Urdu Novel Dasht-e-Ulfat by Shazain Zainab Episode 17


 

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

 ناول

 

دشتِ الفت

 

شازین زینب

Ep # 17

 urdunovelnests 

 

وہ دروازے کے پاس ہی کھڑی تھی۔۔۔ جب اندر سے ایک رعب دار آواز آئی تھی۔۔۔

آ جاؤ ۔۔۔۔ جیسے ہی یہ الفاظ اس کی سماعت سے ٹکڑائے تھے اس نے دروازے پر اپنا ہاتھ رکھا تھا اور اس کو تھوڑا سا دھکیلا تو وہ کھولتا چلا گیا تھا۔۔۔

اس نے ایک قدم بیسٹ کے وسیع کمرے میں رکھا تھا۔۔۔ بیسٹ کا کمرا انتہا کا شاندار تھا۔۔۔۔ کمرے کا تھیم بلیک اور وائٹ تھا۔۔۔ ایک طرف کنگ سائز بیڈ اس کے سامنے  لگی ایل ـ سی ـ ڈی اور ایل سی ڈی کے سامنے عالیشان سا صوفہ سیٹ ایک طرف ڈریسنگ روم  تھا جو کہ اوپن تھا۔ اس کے ساتھ باتھ روم کا گیٹ ۔۔ کمرے کے آیک طرف چھوٹا سا سٹیڈی روم اور سیٹنگ روم تھا جہاں  چھ سات آدمی آرام سے بیٹھ کر کوئی میٹنگ کر سکتے تھے وہ ایک قسم کا چھوٹا سا ڈرائنگ روم تھا۔۔۔ کمرے کے ساتھ ایک وسیع بلکہنی بھی تھی۔۔۔۔ یہ کمرا انتہائی نفاست سے سیٹ کیا گیا تھا۔۔۔۔

جزا جیسے ہی اس کے کمرے میں داخل ہوئی ایک نظر کمرے پر ڈال کر اس نے بیسٹ کی طرف دیکھا تھا۔۔۔جو سامنے ہی صوفے پر بیٹھا تھا ۔۔ اور جزا کو دیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔۔ جس نے بلیک لونگ فروک پہن رکھی تھی۔۔۔ بالوں کی ڈھیلی سے پونی کر رکھی تھی۔۔ گلے میں سیاہ رنگ کا دوپٹہ لیے سرخ اور سوجی ہوئی شہد رنگ آنکھوں کے ساتھ وہ اس وقت اس کے سامنے کھڑی تھی۔۔۔ نہ چاہتے ہوئے بھی بیسٹ کا دل ایک  بار اس کو دیکھ کر دھڑکا تھا۔۔۔ وہ اس کو دیکھ رہا تھا۔۔ اس کی سبز رنگ آنکھیں جزا کی سرخ ہوئی شہد رنگ آنکھوں پر ٹھہر گئی تھی۔۔۔

مجھے بات کرنی ہے ۔۔۔ جزا اس کے سامنے آ کر کھڑی ہوتی بولی تھی۔۔۔

میں جانتا ہوں تمہیں بات کرنی ہے تبھی تم ادھر آئی ہو۔۔۔۔ بیسٹ اس کو دیکھتا بولا تھا۔۔۔ اس وقت اس کو ان شہد رنگ آنکھوں میں بہت کچھ الگ لگ رہا تھا ۔۔ یہ آنکھیں اب کیسی معصوم لڑکی کی نہ رہی تھی ۔۔۔  آج یہ آنکھیں کیسی زخمی شیرنی کی تھی۔۔۔۔

مجھے تمہاری مدد چاہیے ۔۔۔  جزا اس کو دیکھتے ہوئے بولی تھی اس کا لہجہ ہموار تھا ۔۔۔

جزا تمہیں نہیں لگتا میں تم سے بڑا ہوں اور تمہیں مجھے آپ کہہ کر بولنا چاہیے ۔۔۔۔ بیسٹ نے اس کی بات کا جواب دینے کے بجائے سوال کیا تھا۔۔۔ جبکہ جزا آنکھوں میں قہر لیے اس کو دیکھ  رہی تھی ۔۔

میں اس وقت تم سے تمیز اور تربیت کی ٹیوشن لینے نہیں آئی ہوں تم سے مدد کا کہنے آئی ہوں۔۔ جزا ایک ایک لفظ چبا چبا کر بولی تھی جبکہ تم لفظ پر اس نے بہت زیادہ زور دیا تھا۔۔۔ اس کی اس ادا پر بیسٹ ماسک کے پیچھے ہلکا سا مسکرایا تھا۔۔۔

ہمت والی ہو تم میرے سامنے کسی کی آنکھ اٹھانے کی ہمت نہیں اور تم زبان چلا رہی ہو۔۔۔ بیسٹ داد دیتی نظروں سے اس کو دیکھتا بولا تھا۔۔۔

مجھے زبان دوڑانی بھی آتی ہے دوڑا کر دیکھاؤ ۔۔۔ جزا اپنی شہد رنگ آنکھیں اس کی سبز آنکھوں میں گاڑ کر بولی تھی۔۔۔ جبکہ ماسک کے پیچھے بیسٹ کا منہ کھولا کا کھولا رہ گیا تھا۔۔۔

امپریسڈ۔۔۔۔ بیسٹ اس کو دیکھتا بولا تھا۔۔۔

کیا اب مجھے میری بات کا جواب مل جائے گا؟؟  جزا سخت نظروں سے بیسٹ کو دیکھتے بولی تھی۔۔۔

کس لیے مدد چاہیے ۔۔۔ بیسٹ نے اس کو دیکھتا بولا تھا۔۔۔

میں  خون کے بدلے خون چاہتی ہوں۔۔۔ مجھے میرے گھر والوں کے ناحق خون کا بدلہ چاہیے ہے ۔۔ میں اس کو خون کے آنسوں رولانا چاہتی ہوں۔ مجھے اس میں تمہاری مدد چاہیے مجھے انتقام لینا ہے۔۔۔ جزا سخت نظروں سے بیسٹ کی طرف دیکھتے بولی تھی۔۔ جبکہ بیسٹ اس کے چہرے کو باغور دیکھ رہا تھا جیسے وہ کچھ ڈھونڈ رہا ہو۔۔۔ مگر اس کو نہ تو اس کے چہرے پر کوئی پریشانی نظر آئی نہ نروسنس ۔۔ نہ جزا کی آواز میں لرزش تھی نہ ہچکچاہٹ۔۔۔۔

تمہیں خون کے بدلے خون چاہیے ۔۔ انتقام چاہیے ۔۔ مگر کیا ثابت قدم رہ پاؤ گئی اپنے فیصلے پہ؟ انتقام کا راستہ آسان راستہ نہیں ہوتا۔۔ جان کا خطرہ ہر وقت ہو گا۔۔ اگر اس راستے ہر ایک بار چل پڑو تو دشمن کو قبر تک آتار کر لوٹنا ہوتا ہے جب تک دشمن پر اس کی قبر کی مٹی پھینک نہ دو سکون سے نہیں بیٹھا جاتا۔ اگر تم بیچ راستے میں تھک گئی ہار مان گئی تو؟؟؟  بیسٹ جزا کے چہرے کی طرف دیکھتے بولا تھا جو ہر جذبات سے اڑی تھا ۔۔

میں جس دن پیچھے ہٹنے کا  سوچوں گئی نہ اس دن خود کو  اپنی سانسوں سے آزاد کر دوں گئی۔ اگر میں اپنے گھر والوں کے ناحق خون کا بدلہ نہیں لے سکتی اگر میں اپنی معصوم بہن کی بےآبروئی کا بدلہ نہیں لے سکتی تو مجھے  زندہ رہنے کا بھی کوئی حق نہیں ۔۔۔  جزا اپنی شہد رنگ آنکھوں میں قہر لیے بیسٹ کی سبز آنکھوں میں دیکھتے بولی تھی ۔۔۔۔

دیکھو سوچ لو ایک بار اس بارے میں ۔۔ ابھی تم جذباتی  ہو ۔۔۔ بیسٹ نے اس کو باغور دیکھا تھا۔۔۔

میں جذباتی نہیں ہوں بیسٹ میں پورے ہوش و حواس میں بات کر رہی ہوں۔ کیا تم میری مدد کرو گے۔۔۔ جزا ایک ایک لفظ پر دباؤ ڈال کر بولی تھی۔۔۔

تم مجھے تم کہنا بند کرو گی۔۔۔  بیسٹ نے اس کی ساری بات میں بس اس لفظ کو پکڑا تھا۔۔۔

میں تمہیں آپ بولنے کی پابند نہیں ہو سمجھ آئی ۔۔ میں تمہیں تم کہہ کر ہی بلاؤں گئی مسئلہ ہے تو کانوں میں روئی ڈال لو۔۔ جزا سخت نظروں سے دیکھتے دو ٹوک انداز میں بولی تھی۔۔۔ جبکہ اس کی اس ہمت ہر بیسٹ اس کو داد دیتی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔۔۔ بلآخر اس کو ویسی لڑکی مل ہی گئی تھی جس کی اس کو خواہش تھی۔۔۔  ناڈر اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے والی کسی کے سامنے نہ ہچکچانے والی۔۔۔

مجھے تمہارا انداز پسند آیا ہے۔۔ بیسٹ اس کو دیکھتا بولا تھا۔۔۔

تم میری مدد کرو گے کہ نہیں ؟؟؟ جزا نے اس کی بات کو نظر انداز کرتے دوبارہ اپنا سوال دہرایا تھا۔۔۔

تمہاری کلائی گن اٹھا لے گئی؟؟ بیسٹ نے اس کی نازک کلائی پر چوٹ کی تھی۔۔۔

مسٹر بیسٹ اگر عورت انتقام لینے پر آئے تو اس کی نازک کلایاں گن تو دور کی بات ایک ہی وقت میں دو تلواریں اٹھا سکتی ہیں ۔۔۔ جزا ایک ایک لفظ چبا کر بولی تھی ۔ اور یہ وہ وقت تھا جب وہ بیسٹ کے دل کو مکمل طور پر اپنے نام کروا چکی تھی۔۔۔ بیسٹ کو سامنے کھڑی لڑکی میں سے اپنا عکس دیکھائی دے رہا تھا۔۔ ظالم اور بے رحم دشمنوں کے لیے عذاب ، بربادی اور موت کا اعلان ۔۔۔

