Dasht E Ulfat Novel By Shazain Zainab Episode no 3


 




















بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

 ناول

 

دشتِ الفت

 

شازین زنیب

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

Ep # 03

 

 

 

 

 

 

 

وہ تینوں آگے پیچھے سکندر ہاؤس میں داخل ہوئے تھے ۔ سب سے پہلے زوریز کی بائیک  اندر آئی تھی اس کے پیچھے دوراب کی اور سب سے آخر میں ایان صاحب تشریف لائے تھے۔۔

یار تم دونوں میرے لیے روک نہیں سکتے تھے۔۔ آیان نے اپنے سر سے ہیلمٹ اترتے ساتھ دونوں کو غصہ سے دیکھا۔۔

تو پاگل ہے یا جان کر ایسی باتیں کرتا ہے ۔۔ دوراب نے اس کو گھور کر دیکھا۔۔

بیٹا ریس میں کون کس کے لیے روکتا ہے اس بار تو تم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ تمہیں ریس کا پتا نہیں تھا۔۔ تم ہر بار ہی انڈ پر آتے ہو مسٹر اور پھر واویلا الگ کرتے ہو۔۔ زوریز نے اس کے کندھے پر ہاتھ پھیلا  کر بولا۔۔

جاؤ یار مجھے تم لوگوں سے بات ہی نہیں کرنی ۔۔ آیان  اپنی ناراضگی ظاہر کرنے کے لیے منہ دوسری طرف کر کے بولا۔۔ جس پر دوراب اور زوریز نے اس کو پیچھے سے ایک ساتھ ٹانگ ماری ۔۔ اگر سامنے دیوار نہ ہوتی تو آیان اس وقت زمین پر ہوتا۔۔

اس سے پہلے آیان موڑ کر کوئی جوابی کاروائی کرتا وہ دونوں اندر کی طرف بھاگے ۔۔ اور آیان ان کو پیچھے سے صلواتیں سنا رہا تھا۔

وہ دونوں اندر آ کر ابھی صوفے پر بیٹھے ہی تھے کہ آیان پھر سے دونوں کے سر پر تھا اس سے پہلے وہ کچھ بولتا ۔۔ ان دونوں نے اس کو صوفے پر اپنے ساتھ کھینچ کر بیٹھیا ۔ ویسے تجھے نکاح فائنل ہونے کی مبارک ہو آیان بولا۔۔

تجھے اب یاد آئی کہ مبارک باد بھی دینی ہے؟ دوراب نے اس کے پیٹ پر مکا مرا۔

وہ جو اپنے کمرے میں بیٹھی آتی دیر سے  رو رہی تھی دوراب کی آواز پر فوراً اٹھی اور نیچھے کی طرف بھری ۔۔

ابھی آیان دوراب کو اس کی بات کا کوئی جواب دیتا نور سیڑھیوں سے آتی نظر آئی ۔۔ مگر جس چیز نے تینوں کو پریشان کیا تھا وہ اس کی روئی روئی سرخ اور سوجھی ہوئی آنکھیں تھی۔۔

نور نے نہ سلام کیا نہ کچھ اور سیدھا جا کر دوراب کے سامنے کھڑی ہو گئی۔۔

بہت خوش ہیں نہ آپ اپنا نکاح تہ ہو جانے پر، آرے میں یہ کیوں پوچھ رہی ہوں آپ کی خوشی کا اندازہ تو آپ کے چہرے سے ہو رہا ہے کہ کتنا خوش ہیں آپ ۔۔ نور دوراب کو پہلی بار اس طرح دیکھ اور بول رہی تھی۔۔ جبکہ دوراب کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اس کو ہوا کیا ہے۔۔

نور کیا بات ہے تم نے اپنا  یہ کیا حال بنا رکھا ہے ہوا کیا ہے تمہیں ۔۔ وہ واقع ہی پریشان تھا۔۔

کمال کر رہیں ہیں دوراب آپ میری زندگی برباد کر کے مجھے چھوڑ کر مجھ سے پوچھ رہیں ہیں آپ کہ ہوا کیا ہے ؟ آپ کو ذرا شرم نہ آئی میری محبت میں کیسی کو شراکت دار بناتے ہوئے ۔۔ آپ کیسے کیسی اور سے نکاح کی بات کر سکتے ہیں ۔۔ وہ پھٹ پڑی تھی دوراب پر اس کے انسوں میں روانی آ گئی تھی ۔۔

دوراب کو اب تھوڑی تھوڑی بات کا اندازہ ہو رہا تھا اور جب اس کی نظر پیلر کے پیچھے چھپی اپنی ظالم بہن پر گئی اس کا دل تو چاہا اس کے ادھر کھڑے کھڑے کان کھینچ دے۔۔ مگر پہلے اس کو اس دشمنے جاں کو خاموش کروانا تھا جو نہ جانے کب سے خود کو رو رو کر ہلکان کروا رہی تھی۔۔

نور میری بات سنو ۔۔ اس نے اپنی صفائی میں بولنا چاہا۔

کیا سنوں کیا سنوں میں جمعہ والے دن آپ نکاح کر رہے اس لڑکی سے جس کے لیے آج آپ نے گھر میں بات کی اور سب بڑوں کو راضی بھی کروایا۔۔ ماما اور چچی نے بھی بتایا ہے۔۔کچھ سنانے کو باقی چھوڑا ہے آپ نے دوراب ۔۔ اس نے دوراب کو خود سے مزید دور دھکیلا تھا۔۔

اس کی ساری بات سن کر دوراب کا دل کیا وہ کون سی منہوس گھڑی تھی جو وہ گھر سے پہلے باہر چلا گیا ۔ وہ پہلے نور سے کیوں نہیں ملا۔۔ نور ایسا کچھ نہیں ہے یار ایک بار میری بات تو سن لو۔۔ اس نے بیچارگی سے نور کی طرف دیکھ کر التجاء کی۔۔

یار تم دونوں ہی کچھ بول دو نور نے اس کی طرف دیکھا بھی نہ تو وہ زوریز اور آیان کی طرف موڑا۔ آیان نے تو ایسے دیکھا جیسے کہہ رہا ہو اور کر مجھ معصوم پر ظلم۔۔ اور زوریز ایسے بیٹھا تھا جیسے کہا رہا ہو دیکھ لیا اپنی لاپرواہی کا نتیجہ ۔۔

ٹھیک ہے دوراب خوش رہیں آپ اچھا نہیں کیا آپ نے میرے ساتھ میں معاف نہیں کروں گی آپ کو۔۔وہ یہ کہہ کر جانے لگی تھی کہ دوراب نے اس کا ہاتھ پکڑ کر روکا اور بولا۔۔

نور میری بات سنو میں نہیں جانتا تمہیں کیس نے کیا کہا ہے کیا نہیں بس میں بس یہ جانتا ہوں کو کہ اس جمعہ میرا تمہارے ساتھ نکاح ہے۔ اب اس بات کی تصدیق تم چاہو تو بڑے ابو اور بابا سے جا کر کر لو۔ مگر پلیز یوں میری محبت پر شک نہ کرو خدا کا نام ہے۔۔ اس نے سارا سچ نور جے سامنے رکھا تھا۔۔

مگر آمنہ ، ماما اور چچی۔۔ نور نے کچھ بولنا چاہا۔۔

وہ نور وہ سب مذاق تھا ۔ آمنہ پیلر کے پیچھے سے نکل کر بولی۔۔

بلیک شلوار قمیض میں سیاہ بالوں کی اونچی پونی بنائے ڈوپٹا کندھے پر پھینکے وہ آج پھر سے آیان کے دل کو  ڈھرکا گئی تھی۔۔

تم نے مذاق کیا تھا؟؟ نور کو یقین نہیں آرہا تھا وہ اس کے ساتھ ایسا مذاق کر سکتی ہے۔۔

