Urdu Novel Dasht-e-Ulfat by Shazain Zainab Episode 14






بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

 ناول

 

دشتِ الفت

 

شازین زینب

 

 

 

 

 

 

 

 

Ep # 14

 

 

 

 

وہ ایک ایک قدم بڑھتا اس کے قریب آ کر روکا تھا۔۔۔ وہ جو سڑک پر اوندھے منہ بے ہوش گری پڑی تھی۔۔۔ اس کے شہد رنگ گھنے بال اس کے چہرے پر گرے ہوئے تھے۔۔۔

وہ پاؤں کے بل بیٹھا اس کے چہرے سے بال ہٹا رہا تھا۔۔ اور جیسے ہی اس کا چہرہ اس کے سامنے آیا ایک لمحے کہ لیے اس کی آنکھیں حیرت سے پہل گئی تھی۔۔۔

یہ یہاں کیسے۔۔۔ وہ خود سے بولتا اس کی نبض ٹٹولنے لگا تھا جو مدہم چل رہی تھی۔۔۔

اس نے جزا کے وجود کو سیدھا کیا تھا ۔۔ جزا کا ایک طرف سے پھٹا گریبان اور آستین اس کے سامنے تھی۔۔۔ اس  کی آنکھوں فوراً حیا سے جھکی تھی۔۔ اور آگلے ہی لمحے اس نے اپنی جیکٹ اتار کر جزا کے وجود کو ڈھکا تھا۔۔۔ اس کی آنکھوں میں شدید غصے تھا ۔۔۔ وہ نہیں جانتا تھا اس کو غصہ کس بات پر آ رہا ہے ۔۔۔ اس نے فوراً جزا کو اپنی باہوں میں بھرا اور اس کو لے کر اپنی کار کی طرف بڑھا تھا۔۔۔۔ کار کا بیک ڈور کھول کر جزا کو بیک سیٹ پر لیٹاتا وہ واپس اپنی ڈرائیونگ سیٹ پر آیا تھا ۔۔

ایک نظر بیک سیٹ پر ڈالے وہ کار سٹارٹ کر چکا تھا۔۔۔ مگر اس کی آنکھوں میں خون دوڑ رہا تھا۔۔۔ غصے کو برداشت کرنے سے اس کی رگیں تن گئی تھی۔۔۔۔ وہ رش ڈرائیو کرتا کار وہاں سے بھاگا لے گیا تھا۔۔۔۔

urdunovelnests••••••••••

شہزاد بہت مشکل سے چلتا باہر کی طرف آیا تھا۔۔۔ اس کے سر سے نکلتا خون اب روک چکا تھا۔۔۔ اس کے پاؤں پر شاید چوٹ آئی تھی جس کی وجہ سے وہ لنگڑا کر چل رہا تھا۔۔۔ بامشکل چلتا وہ مین گیٹ کے سامنے آیا تھا۔۔۔۔

یہاں سے کوئی لڑکی گئی ہے؟؟؟ ۔ شہزاد غصے سے سامںے بیٹھے اس بزورگ چوکیدار کو دیکھتا بولا تھا۔۔۔

صاحب میں نے یہاں سے کیسی کو جاتا نہیں دیکھا۔۔۔ اور آپ کی اجازت کے بغیر میں یہاں سے کیسی کو کیسے جانے دے سکتا ہوں۔۔ وہ بزورگ شہزاد کی غصے سے بھری آواز پر سر جھکائے کانپتے ہوئے بولا تھا۔۔۔

میرے ساتھ کوئی چال بازی مت کرنا۔۔ ورنہ زندہ گار دوں گا۔۔۔ شرافت سے بتاؤ وہ لڑکی کس طرف گئی ہے۔۔۔ شہزاد اپنی جیب سے گن نکالتا بولا تھا۔۔۔

صاحب میں کچھ نہیں جانتا ۔۔۔ وہ بزورگ چوکیدار اس کے قدموں میں گرا روتے ہوئے بولنے لگا تھا۔۔

اے اپنا یہ رونا دھونا بند کر ۔۔ جو پوچھا اس کا جواب دے۔۔۔ شہزاد اس چوکیدار کو ٹھوکر مارتا بولا تھا۔۔

صاحب  میں نہیں جانتا یہاں کون آیا کون گیا۔۔ مجھے نہیں پتا۔۔۔ میرے ہوتے ہوئے ادھر سے کوئی نہیں گزار ۔۔۔ وہ بزورگ چوکیدار روتے ہوئے بولا رہا تھا۔۔ جب شہزاد اس کو ایک اور ٹھوکر مارتا اندر کی طرف گیا تھا۔۔۔ اس کا روخ سیکورٹی روم کی طرف تھا۔۔۔

مجھے ابھی سے کچھ دیر پہلے کی مین گیٹ کی فوٹیج دیکھاؤ ۔۔۔ وہ سکیورٹی روم میں داخل ہوتے ساتھ بولا تھا۔۔۔

سر مین گیٹ کے کمیراز تو آپ نے پیچھلے دنوں اتروائے تھے۔۔۔ کمپیوٹر سکرین کے سامنے بیٹھا وہ آدمی بولا تھا۔۔۔

لعنت ہو تم سب پے لعنت ہو۔۔۔ شہزاد اس کے گریبان کو اپنے ہاتھ میں جکڑے دھاڑا تھا۔۔۔

اس آدمی کو پیچھے کی طرف دھکیلے وہ باہر کی طرف بڑھا تھا ۔۔ اور اپنی کار نکال کر وہ ادھر سے باہر نکالا تھا۔۔۔

مجھے امید ہے تم دور نہیں گئی ہو گی۔۔ ایک بار بس ایک بار تم میرے ہاتھ لگ جاؤ ۔۔ میں تمہیں زندہ لاش بنا دوں گا جزا شاہد ۔۔۔ وہ سٹیرنگ پر زور زور سے ہاتھ مارتا غصے سے بول رہا تھا ۔۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ جزا اس کے سامنے ہو اور اس کو جلا دے ۔

••••••••••

دوسری طرف امل، بیگم، روحا بیگم، ابیہا بیگم ، احسن صاحب ، کامران صاحب ، افضل صاحب کو جیسے ہی پتا چلا وہ لوگ بھاگے چلے آئے تھے شاہد صاحب کی طرف ۔۔۔

آمنہ ، نور کا رو رو کر برا حال تھا وہ کیسی سے سنبھالی نہیں جا رہی تھی۔۔۔۔

ماما جزا ۔۔۔ جزا کدھر ہے اس کو پلیز لے آئیں ۔۔۔ ماما سویرا کو اُٹھائے نہ۔۔۔ نور روتے ہوئے بول رہی تھی۔۔۔۔

نور میری جان چپ کر جاؤ ۔۔حور نور کو گلے لگائے بولی تھی۔۔۔ جبکہ امل بیگم نور کو کیا چپ کرواتی ۔

 ان کو خود کو چپ لگ گئی تھی۔۔۔ انعم بیگم کی لاش کے پاس بیٹھی ۔۔ نہ وہ روئی تھی اور نہ ان کی نظر ان کی لاش پر سے ہٹ رہی تھی۔۔۔۔

حور  آپی  آپ کو پتا ہے۔۔۔ جزا کو سویرا کتنی پیاری تھی۔۔۔ اس کو کیسے بتائیں گئے اس کی سویرا ۔۔۔ آمنہ روتے ہوئے بولی تھی۔۔۔ حور ان دونوں کے درمیان میں بیٹھی اپنے آنسوں صاف کرتی ان دونوں کو چپ کروا رہی تھی۔۔۔۔

ماہر، آیان ، دوراب، احسن صاحب ، کامران صاحب ، افضل صاحب ابراہیم صاحب کے پاس خاموش کھڑے تھے۔۔۔ جبکہ زوریز رحیان کے پاس کھڑا تھا۔۔ جو بالکل خاموش ہو گیا تھا۔۔۔ اور آنسو اس کی آنکھوں سے بہتے جا رہے تھے۔۔۔ وہ کبھی اپنے ہاتھوں کو دیکھتا تھا کبھی آسمان کی جانب تو کبھی اندر کی طرف۔۔۔ آغا صاحب اور زوریز اس کو کب سے رولانے کی کوشش کر رہے تھے۔ مگر وہ نہیں رو رہا تھا۔۔۔۔

رحیان پلیز رو لو۔۔۔ آغا صاحب اس کو دیکھتے بولے تھے۔۔۔۔

کس لیے روؤں ۔۔ وہ میرے نصیب میں نہیں تھی اس لیے روؤں ، اس سے یک طرفہ محبت میرا نصیب تھی اس لیے روؤں ۔۔ وہ میری محبت کو جانے بغیر چلی گئی اس لیے روؤں ۔۔ وہ مجھے وصال سے پہلے ہجر دے گئی اس لیے روؤں ۔۔۔ میری محبت درندوں کی درندگی کی نظر ہوئی اس لیے روؤں ۔۔ اس کی معصومیت کا فائدہ اٹھایا گیا اس لیے روؤں ۔۔ اس کو بے آبرو کیا گیا اس لیے روؤں ۔۔ میں اس کو بچا نہ سکا اس لیے روؤں ۔۔۔ بتائیں نہ میں کس لیے روؤں ۔۔۔۔ مجھے نہیں سمجھ آ رہی میں کس کس بات کے لیے روؤں ۔۔ وہ آغا صاحب کی طرف دیکھتا بولا تھا۔۔ ایک آنسوں اس کی آنکھوں سے ٹوٹ کر گرا تھا۔۔ آغا صاحب نے اس کو گلے لگا لیا تھا۔۔۔ جبکہ زوریز خاموش اس کو کھڑا دیکھ رہا تھا۔۔۔ اپنے سینے میں اٹھتے غبار کو بیٹھا رہا تھا۔۔۔ وہ شہد رنگ آنکھوں والی پتا نہیں کہاں چلی گئی تھی۔۔۔ اس کا کچھ پتا نہیں چل رہا تھا۔۔۔

جب ماہر، حدید ، دوراب ، آیان بھی ادھر ہی آ کر کھڑے ہو گئے تھے۔۔۔

جنازہ کب ہے ۔۔ زوریز  دوراب کو دیکھتے بولا تھا۔۔۔

ابراہیم انکل بول رہے ہیں صبح کہ ٹائم تدفین کرنی ہے۔۔۔ دوراب یہ کہہ کر چپ ہو گیا تھا۔۔۔ جب کامران صاحب ، احسن صاحب ، افضل صاحب اور ابراہیم صاحب بھی ادھر ہی آئے تھے۔۔۔

ابراہیم جزا بچی کا پتا لگا کچھ ۔۔ احسن صاحب ابراہیم صاحب کی طرف دیکھتے بولے تھے ۔۔

انشاللہ پتا چل جائے گا۔۔ میں بس دعا کر رہا ہوں بچی کو کچھ نہ ہو وہ صحیح سلامت ہو۔۔ ابراہیم صاحب اندر کی طرف دیکھتے بولے تھے۔۔۔ جہاں اس وقت عورتوں کا ہجوم تھا۔۔۔

جیسے جیسے سب کو پتا چلتا گیا ویسے ویسے سب اکھٹے ہوتے گئے تھے۔۔۔ گھر کی فرنٹ سائیڈ کو بند کر دیا گیا تھا سب لوگ گھر کی بیک سائیڈ پر موجود تھے اور میتیں بھی ادھر ہی رکھی گئی تھی۔