 میں تمہاری ہر لحاظ سے مدد کروں گا۔۔۔ ہر طرح کی فائیٹنگ سکیل سکھاؤ گا۔۔۔ گن چلانا، تلوار چلانا ، خنجر سے وار کرنا چاقو سے وار کرنا۔۔ خود کو کس طرح مشکل سے باہر نکلانا ہے ہر ہنر سکھاؤ گا۔۔۔ مگر میری ایک شرط ہے۔۔۔ بیسٹ بولتے ہوئے روکا تھا۔۔۔

کیسی  شرط؟ جزا نے ایک ائی برو اٹھا کر بیسٹ کی طرف دیکھا تھا۔۔۔

تمہیں مجھ سے نکاح کرنا ہو گا جزا ۔۔۔ میں تمہاری ہر مدد کروں گا بدلے میں تمہیں مجھ سے نکاح کرنا ہے۔۔۔۔ بیسٹ جزا کو دیکھتا پرسکون سا بولا تھا۔۔ جبکہ اس کی بات پر جزا کے تن بدن میں آگ لگ گئی تھی۔۔۔

دیکھا دیا نہ تم نے اپنا اصل روپ۔۔۔ کتنے گھٹیا ہو تم۔۔۔ مدد کے بدلے نکاح کا  بول کر مجھ سے اپنی ہوس پوری کرنا چاہتے ہو۔۔ جزا سخت نظروں سے اس کی طرف دیکھتی بلند آواز میں بولی تھی۔۔۔ اس کی آنکھوں میں نفرت اور غصہ صاف نظر آ رہا تھا۔۔۔ جبکہ اس کی بات پر بیسٹ کے ماتھے پر لاتعداد بل پڑے تھے ۔۔۔

جزا میڈم گھٹیا وہ شخص ہوتا ہے جو زنا کی دعوت دے نہ کہ نکاح کی۔۔۔ اور اگر میں ہوس پرست انسان ہوتا تو میرے پلیس میں تمہیں ہر وقت شراب و شباب کی محفل لگی ہوئی نظر آتی ۔۔۔ اور میرے آس پاس بھی اس وقت حسیناؤں کا ہجوم ہوتا۔۔۔ اور اگر میں نے تم سے اپنی ہوس پوری کرنی ہوتی تو تمہیں نکاح جیسے پاک رشتے کا نہ بولتا۔۔۔ تم تین دن میرے پاس ہوش و حواس سے بیگانی تھی۔۔ میں چاہتا تو اپنی ہوس تب پوری کر چکا ہوتا اور تمہیں مار کر کہیں پھینک دیتا۔۔۔ مگر میں نے ایک لمحہ بھی تمہیں میلی نظر سے نہیں دیکھا۔۔۔ تمہارا کردار پاک تھا اور تم باعزت تھی۔۔ اور تمہارا کردار ابھی بھی پاک ہے اور تم ابھی بھی باعزت ہو۔۔۔ میں دوسرے ہوس پرست مردوں کی طرح نہیں ہوں جن کے لیے عورت صرف ہوس پوری کرنے کا ذریعہ ہے۔۔۔ میرے لیے عورت قابلِ احترام ہے کبھی ماں کے روپ میں کبھی بیوی کے روپ میں کبھی بہن کے اور کبھی بیٹی کے۔۔۔ بیسٹ جزا کو قہر برساتی نظروں سے دیکھتا بول رہا تھا۔۔۔ وہ جس نے کبھی کسی عورت کو غلط نیت سے آنکھ اٹھا کر نہ دیکھا تھا۔۔  جس نے کبھی کسی عورت کو اپنے قریب نہ آنے دیا تھا۔۔ کیسے سامنے کھڑی لڑکی ایک لمحے میں اس کو ہوس پرست بول گئی تھی ۔۔۔

جزا بس اس کو دیکھتے چلی جا رہی تھی۔۔ اس کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔۔۔ بیسٹ کے الفاظ اس کے منہ سے الفاظ کھینچ چکے تھے۔۔۔

آج کے بعد اگر مجھ پر دوبارہ تہمت لگائی تو بھول جاؤ گا تم کون ہو۔۔ سمجھ آئی ۔۔ اور میری پیشکش کے بارے میں سوچو ۔۔ اس کو خاموش دیکھ  کر بیسٹ پھر سے بولا تھا۔۔۔

میں تم سے نکاح نہیں کروں گئی ۔۔ نہ تو میں تمہارے بارے میں جانتی ہوں اور نہ کچھ اور۔۔۔ جزا اس کو دیکھتے بولی تھی۔۔۔

مگر میں تمہارے بارے میں جانتا ہو ۔۔۔ تمہارے باپ کے بارے میں جانتا ہوں۔۔ اور تمہارے باپ کے ایک ایسے راز سے واقف ہوں جس سے تم انجان ہو۔۔۔ تمہارا باپ کوئی عام آدمی نہیں تھا جزا۔۔۔ بیسٹ اس کو  دیکھتا بولا تھا۔۔۔

کیسا راز کیا جانتے ہو تم میرے بابا کے بارے میں بتاؤ مجھے۔۔۔ اپنے باپ کا ذکر سن کر وہ بے قرار سی ہوئی تھی ۔۔

یہ راز اور میری مدد دونوں ہی تمہیں تب ملیں گے جب تم مجھ سے نکاح کرو گئی۔۔۔ ورنہ اس راز اور میری مدد دونوں کو بھول جانا۔۔۔ بیسٹ یہ کہہ کر صوفے کی پشت سے ٹیک لگا چکا تھا۔۔۔

تم زبردستی کر رہے ہو میرے ساتھ۔۔۔ جزا اس کو سخت نظروں سے دیکھتے بولی تھی۔۔

اللہ کا خوف کھاؤ لڑکی۔۔ میں نے تم پر بندوق تو نہیں تانی اور نہ تم سے گن پوائنٹ پر نکاح کر رہا ہوں تو یہ زبردستی کیسے ہوئی۔۔۔ میں تو تمہیں وقت بھی دے رہا ہوں کہ آرام سے سوچو اس بارے میں ۔۔۔ بیسٹ اس کو دیکھتا بولا تھا۔۔ جبکہ ماسک کے پیچھے چھپے ہونٹوں پر شریر مسکراہٹ تھی۔۔۔

فضول آدمی ۔۔۔ جزا اس کو سخت نظروں سے دیکھتی کمرے سے باہر چلی گئی تھی ۔۔ جبکہ اس کی بات پر وہ  دل کھول کر مسکرایا تھا۔۔۔

ظالم خاتون۔۔۔۔ اس کو کمرے سے جاتا دیکھ بیسٹ بولا تھا ۔

 urdunovelnests•••••••••••••

وہ جب سے اپنے کمرے میں آئی تھی۔۔ مسلسل بیسٹ کی باتوں کے بارے میں سوچ رہی تھی۔۔۔ جب گل اس کے کمرے میں آئی تھی ۔۔ اس نے اس وقت نائٹ ڈریس میں تھی۔۔۔ اس نے بےبی پنک کلر کے بچامے کے اوپر بےبی پنک کلر کی اوور سائیز شرٹ پہن رکھی تھی۔۔۔  بالوں کو جوڑے میں باندھے وہ  جزا کے کمرے میں انکھی ملتی آئی تھی۔۔۔  جبکہ جزا اپنے کمرے میں اِدھر اُدھر چکر کاٹ رہی تھی ۔۔ اس کو  انتہا کا غصہ تھا بیسٹ پر۔۔۔

کیا بات ہوئی۔۔۔ گل اس سے پہلے اپنی بات پوری کرتی جزا کو غصے میں دیکھ کر جلدی سے اس کے پاس آئی تھی۔۔۔

کیا کہا ہے بیسٹ نے۔۔۔ گل اس کے سامنے روکتے بولی تھی ۔۔۔

نام مت لو اس فضول آدمی کا۔۔۔ جزا گل کو گھورتے بولی تھی ۔ جبکہ اس کے منہ سے بیسٹ کے لیے فضول آدمی  کا لفظ سن کر گل گرتے گرتے بچی تھی۔۔ کس میں ہمت تھی بیسٹ کے بارے میں کچھ غلط بولنے کی۔۔۔ اور ایک یہ جزا تھی۔۔ جو منہ کھولے اس کو فضول آدمی بول رہی تھی ۔۔

اس کے سامنے تو نہیں یہ بول آئی آپ ۔۔۔ گل ڈرتے ڈرتے پوچھ رہی تھی۔۔۔

اس کے منہ پر بول کر آئی ہوں۔۔ ڈرتے تم لوگ ہو گے اس سے ۔۔ میری جوتی بھی نہیں ڈرتی اس سے ۔۔ جزا اس وقت مکمل طور پر آگ کی طرح بھڑک رہی تھی۔۔۔ جبکہ گل کا منہ کھولا کا کھولا رہ گیا تھا۔وہ بیسٹ کے منہ پر اس کو فضول آدمی بول کر آئی تھی اور ابھی تک زندہ کھڑی تھی۔۔ گل کو حیرت ہی اس بات کی تھی۔۔۔

آپ مدد مانگنے گئی تھی یا اپنے لیے مصیبت کھڑی کرنے۔۔۔ اپ اس کو ایسے کیوں بول کر آئی ہیں وہ آپ کو جان سے مار ڈالے گا۔۔۔ گل جزا کا  بازو پکڑ کر اس کو جھنجھوڑتی ہوئی بولی تھی۔۔۔

میں  مدد مانگنے ہی گئی تھی۔۔ بدلے میں نکاح کا دعوت نامہ لائی ہوں۔۔۔ جزا نے گل کے سر پر دھماکہ کیا تھا۔۔۔ جزا کی بات سن کر گل بیڈ پر گری تھی۔۔۔

ناممکن ۔۔۔ گل بس اتنا ہی بول پائی تھی۔۔۔  جبکہ جزا اب کی بار حیران ہو کر گل کو دیکھ رہی تھی۔۔۔