ہیں میں نے مذاق کیا تھا تم بھی تو ہوش میں نہیں آ رہی تھی اوپر سے بول رہی تھی بھائی کو تمہاری پروا نہیں پھر میں نے سوچا کیوں نہ تھوڑا مذاق کیا جائے اور اس میں میں نے ماما اور بڑی امی کو بھی شامل کر لیا تھا۔۔ آمنہ نے اپنی صفائی میں ساری بات سچ بول دی۔

مذاق کیا تھا اب تمہیں میں بتاتی ہوں صبر کرو تم اور نور جوتا ہاتھ میں لے کر آمنہ کے پیچھے بھاگی تھی۔۔

دوراب بھائی پلیز بچائیں مجھے ۔ آمنہ نے اپنے بھائی کو مدد کے لیے بولیا ۔

نہیں نہیں میری پیاری بہن اس بار نہیں بچا رہا تمہیں اب تم جانو اور تمہاری بھابھی جانے کس نے کہا تھا یو کا مذاق کرو لو اب مزے ۔۔ دوراب بھی اس کو سبز جھنڈی دیکھا چکا تھا۔۔۔

شاباش بیٹا جیسا تو خود ہے لڑکی بھی ویسی ہی پسند کی ہے۔۔ اس سے شادی کی تو اجتماعی جوتیاں کھایا کریں گے دونوں ۔۔۔ آیان منہ ہی منہ میں بربرایا تھا۔۔

اب آمنہ آگے بھاگ رہی تھی اور نور جوتی لے کر اس نے پیچھے تھی ۔۔اور وہ دونوں بھاگتے ہوئے باہر لان میں آ گئی امنہ لان کی گھاس پر گرنے کے انداز میں لیٹ گئی اور نور بھیی اس کے پاس آ کر اس جگہ لیٹ گئی ۔۔ دونوں کا ہی سانس پھولا ہوا تھا۔۔۔۔

تم بہت بری ہو۔۔ نور نے شکوہ کیا۔

آمنہ نے کہا اتنا میرا حق تھا۔۔

نور نے اس کی طرف دیکھا۔

تمہیں کیا لگتا ہے دوراب بھائی کیسی اور لڑکی سے شادی کا بولیں گے اور میں تمہیں ہنسی خوشی بتاؤ گی؟؟ میں دوراب بھائی کی زندگی عذاب کر ڈالوں گئی ۔۔ مجھے میرے بھائی سے زیادہ تم پسند ہو نور۔۔ میں ہمشہ اپنے بھائی کے لیے صرف تمہیں سوچا ہے ادھر کیسی اور کو کیسے آنے دوں گی میں بیوقوف ۔۔۔ آمنہ نے نور کو اپنے قریب کرتے ہوئے کہا۔۔

نور سارے گھر میں سب کی لاڈلی تھی اور آمنہ کے لیے صرف وہ اس کی لاڈلی نہیں بلکہ اس کی دوست تھی اس کی بہن تھی اس کے بھائی کی لاڈلی اور اس کی محبت تھی وہ آمنہ کے لیے سب سے خاص تھی۔ اگر کبھی وہ بیمار پڑ جاتی تو آمنہ ساری ساری رات نور کے پاس ہوتی تھی۔۔ آمنہ کو چھوٹی بہن کی بہت خواہش تھی اور اللّٰہ نے وہ نور کی صورت میں پوری کی تھی۔۔

میں بہت روئی ہوں بدتمیزی عورت۔۔ اس نے پھر شکوہ کیا ۔۔

آمنہ نے اس کو گلے سے لگا لیا  تھا۔۔

اچھا بات سنوں جزا کو بھی بتانا ہے ابھی کہ جمعہ کو نکاح ہے تمہارا ۔ وقت بھی تھوڑا ہے اور کام بھی بہت پڑھے ہوئے ہیں ۔۔

••••••••••••••••••••

وہ تینوں اس آفس میں بیٹھے کوئی کام کر رہے تھے ۔ زوریز کے چہرے پر ہمیشہ کی طرح سنجیدگی تھی ۔۔ جبکہ دوراب پرسوچ سا کیسی فائل میں سر دیے بیٹھا تھا اور آیان صاحب اپنی ہو سوچوں میں گم تھے۔۔

یار ایک بات باتوں یہ پیار کیسے ہوتا ہے؟؟ آیان اپنے ہی دھن میں مگن بولا۔

دوراب جو فائل میں کچھ دیکھ رہا تھا آیان کی بات پر فوراً سر اوپر کیا۔۔ زوریز نے بھی لیپ ٹاپ کی سکرین سے نظریں اٹھا کر آیان کو دیکھا ۔۔۔

صحیح کہتے ہیں سب کھالی دماغ شیطان کا گھر ہوتا ہے دوراب نے آیان کو غور سے دیکھ جر بولا۔۔

تم مجھے یہ بتاؤ تم نے اس کے پاس دماغ دیکھا ہے۔۔ زوریز نے دوراب کی بات پر اس سے سؤال کیا ۔۔

ہممممممم پوائنٹ ۔۔ دوراب نے ہاتھ میں پکڑا پن اپنے ہونٹوں کے ساتھ لگیا انداز اس کا ایسا تھا جیسے زوریز کی بات نے متاثر کیا ہو۔۔

آیان جو اپنی ہی دنیا میں مگن تھا زوریز اور دوراب کو خود کو گھورتا پا کر سیدھا ہوا۔۔ اب یہ دونوں پھر سے ذلیل کریں گے ۔۔ آیان منہ میں بربراتا اٹھا۔۔ اور افس سے باہر نکل گیا۔۔

اب اس کو کیا ہو گیا ہے۔۔ دوراب نے زوریز کی طرف دیکھا۔۔

کچھ نہیں کافی لینے گیا ہے ادھر دیکھ ابھی آ کر دماغ چاٹے گا ہمارا ۔اس نے دوراب کی طرف جھک کر بولا۔۔

دوراب ٹھنڈی آہ بھر کر رہ گیا۔۔۔

پکڑو ایک ایک آیان نے کافی لا کر دوراب اور زوریز کے سامنے رکھی ۔۔۔۔ دونوں نے اپنا اپنا کپ اٹھایا اور آیان کی طرف دیکھا۔۔

آیان نے دونوں کو دیکھا اور بولا ۔۔ یار میری بات سنو خاص توڑ پر تم دوراب کیونکہ اس چیز کا پتا مجھے تم ہی بتاؤ گے صحیح سے یہ تو ٹھہرا خشک مزاج آدمی اس کا اس چیز سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں ۔۔

بول بھی دو کیا مسئلہ ہے؟؟ دوراب نے آیان کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔۔

یار یہ پیار کیسے ہوتا ہے بتاؤ گے۔۔ آیان نے بچاری شکل بنائی

ایان صاحب وقتی کرش کو محبت نہ بولو۔۔ دوراب نے اس کی بات کو مذاق میں اڑایا۔۔

مجھے کوئی وقتی کرش نہیں ہوا یار میں سریس ہوں ۔۔ آیان نے بیچارگی سے بولا۔۔

اچھا یہ بتا لڑکی کون ہے ؟؟ زوریز نے اس کا آنکھوں سے ہی ایکسرے کر ڈالا ۔۔

آیان زوریز کی نظروں کو خود پر دیکھ کر ہربرا گیا تھا کیونکہ جب بھی زوریز ایسے دیکھتا تھا اس کا مطلب ہوتا تھا وہ آیان کا 99٪ مطلب سمجھ چکا ہے۔۔۔

ایسا کچھ نہیں ہے میں گھر جا رہا ہوں موم کی کال آئی ہے بائے ۔۔ آیان نے اٹھنے میں ہی آفت جانی۔

