Dasht E Ulfat novel by Shazain Zainab episode no 11

 











بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

 ناول

 

دشتِ الفت

 

شازین زینب

 

 

 

 

 

 

 

 

EP#11

 

 

 

 

تم کیوں نہیں روک جاتی لینا۔۔۔ نوریز اس کے سامنے کھڑا دبہ دبہ سا چیلایا تھا ۔۔ وہ اس وقت اس کے کمرے میں تھا وہ خوبصورت سا کمرا اس وقت اپنی بربادی پر ماتم کر رہا تھا جس کا لینا نے غصے میں نقشہ بیگار دیا تھا۔۔۔ سارا سامان بھکرا پڑا تھا۔۔

کیوں روک جاؤ میں بولو ۔۔ کیوں۔۔ لینا مکمل غصے میں نوریز کو دیکھتی بولی تھی۔۔۔

تمہیں سمجھ نہیں آ رہی وہ تم میں دلچسپی نہیں رکھتا۔۔ تم اپنی چھوڑو اس کو عورتوں میں ویسے ہی دلچسپی نہیں ہے۔۔ نوریز اس کے غصے کو بغیر کسی پرواہ کے بولا تھا۔۔۔

اس کو مجھ میں دلچسپی لینی ہو گئی میں اس کو مجبور کر دوں گی۔۔ وہ دیوانہ وار بولی تھی۔۔

تم پاگل ہو گئی ہو کیا ۔۔۔ نوریز کو اس کی اس حالت پر ترس آیا تھا۔۔۔

لینا تم اپنے ساتھ غلط کر رہی ہو ۔۔ روک جاؤ اس سب سے تمہیں پتا نہیں ہے ابھی وہ ہے کیا ۔۔ نوریز اس کو سمجھانے کی ہر ممکن کوشش کر رہا تھا۔۔

تم ہوتے کون ہو مجھے سمجھانے والے ۔۔۔ پاس پڑی ٹیبل سے واس اٹھا کر زمین پر زور سے پھینکتے وہ نوریز کو کھا جانے والی نظروں سے گھورتے ہوئے غصے میں بولی تھی۔۔۔

تم بجائے بات سمجھنے کے غصہ کیوں کر رہی ہو ۔۔ اب کی بار وہ بھی غصے میں بولا تھا۔۔۔

میں پسند کرتی ہوں اس کو۔۔۔ اس نے اپنے سینے پر اپنی شہادت کی انگلی سے دستک دیتے ہوئے بلند آواز میں کہا تھا۔۔۔

لینا میڈم پسند اور ہوس میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے ۔ پسندیدگی کا پتا نہیں ہوس صاف جھلکتی ہے تمہاری آنکھوں سے۔۔۔ اب کی بار وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتا پتھریلے لہجے میں بولا تھا۔۔

تم مجھے ہوس اور پسند میں فرق بتاؤ گے ۔۔۔ تم نوریز عثمان ۔۔ جس کی ہر رات ایک نئی لڑکی کے پہلو میں گزرتی ہے۔۔ وہ چلتی نوریز کے سامنے آ کھڑی ہوئے اور اس کے سینے پر انگلی سے دستک دیتے ایک ایک لفظ چبا کر بولی تھی ۔۔

میں مانتا ہوں۔۔ مگر میں کم سے کم تمہاری طرح اپنی ہوس کو پسند بول کر خود کو کوراپ نہیں کرتا۔۔۔ اور جس کو پسند کرتا ہوں اس کو ہوس کی نظر سے نہیں دیکھتا۔۔۔ نوریز نے لینا کو سر تا پیر سلگاہ دینے والی نظروں سے دیکھا تھا اس کی آنکھوں میں غصہ تھا۔۔ لینا کا رویہ اور اس کی حرکتیں اس کے صبر کا امتحان تھی جیسے ۔۔

اپںا لیکچر  اپنے پاس رکھو مسٹر نوریز اور میرے کمرے سے دفع ہو جاؤ ابھی کے ابھی۔۔۔ وہ نوریز کی آنکھوں میں آنکھیں گاڑ کر غصے سے دروازے کی طرف اشارہ کرتے بولی تھی۔۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ نوریز کا حال خراب کر دے ۔۔۔

تم  بہت نقصان  اٹھاؤ گی لینا۔ نوریز نے اس کو آخری بار سمجھانے کی کوشش کی تھی ۔۔

میں نقصان اٹھاؤ یا فائدہ تمہیں اس سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے اور نکل جاؤ اب یہاں سے۔۔ لینا نوریز کی بات سنے کے بعد غصے سے سرخ ہوتی آنکھوں کے ساتھ بلند آواز میں بولی تھی ۔۔

جا رہا ہوں یہاں سے مگر ایک بات سن لو۔۔ کبھی وقت ملے تو بیسٹ کے خیالوں سے نکل کر اپنے آس پاس نظر دوڑا لینا کہیں تمہیں کوئی بےتحاشہ چاہنے والا تمہارے آس پاس ہی ہو ۔۔۔ یہ کہتے ساتھ نوریز اس کے کمرے سے باہر نکلا تھا۔۔ اس کی آنکھیں غصے کی وجہ سے سرخ تھی۔ مگر اب اس غصے میں ایک ان کہی تکلیف نے بھی جگہ لے لی تھی۔۔ایک آنسو ٹوٹ کر اس کی اوشن گرین آنکھوں سے نکلا تھا ۔۔ اس نے سختی سے اپنے آنسو کو صاف کیا اور حویلی سے باہر کی طرف نکل گیا تھا۔۔۔

پتا نہیں خود کو سمجھتا کیا ہے مجھے لینا لغاری کو لیکچر دے  رہا تھا پسند اور ہوس پر۔۔۔ وہ غصے سے کمرے میں یہاں سے وہاں ٹھہل رہی تھی ۔۔  تنگ آ کر اس نے اپنی نائٹی کا نیٹ گاون اتار کر زمین پر پھنکا تھا۔۔۔  اور پاس پڑے صوفے پر گرنے کے انداز میں بیٹھی تھی۔۔۔

بیسٹ تمہیں میرا ہر صورت ہونا ہو گا۔۔ تم خود کو میری ضد بنا رہے ہو۔۔ لینا صوفے کی پشت سے ٹھیک لگا کر سیلنگ کو گھورتے بولی تھی۔۔

•••••••••••

وہ چلتی چھوٹے چھوٹے قدم آگے بڑھا رہی تھی ۔ اس کے کانوں پر ابھی تک اس کے پہلے الفاظ گونج رہے تھے۔۔

لقد انتظرتك منذ زمن طويل

(میں نے ایک عمر تمہارا انتظار کیا ہے)۔۔۔  وہ پھر سے مدہم آواز میں بولا تھا۔۔

للی اس کی آواز کے سحر میں جکڑی آگے بڑھتی جا رہی تھا۔۔ اور اس کی نشست کے سامنے رکھی ٹیبل کے پاس جا کر رک گئی تھی۔۔

Wh... Who... Yo..you... Are...

(تم کون ہو؟)۔۔ اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیرتی وہ کنفیوز اور ڈری سہمی سی بولی تھی۔۔۔

Welcome fairy...

اس کی بات کا جواب دے بغیر وہ اپنی بات کر رہا تھا۔۔۔ اس نے جیسے ہی سر اٹھیا سنہری آنکھیں ایک بار پھر سے ہلکی نیلی آنکھوں سے ٹکرائی تھی۔۔۔

Y...yo..you....

للی بس اتنا ہی بول پائی تھی۔۔۔

مع العلم أن قلبي قد وجد السلام، فإنك لم تنساني

(میرے دل کو سکون ملا ہے یہ جان کر کے تم مجھے بھولی نہیں۔۔) وہ ٹاںگ پر ٹانگ رکھتا اپنی نشست سے ٹیک لگا کر بیٹھتا ایک گہری نظر للی پر ڈالتا دلکشی سے بولا تھا۔۔۔

What you want to me ۔۔

(تم مجھ سے چاہتے کیا ہو؟)

للی ڈرتے ہوئے اس سے بولی تھی۔۔۔ حالت ایسی تھی کے اس کی جان ابھی نکل جائے ۔۔

I want you from you...

(میں تم سے تمہیں چاہتا ہوں۔۔) جس خوف سے للی نے سوال کیا تھا اس سے زیادہ پر سکون انداز میں وہ بولا تھا۔۔

اس کے لہجے کی تشنگی نے للی کی ریڈ کی ہڈی میں سرسراہٹ پیدا کر دی تھی ۔۔

 Well its my house you will stay here with my mother..  everything  you need of its available here.. you don’t need to be fear from anything or any person...

(ویل یہ میرا گھر ہے تم یہاں میری ماں کے ساتھ رہو گی.. تمہاری ضروریات کے لیے سب کچھ یہاں دستیاب ہے.. تمہیں کسی چیز یا کسی شخص سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے.) وہ اپنی جگہ پر پرسکون سا بیٹھا بولا تھا ۔

But ....

للی نے کچھ بولنا چاہا تھا۔۔

Its my order.... You will stay here understand...

(یہ میرا اوڈرہے۔۔ تم ادھر ہی رہو گئ۔۔ سمجھ آئی ۔۔) وہ ایک ایک لفظ پر زور دیتا بولا تھا۔۔ اور اس کے لہجے کے سرد پن نے للی کی زبان بند کروا دی تھی۔۔۔

وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر سٹیڈی سے باہر نکل گیا تھا ۔۔ اس کے باہر جاتے ساتھ وہ ہی ملازمہ اندر داخل ہوئی تھی جو اس کو ادھر چھوڑ کر گئی تھی۔۔

اب للی اس کے ساتھ چلتی ایک کمرے میں گئی تھی ۔۔ جو بہت ہی خوبصورت تھا۔۔۔

یہ ایک وسیع کمرا تھا جس کی ساری دیواروں پر سفید پینٹ کیا گیا تھا۔۔۔ سفید جہازی سائز بیڈ کی بیک دیوار پر وائٹ للی کے پھولوں کا خوبصورت وال ورک کیا گیا تھا۔۔۔ سامنے بنی بالکہنی پر ہر رنگ کے پھول لگائے گئے تھے مگر اس میں گلاب کے پھولوں کے ساتھ للی کے بھی بہت اقسام کے پھول تھے۔۔

بیڈ کے سامنے ایک وسیع ڈریسنگ روم تھا جہاں ہر طرح کے کپڑے ، جوتے اور للی کی ضرورت کی ہر چیز مجود تھی۔۔ اور ڈریسنگ روم ک ساتھ اٹیچ باتھ تھا جو مکمل سفید رنگ میں جدید طرز کا بنایا گیا تھا۔۔ للی بس منہ کھولے یہ سب دیکھ رہی تھی۔۔۔

You will stay in this room .. i hope you like this room....

( آپ اس کمرے میں رہیں گئ ۔ اور مجھے امید ہے آپ کو یہ کمرا پسند آئے گا۔۔۔) وہ ملازمہ للی کو دیکھ کر مسکراتے ہوئے بولی تھی۔۔ اس کو بھی جیسے للی بہت خوبصورت لگی تھی۔۔۔

اس کی بات سن کر للی جیسے ہوش میں آئی تھی۔۔۔

But.... I can’t stay here...

(مگر۔۔۔ میں یہاں نہیں روک سکتی۔)۔۔ وہ کچھ کنفیوز سی بولی تھی۔۔۔

Sorry but it’s sir’s order for you.. we can’t do anything against him...

