دشتِ الفت
شازین زینب
Ep # 20
ایش گرے
آنکھوں میں آنسوں بھرے ہوئے تھے۔۔ یوں لگتا تھا جیسے وہ آنسوں ابھی بہہ جائے گے
پیلکوں کا بند ٹور کر ۔۔ ہاتھ میں پکڑی تصویر جیسے بہت سال پیچھے لے گئی تھی
ابراہیم صاحب کو۔۔
ماضی
۔۔۔۔
راہداری
میں بھاری بوٹوں کی آواز گونج رہی تھی۔۔ وہ دونوں ابھی کیسی کام سے واپس آئے تھے۔۔
دونوں نے وائٹ شرٹ کے ساتھ بلیک پینٹ پہن رکھی تھی۔۔۔ وہ لوگ ابھی اوفس میں جا کر بیٹھے ہی تھے جب سامنے
پڑا فون بجا تھا۔۔
الفا نے فون
اٹھا کر کان کے ساتھ لگایا تھا اور ایک فائل ساتھ کھول لی تھی۔۔
اسلام
وعلیکم ، میجر الفا سپیکنگ۔ انہوں نے پروفیشنل انداز میں بولا تھا۔۔
مبارک ہو
بیٹی ہوئی ہے۔۔ دوسری طرف سے بولے جانے والے الفاظ تھے یا کیا ۔ الفا اپنی جگہ سے
کھڑے ہو گئے تھے۔۔۔
عزیزہ
کیا بولا ہے ابھی تم نے ؟ الفا کو اپنی سماعت پر یقین نہ آیا تھا۔۔
بیٹی
ہوئی ہے۔۔ دوسری طرف سے عزیزہ کی آواز پھر سے گونجی تھی۔۔الفا نے فون ادھر ہی
چھوڑا تھا اور باہر کی طرف بھاگنے لگے تھے جب خان نے روکا تھا۔۔
کیا ہوا
ہے کدھر جا رہا ہے؟ خان نے ان کو روک کر پوچھا تھا۔
چل میرے
ساتھ پتا چل جائے گا۔۔ الفا یہ کہہ کر باہر کی طرف بھاگے تھے جب خان ان کے پیچھے
ہی بھاگے تھے۔۔
آدھے گھنٹے کا سفر چند منٹوں میں مکمل کر کے وہ
دونوں اس وقت ہاسپٹل کے سامنے تھے۔۔۔الفا فوراً اندر بڑھے تھے خان بھی ان کے پیچھے
ہی اندر داخل ہوئے تھے۔۔۔ واڈ نمبر پوچھنے کے بعد وہ دونوں اب اس کمرے میں موجود
تھے جہاں انعم بیگم دوائیوں کے ذریعے اکثر سو رہی تھی۔۔ جبکہ عزیزہ نے ایک چھوٹی سی
خوبصورت بچی اپنی گود میں اٹھا رکھی تھی۔۔۔
الفا نے
آگے بڑھ کر سب سے پہلے انعم بیگم کے پاس گئے تھے جو سو رہی تھی۔۔
مت چھڑنا
دوائیوں کی وجہ سے سو رہی ہیں ۔۔ عزیزہ نے الفا کو فوراً ٹوکا تھا۔۔ جبکہ خان تو
بس اس چھوٹی سی پری کو دیکھ رہے تھے جس کے سرخ گلابی پھولے ہوئے گال دیکھ کر ان کی
انگلیاں گدگدا رہی تھی۔۔
عزیزہ نے
بچی کو الفا کی طرف بڑھایا تھا۔۔۔ اس بچی کو گود میں لے کر نہ جانے کیوں مگر الفا
کی آنکھیں بھر آئی تھی۔۔۔
یا اللہ
تیرا شکر ۔۔ مجھے اس قابل سمجھا کہ بیٹی کی قفالت کر سکوں ۔۔ یہ پہلے الفا تھے جو
الفا کے منہ سے ادا ہوئے تھے۔۔ ان کی آنکھیں خوشی سے نم تھی۔۔ بیٹی پیدا ہوئی کی
خوشی الفا کے چہرے سے چھلک رہی تھی۔۔
خان
دیکھو میری جزا تمہارے زوریز سے پیاری ہے۔۔ وہ اس کی چھوٹی سی تیکھی ناک پر اپنی
انگلی رکھتے بولے تھے۔۔ اس سے پہلے وہ کوئی اور بات کرتے خان نے الفا کی گود سے
جزا کو لے لیا تھا۔۔
دیکھ
مسٹر وہ تیرا لاڈلا ہے سمجھ آئی نہ خبردار اس کو اس کے ساتھ کمپیر کیا ۔۔ میری
بیٹی بہت زیادہ پیاری ہے ۔۔ خان نے جزا کا ماتھا چومتے ہوئے کہا تھا ۔ جبکہ عزیزہ
ایک سرد آہ بھر کے رہ گئی تھی وہ جانتی تھی اب کیا ہونے والا ہے اور وہ ہی ہوا
تھا۔۔
تو بس
جلتا رہا کر میرے لاڈلے سے۔۔ الفا نے بغیر کیسی لحاظ کے خان کی کمر پر مکا مارا
تھا۔۔
اور اگلے
ہی لمحے وہ دونوں جزا کے لیے لڑنے لگے تھے کہ یہ مجھے دو اور یہ مجھے دو کی آوازیں
کمرے میں گونجی رہی تھی ۔ جب عزیزہ نے ان دونوں کی ایک تصویر لے لی تھی۔۔
یہ تصویر
میں زوریز اور جزا کو دیکھاؤ گئی جب وہ
بڑے ہوں گے ۔ کہ ان کے باپ ایک دوسرے کے بچوں پر لڑتے تھے۔۔عزیزہ وہ تصویر دیکھ کر
ہستے ہوئے بول رہی تھی۔۔۔
اس کو تو
ہم خود سے دور جانے ہی نہیں دیں گے ۔۔ خان جزا کے گال ہر انگلیاں پھیرتے بولے
تھے۔۔ جبکہ ان کی بات ہر الفا نے خان کو دیکھا تھا ۔۔
ایسے کیا
دیکھ رہا ہے؟ الفا کو اپنی طرف دیکھتا پا کر خان بولے تھے ۔۔ جبکہ عزیزہ خان کی
بات کا مطلب سمجھ گئی تھی اور مطلب تو الفا بھی سمجھ گئے تھے۔۔
الفا یہ
میری بیٹی ہے اور بہت جلد اس کو اپنے گھر لے کر جاؤں گا تب تک یہ تمہارے گھر امانت
ہے۔۔ خان نے جزا الفا کی گود میں واپس دی تھی۔۔
ذلیل
انسان میری بیٹی پیدا ہوئے ابھی گھنٹا بھی نہیں گزرا اور تو ںے اس کو میرے لیا
پرایا کر دیا۔۔ الفا نے سخت گھوری سے نوازہ تھا خان کو۔ اور افا کی بات ہر خان اور
عزیزہ ہنس پڑے تھے جبکہ مسکراہٹ الفاظ کے چہرے کو بھی چھو گئی تھی۔۔
حال
۔۔۔۔۔۔
ابراہیم
صاحب ہاتھ میں پکڑی تصویر کو نم آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔۔
شاہد تو
بھی میرے پاس نہیں رہا اور دیکھو مجھے میری بیٹی بھی نہیں مل رہی۔۔ ابراہیم صاحب
نم آنکھوں اور بھاری آواز میں بولے تھے۔۔ جبکہ عائشہ بیگم کمرے میں آئی تھی اور ان
کے ساتھ صوفے پر بیٹھ گئی تھی۔۔ ابراہیم صاحب نے فوراً اپنی آنکھیں صاف کی تھی۔۔
آپ کیوں
خود کو تکلیف دے رہے ہیں ابراہیم ۔۔ عائشہ بیگم نرم آواز میں بولی تھی اور ابراہیم
صاحب کے ہاتھ سے وہ تصویر لی تھی اور اس کو مسکرا کر دیکھ رہی تھی۔۔۔
جس دن
زوریز کی شرٹ کے بٹن پر انہوں نے پینڈنٹ دیکھا تھا اس دن شاہد صاحب کو اس پینڈنٹ
میں دیکھ کر وہ سمجھ گئی تھی زوریز کس سے ٹکڑا کر آیا ہے مگر ابراہیم صاحب اور عائشہ
بیگم مکمل اس بات سے انجان بنے کھڑے رہے تھے۔۔ اور دوراب کی شادی پر وہ جزا کو خود
دیکھ بھی چکے تھے جو بچپن سے زیادہ اپنی جوانی میں خوبصورت ہو گئی تھی۔۔
جزا مل
جائے گئی ابراہیم ۔۔ میرا دل کہتا ہے وہ بچی بلکل ٹھیک ہے اس کو کچھ نہیں ہوا۔۔ عائشہ
بیگم مدہم سی آواز میں بولی تھی اب کی بار آنکھیں ان کی بھی نم تھی۔۔
ابراہیم
صاحب خاموشی سے اپنی جگہ سے اٹھے تھے۔۔ جب
عائشہ بیگم نے ان کی طرف دیکھا تھا۔۔
کدھر جا
رہے ہیں ۔۔ وہ پوچھے بغیر نہ رہ سکی تھی۔
اپنے
دوست سے ملنے۔۔ وہ یہ کہہ کر کمرے سے نکل گئے تھے۔۔ عائشہ بیگم جانتی تھی وہ کون
سے دوست کے پاس جا رہے ہیں تبھی کچھ نہ بولی تھی اور خاموشی سے ایک نظر اس تصویر
پر ڈالی تھی۔۔۔
••••••••••••••
اور دو
تین دنوں میں واپس پاکستان جانا ہے ۔ بیسمنٹ میں بیسٹ کی آواز گونجی تھی جب گل نے
چونک کر بیسٹ کو دیکھا تھا۔۔ اور پاکستان کے نام پر جزا کے ہاتھ ایک بار ٹھنڈے پر
گئے تھے۔۔ مطلب واپسی کا وقت آن پہنچا تھا۔۔ انتقام کا مرحلہ شروع ہونے والا تھا۔۔
میں تو
ہفتے سے پہلے نہیں نکل رہی ۔مجھے میری تھکان اتارنی ہے۔۔ گل ناک چرہا کر بولی تھی ۔۔
ایک میشن
کے بعد اس کا یہ حال ہے۔۔ لیو نے سر افسوس میں ہلایا تھا۔۔
ان کو
مجھ سے مسئلہ کیا ہے ۔۔ لیو کی بات پر گل بیسٹ کی طرف دیکھ کر بولی تھی ۔۔ جبکہ
ولف اور جزا خاموشی سے اب ان کا تماشا دیکھنے لگ گئے تھے ۔
تم دونوں
کو ہی ایک دوسرے سے مسئلہ ہے ۔ بیسٹ دونوں کو گھورتے ہوئے بولا تھا۔۔ جس کا نتیجہ
یہ نکلا تھا کہ وہ دونوں ہی خاموش ہو گئے تھے۔۔
گل تم
پرسوں ولف اور لیو کے ساتھ پاکستان جاو گئی جبکہ میں اور جزا تم لوگوں کے بعد آئے
گے۔۔ بیسٹ نے اب اپنی بات کو پھر سے شروع کیا تھا۔۔
مگر میں
ابھی نہیں جانا میں تھکی ہوئی ہوں ۔ گل نے خاموش احتجاج کیا تھا۔۔
چلو اب
جب تم تھکی ہوئی ہو تو پھر تم ادھر آرام کرو، آج ہم لوگ شاپنگ وغیرہ کر کے پھر
اپنے اپنے ٹائم پر نکل جائیں گے تمہاری جب دل کرے ٹیکٹ بوک کروا کر آ جانا۔۔ بیسٹ
نے بات کو سرے سے ختم کیا تھا۔۔
شاپنگ
۔۔۔ گل بس اتنا ہی بول پائی تھی ۔۔کیونکہ شاپنگ میں تو اس کی جان بستی تھی ۔ اور
بیسٹ نے اس کی کمزوری پر وار کیا تھا۔۔ اب گل کیا اس کے فرشتے بھی پاکستان جانے کے
لیے تیار ہونے تھے ۔
ایک منٹ
ایک منٹ میں بھی چل رہی ہوں پاکستان ، شاپنگ پر کب جانا ہے۔۔ گل فوراً اپنی جگہ سے اٹھی تھی۔۔
نہیں
نہیں تم آرام سے اپنی تھکان اتارو کافی تھک گئی ہو تم۔۔ بیسٹ نے اس کے سر پر ہاتھ
رکھا تھا۔۔
نہی نہیں
میں تو مذاق کر رہی تھی ۔ گل نے معصوم سے شکل بنا کر اس کو دیکھا تھا ۔۔ جبکہ جزا
اپنی ہنسی روکنے کے چکر میں تھی۔۔
مگر میں
سریس ہوں۔۔ بیسٹ نے ناک سے مکھی اڑائی تھی۔
میں
پاکستان جا رہی ہوں مجھے بھی شاپنگ پر ساتھ لے جاؤ ۔۔ گل اب کی بار رونے والی ہو
گئی تھی۔۔ وہ بھول گئی تھی وہ کس سے پنگا لے بیٹھی ہے۔۔
گڈ گرل
۔۔ بیسٹ اس کو دیکھتا بولا تھا جو اب چہکتے ہوئے اپنی جگہ پر واپس بیٹھی تھی ۔
ولف نے
ابھی ریموٹ اٹھا کر بیسمنٹ میں لگی ایل سی ڈی اون کی تھی جس پر ایک نیوز رپورٹر
ایک عالیشان منشن کے سامنے کھڑی تھی۔۔ جہاں پیچھے ایک آدمی کی لاش لٹک رہی تھی جس
کا سر نہیں تھا۔۔
Secondo le nostre informazioni
nessuno sa che tipo di alpino si nasconde dietro tutto questo, chi è questo
alpino e a quale gruppo o mafia appartiene. Chiunque sia, questa mossa dimostra
che è molto spietato e pericoloso.