کیا مطلب ۔۔۔ جزا نے اس کو غور سے دیکھا تھا۔۔۔

آپ کو بیسٹ نے نکاح کے لیے بولا ہے؟؟ میرا مطلب وہ آپ سے نکاح کرنا چاہتا ہے؟؟؟  گل حیرت سے جزا کی طرف دیکھتے بولی تھی ۔۔۔

ہاں اس نے یہ ہی بولا ہے۔۔۔۔ جزا بس اتنا ہی بول پائی تھی ۔۔

یہ کیسے ہو سکتا ہے۔۔۔ مجھے یقین نہیں آ رہا۔۔۔  گل اپنا سر پکڑ چکی تھی۔۔۔۔

کہیں اس نے تمہیں بھی تو نکاح کا نہیں بولا ۔۔ یا تم اس کی بیوی ہو یا اس کی محبت ۔۔۔ ابھی جزا کچھ اور بولتی گل فوراً سے اٹھی تھی اور اس کے منہ پر اپنا ہاتھ رکھ دیا تھا۔۔۔۔

استغفر اللہ استغفراللہ۔۔۔ کیا بول رہی ہو آپ ۔۔ وہ میرے لیے میرا بڑا بھائی ہے۔۔۔ گل جزا کو دیکھتے کانوں کو ہاتھ لگا ہر بولی تھی۔۔۔

تو تم ایسے  کیوں ری ایکٹ کر رہی تھی جیسے کوئی بہت بڑا پہاڑ ٹوٹا ہو تم پر۔۔۔ جزا الجھن سے اس کو دیکھتے بولی تھی۔۔۔

ہاں تو پہاڑ ہی تو ٹوٹا ہے۔۔۔ وہ جو کبھی نہ شادی کرنے کی قسم کھا کر بیٹھا تھا آج اس نے آپ کو نکاح کے لیے کہا ہے۔۔۔ گل نے جزا کو سر سے پیر تک غور سے دیکھا تھا۔۔۔۔۔

میں ہر گز نہیں کروں گئی اس سے شادی ۔۔ جزا گل کو گھورتے ہوئے بولی تھی۔۔۔

مان جاؤ نہ کر لو نہ ان سے شادی۔۔۔ گل نے جزا کے سامنے ہاتھ جوڑے تھے۔۔۔

میرے حالات خراب ہیں دماغ نہیں جو اس سے شادی کر لوں ۔۔۔  جزا گل کو ایسے دیکھ رہی تھی جیسے اس کو ابھی کھا جائے گئی۔۔۔

جزا آپی وہ بہت اچھے ہیں ۔۔۔ گل اس کے پیار سے دیکھتے بولی تھی۔۔۔

ہاں واقعے ہی بہت اچھے ہیں ۔۔ لوگوں کو مارتے ہیں خون بہاتے ہیں بہت اچھے ہیں ۔۔۔ جزا گل لی عقل پر ماتم کرتی بولی تھی۔۔۔

جزا آپی پلیز ۔۔۔۔ گل نے اس کی منت کی تھی۔۔۔

تم اپنے کمرے میں چلی جاؤ اگر اس کے لیے تم نے مجھے منانا ہے تو۔۔ جزا گل کو سخت نظروں سے دیکھتے بولی تھی۔۔۔۔ جبکہ گل خاموش ہو کر ایک جگہ بیٹھ گئی تھی۔۔۔۔

باقی کی رات جزا نے جاگ کر ہی گزاری تھی جبکہ گل اس کے بیڈ پر خواب خرگوش کے مزے لے رہی تھی۔۔۔ یہ رات جزا کے لیے بہت لمبی تھی۔۔۔ وہ کوئی ایک فیصلہ نہیں کر پا رہی تھی۔۔۔

کس راز کی بات کر رہا ہے بیسٹ ۔۔ وہ کیا جانتا ہے بابا کے بارے میں ۔۔۔ جزا سر ہاتھوں میں گرا کر بیٹھ گئی تھی۔۔۔ اس کا سر اب درد کرنے لگا تھا۔۔۔

ایک طرف انتقام تھا ایک طرف اس کو بیسٹ کی مدد چاہیے تھی۔۔ اوپر سے بیسٹ اس کو کشمکش میں ڈال چکا تھا۔۔۔ ایک انجانے راز کا بتا کر اور نکاح کی پیشکش کر کے۔۔۔

 urdunovelnests••••••••••••••

ابھی دن چڑھنے میں کچھ وقت باقی تھا وہ اپنے کمرے میں بنے سٹڈی روم میں صوفے پر بیٹھا تھا پھر کچھ سوچتے اس نے فون نکال کر ایک نمبر ڈائل کیا تھا ۔۔۔ دوسری طرف کال جا رہی تھی اور کچھ ہی لمحوں میں کال اٹھا لی گئی تھی۔۔

ہیلو ہاں بولو بیسٹ۔۔ دوسری طرف سے فوراً سوال کیا گیا تھا۔ ۔

کدھر ہو تم؟؟ بیسٹ ہموار لہجے میں بولا تھا۔۔۔

جدھر کام کے لیے چھوڑ کر گئے ہو ۔۔ مقابل چہرے پر مسکراہٹ سجا کر بولا تھا۔۔۔

گڈ۔۔۔ میری اب بات سنو ولف لیو کو لے کر اٹلی آؤ ۔۔۔ بیسٹ نے  سامںے رکھی شطرنج کو گھور سے دیکھتا بولا تھا ۔۔

اچانک اٹلی کیوں سب ٹھیک ہے ادھر؟؟ ولف پریشان سا بولا تھا۔۔۔

ہاں سب ٹھیک ہے ادھر بس آج شام تک اٹلی پہنچو تم اور لیو۔۔ جب ادھر آؤ گے سب پتا چل جائے گا۔۔۔ بیسٹ یہ کہہ کر فون رکھ چکا تھا ۔۔

اب اس نے ایک اور نمبر ڈال کیا تھا ۔۔ دوسری طرف فوری طور پر کل اٹھا لی گئی تھی ۔۔

ہیلو ۔۔۔ بیسٹ ہی پہلے بولا تھا ۔۔

بیسٹ ۔۔۔ مقابل نے اس کی آواز سن کر اس کا ںام پکارا تھا اور ایک بار  فون کان سے ہٹا کر نمبر بھی دیکھا تھا یہ ایک پرائیویٹ نمبر تھا۔

رحیان میں نے تمہیں ایک کام دیا تھا کچھ سال پہلے شاید تمہیں یاد ہو گا؟ بیسٹ پرسکون انداز میں بولا تھا۔۔

یاد ہے بیسٹ ۔۔ تم نے شہزاد پر نظر رکھنے کا بولا تھا کہ وہ جزا کو کوئی نقصان نہ پہنچائے ۔۔۔  رحیان آنکھوں میں ندامت لیے بولا تھا ۔۔

آج شام تک اٹلی ہونے چاہیے ہو تم ۔۔۔ سمجھ آ گئی بات۔۔۔ بیسٹ نے صوفے کی پیشت سے ٹیک لگائی تھی ۔۔

سب ٹھیک ہے بیسٹ  یا کوئی مسئلہ  ہو گیا ہے؟  رحیان کی پریشان آواز سپیکر پر سے گونجی تھی ۔۔

سب  ٹھیک ہے اٹلی آؤ پتا چل جائے گا ۔۔ بیسٹ نے ہاتھ میں پکڑی رانی کو بادشاہ کے ساتھ رکھا تھا ۔۔ اور کال کاٹ دی تھی۔۔۔

 urdunovelnests•••••••••••••••

وافیہ(للی) اس وقت باہر لا ؤن  میں مزمل بیگم کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی ہاتھ میں اس کے چائے کا کپ تھا۔۔ اور وہ مزمل بیگم سے کوئی بات کر رہی تھی جبکہ مزمل بیگم اپنی چائے کا کپ لبوں سے لگائے اس کی بات دلچسپی سے سن رہی تھی۔۔۔ جب اچانک پیچھے سے آئی آواز پر خاموشی ہوئی تھی۔۔۔

گڈ مارننگ ۔۔۔ حدید  وائٹ پنٹ پر بیج کلر کی شرٹ پہنے بال نفاست سے سیٹ کیے ان دونوں کے سامنے کھڑا تھا ۔۔ وہ بہت ہنڈسم لگ رہا تھا ۔

گڈ افٹر نون ۔۔۔ مزمل بیگم نے اپنی مسکراہٹ دباتے اس کو دیکھ کر بولا تھا۔۔۔

آپ کی آفٹر نون چل رہی ہے مگر میری مارننگ ابھی ہوئی ہے۔۔۔  حدید مزمل بیگم  کو دیکھتا ایک چیر پر بیٹھ گیا تھا ۔۔

او اچھا ایسی بات ہے۔۔ مزمل بیگم نے اس کو سر تا پیر دیکھا تھا۔۔ آج اپنی تیاری سے وہ نظر لگ جانے کی حد تک پیارا لگ رہا تھا۔۔۔

جی ایسا ہی ہے۔۔۔ ویل کیا مجھ معصوم کو ناشتہ مل جائے گا ۔۔ اس نے مزمل بیگم کو بیچارگی سے دیکھا تھا۔۔۔ جبکہ وافیہ اس سب میں خاموش ہی بیٹھی تھی۔۔۔

میں تمہارے لیے ناشتہ بناتی ہوں ۔۔۔ مزمل بیگم یہ کہہ کر ادھر سے اٹھ کر چلی گئی تھی۔۔۔ وافیہ بھی اٹھ کر جانے لگی تھی جب حدید کے الفاظ پر اس کے قدم روک گئے تھے۔۔۔

وافیہ کیا ہم بات کر سکتے ہیں ۔۔۔ حدید مدہم لہجے میں بولا تھا۔۔۔

آ ۔۔ آپ کو کی۔۔کیا با۔۔ بات کرنی ہے ۔۔۔ وافیہ بامشکل بول پائی تھی۔۔۔

اتنا نرویس نہ ہو۔۔۔ میں تمہیں جان سے نہیں مار ڈالوں گا۔۔۔ حدید ہلکا سا مسکرایا تھا۔۔ اس کی اس بات کر وافیہ کا رنگ فق ہوا تھا۔۔ جیسے حدید نے اس کو جان سے مار ڈالا تھا۔۔۔