(سوری ۔۔مگر یہ سر کا آوڈر ہے آپ کے لیے ۔۔۔ ہم کچھ نہیں کر سکتے ان کے خلاف جا کر۔۔) ملازمہ للی کی بات سن کر پریشانی سے بولی تھی اور اس کو ادھر چھوڑ کر چلی گئی تھی۔۔۔

وہ اس وقت اس کمرے میں تنہا بیٹھی اس کمرے کو دیکھ رہی تھی۔۔۔ جہاں موجود ہر چیز بیش قیمتی تھی۔۔۔ للی کو سمجھ نہیں آ رہا تھا وہ کیا کرے کیا نہ کرے گرنے والے انداز میں پاس پڑے صوفے پر بیٹھ گئی تھی۔۔۔ اور سر اپنے ہاتھوں میں پکڑ لیا تھا۔۔۔

•••••••••••

اسلام وعلیکم ۔۔۔۔ وہ مزمل بیگم کے کمرے میں آیا تھا جو اس وقت اپنے بیڈ پر بیٹھی تھی۔۔۔

وعلیکم السلام ۔۔۔۔ میرا بیٹا آج خیر سے ادھر آیا ہے۔۔ مزمل بیگم نے اس کو دیکھتے ہوئے کہا تھا جو اندر آتے  ساتھ اپنے چہرے سے ماسک اتار رہا تھا۔۔

وہ اس کے اصل سے واقف ہو چکی تھی اور اس کو قبول بھی کر چکی تھی اس کے اصل کے ساتھ تبھی ہی وہ  ان کو ادھر دبئی لے آیا تھا۔۔ تاکہ وہ ان کو دشمنوں کی نظر سے دور رکھ سکے۔۔۔

وہ آ گئی ہے ۔۔۔ اس نے بیڈ کی ایک  طرف رکھے صوفہ سیٹ میں سے ایک صوفے پر بیٹھتے کہا تھا۔۔۔

وہ ٹھیک ہے؟؟ مزمل بیگم چہرے پر مسکراہٹ  سجائے بولی تھی۔۔

ٹھیک ہے مگر ابھی اس کو آرام کی ضرورت ہے اور مجھے کچھ کاموں کی وجہ سے واپس بھی جانا ہے۔۔۔ وہ پریشان سا بولا تھا۔۔۔

حدید وہ ادھر تمہاری ماں کے پاس ہے بے فکر ہو کر جاؤ میں اس کا دھیان رکھوں گی ۔۔ مزمل بیگم اٹھ کر اس کے پاس آ کر بیٹھی تھی اور اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر بولی تھی۔۔۔

ایک لمحے کے لیے حدید کی روح تک میں سکون اترا تھا ممتا کے اس سائے سے۔۔۔۔

کیا آپ اس کو قبول کر لیں گئ ؟؟ حدید کچھ سوچتے ہوئے بولا تھا۔۔۔

بیٹا وہ جس ماحول میں بڑی ہوئی اس میں یہ سب اتنا غلط نہیں سمجھا جاتا اس میں اس کا کوئی قصور نہیں ۔۔۔ مگر اب آگے وہ اس سے نصیحت نہ لے اور خود کو نہ سوارے اس میں اس کا قصور ہو گا۔۔۔اور رہی بات قبول کرنے کی تو وہ میرے حادی کی محبت ہے تو مجھے کیوں نہ قبول ہو گی۔۔۔ مزمل بیگم محبت بڑھے لہجے میں بولی تھی۔۔۔ ان کے ایک ایک انداز سے ممتا کا احساس واضح ہو رہا تھا۔۔۔

حدید مدہم سا مسکرایا تھا۔۔۔ مزمل بیگم نے اس کے سر پر بوسا دیا تھا اور اس کا اپنی ممتا کے آغوش میں لیا تھا۔۔۔ ایک عرصے بعد خوشیاں ان دونوں پر مہربان ہوئی تھی جیسے۔۔۔

•••••••••••••

وہ صبح ہوتے ہی لاہور واپس آ گیا تھا۔۔۔ اور اب تیار ہو کر آفس کے لیے نکالا تھا جبکہ اکرم صاحب اور تھوڑی دیر میں لاہور پہنچنے والے تھے ۔۔

وہ اپنے آفس روم میں بیٹھا کب سے لیپ ٹاپ کی سکرین کو دیکھی جا رہا تھا۔۔

تمہیں ہر حال میں حاصل کر کے رکھوں گا۔۔ بہت غرور ہے نہ تمہیں خود پر۔۔ تم کیسی کو اپنے قریب نہیں آنے دیتی دیکھنا کیسے توڑوں گا میں تمہارا یہ غرور۔۔۔ شہزاد لیپ ٹاپ کی سکرین پر اس خوبصورت چہرے کو دیکھتا بولا تھا۔۔ وہ خود کی سوچوں کو ایک طرف کر کے اپنی جگہ سے اٹھا تھا اور اپنا کوٹ اٹھا کر آفس سے باہر نکل گیا تھا۔۔۔

وہ اپنی کار میں آ کر بیٹھا ہی تھا کہ اس کا فون بجنے لگا تھا ۔۔ کال اٹینڈ کر کے اس نے فون کان سے لگایا تھا۔۔

ہاں بولوں نواز ؟؟ کال اُٹھاتے ساتھ وہ بولا تھا ۔

مجھے تم سے ملنا ہے۔۔ نواز کی آواز فون کے سپیکر پر سے گونجی تھی۔۔۔

میں تمہارے پاس ہی آ رہا تھا۔۔ تم کہاں ہو اس وقت اپنی لوکیشن بھیج دو۔۔ یہ کہتے ساتھ اس نے کال کاٹ کر فون سائیڈ پر رکھ دیا تھا اور کار سٹارٹ کی تھی۔ اور کچھ دیر میں وہ نواز کے پرسنل اپارٹمنٹ میں تھا۔۔۔

ہاں بولو کیا کہانا تھا تم نے ۔۔ شہزاد نے آتے ساتھ اس سے سوال کر ڈالا تھا ۔۔۔

میں نے تمھیں ایک کام کہا تھا۔۔ جو ابھی  تک نہیں کیا تم نے ۔ نواز شہزاد کو گھورتا ہوا بولا تھا۔۔

تمہیں میں نے بولا تھا کچھ وقت صبر کرنا ہو گا۔۔ شہزاد صوفے پر بیٹھتا بولا تھا۔۔

کتنا انتظار شہزاد ۔۔۔ نواز نے ایک ائی برو اٹھا کر اس کو سوالیہ نظروں سے دیکھا تھا۔

کچھ عرصہ۔۔ شہزاد صوفے کی پشت سے سر ٹیکاتا بولا تھا۔۔۔ اس کے چہرے پر ایک شاطرانہ مسکراہٹ تھی ۔

تم کرنے کیا والے ہو بتاؤ گے۔۔۔ نواز تھوڑا سا آگے کی طرف ہو کر قدرے رازدانہ انداز میں بولا تھا ۔۔

وہ ہی جس کا کیسی کو کوئی گمان نہیں ہے ۔۔ شہزاد اپنی جیب سے لئیٹر نکال کر اس کے ساتھ کھیلتا بولا تھا۔

تمہیں اگر میری مدد چاہیے ہو تو میں حاضر ہوں۔۔ نواز اپنے سامنے پڑھی شراب کی بوتل اٹھتے ہوئے بولا تھا ابھی وہ شہزاد کے لیے گلاس میں ڈالنے لگا تھا کہ اس نے روک دیا۔۔

میرے لیے نہ ڈالو۔۔ میں جا رہا ہوں ضروری کام ہیں۔۔ شہزاد یوں ہی سر کو صوفے کی پشت سے لگائے بولا تھا۔۔

کیا کام ہیں تمہیں ۔۔۔ نواز نے شہزاد کو مشقوق نظروں سے دیکھتے سوال کیا تھا۔۔۔

بس ہے کوئی کام۔۔ شہزاد نے مسکراتے ہوئے ایک آنکھ ونک کی تھی۔۔۔

اور اب وہ دونوں ادھر اُدھر کی باتیں کرنے لگ گئے تھے۔۔۔

••••••••••••

وہ ابھئ تک اس وسیع کمرے میں بیٹھی اپنی سوچوں میں گم تھی۔۔ اس کو لگتا تھا جیسے ایک طوفان آیا تھا اور اس میں اس کی کشتی ڈوب گئی اور وہ خود کیسی طرح ایک کنارے سے آ لگی ۔۔ اور اب وہ نہیں جانتی اس کے  ساتھ آگے ہونے کیا والا ہے۔۔ یہ کنارا اس کی زندگی کو کس موڑ پر موڑنے والا ہے۔۔ وہ اپنی سوچوں میں گھیری سیلنگ کو دیکھ رہی تھی جب کمرے کا دروازہ نوک ہوا تھا۔۔۔

Come in...

مختصر سا جواب دے کر وہ پھر سے سیلنگ کو دیکھنے لگی تھی۔۔

How are you....

(کیسی ہو تم۔۔) مزمل بیگم کمرے میں داخل ہونے کے  بعد اس کو مسلسل سیلنگ کو دیکھتا پا کر بولی تھی۔۔ ان کی آواز بہت نرم اور مدہم سی تھی۔۔

اپنے پیچھے ایک عورت کی آواز سن کر وہ سیدھی ہو کر بیٹھی تھی اور فوراً پیچھے موڑ کر دیکھا اور کھڑی ہونے لگی تھی کہ مزمل بیگم پھر سے بولی۔۔

No, no, sit comfortably۔۔

(نہیں نہیں آرام سے بیٹھو۔۔۔۔) مزمل بیگم چہرے پر مسکراہٹ سجائے آگے بڑھی تھی اور اس کا ہاتھ تھام کر اس کو دوبارہ بیٹھیا تھا۔۔

Are you his mother??.

(کیا آپ اس کی ماں ہیں ۔۔) للی کچھ ہچکچاتی ہوئی بولی تھی۔۔۔

Yes I’m ...

(ہاں میں ہوں)۔۔ مزمل بیگم نے بہت فخر سے بولا تھا۔۔۔

I don’t  know what ...

(میں نہیں جانتی کیا ۔۔) اس نے کچھ بولنا چاہا مگر الفاظ منہ میں ہی دم توڑ گئی تھے۔۔۔

I know its hard to accept reality and sudden changes but believe me sometimes sudden change give us incredible happiness.. I hope this change give you a new and right path for your life ...

(میں جانتی ہوں کہ حقیقت اور اچانک آنے والی تبدیلیوں کو قبول کرنا مشکل ہے لیکن یقین کرو بعض اوقات اچانک تبدیلی ہمیں ناقابل یقین خوشی دیتی ہے.. مجھے امید ہے کہ یہ تندیلی تمہیں تمہاری زندگی کے لیے ایک نیا اور صحیح راستہ دے گی...) مزمل بیگم نے اس کے سفید اور سرخ نرم ہاتھوں پر اپنا ہاتھ رکھا تھا۔۔ جبکہ للی بس ان کو دیکھی جا رہی تھی ۔ مشرقی لباس میں ملبوس وہ ادھیڑ عمر عورت کتنی خوبصورتی سے آنگلش  میں بات کر رہی تھی۔۔

If this change also don’t give me any happiness...