(ہماری معلومات کے مطابق اس سب کے پیچھے کیسی
الپائن کا ہاتھ ہے، آخر کون ہے یہ الپائن اور اس کا تعلق کس گروپ یا مافیا سے ہے
یہ بات کوئی نہیں جانتا۔ وہ جو کوئی بھی ہے اس کے اس قدم سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ
بہت بےرحم اور خطرناک ہے۔)
وہ
رپورٹر کچھ اور بھی بول رہی تھی جب جزا بیسٹ کے سامنے جا کر کھڑی ہوئی تھی۔۔
یہ سب
کیا ہے بیسٹ ؟ بات میڈیا تک کیسے گئی؟ جزا سخت نظروں سے بیسٹ کو دیکھتے بولی
تھی۔۔۔
میں نے پہنچائی
ہے یہ خبر میڈیا تک۔۔ بیسٹ لاپرواہی سے بولا تھا۔۔ جبکہ جزا بے یقینی سے اس شخص کو
دیکھ رہی تھی۔۔
تم نے
ایسا کیوں کیا وجہ جان سکتی ہوں۔۔ جزا سخت نظروں سے دیکھتی بولی تھی۔۔۔
مافیا کہ
کچھ اصول ہوتے ہیں جزا۔۔۔ بیسٹ پرسکون سا بولتا اپنی جگہ کی طرف بڑھا تھا۔۔۔
کیسے
اصول کون سے اصول۔۔ جزا سوالیہ نظروں سے اس کو دیکھ کر بولی تھی۔۔ جبکہ ولف ،لیو
اور گل اس کو دیکھ رہے تھے جس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ بیسٹ کا سر کھول دے۔۔
اگر
مافیا اور انڈر ورلڈ میں کوئی قدم رکھے تو اس کا نام منظر پر رکھ دیا جاتا ۔۔ بس
اسی طرح تمہارا نام بھی منظر پر رکھ دیا ہے ۔۔ بیسٹ لا پرواہی سے بولا تھا۔۔۔
بیسٹ ۔۔
جزا غصے سے بولی تھی۔۔۔
ویلکم ان
دا ڈارک ورلڈ اوف کرائم مائے الپائن ۔۔۔ بیسٹ نے ایک گہری نظر جزا پر ڈالی تھی۔۔
جبکہ اس کے الفاظ پر جزا نے ایک نگاہ اٹھا کر اس کو دیکھا تھا۔۔
جزا ایک
سخت نظر اس ہر ڈال کر ادھر سے باہر نکل گئی تھی۔۔۔جبکہ بیسٹ نے اپنی کیپ
اتاری تھی اور اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرا
تھا۔۔
تم کیسی
دن مر جاؤ گے اس کے ہاتھوں ۔۔ ولف اس کو دیکھتے بولا تھا۔۔ جو جان کر اس اگ سے پنگا لیتا تھا ۔
خود پر
مرے ہوئے کو کتنا مار لے گئی؟ بیسٹ آنکھ ونک کر کے بولا تھا۔۔ جبکہ اس کی بات پر
لیو اور ولف دونوں نے اپنا سر پکڑ لیا تھا۔۔
••••••••••••••
وہ لوگ
اس وقت روم کے سب سے مہنگے شاپنگ مال پورٹا دی روما میں موجود تھے۔۔ گل اور جزا نے
ایک ستائش بھری نظر پورے شاپنگ مال پر ڈالی تھی ۔۔ جزا کی آنکھوں میں ایک خاص چمک تھی جیسے اس کو
یہ شاپنگ مال بہت پسند آیا تھا۔۔۔ اور اس کی یہ پسند بیسٹ کی نظروں سے اوجھل نہ ہو
سکی تھی۔۔ اس نے اپنے ہاتھ کے اشارے سے اپنے آدمی کو اشارہ کیا تھا اور خود بھی
ادھر سے چل گیا تھا۔۔ اس کو ایک طرف جاتا دیکھ ولف تھوڑا حیران ہوا تھا اور گل اور
جزا کو ادھر سے لے کر آگے بڑھا تھا تاکہ ان کو بیسٹ کی غیر موجودگی کا پتا نہ
چلے۔۔
وہ دونوں
جزا اور گل کو اپنے ساتھ آگے لے کر چلے تھے اس بات سے بے خبر وہ دونوں سب سے پہلے
جانے کس سٹور پر والی ہے ۔۔ اور کچھ دیر میں ولف اور لیو حیرت سے ان دونوں کو دیکھ
رہے تھے جو نہ جانے کب سے میک آپ کی چیزوں
کو دیکھے جا رہی تھی۔۔۔
ان کا
دماغ تو نہیں چل گیا ایک ہی رنگ کی اتنی لیپ سٹیک چیک کر رہی ہیں ۔۔ لیو ولف کے
کان کے قریب جھک کر بولا تھا آواز میں حیرت صاف ظاہر تھی ۔۔۔
مجھ لگ
رہا ہے کل رات کے میشن نے دماغ پر اثر کیا ہے ان کے۔۔ ولف افسوس سے بولا تھا۔۔ جب
جزا نے لیو کو مخاطب کیا تھا۔۔
لیو آپ
کے سامنے وائن ریڈ کلر کی لیپ سٹیک پڑی ہے وہ تو پکڑا دیں۔۔ جزا اپنے دھیان میں
بولی تھی جبکہ لیو کے تو فرشتوں کو بھی پتا نہ تھا وائن ریڈ شیڈ ہے کون سا۔
یہ وائن
ریڈ کون سا کلر ہے ؟ لیو نے ولف کو کہنی ماری تھی اور اپنے سامنے پڑے ریڈ کلر کے
شیڈز کو دیکھ رہا تھا جو اس کو سب ایک جیسے ہی لگ رہے تھے۔۔۔
میرا
رنگوں کا کاروبار ہے؟ ولف نے پرسکون سا سوال کیا تھا۔۔
ہیں واقع
ہی یہ بات تو نے بتائی نہیں کبھی۔۔ لیو حیران سا بولا تھا۔
نہیں تو
مجھ سے کلر کے بارے میں پوچھ ایسے رہا ہے نہ جیسے میرا تو خاندانی کاروبار ہے
رنگوں کا اور مجھے ہر رنگ کا پتا ہے۔۔ ولف دانت پیس کر بولا تھا۔۔
لیو وائن
ریڈ کلر پکڑا دیں ۔۔ جزا ایک بار پھر سے بولی تھی۔۔ جب لیو نے فوراً ایک لیپ سٹیک
نکال کر اس کی طرف بڑھائی تھی۔۔
یہ پاؤر
ریڈ ہے وائن ریڈ نہیں ۔۔ جزا نے اس کلر کو
دیکھ کر کہا تھا اور خود آگے بڑھی تھی ۔۔ جبکہ اس کی بات سن کر لیو اور ولف کا سر
چکرا گیا تھا۔۔
اب وہ ان
دونوں کو باقاعدہ ریڈ کلر کے شیڈز بتا رہی تھی جبکہ ماسک کے پیچھے ان دونوں کے منہ
کھول گئے تھے جو نام وہ لے رہی تھی کلر کے ان کے تو گمان میں بھی نہ تھا کہ ریڈ کے
بھی اتنے شیڈ ہوتے ہیں ۔۔ مگر اگلی بات نے تو ان کے کانوں سے دھواں نکل دیا تھا۔۔
اب جیسے
اس بڑنڈ کی ریڈ لیپ سٹیک کلر کٹ میں ریڈ کے یہ یہ کلر ہیں ۔ایسی طرف ہر بریڈ کی
اپنی کلر پلیٹ اور یونک نام اور نمبر ہوتے ہیں کلر کے۔۔ جزا یہ کہہ کر گل کی طرف
متوجہ ہوئی تھی جبکہ ان دونوں نے ایک ایک ریڈ کلر اٹھا لیا تھا۔۔
ان کلر
کا اچھے سے معائنہ کرنے کے بعد بھی وہ فرق معلوم نہ کر سکے۔۔
بھائی ہماری
تو ساری پڑھائی ہی پانی میں چلی گئی۔۔ لعنت اتنی ڈگریوں پر۔۔ ہمیں تو کلر بھی صحیح
پڑھائے نہیں گے۔۔ لیو تو رونے والا ہو گیا تھا۔۔
ہمیں رنگ
صحیح نہیں پڑھائے ایسا نہیں ہے ان لڑکیوں نے ہم سے زیادہ رنگ پڑھ رکھے ہیں مسئلہ
یہ ہے ۔ ولف بیچارگی سے بولا تھا۔۔
کیا ہو
رہا ہے ؟ ان دونوں کو اپنے عقب سے بیسٹ کی آواز آئی تھی۔۔
ہماری
ساری زندگی ایک دھوکے میں گزار گئی ،۔۔ لیو بے چارگی سے بولا تھا۔۔
کیا مطلب
؟ بیسٹ کو اس کی بات سمجھ نہ آئی تھی۔۔
مطلب یہ
کے ہمیں تو صرف ریڈ کلر کے بارے میں پڑھایا گیا تھا یہ ریڈ کلر میں وائن ریڈ ،
پاؤر ریڈ ، ڈیپ ریڈ اور بلا بلا کب ایجاد ہوئے۔۔ ولف نے ایک لیپ سٹیک بیسٹ کے
سامنے کئ تھی۔۔
یا ہم
لوگوں نے پڑھا غلط ہے یہ ان لڑکیوں نے اس معاملے میں ہم سے زیادہ پڑھ لیا ہے۔۔ ولف بے یقینی سے بولا تھا کیونکہ وہ دونوں ہی
چکرا گئے تھے ایک ہی رنگ کے اتنے شیڈز کا سن کر ۔۔
یہ ہی تو
خاصیت ہے لڑکیوں کی۔ وہ ہر رنگ میں چھوٹے سے چھوٹا فرق بھی پہچان جاتی ہیں ۔۔
کیونکہ لڑکیوں کے لیے رنگ بہت معنی رکھتے ہیں ۔۔ بیسٹ پر سکون سا بولا تھا جب اس
کی نظر جزا پر گئی تھی۔۔
وہ کیسے
؟ ولف نہ سمجھی سے بولا تھا۔۔
وہ رنگوں
سے جلدی اٹیچ ہو جاتی ہیں ۔ ان کو خوبصورت رنگ اٹریکٹ کرتے ہیں ۔ اور وہ ان رنگوں
کا انتخاب کرتی ہیں جو ان کی پرسنلٹی کی اعکاسی کرتے ہیں ۔۔ وہ ہر رنگ میں آسانی
سے فرق کر سکتی ہیں ۔ اور اسی وجہ سے وہ رویوں کو ہم مردوں کی نسبت جلدی بدلتا
محسوس کرتی ہیں ۔۔ بیسٹ بات ان دونوں سے کر رہا تھا جبکہ نظر جزا پر تھی۔۔
تم اتنا
سب کیسے جانتے ہو؟ لیو نے اس کو سوالیہ نظروں سے دیکھا تھا۔۔
جب سے
کیسی لڑکی کو جاننا شروع کیا ہے۔۔ بیسٹ محبت بھری نظروں سے جزا کی طرف دیکھ رہا
تھا۔
وہ کیسے
؟ لیو کی سمجھ میں بات نہ آئی تھی ۔۔
وہ ایسے
کہ اگر کبھی رنگوں کس بارے میں جاننا ہو تو عورت سے پیار کر لو زندگی کے ہر رنگ کا
پتا چلتا چلا جائے گا۔۔ ہر رنگ کا مطلب سمجھ آنے لگے گا۔۔ ہر رنگ سے اس کے جذبات
کی گہرائی کو سمجھنے لگو گے۔ کیونکہ عورتوں کی زندگی میں رنگ۔ ان کی خوشیوں کو
