Dasht E Ulfat novel by Shazain Zainab episode no 10

 











بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

 ناول

 

دشتِ الفت

 

شازین زینب

 

 

 

 

 

 

 

 

Ep # 10

 

 

 

 

 

اپریشن تھیٹر کی سرخ لائٹ ابھی بھی جل رہی تھی۔۔۔۔۔ اندر سٹریچر پہ پڑا وجود اپنی زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہا تھا۔۔۔ سرخ و سفید رنگ اس وقت پیلا ہوا پڑا تھا اس کے جسم سے بہت زیادہ خون بہہ چکا تھا۔۔۔ پانچ ڈاکٹرز اس وقت سٹریچر کے آس پاس کھڑے تھے اور وہ اس وجود پر جھکے ہوئے تھے ہر ایک کے ہاتھ میں کوئی نہ کوئی آزار تھا۔۔۔ ان کے سفید رنگ کے گلوز سرخ ہوئے پڑے تھے۔۔۔ وقتا فوقتا ڈاکٹرز پاس رکھے اینیستھیزیا کے مونیٹر پہ اس کے ہارٹ بیٹ کو چیک کر رہے تھے۔۔۔۔ بلآخر  ڈاکٹرز نے اپنے آوزاروں کو ایک سائیڈ پر رکھا تھا اور اپنے چہرے سے ماسک اتار دیے تھے۔۔۔

وہ کب سے باہر بیٹھا تھا انتظار کر رہا تھا کہ اندر سے کب ڈاکٹر باہر نکلیں گے اس کے آنکھوں کے سامنے بار بار سنہری بالوں اور ہلکی نیلی آنکھوں اور سرخ و سفید رنگ والا ایک معصوم سا وجود آتا تھا۔۔۔ وہ کب سے سر جھکائے بیٹھا تھا اس کی انکھیں نم تھی ایک درد تھا ایک تکلیف تھی جو لمحہ بہ لمحہ اس کے سینے میں اٹھ رہی تھی اس کی انکھیں سرخ ہو چکی تھی۔۔۔ آخر کار ایک انسو ٹوٹ کے اس کے ہاتھ کی پشت پہ گرا تھا۔۔۔ جیسے وہ بہت کچھ ہار بیٹھا ہو جیسے بہت کچھ کھونے کا ڈر اس کے دل میں ہو۔۔

اللہ ۔۔۔۔۔ وہ کب سے ضبط کر کے بیٹھا تھا بالاخر اس کا ضبط ٹوٹ گیا اور ایک لفظ اس کے منہ سے نکلا۔۔۔

یا اللہ میں نے اپنی ماں کو کھونے کے بعد کبھی کسی کی زندگی یہاں تک کہ اپنی زندگی بھی نہ مانگی تجھ سے وہ جو اندر وجود پڑا  ہے اس کو زندگی دے دے میرے مالک۔۔۔۔ وہ سر جھکائے بیٹھا تھا اس وقت اس کا سر اس کی ہتھیلیوں میں تھا انسو اس کی آنکھوں  میں سے بہہ رہے تھے وہ تکلیف میں تھا یا شاید وہ اندر پڑے وجود کی تکلیف کو محسوس کر رہا تھا۔۔۔

یا اللہ وہ واحد ہے جس سے میں نے محبت کی ہے تو تو میری محبت کو جانتا ہے میری محبت پاک ہے اس کے اندر میں نے کسی کو شراکت دار نہیں بنایا یا اللہ اس کو  کچھ نہ ہونے دے۔۔۔ میرے میں اس کو ہونے کی ہمت نہیں ہے میرے مالک تو جانتا ہے میرے حال سے میری درد سے میری اذیت سے میری تکلیف سے تو ہر چیز سے واقف ہے میرے مولا۔۔ اگر آج میں نے اس کو کھو دیا تو میں مکمل درندہ بن جاؤ گا میرا دل مر جائے گا۔۔ یا اللّٰہ میرا دل مرنے سے بچا لے۔۔۔۔ اور یہاں حدید کا ضبط ٹوٹ گیا تھا ۔۔ انسو زار و قطار اس کی آنکھوں سے بہہ رہے تھے۔۔ وہ مرد ہو کے رو رہا تھا۔۔ کون کہتا ہے مرد نہیں روتا۔۔ مرد بھی روتا ہے تکلیف اس کو بھی ہوتی ہے انسان ہی ہے وہ بھی بس کبھی وہ اپنے آنسوں کو اپنے اندر اوتار لیتا ہے تو کبھی تنہائی میں ان کو باہر نکال دیتا ہے۔۔ مگر مرد بھی ایک مقام پر آ کر رو پڑتا ہے جہاں وہ بےبس ہو جائے جہاں بات اس کی عزیز ترین عورت کی ہو جہاں بات اس سے جوڑے قمیتی رشتوں کی ہو تو وہ ان کو کھونے کے ڈر سے اکثر رو پڑتا ہے۔۔ مرد کو خدا نے مضبوط بنایا ہے وہ اپنے احساسات کو خود می چھپا لیتا

اچانک اپریشن تھیٹر کا دروازہ کھلا وہ سیدھا ہوا اور اپنی انکھوں کو صاف کیا۔۔

Is she fine...

وہ ڈاکٹر کو دیکھ کر فورا سے بولا تھا۔۔

Operation is successful... Soon we shift her in room... We take her under observation for few days...

ڈاکٹر پروفیشنل انداز میں کہتی حدید کے سامنے سے گزر گئی تھی۔۔۔

حدید فورا سجدے کی حالت میں زمین پہ جھکا تھا۔۔۔

جیسے کسی نے اس کو اس کی زندگی کے نوید سنا دی  ہو جیسے اسی کی ادھوری دعا قبول ہو گئی ہو جیسے اس کو سب نواز دیا گیا ہو۔۔۔

کچھ ہی دیر میں للی کو روم میں شفٹ کر دیا گیا تھا۔۔۔ مگر وہ ابھی تک بے ہوش تھی۔۔۔ اس کے پاس کے سٹول پہ بیٹھا ہوا تھا۔۔ اس کی نظم مسلسل اس کے زرد پڑتے رنگ پر تھی۔۔۔ اس کے چہرے پہ نیل کا نشان تھا یہ نشان بار بار حدید کو تیش میں لا رہا تھا حدید کا اس وقت بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ کسی بھی طرح شہزاد کے پاس پہنچ کر اس کے وجود میں سے اس کی جان نکال دے۔۔۔ مگر فی الحال ایسا کر نہیں سکتا تھا۔۔۔

للی کی پلکوں میں ہلکی سی جنش ہوئی تھی۔۔ اس سے پہلے اس کی انکھیں کھلتی حدید نے فورا سے اپنا ماسک اپنے منہ پہ لگا لیا تھا۔۔ اور اٹھ کر باہر کی طرف بڑھنے لگا تھا۔۔

للی نے اپنی آنکھیں کھول لی تھی۔۔۔ اس کا سر درد سے بھاری تھا۔۔۔ اس نے اٹھنے کی کوشش کی مگر سر بھاری ہونے کی وجہ سے نہ اٹھ سکی تھی۔۔ تب ہی کمرے میں ایک ڈاکٹر داخل ہوئی تھی۔۔ جو آتے ساتھ اس کی نبض اور اس کی ہارٹ بیٹ چیک کرنے لگ گئی تھی۔۔ للی بلکل خاموش اس ساری کاروائی کو دیکھ رہی تھی اور چند لمحوں میں وہ دوبارہ آنکھیں بند ہو گئی تھی۔۔

Right now she is under the influence of the medicine and in a while she will regain full consciousness.......

ڈاکٹر نے باہر آ کر اس کو للی کی کنڈیشن کے بارے میں بتایا تھا۔۔۔۔۔ جکہ اس نے صرف سر کو اثبات میں ہلایا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔

•••••••••••••••

ایم-زی انفورمیشن کے مطابق دو دن بعد وہ لوگ کراچی  سے سمندر کے راستے اسمگلنگ کریں گے۔۔۔ سکندر ایم-زی کی ساتھ والی کرسی پر بیٹھا اس کو بتا رہا تھا۔۔

ہم لوگ اور کچھ دیر میں کراچی کے لیے نکلیں گئے۔۔۔ ایم-زی کرسی کی پشت سے ٹیک لگاتے ہوئے بولا تھا۔۔

مگر پلین سے جانا ہے یہ۔۔ اس سے پہلے فاروق کچھ بولتا ایم-زی بول اٹھا تھا۔۔۔

روڈ سے ۔۔ ایم-زی کی نظر سامنے سکرین پر تھی جہاں اس وقت عمران لغاری ، اکرم آفندی ، عثمان جعفر کا بنایا پلین نظر آ رہا تھا۔۔

وہ اپنے سامنے رکھے ہوئے شطرنج کو دیکھ رہا تھا۔۔۔ اب اس کی باری تھی۔۔ اور ایک ہی لمحے میں اس نے شطرنج کا سارا پاسا پلیٹ دیا تھا۔۔۔

اور یہ رہ چیک میٹ۔۔ اس نے بادشاہ کے سامنے اپنا بادشاہ رکھا تھا اور ایک طرف اس کی رانی کھڑی تھی اور ایک طرف نائٹ تھا۔۔ جبکہ فاروق منہ کھولے بیٹھا تھا۔۔۔

ایم-زی۔۔۔۔ فاروق منہ کھولے بولا تھا اس کو ابھی بھی یقین نہیں آ رہا تھا وہ جیتی گیم ہار گیا تھا اس کو شہ اور مات ملی تھی۔۔۔۔

ایک ور کرو اور ایسا کرو کے دشمن کی کمر توڑ دے۔۔۔۔ وہ دوبارہ کھڑا نہ ہو پائے سیدھا ۔۔۔۔ ایم-زی یہ کہتے ساتھ اٹھا تھا اور کرسی کے پشت پر لٹکی اپنی بلیک لیدر کی جیکٹ پہنے لگا تھا۔۔۔

کیا تم ان کو بھی شہ اور مات دو گے؟؟ حانی سے رہا نہ گیا تو پوچھ بیٹھا تھا۔۔۔

بلکل بھی نہیں ۔۔۔ ان کو اتنی آسانی سے شہ اور مات دینے کا میرا کوئی موڈ ںہیں ۔۔ کیونکہ جو دشمن پسند آ جائے اس کی کمر آہستہ آہستہ توڑوں اس کو اس کی کمر ٹوٹتی محسوس ہونی چاہیے وہ اس تکلیف کو ہر گزرتے لمحے کے ساتھ محسوس کرے۔۔۔۔ ایم-زی نے جیکٹ کی زیپ بند کرتے حانی کو دیکھ کر کہا تھا۔۔

مطلب تم ان کے ساتھ کھیلنا چاہتے ہو؟؟ سکندر کچھ سوچتے ہوئے بولا تھا۔۔

کہا جا سکتا ہے۔۔ ایم-زی نے سکندر کی طرف دیکھتے آنکھ ونک کی تھی۔۔۔

تم چیز کیا ہو۔۔۔ فاروق کو تو ابھی تک اپنے ہارنے کا دکھ کھائے جا رہا تھا تبھی تپ کر بولا تھا۔۔

چیز کا تو پتا نہیں بندہ کمال کا ہوں۔۔ یہ کہتے ساتھ ایم-زی اس کمرے میں سے باہر نکلا تھا۔۔۔