•••••••••••••

امل رو لو، اپنے اندر کا دکھ نکال لو۔۔۔ روحا بیگم نے امل بیگم کو جھنجھوڑ تے ہوئے کہا تھا۔۔۔ مجھے یقین نہیں آ رہا روحا ۔۔ مجھے یقین نہیں آ رہا۔۔۔ کیسے ایک رات میں صرف ایک رات میں یہ قیامت برپا ہو گئی۔۔۔ امل بیگم انسو سے بھاری ہوتی آواز میں بولی تھی۔۔

امل صبر کرو۔۔ دیکھو تمہاری نور کا رو رو کر برا حال ہے اس کو سنبھالو۔۔

ابیہا بیگم روتے ہوئے بولی تھی۔۔

نور کیوں رو رہی ہے۔۔ جزا کدھر ہے۔۔۔۔ امل بیگم ادھر اُدھر دیکھتے بولی تھی۔۔۔

امل صبر کرو۔۔۔ ہمت سے کام لو۔۔ روحا بیگم نے امل بیگم کا منہ اپنی طرف کیا تھا۔۔۔

نہیں روحا۔۔ می۔۔۔ میری انعم کی جزا کدھر ہے۔۔۔۔ امل بیگم اپنی جگہ سے اٹھتے ہوئے بولی تھی۔۔۔

جزا کو لاؤ ۔۔۔ امل بیگم روتے ہوئے بولے تھی۔۔۔

امل ہوش میں آؤ ۔۔ جزا نہیں مل رہی۔۔۔ عائشہ بیگم نے امل بیگم کا بازو پکڑ کر اپنی طرف روخ کیا تھا۔۔۔

کیوں نہیں مل رہی۔۔ بچی کدھر ہے۔۔۔ آپ کو آج کل کہ ماحول کا نہیں پتا۔۔۔۔ امل بیگم اب روئی تھی۔۔۔

امل اس کو ڈھونڈنے کے لیے بھیجا ہے ابراہیم نے کیسی کو۔۔۔

جزا کو ڈھونڈ کے لاؤ اس کو لاو اس کہ ماں باپ نہیں رہے اس کی بہن ۔۔ اس کی پھوپھو ۔۔۔ میری بچی اکیلی ہو گئی۔۔۔ امل بیگم روتے ہوئے باہر کی طرف بڑھنے لگی تھی۔۔۔ جب دوراب ، زوریز ، آیان ، حدید ، ماہر اور ابراہیم صاحب ، احسن صاحب ، کامران صاحب ، افضل صاحب سب اندر آئے تھے۔۔۔

تائی امی۔۔۔ دوراب نے آگے بڑھ کر امل بیگم کو گلے لگایا تھا۔۔۔

دوراب میری جزا اکیلی ہو گئی۔۔۔ اس کو ڈھونڈ لاؤ ۔۔۔ میری انعم کی آخری نشانی ہے۔۔۔ اس کو ڈھونڈ لاؤ ۔۔ امل بیگم روتے ہوئے بول رہی تھی۔۔

ہم سب اس کو ڈھونڈنے کی کوشش کر رہے ہیں جلد ہی مل جائے گئی۔۔ دوراب امل بیگم کو ایسے ہی گلے لگائے بولا تھا ۔۔ جب زوریز خاموشی سے باہر نکل گیا تھا۔۔ اس کے پیچھے ہی حدید بھی باہر نکالا تھا۔۔۔

زوریز ۔۔۔۔ حدید نے اس کو باہر جاتے دیکھ آواز دی تھی۔۔۔

بولو حدید۔۔ زوریز  خود کو نارمل کرتے بولا تھا۔۔ ایک آگ کا سمندر اندر اٹھ رہا تھا مگر وہ اس کو دبہ کر بیٹھا تھا۔۔۔

وہ مل جائے گئی۔۔۔ حدید بس اتنا ہی بولا تھا۔۔ جب زوریز نے ایک زخمیئ نظر حدید کی طرف اٹھائی تھی۔۔۔ حدید اس کی نظروں کو دیکھ کر ایک بار ڈر گیا تھا۔۔

میں اندر جا رہا ہوں۔۔۔ زوریز کو مسلسل خود کی طرف گھورتا پا کر وہ واپس اندر کی طرف موڑا تھا۔۔۔

ضرور ۔۔ زوریز دانت پس کر بولا تھا۔۔۔ اور حدید کو اندر جاتا دیکھ رہا تھا۔۔ ساتھ ہی اپنی جیب سے سگریٹ نکال کر اپنے لبوں سے لگائی تھی۔۔ وہ آسمان کی طرف دیکھاتا سگریٹ پی جا رہا تھا۔۔۔ آسمان کا رنگ نیلا ہو چکا تھا۔۔ اور کچھ دیر میں صبح ہو جانی تھی۔۔۔ زوریز نے اپنی آنکھوں کو بند کیا تھا ۔۔ آنکھوں کا بند ہونا تھا کہ شہد رنگ آنکھوں اور شہد رنگ زلفوں نے خیالوں پر قدم رکھا تھا۔۔۔ زوریز نے فوراً اپنی آنکھیں کھولی تھی۔۔۔ کیا نہ تھا اس وقت اس کی آنکھوں میں ۔۔ اذیت ، درد، تکلیف ۔۔

••••••••••

وہ کب سے سڑک پر کار دوڑائی جا رہا تھا۔۔ وہ اس پاس اور دور دراز کہ تمام علاقے دیکھ چکا تھا۔۔ اس کو جزا کا کچھ آتا پتا نہیں ملا تھا۔ وہ ہر وہ جگہ دیکھ چکا تھا جہاں اس کہ اندازے کہ مطابق شہزاد جزا کو لے کر جا سکتا تھا۔۔ مگر وہ اس کو کہیں نہیں ملی تھی۔۔ نہ اس کو شہزاد کہیں نظر آیا تھا۔۔۔۔۔

اب وہ  اس جگہ پر کھڑا تھا جہاں شہزاد کی کار کو آخری دفعہ دیکھا گیا تھا ۔۔ وہ  بہت خاموشی سے اس گھر کے اندر داخل ہوا تھا۔۔۔ چوکیدار سو رہا تھا اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ایم-زی دیوار پھلانگ کر اندر داخل ہوا تھا۔۔۔ اور خاموشی سے گھر کہ اندر چلا گیا تھا۔۔۔

ہر طرف خاموشی تھی ۔۔ جیسے اس وقت گھر میں کوئی نہ ہو۔۔ جب اس کی نظر زمین پر گرے خون کہ قطروں پر پڑی تھی ۔۔ وہ ان قطروں کی سیدھ میں چلتا بیسمنٹ میں آیا تھا۔۔ جہاں ایک گلاس ٹوٹا ہوا پڑا تھا اور ایک طرف سٹول گرا ہوا تھا۔۔۔۔اور زمین پر کچھ خون گرا ہوا تھا۔۔۔ وہ اس جگہ کو اچھی طرح سے دیکھتے۔۔ باقی گھر کی تلاشی لے رہا تھا۔۔ اس کو یہاں بھی جزا نہ ملی تھی۔۔۔  وہ جیسی خاموشی سے آیا تھا ویسی ہی خاموشی سے واپس نکل گیا تھا۔۔۔۔۔

دن چڑھ چکا تھا۔۔ اور وہ رات کا نکالا اب دوبارہ شاہد صاحب کہ گھر آیا تھا۔۔ سامںے ہی اس کو ابراہیم صاحب کھڑے مل گئے تھے۔۔۔ ابراہیم صاحب اس کو دیکھتے ساتھ اس کی طرف بڑھے تھے۔۔۔

جزا کدھر ہے ملی تمہیں لئے ہو اس کو اپنے ساتھ۔۔۔۔ابراہیم صاحب اس کے پاس پہنچتے فوراً سوال کرنے لگے تھے۔۔۔ جبکہ ایم-زی خاموشی سے سر جھکا گیا تھا۔۔۔

ایم-زی مجھے یہ مت کہنا کہ تمہیں جزا نہیں ملی ۔ ابراہیم صاحب کی سخت آواز اس کی سماعت سے ٹکرائی تھی۔۔

ایم-زی ایسے ہی سر جھکائے کھڑا تھا۔۔۔  جب ابراہیم صاحب دوبارہ بولے تھے۔۔۔

ایم-زی میں کچھ پوچھ رہا ہوں تم سے۔۔۔ ابراہیم صاحب کی سخت نظر اس پر تھی۔۔

جزا کہیں نہیں ملی خان۔۔۔ میں نے ہر جگہ ڈھونڈا ہے۔۔ نزدیک کہ سب علاقے دور کہ علاقے اور وہ سب جگہ جہاں  مجھے شک تھا شہزاد اس کو لے کر جا سکتا ہے مگر مجھے وہ کہیں نہیں ملے اور نہ ہی شہزاد۔۔۔ اس کی کار کو ایک جگہ جاتے کیچ کیا گیا تھا۔۔ میں  ادھر بھی دیکھ کر آیا ہوں۔۔ مگر نہ وہاں جزا تھی نہ شہزاد ۔۔۔ ہاں مگر بیسمنٹ میں ایک ٹوٹا مٹی کا گلاس اور خون ضرور تھا۔۔۔ اب وہ شہزاد کا تھا یہ جزا کا میں کچھ کہہ نہیں سکتا۔۔ ایم-زی آج پہلی بار خان کے سامنے سر جھکائے کھڑا تھا۔۔۔ پہلی بار وہ خالی ہاتھ لوٹا تھا۔۔۔ پہلی بار اس کو کچھ نہ ملا تھا۔۔۔

ایم-زی ۔۔۔ ایم-زی جزا کو ہر حال میں ڈھونڈوں ۔۔۔ وہ بچی مجھے صحیح سلامت چاہیے ہے۔۔ اس بچی کو کچھ بھی ہوا۔۔ یا کیسی نے کوئی بھی نقصان پہنچایا ۔۔۔ نقصان پہنچانے والے کہ ساتھ ساتھ تمہاری خال بھی ادھیڑ کر رکھ دوں گا۔۔۔ ابراہیم صاحب سخت نظروں سے ایم-زی کو دیکھتے بولے تھے جبکہ ایم-زی حیران سا ان کو دیکھ رہا تھا۔۔۔

وہ الفا کی بیٹی ہے یہ آپ کی؟؟ ایم-زی حیران سا بولا تھا۔۔۔ کیوںکہ ابراہیم صاحب کا غصہ اس کی سمجھ سے باہر تھا۔۔۔

وہ میرے دوست کی بیٹی ہے۔۔ میری بیٹی ہے۔۔ میرے بیٹے کی امانت ہے وہ۔۔ اس سے آگے مزید ابراہیم صاحب کچھ بولتے وہ خاموش ہو گئے تھے۔۔۔ کیونکہ وہ غصے میں بولتے بولتے سب سے بڑا سچ بول بیٹھے تھے۔۔۔ جبکہ ایم-زی منہ کھولے ان کو دیکھ رہا تھا۔۔۔۔

تم جا کر اپنی حالت درست کرو اور کچھ دیر میں جنازہ ہے۔۔۔ یہ کہہ کر ابراہیم صاحب ادھر سے چلے گئے تھے۔۔۔ جبکہ ایم-زی ابھی تک ادھر ہی کھڑا تھا۔۔۔

خان کے بیٹے کی امانت ہے وہ۔۔ ایم-زی مدہم سا بولا تھا۔۔ جب سکندر اس کہ پاس آ کر کھڑا ہوا تھا۔۔۔ کیا بول رہے ہو تم۔۔۔ سکندر اس کے ساتھ کھڑا ہوتا بولا تھا۔۔۔

کچھ نہیں چلو جنازے کا وقت ہو گیا ہے۔۔۔ یہ کہہ کر ایم-زی آگے بڑھ گیا تھا۔۔ اور سکندر بھی اس کے پیچھے ہو لیا تھا۔۔۔۔

urdunovelnests•••••••••

وہ لوگ جنازہ اٹھانے کے لیے اندر جانے لگے تھے جب اکرم صاحب ادھر آئے تھے۔۔۔۔ ان کو دیکھ کر ابراہیم صاحب سمیت سب کی رگیں تن گئی تھی۔۔۔

