۔ وہ خود کو کوستی کالج میں ڈور کی ظرف بھاگی تھی۔۔ کالج میں ابھی بھی کچھ بچیاں موجود تھی۔۔ مگر جس وین نے سویرا کے گھر والی سائیڈ پر جانا تھا وہ نکل چکی تھی۔۔ کچھ سوچتے وہ کالج سے باہر نکلی تھی۔۔

وہ سڑک کے کنارے کھڑی کب سے کسی رکشے کو روکنے کی کوشش کر رہی تھی جب اس کے سامنے ایک سفید رنگ کی لینڈ کروزر آ کر روکی تھی۔۔ پہلے تو وہ گھبرا گئی تھی ۔ مگر جیسے ہی کار کا شیشہ نیچھے ہوا تو سویرا نے خود کو نارمل کیا تھا۔۔

جبکہ شہزاد جو اس وقت بیج پنٹ پر نیوی بلیو کلر کی شرٹ پہنے اس کے بازوؤں کو کہنیوں تک فولڈ کیے۔۔ سویرا کے سامنے آ کر کھڑا ہوا تھا۔۔

تم ادھر کیا کر رہی ہو۔۔ شہزاد نے سویرا کو باغور دیکھتے ہوئے پوچھا تھا۔

کالج یونیفارم میں میں ادھر کیا کر سکتی ہوں ؟؟ سویرا نے الٹا سوال کیا تھا۔۔ کیونکہ اس کو بھوک بھی لگی تھی اور سر پر سورج تپتا ہوا تھا ۔ شدید گرمی کی وجہ سے اس کا سفید چہرہ مکمل سرخ ہوا پڑا تھا ۔۔ اور اس کے پھولے ہوئے گال مزید پھولے ہوئے لگ رہے تھے۔۔ اس وقت کوئی بھی اس کو دیکھتا تو اس معصوم سی گڑیا پر دل وار دیتا۔۔

لگتا ہے ماموں کی دونوں بیٹیوں کو سیدھا جواب دینا نہیں آتا ۔۔ شہزاد اس کی طرف مسکرا کر دیکھتے ہوئے بولا تھا ۔۔

کیا مطلب ؟؟ سویرا نے اب کی بار گھورا تھا۔۔

مطلب یہ کے اتنی گرمی میں ادھر کیا کر رہی ہو گھر کیوں نہیں گئی ابھی تک۔۔ شہزاد نے اب کی بار مدے کی بات کی تھی۔۔

وین مس ہو گئی میری ۔ سویرا نے بیچارگی سے کہا تھا۔

کوئی بات نہیں آؤ تمہیں میں گھر چھوڑ دیتا ہوں۔۔ شہزاد یہ کہتے ساتھ کار کی طرف موڑا تھا ۔ جبکہ سویرا ابھی تک ویسے ہی کھڑی تھی ۔

سویرا بیٹھوں اندر گھر چھوڑ کر آؤ تمہیں۔۔ اب کی بار شہزاد کی آواز میں کچھ روب تھا سویرا اس کے ساتھ کار میں بیٹھ گئی تھی۔

یہ بتاؤ کچھ کھاؤ گی۔۔ شہزاد نے سامنے ایک ریسٹورنٹ کو دیکھتے ہوئے بولا تھا۔۔

ہاں ضرور۔۔ سویرا نے پر جوش انداز میں کہا تھا۔۔ وہ کھانے پینے کی شوقین کھانے کے معاملاے میں کیسی دشمن کے ساتھ بھی چل پڑے۔  تو ابھی کیسے نہ بولتی جب اس کے پیٹ میں چوہے ہاکی کھیل رہے تھے ۔۔

وہ دونوں آمنے سامنے بیٹھے تھے ویٹر ان کا آرڈر ان کے ٹیبل پر رکھ چکا تھا ۔ جس سے اس وقت سویرا تو پورا پورا انصاف کر رہی تھی ۔ ساتھ ساتھ شہزاد کی باتوں کا جواب دے رہی تھی۔۔

شہزاد اپنا کھانا کھا چکا تھا اب وہ سویرا کو اس کا کھانا کھاتا دیکھ رہا تھا۔۔ اور اس کے خیال میں نوریز کے الفاظ گونجے تھے۔ کچھ سوچتے ہوئے شہزاد مسکرایا تھا۔۔ اب یہ مسکراہٹ سامںے بیٹھی سویرا کی زندگی میں کیا طوفان لانے والی تھی اس سے وہ معصوم خود بھی بے خبر تھی۔۔ اس کو تو اندازہ بھی نہیں تھا وہ کیس درندے کے ہاتھ لگنے والی ہے ۔

•••••••••

میں بول رہا ہوں کچھ بھی کرو کچھ بھی کیسی بھی طرح کنگ کا پتا لگاؤ وہ کہا ہے۔  عمران لغاری غصہ سے بولا تھا۔ 

کیسے پتا لگائیں کنگ کا۔۔ کنگ کے ساتھ یا تو سلیم کے تعلقات زیادہ تھے یہ پھر بیسٹ کو پتا ہو گا کنگ کہا ہے ۔ کیونکہ جب سے بیسٹ آیا ہے تب سے سلیم بھی کنگ سے  نہیں ملا تھا۔۔ صرف فون پر ہی رابطہ تھا ۔۔ اکرم صاحب پریشانی سے بولے تھے۔۔

سلیم کا فون میلا تمہیں ۔۔ عثمان صاحب نے کچھ سوچتے ہوئے اکرم صاحب سے پوچھا تھا۔۔

اس کی لاش جس حالت می ملی ہے تمہیں لگتا ہے کہ وہ اس کا فون ساتھ دے دیں گے ۔ اکرم صاحب نے بیزاریت سے عثمان صاحب کی طرف دیکھا تھا ۔۔

سنو سلیم کا بیٹا ہمارے کام آ سکتا ہے۔۔ آخر کار سلیم کنگ کا دوست رہ چکا ہے ۔۔ تو اس کے بیٹے کی مدد سے ہم اس تک پونچھ سکتے ہیں ۔۔ عمران لغاری کچھ سوچ کر بولے تھے۔۔

عمران مجھے لگتا ہے تمہارا دماغ تمہاری بڑھتی عمر کے ساتھ کام کرنا چھوڑ گیا ہے ۔ سلیم کا بیٹا انڈر ورلڈ کے بارے میں کچھ نہیں جانتا۔۔ اور کنگ کو بھی یہ ہی بتایا تھا سلیم نے کے اس نے اپنا بیٹا مار دیا ہے ۔۔ اب اگر حدید کو بیچ میں ڈال بھی دیا تو کنگ تک پونچھنا ویسے بھی ناممکن بات ہے۔۔۔ اور دوسری بات یہ کے وہ لڑکا ہمارے لیے کوئی پریشانی نا بنا دے۔۔ اکرم صاحب نے عمران صاحب کو غصے سے دیکھتے ہوئے کہا تھا ۔

