بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
ناول
دشتِ الفت
شازین زینب
Ep # 21
وہ شیشے
کے سامنے کھڑی تیار ہو رہی تھی۔۔ اس نے
ریڈ ٹاپ کے نیچھے وائٹ پینٹ پہن رکھی تھی اور ساتھ بلیک کلر کا لونگ کوٹ پہنے اور
وائٹ سٹالر لیے وہ ہاتھ میں لائنر پکڑے کھڑی تھی۔۔ ایک نظر خود کو شیشے میں دیکھا
تھا اس نے۔۔۔
کچھ وقت
پہلے والی اور اب والی جزا میں زمین آسمان کا فرق تھا۔۔ پہلی جزا حاضر جواب تھی
پُراعتماد تھی ، اپنا وقار قائم رکھنا جانتی تھی۔۔مگر اب کی جزا حاضر جواب ،
پُراعتماد ، اور باوقار ہوںے کے ساتھ ساتھ نہ ڈر بھی تھی ، آنکھوں سے سامنے والے
کی جان نکل دینے کا ہنر رکھتی تھی، مشکلات کا سامنا وقار سے کرتی تھی۔۔ اس کی
آنکھوں میں شوخی کی جگہ سنجیدگی نے لے لی تھی۔۔ وہ اب اپنے آس پاس کے لوگوں کو پرکھنے
لگی تھی۔۔ اس کی زندگی کا مقصد ایک چھوٹے سے عرصے میں بدل گیا تھا۔۔ اور اس مقصد
نے اس کو سر سے پیر تک بدل دیا تھا۔۔۔
جب کوئی
انسان سب کچھ کھو دے اور پھر بدلے کی آگ میں جلتے انتقام کے راستے پر نکل پڑے تو
وہ سب سے پہلے اس بدلے کی نظر اپنے آپ کو چڑھتا ہے وہ شخص وہ بن جاتا ہے جو کبھی
اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا ۔۔۔ اور آج جزا شاہد اس بات کی جتی جاگتی مثال
تھی۔۔ وہ اب جزا شاہد نہیں رہی تھی وہ الپائن بن چکی تھی انڈر ورلڈ کی سب سے خطرناک
لڑکی ۔ جس نے اس جرم کی دنیا میں قدم رکھتے ساتھ تلوار کو ہاتھ کی زینت بنایا تھا۔۔۔
وہ وہ
رہی نہ تھی جو وہ کبھی ہوا کرتی تھی ۔۔ اس کی آنکھیں اس کے بیتے کل کی درد ناک
کہانی خود بتاتی تھی۔۔۔ جزا نے سختی سے آنکھیں میچ لی تھی ۔۔ گزرے دنوں کا ایک ایک
لمحہ ایک ایک منظر کیسی فلم کی طرف آنکھوں کے سامنے گزا تھا۔۔۔ ایک لڑکی جس کگ
سامنے اس کے گھر والوں کو مارا گیا۔ اس کی بہن کو بے آبرو کر کے قتل کیا گیا۔۔ وہی
لڑکی ہاتھ میں تلوار لیے نہ جاںے آج کتنی لڑکیوں کی عزت بچا رہی تھی ۔۔ نہ جانے اس
نے کتنے آدمی ایک رات میں مار گرائے تھے۔۔۔ وہ اس قدر سنگ دل ہو جائے گئی کہ یہ سب
کرتے اس کی روح ایک بار بھی نہی کانپے گئی اس نے کبھی سوچا نہ تھا۔۔ اس نے کبھی نہ
سوچا تھا وہ ایسے بے رحمی سے بھی کیسی کو مار سکتی ہے ۔۔ جزا نے فوراً سے اپنی
آنکھوں کھولی تھی ۔۔ وہ شہد رنگ آنکھیں بے خوف تھی ان کو کیسی بات کا ملال نہ تھا۔
مجھے میرے حالات نے سنگ دل بنا دیا بابا۔ میں وہ بن گئی جو شاید کبھی نہ بنتی۔
مجھے ان آدمیوں کو مارنے کا کوئی ملال نہیں بابا وہ ڈیزرو کرتے تھے ایسی موت۔۔ جزا
خود کلامی میں اپنے خیالوں میں اپنے باپ سے مخاطب تھی۔۔ اس نے ایک سرد آہ بھر کر
سامنے دیکھا تھا۔۔۔
ایک گہری
نگاہ اس نے خود پر ڈالی تھی اور کچھ سوچتے ہوئے اس نے ہاتھ میں پکڑا لائنر واپس
رکھا تھا۔۔ اپنا یونی بیگ اُٹھایا اور کمرے سے باہر نکل گئی تھی۔۔۔
گڈ
مارننگ ۔۔ اس کو سیڑھیاں اتر کے آتی دیکھ گل بولی تھی۔۔ جس کا منہ ٹوس سے بھرا ہوا
تھا۔۔
پہلے
ٹھوس لو اس کو بعد میں گڈ مارننگ بول لینا۔۔ جزا اس کے سر پر ہلکا سا تھپر لگاتے
بولی تھی۔۔ اور ایک بریڈ کا پیس اٹھا کر اس پر جیم لگانے لگ گئی تھی۔۔
وہ تینوں
کدھر ہیں ؟ بریڈ کے سلائس کو چباتے جزا نے
گل کہ طرف دیکھا تھا۔۔
ولف اور
لیو تو صبح صبح نکل گئے تھے پتا نہیں کدھر۔۔مگر بیسٹ روم میں ہے۔۔ گل جوس کا گلاس
واپس رکھتے بولی تھی۔۔
ہممممممم۔۔۔
وہ کچھ سوچتی دوبارہ سے اپنے ناشتے کی طرف متوجہ ہوئی تھی۔۔
اور تم
نے کالج کب جانا ہے؟؟ جزا نے اس۔ کو دیکھا تھا جو یونفارم پہنے بیٹھی تھی۔۔
بس نکل
رہی ہوں۔۔ گل اپنے جوس کا گلاس ختم کر کے اٹھی تھی۔
اور جزا
کی گال کھینچ کر اپنی جگہ سے اٹھ گئی تھی
اپنا بیگ اٹھا کر ۔۔ جبکہ جزا نے اس کو سخت گھوری سے نوازہ تھا۔۔ اور گل اس کو موڑ
کر ایک فلائے کس دیتی باہر بھاگی تھی۔۔
وہ مصروف
سے اپنا ناشتا کر رہی تھی جب اس کو سیڑھیاں اترنے کی آواز اس کی سماعت سے ٹکرائی
تھی۔۔
اس نے
موڑ کر دیکھا تھا۔۔ وہ بلیک کلر کی پینٹ شرٹ پر بلیک جیکٹ پہنے اور منہ کو بلیک ماسک سے ڈھکے سیڑھیاں
اتار کر نیچھے آیا تھا۔۔ شاید وہ کہیں جانے لگا تھا۔
اس نے
جزا کے سامنے پڑا جوس کا گلاس اٹھا لیا تھا ۔۔
یہ میرا
جوٹھا ۔۔ الفاظ جزا کے منہ میں ہی رہ گئے تھے کیونکہ وہ اس کی طرف پیٹھ کر کھڑا
کھڑا وہ جوس پی گیا تھا۔۔۔
ایسا بھی
کون سا نورانی چہرہ ہے تمہارا جو مجھ سے چھپاتے پھر رہے ہو کہ کہیں میری نظر نہ لگ
جائے ۔۔ جزا کو اس کی حرکت پر غصہ آیا تھا ایک تو وہ اس کے جوس کا گلاس اٹھا کر پی
چکا تھا دوسرا ایسے کھڑا ہوا تھا کے جزا
کو اس کا منہ نظر ہی نہ آ سکے۔۔ اب اپنا غصہ نکلنے کے لیے اس نے اپنی زبان کو ہی
زحمت دی تھی۔۔ کیونکہ وہ اس کو مارنے کے موڈ میں نہیں تھی۔۔
میرا
چہرہ نورانی ہے یا نہیں یہ مجھے نہیں پتا مگر ہیں میں خوبصورت ضرور ہوں۔۔ اور میں نہیں چاہتا ہے تم میری خوبصورتی دیکھ کر کمپلیکس
کا شکار ہو جاؤ ۔۔ اور کیا پتا تم مجھے نظر ہی لگا دو ۔۔ بیسٹ آنکھ ونک کر کے بولا
تھا اس کی سبز آنکھوں میں شرارت صاف نظر آ رہی تھی اور جزا اس کو کھا جانے والی
نظروں سے دیکھ رہی تھی۔۔
اور یہ
خوش فہمی کس نے ڈالی ؟؟؟ جزا ایک ائی برو
اٹھا کر اس کو دیکھنے لگی تھی۔۔
لڑکیوں
نے۔۔۔ بیسٹ اس کے کان کے پاس جھک کر کافی راز داری سے بولا تھا۔۔جبکہ اس کی اس بات
پر نہ جانے کیوں مگر جزا کو غصے آیا تھا۔۔
کون سی
لڑکیوں نے ؟؟ نہ چاہتے ہوئے بھی وہ بیسٹ کو گھورتے ہوئے بولی تھی۔۔
رینڈم
لڑکیوں سے سنا ہے۔۔ آتے جاتے ہوئے ۔۔ یو نو وہ کہتی ہیں میری آنکھیں بہت پیاری ہیں
۔۔۔ بیسٹ پرسکون سا بولا تھا ۔۔جبکہ اس کی
بات پر نہ جانے کیوں مگر جزا کو جلین ہوئی تھی اور وہ جلین اس کی آنکھیوں سے نظر
بھی آ رہی تھی۔۔۔
بڑا وقت
ہوتا ہے تمہارے پاس لڑکیوں سے کمپلیمنٹ سنے کا۔۔ جزا اس کو کھا جانے والی نظروں سے
دیکھتے ہوئے بولی تھی ۔
اپنی
تعریف سنا کس کو پسند نہیں ؟؟؟ وہ اس کے سامنے کھڑا بے نیازی سے بولا تھا۔۔۔
اگلی دفعہ
اگر ایسی چھیچھوڑی لڑکیوں کہ باتوں پر دھیان دیا یہ کمپلیمنٹ سنے بیٹھے تو تمہاری
ہڈیوں کا سرمہ بنا کر ان چڑیلیوں کی انکھوں میں ڈال دوں گئ۔۔ جزا اس کو شہادت کی
انگلی دیکھا کر غصے سے دیکھتے ایک ایک لفظ چبا چبا کر بولی تھی۔۔ جبکہ وہ اپنے
قہقہے کو کنٹرول کر رہا تھا۔۔ اگر وہ تھوڑا سا بھی ہنستا تو جزا واقع ہی اس کی ہڈیوں
کا سرمہ بنا دیتی ۔۔
تم جیلیس
فیل کر رہی ہو؟؟وہ کافی راز داری سے اس سے یہ سوال پوچھ رہا تھا۔۔۔۔
جلتی ہے
میری جوتی تمہاری ان چڑیلوں سے اور بھار میں جاو تم اور تمہاری وہ لڑکیاں ۔۔۔ فضول
آدمی ۔۔۔ جزا یہ کہہ کر اپنا بیگ اٹھا کر باہر کی طرف بڑھی تھی۔۔ اور وہ اس کے
پیچھے بھاگا تھا۔۔۔
اچھا بات
تو سنو ۔۔۔ وہ اس کے پیچھے باہر نکلا تھا۔۔۔
بجائے
مجھے بات سنانے کے تم تھوڑا وقت نکل کے مر کیوں نہیں جاتے ۔۔جزا غصے سے بولی تھی۔۔
اچھا وہ
کام بھی کر لوں گا آؤ پہلے تمہیں یونیورسٹی چھوڑ دوں ۔۔ وہ اس کے سامنے کھڑا بولا
تھا۔۔
اپنی ان لڑکیوں
سے کیوں نہیں پوچھتے ؟؟ شاید ان کو پیک اینڈ ڈراپ سروس کی ضرورت ہو۔۔جزا غصے سے
دیکھتے بولی تھی۔۔۔ اور یہاں بیسٹ اپنی
ہنسی پر کنٹرول نہ کر سکا اور اس کا جاندار قہقہہ گونجا تھا ۔
وہ بس
پنستا چلا گیا۔۔ نہ جانے وہ آج کتنے عرصے بعد ہنسا تھا اور وہ بھی دل سے ہنسا تھا
۔۔اس کی سبز آنکھوں کو کونے نم ہوئے لگے تھے۔۔ پہلے تو جزا اس کو غصے سے دیکھ رہی
تھی ۔ پھر اس کی اس جاندار ہنسی کو دیکھ کر مدہم سا مسکرائی تھی۔۔۔ جب وہ ہنستا ہنستا روکا تھا۔۔۔ اور جزا کو خود کو دیکھتا پایا تھا ۔
کیا اب
بھی کہو گئی کہ تم مجھے نہیں دیکھ رہی تھی ۔۔ وہ اس کو دیکھتا شوخ آواز میں بولا
تھا۔۔
نہیں آج
میں یہ نہیں کہوں گئی ۔۔۔ جزا مدہم آواز
میں بولی تھی۔۔۔
کیوں ؟
وہ اس کو دیکھتا رہ گیا تھا ۔۔
تمہاری
مسکراہٹ بتا رہی تھی تم بہت عرصے بعد ہنسے ہو۔۔ جزا اس کی سبز آنکھوں میں دیکھ کر
بولی تھی۔۔۔ اور ہاتھ بڑھا کر اس کی آنکھ کے کونے کہ نمی کو اپنی
انگلی کی پوروں سے چن چکی تھی ۔۔
بیسٹ نے
اپنی انکھی بند کر لی تھی ۔۔ جزا کی انگلیوں کا لمس اس کے روم روم میں سکون آتار
چکا تھا۔۔۔
••••••••••••
کمرے کی
لائٹس اوف تھی اور سورج کی ہلکی سی روشنی کھڑکی کی مدد سے کمرے میں داخل ہو رہی
تھی وہ روشنی بہت مدہم تھی۔۔ کیونکہ آگے پردے لگے ہوئے تھے۔۔
بیڈ پر
کوئی بغیر قمیض کے سو رہا تھا ۔ جب سورج
کی ایک لاپرواہ سی کرن اس کی آنکھوں میں پڑی تھی جس سے اس کی نیند ٹوٹ گئی تھی۔۔
اس نے اپنی اوشن گرین آنکھوں کو بامشکل کھولا تھا۔۔ اس کی آنکھوں کے کونے سرخ تھے۔۔۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر اپنا فون اٹھایا
تھا۔۔
فون کی
سکرین جیسے ہی اون ہوئی تو گیلری اوپن ہوئی تھی اور سامنے منظر پر ایک تصویر آئی
تھی۔۔ شاید وہ ساری رات وہ تصویر ہی دیکھتا رہا تھا اور کب اس کی آنکھ لگی وہ خود
بھی نہیں جانتا تھا۔ اس تصویر کو دیکھ کر ایک زخمی مسکراہٹ اس کے ہونٹوں کو چھو
گئی تھی ۔۔ اس کی آنکھوں میں نمی نے جگہ لی تھی۔۔۔ وہ اٹھ کر بیٹھا تھا۔۔ اپنے
بالوں میں اس نے ہاتھ پھیرا تھا۔۔
آپ کے نہ
ہونے سے کیسے سب کچھ بدل گیا ہے۔۔ موم۔۔ نوریز نم آنکھوں سے بولا تھا۔۔۔ اور پھر
اپنی آنکھیں صاف کرتا اٹھ کر باتھ روم میں چلا گیا تھا۔۔
ابھی وہ
فریش ہو کر نکلا ہی تھا جب نواز اس کے کمرے میں آیا تھا ۔۔
اےےےے۔۔
تجھے شرم نہیں ہے منہ اٹھا کر کہیں بھی آ جاتا ہے۔۔ اور تو اندر آیا کیسے۔۔ نوریز
جو واش روم سے صرف ایک ٹاول باندھ کر نکلا تھا اپنے کپڑے لینے کے لیے ۔۔ نواز کے
ایسے اندر آنے پر چیلا کر بولا تھا۔۔
زیادہ
چیخ نہ ۔۔ نہیں لوٹتا تیری عزت ۔۔ اور میں دروازے سے آیا ہوں۔۔ نواز بیڈ پر بیٹھتا
بولا تھا۔۔
ذلیل
انسان دروازہ لوک تھا ۔ اور تجھ جیسے ہوس کے مارے کا کیا بھروسہ کب نیت خراب ہو
جائے۔۔۔۔ نوریز اس کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھتا بولا تھا ۔۔
اس سے
کھول کے آیا ہوں۔۔ نواز نے ہاتھ میں پکڑی اس کے روم کی چابی اس کو دیکھائی تھی۔۔ جس
کو نوریز ایک لمحے میں اس کے ہاتھ سے لے چکا تھا۔۔۔ اور سرخ چہرے سے اس کو دیکھ
رہا تھا۔۔
اگر کوئی
کام نہیں تو دفع ہو جا اب ادھر سے۔۔ نوریز تپ کر بولا تھا ۔۔
ویسے ہی
کچھ دیر تمہارے کمرے میں آیا ہوں ۔۔ کام کوئی نہیں ۔۔ اور تم اتنا شرما کیوں رہے
ہو۔۔ نواز نے اس کو دیکھ کر آنکھ ونک کی تھی۔۔
کیونکہ
میں تیری طرح بغیرت نہیں ہوں مجھے شرم آتی
ہے ۔ نکل باہر میرے کمرے سے۔۔۔ نوریز نے اب کی بار دروازے کی طرف اِشارہ کیا تھا۔۔
تمیز سے
