Urdu Novel Dasht-e-Ulfat by Shazain Zainab Episode 27


 

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

 ناول

دشتِ الفت

شازین زینب

 

Ep # 27

  

کمرے میں ہلکی سے روشنی تھی اور ایک شخص جانماز پر سر جھکا کر بیٹھا تھا ۔ وہ شاید تسبیح پڑھ رہا تھا ۔ اس نے ایسے ہی ہاتھ میں موجود تسبیح کے ساتھ ہاتھ دعا کے لیے اٹھائے تھے۔۔

وہ خاموشی سے اپنے خالی ہاتھوں کو دیکھ رہا تھا۔۔ اس کی آنکھیں ہر جزبہ سے خالی تھی خاموش اور نم تھی اس کی آنکھیں ایسے لگتا تھا جیسے اس کے پاس مانگنے کو کچھ بھی نہیں ۔۔ایک آنسو پلکوں پر آ کر روکا تھا ۔

مجھے نہیں پتا میں کیا مانگوں کیا نہ مانگوں ۔ جینے کی طلب ختم ہوں گئی ہے کیسے زندگی مانگوں تجھ سے ۔ اپنی خوشیاں اپنے ہاتھوں سپردِ خاک کی کیسے خوشی مانگوں تجھ سے۔ اپنی محبت کو پانے سے پہلے کھو بیٹھا کیسے کہوں مجھے اس شخص سے نواز جس سے محبت ہے مجھے ۔۔ پلکو پر روکا انسو رحیان آغا کی گال پر پھیسلا تھا۔

میری محبت تیرے سامنے میرے انسو تیرے سامنے میرے زخموں سے تو واقف میری اذیت کا تو گواہ ۔ تو تو سب جانتا ہے میرے مالک مجھ گناہگار کو بتا میں تجھ سے کیا مانگوں ۔۔ اس کی آواز بھرنے لگی تھی۔۔

ہر نماز میں خالی ہاتھوں کو دیکھتا ہوں۔ خاموشی سے ان ہاتھوں کو دیکھ کر اٹھ جاتا ہوں ۔ مجھے نہیں سمجھ اتی میں تجھ سے کیا مانگوں ۔۔ اگر موت مانگنا گناہ نہ ہوتا تو میری ہر نماز کے بعد کہ دعا میری موت ہوتی۔۔ رحیان کا چہرہ آنسوں سے تر ہونے لگا تھا ۔

میں جس کے بغیر زندگی کا تصور بھی نہ کر سکتا تھا ۔۔ مُجھے اس کے بغیر اس زندگی کو کیوں گزارنا پڑا ۔۔ رحیان کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔۔

مجھے محبت کی اتنی بڑی سزا کیوں ملی اللّٰہ ۔۔ آپ تو جانتے تھے میں اس کو کتنا چاہتا تھا۔۔ وہ میری نمازوں کی خاموش دعا تھی۔ وہ میرے دل کے ایک کونے کا سکون تھی ۔ رحیان بچوں کی طرح رونے لگا تھا۔۔

اس کا ہجر میری جان کو آتا ہے اللّٰہ ۔۔ میں تھک گیا ہوں سب میں دکھاوے کا ہنس ہنس کر ۔۔ میں مر گیا ہوں اندر سے ۔۔ اس کی موت مجھے اندر سے مار گئی۔۔ رحیان روتے ہوئے بولا تھا۔۔

کیوں ایک شخص کا بچھڑ جانا جینے کی ہر خواہش کو مار دیتا ہے؟ رحیان نے اپنی آنکھوں کو سختی سے صاف کیا تھا ۔۔

نہ جانے کتنے عرصے بعد آج وہ اپنے دل کا حال کھول کر رکھ رہا تھا۔۔ آج رحیان آغا سے کوئی پوچھتا کے دنیا کی سب سے تکلیف دہ اذیت کون سی ہے تو وہ چیخ چیخ کے بتاتا یکطرفہ محبت میں ملا ہجر۔

موت مانگنا  گناہ ہے۔۔ میں کیسے موت مانگوں تجھ سے؟ یہ زندگی بھی اب جان کو آتی ہے اللہ۔۔ میں کیا کروں۔۔ پھر سے وہ رات آ رہی ہے جس رات میں نے اس کو کھویا تھا۔ میرے مالک میری تکلیف کو اب کم کر دے۔۔۔۔ رحیان روتا چلا گیا تھا۔۔ آنسوں اس کے تھم نہ رہے تھے۔۔

وہ کچھ دیر ایسے ہہ جانماز پر بیٹھا رہا اور پھر جانماز کو تہ کر  ایک طرف رکھا اور بلکہنی میں جا کر کھڑا ہو گیا تھا۔۔  اس نے آنکھیں بند کی تھی ایک بار پھر سے وہ معصوم سا چہرہ اس کے خیالوں میں چھایا تھا۔۔

وہ کافی دیر بالکہنی میں کھڑا رہا تھا۔۔ پھر واپس کمرے میں گیا تھا اور دروازہ کھول کر کمرے سے باہر نکل گیا تھا۔۔ اور اب وہ بیک لاؤن میں ٹہل رہا تھا جب اپنے کمرے کی کھڑکی کے پاس کھڑی عزیزہ کی نظر اس پر پڑی تھی ۔

••••••••••••••

تم سوئے نہیں ابھی تک ۔۔عزیزہ کہ آواز پر ا سکے قدم روکے تھے ۔

آپ کیوں نہیں سوئی ۔۔ الٹا سوال کیا گیا تھا۔۔

پہلے میرے سوال کو جواب دو۔ عزیزہ اس کے سامنے آ کر کھڑی ہوئی تھی ۔

نیند نہیں آئی ۔۔  رحیان نے مختصر جواب دیا تھا۔۔

کیوں؟  عزیزہ نے رحیان کو جانچتی نظروں سے دیکھا تھا۔۔

بس ایسے ہی ۔۔اب آپ بتائیں آپ کیوں نہیں سوئی ۔۔ رحیان نے عزیزہ کے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا ۔۔

نیند نہیں ائی ۔ انہوں نے بھی رحیان والا جواب دیا تھا جبکہ ان کے جواب پر رحیان مدہم سا مسکرایا ٹھا۔۔

اب وہ دونوں لاؤن میں پڑی کرسیوں پر بیٹھ گئے تھے ۔  عزیزہ خاموشی سے اپنے بیٹے کو دیکھ رہی تھی ایک وقت تھا اس کی شرارتوں سے وہ تنگ تھی اور اب وقت ہے وہ شرارتیں کرنا ہی بھول گیا تھا۔

رحیان ۔۔ عزیزہ نے اس کو بولیا تھا ۔

جی موم ۔۔ اس نے نظریں اٹھا کر عزیزہ کو دیکھا تھا اس کی نظریں دیکھ کر عزیزہ کو بہت تکلیف ہوئی تھی۔۔ جن نظروں سے شرارت جھلکتی تھی اج وہ نظریں سنجیدہ تھی ۔

زندگی میں آگے بڑھ جاؤ ۔۔ جس نے جانا تھا وہ چلی گئی۔ عزیزہ نے دل پر پتھر رکھ  کر یہ بات کی تھی۔۔ وہ اس کو کیسے بتاتی  وہ سویرا کو بچپن سے اپنے بیٹے کے لیے پسند کر کے بیٹھی تھی۔

جو گئی ہے وہ میری زندگی تھی میری خاموش محبت تھی وہ محبت جو میں نے خود سے بھی چھپائی ۔ میں نے تو ابھی اس محبت کا اظہار بھی نہ کیا تھا ۔۔ میں کیسے آگے بڑھ جاؤ زندگی میں موم ۔۔ وہ اپنے ساتھ ساتھ میرا ہر خواب ، میری ہر خواہش لے گئی۔ رحیان بولتے ہوئے روکا تھا ۔

موم زندگی میں پہلی بار دل نے شدت سے کیسی کو پانے کی خواہش کی تھی۔۔ میں اس کو اپنی نمازوں میں بھی اتنی خاموشی سے مانگتا تھا کہ کیسی کو پتا نہ چلے کہ میں نے اس کو مانگا ہے۔ میں کیسے آگے بڑھوں زندگی میں موم ۔۔ رحیان نے سوالیہ نظروں سے عزیزہ کو دیکھا تھا۔۔

رحیان زندگی ایک شخص کے جانے  سے نہیں روکتی ۔۔ عزیزہ نے اس کو سمجھانا چاہا تھا۔۔

مانتا ہوں موم نہیں روکتی مجھے دیکھیں نہیں روکی زندگی ۔۔ کیسی کے جانے سے زندگی نہیں روکتی مگر جانے والے کی وجہ سے زندگی میں جو کمی آئے وہ زندگی جینا ماہل کر دیتی ہے۔ ایک ایک لمحہ اس کی کمی اس کو کھو دینے کی اذیت محسوس ہوتی ہے۔ کیسی کے جانے سے زندگی  روکتی نہیں ہے موم زندگی عذاب ہو جاتی ہے۔ زندگی گزارے نہیں گزاری جاتی۔۔ رحیان کے چہرے پر موجود اذیت اس کے درد کی گواہی دے رہی تھی ۔

رحیان اپنے زخموں پر کیسی کو مرہم رکھنے کا موقع تو دو۔۔ عزیزہ نے اس کو بےبسی سے دیکھا تھا اور رحیان اپنی ماں کو ایسے دیکھ رہا تھا جیسے اس کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ اس کی ماں یہ بولے گئی اس کو ۔۔

موم مجھے یہ زخم پسند ہے۔ مجھے اس کی محبت میں ملا یکطرفہ ہجر پسند ہے۔۔ میری زندگی میں کیسی اور لڑکی کی جگہ نہیں ہے۔۔ رحیان کا لہجہ اٹل تھا۔۔

رحیان زندگی کے لیے ہمسفر کا ہونا ضروری ہے۔۔ عزیزہ نے اس کو دیکھا تھا۔

میری یکطرفہ محبت میری ہمسفر ہے ۔۔ رحیان نے اپنی ماں کو دیکھا تھا۔۔

رحیان ۔۔ عزیزہ نے بولنا چاہا تھا۔۔

موم آپ جو کہنا چاہتی ہیں کھول کے بولیں ۔۔ رحیان نے کرسی کی پشت سے ٹیک لگائی تھی۔۔

میں چاہتی ہو تم اپنی زندگی میں آگے بڑھوں ۔ شادی کرو اپنی فیملی بناؤ ۔۔ عزیزہ خاموش ہوئی تھی۔۔

اور؟ ۔۔ رحیان ویسے ہی بیٹھا تھا۔۔

میں چاہتی ہوں تم منساء سے شادی کر لو ۔۔ عزیزہ نے اب کی بار مدعے کی بات کی تھی۔۔

منساء کا نام مت لیں پلیز ۔۔ وہ میری بہن کی طرح ہیں ۔۔ اور مجھے نہ کیسی ہمسفر کی ضرورت ہے اور نہ مجھے شادی کرنی ہے۔۔ رحیان اپنی جگہ سے اٹھا تھا۔۔

تم بات کیوں نہیں سمجھتے رحیان۔۔ میں تمہیں اس تکلیف میں نہیں دیکھ سکتی ۔۔ عزیزہ کی آواز بھر آئی تھی۔۔

بات آپ نہیں سمجھ رہی موم۔۔ یہ تکلیف میرا نصیب تھی اور نصیب میں لکھا ہو کر رہتا ہے۔  میں جس کو ہمسفر بنانا چاہتا تھا وہ تو مٹی میں جا کر  سو گئی ۔۔ مُجھے کوئی اور ہمسفر نہیں چاہیے موم۔ میں بے وفا نہیں ہونا چاہتا کہ اس کے چلے جانے کے بعد اس کی جگہ کیسی اور کو لے آؤ ۔۔ رحیان واپس عزیزہ کے پاس ان کے قریب بیٹھا ان کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لیے بولا تھا۔۔

تم کیا چاہتے ہو؟ عزیزہ نے اس کو نم آنکھوں سے دیکھا تھا۔۔

میں جو چاہتا ہوں مانگ چکا ہوں ۔۔ بس قبولیت کا انتظار ہے۔۔ رحیان یہ کہہ کر اٹھا تھا اور واپس اپنے کمرے کی طرف بڑھا تھا۔۔ مگر اس کے لہجے کے سکون اس کی آنکھوں میں چمک اور اس کے چہرے کی مسکراہٹ عزیزہ کو بہت سے سوالوں میں الجھا گئی تھی ۔

••••••••••••••••••

نوریز ۔۔ وہ نہ جانے کتنی بار آ کر اس کے کمرے کا دروازہ نوک کر چکی تھی۔۔۔

نوریز دروازہ کھولو پلیز ۔۔ لینا کو اب کی بار صحیح معنوں میں اس کی فکر ہوئی تھی ۔ اس نے  راہداری میں لگی گھڑی کی طرف دیکھا تھا جہاں صبح کے چھ بج رہے تھے۔۔

نوریز پلیز اوپن دی ڈور ۔۔۔ لیںا نے ایک بار پھر سے دروازہ بجایا تھا۔۔

جب اچانک دروازہ کھولنے کی آواز آئی تھی۔۔ لینا نے سامنے کھڑے نوریز کو دیکھا تھا جس کی آنکھیں سرخ تھی سوجی ہوئی تھی، ناک بھی مکمل لال تھی۔۔ بال بکھرے ہوئے تھے ۔۔ اس کے چہرے پر ایک قرب تھا ۔ اس کی حالت اس بات کی گواہی  دے رہی تھی کہ وہ بہت رویا ہے۔۔ 

نو۔۔ نوریز ۔۔ لینا نے آگے بڑھ کر اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا۔

نوریز تم ٹھیک ہو۔۔ لینا پریشان سے اس کے چہرے کو دیکھ رہی تھی۔ اس کی سرخ آنکھیں اس کہ پریشانی کو مزید بڑھا رہی تھی۔۔

ہاں۔۔ بہت مختصر جواب دیا گیا تھا اس کی طرف سے۔۔

تم ٹھیک نہیں لگ رہے کیا ہوا ہے۔۔ رات سے واپس آ کر کمرے میں ہو سب ٹھیک ہے؟ لینا نے اس کے چہرے کو سوالیہ نظروں سے دیکھا تھا ۔۔

ہاں ٹھیک ہوں میں ۔۔ نوریز یہ کہہ کر کمرے سے باہر نکلا تھا اور سڑھیاں اتر کر کچن کی طرف بڑھا تھا جبکہ لینا اس کے پیچھے آئی تھی ۔

نوریز ۔۔ وہ بچیاں ٹھیک ہیں ؟ لینا اس کے پیچھے کچن میں آئی تھی۔۔

ہاں ٹھیک ہیں وہ۔۔ نوریز نے گلاس میں پانی ڈالتے کہا تھا ۔

نوریز کیا بات ہے ۔ تم روے ہو ؟ لینا اس کے سامنے آ کر کھڑی ہوئی تھی ۔

نہیں ۔۔ وہ شاید اس سے زیادہ خود کو یہ بات باور کروا رہا تھا ۔

نوریز کیا بات ہے پلیز بتاؤ مجھے۔۔ تم آج سے پہلے اتنے بکھرے ہوئے کبھی نہیں لگے ۔۔  لینا نے اس کے بازو پر ہاتھ رکھا تھا نوریز نے زخمی نظروں سے لینا کو دیکھا تھا۔۔

اس کے چہرے پر ایک زخمی مسکراہٹ آئی تھی۔۔ اس کے بچپن کے منظر اس کی نظروں کے سامنے گھوم گئے تھے۔۔ اس نے ایک سرد آہ بڑھ کر لینا کو دیکھا تھا۔۔

آج  سے پہلے بھی ایک بار بکھرا تھا تب تم نہیں تھی میرے پاس تب کوئی بھی نہیں تھا میرے پاس ۔۔ اور آج پھر سے بکھرا ہوں تو سمجھ نہیں آ رہی کیسے بتاؤ ۔۔ کیا بتاؤ ۔۔ نوریز نے گلاس شلیف پر رکھا تھا۔

تم کیا کہہ رہے ہو نوریز ۔۔پہلے کب؟ اور آج کیا ہوا ہے۔ لینا نے اس کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لیا تھا۔ نہ جاننے کیوں مگر نوریز کی یہ حالت اس کو بےچین کر رہی تھی ۔

جب میری ماں کا قتل ہوا تھا ۔ میری بہن کا سودا ہوا تھا۔۔ نوریز دھیمے لہجے میں بولا تھا ۔

مگر انٹی نے تو سوسائیڈ کی تھی۔ اور تمہاری بہن؟۔ لینا نے اس کو حیرت سے دیکھا تھا ۔

نہیں لینا عثمان سلطان  نے میری ماں کو مارا تھا اس نے میری بہن کا سودا کیا تھا ۔ میری ماں نے سوسائیڈ نہیں کی تھی ۔ نوریز کی آنکھیں نم ہوئی تھی ۔ لینا بس حیرت سے اس کو دیکھ رہی تھی ۔

میری کوئی دعا میری بہن کے حق میں کام نہ آئی لینا ۔۔ میری کوئی دعا قبول نہ ہوئی اس کے لیے ۔۔ نوریز کے آنسوں بہنے لگے تھے ۔

نوریز۔  تم ایسے کیوں بول رہے ہو۔۔ لینا نے آگے بڑھ کر اس کو گلے لگا لیا تھا ۔

میں ہر نماز میں اس کے تحفظ کی دعا کرتا تھا کیونکہ میں نہیں جانتا تھا وہ کدھر ہے۔۔ میں اس کی حفاظت کے لیے اس کے ساتھ نہیں تھا۔۔ نوریز روتے ہوئے بولا تھا۔۔

میری دعا قبول نہ ہوئی لینا۔ اس کی معصومیت درندگی کی نظر ہو گئی۔۔ نوریز کی آنکھوں سے گرم سیسہ نکل رہا تھا جیسے ۔۔

میں اپنی بہن کو نہ بچا سکا لینا ۔۔ نوریز کی اواز کانپی تھی۔۔

اور اس کی باتیں اس کے آنسوں لینا کو ساکت کر گئے تھے۔  وہ نوریز سلطان کی کہانی سے واقف ہی نہ تھی۔۔ اور آج جب نوریز سلطان کا باب کھولا تو لینا کو وہ سب سے زیادہ بےبس لگا تھا ۔ اس کے پاس الفاظ ہی نہ تھا کہ وہ اس کو چپ کرواتی ۔۔۔

میں عثمان سلطان کو سکون کی موت نہیں دوں گا ۔۔ میں اس کو ہر وہ تکلیف دوں گا جس سے میری ماں گزری تھی، میری بہن گزری ، میں گزرا ۔۔ نوریز غم وغصہ میں بولا تھا۔۔

نوریز سنبھالو خود کو۔۔ لینا کے پاس اس کو دلاسہ دینے کو الفاظ نہ تھے۔۔

اب تک سنبھالتا ہی آیا ہوں خود کو لینا ۔۔ ایک عرصہ سنبھالا ہے خود کو میں نے۔۔ اج مجھے بکھر جانے دو۔ نوریز نے اپنی نم آنکھیں صاف کی تھی ۔ جبکہ لینا اب کی بار مکمل خاموش ہو گئی تھی اس کے الفاظ دب گئے تھے۔۔

میں نے اپنی ساری زندگی صرف ایک انسان سے نفرت کی ہے اور بے انتہا نفرت کی ہے اور وہ شخص صرف عثمان سلطان ہے ۔ نوریز غصے سے بولا تھا۔۔

نوریز کی آنکھوں سے پھر سے انسوں بہنے لگے تھے لینا نے اپنے ہاتھ  سے اس کے آنسوں کو صاف کیا تھا ۔

ایک سوال پوچھوں ۔۔ نوریز نے لینا کا ہاتھ تھاما تھا۔۔

پوچھو ۔۔۔ لینا نے اس کی نم آنکھوں کو دیکھا تھا ۔۔

قرض بیٹیاں کیوں دیتی ہیں لینا ؟ قرض بیٹیوں کے حصہ میں کیوں آتے ہیں لینا ؟ نوریز کی بھاری آواز لینا کی سماعت سے ٹکرائی تھی ۔۔ جبکہ اس کی اس بات پر لینا کا ہاتھ کانپ اٹھا تھا ۔

وہ اس کو کیا جواب دیتی وہ خود اس سوال کے جواب سے لاعلم تھی وہ کیا جواب دیتی۔۔ یہ سوال لینا لغاری کو اندر تک جھنجھوڑ چکا تھا ۔

قصور باپ کا ہو تو قرض بیٹیاں کیوں اتارتی ہیں ۔۔ نوریز نے سر جھکا لیا تھا ۔

وہ معصوم تھی لینا سات سال کی عمر کی تھی ۔ نوریز کے ہونٹ کانپے تھے  ۔۔

اس کا کیا قصور تھا ؟  اس نے تو کیسی کی عزت نہ لوٹی تھی، اس نے تو کیسی کی بیٹی بے آبرو نہ کی تھی، اس نے تو کیسی کا گھر تباہ نہ کیا تھا۔۔۔ نوریز بولتے ہوئے روکا تھا۔۔ اس کے ہاتھ کانپے تھے۔  لینا نے اس کے ہاتھوں پر ہاتھ رکھا تھا چہرہ اس کا بھی آنسوں سے بھرا ہوا تھا ۔

اس نے کیسی کی بیٹی برباد نہ کی تھی لینا اس نے کیسی کی بیٹی کا سودا نہیں کیا تھا لینا ۔۔ وہ معصوم تھی اس کا کوئی جرم نہ تھا۔ سوائے اس کے کہ اس کا باپ عثمان سلطان ہے ۔۔ نوریز کی آنکھیں سرخ تھی۔۔ نم تھی اس کی آنکھوں میں اذیت تھی ، درد تھا کیا نہ تھا۔۔

لینا کا دل اندر تک ہل گیا تھا ۔ وہ کانپ گئی تھی اس کے پاس نوریز کی ایک بات کا جواب نہ تھا۔۔

بیٹیاں کیوں قرض اتارتی ہیں لینا۔ جو جرم ان کے بڑوں کے ہوں اس کا حساب وہ کیوں دیتی ہیں ؟  نوریز کی آواز کانپی تھی۔۔

مکافات بیٹیاں کیوں دیتی ہے  لینا ۔۔ نوریز کی انسوں میں روانی آئی تھی۔۔

جب کیسی کی بیٹی برباد کی جائے تو قرض بھی بیٹی ہی اتارتی ہے نوریز ۔۔ لینا بھیگی آواز میں بولی تھی اور اس کو گلے لگا چکی تھی۔

اس نے نوریز کے آنسوں کو صاف کیا تھا اپنا کندھا دیا تھا کہ وہ جی بھر کے رو سکے جبکہ رو وہ خود بھی رہی تھی مگر اس وقت نوریز کی تکلیف اس کو اپنی تکلیف سے زیادہ لگی تھی ۔۔

ان دونوں کے درمیان کافی وقت خاموشی رہی تھی۔۔ لینا نے نوریز کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے رکھا تھا ۔ کتنی عجیب تھی نہ زندگی ۔۔ کل نوریز سلطان لینا لغاری کو تھام کر بیٹھا تھا اور آج لینا نوریز سلطان کے ہاتھ کو تھام کر بیٹھی تھی۔۔  نوریز خاموش اس کے ساتھ بیٹھا تھا۔۔ اس کے اندر کے غم وغصہ کو نہ جانے کیوں لینا کے پاس سکون مل رہا تھا ۔ اور وہ یہ سکون کھونا نہ چاہتا تھا ایک عرصے بعد آج اس کو کیسی بہت اپنے کا احساس اپنے قریب اس پہر ہوا تھا وہ اس احساس کو کھونا نہ چاہتا تھا۔  نوریز سلطان لینا لغاری کے پاس یو ہی بیٹھنا چاہتا تھا ۔ وہ لینا لغاری کا ساتھ کھونا نہیں چاہتا تھا۔۔

نوریز ۔۔ تمہاری بہن کدھر ہے؟ ۔ ان کے درمیان خاموشی کو لینا کی آواز نے توڑا تھا۔۔

محفوظ ہاتھوں میں ۔۔ نوریز نے ایک نظر لینا کو دیکھا تھا۔  جس کی آنکھوں میں صرف فکر تھی۔ نوریز اپنی جگہ سے اٹھا تھا ۔۔

نوریز ۔۔ مُجھے آج تمہارے بارے میں جاننا ہے۔ تم نے آرمی کیوں جوائن کی ۔ کن کے ساتھ ہو تم۔۔ سب کچھ۔۔ لینا نے اس کا ہاتھ پکڑ رکھا تھا۔۔

لینا مت کرو ایسے ۔۔ نوریز نے التجا کی تھی ۔

تمہارے کہنے پر میں اس گھر میں گئی تھی نوریز جس گھر کی عیش و عشرت میرا سب کچھ نگل چکی تھی۔۔ کیا میرے کہنے پر مجھے تم اپنا اصل نہیں بتاؤ گے؟  لینا نے سوالیہ نظروں سے نوریز کو دیکھا تھا۔۔ نوریز نے کچھ بولنا چاہا جب پھر سے لینا بولی تھی۔۔

تمہیں اس بات کا ڈر ہے کہ میں راز فاش کر دوں گئی تو نوریز سلطان ۔۔ لینا لغاری کے پاس اس وقت تمہارے سوا کچھ بھی نہیں بچا ۔۔  تمہارا ہر راز میرا راز ہے ۔۔ لینا مضبوط لہجے میں بولی تھی ۔

اور نوریز اس کو حیران کن نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ اس کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ وہ ہی لینا لغاری ہے جو کیسی کی نہ سنتی تھی۔۔ اپنی من مرضی کرتی تھی۔۔ ڈھیٹ تھی کیسی کے راز سے اس کو کوئی سروکار نہ تھا ۔

ایسے حیران ہو کر مت دیکھو نوریز ۔۔ جب حقیقت ایک ڈراؤنا خواب بن کر سامنے آ جائے ، خود کا بدصورت آئنیہ نظر آ جائے ، زندگی ایک لمحے میں آپ کے گناہ سامنے رکھ دے، جب آپ اپنی نظر میں گر جاؤ ، ایک رات سب بدل دیتی ہے نوریز کیسی کو انسان سے حیوان بنا دیتی ہے تو کیسی کو حیوان سے انسان ۔۔  لینا زخمی لہجے میں بولی تھی ۔

جبکہ نوریز اس کے پاس آ کر بیٹھا تھا ۔۔ اس کو لینا سے محبت تھی۔ مگر آج لینا صحیح معنوں میں دل میں اتر گئی تھی مکمل حق سے ۔۔

اب ایسے خاموش دیکھتے رہو گے یا اپنی بیوی کو بتاؤ گے۔۔ لینا اس کو خود کی طرف مسلسل دیکھتا پا کر بولی تھی۔ 

بتاتا ہوں میری حیوان سے انسان میں کنورٹ ہوئی بیوی ۔۔ نوریز بھی اسی کے الفاظ بولا تھا ۔ وہ خود کو نارمل کر چکا تھا۔۔ وہ لینا کو مزید اپنی طرف سے پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا۔۔

اگر اس وقت حالات کچھ اور ہوتے تو یقیناً اس بات پر لینا نوریز کا سر پھاڑ چکی ہوتی ۔۔

میں نے آرمی اس لیے جوائن کی کیونکہ میں ہر اس عثمان سلطان کو مارنا چاہتا تھا جس کی وجہ سے اس کی بیوی محفوظ نہیں ، جس کی وجہ سے اس کی بیٹی محفوظ نہیں ۔ جو بیٹوں کی عزتوں کا سوداگر ہے، جو گھروں کو تباہ کرنے والا ہے۔ نوریز بولتے ہوئے روکا تھا۔

اور اس بات کا فیصلہ میں نے اس دن کیا تھا جس دن میری ماں کو اس شخص نے مارا تھا میری بہن کا سودا کیا تھا۔  نوریز نے لینا کو دیکھا تھا ۔۔

عثمان انکل نے یہ بات سب سے کیوں چھپائی کے ان کی ایک بیٹی ہے؟ لینا حیران تھی ۔

کیونکہ ان کے لیے بیٹی بوجھ تھی وہ کبھی نہیں چاہتے تھے وہ بیٹی کے باپ بنے ۔۔ ان کے لیے بیٹی کمزوری تھی ۔ نوریز کا لہجہ کچھ زخمی ہوا تھا۔ 

تم آرمی میں کیسے گئے اور انکل کو پتا کیسے نہیں چلا؟ لینا نے ایک اور سؤال کیا تھا۔