بیان کرتے ہیں ۔۔ جب ایک مرد عورت سے صحیح معنوں میں محبت کر لیتا ہے تو اس کو
معلوم ہو جاتا ہے اس نے اس کی زندگی کو کن رنگوں سے بھرنا ہے یہاں رنگ کا مطلب
خوشی ہے۔ کیونکہ جب ایک عورت زندگی سے بیزار ہوتی ہے سب سے پہلے وہ شوخ رنگ پہنا
چھوڑ دیتی ہے وہ سجنا سنورنا چھوڑ دیتی ہے۔۔ بیسٹ ان دونوں کو دیکھتا بولا تھا جو
اب اس کی بات کی گہرائی کو سمجھ گے تھے۔۔۔
تو جناب
کیا ہم یہ مان لیں کے آپ کو محبت ہو گئ ہے؟۔ لیو نے اب کی بار آنکھ ونک کی تھی۔۔
یہاں
محبت سے انکار کس کافر نے کیا ہے۔۔ بیسٹ نے لیو کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بےنیازی
سے بولا تھا۔۔ جب نظر سامنے سے آتی دشمن جاں پر گئی تھی۔۔
•••••••••••••••
ولف اور
لیو گل کو اپنے ساتھ لے گئے تھے شوپنگ کے بہانے کیونکہ وہ جزا اور بیسٹ کو اکیلے
وقت دینا چاہتے تھے اور گل میڈم جزا کو ایک منٹ کے لیے اکیلا نہیں چھوڑ رہی تھی
بیسٹ کے پاس۔۔
وہ اپنے
لیے کچھ جیکٹس وغیرہ دیکھ رہی تھی جب اس کی نظر سامنے دو جیکٹس پر گئی تھی۔ وہ
دونوں جیکٹس ایک جیسی تھی بلیک لیدر میں
۔۔ اس کو وہ جیکٹس پسند آئی تھی ۔ اور دل میں وہ جیکٹس لینے کی خواہش پیدا ہوئی
تھی۔۔۔ وہ ان دونوں جیکٹس کو لے کر کاونٹر پر گئی تھی۔۔۔جبکہ بیسٹ یہ سب خاموش سے
دیکھ رہا تھا۔۔۔
ائی لائک
یور چوائیس ۔۔ وہ اس کے پیچھے آ کر کھڑا ہوتا اس کے کان کے پاس جھک کر مدہم آواز
میں بولا تھا۔۔ لہجہ محبت سے بھرا ہوا تھا۔۔ جبکہ اس کی آواز اپنے اتنے قریب سن کر
جزا کا دل بہت تیز رفتار سے دھڑکا تھا۔۔
میں
جانتی ہوں میری چوائس اچھی ہوتی ہے۔۔ جزا چود جر نارمل کرتے بولی تھی۔۔
ویسے
جیکٹ سائز بھی بہت پرفیکٹ ہے ۔ بیسٹ مدہم آواز میں بولا تھا۔۔ اور جزا کو لگا اس
کا راز فاش ہو گیا ہے۔۔
کیسی خوش
فہمی میں نہ رہنا یہ جیکٹس میں نے اپنے اور گل کے لیے لی ہیں ۔۔ جزا خود کو نارمل کرتے بولی تھی۔۔
محترمہ
یہ بات آپ بھی جانتی ہیں اور میں بھی یہ جیکٹس کس کس کے لیے ہیں ۔ بیسٹ نے اس کی
شہد رنگ آنکھوں کو اپنی آنکھوں کے حصار میں لیا تھا۔۔
ایسا کچھ
نہیں ہے۔۔ جزا خود کو نارمل کرتے بولی تھی جبکہ بیسٹ نے اپنا بلیک کارڈ کاونٹر کی طرف بڑھایا تھا ۔
آر یو
شور؟ بیسٹ نے اس کو باغور دیکھا تھا۔۔ جب جزا نے ایک سخت نظر بیسٹ پر ڈالی تھی ۔
جزا
تمہارے آنکھیں میرے دل کا بہت نقصان کر رہی ہیں ۔ اور یہ نقصان میری برداشت سے
باہر ہو رہا ہے تھوڑا احتیاط کیا کرو بندہ دل کا مریض ہو گیا ہے۔ اس کی سخت نظروں
کو محبت سے دیکھتے وہ آس پاس کا لحاظ کیے بغیر بولا تھا۔جبکہ وہ مکمل سرخ ہو چکی
تھی۔
تم میرے
ساتھ فلرٹ کرنا بند کرو سمجھ آئی ۔۔ اس کے پاؤں پر اپنا پاؤں زور سے مارتے وہ سٹور
سے باہر نکل گئی تھی۔۔
اچھا
سنوں کیسی اور لڑکی کے ساتھ کر سکتا ہوں نہ؟ بیسٹ فوراً اس کے پیچھے لپکا تھا۔۔ مگر
نہ جانے کیوں اس کی بات سن کر جزا ایک لمحے کو روکی تھی اور اس کو غصہ بھی بہت آیا
تھا مگر کیوں وہ نہیں جانتی تھی۔۔
ہاں شوق
سے کرنا ۔۔۔ اور زہر کھا کر مر جانا کیونکہ میرے ہاتھ لگے اس کے بعد تو جان سے تب
بھی جاؤ گے ۔۔ یہ کہہ کر وہ آگے بڑھ گئی تھی جبکہ بیسٹ نے اپنے قہقہے کا گلا
گھونٹا تھا ورنہ جزا یقیناً اس کا گلا دبا دیتی ۔۔
وہ ایسے
ہی چلتی ایک سٹور میں داخل ہوئی تھی ۔۔وہ جس چیز پر ہاتھ رکھ رہی تھی بیسٹ بغیر
سوچے سمجھے وہ پیک کروا رہا تھا۔۔ اور یہ بات جزا کو مزید حیرت میں مبتلا کر رہی
تھی۔۔ اور اگلے چند لمحوں میں وہ ہر وہ چیز خرید چکا تھا جس کو جزا ہاتھ بھی لگا
لیتی تھی یہ ایک نظر دیکھ لیتی تھی۔۔
تمہارے
ساتھ مسئلہ کیا ہے؟۔ ایک سٹور سے باہر نکلتے جزا تنگ آ کر بولی تھی۔۔ کیونکہ بیسٹ
کی یہ حرکت اس کی سمجھ سے باہر تھی ۔
مجھے تو
کوئی مسئلہ نہیں ۔۔۔ بیسٹ بےنیازی سے بولا تھا۔۔
تم ہر وہ
چیز کیوں خرید رہے ہو جس کو میں صرف دیکھ بھی لیتی ہوں۔ یہ جانے بغیر کے مجھے اس
کی ضرورت ہے کہ نہیں۔۔ جزا دانت پیس کر بولی تھی۔۔
مجھے یہ
جاننا بھی نہیں کہ تمہیں اس کی ضرورت ہے کہ نہیں میں بس اتنا جانتا ہوں کہ تم نے ان
سب چیزوں کو بہت پیار سے دیکھا تھا ۔ بیسٹ ہموار لہجے میں بولا تھا ۔ جبکہ جزا کا
منہ حیرت سے کھول گیا تھا۔۔
مجھے
یقین ہو گیا ہے کہ تمہارا دماغ چل گیا ہے۔۔ جزا ایسے ہی حیرت سے بولی تھی جبکہ اس کی بات پر
بیسٹ مسکرا گیا تھا۔۔
محترمہ
آپ کیسی چیز کو پسند کی نظر سے دیکھیں اور وہ میں آپ کو نہ لے کر دوں تو کیا فائدہ
اس بندہ پرور کا ۔۔ بیسٹ سر کو خم کر کے بولا تھا۔۔
میں جو
بھی پسند کرو گئی مجھے لے کر دو گے؟ جزا اس کی بات پر حیرت سے بولی تھی۔۔۔
جو
بھی۔۔۔ مختصر مگر پرسکون جواب آیا تھا۔۔
اگر میں اس
شاپنگ مال کو پسند کی نظر سے دیکھتی تو ۔ جزا اس کو جانچتی نظروں سے دیکھتی بولی
تھی۔۔
جب بیسٹ نے مسکراتی نظروں سے جزا کی طرف دیکھتا اپنا ہاتھ اپنے ایک آدمی کی
طرف بڑھا چکا تھا جس نے ایک فائل بیسٹ کو تھمائی تھی اور بیسٹ نے جزا کی طرف بڑھا
دی تھی وہ فائل۔۔
یہ
لیں۔۔۔ بیسٹ وہ فائل جزا کو دیتا بولا تھا۔۔ جزا اس فائل کو حیرت سے دیکھ رہی تھی
اندر لکھی تحریر کو پڑھ کر اس کو مزید حیرت
ہوئی تھی۔۔جزا کو یقین آ چکا تھا کہ سامنے کھڑے آدمی کا دماغ جواب دے گیا ہے۔۔
تم نے
یہ۔۔ وہ بس اتنا ہی بول پائی ۔۔
تم نے جب
پہلی نظر اس شاپنگ مال پر پسند کی ڈالی تھی۔۔ اس کے اگلے لمحے یہ شاپنگ مال تمہارے
لیے خرید چکا تھا۔۔ بیسٹ نرم لہجے میں بولا تھا۔۔ جزا کے ساتھ بات کرتے ہوئے ا س کا لہجہ خود با خود نرم ہو جاتا
تھا۔۔
کوئی اور
حکم محترمہ بندہ حاضر ہے۔۔ اس کو خاموش پہ کر بیسٹ پھر سے بولا تھا۔۔ جبکہ اس کی
بات پر جزا اس کو حیرت سے دیکھ رہی تھی۔۔۔
میں جو
بھی کہوں گئی مان جاؤ گے؟ جزا ایک امید سے
بولی تھی۔۔
حکم کریں
بس؟ بیسٹ اس کو پیار سے دیکھتا بولا تھا۔۔
بیسٹ تم
یہ سب کام چھوڑ کیوں نہیں دیتے ؟ تم یہ کام چھوڑ دو نہ؟.. جزا اپنی بات مکمل کر کے
اس کو دیکھ رہی تھی جو اس کی بات سن کر بہت بدمزہ ہوا تھا۔۔۔
میں نے
حکم کے لیے بولا ہے جزا۔۔ بیسٹ اس کی شہد رنگ آنکھوں میں دیکھتا بولا تھا۔۔
میں حکم
ہی دے رہی ہوں بیسٹ ۔۔ جزا نے بھی اب کی
بار سبز آنکھوں میں دیکھا تھا۔۔ اس کی آنکھوں میں تھوڑی سختی تھی۔۔
مجھے یہ
حکم پسند نہیں آیا ۔۔ بیسٹ نے سر جھکا لیا تھا۔۔ وہ کیسی کے سامنے سر نہیں جھکتا
تھا مگر جزا کے سامنے کیوں اس کا سر جھک رہا تھا وہ بھی انجان تھا۔۔۔ جبکہ اس کی
بات پر جزا نے اس کو سخت نظروں سے دیکھا تھا۔۔
تمہیں
میرا حکم پسند نہیں آیا نہ؟ اب تمہیں میرا
اگلا حکم بہت پسند آئے گا۔۔ جزا یہ کہہ کر فوراً موڑ گئی تھی اور واپس جانے لگی
تھی۔۔
کیا مطلب
ہے اس بات کا۔۔ بیسٹ نے جزا جو بازو سے پکڑ کر روکا تھا۔۔۔
پتا چل
جائے گا مسٹر بیسٹ ۔۔۔ اور ہاں بھار میں جاؤ تم اور تمہارا یہ شاپنگ مال۔۔ جزا
اپنا بازو چھوڑوا کر آگے کی طرف بڑھ گئی
تھی ۔
اس کے
چلنے کی سپیڈ اس قدر زیادہ تھی کہ چند لمحوں میں وہ بیسٹ کی نظروں سے اوجھل ہو چکی
تھی۔۔۔
•••••••••••••
یہ
الپائن کون ہے ۔۔ کنگ اس وقت انٹرنیشنل
