Urdu Novel Dasht-e-Ulfat by Shazain Zainab Episode 16


بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

 ناول

 

دشتِ الفت

 

شازین زینب 

 

Ep# 16

 urdunovelnests

صبح سے دوپہر ہونے کو آئی تھی جزا مسلسل اس جگہ پر بیٹھی روئی جا رہی تھی آنسوں تھے کہ روکنے کا نام نہیں لے رہے تھے ۔۔ ملازمہ  تینوں بار اس کے کمرے میں آ کر کھانے کا پوچھ چکی تھی مگر اس نے ایک بار بھی ہاں نہ بولا تھا۔۔۔ رو رو کر اس کی آنکھیں سوج چکی تھی۔۔۔۔ اپنے بازوؤں کو گھوٹونوں کے گرد باندھے کر بیٹھی تھی۔۔ آنسوں سے چہرہ بہگا ہوا تھا ۔۔ بال الجھے پڑے تھے۔۔۔

بابا ماما واپس آ جائیں جزا اکیلی ہو گئی ۔ میں اپنی بہن کو بچا نہ سکی ماما بابا۔۔۔ میں آپ کو بچا نہ سکی۔۔۔ میں اپنی پھوپھو کو بھی بچا نہ سکی۔۔۔وہ روتے ہوئے بولی جا رہی تھی۔۔۔

بابا آپ نے مجھے کبھی نہ رونے دیا۔۔۔ دیکھیں نہ آج آپ کی جزا کو زندگی نہ کتنا رولایا ہے ۔۔ لوٹ آئے نہ میرے انسوں صاف کرنے والا کوئی نہیں ۔۔۔ اس کے آنسوؤں میں شدت آئی تھی۔۔۔۔

اس کی آنکھیں دھاندلی ہونے لگی تھی۔۔۔ اس نے آنکھیں صاف کرنے کے لیے اپنے ہاتھ اٹھانے چاہیے مگر اس کے وجود میں ہمت نہ رہی اور اگلے ہی لمحے وہ بے ہوش ہو گئی تھی۔۔۔۔

کچھ دیر بعد اس کے کمرے کا دروازہ ںوک ہوا تھا مگر کوئی جواب نہ آیا تھا۔۔۔ ملازمہ نے دروازے کو پھر سے نوک کیا تھا۔۔ جب ایک اٹھارہ سال کی خوبصورت سے لڑکی ادھر آئی تھی اور اس ملازمہ کو ادھر سے  ہھیج کر کمرے کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی تھی۔۔۔۔۔ سامنے بے ہوش پڑی جزا پر اس کی نظر گئی تو فوراً  اس کے پاس  بھاگ کر آئی تھی۔۔۔۔

آپی ، آپی

وہ لڑکی جزا کو ہلا رہی تھی جو اپنی آنکھیں نہیں کھول رہی تھی۔۔

هغه به ما ووژني.

(وہ مجھے جان سے مار ڈالے گا۔۔۔۔) وہ لڑکی اپنی جگہ سے اٹھتے ہوئے بولی تھی اور باہر کی طرف بھاگی تھی۔۔۔ اس کا روخ بیسٹ کے کمرے کی طرف تھا۔۔۔

urdunovelnests••••••••••

وہ اپنے کمرے میں شیشے کے سامنے کھڑا تھا ۔۔۔ اس کے گریبان کے اوپر کے دو بٹن ٹوٹے ہوئے تھے۔۔۔ سامنے سینے پر کچھ ناخنوں کے  نشان اس کے سینے پر تھے۔۔۔ اس کو دھیان فوراً سے اس زخمی شیرنی کی طرف گیا تھا ۔۔۔  اور پر اگلے ہی لمحے اس کی آنکھوں میں قہر دوڑ آیا تھا۔۔۔ اس کو اس کی زخمی شہد رنگ آنکھیں یاد آئی تھی ان آنکھوں میں آج کتنی تکلیف تھی کتنی اذیت تھی۔۔۔ جب پہلی بار اس نے اس کی آنکھوں کو دیکھا تھا۔۔ تب اس کی آنکھوں میں چمک تھی زندگی جینے کی لگن تھی ۔۔ پر شوخ تھی اس کی آنکھیں اور آج اس کی آنکھوں میں تکلیف تھی۔۔۔ اذیت تھی۔۔ اپنے کو کھو دینے کا غم تھا ۔ زخمی تھی اس کی آنکھیں اس کے وجود سے بھی زیادہ ۔۔۔۔ نہ جانے کیوں اس کی حالت کو دیکھ دیکھ کر بیسٹ کو خون کھول رہا تھا۔۔۔

وہ اپنی ہی سوچوں میں گم تھا جب اچانک ایک لڑکی اس کے کمرے کا دروازہ کھول کر اندر آئی تھی ۔۔۔ اور فوراً سے باہر نکل گئی اور دروازہ نوک کیا تھا۔۔۔۔ وہ جو اپنے ڈریسنگ روم میں کھڑا تھا اس کے ماتھے پر بہت سے بل پڑھے تھے۔۔۔۔

وہ لڑکی دروازے کے سامنے کھڑی  ہانپتی ہوئی اس کی اجازت کا انتظار کر رہی تھی ۔۔ اور اندر وہ فوراً اپنی الماری میں سے ایک نئی شرٹ نکال کر پہنتا ڈریسنگ روم سے باہر آیا تھا۔۔۔

اندر آؤ گل۔۔۔ وہ  غصے سے بولا تھا ۔۔ جبکہ باہر کھڑی گل کو اپنی جان جاتی محسوس ہوئی تھی ۔۔ خود پر آیت الکرسی پڑھ کر پھونکتے وہ مرے مرے قدم اٹھا کر اندر داخل ہوئی تھی ۔۔۔ جہاں وہ سامنے صوفے پر بیٹھا اندر آتی گل کو غصے سے گھور رہا تھا ۔۔۔

تمہیں ابھی تک کیسی کے روم میں جانے کا سلیقہ نہیں آیا۔۔ کتنی بار کہا ہے ایسے کیسی کے کمرے میں منہ اٹھا کہ نہ چلی جایا کرو لڑکی ۔  بیسٹ کی رعب دار آواز کمرے میں گونجی تھی ۔۔

سوری۔۔۔وہ لڑکی معصومیت سے بولی تھی ۔۔ موٹی اوشن گرین انکھیں ، ڈارک براؤن بال جن کو ولف کٹنگ میں کاٹا گیا تھا ۔ سرخ و سفید رنگت وہ بہت خوبصورت اور معصوم سی تھی۔۔۔

اگلی دفعہ ایسا کچھ ہوا نہ تو سوری بولنے کے لیے منہ  میں زبان اور دروازہ کھولنے کے لیے وجود کے ساتھ ہاتھ اور چلنے کے لیے وجود کے ساتھ پاؤں نہیں ہوں گے۔۔۔ بیسٹ اس کو سخت نظروں سے دیکھتا وارننگ دے رہا تھا جبکہ گل اپنے ہاٹھ پاؤں کو دیکھ رہی تھی اور منہ پر اس نے ہاتھ رکھ دیا تھا کہ جیسے وہ ابھی اس کی زبان کاٹ دے گا۔۔۔

بولو کون سا جن دیکھ لیا تھا جو یوں بھاگتی ہوئی آئی ہو۔۔۔ بیسٹ اپنی جیب سے فون نکلتا بولا تھا۔۔۔

وہ میں آپی کے کمرے میں گئی تھی تو۔۔۔ وہ ایک لمحے کے لیے روکی تھی۔۔۔

تو کیا گل آگے بولو ۔۔۔۔ بیسٹ فوراً سیدھا ہو کر بیٹھا تھا چہرے پر فکر مندی صاف ظاہر ہو رہی تھی ۔۔۔

وہ بے ہوش ہیں ۔۔۔ وہ بس اتنا ہی بول پائی تھی۔۔ جب بیسٹ اپنی جگہ سے اٹھا تھا اور دروازے کی طرف بڑھا تھا ۔۔ جبکہ گل تو اس کی تیزی دیکھ کر مںہ کھول کر رہ گئی تھی۔۔۔۔

اتنی فکر مندی وہ بھی ایک لڑکی کے لیے بیسٹ  کو۔۔۔ گل منہ ہی منہ میں بربراتی باہر کی طرف بڑھی تھی۔۔۔۔

urdunovelnests•••••••••••••

بیسٹ جزا کے کمرے میں جیسے داخل ہوا تھا سامنے وہ بےہوش تھی۔۔۔ وہ فوراً سے آگے بڑھا تھا اور اس کو اپنی باہوں میں اٹھا کر بیڈ کی طرف بڑھا تھا۔۔۔ اس کو وہ بیڈ پر لیٹا کر ابھی ہٹا ہی تھا جب گل  کمرے میں آئی تھی۔۔۔

گل جلدی سے پانی دو مجھے اور اس کے ہاتھ پاؤں کو ملو ۔۔ بیسٹ فوراً بولا تھا۔۔۔ گل گلاس میں پانی ڈال کر  فوراً بیسٹ کی طرف بڑھی تھی اس کو گلاس پکڑا کر بیڈ  پر بیٹھی تھی اور جزا کا ہاتھ اپنی ہاتھ میں لے کر اس کو ملنے لگی تھی۔۔۔۔ جبکہ بیسٹ نے اس کے منہ پر تھوڑا سا پانی پھینک تھا۔۔۔ ڈاکٹر کو وہ پہلے ہی بولا چکا تھا۔۔ اتنی دیر میں ڈاکٹر بھی ادھر  آ گئی تھی ۔۔۔۔

Sono svenuti a causa del troppo stress. Ti ho detto prima che non permetterò loro di prendere i sari.

(بہت زیادہ سٹریس لینے کی وجہ سے یہ بےہوش ہوئی ہیں ۔۔۔ آپ کو پہلے بھی کہا تھا ان کو سڑیس نہیں لینے دیجئے گا۔۔۔) ۔۔۔۔ ڈاکٹر جزا کو چیک کرنے کے بعد بولی تھی۔۔۔۔

Com’è adesso? Non c’è problema.

(یہ اب کیسی ہے۔۔ کوئی پریشانی کی بات تو نہیں ۔۔)۔۔۔ بیسٹ جزا کی طرف دیکھتا فکرمندی سے بولا تھا ۔۔۔ جبکہ پاس کھڑی گل بس اس کو دیکھے جا رہی تھی منہ کھول کر۔۔۔

Non preoccupatevi, ci vorrà ancora qualche giorno per riprendersi. Ma ora hanno un disperato bisogno di riposo. E anche buon cibo.

(پریشانی کی بات نہیں مزید کچھ دن لگیں گے ان کو یہ ٹھیک ہو جائیں گئی۔۔ مگر فلحال ان کو آرام کی سخت ضرورت ہے۔۔ اور اچھی خوراک کی بھی۔۔۔) ڈاکٹر اپنے پروفیشنل انداز میں بولی تھی ۔۔

Ci prenderemo cura di loro, dottor۔

(ہم ان کا بہت اچھے سے خیال رکھیں گے ڈاکٹر ۔)۔۔ اس سے پہلے بیسٹ کچھ بولتا پاس کھڑی گل بولی تھی۔۔ اور بیسٹ نے فوراً اس کو سخت گھوری سے نوازا تھا۔۔۔۔

ڈاکٹر جا چکی تھی۔۔۔ گل ابھی تک جزا کے کمرے میں ہی تھی۔۔ بیسٹ اس کو سخت ہدایت دے کر گیا تھا کہ وہ جزا کے پاس اس کے کمرے میں رہے ۔۔ وہ کب سے جزا کے پاس بیٹھی تھی اس نے جزا کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے رکھا تھا ۔۔ وہ ساتھ سامنے لگی ایل-سی-ڈی پر کوئی ایکشن مووی دیکھ رہی تھی جب اس کو اپنے ہاتھ میں پکڑے جزا کے ہاتھ میں حرکت محسوس ہوئی تھی ۔۔ اس نے فوراً سے جزا کی طرف دیکھا تھا ۔۔ جزا اپنی آنکھیں کھولنے کی کوشش کر رہی تھی ۔۔

جزا آپی ۔۔۔ گل نے جزا کے گال کو ہلکے سے تھپکا تھا۔۔ جیسا اپنی پوری انکھیں کھول چکی تھی وہ کمرے کو لا علمی سے دیکھ رہی تھی۔۔ جب اس کی نظر اپنے پاس بیٹھی لڑکی پہ پڑی تھی۔۔۔

جزا نے اٹھنا چاہا تھا لیکن وہ اٹھ نہ پائی تھی جسم میں کمزوری کی وجہ سے۔۔۔گل نے اس کا ہاتھ تھام کر اس کے اٹھنے میں مدد کی تھی۔۔۔

آپ ٹھیک ہیں ؟؟ گل جزا کی طرف فکر مندی سے دیکھتے بولی تھی۔۔

م۔۔ میں ٹھیک ہوں۔۔۔ جزا بامشکل بول پائی تھی۔۔۔ جبکہ گل نے اس کے سامنے پانی کا گلاس کیا تھا۔۔۔

شکریہ۔۔۔ گل کے ہاتھ سے پانی کا گلاس لے کر جزا ہونٹوں کے ساتھ لگا چکی تھی۔۔۔

کیسا محسوس کر رہی ہو آپ ۔ کیا بہتر محسوس کر رہی ہو آپ۔۔۔۔ گل اس کے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر اس کو دیکھتے ہوئے بولی تھی۔۔۔ وہ اس کا بخار دیکھ رہی تھی کیونکہ کچھ دیر پہلے جزا کا جسم گرم تھا۔۔۔

