Urdu Novel Dasht-e-Ulfat by Shazain Zainab Episode 18


بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

 ناول

 

دشتِ الفت

 

شازین زینب

 

Ep # 18

 

وہ اپنی جگہ سے اٹھا تھا جبکہ نظریں ابھی تک اس طرف ہی تھی جہاں سے جزا اندر کی طرف گئی تھی ۔۔۔ لیو ولف اور رحیان اس کے پیچھے کھڑے تھے۔۔۔ جبکہ سب گاڑڈز اور ملازمین اس کو نکاح کی مبارک باد دے کر اپنے اپنے کام میں مصروف ہو گئے تھے ۔۔۔   ابھی وہ اگے قدم بڑھاتا جب گل اس کے سامنے آ کر کھڑی ہوئی تھی ۔۔

کدھر چلے اب آپ ؟؟؟ گل اس کے سامنے کھڑی ہوتی بولی تھی ۔۔

غالباً میرا ابھی نکاح ہوا ہے تو شاید مجھے ابھی میری بیوی کے پاس جانا چاہیے ؟؟ بیسٹ ایک آئی برو اٹھا کر گل کی طرف دیکھتے بولا تھا۔۔ جبکہ لیو ریحان سیدھے ہو کر کھڑے ہو گئے تھے اور ولف نے بیسٹ کے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا اور اس کے کان کے پاس جھکا تھا ۔۔۔

یہ تیری جیب خالی کروائے گئی۔۔۔ ولف اس کے کان میں کہہ کر سیدھا ہوا تھا جب اس کے کان میں گل کی کے الفاظ گونجے تھے ۔۔

جانتی ہوں اپکا نکاح ہوا ہے اور میں اس کی چشم دید گواہ ہوں۔۔ اب اگر  آپ کو اپنی بیوی سے میلنا ہے تو پہلے میری ہتھیلی نوٹوں سے بھرنی ہو گئی۔۔۔گل نے اپنا ہاتھ اس کے سامنے کیا تھا اور بیسٹ نے ایک ائی برو اٹھا کر اس کو دیکھا تھا ۔۔

میں سوچ رہا ہوں تمہارے ہاتھ پیلے کروا دوں گلے میں ہڈی بن رہی ہو تم ۔۔ پھر سوچتا ہوں کیسی کے بیٹے کا برا نہ سوچوں ساری زندگی مجھے بد دعائیں دے گا۔۔۔ بیسٹ اس کو گھورتا بولا تھا ۔۔ جبکہ لیو ولف اور رحیان نے اپنے بے اختیار نکلتے قہقہے کا گلا گھونٹا تھا۔۔ اور گل بیسٹ کو منہ کھولے دیکھ رہی تھی ۔۔۔

اتنی بری بھی نہیں ہوں میں ۔۔۔ وہ رو دینے  والی ہو گئی تھی۔۔۔

اتنی اچھی بھی نہیں ہو۔۔۔ بیسٹ اس کو دیکھتا بولا تھا۔۔۔ جب گل نے اس کو غصے سے منہ پھولا کر دیکھا تھا ۔۔۔

میں کہہ رہی ہو مجھے پیسے دیں ورنہ آپ کو آپ کی بیوی کے پاس جانے نہیں دوں گئی۔۔۔ گل اس کو دیکھتے بولی تھی ۔۔

کیا مطلب ہے تمہارا مرنا ہے کیا میرے ہاتھوں ۔۔۔ بیسٹ نے اس کو غصے سے گھورا تھا۔۔۔

بھری جوانی میں مجھے مرنے کا شوق نہیں چڑا ۔۔ آپ بس مجھے پیسے دیں تب ہی میں آپ کے راستے سے ہٹوں گئی۔۔۔ گل کمر پر ہاتھ رکھ کر کھڑی ہو گئی تھی ۔۔

اچھا بتاؤ کتنے پیسے چاہیے تمہیں ؟؟  اب کی بار ولف بیچ میں بولا تھا۔۔۔

زیادہ نہیں بس تینتیس ہزار تین سو یورو ۔۔۔ گل شان بے نیازی سے بولی تھی جبکہ لیو ولف اور رحیان کا منہ کھولا کا کھولا رہ گیا تھا اور بیسٹ نے اس کو گھوری سے نوازا تھا۔۔۔

کچھ زیادہ کم نہیں ہے یہ؟؟؟  لیو گل کو دیکھ کر بولا تھا ۔۔  اس کو تو اس کی مانگ سن کر ہی چکر آ گئے تھے۔۔۔

بیسٹ کیا اپنی بہن کو اتنا بھی نہیں دے سکتا۔۔۔ گل نے اپنے موٹی موٹی اوشن گرین آنکھیں پٹپٹائی تھی۔۔۔

میڈم تم  ایک کڑور پچیس ہزار  مانگ رہی ہو۔۔۔  ولف نے اس کو اس کی مانگی ہوئی اماؤنٹ پاکستانی روپیوں میں بتائی تھی ۔۔

ہاں تو۔۔۔ گل نے ناک سکڑ کر ولف کی طرف دیکھا تھا۔۔۔

دیے تمیں ۔۔۔ ابھی ولف کچھ بولنے لگا تھا جب  بیسٹ کی آواز ان سب کی سماعت سے ٹکرائی تھی۔۔۔۔

تم واقع ہی اس بچی کو اتنی بڑی رقم دے رہے ہو۔۔۔ لیو حیرت سے بولا تھا ۔۔۔

بچی کس کو بولا ۔۔ جان سے مار کر روم کے ایسے کونے میں پھینکو گی کہ پورا روم چھوڑو اٹلی بھی مل کے ڈھونڈے گا تو تم نہیں میلو گے۔۔۔ گل ایک قدم آگے آئی تھی۔۔جبکہ وہ بیسٹ کے الفاظ کو نظر انداز کر گئی تھی کہ وہ اس کو اس کی منہ مانگی قیمت دے رہا ہے ورنہ ابھی جو زبان چلا رہی تھی وہ بےہوش ہوتی۔۔۔۔

گل۔۔۔ بیسٹ کی ایک سخت آواز اس کو خاموش کروا گئی تھی۔۔۔

مگر بیسٹ یہ چھوٹی ہے اتنی اماؤنٹ دینا بے وقوفی ہے۔۔۔۔ ولف اب بولا تھا۔۔۔ جبکہ  گل کا اب سارا دھیان اس بات کی جانب تھا۔۔

کوئی بات نہیں ۔۔۔ بیسٹ شان بے نیازی سے بولا تھا۔۔۔

تم واقع ہی دے رہے ہو۔۔۔  رحیان نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا۔۔۔

ہیں میں اس کو دے رہا ہوں۔۔۔ بیسٹ گل کی طرف دیکھ کر بولا تھا۔۔۔

مگر کیوں؟؟؟ اب کی بار لیو ولف اور رحیان ایک ساتھ بولے تھے۔۔۔  جبکہ گل تو ابھی تک خاموشی سے ٹکٹکی باندھے اس کو دیکھ رہی تھی ۔۔

کیونکہ مجھے میری بیوی سے ملنا ہے۔۔۔ اور اگر میری بیوی کے کمرے میں جانے کی قیمت میری جان بھی ہوتی تو میں دینے سے انکار نہ کرتا۔۔۔ یہ تو صرف چند روپے ہیں ۔۔۔ بیسٹ بہت پر سکون انداز میں بولتا ادھر سے جانے لگا تھا جبکہ گل سمیت ان تینوں کا منہ حیرت سے کھل گیا تھا۔۔۔

وہ ادھر سے جا چکا تھا ان چاروں کو حیرت میں ڈال کر جب اچانک گل کے موبائل پر ایک نوٹیفیکیشن کی آواز آئی تھی۔۔۔جس سے گل واپس ہوش میں آئی تھی اس نے فوراً اپنے فون کو کھولا تھا۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی اس کا منہ بھی کھولا کا کھولا رہا گیا تھا۔۔۔ اس کے اکاؤنٹ میں تینتیس ہزار تین سو یورو کی بجائے چونتیس ہزار یورو ٹرانسفر کیے گے تھے ۔۔

بیسٹ کو پیار ہو گیا تم سب مانو نہ مانو اس کو پیار ہو گیا ہے ۔۔ گل کی آواز پر وہ تینوں بھی صدمے سے باہر نکلے تھے۔۔۔

یقین کرنا مشکل ہے۔۔۔ لیو اور ولف ایک ساتھ بولے تھے۔۔۔

مگر مجھے یقین ہے۔۔۔ رحیان اس دروازے کی طرف دیکھتے بولا تھا جہاں سے بیسٹ ابھی اندر گیا تھا۔۔۔

•••••••••••••

وہ اسی میرون لونگ میکسی میں اپنے کمرے کے بیڈ پر بیٹھی تھی ۔۔۔ انسو اس کی آنکھوں سے بہہ رہے تھے ۔۔ اس کو آج اپنے بابا کی بہت یاد آ رہی تھی ۔۔۔  جب اچانک کمرے کا دروازہ کھولا تھا اور کیسی کے بھاری بوٹوں کی آواز اس کی سماعت سے ٹکرائی تھی۔۔۔ 

وہ بیڈ پر بیٹھی ہوئی تھی اس کی پشت دروازے کی طرف تھی۔۔۔اس نے فوراً سے اپنے آنسوں صاف کیے تھے۔۔۔میرون ڈوپٹہ اب سر پر نہیں تھا ۔ گھنے اور لمبے شہد رنگ بال اس کی کمر کو ڈھانپے ہوئے تھے۔۔۔ اس کے بال اس کی کمر سے نیچے تک آتے تھے۔۔۔۔ 

تم رو رہی ہو۔۔۔ بیسٹ کی مدہم سی آواز اس کی سماعت سے۔ ٹکرائی تھی۔۔۔ وہ جانتی تھی کہ یہ بیسٹ ہی ہو گا۔۔کیونکہ یہاں کیسی اور میں اتنی ہمت نہ تھی اس کی اجازت کے بغیر اسکے کمرے میں آنے کی۔۔۔ جبکہ بیسٹ نے ایک گہری نظر اس کے شہد رنگ بالوں پر ڈالی تھی ۔۔ اس کو اپنا دل بے اختیار ہوتا محسوس ہوا تھا۔۔۔

آنکھیں کم پیاری ہیں اس کی جو بال بھی اتنے خوبصورت ہیں ۔۔۔  بیسٹ اتنی مدہم آواز میں بولا تھا کہ خود ہی بامشکل سن سکا تھا۔۔۔ نہ جانے کیوں اس کا دل جزا کو دیکھ کر ڈھرک اٹھاتا تھا۔۔۔ اور ڈھرکنوں کی رفتار اتنی تیز ہوتی تھی کہ اس کو اپنا دل کانوں میں بجتا محسوس ہوتا تھا۔۔۔ اس کی نظریں جزا کے بالوں میں الجھی ہوئی تھی ۔۔ اس کا دل چاہا ہاتھ بڑھا کر ان شہد رنگ ریشمی بالوں کو چھو لے مگر جذبات پر بند باندھے کھڑا رہا ۔۔

جبکہ دوسری طرف جزا خود کو نارمل کرنے کی کوشش میں تھی اس کو تو یہ ہی سمجھ نہیں آرہی تھی بغیر اس کو دیکھ  وہ کیسے جان گیا کہ وہ رو رہی تھی ۔۔۔

میں نہیں رو رہی ۔۔۔۔ جزا خود کو نارمل کرتے اور اپنی آواز کو حد درجے نارمل  کرتے بولی تھی ۔۔۔ 

جھوٹ اچھا بول لیتی ہو ۔۔ بیسٹ نے اپنے قدم آگے کی طرف بڑھائے تھے ۔۔ اور  جزا کے سامنے جا کر کھڑا ہو گیا تھا۔۔۔  

میں جھوٹ نہیں بول رہی ۔۔۔ جزا نے نظریں اٹھا کر بیسٹ کو دیکھا تھا ۔۔۔ اس کی شہد رنگ آنکھیں جن میں رونے سے کچھ سرخی ڈور آئی تھی بیسٹ کی سبز آنکھوں سے ٹکرائی تھی ۔۔۔ جزا کی تیکھی ناک بھی رونے کی وجہ سے سرخ ہو چکی تھی۔۔۔ اور یہاں بیسٹ مکمل طور پر قربان ہوا تھا۔۔۔

تو یہ ناک اور آنکھیں اتنی سرخ کیوں ہیں ۔۔۔ اس نے اپنی سبز آنکھوں سے اس کے چہرے کا جائزہ لیتے ہوئے پہچا تھا۔۔۔ جبکہ اس کے سوال پر جزا شرمندہ ہوئی تھی جیسے اس کی چوری پکڑی گئی ہو۔۔۔

میرے بابا کے بارے میں کیا جانتے ہو بتاؤ ۔۔۔ اپنی شرمندگی چھپانے کے لیے اس نے موضوع بدلہ تھا۔۔۔

بتاؤ گا۔۔ اپنی زبان کا پکا ہوں میں ۔۔۔ تم سے ایک ضروری بات کرنے آیا تھا۔۔۔ اور تمہیں کچھ دینا بھی تھا۔۔۔ بیسٹ جزا کے سامنے بیٹھتا بولا تھا۔۔

کیا کہنا ہے اور کیا دینا ہے۔۔۔ جزا اس کو پریشانی اور سوالیہ نظروں سے دیکھتے بولی تھی۔۔۔۔

اپنا ہاتھ دو گئی؟؟ بیسٹ نے جزا کے سامنے اپنی چوڑی ہتھیلی رکھی تھی۔۔۔ جبکہ جزا اس کو حیرت سے دیکھ رہی تھی۔۔۔

کیوں ؟؟ اس نے دو ٹوک سوال کیا تھا۔۔۔

فکر مت کرو کچھ غلط نہیں کروں گا۔۔۔  بیسٹ نے اپنی سبز آنکھیں سے اس کی پریشان شہد رنگ آنکھوں کو دیکھا تھا۔۔۔ ماسک کے پہچا اس کے ہونٹ مدہم سا مسکرائے تھے۔۔۔ وہ جو کبھی کیسی لڑکی کو دیکھ کر نہ مسکرایا تھا۔ آج اپنے سامنے بیٹھی لڑکی کو جب جب دیکھتا تھا اس کے ہونٹوں کو مسکراہٹ چھو جاتی تھی ۔۔

تمہارا کیا بھروسہ ۔۔ اب تو نکاح بھی ہو گیا ہے فائدہ اٹھانے میں وقت نہ لگاؤ تم۔۔۔جزا اس کو غصے سے دیکھتے بولی تھی ۔۔

بے فکر رہو جزا جب تک تم مجھے اجازت نہیں دو گئی میں تم سے اپنا کوئی حق نہیں لوں گا نہ تمہارے قریب آؤ گا۔۔۔ جب تک تم اس رشتے کے لیے ذہنی طور پر تیار نہیں ہو جاتی تب تک میری طرف سے بھی کوئی پیش قدمی نہیں ہو گی ۔۔۔ کیا اب اپنا ہاتھ دو گئی۔۔۔ بیسٹ نے بہت پر سکون انداز میں ساری بات بولی تھی اور دوبارہ سے اس سے سوال کیا تھا۔۔۔ نہ چاہتے ہوئے بھی جزا نے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ کی طرف بڑھا دیا تھا۔۔جس کو بیسٹ نے فوراً تھام لیا تھا۔۔

اس نے پانے کوٹ میں سے ایک  بلیک رنگ کی ڈبی نکالی تھی اور اس  کو کھولا کر اس میں سے ایک انگوٹھی نکالی تھی ۔۔ وہ انگوٹھی بہت خوبصورت اور نفیس سی تھی۔۔۔  جس پر ایک خوبصورت سا ڈائمنڈ لگا ہوا تھا اور اس کے اطراف میں چند چھوٹے ڈائمنڈ لگے ہوئے تھے۔۔۔۔  یہ تمہارے لیے نکاح کا تحفہ ہے۔۔۔ امید کرتا ہوں تم اس کو قبول کرو گئی۔۔۔ اس نے وہ  بلیک بوکس جزا کے ہاتھ پر رکھا تھا ۔۔ اور اپنی جگہ سے اٹھ گیا تھا۔۔۔ جبکہ جزا بس اس کو دیکھی جا رہی تھی۔۔ کہ آخر وہ یہ سب کر کیوں رہا ہے ۔۔

جزا میں جانتا ہوں اب تم میری بیوی ہو۔۔ مگر ایک بات میں تمہیں کلیر کرنا چاہتا ہوں تاکہ تم میرے اور اپنے رشتے کو لے کر بدگمان نہ ہو۔۔ جیسے کہ میں پہلے بھی بول چکا ہوں کے میں تمہاری مرضی کے بغیر کبھی بھی تمہارے قریب نہیں آؤ گا تو پلیز مجھ سے ڈرنے یا ہچکچاہٹ محسوس کرنے یا دور بھاگنے کی ضرورت نہیں۔۔۔ دوسرا کہ تم کبھی یہ فیل مت کرنا کے تم باہر آنے جانے میں میری اجازت کی پابند ہو تو ایسا بلکل نہیں ہے۔۔ تم اپنی زندگی ایک نارمل پرسن کی طرح جیو جیسی زندگی جینا چاہتی ہو جیو۔۔مگر اس بات کر خیال رکھنا کے تم بیسٹ کی بیوی ہو انڈر سٹینڈ ۔۔ اور تمہاری اسٹڈیز بھی  کنٹینیو ک رہے گئی۔۔۔ اور اپنے کپڑے  چینج کر کے  میٹنگ  روم میں آ جاؤ ۔۔۔۔ بیسٹ جزا کو دیکھتا پرسکون اور ہموار لہجے میں بولا تھا اور اب باہر جانے کے لیے  پلٹا تھا جبکہ وہ اس کو منہ کھولے دیکھ رہی تھی۔۔۔۔

یہ چیز کیا ہے۔۔۔۔ اس کو جاتا دیکھ جزا بس اتنا ہی بول پائی تھی اس کو آواز بہت مدہم سی تھی جو بیسٹ کے کانوں تک نہ پہنچ پائی ۔۔۔

بیسٹ کو اس کے کمرے سے گئے کچھ منٹ ہی گزرے تھے جب اس کے کمرے کا دروازہ نوک ہوا تھا وہ جو  ڈریسنگ روم میں اپنے کمرے نکال رہی تھی اندر آنے کا بول کر پھر سے کپڑوں کی طرف موڑی تھی ۔۔۔۔

کیا کر رہی ہو آپ۔۔۔ گل اس کے کمرے۔ میں آتے ساتھ ڈریسنگ روم کی طرف آئی تھی ۔۔۔

کچھ نہیں کپڑے چینج کرنے لگے بیسٹ نے میٹنگ روم میں بلایا ہے ۔۔ جزا اپنے کام میں مصروف بولی تھی۔۔ جب اس کی نظر ایک نیوی بلو ٹراؤزر اور شرٹ پر گئی تھی اور اس کے ساتھ ہم رنگ ڈوپٹہ تھا۔۔ اس نے وہ سوٹ نکال لیا تھا ۔۔ 

کیا؟؟ آپ کو بیسٹ نے میٹنگ روم میں بلایا ہے؟؟ گل تو چکرا گئی تھی۔۔۔

ہاں کیوں کیا ہوا۔۔۔  جزا نے اس کو موڑ کر دیکھا تھا۔۔۔

یار آج آپ دونوں کا نکاح ہوا ہے بجائے ایک دوسرے کے ساتھ وقت گزارنے کے آپ دونوں میٹنگ روم میں مذاکرات کرنے لگے ہو ۔۔ گل نے اپنا سر پکڑا تھا۔

اچھا ۔۔۔۔ ہم نے ایک دوسرے کے ساتھ وقت گزا کر کیا کرنا ہے بتانا۔۔۔  جزا گل کے سامنے کھڑے ہوتے بولی تھی جبکہ کپڑے ایک سائیڈ پر رکھ کر دونوں ہاتھ کمر کے پیچھے باندھ چکی تھی ۔۔

فیچور پلین کرو دو بول پیار کے بولو۔۔۔ گل نے انکھی پٹپٹا کر بولا تھا جبکہ اس کی بات پر جزا نے غصے سے اس کو گھورا تھا۔۔۔

گل میڈم میرا ابھی دماغ خراب نہیں ہوا ۔۔ اس لیے اپنے یہ فصول خیالات اپنے تک ہی رکھو ۔۔ جزا گل کو غصے سے گھورے بولی تھی۔۔۔

وہ میں تو ویسے ہی بول رہی تھی ۔۔ گل نے دانتوں کا اشتہار دیتے ہوئے کہا تھا۔۔۔

ویسے تم اتنی خوش کیوں ہو؟؟ جزا نے ایک  ائی برو اٹھا کر گل کو دیکھا تھا جس کے آج دانت ہی اندر نہیں ہو رہے تھے ۔۔

وہ آپ کے شوہر سے اچھی خاصی رقم نکلوائی ہے میں نے ۔۔ گل جزا کے کندھے پر بازو پھیلا کر بولی تھی۔۔۔ جبکہ گل کے آپ کے شوہر کہنے پر ناجانے کیوں جزا کو اپنے ہاتھ پاو ٹھنڈے ہوتے محسوس ہوئے تھے ۔۔

کتنی رقم نکلوائی ہے تم نے ؟؟ جزا خود کو نارمل کرتے بولی تھی۔۔۔

میں نے تو تینتیس ہزار تین سو یورو کی ڈیمانڈ کی تھی مگر آپ کے شوہر نے چونتیس ہزار یورو دے دیے ۔۔۔ گل ڈریسنگ روم سے باہر نکلتے بولی تھی جبکہ جزا اس کے پیچھے آئی تھی۔۔۔

چونتیس ہزار یورو ۔۔۔ جزا حیران سی گل کو دیکھتے بولی تھی ۔ ۔

ہاں چونتیس ہزار یورو۔۔ ایک کڑور دو لاکھ  ۔۔۔ گل بیڈ پر گرںے والے انداز میں لیتے بولی تھی۔۔۔۔ جبکہ اس کی بات سن کر جزا کا اگلے الفاظ حلق میں ہی رہ گئے تھے اوراس کے قدم ادھر ہی روک گئے تھے ۔۔

اس نے اتنے پیسے تمہیں دے دیے ؟؟ جزا بامشکل بول پائی تھی ۔۔۔

ہاں دے دیے  کیوںکہ ان کو اپنی بیوی سے ملنا تھا نہ ۔۔۔ گل ہاتھ سر کے نیچھے ٹکائے اپنے سامنے کھڑی جزا کو سر سے پاؤں تک دیکھتے بولی تھی ۔۔۔

مجھے نہ یہ آدمی پاگل لگتا ہے۔۔۔۔ جزا اپنی میرون میکسی سنبھلاتے  صوفے پر بیٹھتے بولی تھی ۔۔

جی بلکل آپ کے لیے پاگل ہو گئے ہیں شاید۔  گل اپنے ہونٹوں پر مسکراہٹ سجا کر بولی تھی۔۔۔ اور جزا کو دیکھ کر آنکھ ونک کی تھی جزا فوراً سے صوفے سے اٹھی اور ڈریسنگ روم میں واپس چلی گئی ۔۔۔

ادھر ہی رہنا میں کپڑے چینج کر کے آ رہی ہوں۔۔ مجھے میٹنگ روم تک چھوڑ کر آنا ہے تم نے۔۔۔  ڈریسنگ روم سے جزا نے گل کو آواز دے کر بولا تھا۔۔۔ جبکہ گل اس کے بیڈ پر نیم دراز پو گئی تھی ۔۔۔

••••••••••

بیسٹ اب تم کیا کرو گے؟؟ولف کرسی پر بیٹھا بیسٹ کی طرف دیکھ کر بولا تھا وہ سب اس وقت میٹنگ روم میں تھے ۔۔۔