نیوز چینل دیکھ رہا تھا اور سامنے چلتی خبر دیکھ کر اپنے منہ سے سیگار نکل کر بولا
تھا ۔ اس بات سے انجان کے جو لاش لٹک رہی ہے وہ ہے کس کی ۔۔
کنگ
فلحال یہ بات کوئی نہیں جانتا۔۔۔ عثمان صاحب سامںے سکرین کی ظرف دیکھتے بولے تھے ۔۔
تم لوگوں
کو مفت کی روٹیاں تورنے کے لیے بیٹھیا ہے کہ میں نے؟؟ کنگ نے ایک آئی برو اٹھا کر عثمان صاحب کی طرف
دیکھا تھا ۔۔
ایسا
نہیں ہے کنگ۔۔ انہوں نے تھوک نگلی تھی۔۔۔
یہ لڑکی
کون ہے کہاں سے آئی ہے کس کے لیے کام کر رہی ہے ایک ایک خبر نکلواو اس کے بارے میں
۔۔۔ کنگ سخت نظروں سے اپنے سامنے بیٹھے اکرم صاحب ، عثمان صاحب اور عمران صاحب کو
دیکھتے بولا تھا۔۔۔ جب صارم کی آواز ان کی سماعت سے ٹکرائی تھی۔۔
ویسے ایک
بات بیسٹ ٹھیک بولتا تھا نکاموں کی فوج پال رکھی ہے آپ نے ڈیڈ ۔۔ صارم طنزیہ ہستے
ہوئے بولا تھا۔۔ جب کنگ نے ایک سخت نظر اس پر ڈالی تھی۔۔۔
مجھے
ایسے نہ دیکھیں ڈیڈ ۔۔ ان لوگوں کے بس کا روگ نہیں ہے۔۔ نہ ان کی بیسٹ کے سامنے
چلی ہے اور نہ ان سے کوئی کام ہوتا ہے یہ تو اپنے ساتھیوں کو محفوظ نہیں رکھ پاتے
انہوں نے کل کی آئی لڑکی کی انفورمیشن آپ کو لا کے دینی ہے۔۔ صارم ان تینوں کی طرف اِشارہ کرتا بولا تھا جب
اکرم صاحب نے مٹھیاں بھینچ لی تھی۔۔۔
اپنی
بکواس بند کر لو صارم۔۔ کنگ دانت پیستے بولا تھا۔۔
میں
بکواس تو بند کر لوں گا۔۔ مگر ان سب مصیبتوں کا کیا جو ایک کے بعد ایک سر پر آ رہی
ہیں ۔۔ ایک طرف زیک ، بیسٹ اور وہ آرمی کا اوفیسر ایم-زی کم تھا ؟ جو اب یہ ایک
اور مصیبت انڈر ورلڈ میں الپائن کے نام سے آ گئی ہے؟؟ صارم اپنی شہادت کی انگلی سے
سکرین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا تھا ..
صارم
زبان بند کر لو اپنی۔۔۔ کنگ سخت نظروں سے گھورتے ہوئے اس کو دیکھتے بولا تھا۔۔۔
نواز ،
نوریز اور شہزاد ابھی ہی ادھر پہنچے تھے۔۔ جب سامنے سب کو خاموش اور کنگ کو غصے میں دیکھ کر حیران ہوئے تھے۔۔
وہ تینوں
اکر ابھی بیٹھے ہی تھے جب کنگ نے ان تینوں کو مخاطب کیا تھا۔۔
کدھر سے
آ رہے ہو تم تینوں ؟؟ کنگ کی آواز خاموشی کو توڑ چکی تھی۔۔
اوفس کے
کاموں میں بزی تھے کنگ۔۔ کیا ہوا ہے۔۔ شہزاد مدہم لہجے میں بولا تھا۔۔
ہونا کیا
ہے ایک اور آفت آ گئی ہے انڈر ورلڈ میں ۔۔۔ کنگ کی بجائے صارم بولا تھا جبکہ کنگ
اس کو غصے سے دیکھ رہا تھا۔۔
کون ۔۔
شہزاد ، نواز ، اور نوریز ایک ساتھ بولے تھے۔۔
الپائن ۔۔۔
اب کی بار عمران صاحب بولے تھے۔۔
الپائن
کون ہے؟؟ نواز سوالیہ نظروں سے دیکھتا ہوا
بولا تھا ۔۔۔
ہمیں کیا
پتا کون ہے کون نہیں ۔۔۔ عثمان صاحب نواز کو گھورتے ہوئے بولے تھے۔۔
جو بھی
ہے ایک نہ ایک دن پتا چل ہی جائے گا کہ الپائن ہے کون اور اس نے سب سے پہلے شکار
کیا کس کا ہے۔۔ تم لوگ یہ بتاؤ مال کا کیا بنا ہے؟ کنگ اپنے ہاتھ میں پکڑا سگار
ہونٹوں کے قریب لے جاتے بولا تھا۔۔۔
جو لڑکیاں
اٹلی میں صفدر ہاشمی کو پہنچانی تھی وہ تو کب کی پہنچ گئی ہیں ۔۔ اب دوسرے کونٹینر
تیار ہو رہے ہیں جس میں اسلحہ ، ڈرگز، اور لڑکیاں ہیں وہ اور کچھ دنوں میں پاکستان
سے بھیجا جائے گا۔۔ شہزاد نے ساری تفصیل
دی تھی ۔۔
کچھ دنوں
میں کیوں؟ کنگ نے سخت نظروں سے اس کو دیکھا تھا۔۔
کیونکہ
آرمی اس وقت مکمل توڑ پر ایکٹیو ہے۔۔ شہزاد نے اصل مسئلہ سامنے رکھا تھا ۔
اس کا
بھی بندوبست کرتے ہیں ۔۔۔ کنگ کچھ سوچتے
ہوئے بولا تھا۔۔۔
•••••••••••••••••
دو کارز
ابھی بیسٹ کے بلیک عالیشان محل کے سامنے روکی تھی۔۔ گارڈز نے ولف ، لیو اور گل کی
کار کو اندر جانے دیا تھا مگر بیسٹ کی کار کو اندر جانے سے روک دیا تھا ۔۔
کیا
مصیبت ہے دروازہ کھولو۔۔۔ بیسٹ اپنی سائیڈ
سے شیشے نیچھے کر کے غصے سے بولا تھا۔۔
سوری سر
ہم آپ کو اندر نہیں جانے دے سکتے ۔۔۔ وہ سکیورٹی گارڈ ڈرتے ہوئے بولا تھا۔۔۔۔
کیا
بکواس کر رہے ہو مجھے کیوں نہیں اندر جانے دو گے تم لوگ۔۔ یہ میرا گھر ہے ۔۔ بیسٹ
سخت غصے سے بولا تھا۔۔
سر میم
کا ارڈر ہے ۔ وہ گارڈ اس کے غصے سے ڈر کر فوراً بولا تھا۔۔
کون سی
میم کا آرڈر ہے ؟ بیسٹ غصے سے اب کی بار کار سے باہر نکلا تھا ۔۔
سر الپائن
میم کا آرڈر ہے۔۔ وہ گارڈ نظریں جھکا کر
بولا تھا ۔۔ جبکہ بیسٹ کا منہ کھولے کا کھولا رہ گیا تھا ۔ اس نے فوراً اپنی جیب
سے فون نکلا تھا۔
بیل جا
رہی تھی مگر کیسی نے کال نہ اٹھائی تھی۔۔
بیسٹ نے دوبارہ کال کی تھی ۔۔ اب کی بار کال پیک کر لی گئی تھی ۔۔
ہیلو۔۔۔
بہت نرم سے آواز اس کی سماعت سے ٹکرائی تھی۔۔۔
جزا یہ
سب کیا ہے ۔ بیسٹ مدہم آواز میں بولا تھا ۔۔ وہ چاہا کر بھی سخت لہجے میں نہ بول
سکا تھا۔۔
کیا سب ؟
اس کی لاپراوہ سی آواز سپیکر پر سے گونجی تھی۔۔
تم نے گارڈز
کو کیا بولا ہے؟ بیسٹ حیرت سے بولا تھا ۔۔
کیونکہ اس کو کچھ غلط ہونے کا احساس ہو رہا تھا ۔۔
میں نے بولا
نہیں میں نے گارڈز کو آرڈر دیا ہے۔۔۔ دوسری طرف سے اس کی باور کرواتی آواز گونجی
تھی۔۔
جبکہ اب
کی بار صحیح معنوں میں بیسٹ کو حیرت کا دھچکا لگا تھا۔۔ یعنی کہ جزا اتنی ہمت
رکھتی تھی کہ بیسٹ کا اس کے گھر میں انے ہی بند کروا سکتی تھی ۔۔۔
جزا میری
بات سنو ۔۔۔ بیسٹ مدہم آواز میں بولا تھا۔۔
نا نا
مسٹر بیسٹ ۔۔ آپ کو میرا وہ آرڈر اچھا نہیں لگا تھا نہ؟ امید کرتی ہوں یہ آرڈر آپ
کو پسند آیا ہو گا۔۔ آپ آج کی رات بار ہی
رہیں گے۔۔۔ جزا کی پرشوق آواز بیسٹ کی سماعت سے ٹکرائی تھی۔۔ یہ کہہ کر وہ فون کاٹ
چکی تھی ۔ جبکہ بیسٹ بس اپنے ہاتھ میں پکڑے اپنے سیل فون کو دیکھ رہا تھا ۔
میری بلی
مجھ ہی کو میاؤں ۔۔۔ بیسٹ دانت پیس کر بولا تھا۔۔۔ اور واپس کار میں بیٹھ چکا تھا ۔۔۔
وہ ڈرائیو
کرتے ہوئے مسلسل اس وقت کو کوس رہا تھا جب اس نے جزا کو یہ کیوں بول دیا کہ اس کو
اس کا آرڈر پسند نہیں آیا ۔۔ اس کی کار اس
کے ایک اپارٹمنٹ کے سامنے روکی تھی جو اس کے بلیک عالیشان پیلیس سے کچھ ہی دور
تھا۔۔ وہ کار سے باہر نکلا تھا جب سامنے ہی اس کے اپارٹمنٹ کے چار گارڈز کھڑے تھے۔۔
تم لوگ
ادھر ؟؟ بیسٹ ان کے سامںے کھڑا بولا تھا ۔۔
سوری سر
۔۔ مگر الپائن میم کا آرڈر ہے آپ کو اندر نہ جانے دیا جائے ۔۔ ان میں سے ایک گارڈ بہت آداب سے بولا تھا ۔۔
تم لوگ
ہٹو ادھر سے۔۔۔ بیسٹ غصے سے بولا تھا ۔
سر ہم
نہیں ہٹ سکتے ۔۔ میم ہمیں جان سے مار ڈالیں گی ۔۔
وہ گارڈ نظریں جھکا کر بولا تھا۔۔
اگر تم
لوگ ادھر سے نہ ہٹے تو میں جان سے مار ڈالوں گا۔۔ بیسٹ غصے سے بولا تھا۔۔ جب اس کا
فون بجا تھا۔۔۔
ہیلو ۔۔۔
بیسٹ سخت لہجے میں بولا تھا۔۔۔
ہیلو ۔۔
مسٹر بیسٹ ۔۔۔ جزا مکسراتے ہوئے بولی تھی ۔۔ اس کی آواز سن کر بیسٹ مدہم پر گیا
تھا ۔۔۔
جزا ۔۔
بیسٹ مدہم آواز میں بولا تھا۔۔۔
وہ میں
نے یہ کہنے کے لیے فون کیا تھا ۔ کیسی ہوٹل وغیرہ پر مت جانا ۔۔ کیونکہ آپ کو کہیں
بھی پناہ نہیں ملنے والی ۔۔۔ جزا کی نرم آواز بیسٹ کی سماعت سے ٹکرائی تھی۔۔۔
تم چاہتی
کیا ہو۔۔ بلاآخر وہ پوچھ چکا تھا۔۔۔
زیادہ
کچھ نہیں بس آج رات آپ ٹھنڈ میں گزاریں ۔۔۔ یہ کہہ کر جزا نے کال کاٹ دی تھی۔۔ اور
بیسٹ اپنے فون کی سکرین کو دیکھ رہا تھا۔
جو حکم