انکل کو پتا تب چلتا جب کوئی بتاتا کیسی کو پتا ہی نہ تھا میں کر کیا رہا تھا ۔۔ سب بس وہ جانتے تھے جو ان کو بتایا گیا تھا ۔ نوریز نے کندھے اوچکے تھے۔۔

اس میں تمہاری مدد کس نے کی؟ لینا نے ایک اور سوال رکھا تھا ۔

میرے کلاس فیلو زوریز ابراہیم ، اس نے اور اس کے دوستوں نے۔۔ ہم چھ لڑکوں کا گروپ تھا جس میں میں ، زوریز دوراب ، آیان ، حدید ،رحیان تھے۔۔ ہم لوگ ایک ساتھ ٹریننگ لیتے تھے۔۔ ہم سب کا ایک ہی مقصد تھا۔ آرمی ہم لوگوں نے مل کر جوائن کی تھی جبکہ حدید کو دھکے سے جوائن کروائی تھی۔۔ نوریز مدہم سا مسکرایا تھا۔۔

وہ نہیں کرںا چاہتا تھا تو کیوں کیا فورس۔۔ لینا نے کچھ سوچتے ہوئے کہا تھا ۔

مافیا میں ایک ساتھ ہیں بزنس مین ایک ساتھ ہی ہیں ۔۔ آرمی میں اس کے بغیر جاتے ہم ۔ نوریز نے مسکرا کر لینا کو دیکھا تھا۔۔

وہ تمہارے لیے بہت اہم ؟؟ ۔۔ لینا  نے چور نظروں سے نوریز کو دیکھا تھا۔۔اس کے ایسے دیکھنے پر نوریز نے اس کا ہاتھ تھام لیا تھا ۔

لینا ہر انسان آپ کی زندگی میں اپنی جگہ رکھتا ہے۔ جو جگہ میرے دوستوں کی ہے وہ تم نہیں لے سکتی اور جو جگہ تمہارے ہے وہ نہیں لے سکتے ۔ اور جو جگہ میری بہن کی ہے وہ تم سب نہیں لے سکتے ۔۔ نوریز نے اس کو نرمی سے سمجھایا تھا ۔

ایسا کیوں ہوتا ہے نوریز ایک انسان کے دل میں ہر رشتے کی الگ جگہ کیوں ؟ لینا  نے اس کے تھامے ہاتھ کو دیکھا تھا۔ اور آج اس کو یہ ہاتھ مضبوط سہارا لگا تھا۔۔

کیونکہ ہر رشتے کا اپنا ایک الگ احساس ہوتا ہے۔ اور ہر احساس اپنی ایک الگ جگہ بناتا ہے ۔ نوریز نے لینا کے بالوں کو کان کے پیچھے کیا تھا۔۔

نوریز ۔۔ لینا نے اس کی آنکھوں میں دیکھا تھا ۔۔

بولو ۔۔ نوریز نے نرمی سے اس کے گال کو چھوا تھا ۔

تمہاری بہن کا نام کیا ہے۔ لیںا نے کچھ ہچکچاتے ہوئے سوال کیا تھا۔۔

منساء ۔۔ نوریز نرمی سے بولا تھا ۔

ہم کل ہی اس کو لے کر آئیں گے ۔۔ لینا نے نوریز کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لیا تھا۔۔

ضرور ۔۔ نوریز نے پھر سے لینا کے بالوں کو اپنی انگلیوں سے چھوا تھا ۔۔

ایک بات بولوں؟۔۔ نوریز نے لینا کی آنکھوں میں دیکھا تھا۔۔

کیا؟ لینا نے نظریں اس کی نظروں سے ملائی تھی مگر زیادہ دیر ملا نہ سکی تھی ۔۔ اس نے نظریں جھکا لی تھی۔۔

اپنے بال مت کٹوانا اب۔۔ پلیز ۔۔ نوریز نے اس کے بالوں کو اپنے ہاتھ میں لے کر محبت سے دیکھا تھا ۔۔ اور لینا بس اس کو دیکھ رہی تھی۔۔

•••••••••••••••••••

کبیر خاور اپنے عالیشان کمرے میں اپنے نرم و ملائم بستر پر سویا ہوا تھا۔ سائیڈ ٹیبل پر پانی کا آدھا گلاس اور کچھ دوائیاں پڑی تھی شاید وہ نیند کی گولیاں لے کر سویا تھا ۔ سورج کی کرنیں زمین پر پڑھنے لگی تھی مگر ابھی تک وہ اپنی نیند سے نہ جاگا تھا ۔

اچانک کمرے میں رنگ ٹیون کی آواز گونجی تھی ۔ کبیر خاور کی نیند میں خلل پڑا تھا ۔۔ اس نے اُٹھانا چاہا مگر نہ اٹھا گیا فون بج بج کے بند ہو گیا تھا۔۔ اب دوبارہ سے فون بجنے لگا تھا۔۔ وہ بامشکل اٹھ پایا تھا شاید گولیوں کا ابھی کچھ اثر تھا جس کی وجہ سے وہ اٹھ نہیں پا رہا تھا۔ اس نے سوئی جاگی کیفیت میں فون اٹھایا تھا۔ 

ہیلو ۔۔ کبیر خاور کی نیند میں ڈوبی آواز گونجی تھی۔ 

تم ادھر پرسکون نیند سو رہے ہو ادھر ہمارے سر پر موت کی تلوار لٹک رہی ہے۔ اٹھ کر ٹی وی اون کر کے دیکھو میڈیا اس وقت کیا بک رہا ہے۔ دوسری طرف سے ایم این اے جہانزیب غصے سے بولے تھے۔

کیا بکواس کر رہے ہو؟ کون سی قیامت آ گئی ہے؟  ایم این اے جہانزیب کی بات پر کبیر خاور فوراً سے اٹھ کر بیٹھا تھا اور غصے سے بولا تھا۔۔

قیامت ہی آ جاتی تو اچھا تھا کم سے کم اس ذیلت سے تو بچ جاتے ۔  ایم این اے جہانزیب غصے سے ڈھارے تھے ۔

بکواس کرو گے کہ ہوا کیا ہے؟  کبیر خاور بےزار سا ہوا تھا ۔

ٹی وی اون کر کے دیکھو ۔۔  یہ کہہ کر ایم این اے جہانزیب نے فون رکھ دیا تھا۔۔

کبیر خاور چکراتے سر سے بستر سے اٹھا تھا ۔ سب سے پہلے اس نے گلاس میں موجود پانی پیا تھا اور آگے بڑھ کر ایل سی ڈی کا ریموٹ اٹھا کر ایل سی دی کو آن کیا تھا ۔ اور نیوز چینل نکلا تھا ۔

آپ کو ایک تازہ ترین خبر دیتے چلیں بہت سے ایسے جانے مانے لوگوں کے چہرے بےنقاب ہوئے ہیں جو کہنے کو تو مشہور بزنس مین ، ایم این اے ، ایم پی اے ہیں مگر اپنے کام کی آر میں معصوم لڑکیوں ، بچیوں کی اور اسلحہ ، ہیروئن کی اسمگلنگ کرتے رہے ۔۔  نیوز اینکر کی آواز ایل سی ڈی کے ساتھ لگے سپیکرز سے گوںج رہی تھی۔ 

ہمارے ذرائع سے کچھ نام ہمیں معلوم ہوئے ہیں ۔ جن میں کبیر خاور جو کہ ایک جانا مانا گینگ سٹر اور ملک غدار ہے شامل ہے اور اس کا بیٹا صارم جو حال ہی میں مار دیا گیا ہے۔ اور اس کے ساتھی ایم این اے جہانزیب ، ایم پی اے فواد ، مشہور بزنس مین عثمان سلطان ، ان کا بیٹا نواز سلطان ، اکرم آفندی اور ان کا بیٹا شہزاد اکرم، ادنان عیسی اور بھی بہت سے نام آپ سکرین پر دیکھ سکتے ہیں ۔  وہ نیوز اینکر بولتی جا رہی تھی ۔

پاک آرمی کے اوفسیرز پیچھلے کافی عرصے سے ان کے منصوبات کو ناکام بناتے چلے آئے ۔۔ اور کال رات کو پاکستان آرمی کے جوانوں نے ان کی ایک اور اسمگلنگ کو ناکام بنایا جس میں معصوم بچیاں بیرون ملک بجھیجی جا رہی تھی اور ساتھ ہی اسلحہ اور خطرناک ہیرون ۔۔ وہ نیوز اینکر اور بھی کچھ بول رہی تھی جب اچانک کبیر خاور نے میز پر پڑا شو پیس اٹھا کر ایل سی ڈی پر مارا تھا ۔۔۔

اہہہہہہہہہ ۔۔۔۔ کیا بکواس ہے یہ۔۔ کیا بک رہے ہو تم سب۔۔۔ کبیر خاور غصے میں بولا تھا ۔ جب اچانک اس کا ایک آدمی کمرے کا دروازہ کھول کر ہاتھ میں گن پکڑے اندر آیا تھا جبکہ سامنے کا منظر دیکھ کر ادھر ہی روک گیا تھا ۔

کبیر خاور اپنے کمرے کا حشر بگار چکا تھا وہ غصے میں سامان اٹھا اٹھا کر پھینک رہا تھا۔۔

یہ فوج میرے کاموں میں ٹانگ کیوں آڑا رہی ہے۔  میں اس فوج کو تباہ کر ڈالوں گا۔۔ کبیر خاور نے سائیڈ ٹیبل پر پڑا سامان ہاتھ سے نیچھے پھینکا تھا ۔

کنگ آپ خود کو زخمی کر لیں گے ۔۔ اس کا خاص ادمی ہمت کر کے آگے بڑھا تھا ۔

تم۔۔۔تم  پتا لگاؤ اس سب کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے ۔۔مجھے وہ آدمی زندہ چاہیے ۔۔ کبیر خاور غصے میں چیخا تھا ۔

وہ آدمی فوراً اولٹے قدم واپس موڑا تھا۔ اور کمرے سے باہر چلا گیا تھا ۔ کبیر خاور نے اپنا سر ہاتھوں میں گرا لیا تھا۔  اس نے آپنے بالوں کو موٹھی میں جکڑ لیا تھا۔  

سب برباد ہو گیا ۔۔ سب کچھ برباد ہو گیا ۔ کبیر خاور نے اپنے بالوں کو سخت موٹھی میں بند کیا تھا ۔اس کا سر پھٹ جانے کو تھا۔۔

••••••••••••••••

اکرم افندی پھٹی آنکھوں سے سکرین کو دیکھ رہے تھے۔  ان کو سمجھ نہ آ رہی تھی کیا کریں ۔

جب اچانک ان کا فون۔ رنگ ہوا تھا ۔۔ انہوں نے نمبر دیکھ کر فوراً کال اٹھائی تھی ۔۔۔  اور ایل سی ڈی اوف کی تھی ۔

ہیلو دورانی صاحب ۔۔ اکرم صاحب اپنی آواز کو حد درجے خوش گوار رکھتے بولے تھے۔۔

کتنے گرے ہوئے انسان ہو تم اکرم افندی میں تو شکر ادا کرتا ہوں کے آفندی گروپ اوف انڈسٹری کے سی ای او تم نہیں ہو ۔۔ ورنہ میں ایک لمحہ نہ لگاتا اپنے شیئرز تمہاری کمپنی سے واپس لینے میں ۔۔ دورانی صاحب کی غصے سے بھری آواز گونجی تھی ۔

کیا مطلب دورانی صاحب ۔۔ میں ہی ہوں اکرم گروپ اوف انڈسٹری کا سی ای او اور آپ کس آفندی گروپ اوف انڈسٹری کی بات کر رہے ہیں ۔۔ یہ اکرم گروپ اوف انڈسٹری ہے۔۔ اکرم صاحب کو دورانی صاحب کی بات حیرت میں ڈال گئی تھی۔۔

اکرم صاحب لگتا ہے آپ کا سارا دھیان صرف اسمگلنگ پر ہی رہ گیا تھا۔ آپ کو پتا ہی نہیں چلا کب آپ کے ہاتھ سے سب کچھ نکل گیا۔۔ یہ کہہ کر دورانی صاحب نے فون رکھا تھا ۔

جب اکرم صاحب کو سامنے سے شہزاد آتا نظر آیا تھا۔۔ اکرم صاحب نے غصے سے فون ایک طرف پھینکا تھا ۔

کہاں سے آ رہے ہو تم ؟ اکرم صاحب غصے میں دھاڑے تھے۔۔  

جہاں سے بھی آؤ آپ کو اس سے کیا ۔ شہزاد سخت بےزار تھا اس وقت۔۔

ادھر قیامت سر پر آئی ہوئی ہے ایک رات میں عرش سے فرش پر گرے ہیں ۔۔ اور تمہاری  اوارہ گردیاں نہیں ختم ہو رہی۔  اکرم صاحب نے خون کھولتی نظروں سے اس کو دیکھا تھا ۔۔

کون سی قیامت ٹوٹ پڑی ہے کیا طوفان آ گیا ہے۔۔ شہزاد بھی غصے سے دھاڑا تھا۔۔

اکرم صاحب نے ایل سی ڈی کو آون کیا تھا ۔ شہزاد نے موڑ کر سکرین کو دیکھا جہاں نیوز چینل اون تھا۔ اینکر کی آواز اس کی سماعت سے ٹکرا رہی  تھی ۔۔ جبکہ اس کی نظر سکرین پر چلتی سرخیوں پر تھی ۔

ی۔۔۔یہ کیا ۔۔۔ یہ کیا بکواس ہے۔ شہزاد نے حیرت سے اکرم صاحب کو دیکھا تھا ۔۔

یہ بکواس نہیں ہے۔۔ سب کچھ منظر پر آ چکا ہے۔ اکرم صاحب پریشانی اور غصے کی ملی جولی کیفیت میں بولے تھے ۔۔

کنگ سے رابطہ کریں ۔۔پوچھے اس سے یہ سب کس نے شئیر کیا۔  شہزاد کو کچھ سمجھ نہ آئی کیا کرے۔۔

کنگ کو کیا کال کروں وہ تو کال اٹھا ہی نہیں رہا۔۔  اکرم صاحب پریشانی سے صوفے پر بیٹھے تھے ۔

اور آپ کس سے کال پر بات کر رہے تھے ۔ شہزاد نے ان کو دیکھا تھا۔۔ جو اس وقت مکمل پریشان تھے ۔

دورانی صاحب ۔۔۔  اکرم صاحب نے یک لفظی  جواب دیا تھا ۔

اور شہزاد منہ کھولے باپ کو دیکھ رہا تھا۔۔۔ جب حدید اپنے کمرے سے نکل کر ریلنگ کے پاس کھڑا ان باپ بیٹے کی شکلوں کو دیکھ رہا تھا۔ چہرے پر وقتی طور پر ایک مسکراہٹ نے جگہ لی تھی۔۔

کیا شور مچا رکھا ہے میرے گھر میں تم لوگوں نے۔۔  حدید غصّے سے بولا تھا یقیناً اس کی نیند خراب ہوئی تھی ۔۔ جب اس کی نظر سامنے ایل سی ڈی پر گئی تھی۔۔

آرے واہ تم لوگ تو سمگلرز نکلے ۔۔۔حدید ایل سی ڈی کو دیکھتا اور سپیکر سے آتی آواز کو سنتا سڑھیاں اترتے بولا تھا ۔۔ جبکہ اکرم صاحب اس کو غصے سے دیکھ رہے تھے ۔۔

تم نے کمپنی کا کیا کیا ہے۔۔  اکرم صاحب اس کا گریبان پکڑنے کو آئے تھے ۔۔۔

اکرم افندی ہاتھوں کو قابو میں رکھو عرش سے فرش پر تو آ گئے ہو ۔۔  یہ نہ ہو خاک میں ملا دوں ۔۔ حدید نے اکرم آفندی کے ہاتھوں کو سختی سے قابو کیا تھا۔

تم نے اکرم گروپ اوف انڈسٹری کا نام کس سے پوچھ کے بدلہ ؟ اکرم صاحب غصے سے دھاڑے تھے۔۔

آواز نیچھے رکھیں ایک تو تمہارے کرتوتوں کی آواز پورے گھر میں گونجی رہی ہے اور اوپر سے تمہاری آواز نے سر کھا رکھا ہے۔۔ حدید غصے میں دیکھتا ریموٹ اٹھا کر ایل سی ڈی کو اوف کر چکا تھا ۔

اپنی حد میں رہو ۔۔ اب کی بار شہزاد اگے بڑھا تھا اس سے پہلے  شہزاد اس کا گریبان پکڑتا حدید اس کا گریبان پکڑ چکا تھا۔۔

ابھی تک اپنی حد میں ہی ہوں ۔۔ جس کی وجہ سے تم اور تمہارا باپ میرے گھر میں کھڑے ہو کے بھونک رہے ہو۔ اگر میں نے حد پار کی تو سڑک پر بھی جگہ نہیں ملے گئی دونوں کو ۔ حدید نے اس کو دور دھکیلا تھا۔۔

اور جس اکرم گروپ اوف انڈسٹری کی آپ بات کر رہے ہیں وہ سب میرا ہے۔  میرے نانا کہ پیسوں کا ہے ۔ حدید نے اکرم صاحب کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا تھا۔ 

بکواس ہے یہ ۔۔ تم بکواس بک رہے ہو۔۔ اکرم صاحب بے یقینی سے بولے تھے ۔

بکواس ؟؟ ہاہاہاہہا۔۔ حدید ہنسا تھا۔  

یاد کرو اکرم آفندی یاد کرو وہ وقت جب تمہارے بھائی نے میری ماں کی جائداد پر قبضہ کیا تھا ۔میرے نانا کی ساری پراپرٹی کو اپنے نام کیا تھا۔۔ حدید ایک ایک لفظ چبا کر بولا تھا۔۔

اپنی فصول بکواس بند کرو تم ۔ شہزاد نے حدید کا بازو پکڑ کر اس کا روخ اپنی طرف موڑا تھا۔۔

چٹاخ ۔۔۔۔ تھپڑ کی بلند آواز ٹی وی لاؤنج میں گونجی تھی۔۔ اکرم صاحب حیرت سے حدید کو دیکھ رہے تھے جبکہ شہزاد کا منہ ایک طرف جھکا ہوا تھا اور اس نے اپنی گال پر ہاتھ رکھا ہوا تھا ۔

اب میری بات کے بیچ میں بولے تو خال ادھیڑ کر چوراہیے پر لٹکا دوں گا شہزاد اکرم ۔۔ مجھے فصول لوگوں کی چک چک پسند نہیں ۔۔ حدید نے اس کو شہادت کی انگلی دیکھا کر وارننگ دی تھی ۔

تمہاری اتنی ہمت۔۔ شہزاد نے ایک قدم آگے بڑھایا تھا۔۔

میری ہمت کی بات مت کرنا شہزاد میرے ایک اشارے پر تم اور تمہارا باپ اس دہلیز سے باہر ہو گے بے یارو مددگار ۔۔ حدید نے مسکرا کر اس کو دیکھا تھا۔۔

یہ سب میرا ہے میرے باپ کا ہے ۔ شہزاد غصے سے ڈھارا تھا جبکہ اکرم صاحب نے آگے بڑھ کر اس کے سینے پر ہاتھ رکھا تھا اور اس کو دور کیا تھا۔۔

یہ سب تیرے باپ کا نہیں ہے یہ سب میری ماں کا ہے میری ماں کے باپ کا ہے۔۔ یہ گھر یہ ، یہ عیش ، یہ بزنس ، یہ گاڑیاں سب کچھ میرے ماں کی میرے نانا کی جائیداد اور پیسوں سے بنا ہے ۔  حدید کی آواز آتی بلند تھی کہ شہزاد اور اکرم صاحب کے الفاظ منہ میں ہی دم توڑ گئے تھے۔۔

وہ دونوں خاموش کھڑے اس کو دیکھ رہے تھے۔۔ جو ان کی زندگی میں عذاب کی طرح نازل ہوا تھا جیسے کبھی سلیم افندی اس کی ماں اور اس کے نانا کی زندگی میں عذاب کی طرح نازل ہوا تھا۔۔

حدید افندی افندیز کا وارث ہے ۔۔ اس گھر کا اس بزنس کا ہر چیز کا مالک میں ہوں۔ سب کچھ میرے اجداد کی جائیداد اور دولت سے بنی ہے۔ اس کا حق دار صرف میں ہوں۔ اور حق حقدار کو ہی ملتا ہے۔ وراثت وارثوں کے پاس ہی آتی ہے۔۔حدید نے اکرم صاحب کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ایک ایک لفظ چبا چبا کر بولا تھا۔۔

شہزاد اور اکرم افندی کی زبان تالو سے چپک چکی تھی ۔ اور حدید ان دونوں پر ایک حقیر نگاہ ڈال کر واپس سڑھیاں چڑھ گیا تھا ۔

سر باہر میڈیا کھڑی ہے ۔  ایک سیکورٹی گارڈ نے اندر آ کر اکرم صاحب کو خبر دی تھی ۔

کوئی بھی اندر نہ آئے ۔۔ دروازے بند کرو سب ۔۔ اور ان سب کو دفعہ کرو ادھر سے۔۔ شہزاد غصے میں کہتا ایک سخت نظر اکرم صاحب پر ڈالتا اپنے کمرے میں گیا تھا۔۔

••••••••••••••••

کمرا اس وقت سیاہ اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا۔۔ کمرے میں موجود بڑی سے ایل سی ڈی چل رہی تھی اور اس کے سامنے رکھے صوفے پر کوئی بے نیاز سا بیٹھا تھا۔ سیاہ رنگ کی کیپ سر پر پہن رکھی تھی جس سے چہرے پر سکرین کی روشین پڑنے سے بھی چہرہ صاف نظر نہ آ رہا تھا ۔۔ ہاتھوں پر سیاہ رنگ کے لیدر کے گلوز پہن رکھے تھے۔ سیاہ رنگ کا لونگ کوٹ پہنے وہ اس سکرین کو دیکھ رہا تھا۔۔

اس کے ہونٹوں پر ہلکی سے مسکراہٹ نے جگہ لی تھی ۔  اور اس نے پاس پڑا اپنا فون اٹھا کر ایک نمبر ڈائل کیا تھا ۔۔ رنگ جا رہی تھی۔ مقابل نے فون اٹھا لیا تھا۔۔

کیسے ہو کبیر خاور ۔۔ اس کی روبدار آواز اس کمرے کی خاموشی میں گونجی تھی ۔ اور سرد نظریں ابھی بھی سکرین کو دیکھ رہی تھی ۔

کو۔۔۔کون بول رہا ہے۔۔ کبیر خاور کی پریشان سی آواز سپیکر پر سے گونجی تھی۔۔

باخدا تمہاری آواز میں موجود پریشانی روح تک کو سکون دے رہی ہے ۔۔  وہ شخص خوشی سے بولا تھا۔۔

کون بات کر رہا ہے۔۔ کبیر خاور اب کی بار غصے سے بولا تھا۔۔ وہ شاید مقابل کے لہجے میں چھپا  طنز محسوس کر گیا تھا۔۔

تمہاری شکست ۔۔ وہ شخص مسکرایا تھا ۔

بیسٹ ۔۔ کبیر خاور ناسمجھی سے بولا تھا۔۔

نہیں تو۔۔اس کی مسکراہٹ گہری ہوئی تھی۔ 

زیک ۔۔ کبیر خاور نے ایک اور نام بولا تھا ۔

نہیں ۔۔ مسکراہٹ پہلے سے زیادہ گہری ہوئی تھی۔ 

ایم -زی۔۔۔ ایک اور نام بولا تھا کبیر خاور نے۔۔۔

نہیں ۔۔ وہ ہی جواب اور مسکراہٹ اور گہری ہوئی تھی۔ 

کون ہو تم۔۔۔ کیا چاہتے ہو مجھ سے۔۔ کبیر خاور بلند آواز میں بولا تھا۔۔

تمہارا نائٹ میئر۔۔۔ اور موت چاہتا ہوں تمہاری ۔۔۔ وہ شخص گہری مسکراہٹ سے بولا تھا۔۔

دوسری طرف مکمل خاموشی چھا گئی تھی۔۔ایسی خاموشی جیسے کوئی مر گیا ہو ۔۔

ویسے کیسی کو اتنا برا بھی زوال نہ ملے کبیر خاور ۔۔رات کو بیٹے کا سر ملا ۔ اور دن چھرتے ہی بدنامی مقدار بن گئی۔۔ سنا ہے موقع پر گولی مارنے کا ارڈر ملا ہے ۔۔ وہ شخص ہنستے ہوئے بولا تھا۔۔

تم ۔۔تم۔۔یہ سب کیسے جاںتے ہو۔۔ کبیر خاور کی آواز میں لرزش تھی۔۔

میں تو یہ بھی جانتا ہوں تم اس وقت کس حال میں ہو۔۔ یہ کہہ کر وہ شخص فون بند کر چکا تھا ۔ اور سامنے سکرین کو دیکھا تھا ۔۔ جہاں کبیر خاور کے عالیشان منشن کا ایک ایک کونا نظر آ رہا تھا ۔

اس نے اپنے سر سے کیپ اتار کر ایک طرف رکھی تھی اور اپنے بھورے سیلکی بالوں میں ہاتھ پھیرا تھا ۔ اس کی نیلی آنکھیں سکرین سے پڑتی روشنی کی وجہ سے چمک رہی تھی ۔ بھوری سیٹ ہوئی ہوئی داڑھی میں موجود عنابی ہونٹوں پر ایک خاص مسکراہٹ تھی۔ مسکرانے پر اس کے ڈینپل اج پہلی بار بہت زیادہ نمایاں ہوئے تھے ۔۔ اور اس کی وجہ اس کی فیڈ کی ہوئی داڑھی تھی۔۔

میں نے کہا تھا نہ اب جو تمہارے ساتھ کرؤں گا اچھا وہ بھی نہیں ہو گا۔۔ سرد آنکھیں خوشی سے مسکرائی تھی ۔

میں بلیک ڈیول کا بیٹا ہوں کبیر خاور ۔۔ اور تمہارا ڈراؤنا خواب ۔۔ وہ اپنی جگہ سے کھڑا ہوا تھا۔۔ اور چلتے چلتے سکرین کے بہت قریب جا کر کھڑا ہوا تھا ۔

بہت جلد تم مجھے میرے اصل نام سے جانو گے کبیر خاور اور اس دن تمہیں پتا چلے گا زوریز ابراہیم احمد خان  جب کیسی سے دشمنی پال لے تو اس دشمنی کا انجام کیا ہوتا ہے۔۔اس کی برفیلی آنکھوں میں مکمل غصہ تھا۔۔  

وہ موڑا تھا اور غصے میں کمرے سے باہر نکلا تھا ۔ اور اب وہ بیسمنٹ سے باہر نکل کر اپنے گھر کی بیک سائیڈ پر تھا۔۔ اور خاموش کھڑا بیک لاؤن کو دیکھ رہا تھا ۔ اس کی نیلی آنکھوں میں سختی تھی۔۔  اور جیسے وہ باہر چلتی ٹھنڈی فضا میں خود کو نارمل کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔۔

••••••••••••••••

وہ اپنے کمرے میں غصے سے ادھر اُدھر ٹہل رہا تھا ۔ اس کے سر میں وقتاً فوقتاً بہت شدید درد اٹھ رہی تھی۔۔ اس نے اچانک سر پر ہاتھ رکھا تھا اور پاس پڑے صوفے پر بیٹھتا چلا گیا۔۔  شاید اس کے سر میں درد کی ایک شدید لہر پھر سے اٹھی تھی ۔ سر درد کی شدّت سے اس کی آنکھیں سرخ ہو رہی تھی ۔

یہ سر درد میری جان لے لے گا ۔ شہزاد درد برداشت کرتا بولا تھا ۔

پاس پڑا پانی کا گلاس اس نے بامشکل اُٹھایا تھا۔۔۔ ابھی اس نے گلاس لبوں سے لگایا بھی نہ تھا جب اچانک اس کی قمیض کے دامنِ پر ایک سرخ قطر گرا تھا ۔ شہزاد نے گلاس ویسے ہی ٹیبل پر رکھا تھا اور اپنے سیدھے ہاتھ کی پوروں سے ناک کو چھوا تھا۔۔ اس کی انگلیاں خون سے تر تھی ۔۔

وہ فورآ اٹھ کر باتھ روم میں گیا تھا۔۔ اپنے ناک کو پانی سے اچھے سے صاف کیا تھا ۔ اور اس کے بعد وہ شاور چلا کر اپنا سر اس کے نیچھے کر چکا تھا۔۔ کافی دیر تک وہ ایسے ہی کھڑا رہا تھا ۔ سر کی درد کو کچھ سکون تھا ۔۔۔ مگر جیسے ہی وہ باتھ روم سے باہر نکلا اس کی آنکھیں دھندلانے لگی تھی۔۔ وہ بامشکل چلتا ہوا اپنے بیڈ کے پاس گیا تھا اور بیڈ پر بیٹھ کر فوراً اس نے کانپتے ہاتھوں سے سائیڈ ٹیبل کے دراز سے کچھ میڈیسنز نکلی تھی ۔۔