کیا کروں گا سے مطلب ؟؟ بیسٹ نے ولف کی طرف دیکھا تھا۔۔۔

مطلب یہ کہ بیسٹ تم جزا سے نکاح کر چکے ہو اور یہ بات کب تک چھپی رہے گئی۔۔۔ کنگ کو اگر بھنک بھی پر گئی کہ الفا کی بیٹی تمہارے پاس ہے اور تمہارے نکاح میں ہے تو وہ اس کو تمہاری کمزور کے طور پر استعمال کرے گا یا جزا کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرے گا تم جانتے نہیں ہو الفا نے کنگ کا کتنا نقصان کیا تھا۔۔۔ اس سب میں اس معصوم کو نہیں آنا چاہیے ۔۔۔ ولف پریشانی سے بولا تھا جبکہ اس کی نظریں بیسٹ پر تھی اور اس کی نظروں سے پریشانی صاف نظر آ رہی تھی ۔۔

نکاح کیا ہے کوئی  گناہ نہیں جو سب سے چھپاتا پھیروں ۔۔ دوسری بات  وہ الفا کی بیٹی ہے ابھی تم نے ہی بولا ہے نہ تو تمہیں ایسا کیوں لگتا ہے وہ کمزور ہے ؟ وہ الفا کی بیٹی ہے الفا کی بڑی بیٹی اور عموماً بڑی بیٹیاں باپ کا فی میل ورژن ہوتی ہیں ۔۔ اور جو انتقام کی آگ اس کی آنکھوں میں میں دیکھ چکا ہوں نہ سمجھ جاؤ وہ الفا ہی ہے۔۔۔ اور تیسری اور سب سے اہم بات میں اس کو اپنی کمزور نہیں بناؤ گا۔۔۔ میرے دشمنوں کی نظر میں وہ میری کمزوری ہو گئی مگر حقیقت میں وہ میرا ایسا ہتھیار ہے جس کے بارے میں ان کے فرشتوں کو بھی معلوم نہ ہو گا۔۔ وہ انڈر ورلڈ کی سب سے خطرناک لڑکی ہو گئی ۔۔ بیسٹ اپنی بیوی کو اپنی کمزروی نہیں اپنی طاقت بنائے گا ۔۔ اور کنگ اس کو کبھی بھی کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا کیونکہ وہ کنگ کے لیے خود نقصان ہو گئی ۔۔۔ بیسٹ اپنے کرسی سے ٹک لگا کر پرسکون سا بولا تھا جبکہ لیو ولف اور رحیان اس آنکھیں پھاڑے دیکھ رہے تھے ۔۔

وہ نازک سی لڑکی ہے بیسٹ ۔۔۔ لیو بے یقینی سے بولا تھا۔۔۔

تم نے کبھی زخمی بلی دیکھی ہے؟؟ کبھی زخمی شیرنی دیکھی ہے؟؟ بیسٹ آگے کی طرف ہو کر بیٹھا تھا اس نے دونوں کہنیوں کو ٹیبل پر ٹکا لیا تھا ۔۔

نہیں ۔۔۔ لیو نے سر نفی میں ہلایا تھا ۔۔

اگر کبھی زخمی بلی یا زخمی شیرنی دیکھو  نہ جس کے سامنے اس کے بچوں کو یا اس کے اپنوں کو مار دو یا جس کو بہت نقصان پہنچایا گیا ہو ۔۔ تو اس کے ایک پنجے کا وار  ایک غصے سے بھرے شیر کے دس وار کے برابر ہوتا ہے ۔۔ ٹھیک ایسی طرح جب ایک عورت انتقام لینے کھڑی ہو جائے نہ  اپنے سامنے کھڑے شخص کو مکمل طور پر تباہ کر کے دم لیتی ہے۔۔  میں نے اس کی آنکھوں میں خون دیکھا ہے۔۔۔  وہ غصے وہ قہر دیکھا ہے جو کبھی الفا کی نظروں میں دیکھا تھا ۔۔  بیسٹ لیو کو دیکھتا بولا تھا۔۔۔ 

الفا کا قہر بہت برا ہے بیسٹ ایک وقت تھا جب انہوں نے انڈر ورلڈ کو ہلا کر رکھ دیا تھا بڑے بڑے لیڈر مار پھینکے تھے۔۔۔ ولف اپنی کرسی سے ٹیک لگاتا بولا تھا۔۔۔۔

اور اس وقت وہ ہی قہر ایک لڑکی کی صورت میں انڈر ورلڈ میں ہے۔۔ بقول بیسٹ۔۔۔ لیو نے ایک نظر رحیان اور ولف پر ڈالی اور بیسٹ کو دیکھا تھا ۔۔ جبکہ رحیان کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ تھی۔۔۔

تم مسکرا کیوں رہے ہو۔۔۔ بیسٹ نے رحیان کی مسکراہٹ کو نوٹ کیا تھا۔۔۔

میں مستقبل کا سوچ کر مسکرایا ہوں۔۔۔ رحیان مدہم آواز میں بولا تھا۔۔۔

کیا مطلب؟؟ ولف اور لیو ایک ساتھ بولے تھے۔۔۔ جبکہ بیسٹ رحیان کا مطلب سمجھ گیا تھا تبھی پر سکون سا ٹیک لگائے بیٹھا تھا۔۔۔

مطلب یہ کہ انڈر ورلڈ میں ایک ہی وقت میں ایک نہیں بلکہ دو دو قیامتیں ہوں گئی۔۔۔ انڈر ورلڈ کا حال ان قریب دیکھنے والا ہو گا۔۔۔ رحیان مسکرایا تھا۔۔ اور دل سے مسکرایا تھا۔۔۔ جبکہ اس کی بات سن کر ولف اور لیو کے چہرے پر بھی مسکراہٹ نے جگہ لے لی تھی۔۔۔

مگر بیسٹ کنگ اب اپنی بل سے نکال آیا ہے تو وہ واپس سے اپنی جگہ نہیں لے گا۔۔۔  ولف کچھ سوچتے ہوئے بولا تھا ۔۔

یقیناً لے گا ۔۔ بیسٹ نے پرسکون سا جواب دیا تھا۔۔

تو پھر تم کیا کرو گے اگر کنگ نے واپس اپنی جگہ لی تو۔۔ لیو اور رحیان ایک ساتھ بولے تھے۔۔۔

وہ ہی جو بیسٹ کرتا ہے۔۔۔۔ بیسٹ نے ہاتھ میں پکڑی سگریٹ کو آش ٹرے میں مسلا تھا۔۔

تم کرنے کیا والے ہو یار پلیز اس بار بتا دو ۔۔۔ ولف نے اس کے سامنے ہاتھ جوڑے تھے۔۔۔

ہاتھ نہ جوڑو بتاتا ہوں۔۔ کنگ اپنی جگہ واپس لے گا ہر صورت لے گا وہ واپس پاکستان جائے گا۔۔۔ اور اپنے سارے پرانے ساتھیوں سے ملیے گا۔۔۔ مگر بدلے میں وہ میرا طرف سے نقصان پائے گا۔۔۔ میں کنگ کی ساخت کو بھال ہونے سے پہلے ہی برباد کر دوں گا۔۔۔ ان کے پلین ناکام ہوتے چلے جائے گے۔۔۔ سمجھو اب کنگ اپنے بربادی کی طرف بڑھنے لگا ہے۔۔ کیونکہ اس بار اس کے مخالفین میں بیسٹ ہے۔۔ بیسٹ ہموار لہجے میں بولا تھا۔۔جبکہ ولف لیو اور رحیان کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔۔۔ 

مگر تم پاکستان واپس کب آؤ گے ۔۔ رحیان نے اب کی بار سوال کیا تھا ۔۔

ایک مہینے بعد۔۔۔ بیسٹ نے کچھ سوچتے ہوئے جواب دیا تھا۔۔۔

مگر ایک مہینہ کیوں ؟؟  لیو اب کی بار بولا تھا۔۔۔

کیونکہ مجھے جزا کو تیار کرنا ہے۔۔۔ اور تب تک شہزاد کو اتنا یقین ہو جائے گا کہ جزا مر گئی ہے۔۔۔  اور  پھر میں اس کو پاکستان لے کر آؤ گا۔۔۔ اور اب تم لوگ جا کر آرام کرو تم لوگوں کو واپس بھی جانا ہے۔۔۔ بیسٹ گھڑی کو دیکھتا بولا تھا۔۔۔ جبکہ وہ تینوں فوراً اپنی جگہ سے اٹھے تھے۔۔۔۔  

رحیان اور لیو میٹنگ روم سے نکال گے تھے جب ولف روکا تھا اور اس نے بیسٹ کی طرف دیکھا تھا۔۔۔۔

تمہیں محبت ہو گئی ہے بیسٹ ؟  ولف نے بیسٹ کو دیکھتے پوچھا تھا جبکہ ولف کے اس سوال سے بیسٹ نے کرسی کی پشت سے سر ٹکا لیا تھا۔۔۔  وہ جانتا تھا ولف اس سے یہ سوال ضرور کرے گا اور وہ کر بھی چکا تھا۔۔۔۔

آغاز محبت ہے ولف۔۔۔ بیسٹ مدہم لہجے میں بولا تھا۔۔۔

اس محبت کا انجام پتا ہے تمہیں ؟؟ ولف نے بیسٹ کی انکھوں میں دیکھ کر سوال کیا تھا۔۔۔

محبت کا انجام کیا ہو گا اگر یہ سوچ کر محبت کی جائے تو وہ محبت نہیں ہے۔۔۔۔ بیسٹ نے اپنی سبز آنکھوں سے ولف کی چمکتی ذہن آنکھوں کو دیکھا تھا ۔۔

جس دن اس کے سامنے تمہاری اصلیت آ گئی کیا اس دن وہ تمہیں قبول کرے گئی ؟؟؟ ولف نے اس کے سامنے مستقبل ک ایک آئینہ کیا تھا ۔۔

وہ قبول نہ بھی کرے مگر ٹھکرا بھی نہیں پائے گئی ۔۔  اور اس کو میرے پاس ہی آنا ہو گا ۔۔ اس کا ہر راستہ مجھ تک آئے گا ۔۔۔ اس کا دل اس کو مجھ تک لائے گا ۔۔  بیسٹ پرسکون سا بولا تھا ۔۔

تمہیں اتنا یقین ہے خود پر ؟؟ ولف نے اس کو دیکھا تھا۔۔ جس نے کبھی محبت کا سوچا تھا نہ نام لیا تھا ۔ اور آج کیسے ایک لڑکی کی محبت میں گم تھا۔۔۔

مجھے اس ذات پر یقین ہے جو آج اس کو مجھ تک لایا ہے۔۔۔ بیسٹ ولف کو دیکھتا پرسکون  سا بولا تھا۔۔۔۔ جبکہ اس کی بات پر ولف مطمئن سا ہوا تھا۔۔ اور واپس موڑ گیا تھا باہر جانے کے لیے۔۔۔۔۔

•••••••••••••••

وہ اپنی سوچوں میں گم تھا جب دروازہ نوک ہوا تھا۔۔۔۔ اس کے ہونٹوں پر ایک ہلکی مسکراہٹ نے جگہ لے لی تھی ۔۔۔ وہ جانتا تھا یہ دستک دینے والی کون تھی۔۔ کیونکہ اس دروازے کی دستک اس کو اپنے دل پر ہوتی محسوس ہوئی تھی ۔۔۔ اس نے اپنے منہ پر پاس پڑا بلیک ماسک پہنا تھا اور اپنی جگہ سے اٹھا تھا۔۔ اور دروازے کی طرف بڑھا تھا۔۔۔  جس نے کبھی کسی کے لیے دروازہ نہ کھولا تھا آج وہ خود چل کر اس  کے لیے دروازہ کھولنے جا رہا تھا جس کو وہ اپنی زندگی میں شامل کر چکا تھا۔۔۔ 

جبکہ دروازے کے اس پار وہ نیوی بلو کلر کے ٹراؤزر شرٹ پر ہم رنگ دوپٹہ گلے میں  لیے وہ اس وقت میٹنگ روم کے دروازے کے سامنے کھڑی تھی گل اس کو ادھر چھوڑ کر بھاگ گئی تھی جبکہ اب جزا کے ہاتھ پسینے سے بھر گئے تھے ۔۔۔ اس کو سمجھ نہیں آ رہی تھی بیسٹ نے اس کو میٹنگ روم میں کیوں بلایا تھا۔۔۔۔

وہ اپنی ہی سوچوں میں گم تھی جب اچانک دروازہ کھولا تھا ۔۔ بیسٹ  اپنی سبز آنکھیں جزا کے چہرے پر مرکوز کی تھی ۔۔ وہ واقع ہی اس کی دستک پہچانتا تھا۔۔ دستک دینے والی دشمن جاں تھی۔۔۔ اب وہ اس بات سے بےخبر تھا کہ اس نے صرف میٹنگ روم کا نہیں اپنے دل کا دروازہ سامنے کھڑی لڑکی کے لیے کھولا تھا جو دہلیز پر کھڑی تھی ۔۔

اندر آؤ ۔۔۔ اس کو کھڑا دیکھ بیسٹ بولا تھا ۔۔ اور تھوڑا پیچھے ہو کر کھڑا ہوا تھا کہ وہ آسانی سے اندر آ سکے۔۔۔

جزا نے ایک قدم اندر کی طرف بڑھایا تھا۔۔۔۔ اب یہ قدم اس نے میٹنگ روم میں رکھا تھا یا بیسٹ کے دل پر کوئی نہیں جانتا تھا۔۔۔ جزا نے نظریں اٹھا کر بیسٹ کی سبز آنکھوں میں دیکھا تھا۔۔۔ شہد رنگ آنکھیں سبز کائی جمی آنکھوں سے ملی تھی۔۔۔۔ ناجانے کیوں مگر جزا ایک لمحے کے لیے اپنی نگاہ جھپکنا بھول گئی تھی۔۔۔ جبکہ بیسٹ اس کی آنکھوں کو پورے حق سے دیکھ رہا تھا وہ ان آنکھوں میں کھو گیا تھا۔۔۔

کیا بات کرنی ہے آپ نے۔۔۔ بیسٹ کی نظروں کی طیپش کو محسوس کرتے ہوئے جزا بولی تھی۔۔۔

آؤ میرے ساتھ۔۔۔ بیسٹ دروازہ بند کرتے آگے کی طرف بڑھا تھا۔۔ اور وہ اس کی پیچھے چلنے لگی تھی۔۔

بیسٹ نے اگے بڑھ کر جزا کے لیے ایک کرسی کھینچی تھی اور خود اپنی سربراہی کرسی پر بیٹھ گیا تھا۔۔ جزا اپنی جگہ پر بیٹھ گئی تھی اس نے بیسٹ کی طرف دیکھا تھا ۔۔ جزا کے دل نے ایک بار خواہش کی تھی اس ماسک کے پیچھے چھپے چہرے کو دیکھنے کی ۔۔۔ اور وہ ٹھان بھی چکی تھی اس چہرے کو دیکھ کے رہ گی ۔

پوچھو جو پوچھنا چاپتی ہو ۔۔ ہر سوال کا جواب دوں گا۔۔۔ بیسٹ نے اس کی گہری شہد رنگ آنکھوں کو دیکھتے بولا تھا۔۔ وہ اس کی نظروں کو پڑھ سکتا تھا تبھی اس نے اپنا ماسک ایک بار پھر سے غیر ارادی طور پر ٹھیک کیا تھا ۔۔

مجھے سب سے پہلے بتاؤ تم میرے بابا کے بارے میں کیا جانتے ہو جس سے میں بے خبر ہوں۔۔۔ جزا نے فوراً سے اپنا سوال اس کے سامنے رکھا تھا۔۔۔

تمہارے نزدیک تمہارے بابا کیا تھے ۔۔۔ بیسٹ نے الٹا اس سے سوال کیا تھا۔۔۔

وہ بہت اچھے پروفیسر تھے ایک اچھے پرنسپل تھے۔۔ ایک اچھے ہسبنڈ تھے۔۔ ایک اچھے اور آئیڈیل فادر تھے۔۔۔ جزا نے اس کو دیکھ کر کہا تھا۔۔۔

اس کے علاوہ کچھ اور جو الگ ہو ۔۔۔ بیسٹ کو اس کی آنکھوں میں الجھن صاف نظر آ رہی تھی۔۔۔

وہ اچھے فائٹر تھے۔۔۔ انہوں نے مجھے سیلف ڈیفنس کے بہت سے طریقے بتائے تھے ۔۔ جزا کچھ سوچتے ہوئے بولی تھی ۔۔۔۔

ایک پروفیسر ایک پرنسپل ایک اچھا فائٹر بھی ہے تمہیں عجیب نہیں لگ رہا۔۔۔ بیسٹ نے اس کو غور سے دیکھا تھا ۔۔۔

ان کو شوق تھا فائٹنگ کا ۔۔ جزا نے فوراً سے وضاحت دی تھی۔۔۔

اگر میں کہوں کے فائٹنگ ان کا شوق نہیں ان کے پیشے کا اہم حصہ تھا اور ان کا پیشہ ان کا جنون تھا تو؟ بیسٹ نے سامںے پڑے پیپر ویٹ کو اُٹھایا تھا ۔۔

ایک پروفیسر کا پیشے کا فائٹنگ اہم حصہ کیسے ہو سکتا ہے؟ جزا نے سوالیہ نظروں سے اس کو دیکھا تھا ۔۔

وہ دنیا کی نظر میں ایک پروفیسر اور ایک کالج پرنسپل تھے۔۔ حقیقت کچھ اور ہے۔۔۔ بیسٹ نے اپنی سبز آنکھیوں جزا کے چہرے پر مرکوز کی تھی۔۔۔ اور اس کے چہرے کا ایک ایک نقش اپنی آنکھوں میں جذب کر رہا تھا۔۔۔

تم کیسے جانتے ہو وہ کالج پرنسپل تھے میں نے کالج کا ذکر بھی نہیں کیا ۔۔ اور وہ صرف دینا کی نظر میں پرنسپل اور پروفیسر تھے اس سے تمہارا مطلب کیا ہے ۔۔  جزا نے بیسٹ کو ایک سخت گھوری سے نوازا تھا۔۔۔

میں تمہارے باپ کے بارے میں بہت اچھے سے جانتا ہو۔۔ وہ کوئی عام شہری نہیں تھے۔۔۔ بیسٹ  اس کو مزید الجھا رہا تھا۔۔۔

تم کھول کے بتاو گے کہ نہیں ۔۔۔ جزا اس کو غصے سے گھورتے بولی تھی۔۔۔ جبکہ بیسٹ اس کو غصے میں دیکھ کر ماسک کے پیچھے ہلکا سا مسکرایا تھا ۔۔۔

تمہارے فادر آئی اس آئی ایجنٹ تھے۔۔۔ ایجنٹ الفا۔۔۔۔ ایک وقت تھا جب انڈر ورلڈ ان کے نام سے ڈرتا تھا۔۔ جہاں انڈر ورلڈ کے مافیا لیڈرز کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ختم ہوتی تھی وہاں سے الفا کی سوچ شروع ہوتی تھی۔۔  بیسٹ پرسکون سا بولتا جزا کے چہرے کے آتار چڑھاؤ کو دیکھ رہا تھا۔۔

وہ خاموش سی ہو گئی تھی۔۔۔ اس کے پاس الفاظ نہیں تھے جیسے ۔۔۔ اس کو ماضی کی ایک دھندلی سی یاد آئی تھی۔۔۔۔ اس کو اپنے باپ کے ساتھ سالوں پہلے کی ہوئی بات یاد آئی تھی۔۔۔ اس کے باپ کا پسندیدہ جانور بھیڑیا تھا ۔۔۔

الفا۔۔۔۔ جزا کے لب ہلے تھے۔۔۔۔

ہاں الفا۔۔۔۔ بیسٹ نے اس لفظ کو دہرایا تھا۔۔۔

کیا وہ ناڈر تھے بہادر تھے؟؟ جزا نے بیسٹ کی طرف دیکھ کر سوال کیا تھا۔۔۔ اس کی آنکھوں میں نمی تھی ۔۔

مافیا لیڈرز ان کے نام سے ڈرتے تھگ جب ان کو پتا چلتا تھا ان کے راستے میں رکاوٹ کھڑی کرنے والا الفا ہے تو ان کے پاس پیچھے ہٹنے کے سوا کوئی چارہ نہ ہوتا تھا۔۔ تو اب تم خود اندازہ لگا لو ۔۔ بیسٹ اس کو دیکھتے بولا تھا۔۔

تم بھی تو انڈر ورلڈ میں ہی ہو کبھی ان کا تمہارے ساتھ سامنا نہیں ہوا کیا وہ تم ان کے دشمن نہیں ہو۔۔۔جزا نے اس کو دیکھا تھا۔۔۔

میرا دشمن کوئی اور ہے۔۔۔  میرا ان سے سامںا نہیں ہوا مگر میں ان کے بارے میں جانتا ضرور تھا۔۔۔ کیونکہ اپنے مخالفین کے بارے میں انفورمیشن رکھنا سب سے اہم کام ہے۔۔۔  بیسٹ جزا کو دیکھتا بولا تھا۔۔۔

تم نے مجھ سے نکاح اپنا کوئی بدلہ لینے کے لیے تو نہیں کیا ۔۔ جزا نہ جانے کیوں مگر یہ سوال کر بیٹھی تھی۔۔۔ جبکہ اس کے سوال پر ماسک کے پیچھے چھپے ہونٹ مسکرائے تھے ۔۔۔

تم سے نکاح میری مجبوری تھی۔۔ کیونکہ تم نے میرا سب سے بڑا نقصان کیا ہے۔۔۔ بیسٹ نے جزا کو دیکھتے بولا تھا۔۔۔

کیسا نقصان کون سا نقصان ۔۔ جزا نے اس کو سخت نظروں سے دیکھا تھا۔۔۔

اس سوال کا جواب تمہیں کیسی دن تفصیل سے دوں گا۔۔۔کوئی اور سوال ہے یا بس یہ ہی جاننا تھا؟۔۔ بیسٹ نے اس کے سوال کو ٹالا تھا۔ اور ایک اور سوال کیا تھا۔۔۔۔ جبکہ جزا اس کو غصے سے گھور رہی تھی۔۔۔

تم میری مدد کیسے کرو گے میرا بدلہ لینے میں ۔۔۔ جزا اس کو دیکھتے بولی تھی۔۔۔

تم اپنا بدلہ خود لو گی جزا شاہد ۔۔ تم کمزور نہیں ہو۔۔ کیونکہ میں جانتا ہوں الفا کی بیٹی کمزور نہیں ہو سکتی۔۔۔ میں تمہیں بس اس قابل کروں گا کہ تمہارے سامنے تمہارے دشمن کا ٹکنا مشکل ہو جائے۔۔۔ تم اپنے دشمن کو جیسے مارنا چاہو مار سکتی ہو۔۔  بیسٹ ہموار لہجے میں بولا تھا۔۔۔

مگر تم کب سیکھاو گے مجھے۔۔۔ جزا اس کو دیکھتے بولی تھی ۔۔

ہم آج سے ہی شروع کریں گے۔۔ کیوںکہ ہمارے پاس صرف ایک مہینہ ہے اس ایک مہینے میں تمہیں  مکمل طور پر تیار کرنا ہے ۔۔ بیسٹ اس کو دیکھتے بولا تھا ۔۔

مگر ایک مہینہ ہی کیوں ؟؟ جزا نے سوالیہ نظروں سے اس کو دیکھا تھا وہ سمجھ نہ سکی تھی اس کی بات کو۔۔۔

میڈم آپ کیا اپنی سٹیڈی چھوڑنے کے موڈ میث ہیں تو میں بتا دوں تمیارث سٹیڈی سے جان نہیں چھوٹنے والی۔۔ مہینے بعد شاید آپ کا اگلا سیمیسڑ شروع ہے ۔۔ تو اس لیے ایک منتھ میں تمہیں انتقام کے لیے بھی مکمل تیار ہونا ہے جزا۔۔ بیسٹ اس کو ساری بات کلیر کی تھی جبکہ جزا کا منہ کھولا کا کھولا رہ گیا ۔۔

تم کیسے جانتے ہو۔۔۔ جزا حیرت سے اس کو دیکھتے بولی تھی ۔۔

مجھے صرف ایک منٹ لگا تھا تمہاری ساری انفورمیشن میرے پاس تھی۔۔ ہم مافیا کے لیے کیسی کی انفورمیشن نکالنا کوئی بڑا کام نہیں ہے۔۔ بیسٹ کرسی کی پشت سے ٹک لگاتا بولا تھا۔۔۔