ابھی اٹھ کر موڑا ہی تھا کرسی میں اس کا پاؤں پھسا اور گرتے گرتے بچا تھا۔ فوراً سیدھا ہو کر باہر کی طرف بڑھنے لگا اور پیچھے موڑ کر زوریز کو دیکھا جو ابھی بھی اس کو دیکھ رہا تھا اور اب آیان صاحب سیدھا دیوار میں جا کر لگے۔۔۔ اب اپنا سر ملتے دروازہ کھولا تو وہ بھی اس کے سر میں لگا۔۔۔

تو کر کیا رہا ہے طبیعت ٹھیک ہے تیری؟؟ آخر دوراب بول اٹھا۔۔

ہاں ہاں ٹھیک ہے یہ کہے کر اس نے باہر دوڑ لگا دی۔۔

اس کو کیا ہوا ہے۔۔ دوراب  نے زوریز کی طرف گردن موڑ کر پوچھا۔۔

کچھ نہیں تو زیادہ نہ سوچ اپنے نکاح کی تیاری پر دھیان دے ۔۔ زوریز نے دوراب کو ٹالنا چاہا مگر دوراب ابھی بھی ادھر ہی الجھا ہوا تھا۔۔

•••••••••••••••••

نہیں نہیں میری بات سنوں ہم تینوں لونگ فروک نہیں پہنے گی ۔ کیونکہ نور نے لونگ فروک کر نیچے شرارا پہنا ہے تو ہم لوگ گرارا اور کرتی بنوائیں گی۔ ہمارا ڈریس سٹائل ڈفرنٹ ہونا چاہیے ۔۔

جزا آمنہ کی مسلسل سنے کے بعد بولی۔۔

اچھا گرارے کر لیں گئے مگر یہ بتاؤ نور کے ڈریس کا کلر کا کیا کرنا ہے۔۔ یہ زمیداری مجھے دی ہے ماما نے سزا کے طور پر ۔۔

اچھی بات ہے تمہاری سزا بنتی بھی ہے جوتیاں کھانے والے کام کرتی ہو تم۔۔ اور سنوں میری بات کان کھول کر میں جس وقت مہندی لگاؤں گی تم میرے پاس بیٹھی رہو گی اور میرے سارے کام کرو گی افٹر آل تمہاری ایک لوتی بھابی بنے والی ہوں۔۔ نور نے آمنہ کو اپنی طرف سے ایک اور سزا سنا ڈالی۔۔

یار تم بھی ایسے کرو گی؟؟ میرے بھائی  کا نکاح ہے مجھے انجوائے بھی کرنا ہے صرف کام نہیں کرنے۔۔۔ اس نے بیچارگی سے نور کی طرف دیکھا

شکر کرو ابھی رحم کر رہی ہوں میں ورنا تمہارا تو میں وہ حال کروں کے یاد رکھو تم۔۔ نور نے پاس پڑھا کوشں آٹھا کر آمنہ کے منہ پر مارا ۔۔۔

اچھا یار لڑنا بند کرو اور یہ بتاؤ شوپنگ پر کب جانا ہے۔۔ جزا ان دونوں کو روکتی بولی۔۔

کل ماما بڑی امی اور تمہاری ماما شوپنگ پر جا رہی ہیں تو کیوں نہ ہم بھی ان کے ہی ساتھ چلے جائیں ۔۔ کیا کہتی ہو۔۔ آمنہ نے اپنی رائے دی۔۔

ہیں یہ ٹھیک رہے گا۔۔ ویسے لے کی کون جائے گا دوراب بھائی یا ڈرائیور ؟؟؟  جزا نے چور نظروں سے نور کی طرف دیکھا جس کا چہرہ دوراب کے نام سے ہی بلیش کرنے لگا تھا۔۔۔

نہیں یار دوراب بھائی کو ٹائم نہیں مل رہا وہ دوسرے کاموں میں مصروف ہیں تو اس لیے ڈرائیور کے ساتھ جانا ہے۔۔ آمنہ صوفے پر گرنے کے انداز میں بیٹھتی بولی۔

ویسے نہ میں سوچ رہی تھی کہ جب تک نکاح نہیں ہوجاتا کیوں نہ نور کا دوراب بھائی سے پردہ کروا دیں کیسا رہے گا

یہ شرارات ںور کو بھی پسند  آئی تھی تبھی وہ آگے ہو کر بیٹھ گئی تھی اور اب آمنہ نور جزا سر کے ساتھ سر جوڑ کر بیٹھی دوراب کے لیے امتحان  بنانے جا رہی تھی۔۔

••••••••••••••••••••

نور بیٹا یہ دیکھو  یہ  جوڑا کیسا ہے ۔۔ روحا بیگم نے ایک ریڈ کلر کا  لہنگا دیکھیا۔

نہیں ماما نور کو ابھی ریڈ کلر کا ڈریس نہیں پہنانا ورنہ رقصتی کے ٹائم گلو نہیں آئے گا۔ نکاح کے لیے ہم نے یہ سوچا ہے کہ اوف وائٹ لونگ فروک اور اس کے نیچے شرارا ہو گا۔۔ نور سے پہلے آمنہ بول پڑھی ۔۔

روحا انٹی، نور ، آمنہ ادھر آؤ آپ تینوں ایک ڈریس دیکھا ہے میں نے۔ جزا تینوں کو اپنے ساتھ لے کر ایک جوڑے کے سامنے کھڑی ہوئی تھی جہاں امل بیگم اور انعم بیگم پہلے سے موجود تھی۔۔

نور کو وہ اوف وائٹ جوڑا پہلی نظر میں ہی پسند آ گیا تھا اور روحا بیگم نے بھی اس جوڑے کو پیک کروانے کا بولا تھا۔۔ کیونکہ وہ  جوڑا بلکل ویسا ہی تھا جیسا نور کو چاہیے تھا۔۔ اوف وائٹ لونگ فروک جس کے ب گلے پر خوبصورت سا کام ہوا ہوا  تھا فروک کے بازوؤں پر اور فروک کے دامن پر بھی ایسا ہی نفیس کام ہوا ہوا تھا ۔۔ نیچے زیادہ گھیر والا شرارا تھا اور اوپر ڈارک میرون ڈوپٹا تھا جس کے فرنٹ بورڈور پر کام ہوا ہوا تھا اور باقی سارے دوپٹہ پر تارے موتیوں کی چہٹ پڑی ہوئی تھی .۔۔  وہ سب نور کے نکاح کا جوڑا پیک کروا کر نکلی ہی تھی کہ امل بیگم بولی چلو بچیوں اب تم لوگ اپنے کپڑے بھی پسند کرو آگے ہی وقت کافی تھوڑا پرا ہوا ہے۔۔

جی انٹی بس اب ہم اپنی ہی شوپنگ کرنے لگی ہے۔۔ جزا نے امل بیگم کی طرف دیکھ کر کہا اور ساتھ ہی ایک شوپ میں گئی جہاں سویرا جزا اور آمنہ اپنے لیے کپڑے پسند کر رہی تھی ۔

تینوں نے ایک جیسے ہی کپڑے پسند کیے تھی مگر کلر تینوں کے جوڑوں کے مختلف تھے ۔

اب وہ لوگ جیولری اور جوتوں وغیرہ اور دوسری چیزوں کی شوپنگ کر کے فری ہوئی تھی کہ اچانک جزا کو  یاد آیا کہ ااس نے نور کے لیے گفٹ نہیں لیا۔۔

آمنہ سنوں میں ذرا نور کے لیے گفٹ لینے جا رہی ہوں تم لوگ باہر نکلو تب تک میں بھی آجاؤ گئی۔۔ وہ  امنیکو بول کر گفٹ شوپ کی طرف بڑھ گئی تھی۔

ابھی وہ لوگ باہر نکلی ہی تھی کہ اچانک اندر سے فائرنگ کی آواز آنے لگی اور مال میں لوگوں کی بھگدڑ مچ گئی ۔