تم دونوں کے بیٹے کدھر ہیں اس وقت۔۔ عمران لغاری کچھ سوچتے ہوئے بولا تھا ۔

وہ تینوں اوفس ورک میں لگے ہوئے ہیں ۔۔ اکرم صاحب نے ہی جواب دیا تھا۔۔ جب اچانک عمران لغاری کے اوفس کا دروازہ کھولا تھا ۔ اور نواز اندر داخل ہوا تھا ۔۔

آپ لوگوں نے بلایا تھا۔۔ نواز نے اندر آتے ساتھ ایک طرف بنے تھری سیٹر صوفے پر بیٹھتے سوال کیا تھا۔

باقی دو کو آنے دو پھر بتاتے ہیں کیوں بلایا تھا۔۔ عثمان صاحب کرسی کی پشت سے ٹیک لگا کر بولے تھے ۔

جبکہ نواز کندھے چک کر صوفے کی پشت سے سر ٹیکا کر بیٹھ گیا تھا۔۔

کچھ ہی دیر بعد شہزاد عمران صاحب کے اوفس میں داخل ہوا تھا اور اس کے پیچھے نوریز آیا تھا ۔

اب وہ سب ایک میٹنگ روم میں موجود تھے جہاں بڑی سی ٹیبل کے سائیڈ پر رکھی کرسیوں میں سے ایک ایک پر وہ سب موجود تھے۔۔ اور عمران صاحب سامنے لگے پروجیکٹر کی  سکرین کے سامنے کھڑے تھے۔۔

ہم لوگوں نے جو لڑکیوں اور ڈرگز اور اسلحہ کی اسمگلنگ کا پلین بنایا ہے اس پر ایک ہفتے بعد عمل کرنا ہے کیونکہ جلد سے جلد سارا مال پاکستان سے باہر بھیجنا ہے اور اس بار یہ مال پاکستان سے سیدھا دبئی نہیں جائے گا۔۔ جیسے کے پلین میں ڈیسائیڈ ہوا تھا  کہ شہزاد سب سے پہلے یہاں  سے امریکہ جائے گا اور نواز ترکی ، جبکہ نوریز سیدھا اومان جائے گا ۔ سارا مال اومان ہہنچنے سے ایک دو دن پہلے نواز اور شہزاد نوریز کے پاس اومان میں ہوں گئے اور پھر اومان سے سارا مال آگے دبئی میں بھیجے گئے ۔ لینا وہاں تم سب کا کے آنے کا انتظار کرے گئی اور سارا مال دبئی میں مطلوبہ جگہ پر پہچانے کے بعد تم چاروں پاکستان آؤ گے واپس۔۔۔ عمران صاحب نے دوبارہ سے سارا پلین ان کو بتایا تھا۔۔

اور ہاں ہم لوگ تم سب کو یہاں سے ہر طرح کی صورتحال کے بارے میں بتاتے رہیں گے ۔۔۔ اکرم صاحب نے بات کو آگے شروع کیا تھا جب اچانک شہزاد کا فون بجا تھا ۔ جس کو اس نے فوری طور پر کاٹ دیا تھا ۔۔۔

••••••••••

وہ اپنے اوفس میں ایک طرف رکھے صوفے پر ٹیک لگا کر بیٹھا ہوا تھا ۔ سیاہ آنکھوں میں اس وقت ہلکی ہلکی سی سرخی شامل تھی۔ سیاہ بال جو جیل سے سیٹ کیے گئے تھے وہ اب کچھ کچھ ماتھے پر بکھرے ہوئے تھے۔۔ سامنے رکھی ٹیبل پر دو شراب کی بوتلیں خالی پڑی تھی اور ایک بوتل آدھی تھی جب کے ساتھ رکھے گلاس میں شراب ابھی بھی موجود تھی۔۔ ساتھ پڑا ایش ٹرے پی ہوئی سیگریٹ سے بھرا پڑا تھا ۔ اور ایک اور سیگریٹ اس کے ہاتھ میں سولگ رہا تھا ۔۔۔ اس نے سیگریٹ دوبارہ اپنے ہونٹوں سے لگائی تھی۔ اور ایک گہرا کش لگا کر سیگریٹ کا دھواں ہوا میں خارج کیا تھا۔۔ اس کے اوفس روم میں اس وقت سیگریٹ کے دھوئیں اور شراب کی بدبو پھیلی ہوئی تھی۔۔۔ وہ اس وقت اپنے خیالوں میں گم تھا جب اس کا فون پھر سے بجا تھا مسلسل بیرون ملک سے آتی کال سے تنگ آ کر اب کی بار اس نے کال اٹھا لی تھی۔

If I’m not picking up your call, it means I don’t want to talk to you۔۔

شہزاد کی نفرت سے بھری آواز نے اوفس میں چھائی خاموشی کا راج توڑا تھا۔۔۔

Shahzad please come once۔۔

مقابل شاید کوئی عورت تھی جس کی بے بسی سے پھری آواز فون کے سپیکر سے سنائی دی تھی۔۔ اس کی آواز میں چھپی بے بسی نے شہزاد کو جیسے سکون دیا تھا ۔۔ تبھی تو وہ صوفے کی پیشت پر سر ٹیکائے مسکرا رہا تھا ۔

Ok I will try...

یہ کہتے ساتھ اس نے فون کان سے ہٹایا تھا۔ 

I will come to end this chapter this time sweetheart....

شہزاد فون کی سکرین کو دیکھتے ہوئے بولا تھا۔ ایک مکرو مسکراہٹ اس کے چہرے پر سجی تھی۔۔ ہاتھ میں پکڑی سگریٹ اب ختم ہو چکی تھی ۔ سامنے پڑا شراب کا گلاس اس نے لبوں سے لگایا تھا۔ 

••••••••••

وہ اس وقت آنکھوں  پر سیاہ  رنگ کی پتی باندھے دونوں ہاتھوں میں تکوار پکڑے چہرے پر سیاہ رنگ کا ماسک لگائے کھڑا تھا۔۔ کمرے میں روشنی بالکل مدہم تھی سامنے کھڑے شخص نے ایک تھالی کے اندر سے کچھ سیب اٹھا کر فضا میں بلند کیے۔۔۔ اس نے ان سیبوں کو فضا میں بلند ہونا اپنی سماعت سے محسوس کیا اور فضا میں اپنی ہاتھوں میں پکڑی دو دھاڑی تلواروں کو فضا میں بلند کیا اور چند ہی لمحوں میں وہ سیب ٹکڑوں میں کٹ کے زمین پہ گرے ۔۔۔ اس سے پہلے کہ وہ دوبارہ اپنے ہاتھوں میں لی ہوئی تلواروں سے کوئی اور وار کرتا اس کو کسی کے بھاری بوٹوں کی آواز کمرے میں سنائی دی وہ ایک لمحے کے لیے رک گیا اس نے اپنی انکھوں پر سے سیاہ پٹی اتاری اور مڑ کر دیکھا۔۔

تم ادھر۔۔۔ آج کا فی دیر کے  بعد ادھر نظر آئے ہو۔۔ اس خاموش اندھیرے کمرے میں جس میں مدہم سے روشنی چل رہی تھی کبیر خاور کی آواز گونجی۔۔