تم کون ہو تمہارا اصل نام کیا ہے تم اپنا ماسک کیوں نہیں آتار دیتے۔۔۔ مجھے جاننا ہے تمہارے بارے میں ۔۔۔۔ جزا غصے سے اپنی جگہ سے اٹھی تھی اور سخت نظروں سے اس کو دیکھتے بولی تھی۔۔۔۔  

جزا کے اٹھتے ہی بیسٹ بھی اپنی جگہ سے اٹھا تھا۔۔۔ اس نے ایک قدم جزا کی طرف بڑھایا تھا اور جزا جو اس کو غصے سے دیکھ رہی تھی اس کے ایک قدم آگے بڑھانے پر فوراً ایک قدم پیچھے ہوئی تھی اور پیچھے چیر ہونے کی وجہ سے اس پر لاکھڑا کر بیٹھی تھی۔۔۔ بیسٹ نے اپنے دونوں ہاتھ چیر پر ٹکا دے تھے اور تھوڑا جھکا تھا۔۔۔ جزا نے چہرا اٹھا کر اس کو دیکھا تھا بیسٹ کی سبز آنکھیں اس کو پریشان کر رہی تھی ۔۔۔

کیا تم نے نکاح کے وقت نام نہیں سنا تھا؟ بیسٹ مدہم لہجے میں بولا تھا۔۔۔ اس کے بولنے کا انداز بہت خوبصورت تھا دلکش تھا اس کی آواز سنے والا اس کے سحر میں جکڑ جاتا تھا ۔۔۔جزا نے ایک بار اس کو دوبارہ نظر اٹھا کر دیکھا تھا۔۔۔

میں نے نام پر غور نہیں کیا تھا ۔۔۔ جزا بس اتنا ہی بول پائی اب کیا بولتی کے اس نے نکاح خواں کے ایک لفظ پر بھی غور نہ کیا تھا اس نے نکاح کے وقت بولے گئے ایک لفظ پر بھی دھیان نہ دیا تھا اس کو یاد تھا تو بس اتنا کہ اس نے نکاح قبول کیا تھا۔۔۔

میں راز ہوں جزا میرا اصل کیا ہے میں کیا ہوں یہ تمہیں خود ڈھونڈنا ہو گا ۔۔ مجھے تم بے نقاب کرو گی جزا اس نقاب کے پیچھے چھپا چہرا تمہیں خود ڈھونڈنا ہو گا۔۔ اور مجھے جاننے کے لیے اور پہنچانے کے لیے تمہیں میرے پاس رہنا ہو گا ۔۔۔ میں وہ راز ہوں وہ پھیلی ہوں جیسے تم چاہو تو چند دنوں میں سلجھا لو چاہو تو سالوں لگا دو یہ تم پر ہے تمہاری قابلیت پر ہے مجھے صرف تم ہی بےنقاب کر سکتی ہو ۔۔۔ بیسٹ اس کی شہد رنگ آنکھوں میں دیکھتا بولا تھا ۔۔ جبکہ جزا بس اس کو دیکھے جا رہی تھی ۔۔۔

میں تمہیں بےنقاب ضرور کرؤں گی بیسٹ اور جس دن تمہیں بےنقاب کرؤں گی اس دن تم اپنے ہر گناہ کا اعتراف بھی کرو گے اور تمیں تمہارے ہر گناہ کی سزا بھی ملے گی بیسٹ۔۔۔ جزا ایک ایک لفظ پر زور دیتے بیسٹ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولی تھی۔۔۔

شوق سے دینا اس دن میرے ہر جرم کی سزا مجھے ۔۔۔ ہر سزا مجھے منظور ہو گی مگر شرط یہ ہے کہ سزا مجھے تم خود دو گی۔۔۔۔ بیسٹ یہ کہہ کر سیدھا کھڑا ہوا تھا۔۔۔ جبکہ جزا اس کو غصے سے گھور رہی تھی۔۔۔۔

اٹھو۔۔۔ بیسٹ اس کو خاموش دیکھ کر پھر سے بولا تھا۔۔۔

کیوں؟؟ جزا اس کو سوالیہ نظروں سے دیکھتے بولی تھی۔۔۔۔

تمہاری ٹریننگ ابھی سے شروع ہو رہی ہے اٹھو چلو میرے ساتھ۔۔۔ بیسٹ یہ کہہ کر دروازے کی طرف بڑھا تھا جبکہ جزا نہ سمجھی سے اس کے پیچھے گئی تھی ۔۔۔۔

•••••••••

وہ ابھی زیک کے اوفس میں داخل ہوا تھا کوئی ضروری فائل لینے کے لیے۔۔۔ جب سے زیک ادھر نہ تھا حدید ہی سارے کام دیکھ رہا تھا اور صرف اس کو ہی اجازت تھی زیک کی غیر موجودگی میں اس کے اوفس میں جانے کی ۔۔۔ ابھی بھی وہ کوئی فائل لینے اس کے اوفس میں گیا تھا۔۔ اس نے جیسے ہی لائیٹ اون کی ایک لمحے کے لیے روکا تھا ۔ اس کو جیسے اس اوفس میں کیسی اور کی موجودگی کا احساس ہوا تھا۔۔۔۔

زیک تم واپس آ گئے ہو؟؟ حدید ایک ایک قدم اُٹھاتا زیک کی ٹیبل کی طرف گیا تھا۔۔۔ جب زیک کی موونگ چیر موڑی تھی۔۔۔ اور حدید کے اگلے قدم کے ساتھ اگلے الفاظ اور اگلی سانس بھی روک گئی تھی۔۔۔۔

بلک ۔۔ بلیک ۔۔۔ ڈ۔۔ ڈیول ۔۔۔۔۔ حدید بامشکل بول پایا تھا۔۔ اس کے تو فرشتوں کو بھی خبر نہ تھی کہ آج کے دن کے ساتھ اس کی ملاقات بلیک ڈیول سے ہو جائے گی۔۔۔

کیا ہوا امیل۔۔۔ تمہارا رنگ کیوں اڑ گیا ہے۔۔۔۔بلیک ڈیول اپنی رعب دار آواز میں بولے تھے۔۔۔ آش گرے کلر کی آنکھیں ، تیکھی مغرور ناک تیکھے نقوش  چھ فٹ سے نکلتا قد ۔۔ عمر کے اس حصے میں بھی وہ بے حد خوبصورت اور ہنڈسم لگ رہے تھے۔۔۔ مافیا کی دنیا میں سب صحیح ہی کہتے تھے زیک اپنے باپ پر گیا ہے انداز سے بھی اور وقار سے بھی اس کا مارنے کا انداز بھی اپنے باپ جیسا تھا۔۔۔

ایسا ہے نہیں ہے بلیک ڈیول ۔۔۔ اتنے عرصے بعد آپ کو واپس ادھر دیکھا ہے تو ایک بار حیرت ہوئی۔۔۔ حدید خود کو نارمل کرتا بولا تھا۔۔ اور دل ہی دل میں خود پر آیت الکرسی پڑھ کر پھونک چکا تھا۔۔۔ کیونکہ بلیک ڈیول کا واپس لوٹ آنا کیسی خطرے کی نوید سے کم نہ تھا۔۔۔۔

زیک کدھر ہے امیل ۔۔ بلیک ڈیول آنکھوں میں قہر لیے حدید سے مخاطب ہوے تھے ۔۔۔

وہ دبئی میں نہیں ہے۔۔۔۔ حدید فوراً بولا تھا۔۔۔

وہ میں بھی جانتا ہوں وہ دبئی میں نہیں ہے ۔۔ اس لیے تم سے پوچھ رہا ہوں امیل زیک کدھر ہے۔۔۔۔ بلیک ڈیول اپنے جگہ سے اٹھے تھے۔۔۔ اور ادھر حدید کی رہی سہی ہمت ختم ہونے کے نزدیک تھی ۔۔

مجھے نہیں پتا وہ کدھر ہے ۔۔۔ حدید نے فوراً سچ بولا تھا۔۔ کیونکہ بلیک ڈیول سے جھوٹ بولنا مطلب اپنے گلے میں لوہے کی زنجیر کا پھندا ڈالنے کے مترادف تھا۔۔۔

تم اس کے ایک ایک لمحے سے باخبر ہوتے ہو اس کے ساتھ سائے کی طرح رہتے ہو اور تمہیں نہیں پتا وہ کدھر ہے؟؟  بلیک ڈیول نے ایک آئی برو اٹھا کر اس کی طرف دیکھا تھا۔۔۔

میں واقع ہی نہیں جانتا وہ کدھر ہے بلیک ڈیول وہ کیسی اہم کام سے گیا ہے میں بس اتںا جانتا ہوں۔۔۔ حدید اپنے سامںے کھڑے شخص کی طرف دیکھتا بولا تھا ۔۔ جو غصے سے اس کو گھور رہا تھا۔۔۔

چوبیس گھنٹے ہیں تمہارے پاس مجھے زیک کا پتا بتاؤ ۔۔۔ بلیک ڈیول یہ بول کر باہر نکل گئے تھے جبکہ حدید اپنا سر پکڑ کر چیر پر بیٹھ گیا تھا ۔ اس نے فوراً اپنی جیب سے فون نکالا تھا اور ایک پرائیویٹ نمبر ڈائل کیا تھا۔۔۔ مگر وہ نمبر بند جا رہا تھا ۔ اس نے فوراً سے اپنی ای میل ائئ ڈی کھولی تھی اور ایک پرائیویٹ ای میل پر ایک میل لکھ کر بھیجی تھی۔۔۔۔

•••••••••••••

آدھی رات کا وقت تھا۔۔۔ جزا نے بلیک کلر کی پنٹ شرٹ پہن رکھی تھی اور بلکل ویسی ہی پنٹ شرٹ بیسٹ نے بھی پہن رکھی تھی مگر ساتھ اس نے چہرے پر ماسک بھی لگا رکھا تھا۔۔۔ جزا اپنے دونوں ہاتھوں پر پنچنگ گلوز پہنے سامںے لگے پنجنگ بیگ پر بار بار وار کر رہی تھی۔۔۔۔

جزا اپنی بازو کو مضبوط رکھ اور پھر مارو۔۔۔ اس کو مسلسل ہلکے وار کو دیکھتے بیسٹ بولا تھا۔۔۔۔

یہ ان دونوں کے نکاح کی پہلی رات تھی۔۔۔ وہ دونوں واحد ایسے میاں بیوی تھے جو اپنے نکاح کی رات کو ایک دوسرے کے ساتھ پیار محبت کی باتیں کرنے کے بجائے نیچھے بیسمنٹ میں بنے ٹریننگ روم میں تھے۔۔۔ جہاں بیسٹ اپنی نئی نویلی بیوی کو فائیٹنگ ٹریننگ دے رہا تھا۔۔۔

اور کتنا مضبوط کروں بازو کو ۔۔ جزا چیڑ کر بولی تھی۔ کیونکہ وہ اپنی مکمل قوت لگا چکی تھی پھر بھی ہر تھوڑی دیر بعد بیسٹ اس کو اپنی بازو کو مزید مضبوط کر کے وار کرنے کا بولتا تھا۔۔۔

اس کی بات سن کر وہ جو ایک طرف سٹول پر بیٹھا تھا اپنی جگہ سے اٹھا تھا اور ہاتھ میں گلوز پہن چکا تھا۔۔۔  اور جزا کے بلکل سامنے جا کر کھڑا ہو گیا تھا۔۔۔۔ اس نے اپنے دونوں ہاتھ جزا کے سامنے کیے تھے۔۔۔

سٹارٹ پنچنگ ۔۔۔ بیسٹ جزا کی آنکھوں میں دیکھتا بولا تھا۔۔۔

جزا نے ایک کے بعد ایک پنچ مارنا شروع کیا تھا۔۔۔ جب بیسٹ نے اچانک اس کا بازو پکڑ لیا تھا۔۔۔

اس کا مزید مضبوط کرو جزا۔۔۔  ونس اگین ۔۔۔ بیسٹ نے اس کی بازو چھوڑی تھی ۔۔ جزا اب کی بار پہلے سے زیادہ مضبوطی سے پنچ مار رہی تھی۔۔۔۔

جب اس کی سانسیں پھولنے لگی تو بیسٹ نے اس کی بازو کو پھر سے پکڑا تھا۔۔۔

اب اور کتنی طاقت لگاؤ ۔۔۔ اس سے پہلے بیسٹ کچھ بولتا جزا پھولی ہوئی سانسوں میں بولی تھی ۔۔۔

تین منٹ کا بریک لو پھر کنٹینیو کریں گے۔۔۔ بیسٹ اس کی بات کو اگنور کرتا بولا تھا۔۔۔

صرف تین منٹ۔۔ جزا حیرت سے اس کو دیکھتے بولی تھی۔۔۔ اس کو  اس کی ذہنی حالت پر شک ہوا تھا۔۔۔

ٹو منٹس ریمیننگ۔۔۔ جزا کی بات ہر وہ بس اتنا ہی بولا تھا۔۔۔جبکہ جزا اس کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھتی موڑی تھی اور پانی کی بوتل اٹھا کر منہ سے لگا چکی تھی۔

ادھر او۔۔۔ بیسٹ  نے اپنے دونوں ہاتھوں میں گلوز پہن رکھے تھے اور جزا کے سامنے کھڑا ہو گیا تھا۔۔۔ جزا نے فوراً اپنے گلوز پہنے اور بیسٹ کی طرف بڑھی تھی۔۔۔۔

وہ ایک کے بعد ایک وار کر رہی تھی مگر بیسٹ بار بار خود کو اس کے پنچ سے بچا لیتا تھا۔۔ جب اچانک بیسٹ نے اس کا ہاتھ روکا تھا اور اس کی بازو موڑ کر اس کو گھوما کر اس کی گردن کے گرد اپنی بازو حائل کر دی تھی اور ایک ہاتھ سے اس نے جزا کا بازو پکڑ رکھا تھا۔۔۔

اس کی گرفت جزا کے گرد بہت مضبوط تھی جزا چاہ  کر بھی اس کے بازو کی گرفت اپنے گردن کے گرد کم نہ کر سکی تھی۔۔ اس نے احتجاج کے لیے اپنے ہاتھ اس کے بازو پر مار رہی تھی ۔۔

کیا اس نازک وجود کے ساتھ خون کا بدلہ لو گی تم۔۔ بھولو مت تم اب بیسٹ کی بیوی ہو تمہیں ہر وقت چوکنا رہنا ہے اور خود کو مضبوط بنانا ہے۔۔۔۔ بیسٹ اس کی گردن کے گرد اپنی گرفت کو ڈھیلا کرتا بولا تھا۔۔۔  جبکہ جزانے فوراً خود کو اس کی گرفت سے آزاد کیا تھا۔۔۔

وہ غصے سے اس کو گھورتی اس کو مارنے کے لیے آگے لپکی تھی مگر بیسٹ نے اس کے وار کو روک کر اس کی بازو سے پکڑ کر زمین پر پٹخا تھا۔۔۔۔  یہ وہ لڑکی تھی جس سی محبت اس کے دل میں جاگ چکی تھی۔۔۔۔

جزا جیسے ہی زمین پر گری  اس فوراً خود کو سنھبلاتی اٹھی تھی اور اپنی ایک ٹانگ پر سارا وزن ڈال کر دوسری ٹانگ کو گھوما کر بیسٹ کی ٹانگوں کے پاس لے کر گئی تھی وہ جو اس کی طرف پیٹ کر کے کھڑا تھا اس کی اگلی چال کو سمجھتا فوراً  اپنی جگہ سے کچھ آگے بڑھا تھا۔۔۔

تمہیں ابھی بہت زیادہ تیاری کی ضرورت ہے جزا۔۔ اس کی طرف موڑتا بیسٹ بولا تھا ۔۔ جبکہ جزا بس اس کو بے بسی سے دیکھتی رہ گئی تھی ۔۔

ایک بار بس مجھے اچھے سے لڑنا سیکھ لینے دو سب سے پہلے تمہیں  پر ہی اپنا ہاتھ سیدھا کروں گی۔۔۔جزا یہ کہہ کر اٹھ کھڑی ہوئی تھی جبکہ کے اس کی آنکھوں میں غصہ صاف نظر آ رہا تھا۔۔۔۔

شوق سے کرنا تمہاری ملکیت ہوں میں ۔۔۔۔  بیسٹ نے اس  کے غصے سے سرخ ہوتے چہرے کو دیکھ کر کہا۔۔۔  اس کی بات سن کر جزا کا دماغ گھوم کر رہا گیا تھا۔۔۔۔

سنو مسٹر تم میری ملکیت نہیں ہو سمجھ آئی نہ ۔۔۔ جزا اس کے سامنے جا کر کھڑی ہوتی شہادت کی انگلی اس کی طرف اٹھائے غصے سے ایک ایک لفظ  چبائے بولی تھی۔۔

اب یہ ظلم تو نہ کرو ۔۔ تم نے خود بھری محفل میں مجھے اپنے نکاح میں لیا ہے اب یوں مکرو تو مت اپنی بات سے۔۔۔۔ بیسٹ اس کی شہادت کی انگلی کو نیچے کرتا اس کی شہد رنگ آنکھوں میں دیکھتا بولا تھا۔۔۔۔

یقین مانو دل تو میرا یہ کر رہا ہے تمہارا ماسک کے پیچھے چھپا چہرہ نوچ ڈالوں ۔۔ جزا اس کو غصے سے گھورتی باہر کی طرف جانے لگی تھی۔۔۔

جس دن مجھے بےنقاب کرو گی اس دن اپنا یہ شوق بھی پورا کر لینا۔۔۔ بیسٹ اس کو جاتا دیکھ کر بولا تھا۔۔۔۔

تم انتہائی فضول آدمی ہو۔۔۔۔ جزا موڑ کر اس کو سخت نظروں سے دیکھتے بولی تھی۔۔۔۔

ویل ظالم خاتون صبح ناشتے کے بعد پھر سے تمہاری ٹریننگ سٹارٹ ہے۔۔ تو کوئی ڈرامے بازی نہیں چلے گی۔۔۔  بیسٹ پرسکون سا بولا تھا اور چلتا اس کے سامنے آ کر کھڑا ہو  گیا تھا ۔۔۔

کچھ اور کہنا ہے ؟؟ یا میں جاؤ ؟؟؟ جزا ایک آئی برو اٹھا کر اس کو دیکھ کم گھور زیادہ رہی تھی۔۔۔

نہیں نہیں میری اتنی مجال ؟؟ بیسٹ نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھا دیے تھے۔۔۔۔

شکریہ۔۔۔ یہ کہہ کر جزا دروازہ کھول کر باہر نکل گئی تھی۔۔۔ بیسٹ اس کی پیچھے نکالنے لگا تھا۔۔ مگر جزا دروازہ اتنے زور سے بند کر کے گئی تھی۔۔ کہ وہ دروازہ بیسٹ کے منہ پر بند ہوا تھا۔۔۔  بیسٹ نے فوراً ایک قدم پیچھے لیا تھا ۔۔

جان ہے نہیں اس میں اور غصہ اس کا سر پر چڑھا ہوتا ہے ۔۔ بیسٹ بند دروازے کو دیکھتا  بولا تھا۔۔۔ جس کے سامنے کیسی کی زبان چلانے کی ہمت نہ تھی اس کے منہ پر جزا دروازہ بند کر کے گئی  تھی یا یہ کہا جائے مار کے گئی تھی تو بہتر ہو گا۔۔۔۔

••••••••••••

وہ اس  وقت اپنے اوفس میں کوئی کام کر رہا تھا جب نواز اس کے اوفس میں بھاگتا ہوا آیا تھا۔۔۔۔

شہزاد ۔۔۔۔  نواز اس کے سامنے آ کر کھڑا ہوا تھا۔۔۔۔ شہزاد نے ایک نظر  اٹھا کر نواز کو دیکھا تھا۔۔ اور پھر نظر جھپکنا بھول گیا تھا۔۔۔ نواز کا رنگ فق تھا۔۔ سانس پھولا ہوا اور مکمل پسینے میں شرابور تھا۔۔

کیا ہوا ہے؟؟ شہزاد نے فوراً اپنے لیپ ٹاپ کی سکرین بند کی تھی اور نواز کی طرف دیکھا تھا۔۔۔۔

یہ دیکھو۔۔۔ نواز نے فوراً ہاتھ میں پکڑا انولیپ اس کے سامنے کیا تھا۔۔۔

کیا ہے یہ؟؟؟  شہزاد وہ انولیپ کھولتا بولا تھا جب اس نے ایک نظر انولیپ کے اندر  سے نکلنے والی چیز کو دیکھا تو وہ انولیپ اس کے ہاتھ سے گرا تھا۔۔۔۔

یہ کیسے ممکن ۔۔۔۔ شہزاد اپنی جگہ سے اٹھا تھا وہ انولیپ اٹھا کر اپنے اوفس میں رکھے صوفے کے سامنے ٹیبل پر اس انولیپ کو الٹا چکا تھا۔۔۔

میں بھی ایسی وجہ سے حیران ہوں۔۔۔ مجھے آج صبح صبح ہی میرا خبری یہ سب دے کر گیا ہے۔۔۔ نواز شہزاد کو دیکھتا بولا تھا۔۔۔۔

شہزاد ساکت نظروں سے سامنے پڑے سامان کو دیکھ رہا تھا۔۔۔ جس میں  کچھ تصویریں تھی جس میں ایک لڑکی کی ڈیڈ باڈی تھی جس کے بال شہد رنگ کے تھے اس کا چہرا اور جسم مکمل توڑ پر کچلا ہوا تھا۔۔۔ مگر وہ اس لباس کو نہیں بھول سکتا تھا۔۔۔ جو اس تصویر میں تھا۔۔۔

وہ کیسے مر سکتی ہے ۔۔۔ شہزاد کو اپنی آواز کھائی سے آتی محسوس ہوئی تھی ۔۔۔

جزا مر گئی ہے شہزاد ۔ اور اس کو مرے کافی دن ہو گئے ہیںِ۔۔۔ نواز نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا۔۔

مجھے یقین نہیں آ رہا ۔۔۔ شہزاد اپنا سر پکڑ کر صوفے پر بیٹھ گیا تھا۔۔۔

مگر اب یقین کرنا ہو گا۔۔  نواز اس کے سامنے بیٹھتا بولا تھا۔۔

اگر وہ کافی دن پہلے مر گئی تھی تو ثبوت آج کیوں مل رہے ہیں ؟؟؟ شہزاد  ایک تصویر اٹھا کر دیکھتا بولا تھا۔۔۔

یہ تصویریں پولیس سے ملی ہیں ۔۔  جنہوں نے اس موقع پر ساری صورتحال دیکھی تھی۔۔۔۔ نواز   شہزاد کے ساتھ بیٹھتا بولا تھا۔۔۔

بٹ یار کس طرح مان لیں یہ جزا ہے چہرا صحیح سے پہچانا نہیں جا رہا ۔۔ شہزاد ان تصویروں کو دیکھتا بولا تھا۔۔۔ اس کو سمجھ نہیں آ رہی تھی وہ کیا کرے ۔۔

میں نے میڈیکل رپورٹس بھی منگوائی تھی۔۔۔ نواز نے وہ رپورٹ اس کے سامنے کی تھی ۔۔۔

بلڈ گروپ ،ہائٹ، سب کچھ تو جزا کے جیسا ہی تھا۔۔۔ نواز نے وہ رپورٹ اٹھا کر ٹیبل پر ماری تھی۔۔۔۔

کیا ہوا ہے اب۔۔۔۔ نواز اس کو حیرت سے دیکھتا بولا تھا۔۔۔

میں اس کو ذلیلت کی موت مارنا چاہتا تھا میں اس کو پل پل مارنا چاہتا تھا یہ اتنی آسانی سے کیسے مر گئی۔۔۔ میں اس کو اپنی کنیز بنانا چاہتا تھا۔۔ بہت مان تھا اس کو اپنی عزت پر بہت غرور تھا اس کو میں وہ مان اور غرور توڑنا چاہتا تھا۔۔۔۔ شہزاد غصے میں سامنے پڑی ٹیبل کو ٹھکر مارتا بولا تھا۔۔۔