محترمہ۔۔ بیسٹ یہ کہہ کر فون جیب میں رکھ چکا تھا۔۔ اب اس کا روخ واپس اپنے بلیک
پیلیس کی طرف تھا۔۔۔
••••••••••••••
وہ اپنے
روم میں کب سے بیٹھا سیگریٹ پر سیگریٹ پی جا رہا تھا۔۔ دل تھا کہ اس کی بےقراری کم
نہیں ہو رہی تھی ۔ اندر ہی اندر کچھ اس کو چب رہا تھا۔۔۔۔۔
شہزاد
اکرم یہ تم کیا کر بیٹھے ہو۔۔ وہ مدہم آواز میں بولا تھا ۔۔ آنکھیں بند تھی سر بیڈ
کی پشت سے ٹیکا رکھا تھا۔۔۔
سیگریٹ
جل جل کر اس کی انگلیوں کی پوروں تک آ گیا تھا۔۔ کچھ جلین کے احساس سے اس نے اپنی
سیاہ انکھی کھولی تھی اس کی آنکھیں ہر جذبے سے آری تھی۔۔۔ سیگریٹ فوراً ہاتھ سے ایش
ٹرے میں پھنکا تھا۔۔۔
وہ اٹھ
کر باتھ روم کی طرف گیا تھا۔۔۔ اس نے جیسے ہی بیسن کی ٹیپ کھول کر ہاتھ آگے کیا
اگلے ہی لمحے اس نے اپنا ہاتھ واپس کھینچا تھا۔۔ پانی کی جگہ خون نکلا تھا ٹوٹی سے
اس نے اپنا ہاتھ دیکھ تھا جس پر سرخ قطرے تھے ۔۔ شہزاد نے فوراً ٹیپ بند کی تھی
۔۔۔
کچھ
سوچتے ہوئے اس نے دوبارہ کانپتے ہاتھوں سے ٹیپ پھر سے کھولی تھی اس بار ہھر سے
پانی کی جگہ خون تھا ۔۔ اس منہ سے ایک چیخ
نکلی تھی ۔۔ دل کی دھڑکن بہت تیز ہو چکی تھی ۔۔ اس نے فوراً ٹوٹی بند کی تھی۔۔۔
شہزاد کی
چیخ سن کر اکرم صاحب ٹی-وی لاؤنج سے اس کے کمرے کی طرف بھاگے تھے ۔ جبکہ حدید اپنے
کمرے سے نکلا تھا۔۔ اور شہزاد کے کمرے میں گیا تھا۔۔۔
کیا ہوا
ہے شہزاد ؟؟ اکرم صاحب فورآ اس کے کمرے میں پہنچ کر بولے تھے۔۔ اور اس کو باتھ روم
کے دروازے کے پاس دیکھ کر چونکے تھے۔۔
خون ۔۔۔
شہزاد بس اتنا ہی بول پایا تھا ۔
خون؟؟
کدھر ہے خون؟؟ اکرم صاحب حیرت سے بولے تھے۔۔۔ جبکہ حدید نے بےزار سی شکل بنائی
تھی۔۔
واش بیسن
سے پانی کی جگہ خون نکل رہا ہے۔۔۔ شہزاد نے اکرم صاحب کی طرف دیکھتے اِشارہ واش
بیسن کی طرف کیا تھا۔۔
یار حد
ہو گئی ہے میں ابھی نہا کر نکلا ہوں میرے واش روم میں تو پانی آ رہا ہے ۔۔۔ اس کی
بات سن کر حدید بےزاری سے بولا تھا ۔۔۔
تو تمہیں
لگتا ہے میں بکواس کر رہا ہوں؟؟ شہزاد غصے سے بولا تھا۔۔۔ جبکہ اکرم صاحب نے آگے
بڑھ کر واش بیسن کی ٹیپ کھولی تھی ۔۔ اور حیرت سے موڑ کر شہزاد کو دیکھا تھا۔۔
تو بکواس
نہیں تو اور کیا ہے؟ اگر پانی کی جگہ خون ہوتا تو میرے واش روم میں بھی خون ہی آتا
پانی نہیں ۔۔ حدید اس کو دیکھتا بولا تھا۔۔۔
شہزاد تم
ہوش میں ہو ادھر پانی ہی آ رہا ہے؟؟ اکرم صاحب نے بیسن کی طرف اِشارہ کیا تھا ۔۔
ڈیڈ میرا
یقین کریں ادھر خون تھا۔۔۔ شہزاد پانی کو
دیکھ کر حیران ہوا تھا۔۔۔
کیسے کریں
یقین ؟ اکرم صاحب پریشانی سے بولے تھے ۔ انہیں تو سمجھ ہی نہیں آ رہی تھی شہزاد
کی۔۔۔
میرے
ہاتھ پر خون کے قطرے ہیں یہ دیکھیں ۔۔ شہزاد نے جب اپنے ہاتھ آگے کیے تو حیران ہوا تھا۔۔۔ کیونکہ اس کے ہاتھ کچھ کچھ
گلے تھے اور جو چند قطرے اس کے ہاتھ پر تھے وہ پانی کے تھے ۔۔
شہزاد
یار حد ہو گئی ہے ۔ تم چھوٹے بچے نہیں ہو۔۔ حدید ہنستے ہوئے بولا تھا ۔۔۔ جبکہ
شہزاد حیرت سے اپنے ہاتھوں کو اور کبھی ان دونوں کو دیکھ رہا تھا۔۔
میرا
یقین کریں ڈیڈ ۔۔۔ شہزاد نے کچھ بولنا چاہا تھا ۔
شہزاد
مجھے لگتا ہے تم نشے میں ہو۔۔ سو جاؤ اب۔۔ اکرم صاحب یہ کہہ کر کمرے سے باہر نکل
گئے تھے۔۔ جبکہ حدید نے اس کو ایک گہری نظر دیکھا تھا۔۔۔
نشہ کم
کیا کرو یار ۔ حدید افسوس سے اپنا سر نفی میں ہلاتا اس کو دہکھتے ہوئے بولا
تھا۔۔ اور کمرے سے باہر نکل گیا تھا۔۔
شہزاد
ایسے ہی کھڑا تھا۔۔ اپنے ہاتھوں کو دیکھ رہا تھا۔۔۔ جہاں پہلے سرخ قطرے تھے ۔۔ مگر
اب اس کے ہاتھ صاف تھے۔۔۔ اس نے آگے بڑھ کر دوبارہ سے ٹوٹی کھولی تھی۔۔ مگر اس بار
صاف پانی تھی۔۔۔ وہ مکمل طور پر پریشان ہو چکا تھا ۔ کبھی اپنے ہاتھ کو دیکھ رہا
تھا کبھی پانی کو ۔۔
•••••••••••••••
آپ کو
کیا لگتا ہے کون ہو سکتی ہے وہ؟؟ وہ اس وقت کبیر خاور کے کمرے میں بیٹھا ہوا
تھا۔۔۔
کچھ کہا
نہیں جا سکتا کون ہے وہ ۔۔ کنگ کچھ سوچتے ہوئے بولا تھا ۔۔۔
کیوں؟؟
صارم نے سوالیہ نظروں سے اپنے باپ کو دیکھا تھا۔
کیونکہ جن
گروپس کو میں جانتا ہوں ان میں کوئی بھی ایسی لڑکی نہیں ہے ۔۔۔ پتا نہیں یہ کون
ہے۔۔۔ کنگ کچھ سوچتے ہوئے بولا تھا۔۔ اور دوبارہ سے ہاتھ میں پکڑے فون پر نمبر
ڈائل کیا تھا۔۔۔
مگر ڈیڈ
۔۔ صارم نے کچھ بولنا چاہا تھا۔۔۔
صارم
صفدر ہاشمی کے بیٹے کا نمبر ہے تمہارے پاس ؟؟؟ کنگ پریشانی سے صارم کی طرف دیکھتے بولا تھا۔۔۔
ہاں ہے
نمبر مگر وہ کال اٹھا ہی نہیں رہا۔۔ صارم لاپرواہی سے بولا تھا ۔۔
کب سے
کال نہیں اٹھا رہا ۔۔ کنگ نے سوالیہ نظروں سے اس کو دیکھا تھا۔۔۔
جس دن ان
کو لڑکیاں بھیجی تھی اس کے اگلے دن سے نہیں اوٹھا رہا۔۔ صارم بےنیازی سے اپنے فون
پر گیم کھیلتا بولا تھا۔۔۔
اس سے
پہلے کوئی بات ہوئی تھی۔۔ کنگ اپنے بیڈ پر بیٹھتا بولا تھا۔۔ نہ جانے کیوں مگر اس
کو کچھ غلط ہونے کا احساس ہو رہا تھا۔۔
ہاں ۔۔۔
صارم مصروف انداز میں بولا تھا۔۔۔
صارم میں
تمہارا فون توڑ دوں گا۔۔ مجھے ٹھیک سے جواب دو۔ کبھی سیریس بھی ہو جایا کرو ۔۔ اس
کو گیم کھیلتا دیکھ کر کنگ غصے سے ڈھارا تھا۔۔۔ صارم کے ہاتھ سے فون گرتے گرتے بچا
تھا۔۔
ڈیڈ۔۔۔
اس نے حیرت سے اپنے باپ کی طرف دیکھا تھا۔۔۔
جو بکواس
کر رہا ہوں اس کا جواب دو مجھے۔۔ کنگ سخت نظروں سے اس کو دیکھتا بولا تھا۔۔
جس دن ان
کو لڑکیاں بھیجی تھی اس کے بعد میری اس سے کوئی دو گھنٹے بات ہوئی تھی۔۔ اس کال کے
بعد میری اس سے کوئی بات نہیں ہوئی ۔۔ صارم اب کی بار مکمل تفصیل دے چکا تھا۔
مجھے پتا
نہیں ایسا کیوں لگ رہا ہے جیسے کچھ غلط ہو رہا ہے۔۔ کنگ کچھ سوچتے ہوئے بولا تھا
۔۔۔
ویسے کچھ
صحیح تھا کب۔۔۔ صارم بےزاری سے بولا تھا۔۔۔
تم دفع
ہو جاؤ ادھر سے اس سے پہلے میں تمہارے چھیچھڑے کتوں کو ڈال دوں۔۔ اس کی بات سن کر
کنگ غصے سے بولا تھا۔۔ جبکہ صارم فوراً اپنی جگہ سے اٹھ کر بھاگا تھا۔۔
خبیث
انسان یہ بنے گا انڈر ورلڈ کا لیڈر ۔۔ کوئی لیڈروں والی بات ہے تجھ میں بے غیرت
انسان ۔۔ اس کو بھاگتا دیکھ کنگ سخت غصے سے ڈھارا تھا۔۔۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا
کہ اس وقت اپنا سارا غصہ صارم پر نکل دیں۔۔۔
•••••••••••••
اس کی
کار ابھی اس کے بلیک پیلیس کے باہر روکی تھی۔۔ جب اس کا فون بجا تھا۔۔ اس نے فوراً
کال اٹینڈ کی تھی۔۔۔
کہاں ہو
بیسٹ ؟ ولف کی آواز سپیکر پر سے گونجی تھی۔۔۔
سڑکوں پر
دھکے کھا رہا ہوں ۔۔ آ جا تو بھی جوائن کر لے ۔۔۔ بیسٹ تپ کر بولا تھا۔۔ جبکہ
دوسری طرف ولف کی دبی دبی ہنس نکل گئی تھی۔۔۔
ہنس لے
بیٹا جتنا ہنسا ہے ہنس لے وقت کیسی کے باپ کا نہیں ہے۔۔ ولف کی ہنسی سن کر بیسٹ جل کر بولا تھا۔۔
ویسے
کہاں ایک وقت تھا جہاں پورا اٹلی تمہارے اشارے پر ناچتا تھا۔۔ اور آج دیکھو تمہاری
بیوی نے تمہارے لیے ہر پناہ کی جگہ ختم کر دی اٹلی میں ۔۔ اور تو کچھ کر بھی نہیں
پا رہا۔۔ ولف اس کو مکمل چھیڑنے کے موڈ میں تھا۔۔۔
کرنے کو
تو میں کچھ بھی کر لو۔۔ مگر بیگم کے حکم کے آگے بندہ کیا کر سکتا ہے ۔ بیسٹ اپنی
سیٹ سے سر ٹیکاتا بولا تھا۔
تو زن
