Dasht E Ulfat Novel By Shazain Zainab Episode no 12


 








بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

 ناول

 

دشتِ الفت

 

شازین زینب

 

 

 

 

 

 

 

 

Ep# 12

 

 

سفید لمبی فروک میں وہ شوخ چنچل سی حسینہ چلتی آ رہی تھی۔۔ خوبصورت باغ میں بیٹھا نوجوان کب سے اس حسینہ کی نادانوں کو دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔۔۔ وہ اپنی جگہ سے اٹھا تھا اور قدم قدم بڑھاتا اس کے پاس گیا تھا ۔۔ وہ جو ندی کے پانی میں ہاتھ ڈالنے کے لیے جھکی تھی اس نوجوان نے فوراً اس کا ہاتھ پکڑا تھا۔۔۔ اس کا نرم و ملائم ہاتھ اس وقت اس کے ہاتھ میں تھا۔۔۔ اس نے جھک کر پانی کو اپنے دوسرے ہاتھ میں تھوڑا سا بھرا اور اس نوجوان کی طرف اوچھال دیا ۔۔ اور اگلے ہی لمحے وہ اس سے ہاتھ چھوڑا کر بھاگنے لگی تھی۔۔۔

ارے دھیان سے بھاگوں ۔۔ وہ نوجوان اس کے پیچھے بھاگتے ہوئے بولا تھا ساتھ مسکرا رہا تھا۔۔۔

وہ شوخ چنچل سی لڑکی بھاگتے بھاگتے ایک اندھیرے گھنے جنگل کے سامنے آ روکی تھی۔۔۔

اس سے آگے مت جانا۔۔ وہ نوجوان اس کو کھڑا دیکھ کر بولا تھا۔۔

میں تو جاؤں گی۔۔ وہ چنچل سی لڑکی یہ بول کر اس جنگل کی طرف مسکراتے ہوئے بڑھی تھی۔۔۔۔

وہ نوجوان پھر سے اس کے پیچھے بھاگا تھا۔۔۔۔ ابھی کچھ اگے بڑھا ہی تھا کے اس کے کانوں میں ایک چیخ کی آواز گونجی تھی۔۔۔ وہ فوراً آواز کے تعاقب میں بھگا تھا۔۔۔ آگے کا منظر جیسے اس نوجوان کے لیے قیامت تھا۔۔۔

وہ چنچل سی لڑکی زمین پر خون سے لت پت پڑی تھی۔۔ سامنے ایک اور شخص کھڑا تھا چہرہ کا ڈھکا ہوا تھا۔۔ مگر اس کے ہاتھ میں پکڑے چاقو سے خون کی بوندے گر رہی تھی۔۔۔ شاید یہ اس لڑکی کا ہی خون تھا۔۔۔

نہیں ایسا نہیں ہو سکتا ۔۔۔ وہ فوراً آگے کی طرف بڑھا تھا اس سے پہلے وہ اس آدمی کے پاس پہنچتا وہ دھوند میں گم ہو چکا تھا۔۔۔

وہ فوراً اس چنچل سی لڑکی کے وجود کے پاس آیا تھا ۔۔

اس کا سفید لباس خون سے سرخ ہو گیا تھا ۔۔

تم مجھے چھوڑ کر نہیں جا سکتی ۔۔ مجھے ایک عمر گزارنی ہے تمہارے ساتھ۔۔ آنکھیں کھولو۔۔۔۔ اس نوجوان کی آنکھوں سے انسو بہہ رہے تھے ۔۔۔ مگر وہ وجود جو اس کی گود میں تھا بےجان ہو چکا تھا۔۔۔۔

نہیں تم مجھے چھوڑ کر نہیں جا سکتی۔۔۔۔ نہیں ۔۔۔۔۔ نہیں ۔۔۔۔۔ اچانک اسکی آنکھ کھول گئی تھی۔۔۔۔ وہ پیسنے سے بھیگا ہوا تھا۔۔ اس کی آنکھیں انسوں سے تر تھی۔۔۔

یا اللہ تیرا شکر ہے یہ صرف خواب تھا۔۔ خود کو اپنے بستر پر پا کر وہ شکر ادا کرنے لگا تھا ۔۔۔ مگر ایک خوف اس پر سوار ہو گیا تھا۔۔۔۔

یہ خواب کون سا رنگ لانے والا تھا وہ اس بات سے انجان تھا ۔ یہ خواب کس طرح اس کی زندگی کو بدلنے والا تھا وہ لاعلم تھا۔۔

••••••••••••

زوریز ۔۔۔زوریز۔۔۔۔ دوراب کوئی تیسری بار اس کو بولا رہا تھا۔۔

ہاں بولو۔۔ وہ جو اپنی سوچوں میں گم تھا ۔۔ دوراب کے بولنے پر ہوش میں آیا تھا۔۔۔

کیا بات ہے ؟؟ کہاں گم ہو؟؟ دوراب تشویشی نظروں سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولا تھا۔۔

کچھ نہیں تم بتاؤ کچھ کہنا تھا۔۔۔ وہ دوراب کی طرف دیکھتے بولا تھا۔۔۔

میری چھوڑو تم یہ بتاو تم کہاں گم رہنے لگے ہو۔۔۔ دوراب زوریز کے بلکل سامنے بیٹھتا بولا تھا۔۔۔

میں نے کہاں گم ہونا ہے۔۔ وہ بات کو ٹالنے والے انداز میں بولا تھا۔۔۔

شہد رنگ آنکھوں میں ۔۔۔ حدید کی آواز پیچھے سے آئی تھی۔۔ اور اس وقت اس کے ہاتھوں میں وہ ہی پینڈنٹ تھا جو کبھی دو سال پہلے جزا سے ٹکرانے پر اس کے پاس آیا تھا۔۔

زوریز نے حیرت سے موڑ کر حدید کی طرف دیکھا تھا اور جیسے ہی نظر اس کے ہاتھ پر گئی وہ اپنی جگہ سے اٹھا تھا۔۔۔

اوے اس کو وآپس رکھ اس سے پہلے میں تیری ہڈی پسلی ایک کروں۔۔ وہ اپنی جگہ سے اٹھتا بولا تھا۔۔۔

وہ تو تم نے بعد میں بھی ایک کر ہی دینی ہے۔۔ اس لیے اب سچ بول دے۔۔۔ حدید بھی اپنی جگہ سے اٹھ کر ایک طرف کو ہوا تھا۔۔۔

حدید انسان بن کر دے دے وآپس ۔۔۔ زوریز اس کو گھورتے ہوئے بولا تھا۔۔۔

تو سچ بول دے میں دے دوں گا۔۔۔ حدید چہرے پر مسکراہٹ سجائے بولا تھا۔۔

میں تمہارا منہ توڑ دوں گا دے یہ وآپس ۔۔۔ زوریز غصے سے دھاڑا تھا۔۔۔

یہ لے توڑ لے ۔ مگر سچ بول آج ۔۔ دو سالوں میں کئی بار یہ میں نے تمہارے ہاتھ میں بھی دیکھا ہے۔۔۔ حدید نے اپنا منہ اس کے سامنے کرتا بولا تھا۔

میں سچ بول رہا ۔۔۔ ابھی وہ اپنی بات پوری کرتا کے دوراب اور حدید دونوں نے اس کا ایک سائیڈ سے پکڑ کر صوفے پر پھینکا تھا۔۔ اور اس کو قابو کیا تھا۔۔ کیونکہ زوریز کی مسکولر بوڈی کی وجہ سے وہ دونوں اس کو اکیلے قابو نہیں کر سکتے تھے اس لیے دونوں نے اس کو مل کر قابو کیا تھا ۔۔

چل اب سچ بتا ہم سے بھی چھپائے گا۔۔ حدید اور دوراب اپنی آنکھیں اس کی نیلی آنکھوں میں گاڑتے بولے تھے۔۔

میں خود نہیں جانتا یار۔۔ ان دو سالوں میں نہ جانے کیوں مگر بار بار وہ آنکھیں وہ لڑکی ذہن میں آ جاتی ہے۔۔جیسے وہ میرے خیالوں پر چھا گئی ہو ۔۔ تنگ آ کر وہ بول ہی پڑا تھا ۔۔ اب کب تک چھپتا ان سے یہ سب۔۔۔

مبارک ہو۔۔لگ جا لائن میں ۔۔ دوراب صوفے پر بیٹھتا بولا تھا۔۔

کیا مطلب۔۔۔ زوریز نہ سمجھی سے اس کی طرف دیکھنے لگا۔۔

مطلب یہ زوریز صاحب ۔۔ میں بھی کیسی کا عاشق ہوں۔۔ وہ بھی ہے اب آپ بھی آ جائے ہماری لائن میں کیونکہ کہیں نہ کہیں محبت دل پر دستک دے چکی ہے آپ کے ۔۔ اور اب گھر کرنے لگی ہے۔۔۔ حدید نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بولا تھا۔۔۔

گھر کرنے کیا لگی کر گئی ہے۔۔۔ حدید نے زوریز کو دیکھتے ایک آنکھ ونک کی تھی جب دوراب کا قہقہہ گونجا تھا۔۔۔

نہ ممکن ۔۔۔ زوریز ابراہیم کے دل میں کیسی کے لیے محبت ایسا ہو ہی نہیں سکتا ۔ زوریز اپنی جگہ سے اٹھتا بولا تھا۔۔

ایسا ہو چکا ہے۔۔ حدید اور دوراب ایک ساتھ بولے تھے ۔

تم دونوں بکواس بند کرنے کا کیا لو گے؟؟ زوریز ان کو تپتی نظر سے دیکھتے ہوئے بولا تھا۔۔۔

بھابھی ۔۔ دونوں کا یک لفظی جواب تھا۔۔

تم دونوں کا دماغ خراب ہے؟؟ان کی بات پر وہ چکراتا چکراتا بچا تھا۔۔۔

نہیں تو۔۔ وہ دونوں ایک ساتھ بولے تھے۔۔۔ مجھے تو ایسا ہی لگ رہا ہے۔ زوریز دانت چبا کر بولا تھا۔۔۔

تجھےہمیں بھبابی دینے میں مسلہ کیا ہے۔۔۔ حدید تپ کر بولا تھا۔۔۔ بھابھی کیا درخت پر لگتی ہے جو منہ پھاڑ کر مانگ رہے ہو۔۔ زوریز ان دونوں کو گھورتا بولا تھا۔۔۔

تو جناب بھابی ارینج کرو نہ۔۔ مگر خیال رکھنا بھابھی بلکل ایسی ہونی چاہیے ۔۔۔ حدید نے وہ پینڈنٹ کھول کر اس کے سامنے کیا تھا۔۔۔۔

مر مرا نہ جانا میرے ہاتھوں ۔۔ زوریز وہ پینڈنٹ جھپٹتا بولا تھا۔۔۔

تو جان سے مار دے لیکن بھابی تو دے دے۔۔۔ حدید جیسے آج اس کو ستانے کے فول موڈ میں تھا۔۔۔

بلکل یار بھابی چاہیے ہے اب ہمیں ۔۔ اس سے پہلے زوریز کچھ بولتا دوراب بھی بول پڑا تھا۔۔

تم دونوں کو اتنی کون سی امیرجنسی ہے جو بھابھی بھابھی لگا کے بیٹھ گئے ہو۔۔۔ زوریز دونوں کو گھورتا بولا تھا۔۔۔

بھائی صاحب ہم سب دوستوں میں بڑے تم ہو۔۔ جب تک تم گھوڑی نہیں نہ چڑے ۔۔ چڑھنے کیسی نے ہمیں بھی نہیں دینا۔۔ دوراب بیچارگی سے بولا تھا۔۔ جب کے منہ حدید نے بھی بنا رکھا تھا۔۔۔