(اگر یہ تبدیلی بھی مجھے خوشی نہ دے۔۔) وہ نہ امیدی سے بولی تھی ۔۔

You are talking about hopelessness before you hope۔۔۔

(تم امید لگانے سے پہلے ناامیدی کی باتیں کر رہی ہو۔۔۔) سیاہ بوڑھی آنکھیں ہلکی نیلی جوان آنکھوں سے ملی تھی ۔۔ دونوں کی آنکھوں میں کچھ تھا۔۔ ہلکی نیلی آنکھیں جیسے ہر امید کو ہار چکی تھی۔۔ جبکہ یساہ آنکھیں ہلکی نیلی آنکھوں کو امید کی ایک نئی کرن تھامانے کو بے تاب تھی۔۔

But now I’m afraid of everything in my life.. I don’t know why I’m still alive. I lost my sister my nephew and also my child .. the one I loved ruined my whole life.. now how can I accept the sudden changes? How can I hope of happiness from this changes...

(لیکن اب میں اپنی زندگی کی ہر چیز سے ڈرتی ہوں.. مجھے نہیں معلوم کہ میں ابھی تک کیوں زندہ ہوں. میں نے اپنی بہن کو کھو دیا اپنا بھانجا اور اپنا بچہ بھی.. جس سے میں پیار کرتی تھی اس نے میری ساری زندگی برباد کر دی.. اب میں اچانک آنے والی تبدیلیوں کو کیسے قبول کروں؟ میں اس تبدیلی سے خوشی کی امید کیسے رکھ سکتی ہوں؟) ایک آنسوں ٹوٹ کر للی کے گال پر پھسلا تھا۔۔ اس کی آواز میں صدیوں کی اذیت تھی۔۔۔

Don’t put your hope with this change, but  put your hope with the one who changes time, circumstances and even hearts..

(اس تبدیلی سے اپنی امید مت لگاؤ، بلکہ اس سے امید رکھو جو وقت، حالات اور دلوں کو بھی بدل دیتا ہے۔) مزمل بیگم نے اپنے ہاتھ میں موجود اس کے ہاتھ پر نرم سا دباؤ ڈال تھا۔۔ جبکہ للی نے سر اٹھا کر ان کی آنکھوں میں دیکھا تھا کیا نہ تھا اس وقت ان سیاہ آنکھوں میں نہ چاہتے ہوئے بھی وہ یہ سؤال کر بیٹھی تھی ۔۔

Who is he...

(وہ کون ہے؟) للی خالی نظروں سے مزمل بیگم کی طرف دیکھتے ہوئے بولی تھی۔۔۔

اللّٰہ ۔۔۔ مزمل بیگم نے مسکرا کر یک لفظی جواب دیا تھا۔۔۔

All .. Allah...

للی کو اپنی آواز کھائی سے آتی محسوس ہوئی تھی۔۔۔ نہ جانے کیوں اس ایک نام سے ایک لمحے کے لیے اس کا دل تڑپ گیا تھا وہ خود اس احساس کو سمجھ نہ پائی تھی۔۔۔

Are you Muslim??...

( آپ مسلم ہو؟؟) للی مزمل بیگم کو ناسمجھی سے دیکھتے ہوئی بولی تھی۔۔۔

الحمدللہ ۔۔ مزمل بیگم نے ہلکی سی مسکراہٹ سے جواب دیا تھا۔۔

Is he is here...

(کیا وہ یہاں ہے؟) نہ جانے کس امید کے تحت وہ یہ سوال کر بیٹھی تھی۔ مگر سوال کرنے کے بعد اس کو شرمندگی بھی بہت ہوئی تھی۔۔۔

No, he’s gone...

(نہیں وہ چلا گیا ہے۔۔) مزمل بیگم نے للی کی ظرف دیکھ کر بولا تھا جس کے چہرے پر یہ سنے کے بعد ایک تلخ مسکراہٹ آئی تھی۔۔۔

He always gones...

(وہ ہمیشہ چلا جاتا ہے) وہ بھیگی آنکھوں اور آواز کے ساتھ سامنے کھڑی کی طرف دیکھتے ایک حسرت سے بولی تھی۔۔۔ مزمل بیگم اس کے لہجے میں چھپی حسرت دیکھ چکی تھی۔۔۔

بہت جلد وہ تمہیں کبھی نہ چھوڑنے کے لیے لوٹے گا ۔ مزمل بیگم بہت ہلکی آواز میں بولی تھی۔۔۔

I want to learn urdu can you teach me...

(میں اُردو سیکھنا چاہتی ہوں کیا آپ مجھے سیکھا سکتی ہیں ۔۔) وہ مزمل بیگم کی طرف دیکھتے ہوئے بولی تھی ۔ للی کو مختلف زبانیں سکھنے کا شوق تھا تبھی اس نے تھوڑی اُردو شہزاد سے بھی سیکھی تھی۔۔

Sure...

مزمل بیگم یہ کہہ کر اس کے سر پر ہاتھ رکھتی کمرے سے باہر نکل گئی تھی۔۔۔ اور پیچھے وہ اپنی سوچوں میں پھر سے الجھ چکی تھی ۔۔۔

••••••••••••

وہ ابھی اپنے کالج سے نکلی تھی اس نے اونچی پونی کر رکھی تھی سرخ و سفید رنگ سفید یونیفارم میں چمک رہا تھا۔۔ وہ اپنی کالج وین میں بیٹھنے لگی تھی جب اس کے کان میں کوئی جانی پہچانی آواز پڑی تھی ۔۔۔

کیا آج بھی میرے ساتھ چلو گی؟؟؟ شہزاد جو اس کے پیچھے آ کر کھڑا ہوا تھا بغیر کیسی ہچکچاہٹ کے بولا تھا۔۔ جبکہ سویرا ایک لمحے کے لیے سن ہو گئی تھی۔۔۔

میں؟؟  سویرا نے اس کی طرف بے یقینی سے دیکھتے ہوئے بولا تھا۔۔

ہاں تم اور میں نے کس کو کہنا تھا یہ؟؟ شہزاد اس کو دیکھتے ہوئے مدہم آواز میں بولا تھا۔۔۔

وہ میں ۔۔۔ سویرا کچھ نروس ہو رہی تھی اور نہ جانے کیوں وہ آج شہزاد کو دیکھ کر بلش کر رہی تھی۔

ارے یار اتنا کیا سوچ رہی ہو تمہاری پھوپھو کا بیٹا ہوں۔۔ شہزاد ایک قدم آگے بڑھا تھا اور اس کے کندھے سے اس کا کالج بیگ اتار لیا۔۔

ادھر دو اس کو کتنا بوجھ اٹھاؤ گی۔۔۔ یہ کہتے ہوئے اس نے وہ بیگ اپنے ہاتھوں میں لیا تھا ۔۔

مگر شہزاد ۔۔۔ ابھی وہ کچھ بولتی کے شہزاد نے اس کے ہونٹوں پر انگلی رکھ دی تھی۔۔ ایک لمحے کے لیے سویرا کو اپنی دھڑکنے بے ترتیب ہوتی محسوس کوئی مگر خود کو نارمل کر چکی تھی۔۔۔

اب وہ بغیر کیسی بحث کے شہزاد کے ساتھ چل پڑی تھی۔۔۔ ابھی کچھ آگے بڑھے ہی تھے وہ دونوں کے سویرا کا پاؤں کیسی پتھر سے ٹکرایا تھا اس سے پہلے وہ گرتی  کہ شہزاد نے اس کو اپنے حصار میں لے لیا تھا۔۔۔

سویرا نے ایک نظر اٹھا کر شہزاد کو دیکھا تھا ۔۔ اور نا جانے کیوں آج اس کو شہزاد کو دیکھ کر کچھ اور محسوس ہو رہا تھا۔۔ شہزاد کا اس کو ڈیل کرنا اس سے نرمی سے بات کرنا سب اس کے دل میں جذبات جگا رہا تھا۔۔ شاید محبت اس کے معصوم دل پر قدم رکھ چکی تھی۔۔

تھینک یو ۔۔۔ وہ سر جھکا کے بس اتنا ہی بول پائی تھی۔۔۔

دھیان سے چلو ابھی اگر تم گر جاتی اور کوئی چوٹ لگ جاتی تو۔۔ میں تمہیں تکلیف میں نہیں دیکھ سکتا۔۔ شہزاد اس کو محبت بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے بولا تھا جبکہ سویرا صرف سر ہلا کر رہ گئی تھی۔۔۔

وہ ابھی آگے چلنے لگی تھی کے اب کی بار شہزاد نے اس کا ہاتھ تھام لیا تھا۔۔۔

تم دھیان سے نہیں چلو گئی ۔۔ میرے ساتھ ساتھ چلو۔۔۔  شہزاد یہ کہتے اس کا ہاتھ تھامے اپنے ساتھ ساتھ چلا رہا تھا۔۔

اور یہ منظر دور کیسی کے دل میں آگ لگا چکا تھا ۔ شہزاد کا سویرا کے قریب آنا اس کے دل پر چھڑی چلا گیا تھا ۔ وہ بس اپنی مٹھیاں بیچ کر رہ گیا تھا ۔۔

جبکہ سویرا اپنی دل کی دھڑکنوں کو قابو کر رہی جو نہ جانے کیوں آج کیسی اور ہی دھن پر ناچ رہی تھی ۔۔

وہ دونوں سارا راستہ ہلکی پھلکی گفتگو کرتے جا رہے تھے ۔۔ مگر اس بار سویرا شہزاد کے ساتھ کچھ کچھ بلش کر رہی تھی نہ جانے کیوں اس کا دل شہزاد کو سنتے رہنے کی خواہش کر رہا تھا۔۔۔ وہ اپنے دل کے ساتھ ہی الجھی بیٹھی تھی۔۔۔ سارا راستہ اس کا اسی احساس میں الجھی بیٹھی تھی۔۔

وہ اپنے گھر پہنچتے ساتھ اپنی ماں کو ملی تھی اور اپنے کمرے میں بند ہو گئی تھی ۔۔ نہ جانے کیوں آج اس کا دل بہت بےتاب سا تھا اس کا دل شہزاد کے ساتھ رہنے کا  کر رہا تھا۔۔ وہ اپنے کمرے میں کھڑکی کے پاس کھڑی شہزاد کی کار کو دور جاتا دیکھ رہی تھی ۔۔

یہ محبت کا احساس بھی کتںا حسین ہوتا ہے ۔۔ اس کا پہلا قدم جتںا خوبصورت ہوتا ہے اتنے ہی تلخ اس کے آگے کے مراحل ہوتے ہیں ۔ سویرا کا معصوم دل اور معصوم آنکھیں محبت کے اس پہلے قدم کی خوبصورتی کو محسوس کر رہے تھے مگر وہ محبت کی تلخ حقیقت اور مراحل سے نہ واقف تھے۔۔۔ محبت نے اس کے دل میں انگڑائی تو لے لی تھی مگر وہ اپنی محبت کے انجام کے بارے میں نہیں جانتی تھی کیا یہ محبت اس کو ملنے والی تھی؟؟ کیا یہ محبت اس کو راس آنی تھی؟ ۔۔۔

••••••••••

یار تم دونوں کو پتا ہے سرفراز نے اپنے لیکچر کی اسائنمنٹ بنانے کیلئے دی ہوئی ہے۔۔ نور ان دونوں کے پاس گرائونڈ میں آئی تھی اور پریشانی سے بولی تھی ۔