واپس آ کر اپنی جگہ پر بیٹھو۔۔ اس کو ایسے ہی کھڑا پا کر حدید  پھر سے بولا تھا ۔۔۔ وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی واپس آ کر بیٹھی تھی۔۔۔

کیسی ہو تم۔۔۔ حدید نے بات کا آغاز کیا تھا۔۔۔

میں ٹھیک ہوں۔۔۔ وہ  اِدھر اُدھر دیکھتے بولی تھی۔۔ دل و دماغ میں اس کے بھی بہت سوال تھے اور ایک عرصے سے  تھے وہ اس سے سوال بھی پوچھنا چاہتی تھی مگر اس کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کیسے پوچھے۔۔۔

تم کچھ پوچھنا چاہتی ہو تو پوچھ لو پھر میں اپنی بات کروں گا۔۔ حدید اس کے چہرے کے تاثرات کو اچھے سے سمجھ چکا تھا تبھی فوراً بولا تھا۔۔۔

میں تمہارے بارے میں جاننا چاہتی ہوں۔۔ کون ہو تم ہر بار جب بھی میں کیسی مصیبت میں پڑی تم نے ہمیشہ مجھے بچایا ۔۔۔ مگر مجھ سے اپنی پہچان بھی چھپاتے تھے۔۔۔ پلیز مجھے بتا دو تم یہ سب کیوں کرتے تھے۔۔۔ وافیہ اس کو دیکھتے بولی تھی۔۔۔

میرے بارے میں جانے کے لیے کیا اتںا کافی ہو گا میں تمہارا دیوانہ ہوں۔۔ جس دن سے تمہیں دیکھا ہے کبھی بھی کسی اور لڑکی کو چاہنے کی خواہش ہی نہیں ہوئی۔۔۔ تمہیں ہر مصیبت سے اس لیے بچاتا تھا کیونکہ میں تم پر ایک خروچ تم برداشت نہیں کر سکتا تھا۔۔۔ تم سے اپنی پہچان اپنا آپ اس لیے چھپایا کیونکہ وہ صحیح وقت نہیں تھا اس سب کے لیے۔۔ میں یہ سب اپنے دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر کرتا تھا اپنی محبت کی حفاظت کے لیے کرتا تھا۔۔۔ حدید اس کے سارے سوالوں کا جواب ایک ترتیب سے دے چکا تھا۔۔۔ جبکہ وافیہ اس کو منہ کھولے دیکھتی رہ گئی تھی۔۔۔

یہ جانے کے بعد بھی تم مجھ سے محبت کرتے رہے کہ میں کسی اور کے ساتھ ریلیشن میں تھی۔ میں غیر نسلم تھی۔  وہ حیران پریشان سی بولی تھی۔۔۔

سچ بتاؤ تو ایک لمحے سوچھا تھا ہٹ جاؤ پیچھے کہ تم کسی اور کو چاہتی ہو۔۔ مگر میرے بس میں نہ تھا یہ۔۔۔ میرا دل تڑپتا تھا جب جب میں تمہیں اس شخص کے ساتھ دیکھتا تھا۔۔۔ مگر میں ایک لمحہ بھی تم سے نفرت نہ کر پایا۔ اور رہی بات غیر مسلم کی تو اب تم مسلمان ہو۔۔ حدید اس کو دیکھتا مدہم سا مسکرا کر بولا تھا۔۔ جبکہ وافیہ ساکت نظروں سے اس کو دیکھ رہی تھی۔۔۔  

تمہارا نام کیا ہے۔۔۔ خود میں ہمت کر کے وہ بولی تھی۔۔۔

دنیا کے لیے امیل ہوں میں مگر تمہارے لیے صرف حدید ۔۔۔ حدید اس کو مسکرا کر دیکھتے بولا تھا۔۔۔  اس کی بات پر وافیہ کا چہرہ سرخ ہوا تھا۔۔

کیا تم مجھ سے ابھی بھی محبت کرتے ہو میرے بارے میں سب کچھ جانتے ہوئے بھی۔۔ نہ جانے وہ اس سے کیا سنا چاہتی تھی اور کیا نہیں ۔۔۔

میں تمہارے ایک ایک لمحے سے باخبر ہونے کے باوجود تم سے نفرت نہ کر سکا تو ابھی کیسے کرو گا؟؟؟   حدید اس کو دیکھتے بولا تھا اس نے سوال کے بدلہ سوال کیا تھا جس کا جواب وافیہ کہ پاس تو نہ تھا۔۔ وافیہ بز خاموشی سے اس کو دیکھ رہی تھی جو اس کو یر سوال پر لاجواب کر رہا تھا جس کے ایک ایک لفظ زے محبت ٹپک رہی تھی۔۔۔

کیا تم مجھ سے شادی کرو گئی؟؟  اس کو خاموش بیٹھا دیکھ کر حدید بولا تھا۔۔۔

میں تمہارے قابل نہیں ہو۔۔ نہ تمہاری محبت کے۔۔۔۔۔  وہ سر جھکا کر بولی تھی۔۔۔

یہ تمہیں کس نے کہا تم میرے قابل نہیں میری محبت کے قابل نہیں؟؟ حدید اس کو دیکھ کر بولا تھا ۔۔ اس کو تو اس احمق لڑکی کی بات پر غصہ آ رہا تھا۔۔۔

تمہاری محبت بہت انمول ہے۔۔۔ اس کی حقدار مجھ جیسی عورت نہیں ہونی چاہیے۔ جو اپنا آپ بغیر کیسی جائز رشتے کے کسی اور کو دے چکی تھی کبھی۔۔ حدید کی بات سن کر وافیہ پھر سے بولی تھی۔۔۔

میری محبت اس دن انمول ہو گئی وافیہ جس دن تم اس محبت کو اپنا لو گئی۔۔ ورنہ میری محبت بےمول ہو جائے گئی۔۔۔ محبت انسان خود نہیں کرتا یہ انسان کے اپنے بس کی بات نہیں ہے۔۔ محبت دلوں میں اتاری جاتی ہے۔۔ یہ تو ایک روح کا دوسری روح سے تعلق ہوتا ہے جو ہماری تخلیق سے پہلے بنا دیا گیا ہوتا ہے۔۔۔ اور جب ہمیں وہ  روح اس دنیا میں ملتی ہے تو ہمیں اس سے محبت کرنے لگا جاتے ہے ہمیں ایسا لگتا ہے جیسے وہ شخص ہمارے وجود کو حصہ ہے جیسے ہم اس کو جانتے ہیں ۔۔۔ میرے دل میں صرف تمہارے لیے یہ جذبات ڈالے گئے ہیں وافیہ۔۔۔ حدید آفندی کی تمام تر محبت اور حدید آفندی کی صرف اور صرف تم حقدار ہو۔اور رہی بات تمہارے اس شخص کے ساتھ تعلق کی اس کی جواب دے تم اپنے اللہ کو ہو مجھے نہیں وافیہ۔۔ اور میں جانتا ہو تم ہر عمل پر شرمندہ ہو اور ندامت کا ایک انسو جہنم کی آگ بجھا سکتا ہے تو توبہ کیوں نہیں قبول ہو سکتی۔ حدید کے ایک ایک لفظ سے صرف محبت جھلک رہی تھی۔۔ جبکہ وافیہ ٹکٹکی باندھے اس کو دیکھ رہی تھی۔۔۔

مگر۔۔۔۔ اس نے کچھ بولنے کے لیے لب کھولے ہی تھے کے حدید نے اس کو ٹوک دیا۔۔۔

وافیہ مجھے تم ہر حال میں قبول ہو۔۔ مجھے تمہارے ماضی سے کوئی پرواہ نہیں نہ تم اس کی مجھے جواب دہ ہو۔۔ اور ایک بار میری پیشکش پر غور ضرور کرنا۔۔ یہ کہہ کر حدید اپنی جگہ سے اٹھ کر اندر چلا گیا تھا۔۔ جبکہ وافیہ باہر ششو پنج میں مبتلا تھی ۔۔

 urdunovelnests••••••••••••

رحیان اپنا سامان ایک چھوٹے سے بیگ میں رکھ رہا تھا جب عزیزہ اس کے کمرے میں آئی تھی ۔۔

تم کہاں جا رہے ہو رحیان۔۔۔ عزیزہ اس کو سامان بیگ میں ڈالتے دیکھ کر بولی تھی ۔۔۔

کچھ نہیں کیسی کام سے پاکستان سے باہر جا رہا ہوں۔۔۔ جلدی واپس آ جاؤ گا ۔۔ رحیان ہاتھ میں پکڑی ایک بلیک فائل بیگ میں ڈالتے بولا تھا۔۔۔

مگر کیا کام ہے کدھر جا رہے ہو بتاؤ گے؟؟ عزیزہ نے اس کے بازو سے پکڑ کر اس کا روخ اپنی طرف موڑا تھا۔۔۔

موم میں نہیں بتا سکتا ابھی ٹائم نہیں ہے ۔۔ رحیان ان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بولا تھا۔۔

نہ تم کوئی بزنس سٹارٹ کرنے کا سوچتے ہو نہ تم آرمی کی طرف گئے۔۔۔ آخر تم۔ کر کیا رہے ہو ۔ ایک عرصے سے میں تمہاری حرکتوں کو نظر انداز کر رہی ہوں مجھے بتاؤ گے کہ نہیں ۔۔۔ عزیزہ نے غصے سے اس کو گھورا تھا۔۔۔

موم میں آپ کو بتا دوں گا سب فلحال مجھے جانے دیں ۔۔ رحیان نے ان کے چہرے کو ہاتھوں کے پیالے میں لیا تھا۔ ۔

تم ماں سے باتیں چھپا رہے ہو ۔۔ عزیزہ نے اس کو سخت نظروں سے نوازا تھا۔۔۔

مجبور ہوں۔۔۔رحیان بس اتنا ہی بول پیا تھا اور اپنا  بیگ ہاتھ میں لیا تھا عزیزہ  کا ماتھا چوما اور کمرے میں سے باہر نکل گیا تھا ۔۔