مورید کب سے بن گیا؟؟ ولف کی حیرت سے بھری آواز گونجی تھی ۔۔
کا کروں
یار مجبوری بن گیا ہوں زن مورید۔۔۔ بیسٹ سرد آہ بھر کر رہ گیا تھا ۔۔
اتںی
ٹھنڈی آہیں نہ بھر یار۔۔ مجبوراً تمہاری
یہ آہیں تیری بیوی کو سنانی پر جائیں
گئی۔۔ ولف ہنستے ہوئے بولا تھا۔۔
معافی دے
دے یار آگے اس نے پورے اٹلی میں میرے لیے جگہ نہیں چھوڑی ۔۔ اب کی بار دنیا میں
جینے لائق نہیں چھوڑے گئ۔۔۔ بیسٹ اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرتا بولا تھا۔۔
کس نہ
کہا تھا اس کو اپنی کاپی بنا۔۔ تو لے مزے اب ۔۔ ولف اپنے قہقہے کا گلا گھونٹتے
ہوئے بولا تھا۔۔۔
لے رہا
ہوں مزے ۔۔ تو اپنی زبان بند کر۔۔ بیسٹ کار سے باہر نکلتے بولا تھا۔۔
ویسے
باہر ٹھنڈ کم ہے نہ؟ ولف مزہ لیتے ہوئے پوچھ رہا تھا۔۔۔
نہیں
نہیں بہت گرمی ہے ۔۔ میں تو پسینے سے نہا گیا ہوں۔۔ بیسٹ تپ کر بولا تھا ۔۔ جبکہ
اس کی بات پر ولف کا فلک شگاف قہقہہ فون کے سپیکر سے گونجا تھا ۔۔
فون رکھ
اگر جان پیاری ہے۔ بیسٹ اب کی بار غصے سے بولا تھا جبکہ دوسری طرف ولف نے فورآ فون
رکھ بھی دیا تھا۔ کیونکہ وہ جانتا تھا مزید مذاق کے چکر میں وہ بیسٹ کے ہاتھوں مر
سکتا تھا ۔۔
•••••••••••
وہ باہر
بلکہنی میں کھڑی تھی اس نے ہاتھ بڑھا کر
گرتی ہوئی برف کو اپنے ہاتھ پر محسوس کیا تھا ۔۔اگلے ہی لمح اس نے سامنے سڑک پر
دیکھا تھا۔۔۔ جہاں وہ اپنی کار سے ٹیک
لگائے کھڑا اس کو ہی دیکھ رہا تھا ۔ اس کی سبز آنکھیں مسکرائی تھی۔۔۔
جزا بس
اس کو دیکھے جا رہی تھی رات کا کافی پھیر گزر چکا تھا۔۔۔ اور وہ ابھی تک باہر کھڑا
تھا ٹھنڈ میں چاہتا تو اپنی کار میں بھی رات گزار سکتا تھا۔۔۔ مگر وہ باہر کھڑا
تھا۔۔ نہ جانے کیوں مگر جزا کا دل بے چین ہوا تھا۔۔ وہ فوراً سے اندر کی طرف موڑی تھی اور کچھ دیر بعد
وہ اس کے سامنے کھڑی تھی۔۔۔
تم باہر
کیا کر رہے ہو۔۔ جزا اس کو دیکھتے بولی تھی ۔۔ جبکہ بیسٹ کو اس کی یاد داشت
پر شک ہوا تھا۔۔۔
محترمہ
شاید آپ ہی چاہتی تھی کہ میں باہر ٹھنڈ میں رہوں ۔۔ بیسٹ نے اس کی شہد رنگ آنکھوں
میں دیکھتے ہوئے کہا تھا۔۔۔
مگر تم
کار میں بھی تو بیٹھ سکتے تھے نہ۔۔ جزا نے اس کو غصے سے دیکھا تھا۔۔
تو ٹھنڈ
میں کیسے رہتا۔۔۔ بیسٹ نے جزا کی آزاد لیٹ اپنی انگلی سے اس کے کان کے پیچھے کیے
تھے۔۔ جب جزا نے اس کو دیکھا تھا۔۔۔ کیا نہ تھا اس وقت ان سبز آنکھوں میں جزا کا
دل تیزی سے ڈھرکا تھا۔۔
اپنی
جیکٹ پہنو اور اندر چلو ۔۔ جزا آس پاس نظریں دوڑاتی بولی تھی ۔
میں
سامنے کھڑا ہوں جزا۔۔ آس پاس نظریں کیوں دوڑاتی ہو ۔ بیسٹ اس کی حرکت کو نوٹ کرتا
بولا تھا۔۔
اندر چلو
بیسٹ ۔۔ جزا نے ہمت کر کے اس کی آنکھوں میں دیکھا تھا۔۔۔
اتنی
فکر۔۔ میں مر جاؤ گا جزا ۔۔۔ بیسٹ آنکھ ونک کر
مدہم آواز میں اس کے کان کے پاس جھک کر کہا تھا۔۔ جبکہ جزا کی بیٹ مس ہوئی
تھی۔۔۔
بھار میں
جاؤ تم فضول آدمی ۔۔ جزا اس کو غصے سے دیکھتے واپس موڑی تھی جب بیسٹ نے اس کا بازو
پکڑ کر اس کو اپنے قریب کیا تھا۔۔
جزا کا
ایک ہاتھ بیسٹ کے دل کے مقام پر تھا جبکہ دوسری بازو بیسٹ کے ٹھنڈے ہاتھ کی گرفت
میں تھی۔۔۔ جزا نے سر اٹھا کر اس کو دیکھا تھا۔۔ بیسٹ کی سبز آنکھیں شاید شہد رنگ
آنکھوں کو قریب سے دیکھنے کے لیے بےچین تھی تبھی آج ان کی چمک ہی الگ تھی۔۔
کیوں
نہیں مان جاتی کہ فکر ہے۔۔۔ بیسٹ اس کے کان کے قریب جھک کر بولا تھا۔۔۔
بیسٹ بازو
چھوڑا میرا۔۔۔ جزا چاہا کر بھی سخت نہ بول سکی تھی تھی۔۔
اپنی
بیوی کی بازو پکڑی ہے کیسی اور کی نہیں ۔۔ نہ اس کو پکڑنے کے لیے کیسی کی اجازت
چاہیے نہ اس کو چھوڑنے کے لیے کیسی کا حکم ۔۔ بیسٹ پر سکون انداز میں بولا تھا۔۔
جبکہ آج اس کے لہجے میں حق بول رہا تھا۔۔۔
جزا یک ٹک اس کو دیکھتی جا رہی تھی اس کے پاس آج الفاظ نہیں تھے بولنے کے
لیے ۔۔ جبکہ بیسٹ کے الفاظ اور اس کے لہجے میں بولتا حق جزا کی دھڑکنوں کی رفتار
کو تیز کر چکا تھا۔۔
اندر چلو
بیسٹ ۔۔۔ جزا نظریں جھکا کر بولی تھی اب کی بار۔۔ بیسٹ نے اس کی بازو کو نرمی سے
چھوڑا تھا۔
جیسے ہی
بیسٹ نے اس کا بازو چھوڑا وہ فوراً اندر کی طرف بڑھی تھی ۔ جبکہ وہ خاموشی سے اس
کے پیچھے چلا تھا ۔۔
••••••••••••••
اگلے دن صبح صبح ولف ، لیو اور گل پاکستان کے لیے نکل
گئے تھے۔۔ جبکہ جزا اور بیسٹ نے آج رات کو نکلنا تھا۔ جزا اس وقت اپنے کمرے میں
سامنا پیک کر رہی تھی جب اس کو کچھ یاد آیا تھا اور وہ فوراً بیسٹ کے کمرے کی طرف
بھاگی تھی۔۔۔
وہ اس کے
کمرے کے دروازے کے سامنے کھڑی تھی ۔۔ اس نے دروازے پر ہاتھ رکھا تھا اور دروازہ
کھلوتا چلا گیا ۔۔ وہ اب کمرے میں داخل ہو چکی تھی۔۔۔
ہم تو یہ
مسٹر سو رہا ہے ۔ جزا بیڈ کو دیکھتے ہوئے بولی تھی اور فوراً کمرے سے باہر جانے کے
لیے موڑی تھی۔۔ پھر ذہن میں آئے خیال کے تحت واپس اس کا روخ بیڈ کی طرف تھا۔۔
مسٹر
بیسٹ چلو آج آپ کی منہ دیکھائی ہو جائے ۔۔ وہ مدہم آواز میں یہ کہتی بیڈ کی طرف بڑھی تھی۔۔ اور جیسے ہی اس نے کمبل
کھینچا اس کے ساتھ ہی جزا کا منہ کھولے کا کھولا رہ گیا تھا۔۔ کیونکہ بیڈ خالی
تھا۔۔ ادھر کوئی بھی نہیں تھا۔۔۔
ہو گئی
میری مںہ دیکھائی ؟ بیسٹ ڈرسنگ روم کے پاس
کھڑا جزا کو دیکھتا بولا تھا۔۔۔ جبکہ جزا سخت نظروں سے اس کو گھور رہی تھی ۔۔
میں شاید
دنیا کی پہلی بیوی ہوں گئی جو اپنے شوہر کی منہ دیکھائی کرنے کے چکر میں ہے۔۔۔ جزا
غصے میں بولی تھی ۔۔ مگر جب اس کو احساس ہوا کہ وہ اپنے رشتے کا اعتراف کر بیٹھی
ہے جو وہ خود سے بھی نہیں کرتی تب جزا نے اپنے منہ پر ہاتھ رکھ لیا تھا۔
چلو شکر
ہے تم خود کو میری بیوی اور مجھے اپنا شوہر تو مانتی ہو۔۔ بیسٹ چلتے چلتے اس کے
قریب آ کر کھڑے ہوتے اس کے کان کے پاس جھک کر بولا تھا۔۔۔ مگر جزا اس کو سخت نظروں
سے گھور رہی تھی۔۔
ویسے
مجھے منہ دیکھائی میں کیا دو گئی۔۔ اس کو خاموش پا کر بیسٹ پھر سے بولا تھا ۔۔
زہر دوں
گئی ۔۔ جزا دانت پیس کر بولی تھی ۔۔
آپ کے
ہاتھوں سے تو زہر بھی قبول ہے۔۔ بیسٹ گھمیر لہجے میں بولا تھا۔۔۔
مسٹر
ہمارے پاسپورٹ کہاں ہیں ؟؟ جزا نے اب کی بار موضوع بدلا تھا۔۔
مسیز ہم
پرائیویٹ جیٹ سے جائیں گئے ۔۔ بیسٹ پرسکون سا بولا تھا۔
کیا مطلب
؟ جزا اس کو ناسمجھی سے دیکھنے لگی تھی۔۔
مطلب یہ
کہ جیسے آپ آئی تھی میرے ساتھ ویسے ہی واپس جائیں گئی۔۔ بیسٹ اپنا کوٹ پہنتا بولا
تھا۔۔۔
نکلنا کب
تک ہے۔۔ جزا اس کو دیکھتے بولی تھی۔۔
تمہارا
سامنا پیک ہے؟؟ بیسٹ اس کو دیکھتا ہوئے بولا
تھا۔۔
سامان
پیک ہے بیسٹ ۔۔ جزا اس کے سامنے کھڑی بولی تھی ۔۔
چلو پھر
نکلتے ہیں ۔۔۔ بیسٹ دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر اس کے گال کھینچتا بولا تھا۔۔ جبکہ
جزا منہ کھولے اس کی حرکت پر اس کو دیکھ رہی تھی ۔۔
ایسے نہ
دیکھو۔۔ آگے ہی بہت کیوٹ ہو تم۔۔ بیسٹ اس کی دوسری گال کھینچتا بولا تھا اور کمرے
سے باہر نکل گیا تھا ۔
میں
تمہارا سر پھار دوں گی بیسٹ ۔۔ میں کوئی چھوٹی بچی ہوں جس کی تم گال کھینچ رہے
ہو۔۔ جزا پیچھے سے غصے سے بولی تھی۔
مگر میری
بیوی ضرور ہو۔۔ بیسٹ بےنیازی سے بولتا آگے بڑھ گیا تھا۔۔۔
میں