بات کر بڑا ہوں تجھ سے۔۔ نواز نے اس کو گھورا تھا۔۔۔
تجھ سے
تمیز سے بات کرنے سے پہلے مجھے خود پر لاکھ دفع لعنت بھیجنی پر جانی ہے کے کس بد
لحاظ ، بد تمیز اور بیغرت سے تمیز سے بات کر رہا ہوں۔۔ اور سوری ٹو سے تیرا بڑے بھائیوں والا آج تک
میری لائف میں رول نہیں رہا تو پلیز آج مجھے یاد نہ کروا تو میرا بڑا بھائی ہے ۔۔ تو
مہربانی کر اور بھار میں جا اب۔۔ نوریز نے اپنی واڈ ڈروب سے ایک ٹی شرٹ نکلتے ہوئے
کہا تھا۔ جبکہ نواز ہنس ہنس کر لوٹ پھوٹ ہو رہا تھا اس کی باتوں کو سن کر۔۔
ویسے
نوریز اچھی بھلی باڈی ہے تیری کیسی کی بھی نیت خراب کو جائے تجھ پر۔۔ نواز اس کو
دیکھتا آنکھ ونک کر کے بولا تھا۔۔۔
کیسی کی
بھی ہو جائے بس اللہ نہ کرے تیری ہو ۔۔۔ نوریز نے باقاعدہ ہاتھ اٹھا کر دعا مانگی
تھی ۔ جب نواز کا فلک شگاف قہقہہ گونجا تھا ۔۔
اور اللہ
نہ کرے لینا لغاری کی بھی تجھ پر نیت خراب ہو۔۔ نواز نے اب کی بار ہاتھ بلند کر کے
دعا کی تھی۔۔۔
نواز
ذلیل انسان ۔۔ تو مر جا ۔۔ تجھے کتے پڑھے ۔۔ میں تیری بوٹی بوٹی کر دوں گا۔ نوریز
اس کی دعا سن کر غصے سے ڈھارا تھا اور اس کی طرف لپکا تھا۔۔
میرے پاس
نہ آئی ٹاول کھول دوں گا۔۔ نواز باقاعدہ بیڈ پر کھڑا ہوتا بولا تھا۔۔ اور ہنس ہنس کر دھورا ہو رہا تھا۔۔۔ جبکہ اس کی
دھمکی کار آمد ثابت ہوئی تھی اور نوریز روک گیا تھا۔۔
لڑکوں
کیا شور مچا رکھا۔۔۔ عثمان صاحب جو شور کی
آواز پر ابھی نوریز کے کمرے میں آئے تھے اندر کا منظر دیکھ کر روک گئے تھے۔۔
نواز بیڈ
پر چڑھا ہوا تھا۔۔۔ نوریز کے گلے میں ٹی شرٹ ٹلک رہی تھی اور اس نے ٹاول باندھ
رکھا تھا۔۔۔
تم دونوں
پلے گروپ کے بچے ہو؟؟؟ عثمان صاحب حیرت سے
بولے تھے ۔۔۔
اس کو
بولیں میرے کمرے سے نکلے ۔۔۔ نوریز ان کی طرف روخ کر کے بولا تھا۔۔۔
میں نہیں
جا رہا۔۔ نواز اب اس کے بیڈ پر پیھل کر بیٹھ گیا تھا۔۔۔
میں بتا
رہا ہوں آپ کا یہ لال مر جائے گا میرے
ہاتھوں ۔۔ نوریز غصے میں بولا تھا۔۔
ویسے ڈیڈ
اس سے پوچھے اس کو غصہ کس بات پر آیا ہے ۔ نواز نے اب تکیا گود میں رکھتے کہا
تھا۔۔۔
ایک احسان
کرے گا مجھ پر ؟؟ نوریز اس کو گھورتے ہوئے بولا تھا۔۔
حکم کر۔۔
نواز بےنیازی سے بولا تھا۔۔۔
اپنا
منحوس منہ نہ دیکھا مجھے۔۔ مر جائے گا مجھ سے کیسی دن ۔۔۔ نوریز اپنے گلے سے ٹی
شرٹ نکال کر اس کے منہ پر مارتا ۔۔ واپس
اپنی واڈ ڈروب کی طرف بڑھا تھا۔۔۔
تم دونوں
کو کوئی لحاظ ہے کہ باپ کے سامنے بکواس کر رہے ہو؟؟عثمان صاحب غصے سے بولے تھے۔۔۔
اس سے
پہلے پوچھے یہ میری اجازت کے بغیر میری روم کی سے میرا کمرا کھول کر اندر کیوں آیا
۔۔۔ نوریز عثمان صاحب کی طرف دیکھتا بولا تھا ۔ جبکہ اس کی بات سن کر عثمان صاحب
کا جوتا ان کے ہاتھ میں تھا۔۔
اس لڑکے
نے شرم تو ویسے ہی بیچئ دی ہے۔۔ عثمان صاحب غصے سے آگے بڑھے تھے جب کہ نواز فورآ
بیڈ سے اترا تھا۔۔
یہ خبر
آپ کو کس نے دی ؟؟ کہ میں نے شرم بیچی ہے ۔
یہ تو بات میں نے پرائیویٹ رکھی تھی۔۔ نواز حیرت سے بولا تھا۔۔ جبکہ اس کی بات سن کر عثمان۔ صاحب کا بی پی شوٹ ہو گیا
تھا۔۔ اور انہوں نے جوتی فوراً اس کی طرف پھینکی تھی جو سیدھا اس کی کمر پر لگی
تھی۔۔۔
خبیث
انسان دفع ہو جا ۔۔ شکل نہ دیکھائی اپنی ۔۔ عثمان صاحب غصے سے چیلائے تھے ۔جبکہ
کمرے کے باہر سے نواز کے قہقہوں کی آواز آ رہی تھی ۔۔۔
تم اپنے
کپڑے پہن کر جلدی اوفس پہنچوں آج کافی کام ہے۔۔عثمان صاحب اس کو دیکھتے ہوئے مسکرا
کر بولے تھے۔۔۔
سنو ؟؟
ابھی وہ واش روم میں جاتا جب عثمان صاحب نے اس کو آواز دی تھی۔۔۔
کوئی گرل
فرینڈ وغیرہ ہے ؟؟ عثمان صاحب چور نظروں سے اس کو دیکھتے ہوئے بولے تھے۔۔۔
حد ہو
گئی۔۔ نوریز کا دل کیا تھا اب اپنا سر دیوار میں مار دے۔۔۔
نہیں
کافی۔ ہینڈسم ہو۔۔ عثمان صاحب نے اپنی ہنسی دبائی تھی۔۔۔
اس کا دل
جس پر فدا ہے نہ۔۔وہ اس کو گھاس بھی نہیں ڈالتی ۔۔ نوریز سے پہلے نواز بولا تھا جو
ابھی ابھی پھر سے ادھر آیا تھا۔۔۔
اس کو
میں واقع ہی مار دوں گا آج ۔۔۔نوریز اپنے کپڑے بیڈ پر پھینکتا نواز کی طرف لپکا
تھا۔۔جب کہ درمیان میں کھڑے عثمان صاحب ان نوریز کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرنے لگ
گئے تھے۔۔ نہیں تو آج نواز کا آخری دن ہوتا۔۔۔
تم مجھے
سے بات نہیں کرتے نوریز ۔۔ عثمان صاحب نواز کے ادھر سے جانے کے بعد بولے تھے۔۔۔
کرتا تو
ہوں۔۔ نوریز بس اتنا ہی بولا تھا۔۔۔
تم صرف
بات کا جواب دیتے ہو۔۔۔ عثمان صاحب اس کو دیکھتے بولے تھے۔۔
نہیں بس
آپ کو لگتا ہے ۔۔ نوریز یہ کہہ کر اپنے کپڑے لے کر پھر سے واش روم میں چلا گیا
تھا۔۔ جبکہ عثمان صاحب ادھر خاموش کھڑے تھے ۔۔
••••••••••••
مال کدھر
ہے شہزاد ؟؟ لکشمن کی آواز فون کے سپیکر پر سے گونجی تھی۔۔۔
ویسے ایک
بات میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں تمہاری روح میں صبر نام کی چیز نہیں ڈالی گئی۔۔۔
شہزاد جو کیسی فائل کو دیکھ رہا تھا بےزار سا بولا تھا ۔۔
بات سنو
اکرم کے بیٹے ۔۔۔ لکشمن نے کچھ بولنا چاہا تھا۔۔۔
شہزاد
اکرم ۔۔۔ میرا نام شہزاد اکرم ہے اس نام سے ہی بلاؤ۔۔۔ شہزاد دانت پیس کر بولا تھا۔۔۔
شہزاد
اکرم مجھے مال جلد اذ جلد چاہیے ہے۔۔۔ لکشمن بھی اس کے ہی انداز میں بولا تھا۔۔۔
مال
نکلنے لگا ہے لکشمن ۔۔ اپنے کتوں سے کہہ کر پلین کا دوسرا حصہ شروع کرواؤ بجائے
میرے ساتھ زبان چلانے کے ۔۔ یہ کہہ کر شہزاد نے فون رکھ دیا تھا۔۔۔
ابھی وہ
فون رکھ کر ہٹا ہی تھا کہ نوریز اور نواز اس کے اوفس میں آئے تھے ۔۔
منہوس
انسانوں ٹائم دیکھا ہے تم لوگوں نے۔۔۔ ان کو دیکھتے ساتھ شہزاد تپ کر بولا تھا۔۔۔
سلام دعا
تو کر لے۔۔۔ نواز آگے بڑھ کر اس کے گلے لگا تھا۔۔
تیرا منہ
نہ توڑ دوں؟؟ شہزاد نے اس کو دور دھکیلا تھا ۔۔
ہوا کیا
ہے غصے میں کیوں ہے ۔۔ نواز نے اب کی بار اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا۔۔
ذلیلوں
تم دونوں کو میں نے کہہ تھا ٹائم سے پہچانا مال نکلوانا ہے اور تم دونوں اب آ رہے
ہو۔۔۔ شہزاد نے نواز کا گریبان پکڑ لیا تھا۔
میں تو
کہتا ہوں اس کا مںہ توڑ ہی دو آج ۔۔ نوریز جل بھون کر بولا تھا۔۔
تو میرا
بھائی نہیں ہو سکتا۔۔۔ نواز افسوس سے اس کو دیکھتا بولا تھا۔۔
مجھے شوق
بھی نہیں تیرا بھائی بنے کا۔۔ نوریز سخت نظروں سے گھورتا بولا تھا۔
تم دونوں
بعد میں لڑ مر لینا پہلے یہ بتاؤ دیر سے کیوں آئے ہو؟؟. شہزاد نے نواز کو دور
دھکیلا تھا۔۔
اپنے
چاہیتے سے پوچھ لو۔۔ نوریز شہزاد کی طرف دیکھتا بول کر انٹر کوم اٹھا چکا تھا۔۔۔
یار
معافی دے دے۔۔ نواز نے شہزاد کو گلے لگا لیا تھا۔۔
مر جا
کہیں جا کر۔۔ شہزاد نے اس کو پھر سے دور دھکیلا تھا۔۔
اچھا یہ
بتا مال بھیج دیا ہے کہ نہیں؟؟ نواز اب
سنجیدہ ہو کر بیٹھتا بولا تھا ۔۔
بھیج دیا
ہے تم لوگوں کے انتظار میں بیٹھتا تو یقیناً ابھی تک کنگ ہمارے گوشت کی بریانی کھا
رہا ہوتا ۔۔۔ شہزاد غصے سے بولا تھا۔۔۔
بریانی
سے یاد آیا چلو یار کچھ کھانے چلتے ہیں ۔۔۔ نواز سیدھا ہو کر بیٹھا تھا۔۔۔
یہ کون
سا نشہ کر کے آیا ہے؟؟ شہزاد نوریز کی طرف دیکھ کر بولا تھا۔۔
یہ مجھے
شاید تم سے پوچھنا چاہیے ۔۔۔ کیونکہ یہ جب سے گھر آیا ہے تب سے ایسے ہی ہے ۔۔۔
نوریز نے اب کی بار نواز کی طرف سخت نگاہ ڈالی تھی۔۔
اس کا
کچھ نہیں ہو سکتا۔۔ شہزاد نے سرد آہ بھر کر اپنے سر کو پکڑا تھا۔۔۔۔
•••••••••••••
بولو کیا
خبر ہے ؟؟ وہ فون کان سے لگائے بولا تھا۔۔۔
بیسٹ وہ
لوگ آج لڑکیاں اور اسلحہ اسمگل کرنے لگے ہیں مگر پلین کی مدد سے۔۔۔ دوسری طرف سے
وہ آدمی رازداری سے بولا تھا۔۔
لوکیشن؟ بیسٹ نے یک لفظی سوال کیا تھا۔۔۔
بیسٹ
لوکیشن بھیج دی ہے۔۔ وہ آدمی فوراً بولا تھا۔۔
گڈ چلو
میں دیکھتا ہوں۔۔۔ یہ کہہ کر بیسٹ فون رکھنے ہی لگا تھا۔۔ جب مقابل بولا تھا۔۔۔
بیسٹ بات
سنو ۔۔۔ ایک بہت اہم بات بتانی ہے تمہیں ۔۔اس ادمی نے بولنا شروع کیا تھا اور اس
کے ساتھ ہی بیسٹ کی آنکھوں میں غصہ صاف نظر آنے لگا تھا۔۔۔
اور کچھ
دیر میں اس کے سب آدمی اس کے سامنے کھڑے تھے اور وہ ان سب کو کچھ ہدایات دے رہا
تھا۔۔۔
•••••••••••••
یہ منظر قائد
اعظم یونیورسٹی کا تھا۔۔ جزا کلاس میں سب
سے اینڈ پر خاموش سے بیٹھی تھی۔۔ اور
سامنے کھڑے پروفیسر کو دیکھ رہی تھی جو کے اپنا آج کا لیکچر دے رہے تھے۔۔۔ اس کی
آنکھوں میں اداسی صاف نظر آ رہی تھی۔۔ اس کو بار بار نور اور آمنہ کی یاد آ رہی
تھی۔۔ ابھی کچھ وقت ہی گزرا تھا جب اچانک
سے ایک دھماکہ کی آواز اس خاموشی میں پھیلی تھی۔۔۔
اور اس کے
ساتھ ہی چیخوں کا شور فضا میں بلند ہوا تھا۔۔۔ جزا ایک لمحے کے لیے سمجھ نہ پائی
مگر جب سب بچوں کو کلاس سے بھاگتے دیکھا تو اس کو اندازہ ہوا تھا کہ وہ آواز کس
چیز کی تھی۔۔۔
بچے جلدی
اٹھو باہر کی طرف جاؤ ۔۔ ایمرجنسی گیٹ کی طرف بھاگو ۔۔ پروفیسر سب بچوں کو باہر
نکل رہے تھے۔۔ جب جزا بھی اپنی جگہ سے اٹھی تھی۔۔
وہ ابھی
باہر نکلی تھی اور اپنے باقی سب فیلوز کے ساتھ بھاگ رہی تھی۔۔ جب اچانک سے گولیاں
چلنے کی اواز آنے لگ بئی تھی۔۔۔
کچھ سٹوڈینٹ گولیوں کا نشانہ بنتے اس کے سامنے زمین
بوس ہوئے تھے ۔۔۔
•••••••••••••
رہداری
میں بھاری بوٹوں کی آواز آ رہی تھی۔۔۔ اس نے خاکی رنگ کے میلٹری شوز پہنے ہوئے تھے
۔ خاکی یونیفارم پہنے سر پر کیپ پہنے ۔ منہ کو ماسک سے ڈھکے اور ہاتھوں میں سیاہ
رنگ کے گلوز پہنے وہ رہداری میں سے گزرا رہا تھا۔۔۔ اس کی چل باوقار تھی، اس کی
نیلی آنکھیں میں اس وقت سمندر میں آنے والے طوفان سے پہلے کی خاموشی تھی، وہ چلتا
ہوا اپنے اوفس کی طرف بڑھا تھا۔۔۔ ابھی وہ آفس میں داخل ہوا ہی تھا کہ اس کو سامنے
ہی سکندر اور فاروق بیٹھے نظر آئے تھے۔۔۔
تم دونوں
اب ادھر کیا کر رہے ہو؟؟؟ ایم -زی آنکھوں
میں سرد مہری لیے بولا تھا۔۔
جہاں آپ
وہاں ہم؟؟ فاروق بےنیازی سے بولا تھا۔۔
یہ آپ
جناب بند کرو اور یہ بتاؤ یہاں کیوں آئے ہو؟؟ جب تم لوگوں کو بولا تھا کہ کچھ وقت لاہور میں رہو تو مسئلہ تھا؟؟
ایم-زی اپنی کیپ ٹیبل پر بٹختے بولا تھا۔۔۔
خیر ہے
غصے میں ہو تم کافی؟؟ سکندر سنجیدگی سے
بولا تھا۔۔۔
بہت سی
لڑکیاں لاپتہ ہوئی ہے ایک دن میں۔۔ اور پولیس کو پتا تک نہیں چلا یہ سب کب اور
کیسے ہوا ہے۔۔۔۔ ایم-زی غصے سے بولا تھا۔۔۔
پولیس کو
کیسے نہیں پتا چلا ؟؟ فاروق حیرت سے بولا تھا۔۔۔
جس کو
پتا چلا اور جس نے سارا ڈیٹا بنایا اس کو راتوں رات اس سارے ڈیٹے کے ساتھ سولا دیا
گیا ہے۔۔ کیا یہ کافی نہیں معلومات کے لیے کہ پولیس کو کیوں نہیں پتا؟؟؟ ایم-زی نے
اپنے ٹیبل پر پڑی فائل فاروق کے سامنے کی تھی۔۔۔
پولیس کو
خاموش کروانا آسان ہے مگر آرمی کو خاموش کروانا ناممکن ہے۔۔۔ مُجھے ساری کی ساری