ہاں میں کبیر خاور۔۔۔ کیوں میرا انا ناگوار لگا آخر تم میرے ٹھکانے پہ رہ رہے ہو یہاں پر تو میرا آنا جانا لگا ہی رہے گا میں جب مرضی چاہوں آؤ جب مرضی چاہوں جاؤں تمہیں بتانے کا پابند نہیں ہوں میں کبیر خاور۔۔ بیسٹ نے آخر میں اس کا نام جتانے والے انداز سے لیا تھا۔۔

کنگ ہوں میں مجھے کنگ کہہ کے بلاو  بیسٹ۔۔۔ کبیر خاور روب سے بولا تھا۔۔

تم کنگ اپنے چیلے اور کتوں کے لیے ہو کبیر خاور بیسٹ کے لیے صرف اور صرف کبیر خاور ہو اور کچھ بھی نہیں۔ اپنے ہاتھوں میں پکڑی دو دھاری تلواروں کو ان کی جگہ پہ رکھتے ہوئے بیسٹ بولا اس کی آنکھوں میں بلا کا سرد پن تھا سبز آنکھیں ہلکی ہلکی سرخ ہوئی ہوئی تھی جیسے وہ اپنے اندر اٹھتے غصے کو دبا رہا ہو ۔

بھولو مت بیسٹ تمہیں اپنے گروپ میں شامل میں نے کیا تھا آج اگر تم پاکستان میں ہو تو میری وجہ سے ہو۔۔ کبیر خاور دانت پیس کے بولا تھا۔۔

ہاہاہاہا ۔۔۔ بیسٹ کا جاندار قہقہہ پورے کمرے میں گونجا تھا ۔

تم یہ مت بھولو کبیر خاور جب تمہیں تمہاری جان کے لالے پڑے تھے اس ٹائم پہ میں نے تمہیں اٹلی میں پنا دی تھی اور جہاں تک رہی بات پاکستان میں جانے کی تو میرے لیے کوئی مشکل بات نہیں تھی تمہیں راستے میں سے ہٹانا میرے لیے ایک چیونٹی کو مارنے کے برابر تھا میں تو تمہیں مار کے بھی پاکستان جا سکتا تھا اگر تمہیں پناہ دی ہوئی ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے تم میرے سر چڑھ جاؤ۔۔۔ بیسٹ اس کے سامنے کھڑا اس کی آنکھوں میں آنکھیں گاڑ کر بولا تھا۔۔

کیبر خاور کی زبان کو ایک لمحہ کے لیے بریک لگی تھی ۔

تم میرے ساتھ اس لہجہ میں بات نہیں کر سکتے بیسٹ اپنی زبان کو قابو میں رکھو۔ کیبر خاور غصے میں بولا تھا ۔

میں تم سے لے کر نہیں کھاتا۔۔ اور نہ ہی تمہارا نوکر ہوں۔۔۔ میں اگر ابھی چاہوں تو تمہارا ٹھیکانہ آرمی اور زیک کو بتا سکتا ہوں۔۔ پھر جو تمہارا حال ہو گا وہ تم بھی جانتے ہو۔۔ بیسٹ ماسک کے پیچھے طنزیہ مسکرایا تھا ۔۔

اور تمہارے لیے ایک اور خبر بھی ہے۔۔۔ سلیم آفندی مر گیا ہے ۔۔  بیسٹ کبیر خاور کے کان کے پاس جھک کر بولا تھا ۔۔

کیا مطلب ۔۔۔ وہ کیسے ۔۔۔ کیبر خاور کو سمجھ نہیں آیا تھا کیا بولے۔

مطلب یہ کے سلیم آفندی کو بھی مار دیا گیا ہے۔۔ بیسٹ بہت پرسکون انداز میں بولا تھا۔۔۔

تم مجھے بتاؤ گے کہ انڈر ورلڈ میں چل کیا رہا ہے ۔ کیبر خاور نے مٹھیاں بھینچ لی تھی ۔۔

کس بات کی جلدی ہے کیبر خاور۔۔ بتا دوں گا سب مگر وقت آنے پر۔۔۔ بیسٹ کو اس کی بے بسی دیکھ کر نہ جانے کیوں اتںا سکون مل رہا تھا۔۔۔

اور ہاں ایک اور بات تمہارے اس جگری دوست کا بیٹا بھی زندہ ہے ۔ بیسٹ یہ کہہ کر مطمئن سا ہو کر کیبر خاور کے چہرے کے اترے رنگ دیکھ رہا تھا ۔

حدید ۔۔۔ کیبر خاور کے منہ سے بس یہ ایک لفظ نکالا تھا۔۔۔

بیسٹ چلتا چلتا اس کے پاس سے گزر کر کمرے سے باہےجانے لگا تھا جب کیبر خاور کی آواز اس کے کان میں پڑی تھی ۔۔

بیسٹ مجھے واپس اٹلی بھیجو یا پاکستان ۔۔۔ کیبر خاور دو ٹوک لہجے میں بولا تھا۔۔۔۔

بھول جاؤ کیبر خاور۔۔ بیسٹ نے پیچھے موڑے بغیر بولا تھا۔۔

تم میرے پر کاٹنا چاہتے ہو۔۔ میں ایسا ہر گز نہیں ہونے دوں گا۔۔۔ کیبر خاور غصے سے چیلا کر بولا تھا۔۔

اپنی آواز نیچی رکھوں کیبر خاور۔۔ بیسٹ کی فطرت میں کیسے کے پر کاٹنا شامل نہیں ۔۔ میں پر کاٹنے کے بجائے شہ رگ کاٹنے کو ترجی دیتا ہوں ۔ اگر کبھی تمہیں لگام دینی ہو گی تو تمہارے پر نہیں تمہاری شہ رگ کاٹو گا ۔ بیسٹ یہ کہہ کر روکا نہیں تھا چلا گیا تھا۔۔۔ جبکہ کیبر خاور کو سانپ سونگھ گیا تھا۔۔

•••••••••••

فلائٹ ابھی امریکہ کے شہر لوس اینجلس میں اتری تھی۔۔ شہزاد اپنے لون کوٹ کو بازوؤں پر رکھے اپنا سامان لر کر ائیرپورٹ سے باہر نکالا تھا۔ اس نے اپنے لیے کار پہلے ہی منگوا لی تھی۔۔۔ ڈرائیو کو اڈریس کا بتا کر وہ پر سکون سا کار میں بیٹھا تھا ۔۔ اور اپنے کافی کے گھونٹ بھرنے لگا تھا۔۔۔

کچھ ہی دیر میں وہ ایک گھر کے سامنے کھڑا تھا۔۔ اس کو یہ گھر آج بھی یاد تھا ۔۔ اس کا کئی کئی دن اس گھر میں سٹے کرنا۔۔ روزینہ کے ساتھ وقت گزارنہ۔۔ اس بات میں کوئی شک نہیں تھا کہ روزینہ خوبصورت تھی مگر شہزاد کے لیے وہ صرف ٹائم پاس تھی ۔۔ شہزاد کو صرف اس کے جسم سے مطلب تھا اور کچھ نہیں ۔۔۔