جزا ۔۔۔۔ انعم انٹی جزا اندر ہے ۔۔۔ وہ لوگ جو اپنے آپ کو بچنے کے لیے بھاگی تھی کہ اچانک آمنہ کو جزا کا خیال آیا ۔۔

وہ اندر کیا کر رہی ہے ۔۔۔ میں جا کر دیکھ کر آتی ہوں کیدھر ہے  وہ ۔۔ انعم بیگم اندر کی طرف بھرنے لگی ۔

انعم ہوش سے کام لو اندر فائرنگ ہو رہی ہے ۔۔ روحا بیگم اور امل بیگم نے انہیں روکنا چاہا۔۔

میری بچی اندر ہے ۔۔ انعم بیگم چیلائی تھی ۔

ماما جزا اپنی حفاظت کرنا جانتی ہے اپ جو پتا تو ہے اس کا۔۔ سویرا نے اپنی ماں کو روکنے کی کوشش کی ۔

مگر سویرا اندر ۔۔ ماما پلیز آپ ابھی اندر کیسے جائیں گئی دیکھیں جانے کا کوئی راستہ ہے؟؟؟  لوگ اندھا دھن بھاگ رہے ہیں ۔۔ انشاللہ جزا ٹھیک ہو گئی وہ خود کو پروٹیکٹ کرنا جانتی ماما۔۔ سویرا نے انعم بیگم کو ان کی بات مکمل نہ کرنے دی اور ان کو اندر جانے سے روکنے کی ایک اور کوششوں کی تھی ۔۔

یااللہ میری بچی کی حفاظت کرنا۔۔۔ انعم بیگم نے ترپ کر دعا مانگی تھی۔۔

•••••••••••••••••

جزا جو ابھی ان سب کو چھوڑ کر نور کے لیے گیفٹ لینے گفٹ شوپ میں گئی تھی لوگوں کی آوازیں سن کر باہر نکلی تو باہر لوگوں کو بھاگتا دیکھ کر اس کو اپنی ماں ، امل بیگم ، روحا بیگم اور سویرا ، امنہ اور ںور کا خیال کیا ۔ وہ ابھی ایک طرف بھاگی ہی تھی کے پیچھے سے پھر سے فائرنگ شروع ہو گئی وہ موڑ کر پیچھے دیکھتی اس سے پہلے ہی کیسی نے اس کا بازوؤں پکڑ کر اپنی طرف کھینچ لیا۔۔

اس کی کمر دیوار کے ساتھ لگی ہوئی تھی اور سامنے ایک شخص تھا جس نے بلیک کیپ اور بلیک جیکٹ پہن رکھی تھی ۔ اس نے بولنے کے لیے منہ کھولا ہی تھا کے مقابل نے اس کے منہ پر اتنی ہی تیزی سے اپنا ہاتھ رکھ دیا ۔

شششششش آواز نہ نکلے تمہاری سمجھ آئی ۔۔ وہ بہت ہلکی آواز میں بولا تھا ۔

ابھی وہ کچھ اور کہتا  قدموں کی آواز قریب آئی تھی ۔

اس نے فوراً جزا کو اس کی کمر سے پکڑ کر اپنے قریب کیا اور رخ  موڑ گیا ۔۔۔ یوں فوراً قریب ہوںے کی وجہ سے جزا کے دونوں ہاتھ اس کے سینے پر تھے ایک ہاتھ دل کے مقام پر گیا ۔ اور یہ وہ لمحہ تھا جب سبز آنکھوں نے اس لڑکی کی طرف دیکھا ۔ اور جزا ایک لمحہ کے لیے سن ہو گئی تھی ۔ اس کے ہاتھوں نے مقابل کے دل کی دھڑکنوں کو بہت اچھے سے محسوس کیا تھا۔۔ نہ جانے کیوں جزا کو ایسا لگا جیسے وہ دل پہلی بار ڈھرکا ہو اس کو اس  کا دل اپنے ہاتھ میں  ڈھرکتا محسوس ہوا تھا۔۔۔  جزا کا اپنا دل بہت زور سے دھڑکا تھا ۔  اس کو خود پر کیسی کی گہری نظریں محسوس ہوئی تو اس نے اپنی جھوکی نظر اٹھا کر دیکھا تو سبز آنکھیں اس کو دیکھنے میں مصروف تھی ۔۔

اچانک اس کو اپنے پیچھے کیسی کی موجودگی کا احساس ہوا۔۔ سبز آنکھوں نے ایک لمحہ کے لیے بھی شہد رنگ آنکھوں سے اپنی نظر نہ ہٹائی۔  اس کی گرفت جزا کی کمر پر اور مضبوط ہوئی تھی۔۔

دوسری ہاتھ میں پکڑی گن کا منہ اچانک پیچھے کی طرف ہوا اور ایک لمحہ کے اندر اندر اس نے ٹریگر دبا دیا اور گولی مقابل کے سر کے آڑ پار ہوئی تھی ۔۔

گن چلنے کی آواز سے شہد رنگ آنکھیں سبز آنکھوں کے اثار سے نکلی تھی اور جیسے ہی اس کے  لمبے چوڑے وجود کے پیچھے دیکھا تو ایک آدمی زمین پر گیرا ہوا تھا اس کے ماتھے پر ایک سوراخ ہو چکا تھا جہاں سے خون ابل ابل کر زمین پر پھیل رہا تھا ۔

اس سے پہلے جزا اس شخص کو خود سے دور کرتی یا ادھر سے بھاگتی مقابل نے گن کی نوک اس کی ٹھوڑی  کے نیچے رکھ کر اس کے چہرے کو تھوڑا اوپر کیا اور جھک کر اس کی آنکھوں میں دیکھا ۔۔

لیسن بیوٹی ادھر جو کچھ بھی دیکھا ہے تم نے اس کا ذکر کیسی سے بھی کیا تو انجام اچھا نہیں ہو گا ۔۔ انڈرسٹنڈ!؟  اس نے شہد رنگ آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولا۔ 

جزا نے اپنے ہاتھ سے گن کو اپنی ٹھوڑی کے نیچے سے ہٹایا اور اس کی سبز آنکھوں میں اپنی آنکھیں ڈال کے بولی ۔۔

میں تم سے ڈرتی نہیں ہوں سمجھ آئی اور ایک قاتل کے خلاف میں اپنا منہ کبھی بھی بند نہیں رکھوں گئی ۔۔ یہ کہا کر وہ اس کو خود سے دور دھکیل چکی تھی اور ایک طرف سے گزر گئی  ۔

بیسٹ نے اس کو جاتے دیکھا اور ماسک کے پیچھے ہونٹ ہلکا سا مسکرائے تھے ۔

۔۔۔۔۔ وہ مدھم لہجہ میں بولا ۔۔Girl I like your attitude ۔۔

بیسٹ تم ٹھیک ہو جزا کے گزرنے کے فوراً بعد ولف اور لیو ادھر آئے تھے ۔۔

ہممم چلو چلیں یہاں سے سب فائلزمل گئی ہیں ؟؟ اس نے دونوں کو چلنے کا بولا اور ساتھ ہی سوال کر دیا۔۔

ہاں سب ویڈیو فائنلز مل گئی ہیں اور بندے بھی سب ٹھکانے لگا دیے ہیں اور ابھی کی ساری کمیرا ریکوڈنیگ بھی ڈیل کر دی ہے ۔ لیو نے ساری بات اس کو بتائیں۔

گڈ اب جلدی سے ادھر سے نکلنا ہو گا ۔۔ بیسٹ ان دونوں کے ساتھ چلتا بولا ۔

دوسری طرف جزا جیسے ہی مال سے باہر نکلی اس کو ایک طرف انعم بیگم روتی نظر آئی وہ فوراً بھاگ کر ماں کے گلے لگی ۔