ان کو آتا دیکھ رحیان آگے بڑھنے لگا تھا جب ابراہیم صاحب نے اس کا بازو پکڑ لیا تھا۔۔۔

ابھی نہیں رحیان ۔۔۔ یہ مناسب وقت نہیں ۔۔۔ ابراہیم صاحب رحیان کہ کان کہ پاس جھک کر بولے تھے جب کہ باقی سب اپنے اندر اٹھتے غصے کو دبا رہے تھے۔۔۔ کیونکہ اکرم جیسے بے شرم آدمی  کے چہرے پر افسوس نام کا نام و نشان تک نہ تھا۔۔۔۔

میت کہاں ہے؟ اکرم صاحب نے آتے ساتھ سب سے ایک سوال کیا تھا۔۔۔

اپنے گھر میں ۔۔۔ ابراہیم صاحب بہت مدہم آواز میں بولے تھے ۔۔

یہ سب ہوا کیسے ۔۔ مجھے تو جب پتا چلا مجھے تو یقین ہی نہ آیا ۔۔۔ کس کا ہاتھ ہے اس کہ پیچھے۔۔۔ اکرم صاحب چہرے پر افسوس کہ تاثرات سجائے بولے تھے۔۔۔۔

کبھی کبھار خون میں خون کا ہی ہاتھ ہوتا ہے۔۔۔ ایم-زی یہ کہہ کر خاموش ہو گیا تھا۔۔۔

کیا مطلب ۔۔ اکرم صاحب حیرت سے آرمی یونیفارم میں سیاہ ماسک چہرے پر لگائے نیلی آنکھوں میں وحشت لیے اس نوجوان کو دیکھ رہا تھا جو ابراہیم صاحب کے سیدھے ہاتھ کھڑا تھا اور اس کا قد ابراہیم صاحب سے بھی کچھ انچ لمبا تھا۔۔۔۔

مطلب سمجھنے کے لیے دماغ کی ضرورت ہوتی ہے۔۔ تو مہربانی کر کہ آپ فلحال اس بات کو زیادہ نہ سوچیں کبھی فرصت میں بیٹھ کہ سوچ لیجیے گا۔۔۔ فلحال جنازے کا وقت ہے اور اس میں تاخیر ہو اچھا نہیں لگتا۔۔۔ ایم-زی اپنی آنکھیں اکرم صاحب کی آنکھوں میں گاڑتا بولا تھا۔۔۔

ہممم چلیں جنازہ اٹھاتے ہیں ۔۔۔ اکرم صاحب یہ کہہ کر آگے بڑھنے لگے تھے جب ابراہیم صاحب کی آواز نے ان کہ قدم ادھر ہی روک دیے تھے۔۔۔

اکرم اپنی بیوی کا آخری بار چہرہ نہیں دیکھو گے ۔۔۔۔ ابراہیم صاحب چبتی نظروں سے اکرم صاحب کی طرف دیکھ رہے تھے ۔ وہ اس آدمی کی نظروں میں چہرے پر تکلیف اور افسوس کے احساس ڈھونڈ رہے تھے جو اس کے چہرے پر کہیں نہیں تھے۔۔ خدیجہ بیگم صرف شاہد صاحب کی ہی نہیں ابراہیم صاحب کے لیے بھی بڑی بہن جیسی تھی۔۔۔

ضرور ۔۔۔ اکرم صاحب یہ بول کر آگے بڑھ گئے تھے۔۔۔

وہ اس وقت خدیجہ بیگم کی میت کے سامنے تھے اور آگے بڑھ کر چہرے پر سے کفن ہٹنے لگے تھے۔۔۔ جب اچانک ذہن میں ایک آواز گونجی تھی برسوں پہلے کیسی کا بولا گیا جملہ۔۔۔۔

(اکرم میری دل سے دعا ہے۔۔ میں دنیا سے تم سے پہلے چلی جاؤں تاکہ جب تمہیں تمہارے ظلم اور گناہوں کا اندازہ ہو اور تم مجھے سے معافی مانگنا چاہو۔۔ تب تم در در کی خاک بھی چھان دو میں تمہیں نہ ملوں۔۔۔ میں تمہارا ہر ظلم ، ہر ناانصافی اپنے مالک کہ پاس لے کر جاؤ گئی اکرم۔۔ اور تب بس پھر میرا مالک ہر ظلم کا حساب خود لے گا۔۔۔۔ خدیجہ بیگم کی روتی ہوئی آواز گونجی تھی۔۔۔)

اکرم صاحب نے فوراً آنکھیں کھولی تھی۔۔۔ سامنے خدیجہ بیگم کا چہرہ تھا۔۔ ان کہ چہرے پر ایک الگ نور تھا۔۔۔ اکرم صاحب کو ان کے چہرے پر نور دیکھ کر ایک بار رشک آیا تھا۔۔۔ وہ واقع ہی ان سے پہلے چلی گئی تھی۔۔۔۔ اکرم صاحب نے فوراً سے کفن پھر سے چہرے پر کیا تھا۔۔۔ دل میں ایک ٹھیس سی اٹھی تھی۔۔ کبھی وہ ان کی محبوب بیوی ہوتی تھی۔۔۔ مگر جب ان کی اصلیت خدیجہ بیگم کہ سامنے آئی تو خدیجہ بیگم نے ان سے کنارہ کر لیا تب ہی اکرم صاحب نے دولت کے نشے میں بیوی سے کنارہ کر ڈالا تھا۔۔ بجائے اس کام کو چھوڑنے کہ وہ خدیجہ بیگم سے روخ موڑ گئے تھے۔۔۔

جنازہ اٹھایا جا چکا تھا۔۔۔ شاہد صاحب کے جنازے کو ابراہیم صاحب احسن صاحب اور دو آرمی آفیسر کے کندھ نے اٹھا رکھا تھا۔۔ جبکہ انعم بیگم کی میت کو کامران صاحب، آغا آفریدی صاحب اور دو آرمی آفیسر نے کندھ دے رکھا تھا۔۔ اور خدیجہ بیگم کہ جنازے کو حدید ، افضل صاحب اور اور دو آفیسرز نے کندھ دے رکھا تھا۔۔۔

سویرا کے جنازےکو اٹھانے کے لیے ایم-زی ، سکندر ، فاروق اور رحیان آگے بڑھے تھے۔۔۔۔

رحیان نے ابھی میت کو اٹھانا چاہا کی تھا کہ اس کا ہاتھ کانپ اٹھا تھا ۔۔ اس نے سختی سے آنکھیں میچ لی تھی۔۔۔ جب ایم-زی نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا۔۔۔۔ رحیان خود میں ہمت پیدا کرتا دوبارہ جنازہ اٹھانے لگا تھا اب کی بار پھر سے ہاتھ کانپے تھے ۔۔۔ اب کی بار سکندر بھی اس کے قریب آیا تھا۔۔ جبکہ آغا صاحب نم آنکھوں سے اپنے بیٹے کی حالت دیکھ رہے تھے۔۔ وہ اونچا لمبا گبرو جوان جو بوکسینگ چیمپین تھا آج ایک جنازہ اٹھاتے اس کے ہاتھ کانپ گئے تھے۔۔۔۔

جا زندگی تیرا یہ ستم بھی قبول کیا ۔۔ رحیان بھیگی آواز میں بولتا۔۔۔ سویرا کہ جنازے کو اٹھا چکا تھا۔۔۔۔ ساتھ ہی ایم-زی ، سکندر اور فاروق نے جنازہ اٹھایا تھا۔۔

زندگی کتنی ظالم ثابت ہوئی تھی رحیان آغا پر۔۔ ایک عاشق کہ کندھے پر تھا اس کی محبت کا جنازہ۔۔۔ وہ اپنی آنسوں کو روکنے کی ہر ممکن کوشش میں تھا مگر وہ پھر بھی آنکھوں میں آ ہی جانتے تھے۔۔۔ نہ جانے کتنی بار اس کی آنکھیں دھندلائی تھی نہ جانے کتنی بار وہ ٹھوکر کھا چکا تھا ۔۔

اکرم صاحب ایک طرف ہی چل رہے تھے۔۔ بیچ میں ایک لمحے کہ لیے انہوں نے خدیجہ بیگم کے جنازے کو کندھا دیا تھا پھر ایک طرف چلنے لگ گئے تھے۔۔۔۔

•••••••••••

خدیجہ بیگم اور انعم بیگم کو سپردے خاک کر دیا گیا تھا۔۔ جب شاہد صاحب کو کرنے لگے اس وقت ابراہیم صاحب رو پڑے تھے۔۔ وہ جو اتنے وقت سے خود کو مضبوط بنا کر چپ رہے تھے اب انسوں کو روکنا ان کے بس میں نہ تھا۔۔۔۔ نم آنکھوں سے انہوں نے شاہد صاحب کی لاش کی طرف دیکھا تھا اور ان کو سپردے خاک کیا تھا۔۔۔۔ نہ جانے دل کتنی بار رویا تھا ان کا۔۔۔۔

سویرا کو قبر میں اتار دیا گیا تھا جب رحیان ایک طرف کیسی قبر کے قریب بیٹھا نم آنکھوں اور خاموش چہرے سے سب منظر دیکھ رہا تھا۔۔۔ آغا صاحب چلتے ہوئے اس کہ پاس آئے تھے ۔۔۔۔

رحیان اٹھو۔۔ قبر پر مٹی ڈالو ۔۔۔ آغا صاحب نظریں موڑ کر بولے تھے جب رحیان نے نظریں اٹھا کر باپ کو دیکھا تھا۔۔۔

مجھ میں ہمت نہیں ۔۔ وہ مدہم سا بولا تھا۔۔۔

بیٹا ہمت پیدا کرو۔۔ ورنہ یہ ناگ تمہیں اندر ہی اندر ڈستا کھوکھلا کر دے گا۔۔۔۔ آغا صاحب نے اس کو بازو سے پکڑ کر کھڑا کیا تھا۔۔۔ وہ خاموش مرے مرے قدم اٹھا کر قبر کے قریب پہنچ گیا تھا۔۔۔۔

آغا صاحب نے جھک کر قبر کی مٹی اٹھائی تھی اور اس کہ ہاتھ میں وہ مٹی رکھی تھی۔۔۔ رحیان خاموش کھڑا اس مٹی کو دیکھ رہا تھا دل کر رہا تھا اب دھارے مار مار کر رو دے اور کتنے امتحان لینے تھے زندگی نے اس سے۔۔۔۔

مٹی ڈالو رحیان۔۔ آغا صاحب نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا۔۔۔

آپ کو پتا ہے آپ مجھے میری زندگی پر قبر کی مٹی ڈالنے کا بول رہے ہیں ڈیڈ ۔۔۔ وہ اتنی مدہم آواز میں بولا تھا کہ صرف آغا صاحب اور پاس کھڑا ایم-زی ہی سن سکے تھے۔۔۔ اس کی الفاظ میں اور آواز میں ایسا درد تھا کہ آغا صاحب کا ہاتھ خود با خود اس کے کندھے سے گرا تھا۔۔۔۔

قبر پر مٹی ڈال کر وہ بیٹھتا چلا گیا تھا۔۔۔۔ آنکھیں خاموش ہو گئی تھی۔۔۔ ہونٹ چپ تھے۔۔ وجود ساکت تھا۔۔۔ دل چیخ رہا تھا۔ تڑپ رہا تھا۔۔۔ بار بار بول رہا تھا۔۔۔ رحیان آغا کوئی۔ اپنی زندگی پر قبر کی مٹی کیسے ڈال سکتا ہے۔۔۔ وہ بس آنکھیں بند کر کے اپنے اندر کے شعور کو نظر انداز کرنا چاہتا تھا مگر نہ کر سکا۔۔۔