پتا نہیں ۔۔۔ جزا مرجھائی ہوئی آواز میں بولی تھی۔۔۔ دور خیالوں میں کچھ راتوں پہلے کا ایک منظر پھر سے پردے پہ آیا تھا۔۔ آنکھوں میں پھر سے آنسوں نے بسیرا کیا تھا۔۔۔۔

کیا میں کچھ دیر کے لیے تنہا رہ سکتی ہوں؟۔۔ جزا گل کی طرف دیکھتی بولی تھی۔۔۔

ضرور مگر پلیز زیادہ مت رونا۔۔ طبیعت پھر سے خراب ہو جائے گی۔۔۔ اس کی انکھوں میں انسو دیکھ کر گل کو اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ کچھ دیر اپنا غم نکالنا چاہتی ہے اس لیے وہ کمرے سے باہر چلی گئی تھی یہ کہہ کر۔۔ وہ جیسے ہی باہر نکلی تھی بیسٹ اس کے سامنے آ کر روکا تھا۔۔۔

تم جاؤ یہاں سے۔۔۔ اس سے پہلے گل کچھ بولتی بیسٹ بولا تھا۔۔۔  اور گل سر جھکا کر ادھر سے چلی گئی تھی۔۔ بیسٹ نے دروازے کی طرف قدم بڑھایا ہی تھا جب اس کو کمرے سے ایک اواز آتی سنائی دی تھی۔۔۔

گل کے کمرے سے جاتے ہی جزا نے اپنے ہاتھوں کی طرف دیکھا تھا۔ وہ نہ جانے کتنی دیر سے اپنے ہاتھوں کو دیکھ رہی تھی کچھ تلاش رہی تھی کچھ ایسا جو خود بھی نہ جانتی تھی کیا تھا اس کے نصیب میں اتنی اذیت اتنی تکلیف جس درد جس اذیت جس تکلیف کا اس نے کبھی گم ہی نہ کیا تھا وہ اس کا نصیب بنی تھی اس نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ اپنی بہن کو بے ابرو ہوتے اپنی انکھوں کے سامنے دیکھے گی کیا یہ تکلیف بھی اس کا نصیب بننا تھا۔۔۔۔ انسو تھے کہ پورے چہرے کو بھگوتے چلے جا رہے تھے۔۔۔۔ ایک کے بعد ایک انسو اس کے ہاتھ کی ہتھیلیوں پہ گرتا چلا جا رہا تھا۔۔۔۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے پورا کمرہ جزا کس سسکیوں سے گونج اٹھا تھا۔۔۔۔

اللہ میں تکلیف میں ہوں میرا دل پھٹ رہا ہے میں کس کو جا کے اپنی تکلیف بتاؤں میں کس کو بتاؤں میرا دل زخمی ہوا ہے میری روح زخمی ہوئی ہے میرے زخم کس کو دکھاؤں میں۔۔۔ نہ کوئی چارہ گر ہے نہ کوئی ہم راز نہ کوئی ہمدرد۔۔۔ تیری یہ دنیا انسانوں سے بھری ہے میرے مالک لیکن میں تنہا ہوں میں تنہا ہوں یہاں میرا تیرے سوا اب کوئی نہیں ہے ۔۔تیرے سوا آج کوئی نہیں جانتا میری تکلیف کو میرے مالک، تیرے سوا آج نہ کوئی ہم راز ہے نہ ہمدرد آج تیرے سوا میرا کوئی نہ رہا میرے مولا۔۔۔ وہ سیسک رہی تھی وہ بلک رہی تھی وہ ترپ  رہی تھی دل کا درد تھا دل کا غم تھا دل میں اذیت تھی دل کی تکلیف تھی وہ زخمی تھی یہ تکلیف کسی صورت کم نہ ہو رہی تھی۔۔۔

یا اللہ تو کسی کو اس کی برداشت سے بڑھ کر نہیں ازماتا مگر یہ تکلیف میری برداشت سے زیادہ ہے میرے مالک میں کیا کروں۔۔۔ یاللہ میں کیا کروں۔۔۔ ایک لمحے میں ۔۔۔۔  ایک لمحے میں سب کچھ ختم ہو گیا سب کچھ۔۔۔۔  وہ بیڈ پر بیٹھی زار و قطار رو رہی تھی۔۔۔۔

بابا ۔۔۔ بابا ۔۔۔۔ کدھر ہیں آپ آئیں نہ آج دیکھیں آپ کی جزا اکیلی ہے۔۔۔ دیکھیں آج آپ کی بہادر بیٹی کیسے ٹوٹی ہے۔۔۔ دیکھیں نہ  آپ کے بھانجے کے ایک بدلے نہ مجھے کتنا زخمی کر دیا ہے بابا۔۔۔۔ دیکھ آج آپ کی جزا رو رہی ہے آپ کو بلا رہی ہے آپ نہیں آ رہے۔۔۔۔ جزا روتے ہوئے بلند آواز میں بولی تھی۔۔۔۔

بابا  میرے روح پر ماما کی موت کا زخم ہے آپ کو کھو دینے کا زخم ہے۔۔۔ اپنی پیاری پھوپھو کے خون کا زخم ہے ۔۔۔ یہ سب مجھے آپ کے بھانجے نے دیے ہیں زخم ۔۔ ان زخموں سے بھی حد نہ ہوئی تو اس نے میری بہن میری آنکھوں کے سامنے بے آبرو کروا دی ۔۔۔ میرے سامنے اس کو مار ڈالا۔۔۔ میں کچھ نہ کر سکی بابا۔۔۔ میں کچھ نہ کر سکی۔۔۔ وہ بلک بلک کر روہ رہی تھی۔۔۔ اس کا دل پھٹ جانے کے قریب تھا۔۔۔۔

اللہ مجھ سے میرے بابا کو تو جدا نہ کرتے آپ ۔۔۔ دیکھیں نہ آج میں بلکل تنہا ہوں مجھے چپ کروانے والا بہت دور چلا گیا مجھ سے۔۔۔ وہ ایسے ہی روتی جا رہی تھی ۔۔ نہ اس کی سسکیاں کم ہو رہی تھی نہ اس کی تکلیف کم ہو رہی تھی۔۔۔  

اس کی سسکیوں کی رونے کی بولنے کی آواز باہر تک آ رہی تھی۔۔۔۔ بیسٹ خاموش کھڑا اس کی ساری اہ و پکار سن چکا تھا۔۔۔ وہ خود کے جذبات پر قابو کرتا واپس پلٹ گیا تھا۔۔۔

urdunovelnests•••••••••••

اس کی نظر مسلسل لیپ ٹوپ  سکرین پر تھی۔۔۔  اور انگلیاں کی بورڈ پر بڑی مہارت سے چل رہی تھی۔۔۔  نظریں اس کی ایک لمحے کے لیے بھی سکرین سے نہ ہٹی تھی۔۔۔ وہ جیسے کیسی کی  لوکیشن ٹریک کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔۔۔  اور اگلے ہی لمحے سکرین پر ایک گرین کلر کا  نوٹیفکیشن ائکن شو ہوا تھا جس پر گرین کلر سے سکسیسفل لکھا ہوا تھا۔۔۔۔ اس نے فوراً سے لوکیشن دیکھی تھی۔۔۔ وہ واقعی ہی دبئی کی تھی۔۔۔۔

تو تم دبئی آئے ہوئے ہو۔۔ حدید منہ میں بربرایا تھا۔۔۔۔۔ وہ اپنی جگہ سے اٹھا تھا ایک دراز کھولا تھا اور اس میں سے ایک چھوٹا سا بوکس نکال کر وہ افس سے باہر نکل گیا تھا۔۔۔

وہ اس وقت  ایک ریسٹورنٹ کے سامنے کھڑا تھا ۔۔

  جوکہ دبئی کا ایک مشہور ریسٹورنٹ ہے ۔۔ حدید نے اپنے CÉ LA VI

قدیم اندر کی طرف بڑھائے تھے۔۔۔ اس وقت اس کے چہرے پر کوئی ماسک نہ تھا انکھوں پر اس نے سیاہ سن گلاسز لگا رکھی تھی۔۔۔  بال نفاست سے سیٹ تھے ادھر موجود لڑکیوں نے نہ جانے کتنی بار اس کی وجاہت سے بھرپور شخصیت کو موڑ موڑ کر دیکھا تھا۔۔ وہ چلتا ہوا ریسٹورنٹ کے اوپن آریا کی طرف آیا تھا۔۔ جہاں ایک لائن میں کچھ ٹیبلز اور چیئرز سیٹ کی گئی تھی اور ان کے اوپر ریڈ کلر کے امبریلا سٹائل شیڈ لگے ہوئے تھے۔۔ جبکہ دوسری  طرف کی ٹیبلز اور چیئرز پر اوپر چت سے چھاؤں تھی ۔۔ دور ایک ٹیبل پر اس کو ایک نام کا کارڈ پڑا نظر آیا تھا۔۔۔ وہ اس ٹیبل کی طرف بڑھا تھا۔۔ ابھی وہاں کوئی بھی موجود نہ تھا۔۔ حدید نے خاموشی سے اپنے جیب سے ایک مائکرو فون نکل کر اس ٹیبل کے نیچے لگا  دیا تھا جو بہت آسانی سے اس ٹیبل کء ساتھ چیپک گیا تھا اور خود وہ اس ٹیبل کے آگے والی ٹیبل پر جا کر بیٹھ گیا تھا۔۔ اس کی کمر اس ٹیبل کی طرف تھی تا کہ بیٹھنے والے کو صرف اس کی کمر نظر آئے نہ کہ اس کی شکل۔۔۔

کچھ ہی دیر گزری تھی جب اس ٹیبل پر دو آدمی آ کر بیٹھے تھے۔۔۔

urdunovelnests•••••••••••••

کیسے ہیں آپ عثمان سلطان صاحب ۔۔۔ سامنے بیٹھا آدمی نے عثمان صاحب کا مکمل نام لیا تھا۔۔۔

حال چال کو چھوڑو لکشمن مجھے یہ بتاؤ کنگ کا کچھ پتا چلا ہے۔۔۔ عثمان صاحب ماتھے پر بل ڈال کے بولے تھے۔۔۔

کنگ تو نکل آیا ہے قید سے۔۔۔ سامنے بیٹھا سانولی رنگت والا لکشمن لاپروائی سے بولا تھا۔۔۔

تمہیں کیسے پتا چلا۔۔۔۔ عثمان صاحب اپنی کرسی پر سیدھے ہو کر بیٹھے تھے۔۔۔ چہرے پر حیرت ہی حیرت تھی۔۔۔

آپ بھول رہیں ہیں عثمان صاحب میں انڈین آرمی کمانڈر ہوں میں ۔۔ لکشمن سامنے پڑے کوفی کے کاپ کو اٹھا کر بولا تھا۔۔۔ جبکہ عثمان صاحب منہ کھولے اس کو دیکھ رہے تھے ۔۔۔

کنگ ابھی کدھر ہے ؟؟  عثمان صاحب حیرت سے اس کی طرف دیکھتے بولے تھے ۔۔

وہ ترکی سے نکل چکا ہے  اور سمندر کے راستے وہ  سسلی پہنچے گا۔۔۔ لکشمن کافی کا گھونٹ بھرتا بولا تھا جبکہ  عثمان صاحب اس کو دیکھ رہے تھے۔۔۔

اور مجھے یہ بتاؤ اگلا مال کب سمگل ہو رہا ہے۔۔۔ لکشمن عثمان صاحب کو دیکھتا بولا تھا۔۔۔

پہلے زیک کچھ سمگل ہونے نہیں دیتا تھا اور اس بار آرمی کے ایجنٹ نے ٹانگ اڑا دی ۔۔۔ عثمان صاحب غصے سے بولے تھے ۔۔

آرمی کا ایجنٹ ؟؟ لکشمن سیدھا ہو کر بیٹھا تھا۔۔۔۔

ہاں آئی اس آئی کا ایجنٹ وہ بار بار ٹانگ اڑا رہا ہے۔۔۔ عثمان صاحب بھی غصے سے بولے تھے۔۔۔

تم لوگوں کا دماغ خراب ہے کیا۔۔۔لکشمن عثمان صاحب کو غصّے سے دیکھتا بولا تھا۔۔۔

ہم نے آئی اس آئی کو دعوت نامہ لکھ کر نہیں بھیجا تھا جو تم ایسے غصے سے دیکھ رہے ہو۔۔۔ عثمان صاحب  اس کو گھورتےہوئے بولے تھے۔۔۔

خیر اب ہمیں چلنا چاہیے ۔۔ عثمان صاحب ریسٹ واچ کو دیکھتے ہوئے بولے تھے ۔۔۔ جبکہ لکشمن اپنی سوچوں میں الجھا ہوا تھا ۔۔۔