تم ٹھیک ہو جزا کدھر چلی گئی تھی میں کتنا پریشان ہو گئی تھی بیٹا ۔۔ انعم بیگم نے اس کو گلے سے لگایا ان کی ممتا کو سکون ملا تھا ان  کی بیٹی ان کے پاس صحیح سلامت تھی ۔۔

امل بیگم ، روحا بیگم آمنہ نور سویرا سب کی جان میں جان آئی تھی سب ہی بہت پریشان تھی۔۔

ماما میں اوپر  گفٹ شوپ میں  تھی۔۔ اچانک باہر فائرنگ کی آواز آئی تو اپنے آپ کو بچانے کے لیے چپ گئی تھی ۔۔ جب باہر شور ختم ہوا تو باہر نکل ائی۔۔۔ اس نے اپنی ماں کو پریشان دیکھ کر بات گھوما دی تھی۔۔

••••••••••••••

بیسٹ اب کدھر چلنا ہے؟؟ لیو ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا تھا اور ولف ساتھ والی سیٹ پر بیٹھا تھا ۔

جبکہ بیسٹ بیک سیٹ پر بیٹھا اپنے ہاتھ میں ائی پیڈ پکڑے کچھ سوچ رہا تھا۔۔ لیو کے بولنے پر اس نے سر اٹھایا ۔۔۔

آج کی رات ادھر لاہور ہی رہیں گئے مجھے  لغاری ، اکرم، عثمان اور ان کے بیٹوں کی ایکٹیوٹیز پر نظر رکھنے کے لیے  رحیان کو بولا تھا اس سے ساری آپ ڈیٹس لینی ہے اور ایک اور کام اس کے ذمہ لگانا ہے۔۔ کچھ اور کام پینڈنیگ ہیں وہ کرنے ہیں ۔  وہ پر سوچ انداز میں بولا

•••••••••••••

گاڑی ایک قدیم علاقے میں جا کر روکی تھی۔۔ اور ایک پیچس سال کا لڑکا جس کا رنگ گندمی تھا گھنگرالے سیاہ بال ، برائون ذہین انکھیں، چہرے پر ہلکی سے بھری ہوئی شیو تھی ۔ وہ کیسی کو بھی اٹڑکٹ کروا سکتا تھا ۔

کیسے ہیں آپ اس نے کار میں بیٹھتے ساتھ ہی بیسٹ ولف اور لیو کو دیکھ کر  پوچھا ۔  

ہماری چھوڑو اپنی بتاؤ کیا حال ہے۔  بیسٹ نے اس کے حالات کو نشانہ بنایا۔۔

جلتی پر تیل چھڑکنا آپ سے سیکھے کوئی ۔ مقابل بھی جیسے اس سے اچھے سے واقف تھا تبھی برا سا منہ بنا کر بولا۔۔

اچھا بتاو ںہ کیا حال ہے۔  اب کی بار ولف بولا تھا۔۔

میں کہیں سے بھی اپنی ماں کا لاڈلا لگ رہا ہوں نہ جانے مجھ معصوم سے کون کون سے کام کرواتے رہتے ہو ۔۔ اس نے اپنے اوپر ہوتے ظالم پر آواز اٹھائی ۔

یہ کچھ زیادہ نہیں ہو رہا رحیان ؟؟ اب بیسٹ نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بولا ۔

میں تو مذاق کر رہا تھا ۔ رحیان نے اپنے دانتوں کا اشتہار دیتے ہوئے کہا ۔

چلو اب ساری انفورمیشن بتاؤ ،، کیا کیا بات پتا چلی ہے،، بیسٹ لغاری لاہور چھوڑ کر اسلام آباد جا رہا ہے، اس کی بیٹی راتوں کو کلبز میں اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ ہوتی ہے، عثمان  صاحب اور اکرم صاحب آج کل  کچھ آدمیوں کو ہائیر کر رہے ہیں کہ نئی لڑکیاں لا کر دیں۔۔ دوسری طرف نواز اور نوریز کبھی باپ کے آفس چلے جاتے ہیں ورنہ سارا ٹائم یا تو بار میں ہوتے ہیں نہیں تو ڑیڈ لائٹ ایریا میں نظر آتے ۔۔ جبکہ شہزاد آج کل اپنی ہی کزن پر غلط نظر رکھ کر بیٹھا ہوا ہے اور آپ کو مارنے کے موقع ڈھونڈ رہا ہے۔۔۔  رحیان نے اتنے دنوں کی خبر بیسٹ کو سنائی ۔۔

شہزاد مجھے انٹرسٹینگ لگ رہا ہے۔۔ کمال کی ہمت ہے بیسٹ کو مارنے کی ہی کوششوں میں ہے۔۔۔ بیسٹ بہت سکون سے بول رہا تھا۔۔

ویسے اس کی کزن کون ہے جس پر وہ غلط نظر رکھ کر بیٹھا ہے کچھ پتا ہے اس لڑکی کے بارے میں ۔۔ کچھ سوچتے ہوئے وہ بولا ۔

ہیں اس کی تصویر بھی بھی لی تھی میں جب اس لڑکی نے اس کو ریستوراں میں تھپڑ میرا تھا تب لی تھی پیک میں نے۔۔۔ وہ اپنے فون پہ کچھ ڈھونڈتا ہوا بولا۔۔

اور پھر اگلے ہی لمحے فون کی سکرین بیسٹ کے اگے تھی۔۔۔ ایک لمحہ میں بیسٹ کو اپنی بیٹ مس ہوتی محسوس ہوئی۔۔ نام کیا ہے اس کا کیا کرتی ہے کدھر رہتی ہے باپ کون  ہے ساری کی ساری انفورمیشن دو مجھے۔۔۔۔

نام جزا ہے لڑکی کا ابھی آئی- سی- ایس کے امتحان دے کر فری ہوئی ہے اور آگے یونیورسٹی میں اپلائے بھی کر چکی ہے کمپیوٹر میں اس لڑکی کا دماغ بہت تیز چلتا ہے ایک بہن ہے اس کی سویرا نام ہے اس کا لاہور میں ہی رہتے ہیں یہ لوگ ۔۔۔ اور سب سے انٹرسٹینگ بات یہ ہے کہ یہ الفا کی بیٹی ہے۔۔ رحیان نے ساری انفارمیشن بسیٹ کو دی۔۔

الفا ؟ بیسٹ نے اس لفظ کو دھرایا ۔۔۔

ہاں الفا پاکستان آئی اس ائی کے سیکریٹ ایجنٹ ہے یہ بات ابھی تک چھپی ہوئی ہے کہ الفا زندہ ہے اور ایم-زی نیا الفا بنا ہے جبکہ ایم- زی الفا بن چکا ہے اور پہلا الفا بھی زندہ ہے۔۔  اور الفا کی فیملی میں یہ بات ان کی بیوی کے علاؤہ کیسی کو نہیں ہتا کہ وہ ایک  کالج کے پرنسپل ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ایجنٹ بھی ہیں۔۔۔۔ ان کی بیٹیاں بس یہ جانتی ہے کہ وہ ایک اچھے فائیٹر ہیں مگر کوئی بھی اتنا بڑا راز نہیں جنتا ۔ اور الفا جزا کو کچھ وقت سے فائیٹنگ سکیلز سیکھا رہے ہیں اور کوئی نہیں جانتا کیوں۔۔ رحیان نے ساری بات بیسٹ کے سامنے کھولی۔۔