تمہیں چھوڑوں گئی نہیں بیسٹ ۔۔۔ جزا اس کے پیچھے چلتے بولی تھی۔۔
کون
کمبخت کہہ رہا ہے آپ مجھے چھوڑیں محترمہ ۔۔ بیسٹ یہ کہہ کر سیڑھیاں اتر گیا تھا۔۔
جبکہ جزا پیر پٹختے اپنے کمرے میں چلی گئی تھی۔۔۔
••••••••••••••
ایک
پرائیویٹ جیٹ اس وقت آسلام آباد میں لینڈ کیا تھا۔۔ جزا اور بیسٹ دونوں جیٹ سے
اترے تھے۔۔ جب سامنے ہی ایک بلیک کلر کی مرسیڈیز کھڑی نظر آئی تھی وہ دونوں اب کار
میں بیٹھ کر آگے بڑھ گئے تھے۔۔ کار میں پھیلی خاموشی کو جزا نے توڑا تھا۔۔۔
کیا ہم
لاہور جا رہے ہیں ؟؟ جزا اس کو دیکھتے پوچھ رہی تھی جو اپنے لیپ ٹاپ کو کھولے کوئی
کام کرنے میں مصروف تھا۔۔
نہیں ہم
اسلام آباد میں رہیں گے ۔۔ بیسٹ مصروف سا بولا تھا۔۔
مگر میری
یونیورسٹی تو لاہور ہے۔۔ جزا کچھ سوچتے ہوئے بولی تھی۔۔
ٹرانسفر
ہو چکا ہے۔۔۔ بیسٹ نے مختصر سا جواب تھا ۔۔ جبکہ اس کی انگلیوں مسلسل کی بورڈ پر
چل رہی تھی۔۔۔
کیا مطلب
۔۔ کیسے؟ جزا حیرت سے اب کی بار اس کی طرف موڑ کر بیٹھی تھی۔۔
میرے لیے
کوئی کام بھی مشکل نہیں ہے جزا۔۔ بیسٹ نے ایک نظر اٹھا کر اس کو دیکھا تھا۔۔ اس
تمام عرصے میں وہ اس بات کا اندازہ لگا چکی تھی کہ بیسٹ کے لیے واقع ہی کوئی کام
مشکل نہ تھا۔۔
ویسے ہم
یہاں تمہاری فیملی کے ساتھ رہیں گے؟ جزا کچھ سوچتے ہوئے بولی تھی ۔ جبکہ اس کی بات
پر بیسٹ کی کی بورڈ پر چلتی انگلیاں روکی تھی ۔۔
نہیں ۔۔ میں
اپنی فیملی کے ساتھ نہیں رہتا۔ بیسٹ مدہم آواز میں بولا تھا ۔
مگر
کیوں؟؟ جزا اس کو دیکھ رہی تھی جو واقع ہی ایک پھیلی تھا۔
کیونکہ
مجھے میرے باپ نے گھر سے نکل دیا ہوا ہے۔۔ میرے کام کی وجہ سے۔۔ اس لیے اب اس بارے میں مزید کوئی سوال نہیں ۔۔۔
بیسٹ ایک ہی سانس میں ساری بات بول کر پھر سے لیپ ٹاپ کی سکرین کی طرف متوجہ ہوا
تھا۔۔
تو ایسے
کام کرتے ہی کیوں ہو کے باپ گھر سے نکل دے۔۔ جزا سیدھی ہر کر بیٹھتی خود کلامی میں
بولی تھی۔۔ اس بات سے انجان بیسٹ اس کی ساری بربر سن چکا ہے۔۔
ان کی
کار ایک عالیشان منشن کے سامنے جا کر روکی تھی۔۔ وہ دونوں کار سے نکل کر اندر کی طرف بڑھے تھے ۔۔
جہاں لیو، ولف اور گل پہلے ہی موجود تھے۔۔۔ گل جزا کو دیکھ کر فوراً اس کے گلے آ لگی تھی۔۔۔
جبکہ بیسٹ فوراً بیسمنٹ میں بنے میٹنگ روم کی طرف بڑھا تھا۔۔
اور اس
کے پیچھے ہی جزا ، ولف ، لیو اور گل بھی میٹنگ روم کی طرف گئے تھے۔۔۔
مجھے آپ
ڈیٹ چاہیے آج رات سفید حویلی میں کون کون ہے؟ بیسٹ ولف کی طرف دیکھتا بولا تھا۔۔۔
آج رات
سفید حویلی میں کنگ اس کا بیٹا ، عثمان ، اکرم اور عمران کے ساتھ ان کے بچے اور
کچھ سیاسی ممبر اور انڈیا کا کمانڈر لکشمن ہے۔۔ ولف اپنے سامنے کھرلے لیپ ٹاپ پر
دیکھتا بولا تھا ۔
بہت
خوب۔۔۔ مطلب ہم آج رات ہی جائیں گے۔۔۔ بیسٹ اپنی کرسی سے ٹیک لگاتا بولا تھا۔۔
مگر کس
لیے۔۔ جزا پوچھے بغیر رہ نہ سکی تھی۔۔
جو تحفہ
کنگ کے لیے رکھا تھا وہ دینے۔۔۔ بیسٹ جزا کو دیکھتا بولا تھا۔۔ جبکہ جزا جان گئی
تھی وہ کس تحفہ کی بات کر رہا تھا۔۔
مگر جائے
گا کون کون۔۔ لیو کچھ سوچتے ہوئے بولا تھا۔۔
میں ، تم
دونوں اور الپائن ۔۔۔ بیسٹ اپنی جگہ سے
کھڑا ہوتا بولا تھا۔۔
میں کیوں
نہیں جاؤ گئی؟؟ گل منہ بنا کر بولی تھی۔۔۔
تم بچی
ہو ابھی گل ۔۔ تو تمہیں زیادہ انوالو نہیں کر سکتے گل ۔ بیسٹ اس کے سر پر ہاتھ
رکھتا بولا تھا۔۔ جبکہ وہ اب کی بار منہ پھولا چکی تھی جس پر لیو ہنس پڑا تھا۔۔
اور بیسٹ نے اس کو فوراً سخت نظروں سے گھورا تھا۔۔۔
••••••••••••
سفید
حویلی میں اس وقت ہر طرف جشن کا سماں تھا۔۔ کیونکہ کنگ کے واپس سے اپنی جگہ پر آنے
کی خوشی میں جشن رکھا گیا تھا۔۔ وہ سب اپنی خوش گپیوں میں مصروف تھے۔۔۔ جب اچانک
سے بھاری بوٹوں کی آواز پر خاموشی چھا گئی تھی ۔۔
کیا ہوا کافی
خاموشی چھاگئی ہے۔۔۔ بیسٹ اگے بڑھتے ہوئے بولا تھا ۔ اور عین کنگ کے سامنے جا کر
کھڑا ہوا تھا۔۔۔
تم ادھر
کیا کر رہے ہو بیسٹ ؟؟ کنگ سخت نظروں سے دیکھتا بولا تھا۔۔
اس کی
عادت ہے رنگ میں بھنگ ڈالنے کی جہاں ہم تھوڑے سے خوش ہوں یہ ادھر پہنچ جاتا ہے۔۔۔
اس سے پہلے بیسٹ کوئی جواب دیتا صارم غصے سے بولا تھا۔۔۔
او تو تم
اپنا یہ چھوئی موئی بچہ بھی لے کر آئے ہو۔۔ بیسٹ صارم کو سر سے پیر تک دیکھتے بولا
تھا۔۔ اور اس کے سامنے جا کر کھڑا ہو گیا تھا۔۔جب صارم غصے سے کچھ بولنے لگا تھا
مگر بیسٹ کے ہاتھ کے اشارے سے خاموش ہوا تھا۔۔
وہ کیا
ہے نہ صارم مجھے بن بولیا مہمان بنے کا بہت شوق ہے اور جب جشن تم لوگوں کا ہو تو
میں اپنا آنا فرض سمجھتا ہوں۔۔ آخر کار ایک عرصے تمہارے باپ کو پہنا دی ہے ۔۔ اب
وہ نہیں بولتا تو الگ بات ہے مگر میں اس کی ہر خوشی میں آؤ گا نہ۔۔ بیسٹ صارم کو
دیکھتا بولا تھا۔۔ جبکہ صارم اس کو سرخ انکھوں سے دیکھ رہا تھا۔۔
تم کس
لیے آئے ہو بیسٹ ۔۔ کنگ خود کا کافی نارمل کرتے ہوئے بولا تھا۔۔
تمہیں
تمہاری واپسی کا تحفہ دینے آیا ہوں۔۔ بیسٹ پرسکون سا بولا تھا۔۔ جبکہ اس کے لہجے
کا سکون کنگ کا سکون غارت کر گیا تھا ۔۔
کیسا
تحفہ کون سا تحفہ ؟ کنگ اپنی جگہ سے اٹھا تھا ۔۔۔
جب لیو
نے اس کے سامنے ایک بیگ رکھا تھا۔۔ کنگ ناسمجھی سے کبھی بیسٹ کو دیکھ رہا تھا تو
کبھی اس بیگ کو۔۔ دوسری طرف بیسٹ کنگ کے سامنے کرسی کر کے ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر
بیٹھ گیا تھا ۔۔۔
بیگ کو
کھولو کیبر خاور۔۔۔ بیسٹ کنگ کے چہرے کے
تاثرات سے لطف اندوز ہوتا بولا تھا۔۔۔
کیا ہے
اس بیگ میں ۔۔ کنگ اس بیگ کی ظرف اِشارہ کرتا بولا تھا۔۔ اس کے ماتھے پر پسینے کے قطرے
صاف نظر آ رہے تھے۔۔
کھول کے
دیکھ لو ۔۔ اب کی بار ولف بولا تھا۔۔۔
کنگ نے
آگے بڑھ کر کانپتے ہاتھوں سے بیگ کھولا تھا۔۔ مگر انڈر پڑے صفدر ہاشمی اور اس کے
بیٹے کے سر کو دیکھ کر کنگ بے یقینی سے قدم پیچھے اٹھا چکا تھا ۔۔ اس کی آنکھوں
میں خوف ، غم ، بے یقینی کیا کچھ نہ تھا۔۔۔ وہ اپنی نشست پر گرنے والے انداز میں
بیٹھا تھا۔۔۔
کیسا لگا
تحفہ ۔۔ بیسٹ اپنی جگہ سے اٹھا تھا اور چلتا کنگ کے قریب کھڑا ہوا تھا اور جھک کر کنگ کے کان کے پاس بولا تھا ۔۔ جبکہ کنگ نے
بے یقینی سے بیسٹ کو دیکھا تھا ۔۔
تم نے
صفدر کو مار ڈالا ؟؟ کنگ کی آواز میں بے یقینی ہی بے یقینی تھی۔۔۔
نہیں تو
میں نے تو نہیں مارا۔۔۔ بیسٹ نے کندھے اوچکے تھے ۔
پھر کس
نے ۔۔۔ کنگ سوالیہ نظروں سے اس کو دیکھ رہا تھا۔
الپائن
کا نام نہیں سنا؟ بیسٹ کی آواز میں گونجتا طنز کنگ آسانی سے محسوس کر چکا تھا۔۔۔
کنگ کو
فوراً وہ نیوز یاد آئی تھی وہ کیسے بھول سکتا تھا اس نیوز کو ۔۔ تو الپائن بیسٹ کے
ساتھ تھی۔۔ یہ سوچ کر ہی کنگ کو پسینا آنے لگا تھا۔۔ وہ بیسٹ کی طاقت کو جانتا تھا
اس کے ساتھ الپائن جیسی لڑکی کا ملنا مطلب بیسٹ کی طاقت کو بڑھانا تھا۔۔۔ کنگ نے
اپنے ماتھے پر آیا پیسنہ صاف کیا تھا۔۔
اسی وقت
دوبارہ سے بھاری بوٹوں کی آواز آئی تھی ۔۔ بلیک پینٹ شرٹ پر بلیک لیدر کا لونگ کوٹ
پہنے سر پر بلیک کیپ اور منہ پر بلیک ماسک ایسے لگئےکے جب وہ سر اُٹھائے تو اس کی
صرف آنکھیں نظر آتی تھی۔۔ وہ بلکل بیسٹ کے جیسے حولے میں تھی ۔۔ اس کی شہد رنگ