ہر کوئی باری باری جا رہا تھا بس وہ لوگ ادھر رہ گئے تھے۔۔۔۔

ایم-زی ، سکندر ، فاروق تم لوگوں کو واپس جانا چاہیے ۔۔۔۔ ابراہیم صاحب بھاری آواز میں بولے تھے۔۔۔

وہ تینوں جو شاہد صاحب کی قبر کے پاس بیٹھے تھے خاموش نظروں سے ابراہیم صاحب کو دیکھنے لگے تھے۔۔۔

بیٹا اٹھ جاو تینوں ۔۔۔ امیل اور رحیان کو بھی ساتھ لے  کر جاو ۔ کیونکہ اب صرف ملک کو دشمنوں سے پاک نہیں کرنا۔۔۔ خون کا بدلہ بھی لینا  ہے۔۔ اور جزا کو بھی ڈھونڈنا ہے ۔۔ ہم اب ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر نہیں بیٹھ سکتے ایک ایک کو اس کی بل میں سے نکال کر مارنا ہے۔۔۔۔ ابراہیم صاحب سرخ آنکھوں سے ان سب کی طرف دیکھتے بولے تھے۔۔۔۔

جب ایم-زی اٹھا تھا اور ساتھ ہی سکندر ، فاروق اور امیل بھی اٹھ گئے تھے۔۔۔ ان چاروں کا چہرہ ابھی بھی ماسک سے ڈھکا ہوا تھا ۔۔۔

زوریز ، حدید ، دوراب ، آیان کہیں نظر نہیں آ رہے۔۔۔ افضل صاحب آس پاس دیکھتے بولے تھے ۔۔

وہ چاروں جزا کو ڈھونڈنے ریپورٹ لکھوانے گئے ہیں ۔۔۔۔ اس سے پہلے ابراہیم صاحب کچھ بولتے آغا صاحب نے جواب دیا تھا۔۔۔

جنازے کے بعد چلے جاتے وہ چاروں تو کیا تھا ۔۔۔ اب کی بار کامران صاحب بولے تھے۔۔۔۔۔

ان کو یہ ہی کہا تھا۔۔ مگر وہ چاروں سنتے کس کی ہیں۔۔۔ اب کی بار ابراہیم صاحب بولے تھے۔۔۔ جبکہ دوسری طرف ایم-زی سکندر ، فاروق ، امیل چاروں رحیان کو اٹھانے میں لگے تھے جو اٹھنے کا نام نہیں لے رہا تھا ۔۔۔۔

رحیان اٹھ جاو اب۔۔۔ مت دو خود کو اور تکلیف ۔۔۔ ایم-زی اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بولا تھا۔۔۔

میں خود کو کہاں تکلیف دے رہا ہوں ایم-زی ۔۔۔ یہ تکلیف میرے مقدر میں لکھ دی گئی ہے۔۔۔ رحیان بھاری آواز میں ںولا تھا۔۔۔

رحیان ہمت نہ ہارو۔۔۔ اب کی بار امیل اس کو دیکھتے بولا تھا۔۔۔

ہاہا۔۔۔ ہمت تب ہارو گا نہ جب ہمت بچی ہو گئی۔۔۔۔ میری تو آج ساری ہمت ختم ہو گئی۔۔۔ قسم سے آج زندگی نے میرا سب سے مشکل امتحان لیا ہے۔۔۔ ایک آنسوں ٹوٹ کر رحیان کی آنکھوں سے گرا تھا۔۔۔۔

رحیان ۔۔۔ فاروق نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا۔۔۔۔ جبکہ ایم-زی نے اس کو بازو سے پکڑا تھا۔۔ اور اٹھ کھڑا ہوا تھا۔۔

اور ساتھ ہی رحیان کو بھی کھڑا کیا تھا۔۔۔۔

وہ چاروں اس کو اپنے ساتھ لے کر قبرستان سے باہر آ گئے تھے۔۔۔۔

urdunovelnests•••••••••

صبح سے دوپہر اور دوپہر سے شام ہو گئی تھی۔۔۔ ابراہیم صاحب کو نہیں پتا تھا وہ کتنی دیر ایسے ہی شاہد صاحب کی قبر پر بیٹھے رہے تھے ۔۔ وہ افضل صاحب,احسن صاحب ، کامران صاحب ، آغا صاحب سب کو ادھر سے بھیج چکے تھے۔۔

الفا۔۔۔۔۔ قبرستان کی چاموشی کو ابراہیم صاحب کی آواز نے توڑا تھا ۔۔

یار یہ تم کیا کر گئے میرے ساتھ۔۔۔ ایک لمحے میں تم نے خان کی کمر توڑ ڈالی۔۔ تم مجھے تنہا کر گئے الفا۔۔ جب میں ہر طرف دشمنوں سے گھیرا ہوا ہوں۔۔۔ ابراہیم صاحب روتے ہوئے بول رہے تھے ۔۔

مجھے ہماری جزا نہیں مل رہی الفا۔۔۔ خان تمہارے بغیر کچھ نہیں ہے۔۔۔۔ الفا کہیں سے مجھے آواز دو۔۔ کہیں سے بس لوٹ آؤ ۔۔۔ ابراہیم صاحب کے رونے میں شدت آئی تھی۔۔ انہوں نے اپنی آنکھوں کو زور سے بند کیا تھا جب خیالوں میں کچھ عرصے پہلے کا منظر آیا تھا۔۔۔

ماضی۔۔۔

مجھے تو سمجھ نہیں آتی تم ایم-زی کو الفا بنانے پر کیوں تلے ہوئے ہو۔۔۔ ابراہیم خان اپنے آرمی یونیفارم میں بیٹھے شاہد الف کو گھورتے بولے تھے۔۔۔

کیوں خان تمہیں کیا تکلیف ہے اگر میں اس کو الفا بنانا چاہتا ہوں ۔ شاہد  صاحب نے ان کو سخت گھوری سے نوازا تھا۔۔۔

دیکھو میری بات سنوں الفا لفظ بس تم پر سوٹ کرتا ہے۔۔۔ ابراہیم صاحب ان کی طرف دیکھتے بولے تھے۔۔۔

تم میرے سٹوڈنٹ کی انسیلٹ کر رہے ہو ۔۔ میں تمہیں فائر کروا دوں گا۔۔ شاہد صاحب شہادت کی انگلی سے ابراہیم صاحب کو ورنگ دیتے بولے تھے۔۔۔۔

کچھ زیادہ ہی پیارا نہیں ہے تمہیں تمہارا یہ سٹوڈنٹ ۔۔۔ ابراہیم صاحب جل کر بولے تھے۔۔۔

خان تمہارے ساتھ مسلہ کیا ہے بتاؤ گے؟ شاہد صاحب باقاعدہ ان کی سامنے کرسی رکھ کر بیٹھ گئے تھے۔۔۔

میں بس یہ جانتا ہوں کہ میرے لیے ایک ہی الفا ہے اور وہ تم ہو۔۔۔ ابراہیم صاحب ان کی آنکھوں میں دیکھ کر بولے تھے ۔۔

اور میں ایم-زی کو الفا اس لیے بنانا چاہتا ہوں۔۔ کہ اگر کبھی تمہارے پاس یہ الفا نہ ہو۔۔ تو تمہارے پاس دوسرا الفا ضرور ہو ۔۔۔ تاکہ تمہیں کبھی الفا کی کمی محسوس نہ ہو۔ کیونکہ اس کو میں نے اپنا ہر انداز سیکھایا ہے۔۔۔ شاہد صاحب ابراہیم صاحب کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولے تھے۔۔۔

بکواس نہ کرو۔۔ ان کی بات سن کر ابراہیم صاحب بس اتنا ہی بول سکے تھے ۔

جان ایک نہ ایک دن جانی ہے اور جس دن میں نہیں ہوں گا اس دن تم ایم-زی کو خود الفا بولو گئے کیونکہ وہ میرا الفا ہے۔۔ شاہد صاحب کرسی کی پشت سے ٹیک لگا کر اکڑ کر بولے تھے۔۔

حال۔۔۔۔

ابراہیم صاحب نے فوراً سے آنکھیں کھولی تھی اور وہ سر کو جھکائے رونے لگے تھے۔۔۔۔

الفا تم مجھے کس مقام پر چھوڑ کر گئے ہو۔۔۔ اٹھ جاؤ یار خان کو تمہاری ضرورت ہے۔۔ ابراہیم صاحب روتے ہوئے بول رہے تھے ۔۔ اور وہ شاید پہلی بار ایسے روئے تھے۔۔۔۔ جب کیسی نے ان کے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا۔۔۔ انہوں نے فوراً سر اٹھایا تھا۔۔۔ وہ اس آہٹ کو اچھے سے جانتے تھے۔۔۔۔ انہوں نے موڑ کر نہیں دیکھا تھا۔۔ جبکہ مقابل ان کے ساتھ بیٹھ گیا تھا۔۔۔۔

آپ ابھی تک گئے نہیں ادھر سے۔۔۔ وہ سامںے دیکھتا بولا تھا ۔۔

تم ادھر کیا کر رہے ہو۔۔ ابراہیم صاحب سامںے دیکھتے بولے تھے۔۔۔

اگر یہ ہی سوال میں آپ سے کروں۔۔ کہ آپ ابھی تک ادھر کیا کر رہے ہیں ۔۔۔ نیلی آنکھیں اب کی بار ابراہیم صاحب کی طرف موڑی تھی۔۔۔ جبکہ اس کی بات پر ابراہیم صاحب زخمی مسکراہٹ کے ساتھ سر جھکا گئے تھے۔۔۔

وہ صحیح کہتا ہے تم اس نے تمیں اپنا ہر انداز سکھایا ہے۔۔۔ ابراہیم صاحب نے اپنی ایش گرے آنکھیں سے اس کی نیلی آنکھوں کو دیکھا تھا۔۔۔ جب ماسک کے پیچھے چھپے چہرے پر زخمی مسکراہٹ نے جگہ لی تھی۔۔۔

تم ادھر کیوں آئے تھے۔۔۔ ابراہیم صاحب کافی دیر خاموش رہنے کے بعد بولے تھے ۔۔۔

الفا نے ہمشہ ایک بات سیکھائی تھی۔۔۔ اگر وہ کبھی نہ رہے تو آپ کو اکیلا نہ چھوڑوں۔۔۔ کیونکہ ان کہ نا ہونے سے سب سے زیادہ دو لوگ ٹوٹیں گے ۔۔ ایک آپ اور ایک ان کی بیٹی جزا۔۔۔ ایم-زی خاموش نظروں سے قبر کی طرف دیکھ کر بولا تھا۔۔۔

اور پتا ہے اس نے کیا کہا تھا جب وہ نہیں رہے گا تو ایک شخص ٹوٹ جائے گا۔۔۔۔ اور پھر وہ کیسی کے قابو نہیں آئے گا۔ تب وہ شخص ایک ایسا زخمی بھیڑیا ہو گا جو اپنے دشمنوں کو چیڑ کر رکھ دے گا اور کوئی اس کے راستے میں نہیں آ سکتا۔۔ ابراہیم صاحب ایم-زی کی طرف دیکھتے بولے تھے۔۔۔ جب ایم-زی نے نظریں چوڑا لی تھی۔۔۔ اور انسوں اس کی آنکھوں سے نکلے تھے۔۔۔ ابراہیم صاحب نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا اور اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔۔۔