اور اس بات پر کوئی شک نہیں ۔۔ سکندر مدہم سا مسکرا کر بولا تھا۔۔

اور اب وہ تینوں بھی باہر نکلے تھے۔۔۔۔

••••••••••••••

وہ بستر پر اوندھے منہ پڑا ہوا تھا۔۔ اس کا فون کار کی چابیاں بیڈ پر ایک طرف پھینکی ہوئی تھی۔۔ جوتے ابھی تک اس کے پاؤں میں ہی تھے۔۔۔ وہ شاید ابھی تک کل رات کے نشے کے  خمار میں تھا۔۔ جب اس کی آنکھوں پر کھڑکی سے اندر آتی سورج کی روشنی پڑی تھی ۔۔ اس نے اپنی آنکھوں کو ہلکی سی جنش دی تھی۔۔ وہ اپنی آنکھوں کو کھولنے کی ہر ممکن کوشش کر رہا تھا۔۔ کچھ لمحے میں وہ اس میں کامیاب بھی ہو گیا تھا۔۔۔ وہ نیند سے بیدار ہو چکا تھا۔۔ سیدھی کروٹ لے کر سیلنگ کو گھور رہا تھا۔۔ ایک لمحے میں سیدھا ہو کر بیٹھ گیا مگر اس کا سر چکرا گیا تھا۔۔ شاید لاسٹ نائٹ ڈرنک کا اثر ابھی تک باقی تھا۔۔۔ اپنے سر کو سنبھالتا وہ  اٹھ کر واش روم میں گیا تھا۔۔۔

اپنی شرٹ اتار کر اس نے دور پھینکی تھی اور جا کر شاور کے نیچے  کھڑا ہو گیا تھا۔۔۔ جیسے ہی اس کے وجود پر پانی پڑا تھا وہ اپنی آنکھیں موند گیا تھا وہ اپنی بے سکونی کو سکون دینا چاہتا تھا یہ ٹھنڈا پانی بھی اس کی بےسکونی کو راحت نے دے پا رہا تھا۔۔۔۔ کافی در شاور کے نیچے کھڑے رہنے کے بعد وہ شاور بند کر کے وینٹی کے پاس گیا تھا سامنے لگے شیشے میں اس کو اپنا عکس نظر آ رہا تھا۔۔۔ گندمی رنگت ، سیاہ بال ، سیاہ ذہین آنکھیں ۔۔ وہ ایک قابل بزنس مین تھا مگر پھر بھی بے سکونی ہر وقت اس کے وجود پر تاری تھی ۔۔ اس کی آنکھوں اور بالوں کے ساتھ ساتھ شاید اس میں کچھ اور بھی سیاہ تھا مگر وہ اس بات کو جان ہی نہیں پا رہا تھا اور وہ سیاہ ہی اس کی بےسکونی کی وجہ رہی تھی جس کی وجہ سے وہ سب کچھ پا کر بھی خود کو خالی سمجھتا تھا۔۔ ایک آخری نظر خود کے وجود پر ڈال کر وہ واشروم سے باہر نکل آیا تھا۔۔ ڈریسنگ روم میں گیا اور ایک ڈریس نکلا اور تیار ہونے لگا تھا۔۔ ابھی وہ اپنی میرون شرٹ کے بٹن بند کر ہی رہا تھا کہ اس کا فون بجنے لگا۔۔ وہ ماتھے پر شکن لیے ڈرسنگ روم سے باہر نکلا تھا۔۔۔

ہیلو۔۔۔ اس نے فون کان کے ساتھ لگایا تھا۔۔۔

شہزاد تم نے اومان کب تک آنا ہے ؟؟ نوریز دوسری طرف سے بولا تھا۔۔

نواز پہنچ گیا ہے؟؟ شہزاد نے کچھ سوچتے ہوئے سوال کیا تھا ۔

نہیں نہ وہ آیا ہے نہ تم آئے ہو اور ادھر دو دن میں پاکستان سے مال نکل رہا ہے۔۔۔ نوریز اپنا غصہ دباتا بولا تھا۔۔

ہممممم میں کرتا ہوں نواز کو فون اور مال پہنچنے سے پہلے اومان پہنچ جاؤ گا۔۔ یہ کہتے ساتھ اس نے کال کاٹ دی تھی۔۔ اور کچھ سوچتے ہوئے ایک نمبر ڈائل کیا تھا اور پاس پڑھے ائیر بڈز کو کان میں لگا لیا تھا۔۔ اور شرٹ کے بٹن بند کرنے لگا تھا۔۔

مسلسل کال جا رہی تھی۔۔ مگر کوئی اٹھا نہیں رہا تھا ۔۔

جاہل آدمی بکواس بھی کی تھی کے وقت سے اومان پہنچ جائے ۔۔۔ شہزاد نے غصے سے دوبارہ کال ملائی تھی اب کی بار بھی کال نہیں اٹھائی تھی اس نے۔۔۔۔

وہ اس وقت کمرے میں کھڑا مسلسل کالز کر رہا تھا اس نمبر پر مگر کوئی بھی کال پیک نہیں ہوئی تھی۔۔۔ تنگ آ کر اس نے فون بیڈ پر پھینک دیا تھا۔

عقل کا اندھا ۔۔۔ شہزاد غصے میں بولا تھا ساتھ ہی سامنے پڑے وڈن ٹیبل کو ٹھوکر ماری تھی ۔۔۔۔۔

••••••••••••••

آہہہہ ۔۔۔۔۔ وہ بہت زور سے  زمین پر گری تھی کہنی اس کی زمین سے بہت زور سے لگی تھی۔۔۔۔ وہ اپنی کہنی کو سہلاتے سیدھی ہوئی تھی۔۔۔

جلدی اٹھو شاباش میں نہیں اٹھاؤ گا۔۔۔ شاہد صاحب نے اس کو اٹھنے کا بولا تھا۔۔

میری کہنی پر لگی ہے۔۔۔ جزا شاہد صاحب کی طرف دیکھتے ہوئے بولی تھی۔

بیٹا ابھی تو پتا نہیں کتنی چوٹیں لگنی ہے ۔۔ تمہیں کیا لگتا ہے سیلف ڈیفنس سیکھنا فائٹنگ سیکھنا کوئی آسان کام ہے۔۔۔ شاہد صاحب اس کو دیکھتے ہوئے بولے تھے ۔۔۔

جزا اپنے ہاتھوں کے سہارے زمین پر سے اٹھی تھی ۔ ویسے آپ کی فائٹنگ سکیل بہت کمال کی ہیں  میں بھی سیکھوں گئی۔۔۔ جزا اٹھتے ہوئے باپ سے بولی تھی۔۔۔

بہت ٹائم لگے گا مگر سیکھ جاؤ گی۔۔۔ شاہد صاحب ہموار لہجے میں بولے تھی ۔۔

مگر آپ نے یہ کس لیے اور کیوں سیکھی تھی؟؟  جزا نے ایک اور سوال کیا تھا۔۔۔

تم کس لیے اور کیوں سیکھ رہی ہو؟.. شاہد صاحب نے سوال کے بدلے سوال کیا تھا۔۔

کیونکہ مجھے شوق ہے۔۔۔ جزا نے فوراً جواب دیا تھا۔۔۔

تو بس مجھے بھی شوق تھا۔۔۔ شاہد صاحب نے بھی اس کو اس کے ہی انداز میں جواب دیا تھا۔۔۔

وہ فوراً آگے بڑھے تھے انہوں نے جزا کو گردن سے پکڑنا چاہا مگر وہ اپنے بچاؤ کے لیے فوراً جھکی تھی۔۔۔

That’s good ...

شاہد صاحب اس کو دیکھتے ہوئے بولے تھے۔۔۔ کے اچانک جزا نیچے کی طرف جھکی تھی اور اپنی ایک ٹانگ پر وزن ڈال کر دوسری ٹانگ سے شاہد صاحب کو گرانے لگی تھی۔۔۔ مگر اس سے پہلے ہی شاہد صاحب نے زمین سے کچھ اوپر چھلانگ لگائیں تھی ۔۔۔

میری سٹوڈنٹ میرے ساتھ ہی ہوشیاریاں۔۔۔ شاہد صاحب اس کو دیکھتے ہوئے بولے تھے ۔۔۔۔ جبکہ جزا شاہد صاحب کے اس دفاع پر منہ پھولا کر بیٹھ گئی تھی۔۔

کیا تھا جو آپ تھوڑا سا گر جاتے ۔۔ وہ روٹھے ہوئے انداز میں بولی تھی۔۔۔

تو تمہیں سیکھاوں گا کیسے اگر تمہاری خوشی کے لیے مار کھاتا رہا اور گرتا رہا تو۔۔ شاہد صاحب نے اس کے سر پر ہلکی سے چپت لگائی تھی ۔۔۔

جائیں یار میں بات نہیں کرتی ۔۔۔ جزا نے منہ دوسری طرف کیا تھا ۔۔

اچھا بہانا ہے اپنی جان بچانے کا۔۔ شاہد صاحب نے ایک آئی برو اٹھا کر اس کی طرف دیکھا تھا۔۔۔

کیا یار ان کو کیسے پتا چل جاتا ہے۔۔۔ وہ اتنا ہلکی آواز میں بولی تھی  کہ بامشکل خود سن پائی تھی۔۔

چلو جلدی کرو اٹھو شاباش ابھی ریس بھی لگانی ہے میڈم ۔۔۔ شاہد صاحب نے جزا کو سخت نظروں سے نوازا تھا۔۔۔

ویسے نہ آپ بہت سخت کوچ ثابت ہوئے ہیں ۔۔۔ جزا معصوم سی شکل بنا کر بولی تھی۔۔۔

اگر آج ریس میں ہاری تو میں اس سے بھی زیادہ سخت کوچ بنوں گا۔۔ شاہد صاحب نے اس کو وارننگ دینے والے انداز میں کہا تھا۔۔ جبکہ جزا ٹھنڈی آہ بھر کر رہ گئی تھی۔۔۔

اس وقت وہ دونوں پارک کے واکنگ ٹریک پر بھاگ رہے تھے۔۔ شاہد صاحب آگے تھے جب کے جزا اپنی ساری جان لگانے کے بعد بھی شاہد صاحب سے پیچھے تھی۔۔۔ شاہد صاحب وننگ پوائنٹ پر پہنچ کر جزا کر ویٹ کر رہے تھے۔۔۔

ہار گئی۔۔۔ جیسے ہی جزا وننگ پوائنٹ پر پہنچی شاہد صاحب بولے تھے۔۔۔

آپ کھاتے کیا ہیں اس عمر میں بھی اتنی سپیڈ ۔۔۔۔ جزا پھولے ہوئے سانس کے ساتھ بولی تھی ۔۔۔

بیٹا میں ابھی بھی تم لوگوں سے زیادہ جوان ہوں۔۔ اور آج تمہارا رننگ ٹائم دو منٹ کم ہوا ہے۔۔ نیکسٹ اس سے بھی کم چاہیے ہے مجھے ۔۔۔ شاہد صاحب کی روبدار آواز نے جزا کی رہی سہی ہمت بھی ختم کر دی تھی۔۔۔