اس نے آگے بڑھ کر گھر کی بیل بجائی تھی۔۔۔ کچھ ہی دیر میں دروازے کھول دیا گیا تھا۔۔۔

روزینہ حیران سی شہزاد کو دیکھ رہی تھی اس کو یقین نہیں آ رہا تھا وہ اس کے سامنے کھڑا ہے۔۔ وہ بے اختیار سی آگے بڑھی تھی اور شہزاد کے گلے لگی تھی۔۔۔ مگر شہزاد سنجیدہ تاثرات چہرے پر سجائے کھڑا تھا ۔۔

Finally you came

روزینہ بھیگے لہجے میں بولی تھی ۔۔ جبکہ شہزاد کوئی جواب دیے بغیر اندر چلا گیا تھا۔۔۔ سامنے ٹی-وی لاؤنج میں نیک اپنے کھلونوں کے ساتھ کھیل رہا تھا۔۔ شہزاد اس کو دیکھ کر روکا تھا۔۔۔

This is our son۔۔۔

روزینہ نے اس کا بازوؤں پیچھے سے پکڑا کر اس کے بازو پر سر ٹیکا لیا تھا ۔۔ جب اچانک شہزاد نے غصے سے اپنا بازو اس سے چھوڑیا تھا۔۔۔

Why are you calling me again and again? When I have tell you, I don’t have any relation with  you. And neither do I consider this child as my child. You were just a time pass and nothing else. I have nothing to do with you and this filth...

 شہزاد غصے سے بولا تھا اس کے لہجے اور نظروں سے نفرت صاف ظاہر ہو رہی تھی۔۔۔ شہزاد کی آواز اتنی بلند تھی کے سیڑھیاں اترتی للی ایک وقت کے لیے روک گئی تھی ۔ اس کو یہ آواز جانی پہچانی لگ رہی تھی ۔۔۔

But I have loved you۔۔۔۔

روزینہ بھیگے لہجے بولی تھی ۔۔۔

Oh please just shut up ...

شہزاد انتہا  کے بیزار لہجے میں بولا تھا۔۔

Shizad please accept our kid ...

روزینہ نے اس کے آگے ہاتھ جوڑے تھے ۔۔۔

I don’t ....

شہزاد نے یک لفظی جواب دیا تھا ۔۔۔

How can you do this with me ..

روزینہ شہزاد کا گریبان پکڑ کر چیلا کر بولی تھی ۔۔ جبکہ سیڑھیوں میں کھڑی للی یہ سب چھپ کر دیکھ رہی تھی اس کو یقین ہی نہیں آیا تھا۔۔ کہ شہزاد اس کی بہن کے بچے کا باپ ہے ۔۔۔

You was just a toy for me... you was just a source for me for fulfil my desires ....

شہزاد ںے اپنا گریبان اس سے چھوڑیا تھا اور اس کو دور دھکیلا تھا۔۔۔

You  Bastard... you destroy my whole life... you said you loved me... and now you say I was just a toy for you ..

روزینہ نے ایک تھپڑ شہزاد کے منہ پر مارا تھا ۔۔۔ اس کو ابھی بھی یقین نہیں آ رہا تھا جس کے لیے اس نے اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیا تھا۔۔ آج وہ اس کو بول رہا تھا کہ وہ صرف اس کے لیے ایک کھلونا تھی۔۔ شہزاد نے بے اختیار اپنا ہاتھ اپنی گال ہر رکھا تھا جہاں ابھی روزینہ نے تھپڑ مارا تھا۔۔ جبکہ کے سیڑھیوں میں کھڑی للی کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔۔۔ اس نے اپنا ہاتھ اپنے پیٹ پر رکھا تھا۔۔ اس کا ہر خدشہ درست ثابت ہوا تھا۔۔۔

شہزاد غصے سے روزینہ کی طرف دیکھ رہا تھا۔۔ اور اگلے ہی لمحے ایک کے بعد ایک تھپڑ اس کے منہ پر مارتا گیا۔۔۔ وہ غصے میں پاگل ہو گیا تھا ۔ وہ مکمل طور پر وحشی ہو چکا تھا ۔ روزینہ کے منہ سے خون نکلنے لگ گیا تھا مگر شہزاد پھر بھی اس کے منہ پر تھپڑ مارتا گیا۔۔ اس نے ایک زور دار دھکا روزینہ کو دیا تھا۔ وہ ٹی-وی لاؤنج میں رکھی ٹیبل پر جا کے گیری تھی۔۔ اس کے سر کے نیچلے حصے میں ٹیبل کی نوک بہت زور سے لگی تھی۔۔ اس کی ایک چیخ فضا میں بلند ہوئی تھی۔۔ اس کی چیخ کی آواز سن کر للی فورآ نیچے اتری تھی ۔ اس سے پہلے وہ آگے بھرتی شہزاد نے اپنے جیب میں سے ایک گن نکالی تھی ۔۔ پہلا نشانہ اس نے نیک کا لیا تھا اور اگلے ہی لمحے کھیلونوں کے ساتھ کھلیتے نیک کے سر کے درمیان میں گولی لگی تھی اور وہ چھوٹا سا بچہ ایک لمحے میں دم توڑ گیا تھا۔۔۔ روزینہ جو ہوش میں نہیں تھی اس سے پہلے وہ ہوش میں آتی شہزاد نے اگلی گولی اس کے دل کے مقام پر چلائی تھی ۔۔ ساتھ ہی للی کی چیخ ٹی-وی لاؤنج میں گونجی تھی ۔۔

شہزاد نے موڑ کر دیکھا تو للی کو ادھر دیکھ کر وہ حیران ہوا تھا ۔۔

Rosina...

للی کی آواز پورے ٹی-وی لاؤنج میں گونجی تھی۔۔۔۔

•••••••••••••

بیسٹ ابھی فریش ہو کر باہر نکلا تھا جب اس کا فون بجا تھا ۔ اس نے کال اٹینڈ کی تھی دوسری طرف کی ساری بات سن کر کال کاٹ کر اس نے فون بیڈ پر پھینکا تھا ۔۔۔ اور چلتا چلتا روم کی بلکہنی میں آ کھڑا ہوا تھا۔۔۔۔

سامنے مرمرا کا سمندر نظر آ رہا تھا ۔۔۔ جس کا ساحل  آج بھی روز کی طرح سیاحوں اور مقامی لوگوں سے بھرا ہوا تھا۔۔ وہ اس وقت بیوک آدا میں ایک بلند سفید عمارت کے ایک کمرے کی بلکہنی میں کھڑا تھا ۔۔ وہ خاموش سا سامنے مرمرا کے سمندر کو دیکھ رہا تھا ۔۔ کچھ عرصہ قبل ہی اس نے  ترکی کے ڈان کو اس سمندر میں مارا تھا جب وہ اپنی جان بچا کر بھاگ رہا تھا۔۔۔ آج تک یہاں کے لوگوں کو پتا نہ چل پیا تھا احمد بے کو کس نہ مارا تھا سب کو اگر پتا تھا تو یہ پتا تھا اس وقت ترکی کی مافیا پر کیسی اور کا راج ہے اب۔۔۔