ہاں پتا ہے ۔ جزا نے لاپرواہی سے بولا تھا۔۔

تم دونوں نے بنائی۔۔ نور حیران سی ان دونوں کو دیکھتے بولی تھی ۔

ہاں ہم نے بنائی ہے۔۔ کیوں تم نے نہیں بنائی؟؟؟ آمنہ نور کی شکل دیکھتے ہوئی بولی تھی جو حیرت سے منہ کھولے کھڑی تھی ۔۔

نہیں ۔۔ اور سر نے اسائنمنٹ دی کب تھی مجھے تو یہ بھی نہیں پتا ۔۔۔ نور کی آواز میں حیرت اور پریشانی کا ملا جلا تاثر تھا۔۔

لاسٹ ویک دی تھی سر نے ۔ تم کلاس میں ہوش میں ہی بیٹھی تھی نہ؟؟؟؟ جزا نور کی طرف دیکھتے ہوئے بولی تھی۔۔۔

یار مگر سر نے کب بولا تھا ؟؟ نور کو تو ابھی تک یقین نہیں آ رہا تھا۔۔

میری جان تو ایک کام کر پھر سے کینڈی کرش کھیلنے بیٹھ جا۔۔ اور جب سر اسائنمنٹ مانگے نہ تو ان کو کینڈی کرش اون کر کے دے دینا ۔۔۔۔ آمنہ نور کو گھورتے ہوئے بولی تھی۔۔۔

یار اب میں اسائنمنٹ کا کیا کروں گئی۔۔۔ نور پریشان سی ان دونوں کے سامنے بیٹھ گئی تھی۔۔۔

محترمہ اب بیٹھ کے بناؤ اسائنمنٹ اور کیا کرو گی تم۔۔۔ جزا  نے نور کو گھورتے ہوئے کہا تھا۔۔

کیا تم دونوں ۔۔۔ اس سے پہلے نور اپنی بات مکمل کرتی جزا اور آمنہ ایک ساتھ بولی تھی ۔۔

بلکل نہیں ۔۔۔ ان دونوں کی بلند آواز نے نور کی زبان بند کر دی تھی۔۔

اور اب وہ شرافت کا مظاہرہ کرتے اپنی اسائنمنٹ بنا رہی تھی ۔۔ جبکہ جزا اور آمنہ اپنے اپنے لیپ ٹاپ پر کوئی پر نہ جانے کیا کرنے لگی ہوئی تھی ۔۔ ان تینوں کو آج دو ہفتے ہو گئے یونی جوائن کیے۔۔ وہ تینوں اس وقت  کمپیوٹر ڈیپارٹمنٹ میں موجود تھی۔۔۔

یار سر کیا تھوڑی لمبی اسائنمنٹ نہیں دے سکتے تھے۔۔ نور طنزیہ بولی تھی کیونکہ اسائنمنٹ لکھ لکھ کر اس کے ہاتھ دکھ گئے تھے ۔۔

اگر تمہارا اتںا ہی دل کر رہا ہے اور لکھنے کا تو فل ٹوپیک لکھ لو اور بعد میں اس کو یاد بھی کر لینا کیونکہ سر نے یہ سنا بھی ہے۔۔۔ آمنہ لیپ ٹاپ کی سکرین پر نظریے جمائے بولی تھی ۔۔

میں تو مذاق کر رہی تھی یار۔۔۔ نور بامشکل مسکراتی بولی تھی۔۔۔

اور جزا اس کی شکل دیکھ کر اپنا قہقہہ  روک کر رہ گئی تھی ۔۔۔۔

•••••••••••

تو سٹوڈنٹ آپ سب کی اسائنمنٹ کدھر ہیں ؟؟؟ پروفیسر فراز جو ایک ایجیڈ آدمی تھے ۔ نظر کی عینک لگائے۔۔ پینٹ شرٹ میں وہ اس وقت اپنا لیکچر لینے کلاس میں داخل ہوئے تھے۔۔ اور آتے ساتھ سٹوڈنٹ سے ان کی اسائنمنٹ کے بارے میں پوچھا تھا۔۔

سب سٹوڈنٹ باری باری اپنی اسائنمنٹ دے چکے تھے۔۔ اب باری جزا، آمنہ اور نور کی تھی۔۔۔

جزا اور آمنہ تو اپنی اسائنمنٹ دے آئی تھی۔۔۔  جبکہ نور اپنی جگہ پر ہاتھی گھوڑے بیچ کر سو رہی تھی ۔۔ آمنہ اور جزا نے نور کو دیکھا اس سے پہلے وہ اس کو اٹھاتی سر فراز کی آواز کلاس روم میں گونجی تھی۔۔۔

نور دوراب کی اسائنمنٹ کہاں ہے؟؟؟ سر فراز کی بھاری آواز کلاس روم میں گونجی تھی۔۔

وہ سر نور تو سو رہی ہے۔۔ ربیعہ جو نور، جزا، آمنہ کی سیٹ کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھی تھی اپنی باریک آواز میں بولی تھی۔۔ جبکہ آمنہ ، جزا جو نور کو بار بار ہلا رہی تھ سر اٹھا کر ربیعہ کو دیکھنے لگی۔۔

خدا کی قسم یہ چائنہ کی گڑیا میرے ہاتھوں مر جائے گئی۔۔ جزا دانت پیس کر بولی تھی ۔۔ کیونکہ ربیعہ کے نین نقش کافی چھوٹے تھے۔۔۔

دوسری طرف ربیعہ کی بات سن کر سر فراز ماتھے پر تیوری چڑھائے نور کے سر پر آ کر کھڑے ہو گئے تھے۔۔ اور اب معاملہ جزا اور آمنہ کے ہاتھ سے نکل گیا تھا۔۔۔

نور دوراب ۔۔۔ سر فراز نے اپنے ہاتھ میں پکڑے بوڈ مارکر کو نور کی سینٹ پر زور سے بجاتے ہوئے اونچی آواز میں بولے تھے۔۔

کون کون ہے۔۔۔ وہ جو گہری نیند میں تھی سر فراز کی آواز پر ڈر کر  اٹھی تھی۔۔۔

جزا میں تو کہتی ہوں فاتحہ پڑھ نہ لیں؟؟ آمنہ جزا کے کان کے پاس جھکی بولی تھی۔۔

تم نے ابھی پڑھنی ہے؟؟ میں تو پڑھ بھی چکی ہوں۔۔ جزا مدہم آواز میں بولی تھی کے صرف آمنہ ہی سن سکی تھی ۔۔

سر آپ آپ کب آئے ۔۔ وہ جیسے ہوش میں آئی سر فراز کو اپنے سر پر مسلط دیکھ کر رونے والی ہو گئی تھی۔۔۔

آپ ادھر سونے آتی ہیں یا پڑھنے ۔۔ سر فراز کی گرجدار آواز پورے کلاس روم میں گونجی تھی ۔۔

وہ سر وہ میں ۔۔۔۔ نور کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کیا بولے وہ۔۔۔

وہ سر میں میں کیا ۔ آپ نے اسائنمنٹ بنائی ہے؟ سر فراز کو اس کا نروس ہونا اور غصہ دیلا رہا تھا۔۔۔

جی سر بنائی ہے۔۔۔ اس نے  فورآ اپنے بیگ میں سے اسائنمنٹ نکل کر سر فراز کے سامنے کی تھی۔۔۔

چلیں کلاس کو یہ ساری اسائنمنٹ سمجھائیں گی آپ ۔۔ سر فراز اس کو راستہ دینے کے لیے تھوڑا مزید ایک طرف ہو کر کھڑے ہوئے تھے۔۔ جبکہ جزا اور آمنہ نور کو ترس کھاتی نظروں سے دیکھ رہی تھی۔۔۔

وہ بچاری مرتی کیا نہ کرتی ۔۔ اس لیے چھوٹے چھوٹے قدم اٹھا کر آگے بڑھنے لگی تھی۔۔۔ جبکہ باقی سب سٹوڈنٹ بھولی بھالی سی نور کی بیچاری شکل پر کبھی اپنی ہنسی چھپاتے تو ابھی ان کو اس پر رحم آتا تھا۔۔۔

وہ سر میں کہہ رہی تھی کے اسائنمنٹ دے دیتے تو زیادہ اچھے سے سمجھا دیتی ۔۔ نور چہرے پر معصوم سی مسکراہٹ سجائے بولی تھی۔۔۔

وہ کیسے۔۔۔ سر فراز نے اپنی اس معصوم سی سٹوڈنٹ کو دیکھا تھا۔۔۔

سر میں صرف اسائنمنٹ بنائی ہے یاد تھوڑی کی ہے۔۔ نور معصومیت سے بولی تھی ۔۔

تو یاد کر کے آنا تھا نہ۔۔ سر فراز اس کو گھورتے ہوئے بولے تھے ۔۔

سر آپ نے اسائنمنٹ بنانے کا بولا تھا یہ تو نہیں کہا تھا کہ رٹٹا لگا کے آنا ہے ۔۔ نور منہ پھولا کر بولی تھی ۔۔

جبکہ اس کی بات سن کر سب سٹوڈنٹ ہنس پڑے تھے ۔ جبکہ آمنہ اور جزا نے اپنا سر پیٹ لیا تھا۔۔۔

آپ کل یہ اسائنمنٹ دس دفعہ لکھ کر لائیں گی اور ابھی یہ اسائنمنٹ سمجھائیں گی بھی۔۔۔ نور کی چلتی زبان کو دیکھ کر سر فراز غصے میں اس کو گھورے ہوئے بولے تھے۔۔ جبکہ اب صحیح معنوں میں نور کے ہوش ٹھکانے لگے تھے۔۔ اور وہ بیچاری نظروں سے سر فراز کی طرف دیکھ رہی تھی۔۔

کلاس ختم ہونے کے بعد وہ منہ لٹکائے چل رہی تھی آمنہ اور جزا کے درمیان میں ۔۔۔

یہ تو غلط ہے یار۔۔۔ نور رو دینے کو تھی۔۔۔

نہیں نہیں میری جان تھوڑی اور زبان چلا لینی تھی سر کے ساتھ۔۔۔ آمنہ نور کو دیکھتے ہوئے اپنی ہنسی چھپا کر بولی تھی۔۔

ایک تو محترمہ سر کے لیکچر میں سو گئی اوپر سے زبان بھی چلا رہی تھی۔۔ اور اب رو رہی ہے صحیح نہیں ہوا میرے ساتھ ۔۔ جزا نور کو گھورتے ہوئے بولی تھی۔۔۔

اب تم دونوں نہ مجھے شروع ہو جاو۔۔ آگے مجھے دس بار اسائنمنٹ بنانی ہے۔۔۔ نور ٹھنڈی آہ بھر کر رہ گئی تھی۔۔۔

تم دونوں مجھے اٹھا نہیں سکتی تھی کیا۔۔۔ نور کچھ یاد آنے پر بولی تھی۔۔۔

جتنا تجھے ہلائا تھا نہ اتنا کیسے جانور کو ہلاتے نے اس نے اٹھ کر ہمارے پیچھے پر جانا ۔۔۔ جزا تپ کر بولی تھی ۔۔

کون سی افیم کھا کر سوئی تھی تم کلاس میں ۔۔۔ آمنہ نور کے سر پر چپت مار کے بولی تھی۔۔۔