اٹھ جاؤ الفا۔۔۔۔ ابراہیم صاحب نے اس کے سامنے اپنا ہاتھ کیا تھا ۔۔ جب ایم-زی نے اپنی آنکھوں کو سختی سے بند کیا تھا۔۔۔۔

جب تک الفا کے خون کا بدلہ نہیں لوں گا۔۔۔ تب تک میں یہ ٹائٹل نہیں لوں گا۔۔۔ ایم-زی یہ کہتا اٹھ کھڑا ہوا تھا۔۔۔

••••••••••••

مسٹر آغا ایک بات  یاد رکھنا میری۔۔۔ اگر عزیزہ کی آنکھوں میں آنسوں آپ کی وجہ سے آئے نہ تو اپنے ہاسپٹل میں اگلا اپوائنٹمنٹ آپ کا ہو گا۔۔۔۔۔ شاہد صاحب آغا آفریدی کے سامنے بیٹھے بولے تھے جبکہ عزیزہ ایک طرف بہت مان سے کھڑی تھی ۔۔۔

یار مجھے ایک بات بتاؤ مجھے رشتہ دے رہے ہو یا دھمکی ۔۔۔ آغا صاحب تھوڑا آگے کی طرف جھک کر شاہد صاحب سے بولے تھے۔۔

رشتہ ہی دے رہا ہوں مگر اگر تم نے اس کو ذرہ بھی تکلیف  دی ۔۔ اپنے ہی ہاسپٹل میں اڈیمٹ ہو گے تم۔۔۔ شاہد صاحب روب سے بولے تھے ۔۔ جبکہ عزیزہ دبہ دبہ سا ہنسی تھی۔۔۔۔

بھئی بہت خطرناک سالا مل رہا ہے مجھے۔۔۔ آغا صاحب نے ہاتھ اٹھا دے تھے۔۔۔ جب شاہد صاحب مسکرائے تھے اور عزیزہ کا قہقہہ لاؤنج میں گونجا تھا۔۔۔

عزیزہ نے اگلے ہی لمحے آنکھ کھولی تھی۔۔۔۔ انسوں پھر سے آنکھوں کی زینت بنے تھے۔۔۔ تبھی آغا صاحب بھی کمرے میں داخل ہوئے تھے

۔۔ وہ پہلے ہی بہت مشکل سے عزیزہ کو شاہد صاحب کی طرف سے لے کر آئے تھے۔۔۔۔

عزیزہ کیوں اتنا روتی ہو دیکھو ایک دن میں تم نے اپنی آنکھوں کا کیا حشر کیا  ہے۔۔۔ تمہیں نہیں پتا الفا تمہاری آنکھوں میں انسوں برداشت نہیں کرتا تھا۔۔۔ کیوں اس کی روح کو تکلیف دے رہی ہو۔۔۔ آغا صاحب انکے سامنے بیٹھتے بولے تھے۔۔۔۔

آپ بھی جانتے ہیں وہ میرے لیے خون کے رشتہ سے بڑھ کر تھے۔۔۔  میں کیوں نہ روں ۔۔۔ مجھے لمحہ لمحہ وہ یاد آتے ہیں ۔۔۔ عزیزہ روتے ہوئے بولی تھی۔۔۔

عزیزہ ۔۔۔۔ آغا صاحب نے ان کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا تھا۔۔۔

آپ کو پتا ہے آغا مجھے سب سے زیادہ کس بات کی تکلیف ہو رہی ہے میرا دل کٹ رہا ہے ۔۔۔ شاہد بھائی نے کبھی کیسی کی عزت کی طرف انگلی بھی نہ اٹھائی تھی۔۔ انہوں نے نہ جانے لڑکیوں کی عزت کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے کیا کیا اقدامات کیے تھے۔۔۔ اور آج ان کی ہی بیٹی بے آبرو ہو گئی۔۔۔۔ ان کی معصوم سی بیٹی درندوں کی نظر ہو گئی ۔۔ یہ تو ناانصافی  ہوئی نہ۔۔۔ عزیزہ سسکیاں لیتے رو رہی تھی۔۔۔ آغا صاحب نے آگے بڑھ کر ان کے انسوں صاف کیے تھے ۔۔۔

مجھے سے غلطی ہو گئی  ۔۔ میں اگر جان گئی تھی کہ رحیان سویرا میں انٹرسٹڈ ہے تو مجھے اس کا رشتہ مانگ لینا چاہے تھے۔۔ میں اس کا اور سویرا کا رشتہ کر دیتی تو آج وہ ہم سب میں ہوتی۔۔ حالت اور ہوتے۔۔۔۔ عزیزہ اپنا چہرہ ہاتھوں میں چھپا کر پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھی۔۔۔ جب آغا صاحب نے اپنی زندگی کو اپنے آغوش میں لیا تھا۔۔۔ انہوں نے کہاں عزیزہ کو کبھی روتے دیکھا یا رونے دیا تھا آج عزیزہ کا ایک ایک آنسو آغا صاحب کو اپنے دل پر گرتا محسوس ہو رہا تھا۔۔۔۔

جس کی آنکھوں میں تم نے آنسوں نہ آنے دیے  آج اس ہی بہن کو رولا گئے تم الفا۔۔۔۔ آغا صاحب بہت مدہم آواز میں بولے تھے۔۔۔۔۔

••••••••••••••

دوراب ابھی گھر آیا تھا۔۔ جب سامنے امل بیگم بیٹھی نظر آئی تھی ساتھ ہی نور اور آمنہ تھی۔۔۔ آج پہلی بار اس کے گھر میں اتنی خاموشی تھی۔۔

امل بیگم نور اور آمنہ تینوں کی ہی آنکھیں رو رو کر سوج گئی تھی۔۔۔ جبکہ روحا بیگم ان تینوں کے لیے پانی لے کر آ رہی تھی۔۔۔۔  جب ان کی نظر دوراب پر پڑی تھی ۔۔۔

دوراب۔۔۔ روحا بیگم نے اس کو دیکھ کر پکارا تھا۔۔ ان کی آواز سن کر امل بیگم بھی ہوش کی دنیا میں آئی تھی اور اٹھ کر فوراً دوراب کی طرف بڑھی تھی۔۔۔۔

دوراب ۔۔۔ دوراب ۔۔۔ جزا کا پتا چلا۔۔۔ میری انعم کی جزا کو لئے ہو تم۔۔۔۔۔  امل بیگم روتے ہوئے پوچھ رہی تھی۔۔۔۔

تائی آمی۔۔۔ وہ جلد مل جائے گی آپ خود کو سنبھالیں یہ کیا حال کر رکھا ہے آپ نے اپنا۔۔۔ نور کو اور آمنہ کو کون سنھبالے گا اگر آپ یوں ٹوٹ گئی تو۔۔۔ دوراب امل بیگم کو گلے لگاتا بولا تھا۔۔۔۔ جبکہ روحا بیگم نے اپنے آنسوں کو صاف کیا تھا۔۔۔ صبح سے شام ہونے کو آئی تھی۔۔ نہ نور اور آمنہ نے حلق سے ایک گھونٹ پانی کا اتارا تھا نہ امل بیگم نے۔۔

دوراب میری انعم۔۔۔ وہ روتے ہوئے بولی جا رہی تھی۔۔۔  جبکہ ںور اور آمنہ  نڈھال سی صوفے پر بیٹھی تھی۔۔ ان کو تو ابھی بھی یقین نہیں آ رہا تھا۔۔۔ یہ سب ہو گیا ہے۔۔۔ سویرا ، انعم بیگم ، خدیجہ بیگم ، شاہد صاحب یہ چاروں ایک لمحے میں دنیا سے منہ موڑ گئے ہیں ۔۔ جزا کا کچھ پتا نہیں وہ زندہ ہے یا مر گئی۔۔۔۔

پلیز خود کو سنبھالیں تائی آمی۔۔۔ دوراب ان کو اپنے ساتھ لگائے صوفے کی طرف بڑا تھا۔۔۔۔  اور ان کو صوفے پر لے کر بیٹھ گیا تھا۔۔۔۔۔

جزا کو ڈھونڈ لائیں دوراب ۔۔۔۔۔ نور کی نڈھال سی آواز دوراب کی سماعت سے ٹکرائی تھی۔۔۔۔

نور میری بچی۔۔۔ روحا بیگم نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا تھا جو آگ کی طرح تپ رہا تھا۔۔۔ انہوں نے فوراً اس کے ماتھے اور منہ پر ہاتھ رکھا تھا۔۔ نور کو بہت تیز بخار چڑا ہوا تھا۔۔ روحا بیگم نے آمنہ کے ماتھے پر ہاتھ رکھا تھا۔۔۔ اس کا ماتھا بھی تپ رہا تھا۔۔ مگر اس کی بند آنکھوں میں کوئی جنش نہ ہوئی تھی ۔۔  انہوں نے اس کا چہرہ تھپ تھپایا تھا ۔۔

آمنہ ۔۔۔۔ روحا بیگم کی پریشان آواز لاونج میں گونجی تھی۔۔۔ دوراب فوراً اپنی جگہ سے اٹھا تھا۔۔۔

آمنہ آنکھیں کھولو۔۔۔۔ دوراب اس کے چہرے کو تھپ تھپا رہا تھا۔۔۔ جبکہ روحا بیگم دوراب کو پانی کا گلاس پکڑنے لگی تھی جب ان کی نظر نور کے وجود پر گئی تھی جو کہ ڈھلا پر چکا تھا۔۔۔

انہوں نے فوراً گلاس دوراب کے ہاتھ میں دیا اور نور کی طرف جھکی تھی۔۔۔

نور میری جان آنکھیں کھولو ۔۔ وہ اب نور کے چہرے کو تھپ تھپا رہی تھی۔۔۔  دوراب اور روحا بیگم آمنہ اور نور کو سنھبالنے کی کوشش میں تھے جب احسن صاحب اور کامران صاحب سٹیڈی سے باہر آئے تھے ان کی آوازیں سن کر۔۔۔

دوراب پہلے آمنہ کو لے کر اس کے کمرے میں گیا تھا۔۔۔ اس کو بیڈ پر لیٹا کر واپس ایا  تھا۔۔۔ اور فوراً نور کو اٹھا کر آمنہ کے کمرے کی طرف بڑھا تھا۔۔۔۔ جبکہ روحا بیگم امل بیگم کو سنھبالے ان کے کمرے کی طرف لے کر جا رہی تھی اور احسن صاحب نے ڈاکٹر کو فون کیا تھا۔۔۔۔

بچیاں کیسی ہے ڈاکٹر ۔۔۔ جیسے ہی ڈاکٹر ان کو چیک  کر کے ہٹی تھی جب روحا بیگم نے سوال کر ڈالا تھا۔۔۔۔

دیکھیں آپ لوگ فکرمند نہ ہوں۔۔۔ میں نے دونوں کو انجیکشن لگا دیا ہے۔۔۔ صبح تک بخار کم ہو جائے گا۔۔۔ بس بچوں کو سٹریس والے ماحول سے دور رکھیے گا۔۔۔ اور مسز احسن کو بھی سٹریس سے دور رکھیں اور تینوں کو ٹائم سے کچھ کھلا بھی دیں۔۔۔۔ ڈاکٹر اپنے پروفیشنل انداز میں بولتی روحا بیگم کے سامنے تین پرچیاں کر چکی تھی۔۔ جن پر نور، آمنہ ، اور امل بیگم کی میڈیسین لکھی تھی۔۔۔۔