ڈیٹیل نکل کر دو کہ یہ سب کس نے کیا؟ لڑکیاں کون کون ہیں ؟ اور اس وقت کدھر ہیں
۔۔۔ ایم-زی نے فاروق کو فورآ اوڈر دیا تھا ۔۔ جو اس کی بات سنتے ساتھ بغیر کچھ بولے
اپنی جگہ سے اٹھا تھا اور وہ فائل لے کر لیپ ٹاپ اون کر کے دور پڑے صوفے پر جا کر
بیٹھ گیا تھا۔۔۔
سکندر سلطان
کے پاس جاؤ ۔۔۔ اس کو ضرور کچھ نہ کچھ پتا ہو گا۔۔۔ اور حانی کو میسج کر دو کہ
اپنی آنکھیں اور کان کھولے رکھے۔۔۔ ایم- زی یہ کہتے ساتھ اپنا لیپ ٹاپ اون کر کے بیٹھ گیا تھا۔۔۔
اور اگلے
ہی لمحے ایک یو اس بی کو لیپ ٹاپ پر لگا
کر اس کے ڈیٹا کو ریکوار کرنے کی کوششیں کرنے لگا تھا ۔۔۔ جب اچانک سکندر بھاگتا
ہوا اوفس میں داخل ہوا تھا۔۔۔
ایم-زی ٹیم
ریڈی کرو ۔۔ یونیورسٹیز پر اٹیک ہوئے ہیں
۔۔ سکندر پھولی ہوئی سانس سے بولا تھا۔۔۔ جبکہ ایم-زی کی کی بورڈ پر چلتی انگلیاں
روکی تھی ۔۔۔
کیا
بکواس کر رہے ہو۔۔۔ دہشتگردی کا تو کافی حد تک خاتما ہو گیا تھا۔۔ کافی حد تک یہ
سب حادثات کنٹرول میں تھے۔۔ اور اب پھر سے۔۔۔ ایم-زی اپنی جگہ سے اٹھا تھا۔۔۔
یہ ہی
بات سمجھ سے باہر ہے ایم-زی ۔۔ فوراً میلٹری بلوائی گئی ہے ۔۔سکندر ایم-زی کے
سامنے ایک شیٹ کرتا بولا تھا۔۔۔
یہ سب۔۔۔
ایم-زی کچھ سوچنے لگا تھا ۔۔
ایم-زی
۔۔ سکندر نے کچھ بولا چاہا تھا۔۔ جب ایم-زی کے اوفس میں پڑا فون بجا تھا۔۔ اس نے
ایک لمحے میں فون اُٹھایا تھا۔۔۔
بولو۔۔۔
وہ جانتا تھا فون کرنے والا کون ہے تبھی مدہم لہجے میں بولا تھا۔۔۔
ایم -زی ایک
یونیورسٹی کو ہم لوگ کوار اپ دینے جا رہے ہیں ۔۔ دوسری کو تم لوگ ریسکیو کرو۔۔۔ مقابل
کی آواز سپیکر پر سے گونجی تھی ۔۔
کتنی یونیورسٹی کو ٹارگٹ کیا گیا ہے؟۔۔ ایم-زی کچھ
سوچتے بولا تھا۔۔۔
اسلام
آباد کی دو بڑی یونیورسٹی کو ٹارگٹ کیا گیا کے۔۔ دو پلٹون تیار کی گئی ہیں ایک
میری تھی دوسری تمہاری ہے جلدی سے نکلو ہم بس پہنچ گئے ہیں۔۔۔۔۔ مقابل فوراً بوا
تھا۔۔
اپنا
خیال رکھنا۔۔۔ ایم-زی یہ کہتے ساتھ فون رکھ چکا تھا ۔۔
•••••••••••••••
سب بچے
اپنے اپنے بچاو کے لیے ادھر اُدھر بھاگ رہے تھے۔۔ نہ جانے وہ کون سے لوگ تھے۔۔ جنہوں
نے اپنے چہروں کو سیاہ رنگ کے اور مختلف رنگوں کے کپڑوں سے ڈھکا ہوا تھا ۔۔ اور وہ
اندھا دھن گولیاں چلا رہے تھے ۔۔
چند
لمحوں میں یونیورسٹی کا فرش سٹوڈینٹز کے خون سے تر ہو چکا تھا۔۔۔ اگلے کچھ لمحوں میں مین انٹریس ، بیک
انٹریس سے آرمی کے اوفسر اندر داخل ہوئے
تھے ۔۔ اور ہیلی کاپٹر کی آواز سنائی دینے لگی تھی۔۔۔
آرمی
یونیورسٹی میں داخل ہو چکی تھی۔۔۔ ایک پیلٹون سٹوڈینٹز کو محفوظ کرتے یونیورسٹی سے باہر نکالنے میں مصروف تھی
جبکہ باقی اوفیسر کی پیلٹون دہشتگردوں کے ساتھ مقابلہ کر رہی تھی ۔۔
ایم-زی
سب سے آگے تھا۔۔۔ وہ گولیاں کا جواب گولیوں سے دیتا آگے بڑھ رہا تھا۔۔ جبکہ سکندر
دوسری طرف کچھ آفیسرز کے ساتھ دہشتگردوں کا مقابلہ کر رہا تھا۔۔ فاروق اور اس کے
ساتھ کچھ آفیسرز سٹوڈینٹز کو باحفاظت یونیورسٹی سے نکالنے میں لگے تھے اور ساتھ
مسلسل چلتی گولیوں کا جواب دے رہے تھے ۔۔۔
یونیورسٹی
میں ایک کہرام برپا تھا۔۔۔ ایسی بھگڈر میں
ایم-زی کی نظر ایک منظر پر روک گئی تھی۔۔۔ وہ وہی تھی۔۔۔ وہ ہی شہد رنگ بال ، شہد
رنگ آنکھیں ۔ بے انتہا خوبصورت چہرہ ۔۔ وہ جزا شاہد تھی۔۔۔ شاہد الف کی بیٹی
۔۔۔ وہ خود کو کیسی محفوظ جگہ چھپانے کی
کوشش کر رہی تھی ساتھ مسلسل اپنے بیگ میں ہاتھ ڈال کر کچھ ڈھونڈ رہی تھی ۔۔
ایم -زی
کو لگا وہ اس کا وہم ہے مگر اس کو یقین تب آیا تھا جب وہ اس کے قریب سے بھاگ کر
گزری تھی ۔۔ ایم -زی نے ایک نظر اس کو دیکھا اور پھر اس کی نظر ایک آدمی پر گئی
تھی جس کے نشانے پر وہ تھی۔۔۔
ایم -زی
آگے بڑھا تھا۔۔۔ اور اس کے بازو کو پکڑ کر ایک کلاس کا دروازہ کھول کر اندر چلا
گیا تھا۔۔ اور اسی وقت گولی چلی تھی جو سیدھی دیوار میں جا کر لگی تھی۔۔۔
ایم-زی
حیرت سے اس کو دیکھ رہا تھا۔۔ وہ واقع ہی جزا تھی ۔۔ وہ بالکل ٹھیک تھی۔۔۔ جبکہ
جزا نے نظریں اٹھا کر اس کو دیکھا تھا۔۔نیلی بےچین آنکھیں اس کو دیکھ رہی تھی۔۔
ایک بار پھر سے نیلی آنکھیں وہ الجھ گئی تھی۔۔ اس کو لگا وہ ان آنکھوں کو جانتی ہے۔۔
ایک بار پھر سے آگ اور پانی آمنے سامنے تھے۔۔ مگر اس بار ان آنکھوں میں حیرت تھی
بے یقینی تھی ۔۔
بے
اختیار جزا کی نظر اس کے یونیفارم پر گئی تھی ۔۔ وہ جتنی حیران ہوتی کم تھا۔۔۔۔
تم ۔۔۔۔
وہ بس اتنا ہی بول پائی تھی۔۔۔
کیا میں
۔۔۔ ایم-زی بے اختیار بولا تھا۔۔
تم وہ ہی
ہو نا ؟ جو مجھ سے کالج میں ٹکرائے تھے؟؟ جزا بے اختیاری میں بولی تھی۔۔۔
نہیں میں
کبھی آپ سے نہیں ٹکرایا ۔۔ ایم-زی حیرت سے
بولا تھا ۔ اس کو سمجھ نہیں آ رہا تھا وہ بات کس کی کر رہی ہے۔۔۔۔
وہ ابھی
کوئی اور بات کرتے جب اچانک سے دروازہ کھولا تھا۔۔ اور جتنی تیزی سے دروازہ کھولا
تھا اتنی ہی تیز رفتاری سے ایم-زی ںے مقابلہ کی گن کی نوک کر اپنے ہاتھ میں لیا
تھا۔۔ اور اسی طرح اس کی بازو موڑ کر گن اب اس کے گلے سے لگائے اس کو مکمل طور پر
پیچھے سے قابو کر چکا تھا ۔۔
جاؤ یہاں
سے ۔۔۔ ایم-زی جزا کی طرف دیکھ کر بولا تھا ۔۔۔ جب مقابل نے اس بات سے فائدہ اٹھاتے اس کے گھوٹنے
پر ٹھوکر ماری تھی ایم-زی زمین پر منہ کے
بل لرکھڑا کر گرا تھا۔۔ جب جزا نے اپنے بیگ سے ایک چھوٹا سا چاقو نکلا
تھا۔۔
وہ اس
آدمی کی طرف بڑھی تھی۔۔۔ اور اس کے کندھے پر اس نے چاقو مارا تھا۔۔ وہ آدمی درد سے
قہراہا اٹھا تھا ۔۔ جزا نے فوراً ہی دوسرے ہاتھ سے اس آدمی کے ہاتھ کو اتنی مضبوطی
سے پکڑا تھا کہ گن اس کے ہاتھ سے گری تھی۔۔ اس کے بعد ایک ساتھ نہ جانے کتنے موکے
وہ اس کے منہ پر مار چکی تھی۔ جس کی وجہ سے اس کے ناک اور منہ سے خون نکلا تھا۔۔۔۔
ابھی وہ ایک اور مکا اس آدمی کو مارتی اس آدمی نے اس کے ہاتھ کو دبوچ لیا تھا اور
اس کو بالوں کو اپنی گرفت میں لیا تھا۔۔۔۔۔۔
ایم-زی فوراً آگے بڑھا تھا ۔۔ اس نے اس آدمی کو پیچھے گلے سے دبوچا تھا ۔۔
ایم-زی کی آنکھوں میں اس وقت صرف خون تھا۔۔۔
اس
آدمی نے جزا کو زور سے دیوا کی طرف دھکیلا
تھا۔۔ اس سے پہلے وہ خود کو گرنے سے بچانے کی کوشش کرتی وہ دیوار سے ٹکرا کر ایک
طرف کو گری تھی اور اس کا سر پاس پڑی لوہے کی کرسی سے بری طرح ٹکرایا تھا۔۔۔ خون
کی ایک لہر اس کے ماتھے پر سے نکلی تھی۔۔۔ اس نے اٹھنے کی کوشش کی مگر درد سے
اٹھتی ٹھیس سے وہ بے ہوش ہو چکی تھی۔۔۔
ایم-زی
اس آدمی کو مکمل طور پر قابو کر چکا تھا اور اگلے ہی لمحے کرچ کی آواز کے ساتھ وہ
آدمی زمین بوس ہوا تھا۔۔ ایم-زی اس کی گردن مور چکا تھا ۔۔۔ وہ فورآ جزا کی طرف
بڑھا تھا جو ایک طرف بےہوش پڑی تھی۔۔ ماتھے سے خون بہہ کر اب اس کے چہرے سے گردن
تک آگیا تھا۔۔
جزا ۔۔۔
ایم -زی نے اس کے چہرے کو تھپتپایا تھا مگر کوئی حرکت نہ ہوئی تھی۔۔
فوراً اس
کے وجود کو اپنی باہوں میں بھرے وہ باہر کی طرف بھاگا تھا۔۔۔ اس کی ٹیم دہشتگردوں
کو کافی حد تک مات دے چکی تھی۔۔۔ وہ باہر کی طرف بڑھا تھا۔۔ جب اس کے قدم روکے
تھے۔۔۔ سامنے سے آتے لوگوں کو دیکھ کر۔۔۔ جنہوں نے بلیک ڈریس پہنے ہوئے تھے۔۔۔ اور
ہاتھوں میں گنز تھی ۔ کون نہیں جانتا تھا وہ کون ہیں ۔۔ وہ بیسٹ کے آدمی تھی ۔ جن
کے بیچ میں ایک عورت بھی تھی۔۔۔
وہ
ایم-زی کی باہوں میں جزا کو دیکھ کر اس کے قریب آئے تھے۔۔۔
لڑکی
ہمیں دے دیں افسر ۔۔۔ وہ عورت دو ٹوک
انداز میں بولی تھی۔۔۔ جبکہ باقی آدمی ان کے گرد گھیرا بنا چکے تھے۔۔۔
کس لیے
؟؟؟ ایم-زی غصے سے اس کو دیکھتا بولا تھا۔۔۔
کیوںکہ یہ بیسٹ کی بیوی ہے۔کیا اتنا جانا کافی کو گا؟۔۔
اور اگر یہ صحیح سلامت بیسٹ کے پاس نہ گئی تو وہ جو حشر برپا کرے گا تم اس کو سنھبال
نہیں پاؤ گے افسر۔۔۔ وہ عورت اس کی آنکھوں
میں دیکھتے بولی تھی ۔ جبکہ ایم-زی تو اس بات پر ہی خاموش ہو گیا تھا کہ وہ بیسٹ
کی بیوی ہے ۔۔ یعنی کہ وہ اتنے وقت سے بیسٹ کے پاس تھی۔۔۔۔
وہ عورت
آگے بڑھ کر جزا کو ایم-زی کی باہوں سے لے کر باہر کی طرف بڑھ گئی تھی جبکہ ایم-زی
ساکت کھڑا تھا۔۔۔ یہ ایم-زی کی پہلی شکست تھی وہ اس سے جزا شاہد کو لے گئے تھے اور
وہ کچھ نہ کر سکا۔ وہ الفا کی بیٹی کو واپس نہ لے جا سکا۔۔ کیسے لے جاتا وہ تو
کیسی کے نام کے ساتھ جوڑ چکی تھی۔۔۔ گولیوں کا شور تھم گیا تھا۔۔۔ سب دہشتگرد مار
دیے گئے تھے۔۔ اور جو زخمی تھے وہ آرمی کی حراست میں تھے ۔۔
ایم-زی
کیا ہوا ہے ؟؟ سکندر اس کے قریب آیا تھا۔۔ جب وہ واپس ہوش میں لوٹا تھا ۔۔
کچھ نہیں
۔۔۔ بامشکل بول کر وہ باہر کی طرف بڑھا تھا۔۔۔ ایک خاموش اس کے آنکھوں میں رقم ہو
چکی تھی۔۔۔۔
وہ باہر
نکلا تھا۔۔ جب کہ وہ لوگ سیاہ کار میں جزا کو ڈال چکے تھے۔۔ اور پھر وہ سیاہ
گاڑیاں آگے پیچھے ادھے سے نکلی تھی۔۔ وہ چس خاموشی نظروں سے ان گاڑیوں کو جاتا
دیکھ رہا تھا ۔۔
••••••••••••••••••••
ہر طرح
مکمل خاموشی تھی۔۔ لکشمن اور اس کے آدمی اسلحہ اور لڑکیاں لے کر اس جگہ پہنچ چکے
تھے۔۔ جہاں انہوں نے لڑکیاں اور اسلحہ پلین میں ڈالںا تھا۔۔۔ وہ لوگوں ابھی اپنا کام شروع کرتے جب اچانک سے
کچھ گولیاں چلنے کی آواز آئی تھی اور ایسی کے ساتھ لکشمن کے کچھ آدمی زمین بوس
ہوئے تھے ۔۔ اس سے پہلے وہ کچھ سمجھ پاتا۔۔ گولیاں پھر سے چلی تھی۔۔۔
لعنت
ہو۔۔۔ لعنت ہو ان پر ۔۔۔ لکشمن بلند آواز میں بولتا کار کے پیچھے چھپنے کے لیے
بھاگا تھا۔۔۔ جبکہ اب کی بار دونوں طرف سے گولیاں جواب میں چل رہی تھی۔۔۔۔
کافی دیر
تک گولیاں چلتی رہی تھی۔۔ کمشن بھی اپنے آدمیوں کے ساتھ مل کر گولیاں چلا رہا
تھا۔۔ جب اس کی گن کی گولیاں ختم ہوئی تھی ۔ وہ ہر چیز ادھر چھوڑے اب اپنی کار کی
طرف بڑھا تھا۔۔۔
اور ابھی
اپنی کار کے قریب پہنچتا جب ایک کار اس کے سامنے آ کر روکی تھی۔۔ اور گولیوں کی
آواز بھی اب تھم چکی تھی ۔۔۔۔
لکشمن نے
موڑ کر پیچھے دیکھا تھا۔۔ اس کے سب آدمی مارے جا چکے تھے۔۔ اس نے اپنے خشک گلے کو
تر کرنے کے لیے بامشکل تھوک گلے سے نیچھے اتاری تھی۔۔ اس کے ماتھے پر پسینے کے
قطرے چمک رہے تھے ۔ جب کار کا دروازہ کھولنے کی آواز آئی تھی۔۔۔
لکشمن نے
اپنے قدم پیچھے کی طرف بڑھائے تھے۔۔۔
بیسٹ
۔۔۔۔۔وہ بامشکل بول پایا تھا۔۔۔ جبکہ مقابل خاموشی سے اس کی طرف بڑھ رہا تھا۔۔۔
گولیاں
ختم ہو گئی لکشمن؟؟ اس کی بندوق پر پاؤں رکھتا وہ لاپرواہی سے بولا تھا۔۔۔
ت۔۔تم
ادھر ۔۔۔ کیا کر ۔۔۔ رہے ۔۔ ہو ۔ بیسٹ ۔۔۔۔۔ لکشمن خوف سے بامشکل بول پایا تھا۔۔
آواز اس کے منہ سے نکلنے سے انکاری تھے جیسے ۔۔۔
جیسے
جیسے بیسٹ آگے بڑھ رہا تھا ویسے ویسے لکشمن اپنے قدم پیچھے اٹھا رہا تھا۔۔۔۔
بہت جلد