آنکھوں میں وہ ہی قہر اور غضب تھا جو بیسٹ کی آنکھوں میں تھا۔۔۔ اس کی آنکھوں میں
سرخی نے جگہ لی تھی جب اس کی نظر شہزاد اکرم اور نواز عثمان پر گئی تھی۔۔ مگر وہ
خود کو نارمل کرتے آگے جا کر بیسٹ کے ساتھ کھڑی ہو گئی تھی ۔۔
اس لمحے
الپائن مکمل طور پر بیسٹ کی فی میل ورژن لگ رہی تھی ۔ یہ منظر مکمل تھا ۔۔مگر کیسی
کو یہ منظر بہت بری طرح چبا تھا ۔۔ اور وہ کوئی اور نہیں لینا لغاری تھی۔۔۔
الپائن
۔۔۔ کنگ بے یقینی سے بولا تھا۔۔۔
ہاں
الپائن ۔۔۔ بیسٹ نے اس کی بات کی تصدیق کی تھی۔۔
تو یہ
تیری ٹیم۔۔۔ صارم نے کچھ بولنا چاہا تھا۔۔۔ جب الپائن نے اس کو سخت نظروں سے دیکھا
تھا۔۔ اس کی نظروں کی سختی صارم کی چلتی زبان بند کروا چکی تھی۔۔۔
اپنی
زبان کو لگام دو ورنہ تیسرا سر تمہارا ہو گا۔۔ سمجھ آئی ۔۔ وہ چلتے ہوئے اس کے
سامنے آ کر روکی تھی ۔۔ اور جب بولی تو صارم کو سانپ سونگھ گئے تھے۔۔۔
تمہیں اس
کی قیمت ادا کرنی پرے گئی بیسٹ تم نے میرے دوست کو مارا ہے۔۔۔ میں تمہیں زندہ نہیں
چھوڑوں گا۔۔۔ کنگ غصے اور غم کی ملی جولی کیفیت میں دھاڑا تھا ۔۔
کیبر
خاور جو بھی کرنا ہے سوچ سمجھ کر کرنا یہ نہ ہو۔۔ میرا ہاتھ تمہاری گردن پہ ہو ۔ بیسٹ
پرسکون سا بولا تھا ۔ جبکہ کنگ بس اس کو دیکھ رہا تھا۔۔
اور ہاں
ویلکم بیک ۔۔۔۔ یہ کہہ کر بیسٹ موڑا تھا۔۔ اس کے ساتھ ہی الپائن (جزا) ، ولف اور
لیو بھی موڑے تھے۔۔۔
کنگ
خاموش سا ہو گیا تھا۔۔ وہ جان چکا تھا۔۔ اب وہ اپنے ہر مخلص ساتھ کو کھو چکا ہے۔۔
اور سب سے بڑھ کر اب بیسٹ اس کے خلاف کھڑا ہو گیا ہے۔۔ مطلب اب اس کی ایک غلطی ایک
غلط قدم اور بیسٹ کے ہاتھوں کنگ کی موت ۔۔۔
••••••••••••••
وہ دونوں
کلاس کی طرف بڑھ رہی تھی۔۔ آج نہ تو وہ پہلے کی طرح باتیں کر رہی تھی نہ ہنس رہی
تھی۔۔ آج ان کا نیا سیمسٹر شروع ہوا تھا۔۔ آج وقت پہلے جیسے نہیں تھا ۔
ٹھیک ہی
کہا جاتا ہے وقت کبھی پہلے جیسا نہیں رہتا۔ جیسے جیسے سال بدلتا ہے گزرا ہوا سال
ایک کل بن جاتا ہے ایک یاد بن جاتا ہے ایک ماضی بن جاتا ہے۔۔ جو انسان کے حال اور
مستقبل کے ساتھ جوڑا ہوتا ہے۔۔ کبھی بھی ایک دن میں بھی اگلا لمحہ ایک سا نہیں
ہوتا اگر ہم صبح میں خوش ہیں تو شام میں ہمیں کوئی بات ستاتی ہے۔۔ اگر ایک لمحے
دوستوں کی محفل سجھی ہے تو اگلے لمحے ہمیں اس محفل سے اٹھ کر بھی جانا ہے ۔ انسان
کی زندگی میں کبھی بھی وقت ایک سا نہیں ہوتا۔۔ ہر گزرتے منٹ ، سیکنڈ ، گھنٹے ، دن
،مہینے ، سال کے ساتھ وقت حالات سب کچھ بدل جاتا ہے۔۔ وقت کبھی نہیں روکتا وہ گزر جاتا ہے۔۔ اور بس
لاتعداد یادیں چھوڑ جاتا ہے۔۔ کبھی یہ وقت خوشی کا ہوتا ہے کبھی غم کا۔۔ انسان کی
زندگی میں وقت بہار کی طرح بھی ہوتا ہے خزاں کی طرح بھی کبھی اس کی تپش سورج کی
طرح گرم بھی ہوتی ہے تو کبھی یہ سرد ہوا ہوتا ہے جو تھرتھرانے پر مجبور کر دے ۔ ہر
کیسی کے لیے وقت ایک الگ چکر پر گھومتا ہے۔۔ اور آنے والے کل کی ایک نئے سرے سے
نوید دیتا ہے ۔۔
ایسی طرح
سے آج جس کوری ڈور سے وہ دونوں گزر رہی تھی۔۔کبھی اس کوری ڈور میں تین دوستوں کی
ہنسی گونجتی تھی۔۔ آج ایک بچھڑ گئی تھی تو باقی دو کی بھی مسکراہٹ ماند پڑھ گئی۔۔
لکچرر کے
دوران نور بار بار دروازے کی طرف دیکھ رہی تھی۔۔ کہ شاید ابھی کہیں سے جزا آ
جائے۔۔ مگر کچھ انتظار انتظار ہی رہ جاتے ہیں ۔۔ کچھ دفعہ ہماری آنکھیں کیسی کو
دیکھنے کی منتظر ہی رہ جاتی ہیں کیونکہ جن کا انتظار آنکھوں کو ہوتا ہے وہ ہم سے
بہت دور جا چکے ہوتے ہیں ۔۔
نور مت
دیکھو بار بار دروازے کی طرف ۔۔ آمنہ ہمت کر کے مدہم آواز میں بولی تھی۔۔۔
ہاں جیسے
تم نہیں دیکھ رہی ویسے نہ دیکھو؟ نور بھی مدہم آواز میں بولی تھی۔۔ امنہ فورآ
سیدھی ہوئی تھی۔۔ کیونکہ نور اس کی چوری پکڑ چکی تھی۔۔
جزا کے
بغیر دل نہیں لگ رہا یونی میں ۔۔ نور اور امنہ کین ٹین پر بیٹھی تھی جب نور ہاتھ
میں پکڑی فرائز واپس رکھتے بولی تھی۔۔
صحیح
کہتے ہیں دوستوں میں کوئی ایک موجود نہ ہو تو باقی سب نامکمل ہوتے ہیں ۔۔ آمنہ چیر
سے ٹیک لگاتے بولی تھی۔۔
ہمارے
گروپ کی رونق ہم تینوں تھی ۔ پتا نہیں کس منہوس نے نظر لگا دی۔۔ نور رو دینے کو
تھی۔۔۔
نور اگر
روئی تو اب تھپر ماروں گئی ۔۔ اس کی نم ہوتی آنکھوں کو دیکھ کر آمنہ فورا بولی
تھی۔۔
میں خوشی
سے نہیں روتی بس آنکھیں بھیگ جاتی ہیں ۔۔ نور مدہم آواز میں بولی تھی ۔۔ جبکہ آمنہ
نے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ پر رکھا تھا۔۔۔
وہ دونوں
ایک دوسرے کے دکھ سے واقف تھی تو کیسے نہ جانتی ایک دوسرے کو کیسے نہ دیتی سہارا
ایک دوسرے کو ۔۔ اس سارے حالات میں ان دونوں نے ایک دوسرے کو سنبھالا تھا۔۔ ایک
دوسرے کی ہمت بنی تھی۔
••••••••••••
کنگ مال
کب نکالنا ہے۔۔ لکشمن ہاتھ میں پکڑا وائن گلاس لبوں سے لگا چکا تھا ۔
کل
نکالنا ہے مال۔۔ تمہارے آدمی تیار ہیں نہ؟؟ کنگ کچھ سوچتے ہوئے بولا تھا۔۔ اس کی
آنکھیں سوجی ہوئی تھی اور سرخ ہو چکی تھی جیسے وہ بہت رویا تھا۔۔
ہاں میرے
آدمی تیار ہیں ۔۔ لکشمن کلاس کو وائن سے بڑھتا بولا تھا۔۔۔
ہم لوگ
آرمی کا دھیان دہشت گرد حملے کی طرف لگائے گئے ۔۔ ادھر وہ سٹوڈینٹز کو بچائیں گے
ادھر ہم مال پلین میں ڈال کر پاکستان سے باہر لے جائیں گے۔۔ اب کی بار اکرم صاحب
بولے تھے ۔۔۔
اس بار اسمگلنگ
سمندر کے راستے نہیں ہو گی؟؟ لکشمن گلاس رکھتا بولا تھا ۔۔
نہیں اس
بار ہوائی جہاز کے ذریعے اسمگلنگ کا سامان پاکستان سے باہر نکلا جائے گا۔۔ اب کی بار عمران لغاری بولے تھے۔۔۔
بہت خوب۔۔۔
اور یہ بتاو حملہ کرنا کس جگہ پر ہے؟ لکشمن کچھ سوچتے بولا تھا۔۔
بتا دیتے
ہیں جی۔۔ عثمان صاحب ہنستے ہوئے بولے تھے۔۔
اب وہ
سارا پلین لکشمن اور سب کو بتا چکے تھے ۔۔ جس کو سنتے ہی ان سب کے جاندار قہقہے
میٹنگ روم میں گونجے تھے۔۔۔ اس بات سے انجان کے کوئی اور ان کا پلین سن رہا ہے۔۔۔
•••••••••••••
جاری ہے
۔۔۔۔
امید
کرتی ہوں آپ سب کو آج کی قسط اچھی لگی ہو گی ۔۔ اور بہت پسند آئی ہو گئی ۔۔۔ اور
بہت بہت معذرت کے اس بات بہت دیر سے ایپیسوڈ دے رہی ہوں۔۔۔ ایپیسوڈ کے ریلیٹیڈ اچھے
اچھے ریویوز ضرور دیا کرو ظالموں ۔۔ اور دشت الف کے مطلق مزید اپڈیٹس کے لیے میرا
انسٹاگرام اکاؤنٹ فولو کر لو 🫣
Instagram ID : @urdunovelnests
اور میرے
ناول کے پیارے پیارے ریڈرز آپ سب کو نئے سال کی بہت بہت مبارک ہو ۔۔ اللّٰہ آپ کے
لیے آنے والا سال خوشیوں اور کامیابیوں سے بھرا ہوا کرے۔۔ اور آپ کی ہر جائز خوائش
کو آنے والے سال میں پورا کرے۔۔ دعاؤں میں ضرور یاد رکھنا سب۔
آپ کی رائیڑر: شازین زینب
Happy new year 💕
Don’t
forget to show some love on today’s episode, share with your friends and also
share your precious reviews. Must follow my Instagram ID for future updates.
You are doing a great job as a first novel of your journey I hope you will learn alot after copleting this stories and hope you may achieve this dream in your real life...Amin
ReplyDelete