میں کچھ نہیں کھایا تھا پتا نہیں نیند کیسے آئی مجھے ۔۔ نور کچھ سوچتے ہوئے بولی تھی۔۔

 نور میڈم آپ پر تو ہر ٹائم ہی نیند کی دیوی مہربان ہوتی ہے ۔۔ جزا نور کو گھورتے ہوئے بولی تھی۔۔ جبکہ نور منہ پھولا کر آگے چلنے لگی تھی ۔۔

وہ تینوں یونی سے باہر نکلی ہی تھی کے جزا ایک لمحے کے لیے روک گئی ۔۔۔

کیا ہوا تمہیں آمنہ نے جزا کی طرف دیکھ کر پوچھا تھا۔۔

نہیں کچھ نہیں چلو دونوں ۔۔ وہ بات کو گھومتے آگے بڑھی تھی مگر ایک بار پیچھے دینا نہ بھولی تھی۔۔نہ جانے کیوں مگر اس کو ایسے لگ رہا تھا جیسے وہ ہر وقت کیسی کی نظروں کے حصار میں ہے۔۔۔

••••••••••••••

آج کافی دن ہو گئے تھے سویرا کو شہزاد ہی کالج سے پیک کرتا تھا۔۔ آج بھی وہ اس کی چھٹی سے پہلے اس کے کالج کے سامنے کھڑا تھا۔۔۔ وہ جیسے ہی کالج سے باہر نکلی سامنے ہی شہزاد کو دیکھا تو اس کا دل بے ساختہ دھڑک اٹھا تھا۔  اور آج  وہ لگ بھی بہت ہنڈسم رہا تھا۔۔ اپنی دوستوں کا بائی بول کر وہ سیدھا شہزاد کے سامنے آ کر کھڑی ہوئی تھی۔ اس نے اس کے لیے کار کا دروازہ کھولا تھا اور وہ فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گئی تھی۔۔۔۔

کیسی ہو ۔۔۔ شہزاد ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھتا بولا تھا ۔۔۔۔

بہت خوبصورت ۔۔۔ سویرا نے مذاق میں ایک ادا سے کہا تھا۔۔۔

اس میں تو کوئی شک نہیں ۔۔۔ شہزاد نے ایک بھر پور نظر اس کے سراپہ پر ڈالی تھی۔۔ جیس پر سویرا جھینپ کر رہ گئی تھی۔۔۔۔

ویسے آج کچھ اسپیشل ہے کیا۔۔ سویرا نے اس کی تیاری کو دیکھ کر پوچھا تھا۔۔

ہاں آج کا دن بہت اسپیشل ہے۔۔ شہزاد سویرا کو دیکھتا بولا تھا اس کی نظروں میں کچھ ایسا تھا کہ سویرا نظریں جھکا گئی تھی ۔۔

اب شہزاد اس سے باتیں کرتے کار ڈرائیو کر رہا تھا اور وہ اس کی سنی جا رہی تھی۔۔۔ نہ جانے کیوں سویرا کو شہزاد کو سنا اچھا لگتا تھا ۔۔

شہزاد کی کار ایک مشہور ہوٹل کے سامنے روکی تھی۔ سویرا نے ایک نظر سامنے ہوٹل کو دیکھا تھا اور ایک نظر شہزاد کو دیکھا تھا ۔۔

کیا ہوا ۔ وہ مدہم سا مسکرا کر سویرا کی طرف دیکھ رہا تھا۔۔۔

ہم یہاں کیوں آئے ہیں ۔۔۔ سویرا کچھ الجھی سی بولی تھی۔۔۔

لنچ کے لیے۔۔ شہزاد اپنی سائیڈ کا دروازہ کھولتا بولا تھا ۔ اور باہر نکل کر اس نے سویرا کی سائیڈ کا دروازہ کھولا تھا اور اپنا ہاتھ آگے بڑھیا تھا۔۔۔

سویرا ایک لمحے کے لیے ہچکچاہٹ کا شکار ہوئی تھی۔۔ مگر شہزاد نے اس کا ہاتھ خود ہی تھام لیا تھا۔۔ اب وہ اس کو لے کر اندر کی طرف بڑھا تھا۔۔۔

وہ اپنی بک کی ہوئی ٹیبل کی طرف بڑھا تھا ۔

شہزاد بھا ۔۔۔۔ ابھی وہ کچھ بولتی کہ شہزاد نے اس کو ٹوک دیا تھا ۔۔

یار پلیز بھائی مت بولنا ۔۔ شہزاد سویرا کی طرف دیکھتے ہوئے مسکرا کر بولا تھا۔۔۔

اتنے میں ویٹر آوڈر لے آیا تھا۔۔۔

ہم نے تو ابھی آوڈر دیا ہی نہیں تھا۔۔۔ ویٹر جب آوڈر رکھ کر گیا تھا تب سویرا بولی تھی۔۔۔

یہ میں پہلے ہی کر چکا تھا آوڈر ۔۔ تمہاری ساری فیوریٹ ڈیشیز آوڈر کی تھی۔۔۔ شہزاد سویرا کی آنکھوں میں دیکھ کر مسکرا کر بولا تھا۔۔

آپ نے بتایا نہیں آج کیا اسپیشل ہے ۔۔ سویرا اس کی نظروں کے حصار سے کنفیوز ہوتی بات بدل گئی تھی ۔۔

ہاں سچ۔۔۔ شہزاد اپنی جگہ سے اٹھتا بولا تھا اور آگے بڑھ کر سویرا کا ہاتھ تھاما اور اس کو اس کی جگہ سے اٹھا کر اپنے سامنے کھڑا کیا تھا ۔ سویرا کو کچھ سمجھ نہ آ رہی تھی کہ یہ ہو کیا رہا ہے۔۔۔ جب اچانک شہزاد اپنے گھٹنوں کے بل بیٹھا تھا۔۔۔

شہزاد۔۔۔ سویرا نے کچھ بولنے کے لیے منہ کھولا ہی تھا کہ شہزاد بول اٹھا تھا ۔۔

سویرا مجھے بولنے دو پلیز ۔۔ شہزاد کی آنکھیں جزبات سے بھری پڑی تھی ۔۔۔

اس نے اپنے کوٹ کی پوکٹ سے ایک چوٹا سا وائٹ کلر کا بوکس نکلا تھا اور وہ کھل کر اس نے سویرا کے سامنے کیا تھا۔۔۔ اس کے اندر ایک بہت ہی خوبصورت انگوٹھی تھی جس پر ایک خوبصورت سا زمرد چمک رہا تھا ۔۔ سویرا بس اس انگوٹھی کو دیکھتی رہ گئی تھی۔۔۔ جب شہزاد کی آواز پر وہ ہوش میں آئی ۔۔۔

میں نہیں جانتا میں تم سے کیسے کہوں ۔۔۔ مگر سویرا یقین کرو تم وہ واحد لڑکی ہو جو مجھے میرے دل کے قریب محسوس ہوئی ہے۔۔ میں نہیں جانتا کب کیسے کیوں مگر میرا دل تمہارا ہو گیا ہے۔۔۔ میں تم سے بے انتہا محبت کرنے لگا ہوں ۔۔۔ شہزاد اپنے گھٹنوں پر بیٹھا اس سے اطراف محبت کر رہا تھا۔۔۔ جبکہ سویرا کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔۔اس نے کب سوچا تھا کہ جس کو اس نے چاہا تھا وہ اس کے نصیب میں لکھ دیا گیا تھا۔۔۔

کیا آپ بے وفائی تو نہیں کرو گے۔۔ سویرا کچھ سوچتے ہوئے بولی تھی۔۔۔

مر کے بھی نہیں ۔۔ شہزاد کے انداز میں کیا نہیں تھا۔۔۔

سویرا نے اپنا ہاتھ آگے بڑھا دیا تھا۔۔۔ شہزاد نے وہ انگوٹھی اس کے ہاتھ میں پہنائی اور اس کا ہاتھ تھامے واپس ٹیبل کی طرف آیا تھا۔۔۔ سویرا کو ابھی تک اپنی خوش قسمتی پر یقین نہیں آ رہا تھا ۔۔ اس کی محبت بغیر کیسی جدو جہد کے اس کی جھولی میں ڈال دی گئی تھی۔۔ وہ بہت خوش تھی بےتحاشہ ۔۔۔ اور دور کھڑے اس شخص کو پہلی بار اس خوشی سے تکلیف ہوئی تھی۔۔ اس کو پہلی بار سویرا کے قہقہوں سے تکلیف ہوئی تھی ۔۔

•••••••••••

وہ کب سے بیٹھا سیگریٹ پر سیگریٹ پی جا رہا تھا۔۔۔ آیان اور دوراب اس سے نہ جانے کتنی بار پوچھ چکے تھے مگر وہ ان میں سے کیسی کو کچھ نہیں بتا رہا تھا۔۔۔۔

جب زوریز حدید کے ساتھ اندر آیا تھا۔۔۔

آیان اور دوراب نے ان دونوں کو دیکھا تو سیدھے ہوئے تھے۔۔۔

کیسے ہو تم تینوں اور ۔۔۔ زوریز کے الفاظ منہ میں ہی رہ گئے تھے جب اس کی نظر رحیان پر گئی تھی ۔۔

اس کو کیا ہوا ہے ؟؟ زوریز سوالیہ نظروں سے آیان اور دوراب کی طرف دیکھتے بولا تھا۔۔ جبکہ حدید بس رحیان کو دیکھی جا رہا تھا۔۔

پتا نہیں کیا ہوا ہے ۔۔ جب سے آیا ہے سیگریٹ پر سیگریٹ پی جا رہا ہے منہ سے کچھ بول نہیں رہا ۔ آیان رحیان کو گھورتے ہوئے بولا تھا۔۔۔

تم کم سے کم اس کو گھورو تو نہ پہلے وجہ تو جان لو۔۔ حدید آیان کو گھوری سے نوازتا بولا تھا۔۔۔

رحیان کیا بات ہے ۔ زوریز اس کے سامنے بیٹھتے بولا تھا۔۔۔

کچھ نہیں ۔۔ رحیان دوبارہ سیگریٹ کو منہ کے قریب لے کر جاتے بولا تھا ۔۔

بات بتاؤ رحیان ۔۔۔ آخری بار بول رہا ہوں۔۔۔ زوریز نے اس کے ہاتھ سے سیگریٹ لے کر اپنے پاؤں کے نیچے مسل دی تھی اور اس کی گرجدار آواز کمرے میں گونجی تھی۔۔

میں بہت تکلیف میں ہوں اس وقت۔۔۔ وہ اپنی سرخ آنکھوں کو بند کرتا بولا تھا۔۔

کس بات نے تکلیف دی ہے تمہیں ۔۔۔ اب کی بار حدید اس کے ساتھ بیٹھا تھا ۔۔

یار میں نہیں دیکھ سکتا اس کو کیسی اور کے ساتھ نہیں دیکھ سکتا ۔۔ اتںا بڑا ظرف میرا نہیں ہے ۔ میرا خون کھول رہا ہے ۔۔۔رحیان اپنی ہتھلی کی  موٹھیاں بناتا غصے پر قابو کرتے ہوئے بولا تھا۔۔۔