اب وہ ایک ایک ٹیبلٹ نکال کر منہ میں رکھ رہا تھا اور ان کو بغیر پانی کے نگل چکا تھا۔۔ شہزاد نے آنکھیں موند لی تھی اور بیڈ پر لیٹ گیا تھا۔۔۔ اس کے سر میں ابھی بھی کچھ دیر بعد درد اٹھ رہا تھا۔  اس کے فون پر کال آ رہی تھی۔۔ اس نے فون سائیڈ پر رکھا تھا اس میں کال اٹھانے کی ہمت نہیں تھی ۔

اس کا فون پھر سے رنگ ہوا تھا ۔ اس نے غصے میں کال اٹھا لی تھی۔

کیا مصیبت ہے؟؟  وہ غصے سے دھاڑا تھا ۔

سر آپ کی اپوائنٹمنٹ تھی آپ کے ڈاکٹر کے ساتھ۔۔  اس کی سیکرٹری کی کال تھی ۔۔

کینسل کر دو ۔۔  شہزاد شوز اتار کر سیدھا لیٹتے بولا تھا۔۔

بٹ سر آپ نے کہا تھا آپ کی یہ اپوائنٹمنٹ ضروری ہے۔۔ دوسری طرف سے اس کی سیکرٹری کی آواز آئی تھی۔۔

ہاں میں نے کہا تھا اور اب میں ہی کہہ رہا ہوں کینسل کر دو ۔۔ اور ڈیڈ کو اس بارے میں پتا نہ چلے کہ میں ایک ڈاکٹر سے ٹریٹمنٹ کروا رہا ہوں ۔۔یہ کہہ کر وہ فون رکھ چکا تھا ۔

میں کیا کروں اس سر درد کا۔۔ شہزاد نے ایک تکیہ اٹھا کر اپنے چہرے پر رکھا تھا۔۔۔ اور اس تکیہ کو بہت بری طرح سے جکڑ چکا تھا۔۔

وہ بستر پر کبھی ایک طرف کروٹ لے رہا تھا تو کبھی دوسری طرف کروٹ لے رہا تھا۔  تقریباً وہ آدھے گھنٹے میں گہری نیند سو چکا تھا مگر اس کے بستر کی حالت بہت عجیب ہوئی پڑی تھی ۔۔  جیسے کیسی بدتمیز بچے کو اور نفاست سے سیٹ بستر پر چھوڑ دیا گیا ہو اور اس نے اس بستر کی حالت افسوس ناک کر دی ہو۔۔

••••••••••••••••••

وہ لیپ ٹاپ پر کام کر رہا تھا جب اس کے کمرے کا دروازہ نوک ہوا تھا ۔۔

آ جاؤ ۔۔ مصروف آواز میں کہا گیا تھا۔۔

اس کی اجازت کے ساتھ ہی کمرے کا دروازہ کھولا تھا ۔ نور ہاتھ میں چائے کی ٹرے پکڑے اس کے کمرے میں داخل ہوئی تھی اس نے ہلکے نیلے رنگ کا کرتا اور اس کے نیچھے ہم رنگ ٹاورز پہن رکھا تھا۔ گلے میں دوپٹہ لیے وہ عام سے حولیے میں بھی بہت پیاری لگ رہی تھی۔۔

دوراب آپ کی چائے ۔۔ نور مدہم آواز میں بولی تھی۔۔

کی بوڈ پر چلتی دوراب کی انگلیاں اچانک روکی تھی ۔۔ اس کو اپنی سماعت پر یقین نہ آیا تھا۔۔ اس نے گردن موڑ کر دیکھا تھا۔۔ اس کی معصوم سی گڑیا اس کے سامنے کھڑی تھی ۔  اور آج ناجانے کتنے عرصے بعد ان دونوں کا آمنا سامنا ہوا تھا۔ بے شک وہ اس کے نکاح میں تھی لیکن ہر بار اس کو دیکھ کر کترا جاتی تھی راستہ بدل لیتی تھی۔ اور سونے پر سہاگے درواب اپنے کاموں میں کچھ ایسا الجھا تھا کہ اس کو اس کے ساتھ فرصت کے کچھ لمحات بھی میسر نہ تھے۔

یہ مجھے دو۔۔ دوراب فوراً اپنی جگہ سے اٹھا تھا اور اس کے ہاتھ سے چائے کی ٹرے پکر لی تھی۔  اور ٹیبل پر رکھی تھی ۔

نور دوراب کو ٹرے رکھتا دیکھ جانے لگی تھی جب اچانک دوراب نے اس کی کلائی پکڑ لی تھی ۔

کدھر جا رہی ہو ؟  میں نے بولا کہ تم جاؤ ؟ دوراب ایک قدم آگے بڑھا تھا۔۔

آپ نے نہیں بولا مگر مجھ کچھ کام ہے۔۔ نور خود کو نارمل رکھتے بولی تھی۔۔ جبکہ دل کی دھڑکن اس قدر تیز تھی کہ مانو ابھی باہر نکل ائے۔۔

نور تم مجھ سے بھاگتی کیوں ہو؟ دوراب اس کے سامنے آ کر کھڑا ہوا تھا ۔۔

میں تو نہیں بھاگتی ۔۔ نور نے نظریں جھکا لی تھی ۔

تم بھاگتی ہو۔۔ دوراب نے الفاظ دہرائے تھے ۔

نہیں تو۔  جواب اب بھی وہ ہی تھا۔۔

نور؟ دوراب نے غور سے اس کو دیکھا تھا۔۔ اس کو نور پہلے سے خاموش لگی تھی ۔ وہ کبھی بھی اس کے بلانے پر اتنی خاموش نہ ہوئی تھی۔۔

نور نے نظریں اٹھا کر دوراب کو دیکھا تھا۔۔ اس کی آنکھوں میں شکوہ تھا ۔۔ دوراب اس کی آنکھوں میں موجود خاموش شکایت کو محسوس کر گیا تھا ۔

آپ جانتے تھے جزا کدھر ہے کس حال میں ہے آپ نے کیوں نہیں بتایا ؟ آپ آرمی میں تھے کیوں نہی بتایا ؟؟ کیا میں وہ مقام وہ جگہ حاصل نہ کر سکی دوراب کہ آپ کو مجھ سے باتیں چھپانی پڑی ۔۔ نور نے ایک ہی بار ساری بات دوراب کے سامنے رکھ دی تھی۔۔

نور میں اگر تمہیں بتا دیتا جزا کہاں ہے کس حال میں ہے۔ تو کیا تم اس سے ملے بغیر رہ پاتی؟ دوراب نے اس سے الٹا سوال کیا تھا ۔

نور نے دوراب کو گھورا تھا۔۔

ایسے نہ گھورو اب۔۔ مجھے پتا ہے تم شور مچا دیتی کے مجھے جزا سے ملنا ہے ۔۔ کیونکہ وہ تمہاری زندگی کا ایک اہم حصّہ ہے۔ اور اس وقت تمہارا جزا سے ملنا تم دونوں کے لیے ٹھیک نہ تھا۔۔ اس لیے نہیں بتایا ۔ دوراب نے نور کے چہرے کو ہاتھوں کے پیالے میں لیا تھا ۔

وہ آرمی کے بارے میں کیوں نہ بتایا؟ نور نے اس کے ہاتھوں کو اپنے چہرے سے دور کیا تھا ۔۔ یہ اس کی ناراضگی کا اظہار تھا ۔ جبکہ دوراب ہلکا سا مسکرایا تھا۔۔

وہ اس لیے نہیں بتایا کیونکہ تمہارے پیٹ میں کوئی بات نہیں ٹکتی ۔۔ دوراب نے چور نظروں سے نور کو دیکھا تھا۔۔ جبکہ نور نے غصے سے دوراب کو گھورا تھا ۔

مجھ سے اب بات کرنے کی ضروت نہیں ۔ مہینوں غائب رہتے ہیں ۔۔ اور جب آتے ہیں تب بھی مجال ہے کوئی ڈھنگ کی بات ہو جائے آپ سے۔ اور روتے ہیں محبت کرنے کو۔۔ نور غصے میں دوراب کو دیکھتے بول رہی تھی جبکہ اس کے الفاظ سن کر دوراب کا منہ کھولا کا کھولا رہ گیا تھا۔۔

نور۔۔۔ دوراب حیرت سے بولا تھا۔۔

بھار میں گئی نور۔۔ نور یہ کہہ کر دروازے کی طرف بڑھی تھی۔۔

بات تو سنو ؟ دوراب ںے پھر سے اس کی کلائی پکڑی تھی ۔

اور کون سے الفاظ بچیں ہے میری عزت میں وہ بھی بول دیں مسٹر دوراب ۔۔ نور نے اس کو سر سے پیر تک دیکھا تھا۔ 

جبکہ دوراب تو بس اس کو دیکھتا جا رہا تھا جو اس وقت غصے میں بہت پیاری لگ رہی تھی ۔

میرے پیٹ میں اگر کوئی بات نہ ٹکتی ہوتی نہ دوراب تو آپ جب جب گھر لیٹ آئے ہیں اور جب جب بیک لاؤن میں جا کر سموکنگ کی ہے ۔ اور جب جب آپ باہر کیسی سے لڑ کر آئے ہیں ۔۔ تب تب آپ کو چچا جان سے جوتے پڑے ہوتے ۔ نور یہ کہہ کر کمرے سے باہر نکلی تھی۔

جبکہ دوراب اپنی ہنسی روکتا اس کے پیچھے لپکا تھا۔۔

ارے سنو تو سہی میری غصیل بیوی ۔۔ دوراب اس کے سامنے جا کر کھڑا ہوا تھا ۔

مجھے نہیں  سنی آپ کی ۔۔۔ اور مجھے کیوں بتانی ہے کوئی بات میرے پیٹ میں تو بات ٹیکتی نہیں ہے۔۔ نور غصے سے بولی تھی ۔

ایک بار سن لو نہ؟ دوراب نے التجاء کی تھی ۔

نہیں ۔۔ اس کا اندازہ دوٹوک تھا۔۔ وہ سڑھیاں اترنے لگی تھی ۔

میں اپنے کاموں کی وجہ سے مہینوں  اور دنوں گھر سے دور رہتا ہوں۔ مگر جب آتا ہوں تو تب بھی تم مجھے سے بات کرتی ہو ؟ دوراب کے الفاظ نے اس کے قدم ادھر ہی روک دیے تھے اس نے موڑ کر دوراب کو دیکھا تھا ۔

نور تم میرا انتظار کرتی ہو میرے لوٹ آنے کی رہ دیکھتی ہو۔ مگر جب میں آ جاؤ تو خاموشی کی اذیت دیتی ہو۔ مجھے دیکھ کر رہ بدل لیتی ہو۔ مجھ سے بات نہیں کرتی۔۔ دوراب نے اس کی آنکھوں میں دیکھا تھا ۔

پہلے کی بات اور تھی تم منگیتر تھی میری تمہارا گریز سمجھ میں آتا تھا۔۔ اب بیوی ہو میری اب بھی خاموشی اب بھی دیکھ کر راستہ بدل لینا یہ کہاں کا انصاف ہوا۔۔ کیا انتظار اس لیے کرتی ہو؟ دوراب نے اس کے نازک ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لیا تھا ۔

جبکہ اب کی بار نور خاموش تھی اس کے پاس الفاظ نہ تھے وہ کیا بولے ۔۔ اوپر سے دوراب کی نظریں اس کو مزید نروس کر رہی تھی۔

میں انتظار کر کر کے تھک گئی ہوں دوراب ۔۔ کبھی مہینوں انتظار کبھی ہفتوں تو کبھی دنوں ۔۔ اب بھی آئیں ہے تو مصروف ہیں آپ ۔ کبھی تو صرف میرے لیے آئیں۔ میرے لیے وقت ہو۔۔ نور نے نم آنکھوں سے اس کو دیکھا تھا۔۔

تمہارا یہ شکوہ بہت جلد دور کروں گا۔۔ دوراب نے اس کو محبت سے دیکھا تھا۔۔

جانے دیں صرف باتیں ہیں یہ۔۔ محبت میں انتظار شاید میرا مقدر ہے دوراب ۔۔ نور یہ کہہ کر سیڑھیاں اتر گئی تھی اور پیچھے دوراب کو خاموش چھوڑ گئی تھی۔۔۔

محبت میں انتظار ہمارا نصیب ہے نور۔۔ دوراب نے ایک سرد آہ بھری تھی۔۔

••••••••••••••••••

جزا کیا کر رہی ہو۔۔ آمنہ جزا کے پاس  لاؤن میں آ کر بیٹھی تھی ۔ جہاں وہ لیپ ٹاپ پر کچھ کام کر رہی تھی۔۔

کچھ نہیں بس تھوڑا سا کام تھا۔۔ جزا نے لیپ ٹاپ ایک طرف رکھا تھا ۔

یار میں سوچ رہی ہوں شاپنگ پر چلیں کتنا ٹائم ہو گیا ہے ہم لوگ ایک ساتھ کہیں گئی نہیں ۔۔اب جب تم آ گئی ہو تو چلتیں ہیں ۔۔ آمنہ کچھ سوچتے ہوئے بولی تھی ۔۔

ہاں کافی ٹائم ہو گیا ایک ساتھ باہر گئے ضرور چلیں گے ۔۔  جزا مسکرا کر بولی تھی۔۔

کیا منصوبے بنا رہی ہو تم دونوں میرے بغیر ۔۔ نور چائے کے کیپ ان دونوں کے سامنے رکھتے بولی تھی ۔

تمہارے بغیر منصوبے بنا کر تمہارے ہاتھوں مرنا ہے کیا ہم نے؟ جزا نے اس کو کہنی ماری تھی۔۔

جب ایک بلیک کلر کی لینڈ کروزر سکندر ہاؤس میں داخل ہوئی تھی۔۔ کار کا دروازہ کھول کر ایان افضل باہر نکلا تھا۔ جس نے بلیک پلو ٹی شرٹ کے نیچھے چارکول کلر کی پینٹ پہن رکھی تھی ۔ آنکھوں پر بلیک سن گلاسز لگائے سیاہ بالوں کو نفاست سے سیٹ کیے وہ اس وقت بہت ہینڈسم لگ رہا تھا ۔

جبکہ اس کو دیکھ کر ناجانے کیوں مگر آمنہ کامران کے رخسار آج خود با خود گلابی ہونے لگے تھے ۔اس کو اپنی طرف آتا دیکھ بے اختیار آمنہ کے دل کی دھڑکنیں تیز ہوئی تھی ۔

اسلام وعلیکم ۔۔ آیان ان تینوں کے پاس آ کر بولا تھا ۔ جبکہ سن گلاسز کے پیچھے چھپی نظریں آمنہ کے چہرے پر اٹکی ہوئی تھی ۔

وعلیکم السلام آیان بھائی۔۔ جزا اور نور ایک ساتھ بولی تھی ۔۔

کیسی ہو آپ تینوں ۔۔ آیان نے ان تینوں کو دیکھا تھا۔

ایان بھائی آئیں نہ بیٹھیں میں دوراب کو بولتی ہوں اور آپ کے لیے چائے بناؤ ؟ نور نے اچھی مہمان نواز ہونے کا ثبوت دیا تھا ۔

نور بھابھی دوراب کو ڈیسٹرب نہ کریں مجھ جزا سے کام ہے اور چائے بنانے کا تکلف نہ کریں مجھے کام سے اوفس جانا ہے۔ آیان مدہم آواز میں مسکرا کر بولا تھا۔۔

کیا کام ہے مجھ سے؟ ۔۔ جزا ایک نظر امنہ کو دیکھا تھا اور پھر آیان کی طرف دیکھا تھا۔ 

مجھے تمہیں کچھ دیںا تھا ۔۔ پہلے سوچا کے کوریر کر دوں ہھر جب ادھر سے گزرا تو سوچا دیتا ہی جاؤں ۔۔ آیان نے جیب میں سے ایک چھوٹی سی ڈبی نکال کر جزا کی طرف بڑھائی تھی ۔ اور ساتھ ہی اپنی سن گلاسز آتاری تھی۔۔

اس کی سیاہ آنکھیں اس وقت چمک رہی تھی ۔ اور آمنہ کو پہلی بار سیاہ آنکھیں اتنی خوبصورت لگی تھی۔۔ اس کا دل بے اختیار بےچین ہوا تھا۔۔ وہ خاموشی سے اٹھ کر اندر کی طرف بڑھی تھی۔۔

کدھر جا رہی ہو۔۔ نور نے اس کو آواز دی تھی ۔۔

کچن میں تھوڑا کام تھا وہ ہی دیکھینے جا رہی ۔۔ آمنہ یہ کہہ کر اندر کی طرف بھاگی تھی۔۔جبکہ جزا نے ایک نظر اس کو دیکھا تھا اور ہلکا سا مسکرائی تھی۔ جیسے وہ آمنہ کی خاموش چوری پکڑ چکی ہو.۔

دوسری طرف آمنہ لاون کے ڈود سے ٹیک لگا کر اپنے دل کی بے ترتیب ہوتی دھڑکنوں کو نارمل کر رہی تھی۔۔ اس کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اس کے ساتھ کو کیا رہا ہے۔ جب جب آیان کو دیکھتی ہے تب تب اس کی دھڑکنیں تیز ہو جاتی تھی۔۔

آگے پیچھے کچن سے بھاگتی آج کون سا کام ہے اس کا۔۔ نور منہ ہی منہ میں بربرائی تھی۔۔ اور حیرت سے لاون کے دروازے کو دیکھ رہی تھی۔۔

اور جزا آیان کی دی ہوئی ڈبی کھول کر دیکھا تھا جس میں ایک یو اس بی تھی۔۔

یہ کیا ہے؟ جزا نے آیان کو سوالیہ نظروں سے دیکھا تھا ۔

کھولو گئی تو پتا چل جائے گا ۔۔ آیان نے جزا کے ہاتھ میں موجود ڈبی کی طرف اشارہ کیا تھا۔۔

اوئے تم کب ائے۔۔دوراب ہاتھ میں لیپ ٹاپ بیگ لیے تھری پیس پہنے باہر نکلا تھا اور اپنی کار کی طرف جا رہا تھا جب اس کو آیان لاؤن میں جزا اور نور کے پاس کھڑا نظر آیا تھا۔۔

جزا کو کچھ دیںا تھا اس لیے آیا تھا بس نکل رہا ہوں۔۔ میرے ساتھ چلو گے؟ آیان نے موڑ کر دوراب کو دیکھا تھا اور اس کی تیاری دیکھ کر اس کو اوفر دی تھی ۔

چلو پھر نکلتے ہیں کام ہے ایک ضروری ۔۔ دوراب شاید جلدی میں تھا تبھی آیان بھی فوراً جانے کے لیے پلٹا تھا۔۔

••••••••••••••••••••

پانچ گاڑیاں ایک ساتھ ایک فارم ہاؤس پر روکی تھی ۔۔ درمیان والی کار میں سے ایم این اے جہانزیب باہر نکالا تھا۔۔ اس نے سفید شلوار قمیض پہن رکھی تھی اور اس پر ڈارک برون کلر کی ویس کوٹ پہنی ہوئی تھی۔ سر اور موچھوں کے بال کچھ گرے اور کچھ سفید تھے ۔

چہرے پر فکر صاف نظر آ رہی تھی۔  وہ تیز قدم اُٹھاتے اپنے اس عالیشان فارم ہاؤس کی طرف بڑھے تھے ان کا روخ اندر کی طرف تھا۔۔

وہ ایک پمحے کو روکا تھا اور موڑ کر اپنے ایک آدمی کو دیکھا تھا۔۔ اندر کیسی کو نہ آنے دیںا سمجھ آئی ۔۔ وہ یہ کہہ کر فوراً اندر گیا تھا۔۔ان کے اندر جاتے ہی گارڈز باہر روک گئے تھے ان کہ حفاظت کے لیے جبکہ صرف دو گارڈز اندر گئے تھے ان کے ساتھ۔۔

اور میں گیٹ بند کر دیا تھا۔۔ اس کے دو گارڈز اس کے ساتھ  راہداری میں چل رہے تھے۔۔

وہ ابھی لاؤنج میں داخل ہی ہوئے تھے جب سامنے بیٹھے شخص کو دیکھ کران کے قدم اپنی جگہ تھم گئے تھے۔۔ جبکہ وہ شخص بہت اطمینان سے بیٹھا اپنی چائے میں چینی مکس کر رہا تھا۔۔

بہت دیر کی مہرباں آتے آتے ۔۔ اس شخص نے سر ایسے ہی جھکائے چائے کے کپ میں چینی مکس کرنے کا عمل جاری رکھا ۔۔

تم۔۔۔ ادھر ۔۔۔ ایم این اے جہانزیب کی آواز کانپی تھی ۔ جب نظر موڑ کر دیکھی تو ان کے دونوں گارڈز کے سر پر بندوق رکھے دو آدمی کھڑے تھے ۔۔

آپ نے تو کبھی اپنے غریب خانے پر بلایا نہیں ایم این اے صاحب۔۔ میں نے سوچا خود جا کر آپ کا مہمان بنا جائیں ۔۔ اب کی بار مقابل نے سر اٹھایا تھا۔۔ سبز آنکھوں میں تیش تھا۔۔

بیسٹ تم ادھر کیا کر رہے ہو۔۔ ایم این اے جہانزیب نے ماتھے پر آیا پسینہ صاف کیا تھا ۔

کچھ حساب وصول کرنے آیا ہوں۔۔ سبز انکھوں کی سختی بڑھی تھی۔۔

میں کنگ کے ساتھ نہیں ہوں بیسٹ ۔۔ میں صرف کچھ وقت کے لیے اپنے مفاد کی خاطر اس کے ساتھ تھا۔۔ ایم این اے جہانزیب فورآ بولا تھا۔

باخدا میں اس معاملے میں بالکل درست ہوں۔ کبیر خاور نے کتے نسلی نہیں پالے۔  بیسٹ نے ٹانگ پر ٹانگ رکھی تھی ۔

کیا بکواس ۔۔ ایم این اے جہانزیب کے الفاظ منہ میں ہی تھے جب سارے دروازے اور کھڑکیاں بند ہونے لگی تھی ۔ اور اچانک اس کے دونوں گارڈز زمین پر گرے تھے۔۔

ایم این اے جہانزیب کو اب خوف محسوس ہونے لگا تھا۔ کیونکہ اس کا پورا فارم ہاؤس ساؤنڈ پروف تھا۔۔ اب اس کے ساتھ کچھ بھی ہوتا کیسی کو پتا نہ چلتا نہ اس کی چیخ و پکار کیسی کو سنائی دیتی۔۔

بیسٹ تم مجھے نہیں مار سکتے۔۔ ایم این اے جہانزیب خود کو نارمل کرتے بولے تھے ۔

جتنی بدنامی ہو گئی ہے تمہاری اس کے بعد بھی تمہیں جینے کی خواہش ہے۔ مطلب بندہ کمینا ہو اور مطمئن ہو ۔ بیسٹ نے دلچسپی سے اس کو دیکھا تھا۔۔

وہ سب فصول بکواس ہے۔  ایم این اے جہانزیب غصے سے بولے تھے ۔

خاصے بےشرم معلوم ہوئے ہو۔۔ بیسٹ نے سر سے پیر تک اس کو دیکھا تھا۔۔

دیکھو بیسٹ میں تمہیں کنگ کا ہر راز بتا سکتا ہوں ۔۔ میری جان بخش دو۔۔ ایم این اے جہانزیب نے سودا کرنا مناسب سمجھا تھا۔۔ مگر وہ بھول گیا تھا وہ یہ ڈیل کرنے کس سے والا ہے ۔

راز۔۔۔۔ کبیر خاور کے؟ میں تم سب کے وہ وہ راز جانتا ہوں جو تم سب کو بھی نہیں پتا اپنے بارے میں ۔۔ بیسٹ کی سبز آنکھیں غصے سے سامنے کھڑے شخص کو دیکھ رہی تھی۔۔

ک۔۔کیا مطلب ۔۔ایم این اے جہانزیب نے ایک قدم پیچھے لیا تھا ۔

طلب بہت اچھے سے بتاتا ہوں ۔۔ بیسٹ نے ایل سی ڈی کو آن کیا تھا ۔

ایم این اے جہانزیب آنکھیں پھاڑے ایل سی ڈی کی سکرین کو دیکھ رہا تھا۔۔ جہاں پہلے وہ ایک لڑکی کو بہت بری طرح سے اپنے تشدد کا نشانہ بنا رہا تھا، اب منظر بدلہ تھا اور جہانزیب اپنے ایک آدمی کو بہت بری طرح سے مار رہا تھا اور اس کے بعد اس نے اپنے بھوکے کتوں کے سامنے پھینک دیا تھا۔۔ ایسے ہی منظر بدلتے چلے جا رہے تھے۔۔

بیسٹ نے ہاتھ میں پکڑے ریموٹ سے ایل سی ڈی اوف کر دی تھی۔۔

اتنا سب کچھ بہت ہے ؟ بیسٹ اپنی جگہ سے اٹھا تھا۔۔

یہ سر آ سر بکواس ہے۔۔ یہ ویڈیو ایڈیٹ ہوئی ہوئی ہے۔۔ میرے دشمن مجھے نیچھا دیکھانے کے لیے کچھ بھی کر سکتے ہیں ۔۔ جہانزیب اپنے آپ کو نارمل کرتے بولا تھا مگر اس کے باوجود اس کے ماتھے پر پسینے کے ننھے قطرے نمودار ہو رہے تھے جن کو بار بار وہ صاف کر رہا تھا ۔۔

جو خود اپنا سب سے بڑا دشمن ہو اس کو کیسی اور کی دشمنی خاک برباد کرے گئی ؟ بیسٹ نے جہانزیب کو طنزیہ نظروں سے دیکھا تھا۔

یہ بکواس ہے۔۔ جہانزیب اپنی بات پر قائم تھا۔۔

اگر یہ بکواس ہے تو پسینے کیوں چھوٹ رہے ہیں تمہارے۔۔ بیسٹ کی تیز نظریں اس کی گھبراہٹ کو بھانپ گئی تھی۔ 

مج ۔مجھے پیسنہ گرمی کی وجہ سے آ رہا ہے۔۔ جہانزیب نے اپنے ماتھے سے پسینہ صاف کیا تھا ۔

ایم این اے جہانزیب تم۔ بہت اچھے سے جانتے ہو بیسٹ کبھی بھی کھوٹی چیز منظر پر نہیں لاتا۔۔ بیسٹ نے آگے بڑھ کر اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا اور زور سے دبایا تھا۔۔

بیسٹ میری بات۔۔ جہانزیب نے اپنی جان بچانے کی ایک ناکام کوشش کرنی چاہی تھی۔۔

میں تمہاری فضولیات سنے کے موڈ میں بلکل نہیں ۔۔ بیسٹ نے سخت نظروں سے سامنے کھڑے جہانزیب کو دیکھا تھا ۔

نہ۔۔۔ نہیں ۔۔ بیس۔۔بیسٹ۔۔۔ جہانزیب بیسٹ کی آنکھوں میں موجود قہر کو اچھے سے سمجھ گیا تھا ۔۔ ایک لمحے کے لیے اس کی روح کانپ گئی تھی۔۔

یہ بندوق تمہاری ہے نہ ؟ کتنوں کو اس سے مارا ہے؟ بیسٹ ہاتھ میں پکڑی بندوق دیکھ کر بولا تھا ۔

جبکہ ایم این اے جہانزیب کی نظر اس بندوق اور بیسٹ کی آنکھوں کو دیکھ رہی تھی۔۔ اس کے ماتھے سے پیسنے کا ایک قطرہ پھسلتے اس کی آنکھ کے پاس سے گزرتے اس کی گال پر آیا تھا۔۔ دل کی دھڑکن بہت تیز تھی۔۔ چہرہ سفید پڑھ گیا تھا جیسے سارے جسم سے کیسی نے خون نچوڑ لیا ہو۔۔

جواب دو۔۔ بیسٹ کی گرجدار آواز گونجی تھی ۔۔ جبکہ جہانزیب ہل کر رہ گیا تھا۔۔

مج۔۔مجھے گنتی ۔۔۔ گنتی یا۔۔یاد۔۔نہیں۔۔ جہانزیب ںے کانپتے ہاتھوں سے پسینہ صاف کیا تھا ۔ اس کو گھوٹن ہونے لگی تھی۔۔