ویسے ایک بات تو بتاؤ تم اتنا سب کچھ معلوم کیسا کر لیا؟؟؟ لیو بولا

کبھی کبھی انسان کے تعلق کام آ جاتے ہیں ۔۔ رحیان نے آنکھ ونک کی۔

وری گڈ اگر ان تعلق رکھنے والے کو یہ پتا چل گیا نا تم تعلقات سے کیا کام نکل رہے ہو تو تم مار کھاتے نظر آؤ گے ۔ ولف نے باقائدہ رحیان کو گھور کے بولا جس پر رحیان نے آنکھیں گھوما دی ۔ ایک صرف رحیان میں ہمت تھی ان تینوں کے سامنے پٹر پٹر کرنے کی ۔

خیر اس  لڑکی پر نظر رکھو ؟؟ بیسٹ نے کچھ سوچتے اس کو اگلا حکم دیا۔۔

ٹھیک ہے بیسٹ اور کچھ ؟ اس نے آگے سے پوچھا۔۔

شہزاد کی ایک ایک مؤمنٹ پر نظر رکھو اور اس لڑکی پر بھی رکھو اور شہزاد سے ہر صورت اس لڑکی کو بچا کر رکھنا شہزاد اس کے آس پاس بھی نظر نا آئے سمجھ آئی ۔۔۔ بیسٹ کی آواز میں اور لہجے میں کچھ تھا جس نے کار میں بیٹھے تینوں مردوں کو منہ موڑ کر دیکھنے پر مجبور کر دیا۔۔

بیسٹ۔۔۔۔۔۔ ولف بولا۔۔

ششششششش۔۔۔۔ وقت آنے پر سب پتا چل جائے گا۔ 

ولف نے لیو کو دیکھا جبکہ رحیان ابھی تک بیسٹ کو بے یقینی سے دیکھ رہا تھا۔۔۔

میرے خیال سے مجھے چلنا چاہیے اب ۔۔ اخر رحیان بولا ۔

ہممممممم بلکل اور ہاں مجھے اس لڑکی کی ایک ایک پل کی خبر چاہیے ہے ۔ اس نے رحیان کو دیکھ کر بولا ۔۔

آج کی خبر ادھر دے دوں ؟ رحیان جل کر بولا۔

کون سی خبر۔۔۔ ولف اور لیو ایک ساتھ بولے

نہیں کچھ نہیں میں کون سا یہ بول رہا ہوں کہ جناب کیسی کی آنکھوں میں بہت قریب سے دیکھ آئے ہیں ۔۔۔ خیر میں چلتا ہوں۔۔۔۔ بھاگ رحیان اس سے پہلے تو مر جائے۔۔ آخری الفاظ بہت آرام سے بولے گئے تھے اور یہاں رحیان صاحب نے کار سے اترتے ساتھ   دوڑ لگا دی۔

جبکہ پیچھے بیسٹ گھورتا رہ گیا اور ولف اور لیو کا اوووووو ایسا کیا پوری کار میں گونجا تھا ۔۔

مر مرا جائے گا یہ میرے ہاتھوں ۔۔ یسٹ باہر کی طرف دیکھنے لگا۔۔

••••••••••••••••

جزا بیٹا آپ ٹھیک ہو نا؟؟ وہ سب اس وقت سکندر ہاؤس میں تھی ۔

امل بیگم ، روحا بیگم اور انعم بیگم مال میں ہونے والے حادثے کے بعد سے پریشان تھی۔۔

اسلام وعلیکم !! دوراب ابھی گھر آیا ہی تھا سامنے بیٹھی روحا بیگم ، امل بیگم اور انعم بیگم کو پریشان بیٹھا دیکھ کر ادھر ہی روک گیا۔۔

اور شاید وہ ان کی بات بھی سن چکا تھا تبھی بولا ۔۔

کیا بات ہے سب خیریت ہے نہ ؟؟ دوراب نے سب کی طرف دیکھ کر پوچھا ۔۔

ہیں بیٹا سب خیریت ہے بس آج شوپنگ کرنے گئے تھے تو ادھر سے واپسی پر شوپنگ مال میں کچھ لوگوں نے فائرنگ کی تھی تب جزا ہم لوگوں  کے ساتھ نہیں تھی اندر تھی شاپنگ مال کے باقی اللّٰہ کا شکر ہم سب سہی سلامت وآپس آگئی ہیں۔  روحا بیگم نے ساری بات بتائی ۔۔

موم آپ لوگوں کو بولا تھا ایک دن صبر کر جائیں ہم لوگ لے جاتے آپ لوگوں کو مگر آپ لوگ سنتی ہی نہیں آج کل ملک کا ماحول بہت خراب ہوا ہوا ہے سنے میں آ رہا ہےکہ مافیا ایکشن میں ہے ۔ اور اللّٰہ کا شکر ہے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا ۔ تم سب بھی باہر جاتے وقت تھوڑی احتیاط کرو لڑکیوں ۔۔

وہ ساری صورتحال بتا کر ابھی بیٹھا ہی تھا کہ اچانک امنہ کے دماغ میں اپنے بھائی کے لیا ایک نیا امتحان آیا تھا۔۔۔۔ وہ جزا کے کان کے پاس جھوکی اور کچھ بول کر سیدھی ہوئی۔  جزا نے وہ ہی بات سویرا کے کان میں بولی ۔۔ اب وہ تینوں مسنی مسکراہٹ کے ساتھ دوراب کی طرف دیکھ رہی تھی جو  نور کو اپنی نظروں  کے حصار میں رکھے بیٹھا تھا اس بچارے کو کیا پتا تھا اس کی ہونے والی بیوی کی سہلیاں کتنی ظالم ثابت ہونے والی ہیں ۔۔۔

دیکھ لیں دیکھ لیں جی بھر کے دیکھ لیں کیونکہ اب یہ چہرہ نکاح کے بعد ہی نظر آئے گا آپ کو ۔۔ آمنہ دوراب کے پیچھے آ کر کھڑی ہوئی اور جھک کر بولی ۔۔۔

کیا مطلب کے نکاح کے بعد نظر آئے گا یہ کہی جا رہی ہے؟؟ اس نے آمنہ کی طرف ناسمجھی سے دیکھتے ہوئے بولا ۔

مطلب یہ دوراب بھائی نکاح سے پہلے دولہا اور دلہن کا پردہ ہوتا ہے نہ ؟؟ تو بس اب آپ کا اور ںور کا پردہ ہو گا ۔۔۔ اب کی بار جزا اٹھ کر نور کے پاس گئی اور اس کے دوپٹے کا ایک طرف سے پلو اٹھا کر اس کے سر پر کیا ۔۔

دوراب بھائی لاسٹ 2 منٹس ہیں آپ کے پاس دیکھ لیں ۔۔ سویرا بہت پر سکون لہجے میں بولی اور دوراب کا سکون غارت کر گئی تھی ۔

موم ، بڑی امی، انعم انٹی دوراب نے بے بسی سے ان تینوں کو بولیا جو اس بچارے کو  سالیوں کے قابو میں دیکھ کر ہنس رہی تھی۔۔

ہم کیا کہہ سکتی ہیں تم جانو تمہاری سالیاں جانے ۔۔ ان تینوں نے اس کو سیدھا ہری جھنڈی دیکھائی تھی۔ 

آمنہ دیکھوں تم میری بہن ہو تمہیں تو میری سائیڈ ہونا چاہیے ۔۔ دوراب نے بے بسی سے اپنی بہن کو دیکھا جو ہمیشہ اس کو امتحان میں ڈال کر راضی ہوتی تھی۔ ۔

اس میں تو کوئی شک نہیں میں آپ کی بہن ہوں مگر اب میں سالی بھی ہوں نہ ۔۔ آمنہ آنکھیں پٹپٹا کر بولی ۔

جزا تم توایسے نہ کرو تم تو سب سے اچھی بہن ہو میری ۔۔ اب وہ جزا کی منتے کر رہا تھا ۔