اول تو یہ تو یہ بکواس کرتا زہر لگ رہا ہے۔۔ دو سال پہلے نکاح کروا نہیں لیا تو نے۔۔۔ زوریز اس کو گھورتے ہوئے  بولا تھا۔۔۔

تو سحرا سجا کر ہی بیٹھا رہوں گھوڑی نہ چھڑوں میں ۔۔ دوراب اس کو گھورتا بولا تھا۔۔

صحیح اور آپ کو کس لیے جلدی ہے ۔۔۔ دوراب کی بات سن کر زوریز نے اب کی بار روخ حدید کی طرف کیا تھا۔۔۔

ہمممم۔۔ وہ میں بھی شادی کا سوچ رہا ہوں نہ اس لیے۔۔۔ حدید سر کھوجاتے ہوئے بولا تھا۔۔ حدید  کی بات سن کر زوریز کا تو منہ کھول گیا تھا کم سے کم وہ حدید سے تو اس بات کی توقع نہیں رکھتا تھا۔۔

بےغرتوں ایسی کون سی آگ لگ گئی ہے تم دونوں کو جو ٹھنڈی نہیں ہو رہی۔۔۔ زوریز دونوں پر تپتا بولا تھا۔۔۔

کس کو آگ لگی ہے کون سی آگ لگی ہے۔۔ آیان جو ابھی ابھی کمرے میں آیا تھا زوریز کی بات سن کر بولا۔۔

 لو آ گیا۔۔ شدید سنگل۔۔ زوریز منہ میں بربرایا تھا۔۔

وہ ہی لگی ہے ھو تمہیں  ہر منٹ بعد لگتی ہے۔۔ زوریز آیان کو دیکھتے بولا تھا۔۔۔

کیا مطلب مجھے اب کون سی آگ لگتی ہے۔۔۔ آیان کے سر پر سے بات گزری تھی۔۔۔

شادی کی۔۔ زوریز اس کو سخت گھوری سے نوازتا بولا تھا۔۔۔

کیا یہ دونوں شادی کرنے لگے ہیں ۔۔۔ سالوں میری کوئی منگنی نہیں کر رہا تم دونوں کو شادی کی آگ لگ گئی ہے۔۔۔ آیان ذن دونوں پر ہی طھٹ پڑا تھا۔۔۔

ہم اس کو بول رہے شادی کر لے تاکہ ہمارا نمبر بھی آئے ۔۔۔ دوراب اب کی بار بولا تھا۔۔۔

پھر تو بس سنگل ہی مر جائیں گے ہم لوگ کیونکہ یہ جناب دور دور اس موڈ میں نہیں لگ رہے۔۔۔ آیان ٹھنڈی آہ بھر کر افس میں پڑے صوفے پر گیرا تھا۔۔۔۔

اس لیے ہی تو اس کو بول رہے ہیں سوچے اب اس بارے میں بھی۔۔۔ حدید آیان کو دیکھتے بولا تھا ۔۔

یار تمہاری مہربانی شادی کر لو مجھے کنورا نہیں مرنا۔۔۔ آیان صاحب نے  تو ہاتھ ہی جوڑ ڈالے تھے۔۔ جبکہ دوراب اور حدید منہ پر ہاتھ رکھ کر اپنی ہنسی روکنے کی کوشش میں تھے ۔۔

چلو تم تینوں کو تو ذرہ سیدھا کروں۔۔ تم لوگ کیا شادی شادی کی تسبیح لے کر بیٹھ گئے ہو۔۔۔ زوریز یہ کہتا موڑا تھا۔۔۔

کیا مطلب ۔۔۔ حدید ، دوراب اور آیان ایک ساتھ بولے تھے ۔۔۔

مطلب یہ ۔۔ وہ ان تینوں کے سامنے فائلز کا انبار رکھتا بولا تھا۔۔۔

یہ سب۔۔۔۔ حدید کو تو وہ فائلز دیکھ کر کچھ ہوا تھا۔۔۔

یہ سب مجھے آج رات تک کلیر چاہیے ہیں ۔۔۔ ایک ایک چیز کی ڈیٹیل ۔۔۔ زوریز یہ کہہ کر اپنی کرسی پر جا کر بیٹھ گیا تھا۔۔ جبکہ وہ تینوں فائلز کا انبار دیکھ کر ہی بےہوش ہونے والے ہو گئے تھے۔۔۔

••••••••••••••••

دوپہر کے بارہ بج رہے تھے۔۔۔ وہ ابھی اٹھی تھی اپنے بستر سے آنکھیں سرخ ہوئی ہوئی تھی جو رات بھر رونے کی گواہی دے رہی تھی ۔۔۔ وہ اٹھ کر اپنے واشروم میں گئی تھی اور کچھ ہی دیر میں فریش ہو کر باہر آئی تھی ۔۔ باتھ لے کر کپڑے چینج کر کے وہ شیشے کے سامنے تیار کھڑی تھی بلیک کرتا اور ٹروزار کے اوپر ریڈ ڈوپٹہ لیے وہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی ۔۔ اپنے کمرے سے باہر نکلی ہی تھی کے دوسری طرف سے سویرا بھی اپنے کمرے سے باہر نکلی تھی۔۔

جزا سویرا کو دیکھ کر اس کی طرف بڑھی تھی۔۔۔

سویرا ایک بار اس بارے میں دوبارہ سوچ لو۔۔۔ جزا اس کے سامنے کھڑی بولی تھی۔۔۔

جزا پلیز جان چھوڑ دو اس کی وہ ایسا نہیں ہے جیسا تم سمجھ رہی ہو۔۔ سویرا چیڑ کر بولی تھی۔۔

تمہاری عقل پر پیٹی بندھی ہوئی ہے۔۔ جزا دبہ دبہ سا چیلائی تھی۔۔۔

پیٹی میری عقل پر نہیں تمہاری عقل پر پڑی ہے ۔۔ سویرا اس کو غصے سے دیکھتی بول کر سیڑھیاں اتر گئی تھی۔۔۔۔ جبکہ وہ سرد آہ بھر کر رہ گئی تھی۔۔ اس کو سمجھ نہیں آ رہا تھا وہ اس کو کیسے سمجھائے۔۔۔

کاش میں وقت رہتے تمہیں روک سکتی سویرا ۔۔۔ میں کیوں کر تم سے اتنی بے خبر ہو گئی تھی۔۔۔ اس کو رہ رہ کر خود پر غصہ آ رہا تھا وہ ان دو سالوں میں اپنی سٹیڈی اور دوسرے کاموں میں اتنی مصروف ہو گئی تھی۔۔ کہ اس کا کبھی بھی سویرا کی طرف یوں دھیان ہی نہ  گیا تھا۔۔۔

••••••••••••

ماما آپ میرے ساتھ مال چلیں گئی۔۔ وہ کچن میں اپنی ماں کے پاس آکر کھڑی ہوئی تھی ۔۔

ہیں ضرور چلوں گی مجھے بھی کچھ سامان لینا ہے ۔ انعم بیگم جو اپنے کام میں مصروف تھی جزا کو دیکھتے بولی تھی ۔۔

چلیں ڈن ہو گیا ۔۔۔ جزا یہ بولتے ساتھ سامنے پڑی فروٹ بیکٹ میں سے سیب اٹھا کر کھاتے باہر نکل گئی تھی۔۔۔۔۔

اور کچھ دیر میں وہ اور انعم بیگم شوپینگ مال میں تھے۔۔۔ وہ دونوں ہی سویرا کی برتھ ڈے کے لیے گفٹ لے رہی تھی ۔ جب ایک چھوٹا سا بچہ اس کے پاس آیا تھا ۔۔۔ اس نے اس کا ڈوپٹہ ٹھورا سا کھنچا تھا۔۔۔ وہ جیسے ہی موڑی تھی تو ایک چھوٹا سا پیارا سا بچہ کھڑا تھا۔۔۔

یہ آپ کے لیے ہے ۔۔۔ وہ بچہ اپنی معصوم سی آواز میں بولا تھا ۔۔

میرے لیے ؟؟ کس نے دیا؟؟؟ جزا جھک کر اس بچے کی گال کھنچتے بولی تھی۔۔۔

مجھے نہیں پتا ۔۔ وہ بچہ اس کو وہ چھوٹی سی چیٹ دے کر وہاں سے بھاگ گیا تھا۔۔۔ جبکہ جزا کچھ بولتی اس کو بھاگتا دیکھ چپ ہو گئی تھی۔۔۔

اس نے ایک نظر اس چٹ پر ڈالی اور پھر اس کو کھول کر دیکھا تھا۔۔۔

Per quanto tempo sei stato lontano da me, devi venire da me۔۔۔۔

(تم کب تک مجھ سے دور رہو گئی تمہیں مجھ تک ہی آنا ہو گا۔۔۔) اس چٹ پر لکھے لفظ جزا کی سمجھ سے باہر تھے۔۔۔۔

پھر سے وہ ہی زبان ۔۔۔۔ اب میں کیسے پتا لگاؤں یہ کون ہے۔۔۔ جزا اس چٹ کو دیکھتے خود سے بولی تھی۔۔ جب انعم بیگم نے اس کو بلایا تھا۔۔

تم نے گفٹ لے لیا ۔۔۔انعم بیگم اس کے پا آ کر بولی تھی۔۔۔

جی بس پیک کروانے لگی ہوں۔۔ وہ یہ کہتے ساتھ کنوٹر کی طرف گئی تھی۔۔۔۔

وہ بل پے کررہی تھی جب اس کو ایسے لگا جیسے وہ کیسی کی نظروں کے حصار میں ہے ۔۔۔ اس نے موڑ کر دیکھا تو پیچھے کوئی نہ تھا۔۔۔۔

ایک آخری نظر آس پاس دوڑاتے وہ پیسے دے کر اور اپنا شوپینگ بیگ لے کر انعم بیگم کے ساتھ باہر نکل ائی تھی۔۔

اب وہ دونوں کچھ کھانے کے لیے قریب بنے ریسٹورنٹ میں گئی تھی۔۔۔ جب جزا کو دور سے شہزاد آتا نظر آیا تھا۔۔۔ وہ اپنا غصہ قابو کرتی اپنی جگہ بیٹھی رہی تھی جب شہزاد ان کو دیکھتا ان کے پاس آ کر روکا تھا ۔۔

کیسی ہی ممانی جان۔۔۔ وہ انعم بیگم کے سامنے سر جھکائے بولا تھا ۔۔

ارے تم ادھر۔۔۔ اس کو دیکھ کر انعم بیگم اس کے سر پر پیار دیتی بولی تھی۔۔۔

جی بس کچھ کام سے نکالا تھا۔۔ کچھ کھانے کا دل کیا تو ادھر آ گیا ۔ شہزاد ان کو دیکھتا بولا تھا پھر جزا کی طرف موڑا تھا۔۔

تم کیسی ہو۔۔۔ جزا کی طرف اس نے ہاتھ بڑھیا تھا جو جزا نے نہیں تھاما تھا۔۔۔

اور جزا نے اس کے سوال کا جواب دینا بھی ضروری نہ سمجھا تھا وہ منہ موڑ گئی تھی ۔۔  اس کی اس حرکت کو شہزاد اچھے سے نوٹ کر چکا تھا۔۔۔ ابھی وہ کچھ بولتا جب انعم بیگم کا فون بجا تھا۔۔ وہ کال اٹینڈ کرتی سائیڈ پر چلی گئی تھی اب شہزاد اور جزا اکیلے تھے۔۔

لگتا ہے تمہیں  پسند نہیں آیا کہ میں تمہیں چھوڑ کر تمہاری بہن کے ساتھ ریلیشن شپ میں ہوں۔۔۔ شہزاد جزا پر بھرپور نظر ڈالتا بولا تھا۔۔۔

اپنی زبان کو لگام دو شہزاد ۔۔۔ جزا کی آواز بلند نہ تھی مگر اس کا انداز دو ٹوک تھا۔۔