مگر جو ہونا تھا ہو گیا ہے شہزاد اب ہم کیا کر سکتے ہیں ۔۔۔ تو بہت ایسی میں ہے اب اس کی سوچوں سے نکلو اور کام کو وقت دو۔۔ بہت کم وقت رہ گیا ہے اور کام بہت زیادہ ہے ۔۔ نواز نے شہزاد کو اس کی بازو سے پکڑ کر اس کا روخ اپنی طرف کیا تھا ۔۔۔

ہو جائیں گے کام بھی کیوں فکر کر رہے ہو۔۔۔ شہزاد اپنا کوٹ اترتا صوفے پر پہنتا بولا تھا۔۔۔۔ اور ساتھ ہی جیب میں سے سیگریٹ نکال کر جلا کر لبوں کے ساتھ لگا چکا تھا۔۔۔ مطلب صاف تھا کہ وہ اس وقت کیسی سے بات نہیں کرنا چاہتا تھا۔۔۔ تبھی نواز اس کو ایک نظر دیکھ کر باہر چلا گیا تھا ۔۔۔ جبکہ شہزاد خاموش کھڑا سیگریٹ پی رہا تھا ساتھ ہی ان تصویروں کو دیکھ رہا تھا ۔۔  اس نے غصے میں اپنی ٹائی کی نوٹ ڈھلی کی تھی۔۔۔ اس کو سمجھ نہیں آ رہا تھا وہ کیا کرے ۔۔۔۔

••••••••••••••••

عثمان صاحب اکرم صاحب اس وقت عمران لغاری کے پاس  اس وقت ان کے  فارم ہاؤس پر تھے۔۔۔ جب باہر ایک ساتھ دو گاڑیوں کے روکنے کی آواز آئی تھی۔۔۔۔ لینا جو ایک طرف کھڑی سیلفی لے رہی تھی اس نے بھی موڑ کر مین گیٹ کی طرف دیکھا تھا ۔۔ جہاں سے شہزاد ، نواز اور نوریز اندر داخل ہوئے تھے۔۔۔۔

اب کیا ہوا ہے جو اتنی جلدی میں بلایا ہے آپ لوگوں نے۔۔۔ نواز صوفے پر بیٹھتا چڑ کر بولا تھا۔۔۔۔  جبکہ شہزاد اور نوریز بھی صوفے کی پشت سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئے تھے۔۔۔۔

کنگ واپس آ گیا ہے۔۔۔۔ اکرم صاحب ان تینوں کو دیکھ کر بولے تھے ۔۔ عثمان صاحب اکرم صاحب اور عمران صاحب کو پہلے ہی بتا چکے تھے۔۔۔

اکرم صاحب کی بات سن کر جہاں لینا کا موبائل چلتا ہاتھ روکا تھا وہاں ہی نواز، نوریز اور شہزاد۔ تینوں ایک ساتھ سیدھے ہو کر بیٹھے تھے۔۔۔۔

کیا کہا آپ نے ایک بار پھر سے بولیے گا۔۔۔ شہزاد اپنے سامنے بیٹھے اکرم صاحب کو ناسمجھی سے دیکھتا بولا تھا۔۔ جیسے اس کو ابھی تک اپنی سماعت پر یقین نہیں ہو رہا تھا۔۔۔

کنگ  واپس لوٹ آیا ہے۔۔۔ اکرم صاحب نے ان تینوں کو غور سے دیکھتے کہا تھا۔۔۔۔

کدھر ہے وہ۔۔۔ نواز نے فوراً سوال کیا تھا۔۔

سسلی میں ہے وہ۔۔۔۔ بہت جلد پاکستان بھی آئے گا۔۔۔ عثمان صاحب نے نواز کے سوال کا جواب دیا تھا۔۔۔

مگر وہ ابھی کیوں نہیں آ سکتا؟؟ شہزاد کچھ سوچتے بولا تھا۔۔۔

کیونکہ اس کو اس کی ساخت بحال کرنی ہے ۔۔ عمران صاحب سگریٹ منہ میں رکھتے بولے تھے ۔۔

تو میرے خیال سے ساخت بحال کرنے کا اچھا موقع بیسٹ کی غیر موجودگی ہے۔۔۔ اور وہ موقع ابھی کنگ کے پاس ہے ۔۔ کیونکہ بیسٹ ادھر نہیں ہے۔۔۔ نواز ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر بیٹھا بےنیاز سا بولا تھا ۔۔۔۔

عقل کے دشمن وہ پہلے اپنی ساخت سسلی میں بحال کرے گا پھر پاکستان آئے گا۔۔۔ اکرم صاحب نے نواز کو گھورتے ہوئے کہا تھا۔۔۔

مطلب پھر بیسٹ ہم میں نہیں ہو گا۔۔ لینا ساری گفتگو میں اب بولی تھی۔۔۔

کچھ کہا نہیں جا سکتا۔۔۔ کیونکہ بیسٹ اور کنگ کا آمنا سامنا کیسی آنے والی بربادی کی نشانی ہے۔۔۔۔ اکرم صاحب پریشانی سے بولے تھے۔۔۔

اگر بیسٹ کنگ کے خلاف کھڑا ہو گیا تو کیا ہو گا۔۔۔ نوریز کچھ پریشان سا بولا تھا۔۔۔۔

تباہی انڈر ورلڈ کی دنیا کی سب سے بڑی تباہی ۔۔۔ کیونکہ بیسٹ ایک آزاد بھیڑیا ہے۔۔۔اس کو غلامی پسند نہیں وہ اپنے اصولوں والا ہے وہ کیسی کی غلامی نہیں کرتا۔۔۔ اور اگر وہ کنگ کے ساتھ بغاوت پر اتر آیا تو انڈر ورلڈ کی انٹ سے انٹ بجا دے گا۔۔۔ عثمان صاحب پریشانی سے بولے تھے۔۔ جبکہ ان کی بات سے اکرم صاحب اور عمران صاحب بھی پریشان ہو گئے تھے ۔۔۔۔

••••••••••••••

وہ ابھی سو کر اٹھی تھی آنکھیں سرخ تھی ۔۔ جیسے رات دیر تک جاگنے کی شکایت کر رہی ہوں۔۔۔ اپنے شہد رنگ بولوں کا جوڑا بنا کر وہ  فرش ہونے گئی تھی۔۔۔۔   اور تھوڑی دیر میں ہی وہ  شیشے کے سامنے  ٹی پنک کلر کی شرٹ کے نیچھے وائٹ ٹراؤزر پہنے کھڑی تھی۔۔۔ بالوں کو برش کر کے جوڑا بنایا تھا جس میں سے کچھ آزار لٹیں اس کے چہرے کے ارد گرد تھی۔۔۔ میک آپ سے پاک چہرہ اور آج کافی فرش لگ رہی تھی۔۔۔ اپنا ڈوپٹہ ہنگر میں سے نکال کر اپنے گلے میں دالے وہ اپنے کمرے سے باہر نکلی تھی۔۔۔

راہداری سے گزراتے وہ نیچھے سیڑھیاں اترنے لگی تھی اجب اس کے سامںے بیسٹ آ کر روکا تھا۔۔۔۔ وہ بھی شاید نیچھے جانے لگا تھا۔۔

اس نے واٹ کلر کی پنٹ شرٹ پر بلیک کلر کا لونگ کوٹ پہنا ہوا تھا سر پر بلیک کیپ تھی اور منہ بلیک ماسک سے ڈھکا ہوا تھا۔۔ وہ شاید کہیں جانے لگا تھا۔۔۔

تم نے ناشتہ کر لیا؟؟ وہ اس کے سامنے کھڑا پوچھ رہا تھا۔۔۔

وہ ہی کرنے لگی ہوں کوئی کام تھا کیا؟؟  جزا نے اس کی سبز آنکھوں میں آج دیکھنے سے گریز کیا تھا۔۔

تم رات دیر سے سوئی۔۔۔ بیسٹ اس کو غور سے دیکھتا بولا تھا۔۔ لہجہ ہموار تھا مگر فکرمندی صاف ظاہر تھی ۔۔

اللہ اس آدمی کی نظر کتنی تیز ہے ۔۔ جزا خود کلامی کرتے بولی تھی ۔۔ مگر اس کی بربراہٹ بیسٹ سن چکا تھا۔۔۔

شوہر کی نظر اپنی بیوی کے معاملے میں تیز ہی ہونی چاہیے ۔۔۔ اب یہ بتاؤ رات دیر سے کیوں سوئی ۔۔ کوئی پریشانی تھی۔۔۔ وہ اس کو دیکھتا پرسکون سا بولا تھا۔۔۔

نہیں کوئی پریشانی نہیں تھی۔۔۔ بس نیند نہیں آ رہی تھی ۔۔۔ جزا نظریں چورتی بولی تھی۔۔ اور سیڑھیاں اترنے لگی تھی جب بیسٹ کی بات اس کی سماعت سے ٹکرائی تھی ۔۔

جزا اپنا انتقام میرے ذمہ لگا دو۔۔ تاکہ تم بے فکر ہو کر سو سکو۔۔۔ بیسٹ نے اپنا روخ اس کی طرف کیا تھا جس کی کمر اس کے سامنے تھی۔۔ بیسٹ کی نظر اس کے جوڑے سے نکلی آزاد لٹوں میں الجھ گئی تھی ۔۔

بیسٹ میں اپنے انتقام کو لے کر فکرمند نہیں ہو ۔۔۔ میں اپنا انتقام خود ہی لوں گئی ۔۔۔۔ انسان فکرمند ہو صرف تب ہی نہیں جاگتا۔۔۔ اکثر کچھ اپنوں کی یادیں تنہائی میں آپ کو آن گھیرتی ہیں ۔۔۔ اور ہم چاہا کر بھی ان یادوں سے دامن نہیں چھوڑا سکتے ۔۔ اور نہ جانے کب ان یادوں کی بھیڑ میں نیند گم ہو جاتی پتا ہی نہیں چلتا ۔۔۔۔ جزا نے اپنے چہرے کا روخ تھوڑا سا موڑا تھا اور مدہم لہجے میں بولی تھی ۔۔۔ اور بیسٹ اس کے اس مدہم لہجے میں چھپی تھکان محسوس کر چکا تھا۔۔۔

جزا ہم یادوں سے پیچھا نہیں چھوڑا سکتے کیونکہ کچھ لوگ ہماری زندگی میں اتنے خاص ہوتے ہیں وہ ہر خوشی اور غم میں خود با خود یاد آ جاتے ہیں ۔۔۔ مگر ان یادوں کو اپنی کمزروی نہ بنے دینا ہم پر ہے۔۔ کہ کبھی بھی یہ یادیں ہمیں کمزور نہ کریں یہ ہماری ہمت کی وجہ بنے۔۔۔۔ بیسٹ ایک ایک سٹپ اُترتا اس کے سامنے آ کر کھڑا ہوا تھا۔۔۔ اور ایک گہری نظر اس کی آنکھوں میں ڈالی تھی ۔۔ جبکہ جزا بس اس کو  خاموشی سے دیکھتی جا رہی تھی ۔۔۔۔

ناشتہ کر لو۔۔ میں کیسی کام سے جا رہا ہوں۔۔ جلدی واپس آ جاؤ گا۔۔ پھر تمہاری ٹریننگ شروع کریں گے۔۔۔  بیسٹ یہ کہہ کر  سیڑھیاں اترتا چلا گیا تھا۔۔ جبکہ جزا اس کی باتوں پر غور کر رہی تھی ۔۔

باتیں اچھی کرتا ہے یا اس کی باتیں اچھی لگتی ہیں؟۔۔۔ جزا اس کو جاتا دیکھتے ہوئے خود سے سوال کر گئی تھی۔۔۔ اور پھر اپنے سر پر چیپت لگائی تھی ۔۔ میں اس فضول آدمی کے بارے میں اتنا کب سے سوچنے لگی۔۔۔ اور سیڑھیاں اتر کر ناشتہ کرنے کے لیے ڈائننگ روم کی طرف بڑھی تھی۔۔۔۔

••••••••••••

تم تینوں کب نکل رہے ہو پاکستان کے لیے؟؟ بیسٹ بیسمنٹ میں آیا تھا جہاں وہ تینوں پہلے سے موجود تھے۔۔۔۔

بس نکلنے لگے ہیں۔۔ ولف نے اس کو دیکھتے بولا تھا۔۔۔

گڈ۔۔۔ اور جو کام بولا تھا؟؟ بیسٹ نے لیو کی طرف دیکھا تھا۔۔۔

کل رات ہی ہو گیا تھا۔۔۔ لیو نے بازو اپنے سر کے پیچھے رکھتے کہا تھا۔۔۔

اور جو کام تمہارے ذمے ہے؟؟ اب کی بار بیسٹ نے رحیان کو دیکھا تھا۔۔۔

جاتے ساتھ اس پر کام شروع ہو جائے گا۔۔۔ رحیان نے بیسٹ کی گہری سبز آنکھوں میں دیکھا تھا۔۔۔

امید کرتا ہوں اس بار تم ہر چیز کے بارے میں وقت پر بتا دو گے۔۔۔ نہیں تو اس بار تمہاری موت کی اطلاع تمہارے ماں باپ کو میں دے کر آؤ گا۔۔۔۔ بیسٹ اپنی جگہ سے اٹھ کر رحیان کے سامنے کھڑا ہوا تھا اور اس کے کندھے پر اپنا ہاتھ  رکھ کر دباؤ ڈالتے بولا تھا۔۔۔  جب کے رحیان نے تھوک نگلی تھی۔۔ کیونکہ اس کو اپنی موت صاف نظر آ رہی تھی۔۔۔

بیسٹ کیوں بچے کی جان لینی ہے۔۔۔ ولف نے اٹھ کر بیسٹ کے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا ۔۔

تو اس بچے کو اس بار تم سمجھا دو۔۔ جو کام اس کے ذمے ہے وہ میری بیوی کے متعلق ہے ذرہ برابر بھی کوتاہی ہوئی تو اس کی چمڑی اس کے ہوش و حواس میں ادھیڑوں گا۔۔۔  بیسٹ نے ایک سخت نظر رحیان پر ڈالی تھی ۔۔ جبکہ وہ سر جھکا گیا تھا ۔ وہ جانتا تھا اس کا جرم بڑا تھا۔۔ اور اس جرم کی سزا بھی اس کو بہت بڑی دی گئی تھی ۔۔ یک طرفہ محبت سزائے موت سے کم تو نہیں تھی۔۔۔ جس سے آپ محبت کرتے ہوں وہ اس سے ناواقف ہو اور اس پر ظلم یہ کہ وہ شخص یہ حقیقت جانے بغیر دنیا سے منہ موڑ لے۔۔۔

اچھا غصہ تھوک دے نہ ۔۔ ولف نے اس کو دیکھتے ہوئے کہا تھا ۔۔

تم لوگ پاکستان کے لیے نکلو۔۔۔ بیسٹ سامںے کی چین سے ایک کار کی چابی اُتارتے بولا تھا۔۔۔

تم کہیں جا رہے ہو؟؟ ولف نے اس کی پشت کو دیکھا تھا جو اب اپنی گن لوڈ کر رہا تھا۔۔۔

ہاں ایک مہمان سسلی سے روم آیا ہوا ہے۔۔ تو اس کی خاطر تواضع کرنے جا رہا ہوں۔۔۔ بیسٹ نے گن اپنی پینٹ کے پیچھے  ڈالی تھی ۔۔۔

کون سا مہمان ۔۔۔۔ رحیان اور لیو ایک ساتھ بولے تھے۔۔۔ جبکہ ولف مسکرا رہا تھا۔۔۔

صارم کیبر ۔۔۔۔۔ بیسٹ نے اب ایک اور گن نکالی تھی۔۔۔ اور اس کی گولیاں گنتا بولا تھا۔۔۔

اووو تو تم اس بچے سے ملنے جا رہے ہو جو گارڈز کے بغیر باہر نہیں نکلتا ۔۔۔۔ لیو ہستا ہوا بولا تھا۔۔۔

میرے مہمان کی بے عزتی تو مت کرو۔۔۔ بیسٹ نے ایک آنکھ ونک کی تھی اور اپنی ہنسی چھپائی تھی ۔۔مگر اگلے ہی لمحے پورے بیسمنٹ میں ان چاروں کا قہقہہ گونجا تھا۔۔۔۔

••••••••••••••••

اس وقت سڑیک پر ٹریفک نہ ہونے کے برابر تھی جبکہ ایک بلیک رنگ کی بی ایم ڈبلیو سیڈان تیز رفتار سے سڑیک پر ڈور رہی تھی جس کے پیچھے اور دائیں بائیں تین اور بلیک گاڑیاں تھی۔۔۔ جو یقیناً درمیان میں چلتی بی ایم ڈبلیو میں بیٹھے شخص کی حفاظت کے لیے تھے۔۔۔۔ جب دور سے ایک اور بلیک کلر کی کار آتی دیکھائی دے رہی تھی۔۔۔ وہ بلیک کلر کی مرسڈیز بینز جی 36 تھی۔۔۔ جو بہت تیز رفتار سے آتی دیکھائی دے رہی تھی ۔۔

اور چند ہی لمحوں میں وہ کار ان چاروں کاروں کے قریب آ گئی تھی ۔۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے سڑک پر منظر بدلا تھا۔۔۔ وہ بلیک کلر کی مرسڈیز بلکل بی ایم ڈبلیو کے سامنے جا کر روکی تھی ۔۔۔

کون ہے یہ ۔۔ ہمت کس کی ہوئی میری گاڑی کے سامنے اپنی گاڑی روکنے کی۔۔۔  صارم جو بیک سیٹ پر بیٹھا تھا غصے سے بولا تھا۔۔۔  کھولا گریبان ایک ہاتھ میں وائن گلاس اور ایک طرف پینک کلر کی شوٹ ڈریس میں بیٹھی اس کی نئی گرل فرینڈ ۔۔

سر میں جا کر دیکھتا ہوں۔۔۔ ڈرائیور کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھا اس کا گارڈ بولا تھا۔۔۔

اپنی گن دے مجھے۔۔۔ میں دیکھتا ہوں اس کو ہے کون یہ جس کو اپنی موت کی یاد آئی ہے۔۔۔  صارم اس گارڈ کے ہاتھوں سے گن لے کر کار سے باہر نکلا تھا۔۔۔ اور جیسے ہی اس کی نظر سامنے کھڑی مرسڈیز پر گئی تھی ایک بار اس دھچکا لگا تھا۔۔ یا تو وہ یہ کار پہچانتا تھا یا اس کار کے مالک کو۔۔۔

وہ ایک ایک قدم بڑھتا آگے کی طرف بڑھا تھا۔۔۔ گن وہ لوڈ کر چکا تھا۔۔۔ کار کے پاس پہنچ کر اس نے کار کا دروازہ کھلونا چاہا تھا جو لوک تھا۔۔۔۔  اس سے پلے وہ کچھ بولتا جب اس کو کار ان لوک ہونے کی آواز آئی تھی۔۔۔ اس نے فوراً سے دروازہ کھولا تھا۔۔۔

کون ہے بے تو باہر نکل اتنی ہمت تیری تو میری کار کے سامنے اپنی کار کو روکے۔۔ دروازہ کھولتے ساتھ وہ غصے سے بولا تھا۔۔۔ جب اندر سے کیسی نے اس کے گن کی نوک کو اپنے ہاتھ میں لیا تھا۔۔۔

لگتا ہے تمہارے باپ نے تمہاری تربیت ٹھیک سے کی نہیں ۔۔۔ یا تم اس قابل نہ تھے کہ تمہیں تربیت دی جاتی۔۔۔ وائٹ پینٹ شرٹ پر بلیک لونگ کوٹ پہنے سر پر کیپ پہنے اور منہ پر ماسک لگائے ۔۔ سبز کائی جمی آنکھوں میں قہر لیے وہ اپنی تمام تر پر آسرار شخصیت کے ساتھ اس کے سامنے کھڑا تھا۔۔۔ صارم کا شک درست تھا۔۔۔ یہ کار بیسٹ کی تھی۔۔۔ بیسٹ کو اپنے سامنے دیکھ کر اس کا ایک رنگ آ رہا تھا ایک جا رہا تھا۔۔ اس کے سب گارڈز گاڑیوں سے باہر نکل آئے تھے۔۔۔ اور فوراً آگے بڑھ کر بیسٹ پر بندوقیں تان چکے تھے۔۔۔۔۔

بچہ پوری سکیورٹی کے ساتھ نکالا ہے۔۔۔ بیسٹ نے اس کے سارے گارڈز کو دیکھتے ہوئے کہا تھا۔۔۔۔

تو ادھر کیا کر رہا ہے۔۔۔۔ صارم غصے سے اس کو دیکھتے بولا تھا۔۔۔

تمہیں بتا دوں میں سسلی میں نہیں تم روم میں ہو ۔۔ تو اب جب میرے علاقے میں کوئی مہمان آئے گا تو خاطر تواضع تو بنتی ہے نہ۔۔ بیسٹ نے ایک آنکھ ونک کر کے بولا تھا۔۔۔

بیسٹ میرے راستے سے ہٹ جا ورنہ میرے آدمی تجھے بھن کے رکھ دیں گے۔۔۔ صارم ایک ایک لفظ چبا چبا کر بولا تھا۔۔۔

مرد کا بچہ ہے تو خود مقابلہ کر ان کتوں کا سہارا کیوں لے رہا ہے۔۔۔ میں تیرے ان پالتوں سے نہیں ڈرتا۔۔۔ ان کو ڈھیر کرنا بس دس منٹ کا کام ہے۔۔۔ بیسٹ صارم کی آنکھوں میں آنکھیں گاڑ کر بولا تھا۔۔۔

میرے منہ مت لگ بیسٹ ۔۔۔ صارم غصے سے چیلایا تھا۔۔۔۔

میں تیرے منہ لگوں گا۔۔۔۔ چی چی چی۔۔ میرا اتنا گندہ اور لو ٹیسٹ نہیں ہے صارم کیبر۔۔۔   بیسٹ اس کے کندھے پر ان دیکھی دھول صاف کرتے بولا تھا۔۔۔

تو حد پار کر رہا ہے۔۔۔۔۔ صارم نے اس کا گریبان پکڑنا چاہا تھا۔۔۔ جب بیسٹ نے اس کا ہاتھ روک دیا تھا۔۔۔

میں حد پار نہیں کر رہا صارم کیبر۔۔۔ مگر تیرا باپ اپنی حد ضرور پار کرے  گا۔۔۔  اس لیے اس کو جا کر بول دینا اگر وہ میری دشمنی مول نہیں لینا چاہتا تو اپنی حد میں رہے ورنہ اس کا آمنا سامنا صرف زیک سے نہیں ہو گا اس کا آمنا سامنا پھر بیسٹ سے بھی ہو گا۔۔۔ اور وہ اپنے سب سے بڑے دشمنوں کی فہرست میں بیسٹ کو سب سے آگے پائے گا۔۔۔۔ اور وہ جانتا ہے بیسٹ جس سے دشمنی مول لے لے پھر اس کو قبر میں اتار کر ہی چھوڑتا ہے ۔۔۔ بیسٹ نے اس کے ہاتھ کو اتنی مضبوطی سے پکڑ رکھا تھا۔۔ کہ اس کے ہاتھ کی ہڈیاں ٹوٹنے کی آواز اس کے گارڈز تک نے سنی تھی۔۔۔

اہہہہہہہ۔۔ میرا ہاتھ چھوڑ بیسٹ۔۔۔ صارم درد سے بلبلا اٹھا تھا۔۔۔

کیا چھوئی موئی قسم کا بچہ پیدا کیا ہے کیبر خاور نے۔۔۔ بیسٹ اس کے درد سے سرخ ہوتے چہرے کو غور سے دیکھتا بولا تھا۔۔ جبکہ اس کا لہجہ اور اس کے لہجہ صارم کو تپا گئے تھی۔۔۔