آئیں میں آپ کو باہر تک چھوڑ دیتا ہوں۔۔۔۔۔ روحا بیگم کی بجائے وہ پرچیاں دوراب نے پکڑی تھی ۔۔ اور پھر ڈاکڑ کو چھوڑنے باہر گیا تھا۔۔۔

•••••••••••••••

وہ کب سے اپنے کمرے کی بلکہنی میں ریلنگ کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھا تھا۔۔۔۔ آنکھوں میں آنسوں تھے۔۔۔ چہرہ آنسوں سے بھیگا ہوا تھا ہاتھ میں ڈھیروں تصویریں تھی۔۔۔۔ کیسی میں سویرا ہنس رہی تھی کیسی میں اپنی دوست سے کوئی بات کر رہی تھی۔۔ کیسی میں اپنے گھر کی کھڑی میں کھڑی تھی۔۔۔ کچھ تصویریں دوراب کی شادی کی بھی تھی۔۔۔ یہ سب تصویریں رحیان نے چھپ کر لی تھی۔۔۔۔  ان دو سالوں میں نہ جانے وہ اس کی کس کا ادا پر نہیں مرا تھا۔۔۔۔ اس نے بار بار سویرا کو شہزاد سے دور رہنے کا کہا تھا۔۔۔۔۔ مگر وہ نہیں سن رہی تھی۔۔۔۔ اس کی تصویریں دیکھتا ایک آنسوں پھر سے اس کی آنکھوں سے گرا تھا۔۔۔۔

تم نے کیوں نہ مانی میری بات ۔۔۔۔ اگر تم میری بات مان جاتی تو آج مجھ پر زندگی اتنا ظلم نہ کرتی سویرا ۔۔۔۔۔ وہ روتے ہوئے بولا تھا۔۔۔۔

تمہارا ہجر دے کر زندگی نے مجھے میری برداشت سے زیادہ ازمایا ہے ۔۔۔۔ وہ مسلسل اس تصویر کو دیکھتے بولا تھا۔۔۔

جب اغا صاحب اس کے کمرے میں اس کے پاس آ کر بیٹھے تھے۔۔۔ رحیان نے فوراً تصویریں نیچے کر دی تھی۔۔ اور سر جھکا لیا تھا۔۔۔

رحیان کیوں خود کو تکلیف دیتے ہو۔۔ خود کے حال پر ترس نہیں آ رہا تمہیں ۔۔۔۔ آغا صاحب نے اپنے اس بیٹے کو دیکھا تھا جس کے چہرے سے مسکراہٹ جدا نہ ہو تھی۔۔ اج کیسے چپ کر گیا تھا۔۔۔۔

اگر میں یہ کہوں کہ زندگی کو ترس نہ آیا مجھے پر ۔۔۔ رحیان سیاہ ہوتے آسمان کی طرف دیکھ کر بولا تھا۔۔

رحیان بیٹا۔۔۔۔۔ آغا صاحب نے کچھ۔ بولنا چاہا تھا۔۔۔

آپ جانتے ہیں یک طرفہ محبت میں تا عمر کا ہجر کیسا ہوتا ہے۔۔۔۔ رحیان آغا صاحب کی طرف دیکھ کر بولا تھا۔۔۔۔

بیٹا زندگی ایک انسان پر ختم نہیں ہوتی ۔۔۔ آغا صاحب نے اس کی طرف دیکھ کر بولا تھا ۔

مگر زندگی بس ایک ہی انسان ہو سکتا ہے۔۔۔۔ محبت بس ایک ہی انسان سے ہو سکتی ہے ۔۔۔ زندگی سے بڑھ کر بس ایک ہی انسان کو چاہا جا سکتا ہے ۔۔ اور وہ میں کر چکا ہوں۔۔۔۔ رحیان پھیکا سا مسکرایا تھا ۔۔۔

رحیان ایسی باتیں نہ کرو۔۔۔ دیکھنا تمہیں بھی کیسی کی محبت ہیل کر دے گئی۔۔۔ آغا صاحب نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا۔۔۔۔

میں اب کیسی لڑکی کی زندگی میں نہیں جانا چاہتا ۔۔اور نہ کیسی لڑکی کو اپنی زندگی میں لانا چاہتا ہوں۔۔ میں صرف اس کو تکلیف دوں گا اس کے آنسوؤں کی وجہ بنوں گا۔۔۔۔ ٹوٹا دل بس چب سکتا ہے محبت نہیں کر سکتا ۔۔۔۔ اور میرے سامنے اس بات کا ذکر بھی مت کیجئے گا کہ میں کیسی اور لڑکی کے ساتھ اپنی لائف سپنڈ کرنے کا سوچوں ۔۔۔۔رحیان خشک آنکھوں سے آغا صاحب کی طرف دیکھتے بولا تھا۔۔۔

مگر بیٹا زندگی ایسے کیسے گزرے گی۔۔۔ کیسی ہمسفر کی ضرورت تو ہوتی ہے۔۔۔۔ آغا صاحب نے اس کو سمجھنا چاہا تھا۔۔۔

اس کی یادیں ہیں میری ہمسفر، اس کا ہجر ہے میرا ہمسفر ، میں اس کے ہجر میں زندگی گزاروں گا۔۔۔ اور دیکھے گا اس کے ہجر میں ہی میری زندگی کو قضا ملے گئی۔۔۔۔ رحیان کی آواز میں کچھ ایسا تھا کہ آغا صاحب بس اس کو دیکھ کر رہ گئے تھے۔۔۔۔

رحیان ۔۔۔۔۔ آغا صاحب بس اتنا ہی بول سکے تھے۔۔۔

یار آغا صاحب ۔۔۔ آپ کو پتا ہے مجھے اب جینے کی طلب نہیں رہی ۔۔ میں بس سویرا کا بدلہ لینا چاہتا ہوں ۔۔۔ اور جس دن میں اس میں کامیاب ہو گیا۔۔۔ پھر بیشک مجھے ایسی لمحے موت آ جائے مجھے افسوس نہیں ۔۔۔ رحیان بہت سکون سے بولا تھا۔۔۔۔

تم ایسی باتیں کیوں کر رہے ہو رحیان ۔۔۔ تمہارے آگے ایک زندگی پڑی ہے۔۔۔ آغا صاحب نے اس کے بازو کو پکڑ کر کہا تھا۔۔۔

کون سی زندگی کس زندگی کی بات کر رہے ہیں آپ مجھے سے۔۔ رحیان آغا نے آج سویرا شاہد کا نہیں اپنی زندگی کا جنازہ اٹھایا تھا۔۔۔۔ وہ سویرا شاہد کو نہیں اپنی زندگی کی میت کو کندھے پر سجا کر قبرستان لے کر گیا تھا۔۔ رحیان آغا اپنی زندگی کو سپردے خاک کر کے آیا ہے۔۔۔۔ رحیان اپنے سینے پر انگلی سے دستک دیتے بولا تھا۔۔۔۔

رحیان تم۔۔۔۔ آغا صاحب نے کچھ بولنا چاہا تھا۔۔۔۔

میں اس سے یکطرفہ محبت میں سارا ہجر گزار لوں گا ڈیڈ مگر کبھی بھی اس جگہ کیسی اور کو نہیں لے کر آؤ گا جہاں اس کو لے کر آنے کی خواہش تھی۔۔۔ رحیان مضبوط لہجے میں بولتا آغا صاحب کو چپ کروا گیا تھا۔۔۔۔ آغا صاحب کو تو اندازہ بھی نہ تھا۔۔ ان کا بیٹا محبت کہ معاملے میں ایسا ہو گا۔۔۔۔

••••••••••••••••

شہزاد ابھی گھر آیا تھا جب سامنے صوفے پر بیٹھے اکرم صاحب پر اس کی نظر پڑی تھی۔۔۔۔ وہ اپنے کمرے میں جانے لگا تھا جب اکرم صاحب کی آواز نے اس کے قدم روک دیے تھے۔۔۔

کدھر تھے تم کل رات سے۔۔۔۔۔ اکرم صاحب کی گرجدار آواز پورے آفندی مینشن میں گونجی تھی۔۔۔۔۔

کیوں کیا ہوا۔۔۔۔ شہزاد ان کی طرف دیکھتے بولا تھا۔۔۔۔۔

تمہیں پتا ہے تمہاری ماں کا تمہارے ماموں ، ممانی اور تنہاری کزن سویرا کا کل رات قتل ہوا ہے۔۔۔۔۔ اور جزا لاپتا ہے۔۔۔۔ اکرم صاحب اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولے تھے۔۔۔  جبکہ نظریں اس کے سر پر لگی چوٹ ، شرٹ پر لگے خون اور ہاتھ پر لگے خون پر تھی۔۔

او اچھا ۔۔۔۔۔ شہزاد بس اتنا ہی بولا تھا۔۔۔

یہ تمہارے کپڑوں پر خون اور سر پر چوٹ کیسے؟؟؟ اکرم صاحب اپنی جگہ سے اٹھے بولے تھے۔۔۔

وہ بس کچھ ۔۔۔ شہزاد کچھ بولنے لگا تھا جب اکرم صاحب بولے تھے۔۔۔

اپنی گن دیکھاؤ ۔۔۔۔ اکرم صاحب نے ہاتھ اس کے آگے کیا تھا۔۔۔۔۔

کیوں آپ کو میری گن کیوں دیکھنی ہے۔۔۔ شہزاد باپ کی طرف دیکھتا بولا تھا۔۔۔ جب اگلے ہی لمحے اکرم صاحب کا ہاتھ بلند ہوا تھا اور اس کے ساتھ ہی ایک آواز پورے منیشن میں گونجی تھی ۔۔۔۔۔۔

چٹاخ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اکرم صاحب کے ہاتھ نے شہزاد کے منہ پر نشان چھوڑ دیا تھا۔۔۔۔۔

بغیرت انسان ۔۔۔۔ تمہیں حیا نہ آئی گھر میں ہی نقب لگایا تم نے۔۔۔۔ اپنی ماں کا قتل کر ڈالا اتنے اندھے ہو گئے تھے تم۔۔۔۔۔۔ تمہیں پتا بھی ہے تم کس کو مار کر آئے ہو۔۔۔۔ آرمی کے ایجنٹ کو اس کے گھر میں مار کر آئے ہو ۔۔ اکرم صاحب اس کا گریبان پکڑے غصے سے بول رہے تھے۔۔۔۔

آپ کو یہ سب کیسے پتا چلا ۔۔۔۔۔ شہزاد منہ کھولے باپ کر دیکھ رہا تھا۔۔۔

مجھے صبح ہی تمہاری ماں اور اس کے گھر والوں کے قتل کا پتا چلا تھا۔۔۔ میں ادھر گیا۔۔۔ اور پھر آ کر ساری معلومات آکھٹی کی تھی۔۔۔ جس میں تمہاری کار رات گیارہ بجے سے پونے ایک بجے تک شاہد الف کے گھر کے باہر کھڑی تھی ۔۔۔ اور تمہارے ساتھ نواز پونے بارہ بجے شاہد الف کے گھر کی طرف گیا تھا۔۔۔۔ اور پھر تم لوگ جزا کو لے کر باہر نکلے تھے۔۔۔ یہ سارا سوسائٹی کیمرا میں ریکوڈ ہوا تھا۔۔۔۔ اکرم صاحب غصے سے بولتے اس کو دیکھ رہے تھے ۔۔۔۔۔

آپ ۔۔۔ شہزاد ابھی کچھ اور بولتا جب ایک اور تھپر اس کے منہ پر پڑا تھا۔۔۔۔

تمہیں اہنی ماں کو مارتے حیا نہ آئی تھی ۔۔۔ اکرم صاحب غصے سے چیلائے تھے۔۔۔

آپ کو کیا ہو گیا ہے اگر مار دیا ہے تو۔ بیوی کی محبت زیادہ یاد نہیں آ رہی۔۔۔ شہزاد  باپ کی طرف دیکھ کر بولا تھا۔۔۔