کس کو نہیں دیکھ سکتے کون ہے وہ۔۔۔ زوریز نے دو ٹوک سوال کیا تھا ۔

کوئی نہیں میں جا رہا ہوں۔۔۔ مجھے کچھ کام ہے ۔ یہ کہتے ساتھ رحیان اپنی جگہ سے اٹھا تھا اور باہر نکلنے لگا تھا جب زوریز کی آواز اس کے کان میں پڑی تھی ۔۔

وہ جو کوئی بھی ہے اگر تمہارے جذبات اور خواہش پاک ہے تو اس کے ماں باپ کے سامنے رکھو اس کو ۔۔ یو تڑپنے سے کچھ نہیں ہو گا ۔۔ جس کے لیے جذبات ہے جا کر اس کو بتاو۔۔۔ زوریز رحیان کو دیکھتا دو ٹوک انداز میں بولا تھا۔۔۔

اس کو بتانے کی ہی تو ہمت نہیں ہو رہی مجھ میں ۔۔۔ یہ کہتے ساتھ وہ کمرے سے باہر نکل گیا تھا۔۔۔

 

•••••••••••••

 

 

 

 

 

دو سال بعد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ اپنے کالج کے سامنے کھڑی تھی۔۔ اس کی آنکھیں جیسے کیسی کے انتظار میں تھی۔۔۔۔۔۔ وہ مسلسل اپنے ہاتھ میں موجود سیل فون پر ٹائم دیکھ رہی تھی۔۔۔

وہ ابھی میسج ٹائپ کرنے لگی ہی تھی کہ ایک سیاہ رنگ کی گاڑی اس کے سامنے روکی تھی۔۔۔

شہزاد فوراً کار سے باہر نکلا تھا ۔۔ اس سے پہلے سویرا اس کو دیکھ کر کچھ بولتی وہ بول پڑا تھا۔۔۔

سوری آج میٹنگ میں تھوڑا زیادہ بزی ہو گیا تھا۔۔۔ شہزاد نے اپنی صفائی دی تھی ۔۔

او اچھا تو آپ یہ بھول گئے تھے کہ کوئی انتظار کر رہی ہے آپ کا۔ سویرا روٹھی ہوی سی بولی تھی ۔۔ ان دو سالوں میں وہ اور زیادہ خوبصورت ہو گئی تھی۔۔۔ اور اس کا قد بھی کچھ بڑھا تھا۔۔۔ شہزاد تو بس اس کے اس روٹھے روپ کو دیکھ کر رہ گیا تھا۔۔۔۔

سوری محترمہ چلیں اب ۔۔ شہزاد نے اپنے دونوں کانوں کو ہاتھ لگایا تھا اور ہلکا سا مسکرایا تھا۔۔ اس کی اس حرکت پر سویرا مسکرا اٹھی تھی اور آگے بڑھ کر کار میں بیٹھ گئی تھی ۔۔

وہ دونوں اور کچھ دیر میں ایک ریسٹورنٹ میں تھے۔۔ کھانا وہ دونوں آوڈر کر چکے تھے۔۔۔

شہزاد آپ بابا اور پھوپھو سےبات کب کریں گئے ۔۔۔ سویرا کچھ سوچتے ہوئے بولی تھی ۔۔

بہت جلد کروں گا ۔۔۔۔ مگر فلحال تو میں تمہارے برتھ ڈے کے لیے کچھ اسپیشل پلین کر رہا ہوں۔۔۔ شہزاد اپنے ہاتھ میں اس کا ہاتھ لیتے ہوئے بولا تھا ۔۔

جبکہ سویرا بلیش کر گئی تھی۔۔۔ ان دو سالوں میں شہزاد کی  محبت مکمل توڑ پر اس کے دل میں جگہ بنا چکی تھی۔۔ وہ اس کی کچی عمر کا پہلا پیار تھا۔۔۔ ان دو سالوں میں شہزاد ہر لحاظ سے اس کی سوچوں پر قابو پا چکا تھا ۔۔

وہ لوگ لنچ کر کے ریسٹورنٹ سے نکلے تھے اور اب شہزاد اس کو گھر ڈراپ کرنے جا رہا تھا۔۔۔

••••••••••••

آج کل وہ گھر میں ہی ہوتی تھی کیونکہ اس کے چار سیمسٹر مکمل ہو گئے تھے اور اب اس کے سیمسٹر بریک چل رہے تھے۔۔۔ وہ اپنے کمرے کی کھڑکی کے پاس بیٹھی ناول پڑھ رہی تھی جب اس کو کیسی گاڑی کے روکنے کی آواز آئی تھی۔۔۔ اس نے سر اٹھا کر دیکھا تو سامنے کا منظر دیکھ کر وہ اپنی جگہ جم سی گئی تھی۔۔۔

سویرا جو ابھی کار سے اتر کر شہزاد کو سی اوف کر رہی تھی جیسے ہی موڑی اس کی نظر کھڑکی میں کھڑی جزا پر پڑھی تو وہ ایک لمحے کی لیے روک گئی تھی ۔۔

جبکہ جزا ابھی تک بے یقینی سے سامنے دیکھ رہی تھی۔۔ اس کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آ رہا تھا ۔۔ نہ چاہتے ہوئے بھی اس کا دل کیسی ڈر سے ڈھرکا تھا۔۔۔۔

سویرا نیچھے انعم بیگم سے مل کر اوپر کمرے میں ائی تو جزا بھی اسکے پیچھے اس کے کمرے میں داخل ہوئی تھی۔۔۔ ان دو سالوں میں شاہد صاحب نے جزا اور سویرا کو الگ الگ روم دے دیے تھے کیونکہ دونوں کو روٹین الگ تھی ۔۔ تو وہ چاہتے تھے کہ دونوں ایک دوسرے کی وجہ سے ڈسڑب نہ ہوں۔۔۔

تم کس کے ساتھ آئی ہو۔۔۔ جزا نے اس کے کمرے میں آتے ساتھ سوال کیا تھا ۔۔ اس کی آواز اونچی نہ تھی مگر اس کے لہجے میں تلخی ضرور تھی۔۔ اور شاید آج پہلی بار سویرا سے وہ تلخی  سے بات کر رہی تھی ۔۔

میں ۔۔۔ سویرا کچھ بولنے لگی تھی ۔۔ جب جزا پھر سے بولی تھی۔۔۔

سویرا جھوٹ مت بولنا سمجھ آئی ۔۔ جو پوچھا ہے اس کا جواب دو تم کس کے ساتھ آئی ہو ۔۔۔۔ جزا ایک ایک لفظ چبا چبا کر بولی تھی۔۔

وہ میں  شہزاد کے ساتھ۔۔۔ سویرا سر جھکا کر بولی تھی۔۔۔ مگر اس لفظ نے جیسے جزا پر کورا مارا تھا ۔۔۔ کیونکہ اس نے کار میں ایک لڑکے کو دیکھا تھا مگر وہ چہرا نہ دیکھ پائی تھی ۔۔

شہزاد کون۔۔ جزا نے اپنی تصدیق کے لیے سویرا کو دیکھتے ہوئے پوچھا تھا ۔

پھوپھو کا بیٹا شہزاد ۔۔ کیا ہو گیا ہے جزا ۔ سویرا اپنی بہن کی عقل پر ماتم کرتی بولی تھی ۔۔ مگر سویرا کی بات نے جزا کا سانس جیسے اس کے گلے میں دبا دیا تھا۔۔۔۔

تم اس کے ساتھ کیوں آئی تھی۔ جزا کو اپنی آواز کھائی سے آتی محسوس ہوئی تھی۔۔ وہ دل میں دعا کر رہی تھی جو وہ سوچ رہی ہے ویسا کچھ نہ ہو ۔۔ مگر سویرا کی بات نے اس کی رہی سہی امید پر پانی پھیرا تھا۔ 

میں زیادہ تر شہزاد کے ساتھ ہی آتی ہوں۔۔۔ سویرا سر نیچھے کر کے بولی تھی۔۔ کاش وہ ایک بار نظر اٹھا کر جزا کی طرف دیکھ لیتی ۔۔۔۔

یہ الفاظ تھے یا سیسا جو کیسی نے جزا کے کان میں انڈیلا تھا۔۔۔

شہزاد بھائی بولو اس کو عمر میں بڑا ہے تم سے ۔۔ اور تم اس کے ساتھ کیوں آتی ہو۔۔۔ جزا کی آواز اب کی بار کچھ بلند ہوئی تھی ۔۔

میں اس کو بھائی نہیں بولوں گی۔۔۔ اب کی بار سویرا زرہ ناک چڑھا کر بولی تھی ۔۔

کیوں ۔۔ اس کو ابھی تک سویرا کی بات پر یقین نہیں آیا تھا ۔ وہ جتںی حیران ہوتی کم تھا۔۔۔

کیونکہ میں پیار کرتی ہوں شہزاد سے اور وہ مجھ سے۔۔ سویرا اپنی دھن میں ہی بولی تھی۔۔۔

جبکہ اس کی بات سن کر جزا کا اپنے قدموں پر کھڑے رہنا ماحل ہو گیا تھا۔۔۔ اس نے خود کو گیرنے سے بچانے کے لیے بیڈ کروان کا سہارا لیا تھا۔۔۔ ایک لمحے کے لیے اس کے کانوں میں شہزاد کی آواز گونجی تھی۔ ( میں تمہیں برباد کر دوں گا ۔۔ اس تھپڑ کی قیمت تم سود سمیت دو گی۔)

جزا ابھی تک سویرا کی طرف بے یقینی سے دیکھ رہی تھی ۔۔۔

یہ تم نے کیا کیا سویرا ۔۔۔ جزا کا لہجہ بہت زخمی تھا۔۔۔

سویرا نے موڑ کر جزا کو دیکھا تھا۔۔۔

جزا تم جیسا سمجھ رہی ہو ویسا کچھ نہیں ہے وہ بہت اچھا ہے ۔۔۔ سویرا نے اس کے حق میں صفائی دینی چاہی تھی۔۔۔

وہ بہت برا ہے سویرا۔۔۔ پلیز اس سے دور ہو جاؤ ۔۔ جزا نے نم آنکھوں سے اپنی بہن کو دیکھا تھا۔۔۔۔

ایسا نہیں ہے۔۔ تم اس سے بدگمان ہو۔۔۔ سویرا غصے سے جزا کو دیکھنے لگی تھی اس کو کہاں گوارہ تھا شہزاد کے بارے میں کچھ برا سنا۔۔۔

تم اصلیت نہیں جانتی سویرا ۔ اس سے دور ہو جاو۔  وہ سانپ ہے ڈسنہ اس کی فطرت ہے ۔۔ اس نے سویرا کو دونوں کندھوں سے پکڑ کر جھنجوڑا تھا۔۔۔

ایسا نہیں ہے جزا اس کے بارے میں ایسا نہ بولو ورنہ میں خیال نہیں کروں گی کہ تم میری بہن ہو۔۔۔ سویرا آنکھوں میں غصہ لیے بولی تھی ۔۔

بہن ہوں اس لیے تمہیں اس جیسے گھٹیا انسان سے دور ہونے کا کہہ رہی ہوں سویرا تم سمجھ کیوں نہیں رہی۔۔۔ وہ سویرا کا ہاتھ تھامتے بولی تھی ۔۔

وہ گھٹیا نہیں ہے سمجھ آئی۔۔ اس کے بارے میں ایک لفظ نہ بولنا۔۔۔ سویرا جزا کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ نکالتے غصے سے بولی تھی۔۔۔ جبکہ جزا سویرا کو دیکھتی رہ گئی تھی۔۔۔