مسٹر شاہد تھوڑی دیر کے لیے ذرہ میرے ڈیڈ بن جائیں پلیز ۔۔۔۔ مجھے بھوک لگی ہے اب گھر چلیں ۔۔۔ جزا سہی معنوں میں اب مینت پر اتر آئی تھی۔۔۔

چلو پہلی تمہیں گھر چھوڑ دوں پھر ایک ضروری کام پر جانا ہے مجھے اپنی ماما کو بتا دینا۔۔۔ بلآخر شاہد صاحب کو اس پر رحم آ ہی گیا تھا۔۔۔

میں ساتھ چلوں ؟؟ جزا کی آنکھوں میں چمک آئی تھی۔۔۔

ابھی نہیں ۔۔۔ ایک دن چلو گئی تم بھی۔۔۔ ابھی صبر کرو۔۔۔ شاہد صاحب کچھ سوچتے ہوئے بولے تھے۔۔۔

مگر جا کہاں رہے ہیں ۔۔۔ جزا پوچھے بنا رہ نہ سکی تھی۔۔۔

کچھ باتیں وقت پر ہی پتا چلیں تو اچھا رہے گا۔۔۔ شاہد صاحب اس کی نازک سی ناک دباتے بولے تھے۔۔۔ جبکہ جزا بس گھور کے رہ گئی تھی۔۔ اس کو کبھی کبھی اپنی ہی باپ کی حرکتوں پر شک ہوتا تھا۔۔۔

••••••••••••

وہ  ایک اندھیرے میں ڈوبی راہداری میں چل رہے تھے۔۔۔ بھاری بوٹوں کی آواز اس سناٹے میں گونج رہی تھی۔۔ وہ دونوں ایک دروازے کے سامنے کھڑے ہوئے تھے ۔۔ ایک لمحے کے لیے روکے اور آس پاس ایک نظر دوڑائی اور دروازے کو کھولا تھا ۔۔

اب وہ سیڑھیوں سے اُترتے ہوئے ایک بیسمنٹ کے سامنے کھڑے تھے۔۔۔  وہ آہستہ آہستہ قدموں کو آگے بڑھا رہا تھے۔۔۔

تیاری کیسی ہے تم لوگوں کی۔۔۔ وہ بیسمنٹ کے اندر پہنچتے ہوئے بولے تھے ۔۔

وہ چاروں جو اپنے بیگز میں سارا سامان ڈال رہے تھے ایک لمحے کے لیے روکے تھے جب اچانک انہوں نے پیچھے موڑ کر دیکھا تو حیران رہ گئے تھے۔۔۔

خان ، الفا،،،۔۔۔ ایم-زی اور سکندر مدہم آواز میں حیرت سے بولے تھے۔۔۔

کیا ہوا اتنے حیران کیوں ہو گئے ہو بوائز ؟؟ خان آگے بڑھتے ہوئے بولے تھے۔۔۔۔

خان مجھے لگتا ہے ان کو ہمارے اِدھر آنے کا اندازہ نہیں تھا۔۔۔ الفا بھی خان کے ساتھ آگے بڑھے تھے۔۔۔

آپ دونوں کو اس جگہ کا پتا کیسے چلا ۔ ایم-زی ان دونوں کو دیکھتے ہوئے بولا تھا۔۔۔

ہمممم ۔۔ وہ دراصل کیا ہے نہ کبھی یہ جگہ ہماری ہوتی تھی۔۔۔ خان آگے بڑھتے ہوئے چیس بورڈ کے سامنے روکے تھے ۔۔۔ جبکہ ان چاروں کی نظر اس وقت خان اور الفا پر تھی۔۔

ویسے کب نکل رہے ہو تم لوگ؟؟ الفا نے ایک پیادے کو اٹھاتے ہوئے کہا تھا۔۔۔

بس اور کچھ وقت میں ۔۔۔ سکندر بولا تھا۔۔۔

ہمممم ۔۔۔ خان کچھ سوچتے ہوئے شطرنج کو دیکھ رہے تھے۔۔۔

شطرنج میں ان چھوٹے چھوٹے پیادوں سے بھی مات دی جا سکتی ہے۔۔  خان نے ایک سفید رنگ کا پیادہ اٹھایا تھا اور اس کی جگہ سیاہ رنگ کے پیادے کو رکھا تھا۔۔۔

اور یہ چھوٹے پیادے بہت بھاری نقصان بھی کر سکتے ہیں ۔۔۔ اب کی بار الفا نے سیاہ رنگ کا ہاتھی اٹھیا تھا جو اس وقت سفید رنگ کے پیادے سے آگے تھا مگر اس کی بائیں جانب تھا۔۔ اور وہاں وہ سفید پیادہ رکھ دیا تھا۔۔۔

آپ کہانا کیا چاہتے ہیں ۔۔ حانی کچھ کنفیوز سا بولا تھا۔۔

مطلب یہ کے ان سب کو پہلے چھوٹے چھوٹے پیادوں سے ماروں مگر ان کا نقصان زیادہ کرو۔۔ ان کی بنیاد کی مضبوطی کو چھوٹی چھوٹی زربوں سے توڑوں اور پھر ایک بار ہی بڑا وار کرو جس سے وہ ڈھ جائیں ۔۔۔ یہ ہی مطلب ہے نہ آپ دونوں کا ۔۔ اس سے پہلے خان اور الفا کچھ بولتے ایم-زی بولا تھا اور اپنی ساری بات مکمل کرنے کے بعد ان سے اس بات کی تصدیق چاہتا تھا کہ کیا وہ ان کے مدہے پر پہنچا ہے کہ نہیں ۔۔

بہت خوب ایم-زی ۔۔ اس وجہ سے ہی میں کہتا ہوں کے تم الفا ہو ۔۔ الفا آگے کی ظرف بڑھے تھے اور اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا۔۔

اور میں بھی آپ کو بول چکا ہوں ایک وقت میں ایک جگہ پر صرف ایک ہی الفا ہو سکتا ہے ۔ جب تک آپ ہیں تب تک مجھ پر الفا بنا حرام ہے۔۔۔ ایم-زی سر اٹھا کر الفا کی نظروں سے نظر ملا کر بولا تھا۔۔ الفا کو ہمیشہ سے اس کا یہ انداز پسند تھا۔۔۔

ایک بات یاد رکھنا لڑکوں ۔۔ کیسی بھی قسم کی مدد چاہیے ہو فوراً رابطہ کرو گے ۔۔۔ خان ان چاروں کو دیکھتے ہوئے بولے تھے۔۔

ہمیں بس کچھ فی میل اوفسر چاہیے تھی جو لڑکیوں کو اپنی نگرانی میں محفوظ مقام پر لے جائیے اور اس کا بھی انتظام ہو گیا ہے کراچی ہیڈ کوارٹر سے رابطہ کر لیا تھا۔۔ اب کی بار سکندر بولا تھا ۔

یعنی کے تم لوگوں کو مدد نہیں چاہیے فلحال ؟ ۔ خان نے ایک آئی برو اٹھا کر سکندر کی طرف دیکھا تھا۔۔

کچھ ایسا ہی سمجھ لیں۔۔ سکندر نے کندھے اوچکے تھے ۔۔۔

اب وہ چاروں اپنا سامان کار میں رکھ رہے تھے جبکہ خان اور الفا اُدھر ہی کھڑے تھے۔۔۔۔

اب اجازت دیں آپ دونوں۔۔۔ ایم-زی ان دونوں کے سامنے کھڑا ہوتے بولا تھا۔۔

اللّٰہ تم لوگوں کو کامیاب کرے ۔۔ خان اور الفا ایک ساتھ بولے تھے۔۔ اور اگلے ہی لمحے وہ سب کار میں سوار ہو چکے تھے اور اگلے ہی لمحے وہ اپنی منزل کے لیے نکلے تھے۔۔۔ دشمنوں کی چالوں کو ناکام بنانے کے لیے۔۔۔۔

•••••••••••••

وہ کب سے بیڈ پر لیٹی روم کی سیلنگ کو دیکھ رہی تھی۔۔ اس کو ابھی تک یقین نہیں آ رہا تھا وہ بچ گئی تھی۔۔ اس کی آنکھیں آنسوں سے بھری ہوئی تھی ۔ اس نے اپنا آخری خاندان بھی کھو دیا تھا ۔ اپنی بہن اپنا بھانجا اپنا بچہ اس کو سمجھ نہیں آ رہا تھا وہ زندہ کیوں ہے۔۔ جس شخص سے اس نے اتںی محبت کی تھی وہ سب تباہ کر گیا تھا ۔۔ ایک آنسو ٹوٹ کر اس کے بالوں میں جذب ہوا تھا۔۔۔

وہ اپنی سوچوں میں ہی گم تھی جب کوئی روم کا دروازہ کھول کر آیا تھا۔۔

وہ ایک ڈیلیوری بوائے تھا جس کے ہاتھ میں  اس وقت وائٹ للی کا بوکے تھا۔۔۔

You are miss lily??

اس نے للی کو دیکھتے یوئے سوال کیا تھا ۔۔

Yes,, I’m ...

للی تھوڑی نروس سی بولی تھی۔ 

This is for you from Mr. Amall..

اس نے وہ بوکے للی کی طرف بڑھیا تھا۔۔۔

للی نے اس بوکے کو تھام تو لیا تھا مگر اس کو ابھی تک کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا یہ سب ہو کیا رہا ہے۔۔۔

Amall...

وہ مدہم آواز میں بولی تھی اس کو یوں لگ رہا تھا جیسے اس نے یہ نام سن رکھا تھا۔۔ اس نے بہت سوچنے کی کوشش کی کہ اس نے یہ نام کہاں سے رکھا ہے لیکن جب اس کو اندازہ ہوا کہ یہ کون ہے تو اس کی انکھیں حیرت سے کھل گئی تھی۔۔۔۔

Amall ZAK’s right hand ....

للی کی اواز میں بلا کی حیرت تھی اس کو ابھی بھی یقین نہیں آ رہا تھا کہ یہ وہ ہوگا۔۔۔

اس نے بوکے کو اچھے سے دیکھا تھا لیکن اس کو اس بوکے کے اندر سے کوئی بھی چیٹ یا کوئی کارڈ نہیں ملا تھا وہ حیران پریشان دوبارہ بستر پہ لیٹ گئی تھی۔۔۔۔

Ohhhh God ..

تکیے پہ سر رکھ کر وہ سرد اہ بھر  کے رہ گئی تھی۔۔۔

وہ مکمل طور پر الجھ چکی تھی اس کا دماغ کئی ہزار سوچوں سے گھرا پڑا تھا اپنا خاندان کھو دینا اپنی بہن اپنا بھانجا اپنا بچہ سب کچھ تو اس نے کھو دیا تھا اس شخص کو بھی جس سے اس نے محبت کی تھی وہ نہیں جانتی تھی اس کا مستقبل کیا ہونے والا ہے اس کے مستقبل میں کیا آنے والا ہے وہ کس چیز کا سامنا کرنے والی ہے وہ ایک کوڑے کاغذ کی مانند اپنے مستقبل کو دیکھ رہی تھی جس پہ پتہ نہیں کیا لکھا جانے والا تھا وہ تنہا تھی اس وقت۔۔ اس نے شاید ہی خود کو کبھی اتنا بے بس اور لاچار محسوس کیا ہوگا جتنا وہ آج خود کو کر رہی تھی۔۔۔ انسو اس کی آنکھوں سے روا تھی اب اس کی سسکیاں بنتی جا رہی تھی ۔۔ اسے اندازہ بھی نہیں تھا جس شخص سے اس نے محبت کی تھی وہ اس کو کس دلدل میں لا پھینکے گا اس کو اندازہ بھی نہیں تھا وہ اپنے ہاتھوں سے اپنے آپ کو تباہ کر رہی تھی اپنے ہاتھوں سے اپنا مستقبل عذاب بنا رہی تھی اپنے ہاتھوں سے اپنے ماضی کو آگ کی نظر کر رہی تھی ۔۔

I ruined my own life.....