وہ واپس اپنے کمرے میں گیا تھا۔۔۔ اپنا سیاہ کوٹ پہنا اور باہر نکلا تھا۔۔ وہ راہ داری میں چلتے ہوئے سامنے ایک کمرے میں گیا تھا جہاں کینگ موجود تھا ۔۔۔

کنگ جو کب سے اپنے کمرے میں گہری خاموشی میں تھا ۔۔ بیسٹ کے قدموں کی آہٹ پر سر اٹھا کر دیکھا تھا ۔۔

تم ادھر کیوں آئے ہو اب۔۔۔ کنگ نے واپس سے اپنا سر صوفے کی پشت پر ٹکا لیا تھا ۔۔

تمہیں پتا ہے کنگ تم نے نکموں کی فوج آکھٹی کر رکھی ہے ۔۔۔ بیسٹ نے طنزیہ انداز میں بولا تھا۔۔۔

اگر مجھے پتا نہ ہوتا تو تمہیں کبھی بھی اٹلی سے نہ بولتا بیسٹ۔۔ کنگ نہ سرد آہ بھری تھی۔۔۔

خیر ایک بات بولوں ۔۔۔ تمہارے یہ وفادار ہی تمہاری موت کے خوائش مند ہیں ۔۔۔ اگر تم میری پناہ سے دور جانا چاہتے ہو تو شوق سے جاؤ کنگ۔۔۔ بیسٹ اپنی سبز آنکھوں کو اس کی سیاہ آنکھوں میں گار کر بولا تھا ۔۔۔

بیسٹ تم مجھے بس بلیک ڈیول کا سر اور اس کے بیٹے کا سر لا کے دے دو ۔۔ کنگ آنکھوں میں خون لیے بولا تھا۔۔

ضرور ۔۔۔۔۔ بیسٹ یہ کہتے ساتھ واپس موڑا تھا۔۔۔

تم کہا جا رہے ہو۔۔۔ کنگ کی آواز اس کو اپنی پشت پر سنائی دی۔۔۔

بتانا ضروری نہیں سمجھتا ۔۔ یہ کہتے ساتھ بیسٹ کمرے سے ںکل گیا تھا۔۔۔

••••••••••••••

جزا کا یونی میں ایڈمیشن ہو چکا تھا کلاسز اس کی ایک مہینے بعد شروع ہونی تھی۔۔۔۔ وہ آج کل شاہد صاحب سے ڈرائیونگ سیکھ رہی تھی ۔۔۔ اس وقت بھی وہ ان کے ساتھ ہی تھی۔۔ سوسائیٹی میں ڈرائیو کرتے ہوئے نزدیک پارک کے پاس اس نے کار روکی تھی۔۔ وہ ہر شام شاہد صاحب کے ساتھ ڈرائیونگ کے بعد ادھر آتی تھی مگر اج وہ دوپہر کے وقت شاہد صاحب کے ساتھ نکلی تھی کیونکہ باہر موسم بہت پرسکون تھا۔۔۔

مجھے پتا نہیں تھا میری بیٹی ایک ہفتے کہ اندر ڈائیونگ اتنی اچھی سیکھ لے گئی ۔۔۔ شاہد صاحب نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا تھا اور اس کو ساتھ لے کر چل رہے تھے۔۔۔۔

ابھی اتنی اچھی بھی نہیں سیکھی۔۔۔ سوسائٹی میں آرام سے چلا لیتی  ہوں مگر جب باہر روڈ کی بات آئی تو ہمت جواب دے جاتی ہے۔۔ جزا بہت مدہم لہجے میں بولی تھی۔۔

مجھے یقین ہے میری بیٹی صرف سوسائٹی میں ہی نہیں باہر روڈ اور ریسیس میں بھی کار بہت اچھی ڈرائیو کرے گی۔۔ شاہد صاحب نے اپنا ہاتھ کی گرفت اس کے ہاتھ پر مضبوط کی تھی۔۔۔

ضرور ۔۔ جزا سر بلند کر کے بولی تھی۔۔ شاہد صاحب نے ہمیشہ اپنی بیٹیوں کی حوصلا افزائی کی تھی۔۔

ویسے ڈیڈ آپ کا فیوریٹ جانور کون سا ہے۔۔ جزا نے کچھ سوچتے ہوئے کہا تھا۔۔۔

یہ آج جزا میڈم کو یہ سوال کہاں سے یاد آیا ۔۔۔ شاہد صاحب نے ایک آنکھ اٹھا کر اس کی طرف دیکھا تھا۔۔

ویسے ہی بتائیں نہ ڈیڈ۔۔ جزا نے کندھے اوچکے تھے ۔

بھیڑیا ۔۔۔۔۔۔ شاہد صاحب نے یک لفظی جواب دیا تھا۔ 

ایک لمحے کے لیے جزا روک گئی تھی ۔۔ شاہد صاحب نے اس کو رکتا دیکھا تا اپنے ساتھ ایک بنچ پر لے کر بیٹھ گئے تھے ۔۔

مگر ڈیڈ بھیڑیا کیوں ۔۔۔ جزا نے کچھ سوچتے ہوئے دوبارہ سوال کیا تھا۔

کیونکہ وہ نہ ڈر اور بہادر ہے ۔۔ شاہد صاحب نے جواب دیا تھا ۔۔

ڈیڈ شیر بھی تو نہ ڈر اور بہادر ہے تو شیر کیوں نہیں ؟؟ جزا نے اب کی بار روخ شاہد صاحب کی طرف موڑ لیا تھا ۔۔

شیر نہ ڈر اور بہادر ضرور ہے۔۔ مگر تم نے کبھی کیسی بھیڑے کو سرکس میں کیسی انسان کے اشارے پر کرتب کرتے دیکھا ہے۔۔ کبھی کیسی بھیڑے کو کیسی انسان کا پالتوں جانور کے طور پر دیکھا ہے۔۔ شاہد صاحب بہت مدہم لہجے میں اس سے سوال کر رہے تھے۔۔۔

مگر ڈیڈ جہاں تک میں جانتی ہوں بھیڑیا انسان کا وفادار ہے۔۔۔ جزا نے کچھ سوچتے ہوئے  بولا تھا۔۔

بے شک بھیڑیا انسان کا وفادار ہے۔۔۔ مگر اس کو غلامی قبول نہیں ۔۔۔ بھیڑیا اپنی طاقت ، وفاداری ، فرمابرداری ، دلیری ، ڈیسیپلن ، اور خوداری کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔۔ بھیڑیا ایک بہترین لیڈر ہوتا ہے۔۔ جو اپنے پورے گروہ کی حفاظت کرتا ہے ۔۔۔ شاہد صاحب  جزا کی طرف دیکھ کر بول رہے تھے۔۔۔