ستتر ۔۔ بیسٹ دو ٹوک انداز میں بولا تھا جب جہانزیب نے نظریں اٹھا کر اس کو دیکھا تھا۔۔

تم۔۔ تم۔۔ کیسے ۔۔ جانتے ہو۔۔ اس کو حیرت ہوئی تھی۔۔

ویسے ہی جیسے تمہارے سارے کرتوتوں کا پتا ہے اور یہ بھی پتا ہے۔۔ بیسٹ نے ایل سی ڈی کی طرف اشارہ کیا تھا جہاں کچھ دیر پہلے جہانزیب کے کالے کرتوت چل رہے تھے۔۔

بیسٹ مجھے ۔۔ جہانزیب زمین پر بیٹھا تھا جب بیسٹ نے اس کے بالوں کو اپنی موٹھی میں دبوچا تھا اور اس کو خاموشی رہنے کا اِشارہ کیا تھا۔۔

معافی مت مانگنا جہانزیب ، میری کتاب میں تم جیسے درندوں کے لیے معافی کا لفظ نہیں ہے ۔ بیسٹ غصّے سے بولا تھا۔۔

جبکہ اس کی آواز اور اس کے الفاظ جہانزیب کو خاموش کروا گئے تھے۔۔

اپنی جان لو جہانزیب ۔۔بیسٹ نے گن جہانزیب کے آگے کی تھی ۔

بیسٹ ۔۔۔۔ جہانزیب نے رحم طلب نظروں سے بیسٹ کو دیکھا تھا ۔

آسان موت چاہتے ہو تو اپنی جان خود لو کیونکہ اگر میں مارنے پر آیا تو موت سے موت کی بھیک مانگتے نظر آؤ گے ۔ بیسٹ نے گن اس کے سامنے پھینکی تھی اور واپس جا کر صوفے پر بیٹھ گیا تھا۔۔

فیصلہ تمہارا ہے جہانزیب ۔۔ خود کو مارو ۔۔ یا ایک دردناک موت اپنا مقدر بنا لو ۔ بیسٹ نے ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر شاہانہ انداز میں کہا تھا۔۔ اور ساتھ ہی اپنی انگلی سے ایک اشارہ کیا تھا ۔

اس کے انگلی کے اشارے سے پیچھے کھڑے اس کے آدمی نے جہانزیب کی کمر پر ٹانگ ماری تںی جس سے وہ جو جھک کر بیٹھا تھا بندوق کے قریب گرا تھا۔۔

اٹھاؤ بندوق ۔۔۔ بیسٹ نے غصے میں بولا تھا۔۔۔

جہانزیب نے رحم طلب نظروں سے بیسٹ کو دیکھا تھا ۔۔۔۔ جبکہ بیسٹ اس کو غصے اور قہر برساتی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔۔

تم اچھا نہیں کر رہے بیسٹ ۔۔۔ جہانزیب نے اس کو دیکھا تھا جو بےحس بنا بیٹھا تھا۔۔

اس سے زیادہ اچھا میں تمہاری ساتھ واقع ہی نہیں کر سکتا ۔۔ بیسٹ نے نے صوفے کےساتھ ٹیک لگا لی تھی ۔

بیسٹ ۔۔ ایک بار۔۔۔ میری جان بخش دو۔   جہانزیب نے اس کو التجاء نظروں سے دیکھا تھا۔۔

غلام دین کی بیٹی کے کتںے ٹکڑے کیے تھے تم نے؟؟ بیسٹ نے قہر برساتی نظروں سے جہانزیب کو دیکھا تھا ۔ اور اپنی جگہ پر کچھ اگے کو ہوا تھا۔  اس کے ماتھے پر دائیں سائیڈ کی ریگیں ابھری ہوئی تھی جیسے وہ اپنے غصے کو قابو کرنا چاہا رہا تھا مگر سامںے موجود جہانزیب کا چہرہ اس کو غصہ دیلا رہا تھا ۔

بیسٹ ۔۔۔ جہانزیب کا سانس ایک لمحے کو اٹکا تھا ۔۔ اس کو سمجھ نہ آ رہی تھی سامنے بیٹھا شخص یہ کیسے جانتا ہے ۔

تم نے اپنے ڈرائیور کو تمہارے خالف بولنے پر کتنی گولیاں اس کے منہ میں ماری تھی۔۔۔ بیسٹ نے سامنے پڑے کیپ کو ہاتھ میں لیا تھا ۔۔ اور اپنی جگہ سے اٹھا تھا۔۔ اور جہانزیب کی طرف قدم اُٹھانے لگا تھا ۔۔

جہانزیب کو اس کے ایک ایک قدم کر ساتھ موت اپنی طرف آتی دیکھائی دے رہی تھی۔۔ اس نے کانپتے ہاتھوں سے سامنے پڑی گن اٹھائی تھی۔۔

میر۔۔۔میرے پاس مت آنا ۔۔۔ جہانزیب نے گن کی نوک بیسٹ کی طرف کی تھی ۔

بےبسی کتنی جچ رہی ہے تم پر جہانزیب ۔۔۔ بیسٹ کی سبز آنکھیں مسکرائی تھی ۔۔

می۔۔میں گولی چلا دوں۔۔۔ گا۔۔ جہانزیب کانپتی آواز میں بولا تھا ۔

بیسٹ اس کے بلکل سامنے جا کر بیٹھا تھا ایک ہاتھ اس کی ایک ٹانگ پر رکھا تھا اور دوسرے ہاتھ میں موجود کپ اپنے ایک آدمی کی طرف بڑھایا تھا۔۔

چلاؤ گولی مجھ پر۔۔ بیسٹ نے اپنی سبز آنکھیں جہانزیب کی ہیزل آنکھوں میں گاڑ رکھی تھی ۔۔

جہانزیب نے ہاتھ میں پکڑی بندوق پر گرفت مضبوط کی تھی مگر اس کے ہاتھ ابھی بھی کانپ رہے تھے ۔ ماتھے پر پسینے کے قطرے تھے۔۔ آنکھوں میں موت کا خوف ۔۔ سانسیں بے ترتیب جیسے نہ جانے کتنے میل وہ پیدل چلا تھا۔۔ ہونٹ خشک ہو کر سفید ہو گئے تھے ۔ چہرہ سفید پڑھ گیا تھا ۔ جہانزیب نے کانپتے ہاتھوں سے ٹریگر دبا دیا تھا۔

مگر ٹریگر دبانے کے بعد بھی گولی نہ چلی تھی ۔ جہانزیب نے ہاتھ میں پکڑی گن کو حیرت سے دیکھا تھا اور پھر سے بیسٹ کو دیکھا تھا۔۔ اس نے ایک بار پھر سے ٹریگر دبایا تھا۔۔ مگر گولی ابھی بھی نہ چلی تھی۔۔ جہانزیب نے ایک بار پھر سے ٹریگر دبایا تھا۔۔ اور حیرت سے سامنے بیٹھے بیسٹ کو دیکھا تھا ۔

گولی چلاؤ جہانزیب ۔۔۔ بیسٹ طنزیہ نظروں سے جہانزیب کو دیکھتا بولا تھا۔۔

جہانزیب نے زخمی نظریں اٹھا کر بیسٹ کو دیکھا تھا ۔۔ جو اس وقت اس کی بےبسی پر ہنس رہا تھا ۔۔۔

گولیاں میرے پاس ہیں جہانزیب ۔۔ بیسٹ نے اپنی بلیک لیدر کہ جیکٹ میں سے جہانزیب کی گن کی گولیاں نکالی تھی ۔ اور اس کے سامنے زمین پر پھینکی تھی ۔

بیسٹ ۔۔ مُجھے ۔۔۔معاف کر دو۔۔ جہانزیب نے اس کے سامنے ہاتھ جوڑے تھے۔۔۔

ایک شرط پر۔۔۔ بیسٹ اپنی جگہ سے اٹھا تھا ۔۔

مجھے ہر شرط منظور ہے تمہاری بیسٹ ہر شرط منظور ہے۔  جہانزیب فوراً بولا تھا۔۔۔

میری چائے ٹھنڈی ہو گئی ہے جہانزیب ۔۔ وہ اب تمہیں پینی پڑے گئی۔۔ بیسٹ نے اپنے آدمی کو اشارہ کیا تھا جس نے جہانزیب کے سامنے وہ کپ کیا تھا جو تھوڑی دیر پہلے بیسٹ نے پکڑایا تھا۔ 

چائے ۔۔ جہانزیب نے نہ سمجھی سے اس کو دیکھا تھا۔۔

ہاں چائے پینی پڑے گئی تمہیں ۔۔ بیسٹ کی روب دار آواز لاؤنج کی خاموشی میں گونجی تھی۔۔

جہانزیب نے ایک لمحے کی دیر کیے بغیر وہ چائے کا کپ اٹھا لیا تھا ۔ اب وہ کانپتے ہاتھوں سے چائے کا کپ منہ کے ساتھ لگئے اس ٹھنڈی چائے کے گھونٹ بھر رہا تھا ۔ جیسے جیسے وہ چائے کے گھونٹ بھرتا جا رہا تھا ویسے بھی ویسے بیسٹ کی آنکھوں کی چمک بڑھ رہی تھی ۔

جہانزیب نے وہ چائے کا کپ واپس سے اس آدمی کو دیا تھا ۔۔ اب وہ بیسٹ کو دیکھ ریا تھا جو خاموشی سے بس اس کو دیکھے جا رہا تھا۔۔ بیسٹ نے بےاختیار ہاتھ اپنے چہرے پر لگے ماسک کی طرف بڑھایا تھا ۔ اس کے بڑھتے ہاتھوں کو دیکھ کر جہانزیب کے دل کی دھڑکن اور بڑھی تھی وہ جانتا تھا بیسٹ اپنا چہرہ اس کو دیکھتا ہے جس کو اس نے مارنا ہو۔۔

بیسٹ تم نے کہا تھا۔۔۔ تم مجھے۔۔۔ معاف۔۔۔ جہانزیب بہت مشکل سے بولا تھا۔۔

کر تو دیا ہے معاف جہانزیب ۔۔ بیسٹ نے اپنے چہرے سے ماسک اتارا تھا۔۔

جہانزیب پھٹی آنکھوں سے سامنے کھڑے شخص کو دیکھ رہا تھا۔۔ وہ اس شخص کو بہت اچھے سے جانتا تھا۔۔ مگر آنکھوں کا رنگ دھوکا دے رہا تھا ۔

یہ تم۔۔۔ تم کیسے۔۔۔ ہو سکتے ہو ۔ جہانزیب کو بولنے میں دشواری ہو رہی تھی ۔ اس کے گلے میں بہت ٹھیس اٹھنے لگی تھی۔۔

یہ میں ہی ہوں جہانزیب اس کھیل کو بنانے والا میں ہی ہوں۔۔۔ دنیا کے لیے ایک بزنس ٹائیکون زوریز ابراہیم اور تم جیسے کو لیے کبھی بیسٹ ، کبھی ایم-زی ، کبھی زیک ۔۔ وہ ایک ایک قدم اٹھاتا اس تک آیا تھا۔۔

تم نے ۔۔۔ ایسا کیوں ۔۔ کیا ۔ جہانزیب نے اپنے گلے پر ہاتھ رکھا تھا اچانک اس کو اپنی سانس بند ہوتی  محسوس ہونے لگی تھی ۔

میں نے وہ کیا جس کے لائق تم سب تھے۔۔ وہ اس کے بلکل سامنے بیٹھا تھا۔۔

تم نے مُجھے ۔۔۔ کہا تھا۔۔ مُجھے ۔۔۔ معاف کر ۔۔دو گے۔۔ جہانزیب نے اپنے سینے پر ہاتھ رکھا تھا۔۔ اس کی حالت غیر ہونے لگی تھی وہ بہت مشکل سے بول پا رہا تھا۔۔

معاف کر تو دیا ہے جہانزیب ۔۔ اپنے آپ کو تو تم خود مار رہے ہو۔۔ بیسٹ ہلکا سا مسکرایا تھا۔۔

ک۔۔کیا مطلب ۔۔۔ جہانزیب بہت بری طرح کھنسا تھا۔۔۔

چائے تم نے اپنی مرضی سے پی تھی میں نے تو بس تمہیں ایک اوپشن دیا تھا۔   بیسٹ اس کی بگڑتی حالت کو کافی پرسکون سا دیکھ رہا تھا۔۔

پانی۔۔۔ پانی ۔۔۔ جہانزیب اپنے سینے پر زور زور سے ہاتھ سے مسل رہا تھا۔۔

جیسے کوئی چیز اس کو اندر سے کاٹ رہی تھی۔۔ اس کی سانس حلق میں اٹک رہی تھی اس سے بولا نہ جا رہا تھا۔۔ جیسے اس کو اوکسیجن کم مل رہی ہو۔۔ وہ رحم طلب نظروں سے بیسٹ کو دیکھ رہا تھا۔۔

چائے ۔۔ میں ک۔۔کیا ۔۔تھا۔۔ جہانزیب کا سانس بہت بھاری ہو رہا تھا وہ بامشکل بول رہا تھا اور سانس لے رہا تھا سینے میں اور حلق میں بہت درد اٹھنے لگا تھا۔۔ اس کا جسم پسینے سے بھیگنے لگا تھا ۔

ایکونیٹائن۔۔۔ بیسٹ پرسکون سا بولا تھا۔۔ جبکہ جہانزیب نے اس کو نظریں اٹھا کر دیکھا تھا۔۔ اور موت کا خوف جہانزیب کے نظروں میں صاف نظر آ رہا تھا ۔۔

کیسی لگی تمہیں زہر کی ملکہ ، جہانزیب ۔۔ بہت شوق تھا نہ عورتوں کو نوچنے کا۔۔  اب زہر کی ملکہ تمہارے جسم کا ایک ایک اعصا نوچ رہی ہے۔۔ بیسٹ اس کی آنکھوں میں آنکھیں گاڑ کر بولا تھا ۔۔

جہانزیب نے اپنی پانی سے بھری انکھہں اٹھا کر بیسٹ کو دیکھا تھا۔۔ اوپر سے سینے میں اٹھتی ٹھیس اور کھنس کھنس کر اس کا برا حال ہو رہا تھا۔۔ اس کا وجود مکمل پیسنےسے شرابور تھا ۔۔

ایسے نہ دیکھو جہانزیب ۔۔ اپنے کیے کا احساب ہر انسان نے دینا ہے۔۔ تم اس ملک کی حکومت کا حصہ تھے اس ملک کی بچیوں اور بچوں کے مستقبل ، ان کی حفاظت تمہاری ذمہ داری تھی۔ اور تم نے کیا کیا جہانزیب ۔۔ یہ اختتام تمہارا اپنا چناہ ہوا ہے۔۔ بیسٹ نے اس کے بالوں کو اپنی موٹھی میں جکڑا تھا۔۔۔

پا۔۔۔پانی۔۔ جہانزیب بامشکل بس اتنا ہی بول پایا تھا۔۔

بیسٹ نے اپنے آدمی کو اشارہ کیا تھا۔۔ جو موڑا تھا اور ٹیبل پر موجود پانی کا گلاس اٹھا کر لایا تھا۔۔ اور اس نے وہ گلاس بیسٹ کو دیا تھا۔۔

بیسٹ نے وہ گلاس جہانزیب کے منہ سے لگایا تھا۔۔ جیسے ہی پانی جہانزیب کی حلق سے اترا تھا جہانزیب نے سختی سے انکھیں بند کی تھی۔۔ اور اس کی آنکھوں سے آنسوں گرے تھے ۔۔ اس نے بیسٹ کا ہاتھ دور کرنا چاہا مگر وہ نہ کر سکا۔۔۔ بیسٹ گلاس پر سخت پکڑ بنانے اس کو پانی پلا رہا تھا ۔ اور اب جہانزیب سے مزید پانی نہیں پیا جا رہا تھا اس کے منہ سے کچھ پانی واپس گلاس میں آیا تھا جو کہ خون سے بڑھا ہوا تھا۔۔ جہانزیب نے کانپتے ہاتھوں سے بیسٹ کے بازو کو پکڑا تھا ۔۔ بیسٹ نے فورا گلاس جہانزیب کے منہ سے ہٹایا تھا۔۔ کچھ پانی زمین پر گرا تھا۔۔

جہانزیب کا جسم بے جان ہونے لگا تھا اس نے ہاتھ گرے ہوئے پانی پر رکھا تھا۔۔ اور فوراً ہاتھ اٹھا لیا تھا۔۔ اس کے ہاتھ پر سے خون نکلنے لگا تھا۔۔ اس پانی میں کانچ کی کرچیاں موجود تھی جو جہانزیب کے ہاتھ پر چب گئی تھی۔۔ اور اس کی حلق کو اور اعصا کو اندر سے زخمی کر گئی تھی ۔

جہانزیب نے کانپتے ہاتھ کو سینے پر رکھا تھا اور اب وہ خون کی اولٹیا کر رہا تھا۔۔ اس کی الٹی میں خون کے کچھ لوتھڑے بھی تھے ۔ وہ بےبس سا زمین پر لیٹتا چلا گیا تھا۔۔ اس کے ہاتھ پاؤں بےجان ہو رہے تھے ۔ وہ چیخنا چاہتا تھا مگر اب وہ چیخ بھی نہیں پا رہا تھا۔۔منہ سے مسلسل خون بہہ رہا تھا۔۔ سانس مدہم ہونے لگی تھی ۔ آنکھیں سفید ہو رہی تھی  آنکھوں سے پانی نکل رہا تھا ۔ اس کے ہونٹ نیلے پڑ گئے تھے۔۔ اس کا جسم بےجان ہوتا جا رہا تھا سانسوں کا تسلسل ختم ہونے کے قریب تھا ۔ ایک آخری بار اس نے سامنے کھڑے اس شخص کو دیکھا تھا جو کھڑا اس کی بےبس موت کا تماشہ دیکھ رہا تھا۔۔

یہ تمہارا انجام تھا جہانزیب ۔۔ ملک کے ساتھ غداری کا انجام ہمیشہ درد ناک ہی ہوا ہے۔۔ بیسٹ نے کہہ کر اس کے سینے پر پاؤں رکھ کر آگے بڑھا تھا۔۔ جبکہ جہانزیب کے منہ سے ایک اور خون کی لہر نکلی تھی ۔۔ اور ایسی کے ساتھ وہ دم توڑ گیا تھا۔۔

••••••••••••••••••••

کمرا مکمل طور پر بکھرا پکڑا تھا۔۔ اور کمرے کے جیسے حالت ہی کبیر خاور کی ہوئی ہوئی تھی۔۔ بال بکھرے ہوئے تھے آنکھیں سرخ اور سوجی ہوئی تھی۔۔۔  جیسے اس کا سب کچھ برباد ہو گیا تھا۔۔سب کچھ۔۔

جب اس کے کمرے کا دروازہ نوک ہوا تھا۔۔ کبیر خاور نے غصے سے دروازے کی طرف دیکھا تھا۔۔

دفعہ ہو جاؤ ادھر سے سب۔۔ کبیر خاور غصے سے چیخا تھا۔۔

کنگ عثمان سلطان اور اکرم آفندی آئیں ہیں۔۔ اس کا آدمی فورآ بولا تھا۔۔ جبکہ کبیر خاور اپنی جگہ سے اٹھا تھا۔۔  ایک لمحہ بس ایک لمحہ لگا تھا اس کو واپس سے اپنے اصل میں آنے میں ۔۔

ان دونوں کو میٹنگ روم میں لے کر جاؤ ۔۔ کبیر خاور یہ کہہ کر ڈریسنک روم کی طرف بڑھا تھا۔۔

تقریباً آدھے گھنٹے بعد وہ ایک نیوی بلو کلر کے پینٹ کوٹ کو پہنے شیشے کے سامنے کھڑا تھا۔۔ اس کی انکھوں میں سرخی ابھی بھی موجود تھی۔۔ اور اس کے چہرے سے معلوم ہوتا تھا کہ جیسے وہ کیسی گہری سوچ میں ہے۔۔  وہ اپنے کمرے سے نکلا تھا۔۔

راہداری سے گزر کر وہ میٹنگ روم کی طرف بڑھ رہا تھا۔۔ جبکہ اس کا دماغ آگے کی چال کو چلنے کا سوچ رہا تھا ۔ہاتھ میں موجود سگار اس نے مںہ سے لگایا تھا اور اس کے ساتھ چلتے اس کے آدمی نے اس کا سگار سلگھایا تھا۔۔۔

میٹنگ روم کا دروازہ اس نے پاؤں کی ٹھوکر سے کھولا تھا۔۔ وہ اس وقت مکمل غصے میں تھا۔۔ اس کا بس نہ چل رہا تھا وہ ہر اس شخص کو تباہ کر دے جو اس کی بربادی کی وجہ بنا ۔۔

کنگ یہ سب کیا ہے۔۔ کبیر خاور جیسے ہی روم میں داخل ہوا تھا عثمان سلطان اور اکرم آفندی ایک ساتھ بولے تھے۔۔ جو میٹنگ روم آدمیوں سے بھرا ہوتا تھا آج وہاں صرف وہ تین تھے۔۔۔

باقی سب کدھر ہیں ۔۔کبیر خاور اپنی جگہ پر جا کر بیٹھتے بولا تھا۔۔

سب مرتے چلے گئے ہیں ۔۔ کوئی ملک سے بھاگتے ہوئے مارا گیا، کوئی اپنا ناجائز سامان ٹھکانے لگاتے ہوئے مارا گیا ۔۔ اکرم آفندی نے بولنا شروع کیا تھا۔۔۔

جہانزیب کو فون لگاؤ ۔۔کبیر خاور غصے سے بولا تھا۔۔

اس نے زہر کھا لیا ہے کنگ ۔۔ ابھی کچھ وقت پہلے ہیڈ لائین میں آیا ہے۔۔ عثمان سلطان فورآ بولے تھے۔۔

کیا بکواس ہے۔۔ کبیر خاور نے فورآ ٹی وی آون کیا تھا۔۔ جہاں میڈیا جہانزیب کے فارم ہاؤس کے باہر کھڑی تھی اور چیخ چیخ کے اس کی خود کشی کی خبر دے رہی تھی جبکہ ایک طرف جہانزیب کی ڈیڈ باڈی کی تصویر لگی ہوئی تھی۔۔

یہ خودکشی نہیں ہے ۔  یہ بیسٹ کا کام ہے۔۔۔ کبیر خاور غصے سے اپنی جگہ سے اٹھا تھا۔۔

بیسٹ اس کو کیوں مارے گا۔۔ اکرم آفندی نے فوراً سوال کیا تھا۔۔

تم احمق ہو یا عقل کو کرائے پر دے دیا ہے۔۔ کبیر خاور نے اکرم آفندی کو دیکھا تھا۔۔

تو پھر اس کو بیسٹ کیسے مار سکتا ہے؟؟ اب کی بار عثمان سلطان بولا تھا۔۔۔

پہلی بات تو یہ کے جہانزیب خودکشی کرنے والوں میں سے نہیں ہے ۔ دوسری بات اگر اس نے خودکشی کرنی ہوتی تو اپنے گھر میں کرتا نہ کے فارم ہاؤس پر جا کر خود کو مارتا اور وہ بجائے زہر پینے کے وہ خود کو گولی مارتا ۔۔  کبیر خاور ایک ایک لفظ چبا چبا کر بولا تھا۔۔

اور جس زہر سے موت ہوئی ہے وہ زہر صرف بیسٹ استعمال کر سکتا ہے۔۔ کبیر خاور غصے سے سکرین کو دیکھتا بولا تھا۔

کنگ اب اس سارے معاملے کو کس طرح سے حل کریں ؟ اتنی مشکل سے چھپ چھپا کر نکلے ہیں گھر سے اپنے ۔۔ عثمان سلطان بےبسی سے بولے تھے ۔۔

پہلے تم مجھے یہ بتاو تمہارے دوسرے بیٹے نوریز کا نام بیچ میں کیوں نہیں ہے۔۔ کنگ نے آگے بڑھ کر عثمان سلطان کا گریبان پکڑا تھا۔۔

میں نہیں جانتا کنگ اس کا نام کیوں نہیں ہے بیچ میں ۔۔ عثمان سلطان نے کنگ کے سامنے ہاتھ جوڑے تھے۔۔۔

اگر تو یہ غلطی ہے تو ٹھیک مگر اگر وہ ہمارے خلاف تھا تو اس کو جان سے میں ماروں گا۔۔ کنگ نے عثمان سلطان کو دور دھکیلا تھا۔۔

کنگ اب آگے کیا کرنا ہے کچھ سوچا ہے؟ اکرم آفندی فوراً بولے تھے وہ نہیں چاہتے تھے کہ کنگ غصے میں کچھ غلط کر دے۔۔

مجھے بیسٹ کی بیوی چاہیے ہر حال میں ۔۔ کبیر خاور نے غصے سے ہاتھ میں پیپر وایٹ دبوچ رکھا تھا جیسے وہ بیسٹ کی جان ہو۔۔

بیسٹ کی بیوی ؟؟ اکرم آفندی اور عثمان سلطان ایک ساتھ بولے تھے۔

جب میٹنگ روم کا دورازہ کھولا تھا۔۔ اور ایک لڑکی اندر داخل ہوئی تھی۔۔ اور میٹنگ روم میں بنے ایک کونے میں موجود کاؤنٹر پر جا کر کھڑی ہوئی تھی اور کنگ اور اس کے دو مہمانوں کے لیے شراب بنانے لگ گئی تھی ۔

بیسٹ کے گھٹنے اپنے سامنے ٹھکانے کے لیے اس کی کمزوری کو اپنے پاس لانا ہو گا۔۔ مطلب یہ کہ اس کی بیوی کو ۔ وہ ایک نازک لڑکی ہے۔۔ وہ بیسٹ کا ہر راز ایک تھپڑ میں بول دے گئی۔۔ اور اس کے سامنے اس کے شوہر کو موت کے منہ میں اتاروں گا۔۔ کبیر خاور نے غصے سے پیپر وایٹ ٹیبل پر رکھا تھا۔۔

اور اس کی بیوی  کو کون اٹھائے گا کیونکہ ہم لوگ آگے ہی منظر پر آ چکے ہیں ۔۔ عثمان سلطان نے ایک اور سوال رکھا تھا۔۔

میرے کچھ آدمی اس کو اٹھا کر لائیں گے۔۔۔ کبیر خاور کے چہرے پر ہلکی سے مسکراہٹ تھی۔۔

اور اس آرمی کا کیا کریں ۔۔ اکرم آفندی فکر مندی سے بولے تھے۔۔

اس کا بھی کچھ کرنا پڑے گا ۔۔ مگر پہلے بیسٹ کو پہلے راستے سے ہٹانا ہو گا۔۔ کبیر خاور دانت چبا کر بولا تھا۔۔

وہ لوگ اب مکمل منصوبہ بنا رہے تھے اور وہ لڑکی ان کو وائن سرور کر رہی تھی۔۔

•••••••••••••••••••

آپ پلیز تھوڑی سٹرونگ فریگنس دیکھائیں ۔۔ آمنہ نے ہاتھ میں رکھا پرفیوم واپس رکھا تھا۔۔

جبکہ سیلز بوائے اب اس کو ایک اور پرفیوم دیکھا رہا تھا مگر آمنہ کو ابھی بھی کوئی پرفیوم پسند نہیں آیا تھا۔۔ وہ بےزار سی اس شوپ سے باہر نکلی تھی۔۔

وہ اپنے دھیان میں باہر نکلی تھی جب وہ لیفٹ سائیڈ سے آتے ایک شخص سے بہت بری طرح ٹکرائی تھی ۔۔ وہ گھوم کر گرنے لگی تھی جب فورا سے اس شخص نے اس کو اپنے احصار میں لیا تھا ۔۔

آمنہ حیرت سے اس شخص کو دیکھ رہی تھی ۔۔ جبکہ وہ تو بس اس کی آنکھوں کو دیکھے جا رہا تھا۔۔ اس کے پاس سے اٹھتی دلفریب مہک آمنہ کو اپنے اعصاب پر چڑھتی محسوس ہوئی تھی ۔ اور ایک پھرتی سے وہ سیدھی ہو کر کھڑی ہوئی تھی۔۔

آپ ادھر ۔۔ آمنہ سامنے کھڑے آیان کو دیکھ کر بولی تھی۔۔

جی میں ادھر ۔۔ اور آپ ادھر؟ آیان نے آمنہ کو غور سے دیکھا تھا۔۔

جی دراصل کچھ کام تھا تو اس لیے آئی تھی۔۔ آمنہ نے آیان کی طرف ایک نظر اٹھائی تھی بے اختیار دل کی دھڑکنیں بے ترتیب ہوئی تھی۔۔