پتا چل جائے گا۔۔ میں ادھر کیوں ہوں ۔۔۔ بیسٹ نے اپنے سر سے کیپ اتاری تھی۔۔۔
بیسٹ
دیکھو میری بات سنو ۔۔۔ تم ہمارے ساتھ ہو۔۔ مجھے جانے دو۔۔۔ لکشمن اس کو دیکھتے
بولا تھا۔۔۔ لکشمن کی آنکھوں میں موت کا خوف صاف تھا ۔۔۔
کس نے
بولا میں تم لوگوں کے ساتھ ہوں؟؟ بیسٹ کے اپنے قانون اور اصول ہے۔۔ بیسٹ کیسی کے
ساتھ نہیں ہے وہ اکیلا چلنا جانتا ہے۔۔۔۔ بیسٹ نے اس کے قہر برساتی نظروں سے دیکھا
تھا۔۔۔
لکشمن جو
اپنے قدم ہیچھے اٹھا رہا تھا۔۔ اچانک زمین پر گرا تھا۔۔۔ بیسٹ نے جھک کر اس کو اس کے بالوں سے پکڑا تھا۔۔۔ اور
اپنے ساتھ گھیسٹتا ہوا آگے بڑھا تھا۔۔۔۔۔
اس کے
آدمی اسلحہ اپنی حراست میں لے چکے تھے۔۔۔ اور لڑکیاں بھی اب ان کی نگرانی میں
تھی۔۔۔۔
بیسٹ
دیکھو ہاتھ ملا لو میرے ساتھ فائدے میں رہو گے؟؟ لکشمن نے اپنا آپ کو بچانے کے لیے
دوستی کا ہاتھ بڑھایا تھا ۔۔
آستیں
میں سانپ پالنا مجھے پسند نہیں لکشمن ۔۔۔ بیسٹ نے اس کے سر کو پوری قوت سے زمین پر
مارا تھا ۔۔۔
اہہہہہہہہ۔۔۔۔
لکشمن درد کی شدت سے بلبلا اٹھا تھا۔۔۔۔
تم لوگوں
کو لگتا ہے تم لوگ اپنی من مرضی کر سکتے ہو۔۔۔۔ یہ بھول ہے تم لوگوں کی ۔۔۔ بیسٹ
نے اس کے چہرے کو سختی سے دبوچا تھا۔۔۔۔
بیسٹ تم
بہت پچھتاؤ گا۔۔۔ لکشمن درد کی شدت سے بولا تھا۔۔۔
یقین
مانو میں نہیں تم لوگ پچھتاؤ گے ۔۔ جو اب تم لوگوں کا حشر ہونے والا ہے وہ
افسوسناک ہو گا۔۔۔ بیسٹ نے اپنی گن نکالی تھی ۔ اور ساتھ ہی ماسک کی طرف ہاتھ
بڑھایا تھا ۔۔
لکشمن نے
حیرت سے اس کو دیکھا تھا۔۔۔ اس کو اب کی
بار اپنی موت کا یقین ہو گیا تھا۔۔
تم۔۔۔۔۔۔
جیسے ہی لکشمن نے اس کے بغیر ماسک کے چہرے کو دیکھا تھا حیرت سے بولا تھا۔۔۔
یقین
نہیں آ رہا۔۔۔۔۔ بیسٹ نے ایک آنکھ ونک کی تھی ۔۔۔
نہیں یہ
تم کیسے ۔۔۔ تم بیسٹ ۔۔۔۔ تم۔ مطلب مخالف ہم میں۔۔ لکشمن مکمل حیرت سے بولا تھا۔۔۔
اس سے الفاظ ادا ہی نہیں ہو رہے تھے۔۔
تم لوگ
تو جانتے بھی نہیں کے تم لوگ بربادی کے کتنی نزدیک ہو۔۔ تمہیں یقین نہیں ہو رہا نہ
مگر تمہیں اب یقین آ جائے گا۔۔۔ اور یہ کہتے
ساتھ ہی بیسٹ نے اس کے منہ پر زور سے مکا تھا۔۔۔۔۔
مطلب تم
ہم سب کے ساتھ۔۔۔۔ لکشمن نے کچھ بولنا چاہا تھا۔۔۔
میں تم
لوگوں کے ساتھ وہ کروں گا کہ تم لوگ یاد رکھو گے۔۔۔ مگر فلحال مجھے تم سے احساب
بےباک کرنے ہیں ۔۔۔ بیسٹ قہر برساتی نظروں سے اس کو دیکھتا بولا تھا۔۔۔
تم مجھے
نہیں مار سکتے سمجھ آئی ۔۔۔ لکشمن مکار نظروں سے اس کو دیکھتے بولا تھا۔۔۔
سچ بتاؤں
؟؟ میں تمہیں شوق سے ماروں گا۔۔۔ بیسٹ اس کے چہرے کے قریب جھک کر بولا تھا۔۔۔ جب اچانک لکشمن نے اپنے ایک ہاتھ کی موٹھی بنا
کر اوپر کی تھی جو بیسٹ اپنے ہاتھ میں دبوچ چکا تھا۔۔۔ بیسٹ کے ہاتھ کی گرفت اتنی
مضبوط تھی کہ لکشمن کے ہاتھ کی موٹھی کھول گئی تھی اور ریت کے ذرات اس کی کھولی
موٹھی سے نکلے تھے۔۔۔۔
جب موت
سر پر ہو تب کوئی بھی راہے فرار کام نہیں آتی لکشمن ۔۔ تمہاری موت تہ ہے آج ۔۔۔ یہ
کہتے ساتھ بیسٹ نے اپنی جیب سے ایک تیز دھار والا آلہ نکلا تھا جس کی آگے کی نوک
بہت باریک اور تیز تھی۔۔۔
اگلے ہی
لمحے ایک وار سے لکشمن کی درد ناک چیخیں اس ویرانے میں گونجی تھی ۔۔۔۔
م۔۔۔۔
مجھے ۔۔۔۔ کچ۔۔۔کچھ نظر ۔۔۔۔ نہہ۔۔۔ نہیں آ ۔۔۔ رہا ۔۔۔ لکشمن درد کی شدت سے
بلبلاتا چیختے ہوئے بولا تھا۔۔۔ ہاتھ اس کا اس کی آنکھوں کو پر تھا اس نے درد اور چوبھن
سے ہاتھ آنکھوں پر سے ہٹا لیا تھا۔۔۔
اس کی
آنکھوں سے خون نکل رہا تھا اور اس کی آنکھیں بند تھی ۔۔۔۔ بیسٹ نے پہلا وار ہی اس
کی آنکھوں پر کیا تھا۔۔۔۔۔
چیلاو
لکشمن جتنا بلند چیلا سکتے ہو چیلاو۔۔۔۔ مجھے تمہاری چیخیں سکون دے رہی ہیں ۔۔۔۔
بیسٹ نے اس کے بالوں کو اپنی موٹھی میں دبوچ لیا تھا۔۔۔
مج۔۔۔ مجھے۔۔۔
مع۔۔۔۔معاف۔۔۔ لکشمن بس اتںا ہی بول پایا تھا۔۔۔ جب بیسٹ نے اس کے چہرے پر پھر سے
وہ تیز دھار والی چاقو ںما چیز ماری تھی جس کا کٹ اس کے ایک سائیڈ کے ہونٹ کے قریب
آ کر روکا تھا۔۔۔
معافی
؟؟؟ تمہیں پتا نہیں میری کتاب میں معافی نام کا لفظ نہیں ہے ۔۔ بیسٹ نے اس چہرے کے
دوسرے حصے پر اب کی بار مارا تھا۔۔۔
لکشمن کا
چہرہ خون سے تر ہو گیا تھا۔۔۔ دونوں طرف سے کٹ ہونٹ کے قریب آ کر روکتا
تھا۔۔۔۔
ب۔۔۔بیس۔۔۔۔
لکشمن نے بولنا چاہا مگر درد اور کٹ کی وجہ سے بول نہ پایا تھا ۔۔
تمہیں یاد
نہیں تمہیں میں نے کہا تھا تمہاری موت میرے ہاتھوں ہوں گئی۔۔۔۔ لو آج تمہاری موت
بن کے تمارے سامنے ہوں۔۔۔ بیسٹ نے اس اب کی بار ہاتھ میں پکڑا چاقو اس کے سینے میں
مارا تھا ۔۔۔
لکشمندرد
سے قہرا اٹھا تھا ۔۔۔وہ ابھی بھی اپنے ہوش میں تھا ۔۔ جب بیسٹ نے اس کی ٹانگ کے
ساتھ ایک رسی باندھی تھی۔۔۔ اور اس کو ریت سے کچھ ڈھکے رین وے پر اس کو گھیسٹ رہا
تھا ۔۔جبکہ لکشمن درد سے دبہ دبہ چیلا رہا تھا۔۔۔۔ ایک جگہ پہنچ کر بیسٹ روک گیا تھا اور ہاتھ میں پکڑی رسی کے سرے کو ایک جگہ باندھنے
لگا تھا۔۔۔۔
تمہیں
پتا ہے تمہارے ساتھ کیا ہونے والا ہے ۔۔ بیسٹ راز داری سے بولا تھا۔۔۔ جب لکشمن
درد کی تاب نہ لاتے ہوئے رحم کے لیے ہاتھ جوڑنے لگا تھا۔۔۔۔
رحم کی
بھیک مت مانگو لکشمن نہیں ملے گا تمہیں رحم۔۔۔۔ آج تم اپنے کیے کا قرض چکاو گے۔۔۔۔
بیسٹ یہ کہہ کر اٹھا تھا۔۔۔
اور ہاں
آج تم بھوکے جنگلی کتوں کی دعوت ہو۔۔۔۔ بیسٹ واپس جانے کے لیے موڑا تھا۔۔۔ جب کچھ
یاد آنے پر پھر سے بولا تھا۔۔۔۔
اس کی
تصویر کبیر خاور کو بھیج دو۔۔۔ اور کتوں کو کھول دو۔۔۔ بیسٹ یہ کہہ کر ایک جگہ جا
کر روک گیا تھا۔۔۔ اور اپنے سامنے کا منظر دیکھ رہا تھا۔۔۔ جہاں بھوکے جنگلی کتے
لکشمن کے زخمی وجود کو چیر پھار کر کھا رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔
••••••••••••••
کنگ
ہاتھ۔ میں وان گلاس لے کر اپنے کمرے کی بالکہنی میں کھڑا تھا۔۔ جب اس کے کمرے کا
دروازہ نوک ہوا تھا۔۔۔
آ جاؤ
۔۔۔اندر آنے کی اجازت دے کر کنگ گلاس کو منہ کے ساتھ لگا چکا تھا ۔۔۔
کنگ سب آ
گیے ہیں ۔۔۔ اس کا خاص آدمی آ کر بولا تھا۔۔۔
ٹھیک ہے
۔۔۔ یہ کہہ کر کنگ باہر کی طرف بڑھا تھا۔۔۔۔
وہ میٹنگ
روم میں اپنے جگہ پر بیٹھا تھا ۔۔ اس کے ہاتھ میں سگار تھا جس کو وہ ہر کچھ دیر
بعد اپنے ہونٹوں کے ساتھ لگا رہا تھا۔۔۔
مال پہنچ
گیا؟؟ کنگ کی گرجدار آواز میٹنگ روم میں گونجی تھی۔۔
ہماری
طرف سے بھیج دیا گیا ہے۔۔۔ اب اگے لکشمن نے اس کو لے کر جانا ہے۔۔۔ شہزاد کنگ کی
طرف دیکھ کر بولا تھا۔۔۔۔
اور
یونیورسٹی پر حملے کا کیا ہوا۔۔۔ کنگ نے عثمان صاحب کی طرف دیکھا تھا۔۔۔
وہ بھی
کروا دیا ہے۔۔ آرمی مکمل طور پر اس میں الجھ گئی ہے ۔۔۔ عثمان صاحب اپنی چیر کی
بیک سائیڈ سے ٹیک لگاتے بولے تھے ۔۔۔
کنگ
ہنستے ہوئے سگار کا کش بھرنے لگا تھا۔۔۔ جب اس کے فون پر کسی پرائیویٹ نمبر سے ایک
نوٹیفیکیشن آئی تھی۔۔۔۔
اس نے
جیسے وہ نوٹیفکیشن اون کی اور تصویر دیکھی۔۔ سگار اس کے ہاتھ سے آش ٹرے میں گرا
تھا ۔۔ اور وہ بے یقینی سے اس تصویر کو دیکھ رہا تھا۔۔
ابھی وہ
اس شاک سے نکلا نہ تھا جب ایک ویڈیو اس کو بھیجی گئی تھی۔۔۔ جس میں جنگلی کتے
لکشمن کو نوچ رہے تھے اور اس کی چیخنے کی آوازیں سنائی دے رہی تھی۔۔۔ سپیکر سے
نکلنے والی آواز نے سب کو کنگ کی طرف متوجہ کیا تھا۔۔۔۔
۔
کنگ کیا
ہوا ہے؟؟ عمران لغاری کنگ کو دیکھتے بولے تھے۔۔۔
ڈیڈ ۔۔۔
صارم اپنی جگہ سے اٹھ کر کنگ کے پاس گیا تھا۔۔۔ مگر کنگ نے کوئی جواب نہ دیا۔۔۔
صارم نے اس کے ہاتھ سے فون لے لیا تھا ۔۔ اور سامنے کا منظر دیکھ کر اس نے فوراً
فون نیچھے رکھا تھا۔۔۔
کیا ہوا
ہے صارم ۔۔۔۔ اکرم صاحب اس کو دیکھتے بولے تھے ۔۔۔
بیسٹ
میری جان کا عذاب بن چکا ہے ۔۔۔ اس کو مرنا ہو گا اب۔۔۔ کنگ غصے سے چیلا اٹھا
تھا۔۔۔۔
بیسٹ نے
کیا کیا ہے اب کنگ۔۔۔ عثمان صاحب پریشانی سے بولے تھے۔۔۔
اس نے
لکشمن کو مار ڈالا ہے ۔۔۔ کنگ کے الفاظ سے یہ کوئی دھماکہ سب اپنی جگہ سے اٹھ کھڑے
ہوئے تھے۔۔۔۔
بیسٹ کو کیسے پتا چلا؟؟؟ عمران لغاری حیرت سے بولے
تھے۔۔۔۔
میں نے
بتایا تھا۔۔۔ مجھ سے پوچھ رہا ہے اس کو کیسے پتا چلا۔۔۔ کنگ غصے سے بے قابو ہوا
تھا۔۔۔۔ اچانک اس کے فون پر رنگینگ ہوئی تھی۔۔۔
ایک
پرائیویٹ نمبر سے فون تھا۔۔ کنگ نے فوراً کال اٹینڈ کی تھی وہ جانتا تھا یہ کال کس
کی ہے۔۔۔
کیسے ہو
کبیر خاور ۔۔۔ امید کرتا ہوں خوش نہیں ہو گے۔۔۔ بیسٹ کی زخموں پر نمک چھڑکنے والی
آواز فون کے سپیکر سے گونجی تھی ۔۔
میں تمہیں
جان سے مار ڈالوں کا حر۔۔۔۔۔ کنگ کچھ بولنے لگا تھا۔۔۔
کبیر
خاور زبان کو لگام دو اپنی ۔۔۔ ورنہ حلق
میں سے نکال کر گلے میں باندھ دوں گا۔۔۔ بیسٹ کی قہر برساتی آواز نے کنگ کی ریڑھ
کی ہڈی میں سنسناہٹ پیدا کی تھی۔۔۔
تم نے یہ
اچھا نہیں کیا بیسٹ ۔۔۔۔ کنگ غصے سے بولا تھا۔۔۔۔
یہ تو
شروعات ہے کبیر خاور آگے تو اس سے بھی بدتر ہونے والا ہے تم لوگوں کے ساتھ۔۔۔ بیسٹ
بے نیازی سے بولا تھا۔۔۔
تمہیں
میں زندہ چھوڑوں گا تو تم کچھ کر پاؤ گے نہ بیسٹ ۔۔۔ کنگ کا غصہ انتہا پر تھا۔۔۔۔
اتنی ہمت
ہو گئی ہے تم میں کبیر خاور ۔۔۔۔ بیسٹ اس کا مذاق اڑاتا بولا تھا۔۔۔
میں
تمہیں واقع ہی جان سے مار ڈالوں گا بیسٹ ۔۔۔۔ کنگ کافی سنجیدگی سے غصے سے بولا تھا۔۔۔۔
کر لو یہ
شوق بھی پورا۔۔ اور اس کے بعد اپنی زندگی کی اولٹی گنتی شروع کر لینا۔۔۔ بیسٹ کی
قہر برساتی آواز گونجی تھی ۔۔۔ جبکہ اس کی بات سن کر کبیر خاور مکمل خاموش ہو گیا
تھا۔۔۔۔
کبیر
خاور میں نے کہا تھا جو بھی کرنا ہوا سوچ سمجھ کر کرنا ورنہ میں تمہارے گلے کا وہ
پھندہ بن جاؤ گا جس کو تم چاہا کر بھی نکل نہیں پاؤ گے۔۔۔۔ کھیل شروع تم نے کیا ہے
اس کو ختم میں کروں گا۔۔۔ بیسٹ پراسرار لہجے میں بولا تھا ۔۔۔ اور یہ کہہ کر کال
کاٹ چکا تھا۔۔۔۔
مجھے اس
کی موت چاہیے ہر حال میں ۔۔۔ سنا تم لوگوں نے مجھے بیسٹ کی موت چاہیے ہے۔۔۔۔ کنگ
غصے سے بے قابو ہوتا بولا تھا۔۔ اس نے اپنا فون اٹھا کر سامنے دیوار میں مارا
تھا۔۔۔۔۔۔
•••••••••••••••
کیسی ہے
وہ ؟؟ وہ گھر اتے ساتھ جزا کے بارے میں پوچھنے لگا تھا۔۔۔
سر پر
تھوڑی سی چوٹ آئی ہے۔۔۔ دوائی دی ہے اس کو سو رہی ہے وہ ۔ گل ایک ہی سانس میں بولی
تھی ۔۔ بیسٹ کوئی جواب دیے بغیر آگے بڑھنے لگا تھا۔۔۔۔
وہ اس کے
کمرے میں داخل ہوا تھا۔۔۔ جہاں وہ دوائی
کے ذریعے اکثر لیٹی ہوئی تھی ۔۔ سر پر پٹی بندھی ہوئی تھی ۔۔ وہ چھوٹے چھوٹے قدم
اُٹھاتا بیڈ کے پاس جا کر روکا تھا ۔۔ ایک گہری نظر اس نے اس کے چہرے پر ڈالی تھی
جو شاید تکلیف برداشت کرنے کی وجہ سے مرجھا سا گیا تھا ۔۔۔۔ وہ اس کے قریب جا کر
بیٹھ گیا تھا ۔۔۔
جزا
۔۔۔۔۔ اس نے اس کے چہرے کو تھوڑا سا تھپکا تھا۔۔۔۔ جزا نے تھوڑی سی آنکھیں کھولنے