تم باز آ جاؤ سویرا ادھر ہی روک جاؤ تمہارے لیے بہتری ایسی میں ہے وہ بہت برا ہے سویرا پلیز میری بات مان لو۔۔ میں تمہاری بہن ہوں تمہارے بارے میں غلط کبھی نہیں سوچوں گئ۔۔ اگر وہ اچھا ہوتا تو کبھی بھی تمہیں یہ نہ کہتی اس سے دور ہو جاو۔۔۔ جزا نے سویرا کے چہرے کو اپنے ہاتھوں میں لیا تھا ۔۔

جزا وہ اچھا ہے۔۔۔ اور بہت جلد وہ بابا اور پھوپھو سے بات کرنے والا ہے۔۔ سویرا اس کی بات کو نظر انداز کرتے بولی تھی ۔۔

سویرا روک جاؤ ۔۔ وہ ایک گہری اندھری کھائی ہے۔۔۔ وہ صرف تمہیں تکلیف دے گا۔۔۔ جزا اب کی بار بلند آواز میں بولی تھی۔۔۔

یہ صرف تمہارا وہم ہے جزا اور کچھ نے۔۔۔ سویرا نے جزا کو اب کی بار گھور کر دیکھا تھا ۔۔

میرا وہم نہیں ہے سویرا۔۔ یقین کرو میرا وہ اچھا نہیں ہے۔۔۔ جزا نے اس کا ہاتھ تھاما چاہا تھا کہ سویرا نے اپنا ہاتھ پیچھے کر لیا تھا ۔

تم فلحال میرے کمرے میں سے نکل جاؤ تم سے بات کرنا بےکار ہے۔۔ سویرا نے دروازے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا ۔

وہ اچھا نہیں ہے۔۔۔ جزا پھر سے بولی تھی۔۔۔

اس کا فیصلہ وقت کر دے گا۔۔۔ تم جاؤ یہاں سے۔۔۔ سویرا منہ موڑ کر بولی تھی۔۔۔۔ جبکہ جزا بس اس کو دیکھتی رہ گئی اور اس کے کمرے میں سے نکل گئی تھی۔۔۔۔۔۔

آج وہ دو بہنیں آمنے سامنے کھڑی الجھی ہوئی تھی ایک دوسرے سے ۔۔ جو کبھی ایک دوسرے کا آئینہ ہوا کرتے تھی۔۔۔

•••••••••••

وہ اپنے گھر میں بنے جم میں پنچنگ بیگ پر بار بار اپنے ہاتھ سے پنچ مار رہی تھی ۔۔۔

اس کو بار بار شہزاد کا  اپنے ساتھ اپنا سامنا یاد آتا تھا۔۔۔ اس کا شہزاد جو تھپڑ مارنا ۔۔ شہزاد کا اس کو دھمکی دینا ۔۔

اہہہہہہہ۔۔۔۔۔ شہزاد اکرم تم بدلہ میں اس حد تک گر جاؤ گے مجھے اندازہ نہ تھا ۔۔تم نے میری بہن کو محبت جیسے جزبے میں پھیسایا ہے ۔۔۔ ایک انسوں ٹوٹ کر اس کی شہد رنگ آنکھوں سے گال پر پھسلا تھا۔۔۔۔ اس نے غصے سے دوبارہ پنچنگ بیگ پر مارنا شروع کر دیا تھا۔۔۔ شہد رنگ آنکھوں اس وقت مکمل سرخ تھی۔۔۔

تم فلحال میرے کمرے سے نکل جاؤ ۔۔ تم سے بات کرنا بےکار ہے۔۔۔ اس کا فیصلہ وقت کر دے گا۔۔۔۔۔ تم  جاؤ یہاں سے۔۔۔ اس کے کانوں میں بار بار سویرا کے الفاظ گونج رہے تھے۔۔ وہ الفاظ سیسا بن کر اس کے کانوں میں انڈلے گئے تھے۔۔۔۔۔ جزا کی آنکھوں سے آنسو بہہ کر اس کی گال پر پھسلے تھے۔۔ وہ مکمل طور پر پسینے سے بڑھی ہوئی تھی۔۔۔ بلآخر تھک کر وہ نیچھے زمین پر بیٹھ گئی تھی ۔۔۔۔۔

سویرا وہ اچھا نہیں ہے ۔۔ جزا کی آواز بھر آئی تھی ۔۔ اس کے آنسوؤں میں روآنی آ گئی تھی۔۔۔۔

مجھ سے قسم لے لو وہ تمہارے لیا اچھا نہیں ہے۔۔۔ تم معصوم ہو اس نے تمہارے معصوم جذبات کا فائدہ اٹھایا ہے۔۔۔ جزا اب باقائدہ طور پر رو رہی تھی۔۔۔

مضبوط سے مضبوط انسان کو اس کے کیسی اپنے اور سب سے عزیز رشتے کا ایک غلط فیصلہ کیسے توڑ کر رکھ دیتا ہے وہ آج اس تکلیف کو جان گئی تھی۔۔۔ سویرا کے اس ایک غلط انتخاب نے جیسے آج جزا کی کمر توڑی تھی وہ اس شخص کو اس کے سامنے لا کر کھڑا کر چکی تھی جس کی وہ شکل بھی دیکھنا نہیں چاہتی تھی۔۔۔ اس نے اس جگہ سے تکلیف اٹھائی تھی جہاں کبھی اس نے گمان بھی نہ کیا تھا۔۔ وہ اس کی بہن تھی اس کا انتخاب ایسا کیسے ہو سکتا تھا اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔۔ آنسو تھے جو روکنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔۔۔۔۔

کچھ سوچتے ہوئے وہ اٹھی اور اپنا فون اٹھایا ۔۔ اس نے اپنے کنٹیکٹ لیسٹ میں ایک نام کا نمبر ڈھونڈنا شروع کیا تھا جو کچھ ہی دیر میں اس کو مل بھی گیا۔۔۔۔

اس نے نہ چاہتے ہوئے بھی اس نمبر پر کال کی تھی۔۔ دوسری طرف بل جا رہی تھی ۔۔۔

ہیلو۔۔۔۔کال جیسے ریسیو ہوئی وہ بولی تھی۔۔۔

ہیلو ۔۔ آج آپ نے ہمیں کیسے فون کیا۔۔۔ دوسری طرف کوئی مسکرا کر  بولا تھا۔۔۔

میری بات سنو۔۔۔ میری بہن سے دور رہو سمجھ آئی ۔۔۔ جزا اس کی بات کو نظر انداز کرتی بولی تھی۔۔۔

کیوں دور رہوں اس سے۔۔۔ دوسری طرف شہزاد مسکراتے ہوئے بولا تھا۔۔۔

وہ معصوم ہے شہزاد اس کو تمہاری اصلیت نہیں پتا۔۔۔ تم اس کی معصومیت کا فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔۔۔ جزا ایک ایک لفظ پر زور دیتی بولی تھی۔۔۔

میں اس کی معصومیت کا فائدہ تو نہیں اٹھا رہا۔۔۔ شہزاد اپنے ہونٹوں پر ابھرتی مسکراہٹ کو دباتے بولا تھا۔۔۔

شہزاد اس سے دور رہو سمجھ آئی ۔۔۔ جزا کی آواز اب کی بار کافی بلند تھی۔۔۔

اگر نہ رہ تو؟؟ اس کو جیسے جزا کی بے بسی پر خوشی ہو رہی تھی۔۔

تم میری بہن کی معصومیت کا فائدہ نہیں اٹھا سکتے ۔۔۔ جزا غصے سے دھاری تھی۔۔۔۔

میں کب اٹھا رہا ہوں اس کی معصومیت کا فائدہ ۔۔ ریلیکس رہو ۔ جب کبھی اس کی معصومیت کا فائدہ اٹھانا کو گا تمہاری نظروں کے سامنے اٹھاؤ گا۔۔۔ شہزاد یہ کہہ کر فون بند کر چکا تھا۔۔۔ اس کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ تھی۔۔۔

جبکہ جزا اس کی بات سن کر پتھر کی ہو گئی تھی۔۔۔۔۔ اس کا وجود وہی کا وہی رہ گیا تھا جیسے اس کی سانس روک گئی ہو۔۔۔

وہ مضبوط اعصاب کی مالک تھی مگر آج جیسے اس کی ہمت کا امتحان تھا۔۔۔

نہ جانے وہ کیا کرنے والا تھا۔۔۔۔ جزا کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا۔۔۔ وہ خود کو نارمل کرتی جم روم سے باہر نکلی تھی۔۔

••••••••••••

مزمل بیگم نماز ادا کر کے اب دعا کے لیے بیٹھی تھی جب وہ ان کے کمرے میں آئی تھی۔۔۔

وائٹ ٹوپ کے نیچھے بلو کلر کی جینز پہنے  اپنے سنہری بالوں کو کھلا چھوڑے بغیر میک اپ کے وہ اس وقت بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔۔۔ ان دو سالوں میں اس کی مزمل بیگم سے خوب بن گئی تھی اور اب تو وہ اُردو بھی بہت اچھی بولتی تھی۔۔۔۔

ان کو دعا مانگتا دیکھ وہ بھی ان کے پاس بیٹھ گئی تھی۔۔۔ جب اس کی نظر ان کے چہرے پر پڑی تو وہ حیرت اور پریشانی کے ملے جلے  تاثرات کے ساتھ ان کو دیکھنے لگی تھی۔۔۔ مزمل بیگم کی آنکھوں سے آنسوں بہہ رہے تھے۔۔

جیسے ہی وہ دعا مانگ کر ہٹی تو للی کو پاس بیٹھا دیکھ ہلکا سا مسکرا دی تھی اور اس کے سر پر ہاتھ پھیرا تھا ۔۔ اور جانماز اس کی جگہ پر رکھنے کے لیے موڑی تھی ۔۔

آپ رو کیوں رہی تھی۔۔۔ للی مزمل بیگم کی پشت کو دیکھتے بولی تھی۔۔۔ اس کے سوال پر وہ مسکرا کر رہ گئی اور موڑ کر اس

کے پاس صوفے پر آ کر بیٹھی تھی۔۔۔۔۔

میں اپنے اللہ کا شکر ادا کر رہی تھی ۔۔۔  مزمل بیگم بہت نرم لہجے میں بولی تھی۔۔۔

مگر شکر ادا کرتے ہوئے کون روتا ہے ۔۔ اس کو ان کی بات کچھ سمجھ نہ آئی تھی تبھی بولی ۔۔۔

مومن کے انسوں شکر ادا کرنے پر بھی نکلتے ہیں اور توبہ پر بھی ۔۔۔ اگر سچ دل سے توبہ اور شکر کیا جائے تو اس رب کی بارگاہ میں آنسوں نکل ہی آتے ہیں آنکھوں سے۔۔ یہ بات تو دل اور نیت کی ہوتی ہے۔۔ اور وہ دلوں کے راز اور نیتوں سے واقف ہے۔۔۔ مزمل بیگم اپنے سامنے بیٹھی للی کی آنکھوں میں دیکھ کر بولی تھی ۔

میں نے بہت بار آپ کو دیکھا ہے آپ اس جگہ کافی کافی دیر بیٹھی رہتی ۔۔ آپ کی آنکھوں سے آنسوں بہتے ہیں ۔۔۔ للی کچھ نہ سمجھی سے بولی تھی۔۔۔