ویل میں ایک ساتھ دو بھی افورڈ کر سکتا ہوں اگر تم چاہو تو۔۔ شہزاد زومعنی انداز میں بولا تھا۔۔ جبکہ اس کی بات نے جزا کے تن بدن میں آگ لگا دی تھی۔۔۔

اپنی زبان کو لگام دو شہزاد ورانہ اچھا نہیں ہو گا۔۔اور میری بہن سے دور رہو ۔۔۔ جزا اس کو سخت نظروں سے دیکھتی بولی تھی۔۔۔

فلحال تو دور ہی ہوں کیا دلکش منظر ہو گا جب اس کے قریب ہو جاؤ گا۔۔۔ شہزاد ایک آنکھ ونک کر کے بولا تھا۔۔ جبکہ جزا کا دل تڑپ اٹھا تھا۔۔۔

شہزاد میری بہن معصوم ہے اس سے دور رہو ۔۔۔ تمہیں مسئلہ مجھ سے ہے تو مجھ سے مقابلہ کرو۔۔ کیسی معصوم کو بیچ میں کیوں لا رہے ہو ۔ جزا ایک ایک لفظ چبا چبا کر بولی تھی ۔۔۔

کیسی باتیں کرتی ہو یار تم۔۔۔ تمہارے ساتھ تو فرصت میں سارے معاملے کا حساب لوں گا میں ۔۔۔ شہزاد اس کے تھوڑا سا قریب جھک کر بولا تھا۔۔۔

میں تمہیں جان سے مار دوں گی شہزاد ۔۔۔ اب کی بار وہ دبہ دبہ سا چیلائی تھی ۔۔

میں تمہیں پل پل ماروں گا جزا۔۔۔ تمہیں خون کے آنسوں نہ رولیا تو میں بھی شہزاد اکرم نہیں ۔۔ یہ کہتے وہ پرسکون سا کرسی پر ٹیگ لگا کر بیٹھ گیا تھا۔۔۔

تم نے میرے گھر والوں میں سے کیسی ایک کو بھی تکلیف دی تو ان کی ایک ایک درد کا بدلہ میں تمہاری روح تک سے لوں گی ۔۔۔ جزا اس کی آنکھوں میں آنکھیں گار کر سخت اور دوٹوک انداز میں بولی تھی۔۔۔۔

وہ دونوں مزید کوئی بات کرتے جب انعم بیگم آ گئی تھی۔۔۔

ماما شاید ہمیں گھر چلنا چاہیے بہت ٹائم ہو گیا ہے۔۔ انعم بیگم کے آتے ہی وہ بولی تھی۔۔۔

مگر تمہیں تو بہت بھوک لگی تھی نہ۔۔ انعم بیگم اس کی طرف دیکھتے بولی تھی۔۔

گھر جا کر کچھ کھا لوں گی ابھی چلتے ہیں ۔۔ وہ اپنی جگہ سے اٹھتی بولی تھی جب شہزاد بھی اپنی جگہ سے اٹھا تھا۔۔۔

آپ دونوں روک جائے میں کھانے کا اوڈر دیںے لگا ہوں۔۔ شہزاد انعم بیگم کی طرف دیکھتا بولا تھا۔۔

نہیں ضرورت نہیں ۔۔ اس سے پہلے انعم بیگم کچھ بولتی جزا بول اٹھی تھی۔۔۔

چلیں پھر میں چھوڑ دیتا ہوں آپ لوگوں کو ۔۔ شہزاد جزا کی طرف دیکھتا بولا تھا۔۔۔

نہیں شکریہ ہم چلیں جائیں گئے۔۔۔ یہ کہتے جزا آگے بڑھی تھی تو انعم بیگم بھی اس کے پیچھے چل پڑی تھی۔۔ جبکہ ان کو جزا کا روایہ اچھا نہیں لگا تھا۔۔۔

جزا یہ کیا طریقہ تھا۔۔۔ باہر آ کر انعم بیگم نے اس کو بازو سے پکڑ کر روکا تھا۔۔

کیا ہوا ماما۔۔ جزا انعم بیگم کو دیکھتے ہوئے بولی تھی۔۔۔

یوں باہر نکل آئی ہو۔۔ بچہ کو کتںا برا لگا ہو گا۔۔ بڑا ہے تم سے عزت کیا کرو اس کی۔۔۔ انعم بیگم اس کو سمجھا رہی تھی۔۔۔

ہمممم ۔۔۔ وہ بس سر جھکا کر رہ گئی تھی۔۔ اب وہ اپنی ماں کو کیا بتاتی وہ کس کمظرف آدمی سے عزت سے پیش آنے کا بول رہی تھی۔۔۔۔

باقی کا سارا راستہ اس نے خاموشی میں گزارا تھا۔۔۔۔۔۔

••••••••••••

یار مووی بہت کمال تھی میں نے تو بہت انجوائے کی ہے۔۔۔ سویرا اپنے ساتھ چلتی زائشہ اور صندل کو دیکھتے بولی تھی۔۔۔

مجھے تو بلکل مزہ نہیں آیا ۔۔۔ زائشہ منہ لٹکائے بولی تھی۔۔۔

تم سارا ٹائم تو سوئی رہی تھی تو مزہ تمہیں خاک آنا تھا۔۔۔ صندل زائشہ کو دیکھتی اپنی ہنسی روکتی بولی تھی۔۔۔ کیونکہ وہ تو سو رہی تھی اور سویرا اور صندل نے اس کی سوتی ہوئی کی بہت ویڈیوز بنائی تھی۔۔۔

ابھی وہ کچھ آگے ہی بڑھی تھی جب کیسی نے سویرا کا نام لیا تھا۔۔۔۔

سویرا میری بات سنیں ۔۔۔۔ وہ اپنی پُرکشش پرسینلیٹی کے ساتھ کھڑا نہ جانے کب سے اس کے انتظار میں تھا ۔۔

وہ جیسے ہی موڑی اس کو دیکھ کر ایک بار حیران ہوئی تھی پھر اس کے چہرے پر کچھ سختی دور آئی تھی ۔۔ رحیان وہ سختی بہت اچھے سے دیکھ چکا تھا۔۔

ایک لمحے کو سویرا کو دو سال پہلے والی ملاقات یاد آئی تھی۔۔۔

دو سال پہلے۔۔۔۔

وہ اپنے کالج سے ابھی باہر نکلی ہی تھی جب رحیان اس کے سامنے آ کر کھڑا ہو گیا تھا۔۔۔۔ سویرا اس کو بہت اچھے سے پہچان گئ تھی ۔۔ کیونکہ دوراب کی شادی پر اس کو دیکھ رکھا تھا اس نے۔۔۔

مجھے آپ سے بات کرنی ہے ۔۔ رحیان فوراً بولا تھا۔۔

جی بولیں ۔۔۔ سویرا آس پاس نظریں دوڑاتی بولی تھی۔۔۔

سویرا میں آپ کو کچھ دفعہ شہزاد  اکرم کے ساتھ دیکھا ہے۔۔۔۔ رحیان بہت تحمل سے اس سے بات کر رہا تھا۔۔۔

تو۔۔۔ سویرا اس کی بات کو سمجھ نہیں سکی تھی۔۔۔۔

میں بس یہ کہنا چاہتا ہوں وہ شخص اچھا نہیں ہے۔۔ پلیز اس سے تھوڑی دوری بنا کر رکھیں۔۔۔ رحیان اپنے جذبات کو قابو کرتا بولا تھا۔۔۔

آپ ہوتے کون ہیں مجھے مشورہ دینے والے۔۔ سویرا اس کے مںہ سے شہزاد کے لیے ایسے الفاظ سن کر غصے سے بولی تھی۔۔۔

سویرا میری بات کو سمجھنے کی کوشش کریں ۔۔۔ وہ ویسا نہیں ہے جیسا دیکھتا ہے۔۔ وہ اپنا ماتھا مسلتا بولا تھا۔۔

مجھے نہ کچھ سمجھنا ہے نہ کچھ سوچنا ہے۔۔ دوبارہ میرے سامنے مت آنا ۔۔۔ یہ کہہ کر وہ وہاں سے چلی گئی تھی۔۔۔۔

حال۔۔۔۔۔۔

اور وہ آج پھر سے اس کے سامنے کھڑا تھا۔۔۔۔۔

جی بولیں ۔۔۔وہ اس کے سامنے کھڑی ہوتی بولی تھی ۔۔۔

سویرا کیا ہم بات کر سکتے ہیں ۔۔۔ رحیان نے اس کی دوستوں کی طرف اشارہ کرتے کہا تھا۔۔۔

ٹھیک۔۔۔ وہ یہ کہہ کرموڑی تھی اور اپنی دوستوں کو اشارہ کرتی واپس رحیان کی طرف موڑی تھی۔۔۔

اب بولیں آپ کیا کہنا چاہتے ہیں ۔۔۔ سویرا کا لہجہ دو ٹوک تھا۔۔۔

اگر میں یہ کہوں کہ جس کو آپ پسند کرتی ہیب وہ ایک مجرم ہے۔۔ رحیان اپنے الفاظ کو بہت ناپ تول کر بول رہا تھا۔۔۔

ویسے حد نہیں ہو گئی آج دو سال پہلے آپ بول رہے تھے وہ اچھا انسان نہیں آج بول رہے ہیں وہ مجرم ہے کل بولیں گے کہ وہ ایک قاتل ہے۔۔ ایک شخص کیا پسند کر لیا عذاب ہی بن گیا ہے ادھر تو ۔۔۔۔ میری بہن بولتی ہے کہ وہ گہری کھائی ہے۔۔۔ آخر میرے شہزاد نے آپ سب کا بیگارہ کیا ہے۔۔ سویرا اپنی آواز میں سختی لیتے بولی تھی ۔۔ جبکہ اس کہ میرا شہزاد کہنے پر جیسے رحیان کا دل لمحے میں ٹوٹا تھا۔۔۔

سویرا وہ واقع ہی ٹھیک کہتی ہے۔۔ آپ کی بہن نے بلکل ٹھیک کہا ہے۔۔ رحیان سویرا کی آنکھوں میں دیکھتے بولا تھا۔۔۔

ایسا نہیں ہے میرا دل نہیں مانتا سمجھ آئی ۔۔۔ سویرا اپنی شہادت کی انگلی اٹھائے رحیان کی طرف کیے بولی تھی ۔۔

اپنے دل و دماغ پر سے محبت کی پٹی کو اتارو گئی تو حقیقت نظر آئی گی آپ کو ۔۔۔ آپ جیسے معصوم لڑکی اس جیسے کو ڈیزرو نہیں کرتی۔۔۔ رحیان خود کو حد درجے نارمل رکھتا بولا تھا۔۔۔

ایسی بات ہے؟؟؟ جس دن مجھے لگا کے آپ اور میری بہن صحیح تھے میرا فیصلہ غلط تھا۔۔ اس دن میں خود اپنے آپ کو سزا دو گئی۔ آپ کو میرے بارے میں فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں۔ سویرا یہ کہہ کر روکی نہیں تھی چلی گئی تھی۔۔۔۔

جبکہ کیسی نے رحیان کا دل موٹھی میں لے لیا تھا۔۔۔۔

سویرا تم بات کیوں نہیں سمجھ رہی۔۔۔ ایک انسو ٹوٹ کر اس کی گال پر گیرا تھا۔۔

تم کہتی ہو تمہارے بارے میں فکرمند نہ ہوں۔۔۔ جبکہ میرا دل دھڑکتا ہی تمہارے لیے ہے۔۔۔ یہ دل تمہاری فکر نہیں کرے گا تو دھڑکنا بھول جائے گا سویرا ۔ اس دل کو تم چاہیے ہو تم نہ ملی تو صدف رحیان ہی نہیں رحیان کا دل بھی تنہا ہو جائے گا۔۔۔۔ رحیان ادھر اکیلا کھڑا بول رہا تھا۔۔۔

••••••••••••

آج موسم کافی بہتر تھا مگر گرمی آج بھی کم نہ تھی۔۔ وہ باہر لون میں بیٹھی تھی۔۔ اس کے ہاتھ میں اس کا موبائل تھا۔۔ وہ کافی دیر سے انسٹاگرام پر سکرول کر رہی تھی۔۔۔ جب اچانک ایک پوسٹ پر روک گئی تھی۔۔۔۔

إِنَّكَ لَا تَهْدِى مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَـٰكِنَّ ٱللَّهَ يَهْدِى مَن يَشَآءُ ۚ وَهُوَ أَعْلَمُ بِٱلْمُهْتَدِينَ  ٥٦

You surely cannot guide whoever you like ˹O Prophet˺, but it is Allah Who guides whoever He wills, and He knows best who are ˹fit to be˺ guided. 