دوراب کدھر ہے؟ آیان نے آس پاس دیکھا تھا۔۔

نہیں بھائی میرے ساتھ نہیں ہیں ۔۔ امنہ فوراً سے بولی تھی۔۔

اکیلی ہو ادھر آپ ؟ آیان نے حیرت سے اور فکر مندی سے اس کو دیکھا تھا۔۔

ہاں وہ دراصل نور اور جزا کچھ مصروف تھی تو اکیلی آنا پڑا اب تو بس جانے لگی ہوں۔۔۔۔ آمنہ کو خود بھی سمجھ نہ آئی تھی اس نے یہ تفصیل آیان کو کیوں دی تھی۔۔

ویٹ ۔۔ آیان نے اپنے ہاتھ میں موجود فون پر ایک نمبر ڈائل کیا تھا۔۔ کال اگلی بیل پر اٹھا لی گئی تھی۔۔

کدھر ہے تو؟ آیان فوراً بولا تھا۔۔ جبکہ آمنہ اس کو دیکھے جا رہی تھی۔۔

اوفس ہوں اب میٹنگ کے لیے جا رہا ہوں ۔۔ کیا ہوا ہے؟ دوراب کی آواز آیان کی سماعت سے ٹکرائی تھی۔۔

میں مال آیا تھا ادھر آمنہ اکیلی ملی تھی۔۔ آیان نے سیدھا مدعے کی بات کی تھی۔۔

اللہ نے واقع ہی اس لڑکی کے وجود میں سکون نہیں ڈالا ۔۔ دوراب سرد آہ بڑھ کر رہ گیا تھا آیان کی بات سن کر۔۔

کیا مطلب ؟ آیان نے آمنہ کی طرف ایک نظر دیکھا تھا۔۔

کچھ نہیں یار اس کو پرفیومز لینے ہیں اور مُجھے ٹائم نہیں مل رہا کے اس کو ساتھ لے جا کر لے دوں ۔۔ اور اب وہ اکیلی نکل گئی ہے۔۔ دوراب پریشانی میں بولا تھا۔۔

بہت خوب۔۔ آیان کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ آئی تھی اٹلیسٹ وہ اتنا اندازہ لگا چکا تھا کہ دوراب کی بہن ہی اس کے ناک میں دم کر کے رکھ سکتی ہے۔۔۔

ویسے آیان ایک چھوٹی سی فیور دو گے؟  دوراب کچھ سوچتے ہوئے بولا تھا۔۔

تم بے فکر ہو کر میٹنگ اٹینڈ کرو میں اس کو گھر چھوڑ آتا ہوں ۔۔ اس کی بات سے پہلے آیان بولا تھا۔۔

جب تو بغیر کہے سمجھ جاتا ہے نہ تب بہت اچھا لگتا ہے۔۔ دوراب ہنس کر بولا تھا۔۔

شکر ہے تجھے اچھا بھی لگتا ہوں۔۔ آیان بھی فوراً سے بولا تھا جبکہ دوسری طرف سے دوراب کا جاندار قہقہہ سنائی دیا تھا ۔۔ اور آیان نے کال کاٹی تھی۔۔

چلیں آپ کو گھر چھوڑ دوں ۔۔ آیان نے موڑ کر آمنہ کو مخاطب کیا تھا۔۔ جو بےزار سی شکل بنائے ادھر ادھر  دیکھ رہی تھی۔۔

نہی۔۔۔ نہیں نہیں میں چلی جاؤں گئی آپ خاماخا تکلیف کر رہے ہیں ۔۔ آمنہ فورآ بولی تھی جبکہ آیان کی اس بات پر اس کے ہاتھ تک پسینے سے بھر گئے تھے ۔۔

آپ کے بھائی سے بات کی ہے اس نے ہی بولا ہے آپ کو چھوڑ کر آؤں ۔۔ آیان مدہم اور ہموار لہجے میں بولا تھا۔۔

اور اب آمنہ چاہتے ہوئے بھی انکار نہیں کر سکتی تھی۔۔ اور آیان کے پیچھے قدم اُٹھانے لگی تھی۔۔ کچھ دیر میں  وہ دونوں باہر پارکنگ میں تھے۔۔  آیان نے آگے بڑھ کر آمنہ کے لیے بیک ڈور اوپن کیا تھا۔

آمنہ ایک لمحے کو روکی تھی اور پھر ہلکا سا مسکرا کر بیک سیٹ پر بیٹھ گئی تھی۔ جبکہ آیان اب ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا تھا اور کار سٹارٹ کر چکا تھا۔۔

راستہ  کافی خاموشی سے گزار رہا تھا آیان اس سے بات کرنا چاہتا تھا مگر سمجھ نہیں آ رہی تھی کیا بولے ۔۔ جبکہ آمنہ مکمل نرویس ہو رہی تھی کیونکہ اس کی نظریں بار بار آیان کی طرف اٹھ رہی تھی یہ جو بھی احساس تھا نیا تھا مگر آمنہ کو یہ احساس بہت خوبصورت لگنے لگا تھا۔

اب اس نادان سے لڑکی کو کون بتاتا یہ جو خوبصورت سا احساس دل میں جگہ لے رہا تھا وہ احساس محبت کا تھا۔۔ ایک خاموش سے محبت دل میں پروان چڑھنے لگی تھی۔۔

•••••••••••••••••••

رات کی سیاہی پھیلنا شروع ہو چکی تھی ۔ وہ ابھی کچھ دیر پہلے ہی گھر آیا تھا اور اس وقت اپنے بیڈ پر اوندھے منہ لیٹا ہوا تھا ۔۔ اس نے ابھی تک آرمی یونیفارم نہیں اتارا تھا ۔۔ اس نے کروٹ بدلی تھی اور اب وہ چھت کو دیکھ رہا تھا ۔ اس نے سامنے لگی گھڑی پر دیکھا تھا۔۔ جہاں اس وقت آٹھ بج رہے تھے۔۔  وہ اٹھ کر بیٹھ گیا تھا ۔

اس کا دل بوجھل تھا۔۔ ایک عرصے سے اس کی آنکھیں اداس تھی مگر آج اس کی آنکھوں کی اداسی بہت زیادہ تھی۔۔ جیسے اج اس کی صرف آنکھیں اداس نہ ہو بلکہ دل اور روح بھی اداس ہو۔۔

وہ اٹھا تھا اور چلتا ہوا اپنے روم میں موجود سٹیڈی ٹیبل پر آیا تھا ۔۔ دراز کا لوک کھول کر اس نے ایک ڈائیری نکالی تھی۔۔۔ اس کی براؤن آنکھیں نم ہونے لگی تھی ۔ اس نے کانپتے ہاتھوں سے اس ڈائیری کو سٹیدی ٹیبل پر رکھا تھا۔۔۔ اس کی سانس بھاری ہونے لگی تھی۔۔ آنکھوں کی نمی میں کچھ اور اضافہ ہوا تھا۔۔ اس نے وہ ڈائیری کھولی تھی ۔

سب سے پہلے صفحہ پر"إلى حبيبي" "میری محبت کے نام"عربی زبان میں لکھا ہوا تھا۔۔

رحیان نے اپنی انگلی کی پوروں سے ان الفاظ کو چھوا تھا ۔۔  اب اس نے اگلا پنہ کھولا تھا۔۔ اس پر سویرا شاہد کی ایک تصویر تھی۔۔ پھولے ہوئے گال  سیاہ لمبے اور گھنے بال بھوری شریر آنکھیں ۔۔ رحیان آغا کی آنکھیں نم تھی اور چہرے پر زخمی مسکراہٹ آئی ۔۔ اس کا دل نہ جانے کتنی بار کٹا تھا ۔

تم نے جس دن سے اس دنیا سے منہ موڑا ہے سویرا اس دن سے رحیان آغا اس دنیا سے موڑ کر بیٹھا ہے۔ رحیان بھیگے لہجے میں بولا تھا۔۔

مجھ سے سب کہتے ہیں میں مسکرانا چھوڑ چکا ہوں میں بدل گیا ہوں میں منظر پر نہیں آتا ۔ رحیان ایک لمحے کو روکا تھا۔۔

میں کیسے کہوں سب سے میں اپنا دل اپنی خوشی اپنا سب کچھ ۔۔۔۔ تمہارے ساتھ دفنا آیا ہوں۔۔ ایک آنسو ٹوٹ کر اس پنے پر گرا تھا۔۔

میرا جرم اتنا بڑا تو نہ تھا۔۔ رحیان نے اپنی نم آنکھوں کو صاف کیا تھا۔۔

جتنی بڑی مجھے سزا دی گئی۔۔ رحیان نے آنکھیں بند کر لی تھی ۔ اور ایک سرد آہ بھری تھی۔۔

اب وہ ایک کے بعد ایک پنہ پلٹ رہا تھا جب اس  جگہ روک گیا تھا ۔۔ جہاں ایک باریک سے پازیب لگی ہوئی تھی۔۔ رحیان نے اس پازیب کو انگلیوں سے چھوا تھا اور ایک ہلکی سی مسکراہٹ چہرے پر پھیلی تھی۔۔

اس نے کرسی کی پیشت سے ٹیک لگائی تھی۔۔ خیالوں کی دنیا میں ایک منظر نے خلل ڈالا تھا۔۔ دوراب کے نکاح کا دن تھا سویرا رحیان سے بات کر کے کچن سے بھاگی تھی ۔۔جب رحیان کو فوراً سے اپنی غلطی کا احساس ہوا تو وہ باہر کی طرف بھاگا تھا جب اس کو سویرا کی پازیب گری ہوئی نظر آئی ۔۔ اس نے جھک کر وہ پازیب اٹھا لی تھی اور اپنی جیب میں ڈال لی تھی ۔

رحیان کی آنکھوں میں نمی پھر سے بھرنے لگی تھی اور چہرے پر مسکراہٹ نے جگہ لے رکھی تھی اس نے ایک پین اٹھایا تھا اور اگے کو ہو کر بیٹھا تھا اور اب اس نے ایک اور صفحہ کھولا تھا جو بلکل خالی تھا اور شاید یہ صفحہ اس کی ڈائری کا آخری صفحہ تھا۔۔

رحیان نے لکھنا شروع کیا تھا ۔۔

" اج پھر سے تمہاری سالگرہ آنے والی ہے اور دیکھوں تم تو نظروں سے ایسی دور ہوئی کہ دیکھ بھی نہیں سکتا تمہیں ۔۔ اپنی سالگرہ کے دن کون زخم دیتا ہے دشمن جاں۔۔ "

" ہیپی برتھڈے سویرا"

یہ لکھنے کے بعد اس کا پین روکا تھا۔۔۔ آنکھوں میں نمی بھرنے لگی تھی۔۔ ہاتھ کچھ کانپے تھے۔۔ سینے میں ایک ٹھیس سی اٹھی تھی ۔۔ شاید وہ خود میں ہمت پیدا کر رہا تھا کہ آگے بھی لکھ سکے۔

اس کے ہاتھ نے پھر سے لکھنا شروع کیا تھا۔

"موسم تھا سرد ہوائوں کا

دل نے کہا ! یار ہم تمہارے ہوئے

وقت تھا رونق و انجمن کا

خیر ۔۔۔ وہ قہقہے بھی اب پرانے ہوئے

جن آنکھوں میں جوش تھا خوشیوں کا

آخر! ان ہی آنکھوں میں اب ویرانے ہوئے

وہ تھا قصہ وفائے محبت کا

چھوڑو۔۔۔ اس قصے کے خسارے ہمارے ہوئے ۔۔"

(اذقلم: شازین زینب)

یہ لکھتے ساتھ ہی پین رحیان کے ہاتھ سے گرا تھا اور آنسوں اس کی آنکھوں سے برسنے لگے تھے۔۔ اس نے ایسے ہی سٹیڈی ٹیبل پر سر ٹیکا لیا تھا اور اب وہ پھوٹ پھوٹ کر رو رہا تھا۔۔ دل کا غبار تھا کہ کم نہیں ہو رہا تھا۔۔ زخم تھے کہ بھر نہ رہے تھے۔۔ ہجر تھا کہ ختم نہ ہو رہا تھا۔۔ تکلیف تھی جس کی کوئی دوا نہ تھی۔۔

کیسی سے ایک مختصر عرصے میں اتنی محبت کیسے ہو جاتی ہے۔۔ رحیان بھری ہوئی آواز میں بولتے ہوئے روکا تھا۔۔

کہ اس کے جانے کے بعد دنیا صرف ویران لگے، جینے کی خواہش ختم ہو جائے ۔۔ رحیان نے انکھیں سختی سے صاف کہ تھی۔۔

دیکھو سویرا تم سے خاموش محبت کی کیا سزا ملی ہے مجھے ۔۔ رحیان کے ہونٹ کانپے تھے۔۔ چہرا رونے سے سرخ ہو گیا تھا۔۔

میں تو بس تمہیں دور سے دیکھتا تھا۔۔ محبت کر بیٹھا تم سے۔۔ دیکھو اس محبت نے کیا حشر کر ڈالا میرا۔۔ رحیان نے اپنا سر پکڑ لیا تھا ۔۔ وہ بہت رو رہا تھا۔۔

آج اس کو سویرا شاہد بہت یاد آ رہی تھی۔۔ وہ آج ایک بار پھر سے ٹوٹ کر بکھرا تھا۔۔وہ جتنا خود کو جوڑتا تھا اس کے ہجر کی ہر راتیں اس کو اتنا ہی توڑ دیتی تھی۔۔

رحیان آغا کی تنہائی اس کے ٹوٹ کے بکھرے وجود کی گواہ تھی۔۔ اس کی تڑپ کی گواہ تھی۔۔ ہر اس رات کی گواہ تھی جو اس نے یک طرفہ ہجر میں گزاری تھی ۔۔

••••••••••••••••••

وہ بستر پر لیٹا یک ٹک اوپر سیلنگ کو دیکھ رہا تھا۔۔ اس کو اٹھے کم سے کم آدھا گھنٹہ ہو گیا تھا۔۔ مگر ابھی بھی اس کا سر اس کو چکراتا لگ رہا تھا آنکھیں بار بار دھندلا رہی تھی۔۔  

وہ بامشکل اٹھ کر بیٹھا تھا۔۔ اور ایک طرف پڑا اپنا فون اٹھایا تھا۔ اور ایک نمبر ڈائل کیا تھا۔۔ رنگ جا رہی تھی اور کچھ دیر میں کال اٹھا لی گئی تھی ۔۔

میری بات سنو ڈاکٹر تمہاری دوائی سے  مجھے کوئی فرق کیوں نہیں پڑ رہا ؟ جیسے ہی کال اٹھائی گئی تھی شہزاد فوراً بولا تھا۔۔ لہجہ اس کا بہت سخت تھا۔

شہزاد صاحب آپ کو پہلے بھی کہا تھا دوائی کا اثر کچھ وقت کے بعد ہو گا۔۔ ڈاکٹر کی پروفیشنل آواز شہزاد کی سماعت سے ٹکرائی تھی ۔۔

کتنا وقت ڈاکٹر ؟  شہزاد بےزاری سے بولا تھا۔۔

شہزاد صاحب آپ دو مہنےسے یہ دوائی لے رہے ہیں اب وہ آپ پر اثر کرنا شروع کر رہی ہے آپ بس کچھ وقت انتظار کریں ۔۔  سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔ ڈاکٹر کافی تحمیل سے بولا تھا۔۔

اگر ان دوائیوں نے اثر نہ دیکھایا تو دیکھانا تم۔۔ شہزاد غصے سے بولا تھا۔۔

ضرور دیکھائیں گئی شہزاد صاحب ۔۔ آپ ایک دن میں سلیپنگ پیلز کتنی لے رہے ہیں ؟ ڈاکٹر نے مزید تفصیل پوچھی تھی۔۔

ایک ہی لے رہا ہوں جو بولی تھی۔۔ اب آج ایک صبح میں لے لی تھی ۔ شہزاد بستر سے اٹھا تھا۔۔

بس اب رات میں مت لینا آپ ۔۔ انشاء اللہ دوائی بہت جلد فائدہ دے گئی۔۔ ڈاکٹر بہت نرمی سے بولا تھا۔

جبکہ شہزاد خاموشی سے اس کی بات کو سن رہا تھا اچانک اس کو سر میں پھر سے درد اٹھتی محسوس ہو رہی تھی۔۔ اس نے بےاختیار اپنا ہاتھ سر پر رکھا تھا۔۔

چلیں آپ کے پاس ایک بار ضرور او گا۔۔ یہ کہہ کر شہزاد نے فون کان سے ہٹایا تھا اور کال کاٹ کر فون بستر پر پھینکا تھا۔۔  اور خود بستر سے نکلا تھا اس کا روخ باتھ روم کی طرف تھا جب اچانک آنکھیں دھندلائی تھی اور وہ پاس موجود صوفے پر بیٹھا تھا۔۔

اس نے اپنا سر صوفے کی پشت پر ٹیکایا تھا اور دونوں ہاتھوں کی انگلیاں سر میں پھیریں تھی۔۔ آنکھیں اس نے سختی سے بینچ رکھی تھی۔۔ آنکھوں میں سے سر درد کی شدت سے پانی نکلنے لگا تھا ۔۔ وہ فوراً سے اٹھا تھا ۔۔ اچانک اٹھنے سے اس کی آنکھوں کے آگے اندھیرا آیا تھا۔۔ سامنے میز سے بری طرح سے ٹھکر لگی تھی اس کو اور وہ زمین پر گرا تھا مگر ساتھ موجود بیڈ کو اس نے تھام لیا تھا۔۔

اب کی  بار اٹھا اور بیڈ کے سائیڈ ڈرا پر موجود اپنی میڈیسنز کو اٹھایا تھا اور ان میں سے سلیپنگز کو واپس اس نے رکھ دیا تھا۔۔۔ اب وہ ہر ایک میں سے دو دو ٹیبلیٹس نکال رہا تھا ۔۔ اور اگلے لمحے ہی اس نے وہ تمام گولیاں منہ میں ڈالی اور صوفے پر پڑے پانی کے جگ میں سے پانی گلاس میں ڈالا اور پی گیا تھا۔

پتا نہیں اچانک اس کے ذہن میں کیا آیا اس نے پھر سے دو دو گولیاں کر ایک میں سے نکالی تھی ۔ اور ان کو منہ میں ڈال چکا تھا ساتھ ہی پانی کا ایک اور گلاس منہ سے لگایا تھا ۔ وہ اس وقت اپنی میڈیسن کی اوورڈوز لے چکا تھا یہ جانے بغیر یہ اس کے ساتھ کیا کریں گئی۔

بھوک کا احساس ہونے پر وہ کمرے سے باہر نکالا تھا۔۔ وہ ابھی کمرے کا دروازہ بند کر کے موڑا ہی تھا کہ ٹی وی لاؤنج میں موجود ایل سی ڈی آون ہوئی تھی شہزاد حیرت سے اس کو دیکھ رہا تھا کہ وہ ایل سی ڈی آون کیسے ہو گئی۔۔ وہ فوراً سڑھیاں اترنے لگا تھا جب سامنے ایل سی ڈی پر چلتے مناظر نے اس کے قدموں کو ایک لمحے کے لیے روکا تھا۔۔

وہ خاموش بلکل ساکت کھڑا ہو گیا تھا۔۔ یہاں تک کہ وہ سانس لینا بھی بھول گیا تھا۔۔ رنگت سفید پڑھتی جا رہی تھی۔۔ آنکھیں ایسے کھولی تھی جیس کوئی جن دیکھ لیا ہو۔۔ اس نے خود کو گرنے سے بچانے کے لیے سیڑھیوں کے گرد لگی ریلنگ کو پکڑا تھا۔۔ وہ ایسے ہی ایل سی ڈی کو دیکھتے بھاری سانس لیتے سیڑھیوں کو اتر رہا تھا۔۔ اس کا چہرہ پسینے سے تر ہونے لگا تھا۔۔

جب وہ لاؤنج میں پوچھا تو اس کو اہک صوفے پر کیسی وجود کے بیٹھے ہونے کا احساس ہوا تھا ۔۔ اس کے ماتھے پر موجود پیسنے کا ایک قطرہ پھسلتے ہوئے اس کی گال پر آیا ٹھا۔  شہزاد نے خشک ہوتے حلق کو تھوک کی مدد سے تر کیا تھا۔۔ اب اس نے صوفے کی طرف روخ موڑا تھ۔۔ آستین پھٹی ہوئی، ہونٹ کے قریب خون جما ہوا ، سرخ اور سوجی ہوئی انکھیں۔۔ جو اس وقت اس کو گھور رہی تھی۔۔ خاموشی سے ، غصے سے، نفرت سے۔۔

وہ جزا شاہد تھی جو اس وقت اس کے سامنے تھی۔ شہزاد کو اپنا سانس اکھڑتا ہوا محسوس ہوا تھا۔۔ پھٹی ہوئی آنکھوں سے اس کو دیکھ رہا تھا۔۔۔ اس کی آواز اس کے منہ میں ہی دم توڑ گئی تھی ۔۔ حیرتوں کے پہاڑ چند لمحوں میں اس پر ٹوٹ پڑے تھے۔۔

وہ ابھی بھی صوفے پر بیٹھی بس اس کو دیکھ رہی تھی بےرحم نظروں سے ، اس کی خاموشی ایسے تھی جیسے کوئی شیرنی اپنے شکار کی گردن کو دبوچنے سے پہلی خاموشی سے اس کو دیکھ رہی ہو۔۔۔ جیسے وہ اپنی آنکھوں سے ہی شہزاد کی چلتی سانسوں کو تھاما دے۔۔

ت۔۔۔ تم زندہ ۔۔۔ کیسے ہو ۔۔ سکتی ہو۔۔ شہزاد نے ایک قدم آگے بڑھایا تھا ۔۔ اور بامشکل بول پایا تھا۔۔

تم۔۔۔ تم زندہ نہیں ہو سکتی۔۔۔ شہزاد کے چہرے کا رنگ زرد پر رہا تھا۔۔  اس کا وجود پسینے میں مکمل بھیگ چکا تھا ۔۔ اس کی آواز میں خوف و ڈر کی وجہ سے لرزش تھی ۔۔۔

اس کو خوف میں دیکھ کر جزا کے چہرے پر ہلکی سی مگر پراسرار مسکراہٹ نے جگہ لی تھی۔۔ شہزاد کی یہ حالت اس کے پورے وجود کو سکون دے رہی تھی۔۔

تم۔۔۔تم جزا۔۔۔ جزا نہیں ہو۔۔سکتی ۔۔شہزاد کانپتی آواز میں بولی تھی ۔

تم اد۔۔۔ ادھر ۔۔۔ نہیں ہ۔۔۔ ہو سکتی۔۔۔ شہزاد کا وجود کانپا تھا۔۔۔

واقع ہی میں جزا نہیں ہو۔۔ وہ اپنی جگہ سے اٹھی تھی ۔ اور ایک ایک قدم چلتی شہزاد کے پاس آئی تھی۔۔ اس کی آواز میں کوئی احساس نہ تھا۔۔ سرد برفیلا لہجہ تھا۔۔

تمہیں پتا ہے میں کون ہوں؟ وہ جان نکالتی نظروں سے شہزاد کو دیکھ رہی تھی۔۔

کون ہو تم۔۔۔ شہزاد نے اس کے بڑھتے ہوئے قدموں کو دیکھا تھا اور اپنے قدم پیچھے اٹھائے تھے۔۔۔

موت ۔۔۔ سنا تو ہو گا اس کے بارے میں ۔۔ پتا تو ہے نہ کتنی ظالم ہوتی ہے یہ؟  جزا کا لہجہ پراسرار تھا۔۔ اس کی آنکھوں میں ایسی بے رحمی تھی کہ وہ ایک ہی وار میں  سامنے کھڑے شخص کی روح اس کے جسم سے جدا کر دے ۔۔

اور اس کے الفاظ پر شہزاد کا یہ حال تھا جیسے مقابل کے الفاظ اس کی سانسیں لے گئے تھے ۔۔

موت ہوں میں تمہاری ۔۔ ظالم موت۔۔ وہ موت جو جوانی نگل جائے، وہ موت جو فناہ کر دے، وہ موت جو تباہ کر دے ، وہ موت جو خون پر روند ڈالے۔۔ وہ موت جس کو صرف خون چاہیے۔۔۔ جزا نے ہاتھ بڑھا کر شہزاد کی گردن کو پکڑا تھا۔۔

مگر اس کیمے اپنہ پکڑ مضبوط نہ رکھی تھی ۔ شہزاد کا پورا وجود کانپ اٹھا تھا۔۔ اس نے فوراً اس کا ہاتھ اپنی گردن سے ہٹایا تھا اور سیڑھیوں کی طرف بھاگا تھا ۔ اس کا روخ اوپر کی طرف تھا۔۔

وہ بھاگتا ہوا اس وقت ایک کمرے کے دروازے کے پاس روکا تھا اس نے زور زور سے دروازہ بجانا شروع کر دیا تھا ۔

دروازہ کھولو ۔۔ دروازہ کھولو۔۔ شہزاد چیخا تھا۔۔

اب وہ اس کمرے کے ساتھ والے کمرے کا دروازہ زور زور سے بجا رہا تھا۔۔

دروازہ کھولیں ۔۔۔ شہزاد پھر سے چیخا تھا۔۔۔

ڈیڈ دروازہ کھولیں ۔۔ شہزاد نے پھر سے دروازہ بجایا تھا۔۔ اس کی قمیض اس وقت پسینے سے بھیگی ہوئی تھی دل کی دھڑکن اتنی تیز تھی کہ کوئی حد نہیں ۔۔  سانس اتنی تیز تھی جیسے وہ نہ جانے کتنے دنوں سے بھاگ رہا ہو ۔

ڈیڈ دروازہ کھولیں ۔۔۔ شہزاد نے دروازہ پھر سے بجایا تھا اور گردن موڑ کر دیکھا تھا وہ ابھی بھی لاؤنج میں کھڑی اس کی بےبسی کو دیکھ رہی تھی۔۔ اس کے چہرے پر پرسکون مسکراہٹ  تھی  جیسے شہزاد کی حالت اس کو بہت سکون دے رہی تھی۔۔۔

حدید ۔۔۔ حدید ۔۔۔ حدید ۔۔ دروازہ کھولو۔۔۔ حدید ۔۔۔ شہزاد نے اب پھر سے دوسرے کمرے کا دروازہ بجایا تھا ۔

جب ساتھ والے کمرے کا دروزاہ کھولنے کی اواز آئی تھی۔۔ شہزاد فوراً سے اس کمرے کی طرف بڑھا تھا۔۔۔

ڈیڈ ۔۔۔ وہ  زندہ ہے ۔ شہزاد  پھولے ہوئے سانس سے بولا تھا اس کا وجود کانپ رہا تھا۔۔۔

کیا ہو گیا ہے شہزاد کیوں شور مچا رکھا ہے تم نے ۔۔ اکرم صاحب بےزاری سے بولے تھے۔۔

جب ایک اور دروازہ کھولنے کی آواز آئی تھی ۔۔ حدید بھی اپنی کمرے سے نکل آیا تھا ۔۔ اور غصّے سے شہزاد کو دیکھ رہا تھا جیسے اس کی نیند خراب ہوئی تھی۔۔

کیا مصیبت آ گئی ہے۔۔۔ تم لوگوں نے ٹھیکا اٹھا لیا ہے کیا میری نیند حرام کرنے کا۔۔ حدید بےزاری سے بولا تھا۔۔

وہ جزا زندہ ہے۔۔ شہزاد بدحواس سا بولا تھا۔

تم پاگل ہو کیا؟؟ وہ مر گئی ہوئی ہے۔۔ اکرم صاحب نے غصے سے اس کا روخ اپنی طرف کیا تھا۔۔

وہ نہیں مری  وہ نیچھے ٹی وی لاؤنج میں ہے۔۔ شہزاد نے پیچھے کی طرف اشارہ کیا تھا اور موڑ کر دیکھا تو ٹی وی لاؤنج میں کچھ بھی نہ تھا۔۔

شہزاد نے دو قدم آگے بڑھائے تھے۔۔ اس کا منہ حیرت سے کھولا کا کھولا رہ گیا تھا۔۔ وہ فوراً موڑ کر اکرم صاحب کی طرف گیا تھا جو اس کو غصے سے دیکھ رہے تھے اور حدید اس کو ایسے دیکھ  رہا تھا جیسے اس کو شہزاد کی ذہنی حالت پر شک ہو۔۔