( میں نے اپنی زندگی تباہ کر دی۔۔ ) اس کے انسو سے بھیگی آواز میں ایک ترپ تھی۔۔۔

You be ruined Shahzad Akram, I hate you, I hate you, you have destroyed my last support. How cruel you are.

 ( تم برباد ہو جاؤ شہزاد اکرم،، مجھے نفرت ہے تم سے، نفرت ہے تم سے، تم نے میرا آخری سہارا بھی ختم کر دیا ۔ تم کتنے ظالم ہو۔۔) وہ سیسکتے ہوئے بول رہی تھی۔۔۔

I wish I didn’t love you, I wish you didn’t come into my life, I wish I died before you came, You never met me nor I was the sight of your lust, Loving you was the biggest loss of my life. And I will regret it for the rest of my life I wish I didn’t confess my love to you. I wish I wish.....

(کاش مجھے تم سے محبت نہ ہوتی۔۔ کاش تم میری زندگی میں نہ آتے کاش تمہارے آنے سے پہلے میں مر جاتی۔۔ تم مجھے کبھی نہ ملتے نہ میں تمہاری ہوس کی نظر ہوتی۔ تم سے محبت میری زندگی کا سب سے بڑا خسارا تھا۔۔ اور اس کا  پچھتاوا مجھے میری ساری زندگی رہے گا ۔کاش میں تم سے محبت کا اعتراف نہ کرتی۔۔ کاش کاش ۔۔۔) نہ جانے کتنے کاش تھے آج اس کی زندگی میں ۔۔ ایک ترپ تھی اس کی آواز میں ۔۔ وہ بےتحاشہ رو رہی تھی ۔ اور روم سے باہر کھڑا وجود اس کے ایک ایک لفظ کی اذیت کو محسوس کر رہا تھا۔۔۔ اس نے اپنے اندر کے غصے کو دبانے کے لیے مٹھیاں بھینچ لی تھی۔۔

••••••••••

شہزاد اس وقت سلالہ ائیرپورٹ پر تھا جہاں نواز اور نوریز پہلے سے موجود تھی۔۔۔ نواز ابھی دو گھنٹے پہلے ہی اومان پہنچا تھا۔۔۔ شہزاد اس کو سخت غصے سے گھورتا آگے بڑھا تھا۔۔۔۔

فون کس لیے رکھا ہوا ہے تم نے؟؟ شہزاد دانت پیس کر بولا تھا۔۔

وہ میں ۔۔۔ ابھی نواز اپنی بات پوری کرتا کہ شہزاد بولا تھا۔۔

اگر ضرورت کے وقت کال اٹینڈ نہیں کرنی ہوتی تو ایک کام کرو اس فون کو کیسی کو خیرات کر دو۔۔۔ شہزاد آنکھوں میں خون لیے نواز کو بولا تھا۔۔۔

وہ میں اس وقت سو رہا تھا کافی تھکا ہوا تھا ۔ نواز مدہم آواز میں بس منمنا ہی سکا تھا۔۔

کیوں ترکی جاتے ساتھ بوریاں لادنے لگ گئے تھے؟؟ شہزاد نے ایک ایک لفظ چبا کر بولا تھا اس کا بس نہیں چل رہا تھا نواز کا گلا دبا دے۔۔۔ جبکہ نوریز پرسکون سا کھڑا تھا۔۔ کیونکہ نواز اس کی تو سنتا نہیں تھا بس ایک شہزاد ہی اس پر چڑھائی کر سکتا تھا۔۔۔

سوری ۔۔۔۔ نواز نے اپنی جان چھڑانے نے لیے کہا تھا ۔

سوری ۔۔ تمہارے لیے یہ سب مذاق ہے!؟ تم سے تو ہوٹل پہنچ کر بات کرتا ہوں میں ۔۔ یہ کہتے ساتھ وہ اپنا بیگ نوریز کے ہوالے کر کے آگے بڑھ گیا تھا ۔۔

یہ خود کو سمجھتا کیا ہے ۔۔ نواز کی اوشن گرین آنکھیں آگے بےخوابی کی شکایت کر رہی تھی اب اس کی آنکھوں میں دبہ دبہ غصہ بھی تھا۔۔ جبکہ اس کے ساتھ کھڑے نوریز کی انکھوں میں شرارت تھی ۔۔۔۔

جب کام ذلیل ہونے والے کرو گے تو پھر یہ تو ہو گا ہی نہ۔۔ نوریز اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر ایک آنکھ ونک کر کے آگے بڑھ گیا تھا۔۔

اگر تو میرا بھائی نہ نہ ہوتا تو آج تیرا قتل کر دیتا میں ۔۔ بتا تو دیتے اس نے بھی آج آنا تھا ۔ نواز نے نوریز کی گردن پیچھے سے پکڑتے غصے سے بولا تھا اور اس کے ساتھ چلنے لگا تھا۔۔

وہ تینوں اس وقت ہوانا ریزورٹ ولا میں  موجود تھے جو  ساحلے سمندر سے کچھ ہی فاصلے پر تھا۔۔

ان تینوں نے ایک ایک ولا کچھ دنوں کے لیے لیا تھا۔۔ یہ تینوں ولا دیکھنے میں ایک جیسے تھے۔۔ اپ سٹیار بیڈ روم، نیچے ٹی-وی لاؤنج اور سیٹنگ آیریا اوپن کچن تھا۔۔ اگر اس سے باہر نکلے تو سامنے ایک بڑا سوئمنگ پول تھا۔۔

وہ تینوں اپنے اپنے ولا میں سامان رکھوا کر اس وقت باہر پول کے سامنے بیٹھے تھے۔۔۔۔

تمہارا کوئی کونٹیکیٹ ہوا پاکستان ؟؟؟ نواز کچھ سوچتے ہوئے بولا تھا۔۔۔

ہاں۔۔۔ سارا سامان آج رات کو پاکستان سے بھیج دیا جائے گا۔۔۔ شہزاد ہاتھ میں پکڑا وائن گلاس کو لبوں کے ساتھ لگتے بولا تھا۔۔۔

ہمم مطلب کچھ دن ویٹ کرنا پڑے گا۔۔۔ نواز نے چیر کے ساتھ ٹیک لگاتے کہا تھا ۔۔

تو کیوں نہ ان کچھ دنوں میں زندگی کو جیا جائے ؟؟ نوریز دور کھڑی کچھ لڑکیوں کو دیکھ کر بولا تھا جو نہ جانے کب سے ان کو دیکھ رہی تھی۔۔

آئیڈیا برا نہیں ہے؟؟ نواز کچھ سوچتے ہوئے بولا تھا۔۔۔

بہت ہی کمینے اور زلیل ہو تم دونوں ویسے۔۔ شہزاد ان دونوں کو دیکھتے ہوئے بولا تھا جب کے چہرے پر خباثت سے بھری مسکراہٹ تھی۔۔۔

اور ساتھ ہی تینوں کا قہقہہ گونجا تھا۔۔۔

••••••••••••••

رات کے پونے دو بج چکے تھے کراچی کی بندرگاہ پر اس وقت لہروں کا شور تھا۔۔

وہ چاروں اپنے باقی ساتھیوں کے ساتھ اس وقت بندرگاہ کے قریب کھڑے تھے۔۔ سب کے چہرے ماسک سے کاور تھے ۔ پاکستان آرمی کا یونیفارم پہن رکھا تھا ہاتھوں میں گن تھی وہ سب تیار کھڑے تھے بس ایک اشارے کا انتظار تھا ایم-زی کی طرف سے۔۔۔

عمران لغاری ، اکرم آفندی ، عثمان صغیر تینوں اس وقت سارا سامان کنٹینرز کے اندر لوڈ کروا رہے۔۔ اور کچھ ہی دیر میں ان کنٹینرز نے وہاں سے نکلنا تھا۔۔

ابھی وہ لوگ سارا سامان لوڈ کروا کر ہٹے ہی تھے کہ اچانک فائرنگ کی آواز آئی تھی۔۔

ایم-زی اور اس کے ساتھی اس وقت فائرنگ کر کے ان کے سب آدمیوں کو مار رہے تھے۔۔ جبکہ عمران ،اکرم اور عثمان صاحب اپنی جان بچانے کے لیے دور کیسی جگہ چھپ گئے تھے۔۔

دونوں طرف سے فائرنگ زور و شور سے ہو رہی تھی ایم-زی کے ایک دو ساتھیوں کو گولی لگی تھی مگر وہ پھر بھی ڈیٹ کر مقابلہ کر رہے تھے۔۔ جبکہ مخالفین کے تقریباً تمام آدمی مار دیے گئے تھے۔۔ جو کافی زخمی تھے وہ اس وقت ایم-زی کے ساتھیوں کے ہاتھ میں تھے۔۔۔ اب وہ سب کنٹینرز کی طرف بڑھ رہے تھے ۔ جس کنٹینر میں لڑکیاں تھی اس کو فی میل آفیسرز اپنی کسٹیڈی میں  لے چکی تھی۔۔۔

عثمان ، اکرم ، عمران اپنی اپنی گاڑیوں کے پیچھے چھپے ہوئے تھے۔۔ کہ اچانک عمران صاحب نے اپنی جیب سے ایک گن نکالی تھی اور اس کو لوڈ کیا تھا۔۔ اب گن کا روخ ایم-زی کی طرف تھا۔ اور اگلے ہی لمحے  گن سے ایک گولی نکلی تھی۔۔ فائر کی آواز سے جیسے ہی ایم-زی موڑا تو وہ گولی اس کے بازوؤں میں لگی تھی۔۔۔

شیٹ۔۔۔۔ اپنا نشانہ خطا ہوتا دیکھ عمران لغاری فورآ کار میں بیٹھے تھے۔۔ اور اس کی اس حرکت کی وجہ سے اکرم اور عثمان صاحب بھی فوراً اپنی اپنی گاڑیوں میں بیٹھے تھا جبکہ اکرم صاحب کا غصے سے برا حال تھا۔۔۔۔

جبکہ پیچھے سے سکندر نے گاڑیوں کا نشانہ لیا تھا جب ایم-زی نے روکا تھا۔۔۔

سکندر نہیں جانے دو انہیں۔۔۔ ایم-زی آنکھوں میں قہر لیے ان کو جاتا دیکھ رہا تھا۔۔

ایم-زی سب سے پہلے تم چلو ادھر سے ۔۔۔ فاروق فوراً ایم-زی کے پاس آیا تھا۔۔۔

نہیں سب سے پہلے ڈرگز کو آگ لگا دو اور سارا اسلحہ کو اپنی کسٹیڈی میں لو ۔ اور لڑکیوں کو ادھر سے سیف پوئٹ پر بھیجو۔ ایم-زی فاروق اور سکندر کو دیکھتے ہوئے بولا تھا۔۔