(Al-Qasas 28:56)

وہ یہ آیت نہ جانے کتنی بار پڑھ چکی تھی۔۔۔ دل نہ جانے کس وجہ سے دھڑک رہا تھا۔۔۔

ہدایت ۔۔۔۔ اس کو مزمل بیگم کی بات یاد آئی تھی۔۔۔۔ اور جس لفظ پر وہ روکی تھی وہ ذرے لب بولی تھی ۔۔

جب اچانک اس کے کندھے پر کیسی نے ہاتھ رکھا تھا۔۔۔ وہ اچانک سیدھی ہوئی تھی۔۔۔

آپ ۔۔۔ للی مزمل بیگم کو دیکھ کر ہلکا سا مسکرائی تھی۔۔۔

میری بیٹی کیا کر رہی ہو ادھر۔۔۔ مزمل بیگم اس کے دودھیا چہرے کو محبت سے دیکھتی بولی تھی ۔۔

کچھ نہیں بس کچھ سوچ رہی ہوں۔۔ اور وہ کافی عرصے سے میرے ذہن میں ہے ۔۔ للی آسمان کو دیکھتی بولی تھی۔۔۔

کیا سوچ رہی ہو۔ مزمل بیگم اس کو دیکھ رہی تھی۔۔۔

ہدایت کیسے ملے گئی۔۔ ہدایت کا راستہ کون سا ہے؟؟ للی مزمل بیگم کو دیکھتے بولی تھی۔۔۔

ہدایت اللّٰہ خود دیتا ہے۔۔ اور جس کو وہ ہدایت دیںا چاہتا ہے اس کو وہ ہدایت کی راہ پر خود لے آتا ہے۔۔۔ مزمل بیگم اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھتے بولی تھی ۔۔

کیا مجھے ہدایت مل جائی گئی ؟؟ کیا مجھے وہ ہدایت کے لیے چن لے گا؟؟ میں تھک گئی ہوں اپنے اندر کی بے سکونی کو دباتے دباتے مجھے سکون چاہیے ہے۔ میں تھک گئی ہوں اس اندھیرے سے۔ مجھے کھبی کھبی لگتا ہے میرے چاروں طرف اندھیرا ہے۔۔ مجھے سے زیادہ گمراہ ہی ہوئی نہیں۔۔۔ میں اکثر سوشل میڈیا پر سکرول کر رہی ہوتی ہوں کوئی آیت سامنے آئے اس کا ترجمہ پڑھ کر میرا دل کانپ جاتا ہے احساس ہوتا ہے میں کتنا کچھ غلط کرتی آئے ہوں۔ میں تھک گئی ہوں ہر چیز سے ۔۔۔ آپ اپنے اللّٰہ سے میرے لیے دعا کریں نہ کے وہ مجھے بھی ان میں سے چن لے جن کو وہ ہدایت دینا چاہتا ہے ۔۔۔ للی کی ہلکی نیلی آنسوں سے بھری ہوئی تھی۔۔۔ ایک آنسوں ٹوٹ کر اس کی گال پر پھسلا تھا۔۔۔

تم ایک قدم اللّٰہ کو پانے کے لیے اس کی طرف بڑھاؤ گئی ۔۔۔ وہ تمہیں خود تک لانے کے لیے ہر راستہ آسان کر دے گا۔۔ مزمل بیگم  اس کے بہتے آنسوں کو صاف کرتی بولی تھی۔۔۔

کیا وہ مجھے قبول کر لے گا؟؟ للی نہ جانے کس احساس اور ندامت سے بولی تھی ۔۔

میری جان تمہیں اس نے بنایا ہے۔۔ تم اگر اس کے پاس لوٹ کر جاؤ گی تو وہ کیوں نہیں تمہیں قبول کرے گا۔۔ اگر تمہارے دل میں اس نے اس کی طرف لوٹنے کی خواہش ڈالی ہے تو سمجھو وہ تمہیں چن چکا ہے۔۔ اب بس تمہیں اس طرف بڑھنا ہے۔۔ مزمل بیگم اس کے دونوں ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لے کر بولی تھی ۔۔

مگر میں کیسے بڑھوں۔۔۔ میں بہت غلط کر چکی ہوں ہر وہ کام جو اس نے منع کیا ۔ وہ اپنے ماضی کو سوچتی بولی تھی ۔۔

تم گمراہ تھی بیٹا۔۔۔ ہدایت کی طرف پلٹنے والوں کے وہ گناہ نہیں دیکھتا ۔۔ وہ ان کو معاف کر دیتا ہے ان کے گناہ کو درگزر کر دیتا ہے۔۔ اگر وہ دل سے توبہ کریں۔۔۔ مزمل بیگم اس کی طرف دیکھتی بولی تھی ۔۔۔۔

میں توبہ کروں گئی تو اللہ معاف کر دیں گئے نہ۔۔۔ للی روتے ہوئے بول رہی تھی ۔۔۔

توبہ کرنے والے اس کو بہت پسند ہے۔۔۔ مزمل بیگم اس کی آنکھوں کو صاف کرتی بولی تھی۔۔۔۔ جبکہ اس کے آنسو مسلسل بہہ رہے تھے۔۔

میں ہر گناہ سے تھک گئی ہوں آنٹی ۔۔ میں بہت گناہگار ہوں۔۔ میرے وجود پر بہت گناہوں کا بوجھ ہے مجھے لگتا ہے یہ مجھے اندر سے مار ڈالے گا ۔ میں کیا کروں۔۔ میں کیسے جاؤ اس کے سامنے۔۔۔ میں آزاد تھی خودمختار تھی ۔ میں اپنے لیے صحیح فیصلہ کیسے نہ کر سکی ۔۔ میں اتنا عرصہ گمراہ کیسے رہی ۔۔ اس کے انسوں میں روآنی آ گئی تھی۔۔

چپ کر جاؤ میری جان ۔۔ جو کچھ ہوا وہ تہہ تھا ۔ اور جو کچھ ہو گا وہ بھی تہہ ہے ۔ تم بس اس کی رسی کو تھام لو۔۔ وہ تمہیں کبھی گرنے نہیں دے گا۔۔ مزمل بیگم اس کے سر پر ہاتھ رکھتے بولی تھی ۔۔

میں اسلام قبول کرنا چاہتی ہوں۔۔ میں ایک بہترین مذہب کو قبول کرنا چاہتی ہوں۔۔ میں خود کو گناہوں کے بوجھ سے آزاد کرنا چاہتی ہوں۔۔ آپ کو پتا ہے انٹی جب آپ قرآن مجید پڑھ رہی ہوتی ہیں میں اکثر چھپ کر سنتی ہوں۔ اور سوچتی ہوں۔۔ جس کتاب کو سن کر اتنا سکون ملتا ہے اس کو پڑھ کر کتنا ملے گا ۔۔ وہ روتے ہوئے بولی جا رہی تھی ۔۔

مزمل بیگم نے اس کو آگے بڑھ کر اپنے گلے سے لگا لیا تھا ۔۔

اور کچھ دیر میں وہ نہا کر اپنے کپڑے تبدیل کر کے مزمل بیگم کے سامنے تھی ۔۔ لائٹ بلیو کلر کی شلوار قمیض کے ساتھ وائٹ ڈوپٹہ سر پر لیے وہ اس وقت بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔۔ اس کی ہلکی نیلی آنکھیں رونے کی وجہ سے لال تھی۔۔۔

مزمل بیگم اس کو اس شلوار قمیض میں دیکھ کر مسکرا دی تھی ۔۔ وہ ان کو شروع دن سے خوبصورت لگی تھی۔۔ مگر وہ آج ان کے دل میں اتر گئی تھی ۔۔

وہ چلتی چلتی مزمل بیگم کے سامنے آ کر بیٹھی تھی ۔۔ وہ تھوڑی نروس تھی۔۔ دل بہت زور سے دھڑک رہا تھا۔۔۔

تم واقع ہی اسلام قبول کرنا چاہتی ہو نہ بیٹا ۔ مزمل بیگم اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولی تھی ۔۔

جی بالکل ۔ مگر آپ مجھ سے یہ دوبارہ کیوں پوچھ رہی ہیں۔۔۔ وہ اپنی بھری ہوئی آواز میں بولی تھی ۔۔

میرا دین زور زبردستی کی اجازت نہیں دیتا بیٹا۔۔ تمہاری خواہش زیادہ ضروری ہے ۔ تم نے اپنی خواہش کا اظہار کر دیا یہ کافی ہے۔۔۔ مزمل بیگم اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ پر رکھ کر بولی تھی۔۔۔

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ۔۔۔ مزمل بیگم نے بولنا شروع کیا تھا۔۔ ان کی آواز بہت خوبصورت تھی ۔۔

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ۔۔ للی نے ان کے پیچھے بولنا شروع کیا تھا۔  اس کی آواز مزید بھر آئی تھی۔۔ آنسوں کا گھول اس کی ہلک میں اٹکا تھا ۔۔

لَا إِلَٰهَ۔۔۔ مزمل بیگم نے کلمہ پڑھنا شروع کیا تھا۔۔

لَا إِلَٰهَ ۔۔۔ للی نے جیسے ہی پڑھنا شروع کیا اس کا اس کے انسوں پر سے اختیار ختم ہو گیا تھا ۔ کفر کا جال دل پر سے اترنے لگا تھا۔۔۔ وہ بہتے انسوں کے ساتھ پڑھنے لگی تھی۔۔۔

إِلَّا ٱللَّٰهُ۔۔۔ مزمل بیگم نے آگے پڑھا تھا ۔۔۔

إِلَّا ٱللَّٰهُ۔۔۔ للی کا پورا وجود کانپ رہا تھا۔۔۔ آنکھوں اسے آنسو بہہ رہے تھے۔۔

مُحَمَّدٌ رَسُولُ ٱللَّٰهِ۔۔۔ مزمل بیگم نے کلمہ پورا کیا تھا۔۔۔۔ للی کے آنسوؤں دیکھ کر ان کی اپنی آنکھوں میں آنسوں آ گئے تھے۔۔۔

مُحَمَّدٌ رَسُولُ ٱللَّٰهِ۔۔۔ یہ کہنے کی دیر تھی۔۔ للی کی سسکیاں کمرے میں گونجی تھی۔۔۔ وہ چہرہ ہاتھوں میں چھپائے بےتحاشہ روے جا رہی تھی ۔ اس کو ہدایت دے دی گئی تھی۔۔ اس کو اس کے اللّٰہ نے چن لیا تھا۔۔ وہ روتے روتے سجدے کی حالت میں چلی گئی تھی۔۔۔ مزمل بیگم نے اس کو چپ نہ کروایا تھا۔۔

میں ہر گناہ سے معافی مانگتی ہو اللہ ۔۔۔ میرے ہر گناہ کو معاف کر دیں۔۔۔ سجدے میں بہتے آنسوں کے ساتھ وہ مسلسل توبہ کر رہی تھی۔۔۔