بھیڑیا فرمابردار کیسے ہے؟؟ جزا حیران ہو کر بولی تھی ۔

وہ اپنے ماں باپ کے بوڑھاپے میں سائبان بنتا ہے ۔۔ ان کی حفاظت کرتا ہے ۔ ان کا خیال رکھتا ہے ۔ اور سب جانوروں سے زیادہ یہ صلاحیت بھیڑے میں پائی جاتی ۔۔۔ اور جو بھیڑیا سب بھیڑیوں سے طاقتور ہوتا ہے جو اپنے گروہ تمام نر بھیڑیوں کو ہارا دیتا ہے وہ اس گروپ کا سردار بنتا ہے۔۔۔۔ اب شاہد صاحب سامنے پارک کی طرف دیکھ کر بول رہے تھے۔۔ ان کی آنکھیں میں ایک عجیب سی چمک تھی۔۔۔

سب سے طاقتور بھیڑے کو کیا کہتے ہیں ۔۔۔ جزا کو ناجانے کیوں اس ٹوپک میں دلچسپی ہونے لگی تھی ۔

الفا ۔۔۔۔ جو سب سے طاقتور ہوتا ہے لیڈر ہوتا ہے سردار ہوتا ہے اس جو الفا کہتے ہیں ۔۔۔۔ شاہد صاحب کے چہرے پر ایک مدہم مسکراہٹ تھی۔۔

تو کیا بھیڑیوں میں فی میل بہادر اور نہ ڈر نہیں ہوتی ۔۔ جیسے اب شیر کے ساتھ شیرنی ہوتی ہے۔۔ جزا نے ایک ہاتھ اپنی ٹھوڑی کے نیچھے ٹکا لیا تھا۔۔

وہ الپائن  ہوتی ہے۔۔ اور الپائن ہمشہ الفا کے حصے میں آتی ہے۔ کبھی بیوی کی  صورت میں کبھی بیٹی کی صورت میں تو کبھی دونوں میں۔۔۔۔۔۔ شاہد صاحب نے اب کی بار جزا کی طرف دیکھ کر بولا تھا۔۔

ویسے آپ کو بھیڑے کے بارے میں اتنا کیسے پتا ہے ؟؟. جزا نے آنکھیں چھوٹی کر کے اپنے باپ کو مشقوق نظروں سے دیکھا تھا۔۔

کیونکہ وہ میرا پسندیدہ جانور ہے۔۔ اب کی بار شاہد صاحب نے اس کی ناک دبائی تھی ۔۔

ڈیڈڈڈڈڈڈ۔۔۔۔ جزا چیلائی تھی ۔۔

چلو اٹھ جاؤ میری الپائن ۔۔۔ کل سے تمہیں کچھ نیا سکھاؤ گا ۔۔ شاہد صاحب بولتے اٹھ کھڑے ہوئے تھے ۔۔

کیا ؟؟؟ جزا حیران سی پوچھنے لگی۔۔۔

وہی جو تمہیں پسند ہے؟؟ شاہد صاحب نے بولا تھا۔۔

مگر کیا ؟؟ مجھے تو بہت کچھ کرنے کا شوق ہے۔۔ جزا نے پھر سوال کیا تھا۔۔

سیلف ڈیفنس ۔۔ شاہد صاحب نے چلتے چلتے اس کی طرف دیکھ کر بولا تھا ۔۔

اووووووو ۔۔ جزا کچھ سوچتے ہوئے بولی تھی ۔

ویسے ڈیڈ۔۔۔ ابھی وہ کچھ بولتی کے شاہد صاحب بولے تھے ۔۔۔

No more questions....

شاہد صاحب نے اس کے منہ پر انگلی رکھ دی تھی۔۔۔

وہ شروع سے ہی ایسی تھی۔۔ اس کو ہر چیز کے بارے میں جانا اچھا لگتا تھا۔۔ جب ایک بار سوال کرنا شروع کرتی تو روکتی نہیں تھی۔۔ اور ہر بار اس کو چپ کروانے کے لیے شاہد صاحب اس کے منہ پر انگلی رکھتے تھے۔۔ اور یہ اشارہ ہوتا  تھا کہ اب اس سے زیادہ نہیں باقی سوال پھر کبھی۔۔۔ وہ دونوں پارک سے باہر نکلے تھے۔۔ اب کی بار ڈرائیونگ سیٹ شاہد صاحب نے سنبھالی تھی۔۔۔

••••••••••

وہ دونوں ابھی گھر پہنچے ہی تھے کے جزا کے فون پر نور کی کال آنے لگی تھی ۔۔۔

اوووو شیٹ۔۔۔۔۔ جزا نے اپنے ماتھے پر ہاتھ رکھا تھا۔۔

کیا ہوا ؟؟؟ انعم بیگم جو دوپہر کا کھانا لگا رہی تھی جزا کی آواز پر اس کی طرف موڑی تھی۔۔۔

ماما مجھے نور اور آمنہ کے ساتھ شوپینگ پر جانا تھا اوران کے ساتھ لنچ پلین تھا ۔۔۔ میں اب چینج کرنے جا رہی ہوں۔۔ ان کے ساتھ ہی کروں گی لنچ اب۔۔۔ وہ یہ کہتے ساتھ اوپر کی طرف بھاگی تھی۔۔

اگلے آدھے گھنٹے میں وہ تینوں شوپینگ مال میں ایک شوپ میں تھی ۔۔

نور یہ دیکھو کتنا پیارا لگ رہا ہے یہ ٹوپ۔۔ جزا نے ہاتھ میں پکڑا زینک اور بلیک کلر کوبینیشن کا ٹوپ نور اور آمنہ کے سامنے کیا تھا ۔۔۔

یار یہ تو بہت پیارا لگ رہا ہے۔ اس میں اور کوئی کلر ہے۔۔ نور ہاتھ میں پکڑی شرٹ دوبار رکھتے آگے بڑھی تھی۔۔ اس کے ساتھ آمنہ بھی آگے آئی تھی۔۔

اب ان تینوں نے اپنی اپنی پسند کا ٹوپ لیا تھا۔۔ اور باقی شوپینگ کے لیے کیسی اور شوپ کی طرف جا رہی تھی ۔

جزا جو نور اور آمنہ سے کوئی بات کرتے ہوئے ان کے ساتھ چل رہی تھی۔۔ اس کو احساس ہوا کہ جیسے کوئی اس پر نظر رکھے ہوئے ہے۔۔۔ وہ ایک لمحے کے لیے روکی اور آس پاس نظر دوڑائی تھی ۔۔

کیا ہوا جزا ۔ آمنہ نے جزا کے روکنے پر اس سے پوچھا تھا۔۔۔

کچھ نہیں چلو۔ جزا بات کو ٹالتے اگے بڑھی تھی ۔۔ وہ لوگ اپنی ساری شوپینگ کر کے اس ٹائم فوڈ ایریا میں بیٹھی تھی اور اپنا آوڈر نوٹ کروا رہی تھی ۔ جزا کچھ بے سکون سی تھی۔۔ اس کو بار بار لگ رہا تھا جیسے کوئی اس پر نظر رکھے ہوئے ہے۔۔ مگر جب آس پاس نظر گھوماتی تو کوئی بھی نہیں ہوتا تھا۔۔ 