میں تمہارے باپ سے آج بات کرو گئی آ لو تم ایک بار   واپس۔۔ عزیزہ غصے اور غم سے اس کو جاتا دیکھ کر بولی تھی ۔۔  وہ اس کی ماں تھی مگر اکثر وہ ہی اس کو سمجھ نہیں پاتی تھی۔۔۔ اکثر رحیان کی حرکتوں سے وہ پریشان ہو جاتی تھی ۔۔ وہ جو ہر راز کو آسانی سے حل کر لتی تھی مگر بیٹے کے راز کو حل کرنا ان کے لیے بہت مشکل تھا۔۔۔ وہ ان کا بیٹا تھا اس کو پتا تھا اپنی ماں سے اس نے راز کیسے چھپانے ہیں۔ 

 urdunovelnests•••••••••••••

امل خدا کا واسطہ ہے خود پر رحم کھاؤ ۔۔۔ مت کرو خود کے ساتھ ایسے۔۔۔ روحا بیگم نے امل بیگم کو سینے سے لگا لیا تھا۔۔۔

روحا وہ میرا آخری خاندان تھا۔۔۔ میں اپنے بھائی کو بچپن میں ہی کھو چکی تھی۔۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ماں باپ نے بھی دنیا سے منہ موڑ لیا تھا ۔۔ بس ایک بہنوں جیسی دوست تھی۔۔ ایک آخری خاندان تھا میرا ۔۔ کس بدبخت کی نظر لگی سب کچھ تباہ ہو گیا۔۔۔ امل بیگم روتے ہوئے بولی تھی۔۔۔ جب روحا بیگم نے ان کو گلے لگا لیا تھا آنکھیں ان کی بھی بھیگ گئی تھی ان کو بھی انعم بیگم کی بڑی یاد آئی تھی۔۔۔

صبر کرو امل ۔۔۔ روحا بیگم بس اتنا ہی بول پائی تھی ان کے پاس الفاظ نہ تھے  امل بیگم کو کہنے کے لیے ۔۔

میری جزا نہیں مل رہی روحا۔۔۔ وہ جوان ہے ۔۔۔۔ میرا دل اس کی طرف سے زیادہ ڈرتا ہے۔۔۔ روحا یہ معاشرہ یہ دنیا درندوں سے بھری ہے۔۔ میری بچی نہ جانے کہاں ہو گئی روحا۔۔۔ امل بیگم روتے ہوئے بولی تھی۔۔۔

امل اللّٰہ ہماری بچی کو اپنی حفاظت میں رکھے۔۔ تم اس کو اللہ کے حوالے کیوں نہیں کرتی۔۔۔ جس کو اللہ کے سپرد کر دیا جائے اس کا محافظ پھر وہ ہی ہوتا ہے۔۔ اور اس سے بہتر کوئی حفاظت نہیں کر سکتا۔۔۔ روحا بیگم بھری ہوئی آواز میں امل بیگم کی طرف دیکھ کر بولی تھی۔۔۔  وہ نہ جانے کتنی بار دوراب کی منت کر چکی تھی کہ جزا کو ڈھونڈ لائے مگر وہ بھی ہر بار ناکام لوٹتا تھا۔۔۔ وہ بھی ایک بیٹی کی ماں تھی ۔۔۔ جزا ان کو آمنہ کے جیسے ہی عزیز تھی ۔۔ آمنہ، نور اور جزا تینوں کو ہی وہ اس گھر کی ہی بچیاں سمجھتی تھی۔۔ اور حق بھی تینوں پر ماں والا جتاتی تھی ۔۔

روحا بیگم نا جانے کیسے صبر کر کے بیٹھی تھی۔۔۔ ان کی ایک بیٹی لاپتا تھی اور دو بخار میں اتنے دنوں سے تپ رہی تھی ۔۔ رات ساری جانماز پر رو کر گزارتی تھی۔۔۔ اور دن سارا اپنے آنسو پر بند باندھنے میں ۔۔۔

روحا ہماری چار بچیاں تھی۔۔۔  ایک کی معصومیت درندگی کی نظر ہو گئی۔۔ ایک کو وہ درندے نہ جانے کہاں کے گئے اور دو غم میں نڈھال ہیں ۔۔۔ کیسے سکون ملے ایسے میں ایک ماں کے دل کو ؟ کیسے صبر آئے ایسے میں ایک ماں کے غم کو۔۔۔ امل بیگم بہتے انسوں کے ساتھ روحا بیگم کی طرف دیکھ کر بولی تھی۔۔ اور یہاں روحا بیگم کا صبر ٹوٹا تھا وہ  پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھی ۔۔۔

امل خدارا خود کو سنبھال لو۔۔۔ میری ہمت جواب دے گئی ہے ۔۔۔ مجھ میں اب مزید ہمت نہیں ہے۔۔۔ یہ غم  دل چیڑتا ہے امل۔۔۔ کل کی بات لگتی ہے جب نور اور دوراب کے نکاح پر ادھر چار شہزادیوں کی نوک جوک کا شور تھا۔۔۔ آج ایک نے قبر کو اپنی سیج بنا لیا ایک کوئی ہم سے چھین لے گیا اور دو  ٹوٹ کر بکھر گئی۔۔۔ امل مجھ میں اب ہمت نہیں ہے۔۔۔ خدارا میرے لیے خود کو سنبھال لو۔۔۔ روحا بیگم روتے ہوئے بولی تھی۔۔۔  امل بیگم نے روحا بیگم کو گلے لگا لیا تھا۔۔۔ اور وہ دونوں جیسے ایک دوسرے کی ڈھارس بنی تھی ۔۔  

 urdunovelnests••••••••••••

تمہاری رحیان سے بات ہوئی ہے آیان ۔۔۔ دوراب اس وقت افضل صاحب کے اوفس آیا تھا جہاں آیان کچھ کام میں مصروف تھا۔

 کیونکہ ماہر اور افصل صاحب شہر سے باہر تھے اور افس کا سارا کام آیان دیکھ رہا تھا۔۔۔

ہاں ہوئی ہے۔۔۔  آیان دوراب کا دیکھتا بولا تھا۔۔۔

کیسا ہے وہ؟؟  دوراب اس کو دیکھتے ہوئے بولا تھا ۔

وہ  وہ رحیان رہا ہی نہیں یار ۔۔ آیان سر جھکا کر بولا تھا۔۔ لہجہ تھکا  ہوا تھا۔۔۔

کیا مطلب ۔۔۔ دوراب اس کو نہ سمجھی سے دیکھ رہا تھا۔۔۔

مطلب یہ کہ  اس ایک حادثے نے اس  کا بہت نقصان کیا ہے۔۔۔ یہ حادثہ اس کو اندر سے مار گیا ہے ۔۔ آیان شکستہ لہجے میں بولا تھا۔۔۔

مگر کیا تم نے اس کو سمجھایا نہیں ۔۔۔ دوراب سیدھا ہو کر  بیٹھا تھا۔۔۔ اور آیان کو غور سے دیکھ رہا تھا۔۔۔

سمجھایا تھا مگر ۔۔۔۔ اس سے پہلے آیان اپنی بات پوری کرتا پیچھے سے کسی کی آواز آئی تھی۔۔۔

مگر میرا سمجھنے کا موڈ نہیں تھا۔۔۔ رحیان جو اس وقت سیاہ پنٹ شرٹ میں آیان کے افس میں داخل ہوا تھا۔۔ اس کی بات مکمل کر کے پر سکون سا آگے بڑھا تھا۔۔۔ دوراب نے فوراً اٹھ کر اس کو گلے لگا لیا تھا ۔۔ جبکہ آیان اس کو منہ کھولے دیکھ رہا تھا۔۔۔

منہ بند کر لو آیان صاحب مکھی چلی گئی تو نکالنا مشکل ہو جائے گئی۔۔۔ رحیان اس کے سامنے ہاتھ بڑھا کر بولا تھا۔۔۔ جبکہ آیان اپنی جگہ سے اٹھا تھا اور اس کا بازو پکڑ کر اس کوگلے لگا چکا تھا۔۔۔

اب وہ تینوں ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔۔۔

تم ادھر کیا کر رہے سب خیریت ؟؟ آیان اس کو دیکھتا بولا تھا جو آج کچھ بہتر لگ رہا تھا ۔۔

ہاں سب خیریت ہے۔۔ اور گھر رہ کر تو میں سویرا کا بدلہ نہیں  لے سکتا۔۔۔ رحیان مدہم لہجے میں بولا تھا۔۔ جبکہ آیان اور دوراب اس کو دیکھ رہے تھے۔۔۔۔

رحیان ۔۔۔ دوراب نے کچھ بولنا چاہا تھا۔۔۔ جب رحیان نے اس کو خاموش کروایا تھا۔۔۔۔

پلیز کچھ بھی بول لینا کچھ بھی مگر یہ مت بولنا کے میں سویرا کو بھول جاؤ اور موو آن کر جاؤ ۔۔۔ رحیان دوراب کی طرف دیکھتا بولا تھا۔۔۔

مگر رحیان زندگی ایسے نہیں گزرے گئی یار تم کیوں نہیں سمجھ رہے۔۔۔ دوراب نے اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھا تھا۔۔ اور پریشانی سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔۔۔

کیوں نہیں گزرے گئی میں گزار کے دیکھاو گا ۔۔۔ رحیان ہلکا سا مسکرا کر بولا تھا ۔۔

رحیان سراسر بے وقوفی ہے یہ۔۔۔۔ دوراب نے اس کو گھور کے دیکھا تھا ۔۔۔

کیسی عقل مند کو عشق کے راستے پر چلتے دیکھا ہے کبھی۔۔ یہ دل لگی یہ محبت یہ الفت یہ عشق یہ سب عقل مندوں کے بس کا روگ نہیں ان لوگوں کے بس کا روگ نہیں جو قدم پھونک پھونک کر رکھتے ہیں۔۔۔ یہ تو کھیل ہی آر یا پار کا ہے۔۔ یا تو عشق و محبت میں محبوب کے مر جانے یا چلے جانے کے بعد اس کی جگہ کسی اور کو دے کر بےوفا ہو جاؤ ۔۔ یا اس کی جدائی میں اس کے ہجر میں زندگی گزار کر اس کی جگہ کسی کو نہ دے کر باوفا ہو جاؤ ۔۔۔ رحیان دوراب کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولا تھا ۔۔ جبکہ دوراب اس کو منہ کھولے دیکھ رہا تھا اور آیان کے یہ حال تھا جیسے اس کو یقین نہیں آ رہا ہو کہ رحیان یہ سب بول گیا تھا ۔۔