کی کوشش کی تھی۔۔۔
جزا۔۔۔۔۔
بیسٹ نے ایک بار پھر سے اس کو بلایا تھا۔۔۔۔ جزا نے تھوڑی سی آنکھیں کھولی تھی۔۔۔
تم۔۔ آ
۔۔۔ گ۔۔۔ گئے۔۔۔۔ وہ دوائی کے اثر میں تھی تبھی بامشکل بول پائی تھی۔۔
تم ٹھیک
ہو؟؟ بیسٹ بے چین سا بولا تھا۔۔۔۔ جزا بہت مشکل سے اپنی انکھی کھول پا رہی تھی۔۔۔
اس کو سمجھ نہ آ رہی تھی وہ کیا پوچھ رہا ہے ۔۔ پھر بھی سر اثبات میں ہلا رہی تھی
۔۔
جیسے اس
نے سر اثبات میں ہلایا بیسٹ کی آنکھیں مسکرائی تھی ۔۔ وہ دوائی کے کی وجہ سے مکمل
طور پر ہوش میں نہ تھی اور یہ بات بیسٹ جانتا تھا۔۔۔۔ بیسٹ نے اس کی آنکھوں پر
ہاتھ رکھا تھا ۔ اور اپنے چہرے سے ماسک اتار کر اس کے ماتھے پر اپنے لب رکھے۔۔۔ اور اپنی آنکھیں بند کر گیا تھا۔۔۔۔
جزا مکمل
ہوش میں نہ تھی مگر تب بھی اس کے وجود نے اس لمس اور قربت کو محسوس کیا تھا۔۔ وہ
جانتی تھی بیسٹ اس کے قریب ہے ۔۔۔ بیسٹ نے اپنے لب اس کے ماتھے پر سے ہٹائے
تھے۔۔۔ فوراً سے ماسک سے واپس اپنا چہرہ
چھپایا تھا اور جزا کی آنکھوں پر سے ہاتھ اٹھایا تھا ۔ مگر وہ نیند کی وادیوں میں
اتر چکی تھی۔۔۔۔
بیسٹ نے
اس کے گال کو اپنے انگھوٹے سے سہلایا تھا ۔ وہ اپنا ماسک اتار چکا تھا کیونکہ جزا
سو چکی تھی۔۔۔
جلدی سے
ٹھیک ہو جاؤ ظالم خاتون ایسے اچھی نہیں لگتی تم۔۔۔ بیسٹ مدہم آواز میں بولا
تھا۔۔۔۔ اور پھر کچھ دیر پہلے والی حرکت پر مسکرا گیا تھا ۔۔ یقیناً اگر جزا ہوش
میں ہوتی تو اس وقت وہ اپنی اس حرکت پر مسکرانے کے بجائے جزا کے قہر کا نشانہ بنا
ہوتا۔۔۔
••••••••••••••
ایم -زی
تمہارے ساتھ مسئلہ کیا ہے جب سے آئے ہو تب سے خاموش ہو۔۔۔۔ سکندر اب کی بار زیچ آ
کر بولا تھا۔۔وہ پچھلے دو گھنٹے سے اس کے ساتھ سر کھپا رہا تھا۔۔۔
کچھ نہیں
ہوا سکندر ۔۔۔ مجھے یہ بتاؤ اس سب کے پیچھے ہاتھ کس کا تھا؟؟؟ ایم-زی بات کو
گھومتے ہوئے بولا تھا ۔۔۔
تم بات
نہیں بتانا چاہتے ؟؟؟ سکندر اس کو غصے سے دیکھتا بولا تھا۔۔۔
نہیں ۔۔۔
اگر بتانا چاہتا تو اب تک بتا چکا ہوتا۔۔۔ ایم-زی بھی فوراً غصے سے بولا تھا۔۔۔
تو پھر
بھار میں جا۔۔ اور خود پتا کر لے اس میں کس کا ہاتھ ہے میں نہیں بتا رہا۔۔۔ سکندر
اس پر لعت بھیجنے والے انداز پر نظر ڈالتا اپنی جگہ سے اٹھا تھا۔۔۔۔
جب دماغ
ٹھنڈا ہو جائے تو واپس ادھر ہی مری ۔۔۔ ایم-زی لاپرواہی سے بولا تھا ۔۔۔
ذلیل
انسان میں تجھ سے ناراض ہو کر جا رہا ہوں۔۔۔ سکندر واپس اس کے سامنے آ کر کھڑا
ہوتا بولا تھا۔۔۔
تو؟؟؟ ایم-زی
دو ٹوک انداز میں بولا تھا۔۔۔
تو کے
کچھ لگتے ۔۔۔ مجھے منا۔۔۔ سکندر اس کو سخت نظروں سے دیکھتا بولا تھا۔۔۔
تو میری
بیوی ہے؟؟ ایم-زی اس کو سر سے پیر تک دیکھتا بولا تھا۔۔۔
مر جا
کہیں جا کر۔۔۔ سکندر اس کی بات سن کر تپ کر بولا تھا ۔۔۔ اور باہر نکل گیا تھا۔۔
جبکہ پیچھے ایم-زی کا فلک شگاف قہقہہ گونجا تھا۔۔۔
یو نو
واٹ ۔۔۔ ایک نمبر کا ذلیل انسان ہے تو۔۔۔ اب اپنی شکل بھی نہ دیکھائی مجھے۔۔۔
سکندر اس کے قہقہے کی آواز سن چکا تھا تبھی دروازہ کھول کر تھوڑا سا منہ اندر کر
کے بولا تھا۔۔ اور دروازہ زور سے بند کر کے واپس چلا گیا تھا۔۔۔
جبکہ
ایم-زی اپنی نشست کی پشت سے ٹیک لگا چکا تھا ۔۔۔ وہ اب کیا بتاتا وہ آج کس کو دیکھ
بیٹھا تھا ۔۔۔ اس نے ایک سرد آہ بھری تھی۔۔۔۔ نظروں میں پھر سے وہ شہد رنگ آنکھیں
آ گئی تھی ۔۔۔
•••••••••••••••
وہ ابھی اٹھی
تھی۔۔ سر میں ٹھیس سی اٹھی تھی اس نے فوراً سر پر ہاتھ رکھا تھا۔۔۔ کل والا منظر ایک بار پھر سے اس کی آنکھوں کے
سامنے گھوما تھا۔۔۔۔۔ وہ بامشکل اٹھ کر بیڈ کراؤن سے ٹیک لگا کر بیٹھی تھی۔۔۔
پچھلے دن
کا منظر اس کے ذہن پر سوار ہوا تھا۔۔۔ اس نے اپنے
ماتھے پر ہاتھ رکھا تھا ۔۔ ایک لمحے کو اس کو ادھر کیسی کا لمس محسوس ہوا
تھا وہ مدہم سا مسکرائی تھی۔۔ شاید محبت اس کے دل کی سر زمین پر قدم رکھ چکی تھی۔۔۔
اس نے
آنکھیں موند لی تھی اپنی۔۔۔ ایک بار پھر سے سبز آنکھوں کا سحر خیالوں میں چاہیا
تھا۔۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ سبز آنکھیں نیلی آنکھوں سے بدلی تھی ۔۔ جزا نے
فوراً اپنی آنکھیں کھولی تھی ۔۔۔۔ دل کی رفتار تیز ہوئی تھی۔۔ وہ پریشان سی ہو گئی
تھی۔۔۔ خود کو نارمل کرنے کے لیے وہ اپنے
بستر سے باہر نکلی تھی اور باتھ روم کی طرف اس نے روخ کیا تھا۔۔۔
کچھ دیر
میں وہ فرش ہو کر باہر نکلی تھی پٹی سر پر سے اتری ہوئی تھی ۔۔۔ ایک سائیڈ پر لگی
چوٹ واضح ہو رہی تھی ۔۔ وہ ابھی ڈریسنگ کے سامںے جا کر کھڑی ہوئی ہی تھی کہ اس کے
کمرے کا دروازہ کھولا تھا۔۔۔ وہ جانتی تھی کہ آنے والا کون ہے تبھی نہ چاہتے ہوئے
بھی مسکراہٹ نے اس کے ہونٹوں پر جگہ لی تھی ۔۔۔
کیسی ہو
تم؟؟؟؟ وہ چھوٹے چھوٹے قدم اُٹھاتا اس کے سامنے آ کر کھڑا ہوا تھا۔۔۔
تمہارے
سامنے ہی کھڑی ہوں۔۔۔ جزا ناک چڑا کر بولی تھی۔۔۔۔
ویسے ایک
بات صاف ظاہر ہوتی ہے تمہارے وجود میں سکون نام کی چیز نہیں ہے۔۔۔ بیسٹ اس کے زخم کو دیکھتا بولا تھا۔۔۔
کیا مطلب
؟؟ جزا اس کی بات کو سمجھ نہ پائی تھی ۔۔
مطلب یہ
کہ بجائے آرام کرنے کے تم بستر سے باہر
نکلی ہوئی ہو۔۔۔ بیسٹ نے اس کی ایک گال کو کھینچا تھا ۔۔
بیسٹ اگر
دوبار میری گال ۔۔۔ الفاظ اس کے منہ میں ہی تھے جب بیسٹ اس کی دوسری گال بھی کھینچ
چکا تھا۔۔۔
کچھ بول
رہی تھی؟؟؟ بیسٹ انجان بنتا بولا تھا۔۔۔
تمہارا
سر بول رہی تھی۔۔۔ جزا اس کو سخت نظروں سے گھورتے ہوئے بولی تھی ۔۔
اچھا آؤ
تمہارے زخم پر بینڈیج کروں۔۔۔ بیسٹ اس کے گال کو انگوٹھے سے سہلاتے بولا تھا۔۔۔
پھر ایک ڈرا میں سے فرسٹ ایڈ بوکس نکلا تھا اور دوسرے ہاتھ سے جزا کا ہاتھ پکڑا تھا اور اس کو اپنے ساتھ لے
جا کر بیڈ پر بیٹھایا تھا۔۔۔۔
میں کر
لوں گئی بیسٹ ۔۔۔۔ جزا نے اس کو روکنا چاہا تھا ۔۔ وہ شخص نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے
دل میں جگہ بناتا جا رہا تھا اور جزا اس کو روک بھی نہ پا رہی تھی ۔۔
مجھے پتا
ہے تم کر لو گئی۔۔ مگر میں مطمئن نہیں ہو پاؤ گا ۔۔ میرا دل بے چین رہے گا۔۔ میں
فکر مند رہوں گا۔۔۔ اس لیے مجھے کرنے دو۔۔۔ بیسٹ نے کوٹن سے اس کے زخم کو صاف کرتے
کہا تھا۔۔۔
مگر تم
بے چین کیوں ہو گئے تمہیں کیوں ہو گئی اتنی فکر۔۔۔ جزا نہ چاہتے ہوئے بھی پوچھ
بیٹھی تھی۔۔ نہ جانے وہ کیا سنا چاہتی تھی ۔۔
کیونکہ
تم میری پسندہ عورت ہو تم وہ ہو میرے لیے
جو کوئی اور عورت نہیں ہو سکتی تم میرے لیے بہت اہم ہو۔۔ تمہیں کچھ ہو یہ سوچ کر ہی جان نکل جاتی ہے۔۔۔ میں تمہیں
تکلیف میں نہیں دیکھ سکتا ۔۔۔ بیسٹ نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے کہا تھا۔۔۔ اس بار
اس نے اپنے جزبات لفظوں میں نہیں چھپائے تھے۔۔۔۔
بیسٹ
۔۔۔۔ جزا بس اتنا ہی بول سکی تھی۔۔ بیسٹ کی سبز آنکھیں اس کے منہ سے ادا ہوئے
الفاظوں کی آئینہ دار تھی۔۔۔ جزا ان آنکھوں میں وہ محبت وہ عزت وہ چاہت وہ عشق آج
دیکھ چکی تھی جس کی خواہش ہر عورت کو ہوتی ہے۔۔۔
حکم
کرو۔۔ بیسٹ اس کی بات پر آدب سے بولا تھا۔۔
کچھ نہیں
۔۔۔ وہ نظریں جھکا گئی تھی ۔۔۔
تم ابھی
اعتراف کے مرحلے سے دور ہو۔۔۔ بیسٹ اس کو بینڈیج کرتے سارے سامان کو واپس بوکس میں
رکھتے بولا تھا ۔۔ اور اپنی جگہ سے اٹھ گیا تھا۔۔۔ جبکہ اس کی بات پر جزا نے نظریں
اٹھا کر اس کو دیکھا تھا۔۔۔ کیا وہ واقع ہی جان گیا تھا ۔۔ وہ بس اس ہی کشمکش میں
تھی۔۔۔
کیا مطلب
۔۔۔ جزا نے اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیری تھی۔۔۔۔
مطلب تم
سے زیادہ بہتر کون جان سکتا ہے میری ظالم خاتون ۔۔۔ بیسٹ نے اس کے ناک کو اب کی بار اپنی انگلی اور
انگوٹھے کی مدد سے دبایا تھا۔۔ جبکہ اس کی اس حرکت پر جزا نے پاس پڑا تکیہ اٹھا
لیا تھا۔۔
مر نہ
جاںا میرے ہاتھوں تم فضول آدمی ۔۔۔ جزا نے
وہ تکیہ اس کی طرف پھینکا تھا۔۔۔
خوشی
خوشی مروں گا ۔۔۔ تم مارو تو سہی۔۔۔ بیسٹ نے تکیہ کیچ کرتے کہا تھا۔۔ جبکہ جزا اس کو گھور کر دیکھ رہی تھی۔۔۔
بدتمیز
انسان ۔۔۔ جزا پیر پٹختے اپنی جگہ سے اٹھی تھی اور کمرے سے باہر نکل گئی تھی۔۔۔۔
•••••••••••••••
آمنہ
ابھی اپنے لیے چائے بنا کر لائی تھی جب
سامنے سے کیسی کو اتا دیکھ کر روکی تھی۔۔ فوراً چائے کا کپ ٹیبل پر رکھا
تھا اور آگے بڑھی تھی ۔۔۔
او ہیلو
کدھر جا رہے ہو مںہ اٹھا کر ؟؟؟ آمنہ اس کے سامںے جا کر کھڑے ہوتے بولی تھی۔۔ جبکہ
مقابل اس کو اپنے سامنے دیکھ کر اس کے سحر میں کھو گیا تھا۔۔آج نہ جانے کتنے عرصے
بعد وہ دوبارہ سے یہ چہرہ دیکھ رہا تھا ۔۔ آیان افضل آیا تو دوراب سے ملنے تھا۔۔
مگر ٹکراؤ دشمن جاں سے ہو گیا تھا۔۔
میں دوراب
سے ملنے آیا ہوں۔۔ آیان نے اپنے آنے کی وجہ بتائی تھی۔۔۔
ہو کون
آپ ؟؟؟ آمنہ اس کو سر سے پیر تک دیکھتے بولی تھی ۔ جس نے بلیک کلر کی شرٹ کے ساتھ
بلیک ڈریس پینٹ پہن رکھی تھی۔۔ اور ساتھ آنکھوں پر گلاسز لگائے تھوڑی بھری ہوئی
اور سیٹ بیریڈ اور سیٹ بالوں کے ساتھ بہت ہینڈسم لگ رہا تھا۔۔۔ آمنہ کو آیان کی
شخصیت نے خوب متاثر کیا تھا۔
ان کا
دوست ہوں۔۔ آیان مدہم سا بولا تھا ۔۔
نام ؟
آمنہ نے مشکوک نظروں سے آیان کو دیکھا تھا ۔۔ جبکہ وہ بیچارہ تو صدمہ میں چلا گیا
تھا۔۔۔
آیان ہوں میں ۔۔ آیان افضل۔۔۔ آیان حیرت سے بولا
تھا۔۔۔
او اچھا
اچھا یعنی کہ آپ افضل انکل کے بیٹے ، حور
آپی کے دیور ہیں اور ماہر بھائی کہ بھائی۔۔۔ آمنہ سر اثبات میں ہلا کر آیان کو
سارا شجرا ناسب بتا چکی تھی۔۔۔
جی
میں آپ کی حور آپی کا دیور اور ماہر بھائی
کا بھائی ہوں اور افضل انکل کا بیٹا ہوں۔ اور شاید ہم پہلے بھی مل چکے ہیں ۔۔ آیان
بھی اس کے انداز میں بولا تھا ۔۔۔
جی جی
مجھے یاد آ گیا ہے۔۔۔ آمنہ نے اثبات میں سر ہلایا تھا ۔۔
کیا اب
میں دوراب سے مل لوں؟؟ آیان نے اس کو دیکھا تھا جو کچھ سوچ رہی تھی۔۔۔۔
ویسے
آیان بھائی دوراب بھائی گھر نہیں ہیں ۔۔۔۔ آمنہ بہت معصومیت سے بولی تھی ۔۔ جبکہ
اس کے بھائی کہنے پر آیان کو مینی ہارٹ اٹیک آیا تھا ۔۔
بھائی۔۔۔۔۔
آیان بس اتنا ہی بول پایا ۔۔۔
کیا
ہوا۔۔۔ آمنہ نے حیرت سے اس کو دیکھا تھا۔۔۔
آپ نے
مجھے بھائی بولا؟؟؟ آیان نے صدمے میں باقاعدہ خود کی طرف اشارہ کر کے پوچھا تھا۔۔۔
ظاہر سی
بات ہے آپ میرے بھائی کے دوست ہو تو آپ کو احترام میں بھائی ہی بولوں گئی نہ۔۔۔۔ آمنہ
لاپرواہی سے بولی تھی یہ جانے بغیر کے سامنے کھڑے شخص کو وہ کتنے دھچکے دے چکی
ہے۔۔۔۔
آپ مجھے
بھائی کہہ کے مت بلائیں آگے بہت بہنیں ہیں میری ۔۔۔ آیان اس کو دیکھتا بولا تھا۔۔۔
کوئی بات
نہیں اب ان میں ایک میں بھی ہوں۔۔ لیں دوراب بھائی بھی آ گئے ہیں ۔۔۔ آمنہ یہ کہہ
کر واپس کچن کی طرف موڑی تھی۔۔۔
تم تو
مجھ سے پہلے پہنچ گئے۔۔۔ دوراب نے آیان کے