اس کو گولیوں سے بھون ڈالوں ذلیلوں میری شکل کیا دیکھ رہے ہو ۔۔ صارم اپنے گارڈز کو دیکھ کر غصے سے چیلا اٹھا تھا۔۔۔۔

جب بیسٹ نے اپنے دونوں ہاتھ کمر کے پیچھے کیے تھے اور جب اس نے اپنے ہاتھ آگے نکالے تو ان میں گنز تھی۔۔۔ اس سے پہلے صارم کے گارڈز گولیاں چلاتے وہ اس کے چار گارڈز کو موت کی نیند سلا چکا تھا۔۔۔

ایک نے گولی چلانے کے لیے بندق اوپر کی ہی تھی کہ بیسٹ نے فوراً اس کے ہاتھ پر گولی چلائی تھی بندوق اس سے دور جا گری تھی۔۔۔ اور ایسے ہی وہ باقی تینوں کے ہاتھوں کی گنز بھی گرا چکا تھا ۔۔  اب وہ چاروں گارڈز ایک ایک زخمی ہاتھ کے ساتھ ناہتھے اس کے سامنے کھڑے تھے۔۔۔ بیسٹ نے اپنے دونوں گنز کار کی چھت پر رکھی  تھی اور ایک کو ہاتھ کے اشارے سے اپنی طرف بلایا تھا ۔۔ وہ اس کو مارنے کے لیے آگے بڑھا تھا جب بیسٹ نے اس کی ایک بازو کو پکڑا تھا۔۔ اور اتںی بری طرح سے موڑا تھا کہ اس کی ہڈی ٹوٹنے کی آواز صارم سمت باقی تینوں گارڈز نے بھی سنی تھی۔۔۔۔  ان تین میں سے دو گارڈز اپنے ساتھی کو بچانے کے لیے آگے بڑھے تھے۔۔۔ جب بیسٹ نے پہلے والے کی گردن فوراً موڑی تھی اور وہ موقع پر مرا تھا۔۔۔ ان میں سے ایک نے اپنی جیب سے ایک چھوٹا چاقو نکال تھا اور بیسٹ کی بازو پر مارا تھا جبکہ بیسٹ دوسرے کو قابو کیے کھڑا تھا۔۔۔ جس کی گردن ابھی بیسٹ کے ہاتھ میں تھی فوراً اس کی گردن موڑتا بیسٹ اس کی طرف موڑا تھا جس نے اس کی بازو میں ابھی چاقو مارا تھا۔۔ بیسٹ نے ایک نظر اس چاقو کو دیکھا جو اس کی بازو میں تھا ابھی۔۔۔ اور ایک نظر سامنے کھڑے اس کارڈ کو دیکھا تھا جو اب کانپ رہا تھا۔۔۔

نائس ٹرائی۔۔  بٹ ناؤ اٹس یور لاسٹ ۔۔۔ بیسٹ نے فوراً وہ چاقو چھوٹا سا چاقو اپنے بازو سے نکالا تھا اور سامنے کھڑے شخص کے سمجھنے سے پہلے اس کی شہ رگ میں مار چکا تھا۔۔۔۔

اس کو مار کر وہ فوراً موڑا تھا۔۔ جہاں ایک گارڈ اور صارم کھڑا تھا۔۔۔ صارم اس گارڈ کو اپنے سامنے کیے کھڑا تھا۔۔۔ کیونکہ وہ سامنے کھڑے شخص کے اندر کا درندہ جگا چکا تھا اور اب اس کو اپنی جان کے لالے پڑے تھے۔۔۔۔

یو۔۔۔۔ بیسٹ نے شہادت کی انگلی کے اشارے سے صارم کے سامنے کھڑے گارڈ کو بلایا تھا۔۔ جیسے صارم نے فوراً آگے پھینکا تھا۔۔۔

اس آدمی نے آگے بڑھ کر اس کو مکا مارنا چاہا تھا جب بیسٹ نے اس کی بازو فوراً موڑ ڈالی تھی۔۔۔ اس آدمی کی ایک درد ناک چیخ فضا میں بلند ہوئی تھی۔۔۔  اس سے پہلے وہ آدمی کوئی اور وار کرتا بیسٹ اس کی بھی گردن موڑ چکا تھا۔۔۔۔  جب اچانک بی ایم ڈبلیو کا دروازہ کھولا تھا اور ایک لڑکی باہر کی طرف بھاگی تھی۔۔۔ کیونکہ وہ سب گارڈز کو مرتے دیکھ چکی تھی اب باری صارم کی تھی۔۔ اس لیے اس کو اب آخری اوپشن بھگانا ہی لگا تھا۔۔۔

بیسٹ نے ایک نظر اس لڑکی کو دیکھا اور پھر صارم کو اور فوراً کندھے اوچکے تھے۔۔ جیسے کہا رہا ہو میں نے تو کچھ نہیں کیا۔۔۔

 کافی  ٹائٹ سکیورٹی تھی ۔۔۔ اپنا ہاتھ جھاڑتے زمین پر پڑی ان آٹھ لاشوں کو دیکھتا بولا تھا اور پھر اس نے ایک نظر اپنے گھڑی پر ڈالی تھی اس کو دس منٹ سے بھی کم وقت لگا تھا ان آٹھ آدمیوں کو مارنے جو کہنے کو صارم کیبر کے باڈی گارڈز تھے ۔۔

چل اب تیری باری۔۔۔ مرد ہے تو مقابلہ کر آ کر ۔۔ بیسٹ صارم کو دیکھتا بولا تھا۔۔۔ جبکہ اس کے الفاظ اس کو غصہ دیلا چکے تھے ۔۔۔

صارم فوراً آگے بڑھا تھا اور ایک مکا بنا کر بیسٹ کو مارنے لگا تھا جب بیسٹ تھوڑا پیچھے ہوا تھا۔۔۔ اور اگلے ہی لمحے اس نے دھڑا دھڑ مکوں کی برسات صارم کے منہ پر کر دی تھی۔۔ اس کے ناک اور ہونٹ کے پاس سے خون نکلنے لگا تھا۔۔۔۔  صارم خود کو سنبھالتا پھر سے آگے بڑھا تھا۔۔ اب کی بار اس نے بیسٹ کے پیٹ پر مکا مارنا چاہا تھا۔۔۔ جبکہ بیسٹ نے اس کے بازو کو ادھر ہی روک کیا تھا اور ایک   ہاتھ سے مکا مارا تھا صارم کے پیٹ پر جب اس کے منہ سے خون نکالا تھا۔۔۔ بیسٹ نے صارم کا گریبان پکڑ کر اس کو سیدھا کیا تھا اور رکھ کے ایک تھپڑ اس کے منہ پر مارا تھا اس کے منہ سے  خون کے ساتھ چار دانت بھی باہر نکلے تھے۔۔۔ صارم بس اتنے سے ہی آدھ مرا ہو گیا تھا ۔۔۔۔

یہ میرا علاقہ ہے صارم کیبر۔۔۔ اگلی بار روم میں قدم سوچ سمجھ کر رکھنا ۔۔۔ اور تجھے زندہ اس لیے چھوڑا ہے تاکہ تو اپنے باپ کو جا کر بتا سکے کہ کوئی بھی قدم اٹھانا ہو اپنے رسک پر اٹھائے۔۔۔ اور اگلی بار روم میں قدم رکھنے سے پہلے سو بار سوچنا ۔۔۔ اس بار کی خاطر تواضع یاد رکھنا اگلی بار اس سے اچھی ہو گی۔۔۔۔ یہ کہہ کر بیسٹ اس کو ویسے ہی سڑک پر پھینکتا اپنی کار کی طرف بڑھا تھا۔۔۔ اپنی گنز اٹھا کر واپس اپنی کمر کے پیچھے رکھی تھی ۔ اور کار میں بیٹھ کر ایک نمبر ڈائل کیا تھا۔۔۔۔

مقابل نے فوراً فون اُٹھایا تھا۔۔۔۔۔

کس لیے فون کیا ہے بیسٹ ۔۔۔ کنگ کی آواز فون کے سپیکر پر سے گونجی تھی۔۔۔

کیسے ہو کیبر خاور ۔۔۔ بیسٹ کی رعب دار آواز کنگ کی سماعت سے ٹکرائی تھی۔۔۔

تم نے فون کس لیے کیا ہے بیسٹ ۔۔۔ کنگ کو اس کی آواز سے کیسی گربر کا اندازہ ہوا تھا۔۔ اس وجہ سے فوراً مدعے پر آیا تھا ۔ کیونکہ وہ جانتا تھا بیسٹ اس کا حال چال پوچھنے کے لیے کبھی فون نہیں کرے گا۔۔۔

بڑی جلدی ہے محترم کو۔۔۔ بیسٹ طنزیہ بولا تھا۔۔۔

بیسٹ  تم نے فون کس لیے کیا ہے بتاؤ مجھے۔۔۔ کنگ اب کی بار غصے سے چیلا تھا ۔۔ جبکہ بیسٹ کو اس کا چیلانا مزہ دے رہا تھا۔۔۔ اس کو مزید تنگ کرنے کا موڈ ترک کرتے اس نے بولنے کے لیے اپنے لب ہلائے تھے ۔۔

تمہارا چھوئی موئی بچہ اپنے کچھ پالتوں کتوں سمیت میرے علاقے میں آ گیا تھا ۔۔ سڑک پر پڑا ہے۔۔ غلاظت اٹھا لو۔۔۔  بیسٹ  سڑک پر ایک نظر ڈالتا بولا تھا۔۔ جہاں صارم کے آٹھ گارڈز کی لاش پڑی تھی اور ایک طرف وہ بےہوش پرا تھا۔۔۔ بیسٹ نے ابھی اس کی اتنی خاطر تواضع بھی نہ کی تھی اور وہ لہو لہان ہو گیا تھا۔۔۔۔

کیا بکواس کر رہے ہو تم۔۔۔  کنگ غصے سے چیختا بولا تھا۔۔۔۔

آواز نیچی رکھو کیبر خاور ۔۔۔  اور اپنے بچے کے گلے میں پٹا ڈال لو آگر سنبھالا نہیں جارہا ۔۔۔ یا ٹھکانے لگا دوں اس کو میں ۔۔۔ بیسٹ ایک ایک  لفظ پر زور دیتا بولا تھا۔۔۔

صارم کدھر ہے۔۔۔ کنگ کی  دوسری طرف سے آواز گونجی تھی۔۔۔

بولا تو ہے سڑک پر پڑا ہے اٹھوا لو۔۔۔  بیسٹ پرسکون سا بولا تھا۔۔۔

میں تمہیں جان سے مار ڈالوں گا بیسٹ ۔۔۔ کنگ غصے سے بے قابو ہوتا بولا تھا ۔۔۔

پہلے اپنا بچہ سنبھالا سیکھ لے کیبر خاور بعد میں بھیڑے کے منہ میں ہاتھ ڈالنے کا سوچنا۔۔۔ بیسٹ نے یہ کہہ کر فون بند کر دیا تھا۔۔۔۔ اور اپنی کار سٹارٹ کر کے ادھر سے جا چکا تھا۔۔۔۔

••••••••••••••

شہزاد ابھی ان تصویروں کی ساری انکوائری کروا کر آیا تھا ۔۔ ساری رپورٹس سے بس ایک ہی بات واضح ہو رہی تھی کہ وہ ڈیڈ باڈی جزا کی ہے۔۔۔

وہ ابھی گھر میں داخل ہوا تھا۔۔۔ اور سیدھا گھر میں بنے بار کی طرف گیا تھا۔۔۔ ایک شراب کی بوتل اٹھا کر کھولتے اس نے منہ سے لگائی تھی۔۔۔

میں نے تمہارا غرور توڑنے کے لیے تمہاری آنا کو ریزہ ریزہ کرنے کے لیے اتنا سب کچھ کیا۔۔۔ مگر تم کیسے اتنی آسان موت مر گئی۔۔۔ میں تمہیں تڑپا تڑپا کر مارنا چاہتا تھا۔۔۔  شہزاد شراب کی بوتل منہ سے نکالنے کے بعد غصے سے بول رہا تھا۔۔۔ اس کو یقین ہی نہ آ رہا تھا جس کو وہ اپنے سامنے موت کی بھیک مانگتے دیکھنا چاہتا تھا وہ مر گئی تھی۔۔۔۔

کیا ہوا ہے۔۔۔ اکرم صاحب جو ابھی اپنی سٹیڈی سے نکلے تھے شہزاد کو دیکھ کر اس کے پاس آئے تھے جو ہاتھ میں شراب کی بوتل پکڑے ہارے ہوئے جواڑی سے کم نہیں لگ رہا تھا۔۔۔۔

میں اس کو تڑپا تڑپا کر مارنا چاہتا تھا ذلت اس کا مقدر بنانا چاہتا تھا۔۔۔ اس کی زندگی کو تماشا بنانا چاہتا تھا۔۔۔ وہ اتنی آسانی سے کیسے مر گئی۔۔ شہزاد اکرم صاحب کو دیکھتا بولا رہا تھا۔۔ اس کی سیاہ آنکھوں میں سرخی دور آئی تھی۔۔۔ اس نے شراب کی بوتل پھر سے منہ کے ساتھ لگائی تھی۔۔۔

کون مر گئی ہے شہزاد بتاؤ گے۔۔۔ اور یہ پنا بند کرو حالت کیا کر لی ہے تم نے اپنی ۔۔۔ اکرم صاحب نے اس کے  ہاتھ سے شراب کی بوتل لی تھی ۔۔۔

جزا اور کون ۔۔۔ مر گئی ہے وہ۔۔۔ شہزاد نے ہاتھ دوبارہ شراب کی بوتل کی طرف بڑھایا تھا۔۔۔جبکہ اکرم صاحب کے ہاتھ ایک دم اس کے کندھے سے گرے تھے۔۔ وہ بے یقینی سے شہزاد کو دیکھ رہے تھے۔۔۔

تم نشے میں ہو شہزاد کچھ بھی بکواس کرتے ہو۔۔۔ اکرم صاحب نے اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھری تھی اور ہمت کر کے بولے تھے۔۔۔

میں نشے میں بکواس کر رہا ہوں میں ؟؟ شہزاد نے شہادت کی انگلی سے اپنے سینے پر دستک دی تھی۔۔۔

ہاں تم بکواس کر رہے ہو شاید نشے میں ہو اس وجہ سے جو منہ میں آ رہا ہے بولتے چلے جا رہے ہو۔۔۔ اکرم صاحب نے اس کو غصے سے دیکھا تھا۔۔۔

یہ دیکھیں ۔۔۔۔ شہزاد نے ان کے سامنے کچھ تصویریں اور اور کچھ رپورٹس رکھی تھی۔۔۔

اکرم صاحب نے ایک کے بعد ایک تصویر  دیکھ رہے تھے۔۔۔ اور ان کو ان تصویروں پر یقین نہ آیا تو وہ ان ریپورٹس کو دیکھنے لگے تھے۔۔۔۔

شہزاد یہ سب۔۔۔۔ اکرم صاحب نے حیرت سے اس کو دیکھا تھا۔۔۔۔

بلڈ گروپ، ایج ، ڈی آن اے  ایچ اینڈ ایوری تھنگ ار سیم ۔۔۔۔ شہزاد اپنے بالوں میں ہاتھ ڈالے بولا تھا۔۔۔۔

تمہیں کب پتا چلا۔۔۔ تم نے ذکر بھی نہیں کیا میرے سامنے۔۔۔ اکرم صاحب نے غصے سے اس کی طرف دیکھا۔۔۔

میں پہلے اس بات کی انکوائری خود کرنا چاہتا تھا۔۔۔۔  اور جس بات کا ڈر تھا وہ ہی ہوا وہ واقع ہی مر گئ ہے۔۔۔ شہزاد اپنا سر ہاتھوں میں گرا چکا تھا۔۔۔۔

خود کو سنبھالو تم۔۔ اکرم صاحب نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا۔۔۔۔

اس جو ذلیل و رسوا کرنا چاہتا تھا میں ۔۔۔ اس کی زندگی جہنم بنانا چاہتا تھا۔۔ میں نے اس سے بدلہ لینے کے لیے کیا کچھ نہیں کیا۔ اور بدلے میں اتنی بڑی ہار ملی مجھے وہ اتنی آسان موت مر گئی۔۔ شہزاد نے غصے میں سامنے پڑی شراب کی بوتل اٹھا کر زمین پر ماری تھی۔۔

ہوش سے کام لو شہزاد شکر ادا کرو وہ مر گئی ہے۔۔۔ ورنہ تمہارے گلے کی ہڈی بن جاتی۔۔۔۔ اکرم صاحب نے اس کو بازو سے پکڑ کر جھنجھوڑذ تھا۔۔۔۔

میں اس کو ذلیل کرنا چاہتا تھا۔۔۔ وہ میری تھی۔۔۔ اس کو مارنے کا حق بھی میرا تھا۔۔۔ شہزاد غصے سے بے قابو ہوا تھا۔۔۔۔

تمہارا دماغ خراب ہو گیا ہے۔۔۔ اکرم صاحب نے اس کو غصے سے دیکھا تھا۔۔۔

ہاں ہو گیا ہے میرا دماغ خراب کیا کر لیں گے آپ ۔۔۔ شہزاد اپنا بازو چھوڑوا کر اپنی جگہ سے اٹھا تھا اور اپنے کمرے کی طرف بڑھا تھا۔۔۔ جبکہ اکرم صاحب بس اس کو جاتا دیکھ رہے تھے۔۔۔۔ وہ دونوں اس بات سے انجان تھے۔۔۔ انقریب ان پر کون سی آفت ٹوٹنے والی تھی۔۔۔۔

••••••••••••

خیر تھی تم فون کر رہے تھے۔۔۔ زیک نے جب اپنا فون اُٹھایا تو اس کو حدید کی کافی کالز کی نوٹیفکیشن ملی تھی اس نے فوراً اس کا نمبر ڈائل کیا اور کال ملائی تھی۔۔۔ جو دوسری بل پر ہی اٹھا لی گئی تھی۔۔۔

خیر نہیں تھی تبھی تمہیں کال کی ہے۔۔۔ اور اگر کہیں چلے ہی گئے ہو تو بتا کر نہیں جا سکتے تھے ۔۔ مجھ اکیلے کو جلاد کے سامنے پھینک دیا ہے اور تمہارا کوئی آتا پتا ہی نہیں ۔۔۔۔  حدید غصے میں بولتا چلا جا رہا تھا۔۔۔

ہوا کیا ہے۔۔۔  کوئی جن دیکھ لیا ہے کیا؟؟ زیک لیپ ٹاپ کی سکرین پر کوئی فائل کھول کر بیٹھا تھا اس کو باغور دیکھتے حدید کی بات سنتے بولا تھا۔۔۔

یہ ہی سمجھو جن دیکھ لیا ہے۔۔۔ حدید تپ کر بولا تھا۔۔۔

کیا مطلب؟؟ زیک سنجیدہ ہوتا بولا تھا ۔۔۔۔

بلیک ڈیول آ گئے ہیں ۔۔۔ حدید نے غصے سے ایک ایک لفظ چبا کر بولا تھا۔۔۔ جبکہ زیک کا ہاتھ کی بورڈ پر چلتا روکا تھا۔۔۔

کیا کہا بلیک ڈیول ۔۔۔۔ زیک کو اپنی سماعت پر یقین نہیں آیا تھا۔۔۔

ہاں بلیک ڈیول تمہارا باپ ۔۔۔۔ حدید نے اب کی بار اپنی ہنیس چھپائی تھی وہ جانتا تھا جو سب پر آسمان گراتا تھا آج اس پر دھماکہ ہوا تھا۔۔۔

کدھر ہیں وہ۔۔۔ زیک کچھ سوچتے ہوئے بولا تھا۔۔۔

دبئی میں ہیں تمہارا پوچھ رہے ہیں اب بتاؤ کیا بتاؤ انہیں یا  اگلے چوبیس گھنٹے میں تمہیں کیسے پیدا کروں ؟؟ حدید پریشانی سے بولا تھا۔۔۔

یہ دبئی کیا کر رہے ہیں ۔۔۔ زیک شدید بد مزہ ہوا تھا۔۔۔

مجھے کیا پتا کیا کر رہیں ہے۔۔ تم باپ بیٹے کو ایک دوسرے کی خبر نہیں میں بچارہ بیچ میں رگڑا جاتا ہوں۔۔۔ حدید شاید مکمل تپا ہوا تھا تبھی چیڑ کر بولا تھا۔۔۔۔  جبکہ حدید کی بات سن کر زیک کا قہقہہ سپیکر پر سے گونجا تھا۔۔۔

اچھا یار غصہ تھوک دے ان کو میں ہنڈیل کر لوں گا ۔۔ زیک نے اس کو ریلکس کرنا چاہا تھا ۔۔

زیک میں سیریس ہوں یار ۔۔ ورنہ بلیک ڈیول میری ہڈیاں توڑ دیں گے۔۔۔ حدید نے اپنی  پریشانی اس کے سامنے رکھی تھی۔۔۔ کیونکہ تاریخ گواہ تھی۔۔ جب کبھی زیک منظر سے  غائب ہوتا تھا اور اس وقت بلیک ڈیول کو پتا چلتا تھا تو بیچارہ حدید بیچ میں پھنستا تھا۔۔۔

فکر مت کرو ان کو میں دیکھ لوں گا تم مجھے یہ بتاو کچھ پتا چلا ہے؟ زیک اب ذرہ سنجیدہ ہوا تھا۔۔۔

ہاں بہت کچھ پتا چلا ہے زیک۔۔۔عثمان پچھلے دنوں ادھر دبئی ہی تھا۔۔ اس کی ملاقات لکشمن سے ہوئی تھی۔۔۔ حدید خاموش ہوا تھا۔۔۔

کیا بات ہوئی دونوں میں ۔۔۔ زیک فوراً بولا تھا اور اس کے ہاتھ کی بورڈ پر تیزی سے چل رہے تھے ۔۔۔

کنگ ترکی سے بھاگ نکلا ہے۔۔ اور سسلی پہنچچ گیا ہے۔۔۔ حدید کی آواز سپیکر پر سے گونجی تھی۔۔۔

گڈ۔۔۔ زیک کے چہرے پر ایک پر اسرار مسکراہٹ آئی تھی۔۔۔

اس میں گڈ کیا ہے؟؟ حدید کی حیرت میں ڈوبی آواز زیک کی سماعت سے ٹکرائی تھی ۔۔۔۔

کیونکہ اب کھیل شروع ہونے لگا ہے حدید ۔۔۔  چوہا بل سے باہر نکل آیا ہے یہ جانے بغیر کے اس کے شکاری کتںے ہیں اور کس کس روپ میں ہیں ۔۔۔ زیک کی بورڈ پر انٹر پریس کرتا اپنے کرسی سے ٹیک لگا کر بولا تھا۔۔۔

اس بات کا کیا مطلب ہے؟؟ حدید کو اس کی بات سمجھ نہیں آئی تھی۔۔۔

شطرنج کا کھیل شروع ہو گیا ہے حدید ۔۔۔   وقت سب کچھ واضح کرے گا۔۔۔ چوہا بل سے نکل کر اپنی زندگی کی سب سے بڑی غلطی کر بیٹھا ہے۔۔۔ اس کو لگے گا۔۔ شطرنج کے اس کھیل میں وہ بادشاہ ہے۔۔۔ مگر اصل بادشاہ کوئی اور ہو گا۔۔۔ زیک اپنی جگہ سے اٹھا تھا۔ اور  چلتے ہوا ایک ٹیبل کے سامنے روکا تھا۔۔۔۔ جہاں پر سیاہ اور سفید رنگ کی کانچ سے بنی شطرنج کی مہریں پڑی تھی ۔۔۔

مگر زیک تم یہ سب  کیسے کہہ سکتے ہو۔۔۔ حدید فوراً بولا تھا۔۔۔۔

کچھ وقت لگے گا حدید تمہیں سمجھ آ جائے گئی ہونے کیا والا ہے کنگ کے ساتھ۔۔۔۔۔۔۔ اور خبردار جو ابھی نکاح جیسا کوئی کام چھیڑا تو۔۔ زیک  اپنی مسکراہٹ روکے بولا تھا۔۔۔