سنوں تم لوگ ادھر ہی رہو میں ذرہ آتی ہوں۔۔ جزا یہ کہتے ساتھ اٹھی تھی ۔

کہاں جا رہی ہو تم ۔۔ نور پوچھے بغیر رہ نہ سکی۔۔

واشروم جا رہی ہوں۔۔ چلے گی ساتھ۔۔۔ جزا نے نور کو گھور کر بولا تھا ۔

نہیں تو اکیلی جا۔۔۔ نور نے منہ بنا کر بولا تھا ۔

وہ ہستی ہوئی واشروم  کی طرف جا رہی تھی۔۔۔ مگر بار بار ایک ہی احساس اس کو گھیر رہا تھا ۔

وہ واشروم میں داخل ہوئی تو اس وقت وہاں صرف تین اور لڑکیاں تھی۔۔ وہ اندر چلی گئی کچھ دیر بعد وہ باہر آئی تو ادھر کوئی نہ تھا۔۔ ہاتھ دھونے کے لیے اگے بڑھی تھی ۔ اپنے دھیان میں ہاتھ دھو کر وہ موڑنے لگی تھی۔۔ جب اس کی نظر ساتھ والے میرر پر پڑی تھی۔۔۔

I can see you..... Girl..

یہ پڑھتے ساتھ جزا کے چہرے کا رنگ وقتی توڑ پر سفید ہوا تھا۔۔ مگر خود کو نارمل کر کے آگے بڑھنے لگی تھی کے اس کی نظر ایک شیٹ پر پڑی تھی ۔۔

Come puoi nasconderti da me? Conosco ogni singolo istante di te. Jaza

( تم مجھ سے کیسے چھپ پاؤ گی؟ میں تمہارے ایک ایک لمحے سے واقف ہوں ۔ جزا)

اس کی پہلی نظر اپنے نام پر گئی تھی۔۔ مگر وہ اوپر لکھے الفاظوں کو سمجھ نہ پائی تھی ۔۔

یہ کون سی زبان ہے ۔۔ اس نے خود سے ہی سوال کیا تھا۔۔ جب اس کے فون پر آمنہ کی کال آئی ۔۔

اس نے فوراً کال اٹینڈ کی تھی۔۔

میں بس آ رہی ہوں۔۔ آمنہ کی بات سنے بغیر اس نے اپنی بات بول کر کال کاٹ دی تھی۔۔ اور فوراً سے وہ چیٹ اپنے بیگ میں رکھی تھی ۔ اور واشروم سے باہر نکل گئی۔۔ اس کے ماتھے پر پسینے کے ننھے قطر واضح ہو رہے تھے۔۔ وہ خود کو ہر ممکن طور پر نارمل کرتے ہوئے نور اور امنیکے ساتھ لنچ کر رہی تھی ۔۔

کچھ دیر میں وہ لوگ واپسی کے لیے نکلی تھی جزا نے شکر کا کلمہ پڑھا تھا کہ وہ واپس جا رہی ہے۔۔۔  

وہ جو کوئی بھی تھا وہ کمپیوٹر سکرین پر جزا کو مال سے باہر جاتا دیکھ  رہا تھا اس کی نظریں جزا کے چہرے پر ٹیکی تھی ۔۔

Non puoi nasconderti da me....

( تم خود کو مجھ سے چھپا نہیں سکتی) وہ شخص مدہم آواز میں بولتا کرسی کی پشت سے ٹیک لگا چکا تھا۔۔ نظریں اس کی ابھی بھی جزا پر تھی۔۔

••••••••••••••••

للی غم و غصے کی حالت میں اگے بڑھی تھی اور اس سے پہلے وہ شہزاد کا گریبان پکڑتی شہزاد نے اس کی کلائی پکڑ لی تھی ۔۔۔۔

What the hell you are doing here....

شہزاد نے غصے میں للی کا منہ دبوچ لیا تھا۔۔۔

You are killer.... you killed my sister and her baby......

للی روتے ہوئے بولی تھی۔ ۔

Yes I’m  a killer ....  And now it’s your turn baby...

شہزاد نے للی کے بالوں کو اپنے ہاتھ میں دبوچا تھا ۔۔ اس کی گرفت اتنی مضبوط  تھی کے للی کی گردن پیچھے کی جانب جھوکی تھی ۔۔ آنسو اس کی آنکھوں میں سے ٹوٹ کر اس کی گال پر پھسل رہے تھے۔۔۔ شہزاد نے آج وہ کیا تھا جس کا وہ کبھی گمان بھی نہ کر سکتی تھی۔۔۔

Shezad please leave me.... I’m pregnant of your child...

للی روتے  ہوئے بولی تھی ۔۔۔۔

I don’t  care ....

شہزاد نے اس کے بالوں کو اور زور سے پیچھے کی طرف کھینچتے اس کو پیچھے دیوار کے ساتھ لگایا تھا۔۔۔۔

للی نے دیوار کے ساتھ رکھی ٹیبل پر سے ایک ڈیکور پیس اٹھایا تھا اور شہزاد کے سر پر مارنے لگی ہی تھی کے شہزاد نے موقع پر ہی اس کا وار روک دیا تھا اور ایک جھٹکے سے اس کو دور پھینکا تھا ۔۔۔ ایک درد کی لہر للی کو اپنے پورے وجود میں اٹھتی محسوس ہوئی تھی ۔۔ وہ اس درد سے تڑپ رہی تھی۔۔ اس کو اپنے نقصان کا شدت سے احساس ہوا تھا ۔۔۔ خاموش انسو اب  اس کی چیخوں میں بدل گئے تھے۔۔۔ وہ درد اس کے لیے برداشت کرنا بہت مشکل تھا۔۔۔۔۔

شہزاد نے گن کی نوک اس وقت للی کی جانب کی تھی۔ اور آگلے ہی لمحے ایک گولی للی کے پیٹ میں لگی تھی۔۔ جو درد کی شدت سے پہلے ہی ہوش و حواس سے بے گانی ہو رہی تھی ۔ گولی لگنے سے اس کی رہی سہی ہمت بھی ختم ہو گئی۔۔۔ شہزاد ادھر سے جا رہا تھا۔۔ للی نے ایک آخری نظر اس ظالم پر ڈالی تھی جس نے آج اپنے ہاتھ معصوموں کے خون سے رنگے تھے۔۔۔ ایک آنسو ٹوٹ کر للی کے بالوں میں جذب ہوا تھا۔۔۔۔ اس میں شاید جینے کی امید باقی تھی ۔ مگر درد کی شدت سے وہ اٹھ نہ پائی تھی۔۔ اور بےہوش ہو گئی تھی۔۔ خون اس کے جسم سے بہہ رہا تھا۔۔۔۔

اسی لمحے ایک عکس کھڑکی کے آگے سے ہٹتا ہے۔۔ شاید وہ یہاں ہوا سارا واقع دیکھ چکا تھا۔۔