رحیان کی اس بات کے بعد دوراب اور آیان میں ہمت نہ ہوئی تھی اس سے کچھ اور کہنے کی۔۔۔ کیونکہ وہ دونوں اتنا تو جان گے تھے ۔۔ رحیان آغا مر سکتا تھا مگر سویرا کو اپنے دل سے نہیں نکال سکتا تھا۔۔ وہ اپنی محبت میں باوفا تھا اور باوفا ہی رہنا چاہتا تھا ۔۔ اس کی محبت صرف و صرف سویرا شاہد تھی وہ اس کی جگہ کسی اور لڑکی کو مر کے بھی نہیں دے سکتا تھا۔۔۔

ابھی آیان نے کچھ بولنا چاہا ہی تھا جب رحیان اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا تھا ۔۔

کدھر جا رہے ہو ۔۔ اس کو اٹھاتا دیکھ کر دوراب فوراً بولا تھا۔۔۔

کچھ نہیں کیسی کام سے جا رہا ہوں سوچا مل لو ایک بار تم لوگوں سے۔۔۔  رحیان دوراب کو دیکھتا بولا تھا۔۔۔

مگر کدھر۔۔۔ آیان اب کی بار بولا تھا ۔۔

بیویوں کی طرح انوسٹیگیشن نہ کر کام کر اپنا ۔۔ رحیان یہ کہہ کر باہر کی طرف بڑھا تھا جبکہ اس کے جواب پر آیان سمیت دوراب کا بھی منہ کھولا کا کھولا رہ گیا تھا ۔۔ جبکہ رحیان کے چہرے پر ایک مدہم سی مسکراہٹ تھی جیسے وہ اپنی تکلیف کو چھپانا چاہتا ہو مگر پھر بھی اس کی مسکراہٹ میں اذیت کی ایک ہلکی سی جھلک ضرور تھی۔۔۔

وہ اپنی کار میں آ کر بیٹھا تھا اس نے سر سٹیرنگ پر رکھا تھا۔۔۔۔ اس کو وہ دن یاد آیا تھا ۔۔ جب بیسٹ پہلی بار جزا سے ملا تھا شوپینگ مال میں اور وہاں اس نے ایک آدمی کو گولی ماری تھی ۔ اس وقت وہ بھی ادھر ہی تھا۔۔۔ پھر جب وہ بیسٹ سے ایک قدیم علاقے میں ملا اور بیسٹ نے شہزاد کو جزا سے دور رکھنے کا کہا تھا ۔۔ اور ادھر کیا ہو گیا تھا ۔۔ رحیان نے ایک مکا سٹیرنگ پر مارا تھا ۔۔

 urdunovelnests•••••••••••

وہ دونوں اس وقت آمنہ کے کمرے میں لیٹی تھی ۔۔ بخار دونوں کو ابھی بھی تھا مگر بخار کی شدت پہلے سے کم تھی۔۔۔

روحا بیگم ابھی کمرے میں داخل ہوئی تھی۔۔۔جب نور اٹھ کر بیٹھنے کی کوشش کرنے لگی ۔۔ روحا بیگم فوراً اس کے پاس ائی تھی اور اٹھ کر بیٹھنے میں اس کی مدد کی تھی ۔۔

کیسی ہے میری بیٹی ۔۔۔ روحا بیگم نے اس کے سر پر بوسا لیتے ہوئے اس کو پیار سے دیکھا تھا۔۔۔

بہتر ہوں ۔۔ نور بامشکل بول پائی تھی ۔۔۔

جب پاس لیٹی آمنہ بھی نیند سے جاگی تھی۔ ۔ اور اٹھ کر بیٹھی تھی۔۔روحا بیگم اس کے  طرف گئی تھی اور اس کے بھی سر پر بوسا لیا تھا ۔۔۔۔

ماما۔۔۔ آمنہ نے روحا بیگم کو بلایا تھا۔۔۔

بولی میری جان۔۔۔  روحا بیگم نے اس کو پیار سے دیکھا تھا۔۔ جبکہ اس کی نظروں سے وہ سمجھ گئی تھی وہ کیا پوچھنا چاہتی ہے ۔۔ انہوں ںے ایسے ہی ایک نظر نور کی طرف دیکھا تھا ۔ اس کی آنکھوں میں بھی وہ ہی سوال تھا ۔۔

ماما جزا ملی۔۔ بار بار پوچھے جانے والا سوال اس نے ایک بار پھر سے پوچھا تھا ۔۔ اس کی آنکھوں میں ایک امید جاگی تھی اور وہ ہی امید نور کی آنکھوں میں بھی تھی ۔۔

مل جائے گئی وہ۔۔ تم دونوں بس اس کی حفاظت کی دعا کرو میری جان۔۔۔  روحا بیگم بیڈ پر بیٹھتے ان دونوں کو دیکھتے بولی تھی۔۔۔ جبکہ ان دونوں کی آنکھوں سے آنسوں گرے تھے۔۔۔ انہوں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ ان کو دوستی میں جدائی بھی ملے گی۔۔۔

ان کو روتا دیکھ روحا بیگم نے دونوں کو اپنی ممتا کی آغوش میں لیا تھا ۔۔ 

ہر مشکل کے بعد آسانی ہے میری بچیوں ہمت مت ہارو۔۔۔ اس کے لیے دعا کرو ۔ اللّٰہ سے مدد مانگو یہ مشکل وقت بھی نکل جائے گا ۔۔ روحا بیگم اپنے آنسوں کو چھپاتی بامشکل بولی تھی ۔۔  جبکہ نور اور آمنہ خاموش آنسوں بہا رہی تھی ۔۔

روحا بیگم نے ان کو بامشکل کچھ کھلایا تھا ۔۔ جو نور اور آمنہ نے زہر مار کر کھایا تھا۔  

وہ دونوں اس وقت اکیلی بیٹھی تھی کمرے میں۔۔۔ یہ پہلی بار تھا نور اور آمنہ ایک ساتھ بیٹھی تھی مگر وہ خاموش تھی ۔۔ کوئی ہسنے کی آواز نے کوئی شور شرابہ نہیں ۔۔۔ 

آمنہ ۔۔۔۔ میں سوچتی ہو کاش ہم وقت کو پیچھے لے جا سکتے سب کچھ پہلے جیسا ہو جاتا۔۔ کبھی بھی یہ طوفان ہماری زندگیوں میں آیا ہی نہ ہوتا۔۔ نور بھری ہوئی اواز میں بولی تھی انسوں اس کی آنکھوں سے بہہ نکلے تھے۔۔۔

نور یہ صرف کاش ہی ہے ۔۔ حقیقت میں اگر ہم وقت کو پیچھے کر پاتے تو آج نہ جانے کتنے لوگ ہی اپنے ہر برے حادثے کو مٹانے کے لیے وقت کو پیچھے لے جاتے۔۔۔ یا ہم انسان اپنی خوشی کے وقت کو مستقل روک لیتے۔   اس لیے اللّٰہ نے ہم انسانوں کو یہ اختیار دیا ہی نہیں کے ہم وقت کو روک سکے یہ آگے یا پیچھے لے جائے۔۔۔ اگر ہم انسان وقت کو اپنے حساب سے چلانے لگے تو پوری دنیا کا نظام تباہ ہو جائے۔  آمنہ سیلنگ کو دیکھتے بولی تھی۔  

آمنہ میرا دل بہت ڈرتا ہے جزا کی طرف سے۔۔۔ نہ جانے وہ کہاں ہے کس حال میں ہے ۔۔  نور روتے ہوئے بولی تھی ۔۔

نور وہ جزا ہے بھولو مت۔۔۔ وہ حالات سے لڑنا جانتی ہے اس کو شاہد انکل نے کبھی بھی کمزور پڑنا نہیں سکھایا ۔۔۔ میرا دل کہتا ہے وہ جدھر بھی ہے ٹھیک ہے ۔۔ آمنہ نے نور کے ہاتھ پر ہاتھ رکھا تھا۔۔۔

میں بس یہ دعا کرتی ہوں وہ جدھر بھی ہے بس محفوظ ہو اس کو کچھ نہ ہوا ہو ۔۔ میں اس کو نہیں کھو سکتی آمنہ ۔۔۔ ںور روتے ہوئے بولی تھی رو رو کر اس کو چہرہ سرخ ہو گیا تھا ۔۔۔ آمنہ نے اس کو اپنے گلے لگا لیا تھا  ۔۔۔

نور ہمیں  ہمت سے  کام لینا ہے ۔۔ ہمیں صبر کرنا ہے نور۔۔۔  آمنہ اس کو گلے لگائے بولی تھی جبکہ آنسوں اس کی آنکھوں سے بھی ہہہ رہے تھے۔ 

 urdunovelnests•••••••••••••

وہ ساری رات کی جاگی ابھی بھی نہ سوئی تھی ۔ لاتعداد سوچیں ذہن میں  اٹھ رہی تھی ۔۔ صبح ہو گئی ہوئی تھی مگر نیند تھی کہ اس کی آنکھوں سے بہت دور تھی یا وہ سونا نہیں چاہتی تھی ۔۔ جب بیڈ پر لیٹی گل انگڑائی لے کر اٹھی تھی۔۔ اور ایک نظر کمرے پر ڈالی اور پھر جزا پر ۔۔

کیا میں رات ادھر ہی سو گئی تھی۔۔ گل اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرتے بولی تھی۔۔۔ شاید وہ ایک اچھی نیند لر کر اٹھی تھی۔  

مجھے تو کچھ ایسا ہی لگ رہا ہے اب تمہیں کیا لگ رہا کچھ کہا نہیں جا سکتا ۔۔ جزا اس کو دیکھ کر بولی تھی۔  

آپ اتنی جلدی اٹھ گئی ۔۔ گل گھڑی دیکھتے بولی تھی۔  اور جزا کو منہ دیکھنے لگ  گئی تھی ۔۔