مگر ایم-زی ۔۔۔ ابھی سکندر کچھ بولتا کہ ایم-زی بولا تھا۔۔۔

ایک گولی سے میں نہیں مرتا۔۔ مجھے مارنے کے لیے انہیں بڑے جگر کی ضرورت ہے جو کہ ان کے پاس نہیں ہے ۔۔ ایم-زی کی آواز میں اس وقت ایک قہر تھا۔۔۔ اور یہ قہر کس وجہ سے تھا اس کا کیسی کو اندازہ نہ تھا۔۔

•••••••••••••

ان کی گاڑیاں ابھی بندرگاہ سے کچھ ہی آگے گئی تھی کہ اچانک فضا میں ایک زوردار دھماکے کی آواز آئی۔۔۔ آگ کے شعلے فضا میں بلند ہوئے تھے ۔۔۔

عمران لغاری کو یہ دیکھ کر ابھی بھی یقین نہیں آ رہا تھا کہ ان کا پلان ایک بار پھر سے ناکام ہو گیا۔۔۔

عمران لغاری  کی گاڑی کے پیچھے ہی اکرم صاب اور عثمان صاحب کی گاڑی بھی تھی جبکہ وہ دونوں اپنا غصہ کنٹرول کرنے میں لگے ہوئے تھے کیونکہ ان کو رہ رہ کے عمران لگاری پہ غصہ آ رہا تھا کہ اس نے گولی کیوں چلائی۔۔۔

•••••••••••••

تمہارا دماغ چل گیا ہے کیا عمران۔۔۔ اکرم صاب عمران لغاری کے کراچی میں بنے فارم ہاؤس پر پہنچتے ساتھ ان پر چلائے تھے۔۔۔

ہے ہو گیا ہے میرا دماغ خراب ۔۔ عمران لغاری مقابلے پر چھیلائے تھے۔۔۔

تم مجھے یہ بتاؤ  گولی کیا سوچ کر چلائی تھی؟؟ اگر اُدھر ان کی نظر میں آ جاتے تو اس وقت ہماری لاشیں ہوتی اُدھر ۔۔ اکرم صاحب غصے سے عمران صاحب پر بول رہے تھے۔۔۔

میرا بس نہیں چل رہا میں اس افیسر کو جان سے مار دوں۔۔۔ عمران صاحب غصے سے بولی جا رہے تھے۔۔۔

عمران اپنا غصہ کم کرو۔۔ عثمان صاحب اب کی بار بولے تھے۔۔۔

نہیں  ہو رہا غصہ کم میرا۔۔ عمران صاحب صوفے پر بیٹھتے غصے سے سامنے وال کو دیکھتے بولے تھے۔۔۔

سب سے پہلے یہ پتا لگاؤ آرمی کو اس پلین کا پتا کیسے چلا تھا۔۔ تم نے تو بتایا تھا تمہارے گھر سب سیف ہے۔۔ تو پلین کا پتا کیسے چلا؟ اکرم صاحب غصے سے عمران صاحب کی طرف دیکھتے ہوئے بولے تھے۔۔۔

مجھے اس بات کی ہی تو سمجھ نہیں آ رہی ۔۔ عمران صاحب نے اپنا سر ہاتھوں میں گیرا لیا تھا۔۔ جب اچانک کچھ یاد آنے پر سر اٹھایا۔۔

شیرو شیرو ۔۔ کدھر مر گئے ہو تم۔۔۔ عمران صاحب اونچی آواز میں چیلائے تھے ۔۔ جب ایک آدمی ان کے سامنے آ کر کھڑا ہوا تھا۔۔

جی سر بولیں؟؟ وہ سر جھکا کر کھڑا ہوا تھا ۔۔

 ایک دن کےاندر اندر مجھے اس آفسر کی ساری کی ساری انفورمیشن دو وہ کون تھا ۔۔ عمران صاحب اس کو غصے سے گھورتے ہوئے بولا تھا۔۔۔

اوکے سر میں ساری انفورمیشن نکلا کے دوں گا آپ کو آپ بے فکر رہیں ۔۔۔ وہ یوں ہی سر جھکا کے باہر نکال گیا تھا۔۔۔

•••••••••••••

آہہہہہہہہ ۔۔۔۔ یہ لوگ کر کیا رہے تھے اُدھر ۔۔۔۔ شہزاد غصے سے بولا تھا۔۔

ہوا کیا ہے؟؟ نوریز اس کو دیکھتے ہوئے بولا تھا۔۔۔

آرمی کے ہاتھ لگ گیا ہے سارا سامان اور اوپر سر عمران انکل نے ایک آفسر پر گولی چلا دی۔۔۔ شہزاد غصے سے بولتا ایک کرسی کو ٹھوکر مار چکا تھا ۔

آرمی کو کیسے پتا چلا؟ نواز حیران سا بولا تھا۔۔

میں بتا کر آیا تھا۔۔۔ شہزاد بےزار سا بولا تھا۔۔

کیا واقع ہی؟؟ نوریز کا منہ حیرات سے کھولا تھا ۔۔

سالوں میں ادھر تم لوگوں کے ساتھ زلیل ہو رہا ہوں مجھے کیا پتا آرمی کو کیسے پتا چلا ہے۔۔ شہزاد انتہا کا بدمزہ ہوا تھا نوریز کی بات پر۔۔۔

مجھے لگتا ہے ان سب کی عمر ہو گئی ہے ۔ نواز کچھ سوچ کر بولا تھا۔۔

تمہیں ابھی لگتا ہے؟؟؟ شہزاد نے ایک آئی برو اٹھا کر نواز کی طرف دیکھا تھا۔۔

اب یہ بتاؤ اب کیا کریں گئے ؟؟ نوریز کچھ پریشان سا بولا تھا۔۔

واپس جائیں گئے اور کیا کرنا ہے آج رات کی فلائٹ وغیرہ کا شیڈیول دیکھو نواز ۔ اور تم لینا کو فون کرو کے پاکستان کے لیے نکلے فوراً ۔۔ یہ کہتے ساتھ شہزاد اوپر اپنے روم کی طرف چلا گیا تھا۔۔۔

•••••••••••••••

آدھی رات کا وقت تھا اور دبئی کا نائٹ کلب اپنے شور شرابہ کے ساتھ رات کے اس پہر نوجوانوں کی  رنگ محفل سجائے عروج پر تھا۔۔۔

وہ بلیک کلر کی شارٹس پہنے ہوئے اس کے نیچھے لونگ بلیک کوٹ شو پہنے ہاتھ میں وائن گلاس لیے بیٹ پر ناچ رہی تھی ۔۔ سب نوجوان لڑکے لڑکیوں کے بیچ میں وہ مکمل مدہوش سی ناچ رہی تھی ۔ اس کے گارڈ بار کے پاس کھڑے تھے ۔۔۔ کیسی میں اتنی ہمت نہیں تھی کے اس کے ہاتھ سے شراب کا گلاس کھینچ لے ۔۔

جب اس کے پرس کے پاس پڑا فون بجا تھا۔۔ ایک گارڈ نے فون کی سکرین پر نمبر دیکھا اور فوراً اس کو بولنے چلا گیا تھا آگے ۔۔

میم نوریز سر کا فون آ رہا ہے۔۔۔ اس کا گارڈ اونچی آواز میں بولا تھا تا کہ وہ سن سکے۔۔

اس کا ناچتا وجود روکا تھا اور گارڈ کو جانے کا اشارہ کر کے وہ ہاتھ میں پکڑا گلاس لبوں سے لگا کر ایک سانس میں پیتے آگے بڑھی تھی۔۔۔

اپنا فون آ کر اٹھایا تو اس پر نوریز کی چار کالز آئی ہوئی تھی۔۔ ابھی وہ دوبارہ کال کرتی کے دوبارہ فون بجا تھا۔۔۔

اس نے فوراً کال اٹینڈ کی تھی۔۔

ہیلو ۔۔ بولو نوریز ۔۔۔ وہ خود کو نارمل رکھتے بولی تھی ۔۔

واپس پاکستان کے لیے نکلو۔۔ ہم تمہیں ائیر پورٹ پر میلیں گئے ۔ نوریز اُونچی آواز میں بولا تھا کیونکہ اس کو پیچھے کلب کے میوزک کا شور آسانی سے سنائی دے رہا تھا۔۔۔

کیا کہا۔۔۔ لینا کو اس کی آواز کی سمجھ نہیں آئی تبھی چلتی ہوئی شور سے کچھ دور آئی تھی۔۔

میں بول رہا ہوں پاکستان کے لیے نکلو فوراً ۔ ہم تمہیں پاکستان ائیرپورٹ پر ہی ملیں گے ٹیکٹ بک ہو گئی ہے تمہاری ۔۔ نوریز نے اس کو ساری  بات تفصیل سے بتائی تھی ۔

مگر۔۔۔۔ وہ نشہ میں کچھ بولنے لگی تھی کے نوریز کی بات نے اس کا نشہ اتار دیا تھا ۔

سارا سامان آرمی کے ہاتھ لگ گیا ہے اور تمہارے باپ نے ایک آفسر کو گولی دے ماری ہے ۔۔ نوریز دانت پیس کر بولا تھا ۔۔۔

کیا کہا ۔۔۔ لینا بامشکل یہ ہی بول پائی تھی ۔

جو تم نے سنا۔ اب زیادہ ٹائم نہیں ہے اور گھنٹے میں تمہاری فلائٹ ہے نکلو جلدی۔۔ نوریز خود کو نارمل رکھتے ہوئے بولا تھا۔۔۔

اوکے۔۔۔ وہ بس اتنا بول کر کال کاٹ چکی تھی۔۔۔۔

ڈیڈ کوئی عقلمندوں والا کام بھی کر لیا کریں ۔۔۔ وہ غصے سے بولتی کلب سے باہر نکلی تھی اور کچھ ہی دیر میں وہ اپنا سامان لے کر ائیر پورٹ پر تھی ۔۔

••••••••••••

وہ تینوں صبح کی فلائٹ سے پاکستان آئے گئے تھے اور گھنٹے تک لینا بھی پاکستان میں لینڈ کرنے والی تھی۔۔

وہ تینوں اس کا انتظار کرنے کے لیے روکے تھے جب نواز کا فون بجا تھا۔۔۔

تم لوگ کدھر ہو؟. عثمان صاحب نے سب سے پہلے سوال کیا تھا ۔

پاکیستان آ چکے ہیں لینا کا وئٹ کر رہے ہیں وہ بھی کچھ دیر میں لینڈ کرنے والی ہے۔ نواز عثمان صاحب کی بات کا جواب دے کر خاموش ہوا تھا۔۔۔

ٹھیک ہے تینوں سیدھا عمران لغاری کے آفس آؤ ۔۔ یہ کہتے ساتھ انہوں نے فون کاٹ دیا تھا۔۔

جب دیکھو آوڈر ہی دیں گے ۔۔ ہمممم نواز نے فون رکھتے بولا تھا ۔۔ اب کیا ہوا ہے؟؟. نوریز نے نواز کے بگرے تیور دیکھ کر پوچھا تھا۔۔