تمہاری مہربانی زیک مجھ پر سے ہاتھ اٹھا دو۔۔ تم کیا میری نگرانی کرنے بیٹھ گے ہو۔۔۔ تھوڑی سی پرسنل سپیس دے دو مجھے۔۔۔ زیک کی بات سن کر حدید بیچارگی سے بولا تھا۔۔۔

میں تم سے بعد میں بات کرتا ہوں تم واپس پاکستان جاؤ گے اور کچھ دنوں میں ۔۔۔ اور نکاح والے معاملے سے دور رہنا ورنہ اس بار دلہا غائب ہو گا نکاح کے ٹائم ۔۔۔ یہ کہہ کر زیک فون رکھ  چکا تھا۔۔۔

ذلیل انسان خود بھی کنواہ مرے گا اور مجھے بھی کنوراہ مروائے گا۔۔۔ حدید فون کی سکرین کو دیکھتا بولا تھا کیونکہ زیک کے سامنے وہ یہ بولنے کی ہمت بھی نہیں کر سکتا تھا۔۔۔۔

••••••••••••

کدھر سے آ رہے ہو تم ؟؟ وہ جو ابھی گھر میں داخل ہوا تھا آغا صاحب کی آواز پر ادھر ہی روک گیا تھا۔۔۔

بتا کر گیا تھا میں ۔۔۔ رحیان جو اپنے کمرے میں جانے لگا تھا آغا صاحب کی آواز سن کر فوراً موڑا تھا  جو لاون کے دروازے کے پاس کھڑے اس کو گھور رہے تھے۔۔۔

کس کو بتا کر گئے تھے؟؟ آغا صاحب نے سختی سے پوچھا تھا۔۔۔

 

آپ کی ایک عدد بیگم کو بتا کر گیا تھا۔۔۔۔ رحیان ان کی طرف موڑتے بولا تھا۔۔۔

وہ تمہاری کچھ نہیں لگتی؟؟.. آغا صاحب کی گرجدار آواز لاونج میں گونجی تھی۔۔۔

میں نے ایسا کب کہا کے میری کچھ نہیں لگتی؟؟ رحیان نے اپنی ہنسی چھپائی تھی ۔۔۔

تم گے کدھر تھے۔۔۔ آغا صاحب اس کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے پھر سے اپنے مدعے پر آئے تھے۔۔۔

جہاں تک مجھے لگتا ہے اور میں موم کو جانتا ہوں وہ آپ کو بتا کچھ ہیں کہ میں کدھر گیا تھا۔۔۔ رحیان نے دونوں ہاتھ پنٹ کی جیبوں میں ڈالے تھے ۔۔۔

تم اٹلی کیا کرنے گے تھے؟  ایسا کون سا کام ہے تمہارا اٹلی میں جو اتنی افراتفری میں نکل گے؟؟ آغا صاحب نے اس کو مشقوق نظروں سے دیکھا تھا۔۔

بس کچھ کام تھا۔۔۔۔ رحیان نے کندھے اوچکے تھے۔۔۔ اب وہ یہ تو بتانے سے رہا تھا کہ وہ اٹلی کی مافیا کے ساتھ کام کر رہا ہے۔۔۔

رحیان تم بتاؤ گے کہ تم آج کل کر کیا رہے ہو؟؟  آغا صاحب اب ذرہ سنجیدہ ہوئے تھے۔۔

وہ دراصل میں آج گل تالاب میں رہ کر مگرمچھ سے بچنے کی کوشش کر رہا ہوں۔۔۔ رحیان آغا صاحب کے سامنے جا کر کھڑا ہوتا اور ان کے کان کے قریب جھک کر بولا تھا۔۔۔

کیا بکواس ہے یہ سیدھی طرح بات بتا نہیں سکتے تم؟؟  آغا صاحب نے اس کو سخت گھوری سے نوازا تھا۔۔۔۔

نہیں۔۔ اور اب میں اپنے کمرے میں جا رہا ہوں تھکا ہوا ہوں کچھ دیر آرام کرنا ہے مجھے۔۔۔ رحیان یہ کہہ کر اپنے کمرے کی طرف بڑھا تھا۔۔ جبکہ آغا صاحب اس کو غصے سے گھور رہے تھے۔۔۔ وہ جانتے تھے جب تک اس کا موڈ نہیں ہو گا وہ منہ سے ایک لفظ بھی نہیں نکالے گا بیشک اس کے سامنے چیختے رہو۔۔۔ تبھی خاموشی سے واپس اپنے کمرے میں چلے گے تھے۔۔۔۔

••••••••••••••

وہ نیم بے ہوش سا بستر پر پڑا تھا۔۔۔ ڈاکٹر اس کا علاج کر رہے تھے۔۔۔۔

کیسا ہے یہ اب؟؟ کنگ کی غصے سے بڑھی آواز کمرے میں گونجی تھی۔۔۔ صارم کی حالت دیکھ دیکھ کر گنک کا خون کھول رہا تھا۔۔۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا وہ بیسٹ کو جان سے مار ڈالے ۔۔۔۔۔

ہاتھ بہت بری طرح سے ٹوٹا ہے کم سے کم مہینہ یا اس سے بھی زیادہ وقت لگ سکتا ہے ہاتھ کے ٹھیک ہونے میں ۔۔۔ اور شاید مارنے والے کا ہاتھ بہت مضبوط تھا تبھی پیٹ پر  بہت گہرا نیل پڑا ہے۔۔۔ فلحال کافی آرام کی ضرورت ہے اس کو۔۔۔ ڈاکٹر صارم کی ساری صورتحال بتا چکا تھا ۔۔۔۔

اور چہرے کا کیا حال ہے۔۔۔ کنگ نے صارم کے چہرے کو دیکھا تھا جو جگہ جگہ سے نیلا ہوا پڑا تھا۔۔۔

شکر ادا کریں کنگ اس کی ہڈی نہیں ٹوٹی۔۔ ڈاکٹر نے اس کے چہرے کی طرف دیکھا تھا جو اس وقت افسوسناک حد تک خراب ہوا ہوا تھا۔۔۔

میں تمہیں زندہ نہیں چھوڑوں گا بیسٹ ۔۔۔ تمہاری ہمت کیسے ہوئی میرے بیٹے کہ ساتھ ایسا کرنے کی۔۔۔۔ کنگ غصے سے بے قابو ہوا تھا۔۔۔۔ 

جب کمرے کا دروازہ نوک ہوا تھا اور کنگ کا ایک خاص آدمی کمرے میں آیا تھا۔۔۔

آپ نے بلایا تھا کنگ۔۔۔ وہ آدمی کنگ کے سامنے تابعداری سے کھڑتا بولا تھا۔۔۔۔

بیسٹ کی ایک ایک حرکت پر نظر رکھو اور اس کی کوئی کمزور ڈھونڈ کر دو مجھے۔۔۔ کوئی لڑکی کوئی عورت کوئی رکھیل جس میں اس کی جان بیسی ہے مجھے ڈھونڈ کر دو۔۔۔ اس کی ماں کون ہے کوئی بہن ۔۔ کوئی ایسا رشتہ جس کی وجہ سے وہ کمزور پڑے ۔۔۔۔  مجھے اس کے بارے میں سب پتا لگا کر دو۔۔۔۔ ورنہ میں تمہیں جان سے مار ڈالوں گا۔۔۔ کنگ اس ادمی کو اس کی گردن سے پکڑ بولا تھا۔۔۔اس کا بس نہیں چل رہا تھا وہ ساری دنیا کو آگ لگا ڈالے۔۔۔۔

ج۔۔۔جی کنگ۔۔۔ جو حکم۔۔۔۔۔ وہ آدمی بامشکل بول پایا تھا کنگ نے اس کی گردن کو اتنی  زور سے پکر رکھا تھا۔۔۔۔

شکل گم کرو اپنی۔۔۔۔ کنگ نے فوراً سے اس کی گردن چھوڑی تھی۔۔ وہ آدمی تین قدم پیچھے ہوا تھا۔۔۔۔

مجھے میرا بیٹا بلکل ٹھیک چاہیے ہے ڈاکٹر ورنہ میں تمہیں وینٹیلیٹر پر پہنچا دوں گا۔۔۔۔ کنگ غصے سے ڈاکٹر کو کہتا کمرے سے باہر نکل گیا تھا۔۔۔۔

••••••••••••••

جزا  اگر پندرہ  منٹ میں تم سے یہ کمپیوٹر ہیک نہ ہوا تو انجام کی ذمہ دار تم ہو گی۔۔۔ بیسٹ کی رعب دار آواز اس کی سماعت سے ٹکرائی تھی جبکہ گل ایک طرف بیٹھی چیپس کھا رہی تھی۔۔۔۔

پندرہ منٹ۔۔۔ جزا روہانسی ہوئی تھی۔۔۔۔

جی پندرہ منٹ جو اب چودہ رہ گئے ہیں ۔۔ بیسٹ اس کو دیکھتا بولا تھا۔۔۔

مجھے سے نہیں ہوتا پندرہ منٹ میں ہیک۔۔۔ جزا نے کی بورڈ دور کیا تھا۔۔۔

جزا میڈم آپ کے یہ نخرے دشمن نہیں دیکھیں گے سمجھ آئی نہ شکر ادا کرو کے پندرہ منٹ دیے ہیں ورنہ صرف دو منٹ کا کام ہے یہ۔۔۔ بیسٹ اس کی حرکت دیکھ کر غصے سے بولا تھا۔۔۔

مجھے تو لگتا ہے میرے نخرے دشمن ہی دیکھیں گے۔۔۔ جزا منہ بسور کر بولی تھی۔

میں مر گیا ہوں کیا جو دوسروں کو نخرے دیکھانے ہیں تم نے۔۔ جزا کی بات پر وہ جل کر بولا تھا۔۔۔

تو بس پھر ٹائم تھوڑا انکریز کرو مجھ سے پندرہ منٹ میں یہ کمپیوٹر ہیک نہیں ہو گا۔۔۔ جزا نے اس کو سخت گھوری سے نوازا تھا۔ وہ جانتی تھی بیسٹ اس میں دلچسپی رکھتا ہے۔۔ عورت محسوس کر جاتی ہے کہ کون سا مرد اس میں دلچسپی رکھتا ہے اور کون اس کو ہوس سے دیکھتا ہے۔۔ ایسی طرح وہ بھی محسوس کر چکی تھی۔۔ اس نے بیسٹ کی نظروں میں اپنے لیے عزت اور محبت دیکھی تھی۔۔۔مگر وہ پھر بھی انجان بنتی تھی۔۔۔

ٹائم تو بلکل انکریز نہیں ہو رہا ۔۔۔ اور جتںا منہ چلا رہی ہو اتنا ہاتھ اور دماغ چلا لو تو تو تم پانچ منٹ میں اس کو ہیک کر لو۔۔۔ بیسٹ اب اس کے سر پر کھڑا بولا تھا۔۔ مطلب صاف تھا کہ اگر اس کے بتائے ٹائم میں جزا نے کمپیوٹر ہیک نہ کیا تو بس پھر بیسٹ اس کو سزا دے گا۔۔۔ بیسٹ  ٹریننگ کے معاملے میں بہت سخت ثابت ہوا تھا۔۔۔ 

جبکہ گل کبھی جزا اور کبھی بیسٹ کو دیکھ رہی تھی۔۔ جو ٹریننگ کے ٹائم کام کم اور بحث زیادہ کرتے تھے۔۔۔ آج ایک ہفتہ ہو گیا تھا گل ان دونوں کی نوک جھوک روز  ٹریننگ ٹائم سنتی تھی۔۔۔

گل کو خود کو اور جزا کو منہ کھولے دیکھتا دیکھ کر بیسٹ اس کی طرف مرا تھا۔۔۔

تم کیا کر رہی ہو۔۔۔ بیسٹ اس کو سخت نظروں سے دیکھتا بولا تھا۔۔۔

آپ دونوں کی نوک جھوک دیکھ رہی تھی۔۔۔ گل چیپس منہ میں ڈالتے لاپرواہی سے بولی تھی۔۔ مگر جیسے ہی اس کو اپنے الفاظوں کا اندازہ ہوا تو سیدھی ہو کر بیٹھی تھی اور سامنے بیسٹ کو دیکھا تھا جو اس کو  دیکھ کم اور گھور زیادہ رہا تھا۔۔۔  

وہ میں آتی ہوں۔۔ گل فوراً اپنی جگہ سے اٹھی تھی۔۔۔ اور باہر جانے لگی تھی۔۔ جب بیسٹ نے اس کی پہنی ہوئی ہوڈی کی کیپ میں اپنے ایک انگلی ڈالی تھی اور اس کو روکا تھا۔۔۔۔

آپ آتی نہیں ۔۔۔۔ آپ سیدھا ادھر جا رہی ہیں ۔۔۔ اور  اگر آج تمہارا نشانہ خطا ہوا تو پھر میرا نشانہ تم ہو گی۔۔ سمجھ آ گئی۔۔۔ بیسٹ نے اس کو سخت نظروں سے دیکھا تھا۔۔۔ جبکہ وہ بچاری منمنا بھی نہ سکی اور الٹے قدیم  موڑی تھی۔۔۔۔

گل نے گن لوڈ کی اور نشانہ باندھنے لگی تھی ۔۔ جبکہ جزا اپنے لیپ ٹاپ سے ساتھ پڑا کمپیوٹر ہیک کرنے کی کوشش میں تھی۔۔۔ اور بیسٹ ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر بیٹھا تھا۔۔ اور دونوں پر ایک عقابی نگاہ ڈالی تھی۔۔۔۔

اچانک بیسمنٹ میں گولی چلنے کی آواز آئی تھی۔۔۔۔ گل کا پہلا نشانہ کچھ دور رکھے ایک آرٹیفیشل باڈی پر بنے سرخ نشان پر لگا تھا جو کے اس کے سر پر تھا۔۔۔ اگلی گولی اس کی دل کے مقام پر لگی تھی۔۔ اور تیسری گولی سینے کے بالکل درمیان میں تھی۔۔۔ شاید آج قسمیت  گل پر مہربان تھی یا وہ واقع پی ماہر ہو گئی تھی جو آج اس کے تینوں نشانے صحیح جگہ لگے تھے۔۔ گل فوراً موڑی اور داد طلب نظروں سے بیسٹ کی طرف دیکھا تھا۔۔۔۔

یقین کرنا مشکل ہے گل بلآخر دو سال بعد تم نشانہ لگانا سیکھ ہی گئی۔۔۔۔۔ بیسٹ اس کے نشانے کو دیکھتا بولا تھا۔۔

کیا میں اب جا سکتی ہوں؟؟ گل نے دونوں ہاتھ جوڑ لیے تھے۔۔۔۔

ہاں جاؤ ۔۔۔ بیسٹ نے اس کو جانے کا اشارہ کیا تھا جب گل نے جزا کی طرف دیکھا تھا۔۔۔

گل جاو۔۔۔۔ وہ نہیں جا رہی۔۔۔  بیسٹ کی رعب دار آواز بیسنٹ  میں جیسے ہی گونجی گل وہاں سے نو دو گیارہ ہوئی تھی۔۔۔۔

ہو گیا ہیک ؟ بیسٹ نے گھڑی کی طرف دیکھا تھا۔۔۔۔

نہیں ہو رہا ۔۔۔۔جزا رو دینے کو تھی۔۔۔

پانچ منٹ اوپر ہو گئے ہیں ۔۔۔۔ بیسٹ اپنی جگہ سے اوٹھا تھا اور چلتا ہوا اس کے پاس آیا تھا۔۔۔۔ اس کی بات سن کر جزا کا کی بورڈ پر چلتا ہاتھ روکا تھا۔۔۔۔۔  اس نے تھوک نگلی تھی۔۔۔ اور نظریں اٹھا کر اس کو دیکھا تھا۔۔۔۔  جو اپنی پر آسرار سبز آنکھوں سے اس کو دیکھ رہا تھا۔۔۔۔

جزا شاید الف۔۔۔ آج ایک ہفتہ ہو گیا ہے۔۔۔ مظلب ہمارے پاس صرف تین ہفتے پڑے ہیں ۔۔۔ اگر تم اس طرح کرتی رہی تو اپنے بوڑھاپے میں انتقام لے لو گی۔۔۔ بیسٹ اس کو سخت نظروں سے دیکھتا بولا تھا۔۔۔

میں اپنی ہر ممکن کوشش کر رہی ہوں بٹ اس کمپیوٹر کی سیکورٹی بہت ٹائیٹ ہے ہیک کرنا مشکل ہے۔۔۔  جزا  نے ایک نظر اٹھا کر اس کی آنکھوں میں دیکھا تھا۔۔۔۔

اچھا۔۔۔۔ بیسٹ نے ایک آئی برو اٹھائی تھی ۔۔

ہاں۔۔۔ جزا بس اتنا ہی بول پائی۔۔۔

اٹھو میرے ساتھ آؤ ۔۔۔ بیسٹ یہ کہہ کر موڑا تھا۔۔۔  تھوڑا سا آگے گیا تھا جہاں فائٹنگ ٹریننگ ایریا تھا۔۔۔ ادھر جا کر روک گیا تھا ۔ جزا اس کے پیچھے آ کر روکی تھی۔۔۔۔ بیسٹ کی پشت اس کی طرف ہی تھی ۔۔۔

اٹیک ۔۔۔۔ بیسٹ کی آواز بیسمنٹ میں گونجی تھی۔۔۔۔

جزا نے ایک قدم پیچھے لیا تھا ۔ اور ہھر اگلے ہی لمحے اس نے بیسٹ کو کی گردن پر وار کرنا  چاہا تھا۔۔ جب فوراً وہ موڑا تھا اور اس نے جزا کے سیدھے ہاتھ کو ادھر ہی روک لیا تھا۔۔۔ سبز آنکھوں سے شہد رنگ آنکھیں ملی تھی۔۔۔۔ جزا نے دوسری ہاتھ سے مکا بنا کر اس کے پیٹ کی طرف کیا تھا بیسٹ نے جلدی سے اس کا دوسرا ہاتھ بھی قابو کیا تھا۔۔۔ جزا نے ایک نظر اٹھا کر اس کو دیکھا تھا۔۔۔۔ اور آگلے ہی لمحے وہ پھورتی سے موڑی تھی۔۔۔ اب اس کی کمر بیسٹ کی طرف تھی اور دونوں بازوں  بیسٹ کی پکڑ میں وہ اب ٹانگوں سے بیسٹ پر وار کرنا چاہتی تھی۔۔۔ بیسٹ اس کے ارادے بھانپ چکا تھا ۔۔ تبھی اس نے فوراً اپنے پاوں کو اس کے پاؤں میں پھنسایا تھا ۔۔ اور اس کا روخ موڑا تھا۔۔۔ اس فورا وار پر وہ سنبھل نہ سکی اور جیسے ہی موڑی بیسٹ کے سینے سے جا گلی تھی۔۔۔ اس کا سر چکڑا کر رہ گیا تھا۔۔۔۔

میں تمہیں سزا نہیں دینا چاہتا جزا کیوں مجبور کر رہی ہو۔۔۔ بیسٹ کی آواز جزا کو اپنے بہت قریب محسوس ہوئی تھی۔۔۔۔اس نے نظر اٹھا کر اس کو دیکھا تھا۔۔۔

بیسٹ ۔۔۔ جزا نے کچھ بولنا چاہا تھا۔۔۔ جب بیسٹ نے اس کو اپنے پکڑ  سے آزاد کیا تھا۔۔۔۔

اپنی سزا کے لیے تیار رہو جزا۔۔۔۔ بیسٹ یہ کہہ کر ایک قدم پیچھے ہوا تھا ۔۔۔۔۔

کیسی سزا۔۔۔۔ جزا نے اس کو دیکھا تھا۔۔۔۔

اپنی ہوڈی اتارو ۔۔۔۔بیسٹ ہموار لہجے میں بولا تھا۔۔۔۔

کیا۔۔۔۔۔ جزا نے سخت نظروں سے اس کو دیکھا تھا۔۔۔۔

میں نے بولا اپنی ہوڈی اتارو ۔۔۔ بیسٹ کی گرجدار آواز بیسمنٹ میں گونجی تھی ۔

 جزا نے فوراً اپنی ہوڈی کی زیپ کھولی اور اس کو سائڈ پر پھینکا تھا۔۔۔ بیسمنٹ میں ہیٹر اون تھا جس کی وجہ سے اس نے اپنی پتلی سویٹ شرٹ پر صرف ہوڈی پہن رکھی تھی۔۔۔۔

بیسٹ نے اس کو بازو سے پکڑا تھا اور بیسمنٹ سے باہر نکلا تھا ۔۔ اس کو ایسے ہی بازو سے پکڑے وہ  باہر بڑے اور  وسیع لاؤن میں آ گیا تھا۔۔۔۔ دسمبر کی سرد رات تھی ۔۔۔۔  ٹھنڈی ہوا جزا کو اپنے جسم سے آر پار ہوتی محسوس ہوئی تھی۔۔۔۔ 

جوتے اتارو اپنے۔۔۔ بیسٹ نے اگلا حکم صادر کیا تھا۔۔۔ جزا نے ایک نظر اٹھا کر اس کو دیکھا تھا۔۔ جو اس وقت بے رحم بنا کھڑا تھا۔ وہ اہنے جوتے اتار چکی تھی۔۔۔ گرم پاؤں جیسے ہی ٹھنڈی زمین پر پڑے وہ ایک بار کانپ گئی تھی۔۔۔۔ بیسٹ نے اس کے وجود کی لرزش اپنے ہاتھوں پر محسوس کی تھی۔۔۔۔ مگر اپنے دل کو نظر انداز کیے اس نے جزا  کے بازو پر اپنی گرفت مضبوط کہ تھی۔۔۔۔

امید کرتا ہوں آج کا سبق یاد رکھو گی۔۔۔ یہ کہہ کر بیسٹ نے اس کو لاؤن کی طرف دھکیلا تھا۔۔۔ جزا اس ستم گر کو دیکھ رہی تھی جو اس سرد رات میں اس کو بغیر جوتوں اور جرسی کے کھولے لاؤن میں کھڑا کر چکا تھا۔۔ جہاں چاروں طرف سے ٹھنڈی ہوا جسم کے آر پار ہو رہی  تھی۔۔۔۔۔

ایک نظر اس پر ڈالے اس کے جوتے اٹھائے وہ واپس اندر چلا گیا تھا اور دروازہ لوک کر چکا تھا۔۔۔۔۔جب اس کی نظر گل پر گئی تھی ۔۔۔

بیسٹ وہ بیمار ہو جائے گی ۔۔۔ گل فکر مندی سے بولی تھی ۔۔

بخار چڑے گا مر نہیں جائے گی۔۔۔ بیسٹ کرخت لہجے میں بولا تھا۔۔۔

بیسٹ ۔۔۔۔ گل تڑپ اٹھی تھی۔۔۔۔

میں اپنے اصولوں کا پکا ہوں گل اور تم یہ بات جانتی ہوں۔۔۔ میں اس کو مضبوط دیکھنا چاہتا ہوں ۔۔۔ اس کے لیے مجھے اس کو دکھتے انگاروں پر بھی چلانا پڑا چلاؤں گا۔۔۔ میں دوسرے مافیا لیڈرز یا افسانوی کہانیوں میں بنائے گے مافیا کی طرح نہیں ہوں جن کی بیویاں ان کی کمزوری ہیں اور دشمن ان کو ان کہ بیویوں کی وجہ سے بلیک میل کریں ۔۔۔ میں اپنی بیوی کو کبھی اپنی کمزروی نہیں بنے دوں گا۔۔ یہ میرا وہ ہتھیار ہے جو مصیبت میں مجھے بچائے ۔۔۔  مجھے اگر کبھی اس کی ضرورت ہو تو میں جانتا ہوں میری بیوی دس مردوں کے برابر ایک ہے۔۔۔ نا ڈر ہے۔۔۔  اور جس راستے پر یہ نکلی ہے وہ راستہ اس سرد رات کی ٹھنڈی ہوا سے بھی زیادہ خطرناک ہے ۔۔ بیسٹ ایک ایک لفظ چبا چبا کر بولا تھا۔۔۔ جبکہ گل بس خاموش کھڑی رہ گئی تھی۔۔۔۔ وہ بیسٹ کو دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔

میرے خیال سے بیسٹ آپ سے جوڑی کوئی عورت کبھی تمہاری کمزوری نہیں ہو گئی ۔۔۔ گل نم آنکھوں سے بولی تھی بیسٹ نے ایک نظر اس کو دیکھا تھا ۔۔۔ اور ادھر سے جانے لگا تھا جب گل کے الفاظ  نے اس کے قدم روکے تھے۔۔۔

جانتے ہو آپ سے جوڑی کوئی عورت آپ کمزروی کیوں نہیں ہو سکتی۔۔۔ کیونکہ آپ سے جوڑی کوئی عورت کمزور نہیں ۔۔ آپ نے مجھے بہن بنایا تو مجھے مردوں سے لڑلنا سیکھایا ۔۔۔۔ مجھے ہر وہ ہنر دیا کہ میں دس آدمیوں کو اکیلی تھکانے لگا دوں۔۔۔ وہ اب آپ  کی بیوی ہے وہ زخمی شیرنی ہے۔۔ اور آپ دس کی بات کرتے ہو وہ اکیلی  ساری گینگ گرا دے  مجھے وہ آپ فیملی ورین لگتی ہے۔۔۔۔اور مستقبل میں اگر آپ کی بیٹی ہوئی تو میں جانتی ہوں وہ لیڈی بیسٹ ہو گی۔۔۔ گل اس کو دیکھتے ہوئے بولی تھی۔۔ جب بیسٹ نے گردن موڑ کر اس کو دیکھا تھا۔۔ اور ماسک کے پیچھے چھپے ہونٹ مسکرائے تھے۔۔۔

اپنے کمرے میں جاؤ گل۔۔۔ کافی رات ہو گئی ہے۔۔۔ بیسٹ نے اگے بڑھ کر اس کے سر پر شفقت سے ہاتھ رکھا تھا ۔۔ جبکہ اس کے کہتے ہی گل اپنے کمرے کی طرف بڑھی تھی۔۔۔۔

بیسٹ نے ایک نظر اس گلاس ڈوڑ پر ڈالی تھی جس کی دوسری طرف جزا تھی ۔۔۔ جو پیٹھ کیے کھڑی تھی اور کانپ رہی تھی۔۔۔  گلاس ڈوڑ سے وہ  آسانی سے اس کو دیکھ سکتا تھا۔۔۔ مگر باہر کھڑی جزا اندر کا کوئی منظر نہیں دیکھ  سکتی تھی۔۔ وہ اپنے کمرے کی جانب بڑھا تھا۔۔۔ لمبے لمبے قدم اٹھاتا وہ اپنے کمرے کے دروازے کے سامنے کھڑا تھا۔۔۔۔

اس نے اپنی جیکٹ اتار کر بیڈ پر پھینکی تھی۔۔۔ ہیٹر اوف کیا تھا۔۔۔ اور فوراً اے - سی اون کر دیا تھا۔۔۔۔ کمرے کی کھڑکیاں وہ کھول چکا تھا جہاں سے ٹھنڈی ہوا کمرے میں آ رہی تھی۔۔۔ اس نے فوراً اپنے شرٹ کے بٹن کھولے تھے اور اپنی شرٹ اتار کر دور پھینکی تھی۔۔۔۔ اس کی بازو کی نسیں پھولی ہوئی تھی۔۔۔ ہیٹر سے گرم ہوا کمرا چند لمحوں میں ٹھنڈا ہو گیا تھا۔۔۔۔ وہ بیڈ پر بیٹھا اپنے بالوں پر ہاتھ پھیر رہا تھا۔۔۔۔ آگلے ہی لمحے اس نے اپنے شوز بھی اتار دیے تھے۔۔۔۔ فوراً بیڈ سے اٹھا اور کھڑکی کے پاس گیا تھا۔۔۔ جہاں سے وہ جزا کو باآسانی دیکھ سکتا تھا۔۔۔ وہ ٹھنڈ میں لاؤن میں ابھی تک کھڑی تھی ۔۔ تیکھی مغرور ناک سرخ ہو گئی تھی۔۔۔ بیسٹ کے دل کو کچھ ہوا تھا۔۔ اپنے دل کو لعنت ملامت کرتا وہ واش روم کی طرف بڑھا تھا۔۔۔

اور کبھ دیر میں بیسٹ دسمبر کی اس ٹھنڈی رات میں اپنے روم کے واش روم میں ٹھنڈے پانی کے نیچھے کھڑا تھا۔۔۔۔۔۔

اس کو ایسے ہی شاور کے نیچھے کھڑے پانچ گھنٹے ہو چکے تھے۔۔ اس کی ناک اور اس کے ہاتھ مکمل طور پر  سرخ پو گئے تھے۔۔۔۔ ایک لمحے کو اس کو جزا کا خیال آیا تھا۔۔ فوراً واش روم سے باہر نکلا اور کھڑکی کے سامنے کھڑا ہوا تھا۔۔۔۔ اس نے جیسے ہی باہر دیکھا وہ لاؤن میں بے ہوش پڑی تھی ۔۔۔ بیسٹ نے فوراً اپنے کمرے کے دروازے کی طرف روخ کیا تھا ۔۔ وہ ایسے ہی باہر بھاگا تھا ۔۔ گیلی پنٹ بغیر شرٹ کے۔۔ اور چند منٹوں میں وہ جزا کے پاس تھا۔۔۔

جزا۔۔۔۔ وہ اس کا سر اپنے گود میں رکھے بولا تھا۔۔۔

جزا کے ہونٹ سردی کی وجہ سے نیلے ہو گئے تھے۔۔۔ بیسٹ نے اس کو فوراً اپنی باہوں میں بھرا تھا۔۔ اور اس کو اوپر اپنے کمرے میں لے گیا تھا۔۔ فوراً اس کو بیڈ پر ڈالا اور اس پر کمبل دیا تھا۔۔ جلدی سے سب کھڑکیاں بند کی اور اے-سی اوف کر کے ہیٹر اون کیا تھا۔۔ اور پھر الماری کی طرف گیا تھا جہاں سے مزید تین کمبل نکال کر باہر لایا تھا۔ اور ساتھ اس کے ہاتھ میں ایک گرم جرسی بھی تھی۔۔ فوراً اپنے جرسی جزا کا پہنا کر اس کے اوپر باقی کے تین کمبل بھی  دے چکا تھا۔۔ اب اس کے پاس بیٹھا اس کے ہاتھ رگڑ رہا تھا۔۔ اس کے چہرے پر تھوڑا  پانی بھی پھینکا تھا مگر وہ ہوش میں نہ آئی تھی ۔۔ اس سب میں وہ یہ تک بھول گیا تھا۔۔ کہ اس نے نہ جوتی پہنی ہے نہ شرٹ اور جو پینٹ پہنی ہے وہ گلی ہے۔۔۔ وہ خود بھی بیمار پر سکتا تھا۔۔۔

جزا کا باڈی ٹمپریچر نارمل نہیں ہو رہا تگا۔۔۔ کمرا بھی گرم ہو گیا تھا۔۔۔ بیسٹ فوراً اٹھا اور ڈریسنگ روم کی طرف گیا تھا۔۔۔ اپنے کپڑے چینج کر کے وہ واپس آ کر جزا کے پاس بیٹھا تھا۔۔۔ اس نے اس کے ماتھے پر ہاتھ رکھا تھا جو اس وقت ٹھنڈا تھا۔۔۔ اس کو بے اختیار خود پر غصہ آیا تھا۔۔۔ مگر اب کیا کر سکتا تھا۔۔۔ ساری رات  وہ اس کے پاس بیٹھا رہا تھا۔۔۔ اس کا ہاتھ پکڑ کر کبھی ایک ہاتھ اس کا پکڑ کر اپنے ہاتھ کی حرارت سے گرم کرتا تھا تو کبھی دوسرا۔۔۔ مگر کوئی فرق نہ پڑا تھا ۔۔ وہ اس وقت جزا کے پاس لیٹ بھی نہیں سکتا تھا کیونکہ وہ اپنی بات کا پکا تھا ۔۔ اس وجہ سے اٹھا تھا  اور کچھ ہیٹنگ پیڈ لے کر واپس آیا تھا اور جزا کے سر پر پاؤں کر پاس ہاتھوں کے نیچھے اور اس کے سینے پر رکھ چکا تھا ۔۔

••••••••••••••••

اگلے دن  گل جزا کو دیکھنے لاؤن کی طرف گئی تھی اس کو ادھر نہ پا کر وہ فکر مندی سے بیسٹ کو بتانے کے لیے اس کے کمرے کی طرف بھاگی تھی۔۔۔ جب بیسٹ اپنے کمرے سے نکال تھا۔۔۔ گل کو سامنے دیکھ کر ایک بار حیران ہوا تھا۔۔۔

وہ جزا باہر ۔۔۔ گل کے الفاظ ابھی مکمل نہ ہوئے تھے کہ بیسٹ بولا تھا۔

وہ میرے کمرے میں ہے۔۔ بخار میں ہے وہ۔۔۔ بیسٹ ہموار لہجے میں بولا تھا۔۔۔

میری بھابھی بیمار کر دی۔۔ مل گیا سکون ۔۔۔ گل نے بیسٹ  غصے سے دیکھا  تھا جب اس کی نظر اس کی سرخ ہوتی سبز آنکھوں پر گئی تھی ۔۔۔ بے اختیار گل نے اس کے ماتھے پر ہاتھ رکھا تھا۔۔۔

یا اللہ بیسٹ آپ کو بھی بخار ہے۔۔۔ گل پریشانی سے بولی تھی ۔۔۔

تم جا کر اس کو دیکھو میں ناشتہ بھیجواتا ہوں۔۔۔ بیسٹ یہ کہہ کر آگے جانے لگا تھا۔۔۔

کیا ضرورت تھی اس کو سزا دینے کی جس کو تکلیف میں دیکھ نہیں سکتے۔۔ گل یہ کہہ کر کمرے میں چلی گئی تھی ۔۔۔

کبھی کبھی سزا دینا ضروری ہو جاتا ہے گل۔۔ کم تکلیف بڑی تکلیف سے بہتر ہوتی ہے۔۔۔ بیسٹ مدہم آواز میں بولا تھا۔۔۔ اور سیڑھیوں کی طرف بڑھا تھا۔۔۔۔

••••••••••••••

اس نے آنکھیں کھولی تھی تو سامنے گل بیٹھی تھی۔۔۔ جو فکر مندی سے اس کو دیکھ رہی تھی۔۔۔

میں زندہ ہوں۔۔۔جزا بامشکل بولی تھی۔۔۔

اللّٰہ نہ کرے آپ کو کچھ ہو ۔۔گل اس کو فکر مندی سے دیکھتے بولی تھی۔۔۔

مجھے لگا تھا وہ ٹھنڈ میری جان لے لے گی۔۔۔ جزا مسکرا کر بولی تھی ۔۔

آپ اچھا اچھا نہیں بول سکتی ۔۔۔ گل منہ پھلا کر بولی تھی۔۔۔

آپ مجھے تم نہیں کہہ سکتی ۔۔ میں کوئی بڑی اماں تھوڑی ہوں۔۔ جزا بخار میں بامشکل بولی تھی۔۔ وہ خود پر بخار کو ہاوی نہیں ہونے دینا چاہتی تھی۔۔۔ گل کچھ بولنے لگی تھی ۔۔ جب دروازہ نوک ہوا تھا۔۔۔ اور ایک ملازمہ کھانے کی ٹرے اور کچھ میڈیسن ٹیبل پر رکھ کر چلی گئی تھی۔۔۔جبکہ جزا کمرے کو دیکھ رہی تھی ۔۔۔

یہ کمرا۔۔۔ جزا کچھ بولنے لگی تھی ۔۔

بیسٹ کا ہے۔۔ وہ ہی آپ کو اٹھا کر لیا تھا۔۔۔۔ گل ٹرے اس کے سامنے کرتی بولی تھی۔۔۔۔

واقع ہی بیسٹ ہے وہ۔۔۔ جزا غصے سے بولی تھی اس کو کل رات والی سزا پھر سے یاد آئی تھی۔۔۔  

چلیں کچھ کھا کر پہلے میڈیسن لے لیں پھر مل کر بیسٹ کے گیلے شکوے کریں گی ۔ گل آنکھ ونک کر کے بولی تھی جب جزا مسکرا اٹھی تھی۔۔

ناشتہ کر کے وہ دوائی لے چکی تھی۔۔ بخار کا اثر تھا جس کی وجہ سے سارا جسم درد کر رہا تھا۔۔ وہ اپنے کمرے میں جانے کا ارادہ ترک کرتے بیسٹ کے کمرے میں ہی لیٹ گئی تھی۔۔

وہ اپنے کمرے میں آیا تھا ۔۔۔۔اس کو لگا کے وہ اپنے کمرے میں جا چکی ہو گی مگر وہ اس کے کمرے میں ہی سو رہی تھی۔۔۔۔  وہ قدم قدم چلتا اس کے پاس آ کر بیٹھا تھا۔۔۔ وہ سوتے ہوئے بہت معصوم لگ رہی تھی۔۔۔۔ بیسٹ نے ہاتھ بڑھا کر اس کے چہرے پر آئی آزاد لیٹوں کو پیچھے کیا تھا۔۔۔  جزا اپنے چہرے پر کیسی کی گہری نظریں محسوس کر چکی تھی اس کی نیند ٹوٹ چکی تھی۔۔ مگر اپنی آنکھوں کو بند کیے لیٹی رہی تھی ۔۔ کیونکہ اس نے بیسٹ کی انگلی کو اپنے چہرے پر محسوس کیا تھا جو اس کے چہرے پر آئی آزاد لیٹوں کو پیچھے کر رہا تھا۔۔۔ وہ ابھی اٹھ کر کچھ بولتے جب بیسٹ کی آواز اس کی سماعت سے ٹکرائی تھی۔۔۔

میں جانتا ہوں تمہاری نیند خراب ہو گئی ہے۔۔۔ بیسٹ ہموار لہجے میں بولا تھا اور جزا نے جھٹ سے آنکھیں کھولی تھی ۔۔۔  ابھی اس نے کچھ بولنے کے لیے لب کھولے ہی تھے کے بیسٹ نے اس کے ہونٹوں پر اپنی انگلی رکھ دی تھی۔۔۔

تم آرام کرو ایک دو دن ۔۔۔ اور اگر فلحال میرے کمرے میں سونا چاہتی ہو تو سو سکتی کو میں بس اپنی ایک فائل لینے آیا تھا۔۔ سوری تمہاری نیند خراب کر دی۔۔۔ تم آرام کرو۔۔۔بیسٹ یہ کہہ کر اس کے پاس سے اٹھا تھا۔۔۔ جزا بس اس کو دیکھ رہی تھی۔۔۔ جو اس کی چھوٹی چھوٹی حرکت سے بھی باخبر تھا۔۔ اور ایک وہ تھی جو اس کے اصل سے بلکل انجان تھی ۔۔۔۔۔

وہ اس کو دروازے کی طرف دیکھ رہی تھی جہاں سے وہ آیا تھا اور اب واپس چلا گیا تھا۔۔۔۔وہ بہت عجیب تھا۔۔۔ جزا کو کبھی بھی اس کی موجودگی اپنے آس پاس بری نہ لگی تھی۔۔۔ وہ اپنی سوچوں میں ہی گم تھی جب اس کی آنکھیں پھر سے لگ گئی تھی۔۔۔۔

•••••••••••••

کیسے ہیں آپ ۔۔۔ زیک آج کافی عرصے بعد دبئی واپس آیا تھا ۔۔

کہاں تھے تم؟؟ بلیک ڈیول جو اس وقت اپنے اوفس میں بیٹھے تھے اس کو اپنے سامنے دیکھ کر  سخت تیوری چڑھا کر بولے تھے۔۔۔

مصروفیات میں مصروف ۔۔۔ زیک ان کے سامنے رکھی کرسیوں میں سےا یک کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا تھا۔۔۔

اور کیا ہیں تمہاری یہ مصروفیات ۔۔۔ بلیک ڈیول نے ہاتھ میں پکڑا پن لبوں کے ساتھ لگایا تھا۔۔۔

کچھ خاص ۔۔۔۔ زیک پرسکون سا بولا تھا ۔۔۔

یہ تمہاری کون سی خاص مصروفیات ہیں جن کی بھینک تم مجھے نہیں لگنے دے رہے۔۔۔ بلیک ڈیول اپنے سامنے بیٹھے اس مغرور عربی شہزادے کو دیکھ رہے تھے جس کی پراسرار شخصیت کیسی کو بھی اپنی طرف مائل کروا سکتی تھی۔۔

وقت آنے پر بتا دوں گا۔۔۔ آپ بس اس بار حدید کو مت کھینچے بیچ میں۔۔ زیک نے اپنے باپ کی طرف دیکھا تھا جو اس کو پہلے کی سخت نظروں سے گھور رہے تھے۔۔۔

زیک اب بس یہ کثر رہ گئی ہے کہ میں تمہیں اور امیل کو لیدر کی بیلٹ سے ماروں کیونکہ تم دونوں ہاتھ سے نکلے پڑے ہو۔۔۔ بلیک ڈیول غصے میں بولے تھے جبکہ زیک نے اپنی ہنسی کا گلا گھونٹا تھا۔۔۔

ویسے میں تو کافی سالوں سے آپ کے ہاتھ سے نکل گیا ہوں۔۔ مگر آپ کو خیال دیر سے آیا ہے۔۔۔ زیک اپنی جگہ سے اٹھا تھا۔۔۔

میں تمہاری ہڈیاں توڑ دوں گا زیک انسان بن جاو ۔۔ بلیک ڈیول دانت پیس کر بولے تھے۔۔۔

درندوں کی دنیا کا بے تاج بادشاہ ہوں۔۔ انسان بنا مشکل ہے میرا۔۔۔ زیک یہ کہہ کر دروازے کی طرف بڑھا تھا۔۔ جب بلیک ڈیول کی آواز اس کی سماعت سے ٹکرائی تھی ۔۔

اب کدھر جا رہے ہو تم درندوں کے بےتاج بادشاہ ۔۔۔ بلیک ڈیول جل کر بولے تھے ۔۔۔

جہاں سے آیا تھا آج ۔ ادھر بس آپ کو یہ بتانے آیا تھا کہ زندہ ہوں میں ابھی مرا نہیں ہوں ۔ آپ فکر مت کریں ۔۔۔ زیک یہ کہہ کر واپس چلا گیا تھا۔۔ جبکہ بلیک ڈیول بس اس کو غصے سے جاتا دیکھ رہے تھے۔۔۔

جس کے نام سے انڈر ورلڈ ڈرتا تھا۔۔۔ اس کے اپنے بیٹے پر غصے کا کوئی اثر ہی نہیں ہوتا تھا۔۔۔۔

••••••••••••••

نائٹ کلب میں شراب و شباب کی محفل عروج پر تھی۔۔۔ شہزاد اور نواز ایک کونے میں بیٹھے ڈرنک کر رہے تھے۔۔۔ ساتھ ہی سامنے ناچتی دوشیزاؤں کا رقص دیکھ رہے تھے۔۔۔۔ شہزاد کافی حد تک خود کو سنبھال چکا تھا اس وقت میں ۔۔۔ اس کو یقین ہونے لگا تھا وہ وقع ہی مر گئی ہے۔۔۔۔  جب نوریز بھی ان کے پاس آ کر بیٹھا تھا۔۔

تم دونوں ادھر ہو کب سے فون کر رہے تھے اکرم انکل اور ڈیڈ تم دونوں کو ۔۔۔ بار میں موزیک کے شور کی وجہ سے نوریز تھوڑا بلند آواز میں بولا تھا تاکہ ان کو سمجھ آ جائے۔۔

کیوں کیا ہوا ہے؟؟؟ شہزاد نے اس کی طرف دیکھ کر پوچھا تھا۔۔۔

مال کا کیا بنا جو آڈر دیا ہوا تھا۔۔۔۔  نوریز بے زار سا بولا تھا۔۔۔

وہ لیٹ ہو گیا ہے۔۔۔ نواز لاپرواہی سے بولا تھا۔۔۔

مگر کیوں کس وجہ سے ؟؟؟ نوریز چونک کر بولا تھا ۔۔۔۔

کیونکہ موسم  عائدہ کچھ دنوں میں کافی خراب ہے اور  اس وجہ سے شیپس پہنچ نہیں پائیں گی۔۔ اس وجہ سے سامان ڈیلے ہو گیا ہے۔۔ شہزاد وائن گلاس منہ سے  لگا چکا تھا ۔۔

ہممم اور تمہاری جو کزن تم نے کڈنیپ کی تھی ملی کہ نہیں ؟؟ نوریز شہزاد کو دیکھتا بولا تھا۔۔۔

مر گئی۔۔۔ شہزاد نے سرد آہ بھری تھی۔۔۔۔

کیا؟ کیا مطلب ۔۔ نوریز سیدھا ہو کر بیٹھا تھا ۔۔۔

مطلب یہ وہ مر گی ہے۔۔ بات ختم ٹوپک کلوز ۔۔۔ اب کی بار شہزاد کی بجائے نوریز بولا تھا ۔ جبکہ شہزاد وائن ختم کر کے اٹھ گیا تھا۔۔ اور کلب سے باہر کی طرف بڑھا تھا۔۔۔

اس کو کیا ہوا۔۔۔  نوریز نے نواز کی طرف دیکھا تھا جو اس کو کھا جانے کو تھا۔۔۔۔۔

تو بس اپنی زبان بند نہ کرنا  ۔۔ نواز اس کو غصے سے دیکھتا اٹھ کر شہزاد کے پیچھے گیا تھا۔۔۔  اور نوریز بھی اس کے پیچھے اٹھا تھا۔۔۔

••••••••••••••

وقت اتنی تیزی سے گزرا تھا ۔۔ پتا ہی نہ چلا تھا۔۔۔ ایک ماہ مکمل ہونے والا تھا۔۔۔ جبکہ بیسٹ جزا کی ٹریننگ مکمل کر چکا تھا۔۔۔ابھی بھی وہ بیسمنٹ میں بنے ٹریننگ سیکشن میں تھے۔۔۔۔

دو تلواروں کی ایک دوسرے کے ساتھ ٹکرانے کی آواز آئی تھی ۔۔۔ ایک تلوار جزا کے ہاتھ میں تھی اور ایک بیسٹ کے۔۔۔ اور وہ دونوں ایک دوسرے کے سامنے کھڑے تھے۔۔۔ جبکہ ان دونوں کی تلواریں مل کر ایکس کی شکل بنا رہی تھی۔۔۔ جزا نے فوراً سے ٹانگ مار کر بیسٹ کو پیچھے دھکیلا تھا۔۔۔  اور اگلا وار اس کا شاید آخری وار تھا۔۔۔۔

جزا اپنے دونوں ہاتھوں میں دو دھاری تلواریں پکڑے آگے کی طرف بڑھی تھی۔۔۔ اس کی آنکھوں میں ایک الگ قہر تھا۔۔۔ اس نے ایک ساتھ اپنی دونوں تلواروں کو فضا میں بلند کیا تھا۔۔ بیسٹ نے بھی اپنے ہاتھوں میں پکڑی تلواریں اٹھائی تھی ۔۔  مگرا اس سے پہلے بیسٹ کوئی وار کرتا ۔۔ جزا نے فوراً اس کی طرف تلواریں بڑھائی تھی۔۔۔ اس نے تلواریں اتنی مہارت سے گھومائی تھی کہ بیسٹ کے ہاتھوں سے دونوں تلواروں چھوٹ کر زمین پر گری تھی۔۔۔ جزا نے اس کے فوراً بعد تلواروں کا روخ بیسٹ کی گردن کی طرف کیا تھا اور دونوں تلواریں ایسی پوزیشن پر روکی تھی کہ بیسٹ ذرہ بھی گردن ہلاتا تو اس کی گردن کٹ جاتی۔۔۔۔