کافی دیر سجدے میں رہنے کے بعد اس نے سر اٹھایا تھا۔۔۔ چہرہ آنسوں سے تر تھا۔۔ ہلکی نیلی آنکھوں اور سرخ ہو گئی تھی۔۔ دودھیا چہرہ رونے کی شدت سے سرخ ہو گیا تھا۔۔۔

مزمل بیگم نے اس کو اپنے گلے لگا لیا تھا۔۔

مبارک ہو تمہیں ۔۔ چلو اٹھو اور تھوڑی دیر میں عصر کی نماز کا وقت ہے۔۔ اب میرے ساتھ نماز پڑھو گئی تم ۔ مزمل بیگم اس کا ماتھا چومتی بولی تھی۔۔۔

آپ مجھے قرآن مجید پڑھنا سیکھائیں گئی۔۔۔ وہ روتی آواز میں بولی تھی۔۔

ضرور میری بچی۔۔۔ مزمل بیگم نے اس کے ہاتھوں پر اپنا ہاتھ رکھا تھا۔۔۔

•••••••••••

آہہہہہہہہ ۔۔۔۔۔ وہ جو کوئی بھی تھا اس کو اس کی ایک ٹانگ سے پکڑ کر کانچ کی ٹوٹی کرچیوں پر گھسیٹ رہا تھا ۔۔۔۔

میں سب سب سچ بتاتا ہوں۔۔ تکلیف کی شدت برداشت سے باہر تھی تبھی وہ آدمی ہاتھ جوڑتے بولا تھا۔۔۔۔

اس کی بات سن کر ایک لمحے کے لیے وہ نیلی آنکھوں والا روکا تھا ۔۔ اور اگلے ہی لمحے اس کی ٹانگ کو زور سے آگے کی طرف کھنچ کر سامنے دیوار پر دے مارا تھا اس آدمی کے وجود کو۔۔۔ نیلی آنکھوں میں خون ڈور رہا تھا۔۔۔۔

بولو۔۔۔ صرف ایک لفظ ادا کیا گیا تھا ۔۔۔

وہ لوگ ہیروں کے نام پر اسلحہ اسمگل کرنے والے تھے۔۔۔ وہ آدمی روتے ہوئے بول رہا تھا ۔۔

وہ تو مجھے بھی نظر آتا ہے اندھا نہیں ہوں میں ۔۔۔ سارا مال دیکھ چکا ہوں تم لوگوں کا۔۔ اس کام میں کس کا ہاتھ ہے اس کا نام بتاؤ ۔۔۔ نیلی آنکھوں والے نے مقابل کے بالوں کو موٹھی میں قابو کیے بولا تھا۔۔

میں ان کا نام نہیں لے سکتا مجھے معاف کر دو رحیم کرو مجھ پر ۔ وہ مجھے مار دیں گئے۔۔۔ وہ آدمی ہاتھ جوڑتا روتے ہوئے بولا تھا ۔۔۔

جان تو تمہاری ابھی بھی جائے گئی اگر نہیں بتاو گئے تو ۔ وہ اس کے سامنے اپنا چھوٹا سا باریک دھار والا چاقو کرتے ہوئے بولا تھا۔۔

تم کون ہو۔۔۔ وہ آدمی درڑتے ہوئے بولا تھا۔۔

موت ۔۔۔ جواب سکون بخش دیا گیا تھا۔  نیلی آنکھیں غصے سے سرخ تھی۔۔۔۔

مجھے جانے ۔۔ابھی وہ آدمی کچھ بولتا۔۔ اس سے پہلے سامنے والا کا چاقو اس کی ہتھیلی کے آر پار ہوا تھا۔۔۔۔۔

کیا بول رہے ہو۔۔۔۔ نیلی آنکھوں والا اس کی آنکھوں میں میں اپنی آنکھیں گاڑتا بولا تھا۔۔۔ جبکہ مقابل کو اپنی جان جاتی محسوس ہوئی تھی۔۔۔ بلا کا قہر تھا ان نیلی آنکھوں میں۔۔۔

سیاسی لیڈر ہیں  وہ  سلیم ذولفقار ان کا مال تھا وہ۔۔۔۔ سامںے والا آدمی ایک لمحے میں طوطے کی طرح بولا تھا۔۔۔۔۔

گڈ۔۔۔۔۔ وہ اپنی آنکھوں میں قہر لیے مدہم سا مسکرایا تھا ۔۔ اس کے چہرے پر مسکراہٹ دیکھ کر سامنے والے آدمی نے مسکرانا چاہا کہ شاید اس کی جان بخش دی ہے اس نے مگر اگلے ہی لمحے جب نیلی آنکھوں والے نے اپنی گن نکالی تو اس کے چہرے پر خوف چاہا گیا تھا۔۔۔

تم نے مجھے سے میرا پوچھا تھا نہ میں کون ہوں ۔۔۔ وہ اب اس کی طرف مسکرا کر دیکھتا پوچھ رہا تھا۔۔۔

تمہاری موت ہوں میں ۔۔۔ ایم-زی ہے میرا نام۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی اس نے اپنی گن کا ٹریگر دبا دیا تھا۔۔۔ اور گولی اس کے سر کے آر پار ہوئی تھی۔۔ لمحوں میں اس آدمی کی روح اس کے جسم سے آزاد ہوئی تھی۔۔۔

ایم-زی اٹھ کھڑا ہوا تھا۔۔ اور اب وہ ان کانچ کی کرچیوں پر اپنے بھری بوٹوں سے چلتا۔۔ وسل بجاتا جا رہا تھا۔۔ اس کے ہاتھ خون سے بھرے تھے۔۔۔ چہرے پر ماسک لگتا وہ اس گودام سے باہر نکالا تھا۔۔۔ جب سامنے ہی اس کو سکندر، فاروق، حانی ملے تھے جب کے امیل دور سے آتا نظر آ رہا تھا ۔۔

ایم-زی اسلحہ اپنی نگرانی میں محفوظ مقام پر بھیج دیا ہے میں نے اب میں چلتا ہوں۔۔ امیل پاس آتے ساتھ بولا تھا۔۔۔

ہمممم ۔۔ وہ امیل کی بات سن کر سر ہلاتا اپنی جیب سے سگریٹ اور لیٹڑ نکلاتا آگے بڑھا تھا۔۔ جبکہ وہ چاروں بھی اس کے ساتھ ہی آگے بڑھے تھے۔۔۔اس نے منہ میں دبہ سگریٹ سلگایا تھا اور لیٹڑ کو پیچھے پہنک دیا تھا۔۔

آگ کی ایک لہر اٹھی تھی جو اس گودام کی طرف بڑھی تھی۔۔ اور کچھ ہی دیر میں ایک زور دار دھماکہ ہوا تھا۔۔۔۔ وہ پانچوں اپنی اپنی کار کے سامنے کھڑے اس منظر کو دیکھ رہے تھے۔۔۔ کیا ہی شان بے نیازی تھی ان کی۔۔ دشمن کا نقصان کر کے پھر تسلی سے دیکھتے بھی تھے وہ پانچوں ۔۔۔۔۔

••••••••••••

وہ جب سے گھر آئی تھی مسلسل رحیان کی باتیں سوچی جا رہی تھی۔۔ کبھی رحیان کی باتیں تو کبھی جزا کی ۔ اس کا سر درد سے پھٹنے والا ہو گیا تھا۔۔۔

کچھ سوچتے ہوئے اس نے پاس پڑھا فون اٹھایا تھا اور شہزاد کا نمبر ڈائل کیا ۔۔۔

کافی دیر کال ٹرائے کرنے کے بعد بھی وہ کال نہیں اٹھا رہا تھا ۔۔۔ ابھی وہ دوبارہ کال کرتی جب اس کے فون پر ایک مسیج نوٹیفکیشن آیا تھا۔۔۔۔

میٹینگ میں بزی ہوں۔۔۔ وہ شہزاد کا مسیج پڑھ کر ڈھ جانے والے انداز میں تکیہ میں پر سر رکھ کر لیٹ گئی تھی ۔۔۔

یا اللہ میں نہیں جانتی کون صحیح ہے کون غلط بس میں اتنا جانتی ہوں میرے جذبات شہزاد کے لیے بہت صاف ہیں۔۔ نہ جانے کیوں میرا دل اس بات کو تسلیم نہیں کر رہا کہ وہ کوئی غلط کام کر سکتا ہے ۔۔ اللہ اس پر لگے ہر الزام کو غلط ثابت کر دیں ۔۔۔ وہ آنکھیں بند کر کے دعا مانگ رہی تھی ایک انسوں ٹوٹ کر اس کی آنکھوں سے نکلا تھا اور اس اس کے بالوں میں جذب ہو گیا۔۔۔

وہ اٹھ کر بیٹھ گئی تھی ۔۔ اپنے کمرے سے باہر نکلی باہر ہر جگہ خاموشی تھی۔۔۔

کیسی کو میری برتھ ڈے یاد نہیں کیا ۔۔ کوئی تیاری وغیرہ نہیں ہو رہی ۔۔۔ سویرا اوپر پورشن میں کھڑی نیچے دیکھتی منہ پھولا کر بولی تھی۔۔۔

کیسی کو مجھے سے پیار رہ ہی نہیں ۔۔ وہ پاؤں پٹختی اپنے روم میں واپس چلی گئی تھی۔۔۔ جبکہ جزا جو اپنے روم کے دروازے کے پیچھے چھپ کر اس کی بات سن رہی تھی اب اپنی ہنسی کنڑول کر رہی تھی ۔۔۔

جب اس کے بیڈ پر پڑھا اس کا فون بجا تھا۔۔۔  

جی ڈیڈ بولیں ۔۔۔ فون اٹھاتے ساتھ وہ بولی تھی۔۔۔

جزا کیک کا کون سا فلیور بولا تھا۔ شاہد صاحب کی آواز فون کے سپیکر پر سے گونجی تھی۔۔۔

چاکلیٹ فج کیک کہا ہے آپ کو ۔۔۔ جزا بیڈ پر بکھرا سامان سمیٹتے بولی تھی ۔

اوکے چلو میں رکھتا ہوں پھر ۔۔ شاہد صاحب اس کا جواب سن کر فون رکھنے لگے تھے جب جزا کی آواز ان کے کان میں پڑی تھی۔۔۔

ایک منٹ شاہد صاحب ۔۔ پہلے یہ بتائیں گھر کب تک آئے گئے آپ ۔۔۔ جزا کمر پر ہاتھ رکھ کر بولی تھی۔۔۔ جبکہ اس کی بات سن کر شاہد کا جاندار قہقہہ فون کہ سپیکر پر سے گونجا تھا۔۔۔

جیسے ہی فری ہوں گا آ جاؤ گا سی-او صاحب ۔۔۔ وہ ڈرنے کی اداکاری کرتے ہوئے بولے تھے ۔۔

بارہ بجے سے پہلے آ جائے گا بس۔۔ پتا نہیں آج کل آپ کی کون سی مصروفیات ہیں ۔۔ چلیں اب جلدی سے کام کریں میں فون رکھ رہی ہوں اللہ حافظ ۔۔۔ وہ کیسی دادی اماں کی طرف ہاتھ ہلا ہلا کر بول رہی تھی۔۔ جبکہ شاہد صاحب کا قہقہہ ایک بار پھر سے فون میں سے گونجا تھا۔۔۔

مجھے لگتا ہے میرے گھر بیٹی نہیں ایک دادی پیدا ہوئی ہے ۔۔ اللّٰہ حافظ ۔۔۔ یہ کہتے ساتھ شاہد صاحب فون بند کر چکے تھے ۔۔۔ جبکہ جزا منہ کھولے فون کو دیکھ رہی تھی۔

••••••••••••

کس سے بات کر رہے تھے ہنس ہنس کر ۔۔ اندر آتے خان شاید ان کی بات سن چکے تھے تبھی بولے تھے۔۔۔