بھائی میں آپ کی اچھی بہن ہوں تبھی نور ابھی تک یہاں ہے ورنہ میں تو سوچ رہی تھی جب تک نکاح نہیں ہوجاتا نور کو میں اپنے ساتھ اپنے گھر لے جاؤ ۔۔۔ آخر پردے کا بھی تو خیال رکھنا ہے ۔ جزا اتنی معصومیت سے بولی کے دوراب آش اش اٹھا تھا اس کی معصومیت پر ۔

سویرا بچے آپ ان دونوں کو سمجھاؤ نہ۔۔ آخر میں دوراب نے سویرا کو امید بھری نظروں سے دیکھا تھا۔۔۔۔

بھائی میں نے تو ان کو سمجھیا ہے کہ اب جب تک نکاح نہیں ہو جاتا ہم لوگ ںور آپی کے  پردے کا بہت خاص خیال رکھیں گئی ہم تینوں میں سے ہی کوئی نہ کوئی نور آپی کے پاس ان کے کمرے میں ہوں گئی۔۔ کیونکہ اب جب تک نکاح نہیں ہو جاتا ہم لوگ ادھر ہی ہیں نہ تو نور آپی کو اکیلا نہیں چھوڑیں گئی ۔ صحیح سمجھایا ہے نہ میں نے ۔۔۔ سویرا نے داد طلب نظروں سے دوراب کی طرف دیکھا ۔

کچھ زیادہ ہی صحیح سمجھا دیا ہے سویرا ۔۔ تھوڑا اور اچھے سے سمجھا لیںا تھا ۔۔وہ بےبسی سے بولا۔۔۔ دوراب کو سویرا سے ایسی بے رحمی کی امید نہیں تھی تبھی وہ بے یقینی سے سویرا کی طرف دیکھ رہا تھا۔۔

اب اس کی یہ تینوں سالیاں اس کی ہونے والی بیوی اور اس کے درمیان ناگنیں بن کر بیٹھ گئی تھی ۔۔ ںور کے منہ پر انہوں نے لنبا سا گھونگھٹ نکل دیا تھا ۔ اور اس کو لے کر روم میں جا رہی تھی ۔۔۔

یہ میرے ساتھ غلط کر رہی ہیں۔  دوراب نے روحا، امل اور انعم بیگم کی طرف دیکھ کر بولا ۔

بیٹا اللّٰہ تمہیں صبر دے ابھی تو آغاز ہوا ہے آگے اگے دیکھو کیا ہو گا۔۔۔ روحا بیگم نے اپنے بیٹے کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اس کو آگے کے لیے پہلے سے تیار ہونے کا کہا ۔

تمہیں ان آفتوں کو اکیلے خھلنا ہو گا ۔ امل بیگم نے رہی سہی ہمت تھوڑی۔

میں اکیلے نہیں جھیلوں گا میرے پاس بھی بوائز ٹیم ہے۔  دوراب نے کچھ ہمت باندھ  کر کہا ۔۔

ماشاللہ یعنی کے خود بھی ذلیل ہونا ہے اور باقیوں کو بھی کرنا ہے۔۔ انعم بیگم پُرسکون سا بولی ۔

اور پھر ٹی-وی لاؤنج میں امل بیگم ، روحا بیگم اور انعم بیگم کے قہقہے گنجے ۔۔۔

یار آپ لوگ تو ایسے نہ کریں میرے ساتھ ۔ دوراب نے بچاری شکل بنا لی۔۔

اچھا اچھا امل انعم مت تنگ کرو میرے بیٹے کو ابھی اس کی سالیوں نے اس کا جینا اور مشکل کرنا ہے۔۔ روحا بیگم نے اپنی ہنسی کنڑول کرتے ہوئے کہا۔۔۔

موم ایک بات تو بتائیں سگی اولاد ہی ہوں نہ ۔۔ دوراب نے اپنی ماں کو بھی ان ظالموں کے ساتھ ملتا دیکھ کر بولا ۔۔

ہاں ہاں سگی اولاد ہومگر وہ جو اوپر بیٹھی ہے نہ وہ تم سے بھی زیادہ پیاری ہے مجھے ۔۔ روحا بیگم نے ناک پر سے مکھی اڑائی ۔۔۔

صحیح صحیح ٹھیک ہو گیا ۔۔ چلیں اب پھر لڑکے والے بھی میدان میں اُترتے ہیں ۔۔ دوراب نور کے کمرے کے بںد دروازے کی طرف دیکھ کر بولا اور اور اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا ۔۔۔

چلو اب تیار ہو جاو روز ایک نئی جنگ ہونے والی ہے۔۔۔  امل بیگم بولی ۔

دیکھو اب کتنے کا آکڑا ہوتا ہے ان میں ۔۔ روحا بیگم نے اپنی رائے دی ۔

اللّٰہ جانے اب کیا ہو گا ۔ انعم بیگم ٹھنڈی آہ بھر کر بولی۔

••••••••••••••

وہ ابھی باتھ لے کر نکلا تھا۔۔ اپنے گلے بالوں کو ٹاول سے خشک کرتا بیڈ پر بیٹھا تھا ۔۔۔ کہ اچانک اس کا فون بجا۔۔۔

اس نے ٹاول اپنے کاندھے پر رکھا اور فون اٹینڈ کیا ۔۔

ہاں بولو نوریز ۔۔ شہزاد  کال پیک کرتے ساتھ بولا ۔ ساتھ ہی ایک نظر پیچھے سوئی لڑکی پر ڈالی۔

یار کیدھر ہو تم کل رات سے ہی نظر نہیں آ رہے ۔۔ نوریز فوراً بولا ۔۔

کیوں کیا مصیبت آ گئی ہے؟؟؟ شہزاد بیزار سا بولا اور اٹھ  کر بیڈ کی اس سائیڈ پر گیا جہاں  وہ سنہری بالوں والی لڑکی لیٹی ہوئی تھی ۔

مصیبت کوئی نہیں آئی اس لیا پوچھ رہا ہوں کیونکہ ادھر کام بہت زیادہ پڑھے ہوئے ہیں اور تم غائب ہوئے پڑھے ہو۔۔ ہو کہاں تم ۔۔۔ وہ بھی اس کے ہی لہجے میں بولا۔

میں پاکستان سے باہر آیا ہوا ہوں کچھ دنوں کے لیے سو پلیز فلحال مجھے تنگ مت کرو ۔۔ یہ کہہ کر اس نے فون سائیڈ ٹیبل پر پھینکا ۔۔۔۔ اور ساتھ سہنری بالوں والی لڑکی کے چہرے پر اپنی انگلی رینگ رہا تھا۔۔ اب وہ اس لڑکی کی گردن پر جھکا تھا اور اس کی گردن پر اپنے لب رکھ دیے۔۔ جس کی وجہ سے اس لڑکی کی انکھ کھل گئی تھی۔

۔۔ وہ نیند سے بھری آواز میں بولی تھی۔۔Come on shazad please stop it naaa ... Im too much tired now ..

Lily sweetheart you know me I don’t stop until I fulfill my desires ..