وہ دونوں اٹھ کر ادھر سے چلے گے تھے۔۔ جب حدید فوراً اپنی جگہ سے اٹھا تھا۔۔۔ اور اس ٹیبل کے نیچے لگا مائکرو فون اتار کر وہاں سے نکل گیا تھا۔۔ اس نے ان دونوں کی باتیں ان بھی لی تھی اور ریکارڈ بھی کر لی تھی۔۔۔

urdunovelnests•••••••••••••

رحیان کیوں خود کے ساتھ ایسے کر رہے ہو تم۔۔۔۔ آیان رحیان کی طرف دیکھ کر بولا تھا۔۔۔ جس کی آنکھیں سرخ تھی۔۔۔ شیو ہلکی بڑھی ہوئی تھی۔۔۔ بال ماتھے پر بکھرے ہوئے تھے وہ اس وقت بلیک ٹریک سوٹ میں تھا۔۔۔ آیان  بہت مشکل سے آج اس کو اس کے کمرے سے باہر لے کر آیا تھا۔۔ کیونکہ وہ نہ کیسی کا فون اٹھا رہا تھا نہ کیسی کے میسج سین کر رہا تھا۔۔۔ دوراب ، زوریز ، حدید اس کو میسج کر کر کے تھک گئے تھے۔۔۔ جب تنگ آ کر آج انہوں نے آیان کو اس کے پاس بھیجا تھا۔۔۔ کیونکہ آیان کے سامنے رحیان ہمیشہ اپنی بات کھول کر رکھ دیتا تھا۔۔۔

میں کچھ نہیں کر رہا اپنے ساتھ یار۔۔ وہ تھکے ہوئے لہجے میں بولا تھا اور ریسٹورنٹ کی گلاس وال سے باہر کا منظر دیکھ رہا تھا۔۔۔

تم نہ کیسی کی کال اٹھا رہے ہو نہ میسج سین کر رہے ہو نہ کمرے سے نکل رہے ہو اور ابھی تم کچھ نہیں کر رہے۔۔۔ آیان اس کو سخت نظروں سے نوازتے بولا تھا۔۔

میں تم سب کی کالز خود ہی نہیں اٹھا رہا تھا۔۔۔ تم سب پر کام کا برڈن آگے ہی بہت زیادہ ہے۔۔۔ میں تم لوگوں کو اپنی طرف سے پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا ۔۔ رحیان سر جھکا کر بولا تھا۔۔۔ جبکہ آیان منہ کھولے اس کو دیکھ رہا تھا۔۔

شکر کر میں ادھر ہو اگر ادھر زوریز ہوتا وہ تیری چمڑی ادھیڑ دیتا ۔۔ تو نے سوچ بھی کیسے لیا تو ہم سب کو پریشان کر دے گا۔۔ ہم جتنے بھی کام میں الجھے تھے۔۔ تجھ سے بے خبر نہ تھا تو فون نہیں اٹھا رہا تھا۔۔ انکل کو کالز کر کے پوچھا۔۔۔ گھر بھی ائے تھے  تب تجھے انکل نے نیند کی میڈہسن دے رکھی تھی ۔۔ کبھی دوست بھی پریشانی کی وجہ بنے ہیں؟؟ ایک ایک لمحہ ہمیں تیری کمی محسوس ہوئی۔۔ تجھے پتا بھی ہیے ان سب دنوں میں کیا کیا ہوا ہے؟؟ آیان ایک ایک لفظ چبا چںا کر بولا تھا۔۔ رحیان کی بات نے اس کو بہت تکلیف دی تھی۔۔۔  وہ لوگ نہ جانے خود کو کیسے سنبھال کر بیٹھے تھے۔۔ ان کا دل شدید تکلیف میں تھا۔۔۔ اس سارے واقعے نے اس کو خاموش کر دیا تھا۔۔ جو ان سب میں رونق کی وجہ تھا۔۔۔

سوری یار۔۔۔ رحیان آیان کی طرف دیکھ کر بولا تھا۔۔۔ رحیان کی آنکھیں اس کی اذیت چیخ چیخ کر بتا رہی تھی۔۔۔ آیان کو اپنا دل ڈوبتا محسوس ہوا تھا۔۔۔   آیان کو یوں لگا تھا جیسے کیسی نے اس کا دل موٹھی میں لے لیا ہو ۔۔ آیان اور رحیان کے بارے میں لوگ کہتے تھے کہ یہ جڑوا بھائی ہیں مگر ان کے ماں باپ الگ الگ ہیں ۔۔۔  کیونکہ دونوں ہی مزاج اور عادات کے معاملے میں ایک جیسے تھے۔۔۔ آج رحیان کی آنکھوں میں اذیت دیکھ کر آیان کو اپنا دل کٹتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔۔ ایک لمحے کے لیے آیان کی آنکھھیں بھی نم ہوئی تھی۔۔۔ مگر خود پر کنٹرول کرتے وہ اپنے آنسوں اندر لے گیا تھا۔۔۔ وہ ابھی کمزور نہیں پر سکتا تھا ۔  اس کو رحیان کو سنبھالنا تھا۔۔۔

رحیان پلیز خود کے ساتھ ایسے نہ کرو۔۔ ایک انسان کے جانے سے زندگی روک نہیں جاتی۔۔۔ آیان دل پر پتھر رکھ کر بولا تھا۔۔۔ وہ جانتا تھا رحیان سویرا سے کس قدر محبت کرتا تھا۔۔۔

آیان میرے بس میں نہیں ہے یہ سب یار ۔۔۔ میں جانتا ہو ایک انسان کے مر جانے سے خود کو نہیں مارا جاتا زندگی روک نہیں جاتی ۔۔ انسان مر نہیں جاتا ۔ مگر آیان اگر وہ انسان آپ کے پاس زندگی کی وجہ ہو۔۔ ایک لوتی خواہش ہو ۔ اگر وہ چلا جائے تو زندگی کا مقصد ختم ہو جاتا ہے۔۔ آپ خود نہیں مرتے مگر دل مر جاتا ہے۔۔ جزبات مر جاتے ہیں ۔۔ احساسات ختم ہو جاتے ہیں ۔۔ زندگی بے رنگ ہو جاتی ہے ۔۔۔۔ رحیان سامنے  رکھی ریفریشمنٹ ڈرینک کو دیکھتا بولا تھا ۔۔۔

رحیان اگر آس پاس نظر دوڑا کر دیکھو تو جینے کی وجہ مل  جائے گئی۔۔۔ آیان اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بولا تھا۔۔

میرے پاس زندگی کی ایک وجہ ہے آیان تبھی ہی ابھی تک زندہ ہوں سانسیں لے رہا ہوں۔۔۔ رحیان آیان کو دیکھتا بولا تھا۔۔۔

کیا؟؟ آیان سوالیہ نظروں سے اس کی طرف   دیکھتا بولا تھا۔۔۔

شہزاد کی بربادی اس کی موت۔۔۔  رحیان آنکھوں میں خون لیے بولا تھا۔۔۔  جبکہ آیان خاموش سا اس کو دیکھ رہا تھا۔۔۔

جزا ملی؟؟ آیان کو خاموش دیکھ کر رحیان بولا تھا۔۔۔

نہیں  جزا نہیں مل رہی۔۔۔ آیان مایوس سا بولا تھا ۔۔۔

مجھے پہلے جزا کو بچا لینا چاہیے تھا۔۔۔ میں ادھر پہنچ گیا تھا۔۔۔ نہ میں سویرا کو بچا سکا نہ اس کی بہن کو۔۔۔ رحیان کے چہرے پر ندامت ہی ندامت تھی۔۔۔ آیان نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا۔۔۔

رحیان اس میں تمہارا کوئی قصور نہیں ۔۔ وہ سب لکھا گیا تھا وہ ہو کر رہنا تھا ۔۔ آیان اس کی طرف دیکھتے بولا تھا۔۔۔

ہاں۔۔ رحیان نے ایک بھاری سانس خارج کی تھی ۔۔

رحیان پلیز موو آن کرنے کی کوشش کرو۔۔۔ ایسے اپنی زندگی خراب مت کرو یار ۔۔ آیان سر نیچے کر کے بولا تھا۔۔ اس کو پتا تھا وہ رحیان کو کتنے مشکل کام کا بول رہا تھا۔۔۔

موو آن کبھی نہیں ۔۔۔ آیان میری زندگی کے باب میں ابتدائے محبت لکھا گیا تھا۔۔۔ میرے نصیب میں یک طرفہ محبت کا ہجر لکھا گیا تھا۔۔۔ مگر میں اس ابتدائے محبت کے باب کو انتہائے عشق پر ختم  کرو گا ۔۔ رحیان چہرے پر مسکراہٹ سجا کر بولا تھا  جبکہ آیان اس کو دیکھتا رہا گیا تھا ۔۔ یہ وہ رحیان آغا تھا ہی نہیں جس کو وہ جانتا تھا۔۔ جو اس کا کرائم پارٹنر تھا ۔ یہ تو وہ رحیان آغا تھا جو کیسی کی یک طرفہ محبت میں ہجر گزارنے کا خود سے وعدہ کر چکا تھا۔۔۔ یہ تو وہ رحیان آغا تھا جو اپنی یک طرفہ محبت میں کیسی اور کو شراکت دار بنانے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔۔۔ یہ وہ رحیان آغا تھا جو ابتدائے محبت سے شروع ہوئے باب کو انتہائے عشق پر ختم کرنے کا عہد کر چکا تھا۔۔۔

urdunovelnests••••••••••••••

صبح سے شام ہونے کو آئی تھی وہ ایسے ہی اپنے بیڈ پر لیٹی تھی ۔۔ رو رو کر اس کی آنکھیں سرخ ہو چکی تھی۔۔۔ آنسوں  کبھی تھمتے تھے  کبھی پھر سے بہنے لگتے تھے۔۔۔ وہ  رو رو کر تھک گئی تھی۔۔۔ مگر غم تھا کہ کم نہ ہوتا تھا۔۔۔ وہ ایسے ہی بھیگی آنکھوں سے اٹھی تھی۔۔۔ وہ بیڈ سے اتر کر ڈریسنگ روم کی طرف گئی تھی اور ایک نظر ڈریسنگ روم پر ڈال کر واش روم کا دروازہ کھول کر اندر چلی گئی تھی۔۔

وہ چلتی چلتی شاور کے نیچے آ کر کھڑی ہو گئی تھی۔۔۔ وہ لائٹ پیچ کلر کی فروک میں شاور کے نیچے کھڑی بھیگتی چلی جا رہی تھی۔۔ اس کافی دیر ہو گئی تھی وہ ایسے ہی کھڑی ٹھںڈے پانی میں بھیگتی جا رہی تھی۔۔۔ ماضی کے سب منظر اس کی آنکھوں کے سامنے آ رہے تھے۔۔۔۔۔ اس نے آنکھیں بند کر رکھی تھی اب یہ جانا مشکل تھا کہ اس کا چہرہ اس۔ کے آنسو بھگو رہے ہیں یہ پانی ۔۔۔

میں تمہیں پل پل ماروں گا جزا ۔۔۔  ماضی کی ایک آواز اس کی سماعت سے ٹکرائی تھی۔۔۔  جزا نے فوراً آنکھیں کھولی تھی۔۔۔  اس وقت اس کی آنکھوں میں کچھ ایسا تھا جو نیا تھا۔۔۔ نہ اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔۔ نہ اس کی آنکھوں میں بے بسی تھی ۔۔ اس کی آنکھوں میں خون تھا ۔۔ اس کی زخمی شہد رنگ آنکھوں میں انتقام کی آگ تھی۔۔۔

وہ شاور کے نیچے سے اٹھی تھی اور وینٹی کے پاس جا کر کھڑی ہو گئی تھی۔۔ آج نہ جانے کتنے دنوں کے بعد اس نے اپنا چہرہ دیکھا تھا ۔۔ چہرے پر نیل کے نشان تھوڑے کم ہوئے تھے مکمل توڑ پر گئے نہیں تھے۔۔۔ ہونٹ کا زخم بھی کچھ بہتر تھا۔۔۔ اس کے ہاتھ  ٹیپ کے نیچے ہی تھی پانی اس کے ہاتھوں پر گر رہا تھا۔۔ اس نے اپنے ہاتھوں میں پانی بھرا تھا اور پھر منہ پر پھینکا تھا۔۔۔۔

تم نے کہا تھا نہ تم مجھے پل پل مارو گے۔۔۔ دیکھو میں پل پل مر رہی ہوں شہزاد اکرم۔۔۔ مگر یاد رکھنا میں نے بھی کہا تھا میں تمہیں جان سے مار ڈالوں گی۔۔۔۔ اپنی بازی تم کھیل چکے شہزاد اکرم میری باری کا انتظار کرو۔۔ تمہیں تڑپا تڑپا کر نہ مارا تو میں جزا شاہد الف نہیں ۔۔۔ وہ وینٹی پر دونوں ہاتھ رکھ کر سر نیچے کیے بولی تھی۔۔۔۔

تم نے مجھے رلایا ہے شہزاد اکرم۔۔ میں نے تمہیں خون کے آنسو نہ رلایا تو پھر کہنا۔۔۔  میں تمہارے لیے عذاب سے بھی بدتر بن جاؤ گئی شہزاد ۔۔۔ میں تمہیں بتا دوں گئی اگر عورت ذات انتقام پر اوتر آئے تو کیسے تڑپا تڑپا کر مارتی ہیں ۔۔۔ جزا خود کو شیشے میں دیکھتے بولی تھی اپنی نم آنکھوں سے اس نے اب کی بار آنسو  گرنے نہ دیے تھے اس بار اس نے سختی سے اپنے آنسوں کو صاف کیا تھا۔۔۔ آج ایک لڑکی اپنے انسو صاف کر انتقال کے لیے کھڑی ہو گئی تھی۔۔۔ عنقریب کوئی برباد ہو کر صفہ ہستی سے مٹنے والا تھا۔۔۔