میں سوئی ہی نہیں تھی ۔۔ جزا اس کو دیکھ کر مدہم سا مسکرائی تھی۔۔۔

کیوں نہیں سوئی آپ ؟؟ گل بیڈ سے اٹھ کر اس کے ساتھ صوفے پر بیٹھتی بولی تھی۔  

بس نیند نہیں آئی ۔۔۔ جزا ںے بات کو ٹالنا چاہا تھا ۔۔

آپ نے کیا سوچھا پھر؟؟ گل وہ ہی سوال کر چکی تھی جس سے جزا دامن بچانا چاہتی تھی ۔۔

میں کچھ کہہ نہیں سکتی اس بارے میں ۔۔۔ ابھی جزا مزید کچھ بولتی جب اس کے کمرے میں رکھا انٹرکوم بجا تھا۔۔۔ جو گل نے فوراً اُٹھایا تھا۔۔۔

یس؟ گل  انٹر کام اٹھاتے ساتھ بولی تھی۔  

گل تم جزا کے کمرے میں کیا کر رہی ہو اس وقت؟ دوسری طرف سے بیسٹ کی آواز گل کی سماعت سے ٹکرائی تھی اور انٹر کوم گل کے ہاتھوں سے گرتا گرتا بچا تھا۔۔۔

وہ م۔۔میں۔۔ گل ابھی کچھ بولتی کے بیسٹ کی آواز دوبارہ سے گونجی تھی ۔۔

تم سے میں بعد میں بات کرتا ہوں پہلے جزا کو لے کر میرے پاس ڈرائنگ روم میں آؤ۔۔۔۔۔  بیسٹ ایک ایک لفظ چبا کر بولا تھا اور گل کو ایسا لگا تھا جیسے اس کی گردن بیسٹ کے دانتوں کے نیچھے ہے۔۔۔۔

وہ انٹر کوم رکھ کر فوراً سے موڑی تھی ۔ اس کی ہوائیاں اڑی  ہوئی تھی ۔۔

کیا ہوا۔۔۔جزا اس کو دیکھ کربولی تھی جس کا رنگ لٹھے کی مانند سفید ہو گیا تھا۔۔۔

بیسٹ بولا رہا ہے آپ کو۔۔۔اور خود کو نارمل کرتی بولی تھی جبکہ جزا نے ایک سرد آہ بھری تھی۔۔۔

بولا رہا ہے وہ؟ جزا نے سوالیہ نظروں سے گل کو دیکھا تھا۔۔۔

میرے ساتھ آئیں ۔۔۔ گل یہ کہہ کر دروازے کی طرف بڑھی تھی ۔اور جزا اس کے پیچھے  ہی کمرے سے نکلی تھی۔۔۔

 urdunovelnests•••••••••••••••

وہ دونوں اس وقت ایک کمرے کے دروازے کے سامنے کھڑی تھی۔۔۔ یقیناً یہ ڈرائنگ روم تھا۔۔۔ گل نے دروازہ کانپتے ہاتھوں سے نوک کیا تھا۔۔۔

آ جاؤ ۔۔۔اندر سے بیسٹ کی آواز ان  کی سماعت سے ٹکرائی تھی ۔۔۔ وہ دونوں آگے پیچھے ڈرائنگ روم میں داخل ہوئی تھی۔۔۔

ڈرائنگ روم وائٹ اور گولڈن کمبینیشن میں بنایا گیا تھا ۔۔۔۔ جدید طرز کا فرنیچر رکھا گیا تھا مگر ڈرائنگ روم کا سٹائل اولڈ اٹالین طرز کا تھا۔۔ بیسٹ سربراہی نشست پر بیٹھا تھا اور ایک نظر اس نے گل اور جزا پر ڈالی تھی ۔۔۔

مجھے بات کرنی ہے تم سے ۔۔۔ بیسٹ کی آواز ڈرائنگ روم میں گونجی تھی ۔۔

کرو ۔۔ جزا کی طرف سے یک لفظی جواب دیا گیا تھا ۔۔۔

گل باہر جاؤ ۔۔۔ اور  اپنی حالت ٹھیک کر لو  ۔۔ بیسٹ گل کو دیکھ کر بولا تھا اور اس کے ساتھ ہی اس کی حالت پر چوٹ کی تھی ۔۔ جس نے نہ پاؤں میں جوتی پہن رکھی تھی ۔  رات کے ٹراؤزر شرٹ میں تھی اور بال مکمل طور پر الجھے ہوئے تھے ۔۔

اوکے ۔ اس کی بات سن کر گل کمرے سے ایسے غائب ہوئی تھی جیسے گدھے کے سر سے سنگھ۔۔۔

تو آپ نے کیا سوچھا ہے میس جزا میرے پرپوزل کے بارے میں ۔۔۔ گل کے جاتے ہی بیسٹ جزا سے مخاطب ہوا تھا۔۔۔

مجھے بتاؤ تم میرے بابا کے بارے میں کیا جانتے ہو ۔۔۔ اس کے سوال کا جواب دینے کے بجائے جزا نے اپنا سوال اس کے سامنے رکھا تھا۔۔۔

یہ جانے کے لیے مجھ سے نکاح کرنا ہو گا ۔۔ بیسٹ نے بہت تحمل سے اس کے سوال کا جواب دیا تھا ۔۔

کیا اس کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ؟ جزا اس کو دیکھتے بولی تھی جبکہ تاثرات اس کے سرد تھے ۔۔

نہیں ۔۔۔ بیسٹ نے بہت سکون سے اس کو جواب دیا تھا۔۔۔ جبکہ جزا اس کو غصے سے گھورتی باہر کی طرف  جانے لگی تھی جب بیسٹ کی بات نے اس کے قدم روک  دیے تھے۔۔

تمہارے پاس تھوڑا سا وقت ہے سوچ لو اس بارے میں ۔۔ اگر تم نکاح کے لیے مانی تو آج شام کو ہمارا نکاح ہو گا ۔۔ نہیں تو میں تمہیں واپس پاکستان بھجوا دوں گا۔۔ اور پھر میرا تم سے کوئی تعلق نہیں اور نہ میں تمہاری کوئی مدد کر رہا ہوں۔۔۔ بیسٹ کی نظریں جزا کی پشت پر تھی۔۔۔ وہ اس کا چہرہ نہیں دیکھ سکتا تھا مگر وہ جانتا تھا کہ وہ اس کو ایک نئے امتحان میں ڈال چکا ہے ۔۔۔

جبکہ بیسٹ کی بات سن کر جزا ایک لمحے کو ساکت ہو گئی تھی ۔۔ وہ موڑ کر بیسٹ کو دیکھنے لگی تھی ۔۔۔  وہ خاموش کھڑی تھی جیسے  کچھ سوچ رہی ہو تھی ۔۔ جیسے پاکستان میں اپنے لیے پناہ کہاں ڈھونڈے گئی ۔۔ کون اس کی  مدد کرے گا انتقام کے لیے۔۔۔ وہ کیسے جان پائے گئی اپنے باپ سے  جوڑا راز۔۔۔۔

میں نکاح کے لیے تیار ہوں ۔۔۔ جزا کچھ سوچتے آگلے ہی لمحے بولی تھی۔۔ اور یہ کہہ کر وہ روکی نہیں  تھی ڈرائنگ روم سے باہر نکل گئی تھی ۔۔ اور بیسٹ پر سکون سا بیٹھا اس کو جاتا دیکھ رہا تھا۔۔۔۔

 urdunovelnests••••••••••••

وہ ابھی اپنے کمرے میں داخل ہوئی ہی تھی جب  اس کی نظر سامنے بیٹھی گل پر پڑی تھی جو ہاتھوں  میں چیپس کا ایک پیکٹ لیے اس کے آنے کا انتظار کرتی کھا  رہی تھی۔۔۔ جیسے ہی گل نے جزا کو دیکھا فوراً سے بیڈ پر سے اتری تھی اور بھاگ کر جزا کے پاس آئی تھی ۔۔

کیا کہا اس نے ؟؟ وہ آنکھیں پٹپٹا کر جزا کی طرف دیکھتی بولی تھی ۔۔ ساتھ ہی ساتھ چیپس کے پیکٹ میں سے چپس نکال نکال کر کھا رہی تھی۔۔۔

کیا بول سکتا ہے وہ خروس ۔۔۔ ایک سرد آ بھر کر رہ گئی تھی۔۔۔

کچھ تو کہا ہی ہو گا نہ ۔۔ گل پریشانی سے اس کو دیکھتے بولی تھی۔۔۔

نکاح کے لیے بولا اس نے۔۔۔ جزا بس اتنا ہی بول سکی تھی اور چلتی چلتی  بیڈ کے پاس آئی تھی اور گرنے والے انداز میں بیڈ پر بیٹھی تھی ۔۔

تو۔۔۔۔۔ تو ۔۔۔۔ پھر آپ نے کیا کہا۔۔۔۔ گل نروس سی ہوتی بولی تھی اور مسلسل چپس کے پیکٹ میں سے چپس نکال نکال کر کھا رہی تھی شاید اس کو ٹینشن میں پریشانی میں بھوک بہت زیادہ لگتی تھی۔۔۔۔

کیا کر سکتی تھی میں ۔۔۔ جزا بیڈ پر نیم دراز سے لیٹی سیلنگ کو دیکھتے بولی تھی۔۔۔

آپ نے نہ کر دی؟  گل چپس کھاتے جزا کی طرف دیکھتے بولی تھی ۔۔

مجھے ہاں کرنی پڑی گل۔۔۔ میں ہاں نہیں کرنا چاہتی تھی میں ایک درندے  ایک خونی کے ساتھ اس رشتے میں نہیں بندھنا چاہتی تھی مگر۔۔۔ میں۔۔۔ ہاں کر آئی ۔۔۔ میرے پاس اور کوئی چارہ ہی نہیں تھا اور کوئی اپشن ہی نہیں تھا میرے پاس ۔۔۔۔ جزا بیچارگی سے گل کو دیکھتے ہوئے بولی تھی گل اس کی انکھوں میں بے بسی صاف دیکھ چکی تھی۔۔۔