کچھ نہیں گھر میں جو سی-او صاحب ہیں ان کا فون تھا۔۔۔ شاہد صاحب اپنی جگہ پر بیٹھتے بولے تھے۔۔ جب نظر اندر آتے ایم-زی ، سکندر ، فاروق اور حانی پر پڑی تھی ۔۔

پانچویں کو بھی لیتے آتے اس کو کیا یہاں پر قید کر دینا تھا۔۔۔ وہ ایم-زی کی طرف دیکھتے بولے تھے۔۔۔

وہ کچھ مصروف ہے اس لیے نہیں آیا الفا۔۔۔ ایم-زی سامنے بیٹھے شاہد صاحب کی طرف دیکھتے بولا تھا۔۔۔

اور جو کام تم لوگوں کے ذمہ لگایا تھا اس کا کیا بنا۔۔۔ خان ایم-زی اور سکندر کو دیکھتے ہوئے بولے تھے۔۔

وہ تو ہو گیا ہے۔۔ سکندر پرسکون سا بولتا سامنے پڑے گلاس کو اٹھا کر منہ سے لگا چکا تھا۔۔۔

اب وہ سب اس وقت ایک میٹنگ روم میں موجود تھے۔۔۔۔ اور اپنے اگلے لائحہ عمل کی تیاری کر رہے تھے ۔۔  شاہد صاحب ہر لحاظ سے سارا معاملہ ایم-زی اور اس کی ٹیم کو دے چکے تھے۔۔ اور بیک اینڈ اس سارے معاملے کو وہ خان، اور عزیزہ سنھبالنے والے تھے۔۔۔۔

••••••••••••••

یار تم کب سے بیٹھے سیگریٹ پر سیگریٹ پی جا رہے ہو۔۔ مجھے کس لیے بولیا ہے بتاؤ گئے کہ نہیں ۔۔۔ نواز کی برداشت جواب دے گئی تھی۔۔۔

ویسے میں ایک چیز کا بہت اچھے سے اندازہ لگا چکا ہوں۔۔ تمہارے وجود میں صبر نہیں ڈالا گیا۔۔۔ شہزاد سیگریٹ کا ایک گہرا کش لگاتے بولا تھا۔۔۔ جبکہ نواز اس کو گھور کر رہ گیا تھا ۔

قسم سے تم میرے سکول فرینڈ  نہ ہوتے تو ابھی تک حالت خراب کر چکا ہوتا۔۔ نواز شہزاد کو گھورتا بولا تھا۔۔۔

تم میری حالت بعد میں  خراب کرنا۔۔ فلحال مجھے یہ بتاؤ کہ آج رات کا کوئی پلین ہے؟؟؟ شہزاد اس کو دیکھتا بولا تھا۔۔

ہاں آج کہیں نائٹ ہینگ آؤٹ کا سوچ رہا ہوں ۔ مگر تم کیوں پوچھ رہے ہو ۔ وہ شہزاد کو سوالیہ نظروں سے دیکھتا بولا تھا۔۔۔

ہمممم اپنا پلین کنسل کر دو۔۔ میرے پاس تنہا لیے ایک سرپرائز ہے ۔۔ وہ سیگریٹ کو اپنے منہ کے ساتھ لگاتے بولا تھا جبکہ نواز اس کو سوالیہ نظروں سے منہ کھولے دیکھ رہا تھا ۔۔

تیری طبیعت تو ٹھیک ہے؟؟ اس نے آگے بڑھ کر باقاعدہ اس کے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر ٹمپریچر چیک کیا تھا۔۔۔

کیوں کیا ہوا؟. شہزاد اپنی ہنسی چھپا کر بولا تھا ۔۔

نہیں تم نے کبھی مجھے میری برتھ ڈے پر سرپرائز نہیں دیا ۔ تو اب کیسے دے رہا ہے۔۔ خیر تو ہے؟؟ نواز واقع ہی بہت حیران تھا۔۔۔

ہیں خیر ہی ہے ۔ بس یہ جان لو کہ آج کا سرپرائز تم ساری زندگی بھول نہیں پاؤ گے ۔۔۔ شہزاد ایک آنکھ ونک کرتا اپنی جگہ سے اٹھ گیا تھا۔۔۔ اس کے چہرے پر ناجانے کیسی مسکراہٹ تھی۔۔۔ وہ پتا نہیں کرنے کیا والا تھا۔۔۔

ویسے تم بتاؤ گئے سرپرائز ہے کیا۔۔ نواز کچھ سوچتے ہوئے بولا تھا ۔۔

مسٹر پی کے بیٹھا ہے کیا؟؟ بتا دیا تو سرپرائز کیسا؟؟ شہزاد نواز کو گھوری سے نوازتا بولا تھا ۔۔۔

ابھی وہ کچھ اور بولتے جب نوریز نواز کے افس میں آیا تھا۔۔ اور وہ شکل سے بہت تھکا ہوا لگ رہا تھا ۔۔۔

کیسے ہو تم۔۔۔ وہ شہزاد کو دیکھ کر اس کے پاس آتا بولا تھا۔۔

میں ٹھیک ہوں تم بتاؤ تم نے کیا حال کر رکھا ہے اپنا ۔۔۔ شہزاد نے اس کی حالت کو چوٹ کرتے ہوئے کہا تھا۔۔۔

مجھے کیا ہونا ہے بلکل ٹھیک ہوں۔۔ نوریز پھیکا سا مسکرا کر بولا تھا۔۔

تم جیسے ٹھیک ہو میں بہت اچھے سے جانتا ہوں۔۔۔ نوریز کی بات سن کر نواز فوراً بولا تھا۔۔۔

کیا مطلب ۔۔۔ نوریز اس کو سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگا تھا۔۔۔۔

مطلب یہ کہ تم جس کے پیچھے بھاگ رہے ہو وہ اس کی مثال صحرا میں اس سیراب کی سی ہے جو سوائے دھوکے کے اور کچھ نہیں جو سوائے مسافر کو اس کی منزل سے ہٹانے کے اور کچھ نہیں کر سکتا۔۔۔۔ نواز اپنی اوشن گرین آنکھیں  نوریز کی اوشن گرین آنکھوں کے اندر گاڑتے ہوئے بولا تھا۔۔

کہنا کیا چاہتے ہو ذرا کھل کے بولو گے۔۔ماتھے پہ بل ڈال کے نواز کو دیکھتے ہوئے بولا تھا۔۔۔

مطلب صاف ہے میرے بھائی تو بس سمجھنا نہیں چاہا رہا اور کچھ نہیں ۔۔۔ اب کی بار کب سے خاموش بیٹھا شہزاد بولا تھا۔۔۔

تم دونوں پاگل ہو اور کچھ نہیں۔۔۔نوریز اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا تھا اور ایک سخت نظر ان دونوں پر ڈال کر اگے بڑھنے لگا تھا۔۔۔۔

پاگل ہم نے تم ہو گئے ہو۔۔۔ جس میں تم محبت کا ہر رنگ عشق کا ہر رنگ الفت و چاہت کا ہر رنگ پانا چاہتے ہو وہ تمہیں اس میں سے نہیں ملے گا وہ عورت ہر خوبصورت اور حسین مرد کے ساتھ وقت گزارنے والی ہے اس کو ہر گزرے مہینے کے ساتھ ایک نیا مرد چاہیے ہے اپنی زندگی میں ایسی عورتوں کے ساتھ گزارا نہیں کیا جا سکتا تم جس کو پانا چاہتے ہو وہ تمہارے لیے صرف سیراب ہے ہاں اگر تم اس کے ساتھ وقت گزاری کرنا چاہتے ہو تو وہ اس کے لیے بہت پرفیکٹ ہو گی مگر وہ ایک لانگ ٹرم لیشن کے لیے میرے خیال سے سوٹیبل نہیں ہے۔۔۔۔ نواز نے سامنے پڑھے پیپر ویٹ کو اپنے ہاتھوں میں گھوماتے نوریز کی کمر کو دیکھتا بولا تھا۔۔۔

اپنی بکواس کو بند رکھو نواز۔۔۔ اس کے آگے ایک اور لفظ بولا تو تمہاری زبان حلق میں سے نکال کے تمہارے ہاتھ میں دے دوں گا میں۔۔۔ نوریز کی سخت آواز پورے افس میں گونجی تھی۔۔۔۔

نوریز اپنی آواز نیچے رکھو ۔۔ باہر ورکر کام کر رہے ہیں۔۔ نوریز کی سخت آواز سن کر شہزاد فوری طور پر بولا تھا۔۔

مجھے میری آواز کم رکھنے کا بول رہے ہو تو اس کو بھی بول دو کہ اپنی بکواس بند رکھ لے۔۔۔ شہزاد کو سخت نظروں سے گھورتا افس کا دروازہ کھول کر باہر نکل گیا تھا۔۔۔

تمہیں  کیا ضرورت تھی اس کے سامنے یہ سب بولنے کی۔۔اور وہ بھی اس کے بارے میں جس کو وہ پسند کرتا ہے۔۔۔ اس کے جاتے ساتھ شہزاد نواز کی طرف دیکھ کر بھڑکا تھا۔۔۔

وہ کوئی دو سال کا بچہ ہے نا اس کو تو جیسے نظر نہیں آتا وہ کس قسم کی عورت سے محبت کر بیٹھا ہے۔۔ نواز شہزاد کو سخت نظروں سے دیکھتا بولا تھا۔

تم دونوں ہی میری بلا سے بھاڑ میں جاؤ تم دونوں کو ہی سمجھانا بھینس کے سامنے بین بجانے جیسے۔۔۔ نواز کی بات سن کے شہزاد بھی غصے سے بے قابو ہوا تھا ۔۔

•••••••••••

حدید ابھی آفس  سے باہر نکلا کر اپنی کار میں آ کر بیٹھا تھا جب اس کا فون بجا تھا۔۔۔ نمبر دیکھ کر وہ مسکرا اٹھا تھا اور کار سٹارٹ کر کے اس نے کال اٹینڈ کی تھی۔۔۔

اسلام وعلیکم ۔۔۔۔ جیسے ہی اس نے کال پیک کی مزمل بیگم کی آواز اس کی سماعت سے ٹکرائی تھی ۔۔

وعلیکم السلام ۔۔۔ حدید ان کے سلام کا جواب دے کر خاموش ہوا تھا۔۔ جبکہ اس کی آواز میں کوئی شکوہ تھا جو کہ مزمل بیگم  محسوس کر چکی تھی۔۔۔

ناراض ہو؟؟.. مزمل بیگن کی آواز پھر سے گونجی تھی۔۔۔۔

تو کیا نہیں ہونا چاہیے ۔۔ حدید پھر سے بولا تھا۔۔۔

تم واقع ہی مجھ سے ناراض ہو گئے ۔۔۔ مزمل بیگم کو ابھی تک یقین نہیں آ رہا تھا۔۔۔۔

نہیں آپ کو اتنا وقت بھی نہیں ملتا کہ مجھ سے بات کر کے اپنی خیریت بتا دیں ۔۔ آج اتنے دنوں بعد آپ کو یاد آیا کہ میں بھی ایکسسٹ کرتا ہوں۔۔۔ اس کی آواز میں بہت سے شکوہ تھے۔۔۔

اب میرا بیٹا میرے پاس اتنی پیاری لڑکی چھوڑ کر گیا ہوا ہے اس سے ہی مجھے فرصت نہیں ملتی۔۔۔ مزمل بیگم اپنی مسکراہٹ دباتے بولی تھی۔۔۔۔

میں  وہ اس لیے ادھر چھوڑ کر نہیں گیا تھا کہ آپ مجھ سے نظریں پھیر کر بس اس کی ہو جائیں ۔۔ حدید کو شاید پہلی بار للی پر غصہ آ رہا تھا۔۔۔