وہ فریش ہو کر ڈریسنگ روم میں آئی تھی۔۔ اور ایک بلیک رنگ کا ڈریس نکال کر واپس چلی گئی تھی۔۔۔ 

وہ شیشے کے سامنے کھڑی اپنے لمبے سیاہ بالوں کو برش کر رہی تھی جب اس کے کمرے کا دروازہ نوک  ہوا تھا۔۔

آ جاؤ ۔۔ یک لفظی جواب دیا تھا اس نے۔۔۔

گل کمرے میں داخل ہوئی تھی اس نے ایک نظر پورے کمرے میں ڈالی تھی وہ اس کو کہیں نظر نہیں آئی تھی۔۔ ڈریسنگ روم کا دروازہ کھولا تھا نور چلتی چلتی ڈریسنگ روم کے سامنے روکی تھی اور اس کا منہ حیرت سے کھولا کا کھولا رہ گیا تھا۔۔۔

جزا سیاہ  رنگ کی لونگ فروک پہنے شہد رنگ بالوں کو برش کر رہی تھی میک اپ سے پاک چہرہ ۔۔ وہ اس وقت نکھری نکھری سی لگ رہی تھی۔۔۔ آنکھیں خاموش تھی مگر ان میں ایک خاص چمک تھی۔۔۔ انتقال کی چمک۔۔۔  گل اس کو بس دیکھتی جا رہی تھی۔۔۔ اس کو لگتا تھا وہ بہت خوبصورت ہے۔۔ مگر آج گل کو اپنے سامنے کھڑی لڑکی بہت خوبصورت لگ رہی تھی حد سے زیادہ خوبصورت ۔۔۔

آپ کتنی خوبصورت ہو۔۔۔ گل اس کو دیکھ کر بولی تھی ۔۔۔

عنقریب تمہیں میں بےرحم اور ظالم بھی لگوں گئی۔۔۔ جزا اس کو دیکھتے ہوئے بولی تھی۔۔۔ اور اس کی بات سن کر گل اس کی طرف دیکھنے لگی تھی ۔۔

تمہارا نام کیا ہے ۔۔ جزا اس معصوم سی لڑکی کی طرف دیکھ کر بولی تھی۔۔ ناجانے کیوں اس کو دیکھ کر اس کو سویرا بہت یاد آئی تھی ۔۔

گل۔۔ وہ معصومیت سے بولی تھی۔۔۔

یعنی کہ پھول ۔۔۔ جزا اس کو دیکھ کر بولی تھی۔۔۔

ہاں پھول جس کے ساتھ کانٹے بھی ہیں ۔۔۔ گل جزا کہ آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولی تھی۔۔۔

بہت خوب ۔۔ جزا کو اس کا انداز پسند آیا تھا۔۔۔

میں آپ کا نام آپ کے منہ سے سنا چاہتی ہوں۔۔ گل نے آنکھیں پٹ پٹا کر ایک خواہش رکھی تھی اس کے سامنے ۔۔۔

جزا عنقریب کیسی کے  گناہوں کی سزا ہوں میں ۔۔۔ جزا آنکھیں میں قہر لیے سامنے بلکہنی کی طرف بڑھی تھی ۔۔۔

گل بیسٹ کدھر ہے مجھے اس سے ملنا ہے۔۔۔ جزا بلکہنی سے باہر کا منظر دیکھتے ہوئے بولی تھی۔۔۔ شام میں ڈھلتا روم بہت خوبصورت لگ رہا تھا ۔۔۔ اور وہ اس وقت بلیک لونگ فروک میں اس بلکہنی میں کھڑی پرآنے وقتوں کے روم کی شہزادی لگ رہی تھی۔۔ ایک نہ ڈر ، بہادر اور بےرحم شہزادی ۔۔۔

وہ ابھی پیلس میں نہیں ہے۔۔ گل اس کے ساتھ بالکہنی میں آ کر کھڑی ہوئی تھی۔۔ اس نے  وائٹ پینٹ پر وائٹ شرٹ پہن رکھی تھی اور اس کے اوپر اس نے بروان لونگ لوٹ پہن رکھا تھا بالوں کی اونچی  ٹیل پونی کیے وہ ایک واریر لگ رہی تھی ۔۔

جب آئے مجھے بتا دو گئی مجھے اس سے بات کرنی ہے۔۔۔ جزا گل کی طرف دیکھ کر بولی تھی۔۔

ضرور ۔۔ لیکن پہلے کچھ کھا لو آپ بہت وقت ہو گیا ہے۔۔ زیادہ دیر بھوکی رہو گی تو کمزور پر جاؤ گئی۔ گل یہ کہہ کر کمرے میں واپس گئی تھی ۔جب جزا کچھ سوچتے ہوئے کمرے کی طرف بڑھی تھی۔۔۔

urdunovelnests••••••••••••••

O bella ciao, bella ciao, bella ciao, ciao, ciao

Una mattina mi son alzato

E ho trovato l’invasor

O partigiano, portami via

O bella ciao, bella ciao, bella ciao, ciao, ciao

O partigiano, portami via

Che mi sento di morir.

وہ آج دوپہر ہی میں سسلی پہنچا تھا۔۔۔ اپنے پرانے  ٹھکانے پر آ چکا تھا۔۔ جو کنگ پلیس کے نام سے جانا جاتا تھا ۔۔  اس وقت اس کے لوٹ آنے پر پورے پلیس پر شراب اور موسیقی کا دور چل رہا تھا۔۔۔ اس کے آدمی اٹلی کی بہت خوبصورت کال گرلز کو لے کر آئے تھے رات کو رنگین بنانے کے لیے۔۔۔ کنگ اپنے سربراہی نشست پر بیٹھا تھا اس کے دائیں اور بائیں جانب ایک ایک لڑکی  بیٹھی تھی  اور ان کا لباس انتہا کا شرمناک تھا۔۔۔ جبکہ دوسری طرف کنگ کا بیٹا صارم بیٹھا ہوا تھا۔۔ اور اسکی گود میں ایک لڑکی بیٹھی ہوئی تھی۔۔۔

صارم کی رنگت گندمی تھی۔۔ تیکھے نقوش ، لائیٹ برائیون آنکھیں سیاہ بال جو جیل لگا کر سیٹ کیے گے تھے۔۔ اس نے بلیو کلر کی شڑٹ پہن رکھی تھی جس کے اوپر کے چار بیٹن کھولے تھے۔۔ اور اس کا سینا صاف نظر آ رہا تھا۔۔۔  وہ انتہا کا خوبصورت نہ سہی مگر جاذب نظر شخصیت کا مالک ضرور تھا۔۔

O partigiano

Morir

Ciao, ciao

Morir

Bella ciao, ciao, ciao

O partigiano

O partigiano

Bella ciao, ciao, ciao

E se io muoio da partigiano

O bella ciao, bella ciao, bella ciao, ciao, ciao

E se muoio da partigiano

Tu mi devi seppellir۔

گانے کی ان لائنوں کے ساتھ کنگ کے بیٹے صارم کی آواز بھی گونجی تھی۔ جب اچانک گانے کی آواز  گونجنا بند ہو گئی تھی صارم نے فوراً گردن موڑ کر دیکھا تھا۔۔۔ جبکہ کنگ کے ماتھے پر بل پڑے تھے ۔۔ اور شراب کے نشے میں چور اس کے آدمی ایک لمحے کو روکے تھے۔۔۔ جب ان سب کے کانوں میں ایک گھمیر سی آواز گونجی تھی۔۔۔۔ اس آواز میں جیسے جادو تھا اس نے سب کو اپنے قابو میں لے لیا تھا ۔۔

E seppellire lassù in montagna

O bella ciao, bella ciao, bella ciao, ciao, ciao

وہ اپنی خوبصورت آواز میں گنگناتا پلیس کے دروازے سے اندر داخل ہوا تھا جہاں شراب و شباب کی محفل سجی تھی۔۔۔  اس نے بلیک پینٹ پر بلیک شرٹ پہنی ہوئی تھی جس کے ایک  دو بیٹن کھولے تھے ساتھ اس نے ایک بلیک لونگ کوٹ پہن رکھا تھا۔۔۔ سر پر بلیک کیپ ایسے لی ہوئی تھی کہ سر جھکائے تو چہرہ چھپ جائے اور اُٹھائے تو آنکھیں نظر آئے ۔۔ چہرے پر بلیک ماسک لگا رکھا تھا اس نے۔۔۔ اس کو دیکھ کر ایک بار سب کے رنگ فک ہوئے تھے۔۔۔ سب کو اس کی سبز میں اس وقت قہر صاف نظر آ رہا تھا۔۔۔ کون نہ جانتا تھا اس کو ادھر ۔۔۔ وہ بیسٹ تھا اپنے نام کا ایک۔۔ درندہ صفت انسان ۔۔۔ بہت ظالم ۔۔۔

Seppellire lassù in montagna

Sotto l’ombra di un bel fior

وہ  گنگناتا کنگ کے سامنے جا کر کھڑا ہوا تھا۔۔۔ اور ایک  ستائش بھری نظر سے اس نے کنگ کو دیکھا تھا۔۔۔

تم ادھر کیا کر رہے ہو۔۔۔ کنگ اس کو غصے سے دیکھتا بولا تھا۔۔۔۔

کافی عرصے بعد تم سسلی واپس لوٹے ہو میں تو تمہیں ولکم کرنے آیا ہوں۔ مگر میرے خیال سے تمہیں میرا آنا اچھا نہیں لگا۔۔ بیسٹ اس کو دیکھا بولا تھا ۔۔

بیسٹ ۔۔۔۔ کنگ نے کچھ بولنا چاہا تھا۔۔۔

ویسے داد دینے چاہتا ہوں تمہیں ۔۔۔ بیسٹ اس کے سامنے میز پر بیٹھ کر اس کی آنکھوں میں دیکھتا بولا تھا۔۔۔ جبکہ کنگ کو اپنے گلے میں پھندا ڈالتا محسوس ہوا تھا اس نے بے اختیار اپنے گلے پر ہاتھ رکھا تھا جب بیسٹ نے اس کو مسکراتی نظروں سے دیکھا تھا۔۔۔

بیسٹ ادھر سے چلے  جاؤ ابھی کہ ابھی ۔۔۔ کنگ کی بجائے صارم بولا تھا جب بیسٹ نے خونخوار نظروں سے اس کو دیکھا تھا ۔۔

بڑوں کی بات کے درمیان بچے اپنی بکواس بند رکھتے ہیں تمہیں یہ تمیز کیسی نے نہیں سکھائی ۔۔۔ بیسٹ اس کو سر سے پاؤں تک دیکھ کر بولا تھا۔۔ جبکہ صارم کے تن بدن میں آگ لگ گئی تھی  اس کے منہ سے اپنے لیے بچہ لفظ سن کر۔ 

تم۔۔۔ صارم نے کچھ بولنا چاہا تھا جب کنگ نے اس کو ہاتھ کے اشارے سے خاموش کروایا تھا ۔۔

بیسٹ تم کیوں آئے ہو ادھر۔۔۔ کنگ خود کو نارمل رکھتا بولا تھا۔۔۔

میں تمہیں یہ بتانے آیا ہوں کبیر خاور تم  میری نظر میں آگئے ہو۔۔ اب ذرہ ہوشیار رہنا ۔ یہ قدم تم نے خود اٹھایا ہے کبیر خاور اب ذرہ سنبھل کر رہنا۔۔ میری نظریں ہر وقت تم پر ہیں۔ بیسٹ آنکھیوں میں وحشت لیے بولا تھا۔۔۔۔

بیسٹ اپنی حد میں رہنا۔۔۔ کنگ دبہ دبہ سا چلایا تھا۔۔۔

تم نے ابھی میری حد دیکھی ہی کہاں ہے کبیر خاور ۔۔ تمہیں پناہ دی تھی میں نے ۔۔ اور تم کتنے احسان فراموش نکلے کبیر خاور۔۔۔۔ بیسٹ ٹانگ پر ٹانگ رکھتا بولا تھا۔۔۔

کنگ بولو مجھے بیسٹ۔۔۔۔ کنگ غصے سے اس کو دیکھتا بولا تھا۔۔۔

تم اپنے ان پالتو کتوں کے لیے کنگ ہو گے میرے لیے نہیں ۔۔۔ میں بیسٹ ہوں تمہارا غلام نہیں کبیر خاور۔۔۔ بیسٹ ایک ایک لفظ چبا چبا کر بولا تھا۔۔۔

بیسٹ ہاتھ ملا لو مجھ سے۔۔ اس کام میں میرے ساتھ شامل ہو جاو۔۔۔ کنگ اس کو دیکھتا بولا تھا۔۔

بھیڑیے کتوں سے ہاتھ نہیں ملاتے ۔۔۔  بیسٹ اس کو غصے سے دیکھتا بولا تھا۔۔۔

اور ہاں اپنے آپ کو اب مجھ سے بچا کر رکھنا کبیر خاور تمہارا ایک چھوٹا سا غلط قدم تمہیں میرے ہاتھوں مروا سکتا ہے۔۔۔ بیسٹ یہ کہہ کر اپنی جگہ سے اٹھا تھا۔۔۔

تو خود کو سمجھتا کیا ہے ؟؟  صارم اس کے سامنے آ کر کھڑا ہوا تھا۔۔

وہ ہی جو تو مر کے بھی نہیں بن سکتا۔۔۔۔  بیسٹ اس کو تپا دینے والی نظروں سے دیکھتا بولا تھا۔۔۔