میرا یقین کرے وہ نیچھے ٹی وی لاؤنج میں تھی ۔ آپ میرے ساتھ چلیں ۔۔ شہزاد نے اکرم صاحب کا ہاتھ پکڑا تھا اور ساتھ ہی حدید کا بھی ہاتھ پکڑا تھا اور دونوں کو نیچھے لے کر اترا تھا۔۔

اب وہ لوگ ٹی وی لاؤنج میں تھے ۔۔ بڑا وسیع ٹی وی لاؤنج ۔۔ جس کے بلکل درمیان میں کانچ کا ٹیبل پڑا تھا اس کے اطراف میں جدید طرز کے صوفے تھے اور ان صوفوں کے دونوں سائیڈ پر چھوٹی ٹیبل پر گلدان پڑے تھے۔۔ سامنے ایل سی  ڈی وال پر ایل سی ڈی لگی ہوئی تھی ۔ ایک طرف پڑے پیلرز کھڑے ہوئے تھے جہاں سے ایک راہداری گزر کر سٹیڈی اور بیک لون کی طرف جاتی تھی۔۔  اور ایک طرف بنی راہداری دارئنگ روم کی طرف اور گیسٹ روم کی طرف تھی۔۔

کہاں ہے جزا ۔۔اکرم صاحب نے پورا لاؤنج سخت نظروں سے دیکھا تھا۔۔

وہ ادھر ہی تھی۔۔ یہ ایل سی ڈی بھی خود با خود چلی تھی۔۔ شہزاد حیرت سے بولا تھا اس کو سمجھ نہ آ رہی تھی وہ کیسے سمجھائے ان دونوں کو۔۔

آج کتنی ڈرنک کی ہے تم نے؟؟ حدید اس کو جانچتی نظروں سے دیکھتا بولا تھا۔۔

میں نے ڈرنک نہیں کی میرا یقین کرو وہ ادھر تھی میرے سامنے اس نے میرا گلا پکڑا تھا۔۔ وہ زندہ ہے میرا یقین کرو۔۔۔ شہزاد غصے سے دھاڑا تھا۔۔

وہ ادھر ہے تو کدھر گئی ہے؟؟ سٹیڈی لوک ہے ڈرائنگ روم لوک ہے گیسٹ رومز لوک ہیں بیک لاؤن ڈور لوک ہے مین ڈور لوک ہے ۔۔۔کہاں گئی وہ پھر؟؟؟ جواب دو مجھے؟ اکرم صاحب دانت پیس کر بولے تھے ۔

وہ ادھر ہی تھی آپ مان کیوں نہیں رہے؟؟ شہزاد کے ماتھے کی نسیں ابھرنے لگی تھی۔۔ اس کی آنکھوں میں سرخی دوڑنے لگی تھی۔۔ سانس تیز ہو رہی تھی ۔

اس کا اعلاج کروا لیں ۔۔۔ ورنہ جس نے آپ کے بوڑھاپے کا سہارا بنا ہے کہیں آپ کو بوڑھاپے میں اس کا سہارا نہ بنا پر جائے ۔۔ حدید نے اکرم صاحب کو سر سے پیر تک دیکھا تھا۔۔

تمہیں میں پاگل لگتا ہوں ؟ میں بکواس کر رہا ہوں وہ ادھر تھی اس نے میرا گلا پکڑا ۔ شہزاد پوری قوت سے چیخا تھا۔۔۔

تم واقع ہی پاگل ہو اور بکواس کر رہے ہو کیونکہ جس کو تم نے دیکھ ہے اس کا نام و نشان بھی ادھر موجود نہیں ۔۔۔ حدید اس سے بلند آواز میں بولا تھا۔۔

اور یہ فضولیات بند کرو اب سمجھ آئی ۔۔ اس کا کوئی علاج کروا لیں دماغی مریض بن گیا ہے آپ کا بیٹا ۔۔ حدید یہ کہہ کر سیڑھیوں کی طرف بڑھا تھا اور کچھ دیر میں وہ اپنے کمرے کا دروازہ کھول کر کمرے میں داخل ہو چکا تھا۔۔

شہزاد خود کو سنبھالو۔۔ وہ مر چکی ہے ۔ اکرم صاحب نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا ۔

وہ نہیں ماری وہ زندہ ہے وہ میرے سامنے تھی اس نے میرا گلا پکڑا وہ مُجھے مارنے آئی ہے ۔ شہزاد بدحواسی میں بولا تھا۔۔۔ اس کے سر میں ہلکی سے درد اٹھی تھی۔۔۔

کوئی مرا ہوا انسان کیسے کیسی کو کار سکتا ہے۔۔ اکرم صاحب غصے میں بولے تھے۔۔

وہ مری نہیں ہے۔۔ شہزاد دانت پیس کر بولا تھا۔۔

چٹاخ ۔۔۔ ٹی وی لاؤنج میں تھپڑ کی آواز کے ساتھ سناٹا چھا گیا تھا۔۔ شہزاد نے اپنے چہرے پر ہاتھ رکھا ہوا تھا اکرم صاحب اس کو غصے سے گھور رہے تھے۔۔۔

ادھر زندگی عذاب بن گئی ہے اور تم اس لڑکی سے نہیں نکل پا رہے ۔ وہ مر گئی ہے شہزاد ۔۔ مر گئی ہے وہ ۔ اس کے بارے میں چھوڑ کر اس قیامت اور بدنامی کا سوچوں جو سر پر سوار ہے۔۔ اکرم صاحب نے اس کو جھنجھوڑا تھا۔۔

وہ میری موت بن کر آئی ہے ڈیڈ ۔۔ وہ زندہ ہے۔۔ شہزاد اپنی بات پر ہی آڑا ہوا تھا ۔

شہزاد اب بس کر دو۔۔اکرم صاحب نے اس کو وران کیا تھا۔۔۔

وہ ادھر ہی تھی۔۔ یہاں ہی تھی۔۔ شہزاد غصے سے بے قابو ہوا تھا۔۔

میرا یقین کیوں نہیں کرتے تم سب۔۔وہ ادھر ہی تھی۔۔ مجھے مارنے آئی ہے۔۔ اس نے میرا گلا پکڑا تھا۔۔۔ شہزاد نے ایک گلدان اٹھا کر زمین پر پھینکا تھا۔۔

اس کا سانس بہت بری طرح پھولا ہوا تھا ۔۔ اس کی آنکھوں میں چھوٹی چھوٹی سرخ نسین مزید سرخ ہو رہی تھی ۔۔ سر کا درد اس کی برداشت سے باہر تھا ۔۔

شہزاد ہوش میں آؤ ۔۔ اکرم صاحب نے اس کو روکنا چاہا تھا۔۔

میں پاگل نہیں ہوں ۔۔۔ میں نے اس کو دیکھا ہے۔۔ شہزاد اس وقت بے قابو تھا۔۔

شہزاد ۔۔ اکرم صاحب نے اس کا روخ اپنی طرف کیا تھا۔۔

آپ دور ہو جائیں مجھے سے۔ آپ کو مجھ پر یقین نہیں ۔۔ شہزاد نے اکرم صاحب کو دور دھکیلا تھا۔۔

شہزاد ۔۔۔۔ میری بات سنو ۔۔۔ اکرم صاحب نے اس کا بازو پکڑا تھا۔۔

مگر شہزاد ان کے قابو نہیں آرہا تھا۔۔ اس کا سر شدید درد کر رہا تھا اس کو سمجھ نہیں آ رہی تھی وہ کیا کر رہا ہے کیا نہیں ۔۔ اس کو بس  یہ ہی سنائی دے رہا تھا تم پاگل ہو تم قاتل ہو۔۔۔

اس نے اپنے کانوں پر ہاتھ رکھ لیا تھا۔۔ وہ کوئی آواز نہیں سنا چاہتا تھا۔۔ اکرم صاحب اس کو بولا رہے تھے مگر وہ سن کہاں رہا تھا۔۔۔

چپ کر جاو۔۔۔ چپ کر جاو ۔۔ میرا سر درد سے پھٹ رہا ہے چپ کر جاووووووو۔۔۔ شہزاد بلند آواز میں بولا تھا۔۔

مجھے ہے یقین تم پر ۔۔ اکرم صاحب نے اس کو جھنجھوڑا تھا۔۔

شہزاد ایک لمحے کو روکا اور اپنے باپ کو دیکھ رہا تھا۔۔ اور اس کے بعد وہ ہنسانا شروع ہوا اور ہنستا چلا گیا ۔۔ ہسنے سے اس کے سر میں اور درد اٹھ رہی تھی۔۔۔ اس کی آنکھیں بہت زیادہ سرخ ہو رہی تھی جیسے ابھی خون نکل آئے ۔۔

شہزاد ۔۔ اکرم صاحب نے حیرت سے اس کو دیکھا تھا۔۔

یقین آپ کو؟ مجھ پر؟؟ شہزاد ہنستا ہوا بولا تھا۔۔

مُجھے یقین ہے۔۔ اکرم صاحب مضبوط لہجے میں بولے تھے۔۔

آپ کو نہیں ہے۔۔ شہزاد پراسرار نظروں سے ان کو دیکھ رہا تھا۔۔ وہ اس وقت اپنے ہوش و حواس میں نہیں تھا جیسے ۔۔

شہزاد ۔۔ اکرم صاحب کو اس کا یہ انداز ڈرا رہا تھا۔۔

آپ کو جب میں نے کہا تھا میں نے اپنا دوست مارا ہے اپنے یقین نہیں کیا تھا۔۔ شہزاد نے ان کے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا۔۔

شہزاد اس کو تم نے نہیں مارا تھا۔۔ اکرم صاحب نے اس کے چہرے پر ہاتھ رکھا تھا۔۔

میں نے مارا تھا۔۔ شہزاد نے اپنے سر پر ہاتھ رکھا تھا درد حد سے زیادہ بڑھ گیا تھا۔۔

شہزاد ہوش کرو ۔۔ اکرم صاحب نے اس کے بازو پر دباؤ ڈالا تھا۔۔

مگر شہزاد کو اس وقت کچھ سمجھ نہ آ رہی تھی وہ کیا کر رہا ہے اور کیا نہیں ۔۔ اس کا دماغ جیسے اس کا ساتھ دے ہی نہیں رہا تھا ۔۔۔ وہ بلکل ابنارمل بیہیوہ کر رہا تھا ۔۔ اس کو اپنے کیسی عمل کیسی بات کا علم نہیں تھا۔۔

میں نے پتا اس کو کیسے مارا تھا۔۔ شہزاد مسکرایا تھا۔۔

ادھر دیکھو شہزاد ۔۔ اکرم صاحب نے اس کا منہ اپنی طرف کیا تھا۔۔

میں نے اس کو ایسے دھکا دیا تھا۔۔ شہزاد نے اکرم صاحب کو بہت بری طرح پیچھے کی طرف دھکیلا تھا۔۔

وہ خود کو سنبھال نہ سکے اور سیدھا کانچ کی میز پر گرے ۔۔ اور ان کے گرنے سے وہ میز چکنا چور ہو گئی ۔۔  اور شہزاد ان کے بلکل سامنے آ کر کھڑا ہو گیا۔۔

شہزاد ۔۔ اکرم صاحب نے اٹھانا چاہا مگر کانچ کی کرچیاں کمر میں چب گئی تھی۔۔

پھر پتا  میں نے کیا کیا؟ شہزاد نے اپنا گھٹنا  اکرم صاحب کے سینے پر رکھا تھا۔۔

شہزاد کیا کر رہے ہو۔۔۔ اکرم صاحب خوف سے شہزاد کو دیکھ رہے تھے۔۔۔ 

جبکہ شہزاد نے ایک طرف پڑا کانچ کا ٹکڑا اپنے ہاتھ میں لیا تھا ۔ اور اس کو مسکرا کر دیکھ رہا تھا۔۔۔ اس کو کوئی خبر نہ رہی تھی وہ کیا کر رہا تھا۔۔۔

شہزاد ۔۔ روک جاو۔۔۔ میں باپ ہوں تمہارا ۔۔۔ اکرم صاحب کی آنکھیں نم ہوئی تھی۔۔

شہزاد ۔۔۔ انہوں نے پھر سے پکارا تھا۔۔ مگر وہ اس وقت ہوش میں کہاں تھا۔۔

شہزاد میں تمہارا باپ ہوں۔۔۔ ادھر دیکھو۔۔اکرم صاحب اس کو نم آنکھوں سے بولا رہے تھے۔۔ نہ جانے کیوں مگر ان کو شہزاد کے اس روپ سے ڈر لگ رہا تھا۔۔ ان کا دل بہت تیزی سے دھڑک رہا تھا۔۔ مگر شہزاد اس وقت ان کو نہیں سن رہا تھا۔۔ وہ بس اس کانچ کے ٹکڑے کو دیکھ رہا تھا۔

میں نے چھڑی ایسے اس کے سینے میں ماری تھی ۔۔ شہزاد نے ہاتھ میں پکڑا کانچ کا ٹکڑا پوری قوت سے اکرم صاحب کے سینے میں مارا تھا۔۔

ان کی آنکھیں کھولی کی کھولی رہ گئی تھی۔۔ وہ ٹکڑا ان کے دل کے مقام پر لگا تھا۔۔ سانسیں لمحے میں وجود سے جدا ہوئی تھی۔۔ آنکھ میں موجود ایک آنسو کا قطرہ آنکھ سے نکل گیا تھا۔۔

پھر ایسے نکالی تھی پھر ایسے ماری تھی۔۔ شہزاد نے وہ کانچ کا ٹکڑا نکال کر دوبارہ اکرم صاحب کے سینے میں مارا تھا۔۔۔

وہ دِیوانہ وار ایسے کر رہا تھا۔۔۔ اس کو اندازہ بھی نہ تھا وہ کیا کر رہا ہے۔۔۔ وہ بس وہ کانچ کا ٹکڑا ان کے سینے میں سے نکال رہا تھا اور دوبارہ ان کے سینے میں مار رہا تھا۔۔ اس کے اپنے ہاتھ سے اب خون نکل رہا تھا۔۔۔ اچانک وہ کانچ کا ٹکڑا اکرم صاحب کے سینے میں ہی ٹوٹ گیا تھا۔۔

شہزاد کا ہاتھ ایک لمحے کو روکا تھا۔۔ اس نے پہلے اپنے ہاتھ کو دیکھا اور پھر اکرم صاحب کے بےجان وجود کو وہ کرنٹ کھا کر پیچھا ہوا تھا۔۔

نہ۔۔۔۔ نہیں ۔۔۔۔ ی۔۔۔۔ یہ۔۔۔ شہزاد سے بولا نہ گیا ۔۔۔

وہ گھٹنوں کے بل اکرم صاحب کے قریب آیا بےشک کانچ کی کرچیاں اس  کے گھوٹنے کو چب گئی تھی۔۔۔  اس نے کانپتے ہاتھوں سے اکرم صاحب کے وجود کو ہلایا تھا۔۔۔

ڈیڈ۔۔۔ ڈیڈ۔۔۔۔۔۔ ڈیڈ۔۔۔ شہزاد ان کے بےجان وجود کو ہلا رہا تھا۔۔۔

ڈیڈ ۔۔ اٹھیں ۔۔۔۔ شہزاد نے ایک بار ان کو پھر سے ہلایا تھا۔۔۔

ی۔۔۔ یہ میں ۔۔۔ نے کیا کر دیا۔۔۔ شہزاد نے رکھ کر خود کے منہ پر تھپڑ مارا تھا۔۔۔

یہ کیا کیا میں نے ۔۔۔ شہزاد نے دوسرا تھپڑ خود کو مارا تھا۔۔ اور اب وہ ایک کے بعد ایک تھپڑ خود کو مار رہا تھا۔۔۔

اہہہہہہہہہ ۔۔۔۔۔۔۔ اہہہہہہہہہ ۔۔۔۔۔ شہزاد نے اپنے بالوں کو موٹھی میں دبوچ لیا تھا۔۔ اس کے سر میں شدید درد اٹھ رہا تھا۔۔۔

یہ کیا کیا میں نے۔۔۔ شہزاد اپنے خون سے بھرے ہاتھ دیکھ رہا تھا۔۔ اور پھر سے خود کے منہ پر تھپڑ مارنے لگا تھا۔۔۔

ڈیڈ ۔۔۔ وہ روتے ہوئے اکرم صاحب کے بےجان وجود پر سر رکھ چکا تھا۔۔۔

یہ میں نے کیا کر دیا ڈیڈ۔۔۔ وہ بے تحاشہ رو رہا تھا۔۔ اس کے سر کی درد اور بڑھ رہی تھی ۔۔۔

اٹھیں ڈیڈ ۔۔۔۔۔ شہزاد نے ان کے بےجان وجود کو جھنجھوڑ دیا تھا۔۔

یہ میں نے کیا کیا ۔۔ شہزاد نے اپنے بالوں کو موٹھی میں جکڑا تھا۔۔۔

وہ بے تحاشہ رو رہا تھا۔ اکرم صاحب کا بےجان وجود اس کے سامنے پڑا تھا۔۔  اس کے چہرے پر ایک طرف خون والے ہاتھ کے تھپڑ کے نشان تھے۔۔۔ اس کی آنکھیں سوجی ہوئی مکمل سرخ تھی۔۔۔ سر درد اس کی برداشت سے باہر تھی۔۔اس نے روتے ہوئی اپنا سر پکڑا تھا وہ درد اس کی جان لینے کو آئی تھی۔۔

اس کے رونے کہ شدت میں اضافہ ہوا تھا۔۔۔ کہ اچانک اس کی آنکھوں سے آنسوں کی جگہ خون نکلنے لگا تھا۔۔ شاید شدید درد سے اس کی انکھ کی باریک نسیں پھٹ گئی تھی۔۔ وہ کیسی بچے کی طرح بس روتا جا رہا تھا۔۔۔ اس کی آنکھوں سے خون نکل رہا تھا چہرے پر ایک طرف خون کے تھپڑوں کی چھاپ ، بکھرے ہوئے بال خون سے بھرے کپڑے اور ہاتھ ۔۔۔

آج پھر وہ ہی رات تھی جس رات اس نے اپنی ماں کو مارا تھا اپنی ممانی کو مارا تھا اپنے مامو کو مارا تھا اپنی کزن کو مارا تھا۔۔ آج اسی رات اس نے اپنے باپ کو مارا تھا۔۔ مگر اج کل کا ظالم اپنے کیے ظلم کا بدلہ کاٹ رہا تھا۔۔ آج وہ رو رہا تھا۔۔ اور خون کے آنسوں رو رہا تھا۔۔ وہ اپنے بال نوچ رہا تھا۔۔ آج رات اس کے لیے قیامت بن کر آئی تھی۔۔ آج رات اس کے لیے ظالم تھی۔۔ وقت کا چکر گھومتے ہوئے آج مکافات کی منزل پر  آ کر کھڑا ہو گیا تھا۔۔۔ آج شہزاد اکرم کی بربادی کوئی نہیں روک سکتا تھا۔۔

••••••••••••••••••••••

آدھی رات کا وقت تھا ۔۔ وہ اپنے ذاتی گھر میں اکیلا تھا ۔ خاموشی سے بیٹھا اپنے کمرے میں سلینگ کو دیکھ رہا تھا ۔۔ ہاتھ میں سگریٹ جل رہا تھا جس کو وہ وقتاً فوقتاً اپنے لبوں سے لگا رہا تھا۔

ایک کار اس گھر کے سامنے روکی تھی۔۔ جس میں سے ایک شخص باہر نکلا تھا اس نے بلیک کلر کی پینٹ پر بلیک ٹی شرٹ کے ساتھ بلیک لیدر کی جیکٹ پہن رکھی تھی۔۔ اور سر پر کیپ پہنے اس نے اپنے قدم اس گھر کی طرف بڑھائے تھے۔۔ اس کی براؤن آنکھوں میں کوئی احساس نہیں تھا ۔۔۔

وہ دروازے کے سامنے جا کر روکا تھا اور جیب سے گن نکالی تھی۔۔ اگلے ہی لمحے اس کی سائلنٹ پر لگی گن سے فائر ہوا تھا اور دروازے کا لوک ٹوٹ گیا تھا۔۔ اب اس نے دروازہ کھول کر قدم اندر رکھا تھا۔۔

سامنے ہی ٹی وی لاؤنج تھا جہاں پر جدید طرز کے صوفے پڑے  تھے ایک طرف اوپن کچن تھا اور اس کے ساتھ ہی چھوٹا سا ڈائننگ روم تھا۔۔ اور اس کے ساتھ ہی باہر لاؤن میں جانے کا راستہ تھا۔۔ اور اوپر والے پورشن میں جانے کے لئے سڑھیاں ٹی وی لاؤنج میں سے گزرتی تھی۔۔ وہ ایک ایک قدم اٹھاتا سیڑھیاں چڑھ رہا تھا۔۔ اوپر والے فلور پر جا کر اس نے ایک نظر پورے فلور پر ڈالی تھی ۔  جہاں پانچ کمرے ایک ساتھ قطار میں تھے ۔

ایک کمرے پر اس کی نظر روک گئی تھی وہ جانتا تھا وہ کمرہ کس کا ہے اس کے قدم اس کمرے کی طرف تھے ۔۔۔ اب وہ کمرے کے دروازے کے سامنے تھا ۔۔ اس نے ہنڈل پر ہاتھ رکھا تھا ۔  کمرا اندر سے لوک تھا۔۔

اس نے ہاتھ میں پکڑی گن سے لوک توڑا اور کمرے کا دروازہ کھولا تھا۔۔ سامنے ہی نواز عثمان سگریٹ منہ میں ڈالے بیڈ کے ساتھ ٹیک لگائے زمین پر بیٹھا سیلنگ کو دیکھا رہا تھا۔۔

اچانک دروازہ کھولنے پر وہ سیدھا ہوا تھا جب کیسی کی براؤن آنکھوں کو خود کو گھورتا پایا تھا اس نے ۔۔

کون ہو تم؟ اندر کیسے آئے ۔۔نواز اپنی جگہ سے اٹھ کر غصے میں بولا تھا ۔۔۔

دروازے سے آیا ہوں۔۔ وہ اندر قدم رکھتا بولا تھا۔۔ اور ہاتھ میں موجود گن کو اب ہاتھ میں گھوما رہا تھا۔۔

ہو کون تم ؟؟ نواز غصّے سے بولا تھا ہاتھ میں موجود سگریٹ زمین پر گری تھی ۔۔

رحیان آغا ۔۔۔ وہ چلتا ہوا صوفے پر جا کر بیٹھا تھا۔۔۔ اور چہرے پر لگا ماسک اتارا تھا۔۔ نواز حیرت سے اس کو دیکھنے لگا تھا۔۔

تم ادھر کیا کر رہے ہو؟ نواز کو اس کا ادھر آنا سمجھ میں نہ آیا تھا۔۔

کچھ حساب ہیں تمہاری طرف بس اس لیے آیا ہوں۔۔۔ رحیان نے نواز کو سر سے پیر تک دیکھا تھا۔۔

کون سے حساب میں نے تمہارا کیا بگاڑا ہے؟ نواز ناسمجھی سے اس کو دیکھ رہا تھا۔۔

سویرا شاہد ۔۔۔۔ یاد تو ہو گئی؟ رحیان صوفے پر آگے کو ہوا تھا کچھ۔۔

سویرا شاہد ۔۔۔ نواز نے یہ نام دھرایا تھا۔۔ وہ کیسے بھول سکتا تھا اس نام کو۔۔۔

ہاں سویرا شاہد ۔۔ وہ ہی جس کو تم نے بےابرو کیا۔۔۔ رحیان نے ہاتھ میں موجود گن نواز کی طرف کی تھی۔۔

جبکہ نواز نے ڈر کے ایک قدم پیچھے اُٹھایا تھا۔۔ اس کو رحیان آغا کی آنکھوں سے خوف آ رہا تھا۔۔۔ وہ بس اس کی نظروں سے بچانا چاہتا تھا۔۔ مگر وہ انجان تھا آج وہ رحیان آغا سے نہیں بچ سکتا ۔۔۔

تم کس لیے آئے ہو ادھر ۔۔۔ نواز نے تھوک نگل کر رحیان سے سوال کیا تھا۔۔

اپنی محبت کی بربادی کا حساب لینے آیا ہوں تم سے۔۔ رحیان نے ایک ایک لفظ چبا چبا کر بولا تھا۔۔

محبت ۔۔۔ نواز نے رحیان کو سر سے پیر تک دیکھا تھا۔۔ اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا رحیان آغا ایسے اس کے سامنے کھڑا ہو گا۔۔

ہاں محبت ۔۔ وہ محبت تھی میری ۔۔۔ جس کو تم نے بے آبرو کیا۔۔ رحیان نے ہاتھ میں پکڑی گن کا ٹریگر دبایا تھا۔۔

گولی نواز کی ٹانگ  پر لگی تھی ۔۔ درد کی ایک شدید لہر اس کے جسم میں اٹھی تھی ۔۔ وہ زمین پر بیٹھتا چلا گیا ۔۔ سفید ماربل کا فرش اس کے خون سے سرخ ہو رہا تھا ۔

مجھ سے غلطی ہو گئی ۔ نواز نم آنکھوں سے رحیان کو دیکھتے بولا تھا۔۔

غلطی ؟ وہ غلطی تھی نواز عثمان ؟؟ رحیان اپنی جگہ سے اٹھ کر ایک ایک قدم چلتا اس کے سامنے آ کر زمین پر پاؤں کے بل بیٹھا تھا۔۔۔ اور قہر برساتی نظروں سے اس کو دیکھ رہا تھا۔۔۔

میرا یقین کرو رحیان ۔۔ نواز کی آنکھوں سے ایک قطرہ آنسو کا گرا تھا۔۔ اور وہ کھڑا ہونے کی کوشش کرنے لگا تھا ۔۔ آخر بامشکل ہی صحیح وہ کھڑا ہوا تھا۔

کیسی معصوم کی معصومیت کو درندگی کی نظر کر دینا ، کیسی کی عزت و آبرو کو پامال کر دینا، کیسی کے ساتھ مل کر ایک پورا خاندان تباہ کر دینا غلطی نہیں ہوتی نواز ۔۔ وہ غلطی نہیں تھی ۔ رحیان نے اس کے بالوں کو اپنی موٹھی میں دبوچا تھا۔۔۔

میں مانتا ہوں میں نے بہت سے گھروں کو برباد کیا، بہت سی معصوم لڑکیوں کو درندگی کا نشانہ بنایا ۔۔ مگر میرا یقین کرو میں اب شرمندہ ہوں ۔۔ نواز کی آواز بھاری تھی ۔۔

اختتام پر سب کو ہی شرمندگی ہوتی ہے اپنے کیے کی نواز ۔۔ رحیان نے طنزیہ نظروں سے اس کو دیکھا تھا۔۔

مجھے معاف کر دو رحیان ۔۔۔ نواز نے اس کے سامنے ہاتھ جوڑے تھے۔۔۔

کاش میرا اتنا ظرف ہوتا نواز کہ میں تمہیں معاف کر سکتا ۔۔ تم نے جس کو برباد کیا وہ میری زندگی تھی نواز ۔۔ تم نے سویرا شاہد کو نہیں رحیان آغا کو مارا ہے نواز۔۔۔  رحیان نے ایک زناٹے دار تھپڑ نواز کے منہ پر پڑا تھا۔۔

نواز ایک جھٹکے سے زمین کی طرف جھکا تھا۔۔ اس کے ناک اور ہونٹ سے خون رسنے لگا تھا ۔ رحیان کی انگلیوں کا نشان اس کے چہرے پر رہ گیا تھا۔۔

اس کو میں نے نہیں مارا ۔۔۔ اس کو۔۔ شہزاد ۔۔ شہزاد نے مارا تھا۔۔ نواز نے اپنے ہونٹوں سے نکلتے خون کو صاف کیا تھا۔۔

جھوٹ ۔۔۔ رحیان نے اس کا گریبان پکڑا تھا۔۔

میں سچ کہہ رہا ہوں۔۔ میں نے نہیں مارا ۔۔ اس کو شہزاد نے مارا تھا۔۔ ہاں اس کو درندگی کا نشانہ میں نے بنایا تھا۔۔ مگر میں نے اس کی جان نہیں لی رحیان ۔۔ نواز فوراً بولا تھا اور اس نے اپنے آپ کو کچھ پیچھے گھسیٹا تھا۔۔

مجھے معاف کر دو رحیان ۔۔۔ میں نے اس کو نہیں مارا ۔۔۔  مجھے معاف کر دو ۔۔ نواز کی آنکھوں سے آنسو نکل رہے تھے۔۔

میں تمہیں معاف نہیں کر سکتا نواز ۔۔ رحیان نے ایک زور دار ٹھوکر اس کے سینے میں ماری تھی۔۔۔