••••••••••••••

سر اس نے روزینہ اور اس کے بیٹے کو مار دیا ہے۔۔ جبکہ للی ۔۔۔۔

وہ آدمی فون پر امیل  کو بتا رہا تھا۔۔۔

للی کو کیا ۔۔ بکواس کرو آگے ۔۔ امیل جو کیسی کام کی وجہ سے تین دن کے لیے کینیڈا آیا ہوا تھا۔۔ اس کے خبری نے ابھی اس کو فون کیا تھا جو للی پر نظر رکھے ہوئے تھا۔۔۔

للی کو گولی ماری ہے اس ںے ۔۔ اس آدمی نے ہمت کر کے یہ بات امیل کو بتائی تھی۔۔۔

ذلیل انسان اس کو لے کر فوراً ہاسپٹل پہنچوں اس کو کچھ نہیں ہونا چاہیے ورنہ میں تمہیں جان سے مار دوں گا ۔۔ امیل غصے میں بے قابو ہوتا بولا تھا ۔ جبکہ للی کی حالت کا سن کر اس کا دل ڈوب کے ابرہا تھا۔۔

اس نے کال کاٹ کر فوراً امریکہ کی فلائٹ بک کی تھی جو اس کو آج شام کی ملی تھی۔۔۔

دوسری طرف امیل کا خاص آدمی للی کو ہاسپٹل لے کرجا چکا تھا۔۔ ڈاکٹر نے فوراً آپریٹ کرنا شروع کیا تھا کیونکہ اس کا خون بہت بہہ چکا تھا۔۔۔ للی کے بچنے کے چانسسز 1٪ بتائیں تھے ڈاکٹر نے۔۔

یہ ساری بات امیل کا آدمی امیل کو بتا چکا تھا۔۔ وہ اپنا سارا سامان پیک کر رہا تھا۔۔ دل اس کا بہت تیز رفتار سے ڈھرک رہا تھا۔۔

ایک خوف اس کے اندر ڈور رہا تھا۔۔ اپنی محبت کو کھو دینے کا خوف۔۔ وہ کیسی بھی طرح  جلد از جلد للی کے پاس پہنچانا چاہتا تھا۔۔۔۔

للی کا آپریٹ ہو رہا تھا ۔۔۔ چھ گھنٹے ہو گئے تھے اس کو آپریشن روم میں ۔۔۔ امیل کا خاص آدمی اس وقت کوری ڈور میں تھا۔۔ جب اس کو امیل آتا دیکھائی دیا تھا ۔۔

سر۔۔۔۔ وہ امیل کو دیکھتے ساتھ سیدھا ہوا تھا۔۔

وہ ٹھیک ہے؟؟ امیل نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے  بولا تھا۔۔

سر ابھی کچھ کہا نہیں جا سکتا گولی لگی تھی جس کی وجہ سے بہت خون بہہ ہے اور ان کو انٹرنیل بلیڈنگ بھی ہوئی ہے ۔۔ وہ آدمی امیل کو ڈاکٹر کی بتائی بات بتانے لگا تھا۔۔

انٹرنیل بلیڈنگ ؟؟؟ امیل نے یہ لفظ دہرایا تھا۔۔

جی سر وہ پریگننٹ تھی ۔۔ اس نے جیسے امیل کے سر پر آسمان توڑا تھا۔۔۔

تم جاؤ اب یہاں سے ۔۔۔ باقی سب میں دیکھ لوں گا۔۔۔ کافی دیر خاموش رہنے کے بعد امیل بولا تھا۔۔

وہ آدمی ویسے ہی ادھر سے چلا گیا تھا ۔ کیونکہ اگر وہ اور ایک منٹ ادھر روکتا تو امیل اس کا حشر بگار دیتا۔۔۔ کیونکہ اس کی آنکھوں میں وحشت وہ دیکھ چکا تھا۔۔۔

•••••••••••••

شہزاد ہوٹیل میں اپنے روم میں آیا تھا۔۔ اپنا کوٹ اوتار کر اس نے بیڈ ہر پھینکا تھا اور خود اوندھے منہ بیڈ پر گیرا تھا ۔۔۔۔

کچھ دیر وہ بیڈ پر ایسی پوزیشن میں پڑا رہا تھا۔۔۔۔ ہاتھ بڑھا کر  اس نے اپنا فون پکڑا تھا ۔۔ ٹائم دیکھا تو رات کے نو بج رہے تھے ۔۔۔ وہ فوراً سیدھا ہوا۔۔

اور اٹھ کر فریش ہونے چلا گیا تھا۔۔ فریش ہو کر وہ اب ٹاول سے بال خشک کرتا باہر نکلا تھا۔۔ شیشے کے سامنے کھڑا ہوا تھا اس کے سیاہ بال تھوڑے  گلے تھے ماتھے پر بکھرے ہوئے تھے۔۔ وہ موڑا اور اپنے بیگ میں سے اپنا ایک ڈریس نکال کر ڈریسنگ روم میں چلا گیا تھا ۔

شہزاد آدھی رات کو لوس اینجلس کی سڑکوں پر کار اندھا دھن دوڑا رہا تھا ۔۔۔

ایک نائٹ کلب کے سامنے اس کی کار روکی تھی ۔۔ کار سے اتر کر وہ کلب کے اندر گیا تھا ۔۔۔ اندر نوجوان لڑکے لڑکیاں موزیک کی بلند آواز پر ناچ رہے تھے۔۔ اندر ایک اور ہی دنیا آباد ہوئی ہوئی تھی ۔ ادھر کیسی چیز کی تمیز نہ تھی ۔۔۔ ایک طرف شراب کا دور چل رہا تھا ایک طرف لڑکے لڑکیاں جوا کھیلنے میں لگے تھے تو ایک طرف ڈرگز کا دور چل رہا تھا ۔۔ اور ایک طرف نیم برہنہ حالت میں دوشیزائیں اپنا رقصں دیکھانے میں مصروف تھی۔۔۔۔ شہزاد چلتا ہوا بار کے سامنے آ کر کھڑا ہو گیا تھا ۔۔ اپنے لیے شراب کا بول کر وہ نیم برہنہ حالت میں دوشیزائیں کا رقص دیکھنے لگا تھا۔۔۔

ویٹر نے اس کے سامںے شراب رکھ دی تھی ۔۔ وہ ایک کے بعد ایک شراب کا گلاس پیتا چلا جا رہا تھا۔۔  وہ اپنی طرف سے روزینہ اور للی کی کتاب جلا آیا تھا مگر اس بات سے بے خبر تھا کے اکثر ماضی کی کتابیں جلدی نہیں جلتی کوئی نہ کوئی پنا صحیح سلامت بچ جاتا ہے۔۔ اور وہ ایک پنا  زندگی تباہ کرنے کے لیے کافی ہوتا ہے۔۔۔ وہ نہیں  جانتا تھا کے ماضی کی غلطی اس کے مستقبل میں کیا کرے گئ ۔۔۔۔۔

 

جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

 

 

 

 

Don’t copy without my permission....... Thank for reading this episode please share your reviews and also share this with your friends

 

                                                                Instagram

                                                               TikTok

                                                                facebook

                                                               Wattpad
 

Comments