اور ہاں کبیر خاور ۔۔۔ اپنے اس چھوٹے سے بچے کو لگام ڈال لو مفت میں مارا جائے گا۔۔۔ بیسٹ کبیر خاور کی طرف دیکھتا ایک نظر صارم پر ڈال کر بولا تھا۔۔۔۔

بچہ کس کو بولا تو نے؟؟ صارم  نے آگے بڑھ کر بیسٹ کا گریبان کو پکڑنا چایا تھا۔۔۔ جبکہ بیسٹ نے اس کے دونوں ہاتھوں کو اپنے مضبوط ہاتھوں میں لے لیا تھا۔۔۔

تمہیں بولا ہے بچہ۔۔۔ اور اگر دوبارہ گریبان پکڑنے کی ہمت کی تو ہاتھ کاٹ ڈالوں گا۔۔۔۔۔ بیسٹ ایک ایک لفظ چبا کر بولا تھا۔۔۔

میں بچہ نہیں ہوں۔۔۔ صارم غصے سے بیسٹ کی طرف دیکھ کر بولا تھا۔۔

تو بچہ بھی نہیں ہے مرد بھی نہیں ہے تو پھر تو ہے کیا؟ بیسٹ نے اس کو دیکھ کر ایک انکھ ونک کی تھی اور جانے کے لیے واپس پلٹا تھا۔۔۔ جبکہ صارم اپنی اتنی بے عزتی پر سرخ آنکھوں سے اس کو جاتا دیکھ رہا تھا۔۔۔۔

بیسٹ جس طرح آیا تھا ایسی طرح واپسی جا رہا تھا۔۔ اس نے ایک ہاتھ بلند کر کے چٹکی بجائی تھی ۔۔۔

 

Tutte le genti che passeranno

O bella ciao, bella ciao, bella ciao, ciao, ciao

E le genti che passeranno

Mi diranno, “Che bel fior”

Questo è il fiore del partigiano

O bella ciao, bella ciao, bella ciao, ciao, ciao

Questo è il fiore del partigiano

Morto per la libertà

اس کے چٹکی بجاتے ہی گانا جہاں سے روکا تھا وہاں سے دوبارہ شروع ہو گیا تھا۔۔۔ مگر اب کی بار کوئی بھی پہلے کی طرح اس گانے پر جھوم نہیں رہا تھا۔۔۔ وہ چند لمحوں میں سب کے منہ سے زبانیں  کھینچ لے جا رہا تھا۔۔۔۔  اس گانے کی دھن کے ساتھ وہ وسل بجاتا واپس جا رہا تھا ۔۔

urdunovelnests••••••••••••••••••

اس  کی ہمت کیسے ہوئے تھی ادھر آنے کی یہ سیکیورٹی رکھی ہوئی ہے تم نے میرے پیچھے اس پلیس کی۔۔۔  کبیر خاور اس وقت اپنے کمرے میں غصے سے ادھر اُدھر چلتا بول رہا تھا جبکہ صارم اس کے سامنے کھڑا تھا سر جھکا کر۔۔۔

ڈیڈ آج سب سیلیبریشن میں مصروف تھے اس وجہ سے ۔۔۔ صارم نے خود کو بچانے کا بہانہ ڈھونڈا تھا۔۔۔

لعنت ہو تمہاری عقل پر صارم لعنت ہو۔۔۔ کبیر خاور اس کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھ رہا تھا ۔۔۔

آپ یہ بتائے آپ نے اس کا منہ کیوں نہیں توڑا وہ مجھے بچہ بول کر چلا گیا۔۔۔ صارم اپنے باپ کو غصے سے دیکھ رہا تھا ۔۔

شاباش اب اس بات پر بھی اس کا منہ میں توڑوں ۔۔۔ تم نے ہاتھوں میں چوڑیاں پہن رکھی ہیں ۔۔ یا منہ میں زبان نہیں ہے ۔۔ خود کے لیے تو لڑ نہیں سکتے تم اور خواہش تمہاری میری جگہ آنے کی ہے ۔۔ کبیر خاور ایک ایک لفظ چبا کر بولا تھا۔۔۔

آپ ایسے کیسے بول سکتے ہیں ڈیڈ ۔۔ صارم غصے سے ان کی طرف دیکھتا بولا تھا۔۔۔

تو مردوں والا کام کیا ہے تمہارا ۔۔ بارہ باڈی گارڈز کے بغیر تم باہر نہیں جا سکتے نشانا تمہارا ڈھنگ کا نہیں ۔۔۔ جہاں کہیں لڑنا ہو ادھر سے دم دبا کر  بھاگ جاتے ہو۔۔۔ سوائے ایک لڑکی بازی کے کیسی اور چیز پر دھیان ہے تمہارا ۔۔ بس راتیں رنگین کروا لو تم سے۔۔۔ کبیر خاور اس کو غصے سے دیکھتے بولے تھے۔۔

ڈیڈ ۔۔۔ صارم بلند آواز میں دھاڑا تھا۔۔۔۔

اپنی آواز نیچی رکھو ورنہ زبان کاٹ کر ہاتھ میں دوں گا۔۔ اور اگر تم واقع ہی میری جگہ آنا چاہتے ہو تو خود کو ثابت کرو ۔ ورنہ تمہارا چھوٹا بھائی خوبیوں میں واقع ہی ایک مافیا لیڈر بنے کے لائق ہے ۔۔ کبیر خاور اس کو سخت نظروں سے دیکھتے بولے تھے۔۔۔ جبکہ اب کی بار صارم خاموش ہو گیا تھا۔۔۔

خشام کا  ادھر کیا ذکر ہے۔۔ وہ چھوٹا پے ابھی۔۔۔ صارم اپنے باپ کی طرف دیکھتے بولا تھا۔۔۔

صرف عمر میں ۔۔۔ ورنہ ہر لحاظ سے پرفٹ ہے وہ۔۔۔ کبیر خاور صارم کو دیکھتے بولے تھے۔۔۔ جبکہ صارم خاموشی سے بس کیبر خاور کو دیکھ رہا تھا۔۔۔ یہ بات وہ بھی بہت اچھے سے جانتا تھا خشام ہر لحاظ سے ایک مافیا لیڈر بنے کے قابل تھا۔۔ کیونکہ جس وقت وہ پریکٹس کرتا تھا اس وقت صارم اپنی نئی گرل  فرینڈ کے ساتھ راتوں کو رنگن کرتا تھا۔۔۔

urdunovelnests••••••••••••••

اس کی گاڑی ایک بلیک پلیس کے سامنے روکی تھی وہ سسلی سے اپنی پرسنل سی یاٹ سے واپس  روم آیا تھا۔۔۔ ابھی وہ بلیک پلیس میں داخل ہوا ہی تھا جب اس کو سامنے ہی گل بیٹھی نظر آئی تھی ۔۔۔

کافی دیر لگا دی آپ نے ۔۔ آپ کا انتظار کیا جا رہا ہے ۔ گل کرسی پر ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر بیٹھی بولی تھی اس نے ایک نظر گھڑی کی طرف دیکھا تھا جدھر رات کے دس بج گے ہوئے تھے ۔۔جبکہ بیسٹ نے اس کو گھوری سے نوازا تھا۔۔۔ اور وہ سیدھی ہو کر بیٹھی تھی ۔۔۔

کون انتظار کر رہا ہے۔۔۔ بیسٹ نے اس کو گھورتے ہوئے پوچھا تھا۔۔۔

وہ ہی جس کے زخموں نے بیسٹ کو بےچین کر کے رکھ دیا تھا۔۔۔۔ گل بیسٹ کو سر سے پاؤں تک دیکھتے بولی تھی۔۔۔

زبان زیادہ نہیں چل رہی تمہاری ۔۔ کاٹ دوں تھوڑی ۔۔۔ بیسٹ اس کو سخت نظروں سے دیکھتا بولا تھا۔۔۔ جبکہ گل نے اپنے منہ پر ہاتھ رکھ دیا تھا۔۔۔ 

بتا دو اس کو جا کے کہ میں واپس آ گیا ہوں۔۔۔ وہ سیڑھیاں چڑھتا ہوا موڑ کر گل کو دیکھتا بولا تھا۔۔۔ اور واپس سیڑھیاں چڑھنے لگا تھا جب گل کی بات  پر روکا تھا۔۔۔۔

آپ شادی کیوں نہیں کر لیتے۔۔۔ گل آنکھیں پٹپٹا کر بولی تھی ۔۔۔

آپ اپنی زبان کیوں نہیں بند کر لیتی۔۔۔ بیسٹ ایک ایک لفظ چبا چبا کر بولتا اس کو سخت  نظروں سے گھور رہا تھا۔۔۔ اور واپس موڑ کر سیڑھیاں چڑھنے لگا تھا ۔۔۔۔

گل  گل اپنی زبان کو لگام لگا ورنہ یہ تیری زبان کاٹ کر اٹلی کے کتوں کو ڈال دے گا۔۔۔۔  بیسٹ کے جاتے ہی گل نے اپنے ہونٹوں پر ہلکا سا تھپڑ مارا تھا اور خود سے بولی تھی ۔۔ 

اب وہ بھاگتی اوپر جزا کے کمرے کی طرف گئی تھی۔۔۔ اس کا بتانے کے بیسٹ واپس آ گیا ہے۔۔۔

گل اس کے کمرے کے سامنے کھڑی تھی اس نے دروازہ نوک کیا تھا ۔ جب اندر سے اجازت ملتے وہ اندر گئی تھی۔۔۔

جزا آپی ۔۔۔ بیسٹ آ گیا ہے ۔۔ گل کمرے میں آتے ساتھ بولی تھی۔۔ جب اس کی ںظر جزا پر پڑی تھی۔۔۔ جو بلکہنی پر نیچھے زمین پر بیٹھی تھی۔۔ سر اس نے گھٹنوں پر ٹیکا رکھا تھا وہ جیسے اپنی سوچوں میں گم تھی ۔۔۔

جزا آپی ۔۔۔۔ گل اس کے پاس زمین پر بیٹھتی بولی تھی۔۔ اس نے اپنے نرم ہاتھ جزا کی بازو پر رکھے تھے ۔۔ جزا نے سر اٹھا کر اس کو دیکھا تھا۔۔۔

کیا بات ہے۔۔۔ گل فکرمندی سے بولی تھی۔۔۔

کچھ نہیں بس ویسے ہی کچھ سوچ رہی تھی۔۔۔ جزا زخمی مسکراہٹ کے ساتھ  بولی تھی۔۔۔

بیسٹ آ گیا ہے ۔۔ آپ نے بولا تھا نہ کے آپ کو ان سے بات کرنی ہے۔۔۔ گل اس کو دیکھتے ہوئے بولی تھی۔۔۔

ہاں مجھے اس سے بات کرنی ہے ۔۔ شکریہ بتانے کا۔۔۔ جزا اس کو دیکھ کر مدہم سا مسکرائی تھی۔۔۔

ویسے ایک بات کہوں۔۔۔ گل جزا کو دیکھ کر بولی تھی ۔۔۔

اگر دل کا غم خود تک رکھا جائے تو وہ بس تکلیف بنتا ہے۔۔ کبھی کبھی کیسی کے ساتھ اپنا غم بانٹ لینا چاہیے ۔۔۔ گل اس کی زخمی شہد رنگ آنکھوں میں اپنی اوشن گرین آنکھیں ڈال کر بولی تھی ۔۔۔

گل کچھ غم صرف آپ کے ہوتے ہیں صرف آپ کے ۔۔ وہ غم آپ کو تکلیف نہیں دیتے وہ غم آپ کا مضبوط بنا دیتے ہیں ۔۔ اتنا مضبوط کہ جس نے آپ کو وہ غم دیا ہوتا ہے آپ اس کے سامنے ڈٹ کے کھڑے ہو جاتے ہو۔۔ آپ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس کا کانپ جانے پر مجبور کر دیتے ہو۔۔۔ کچھ غم صرف تکلیف نہیں دیتے بلکہ آپ کو جینے کا سلیقہ سکھا دیتے ہیں ۔۔۔ آپ کو مضبوط بنا دیتے ہیں ۔۔ آپ کا خود سنھبالنا سکھا دیتے ہیں ۔۔۔ جزا گل کو دیکھتے ہوئے بولی تھی۔۔۔

مگر ہر غم کی ہر زخم کی کوئی نہ کوئی دوا بھی تو ہوتی ہے۔۔۔ گل اس کو دیکھ کر بولی تھی۔۔۔

بلکل ہوتی۔۔ اب جیسے میرے غم کی میرے زخم کی دوا خون ہے۔۔ انتقال ہے۔۔۔ جزا اس کو دیکھ کر بولی تھی ۔۔۔