شہزاد  نے اس کی گردن میں سے چہرہ نکل کر اس کو دیکھا اور بہت نرم لہجے میں بولا۔۔

اور اب وہ اس کے ہونٹوں کے قریب جھوکا ہی تھا کہ اس کا فون پھر سے بج اٹھا ۔۔

آئی وانٹ ٹو کیل ہیم۔۔۔۔ شہزاد  غصہ میں  بولا۔

اور فون کی سکرین کو دیکھا اب کی بار نواز کی کال تھی۔

بکو۔۔ وہ کال اٹھاتے ساتھ دھارا ۔۔

شہزاد تم بس یہ بتاؤ تم اس وقت کیدھر ہو ۔۔۔۔ نواز نے اپنے لہجے کو نرم رکھتے ہوئے پوچھا ۔۔

یار میں دبئی آیا ہوا ہوں۔۔ کوئی تکلیف ہے تم لوگوں کو ؟؟ وہ بےحد بیزار سا بولا ۔

وہ دبئی ہے انکل ۔۔۔ نواز کی آواز فون پر سے گنجی ۔

تم کس کو بتا رہے ہو ۔ شہزاد آب کے سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔ ساتھ ہی سہنری بالوں والی لڑکی بھی اٹھ کر بیٹھ گئی۔۔ اس نے میرون کالیر کی نائیٹی پہن رکھی تھی۔ اس کی ہلکی نیلی آنکھوں کچی نیند خراب ہونے کی گواہ تھی۔۔ اس نے شہزاد کے بازوؤں پر اپنا سر ٹیکا لیا اور اس کے شرٹ لیس سینے پر انگلیوں سے لکیریں کھینچ لگی۔۔۔

تمہارے ڈیڈ پوچھ رہے تھے تم ان کی کال نہیں آٹھا رہے تھے ۔۔ نواز نے اس کی بات کا جواب دیا۔۔

شاید وہ رات میں کال کر رہیں ہوں گے اس وجہ سی نہیں اٹھائی ہو گئی ۔۔ وہ پر سوچ سا  بولا

خیر جو بھی انکل  بول رہے ہیں کہ کل ڈان نے ایک پارٹی اورگانائز کی ہے تو تم وہ پارٹی اٹینڈ کرو گے اور ڈان کے بارے میں کچھ معلومات جاننے کی کوشش کرو گے اس کی کوئی کمزوری کچھ بھی۔۔ نواز اس کو کل کے مطالق بتا رہا تھا جبکہ دوسری طرف شہزاد کچھ سوچ رہا تھا ۔۔

ہممممم ڈان سے ملنا تو مجھے بھی تھا چلو یہ اچھا ہو گیا کہ اس نے خود ایک پارٹی اورگانائز کی ہے۔۔۔ اس کے چہرے پر ایک شاطر مسکراہٹ تھی۔۔۔

اور ہاں اب تم لوگوں میں سے کوئی مجھے دوبارہ کال کر کے تنگ مت کرے ورنہ انجام اچھا نہیں ہو گا۔۔۔ یہ کہہ کر اس نے کال کاٹ دی ۔ اور للی کی طرف جھکا جو اب تک اس کی باہوں میں تھی۔۔

وہ للی کے باریک ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھتا اپنی پیاس بجھانے لگا  تھا۔۔ للی جانتی تھی اب وہ تب تک نہیں روکے گا جب تک وہ اپنی مرضی پوری نہ کر لے اس ہی لیے خود کو اس کے حوالے کر چکی تھی۔۔۔۔

••••••••••••••••

ذیک کل کی ساری تیاری پوری ہو چکی ہے۔   اس کا خاص آدمی اس وقت اس کے سامنے کھڑا تھا۔۔

ہممم ۔۔ اور یہ بتاؤ شکار کیدھر ہے ۔ اس نے سیگریٹ سلگھاتے ہوئے اپنے آدمی سے پوچھا۔۔۔

وہ اپنے دن اور رات رنگین کرنے میں مصروف ہے ۔۔  وہ ادھر اپنی گرل فرینڈ سے ملنے آیا تھا جو یہاں پیچھلے تین  دن سے آئی ہوئی ہے۔۔۔ اس نے ساری انفارمیشن دی ۔

کرنے دو اس کو اس کی راتیں اور دن رنگین۔ ذیک سگریٹ اپنے لبوں میں دبائے گلاس وال سے باہر دیکھتا بولا۔۔۔

اور یہ بتاؤ سلیم کیدھر ہے؟؟؟  سر سنے میں آ رہا ہے سلیم پاکستان چھوڑنے کے ارادے میں ہے مگر اس کی بیوی پاکستان ہی سٹیے کرے گئی۔۔ کیونکہ آخری دو سالوں سے اس کا اور اس کی بیوی کا تعلق کچھ خاص خوشگوار نہیں گیا۔۔ اس کی بیوی کو اس کے سارے افیئر کا پتا چل گیا۔۔

ساؤنڈ گڈ۔۔ سلیم پاکستان سے سیدھا دبئی میرے پاس آنا چاہیے ۔۔ سمجھ آئی ۔۔ اس نے سگریٹ کا دھواں ہوا میں چھوڑتے ہوئے کہا ۔

اور کل کی پارٹی کے انویٹیشنز بھیج دیے ہیں نہ؟؟ اس نے سر کرسی کی پشت سے لگایا ۔۔۔

یس ذیک سب کو بھیج دے ہیں ۔۔ ۔۔ اس کے خاص آدمی نے بتایا۔۔۔

شہزاد پر نظر رکھنا۔۔۔ مجھے پتا ہے وہ کچھ نہ کچھ ضرور کرے گا ۔۔ مجھے اس کی طرف سے کیسی کاروائی کا بہت شیدت سے انتظار ہے۔۔۔ اس نے سگریٹ پھر سے منہ میں رکھی۔۔۔

ذیک تم اس کو مارنا چاہتے ہو؟؟ اس کے آدمی نے پوچھا۔۔۔

مرنا تو ہے اس نے مگر اتنی آسان موت تو اس کو ہر گز نہیں ملے گئی۔۔۔ ذیک کے ہونٹوں پر دل دہلا دینے والی مسکراہٹ تھی۔۔۔

مجھے تو سمجھ ہی نہیں آ رہی تم کرنا کیا چاہتے ہو ۔ تنگ آ کر اس کا خاص آدمی بولا ۔

تم تو ایسے سوال کر رہے ہو جیسے مجھے جانتے ہی نہیں ہو۔۔ کیا تمہیں نہیں پتا کھیل اب شروع ہونے لگا ہے؟؟ وہ کرسی پر سے اٹھا  ہاتھ میں پکڑی تھوڑی بچی سگریٹ کو آش ٹرے میں مسلا کرسی کی پشت سے اپنا کوٹ اٹھیا اوراپنے خاص آدمی کی طرف بڑھا ۔۔

اور تمہیں پتا ہے جب میں کھیلتا ہوں کیسی کے ساتھ تو کیسے اس کو شے اور مات دیتا ہوں ۔۔ وہ اس کے کان کے قریب ہو کر بولا ۔۔

اس کا خاص آدمی بھی مسکرایا تھا۔۔۔

حدید تمہیں شاید اب تو اندازہ ہو گیا ہو گا میں کیا کرنے والا ہوں۔۔۔ زیک نے اپنی آنکھ ونک کی ۔

اللّٰہ ہی حافظ ہے اب ان کا۔  سنہری آنکھوں والے اس عربی شہزادے نے اپنے سامنے کھڑے اس ظالم انسان کو دیکھا جو تھا تو اس کا دوست مگر اکثر اس کو بھی اس کی سمجھ نہیں آتی تھی۔۔

ویسے ذیک بیسٹ کے ساتھ ایک میٹنگ ارینج کر دوں؟ کیا کہتے ہو؟؟ حدید نے ذیک کو جاتے دیکھ کر بولا ۔۔

ابھی اس کی ضرورت نہیں ۔۔  جب ضرورت ہو گئی تب خود ہی ملاقات کر لو گا ۔۔۔ ذیک کچھ سوچ کر مسکرایا تھا۔۔۔۔۔

اور حدید کو پیچھے آنے کا کہا کر باہر نکل گیا ۔۔۔

وہ بہت خاموش تھا جیسے کیسی کی موت کے بعد کی خاموشی ہو۔۔ اور حدید جانتا تھا یہ خاموشی

کیسی کی زندگی میں طوفان لانے والی ہے۔۔۔۔۔

•••••••••••••••••••

جاری ہے

Don’t copy without permission

I hope friends you like this novel ,, please share this novel with you friends too and thanks alot for your time .      Thank you<3


Comments