کندھے پر ہاتھ رکھا تھا۔
ہاتھ ہٹا
اپنا ۔۔۔ آیان غصے سے بولا تھا۔۔۔
کیا ہوا
ہے۔۔۔ دوراب حیرت سے بولا تھا۔۔۔۔
مر گیا
ہوں میں ۔۔۔ آیان غصے سے سرخ ہوتا بولا تھا۔۔۔ اس کا دل چاہا رہا تھا یا تو اپنا
سر پھار لے یا دوراب کا ۔۔
اخر کون
سی منحوس گھڑی تھی جو اس کا دوست بنا میں ۔۔۔ آیان مںہ میں بربرایا تھا۔۔۔
کچھ کہا
تو نے۔۔۔ دوراب نے ناسمجھی سے اس کو دیکھا تھا ۔۔
نہیں کچھ
نہیں میں ذرہ جا رہا ہوں۔۔ ڈیڈ کا ایک کام یاد آ گیا ہے وہ کرںا ہے۔۔۔ آیان یہ کہہ کر باہر نکل گیا تھا جبکہ دوراب بس
اس کو دیکھی جا رہا تھا۔۔۔
اس کو
کیا ہو گیا ہے اب۔۔ دوراب بس اس کو جاتا
دیکھ خود کلامی میں بولا تھا۔۔
••••••••••••
جب سے
آیا ہے تب سے منہ میں گوند لگا کر بیٹھا ہے ۔۔ بول لے منہ سے کچھ۔۔۔ رحیان اس کو حیرت سے دیکھتا بولا تھا۔۔۔
میں دکھی
ہوں اس ٹائم مت بولا مجھے ۔۔ آیان اس کے بیڈ پر لیٹا بولا تھا۔۔۔
کیا مطلب
کیا ہو ہے تجھے ۔۔ رحیان پریشان سا بولا تھا۔۔۔
دل کے
ٹکڑے ہوئے ہیں ۔۔ جذبات کا سرعام قتل ہوا ہے ۔۔۔ آیان سیلنگ کو دیکھتے بولا تھا۔۔۔
کس نے دل
کے ٹکڑے کر دیے تیرے ہوا کیا ہے ۔۔ رحیان فکرمند سا بولا تھا۔۔ اور اس کے قریب جا
کر بیٹھ گیا تھا۔۔۔۔
ہے ایک
شخص ۔۔۔ آیان مدہم لہجے میں بولا تھا ۔ اس کے ذکر پر خود با خود اس کے لہجے میں
احترام آ گیا تھا۔۔۔
کون ؟؟؟
ہوا کیا ہے؟؟ رحیان اب کی بار مکمل اس کی طرف متوجہ تھا۔۔۔
وہ ہی جس
کا میں سیاں بنا چاہتا تھا اس نے مجھے
بھیا بنا دیا۔۔۔ آیان بےچارگی سے بولا تھا۔۔ جبکہ اس کی بات پر رحیان کا مںہ کھولے
کا کھولا رہ گیا تھا۔۔۔۔
تو کیسی
کو پسند کرتا ہے۔۔۔ رحیان حیرت سے بولا تھا۔۔۔
پسند نہیں
پیار کرتا ہوں۔۔۔ آیان نے رحیان کی طرف تکیہ پھینکتے کہا تھا۔۔۔
تجھے کب
پیار ہوا کس سے ہوا؟؟؟ رحیان حیرت سے چیلا کر بولا تھا۔۔
تو پہلے
چیخ چیخ کر ڈھول پیٹ لے میری خوفیا محبت کا۔۔۔ آیان رحیان کو گھورتا بولا تھا ۔۔
تو یہ تو
بتا کون ہے وہ۔۔۔ جس سے تو پیار کرتا ہے اور اس نے تجھے بھیا کیسے بنا دیا۔۔۔ آخری
الفاظ آدا کرتے رحیان نے اپنی ہنسی روکی تھی ۔۔۔
جلے پر
نمک چھڑکنا چاہتا ہے کہ؟؟؟؟ آیان نے رحیان کو گھورا تھا ۔ جب کمرے کہ دروازہ کھولا
تھا۔۔ اور دوراب، حدید اور زوریز اندر آئے تھے۔۔۔۔
کون جلے
پر نمک چھڑک رہا ہے۔۔۔ زوریز نے سوالیہ نظروں سے آیان اور رحیان کو دیکھا تھا۔۔۔
تم تو
بول کر آئے تھے تمہارے ڈیڈ کا کوئی کام ہے۔۔۔ تو یہ ہے تمہارے ڈیڈ کا کام۔۔۔ دوراب
آیان کو گھورتا بولا تھا۔۔۔
کیا ہو
گیا ہے دونوں آتے ہی ان بچاروں کو شروع ہو گئے ہو ۔۔۔اب کی بار حدید بولا تھا۔۔۔
زوریز اور دوراب کو گھورتے ہوئے۔۔۔
ڈیڈ کا
کام کر کے ہی ادھر آیا ہوں میں آئی سمجھ مسٹر مگرمچھ ۔۔۔ آیان سخت نظروں سے دوراب
کو گھورتا بولے گا۔۔
میں بتا
رہا ہوں تم سب کو انقریب افضل صاحب کا یہ بیٹا مر جائے گا میرے ہاتھوں ۔۔۔ دوراب
غصے سے بولا تھا۔۔۔
مار ہی
دے اس کو تو بہتر ہو گا اور ساتھ تم سب خود بھی مر جاؤ۔ پیچھے سے آئی آواز پر ان سب نے موڑ کر دیکھا
تھا جہاں ماہر کھڑا تھا۔۔۔
تو کب
آیا ۔۔۔ وہ سب ایک ساتھ بولے تھے ۔۔
بغیرتوں
میں کچھ وقت کے لیے باہر کیا چلا گیا تم لوگوں نے تو سلام دعا رکھنے کی بھی زحمت
نہیں کی ۔۔۔ ماہر نے ان سب کو گھورا تھا۔
تو واپس
کب آیا ۔۔۔ آیان منہ کھولے اس کو دیکھ رہا تھا ۔۔۔
جب بھی
آیا ہوں تجھے اس سے کیا۔۔ ماہر نے اس کو سخت نظروں سے گھورا تھا۔۔۔
مجھے
تیرے آنے کی پڑی بھی نہیں میں اپنے بھتیجے سے ملنے کی پڑی ہے ۔۔۔ آیان بھی اپنی جگہ
سے اٹھ کر آنکھیں دیکھا کر بولا تھا۔۔ وہ کہاں پیچھے رہنے والا تھا۔
تو اس کے
پاس تو جا ٹانگیں توڑ کر ہاتھ میں دوں گا تیری۔۔ ماہر نے اس کو قہر برساتی نظروں
سے دیکھتے ہوئے کہا تھا۔۔۔
یار لڑنا
بند کرو ذرا سکون لے کو۔۔ زوریز کی آواز نے سب کو خاموش کروایا تھا ۔۔۔
اور مجھے
یہ بتاؤ کون ادھر جلے پر نمک چھڑک رہا ہے۔۔ اور تم آیان صاحب اپنا کون سا رونا
رحیان کے پاس آ کر رو رہے ہو۔۔۔ زوریز رحیان اور آیان کو مشکوک نظروں سے دیکھتا
بولا تھا۔۔۔
لازمی
اپنے نہ ختم ہونے والے مسلوں کا رونا رو رہا ہو گا۔۔۔ دوراب اپنی ہنسی دبہ کر بولا
تھا۔۔ جبکہ زوریز نے دوراب کو گھورا تھا۔۔۔
تم اپنا منہ
بند رکھو ان دونوں سے پوچھ رہا ہے وہ۔۔ حدید نے دوراب کو کہنی ماری تھی۔۔۔
وہ آیان
کہہ رہا تھا۔۔۔۔ اہہہہہہ۔۔۔۔ اس سے پہلے رحیان کچھ بولتا آیان نے اس کے پاؤں پر
پاؤں مارا تھا۔۔۔۔
میں اس
کو بس یہ کہہ رہا تھا ۔۔ کہ ڈیڈ بہت کام کروا رہے ہیں ۔۔ تو آگے سے یہ مجھے چیرا
رہا ۔تھا ۔۔ آیان نے بات کو گھوما دیا تھا۔۔۔ مگر سامنے اس کے زوریز کھڑا تھا۔۔۔
بیٹا
کیسی دن میں نے تمہیں بھی بات کی طرح
گھوما دیا نہ تو خوش ہو جاؤ گے تم۔۔۔ زوریز اس کو سر سے پیر تک گھورتا بولا تھا۔۔۔
••••••••••
نائٹ کلب
میں شور و غل اپنے عروج پر تھا۔۔ وہاں موجود ہر نوجوان لڑکے اور لڑکی کے سر پر شباب
و شراب کا نشہ سوار تھا۔۔۔ انہیں میں سے ایک طرف شہزاد اکرم بیٹھا تھا ایک طرف
اپنی پڑائیوٹ سیٹنگ پر۔۔۔ وہ اب تک تین وائین بوٹلیز ختم کر چکا تھا ۔۔۔ اس کی آنکھیوں سے
شراب سے چڑھا خومار صاف ظاہر ہو رہا تھا۔۔۔۔
وہ دوبارہ سے اپنے گلاس میں شراب ڈالںے لگا تھا۔۔۔ جب ایک لڑکی اس کے سامنے
بلیک کلر کے ٹوپ اور بلیک پینٹ پہنے اس کے سامنے آ کر کھڑی ہوئی تھی ۔۔۔
اس کو
دیکھ کر شہزاد کا وائین ڈالتا ہاتھ روکا تھا۔۔۔ اس کو اپنی بصارت پر یقین نہیں آ
رہا تھا۔۔۔ اس کے ہاتھ سے بوتل گر چکی تھی۔۔ اس نے اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنی
آنکھوں کو صاف کیا تھا ۔۔ جیسے اس کو ٹھیک سے نظر نہیں آ رہا۔۔۔ مگر پھر بھی وہ ہی
لڑکی اس کے سامنے تھی۔۔۔ وہ ہی شہد رنگ بال۔۔ شہد رنگ آنکھیں خوبصورت اور حسین
چہرہ جو کیسی کو بھی اپنا دیوانہ بنا دے۔۔ اس کو یو سامنے دیکھ کر شہزاد اکرم کا
نشہ لمحے میں اترا تھا۔۔۔۔۔۔۔
تم۔۔۔ تم
تو ۔۔۔۔ شہزاد نے کچھ بولنا چاہا تھا۔۔ جبکہ وہ لڑکی خاموشی سے موڑی تھی۔۔۔۔ اور
باہر کی طرف بڑھنے لگی تھی ۔۔۔
شہزاد
فورآ اپنی جگہ سے اٹھا تھا ۔۔ اور لڑکھڑاتا خود کو سنبھالتا وہ موزیک کی بیٹ پر
ناچتے نوجوان لڑکے لڑکیوں میں سے بامشکل گزراتا اس کے پیچھے گیا تھا۔۔۔
وہ اس کی
نظروں کے سامنے کھڑی اس کو دیکھ کر طنزیہ مسکرا رہی تھی جیسے اس کی حالت پر مسکرا
رہی ہو۔۔۔ وہ باہر کی طرف نکلی تھی شہزاد
فوراً اس کے پیچھے گیا جب اندر آتے کیسی سے ٹکرایا تھا۔۔۔
شہزاد
کدھر جا رہے ہو۔۔۔ اور کتنی پی ہوئی ہے تم نے۔۔ نواز نے اس کو فوراً سنبھالا تھا
۔۔ جبکہ نوریز بھی اب پاس آ کر کھڑا ہوا
تھا۔۔۔
ج۔۔۔۔جزا۔۔۔
شہزاد نے بس اتںا ہی بولا تھا۔۔ اور ایک طرف اِشارہ کیا تھا جہاں اس نے اس کو جاتا
دیکھا تھا۔۔۔
جزا
؟؟کیا جزا ۔۔ نواز نے شہزاد کو حیرت سے دیکھا تھا۔۔۔
میں نے
جزا کو دیکھا ہے وہ ابھی ادھر گئی ہے۔۔۔ شہزاد پریشان سے بولا تھا۔۔ اور دوبارہ اپنی
آنکھیں صاف کر رہا تھا۔۔۔ کافی سالوں سے وہ ڈرینک کر رہا تھا۔۔ تبھی خود کو جلدی
سنبھال چکا تھا۔۔۔
او بھائی
وہ تو مر گئی ہے تو نے کہاں سے دیکھ لی۔۔ اب کی بار نوریز بولا تھا ۔۔ جبکہ نواز
حیران ہوا تھا۔۔۔
میں نے
دیکھا ہے اس کو وہ میرے سامنے کھڑی تھی ۔۔۔ شہزاد
حیرت سے بولا تھا ۔۔
شہزاد تم
شاید نشے میں ہو تم نے بہت پی رکھی ہے ۔۔ نواز اس کو دیکھتا بولا تھا اس کو تو
سمجھ ہی نہیں آ رہا تھا کیا کرے وہ۔۔۔
میرا نشہ
اتر چکا ہے نواز وہ میرے سامنے کھڑی تھی۔۔ میں اس کے پیچھے باہر ںکلا تھا۔۔ شہزاد نے اپنا بازو نواز کی گرفت سے آزاد
کروایا تھا۔۔
تم نے
بولا ہے وہ ادھر گئی ہے۔۔۔ میں دیکھ کر آتا ہوں۔۔۔ نوریز نے ایک طرف اِشارہ کیا
تھا اور پھر اس سمیت گیا تھا۔۔۔
تمہیں
یقین ہے کہ وہ جزا ہی تھی؟.. نواز شہزاد کو بے یقینی سے دیکھ رہا تھا اس کو شہزاد
کی بات پر ابھی بھی یقین نہ تھا۔۔۔
ہاں میں
نے اس کو ہی دیکھا تھا۔۔۔۔ شہزاد چیلا کر بولا تھا۔۔۔
یاد گلی بند ہے؟؟ اور ادھر کوئی بھی نہیں ہے۔۔ اور جتنی
بڑی دیوار ہے کیسی لڑکی کا اس دیوار کو
پھلانگنا مشکل ہے۔۔۔ نوریز شہزاد کو دیکھتا بولا تھا۔۔۔
کیا
بکواس کر رہے ہو۔۔۔ شہزاد ان دونوں کو ایک طرف کرتا آگے بڑھنے لگا تھا۔۔ جب کیسی
چیز سے ٹھکر کھا کر گرنے لگا تھا کہ نواز اور نوریز نے اس کو سنبھالا تھا ۔۔
شہزاد
چلو میرے ساتھ ۔۔ نواز اس کو زبردستی اپنے ساتھ لے جانے لگا تھا۔۔۔ جبکہ شہزاد بار
بار خود کو چھوڑا رہا تھا۔۔۔
وہ دونوں
شہزاد کو گاڑی میں بیٹھا چکے تھے۔۔۔ نوریز ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا تھا جبکہ نواز
شہزاد کے ساتھ پیچھے بیٹھا تھا۔۔
میری بات
کا یقین کرو یار۔۔ شہزاد پھر سے بولا تھا۔۔۔
اب تم نے
ایک لفظ اور بولا نہ اس بارے میں تو تمہارے سر میں کچھ مارو گا میں ۔۔۔ نواز غصے
سے بولا تھا۔۔۔ جب شہزاد نے کار میں پڑی شراب کی بوتل اٹھا لی تھی اور کھول کر اس
کو منہ کے ساتھ لگا چکا تھا۔۔
مجھ سے
لکھوا کر لے لو اس بندے کا بلڈ گروپ الکوحول پوزیٹیو ہوںا ہے ۔ یہ شراب ایسے پتا
ہے جیسے پانی پی رہا ہو۔۔۔ نوریز شہزاد کی حالت کو افسوس کرتی نظروں سے دیکھ کر
بولا تھا۔۔۔
اور اپنے
اور میرے بارے میں کیا خیال ہے ۔۔ نواز غصے سے بولا تھا۔۔
میں
الکوحل نیگٹو اور تو اس معاملے میں شہزاد کا بھائی ۔۔ نوریز نے دانتوں کا اشتہار
دیا تھا۔۔۔
بھر میں
جا تو۔۔۔ نواز اس پر لعنت بھیجتا اب شہزاد کی طرف پھر سے متوجہ ہوا تھا۔۔۔
•••••••••••••••
مجھے یہ
بتاؤ بیسٹ تم آخر ہو کون ؟؟؟ وہ ابھی کیسی کام سے لوٹا تھا اور جزا اب اس کے سامنے
کھڑے سوال جواب کر رہی تھی ۔۔۔
کہا تو
ہے راض ہوں میں ۔۔ بیسٹ اس کو دیکھتا بولا تھا۔۔۔
بیسٹ تم
مافیا لیڈر ہی ہو؟؟؟ جزا نے سوالیہ نظروں سے اس کو دیکھا تھا۔۔۔
کوئی شک
ہے؟؟؟ بیسٹ اب کی بار دونوں بازوؤں سینے پر باندھ کر کھڑا ہو گیا تھا۔۔۔۔
ایسا کون
سا مافیا لیڈر ہے جو لڑکیوں کی اور اسلحہ کی اسمگلنگ کو روکتا ہے ۔۔ یہ بات میری
سمجھ سے باہر ہے۔۔۔ جزا حیرت سے اس کو دیکھ رہی تھی ۔ وہ تو اس وقت سے پریشان تھی
جب سے اس کو پتا چلا تھا کہ بلاسٹ کے دوران لڑکیوں اور اسلحہ کی اسمگلنگ ہو رہی
تھی اور بیسٹ نے اس اسمگلنگ کو روکا تھا۔۔۔
میں ہوں
نہ۔۔ اتنا کافی نہیں ؟؟ بیسٹ نے آنکھ ونک کی تھی۔۔
قسم لے لو
میں تمہارا سر پھار دوں گئی۔۔ تم کرنا کیا چاہتے ہو۔۔۔ جزا غصے سے اس کو دیکھتے بولی
تھی۔۔۔
تم میرا
راز جان جاؤ کہ میں کون ہوں تمہیں پتا چل جائے گا میرا مقصد کیا ہے۔۔۔ بیسٹ نے
شہادت کی انگلی سے اس کی آزاد لٹ کو کان کے پیچھے کیا تھا ۔۔۔
اور جس