آپ اپنا غم کسی کے سامنے کیوں نہیں ہلکا کر لیتی۔۔۔ گل سر جھکا کر بولی تھی۔۔۔

گل ہر غم کا رونہ سب کے سامنے نہیں رویا جاتا۔ کیونکہ لوگ جھوٹی ہمدردی جتا کر چلے جاتے ہیں۔۔ اپنے غم میں  رونا چاہتے ہو تو تنہائی میں اس کے سامنے رو جو تمہاری اہ و پکار پر تمہیں جھوٹی ہمدردی نہ دے۔۔ جو تمہاری تکلیف پر تمہیں جھوٹا دلاسا نہ دے۔۔ جو تمہارے غم کو تمہاری کمزور نہ سمجھے۔۔۔ گل اپنے غم کا جب بھی رونہ ہو اللہ کے سمانے رو اس سے بہتر سنبھالنے والا کوئی نہیں ہے۔۔ اس سے بہتر سنے والا کوئی نہیں ہے۔۔ اس سے بہتر ہمدرد کوئی نہیں ہے۔۔۔ جزا گل کی گال کو تھپکتی بولی تھی۔۔۔ جبکہ گل بس اس کو دیکھ رہی تھی۔۔۔ وہ اس کو اتنی گہری بات بول گئی تھی۔۔۔

urdunovelnests•••••••••••••••

آدھی رات کا وقت تھا ۔۔۔ لاہور کے مشہور  ترین نائٹ کلب میں اس وقت نوجوان شراب و شباب کے نشے میں  جھوم رہے تھے۔۔۔ ایک بے حیائی کا طوفان برپا تھا۔۔۔ ادھر الیٹ کلاس کے نوجوان لڑکے لڑکیاں موجود تھے۔۔۔۔ ان سب میں ایک لڑکی اور بھی شامل تھی۔۔ لینا لغاری۔۔۔

اس نے اس وقت ریڈ مینی سکرٹ پر ریڈ بلاؤز پہن رکھا تھا ۔ اور اس کے اوپر اس نے ریڈ نیٹ کی جالی دار مینی ٹوپ پہن رکھی تھی۔۔۔ ہونٹوں پر ریڈ  لپسٹک لگائے خوبصورت سا میک آپ کیے نشے میں ڈانس فلور پر ناچتی وہ وہاں موجود سب لڑکیوں سے حسین لگ رہی تھی۔۔۔  لڑکیاں اس کو  حسد سے دیکھ رہی تھی جبکہ لڑکے اس کو حسرت سے۔۔۔

جبکہ دوسری طرف کوئی اوشن گرین آنکھوں میں قہر لیے لینا کی حرکتوں کو دیکھ رہا تھا ۔۔ جو لڑکوں کے بیچ نشے میں ناچنے میں مگن تھی۔۔ اس بات سے بے خبر کے وہ اس کو نہ جانے کہاں کہاں چھو رہے ہیں ۔۔۔

لینا نے اپنے جالی دار مینی ٹوپ اتار دی اور اس کو ہاتھ میں گھومانے لگی تھی۔۔ جب لڑکوں کے ایک گروپ نے ہوٹنگ کی تھی ۔۔ اس وقت لینا صرف ریڈ بلاؤز اور مینی سکرٹ میں تھی۔۔۔ یہ دیکھ کر نوریز کا  دماغ چکرا کر رہ گیا تھا وہ فوراً اپنی جگہ سے اٹھا تھا۔۔۔ جب اس کی نظر ایک لڑکے پر گئی تھی جو لینا کہ بلاوز کی طرف ہاتھ بڑھا رہا تھا۔۔۔ نوریز کے قدموں کی رفتار حد سے زیادہ تیز ہوئی تھی۔۔ اس نے فوراً اس لڑکے کے پاس پہنچ کر اس کے منہ پر ایک کے بعد ایک مکا   اس کے منہ  پر مارتا چلا گیا تھا۔۔۔ اس کے دوستوں نے نوریز کو روکنے کی کوشش کی مگر اس کی آنکھوں میں قہر دیکھ کر کسی کی ہمت نہ ہوئی کے اس کے قریب جائے۔۔ وہ لڑکا شاید نشے میں چور تھا تبھی نوریز کے بھاری ہاتھوں کے مکے  کھانے کے بعد بے ہوش سا ہو گیا تھا۔۔ اس میں اٹھنے کی ہمت نہیں تھی ۔۔

نوریز نے اپنی جیکٹ اتار کر لینا کو پہنائی تھی اور اس کو اٹھا کر ادھر سے لے کر باہر نکلا تھا ۔۔ لینا کے ڈرائیور کو وہ واپس بھیج چکا تھا۔۔ اس کو اپنی کار کی سیٹ پر پھینکنے والے انداز میں ڈالتے ہو ڈرائیونگ سیٹ پر آیا تھا۔۔۔ اس نے غصے سے اپنے دانت آپس میں اتنی سختی سے بینچ رکھے تھے کہ اس  کی جوا لائن مکمل طور پر وضع ہو رہی تھی ۔ سر کی اور بازوؤں کی وینز ابھری ہوئی تھی ۔۔ وہ غصے سے ڈرائیو کر رہا تھا۔۔ جب لینا نے اپنے سر پر ہاتھ رکھا تھا۔۔۔ وہ جیسے  اپنے آس پاس کے ماحول کو سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی۔۔۔  جبکہ نوریز نے اس کی طرف پانی کی بوتل غصے سے بڑھی تھی ۔۔

لینا نے بامشکل پانی حلق سے اتارا تھا۔۔۔ جبکہ نوریز ڈرائیو کرتا بار بار ایک غصے سے بھری نظر اس پر ڈال رہا تھا ۔۔

تم کہاں لے جا رہے ہو مجھے۔۔ لینا کچھ نشے میں تھی کچھ ہوش میں  تھی جب اس نے نوریز سے پوچھا تھا۔۔۔

جہنم میں لے کر جا رہا ہوں ۔۔ نوریز غصے سے اس کو گھورتا بولا تھا۔۔۔

مجھے واپس چھوڑ کر آؤ تم ہوتے کون ہو مجھے ادھر سے لے کر آنے والے ۔۔ لینا اس کے بازو پر مکے مارنے لگی تھی۔۔۔

تمہارا دماغ تو خراب نہیں ۔۔۔ اس کی بات سن کر نوریز چیخ کر بولا تھا۔۔۔

میں تمہیں جان سے مار ڈالوں گئی مجھے واپس چھوڑ کر آؤ ۔۔۔ لینا بھی نشے میں دھت چیلائی تھی۔۔۔

تم اب جان سے ہی مارو مجھے میں تمہیں ادھر چھوڑ کر نہیں آؤ گا۔۔۔ نوریز اس کو قہر برساتی نظروں سے دیکھتا بولا تھا۔۔ جب لینا نہ اس کی بازو پر کاٹا تھا۔۔۔۔ نوریز دانت پس کر اس کی حرکتیں برداشت کر رہا تھا ۔۔۔

نوریز مجھے واپس چھوڑ کر آؤ ۔۔ لینا اس کو جھنجھوڑتی غصے سے چیلائی تھی۔۔۔

سوری لینا بی بی آپ نے تو شرم حیا بیچ کھائی ہے لیکن مجھ میں ابھی غیرت باقی ہے۔۔ میں تمہیں واپس ادھر چھوڑ کر آنے کے بجائے مر کر راوی میں پھینک دینے کو ترجی دوں گا۔۔۔ اور اگر تمہارے منہ سے ایک لفظ اور نکلا نہ تو زبان کاٹ کر ہاتھ میں دوں گا۔۔۔ نوریز غصے سے بولتا  اس کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھتا بولا تھا۔۔ جبکہ اب کی بار لینا خاموش ہو گئی تھی ۔۔

اس کی کار لغاری ہاؤس کے سامنے روکی تھی ۔۔ اس کو دیکھ کر سیکورٹی گارڈ فورآ دروازہ کھول چکے تھے۔۔۔ کار رن وے سے ہوتے لغاری صاحب کے گھر کے مین گیٹ کے سامنے روکی تھی ۔۔ نوریز اپنی سائیڈ کا دروازہ کھول کر  باہر نکلا تھا اور لینا کی سیٹ والی سائیڈ کی طرف گیا تھا۔۔۔ اگلے لمحے لینا کی سائیڈ کا دروازہ کھول کر اس کو بازو سے پکڑ کر باہر نکال چکا تھا۔۔۔ وہ اس کو تقریبآ گھسیٹتا ہوا اندر کی طرف لے کر گیا تھا ۔۔ اور اس کو ٹی وی لاؤنج کے صوفے پر پھینکا تھا۔۔۔

انکل عمران ۔۔۔ انکل عمران ۔۔۔ نوریز کی آواز پورے مینشن میں گونجی تھی۔۔۔ جبکہ عمران صاحب  اپنے کمرے سے باہر نکلے تھے۔۔۔ اور نیچھے ٹی-وی لاؤنج میں دیکھا تھا جہاں لینا صوفے پر اوندھے منہ پڑی تھی اس کے اوپر بلیک لیدر کی جیکٹ تھی ۔۔ اور سامنے نوریز کھڑا تھا۔۔ جس نے بلیک پینٹ پر بلیک ٹی-شرٹ پہن رکھی تھی ۔۔ اور اس کی لیفٹ سائیڈ کی بازو پر لینا کے دانتوں کا نشان صاف نظر ا رہا تھا۔۔

عمران صاحب فوراً سیڑھیاں اتر کر نیچھے آئے تھے۔۔۔ وہ نوریز کی آنکھوں میں سخت غصہ دیکھ چکے تھے۔۔۔

کدھر تھی یہ۔۔ انہوں نے بس اتنا پوچھ اتھا۔۔۔

آپ کی یہ رئیس زادی کدھر ہو سکتی ہے اس حالت میں ۔۔۔ نوریز ان کو دیکھتا بولا تھا۔۔ جبکہ عمران صاحب نے ایک نظر لینا کو دیکھا جو جیسے اب سو گئی تھی۔۔ اور ایک نظر نوریز کو دیکھا تھا۔۔۔

تربیت تو آپ ٹھیک سے کر نہیں سکے کم سے کم لگام ہی ڈال لیں اس کو آپ ۔۔۔ نوریز سخت نظروں سے عمران صاحب کو دیکھتا ان کے گھر سے نکل گیا تھا۔۔ جبکہ وہ لینا کی طرف بڑھے تھے۔۔۔

urdunovelnests••••••••••••••

کہاں جا سکتی ہو تم۔۔۔ کہاں جا سکتی  ہو۔۔۔۔ شہزاد ہونٹوں سے سگریٹ لگا کر بولا تھا ۔۔ اس نے اپنی آنکھیں بند کی تھی۔۔ اس کی خیالوں کی دنیا میں پھر سے شہد رنگ آنکھوں نے پھیرا ڈالا تھا۔۔۔ اس نے پھر سے سگریٹ اپنے ہونٹوں کے ساتھ لگایا تھا۔۔۔ جب اچانک اکرم صاحب اس کے کمرے میں آئے تھے ۔۔۔

وہ جو  صوفے پر نیم دراز تھا باپ کر دیکھ کر سیدھا ہوا تھا۔۔۔۔ اکرم صاحب نے اس کو سر سے پاؤں تک  دیکھا تھا۔۔۔ اور اس کے مقابل آ کر بیٹھ گئے تھے ۔۔۔

تمہیں پتا ہے حدید کدھر ہے۔۔۔ اکرم صاحب اس کے سامنے بیٹھتے بولے تھے۔۔۔اور سوالیہ نظروں سے اس کو دیکھنے لگے تھے ۔۔۔

کیوں کیا ہوا۔۔۔ شہزاد ان کی طرف دیکھ کر بولا تھا۔۔۔

دو تین دن ہو گئے ہیں وہ گھر نہیں آیا ۔۔۔ وہ شہزاد کی طرف دیکھتے بولے تھے۔۔۔

کافی فکر نہیں ہو رہی آپ کو اس کی۔۔۔ شہزاد نے اپنے سامنے بیٹھے اکرم صاحب کو غور سے دیکھا تھا۔۔۔

اس کی فکر میری جوتی کو بھی نہیں ہے۔۔۔ اکرم صاحب غصے سے شہزاد کو گھورتے بولے تھے۔۔۔

تو پھر جدھر کدھر بھی ہے اس کو ادھر ہی مرا رہنے دیں آپ کو کیوں فکرمند ہو رہے ہیں ۔۔۔ شہزاد سگریٹ کا کش لگاتا بولا تھا۔۔۔

فکرمند کی بات یہ ہے۔۔ کہ مجھے اس سے کوئی اچھی وائب نہیں آتی ۔۔ جیسے وہ ہم سے کوئی بہت بڑی اپنی حقیقت چھپا رہا ہے۔۔۔ اکرم صاحب فکرمند ہو کر بولے تھے ۔۔

یہ  بات تو وقع ہی ہے بہت ہی کوئی الجھی ہوئی کتاب ہے یہ۔۔۔ مگر سلجھا لیں گے اس کو بھی ۔۔ شہزاد لا پرواہ سا بولا تھا۔۔۔۔

تم پہلے جزا والا مسئلہ تو سلجھا لو۔۔ جو اپنے گلے ڈال کے بیٹھے ہو۔۔۔ بعد میں اس حدید نامی آفت کو چھیڑنا ۔۔۔ اکرم صاحب اس کو سخت نظروں سے گھورتے ہوئے بولے تھے ۔۔۔۔

اس کو بھی ڈھونڈ رہا ہوں ۔۔۔ شہزاد بیزار سا بولا تھا۔۔۔

وہ ابھی تک نہیں ملی ؟؟ اکرم صاحب حیران سے اس کی طرف دیکھ رہے تھے۔ 

نہیں ڈیڈ۔۔۔ کہیں نہیں ہے وہ۔۔۔ کہیں نہیں مل رہی ہو۔۔۔ شہزاد سر ہاتھوں میں گرا کر بولا تھا۔۔۔