سیدھا عمران انکل کے آفس چلنا ہے۔۔ نواز نوریز کو گھورتے بولا تھا۔۔

ہمممم۔۔ ٹھیک ہے تم لوگ لینا کو لے کر آؤ میں کار میں بیٹھا ہوں۔ شہزاد اپنا سامان لے کر آگے بڑھا تھا۔۔

کچھ دیر بعد ںواز، نوریز اور لینا ایک ساتھ چلتے آ رہے تھے۔۔۔ وہ تینوں آ کر کار میں بیٹھے تھے۔۔۔

یہ سب ہوا کیسے ہے؟ اور کون تھا وہ آفسر جس نے سارا پلین خراب کیا کون تھا وہ۔۔ لینا بیٹھتے  ساتھ بولی تھی۔ 

پتا نہیں وہ کون تھا۔۔ اور اس کو کیسے پتا چلا۔۔ یہ سب تو لغاری صاحب کے آفس میں جا کر ہی پتا چلے گا۔۔۔ شہزاد ونڈ سکرین سے باہر دیکھتے ہوئے بولا تھا ۔۔۔۔

•••••••••••••

ہیلو سر ایک ضروری خبر دینی ہے۔۔ وہ جو کوئی بھی تھا بہت رازداری سے بات کر رہا تھا ساتھ بار بار بیچھے دیکھ رہا تھا۔۔

ہاں بولو۔۔ دوسری طرف روبدار آواز فون پر سے گونجی تھی۔۔

وہ لوگ پتا لگوانا چاہتے ہیں کے وہ آفسر کون تھا جس نے ان کے کام کے بھیچ میں ٹانگ اڑائی ہے۔۔ وہ آدمی مدہم آواز میں بول رہا تھا۔۔

مُجھے پہلی ہی پتا تھا وہ ایسا کریں گے ۔۔ وہ پرسکون سا بولا تھا ۔۔

اب کیا کروں آپ بتائیں ۔۔۔ وہ پہچھے دیکھتا بولا تھا۔۔ اس کی نظریں پیچھے ہی تھی کہ کوئی آ نہ جائیں ۔۔۔

بولو ایم-زی تھا۔۔۔ آخر ان کو پتا تو چلنا چاہیے ان کی نیندیں حرام کرنے والا کون ہے۔۔۔ ایم-زی پرسکون لہجے میں بولا تھا۔۔

اوکے سر ۔۔ وہ ایم -زی کی بات سن کر ہلکا سا مسکرایا تھا۔۔

اور مجھے ان سب کی ایک ایک لمحے کی خبر دینا۔۔ ایم-زی اس کو اگلا حکم دے چکا تھا۔۔

ضرور سر فلحال یہ سب لاہور پہنچ گئے ہیں اور نواز، نوریز اور لینا بھی پاکستان واپس آ کئے ہیں باقی آپ جو ساتھ ساتھ انفورمیشن دیتا رہوں گا۔۔ خداحافظ ۔۔۔ اس نے  ابھی تک کی ساری انفورمیشن دے دی تھی۔۔۔

خداحافظ۔۔ ایم-زی نے کلا کاٹ دی تھی ۔۔

••••••••••••

سکندر ابھی اس کے آفس میں آیا تھا جہاں ، فاروق ، حانی پہلے سے ہی موجود تھے۔۔۔ سکندر کے ہاتھ میں فسٹ ایڈ بوکس تھا۔۔

اس کو ادھر دو۔۔ ایم-زی نے ہاتھ آگے بڑھیا تھا ۔

میں کر دوں گا۔۔ سکندر نے بوکس سائیڈ پر رکھا تھا اور بھیچ میں سے کوٹن  نکالی تھی۔۔ وہ پہلے ایم-زی کے زخم کو سیپریٹ سے صاف کر رہا تھا۔

کیا بات ہوئی تمہاری اس سے؟؟ فاروق نے ایم-زی کو دیکھا تھا۔۔

ان کو انفو چاہیے ان کے کام میں ٹانگ کس نے اڑائی ہے ۔۔ تو بس وہ دے دی ہے۔۔ ایم-زی ایک آنکھ ونک کر کے بولا تھا۔۔

مگر ایم-زی ۔۔ حانی کچھ بولنا چاہتا تھا۔۔

شششششش۔۔۔ دشمن کو اس شخص کا نام پتا ہونا چاہیے جو ان کی زندگی عذاب بنانے والا ہے۔۔ ایم-زی مدہم لہجے میں بولا تھا ۔۔ جبکہ سکندر اس کی ڈریسنگ کر رہا تھا۔۔۔

آگے کا کیا پلین ہے ایم-زی۔۔ سکندر بینڈیج کرتے ہوئے بولا تھا۔۔

ان کے اگلے پلین کا پتا لگانا ہے ۔ ایم-زی اپنی شرٹ سہی کرتے ہوئے بولا تھا اور صوفے سے اٹھ کھڑا ہوا تھا۔۔

مگر میرے خیال سے تمہیں آرام کرنا چاہیے ۔۔ خون بہت بہا ہے تمہارا۔۔ سکندر فکرمندی سے بولا تھا۔۔

جب تک مارخور سانپ کا شکار نہ کر لے آرام نہیں کرتا سکندر ۔۔۔ ایم-زی سامنے کھڑی سے باہر میدان میں لگے  پاکستان کے جھنڈے کو دیکھ کر بولا تھا۔۔

مگر تمہیں ضرورت ہے آرام کی ۔۔ اب کی بار فاروق بولا تھا۔۔

میرا ملک دشمنوں سے بھرا ہوا ہے۔۔ میرے ملک کی بیٹیاں محفوظ نہیں ہیں ۔۔ میرے ملک کی نوجوان نسل محفوظ نہیں ہے میی کیس طرح آرام کر لوں۔۔ کیا تم لوگ اس سیشویشن میں آرام کرو گے ۔۔ کبھی نہیں ۔۔ تو مجھ سے کس بات کی امید رکھتے ہو ۔۔۔ ایم-زی اپنی سرخ آنکھوں سے ان لوگوں کو دیکھتے ہوئے بولا تھا۔۔ جو اب خاموش ہو گئے تھے۔۔

جبکہ وہ اب اپنی کیپ سر پر رکھتا اپنے آفس سے نکلا تھا۔۔ اور اس کے ساتھ ہی فاروق ، سکندر اور حانی بھی نکلے تھے وہ چاروں اس وقت آرمی کے خاکی یونیفارم میں تھے اور بہت ہی بارعب لگ رہے تھے۔۔۔

•••••••••••••

کس نے کیا ہے یہ سب آپ لوگوں نے کہا تھا اس پلین کا کیسی کو پتا نہیں چلے گا تو یہ سب کیا ہے۔۔۔ شہزاد سب پر بھرک رہا تھا۔۔

میرے آدمی نے بتایا ہے کہ اس میں آئی اس آئی کا ہاتھ ہے۔۔ اور جس نے سارا پلین خراب کیا ہے اس کا نام ایم-زی ہے۔۔۔ عمران صاحب اپنے غصے کو قابو کرتے بولے تھے۔۔

اب یہ ایم-زی کہا سے آ گیا۔۔ آپ نے تو بولا تھا یہ پلین بہت سیف ہے۔۔ یہ تھا سیف ؟؟ اس کو آپ ایک سٹرونگ پلین کہتے ہیں ۔۔۔ نواز اب کی بار بولا تھا۔۔

ہمیں کیا پتا تھا کہ عین موقع پر آرمی آ جائے گئی۔۔ عمران صاحب شہزاد اور نواز کی طرف دیکھ کر بولے تھے۔۔

آرمی وہ آرمی کا کوئی نارمل یہ کم رنک والا آفسر نہیں ہے وہ آئی اس ائی کا ایجنٹ ہے۔۔۔ آئی اس ائی کے  آفسر کی نظر میں آنا مطلب اپنا آپ شیر کے سامنے رکھنے والا کام ہے اور آپ اس کو گولی بھی مار آئے ہیں لغاری صاحب ۔۔۔ مکمل توڑ پر نظروں میں ہیں ہم اب۔۔ ایک طرف زیک ایک طرف یہ ایم-زی اور ایک طرف بیسٹ جو ہر ٹائم موت بن کر سر پہ سوار ہے ۔۔ شہزاد اونچی آواز میں ان سب پر چیخا تھا مگر اس کو سب سے زیادہ غصہ عمران صاحب پر تھا۔۔۔۔

تم بتاؤ اب کیا کریں ۔۔۔ عمران صاحب بھی اس ہی کے لہجے میں بولے تھے۔۔۔

میرا سر کر لیں۔۔۔ شہزاد بے حد غصے سے بولا تھا۔۔

جس وقت میں بول رہا تھا کہ پلین مجھے صحیح نہیں لگ رہا اس وقت سنی تھی کیسی نے میری ؟؟ جو اب پوچھ رہے ہو مجھ سے کہ تم بتاؤ کیا کریں ۔۔۔ وہ ایک ایک لفظ چبا چبا کر بولا تھا اس کا غصہ کیسی صورت کم نہیں ہو رہا تھا۔۔۔

شہزاد خود کو ٹھنڈا کرو۔۔ اکرم صاحب اس کہ غصے کو دیکھتے تپ کر بولے تھے ۔۔

کر لوں گا ٹھنڈا غصہ بھی اپنا۔۔ شہزاد ماتھے پر بل ڈالے بولتا اپنی کرسی پر بیٹھا تھا۔۔

میرے پاس ایک اور پلین ہے۔۔ عمران صاحب کچھ بولنے لگے تھے کہ شہزاد نے اپنے ہاتھ جوڑ لیے۔۔

یہ دیکھ لیں جوڑے ہاتھ آپ کے پلین سے ہم لوگ کیسی دن ان سالوں کے ہاتھ لگ جائیں گئے۔۔ آج آئی اس آئی پہنچ گئی آپ کے بنائے پلین پہ ۔۔ آگلے پلین میں کیا ہمیں آئی اس آئی کے پاس پہنچانے کا ارادہ ہے۔۔ شہزاد اپنی بات مکمل کر کے پانی کا گلاس اٹھا کر منہ کے ساتھ لگا چکا تھا۔۔ جبکہ اس کی بات پر سب کا دبا دبا سا قہقہہ نکلا تھا۔۔ جبکہ عمران صاحب نے سب کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھا تھا۔۔۔

ابھی عمران صاحب کچھ بولتے کے سامنے پرا عمران صاحب کا فون بجا تھا۔۔۔ اس کے اوپر جگمگاتے نام نے ایک بار سب کے رنگ آڑا دیے تھے۔۔۔

Beast calling......