اچھا اچھا اب غصہ نہ کرو تمہارے لیے ایک خاص خبر ہے ۔۔ مزمل بیگم اس کو ریلیکس کرنے کے لیے بات کا روخ بدلہ تھا۔۔۔

کیا ۔۔۔ وہ حیران ہوتے پوچھنے لگا تھا کیونکہ مزمل بیگم کی آواز میں بلا کی خوشی تھی ۔۔۔

للی نے اسلام قبول کر لیا ہے۔۔ مزمل بیگم ایک دم سے بولی تھی۔۔۔۔ حدید جو کار ڈرائیو کر رہا تھا اس بات کو سن کر بامشکل کار کو سنبھالتا سڑک پر ایک کنارے روکا تھا۔۔ کیونکہ اس کو انتی شدید حیرت کا دھچکا لگا تھا کہ اگر وہ موقعہ پر کار کو نہ سنبھالتا تو سامنے سے آتی کار سے بہت برا ٹکرا سکتا تھا۔۔۔

کیا کہا آپ نے دوبارہ بولیے گا۔۔۔ وہ جتںا حیران ہوتا کم تھا۔۔۔ اس کو ابھی تک اپنی سماعت پر یقین نہیں آ رہا تھا۔۔۔۔

للی نے اسلام قبول کر لیا ہے ۔۔ مزمل بیگم اس کی اتنی لمبی خاموشی کے بعد پوچھے گئے سوال کا جواب دیتی بولی تھی۔۔۔۔

ناممکن ۔۔۔ اس کو اپنی آواز کھائی سے آتی سنائی دی تھی۔۔ آواز میں ایسی حیرت تھی کے پوچھو ہی مت ۔۔

اللہ چاہے تو ناممکن بھی ممکن ہو جاتا ہے ۔۔ اس نے خود یہ خواہیش ظاہر کی تھی کہ وہ اسلام قبول کرنا چاہتی ہے ۔ وہ کافی عرصے سے اسلام میں دلچسپی لے رہی تھی۔۔ مجھے لگا بس دلچسپی کی حد تک ہو گا۔۔ مگر وہ اسلام کی طرف لوٹ آئی ہے ۔۔ مزمل بیگم اس کو خوشی سے ساری بات تفصیل سے بتا چکی تھی۔۔۔ جبکہ دوسری طرف وہ حیرت اور خوشی کے ملے جلے تاثرات سے ان کی بات سن رہا تھا۔۔۔

میرے لیے واقع ہی یقین کرنا مشکل ہے۔۔۔ وہ بھاری آواز میں بولا تھا۔۔۔ اور آنکھیں اس کی آنسوں سے بھری ہوئی تھی۔۔۔

یقین کر لو مسٹر حدید افندی ۔۔۔ مزمل بیگم مسکرا کر بولی تھی۔۔ جبکہ دوسری طرف ان کی بات پر وہ بھی مسکرا گیا تھا۔۔۔

مجھے اس کے لیے ایک پیارا سا نام بتاؤ اب۔۔ میں تو کب کی سوچنے لگی ہوئی ہوں۔۔ مزمل بیگم فوراً سے بولی تھی۔۔۔

وافیہ۔۔۔۔ ان کی بات سنتے ساتھ حدید کے لبوں سے ایک خوبصورت سا نام نکلا تھا۔۔۔

وافیہ۔۔۔ ںام تو بہت پیارا ہے مطلب بھی بتاؤ اس کا اب۔۔ مزمل بیگم اپنی ہنسی کو چھپاتے بولی تھی۔۔۔

حق آدا کرنے والی۔۔ وفادار ۔۔۔ حدید سر سیٹ کی پشت پر ٹیکائے بولا تھا۔۔۔

ویسے مجھے لگتا ہے نام تم نے کافی وقت سے سوچ رکھا تھا۔۔۔ مزمل بیگم آج شاید اس کی ٹانگ کھینچنے کے فول موڈ میں تھی۔۔

میں بعد میں آپ سے بات کرتا ہوں۔ اللّٰہ حافظ ۔۔ خیال رکھیے گا اپنا ۔۔ یہ کہتے ساتھ اس نے فوراً فون کاٹا تھا۔۔۔ کیونکہ وہ جان گیا تھا اب اس کی خیر نہیں تھی۔۔۔۔ جبکہ دوسری طرف مزمل بیگم کھول کر ہنسی تھی۔۔۔۔

••••••••••••

وہ گھر آتے ساتھ باتھ روم میں گیا تھا فریش ہو کر نکلا تھا۔۔۔ سفید رنگ کی شلوار قمیض میں وہ بہت خوبصورت لگ رہا تھا۔۔۔۔ اس نے ٹیبل کے پاس پڑا جانماز اٹھایا تھا۔۔۔ اب وہ نوافل ادا کر کے دعا کے لیے بیٹھا تھا ۔۔

اس کا چہرہ آنسوں سے تر تھا۔۔۔۔ سنہری آنکھیں رونے کی وجہ سے سرخ ہو گئی تھی۔۔۔ وہ پانچ وقت کا نمازی تھا۔۔ مگر وہ کبھی بھی کیسی نماز میں اتنا نہ رویا تھا جتنا وہ آج رو رہا تھا۔۔۔۔

اے پروردگار تیرا شکر ہے۔۔۔ میں تیرا شکر کیسے ادا کروں میں کم تر ہوں میرے مالک۔۔۔ اے میرے پروردگار میرے پاس شکرانہ ادا کرنے کے لیے الفاظ نہیں ۔۔۔ تیرا جس قدر شکر ادا کروں کم ہے۔۔۔ وہ بہتے انسوں سے روتے ہوئے بول رہا تھا۔۔۔

یااللہ تیرا شکر ہے۔۔ تو نے اس کو مسلمان کیا جس کو میں محبت کرتا ہوں۔۔۔ تیرا شکر ہے میرے مالک تو نے اس کے دل میں اپنی محبت ڈالی۔۔۔ یااللہ اس کو اس دین پر قائم رہنے کی توفیق عطا کر ۔۔۔ اس کے تمام گناہوں کو معاف کر دے میرے مالک وہ ناسمجھ نادان ہے ۔۔۔ اس کے دل کو ایمان کی روشنی سے منور رکھانا میرے مالک۔۔۔وہ مسلسل روتے بول رہا تھا۔۔۔

اب اس کو کافی وقت  ہو گیا تھا ایسی طرح بیٹھے وہ دعا مانگنے میں مگن تھا اس کے انسوں روکنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔۔ یہاں تک کہ اس کی قمیض کا دامن انسوں سے بھیگ گیا تھا ۔ کیسا تھا اس کا پیار اسلام کیسی اور نے قبول کیا تھا آنکھیں آنسوں سے بھری ہوئی اس کی تھی ۔۔وہ شاید پہلا مرد تھا جو اپنی محبت کے اسلام قبول کرنے پر پچھلے پانچ گھنٹوں سے جانماز پر بیٹھا رو رہا تھا اپنے مالک کا شکر ادا کر رہا تھا۔۔ جس نے اس کی پسندیدہ عورت کے دل میں اپنی محبت ڈالی تھی۔۔۔۔

••••••••••••

ہر طرف رات کا سناٹا پھیل چکا تھا رات کی سیاہی نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہو جیسے۔۔۔۔ اسمان پہ چودویں کا چاند اپنے اب و تاب سے چمک رہا تھا  چھوٹے ٹمٹماتے ستارے چمکنے میں مصروف تھے۔۔۔ مگر نہ جانے کیوں اس رات میں ایک خاص قسم کی خاموشی تھی ایک ایسی خاموشی جیسے کوئی مر گیا ہو یا جیسے بہت کچھ برا ہونے والا ہو جیسے  خاموشی طوفان کے آنے سے پہلے کی ہوتی ہے ہوبہو ویسی خاموشی اس رات کی تھی ۔۔۔۔

اپنے بالوں کا جوڑا بنائے وہ اپنے ریجیسڑ پر جھکی کب سے اپنا کالج ورک کر رہی تھی جب اچانک انعم بیگم کی آواز اس کے کان میں پڑی تھی ۔۔

سویرا نیچھے آؤ جلدی سے۔۔۔ انعم بیگم نے ایک بار پھر اس کو آواز دی تھی۔۔۔

آ رہی ہوں ماما۔۔ انعم بیگم کو جواب دے کر وہ فوراً اٹھی اور باہر نکل گئی تھی۔۔۔

ادھر سویرا باہر نکلی تھی ساتھ ہی جزا اس کے کمرے میں آئی تھی۔۔ اس کے ہاتھ میں سفید رنگ کا بوکس تھا جس پر ریڈ کلر کا ریبن لگا ہوا تھا۔۔ وہ فوراً وہ بوکس اس کے بیڈ پر رکھ کر چلی گئی تھی ۔۔

جی بولیں ماما۔۔ وہ نیچھے آئی تو انعم بیگم کچن کیبنٹ کے سامنے کھڑی تھی ۔۔

میری کمر درد کر رہی ہے مجھے یہ جار رکھ دو ادھر۔۔ انہوں نے کیبنٹ کے دوسرے حصے کی طرف اشارہ کرتے کوئے کہا تھا جبکہ کے سویرا سر نیچھے کئے اپنی مسکراہٹ دبہ گئی تھی۔۔۔

صحیح ہی کہتے ہیں بابا آپ بہت نازک سی ہیں ۔۔۔۔ سویرا جار رکھنے کے بعد انعم بیگم کی طرف موڑتے بولی تھی ۔۔

مجھے لگتا ہے تمہارے بابا کو اپنی جان پیاری نہیں ہے ۔۔ اس کی بات سنے کے بعد انعم بیگم ناک پر سے مکھی اڑاتے بولی تھی ۔۔

جان پیاری ہے ان کو تبھی تو آپ کے سامنے نہیں بولے تھے۔۔۔ یہ کہہ کر سویرا نے باہر کی طرف دوڑ لگا دی تھی۔ جبکہ انعم بیگم اس کے پیچھے کچن سے نکلی تھی۔۔

نالائق ۔۔ غصے میں وہ اس کو بس اتنا ہی بول سکی تھی کیونکہ اور کچھ دیر میں اس کا برتھ ڈے شروع تھا وہ اس سے پہلے اس کو ڈانٹنا نہیں چاہتی تھی۔۔۔ جبکہ اس کی ہنسی ابھی بھی ان کے کانوں میں پڑھ رہی تھی ۔۔

رکھ آئی تم اس کے روم میں ۔۔۔ انعم بیگم جزا کو نیچھے آتا دیکھ فوراً بولی تھی۔۔۔

کب کا۔۔ جزا ایک ادا سے اپنے شہد رنگ بالوں کو پیچھے پہنکتے بولی تھی۔۔۔

وہ اپنے روم میں ابھی بیڈ پر آ کر بیٹھی ہی تھی جب اس کی نظر پاس پڑے بوکس پر گئی۔۔ ایک خوشگوار مسکراہٹ نے اس کے ہونٹوں کو چھوہا تھا۔۔۔ سویرا نے ایک لمحے میں وہ بوکس کھولا تھا۔۔۔ اس کے اندر ایک خوبصورت سا ڈریس تھا ساتھ ایک کارڈ بھی تھا۔۔۔

یہ پہن کر تیار ہو جانا چھوٹی۔۔۔۔۔ اور اس کے آگے ایک کیوٹ سا دل بنا ہوا تھا۔۔

سویرا وہ کارڈ پڑھ کر مسکرا اٹھی تھی۔۔۔

تھنک یو جزا ۔۔ وہ مدہم آواز میں بولتی اس جوڑے کو اپنے ساتھ لگائے شیشے کے سامنے کھڑے دیکھ رہی تھی ۔۔۔