جیسٹ شٹ اپ ۔یو جیسٹ شٹ اپ شہزاد۔۔ اکرم صاحب نے اس کو شہادت کی انگلی دیکھتے وارننگ دی تھی۔۔۔۔

آپ کون سا ان سے محبت کرتے تھے جو آپ کو اتنا دکھ ہو رہا ہے۔۔۔۔ شہزاد چہرے پر مسکراہٹ سجائے بولا تھا۔۔۔۔

دفع ہو جاؤ ادھر سے۔۔تمہیں پتا بھی ہے تم اپنے لیے کون سی مصیبت کو دعوت دے چکے ہو۔۔ اگر کل کو تم برا پھس گئے تو اس کے ذمہ دار تم خود ہو گے احمق انسان۔۔۔ ۔۔ اکرم صاحب غصے سے اس کو گھورتے بولے تھے۔۔۔

شہزاد اپنے کمرے میں جانے لگا تھا جب اس کی نظر سامنے ریلنگ کے ساتھ کھڑے حدید پر گئی تھی۔۔۔ جو ہاتھ میں کافی کا مگ لیے ایک ایک گھونٹ بھر رہا تھا۔۔۔۔۔ شہزاد اس کو نظر انداز کرتا اس کے پاس سے گزارنے لگا تھا جب حدید بولا تھا۔۔۔۔

ویل نائس سلیپ ۔۔۔۔ حدید یہ کہہ کر سیڑھیاں اترا تھا اور باہر لون کی طرف بڑھا تھا۔۔۔

جبکہ شہزاد فون پر ایک میسج ٹائپ کرتا اپنے کمرے میں گیا تھا۔۔ اور کچھ دیر میں وہ فریش ہو کر کپڑے چینج کر کے اپنی کار کی چابی لے کر وہ گھر سے باہر چلا گیا تھا۔۔ جبکہ اکرم صاحب سخت نظروں سے اس کو جاتا دیکھ رہے تھے ۔۔۔۔

•••••••••••

کیا ہوا ہے یار تم اس وقت اچانک  کیسے آئے ہو ۔۔ سب ٹھیک ہے؟؟؟ نواز اس کے سامنے وائن گلاس رکھتا بولا تھا۔۔۔ جس کو شہزاد نے اٹھا کر ایک سانس میں ہی ختم  کیا تھا۔۔۔۔۔

ٹھیک ۔۔ کچھ ٹھیک نہیں ہے۔۔۔ شہزاد غصے سے گلاس واپس رکھتا بولا تھا۔

کیوں کیا ہوا۔۔۔ تم نے تو جزا کو برباد کرنا تھا کل رات وہ تمہارے پاس تھی پھر بھی تو ٹھیک نہیں ۔۔۔۔ نواز اس کی طرف دیکھتے بولا تھا۔۔۔۔

وہ بھاگ گئی۔۔۔۔ میں  اس کو ہر جگہ ڈھونڈا سمجھ نہیں آ رہی اس کو زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا ۔۔۔ شہزاد غصے سے گلاس میں شراب انڈیلتا بولا تھا ۔۔۔

کیا۔۔۔۔ کیا بکواس کر رہے ہو تم۔۔۔۔ وہ کیسے بھاگ گئی۔۔۔۔ شہزاد اگر وہ پولیس کے پاس پہنچ گئی ہم دونوں کے لیے عذاب بن جائے گا ۔۔۔ نواز شہزاد کو گھورتا بولا تھا۔۔۔۔

میں بکواس کر رہا ہوں میں ہر جگہ اس کو دیکھ چکا ہوں آس پاس کے سب پولیس سٹیشن کے قریب بھی اس کو ڈھونڈا ہے۔۔ کوئی جگہ نہیں جو میں نے چھوڑ دی ہو۔۔ اور اگر پولیس کے پاس پہنچ بھی گئی تو کیا ہو گا۔۔۔ چند ٹکوں پر ان کا منہ بند کروا دیں گئے۔۔ شہزاد اپنے ماتھے پر ہاتھ رکھتا بولا تھا۔۔۔

تم مجھے اب بتا رہے ہو۔۔ اس ٹائم تمہاری عقل کہاں تھی جب وہ بھاگی تھی۔۔۔ تب کیوں نہیں کونٹیکیٹ کیا تم ںے ۔۔۔ نواز اس کو گھورتے ہوئے بولا تھا۔۔۔

سب کچھ اتںا اچانک ہوا مجھے سمجھ ہی نہ آئی ۔۔۔۔ شہزاد چیر کر بولا تھا۔۔۔

میں اپنے ادمیوں کو اس کو ڈھونڈنے پر لگا چکا ہوں کیا تم بھی اپنا کوئی قابل آدمی ہائر کر سکتے ہو اس کام کے لیے۔۔۔  شہزاد نواز کو دیکھتا بولا تھا۔۔

ہاں ضرور ۔۔۔ ویل ہو گئی تو لاہور میں ہی آخر کتںا بھاگ سکتی ہے وہ۔۔۔۔ نواز یہ کہتے اٹھا تھا ۔۔ اور فون پر کیسی کا نمبر ڈائل کرنے لگا تھا۔۔۔۔

کچھ دیر میں کال اٹھا لی گئی تھی۔۔۔

مجھے تم سے ایک کام ہے۔۔ کام۔ ہو جانے پر منہ مانگی قیمت ملے گئی۔۔۔ نواز فوراً بولا تھا۔۔۔

حکم کریں سر۔۔۔ مقابل منہ مانگی قیمت کا سن کر جھٹ سے بولا تھا۔۔۔

ایک لڑکی کی تصویر بھیج رہا ہوں۔۔۔ پورا لاہور آس پاس کے علاقے بے شک پورا پاکستان چھان مارو وہ لڑکی ہر صورت میں چاہیے زندہ یا مردہ جیسے بھی ملیے۔۔۔ نواز یہ بول کر فون رکھ چکا تھا۔۔۔

تصویر دو اس کی مجھے۔۔۔ نواز شہزاد کی طرف دیکھتے بولا تھا۔۔۔ جب شہزاد نے اس کو فوراً سے ایک تصویر سینڈ کی تھی۔۔ نواز وہ تصویر آگے بھیجتا اپنی جگہ پر آ کر بیٹھا تھا ۔۔

یار مجھے سمجھ نہیں آ رہی راتوں رات یہ بات جنگل میں پھیلی ہوئی آگ  کی طرح پھیل کیسے گئی۔۔۔ شہزاد کچھ سوچتے ہوئے بولا تھا۔۔۔

شاہد ہمارے جانے کے بعد ادھر کوئی آیا ہو گا۔۔۔۔ نواز سگریٹ جلاتا بولا تھا۔۔ جب نوریز بھی ادھر ہی آ گیا تھا۔۔۔

کیا ہو رہا ہے گائز۔۔۔ نوریز آتے ساتھ ان دونوں کو دیکھتا بولا تھا۔۔

کچھ نہیں بس ایک معاملہ حل کر رہے تھے۔۔۔۔ نواز نوریز کو دیکھتا بولا تھا۔۔۔

کیوں کیا ہوا ہے۔۔ اور شہزاد تم کیوں اتنے پریشان ہو۔۔۔ نوریز کرسی پر بیٹھتا بولا تھا۔۔۔

کچھ نہیں یار۔۔۔ شہزاد نے سر پیچھے کی طرف لٹکایا تھا۔

کبھ نہیں بہت کچھ ہوا ہے۔۔ نواز شہزاد کو گھورتے بولا تھا۔۔۔

اب دونوں منہ سے بھی کچھ پھوٹو گے یا بس پہلیاں ہی بجھواتے رہو گے ۔۔۔ نوریز ان دونوں کو سخت گھوری  سے نوازتا بولا تھا۔۔

یار دراصل بات کچھ ایسی ہے کہ کل ہم لوگ شہزاد کے مامو کی طرف گئے تھے۔۔ میں نے کچھ سال پہلے شہزاد سے سویرا مانگی تھی صرف ایک رات کہ لیے جو کل رات شہزاد نے مجھے دی اب ادھر معاملات کچھ خراب ہوئے اور اس میں ہمیں شہزاد کی ممانی، مامو اور مدر کو مارنا پڑا ۔۔۔۔۔ نواز اتنا بول کر چپ ہو گیا تھا جبکہ نوریز حیرت سے شہزاد کو دیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔

تم نے اپنی ماں کو مار ڈالا۔۔۔۔ ابھی نواز آگے کچھ بولتا جب نوریز کی حیرت میں ڈوبی آواز ان دونوں کی سماعت سے ٹکرائی تھی۔۔۔

تو اور کیا کرتا۔۔ ان کو اپنی موت کا پروانہ لکھنے کے لیے چھوڑ دیتا؟؟۔۔ شہزاد چیر کر بولا۔۔۔

اور سویرا کے ساتھ کیا کیا ہے تم نے۔۔۔ نوریز نواز کی طرف دیکھتے بولا تھا ۔۔

کچھ نہیں جو میں کرتا ہوں۔۔۔ ایک نشہ تھا پورا کر لیا اس سے۔۔۔۔ نواز کرسی کی پشت سے ٹیک لگا کر بولا تھا۔۔۔

اس کے بعد کیا کیا۔۔کدھر ہے وہ اور ائی تھنک اس کی ایک بڑی بہن بھی ہے اس کا کیا کیا ہے تم دونوں نے۔۔ نوریز نواز کو حیرت سے دیکھتے بولا تھا۔۔۔

مار دیا میں نے۔۔۔۔ نواز کی جگہ شہزاد بولا تھا۔۔۔۔

تم دونوں مذاق کر رہے ہو نہ؟؟ بکواس کر رہے ہو نہ؟؟ نوریز کو ابھی تک یقین نہیں آ رہا تھا۔۔۔

ہم کیوں بکواس کریں گے یا مذاق کریں گے۔ اوپر سے جزا کو ادھر سے اٹھا کر لائے تھے وہ ہاتھ سے نکل گئی ۔۔ مل ہی نہیں رہی۔۔ اور اصل ڈر اس بات کا ہے وہ اگر زندہ بچ گئی تو ہم دونوں کے لیے مصیبت ہو جائے گئی کیونکہ اس کی آنکھوں کے سامنے سب کچھ کیا ہے۔۔۔نواز نوریز کو آنکھیں دیکھا کر بولا تھا۔۔۔

تم اپنی بکواس بند ہی رکھو نواز تو بہتر ہو گا۔۔۔ نوریز نواز کی طرف دیکھتا بولا تھا۔۔۔۔

اور تم دی شہزاد اکرم اتنی اتنی سی بھی انسانیت نہیں بچی تھی۔۔۔۔ ایک تو تم نے اپنی ماں کو مار ڈالا اور ساتھ ہی ساتھ اس معصوم کو بھی مار دیا ۔۔۔۔ جس نے تو ابھی  زندگی دیکھنی تھی۔۔۔ نوریز شہزاد کی  طرف افسوس سے دیکھتا بولا تھا۔۔۔ اس کی آنکھوں میں شہزاد اپنے لیے نفرت بخوبی دیکھ سکتا تھا۔۔۔

تمہیں کیا ہو رہا ہے اگر اس کو مار دیا تو۔۔۔ مجھے بس ایک بار اس کے حسین سے کھلنا تھا دل بھلانا تھا۔۔۔ بس وہ شوق پورا ہو گیا تو میرے کس کام کی تھی وہ۔۔تو بس پھر اس کو مار دیا شہزاد نے۔۔۔۔ نواز یہ بول کر جیسے ہی چپ ہوا تھا نوریز کا زور دار تھپڑ اس کے منہ پر پڑا تھا۔۔۔۔