دعا کرو شہزاد اب وہ جدھر بھی مر چکی ہو ۔۔۔ کیونکہ اگر وہ زندہ ہوئی تو ہمارے لیے عذاب بن جائے گئی ۔۔۔ اکرم صاحب یہ کہہ کر کمرے میں سے چلے گئے تھے جبکہ پیچھے شہزاد کو گہری سوچ میں چھوڑ گئے تھے۔۔۔

urdunovelnests••••••••••••••

یٰسٓ(1) وَ الْقُرْاٰنِ الْحَكِیْمِ(2) اِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ(3) عَلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍﭤ(4) تَنْزِیْلَ الْعَزِیْزِ الرَّحِیْمِ(5) لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّاۤ اُنْذِرَ اٰبَآؤُهُمْ فَهُمْ غٰفِلُوْنَ(6) لَقَدْ حَقَّ الْقَوْلُ عَلٰۤى اَكْثَرِهِمْ فَهُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ(7) اِنَّا جَعَلْنَا فِیْۤ اَعْنَاقِهِمْ اَغْلٰلًا فَهِیَ اِلَى الْاَذْقَانِ فَهُمْ مُّقْمَحُوْنَ(8) وَ جَعَلْنَا مِنْۢ بَیْنِ اَیْدِیْهِمْ سَدًّا وَّ مِنْ خَلْفِهِمْ سَدًّا فَاَغْشَیْنٰهُمْ فَهُمْ لَا یُبْصِرُوْنَ(9) وَ سَوَآءٌ عَلَیْهِمْ ءَاَنْذَرْتَهُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ(10) اِنَّمَا تُنْذِرُ مَنِ اتَّبَعَ الذِّكْرَ وَ خَشِیَ الرَّحْمٰنَ بِالْغَیْبِۚ-فَبَشِّرْهُ بِمَغْفِرَةٍ وَّ اَجْرٍ كَرِیْمٍ(11) اِنَّا نَحْنُ نُحْیِ الْمَوْتٰى وَ نَكْتُبُ مَا قَدَّمُوْا وَ اٰثَارَهُمْۣؕ-وَ كُلَّ شَیْءٍ اَحْصَیْنٰهُ فِیْۤ اِمَامٍ مُّبِیْنٍ(12)

وہ ابھی سلام پھیر کر بیٹھی تھی جب اس کی سماعت سے تلاوتِ قرآن کی آواز ٹکرائی تھی ۔۔ وہ اس وقت تہجّد پڑھ رہی تھی۔۔ آج وہ تہجد کے لیے جلدی اٹھ گئی تھی۔۔۔  وہ جو کوئی بھی تھا جو تلاوتِ کر رہا تھا اس کی آواز بہت خوبصورت تھی اس قدر خوبصورت کہ وافیہ (للی) کو دل میں اُترتی محسوس ہوئی تھی۔۔۔  وہ اب اپنے ہاتھ کی انگلی کی  پوروں پر تسبیح پرھنے لگی تھی۔۔۔

وَ اضْرِبْ لَهُمْ مَّثَلًا اَصْحٰبَ الْقَرْیَةِۘ-اِذْ جَآءَهَا الْمُرْسَلُوْنَ(13) اِذْ اَرْسَلْنَاۤ اِلَیْهِمُ اثْنَیْنِ فَكَذَّبُوْهُمَا فَعَزَّزْنَا بِثَالِثٍ فَقَالُوْۤا اِنَّاۤ اِلَیْكُمْ مُّرْسَلُوْنَ(14) قَالُوْا مَاۤ اَنْتُمْ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَاۙ-وَ مَاۤ اَنْزَلَ الرَّحْمٰنُ مِنْ شَیْءٍۙ-اِنْ اَنْتُمْ اِلَّا تَكْذِبُوْنَ(15) قَالُوْا رَبُّنَا یَعْلَمُ اِنَّاۤ اِلَیْكُمْ لَمُرْسَلُوْنَ(16) وَ مَا عَلَیْنَاۤ اِلَّا الْبَلٰغُ الْمُبِیْنُ(17)

تلاوت ابھی تک جاری تھی وہ تسبیح پر چکی تھی ۔۔۔ اس تلاوت سے اس کے وجود میں ایک الگ سا سکون اتر رہا تھا۔۔۔ اس نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے تھے۔۔۔۔

قَالُوْۤا اِنَّا تَطَیَّرْنَا بِكُمْۚ-لَىٕنْ لَّمْ تَنْتَهُوْا لَنَرْجُمَنَّكُمْ وَ لَیَمَسَّنَّكُمْ مِّنَّا عَذَابٌ اَلِیْمٌ(18) قَالُوْا طَآىٕرُكُمْ مَّعَكُمْؕ-اَىٕنْ ذُكِّرْتُمْؕ-بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ مُّسْرِفُوْنَ(19) وَ جَآءَ مِنْ اَقْصَا الْمَدِیْنَةِ رَجُلٌ یَّسْعٰى قَالَ یٰقَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِیْنَ(20) اتَّبِعُوْا مَنْ لَّا یَسْــٴَـلُكُمْ اَجْرًا وَّ هُمْ مُّهْتَدُوْنَ(21) وَ مَا لِیَ لَاۤ اَعْبُدُ الَّذِیْ فَطَرَنِیْ وَ اِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ(22) ءَاَتَّخِذُ مِنْ دُوْنِهٖۤ اٰلِهَةً اِنْ یُّرِدْنِ الرَّحْمٰنُ بِضُرٍّ لَّا تُغْنِ عَنِّیْ شَفَاعَتُهُمْ شَیْــٴًـا وَّ لَا یُنْقِذُوْنِ(23) اِنِّیْۤ اِذًا لَّفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ(24) اِنِّیْۤ اٰمَنْتُ بِرَبِّكُمْ فَاسْمَعُوْنِﭤ(25) قِیْلَ ادْخُلِ الْجَنَّةَؕ-قَالَ یٰلَیْتَ قَوْمِیْ یَعْلَمُوْنَ(26) بِمَا غَفَرَ لِیْ رَبِّیْ وَ جَعَلَنِیْ مِنَ الْمُكْرَمِیْنَ(27) وَ مَاۤ اَنْزَلْنَا عَلٰى قَوْمِهٖ مِنْۢ بَعْدِهٖ مِنْ جُنْدٍ مِّنَ السَّمَآءِ وَ مَا كُنَّا مُنْزِلِیْنَ(28) اِنْ كَانَتْ اِلَّا صَیْحَةً وَّاحِدَةً فَاِذَا هُمْ خٰمِدُوْنَ(29)

نا جانے تلاوت کا اثر تھا یا کیا تھا ۔۔ وافیہ کی آنکھیوں سے بے اختیار آنسو بہنے لگے تھے ۔۔ جب سے اس نے اسلام قبول کیا تھا۔۔ ایسی کوئی نماز نہ تھی جو اس نے چھوڑی ہو۔۔۔ یہ وہ کسی نماز کے بعد نہ روئی ہو۔۔۔ مگر آج اس پر کوئی اور ہی کیفیت طاری تھی۔۔۔ وہ دعا کے لیے ہاتھ اٹھائی بس روتی چلی جا رہی تھی ۔۔۔

یٰحَسْرَةً عَلَى الْعِبَادِۣۚ-مَا یَاْتِیْهِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا كَانُوْا بِهٖ یَسْتَهْزِءُوْنَ(30) اَلَمْ یَرَوْا كَمْ اَهْلَكْنَا قَبْلَهُمْ مِّنَ الْقُرُوْنِ اَنَّهُمْ اِلَیْهِمْ لَا یَرْجِعُوْنَﭤ(31) وَ اِنْ كُلٌّ لَّمَّا جَمِیْعٌ لَّدَیْنَا مُحْضَرُوْنَ(32) وَ اٰیَةٌ لَّهُمُ الْاَرْضُ الْمَیْتَةُ ۚۖ-اَحْیَیْنٰهَا وَ اَخْرَجْنَا مِنْهَا حَبًّا فَمِنْهُ یَاْكُلُوْنَ(33) وَ جَعَلْنَا فِیْهَا جَنّٰتٍ مِّنْ نَّخِیْلٍ وَّ اَعْنَابٍ وَّ فَجَّرْنَا فِیْهَا مِنَ الْعُیُوْنِ(34) لِیَاْكُلُوْا مِنْ ثَمَرِهٖۙ-وَ مَا عَمِلَتْهُ اَیْدِیْهِمْؕ-اَفَلَا یَشْكُرُوْنَ(35) سُبْحٰنَ الَّذِیْ خَلَقَ الْاَزْوَاجَ كُلَّهَا مِمَّا تُنْۢبِتُ الْاَرْضُ وَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ وَ مِمَّا لَا یَعْلَمُوْنَ(36) وَ اٰیَةٌ لَّهُمُ الَّیْلُ ۚۖ-نَسْلَخُ مِنْهُ النَّهَارَ فَاِذَا هُمْ مُّظْلِمُوْنَ(37) وَ الشَّمْسُ تَجْرِیْ لِمُسْتَقَرٍّ لَّهَاؕ-ذٰلِكَ تَقْدِیْرُ الْعَزِیْزِ الْعَلِیْمِﭤ(38) وَ الْقَمَرَ قَدَّرْنٰهُ مَنَازِلَ حَتّٰى عَادَ كَالْعُرْجُوْنِ الْقَدِیْمِ(39) لَا الشَّمْسُ یَنْۢبَغِیْ لَهَاۤ اَنْ تُدْرِكَ الْقَمَرَ وَ لَا الَّیْلُ سَابِقُ النَّهَارِؕ-وَ كُلٌّ فِیْ فَلَكٍ یَّسْبَحُوْنَ(40) وَ اٰیَةٌ لَّهُمْ اَنَّا حَمَلْنَا ذُرِّیَّتَهُمْ فِی الْفُلْكِ الْمَشْحُوْنِ(41)

وہ ایسے ہی دعا میں ہاتھ اٹھے بیٹھی  رہی تھی۔۔۔ اب کی بار آگے کی آیات اس نے بھی پڑھ تھی۔۔۔ اس کو یہ سورت زبانی یاد تھی۔۔۔  وہ روتے ہوئے ساتھ ساتھ یہ آیات پڑھ رہی تھی ۔۔۔

وَ خَلَقْنَا لَهُمْ مِّنْ مِّثْلِهٖ مَا یَرْكَبُوْنَ(42) وَ اِنْ نَّشَاْ نُغْرِقْهُمْ فَلَا صَرِیْخَ لَهُمْ وَ لَا هُمْ یُنْقَذُوْنَ(43) اِلَّا رَحْمَةً مِّنَّا وَ مَتَاعًا اِلٰى حِیْنٍ(44) وَ اِذَا قِیْلَ لَهُمُ اتَّقُوْا مَا بَیْنَ اَیْدِیْكُمْ وَ مَا خَلْفَكُمْ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ(45) وَ مَا تَاْتِیْهِمْ مِّنْ اٰیَةٍ مِّنْ اٰیٰتِ رَبِّهِمْ اِلَّا كَانُوْا عَنْهَا مُعْرِضِیْنَ(46) وَ اِذَا قِیْلَ لَهُمْ اَنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّٰهُۙ-قَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنُطْعِمُ مَنْ لَّوْ یَشَآءُ اللّٰهُ اَطْعَمَهٗۤ ﳓ اِنْ اَنْتُمْ اِلَّا فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ(47) وَ یَقُوْلُوْنَ مَتٰى هٰذَا الْوَعْدُ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ(48) مَا یَنْظُرُوْنَ اِلَّا صَیْحَةً وَّاحِدَةً تَاْخُذُهُمْ وَ هُمْ یَخِصِّمُوْنَ(49) فَلَا یَسْتَطِیْعُوْنَ تَوْصِیَةً وَّ لَاۤ اِلٰۤى اَهْلِهِمْ یَرْجِعُوْنَ(50)

یا اللہ میرے ہر گناہ کو معاف کر دے۔۔ میں بہت گناہگار ہوں خطاکار ہو۔۔۔ مگر تو رحمٰن ہے میرے مالک۔۔۔ میری خطاؤں کا نہ دیکھ اپنی رحمت کو دیکھ مجھے بخش دے میرے مالک میرے گناہوں کو معاف کر دے۔۔۔ وہ ایسے ہی پھوٹ پھوٹ کے رو رہی تھی ۔۔ جبکہ یس کی تلاوت کی آواز ایسے ہی پورے گھر میں گونج رہی تھی ۔۔ وہ دعا مانگ کر ہٹی تھی اور فوراً سے کمرے سے باہر نکلی تھی اس آواز کے تعاقب میں ۔۔ آنکھوں سے آنسو ابھی بھی بہہ رہے تھے۔۔۔

وَ نُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَاِذَا هُمْ مِّنَ الْاَجْدَاثِ اِلٰى رَبِّهِمْ یَنْسِلُوْنَ(51) قَالُوْا یٰوَیْلَنَا مَنْۢ بَعَثَنَا مِنْ مَّرْقَدِنَا هٰذَا مَا وَعَدَ الرَّحْمٰنُ وَ صَدَقَ الْمُرْسَلُوْنَ(52) اِنْ كَانَتْ اِلَّا صَیْحَةً وَّاحِدَةً فَاِذَا هُمْ جَمِیْعٌ لَّدَیْنَا مُحْضَرُوْنَ(53) فَالْیَوْمَ لَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْــٴًـا وَّ لَا تُجْزَوْنَ اِلَّا مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ(54) اِنَّ اَصْحٰبَ الْجَنَّةِ الْیَوْمَ فِیْ شُغُلٍ فٰكِهُوْنَ(55) هُمْ وَ اَزْوَاجُهُمْ فِیْ ظِلٰلٍ عَلَى الْاَرَآىٕكِ مُتَّكِــٴُـوْنَ (56) لَهُمْ فِیْهَا فَاكِهَةٌ وَّ لَهُمْ مَّا یَدَّعُوْنَ(57) سَلٰمٌ- قَوْلًا مِّنْ رَّبٍّ رَّحِیْمٍ(58) وَ امْتَازُوا الْیَوْمَ اَیُّهَا الْمُجْرِمُوْنَ(59)