دن میں تمہارا راز جان گئی نہ اس دن سب سے پہلے تمہارا منہ توڑوں گی میں ۔۔۔ جزا
یہ کہہ کر واپس جانے کے لیے پلٹی تھی۔۔۔
ویسے مجھ
سے ایک غلطی ہوئی کہ تمہیں یہ بتا دیا کہ شہزاد اکرم کے لیے تم مری ہوئی ہو ۔ تم
تو اس کو دماغی مریض بنانے کے چکر میں لگ گئی ہو ۔۔ بیسٹ صوفہ پر شاہانا انداز سے
بیٹھتا بولا تھا ۔ جبکہ جزا کے پاؤں برف بن گئے تھے۔۔۔
ت۔۔
تمہیں کیسے پتا چلا ؟؟ وہ بیسٹ کو حیرت سے دیکھتی بولی تھی۔۔۔
محترمہ
ایک ذمہ دار شوہر ہوں۔۔ پتا رکھتا ہوں میری بیوی کب کہاں اور کیا کر رہی ہے۔۔۔
بیسٹ نے جزا کو سر سے پیر تک دیکھا تھا۔۔۔
کیوں
تمہیں مجھ پر شک ہے کہ میں تمہارے ہاتھ سے نکل جاؤ گئی؟؟ نہ جانے کیوں مگر وہ یہ
الفاظ بول بیٹھی تھی ۔ اور اپنے الفاظ کا اندازہ ہوتے اس نے بیسٹ کو دیکھا تھا جس
کی آنکھوں میں غصہ اتر آیا تھا۔۔۔
اپنی
بیوی پر شک بغیرت مرد کرتا ہے جس کا خود
کا کردار مشکوک ہو وہ اپنی بیوی کی پہرے داری کرتا ہے۔ یا جس کو ڈر ہو اس کی بیوی
اس کہ غیر موجودگی کا ناجائز فائدہ اٹھائے گئی اور الحمداللہ میں بغیرت نہیں ہوا
اور نہ میرا کردار مشکوک ہے اور نہ میری بیوی میری غیر موجودگی کا ناجائز فائیدہ
اٹھانے والوں میں سے ہے۔۔ اور اپنے شوہروں کے ساتھ اور ان کے حق کے ساتھ بےوفائی
کرنے والی عورتیں جیسی ہوتی ہے ویسی میری بیوی مر کہ بھی نہیں ہو سکتی۔۔۔ اور اس
بات کی گواہی میں بھری محفل میں دے سکتا ہوں۔۔ جس دن میرے پاس کوئی بھی وفاداد نہ
ہوا اس دن میرے پاس ایک وفادار شخص ضرور ہو گا اور وہ صرف اور صرف میری بیوی ہو
گئی ۔۔ آج یہ بات کر دی کہ میں تم پر شک کرتا ہوں آئیندہ اگر یہ بات کرنی ہو تو
بجائے یہ بات کرنے کے اپنی گن نکل کر میرے سینے میں خالی کر دینا۔۔ وہ گولیاں ان
الفاظ سے کم تکلیف دیں گی ۔۔ بیسٹ قہر برساتی نظروں سے اس کو گھورتے ہوئے ۔۔ مدہم
لہجے میں بولا تھا۔۔۔ جبکہ اس کے الفاظ نے جزا کو مکمل خاموش کروا دیا تھا ۔۔۔
اور
اگر۔۔۔ جزا نے کچھ بولنا چاہا تھا۔۔۔۔
اور اگر
کوئی اور تمہارے بارے میں ایسی بات بتائے گا۔۔ تو باخدا اس شخص کی زبان اور اس کا
گوشت گلی کے کتوں کی خوراک بننے گا۔۔۔ اور اب اس بارے میں ایک بات اور بولی تو پھر تم اپنی خیر منا
لینا۔۔۔ بیسٹ نے جزا کی بات سنے بغیر اس کا مکمل جواب دے دیا تھا۔۔۔ اور جزا کو آج
پہلی بار بیسٹ کے غصے سے ڈر لگا تھا۔۔
جو بھی
تھا وہ تھا ایم مشرقی مرد وہ جتنا بھی آزاد خیال کیوں نہ ہو اپنی بیوی کے معاملے
میں بغیرت نہیں ہو سکتا تھا اور نہ اپنی بیوی کے منہ سے ایسے الفاظ برداشت کر سکتا
تھا ۔۔
اور ہاں
اگر تم پر نظر رکھتا ہوں تو صرف اس وجہ سے کہ تم گھر سے باہر میری غیر موجودگی میں
محفوظ ہو کہ نہیں اور اگر تم پر کوئی مصیبت آئے تو میں تمہارے تک فوراً پہنچوں اور
تمہارے لیے مدد بھیجوں ۔۔ تاکہ تمہیں کوئی خروچ بھی نہ آئے ۔۔۔ بیسٹ یہ کہہ کر
روکا نہیں تھا چلا گیا تھا ۔۔
•••••••••••••
کیا سوچا
ہے کس طرح سے بیسٹ کو مارا جا سکتا ہے۔۔ کنگ اس وقت میٹنگ روم میں کھڑا عمران صاحب ، عثمان صاحب
اور اکرم صاحب سے سوال کر رہا تھا ۔۔
اس وقت
جب وہ ناہتھا ہو؟؟ عثمان صاحب نے کچھ سوچتے ہوئے کہا تھا۔۔۔
اس کی
کیسی کمزوری کو پکڑ کر اس کو بےبس کر دیا جائے اور پھر مار ڈالا جائے۔۔ اکرم آفندی
اب کی بار بولے تھے ۔۔۔
نہیں کچھ
اور۔۔۔ وہ جنگل میں گھوم رہے خونخوار بھیڑے کی طرح ہیں ۔۔ اس کو دبوچنا آسان نہیں
۔۔۔ کنگ سگار کا گہرا کش لیتے ہوئے بولے تھے۔۔۔
اگر کیسی
طرف بیچ راستے میں اس پر حملہ کروا دیا جائے ۔۔ یہ اس کو اس کی گاڑی کو اس کے سمیت
کیسی کھائی میں گرا دیا جائے یہ اس کو کیسی جگہ بند کر کے آگ لگا دی جائے۔۔۔ عمران
لغاری کچھ سوچتے ہوئے بولے تھے۔۔
اس بارے
میں سوچا جا سکتا ہے۔۔۔۔ مکمل طور پر تیاری کرو کے بیسٹ کو کس طرح سے مارا جا سکتا ہے اور اس کی
ہر حرکت پر نظر رکھو ۔۔۔۔۔ اور کچھ وقت میں میں ایک پارٹی رکھنے والا ہوں۔۔ اس
پارٹی کے ایک دن بعد مجھے بیسٹ کی موت چاہیے ہے۔۔۔۔ کنگ غصے سے بولا تھا۔۔۔۔ اس کے
دماغ میں کوئی پلین بن چکا تھا۔۔۔ اب بس
اس پر عمل کرنے کی دیر تھی۔۔۔
••••••••••••••
وہ اپنے
کمرے میں بیٹھی لیپ ٹاپ پر کچھ کام کر رہی تھی ۔۔ آج یونیورسٹی والے حادثے کو دو
ہفتوں سے اوپر کا وقت ہو گیا تھا۔۔۔ اس حادثے کی
وجہ سے یونیورسٹی کو تین ماہ کے لیے بند کر دیا گیا تھا اور سب سٹوڈینٹ اونلاین
کلاسز لے رہے تھے۔۔۔ وہ اپنے کام میں مصروف تھی جب اچانک اس کا فون بجا تھا۔۔۔
پرائیویٹ
نمبر کالنگ ۔۔۔ فون کی سکرین پر یہ الفاظ لکھے نظر آئے تھے۔۔۔ جزا نے کچھ سوچتے
ہوئے کال اٹینڈ کی تھی ۔۔
ہیلو ۔۔۔
کال اٹینڈ کرتے ساتھ وہ بولی تھی۔۔۔
جزا شاہد
بات کر رہی ہے ۔۔۔ مقابل انتہا کے شیریں لہجے میں بولا تھا ۔۔
کون بات
کر رہا ہے۔۔ جزاکچھ سوچتے ہوئے بولی تھی ۔۔
ایم-زی
۔۔۔ کیا اتنا تعارف کافی ہو گا بات کے آغاز کے لیے؟؟ انتہا کا مدہم اور گرم لہجا تھا ۔۔
اچھا تو
آپ وائس چنجیر کو یوز کر رہے ہیں جہاں تک میں جانتی ہوں آپ کی آواز ایسی نہیں
ہے۔۔۔ جزا کو حیرت ہوئی تھی کہ وہ اس کو کال کیوں کر رہا ہے ۔۔
کافی عقل
مند ہیں آپ ۔۔۔ جواب داد سے بھرا ہوا تھا۔۔۔
اور مجھے
یہ جان کر بھی حیرت نہیں ہو گئی کہ میرا نمبر آپ نے نکلا ہے یہ نکلوایا ہے۔۔ جس
بات کے لیث فون کیا ہے وہ بات کریں بجائے فضولیات بولنے کے۔۔۔ جزا دو ٹوک انداز
میں بولی تھی۔۔۔
ماشاءاللہ
زبان ٹھیک ٹھاک ہے آپ کے پاس۔۔۔ ایم-زی پرسکون سا بولا تھا۔۔۔
کام کی
بات کرو اگر فضول باتیں کرنی ہے تو میرے پاس وقت نہیں ۔۔ جزا اب کی بار سخت لہجے
میں بولی تھی۔۔۔
آپ بیسٹ
کے پاس کیسے پہنچی ؟؟ اور آپ اس کے ساتھ کیوں رہ رہی ہیں ۔۔۔ ایم-زی فوراً ہی اصل
بات پر آیا تھا۔۔۔
یہ آپ کا
مسئلہ نہیں ۔ آگے پوچھے ۔۔۔ جواب انتہا کا دو ٹوک تھا۔۔۔
کیا آپ
جہ نہیں جانتی کے وہ ایک انڈر ورلڈ کا لیڈر ہے۔۔ خون سے اس کے ہاتھ رنگے ہیں ۔۔ وہ
درندہ ہے۔۔ ایم-زی فوراً بولا تھا۔۔
وہ جیسا
بھی ہے بہت سے مردوں سے ہزار درجے بہتر ہے ۔۔ جزا پر اعتماد لہجے میں بولی تھی۔۔
جبکہ اس کی بات پر ایم-زی خاموش ہو گیا تھا۔۔۔
کیا آپ
جانتی ہے اپنے فادر کے بارے میں ۔۔ ایم-زی کچھ سوچتے ہوئے بولا تھا۔۔۔
جی ہاں
میں جانتی ہوں اور مجھے بیسٹ نے سب بتایا ہے ان کے بارے میں ۔۔۔ جزا اپنے باپ کے
ذکر پر افسردہ ہوئی تھی۔۔ مگر یہ بات ایم-زی پر ظاہر نہ ہونے دی تھی۔۔۔
میں الفا
کا سٹوڈینٹ ہوں۔۔۔ میرے ٹرینر وہ تھے۔۔ کیا آپ ان کی وجہ سے مجھ پر یقین رکھ سکتی
ہیں ؟؟؟ ایم-زی نے جزا سے ایسا سوال کیا تھا جس کا جواب اس کو سوچنا پڑنا تھا ۔۔
کس بات
کے لیے آپ پر یقین رکھوں؟؟ آخر آپ کا مجھ سے رابطہ کرنے کا مقصد کیا ہے۔۔۔ جزا کچھ
سوچتے بولی تھی۔۔۔
مجھے بیسٹ
کی ساری معلومات چاہیے ہے۔۔ تاکہ اس کو سزا دلوا سکوں اور آپ کو اس کے چنگل سے
آزاد کروا سکوں۔۔۔ ایم-زی کی آواز اس کی سماعت سے ٹکرائی تھی۔۔۔
تومسٹر
ایم-زی آپ بیسٹ کی بیوی اور الفا کی بیٹی کو اس کے شوہر کی خوفیا انفورمیشن دینے
کا بول رہے ہیں ۔۔ تاکہ آپ اس کو اس کے
شوہر کے چنگل سے نکل سکے اور اس کو سزا دے سکے ۔۔۔ جزا دبے دبے غصے میں بولی تھی۔۔۔۔ جبکہ اس کی
بات نے ایم-زی کی زبان کو بند کر دیا تھا۔۔۔
اور ہاں
اس کا اصل کیا ہے کیا نہیں ۔۔ مگر میں اتںا ضرور جان گئی ہوں اس کا کام غلط ہو سکتا ہے مگر مقصد نہیں ۔۔۔ جزا اس
کو خاموش پہ کر پھر سے بولی تھی۔۔۔
آپ بیسٹ
کی بیوی ہیں ؟؟ ایم-زی کی حیرت سے بھری
آواز اس کی سماعت سے ٹکرائی تھی۔۔
جی میں
اس کی بیوی ہوں۔۔ اور دوبارہ میرے شوہر کی انفورمیشن حاصل کرنے کے لیے آپ نے مجھ
سے رابطہ کیا تو میں اس بات کو یقینی بناؤ گئی اوفسر کہ آپ مجھے میرے ٹورچر روم
میں موجود ملیں اور اس کے بعد آپ کے ساتھ
جو سلوک میں کروں گئی وہ آپ کی عقل ٹھکانے لگانے کے لیے بہت ہو گا۔۔۔۔۔ جزا سخت
لہجے میں بولتی فون کاٹ گئی تھی۔۔۔ جبکہ
فون کی دوسری جانب ایم-زی مکمل خاموش تھا۔۔ اس کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ وہ جزا
شاہد ہے ۔۔۔
••••••••••••••
آمنہ ،
نور بات سنو بیٹا ۔۔۔ آمل بیگم کی آواز پر وہ دونوں جو ایک ساتھ سر جوڑے بیٹھی
تھی۔۔ سیدھی ہوئی تھی ۔۔۔
آ رہی
ہیں ۔۔۔۔ وہ دونوں ایک ساتھ بولی تھی اور کمرے سے باہر نکلی تھی۔۔۔
صبح سے کمرے
میں گم ہو کر کیا رہی ہو تم لوگ۔۔ آمل بیگم نے دونوں کو سخت نظروں سے نوازہ تھا۔۔۔
بڑی ماما
آپ بھول گئی دوراب بھائی کی بڑتھ ڈے ہے ۔۔ آمنہ ان کے قریب آ کر کھڑے ہوتے بولی
تھی۔۔۔
اووو
میرے ذہن سے نکل گیا۔۔۔ آمل بیگم نے اپنے
سر پر ہاتھ رکھا تھا۔۔ اور ساتھ آمنہ اور نور ہنس پڑی تھی۔۔۔
بڑی ماما
آپ کی یہ بات اگر دوراب بھائی کو بتا دی تو ان کی ناراضگی پکی ہے۔۔ آمنہ نے آمل
بیگم کو گلے لگایا تھا۔۔
ہاں
تمہیں تو موقع چاہیے گھر میں لڑائی کروانے کا۔۔۔ آمل بیگم نے آمنہ کے کان کھینچے
تھے۔۔۔
ماما
چھوڑ دیں اس بیچاری کے کان کو۔۔ نور ہی اس پر ترس کھا کر بولی تھی ۔۔۔
نہیں نور
بیٹا اس کی اچھی خاصی تربیت ہونے والی ہے۔۔ روحا بیگم کچن سے نکلتے بولی تھی۔۔
اچھا نہ
اب معافی دے دیں ۔۔ آمنہ نے رحم طلب نظروں سے آمل بیگم کو دیکھا تھا۔۔ اور امل
بیگم نے اس کو فوراً گلے لگا لیا تھا ۔۔۔۔
آج نہ
جانے کتنے عرصے بعد نور اور آمنہ کے چہرے پر خوشی آئی تھی۔۔۔ اور ان کو دیکھ کر
آمل بیگم کا چہرہ خود با خود کھل اٹھا تھا۔۔۔
اب وہ
چاروں مل کر دوراب کی بڑتھ ڈے کی تیاری کر
رہی تھی ۔۔
•••••••••••
وہ ابھی
گھر آیا تھا اور ہر طرف اندھیرا تھا ۔۔۔ ایک لمحے کے لیے ٹھنکا تھا ۔۔
موم ،
ڈیڈ ، بڑی امی ، بڑی بابا۔۔ کدھر ہو سب ؟؟؟.. دوراب کہ آواز اس سناٹے میں گونجی
تھی۔۔۔۔
نور،،
آمنہ ۔۔۔ کوئی گھر ہے کہ نہیں ۔۔۔ دوراب کوئی جواب نہ پا کر پھر سے بولا تھا ۔۔۔
کوئی گھر
پر ہے بھی کہ نہیں ۔۔۔۔ اب کی بار دوراب اپنا فون نکالتا بولا تھا۔۔۔
اس سے
پہلے وہ فلیش اون کرتا فون پر سارے ٹی-وی لاؤنج کی لائٹس اون ہوئی تھی۔۔۔۔
ہیپی
بڑتھ ڈے ۔۔۔۔ نور ، آمنہ ، امل بیگم ، روحا بیگم ، کامران صاحب ، احسن صاحب ایک
ساتھ بولے تھے ۔۔۔ جبکہ دوراب منہ کھولے کھڑا تھا۔۔۔
آپ سب کو
یاد تھا؟؟ دوراب حیرت سے بولا تھا۔۔۔
زندگی
میں آئی مصیبتیں کس کو بھولتی ہیں ۔۔ اس سے پہلے کوئی اور جواب دیتا آمنہ بولی
تھی۔۔۔
موم ایک
بات تو بتائیں یہ میری سگی بہن ہی ہے نہ؟؟
دوراب آمنہ کو گھورتے ہوئے بولا تھا۔۔
آمنہ باز
آ جاؤ ورنہ بہت مار کھاؤ گئی مجھ سے۔۔۔ روحا بیگم کی جوتی بس ان کے ہاتھ میں جانے
ہی والی تھی ۔۔
اس کو
دفع کرو تم آگے چلو۔۔ امل بیگم نے دوراب کو گلے لگایا تھا۔۔ اور اس کو اپنے ساتھ