••••••••••••

وہ آج خود کو بہت پر سکون محسوس کر رہی تھی۔۔۔ صبح والی شلوار قمیض وہ اب بدل چکی تھی ۔ اس وقت اس نے بیج رنگ کی فروک پہن رکھی تھی اور ایک ڈوپٹہ گلے میں ڈال رکھا تھا۔۔۔ وہ صبح ہی مزمل بیگم کے ساتھ جا کر اپنے لیے کچھ مناسب کپڑے لے آئی تھی۔۔۔۔ آج اس کے چہرے پر چمک ہی الگ سی تھی ۔۔ وہ عصر سے اب تک تینوں نمازیں پڑھ چکی تھی ۔۔

آپ لیٹنے نہیں گئی کافی وقت ہو گیا ہے ۔ مزمل بیگم للی کے پاس آئی تو وہ ان کو دیکھ کر بولی تھی۔۔۔

نہیں ۔۔ نیند نہیں آئی ابھی تو تمہارے پاس آ گئ۔۔ مزمل بیگم نے ہاتھ میں پکڑا قہوہ اس کی طرف بڑھیا تھا ۔۔

آپ بہت خوش لگ رہی ہیں ۔۔ للی ان کو دیکھتے ہوئے بولی تھی۔۔۔

میں کیوں نہ خوش ہوں ؟؟؟ میری بچی نے آج اسلام قبول کیا ہے ۔۔

وہ للی کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولی تھی ۔۔ جبکہ للی کی آنکھوں میں خوشی سے آنسو آ گئے تھے ۔۔ اس کو آج زندگی میں پہلی بار اپنے کیسی عمل سے خوشی ملی تھی۔۔وہ جب سے اسلام قبول کر کے بیٹھی تھی وہ خود کو بہت پرسکون محسوس کر رہی تھی ۔ اس کو اپنے وجود سے ایک بوجھ ہٹتا محسوس ہوا تھا۔۔۔

ویسے میں سوچ رہی ہوں تمہارا نام بدل دیا جائے اگر تمہیں اعتراض نہ ہو تو۔۔ مزمل بیگم اس کو دیکھتے بولی تھی ۔۔

مجھے کیوں اعتراض ہو گا۔۔انفیکٹ میں اپنے لیے خود نام ڈھونڈنے کو سوچ رہی تھی ۔۔ کیونکہ میں بھی ایک مسلم نام چاہتی ہوں۔۔ للی آنکھوں میں چمک لے کر بولی تھی ۔۔

وافیہ ۔۔۔ کیسا ہے یہ نام ۔۔۔ مزمل بیگم اس کو دیکھتے ہوئے بولی تھی۔۔۔

وافیہ ۔۔۔ سنے اور بولنے میں کتنا خوبصورت ہے۔۔اس کو یہ نام بہت پسند آیا تھا۔۔ اور اس بات کی گواہ اس کے چہرے کی لالی تھی ۔۔

ویسے اس کا مطلب تو آپ نے بتایا نہیں ۔۔۔ وہ مزمل بیگم جو دیکھتے بولی تھی جو اس کو دیکھ کر مسکرا رہی تھی ۔۔

حق ادا کرنے والی، وفادار ۔۔۔ مزمل بیگم اس کی آنکھوں میں دیکھ کر بولی تھی ۔۔

بہت خوبصورت ہے۔۔۔۔ وہ آنکھوں میں چمک لیے بولی تھی۔ ۔

جس نے یہ نام دیا ہے وہ بھی بہت خوبصورت ہے۔۔ مزمل بیگم بہت مدہم سا بولی تھی۔۔۔

آج سے آپ مجھے وافیہ ہی بولیں گئی نہ؟؟ اس نے مزمل بیگم سے تصدیق چاہی تھی ۔۔

بلکل میری جان ۔۔۔ آج سے تمہیں ادھر سب وافیہ بولیں گے۔۔۔ مزمل بیگم اس کے ہاتھوں کو اپنے لبوں سے لگاتی بولی تھی ۔۔

••••••••••••

ہم ادھر کیوں آئے ہیں ؟؟؟ نواز کار میں بیٹھا چیر کر بولا تھا۔۔

اور کچھ دیر میں پتا چل جائے گا۔۔۔ شہزاد اپنی ڈرائیونگ سیٹ کی پیشت سے ٹیک لگا کر بولا تھا۔۔۔

مگر کچھ بتا تو سہی۔۔۔ نواز اس کی طرف موڑتے بولا تھا۔۔۔

سرپرائز ۔۔۔۔۔۔۔ شہزاد مسکراتے ہوئے یک لفظی جواب دے گیا تھا۔۔۔۔

تیرا یہ سرپرائز مجھے ہضم نہیں ہو رہا۔۔ نواز اپنی سیٹ کی پیشت پر سر ٹیکائے بولا تھا۔۔۔

صبر کر صبر کا پھل بہت حسین ہوتا ہے۔۔۔۔ شہزاد ایک آنکھ ونک کرتا بولا تھا۔۔۔

وہ ہی تو نہیں ہے مجھ میں ۔۔ نواز اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرتا بولا تھا۔۔۔

مگر فلحال تو کرنا پڑے گا ۔۔۔ وہ اپنی گھڑی پر وقت دیکھتا بولا تھا ۔۔ کر تو رہا ہوں یار۔۔۔ نواز اختاطہ ہوا بولا تھا۔۔ جبکہ  شہزاد  اس کی شکل دیکھ کر قہقہہ لگا اٹھا تھا۔۔۔

تم ہنس رہے ہو شہزاد ۔۔۔ یقین کرو میں تمہیں مار دوں گا اگر تم کوئی مذاق کر رہے ہو میرے ساتھ ۔۔۔ ںواز اس کو گھورتے ہوئے بولا تھا۔۔۔

ریلیکس برو میں کوئی مذاق نہیں کر رہا تمہارے ساتھ چیل   رہو۔۔ شہزاد اس کے بازو پر پنچ مارتے بولا تھا۔۔۔

اور سرپرائز کا کیا؟؟ نواز کی سوئی پھر ادھر ہی آ کر آر گئی تھی۔۔۔۔

بس اور کچھ دیر ویٹ سب پتا چل جائے گا۔۔۔ شہزاد سیٹ کی پشت پر سر ٹیکاتا آنکھیں بند کر کے بولا تھا۔۔۔

•••••••••••

میں کب سے دیکھ رہا ہوں شاہد تم پریشان لگ رہے ہو۔۔۔ پاس بیٹھے خان شاہد صاحب کی طرف دیکھتے ہوئے بولے تھے۔۔۔ جبکہ خان کی بات پر عزیزہ  نے اپنا سر اٹھا کر شاہد صاحب کی طرف دیکھا تھا ۔۔

کچھ نہیں پتا نہیں کیوں ایک عجیب سی بے چینی ہو رہی ہے ۔۔ شاہد صاحب کھڑکی سے باہر دیکھتے بولے تھے۔۔۔

الفا سب ٹھیک ہے ۔ اب کی بار عزیزہ بولی تھی ۔۔

ہاں سب ٹھیک ہے عزیزہ بس ایک عجیب سی بےچینی ہے۔۔۔ بس جلدی سے یہ کام ختم ہو اور میں گھر جاؤ ۔۔۔ شاہد صاحب ہاتھ میں پکڑی فائل کو دیکھتے بولے تھے۔۔۔

کوئی بات ہے کیا ۔۔۔ خان فکرمند سے شاہد صاحب کو دیکھتے ہوئے بولے تھے۔۔۔

ابراہیم سمجھ نہیں آ رہی مگر میرا دل آج بہت گھبرا رہا ہے۔۔۔ جیسے کچھ برا ہونے والا ہے۔۔۔ شاہد صاحب اپنی جگہ پر بیٹھتے ہوئے بولے تھے۔۔۔

شاہد اگر ایسی بات ہے تو گھر چلے جاؤ ۔۔ اور ویسے بھی تھوڑی دیر میں بارہ بج جانے ہیں تمہاری بیٹی کی برتھ ڈے بھی ہے۔۔۔ تو تمہیں گھر جانا چاہیے ۔۔۔ ابراہیم صاحب شاہد صاحب کو دیکھتے ہوئے بولے تھے۔۔۔

اور شاہد اپ کی بڑی صاحبزادی نے جلدی آنے کا بولا تھا کیک کے ساتھ۔۔۔ عزیزہ شاہد صاحب کی طرف روخ موڑتے بولی تھی۔۔۔

کیک تو میں پہلے ہی بھجوا چکا ہوں۔۔۔ شاہد صاحب اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے کرسی کی پشت سے ٹیک لگاتے بولے تھے۔۔۔ دل کی بے چینی کیسی طور کم نہیں  ہو رہی تھی۔ جبکہ شاہد صاحب کے چہرے پر بےچینی ابراہیم صاحب کو پریشان کر رہی تھی ۔۔ کیونکہ الفا کبھی بھی اس طرح پریشان یا بےچین نہیں ہوا تھا اگر وہ آج بےچین تھے تو ضرور کوئی نہ کوئی وجہ ہو گئ۔۔۔

شاہد گھر چلے جاؤ ۔۔۔ ابراہیم صاحب بہت پریشانی سے بولے تھے۔۔۔ ان کی آواز میں نہ جانے کیا تھا ایک لمحے کے لیے شاہد صاحب نے ابراہیم صاحب کو دیکھا تھا ۔۔ ابراہیم صاحب کی اش گرے آنکھوں میں انتہا کی فکرمندی تھی۔۔۔۔۔ شاہد صاحب اپنی جگہ سے اٹھ کھڑے ہوئے تھے ۔۔۔

تمہیں پتا ہے ابراہیم تم بہت اچھے دوست ہو۔۔ اور بہت وفادار اوفسر بھی۔۔ تمیارے ساتھ گزارا ہر لمحہ بہت یادگار رہ ہے ۔۔۔۔۔ شاہد صاحب ابراہیم صاحب کے سامنے کھڑے ہوتے بولے تھے۔۔ اور آگے بھر کر انہوں نے ان کو گلے لگا لیا تھا۔۔۔ ایک لمحے کے لیے ابراہیم صاحب کا دل بہت بے چین ہوا تھا۔۔

تم ہمیشہ سے میرے لیے ایک بھائی سے بڑھ کر رہے ہو شاہد ۔۔۔ خان ساری زندگی تمہاری مخلص دوستی کا قرضدار رہے گا۔۔۔ تم نے ہر مقام پر ثابت کیا ہے کہ تم واقع ہی الفا ہو۔۔ ابراہیم صاحب نے ان کو زور سے گلے لگایا تھا۔۔ نہ جانے ان کو ایسا کیوں لگا تھا جیسے دوبارہ یہ موقع نہیں مل پائے گا۔۔۔۔

ان دونوں سے مل کر شاہد صاحب گھر کے لیے نکلے تھے۔۔ جبکہ پیچھے ابراہیم صاحب اور عزیزہ دونوں ہی بےچین سے تھے۔۔ ان کو بھی کچھ اچھا محسوس نہیں ہو رہا تھا۔۔۔

••••••••••

جاری ہے۔۔۔۔

 

 

اب یہ تو وقت ہی جانتا تھا کہ کیا اچھا ہونے والا تھا یا کیا برا ہونے والا تھا۔۔۔ کیا شاہد صاحب کی یہ ابراہیم اور عزیزہ سے آخری ملاقات ثابت ہونے والی تھی۔۔۔ شہزاد نواز کو کیا سرپرائز دینے والا تھا۔۔۔ کیا ہونے والی ہے اس خواب کی تعبیر ۔۔۔ کیا موڑ لینے والی ہے ان سب کی زندگی کی کہانی ۔۔ کون کس کو کھونے والا ہے اور کس کو پانے والا ہے۔

 

 

Don’t copy without my permission ❌..

Follow us on our social media accounts for more updates... Share with your friends...

 

 For more episode click on link below.........

urdunovelnests blogger .com

                                              Follow for updates

Instagram

Tiktok

Facebook

Pinterest

Thread

Wattpad


Comments