تلاوت ویسے ہی جاری تھی۔۔۔ وہ سیڑھیاں اترتی نیچے آ گئی تھی ۔۔ تلاوت کی آواز باہر لاؤن سے آ رہی تھی۔۔ وہ چلتے چلتے لاؤن کی طرف گئی تھی۔۔ آواز بہت وضع ہوتی جا رہی تھی۔۔۔ وہ جو کوئی بھی تھا وہ لاؤن میں جانماز پر بیٹھا بلند آواز میں تلاوت کر رہا تھا۔۔ اس کی آواز نے سارے گھر کو ایک سحر میں جکڑ لیا تھا۔  اس کی آواز خوبصورت نہیں بہت زیادہ خوبصورت تھی۔۔ دل میں گھر کر جانے والی۔۔۔

اَلَمْ اَعْهَدْ اِلَیْكُمْ یٰبَنِیْۤ اٰدَمَ اَنْ لَّا تَعْبُدُوا الشَّیْطٰنَۚ-اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ(60) وَّ اَنِ اعْبُدُوْنِیْﳳ-هٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ(61) وَ لَقَدْ اَضَلَّ مِنْكُمْ جِبِلًّا كَثِیْرًاؕ-اَفَلَمْ تَكُوْنُوْا تَعْقِلُوْنَ(62) هٰذِهٖ جَهَنَّمُ الَّتِیْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ(63) اِصْلَوْهَا الْیَوْمَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُوْنَ(64) اَلْیَوْمَ نَخْتِمُ عَلٰۤى اَفْوَاهِهِمْ وَ تُكَلِّمُنَاۤ اَیْدِیْهِمْ وَ تَشْهَدُ اَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ(65) وَ لَوْ نَشَآءُ لَطَمَسْنَا عَلٰۤى اَعْیُنِهِمْ فَاسْتَبَقُوا الصِّرَاطَ فَاَنّٰى یُبْصِرُوْنَ(66) وَ لَوْ نَشَآءُ لَمَسَخْنٰهُمْ عَلٰى مَكَانَتِهِمْ فَمَا اسْتَطَاعُوْا مُضِیًّا وَّ لَا یَرْجِعُوْنَ(67) وَ مَنْ نُّعَمِّرْهُ نُنَكِّسْهُ فِی الْخَلْقِؕ-اَفَلَا یَعْقِلُوْنَ(68) وَ مَا عَلَّمْنٰهُ الشِّعْرَ وَ مَا یَنْۢبَغِیْ لَهٗؕ-اِنْ هُوَ اِلَّا ذِكْرٌ وَّ قُرْاٰنٌ مُّبِیْنٌ(69) لِّیُنْذِرَ مَنْ كَانَ حَیًّا وَّ یَحِقَّ الْقَوْلُ عَلَى الْكٰفِرِیْنَ(70)

وہ ایسے ہی تلاوت کر رہا تھا ہر چیز سے بیگانا ہو کر ہر آہٹ سے انجان ہو کر۔۔۔ اس کا دل و دماغ مکمل طور پر تلاوتِ قرآن کے ساتھ جڑے ہوئے تھے ۔۔ وہ آنکھیں بند کیے بس تلاوت کر رہا تھا۔۔۔ وہ ایسی روانگی سے تلاوت کر رہا تھا جیسے اس کو قرآن حفظ ہو۔۔۔

اَوَ لَمْ یَرَوْا اَنَّا خَلَقْنَا لَهُمْ مِّمَّا عَمِلَتْ اَیْدِیْنَاۤ اَنْعَامًا فَهُمْ لَهَا مٰلِكُوْنَ(71) وَ ذَلَّلْنٰهَا لَهُمْ فَمِنْهَا رَكُوْبُهُمْ وَ مِنْهَا یَاْكُلُوْنَ(72) وَ لَهُمْ فِیْهَا مَنَافِعُ وَ مَشَارِبُؕ-اَفَلَا یَشْكُرُوْنَ(73) وَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اٰلِهَةً لَّعَلَّهُمْ یُنْصَرُوْنَﭤ(74) لَا یَسْتَطِیْعُوْنَ نَصْرَهُمْۙ-وَ هُمْ لَهُمْ جُنْدٌ مُّحْضَرُوْنَ(75) فَلَا یَحْزُنْكَ قَوْلُهُمْۘ-اِنَّا نَعْلَمُ مَا یُسِرُّوْنَ وَ مَا یُعْلِنُوْنَ(76) اَوَ لَمْ یَرَ الْاِنْسَانُ اَنَّا خَلَقْنٰهُ مِنْ نُّطْفَةٍ فَاِذَا هُوَ خَصِیْمٌ مُّبِیْنٌ(77) وَ ضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَّ نَسِیَ خَلْقَهٗؕ-قَالَ مَنْ یُّحْیِ الْعِظَامَ وَ هِیَ رَمِیْمٌ(78) قُلْ یُحْیِیْهَا الَّذِیْۤ اَنْشَاَهَاۤ اَوَّلَ مَرَّةٍؕ-وَ هُوَ بِكُلِّ خَلْقٍ عَلِیْمُﰳ(79) الَّذِیْ جَعَلَ لَكُمْ مِّنَ الشَّجَرِ الْاَخْضَرِ نَارًا فَاِذَاۤ اَنْتُمْ مِّنْهُ تُوْقِدُوْنَ(80)

وافیہ لاؤن کے دروازے کے پاس زمین پر بیٹھ گئی تھی۔۔۔ وہ اس وقت مکمل طور پر اس اواز اور ان آیات کے سحر میں تھی۔۔۔ اس کی آنکھوں سے ایک پل بھی انسو بہنا بند نہ ہوئے تھے۔۔۔۔

اَوَ لَیْسَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ بِقٰدِرٍ عَلٰۤى اَنْ یَّخْلُقَ مِثْلَهُمْﳳ-بَلٰىۗ-وَ هُوَ الْخَلّٰقُ الْعَلِیْمُ(81) اِنَّمَاۤ اَمْرُهٗۤ اِذَاۤ اَرَادَ شَیْــٴًـا اَنْ یَّقُوْلَ لَهٗ كُنْ فَیَكُوْنُ(82) فَسُبْحٰنَ الَّذِیْ بِیَدِهٖ مَلَكُوْتُ كُلِّ شَیْءٍ وَّ اِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ(83)

وافیہ آنکھیں بند کیے ان آیات کے ایک ایک لفظ کو اپنی روح میں اتار رہی تھی ۔۔۔ وہ شخص تلاوت مکمل کر چکا تھا۔۔۔ اس نے آنکھیں کھولی تھی۔۔۔ اس کو اپنے پیچھے کسی کی موجودگی کا احساس ہوا تھا۔۔ وہ جانتا تھا وہ کون ہے۔۔۔ حدید آفندی بھری بھیر میں بھی وافیہ (للی) کے قدموں کی آہٹ اور اس کی موجودگی کو آسانی سے محسوس کر سکتا تھا۔۔۔

کیسی ہو وافیہ۔۔۔ حدید مدہم لہجے میں بولا تھا۔۔ جب وافیہ نے اپنی آنکھیں صاف کر کے اس کی پشت کو دیکھا تھا۔۔۔ ایک سحر کا اثر ٹوٹا تھا۔۔۔

میرا نام کیسے جانتے ہو تم۔۔ وافیہ حیرت سے بولی تھی ۔۔

اگر میں کہوں یہ نام تمہیں میں نے ہی دیا ہے تو؟؟ حدید اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا تھا۔۔۔ جبکہ وافیہ اس کو حیرت سے دیکھ رہی تھی۔۔۔

تم نے۔۔۔ وہ بس اتنا ہی بول پائی تھی۔۔۔

ہاں میں نے۔۔۔ وہ بھی مختصر سا بولا تھا۔۔۔ اور موڑا تھا ۔۔ جانماز ہاتھ میں تھا جس کو وہ تہ لگا چکا تھا۔۔ آج اس کے چہرے پر کوئی ماسک نہ تھا۔۔۔ آج وہ اس کے سامنے بے نقاب تھا۔۔۔ جبکہ وافیہ بس اس کو دیکھ رہی تھی۔۔۔ اس کی صرف آواز ہی نہیں وہ خود بھی بے حد خوبصورت تھا۔۔۔

کیا ہوا ایسے کیوں دیکھ رہی ہو ۔۔  حدید اس کے سامنے آ کر کھڑا ہوا تھا اور اس کے آگے ہاتھ کیا تھا۔۔۔

وہ ہچکچاتے ہوئے اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ کر اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔۔۔

آپ کی آواز بہت خوبصورت ہے۔۔۔ وافیہ بس اتنا ہی بول پائی تھی ۔۔۔

شکریہ اس تعریف کا۔۔۔  حدید مدہم سا مسکرایا تھا۔۔۔۔

وافیہ نے ایک نظر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا تھا۔۔ جبکہ حدید اس کو ہی دیکھ رہا تھا۔۔۔ آج ایک بار پھر سے سںہری آنکھیں ہلکی نیلی آنکھوں سے ملی تھی۔۔۔ وافیہ فوراً سے اپنے کمرے کی طرف بھاگی تھی۔۔۔ حدید کیسی سحر کی طرح اس کو جکڑ رہا تھا۔۔۔ وہ اپنے کمرے میں آ کر بیڈ پر بیٹھی تھی۔۔۔ اس کی سانس پھولی ہوئی تھی۔۔۔ ایک بار پھر اس کے خیالوں پر حدید کی آواز اس کا چہرہ چھا گیا تھا۔۔۔ وہ اس کے خیالوں پر مکمل طور پر سوار ہو گیا تھا۔۔۔۔ وافیہ بستر پر لیٹتے کمبل سر تک تان چکی تھی۔۔ ابھی فجر میں کافی وقت تھا۔۔۔۔ اپنے فون پر الارم لگا کر وہ لیٹی تھی۔۔ مگر نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔۔

جبکہ دوسری طرف حدید ادھر کھڑا تھا۔۔۔

بھاگ لو جتنا بھاگ سکتی ہو مجھ سے محرم بن کر میرے ہی پاس آؤ گئی تم۔۔۔ حدید مدہم آواز میں بولتا اپنے کمرے کی طرف بڑھا تھا۔۔۔

urdunovelnests••••••••••••••••

وہ اپنے کمرے سے باہر نکلی  تھی گل اس کو بیسٹ کے کمرے کا راستہ بتا چکی تھی وہ ایک ایک قدم اٹھاتے اس کے کمرے کی طرف بڑھ رہی  تھی ۔۔۔ اس کے قدموں کی رفتار بہت سست سی تھی ۔۔ دل بہت تیز ڈھرک رہا تھا ۔ ہاتھ پیسنے سے بھڑے ہوئے تھے۔۔۔  ماتھے پر پیسنے کے ہلکے ہلکے قطرے نمودار ہوئے تھے۔۔۔ وہ ایک لمحے کے لیے روکی تھی۔۔۔۔

میں اس سے جا کر بولوں گی کیا۔۔۔ جزا نے خود سے سوال کیا تھا۔۔۔

جا کر کہہ دوں گئی مجھے تمہاری مدد چاہیے میری مدد کرو۔۔۔ اپنے سوال کا جواب اس نے خود ہی دیا تھا۔۔۔

ہاں ہاں۔ جزا میڈم وہ تمہارا  نوکر ہے نہ جس کو تم کہو گئی میری مدد کرو اور وہ فوراً جی حضوری کرتا مدد کرنے لگے گا۔۔۔ جزا خود کو ہی کوستی جا رہی تھی ۔۔۔

ایک ٹھنڈی سانس خارج کرتے وہ پر اعتماد سی آگے کی طرف بڑھی تھی۔۔۔ ساتھ ہی اس نے ایک نظر اس خوبصورت سے راہداری پر ڈالی تھی ۔۔

وہ چلتی چلتی اس کے کمرے کے دروازے کے سامنے آ کر روکی تھی۔۔۔ خود میں ہمت پیدا کرتے اس نے دروازہ نوک کیا تھا۔۔۔

وہ جو اپنے کمرے میں صوفے پر نیم دراز اپنی سوچوں میں گم تھا۔۔۔ دروازہ نوک  ہونے پر سیدھا ہو کر بیٹھا تھا۔۔۔ ہاتھ سے چہرے پر لگا ماسک درست کیا تھا۔۔۔ اور اندر آنے کی اجازت دے چکا تھا۔۔۔۔

urdunovelnests••••••••••••••

جاری ہے۔۔۔۔۔

 

Don’t copy without my permission ❌

Share your precious reviews and also share with your friends 💞

For reading other episode click on the link below

urdunovelnests



 

Comments

  1. You are doing a great job keep it up girl bs ab week m do do episodes Dalna shru krdu 😜

    ReplyDelete
    Replies
    1. thanks you or week main do do episode 🤦‍♀️kafi mushkil hai 😂

      Delete
    2. To writer girl week me 1 epi hi dal den

      Delete
    3. AJ bhi epi nahi aaya🥲🥺😔

      Delete
    4. episode or kuch dar main upload honaye laga hai

      Delete

Post a Comment