آگے لے کر بڑھی تھی۔۔
میری
برتھ ڈے پر تو مجھے اتنا پیار کوئی نہیں کرتا ۔۔۔ آمنہ کو ایک نیا موضوع مل گیا
تھا ۔۔
کامران
صاحب اپنی بچی کی زبان کو بریک آپ لگا رہے ہیں یا میں لگاؤ ؟؟ زرہ جو اس کو بھائی
کی خوشی برداشت ہو۔۔ روحا بیگم نے اپنے
شوہر کی طرف دیکھا تھا ۔۔
آمنہ
کیوں آج اپنی ماں سے میری شامت بولا رہی
ہو۔۔۔ کامران صاحب نے اپنی نالائق بیٹی کو گھورا تھا۔۔۔
تو آپ
بھی دیکھیں نہ کیسے سب بھائی کو پیار کر رہے مجھ سے تو کیسی کو پیار ہی نہیں ۔۔۔
آمنہ نے منہ پھولا لیا تھا۔۔ جبکہ اس کی بات پر دوراب اپنے قہقہے کا گلا گھونٹ رہا
تھا اور نور اس کو آنکھیں پھاڑے دیکھ رہی تھی ۔۔
میں کرتا
ہوں نا اپنی بیٹی کو پیار۔۔ احسن صاحب نے آگے بڑھ کر آمنہ کو گلے لگا لیا تھا۔۔۔ جس
پر سب مسکرا گے تھے ۔۔
نور بیٹا
دوراب کے پاس آ کر کھڑی ہو۔۔۔ روحا بیگم نے نور کو دوراب کے ساتھ کھڑا کیا تھا۔۔
دوراب نے
نور کا ہاتھ پکڑ کر کیک کاٹنے کے لیے اگے کیا ہی تھا ۔۔۔ کہ روحا بیگم اور امل
بیگم ایک ساتھ بولی تھی۔۔۔
پیار سے
کاٹنا یہ کیک نور نے بنایا ہے ۔۔ روحا بیگم اور امل بیگم مسکراتے ہوئے بولی تھی۔۔
اس بات
کی شورٹی ہے نہ کہ کیک کٹ جائے گا؟؟ اور کھانے کے بعد پیٹ خراب نہیں ہو گا۔۔۔
دوراب ان دونوں کو دیکھتا بولا تھا۔۔ جبکہ نور منہ کھولے اس کو دیکھ رہی تھی۔۔۔
میں بات
ہی نہیں کرتی۔۔۔ نور نے فوراً اپنا ہاتھ چھوڑیا تھا۔۔۔
ارے مذاق
کر رہا تھا یار۔۔ اس کو آڑھی سے کاٹ کر بھی کھانا پڑا تو بھی میں ضرور کھاؤ گا۔۔۔
دوراب نور کا ہاتھ پکڑ کر پیار سے بولا تھا اور اس کے بولے ہوئے الفاظ سن کر سب کا
قہقہہ ٹی-وی لاؤنج میں گونجا تھا۔۔۔
دوراب
زندہ بچنا ہے کہ نہیں ۔۔ نور ہلکی آواز میں بولی تھی کہ صرف دوراب کو سنائی دیا
تھا۔۔۔
اچھا آؤ
نہ کیک کاٹیں ۔۔ دوراب نے پھر سے اس کا ہاتھ پکڑ کر کیک کاٹنے کے لیے آگے کیا
تھا۔۔۔۔
ان دونوں
نے کیک کاٹا تھا ساتھ ہی سب کی تالیوں کی آواز گونجی تھی۔۔ دوراب نے چھوٹا سا ٹکڑا
کیک سے الگ کیا تھا اور سب سے پہلے نور کو کھلایا تھا۔۔ نور نے وہ ہی ٹکڑا اس کے
ہاتھ سے لے کر اس کو کھلانے کے لیے اس کی
ظرف بڑھایا تھا۔۔۔ اب وہ دونوں باقی سب کو بھی کیک کھلا چکے تھے۔۔۔
ویسے ایک
بات کہوں؟.. دوراب کیک کا پیس اپنی پلیٹ میں
ڈالتا بولا تھا ۔۔
بولو
برخوردار ۔۔ احسن صاحب نے دوراب کو دیکھا تھا جس کا چہرہ دیکھ کے ہی پتا چل گیا
تھا کہ وہ شرارت کے موڈ میں ہے ۔
کچن کو
نور کی پہنچ سے دور رکھیں ۔۔۔ دوراب نے بس اتنا بولا تھا۔۔ کے نور کی غصے سے بھری
نظریں دوراب پر تھی ۔۔
نہیں
میرا مطلب اتںا اچھا کیک بنایا ہے کہ انقریب
سارے کچن پر نور کا راج نظر آ رہا
ہے۔۔۔ دوراب کو اپنی جان پیاری تھی تبھی
بات کو فورآ گھوما گیا تھا۔۔۔
باز آ
جاؤ دوراب ورنہ نور سے آج تمہیں کوئی نہیں بچا پائے گا۔۔ بچیوں نے اتنی محنت کی
ہے۔۔۔ آمنہ اور نور نے مل کر سارا ڈیکور کیا اور پھر نور نے تمہاری پسند کے سب
کھانے بنائے ۔۔۔ روحا بیگم نے دوراب کو دیکھتے کہا تھا۔۔۔
اس کو
بھی کچن میں لگا لیں یہ اس کی معافی ؟ اب باری دوراب کی تھی توپوں کا روخ آمنہ کی
طرف کرنے کی ۔۔۔
ہاں مجھے
معافی ہے۔۔ آمنہ فوراً بولی تھی۔۔
معافی کی
کچھ لگتی تم نے مجھے مزید تنگ کیا نہ تو باقی کی ڈگری اپنھ سسرال پوری کرتی نظر آؤ
گئی۔۔۔ روحا بیگم نے اس کے فوراً کان کھینچے تھے۔۔۔
ایک تو ان عورتوں نے میرے کان کھینچے کھینچ کر مجھے
حاتم والے ہوبو کی بہن بنا دیںا ہے۔۔ آمنہ نے فوراً خود کو ماں کی پکڑ سے آزاد
کروایا تھا ۔۔ جبکہ اس کی بات پر سب ہی
ہنس پڑے تھے۔۔۔ اج اتنے وقت بعد ان کے گھر میں ہنسنے کی اواز گونجی تھی ۔۔ اور
روحا بیگم نے دل اے اپنے مالک کا شکر ادا کیا تھا۔۔۔
••••••••••••
سب بڑے
اپنے اپنے کمروں میں جا چکے تھے۔۔ آمنہ بھی اب اپنے کمرے میں چلی گئی تھی۔۔۔ جبکہ
نور اپنی چائے کا کپ کچن میں رکھنے گئی
تھی۔۔ دوراب بجائے اپنے کمرے میں جانے کے کچن میں آ گیا تھا۔۔۔۔
ہممم
ہممم۔۔۔ دوراب نے نور کو اپنی طرف مخاطب کرنا چاہا تھا۔۔۔ نور نے ایک نظر اس کو
دیکھ پھر سے اپنے کام میں لگ گئی تھی۔۔
مسیز
دوراب۔۔ دوراب اس کے بلکل پیچھے جا کر کھڑا ہوا تھا۔۔۔ اس کے ایسے بلانے پر نور کی
پلکیں شرم سے جھکی تھی ۔۔
وہ جیسے
ہی موڑی دوراب سے ٹکرائی تھی ۔۔ جبکہ دوراب نے اس کو اپنے احصار میں لیا تھا۔۔۔۔
دوراب
مجھے جانے دیں کوئی آ جائے گا۔۔۔ نور
نظریں جھکا کے بولی تھی۔۔۔
رات کے
دو بجے کون کچن میں آئے گا بیگم۔۔۔ دوراب نے نور کو اپنے نظروں کے احصار میں لیتے
کہا تھا۔۔۔
دوراب
مجھے جانے دیں ۔۔۔ نور نے نظریں اٹھا کر اس کو دیکھا تھا۔۔۔ جبکہ وہ شرم سے سرخ
ہوئی پڑی تھی۔۔۔
جب تک تم
مجھے بڑتھ ڈے گیفٹ نہیں دو گئی اور اچھے سے وش نہیں کرو گئی تو سوال بھی پیدا نہیں
ہوتا۔۔۔ دوراب نے اس کی ٹھوڑی کے نیچھے اپنی انگلی ٹکا کر اس کا چہرا اوپر کیا تھا
۔۔
ہاں پہلے
آپ میرے بنائے کیک کو آڑھی سے کاٹ تو لیں۔۔ نور نے روٹھے ہوئے انداز میں کہا تھا۔۔
مذاق کر
رہا تھا نہ یار۔۔ دوراب نے اس کو پیار سے دیکھا تھا۔۔
مجھے
اچھا نہیں لگا۔۔ میں اتنی محنت سے بنایا تھا۔۔۔ نور منہ پھولا کر بولی تھی۔۔۔
ویسے کیک
بہت مزہ کا بنا تھا۔۔۔ دوراب نے اس کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لیا تھا۔۔۔
جھوٹے ہو
آپ ۔۔ نور نے اپنا ہاتھ چھوڑیا تھا۔۔۔
میں شاید
پہلا شوہر ہوں جو اپنی بڑتھ ڈے نائٹ پر اپنی بیوی کو منا رہا ہے۔۔ دوراب نے اس کو
ایک بار پھر سے چھیڑا تھا۔۔۔
میں نے
نہیں کہا تھا آپ کو کہ آ کے مجھے منائیں ۔۔۔ نور نے اس کے پاؤں پر پاؤں مارا تھا۔۔
اور کچن سے باہر جانے لگی تھی۔۔ جب دوراب نے اس کا بازو پکڑ لیا تھا۔۔ اور اس کو
اپنی طرف کھینچا تھا۔۔۔
تمہیں
منانا میرے لیے زندہ کا سب سے خوبصورت کام ہیں ۔۔ دوراب نے اس کے ماتھے پر بوسا
لیا تھا۔۔۔ جبکہ نور نے آنکھیں بند کر لی تھی۔۔۔
جیسے کی
دوراب نے اپنے لب اس کے ماتھے پر سے اٹھائے تھے نور باہر کی طرف بھاگی تھی۔۔۔
ہیپی
بڑتھ ڈے مسٹر ہبی۔۔۔ اور آپ کا گیف ال ریڈی آپ کے روم میں ہے۔۔ نور واپس موڑ کر یہ
کہہ کر اپنے کمرے کی طرف بھاگی تھی۔۔۔
جبکہ اس
کی اس حرکت پر دوراب دل سے مسکرایا تھا۔۔ اور کچن سے نکل کر اپنے کمرے کی طرف بڑھا
تھا۔۔۔۔۔
••••••••••••
دوپہر کے
بارہ بج رہے تھے اور آیان صاحب کی نیند ابھی بھی پوری نہیں ہوئی تھی ۔ وہ اپنے
کمرے میں بیڈ پر خواب خرگوش کے مزے لے رہا تھا۔۔۔۔ جب کیسی کے چھوٹے چھوٹے ہاتھ
بیڈ پر نظر آئے تھے۔۔ جیسے وہ چھوٹے ہاتھوں والا اوپر چڑھنے کی کوشش کر رہا تھا۔۔
اور آخر کار وہ اس میں کامیاب ہو گیا تھا۔۔۔
وہ بچہ
بیڈ پر چڑھ چکا تھا۔۔۔ سیاہ بال ، موٹی موٹی سیاہ ذہن آنکھیں، نرم سرخ گلابی پھولے
ہوئے گال، بریک گلابی ہونٹ ۔۔ وہ بچہ کوئی اور نہیں ماہر اور نور کا بیٹا صدام
تھا۔۔۔ افضل صاحب کے خاندان کا سب سے
خوبصورت بچہ مگر آیان افضل کے بعد (بقول آیان افضل) ۔۔۔ اس وقت اس کی آنکھوں میں
شرارت صاف نظر آ رہی تھی۔۔۔ اس نے آگے بڑھ
کر آیان کی شرٹ کو پکڑا تھا۔۔ اور پھر اس کی کمر پر بیٹھ گیا تھا۔۔ اگلے ہی لمحے
اس نے بیڈ پر پڑا اپنا مایک اٹھایا تھا اور اس کو زور سے آیان کے سر میں مارا
تھا۔۔۔
وہ جو
مزے سے اپنی نیند پوری کر رہا تھا۔۔ اَچانک نازل ہوئی آفت پر ہربرا گیا تھا۔۔۔اور
اس کے مںہ سے چیخ نکلی تھی۔۔ اسی کے ساتھ صدام آیان کے اوپر سے اٹھا کر فوراً بیڈ
سے نیچھے اترا تھا ۔ اور بھاگ کر صوفے پر بیٹھ گیا تھا۔۔۔
آیان اٹھ
کر بیٹھ گیا تھا۔۔۔ اور اپنے سر کے پیچھے ہاتھ رکھا ہوا تھا۔۔ درد کے تاثرات اس کے
چہرے سے نظر آ رہے تھے ۔۔ اس نے ادھر اُدھر دیکھا تھا اور صوفے پر صدام بیٹھا نظر
آ گیا تھا۔۔۔
صدام کے
بچے تیری تو میں ۔۔ آیان فورآ سے اپنے بستر اٹھا تھا۔۔ جبکہ صدام ہنستا ہوا صوفے
سے اتر کر باہر کی طرف بھاگا تھا۔۔۔
آیان
آدھے راستے میں اس کو دبوچ چکا تھا۔۔ اس نے اس کو اٹھا کر اپنے کندھے کے ساتھ لگا کر الٹا کیا تھا۔۔۔
ماما۔۔۔
دادو ۔۔۔ صدام نے اپنی معصوم آواز سے سدا لگائی تھی۔۔۔
بولا اب
اپنی ماں اور دادی کو ڈرتا نہیں میں کیسی سے ۔۔۔ کمرے سے باہر نکل کر آیان ابھی
اتنا بولا ہی تھا۔۔ کہ پیچھے سے ایک جوتی اس کی کمر پر پڑی تھی ۔۔۔۔۔۔۔
اہہہ۔۔۔
آیان درد سے بلبلا اٹھا تھا۔۔۔
اتار
میرے پوتے کو نیچھے ذلیل انسان ۔۔۔ میں نے بھیجا تھا اس کو تمہیں اٹھانے کے
لیے۔۔۔۔ ابیہا بیگم نے دوسری جوتی بھی آیان کو ماری تھی۔۔ اور آگے بڑھ کر صدام کو
آیان کے چُنگل سے بچایا تھا ۔۔
اٹھانے
کے لیے بھیجا تھا یہ مار کے اٹھانے کے لیے۔۔۔ آیان اپنی ماں کو حیرت سے دیکھتے
بولا تھا۔۔ جو پہلے کبھی آیان کی سائیڈ لیتی تھی آج اپنے پوتے کی سائیڈ کھڑی تھی
۔۔
زبان کو
لگام دو ورنہ مرچی لگا دوں گئ۔۔ ابیہا بیگم نے ایک تھپڑ اس کی بازوں پر مارا
تھا۔۔۔
آپ اس
چھوٹی دنیا کی وجہ سے مجھے مار رہی ہیں ۔۔ آیان نے صدام کی طرف اشارہ کیا تھا جو
اپنے چاچو کو مار کھاتا دیکھ ہنس رہا تھا۔۔
میں تھوتھی
دنیا نہی ہوں ۔۔۔ (میں چھوٹی دنیا نہیں ہوں)...
صدام اپنی توتلی زبان سے بولا تھا۔۔۔
پہلے جا
کر بولنا سیکھ کر آ توتلے ۔۔ آیان نے اس کو گھورا تھا۔۔۔۔ جبکہ اب کی بار حور بھی اپنے کمرے سے آ گئی
تھی۔۔
کیا ہوا
ہے موم ۔۔ وہ ابیہا بیگم کے پاس آ کر کھڑی ہوئی تھی ۔۔
آپ کی اس
چھوٹی دنیا نے مجھے مار کر اُٹھایا ہے ۔۔۔ اور میرے بولنے پر آپ کی ساس مجھے مار
رہی ہے ۔۔ آیان معصومیت سے بولا تھا۔۔ جبکہ اس کہ بات پر حور نے صدام کو گھوری
کروائی تھی ۔۔۔
ادھر آؤ
نہ ذرہ تم۔۔۔ حور نے صدام کا بازو پکڑا تھا۔۔۔
دادو
۔۔۔۔ صدام اپنی دادی کے ڈوپٹے کو دبوچ چکا تھا۔۔۔
دادی کا
چمچا ۔۔۔ آیان اس کو دیکھ کر بولا تھا۔۔۔
جبکہ ابیہا بیگم نے ایک اور تھپڑ مارا تھا آیان کو۔۔۔
اور اس
بات پر افضل صاحب کا قہقہہ نکلا تھا۔۔ جو نہ جانے کب سے کھڑے ساری کاروائی دیکھ
رہے تھے۔۔
شکر ہے
کوئی اس کو بھی مار پروانے والا آیا ہے ورنہ آیان صاحب نے اکیلے سب کے ناک میں دم
کیا ہوا تھا ۔۔ اب کوئی اس کے ناک میں بھی دم کرنے والا ہے۔۔۔ افضل صاحب نے آگے
بڑھ کر صدام کو اپنی گود میں لے لیا تھا۔۔۔۔
اور اس
کو پیار کرتے اپنے ساتھ لے کر جانے لگے تھے۔۔ جبکہ صدام نے جاتے جاتے بھی آیان کے
بال کھینچ لیے تھے۔۔ اور اس کی اس حرکت پر جہاں آیان نے اس کو گھورا تھا وہاں
ابیہا بیگم اور حور کی ہنسی چھوٹ گئی تھی۔۔۔۔
••••••••••
جاری
ہے۔۔۔۔۔۔۔۔

Amazing episode Maza hu agaya☺️🙃😌❣️
ReplyDelete❤💕hope u also like todays episode
Deletethanks alot ❤
ReplyDelete