معصومیت کو قدموں کے نیچھے روند کر تم پھر یہ بولو یہ غلطی تھی۔۔ تمہیں معاف کر دیں ۔۔۔ رحیان نے ایک اور ٹھوکر اس کو ماری تھی۔۔

بار بار کیے ظلم کی معافی نہیں ہے نواز ۔۔ رحیان نے اس کو سینے پر زور سے پاؤں رکھا تھا۔۔

مج۔۔ مجھے ۔۔ نواز نے کچھ بولنا چاہا تھا۔۔

معافی مت مانگنا نواز ۔۔ آج کوئی معافی نہیں تمہارے لیے۔۔ رحیان نے اپنی گن کو لوڈ کیا تھا۔۔

رحیان پلیز ۔۔۔ نواز نے خوف سے گن کو دیکھا تھا۔۔

جبکہ رحیان خاموشی سے سخت نظروں سے اس کو دیکھ رہا تھا۔۔ اس کے چہرے پر ایک ایسی نظر سے دیکھ رہا تھا جیسے  اس کا بس نہ چل رہا ہو ایک لمحے میں نواز کو زمین میں گاڑ دے۔۔

رحیان میں مرنا نہیں چاہتا ۔۔۔ نواز نے اس کے سامنے ہاتھ جوڑے تھے ۔

مرنا تو وہ بھی نہیں چاہتی تھی۔۔ جینے کی خواہش تو اس کو بھی تھی۔۔  رحیان نے ایک گولی نواز کے کندھے پر ماری تھی۔۔۔۔

اہہہہہہ ۔۔۔۔ رحیان ۔۔۔ رحم۔۔ کرو۔۔ نواز نے اپنے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا۔۔

عورت ذات کو مذاق سمجھ رکھا تھا تم۔۔ ان پر تم رحم کرتے تھے جو آج تم پر کروں؟ رحیان نے اس کے دوسرے کندھے پر گولی چلائی تھی ۔۔

اہہہہہہہہہ ۔۔۔ نواز کی ایک اور چیخ گونجی تھی۔۔

ر۔۔۔ رحیان ۔۔مت ۔۔۔ کرو۔۔۔۔ ایسے ۔۔۔  نواز درد کو برداشت کرتے بولا تھا۔۔

شاید تم سے بھی کیسی نے بولا ہو گا مت کرو ۔۔ مگر تم روکے ؟ نہیں نہ ۔۔ رحیان نے اب کی بار گولی اس کے پیٹ میں ماری تھی ۔۔

مجھے ۔۔ معاف ۔۔ نواز نے کچھ بولنا چاہا تھا۔۔

جبکہ رحیان نواز کے قریب آ کر روکا تھا اور اپنا گھوٹنا اس کے سینے  پر رکھ کر جھک کر اب اس کو سخت نظروں سے دیکھ رہا تھا۔۔

میری پاس تمہارے لیے معافی نہیں ہے نواز عثمان ۔۔۔ رحیان نے زور دار مکا اس کے منہ پر مارا تھا۔۔

اور اب وہ ایک کے بعد ایک مکا اس کے منہ پر مار رہا تھا۔۔نواز کی گال ایک طرف سے پھٹ گئی تھی۔۔ اس کی ناک سے خون نکل رہا تھا ہونٹ سے خون نکل رہا تھا انکھ کے نیچھے سے خون نکل رہا تھا ۔۔ رحیان اس کے چہرے کا حشر بگاڑ چکا تھا۔۔ اس کا اپنا ہاتھ خون سے تر تھا ۔۔

نواز کا سانس اکھڑ رہا تھا۔۔ وہ رحیان کو رحم طلب نظروں سے دیکھ رہا تھا۔۔۔  جبکہ اس وقت رحیان سے زیادہ کوئی بھی اس کے لیے ظالم نہ تھا ۔۔۔

عزتوں کے ساتھ کھیلنے والوں کے لیے معافی نہیں ہے نواز عثمان ۔۔ رحیان نے اپنی گن کو ہاتھ میں پکڑا تھا اور اس میں موجود بولیٹس کو دیکھا تھا۔۔۔

اب اس نے بندوق کی نوک نواز کے پیٹ سے نیچھے رکھی تھی۔۔ اور قہر برساتی نظروں سے نواز کو دیکھ رہا تھا۔۔ نواز خون بہنے کی وجہ سے بےہوش ہو رہا تھا۔۔ اس کی سانسیں بھی مدہم ہو رہی تھی ۔۔ جب اچانک رحیان نے ٹریگر دبا دیا تھا ۔

اہہہہہ ۔۔ نواز کی بےجان سی چیخ کمرے میں گونجی تھی ۔

رحیان اس نفرت سے دیکھ رہا تھا ۔ اور دوبارہ اس نے ٹریگر دبا دیا تھا۔۔  اور اب وہ ایک کے بعد ایک گولی اس کے وجود میں اتارتا چلا جا رہا تھا۔۔ جبکہ نواز کی سانسیں تھم چکی تھی۔۔  

رحیان نے اپنی خالی گن واپس اپنی پینٹ کے پیچھے ڈالی تھی۔ اور سیدھا کھڑا ہوا تھا۔۔  ایک نظر اس نے نواز کے بےجان وجود پر ڈالی تھی اور پھر اس کی لاش پر سے گزر کر دروازے کی طرف بڑھا تھا۔۔

اس کی آنکھیں نم تھی ایک آنسو ٹوٹ کر اس کے چہرے پر گرا تھا۔۔ آج رحیان آغا نے سویرا شاہد کی بےابروئی کا بدلہ لے لیا تھا۔۔ اس کی زندگی کا سب سے بڑا مقصد پورا ہو گیا تھا۔۔ رحیان کی آنکھیں سرخ ہو رہی تھی۔۔ وہ ایسے ہی قدم اُٹھاتا گھر کے مین ڈور کی طرف جا رہا تھا۔۔

اس نے جیسے ہی قدم گھر سے باہر رکھا  اسی وقت ایک وائٹ کلر کی اوڈی گھر کے سامنے روکی تھی۔۔ رحیان بہت اچھے سے جانتا تھا یہ اوڈی کس کی ہے۔۔ وہ دروازے کے پاس روک گیا تھا۔۔ جب کار کا دروازہ کھول کر نوریز کار میں سے نکلا تھا۔۔

وہ رحیان کو ادھر دیکھ کر حیران ہوا تھا اور فورا اس کے پاس گیا تھا۔۔

تم ادھر کیا کر رہے ہو رحیان ۔۔ نوریز نے رحیان کو دیکھا تھا جس کی آنکھیں سرخ تھی ۔

کچھ حساب تھے وہ ہی پورے کرنے تھے ۔ رحیان دوٹوک انداز میں بولا تھا۔۔

جبکہ نوریز کی نظر اس کے خون سے بھرے ہاتھوں پر گئی تھی۔۔ اس نے خاموش نظروں سے رحیان کو دیکھا تھا۔۔

اس کو زیادہ ۔۔۔۔ نوریز کے آواز اس کے گلے میں ہی دم توڑ گئی تھی۔۔

اس کو زیادہ تکلیف تو نہیں دی؟ نوریز نے خود کو حد درجے نارمل رکھتے رحیان کو دیکھا تھا۔۔

کم بھی نہیں دی۔۔ رحیان نے نوریز کے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا۔۔

ایک آنسو نوریز کی آنکھ سے گرا تھا۔۔ جو بھی تھا نواز اس کا بھائی تھا۔۔ بہن بھائی جیسے بھی ہوں ان کو کھو دینے کا دکھ ان کے بچھڑ جانے کا دکھ ضرور ہوتا ہے ۔ اور اس دکھ کو ہم چھپا بھی نہیں سکتے کیونکہ ان کے ساتھ رشتہ ایسا ہوتا ہے جو کیسی اور کے ساتھ نہیں ہو سکتا ۔۔

مجھے معاف کر دو نوریز ۔۔ رحیان نے نوریز کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لیا تھا۔۔

اس نے اپنا کیا کاٹا ہے رحیان ۔۔ اس کو مرنا تھا۔۔ نوریز بولتے ہوئے روکا تھا۔۔

تم جاؤ رحیان بہت رات ہو گئی ہے۔ یہ رات تمہارے لیے بہت مشکل ہے میں جانتا ہوں۔۔ نوریز نے سر اٹھا کر رحیان کو دیکھا تھا۔۔

تمہارا کیا؟ رحیان نے نوریز کی آنکھوں کی طرف دیکھا تھا جو اس وقت نم تھی ۔۔

میں جانتا ہو وہ کیا تھا۔ ہماری بنائی ڈیتھ لیسٹ میں اس کا نام بھی تھا۔ اس کو تم نہ مارتے تو جزا، زوریز میں سے کوئی مار دیتا۔۔ اس کے ساتھ وہ ہی ہوا جس کا اس نے انتخاب کیا تھا۔۔  نوریز مضبوط لہجے میں بولا تھا۔۔

مگر اس کی موت میرے ہاتھوں تھی۔۔ رحیان یہ کہہ کر روکا نہیں تھا ادھر سے چلا گیا تھا۔۔

•••••••••••••••

رحیان کو ادھر سے گئے کافی وقت ہو چکا تھا۔۔ نوریز گھر کی دہلیز کے پاس کھڑا تھا۔۔ اس کی آنکھوں سے آنسوں نکل رہے تھے۔۔ اس نے سختی سے اپنی آنکھوں کو صاف کیا تھا اور اندر کی طرف قدم بڑھایا تھا۔۔

وہ ٹی وی لاؤنج میں داخل ہو چکا تھا وہ چلتا ہوا سڑھیاں کی طرف بڑھ رہا تھا اس کا روخ نواز کے کمرے کی طرف تھا۔۔ اس سے آج اپنے قدم اٹھانا مشکل ہو گئے تھے۔۔ وہ جیسے جیسے سڑھیوں کے زینوں کو پار کر رہا تھا ویسے ویسے دل ڈوب رہا تھا۔۔

آخر کار وہ نواز کے کمرے کے دروازے کے سامنے کھڑا تھا۔۔ سامنے ہی نواز کا بےجان وجود زمین پر پڑا تھا۔۔ خون زمین پر پھیل چکا تھا۔۔ نوریز نے خود میں لاکھ ہمت جمع کر کے کمرے کے اندر قدم رکھا تھا۔ آنسوں کی رفتار تیز ہوئی تھی ۔۔وہ ایک ایک قدم اُٹھاتا نواز کے بےجان وجود کے پاس گیا تھا۔۔

نواز۔۔۔۔ نوریز نے اس کا سر اٹھا کر اپنی گود میں رکھا تھا۔۔ اس کے دونوں کندھوں ، پیٹ ایک ٹانگ اور پیٹ کے نیچھے گولیاں لگی تھی۔۔

کیوں چلے تھے تم راستے پر۔۔ نوریز کی آواز بھاری ہوئی تھی ایک آنسو اس کی آنکھوں سے نکل کر نواز کے زخمی گال پر گرا تھا۔

کاش تم روک جاتے نواز ۔۔کاش۔۔۔۔ نوریز روتے ہوئے بولا تھا اس نے نواز کے بےجان وجود کو گلے سے لگایا تھا۔۔

وہ جیسا بھی تھا اچھا تھا برا تھا جیسا بھی تھا اس کا بھائی تھا ۔۔ اور اس کی موت نے اس کو تکلیف دی تھی۔۔ نوریز سلطان پر بھی وقت کتنا ظالم تھا بہن کا پتا چلا تو اس سے اس کا بھائی چھین لیا۔۔ 

وہ کافی دیر تک نواز کے بےجان وجود کو گلے لگانے روتا رہا تھا۔۔ اب اس نے نواز کا سر زمین پر رکھ دیا تھا۔۔اور خاموش آنسو بہاتا اس کو دیکھ رہا تھا۔۔   جب نواز کا فون بجنے کی آواز آئی تھی۔۔ اس نے بیڈ پر نواز کا فون ہاتھ بڑھا کر پکڑا تھا۔۔ سکرین پر جگمگاتا نمبر دیکھ کر نوریز کے پورے وجود کو آگ لگی تھی۔۔ جبکہ فون بج بج کر بند ہو گیا تھا۔۔

اب ایک بار پھر سے فون بجنے لگا تھا۔۔ نوریز نے فون اٹھا لیا تھا۔۔۔

کدھر ہو تم نواز ۔۔ گھر آنے کا ارادہ ہے بھی کہ نہیں ۔۔عثمان صاحب کی سخت آواز گونجی تھی۔۔

وہ اب کبھی بھی گھر نہیں آئے گا۔۔ نوریز کی بھیگی آواز کمرے کے سناٹے میں گونجی تھی۔۔

نوریز تم۔ نواز کے ساتھ ہو۔ میری بات کرواو اس سے۔۔ عثمان صاحب فوراً بولے تھے۔۔

وہ بات نہیں کر سکتا آپ سے۔۔  نوریز اپنی آواز نارمل کرتا بولا تھا۔۔

کیوں ؟؟ ایسا کیا ہو گیا ہے کہ وہ مجھ سے بات نہیں کر سکتا ؟ عثمان صاحب کا لہجہ سخت تھا ۔

آپ کے بتائے راستے پر چلتے وہ موت کے منہ میں نکل گیا ہے ۔ وہ مکمل خاموش ہو گیا ہے اب کبھی نہیں بولے گا وہ ۔۔ وہ اپنی آنکھیں موند گیا ہے۔۔ نوریز غم وغصہ میں بولتا چلا گیا۔۔

مبارک ہو عثمان صاحب آپ جس راستے کے مسافر ہیں وہ راستہ آپ کی جوان اولاد نگل چکی ہے۔۔ یہ کہہ کر نوریز نے فون رکھا تھا۔ یہ جانے بغیر کے اس کی اس بات نے مقابل کو کتنے حصوں میں تقسیم کیا تھا۔

اہہہہہہہہہ ۔۔۔ اہہہہہہہہہ۔۔۔۔ وہ اب چیخ رہا تھا خود میں اٹھاتا غم وغصہ دبانا چاہتا تھا مگر نہیں دبا پہ رہا تھا۔۔  اور اب وہ ڈھارے مار کر رو رہا تھا۔۔

میں تمہیں نہیں روک سکا نواز اس راہ سے۔۔ میں ہار گیا نواز ۔۔ میں نہ روک سکا تمہیں ۔۔ نوریز روتے ہوئے بولا تھا۔۔

کیوں بن گئے تم ظالم نواز ۔۔ موم نے کبھی نہ چاہا تھا کہ ہم میں سے کوئی بھی ڈیڈ کے راستے پر چلے۔۔ تم کیوں چلے گئے اس راستے پر۔۔ وہ دلدل تھی نواز ۔۔ نوریز کے آنسوں تھم نہ رہے تھے ۔۔

وہ خاموش بس نواز کا سر اپنی گود میں رکھ کر بیٹھا تھا۔۔ آنکھیں تھی کہ بار بار نم ہو رہی تھی۔۔۔ اور اس کے آنسوں صاف کرنے والا ادھر کوئی نہ تھا۔۔ وہ خالی نظروں سے اس کمرے کو دیکھ رہا تھا۔۔ اس کمرے کا مالک اپنے ساتھ جیسے اس کمرے کے بھی رنگ لے گیا تھا۔۔

••••••••••••••••••••••

وہ بد حواسی میں ڈرائیو کر رہا تھا۔۔ اس کے ہاتھوں پر خون لگا تھا۔۔ اس کی قمیض کے دامنِ پر خون لگا تھا۔ بال بکھرے ہوئے تھے ۔ چہرے پر خون لگا ہوا تھا۔۔ آنکھوں کے کونوں کے قریب کچھ خون جم گیا تھا۔۔  اس کو نہیں پتا تھا وہ کدھر جا رہا ہے۔۔

وہ بار بار پیچھے موڑ کر دیکھ رہا تھا۔۔ سڑک اس وقت کچھ سنسان تھی کوئی ایک آدھ گاڑی ہی گزر رہی تھی اس وقت۔۔ وہ کانپتے ہاتھوں سے ڈرائیو کر رہا تھا۔۔ مکمل حواس باختہ وہ نہیں جانتا تھا وہ کدھر جا رہا ہے۔۔ نہ وہ جاننا چاہتا تھا کہ یہ سڑک اس کو کس منزل پر روکی گئی۔۔

اچانک اس کی کار روکی تھی۔۔ وہ تیز تیز سانس لے رہا تھا کانپتے ہاتھوں سے پاس پڑی پانی کی بوتل کو لبوں سے لگایا تھا۔۔ اب اس نے سٹیرنگ پر سر ٹیکا دیا تھا۔۔۔

یہ میں نے کیا کر دیا۔۔۔۔ شہزاد اکرم کی کانپتی آواز گونجی تھی ۔۔

وہ اپنے ہاتھوں کو دیکھ رہا تھا جو خون سے داغدار تھے۔۔ اس کو بند کار میں گھوٹن ہونے لگی تھی ۔۔ فوراً کار کا دروازہ کھول کر وہ باہر نکلا تھا ۔ اور کھولی فضا میں تیز تیز سانس لے رہا تھا۔۔ جب نظر اٹھا کر اس نے سامنے موجود گھر کو دیکھا تھا۔۔ اس کا اگلا سانس وہیں اٹک گیا تھا۔۔۔

پھر سے وہ ہی رات تھی وہ ہہ وقت تھا ۔۔ وہی گاڑی تھی ۔۔ گاڑی سے نکلنے والا شخص بھی وہ ہی تھا ۔۔ سڑک بھی وہ ہی تھی اور گھر بھی وہی تھا۔۔ تو الگ کیا تھا آج ؟ جو اس رات ظالم تھا آج وہ اپنے کیے کی زد میں آیا ہوا تھا ۔ جس نے اس رات ایک خاندان تباہ کیا تھا اج وہ خود کو تباہ کر چکا تھا۔۔ جس سے اس رات سب رحم مانگ رہے تھے آج وہ رحم کا طلب گار لگ رہا تھا ۔۔

شہزاد اکرم ساکت نظروں سے سامنے موجود گھر کو دیکھ رہا تھا۔۔ وہ کیسے بھول سکتا تھا اس گھر کو ۔۔ یہ وہ ہی گھر تھا جہاں وہ ظالم بن کر ایا تھا۔۔ کیسی کو تباہ و برباد کرنے آیا تھا۔۔ مگر بدلے میں اپنی تباہی اور بربادی لکھ کر گیا تھا۔۔

اس نے بے اختیار قدم آگے بڑھائے تھے۔۔ اس نے مین ڈور پر ہاتھ رکھا تھا تو وہ کھولتا چلا گیا ۔۔ اس کو حیرت ہوئی تھی کہ گھر کا دروازہ کھولا ہوا کیوں تھا؟ وہ ایسے ہی حیرت سے اندر داخل ہوا اور چلتے ہوئے گیراج کو پار کر کے اب گھر کے انٹریس گیٹ کے سامنے کھڑا تھا ۔۔ انٹریس گیٹ تھوڑا کھولا ہوا تھا۔۔ شہزاد پہلے سے زیادہ حیران ہوا تھا ۔۔ اس نے اس دروازے پر ہاتھ رکھا تھا دروازہ کھولتا چلا گیا ۔۔

اندر کوئی لائٹ نہیں چل رہی تھی مگر ٹی وی لاؤنج کے ایک طرف بنے لاؤن کے کانچ کے دروازے سے چاند کی روشنی ٹی وی لاؤنج میں آ رہی تھی۔۔ ٹی وی لاؤنج میں سب کچھ  ویسے کا ویسے تھا جیسے اس رات تھا۔۔ زمین پر موجود خون اب جم چکا تھا۔۔

شہزاد نے اندر قدم رکھا تھا۔۔ وہ بس ساکت نظروں سے آس پاس کی چیزوں کو دیکھ رہا تھا۔۔ اس کا دل گھبرانے لگا تھا۔۔ سانس مدہم ہو رہی تھی۔۔ روح بےچین ہو رہی تھی۔۔ وہ ابھی ٹی وی لاؤنج کے درمیان میں بھی نہ پہنچا تھا کہ اس نے فوراً پیچھے کی طرف قدم اٹھائے تھے۔۔ اور باہر کی طرف بڑھنے لگا تھا جب اچانک ہیلز کی آواز پر اس کے قدم روکے تھے۔۔۔

بہت وقت لگا ہو گا تمہیں دوبارہ اس دہلیز پر آنے میں ۔ ایک آواز اس کی سماعت سے ٹکرائی تھی۔۔

اور یہ آواز شہزاد کبھی بھی نہیں بھول سکتا تھا۔۔ وہ ایڑیوں پر موڑا تھا اور اب آنکھیں پھاڑے سامنے کا منظر دیکھ رہا تھا۔۔ وہ بلیک کلر کی شرٹ کے ساتھ بلیک پنٹ اور اس پر بلیک لونگ کوٹ کے ساتھ نیچھے بلیک ہیلز پہنے اپنے شہد رنگ بالوں کی اونچی پونی ٹیل بنائے قہر برساتی نظروں سے اس کو دیکھ رہی تھی اور اب  ایک ایک زینا اتر رہی تھی۔۔

تم واقع ہی۔۔۔ شہزاد نے الفاظ منہ میں ہی دم توڑ گئے تھے۔۔

تم واقع ہی زندہ ہو؟ شہزاد کو اپنی آواز کھائی سے آتی سنائی دی تھی ۔۔

کیوں تمہیں یقین نہیں آ رہا ؟؟ اس کی شہد رنگ آنکھیں کیسی شکاری کی طرح شہزاد کو دیکھ رہی تھی ۔

تم تو۔۔۔ مر گئی۔۔۔ شہزاد نے اس کو دیکھا تھا جو آج ایک خوفناک حقیقت بن کر اس کے سامنے کھڑی تھی۔۔

مر گئی ہوتی تو آج اُدھر کیسے ہوتی؟ وہ ایک ایک قدم چلتی اس کے پاس آ رہی تھی ۔۔

تم اتنے وقت سے ۔۔۔ شہزاد کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کیا بولے ؟؟

میں اتنے وقت سے تمہارے ساتھ کھیل رہی تھی ٹھیک ویسے ہی جیسے تم نے میری معصوم بہن کے ساتھ کھیلا ۔۔ وہ بلکل اس کے سامنے آ کر کھڑی ہوئی تھی۔۔

ویسے کتنے بدنصیب ہو تم ۔۔ تمہارے ہاتھ تو تمہارے ہی ماں باپ کے خون سے رنگے ہوئے ہیں ۔۔ جزا نے طنزیہ نظروں سے اس کو دیکھا تھا ۔۔

بکواس بند کرو ۔۔اور بتاؤ تم زندہ کیسے ہو۔۔ شہزاد نے ایک قدم پیچھے لیا تھا ۔۔

سچ بکواس ہی لگتا ہے سب کو شہزاد اکرم ۔۔ اور میں زندہ اس لیے ہوں کیونکہ تمہاری موت میرے ہاتھوں لکھی ہے۔۔ جزا نے ایک قدم اور آگے لیا تھا۔۔

جبکہ شہزاد کا اگلا سانس اس کی حلق میں پھیس گیا تھا۔۔ وہ خوف سے جزا کو دیکھ رہا تھا جو اس وقت قہر برساتی نظروں سے اس کو دیکھ رہی تھی۔۔

ویسے خون کے آنسو رو کر کیسا لگا شہزاد ۔۔ جزا نے ہاتھ بڑھا کر شہادت کی انگلی سے شہزاد کی آنکھ کے کونے کو چھوا تھا اور اپنا تیز ناخن مرا تھا۔۔۔

اہہہہہہہہہ ۔۔۔ شہزاد درد اور جلن کی  شدت سے بلبلا اٹھا تھا۔۔۔ جبکہ اس کی تکلیف جزا کو سکون دے رہی تھی ۔

تمہیں پتا ہے تمہاری موت کی کہانی میں نے کتنی فرست سے لکھی ہے؟ جزا پراسرار لہجے میں بولی تھی ۔۔

تم چاہتی کیا ہو مجھے سے۔۔۔ شہزاد چیخ اٹھا تھا۔۔۔

تمہاری بربادی اور درد ناک موت۔۔۔ جزا ایک ایک لفظ چبا چبا کر بولی تھی۔۔۔

تمہاری وجہ سے میں نے ۔۔۔۔ میں نے اپنے باپ کو مار دیا۔۔ شہزاد نے غم وغصہ سے اس کو دیکھا تھا۔۔

تم نے اپنی وجہ سے مارا ۔۔ اور ویسے بھی تمہارا باپ ڈیزرو کرتا تھا۔۔ جزا نے کندھے اوچکے تھے ۔۔۔

جبکہ شہزاد بس منہ کھولے اس کو دیکھ رہا تھا یہ وہ جزا نہیں تھی جس کو وہ کبھی جانتا تھا یہ تو کوئی اور تھی۔۔۔

تمہیں اج کی رات یاد ہے شہزاد ۔۔ جزا نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا تھا۔۔

نہیں ۔۔۔ وہ بس اس کی خون کھولتی آنکھوں کو دیکھتے بولا تھا۔۔

یہ وہ ہی رات ہے جس رات تم نے میرا خاندان تباہ کہا مجھے برباد کیا۔۔ اور دیکھو آج تم خود کو بھی اپنے ہاتھوں سے برباد کر آئے ہو اپنا آخری خون کا رشتہ اپنے ہاتھوں مار آئے ۔۔ جزا ہنستے ہوئے بولی تھی۔۔

اس کی اواز اس کی نظروں اس کے انداز میں طنز تھا۔۔ شہزاد کو اس کی ہنسی چب رہی تھی ۔ سر میں ایک بار پھر سے درد کی لہر اٹھنے لگی تھی۔۔۔ اس نے اپنے سر پر ہاتھ رکھا تھا ۔

تم نے ایک رات میں میری بربادی لکھی تھی شہزاد اکرم ۔۔ میں نے ہر رات تمہاری بربادی لکھی تھی۔۔۔  جزا نے ایک زور دار مکا شہزاد کے مںہ پرمارا تھا ۔۔

اس کی انگلیوں میں موجود باریک نوک والی انگوٹھیاں شہزاد کا رخسار زخمی کر گئی تھی۔۔ وہ چند قدم پیچھے ہٹا تھا۔۔

اہہہہہہہہہ ۔۔۔۔ سر درد کے ساتھ اب رخسار سے نکلتے خون اور اس جگہ کے زخم کی تکلیف بھی موجود تھی۔۔

میرا سر۔۔۔ شہزاد اپنا سر پکڑ کر بولا تھا درد جیسے برداشت سے باہر ہو۔۔

زیادہ درد ہو رہا ہے؟ جزا اس کو غور سے دیکھتے بولی تھی چہرے پر ایک شاطر مسکراہٹ تھی۔۔

یہ درد ۔۔ شہزاد سے بولا نہ گیا۔۔

یہ درد تمہاری دماغ کی نسیں پھاڑنے کے لیے بہت ہے ۔ جزا چلتے ہوئے لاؤنج  میں موجود صوفے پر بیٹھی تھی۔۔ جبکہ شہزاد زمین پر بیٹھا درد سے بلک رہا تھا۔۔

تم کیسے ۔۔ شہزاد نے سرخ ہوتی آنکھوں سے جزا کو دیکھا تھا۔ الفاظ مکمل ادا بھی نہ کر سکا تھا سر میں اٹھتی تکلیف تھی ہی اتنی شدید ۔۔ اس کی تکلیف اس کے چہرے سے چھلک رہی تھی وہ اپنی تکلیف چاہا کر بھی نہیں چھپا پا رہا تھا۔۔

تم جو میڈیسن استعمال کر رہے تھے وہ میرا ڈاکٹر تمہیں دے رہا تھا۔ وہ تمہارا علاج نہیں کر رہا تھا ۔ یا یہ کہوں کہ میں نے تمہارا علاج ںہ ہونے دیا تو بہتر ہو گا ۔  جزا لا پرواہی سے بولی تھی ۔۔ شہزاد کی تکلیف اس کو سکون دے رہی تھی۔۔

تم میر۔۔۔ میرے ساتھ ایسا۔۔۔ کیسے کر سکتی ہو۔۔ شہزاد درد برداشت کرتا غصے سے بولا تھا۔۔۔

جب اس کی بات پر جزا نے غصے سے اس کو دیکھا تھا ۔۔ اور صوفے سے اٹھی تھی اور چلتے ہوئے شہزاد کے پاس آئی تھی۔۔ اپنی لوبنٹن کی پنسل ہیل اس کے ہاتھ کی پر رکھی تھی جو کہ زمین پر تھا ۔۔ اور اس کے بالوں کو دبوچ کر اس کا سر پیچھے کی طرف جھکایا تھا ۔ جبکہ شہزاد نے درد سے آنکھیں بند کر لی تھی۔۔