مجھے اس جگہ بیٹھنا اچھا لگتا ہے۔۔ میں اس جگہ بیٹھ کر اپنے مالک سے بات کرتی ہوں ۔اس کی کر نعمت کا شکر ادا کرتی ہوں۔۔۔ مجھے ادھر بیٹھ کر سکون ملتا ہے ۔۔۔

آپ کا اللہ آپ سے بات کرتا ہے؟؟ للی جتںا حیران ہوتی اتنا کم تھا۔۔۔

ہاں۔۔ نماز اللّٰہ سے گفتگو کا ذریعہ ہے ۔۔ یہ ہمیں اللّٰہ کے قریب کرتی ہے ۔ مزمل بیگم اٹھ کر چلتی سامنے بنی بلکہنی میں جا کر کھڑی ہو گئی تھی اور ان کے ساتھ للی بھی آکر کھڑی ہو گئی تھی ۔۔

آپ کو نماز میں سکون ملتا ہے؟؟ للی نے سامنے کھلے آسمان کو دیکھتے بولا تھا۔۔۔

بہت سکون ملتا ہے ۔۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں میں اپنا ہر راز بول سکتی ہوں جہاں میں رو سکتی ہوں اپنے دل کا حال بول سکتی ہوں اپنے وجود کا بوجھ اتار سکتی ہوں۔۔ کیونکہ مجھے پتا ہے یہاں کوئی میرا مذاق نہیں بنائے گا۔۔ میرے راز پر سے پردہ نہیں اٹھائے گا۔۔ وہ مجھے رسوا نہیں کرے گا۔۔۔ وہ مجھے تھام لے گا۔۔ مجھے سنبھال لے گا۔۔ مجھے جھوڑ دے گا۔۔ میری مشکل کو آسان کرے گا۔۔۔وہ بہت بے نیاز ہے ۔ مزمل بیگم دور افق کو دیکھتے بولی تھی ان کے چہرے پر ایک سکون تھا۔۔۔۔

کیا وہ مجھے بھی سکون دے دے گا ؟؟ مجھے بھی سنبھال لے گا؟؟ مجھے رسوا ہونے سے بچا لے گا؟؟ کیا وہ میرا پردہ رکھ لے گا؟؟ نہ جانے کیوں للی کی آواز بھر آئی تھی۔۔۔

کیوں نہیں۔۔ تم اس کے در پر جاؤ اور وہ تمہیں کھالی ہاتھ لوٹا دے میرا اللہ ایسا نہیں ہے وہ تو ٹوٹے ہوئے دلوں کی بہت سنتا ہے جن کے دل ٹوٹ جاتے ہیں وہ ان کے زیادہ قریب ہوتا ہے ۔۔۔ مزمل بیگم نے گردن موڑ کر للی کی طرف دیکھا تھا۔۔۔

مگر میں اس کے پاس کیسے جاؤ ؟؟ میں تو اس کو جانتی بھی نہیں ہوں؟ وہ ہے کہاں کہاں ڈھونڈوں گی میں اس کو؟؟ کوئی راستہ کوئی جگہ کوئی منزل؟؟ کچھ بھی تو نہیں پتا۔۔۔ میں نے اس کو کبھی دیکھا نہیں ۔۔۔ للی نے مزمل بیگم کی طرف گردن گھوما کر دیکھا تھا۔۔۔

تم اس کو نہیں جانتی مگر وہ تمہیں جانتا ہے۔۔ اس کے پاس جانے کا کوئی ایک ذریعہ تھوڑی ہے۔۔ وہ تو جن کو چن لے ان کو خود اپنے تک آنے کا راستہ دیکھا دیتا ہے۔۔۔ تم اگر اس کو ڈھونڈنا چاہتی ہو تو خود میں ڈھونڈوں اس کو میری بچی ۔۔۔ وہ دلوں میں رہتا ہے۔۔۔ اس کا گھر تمہارا دل ہے۔۔۔ تم اس کو خود میں تلاش کرو۔۔ وہ تو ظاہر بھی ہے اور پوشیدہ بھی۔۔۔ اس دنیا کی ہر ایک چیز اس کے ہونے کا احساس دیلاتی ہے۔۔۔ وہ ہمیں ظاہری آنکھ سے نظر نہیں آتا مگر اس کی قدرت تو نظر آتی ہے نہ ۔۔۔ اور صاحبہ عقل کے لیے وہ سب ایک اشارہ ہے کہ کوئی تو ذات ہے جو اس نظام کو چلا رہی ہے ۔۔ مزمل بیگم آسمان کو دیکھتے بولی تھی جہاں اب غروبِ آفتاب کا منظر نظر آ رہا تھا اور آسان پر ہلکی سے سرخی پھیلنا شروع ہو گئی تھی۔۔۔۔

وہ میرے بارے میں کیسے جانتا ہے؟ وہ میرے دل میں کیسے ہے؟؟ وہ نہ سمجھی سے بولی تھی ۔۔۔

وہ تمہارے ماضی کے بارے میں سب جانتا ہے۔۔۔ تمہارے حال سے واقف ہے۔۔ تمہارا مستقبل وہ طہ کر چکا ہے۔۔۔ وہ تو ہر انسان کے دل میں ہے۔۔۔ بس جن کے دلوں پر مہر لگا دے وہ ہدایت حاصل نہیں کر پاتے نہ اس کو پا پاتے ہیں اور جن کے دل سے مہر ہٹھا دے تو  وہ ان کو مل بھی جاتا ہے اور پھر ان کو تھام بھی لیتا ہے۔۔۔ مزمل بیگم کی سیاہ آنکھوں میں کچھ تھا ۔۔۔

ہدایت کیسے ملتی ہے۔۔۔ للی آسمان کو دیکھتے ہوئے بولی تھی۔۔۔

ہدایت خود ہی نہیں ملتی ہدایت کے لیے تو چنا جاتا ہے ۔ وہ جس کو چاہتا ہے خود ہدایت دیتا ہے۔۔ اور جو کوئی ہدایت کا طلبگار ہو اس کے لیے وہ راستہ خود نکل دیتا ہے۔۔۔۔ مزمل بیگم اس کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولی تھی۔۔۔

جبکہ للی مکمل خاموش تھی ۔۔۔ جیسے وہ کچھ سوچ رہی تھی۔۔۔ دور آسمان کو دیکھتے ۔۔ ایک ندامت کا آنسو جیسے ٹوٹ کر گیرا تھا اس کی آنکھوں سے۔۔۔

••••••••••••••

وہ کب سے ایک ہی پوزیشن میں بیٹھی زمین  پر نہ جانے کیا دیکھی جا رہی تھی۔ جب اس کے پاس پڑا اس کا فون بجا تھا۔۔۔ سکریں پر نمبر دیکھا تو جیسے اس کے مرجھائے چہرے پر رونق آ گئی تھی۔۔۔ فورآ اس نے کال پیک کی تھی۔۔۔

ہیلو ۔۔۔ وہ فون اٹھاتے ساتھ بولی تھی ۔۔

کیسی ہو؟؟ دوسری طرف شہزاد کی محبت سے چوڑ آواز گونجی تھی ۔۔۔

ٹھیک ہوں میں ۔۔۔ وہ خود کو نارمل کرتی بولی تھی۔۔۔

لگ نہیں رہی۔۔۔۔ شہزاد پریشانی سے بولا تھا۔۔

کچھ نہیں بس ویسے ہی۔۔۔ سویرا نے بات ٹالنی چاہی تھی ۔۔

نہیں مجھے بتاؤ کیسی نے کچھ کہا ہے۔۔ شہزاد کی پریشانی میں ڈوبی آواز فون کے سپیکر پر سے گونجی تھی ۔۔

میری جزا سے لڑائی ہوئی ہے تھوڑی دیر پہلے ۔۔۔ وہ منہ پھولا کر بولی تھی۔۔

دیکھو وہ بڑی ہے تم سے اگر کچھ بول دیا تو نظر انداز کرو۔۔ شہزاد اس کو سمجھا رہا تھا ۔۔

وہ آپ کے بارے میں غلط بول رہی تھی۔۔ میں آپ کے بارے میں غلط نہیں سن سکتی ۔۔ اس کا تو دماغ خراب ہے۔۔۔ سویرا روٹھے ہوئے انداز میں بولی تھی۔۔۔

میرے بارے میں ۔۔ شہزاد سوالیہ انداز میں بولا تھا۔۔۔ اس کے لہجے میں حیرت کا تاثر شامل تھا۔۔۔

وہ کہتی آپ اچھے نہیں ہو۔۔۔ سویرا پریشانی سے بولی تھی۔۔۔۔

تم اس کی بات کر اگنور کرو۔۔ وہ ویسے ہی مجھ سے بدگمان رہتی ہے پتا نہیں کیوں۔۔۔ مگر بہت جلد اس کی ہر بدگمانی کو دور کر دوں گا۔۔۔ شہزاد مدہم لہجے میں بولا تھا ۔۔

پکا نہ... سویرا نے تصدیق کرنی چاہی تھی۔۔۔

بلکل میں نے کبھی تم سے کچھ جھوٹ بولا ہے۔۔ شہزاد کی آواز میں ایک اعتماد تھا۔۔

بلکل نہیں ۔۔۔ سویرا ایک مان سے بولی تھی۔۔۔

تو بس یقین رکھو ۔۔ جزا کی باتوں پر دھیان نہ دو ۔۔ شہزاد پرسکون سا بولا تھا۔۔۔

چلیں میں بعد میں بات کرتی ہوں۔۔ یہ کہہ کر سویرا ںے کال کاٹ دی تھی۔۔۔ جبکہ وہ اب الجھ کر رہ گئی تھی ۔۔۔ وہ کس پر یقین کرتی اپنی بہن پر یا اپنی محبت پر ۔۔۔

میری معصوم سی گڑیا ۔۔۔ شہزاد فون کی سکرین کو دیکھتا ہلکا سا مسکرایا تھا۔

نہ  جانے یہ مسکراہٹ کتنے راز خود میں لپٹے بیٹھی تھی۔۔۔۔

•••••••••••••

جاری ہے۔۔۔۔۔۔

 

کیا رنگ لائے گی سویرا اور شہزاد کی محبت۔۔۔ کیا سویرا کی محبت جیت پائی گئی یا جزا کا ڈر درست ثابت ہو گا؟؟ شہزاد آخر کرنے کیا والا ہے۔۔۔؟کیا جزا سویرا کو شہزاد سے دور کر پائے گئی؟ کیا للی ہدایت کے راستے کو چنے گئی ؟؟؟  کیا موڑ لینے والی ہے آگے کی کہانی۔۔۔

 

 

 

 

Stay update with us and waiting for episode no 12........ Which is full of susp

 

 

DON’T  copy without my permission ❌ ❌ ❌ ❌ ❌ ❌.

Also share your precious reviews with us and share with your friends.......

For more updates follow us on

Instagram

Threads

TikTok

Facebook

Pinterest



 

 

 

 

 

 


Comments

  1. Ab jaldi sy ep 12 b upload krdyn waiting for more episodes

    ReplyDelete
    Replies
    1. inshaAllah jasaye he is episode pa 200 views k target complete ho ga episode 12 k sth 13 bhi upload karon gi.... now show some support dear reader

      Delete

Post a Comment