مسلسل بیل بج رہی تھی عمران صاحب میں فون اٹھانے کی ہمت نہیں تھی۔۔۔

اٹھائیں اب اس موت کے فرشتے کا فون۔۔۔ شہزاد طنزیہ انداز میں بولا تھا۔۔ عمران صاحب اس کو گھورتے فون اٹھا کے سپیکر کر چکے تھے۔۔۔

کدھر مرے ہوئے تھے ۔۔۔ بیسٹ کی غصے سے بھری آواز فون کے سپیکر پر سے گونجی تھی۔۔۔

وہ بی،،،بیس،،بیسٹ وہ میں ۔۔۔ عمران لغاری نے اپنے الفاظ مکمل کرنے چاہے تھے جب دوبارہ سپیکر پر سے بیسٹ کی آواز گونجی تھی۔۔

لغاری ہکلانا بند کرو اور آج رات تک تم سب مجھے میرے سامنے چاہیے ہو۔۔۔  غصے سے بولتا وہ فون کاٹ چکا تھا۔۔ جبکہ ان سب کا منہ دیکھنے لائق تھا۔۔

•••••••••••••••

اس کو آج دو دن ہو گئے تھے اس ہی کمرے میں لیٹی ہوئی تھی ڈاکٹر آ کر اس کی ریکوری کا جائزہ لیتی تھی اور چلی جاتی تھی۔۔ روز ایک ڈیلیوری بوائے اس کو وائٹ للی کا بوکے دے جاتا تھا۔۔ وہ اس وقت گھڑی کو دیکھ رہی تھی جہاں اس وقت ایک بجے ہوئے تھے۔۔ اس ہی وقت دوبارہ سے وہ ڈیلیوری بوائے آیا تھا آج بھی اس کے ہاتھ میں ایک وائٹ للی کا بوکے تھا مگر ساتھ کچھ اور بھی تھا وہ للی کو دے کر چلا گیا تھا۔۔۔

للی نہ سمجھی سے اس بوکے کو دیکھ رہی تھی اور اس کے ساتھ آئے ایک بوکس کو۔۔۔ اس نے کچھ نروس سی ہو کر اس بوکس کو کھولا تھا ۔۔ اس کے اندر اس کا پاسپورٹ ساتھ دبئی کی ٹیکٹ تھی جو آج شام چھ بجے کی تھی۔۔ ابھی وہ ٹیکٹ دیکھ رہی تھی کہ اس کی نظر ایک چیٹ پر گئی تھی۔۔۔

أنا في انتظارك، فيري

(میں تمہارا انتظار کر رہا ہوں فیری).

للی عربی میں لکھا یہ جملہ پڑھ چکی تھی عربی کو پڑھنا لکھنا وہ بہت اچھے سے جانتی تھی اس نے ایک لمبا وقت دبئی میں گزارا تھا مگر جو اس میں لکھا تھا وہ پڑھ کر حیران ہوئی تھی ۔ اس کو ایک بار پھر ماضی میں وہ شخص یاد آیا تھا۔۔ وہ کیسے بھول گئی تھی جب جب وہ کیسی مصیبت میں تھی تب تب وہ آیا تھا اس کو بچانے۔۔۔ اور اس بات میں کوئی شک نہیں کے اس بار بھی اس نے ہی بچایا تھا۔۔۔

ابھی وہ ماضی میں ہی گم تھی کے ایک ڈاکٹر اندر آئی تھی اس کا ڈسچارج لیٹر ان کے ہاتھ میں تھا وہ للی کو دے کر چلی گئی تھی۔۔

اور کچھ دیر میں وہ اپنے کیژول کپڑوں میں تھی جب ایک نرس اس کے پاس آئی تھی۔۔ اور اس نے اپنے ہاتھ میں  پکڑی ایک چیٹ اس کی طرف بڑھائی تھی۔۔ اس پر کار کا نمبر لکھا تھا وہ اس چیٹ کو لے کر ہاسپٹل سے باہر نکل گئی تھی ۔۔ ابھی وہ آخری سٹیپ پر آ کر روکی ہی تھی کے ایک سفید رنگ کی رولس رائس اس کے سامنے آ کر کھڑی ہوئی تھی ۔۔ ایک گارڈ نے باہر نکل کر اس کے لیے دروازہ کھولا تھا اور وہ اندر بیٹھ گئی تھی۔۔ اس بات سے انجان کے یہ سفر کیا تبدیلی لائے گا اس کی زندگی میں ۔۔

وہ خاموش سی سیٹ کی پیشت پر سر ٹیکائے ایک آخری نظر لاس اینجلس کی سڑکوں پر ڈال رہی تھی جہاں اس نے اپنا سب کچھ ایک بار پھر کھو دیا تھا۔۔ اس نے آنکھیں بند کی تو ماضی کی ایک تلخ یاد منظر پر آئی تھی ۔۔۔

No dad i don’t want to listen this singer again ...

(نہیں ڈیڈ مجھے اس سنگر کو دوبارہ نہیں سنا)۔۔ سترہ سال کی للی کانوں پر ہاتھ رکھ کر اداکاری کرتے ہوئے بولی تھی جب کے پاس بیٹھ انیس سال کی روزینہ ہنس ہنس جے پاگل ہو رہی تھی۔۔ اور آگے بیٹھے جونسن اور روزی اپنی بیٹیوں کو دیکھ کر ہنس رہے تھے۔۔

جب اچانک سامنے سے ایک بڑا سا ٹریک آیا تھا۔۔ جونسن فوری طور پر کار کو سنبھال نہ پائے اور ایک خطرناک حادثہ کا شکار ہو گئے تھے۔۔

کار آگے سے ٹرک کے نیچے آ گئی تھی۔۔ روزینہ کچھ ہوش میں آئی تھی اس کے چہرے پر ونڈ سکرین کا ٹوٹا کانچ لگا تھا ماتھے سے خون نکل رہا تھا ۔ اس نے اپنی گود میں گیری للی کو اُٹھانے کی کوشش کی تھی ۔۔ جو کچھ دیر میں ہوش میں آگئی تھی ۔۔

Rosina...

للی نے جیسے آنکھیں کھولی اس نے روزینہ کو دیکھ کر پکارا تھا ۔

Lilly..

روزینہ نے اس کو گلے لگا لیا تھا ۔۔

Where’s mom and dad , rosina ...

(موم ڈیڈ کدھر ہیں روزینہ)۔۔۔ وہ روتی ہوئی روزینہ سے پوچھ رہی تھی۔۔

مگر جیسے اس کی نظر فرنٹ سیٹ پر گئی تھی وہ چیخ ہی پڑی تھی ۔ کب سے ریسکیو والے ان کو باہر نکلنے پر لگے تھی بلآخر انہوں نے ایک سائیڈ کے دروازے کا شیشہ توڑ دیا تھا اور کار کا لوک کھول کر ان کو باہر نکالا تھا۔۔۔

اور اگلے لمحے ہی للی کی آنکھ کھولی تھی اس کا چہرہ انسوں سے بھیگا ہوا تھا۔۔۔

los Angeles you are famous for the city of angels but for me you are city of demons....

(لاس اینجلس تم فرشتوں کے شہر کے طور پر مشہور ہو مگر میرے لیے شیطانوں کا شہر ہو) ۔۔ وہ بھیگے لہجے میں بولی تھی۔۔۔

اب وہ ائیرپورٹ پر تھی ۔۔ اور کچھ دیر میں وہ لاس اینجلس سے نکل آئی تھی اس نے ایک سرد آہ بھر کر سیٹ کی پیشت سے ٹیک لگا لی تھی۔۔۔۔

اور یہاں سفر شروع ہوا تھا ایک فیری کا سفر اس کے عاشق کی طرف۔۔۔

••••••••••••••

اس وقت اس بڑے سے سفید محل پر رات اتری ہوئی تھی ۔۔۔۔

وہ سب اپنی اپنی نشست پر بیٹھے ہوئے تھے ۔۔ جب سیڑھیوں سے بھاری بوٹوں کی آواز آ رہی تھی۔۔۔ ہمشہ کی طرح آج بھی وہ تینوں بلیک لونگ کوٹ میں سر پر کیپ پہنے چہرے پر بلیک ماسک لگائے  آنکھوں میں وحشت لیے سیڑھیاں اتر رہے تھے۔۔۔

لینا کی نظریں مسلسل بیسٹ پر تھی۔۔۔ جب کے وہ اس کو نظر انداز کرتا اپنی نشست پر جا کر بیٹھ گیا تھا۔۔۔

اور اس کے دائیں بائیں ولف اور لیو بیٹھ گئے تھے ۔۔

باہر برسات اپنے عروج پر تھی۔۔۔۔ تبھی بار بار بادلوں کے گرجنے کی آواز اس سفید محل نما حویلی کے سنّاٹے میں گونجی رہی تھی۔۔۔

سامان کدھر ہے۔۔۔ بیسٹ دو ٹوک لہجے میں بولا تھا۔۔

وہ بیسٹ سامان ۔۔۔ اکرم صاحب نے بولنے کی کوشش کی تھی۔۔

سامان کیا؟؟؟ بولو گے کچھ۔۔ اب کی بار ولف بولا تھا ۔۔

آرمی موقع پر پہنچا گئی تھی۔۔ نوریز ہمت کر کے بولا تھا۔۔

واہ زبردست ،، بیسٹ نے گن ٹیبل پر رکھتے بولا تھا۔۔ جبکہ اس کا یہ انداز سب کو سانپ سونگھ گیا تھا۔۔۔

آرمی کیسے آئی ادھر؟؟؟ لیو آنکھوں میں وحشت لے کر بولا تھا۔۔۔

و۔۔ وہ ہی۔۔ تو۔۔ نہ۔۔۔نہی۔۔ نہیں پتا چل رہا۔۔۔ عمران صاحب نے اپنی حلق تر کرتے ہوئے بات مکمل کی تھی۔۔۔

تم لوگوں سے کوئی ایک کام ڈھنگ سے ہوتا ہے کے نہیں ۔۔ بیسٹ کا غصے سے بڑھا لہجہ پورے ہال میں گونجا تھا۔۔۔

معاف کر دو بیسٹ ۔۔ عثمان صاحب ڈرے ڈرے بولے تھے۔۔

معاف۔۔۔ واقع ہی۔۔ یہ جو کروڑں کا نقصان ہوا ہے یہ تمہارا باپ بھرے گا عثمان صغیر۔۔ بیسٹ نے عثمان صاحب کو ان کے گریبان سے پکڑ کر ایک ایک لفظ چبا کر بولا تھا۔۔۔

بیسٹ ۔۔۔ اپنے باپ کا گریبان بیسٹ نے ہاتھ میں دیکھ کر نواز دبہ دبہ سا چلایا تھا۔۔

اپنی آواز نیچھے رکھوں نواز ورنہ تمہاری زبان کاٹ کر تمہارے ہاتھ میں دے دوں گا۔۔۔ بیسٹ نواز کو شلعہ برساتی نظروں سے گھورتے بولا تھا۔۔۔ کچھ تھا اس کی نظروں میں کے نواز کی زبان بند ہو گئی تھی۔۔۔

بیسٹ ہمیں واقع ہی نہیں پتا آرمی کہاں سے بیچ میں آئی تھی۔۔۔ ہم نے پلین بہت سیف بنایا تھا۔۔ اکرم صاحب مدہم آواز میں بولے تھے۔۔

مجھے اس بات سے کوئی لینا دینا نہیں تم لوگوں سے کوئی کام ڈھنگ سے ہو بھی سکتا ہے کہ نہیں ۔۔۔مجھے تو لگتا ہے کنگ نے نکموں کی فوج آکھٹی کر رکھی ہے۔۔۔ بیسٹ اپنی جگہ پر بیٹھتا بولا تھا۔۔۔

اور اس بار تم سب کو معافی نہیں ملے گئی اور جتنے کروڑوں کا نقصان ہوا ہے اس بار تم سب اپنی جیب سے پورا کروں گے۔۔۔ بیسٹ گن کو اپنے ہاتھ میں لے کر گن کی نوک کے ساتھ کھیلتا ہوا بولا تھا۔۔۔