مان گے۔۔۔جزا نے ایک آئی برو اٹھا کر بیسٹ کی طرف دیکھا تھا۔۔۔

ان کو اب ہٹا لو یا اپنے ہاتھوں بیوہ ہو کر ہٹاؤ گی۔۔۔ بیسٹ نے ایک نظر ان دونوں تلواروں پر ڈالی تھی اور ایک نظر جزا پر ڈالی تھی۔۔۔ اس کی بات سن کر جزا نے اس کو سخت نظروں سے دیکھا تھا۔۔۔

اتنی جلدی نہیں مسٹر بیسٹ ۔۔ جس دن تمہاری اصلیت سامنے آئے گی اس دن فیصلہ کرو گی۔۔  جزا تلواریں ہاٹا کر بول تھی۔۔۔اس نے ابھی تلواریں ایک طرف رکھی ہی تھی ۔ کہ بیسٹ اس کو گردن سے پکڑنے کے لیا لپکا تھا۔۔۔ ابھی وہ اس کی گردن پر ہاتھ ڈالتے ۔۔۔ جزا فوراً جھکی تھی ۔۔ اور بیسٹ کی ٹانگوں میں اپنے ٹانگ الجھا چکی تھی۔۔ جس سے وہ زمین پر گرا تھا۔۔۔

خود کو فوراً سنھبلاتا اثھ کر کھڑا ہوا تھا ۔۔ جبکہ جزا پہلے ہی وار کے کیے تیار  کھڑی تھی۔۔۔۔ بیسٹ نے ہاتھ کا مکا بنا کر جزا کو مارنا چاہا تھا ۔ جزا بہت مہارت سے اس کو مکا روک چکی تھی اور ساتھ ہی ایک زور کا مکا بیسٹ کے پیٹ پر مار چکی تھی۔۔۔  ابھی وہ کچھ اور کرتا جب جزا نے ایک زور کا مکا اس کے منہ پر مارا تھا۔۔۔ بیسٹ نے اس کی دونوں بازو پکڑ کر اس کو قابو کیا تھا۔۔۔ جبکہ جزا اس  کی مضبوط  گرفت میں ذرہ موڑی تھی۔۔ اس کی ٹانگ میں ٹانگ الجھا کر وہ بیسٹ کر زمین پر ایک بار پھر گرا چکی تھی ۔۔۔  اور اب کی بار وہ ساتھ خود بھی گری تھی۔۔۔۔ بیسٹ کو بغیر کوئی جوابی کاروائی کا موقع دیے ۔۔۔ جزا  نے ایک مکا دوبارہ اس کے منہ پر مارا تھا۔۔۔ بیسٹ درد سے تھوڑا بائیں جانب جھکا تھا۔۔۔۔ اس موقع کا فائدہ اٹھاتے اس نے بیسٹ کو اس کے بالوں سے پکڑا تھا۔۔ اور اپنی ٹانگ کے ساتھ بندھے چاقو کو نکال کر اس کی گردن پر رکھ چکی تھی ۔۔۔ وہ اس وقت بیسٹ کو مکمل طور پر قابو کر چکی تھی ۔۔ وہ جو آج تک اپنے کیسی دشمن کے قابو نہ آیا تھا ۔ آج اپنی بیوی کے ہاتھوں اپنے دُرگت بنوائے اس کے مکمل قابو میں تھا۔۔۔ جو اس کو اس کے بالوں سے نوچے اس کی گردن پر چاقو رکھے اور اس کی کمر اور پیٹ کے گرد اپنے ٹانگ لیپٹے اس کو زمین پر گرائے ہوئے تھی۔۔۔۔

تم جیتی میں ہار مانتا ہوں۔ بیسٹ بامشکل بولا تھا۔۔ جو کیسی سے ہار ںہ مانتا تھا آج اپنی بیوی سے ہار مان چکا تھا۔۔۔ جس کو اس نے خود ٹرین کیا تھا۔۔۔

اتنی کیا جلدی ہے۔۔۔ جزا نے یہ کہتے  چاقو ایک طرف پھینا تھا اور اس کے ماسک کی طرف ہاتھ بڑھایا تھا۔۔۔ 

بیسٹ اس کے ارادے بھانپ گیا تھا۔۔۔ بیسٹ اس کے ہاتھ میں چاقو نہ ہونے سے فائدہ اٹھا کر وہ  فوراً موڑا تھا۔۔ اور اب جزا زمین پر تھی اور بیسٹ اس کو قابو کیے ہوئے تھے۔۔۔ جب جزا نے اس کی سبز آنکھوں میں دیکھا تھا۔۔۔ آج پہلی بار نہ جانے کیوں مگر جزا کو اپنے دل کی دھڑکن پہلی بار بے ترتیب ہوتی محسوس ہوئی تھی۔۔۔۔

اتنی ہوشیاری اچھی نہیں ہوتی۔۔۔ بیسٹ اس کے کان کے پاس جھک کر بولا تھا۔۔۔ جبکہ جزا بس اس کو غصے سے دیکھتے رہ گئی تھی۔۔۔ اور اس کو  سخت نظروں سے گھور رہی تھی ۔۔

بیسٹ چھوڑو مجھے۔۔۔ جزا اس کو گھورتے بولی تھی۔۔۔

اتنے پیار سے نا گھورو ۔۔۔ بندہ نا چیز آگے ان آنکھوں کا غلام کے مکمل تباہ ہو جائے گا۔۔۔ بیسٹ اس کی شہد رنگ آنکھوں میں دیکھتا بولا تھا۔۔۔

تم میرے ساتھ فلرٹ کر رہے ہو؟؟ جزا نے اپنے دونوں ہاتھ اس کی گرفت سے آزاد کروانے چاہے تھے۔۔۔

اپنی بیوی لڑاکا بیوی سے فلرٹ کر کے مرنا ہے نہ میں نے ۔۔۔ بیسٹ نے ایک آنکھ ونک کی تھی۔۔۔ جزا اس کو سخت نظروں سے گھور رہی تھی۔۔۔

اچانک بیسمنٹ کا دروازہ کھولا تھا اور گل کے ساتھ ولف اور لیو بھی بیسمنٹ میں داخل ہوئے تھے۔۔۔ اور سامنے کا منظر دیکھ کر تینوں فوراً روخ موڑ گئے تھے۔۔۔  جب بیسٹ اور جزا کو اپنی پوزیشن  کا خیال آیا تو دونوں اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔۔۔۔

ہم لوگوں نے کچھ نہیں دیکھا ۔۔ گل کی آواز بیسمنٹ میں گونجی تھی۔۔۔ جبکہ جزا تو شرم سے لال ہو گئی تھی۔۔

تم لوگ جیسا سمجھ رہے ہو ویسا کچھ نہیں ہے۔۔۔ اور تم دونوں ادھر کیا کر رہے ہو؟؟ بیسٹ فوراً بولا تھا۔۔۔ جب اس کی نظر جزا کے سرخ ہوتے چہرے پر گئی تھی۔۔ تو بے اختیاری میں اس کی سرخ گال کھینچ چکا تھا۔۔ اور بدلے میں جزا نے اس کے پیٹ میں مکا مارا تھا اور کھا جانے والی نظروں سے دیکھا تھا۔۔۔۔ بیسٹ کی آواز پر ولف جو موڑا تھا وہ ان دونوں کی یہ حرکتیں دیکھ چکا تھا۔۔۔

کچھ کام تھا اس لیے آئے تھے۔۔۔ ولف کی آواز پر لیو اور گل بھی موڑے تھے۔۔۔

ہممم ۔۔۔ گل اور جزا تم دونوں جاؤ فلحال ۔۔۔ بیسٹ جزا کے سرخ چہرے کو  دیکھتا بولا تھا۔۔ نہ جانے کیوں اس کو جزا کا یہ شرمایہ شرمایہ روپ بہت بہہ گیا تھا۔۔۔ اس کی بات پر جزا تو بیسمنٹ سے ایسے نکلی تھی جیسے وہ بس ادھر سے نکلنے کا راستہ ڈھونڈ رہی تھی جو کہ اس کو مل بھی گیا تھا۔۔۔

•••••••••••••••

یہ کیا ہو رہا تھا۔۔ گل اس کے پیچھے اس کے کمرے میں آئی تھی۔۔۔

کچھ نہیں جو تم سمجھ رہی ہو ایسا کچھ نہیں تھا۔۔۔ جزا سرخ ہوتے چہرے سے بولی تھی۔۔۔

تو پھر آپ کو اتنی شرم کیوں آ رہی ہے۔۔۔ گل نے اس کو کہنی ماری تھی۔۔۔

می۔۔۔ میں کب شرما رہی ہوں تم تو پاگل ہو کچھ بھی بولتی ہو۔۔۔ جزا فوراً خود کو نارمل کرتے بولی تھی ۔۔ اس کو خود کو سمجھ نہیں آئی تھی کہ اچانک اس  کے دل کی دھڑکن اتنی تیز کیوں ہو گئی تھی ۔۔۔

کہاں کھو گئی اب۔۔۔۔ گل نے اس کے سامنے چٹکی بجائی تھی۔۔۔

کہیں نہیں میں کچھ وقت آرام کرنا چاہتی ہو ۔۔۔ جزا فوراً سے بستر میں لیٹی تھی اور کمبل سر تک لے لیا تھا ۔ جبکہ گل کا فلک شگاف قہقہہ کمرے میں گونجا تھا۔۔۔

گل دفع ہو جاؤ ۔۔ جزا کی بستر میں سے بلند آواز آئی تھی۔۔۔

مجھے لگتا ہے محبت انگڑائی لے چکی ہے۔۔۔ گل شرارت سے بولی تھی ۔۔۔

گل دفع ہو رہی ہو یا دھکے دے کر نکالوں ۔۔۔ جزا نے کمبل میں سے منہ نکلا تھا۔۔۔

اچھا اچھا جا رہی ہوں ۔۔ گل ہنستے ہوئے باہر نکلی تھی ۔۔

•••••••••••

وہ اپنے کمرے میں بیٹھا تھا۔۔۔ اس کے دائیں اور بائیں جانب دو خوبصورت لڑکیاں بھی موجود تھی۔۔۔ جب ایک آدمی اس کے سامنے آ کر کھڑا ہوا تھا۔۔۔۔

کیا خبر لائے ہو ۔۔۔کنگ سگریٹ کا گہرا کش بھرتا بولا تھا۔۔۔

بیسٹ کی کوئی کمزوری ہاتھ نہیں لگی۔۔۔ ایک مہینہ ہونے کو آیا ہے۔۔ بس اتںا ہی پتا چل پایا ہے کہ اس نے نکاح کیا ہے ۔۔مگر اس نے نکاح کس سے کیا ہے کون ہے وہ لڑکی کیسی دیکھتی ہے جانا مشکل ہے ۔۔ وہ آدمی جو معلومات آکھٹی کر چکا تھا کنگ کے سامنے بولا تھا۔۔۔

بیسٹ اور نکاح۔۔۔تم ہوش میں ہو۔۔کںگ کی گرجدار آواز کمرے میں گونجی تھی۔۔۔

ہوش میں ہی ہو کنگ۔۔ سنے میں یہ ہی آیا ہے کہ بیسٹ نے نکاح کیا ہے۔۔۔ مگر وہ لڑکی کون ہے۔۔ اس کا کچھ پتا نہیں چل سکا ۔۔ وہ آدمی بامشکل بول پایا تھا۔۔۔

مجھے ہر حال میں اس لڑکی کہ انفورمیشن نکال کر دو وہ کون ہے نام کیا ہے۔۔۔ کس کی بیٹی ہے سب کچھ۔۔۔ورنہ اپنی یہ منہوس شکل میرے سامنے نہ لانا۔۔۔ کنگ اپنی جگہ سے اٹھا تھا اور اس کے سامنے کھڑا ہو کر بولا تھا۔۔ اس نے اپنے ہاتھ کی انگلیوں میں دبا ہوا سگریٹ اس آدمی کے گال پر رکھا تھا۔۔۔ وہ جلین سے بلبلا اٹھا تھا۔۔

وہ آدمی کمرے سے نکلا تھا جب صارم کنگ کے کمرے میں داخل ہوا تھا۔۔ ہاتھ پر ابھی بھی پٹی تھی۔۔۔۔

ڈیڈ آپ کیوں نہیں روک جاتے۔۔۔ صارم اپنے باپ کے سامنے کھڑا بولا تھا۔۔

میں ڈرتا نہیں ہوں اس سے۔۔ کر لے جو کرنا ہے اس نے۔۔ کنگ ٹیبل پر پڑا وائن گلاس ہاتھ میں لے کر بولا تھا۔۔۔

اچھا اگر ڈرتے نہیں ہیں تو جان سے کیوں نہیں مار ڈالتے اس کو ۔۔۔ صارم چیلا کر بولا تھا۔۔۔

وقت آنے پر تڑپا تڑپا کر ماروی گا اس کو۔۔۔ کنگ کچھ سوچتا بولا تھا۔۔۔ جبکہ کنگ کی اس بات پر صارم انتہا کا بد مزہ ہوا تھا تبھی ایک چبتی نظر اس پر ڈال کر باہر نکل گیا تھا۔۔۔

•••••••••••

کس لیے آئے ہو تم لوگ ۔ بیسٹ تیوری چڑھائے ان دونوں کو دیکھ رہا تھا۔۔ جو اس کے سامنے بیٹھ رہے تھے۔۔۔

ویسے تم یہ بتاؤ اس بار ہمارا آنا تمہیں اچھا کیوں نہیں لگا۔۔۔ ولف نے اپنی ہنسی کا گلا گھونٹا تھا۔۔۔

دراصل ہماری آنے کی ٹائمنگ غلط تھا ۔۔۔  لیو آنکھ ونک کر کے بولا تھا۔۔۔

بکواس بند کر لو ایسا کچھ نہیں ہے جو تم لوگ سوچ رہے ہو۔۔۔بیسٹ ان کو غصے سے گھورتا بولا تھا ۔۔

اور وہ جو گال کھینچنا تھا وہ کیا تھا؟؟ ولف نے بیسٹ کی طرف دیکھا تھا وہ جو اپنی جگہ پر بیٹھنے لگا تھا ولف کی بات پر سیدھا ہوا تھا۔۔۔

کیا  مطلب مجھے ساری بات بتاو۔۔۔۔ لیو ولف کی طرف موڑا تھا۔۔۔

جو منہ میں آ رہا ہے بکواس کر رہا ہے۔۔۔ بیسٹ ولف کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھتا بولا تھا۔۔۔

وہ میں کہہ رہا تھا۔۔۔ ولف نے ابھی اپنا منہ کھولا ہی تھا کہ بیسٹ نے گن لوڈ کر لی تھی۔۔۔

میں کچھ بھی تو نہیں کہہ رہا تھا۔۔ ولف شرافت کا مظاہرہ کرتے اپنی جگہ پر بیٹھا تھا۔۔۔

گڈ۔۔ اور اب بتاؤ کس وجہ سے آئے ہو۔۔۔۔ بیسٹ نے اس کو سخت گھوری سے نوازا تھا ۔۔

تمہیں کچھ اہم انفورمیشن دینی تھی۔۔۔۔ دراصل کنگ اپنے تعلقات عثمان اکرم اور عمران سے بنا چکا ہے اور بہت جلد وہ پاکستان بھی جا رہا ہے۔۔۔ لیو نے بولنا شروع کیا تھا ۔۔۔

اور کچھ۔۔ بیسٹ نے ولف کی طرف دیکھا تھا۔۔۔ کنگ کا ایک دوست ہے جو اس کی غیر موجودگی میں ادھر اس کی جگہ اس کے بیٹے صارم کی مدد کر رہا تھا۔۔۔ کنگ نے اس کے لیے پاکستان سے کچھ لڑکیاں منگوائیں ہیں ۔۔۔ تحفے کے طور پر۔۔۔ ولف سامنے پڑا پیپر ویٹ  گھوماتا بولا تھا۔۔۔۔

نام کیا ہے اس کا؟؟ اور کتنی لڑکیاں ہیں ؟؟ اور  لڑکیاں بھیجنے والا کون ہے؟ بیسٹ سخت لہجے میں بولا تھا۔۔

صفدر ہاشمی ۔۔۔ لڑکیاں کوئی دس ہیں ۔۔۔ اور بھیجنے والے عثمان  اکرم اور عمران ہیں ۔۔۔لیو نے بات کو آگے شروع کیا تھا۔۔

صفدر ہاشمی ۔۔ بیسٹ نے یہ نام دوہرایا تھا۔۔۔۔

ہاں صفدر ہاشمی کنگ کا لیفٹ ہینڈ۔۔ ولف نے پیپر ویٹ ٹیبل پر رکھا تھا۔۔۔

ہممم۔۔۔ مطلب کنگ اپنی من مرضی ہی کرے گا۔۔۔۔ چلو پھر ہم بھی اس کو اپنی بغاوت کی ایک چھوٹی سی جھلک دیکھائے گے ۔۔ بیسٹ یہ کہہ کر اپنی جگہ سے اٹھا تھا۔۔۔۔

وہ لڑکیاں اٹلی کب تک پہنچیں گئی؟؟ بیسٹ کچھ  سوچتے واپس موڑا تھا ۔۔

جہاں تک مجھے لگتا ہے وہ پہنچ گئی ہیں کیونکہ ہم یہ خبر دینے میں کچھ لیٹ ہو گئے ۔ کیوں نے اپنے سامنے کھولے لیپ ٹاپ کو دیکھتے کہا تھا۔۔۔

جزا اور گل کو بیسمنٹ میں بھیجو۔۔۔  بیسٹ نے انٹر کوم اٹھا کر ایک پیغام دیا تھا اور اپنی جگہ پر بیٹھ گیا تھا۔۔۔

بیسٹ ان دونوں کا کیا کام ہے ادھر۔۔۔ولف پریشانی سے بولا تھا۔۔

شششششش۔ بیسٹ نے ولف کو خاموش رہنے کا اشارہ کیا تھا۔۔۔

اور کچھ دیر میں گل اور جزا بھی بیسمنٹ میں تھی۔۔۔  ولف ، لیو، گل اور جزا اپنی اپنی جگہ پر بیٹھے تھے جبکہ بیسٹ سربراہی کرسی پر بیٹھا تھا۔۔۔

سب سے پہلے جزا ۔۔۔ تمہیں تمہارا نام بدلنا ہو گا۔۔۔ بیسٹ جزا کو دیکھ کر بولا تھا۔۔

کیا مطلب میں کیوں اپنا نام بدلوں گی۔۔۔جزا اس کو نہ سمجھی سے دیکھتے بولی تھی۔۔۔۔

تم جس دنیا میں قدم رکھنے جا رہی ہو وہاں اپنی اصلیت بتانا مطلب دشمن کے ہاتھ میں اپنی جان دینے کے برابر ہے۔۔  اس لیے تمہیں ان لوگوں کے لیا اپنا نام بدلنا ہو گا۔۔۔  بیسٹ ا سکو دیکھتا بولا تھا۔۔۔

کون سی دنیا ۔۔۔ تم بول کیا رہے ہو۔۔۔  جزا اس کی آنکھوں میں دیکھ کر بولی تھی۔۔۔

انڈر ورلڈ ۔۔۔ مافیا ، گینگسٹر ، ایمان فروشوں ، ضعمیر فروشوں اور درندوں کی دنیا ۔۔۔بیسٹ اس کے سامنے کھڑا بولا رہا تھا۔۔۔

جبکہ جزا بس منہ کھولے اس کو دیکھ رہی تھی۔۔۔

میرا ادھر کیا کام ہے۔۔ وہ اس سے بس یہ ہی پوچھ پائی تھی۔۔۔

تمہیں تمہارا دشمن ادھر ہی میلے گا۔۔۔ بیسٹ اس کی شہد رنگ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولا تھا۔۔۔

میرا نام کیا ہو گا بیسٹ ؟؟ جزا نے اس سے سوال کیا تھا جبکہ گل ولف اور لیو کو کرنٹ لگا تھا۔۔۔ ان کو لگا تھا وہ نہ کر دے گئی ۔۔

الپائن ۔اس نام سے اعتراض تو نہیں؟؟۔۔۔۔ بیسٹ نے یک لفظی جواب دیا تھا۔۔۔۔

الپائن ہی کیوں۔۔ جزا نے اس کے منہ سے یہ نام سنتے سوال کیا تھا۔۔

کیونکہ تمہارا باپ الفا تھا۔۔۔ اور وہ واقع ہی قابلِ تعریف تھے۔۔۔ اس لیے۔۔ بیسٹ اس کو دیکھتا ہموار لہجے میں بولا تھا ۔۔

میں  الپائن بن کے دیکھاؤ گی۔۔۔ جزا آنکھوں میں قہر لیے بولی تھی۔۔ وہ جانتی تھی الپائن کا مطلب کیا ہے۔۔۔۔

اب بات سنوں میری ۔۔ جزا تم اور گل ساری سیکیورٹی ہیک کرو گے۔۔

میں اور ولف اندر جائیں گے۔۔۔ اور لیو تم لڑکیوں کو محفوظ مقام پر پہنچانے کا بندوبست کرو گے ۔۔۔

کون سی لڑکیاں بیسٹ ۔۔۔ چل کیا رہا ہے یہاں؟؟ بیسٹ کی بات سن کر جزا فوراً بولی تھی۔۔۔۔

کچھ لڑکیوں کی عزت کو بچانا ہے۔۔ بیسٹ سے پہلے ولف بولا تھا۔۔۔

مجھے مکمل بات جاننی ہے ۔۔۔ تم لوگ انڈر ورلڈ میں کیا کرتے ہو اور یہ سب کیا ہے۔۔۔۔ جزا بیسٹ کے سامنے جا کر کھڑی ہوئی تھی۔۔۔

اوکے سنوں ۔۔۔ پہلے پاکستان میں جو مافیا تھی اس کو میں لیڈ کر رہا تھا۔۔۔ اب یہ سمجھ لو وہاں دوبارہ سے وہ شخص آ گیا ہے جس کو ادھر سے ہٹایا تھا۔۔۔ وہ میرے پاس پناہ پزیر تھا۔۔۔ مگر فرار ہو کر میرے ہی خلاف کھڑا ہو گیا ہے۔۔۔ اب بغاوت کا جواب بغاوت سے ہی دیا جائے گا۔۔ اس کی ناکامی اور بربادی میرے ہاتھوں ہے اب۔۔۔۔  وہ اپنے دوست کو پاکستان سے کچھ لڑکیاں منگوا کر تحفے کے طور پر دے رہا ہے۔۔ ان لڑکیوں کو باحفاظت پاکستان پہنچانا ہے۔ میں اس کو کیسی ارادے کیسی کام میں کامیاب نہیں  ہونے دوں گا اور اب پلیز میری اصلیت کے بارے میں سوال نہ کرنا ایک لوکیشن دی ہے اس کے سکیورٹی سسٹم کو ہیک کرو۔ہم تینوں نکل رہے ہیں۔۔۔۔۔ بیسٹ  جزا کے سامنےساری بات کھول چکا تھا۔۔۔

مجھے اس پلین سے اعتراض ہے بیسٹ ۔۔ ہم پلین چینج کریں گے۔۔ جزا نے اس کا بازو پکڑ کر اس کا روخ اپنی طرف کیا تھا۔۔۔ جبکہ جزا کی بات پر پورے بیسمنٹ میں پن ڈراپ سائلنس ہو گئی تھی۔۔۔ کبھی کیسی نے بیسٹ کے کیسی پلیں کو بدلنے کا نہ کہا تھا۔۔۔ یہ جرت صرف جزا کی تھی ۔۔۔ اب یہ پلین کیسے بدلنے والا تھا یہ ولف،لیو اور گل اور بیسٹ کے گمان میں بھی نہ تھا۔۔۔ کیونکہ اب انڈر ورلڈ میں ایک الپائن آ چکی تھی ۔۔۔

••••••••••••

 جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Don’t copy without permission ❌❌❌❌

For reading full Episode must click on link below.... 

Urdunovelnests

 

 

Comments

  1. Bruh jaldi upload kiya karu bht time lgaty ho

    ReplyDelete
    Replies
    1. ok inshaAllah next episode jaldi danye ki koshish karon gi

      Delete

Post a Comment