ابھی تو تمہارے ساتھ میں نے کچھ بھی نہیں کیا شہزاد ۔۔ جزا نے اس کے سر کو بہت بری طرح سے جھنجوڑا تھا۔۔۔ ساتھ ہی اپنے پاؤں پر دباؤ ڈال کر ہیل اس کے ہاتھ میں پیوست کی تھی ۔

اہہہہہہہہہ ۔۔ لاؤنج شہزاد کی چیخوں سے گونج اٹھا تھا ۔۔

چیخوں شہزاد جتنا چیخ سکتے ہو چیخوں ۔۔۔ جزا نے اب کی بار اپنے لمبے ناخنوں والے ہاتھ سے اس کا چہرہ دبوچا تھا ۔  اور اتنی شدت سے دبوچا تھا کہ اس کے ناخنوں کی نوک اس کے چہرے میں دھنس رہی تھی۔۔

اس رات یہ گھر میری ماں، میری بہن ، میری پھوپھو کی چیخوں سے میری فریادوں سے گونجا تھا۔۔۔۔ جزا کی نظروں میں غم وغصہ تھا۔۔

اس گولی کی آواز سے گونجا تھا جو میرے باپ کے سینے پر لگی ۔۔ جزا نے شہزاد کا مںہ اور زور سے دبوچا تھا۔ جبکہ شہزاد کے منہ سے آہ نکلی تھی۔۔۔

آج یہ گھر تمہاری چیخوں سے گونجے گا شہزاد ۔۔ اس گھر کو ویران تم نے کیا تھا ۔۔ آج اس گھر کی زینت تمہاری چیخیں بنے گئی ۔۔  جزا نے ایک جھٹکے سے اس کا منہ چھوڑا تھا۔۔

شہزاد اوندھے منہ زمین پر گرا تھا۔۔ وہ رحم طلب نظروں سے جزا کو دیکھ رہا تھا۔۔ اس کے ہاتھ سے خون نکل رہا تھا رخسار سے خون نکل رہا تھا ۔۔

مجھ سے غلطی ہو گئی ۔ میں اس کی ایک لمبی سزا کاٹ چکا ہوں۔۔ شہزاد نم آنکھوں سے بولا تھا۔۔

تم نے ابھی سزا نہیں کاٹی شہزاد ۔۔ وہ تو تمہاری سزا کا آغاز تھا۔۔۔۔ جزا بولتے ہوئے روکی تھی۔۔۔

سزا تم آج رات کاٹو گے ۔۔۔ جزا نے اس کے سینے پر ٹھوکر ماری تھی۔۔۔

میری ماں کو تم نے مارا تھا ۔۔ جزا نے ایک زور دار ٹھوکر اس کے سینے میں پھر سے ماری تھی۔۔۔

میری ماں نے کیا بگاڑا تھا تمہارا ۔۔ بیٹا سمجھا تھا انہوں نے تمہیں ۔۔ جزا نے اپنی ہیل اس کے سینے پر زور سے ماری تھی ۔ 

ایک ٹھیس اس کے سینے میں اٹھی تھی شہزاد کی آنکھیں نم ہوئی تھی۔۔ وہ درد اس کی برداشت سے باہر تھا۔۔ وہ آج بالکل بےبس تھا۔۔ وہ  اپنا دفاع بھی نہیں کر پا رہا تھا۔۔

تم نے میرے باپ کے سینے پر گولی ماری تھی ۔۔ میرا سب سے مضبوط سہارا ایک لمحے میں مجھے سے لے لیا تھا ۔ جزا نے اب کی بار جھک کر اس کے بالوں کو دبوچا تھا۔۔۔

تم نے ایک لمحے میں مجھے یتیم کر دیا تھا۔۔۔ مجھے بے سہارا کر دیا تھا۔۔۔ جزا بولتے ہوئے روکی تھی اس کی آنکھیں نم ہوئی تھی۔۔

تم نے میرے سر سے میرے ماں باپ کا سایہ شفقت چھینا تھا۔۔۔ جزا نے زور سے اس کا سر زمین پر مارا تھا۔۔۔

اہہہہہہہہہ۔۔۔۔۔اہہہہہہہہ۔۔۔۔ شہزاد کے سر میں بہت بری طرح درد اٹھی تھی ایک لمحے کو اس کو لگا اس کا سر ہل گیا ہے۔۔

مجھ سے غلطی ہ۔۔ ہو۔۔۔ گئی۔۔۔۔ شہزاد کی آنکھ سے سرخ آنسوں نکلے تھے۔۔۔

جوان لڑکیوں کو یتیم کر دینا غلطی نہیں ہوتی شہزاد ۔۔۔ جزا نے اس کا گریبان پکڑ کر اس کو کچھ اوپر اُٹھایا تھا ۔۔ اور اولٹے ہاتھ کا زناٹے دار تھپڑ اس کے منہ پر مارا تھا۔۔۔۔

اپنی ماں کو قتل کرنا غلطی نہیں ہوتی شہزاد ۔۔۔۔ جزا زخمی شیرنی کی طرح ڈھاری تھی۔۔۔۔

محبت کے جال میں پھنسا کر بے آبرو کروانا غلطی نہیں ہوتی شہزاد ۔۔۔  جزا نے ایک اور تھپڑ اس کے منہ پر مارا تھا۔۔۔  جزا کے ہاتھ میں موجود نوک دار انگوٹھیاں اس کا دوسرا رخسار بھی زخمی کر گئی تھی۔۔۔

ایک بہن کے سامنے اس  کی بہن کو بے ابرو کروانا غلطی نہیں ہے شہزاد ۔۔ جزا نے اب ایک چھوٹا سا چاقو اپنی جیب سے نکالا تھا ۔۔ اور اس کا وار شہزاد کے چہرے پر کیا تھا ۔۔ 

اہہہ ۔۔ شہزاد نے ایک ہاتھ  اپنے چہرے پر رکھا تھا۔۔ چاقو اس کے رخسار کو کاٹ گیا تھا۔۔۔

ایک بہن کے سامنے اس کی بہن کو مارنا غلطی نہیں ہوتی۔۔۔ جزا کے کی شہد رنگ آنکھیں سرخ ہو گئی تھی ان میں نمی دور آئی تھی۔۔ اس نے ہاتھ میں موجود اس چھوٹے سے چاقو سے شہزاد کے دوسرے رخسار پر کٹ مارا تھا۔۔۔

وہ درد اور جلن سے بلبلا رہا تھا۔۔ اس کو اندازہ بھی نہ تھا اس کو اپنے کیے ہوئے ظلم کا اتنا سخت حساب دینا پڑے گا۔۔ اور وہ حساب بھی اس سے وہ لڑکی لے گئی جس کی کل کائنات وہ ایک رات میں پلٹ چکا تھا۔۔

ایک لڑکی کے سامنے اس کا سارا خاندان مار دینا غلطی نہیں ہے شہزاد اکرم ۔۔ جزا غصے سے ڈھاری تھی ۔۔  اس نے اب کی بار چاقو کا وار اس کے ہونٹوں پر کیا تھا جو کہ اس کے ہونٹوں کے درمیان ایک باریک لائن بنا گیا تھا جہاں سے خون رس رہا تھا۔۔

 شہزاد کا وجود ایک لمحے کے لیے درد کی شدّت سے لرز گیا تھا ۔۔۔

میں نے تم سے محبت کی تھی۔۔۔۔ مجھے مار دو شہزاد ۔۔۔ میری بہن کو چھوڑ دو۔۔۔۔  شہزاد میری بہن کو کچھ مت کرنا ۔۔۔ نہ جانے کتنی آوازیں تھی کتنی سدائیں تھی جو اس کے کانوں میں گونج رہی تھی۔۔۔  شہزاد نے اپنا کانپتا ہاتھ اپنے کان کی طرف بڑھایا تھا۔۔۔

تم نے صرف ایک خاندان تباہ نہیں کیا شہزاد ۔۔ جزا نے اس کے ہاتھ کو پکڑا تھا جو وہ اپنے کان کی طرف بڑھا رہا تھا۔۔۔

روزینہ اور للی کے بارے میں کیا کہو گے ؟؟ اور اس معصوم بچے کا کیا جس کو تم نے قتل کیا۔۔۔ جزا نے دانت پیس کر اس کو دیکھا تھا۔۔۔

شہزاد ایک لمحے کے لیے سن ہو گیا تھا۔۔ اس نے حیرت سے جزا کو دیکھا تھا ۔ آج شہزاد کو اندازہ ہوا تھا گناہ چھپائے نہیں چھپ سکتا۔۔ جب انصاف کا وقت آتا ہے تو ہر گناہ کا کفّارہ آدا کرنا پڑتا ہے۔۔ ہر جرم منظر پر آئے گا۔۔ ہر جرم کا اطراف کرنا ہو گا۔۔ تب مکرنے کا بھی کوئی راستہ نہیں ۔۔۔

شہزاد کی آنکھوں سے آنسوں نکلنے لگے تھے۔۔ ایک لمحے میں اس کی ساری زندگی اس کے سامنے کیسی فلم کی طرح چل پڑی تھی۔۔۔ خلاصہ یہ نکلا تھا اس کے ہاتھ میں سوائے جرم و گناہ کے کچھ نہ تھا۔۔ وہ قاتل تھا، وہ زانی تھا ، وہ شرابی تھا، وہ آوارہ تھا، وہ عزتوں کا سوداگر تھا، وہ جواری تھا۔۔۔

ایک عرصہ پہلے کیے جانے والے اس کے خود کی ذات سے سوال کا جواب آج یہ رات تھی۔۔ اس کی آنکھوں کے ساتھ ساتھ اس میں جو سیاہ تھا وہ سیاہ کچھ اور نہیں بلکہ اس کے دل تھا، اس کا عمل تھا ، اس کی زندگی تھی ۔۔ وہ سیاہی کا مسافر تھا وہ روشنی سے بے خبر تھا ۔۔ وہ گناہوں کی دنیا کا باسی تھا اس کو اچھی سے کوئی سروکار ںہ تھا۔۔ آج وہ سر تا پیر گناہوں میں ڈوبہ تھا۔۔ اپنے ماں باپ کا قاتل وہ تھا، اپنی اولاد کا قاتل وہ تھا۔۔ ایسا کیا نہ تھا جو اس شخص نے نہ کیا تھا۔۔

مبارک ہو شہزاد  اکرم تم نے اپنی جنت اپنے ہاتھوں سے جلائی ہے دنیا میں  اور انصاف کے دن جنت کی بھیک نہ مانگنا اچھے نہیں لگو گے۔۔ عرصے پہلے سنے الفاظ آج اس کے منہ پر صحیح معنوں میں تھپڑ کی صورت میں لگے تھے آج وہ ان الفاظ کو سمجھ پایا تھا ۔

اس نے اپنے ہاتھوں کو جوڑنا چاہا تھا۔۔۔ جب جزا نے اس کو ٹھوکر ماری تھی ۔۔

کتنے کمبخت ہو تم شہزاد۔۔۔ تم سے بڑا کم ظرف انسان نہ دیکھا میں نے کبھی ۔۔۔ جزا نے ہاتھ میں موجود چاقو اس کی طرف پھینکا تھا جو اس کے کندھے پر لگا تھا۔۔۔

مع۔۔ معاف۔۔۔۔کر۔دو۔۔۔۔ شہزاد نے رحم طلب نظروں سے دیکھا تھا ۔۔

کبھی نہیں ۔۔۔ جزا نے جھک کر وہ چاقو اس چاقو کو اپنی سخت گرفت میں لیا اور نیچھے کی طرف ہاتھ بڑھا کر ایک جھٹکے سے چاقو نکالا تھا۔۔۔۔

اہہہہہہہ۔۔ شہزاد رو پڑا تھا اب ۔۔ اس کو سمجھ نہیں آ رہا تھا وہ اپنے انجام پر رو رہا تھا یا درد سے۔۔۔

مجھے ۔۔۔ ایک ۔۔۔ بار۔۔۔ شہزاد بھیگے لہجے میں بولتے روکا تھا۔۔

ایک بار۔۔ ہی مار دو۔۔ شہزاد نے اپنے الفاظ کو مکمل کیا تھا۔۔۔

ابھی تو تمہاری موت کا کھیل شروع کیا ہے۔۔۔ جزا نے وہ چاقو اس کے چہرے پر پھیرنا شروع کیا تھا ۔ جہاں جہاں سے وہ چاقو گزر رہا تھا وہاں وہاں سے ماس جدا ہو کر خون نکل رہا تھا۔

شہزاد نے کچھ بولنا چاہا تھا مگر ہونٹوں پر کٹ لگنے کی وجہ سے وہ بول نہ پایا تھا۔۔ اس کو تکلیف ہو رہی تھی ۔۔ اس کا چہرہ درد کی شدّت سے سرخ ہو رہا تھا۔

اس ہاتھ سے تم نے میری ماں کے بال دبوچے تھے نہ ۔۔ جزا نے اس کا سیدھا ہاتھ اپنے ہاتھ میں پکڑا تھا اور زور زور سے موڑ دیا تھا۔۔ ہڈی کے ٹوٹنے کے ساتھ ہی شہزاد کی چیخوں کی آواز لاؤنج میں گونجی تھی۔۔۔

اس ہاتھ میں موجود گن سے تم  نے میری ماں ، پھوپھو اور باپ کو گولی ماری تھی نہ۔۔۔۔ اور ساتھ ہی میری بہن کو مارا تھا۔۔ جزا نے اس کا دوسرا ہاتھ بھی بہت بے رحمی سے توڑا تھا۔۔

شہزاد کی خوفناک چیخیں اس وقت لاؤنج میں گونجی رہی تھی۔۔  چیخنے سے سر کی درد اور زیادہ بڑھ جاتی ۔۔ اس کا مکمل وجود اس وقت تکلیف میں تھا۔۔ اج اس کو اندازہ ہو رہا تھا دوسروں کو تکلیف دینے کا انجام کتنا برا ہوتا ہے۔۔

چیخوں اور زور سے چیخوں شہزاد ۔۔ یہ گھر تمہاری چیخوں کو سنے کے لیے ترستا رہا ہے۔۔ جزا نے اس کے بالوں کو موٹھی میں دبوچ لیا تھا۔۔۔

اب وہ اس کو گھسیٹتے ہوئے ایک جگہ لے کر جا رہی تھی جہاں خون کے دھبے تھے۔۔ لاؤنج میں موجود ایک چھوٹی سی میز کے پاس بہت زیادہ خون  کے نشان موجود تھے۔۔۔

دیکھو یہ جگہ۔۔۔ یاد ہے نہ تمہیں یہاں کس کو مارا تھا تم نے؟؟؟ جزا نے اس کا سر بالوں سے پکڑ کر کچھ اوپر کیا تھا اور سوالیہ نظروں سے غصے سے اس کو دیکھا تھا ۔۔

ن۔۔ نہی ۔۔۔۔ نہیں ۔۔۔ شہزاد نے روتے ہوئے بامشکل یہ بولا تھا ساتھ نفی میں سر ہلایا تھا۔۔۔

یہاں تم نے میری معصوم ماں کو مارا تھا۔۔۔۔ جزا نے اس کا سر پوری قوت سے زمین پر مارا تھا۔۔ شہزاد کو تو جیسے تارے نظر آ گئے ہوں۔۔ اس کا سر درد سے پھٹنے والا ہو گیا تھا۔۔ ایک طرف سے اب خون نکلنے لگا تھا۔۔۔

جزا نے اس کے بالوں پر پکڑ اور مضبوط کی تھی اور ایسے ہی گھسیٹتے ہوئے دروازے کے کچھ قریب کے گئی تھی۔۔ جہاں کچھ کچھ فاصلے پر خون کے نشان تھے۔۔۔

یہ خون پتا ہے کس کا ہے؟؟؟۔ جزا نے شہزاد کے سر کو زور سے جھنجھوڑا تھا۔۔

شہزاد کو اس وقت کچھ سمجھ نہ آ رہی تھی ۔۔ اس نے سر بس نفی میں ہلا دیا تھا ۔ اس کے سر کی درد بہت بری طرح بڑھ گئی تھی۔۔ اوپر سے چہرے س نکلتا خون دونوں ٹوٹے ہاتھوں کی تکلیف ۔۔۔

یہ اس عورت کا خون ہے جس نے تمہیں پیدا کیا۔۔ کیا نہ کیا میری پھوپھو نے تمہارے لیے اور۔۔۔۔ اور بدلے میں تم نے کیا کیا ۔۔ جزا نے ایک بار پھر اس کا سر زمین پر مارا تھا۔۔ اور دوبارہ اس کو بالوں سے پکڑ کر پھر سے گھسیٹتے اگے لے گئی تھی۔۔۔

یہ جگہ دروازے سے بس کچھ ہی دور تھی۔۔ جزا کا زبت اب ٹوٹنے لگا تھا۔۔۔

یہ جگہ یاد ہے؟ یہ خون یاد ہے؟؟ جزا اونچی اور سخت آواز میں بولی تھی ۔۔

شہزاد نے نفی میں سر ہلایا تھا۔۔ اس کے چہرے سے نکلتا خون پسینے سے مل کر زمین پر گر رہا تھا۔۔ اس کو اپنے اعصاب شل ہوتے محسوس ہو رہے تھے۔۔۔

یہ میرے باپ کا خون ہے۔۔۔ یہاں تم نے میرا سب سے مضبوط سہارا مار دیا تھا۔۔ تم نے مجھے مکمل برباد کر دیا تھا۔۔۔  جزا نے اس کا سر پھر سے زمین پر پوری قوت سے مار تھا ۔۔

اور دوبارہ اس کے بالوں کو پکڑ کر اس کا سر پھر سے زمین پر مارا تھا۔۔ اس کے سر سے نکلتا خون زمین پر اپنا نشان چھوڑ گیا تھا۔ شہزاد کو لگ رہا تھا وہ اب بس مر جائے گا۔۔ کیونکہ سر میں موجود درد اب سر کا زمین سے بار بار لگنے کی وجہ سے اور بڑھ گئی تھی۔۔

وہ بے ہوش ہونے لگا تھا جب جزا نے ایک تیز ڈھار چاقو نکال کر اس کی کمر میں مارا تھا۔۔۔  ایک نئی تکلیف اس کو جیسے پھر سے ہوش میں لے آئی تھی۔۔ وہ درد سے چیخا تھا۔۔ اس کے وجود میں سے ہمت ختم ہو رہی تھی۔۔

آنکھیں کھولو اپنی ۔۔۔۔ جزا نے وہ چاقو اس کی کمر میں گھوما دیا تھا۔۔

وہ کمرا یاد ہے جو سامنے نظر آ رہا ہے۔۔  جزا نے اس کا سر اوپر  والی منزل کی طرف اُٹھایا تھا ۔۔ جہاں ریلنگ کے پار ایک کمرا چھوڑ کر دوسرا کمرا تھا جس کا دورازہ کھولا تھا۔۔۔

شہزاد بامشکل اوپر دیکھ پایا تھا۔۔۔ اس کی آنکھوں سے آنسوں نکل رہے تھے۔۔ آج اس کی موت کی رات تھی۔۔۔وہ مان گیا تھا اج اس پر زندگی مہربان نہیں ہو سکتی تھی۔۔ آج اس کے کیے ہر ظلم کا حساب تھا۔۔

یہ اس لڑکی کا کمرا ہے جس کو تم نے محبت کے جال میں پھنسایا ۔۔ جس کو تم نے اپنے دوست سے اس کی بہن کی نظروں کے سامنے بے آبرو کروایا۔۔ جزا بولتے ہوئے روکی تھی۔۔۔

یہ کمرا اس لڑکی کا ہے جس کو تم نے برباد کروا کر مار دیا۔۔ جس کی معصومیت سے کھیلا تم نے۔۔ یہ کمرا میری بہن کا کمرا ہے ۔ جزا نے ہاتھ میں موجود چاقو شہزاد کی پسلی میں ایک طرف سے مارا تھا۔۔۔

اہہہہہہہہہہہہہہہہہ۔ ایک زور دار چیخ شہزاد کی گونج تھی۔۔ وہ جو نیم بے ہوش تھا مکمل ہوش میں آیا تھا۔۔۔

تم نے مجھے برباد کر دیا تھا شہزاد ۔۔۔ ایک رات میں تم نے مجھ سے سب کچھ چھین لیا۔۔۔ جزاکی آنکھوں سے آنسوں نکلنے کو جیسے بےتاب تھے۔۔ اس نے غصے میں ہاتھ میں موجود چاقو اس کے کندھے میں مارا تھا۔۔ اب کی بار وہ چیخ بھی نہ سکا تھا۔۔۔

اس رات تم ظالم تھے نہ؟۔۔۔  اٹھو ۔۔۔ آج بھی کرو ظلم ۔۔۔ تمہارے سامنے کھڑی ہوں ۔۔۔ کرو برباد مجھے ۔۔۔ مارو مجھے ۔۔۔ جزا نے وہ چاقو اس کے دوسرے کندھے میں مارا تھا۔۔

اٹھو نہ اٹھتے کیوں نہیں ۔۔۔ جزا نے اس کو پوری قوت سے ٹھوکر ماری تھی۔۔ وہ بری طرح زمین پر گرا تھا۔۔۔

کہاں گئی آج تمہاری بادشاہت ۔۔ اس رات تو تم تو خدا بنے بیٹھے تھے۔۔ جزا نے اس کو ایک اور ٹھوکر ماری تھی۔۔۔

اٹھو نہ شہزاد ۔۔ مارو آج مُجھے ۔۔ کرو برباد ۔۔ لو میرے مارے گئے تھپڑوں کا بدلہ ۔۔۔ جزا نے ایک اور ٹھوکر ماری تھی۔۔۔

تم خدا نہیں ہو شہزاد ۔۔۔ کہ تم جو چاہو گے وہ کر لو گے تمہیں کوئی پوچھے گا نہیں ۔۔ جزا نے سخت نظروں سے اس کو دیکھا تھا۔۔

اوپر ایک ذات بیٹھی ہے شہزاد ۔۔ وہ انصاف کرنے والی ذات ہے ۔۔ وہ ذات سب دیکھتی ہے۔۔ اس ذات نے تمہارا کیا ہر ظلم دیکھا ہے۔۔ جزا نے شہادت کی انگلی کو اوپر کی طرف بلند کیا تھا۔۔

تم وقت کے ان فرعونوں میں سے ہو جو سمجھتے ہیں ان کا حساب نہیں ہو گا۔۔ مگر تم بھول جاتے ہو وہ خدا جب انصاف کرنے پر آئے تو ایک کمزور انسان سے بھی وہ سب کروا دیتا ہے کہ ظالم ڈھیر ہو جائے۔۔ جزا نے اس کے سینے پر اپنی ہیل زور سے ماری تھی۔۔۔

تم نے میرا سب کچھ مجھے سے چھینا تھا ایک رات میں۔۔ جزا نے اس کے سر پر ٹھوکر ماری تھی۔۔ شہزاد نے ہاتھ اٹھانا چاہا تھا مگر نہ اٹھا سکا۔۔ اس کا ہاتھ ٹوٹا ہوا تھا۔۔

اور میں ہر رات تم سے تمہارا سب کچھ چیھنتی رہی۔۔۔ سب سے بڑھ کر تمہارا ذہنی سکون ۔۔ جزا نے اب کی بار ہیل اس کے پیٹ میں ماری تھی ۔۔

تم نے سمجھا تھا لڑکی ہے کیا کر لے گئی۔۔  میں اس کا سارا خاندان تباہ کردوں گا اس کو تباہ کر دوں گا۔۔ کر ہی کیا لے گئی وہ۔۔ جزا نے ایک اور زور دار ٹھوکر اس کو ماری تھی۔۔

میں لڑکی ہوں شہزاد ۔۔ میں وہ وہ کر سکتی ہوں جو تم سوچ بھی نہیں سکتے ۔۔ عورت کمزور نہیں ہے۔۔ عورت کو کمزور سمجھنے والے مرد کمزور ہوتے ہیں ۔۔  جزا نے اب کی بار اس کے پیٹ کے نیچھے ٹھوکر ماری تھی۔۔

شہزاد کا سانس اکھڑ رہا تھا۔۔ اب تکلیف اس کے بس سے باہر تھی۔۔ اس نے کبھی نہ سوچا تھا اس کا انجام ایسا ہو گا۔۔ جزا اس کو قہر برساتی نظروں سے دیکھ رہی تھی۔۔ اور اب اس ںے اپنی گن نکالی تھی ۔۔

تم نے میرے خاندان کا خون کیا تھا۔۔ جزا کا  لہجہ ایسا سرد تھا جیسے موت کی سردی ہر سو چھا گئی ہو۔۔  

جبکہ شہزاد اب زندہ رہنے کی خواہش ہار چکا تھا۔۔ اس کا وجود بےجان ہو رہا تھا اس کا سارا جسم ٹھوکروں کی وجہ سے درد کر رہا تھا۔۔ زخموں سے خون بہت بہہ چکا تھا۔۔ سر کا درد حد سے بڑھ گیا تھا۔۔ زیادہ خون نکلنے سے دماغ کو اوکسیجن نہیں مل رہی تھی۔۔

میں نے خون کے بدلہ خون کو چنا ۔۔ جزا نے ٹریگر دبایا تھا۔۔ اور اس کے بعد وہ ایک کے بعد ایک گولی شہزاد کے سینے میں اتارتی چلی گئی۔۔۔۔

اس نے اپنے گن کی میگزین پھر سے بھری تھی اور اب وہ اس میگزین کو بھی شہزاد کے وجود میں خالی کر چکی تھی۔۔ وہ جو آگے زندگی کی امید سے ہار گیا تھا۔۔ وہ اب مکمل خاموش ہو گیا تھا۔۔

ایک وقت تھا ایسی رات وہ ظالم تھا۔۔ اور آج ایک وقت ہے ایسی رات اس نے اس رات کیے گئے ظلم کا قرض ادا کیا تھا۔۔ ایک بیٹی نے اپنے خاندان کے خون کا بدلہ لیا تھا۔۔ ایک بہن نے اپنی  بہن کی بے ابروئی اور ناحق خون کا بدلہ لیا تھا۔۔ ایک عورت نے ہر اس عورت کا بدلہ لیا تھا جس کو کمزور سمجھ کر جیسے چاہا گیا ویسے روندہ گیا۔۔

ایک اور ظلم کہ داستان ختم ہوئی تھی۔۔ اپنوں کے ناحق خون کے بدلے کا بوجھ آج کیسی کے کندھوں سے اتر گیا تھا۔۔ مگر کیا یہ بدلہ اپنے کے بچھڑ جانے کی تکلیف کو کم کر سکتا تھا۔۔ کبھی نہیں یہ انتقام وہ تکلیف کم نہیں کر سکتا ۔۔ انتقام سے خون کا قرض آدا ہوتے ہیں بچھڑے مل نہیں جاتے لوٹ نہیں آتے زندہ نہیں ہو جاتے تکلیفوں پر مرہم نہیں رکھے جاتے ۔۔ انتقام تو بس قرض آدا کرنے کے لیے ہوتے ہیں ۔۔ بدلے کہ لیے ہوتے ہیں ۔۔

جزا کے ہاتھ سے گن اور چاقو زمین پر گرا تھا۔۔ نم آنکھوں سے آنسوں گرنے لگے تھے۔۔  اس نے اپنے ہاتھوں کو دیکھا تھا جہاں خون کے دھبے تھے۔۔

میں نے بدلہ لے لیا ڈیڈ ۔۔۔ میں نے اپنوں کے ناحق خون کا بدلہ لیا ۔۔ جزا روتے ہوئے بولی تھی۔۔۔

میں نے اس ظالم کو مار دیا جس نے آپ سب کو مجھ سے چھین لیا ۔ جزا کی آنسوں میں روانی آئی تھی۔۔۔

میں نے مار دیا سویرا اس شخص کو جس نے تمہیں برباد کروا دیا ۔۔ جس نے تمہارے دل کے ساتھ کھیلا ۔۔ جزا نے سختی سے آنسو صاف کیے تھے۔۔ مگر وہ پھر بھی نکل رہے تھے۔۔

ڈیڈ میں کمزور نہ پڑی ۔۔ دیکھیں میں نے مار ڈالا شہزاد اکرم کو۔۔ جزا روتے ہوئے بولی تھی ۔۔۔۔

آج ایک عرصے کا لگا بندھ ٹوٹا تھا وہ روتی چلی گئی تھی۔۔۔ بےتحاشہ رو رہی تھی۔۔۔ جب اچانک ایک کار کے روکنے کی آواز سنائی دی تھی۔۔۔۔

•••••••••••••••••••

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔


Comments