جب کہ اس کی بات سن کے سب کے طوطے اڑ گئے تھے۔۔۔

مگر بی۔۔۔ بیسٹ ۔۔۔ عمران لغاری سے بولا نہیں جا رہا تھا۔۔۔

کیوں کیا ہوا سزا پسند نہیں آئی ۔۔۔ بیسٹ طنزیہ انداز میں عمران لغاری کی طرف دیکھتا ہوا بولا۔۔

بیسٹ مگر اتنے کروڑوں کا نقصان ہم کیسے پورا کریں گے۔۔ اب کی بارنوریز ہمت کر کے بولا تھا۔۔

جس طرح سے یہ نقصان کروایا اسی طرح سے پورا کرو گے نوریز عثمان۔۔ اب کی بار ولف آنکھوں میں وحشت لیے نوریز کی طرف دیکھتا بولا تھا۔۔۔

اور جو پیمنٹ تم لوگوں کو اس بار ملنی تھی وہ بھی نہیں ملے گی۔۔ لیو نے جیسے ان کے سر پر آسمان گیرا دیا تھا۔۔

اگلی دفعہ نقصان سوچ سمجھ کے کرنا۔۔۔ یہ نہ ہو اگلی دفعہ تم لوگوں کے جسم کے اعضا نکال کر میں نقصان کی بھرپائی کرواں۔۔ یہ کہتے ساتھ بیسٹ اپنی نشست سے اٹھا تھا اور اوپر اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا تھا۔۔۔

آج رات ادھر ہی روکو گے تم سب اور صبح ہوتے ہی اپنی اپنی شکل گم کرنا۔۔۔ یہ کہہ کر ولف بھی بیسٹ کے پیچھے گیا تھا۔۔۔ جبکہ لیو ادھر سے پہلے ہی جا چکا تھا۔۔۔

اور شہزاد اپنا غصہ قابو کر رہا تھا اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ ان تینوں کو مار ڈالے۔

••••••••••••••

رات کا آخری پہر تھا آسلام آباد میں اور تیز بارش اور ہوا نے ایک الگ اور دلکش منظر بنایا ہوا تھا۔۔۔

وائٹ پیلس میں وہ اس وقت ایک وسیع کمرے میں ڈریسنگ روم میں ایک بڑے سے آئینے کے سامنے کھڑی ہوئی ہوئی تھی۔۔ اس نے نیوی بلیو کلر کی نائیٹی پہنی ہوئی تھی جو پیچھے سے بیک لیس تھی اور آگے سے گلا ڈیپ تھا۔۔ اس نائیٹی کے اوپر اس کا جالی دار گائون پہن کر وہ اپنے کمرے سے نکلی تھی اور اس کا روخ سیڑھیوں سے اوپر بنے بیسٹ کے کمرے کی طرف تھا۔۔۔

وہ جو اپنے کمرے میں کیسی کام میں اولجھا ہوا تھا ۔۔ اچانک دروازہ کھولنے پر ایک دم چونکا تھا فوراً اپنا ماسک اٹھا کر لگیا تھا اور گردن موڑ کر دیکھا تھا جہاں لینا دروازہ بند کر رہی تھی۔۔ یہ شاید پہلی بار ہوا تھا بیسٹ اپنے کمرے کا دروازہ لوک کرنا بھول گیا تھا۔۔۔

کتنا کام کرو گے کچھ دیر آرام بھی کر لو۔۔ لینا ایک ایک قدم اٹھاتی اس کے قریب آئی تھی۔۔

اپنی حد میں رہو لینا ورنہ مجھے سے برا کوئی نہیں ہو گا۔۔ بیسٹ دانت پس پر بولا تھا۔۔

تم سے بڑا کوئی ہے بھی نہیں اتنی خوبصورت جوان اور حسین لڑکی تمہارے سامنے ہے وہ اپنا آپ تمہیں دینے کو تیار ہے اور تم ہو کے دیکھتے ہی نہیں ۔۔ لینا ایک قدم اور آگے ہوتی بولی تھی۔۔

اُدھر ہی روک جاؤ ورنہ اپنے انجام کی زمہ دار تم خود ہو گئی۔۔ بیسٹ آنکھوں میں وحشت لیے بولا تھا۔۔۔

انجام کا کس کو ڈر ہے میری جان آج رات تمہارے نام کرنے آئی ہوں ۔۔ لیںا نے اپنا ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ بیسٹ نے وہ ہاتھ اس کا ہوا میں ہی روک دیا اور اگلے ہی لمحے کمرے میں چٹاخ کی آواز گونجی تھی اور اس کے ساتھ ہی لینا زمین پر گری تھی ۔۔۔

ابھی کے ابھی میرے کمرے سے دفع ہو جاؤ ۔۔۔ بیسٹ دروازے کی طرف اشارہ کرتے بولا تھا۔۔۔

تم نے مجھے لینا لغاری کو تھپڑ مارا ۔۔ لینا غصے سے پاگل ہوئی تھی۔۔

میں نے ایک بےشرم عورت کو تھپڑ مارا ہے جو اپنی حیا تک بھول گئی ہے۔۔ بیسٹ قہر برساتی نظروں سے اس کو دیکھتے بولا تھا۔۔۔

آج رات میں تمہیں اپنے قریب لا کر ہی رہوں گئی۔ یہ کہتے ساتھ وہ دوبارہ آگے بڑھی تھی۔۔ اور اب کی بار بیسٹ نے اس کو بالوں سے پکڑ لیا تھا ۔

وہ اس کو  گھسیٹتا ہوا کمرے کے دروازے تک لے گیا تھا اور دروازہ کھول کر اس کو باہر کی طرف دھکیل دیا تھا۔۔

میں نے تمہیں پہلے بھی بولا تھا اپنی حد میں رہو۔۔۔ میں تم جیسے لڑکیوں کو پسند ہی نہیں کرتا اتنی گندی پسند میری نہیں ہے ۔ اور اگر آج کے بعد کیسی غلط نیت سے میرے کمرے میں یا میرے سامنے آئی تو جان سے مار دوں گا۔۔ اپنی شکل بھی مت دیکھانا مجھے۔۔۔ بیسٹ ایک ایک لفظ پر زور دیتا دروازہ اس کے منہ پر بند کر کے اندر چلا گیا تھا۔۔۔

جبکہ نوریز یہ سب دیکھ چکا تھا۔۔ نہ چاہتے ہوئے بھی اس کو لینا پر ترس آیا تھا اور اس کے دل کو کچھ ہوا تھا۔۔

لینا بے وقوف تھی جو پتھر پہ سر مار رہی تھی۔۔

اور نوریز دل کے ہاتھوں مجبور تھا جو ایک حسین پرست عورت پر آ گیا تھا ۔۔ ایسا نہیں تھا کہ وہ خوبصورت نہیں تھا۔۔

لینا کی عادت تھی ہر خوبصورت مرد کے ساتھ وقت گزاری کی اور جب تک کوئی مرد اس کے ساتھ وقت گزارنے پر راضی نہیں ہوتا تھا تب تک اس کے پیچھے پڑی رہتی تھی ۔۔

••••••••••••

وہ اس وقت دبئی میں ایک خوبصورت گھر کے سامنے کھڑی  تھی۔۔ جس کے رن وے پر ڈرائیو اس کو اتار کر آگے بڑھا گیا تھا۔۔ گھر کے اطراف میں وسیع باغیچہ بنایا گیا تھا۔۔۔ گھر ایک وسیع  رقبے پر تعمیر کیا گیا تھا یہ گھر دیکھنے والی کو ایک بار اپنے سحر میں جکڑ لیتا تھا۔۔ للی منہ کھولے اس گھر کو دیکھ رہی تھی جب اندر سے ایک ملازمہ باہر آئی تھی ۔۔

Sir calling you inside...

(سر آپ کو اندر بولا رہے ہیں ۔۔) ملازمہ سر نیچھے کیے اس سے مخاطب ہوئی تھی۔۔۔

ہممم ۔۔ للی بس اتنا ہی بول سکی اور اندر کی طرف بڑھی تھی۔۔۔

وہ اس ملازمہ کے پیچھے پیچھے چل رہی تھی ۔

جیسے ہی گھر کے اندر داخل ہوئی ایک وسیع ٹی-وی لاؤنج تھا جہاں بہت ہی شاندار اور قیمتی فرنیچر رکھا ہوا تھا۔۔ ٹی-وی لاؤنج سے تھوڑا آگے ایک ڈارنگ روم تھا جہاں بہت خوبصورت فرنیچر رکھا گیا تھا۔۔۔ اور ساتھ ہی اوپن کچن تھا جو جدید طرز کا بنا ہوا تھا اور اس سے تھوڑا آگے ہی ایک وسیع ڈائینگ روم تھا۔۔ ڈائینگ روم سے نکل تو تھوڑا آگے ایک ساتھ چار کمرے بنے ہوئے تھے اور ایک لمبی سی راہداری سے گزریں تو لاون اور پول آیریا تھا۔۔

اور پھر سیڑھیاں اوپر چڑھیں تو سامنے ایک ماسڑ بیڈ روم تھا اور اس کے ایک طرف  دو کمرے اور ایک سٹیڈی روم تھا۔۔ جبکہ دوسری طرف چار کمرے اور ایک بالکہنی تھی اور اس کے ساتھ ایک نارمل سائز کچن تھا ۔

للی ملازمہ کے پیچھے چلتی جا ری تھی اور حیرت سے اس عالیشان گھر کو دیکھ رہی تھی جس کی ایک ایک چیز اپنی قیمت کا منہ بولتا ثبوت تھا۔۔۔ اب وہ سٹیڈی کے سامنے روکی تھی۔۔۔ ملازمہ نے سٹیڈی کا دروازہ کھول تھا اور وہ اندر چلی گئی۔۔

وہ اپنی کرسی پر ٹیک لگا کر بیٹھا تھا اس کی آنکھیں بند تھی اور کرسی کا روخ اس نے موڑ رکھا تھا۔ للی کے قدموں کی آواز پر اس کی آنکھیں کھولی تھی ایک ہلکی سی مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر آئی تھی۔۔۔۔

اليوم حبيبي مشى إلى عتبة بابي

(آج میرا محبوب خود چل کر میری دہلیز پر آیا ہے).. وہ مدہم آواز میں بولا تھا اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ ابھی بھی قائم تھی۔۔ وہ جو کوئی بھی تھا اس وقت اس کے ایک ایک لفظ سے محبت ٹپک رہی تھی ---

للی حیران سی اس کے الفاظ کو سن کر ٹھہر گئی تھی ۔۔ یہ اثر الفاظ کا تھا یا ان کو ادا کرنے والے کی آواز کا للی کو ایک سحر میں جکڑ چکے تھے ۔۔۔

یہ ملاقات کیا رنگ لانے والی تھی کسی کو کچھ خبر نہ تھی۔۔۔۔

•••••••••••••

جاری ہے۔۔۔

Don’t  copy without my permission ❌ ❌ ❌ ❌ ❌...

Share with your friends.. also share you reviews with us... Thanks alot<3...

 

 Follow me on 

Wattpad

Facebook

TikTok

Instagram

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 


Comments

  1. It's getting interesting keep going girl You are slaying it

    ReplyDelete

Post a Comment