مجھے لگا تھا تم دونوں میں انسانیت باقی ہو گئی۔۔۔ ابھی تم دونوں مکمل درندے نہیں بنے ہو گے مگر میں غلط تھا۔۔۔ تم دونوں درندے ہی نہیں گدھ بھی ہو ۔ جن کا ماس کھا کھا کر نہ دل بھرتا ہے نہ نظر۔۔ اور جب بھوک زیادہ ہو تو اپنی نسل بھی نوچ کھاتے ہیں۔۔۔ منہوس ہو تم دونوں ۔۔۔ ذرا خیال نہ آیا تم دونوں کو کہ کیا کر رہے ہو۔۔ کیا ہوس کا نشہ اتنا ہی سر چڑھ گیا تھا۔۔ ۔۔ نوریز  ان دونوں پر پھٹ پڑا تھا ۔۔ نواز کے پرسینل فلیٹ میں اس وقت صرف نوریز کی آواز گونج رہی تھی باقی دونوں کو سانپ سونگھ گئے تھے وہ بس خاموش کھڑے نوریز کا یہ روپ دیکھ رہے تھے۔۔۔۔۔  

تم اپنے بارے میں کیا۔۔ اس سے پہلے نواز کچھ بولتا نوریز نے اپنے ہاتھ کو اٹھ  کر اس کو چپ کیا تھا۔۔۔

میں جو بھی ہوں جو بھی کرتا ہوں۔۔۔ مگر کم سے کم نواز عثمان تمہاری طرح ایک معصوم لڑکی کو اس کی ہی بہن کے  سامنے بےآبرو کر کے اس کو مارنے کے لیے کیسی کے آگے پیھنکتا نہیں ہوں۔۔۔ اور نہ ہی تمہاری طرح ہوں شہزاد اکرم کہ اپنی ہی ماں کو جان سے مار ڈالوں اس کے ہی خاندان پر گندی نظر رکھوں اپنی ہی کزن کو بےآبرو کرواؤں کیسی اور سے اور اس کو جان سے مار ڈالوں اور ایک لڑکی کی آنکھوں کے سامنے اس کا سارا خاندان صفحہ ہستی سے مٹا دوں۔۔۔۔ میں تم دونوں جیسا بغیرت اور بےحس ابھی نہیں ہوا۔۔۔ نوریز یہ کہہ کر ادھر سے واپس جانے کے کیے موڑا تھا۔۔۔۔ جبکہ نواز اور شہزاد کا ایسا آئینہ دیکھا گیا تھا کہ وہ دونوں کچھ لمحے بول ہی  نہ سکے تھے۔۔۔۔

اور ہاں شہزاد ۔۔۔ تم نے آج تک سب  بہت منافعے کے سودے کیے ہیں نہ۔۔ مگر افسوس زندگی کے ساتھ تم سے بڑا خسارے کا سودا آج تک کیسی نے نہ کیا ہو گا۔۔۔۔۔ مبارک ہو شہزاد اکرم تم نے اپنی جنت اپنے ہاتھوں سے  جلائی ہے دنیا میں اور انصاف کے دن جنت کی بھیک نہ مانگنا اچھے نہیں لگو گے۔۔۔۔ نوریز یہ کہہ کر ادھر سے چلا گیا تھا۔۔ جبکہ شہزاد کو اپنا دم گھٹتا محسوس ہوا تھا اس نے فوراً اپنی شرٹ کے اوپر کے دو بیٹن کھول دیے تھے۔۔۔۔۔

•••••••••••••

وہ کب سے لاہور کی سڑکوں پر بے مقصد گاڑی دورا رہا تھا۔۔۔ دل میں ایک امید تھی۔۔۔ وہ بس اس کو مل جائے ۔۔۔ سڑک کے کیسی  کنارے کھڑی اس کو نظر آ جائے اور وہ اس کو ان درندوں سے بھری دنیا سے کہیں دور لے جائے ۔۔۔

اس کے دونوں ہاتھ سٹیرنگ پر تھے  جن میں سے ایک ہاتھ میں اس نے پینڈنٹ پکڑ رکھا تھا ۔۔۔ اس کی آنکھوں سرخ ہو رہی تھی جیسے وہ خود میں اٹھتا طوفان روک رہا ہو۔۔۔ ابھی تو اس نے دل میں جگہ بنائی تھی محبت کے لیے ابھی تو اس نے محبت کو محسوس  کرنا شروع  کیا تھا۔۔۔ کب سے وہ اس محبت سے نظریں چوڑتا آیا تھا۔۔۔ ابھی تو اس نے اس محبت کے راستے پر قدم رکھنے کا سوچا تھا۔۔۔ اور کیسے ایک ہوا آئی اور سب کچھ لٹ گیا۔۔۔

تنگ آ کر اس نے کار ایک طرف کھڑی کی تھی اور سر سٹیرنگ پر ٹکا دیا تھا۔۔۔۔

کہاں ہو تم ۔۔۔ میرے دل میں محبت کو جگا کر کدھر چلی گئی ہو تم۔۔۔ لوٹ آؤ کہیں سے آ جاؤ ۔۔۔ میں کہاں ڈھونڈوں تمہیں ۔۔۔۔ یہ الفاظ آج زوریز ابراہیم بول رہا تھا۔۔۔ جو گرلز الرجک مین کے نام سے مشہور تھا۔۔۔ وہ آج ایک لڑکی کی محبت میں بےبس ہوا اس کو سڑکوں پر ڈھونڈ رہا تھا۔۔۔۔  وہ ڈرائیونگ سیٹ کی پشت سے ٹیک لگاتا آتی جاتی گاڑیوں کو دیکھ رہا تھا۔۔۔ جب اس کا فون بجانا شروع ہوا تھا۔۔ اپنی ماں کا نمبر دیکھ کر وہ کال اٹھانے لگا تھا تبھی کال ڈراپ ہو گئی تھی۔۔۔ اس نے وقت دیکھا تو احساس ہوا تھا وہ کب کا نکلا ہوا ہے ۔

کار سٹارٹ کرتے روخ گھر کی طرف موڑ چکا تھا۔۔

urdunovelnests••••••••••••

ایم-زی اس وقت ادھر آنا مناسب ہے؟؟ سکندر نے ایم-زی کی طرف دیکھا تھا۔۔  وہ دونوں اس وقت شاہد الف کے گھر کے سامنے کھڑے تھے۔۔۔۔

صبح وقت ہو گا؟؟ ایم-زی سکندر کی طرف دیکھ کر دوٹوک انداز میں بولا تھا جب سکندر نے کندھے اوچکے تھے ۔۔۔

وہ دونوں قدم قدم بڑھاتے اندر کی طرف بڑھے تھے۔۔۔۔

میں اوپر دیکھتا ہوں تم نیچھے دیکھو ۔۔ وہ سکندر کو آوڈر دیتا  سیڑھیاں چڑھ چکا تھا۔۔۔

سب سے پہلے کمرے کا اس نے دروازہ کھولا تھا۔۔۔ اندر سامان بکھرا تھا۔۔ بیڈ خون سے بھرا پڑا تھا ایک طرف میرون رنگ کا ڈوپٹہ گیرا تھا۔۔  بیڈ کی سامنے والی دیوار پر سویرا کی تصویر لگی تھی جس میں اس نے ایک بلی کو اٹھا رکھا تھا۔۔۔ وہ تصویر بہت خوبصورت تھی۔۔۔ ایم-زی کو وہ تصویر دیکھ کر سویرا کا سڑیچر پر پڑھا وجود یاد آیا تھا۔۔۔۔  وہ ایک نظر اس کمرے پر دوڑاتا باہر نکل گیا تھا۔۔۔

اب اس کا روخ ساتھ والے کمرے کی طرف تھا ۔۔۔ اس نے جیسے اس کمرے کا دروازہ کھولا ۔۔۔ تو سامنے سلیقے سے سیمٹا ہوا کمرا تھا۔۔۔ اس کو وقتی طور پر حیرت ہوئی تھی۔۔۔ مگر پھر اس نے کمرے کے اندر قدم رکھا تھا۔۔ ہر چیز اپنی جگہ پر سلیقے سے تھی۔۔۔  سامنے سٹیڈی ٹیبل پر لیپ ٹوپ کے ساتھ ایک فوٹو فریم تھا۔۔۔ جس میں وہ شہد رونگ آنکھوں والی اور شہد رنگ بالوں والی خوبصورت سے لڑکی کھڑی تھی ۔۔۔  ایم-زی کو اپنا دل دھڑکتا محسوس ہوا تھا۔۔۔ اس نے فوراً نظریں ہٹا لی تھی۔۔۔

تو یہ ہے خان کے بیٹے کی امانت ۔۔۔ اور الفا کی بیٹی۔۔۔۔ ایم-زی نظروں کو اس تصویر سے ہٹائے بولا تھا۔۔۔ مگر دل کچھ بغاوت کر گیا تھا۔۔۔۔ وہ فوراً اس کمرے سے نکالا تھا۔۔ اس کو لگا تھا اگر وہ کچھ دیر اور ادھر کھڑا رہا تو اس کا دل اس کے کانوں میں بجنے لگے گا۔۔۔۔ اوپر بنے باقی کے دو روم بھی وہ چیک کر چکا تھا سب کچھ اپنی جگہ پر تھا۔۔ وہ۔ سیڑھیاں اترتا نیچے آیا تھا۔۔۔۔  جب سامنے سکندر کھڑا تھا۔۔۔

کچھ خاص بات پتا چلی۔۔۔ ایم-زی نیچے آتے ساتھ بولا تھا۔۔۔۔

نہیں سب رومز، سٹیڈی، ڈائینگ روم گیسٹ روم ویسے کےویسا ہیں بس ادھر خون خرابا ہے۔۔۔ سکندر بولتے  ہو ایم-زی کو دیکھ رہا تھا۔۔۔

اور اوپر بس سویرا کے روم میں خون ہے اور اس کا روم بکھرا ہے ۔۔۔ ایم-زی یہ کہہ کر روکا تھا۔۔۔۔

عجیب ہے۔۔۔ نہ کوئی چیز ادھر ادھر کی بس مارا اور قتل کیا۔۔۔ اور جزا کو لے گئے۔۔۔ سکندر پریشان سا بولا تھا۔۔۔

یہ معاملہ کیسی  بات کے بدلے کا لگ رہا ہے۔۔۔ جس کی نظر چار جانیں ہوئی ہیں ۔۔۔۔ ایم-زی فرش پر پڑھے خون کے نیشانوں کو دیکھتے بولا تھا۔۔۔۔ 

ویسے خان یہ سب صاف کیوں نہیں  کرنے دے رہے۔۔۔ سکندر کچھ سوچتے بولا تھا۔۔۔ کیونکہ ابراہیم  صاحب نے گھر کو صاف کرنے سے سختی سے منع کیا تھا۔۔۔ انہوں نے جنازہ بھی بیک سائیڈ پر رکھوایا تھا۔۔۔

پتا نہیں ۔۔۔۔ ایم-زی کندھے اوچکے کر باہر نکل کی طرف بڑھا تھا جب سکندر بھی اس کے پیچھے ہو لیا تھا۔۔ وہ دونوں دروازہ بند کرتے واپس جانے کے لیے موڑے ہی تھے جب سامنے کھڑے شخص کو دیکھ کر ان کی سانس روک گئ تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

••••••••••••••

 

جاریہے۔۔۔۔۔۔۔

 

Must share your feedback in comment section and also share this episode with your friends..... Show some support readers


For reading other episode of dasht-e-ulfat click on the given click below

 

Comments