جزا وہ اچھا ہے وہ برا نہیں ہے۔۔۔ گل نے بیسٹ کے حق میں دفاع کیا  تھا۔۔۔۔

اچھا ہے وہ واقعی؟؟؟ ایک تلخ مسکراہٹ اس کے چہرے پہ آئی تھی۔۔۔

ہاں وہ اچھا ہے۔۔۔۔ گل جزا کی طرف دیکھتے بولی تھی۔۔۔

گل میں نے خود اس کو شوپینگ مال میں ایک آدمی کا قتل کرتے دیکھا ہے اس نے میرے سامنے ایک آدمی کو گولی ماری ہے ۔۔ جزا گل کو دیکھتے بولی تھی۔۔۔ جبکہ گل خاموش ہو گئی تھی۔۔۔ اس سے پہلے وہ کچھ بولتی جب دروازہ نوک ہوا تھا۔۔۔

آجاؤ اندر۔۔۔۔ جزا کی بجائے گل بولی تھی ۔۔۔

ایک لڑکی اندر داخل ہوئی تھی اس کے ہاتھ میں میرون رنگ کی لونگ میکسی تھی۔۔۔ جس پر میرون سٹون کا نفیس سا کام ہوا یوا تھا ۔۔ ساتھ ایک بوکس تھا جس میں خوبصورت سا ایک سیٹ تھا یہ سیٹ  ہیرے اور  یاقوت سے بنا  ہوا تھا تھا جو دیکھنے میں بہت خوبصورت لگ رہا تھا ۔۔ اور ساتھ ایک کرسٹل بوس تھا جیس میں میرون کلر  کی ہی ہیل تھی ۔۔۔ وہ لڑکی سارا سامان جزا کے بیڈ پر رکھ چکی تھی ۔۔

یہ سب ۔۔۔۔ گل نے اس لڑکی کی طرف دیکھ کر کہا تھا۔۔۔

میم یہ سب بیسٹ سر نے بھیجا ہے ۔۔ اور کہا ہے کہ شام تک تیار ہو جائیں ۔۔۔ وہ لڑکی گل کو دیکھتے فرمابردار سے بولی تھی ۔۔۔ وہ دیکھنے میں پاکستانی نہیں لگ رہی تھی مگر اردو بہت صفائی سے بولی تھی۔۔۔  اور جزا منہ کھولے بس اس کو  اُردو بولتا دیکھ رہی تھی ۔۔۔

ٹھیک ہے تم جاؤ ۔۔۔ گل اس کو جانے کا کہہ کر موڑی تھی جبکہ جزا اس کو جاتا دیکھ رہی تھی ۔۔

یہ  پاکستانی تو نہیں لگتی تو یہ اُردو اتںی اچھی کیسے بول رہی تھی۔۔۔ جزا گل کی طرف دیکھ کر بولی تھی ۔۔

یہاں سب اُردو اچھی بولتے ہیں ملازمہ سے لے کر سیکورٹی گارڈز تک ۔ گل یہ کہہ کر جزا کے لیے آئے سامان کی طرف بڑھی تھی ۔ جس پر جزا نے ایک نگاہ غلط نہ ڈالی تھی۔

آرے واہ کیا ڈریس بھیجا ہے بیسٹ نے۔۔۔ گل اس ڈریس کو ستائش بھری نظروں سے دیکھتے بولی تھی جب اس کی نظر سیٹ پر گئی تھی۔۔۔

جزا تم بہت خوبصورت لگو گئی اس میں ۔۔ گل ایک ایک چیز کو خوشی سے دیکھ رہی تھی جبکہ جزا خاموش بیٹھی تھی اس کو کیسی چیز کو دیکھنے میں دلچسپی نہیں تھی۔۔۔ اس کو ایک بار پھر سے اس کے گھر والے یاد آئے تھے۔۔ وہ واپس سے بیڈ پر لیٹی آنکھیں موند گئی تھی۔۔۔ وہ اپنے آنسوں کو گل سے چھپاںا چاہتی تھی اس لیے آنکھوں پر بازو رکھ چکی تھی۔۔۔۔

اور گل اس کی ساری کاروائی دیکھتے ڈریس جیولری اور ہیل اس کے ڈریسنگ روم میں رکھتے کمرے سے باہر نکل گئی تھی۔۔ کیونکہ وہ اس کو  کچھ وقت دینا چاہتی تھی۔۔۔

 urdunovelnests••••••••••••

لیو اور ولف اس وقت بیسٹ کے بلیک پلیس کے سامنے کھڑے تھے جب ایک  اور کار ان کے پاس آ کر روکی تھی ۔۔ اور اندر سے نکلتے شخص کو دیکھ کر وہ حیران ہوئے تھے۔۔۔

تم ادھر کیا کر رہے ہو ۔۔ لیو رحیان کو دیکھتا بولا تھا ۔۔

وہی جو تم لوگ کر رہے ہو ۔۔ رحیان نے کندھے اوچکے تھے ۔۔  

اس نے اگر تمہیں بھی بلایا تھا تو ہمارے ساتھ آنے کا کیوں نہیں کہا ۔۔ ولف رحیان کو دیکھتے بولا تھا ۔۔

اب اس کا جواب وہ ہی دے گا۔۔ اور اس نے کیوں بولیا ہے وہ ہی بتائے گا ۔۔۔ رحیان ان دونوں کو دیکھتے بولا تھا۔۔۔

اب وہ تینوں اس وقت بیسٹ کے انتظار میں ڈرائنگ روم میں بیٹھے تھے۔۔۔ وہ یہاں کی ایک ایک جگہ سے واقف تھے۔۔۔

مجھے نہ لگ رہا ہے کہ بیسٹ کوئی۔ کھچڑی پکا رہا ہے۔۔۔ لیو صوفے کی پشت سے ٹیک لگا کر بولا تھا جبکہ اس کی بات پر ولف اور رحیان نے سر افسوس سے نفی میں ہلائی تھی۔   وہ مزید کچھ بولنے لگا تھا جب بیسٹ کی آواز اس کے کانوں میں پڑی تھی ۔۔

کھچڑی نہیں پوری دعوت بنائی ہے ۔۔۔ بیسٹ شاہانہ چال چلتا آ کر سربراہی کرسی پر بیٹھا تھا۔۔۔۔

کیا مطلب ۔۔ ولف سیدھا ہو کر بیٹھا تھا اور بیسٹ کو سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگا تھا۔۔۔

بتاتا ہوں بتاتا ہوں۔۔۔۔ بیسٹ رحیان کو سخت نظروں سے دیکھتا بولا تھا۔۔ جبکہ رحیان نے سر جھکا لیا تھا۔۔۔

مجھے تم سے اتنی لاپرواہی کی امید نہیں تھی رحیان ۔۔۔ بیسٹ رحیان کو دیکھ رہا تھا ۔ جو سر جھکائے بیٹھا تھا جیسے اپنی لاپرواہی کا اعتراف کر رہا ہو۔۔۔۔

تم سویرا پسند کرنے لگے تھے۔۔ تمہیں پتا تھا وہ شہزاد سے محبت کرنے لگی ہے ۔۔۔ تم شہزاد کے بارے میں سب کچھ جانتے تھے۔۔ تم ںے ایک بار بھی میرے سامنے ذکر نہیں کیا  رحیان آغا ۔۔۔ تم خاموش رہے تم خاموشی سے سب ہوتا دیکھتے رہے۔۔۔ تمہیں لگا شہزاد سویرا میں انوالو ہے تو وہ جزا سے پیچھے ہٹ جائے گا اس لیے تم تصویر کے دوسرے روخ سے لاپرواہ ہو گئے ۔ اور دیکھو کیا نقصان اٹھایا ہے۔۔۔ تمہیں اس وقت ہی بتا دیںا چاہیے تھا رحیان تمہیں سویرا کا شہزاد میں انوالو ہونا صرف خود تک نہیں رکھنا چاہیے تھا ایک بار بتا تو دیتے۔۔۔  بیسٹ کی آواز بلند نہ تھی نہ وہ چیلا رہا تھا مگر اس کے الفاظ سخت تھے ۔۔

میں جانتا ہو بیسٹ مجھ سے یہ غلطی ہوئی ہے ۔۔ مجھے لگا شہزاد اب سویرا  میں انوالو ہے وہ اس کو چاہتا ہے اس لیے میں سویرا کو اس سے دور کرنے کا سوچ رہا تھا۔۔ سویرا کو بار بار بتا رہا تھا وہ اچھا نہیں ہے ۔۔ میرے ذہن میں ایک بار بھی نہ آیا کہ شہزاد ڈبیل گیم کھیلے گا وہ سویرا کو ٹریپ کرے گا ۔ مجھے واقع ہی خاموش نہیں ہونا چاہیے تھا مجھے بتا دینا چاہیے تھا۔ میری ایک غلطی سب تباہ کر گئی۔۔۔ رحیان سر جھکائے بولا تھا ۔۔ جبکہ اس کی آنکھیں  نم ہوئی تھی

رحیان تم اس وقت یہ سب اس وجہ سے نہیں سوچ پائے کیونکہ تمہارا دل ٹوٹا تھا تمہیں اس وقت بس یہ لگا تھا کہ شہزاد سویرا کو چھین لے گا۔۔ تم نے دل سے کام لیا تھا دماغ سے نہیں ۔۔۔ بیسٹ اس کو دیکھتا بولا تھا جبکہ رحیان نے سر اٹھ اکر اس کو دیکھا تھا جیسے بیسٹ نے سب سے بڑا سچ بول دیا تھا۔۔۔

جو ہونا تھا ہو گیا رحیان اب وقت خاموش رہنے کا نہیں ہے۔۔۔ تم نے سب سے بڑا نقصان اٹھایا ہے۔۔ اور تم سے بڑا نقصان جزا نے اٹھایا ۔۔۔ بیسٹ رحیان کو دیکھتا بولا تھا۔۔۔

میں جزا کو نہیں بچا پایا بیسٹ ۔۔ میں پہنچ گیا تھا وہ میرے سامنے جزا کو لے گئے تھے۔۔ میں نہ سویرا کو بچا پایا نہ جزا کو ۔۔  ایک آنسوں ٹوٹ کر رحیان کی گال پر پھسلا تھا ۔۔

رحیان جو ہونا تھا ہو گیا ۔ اب وقت رونے کا نہیں ہے۔ اب وقت ان زخموں کی پرواہ کیے بغیر لڑنے کا ہے۔۔۔۔  بیسٹ اس کو دیکھتا بولا تھا۔۔۔ اس کی سبز آنکھیں رحیان کی سرخ آنکھوں کی طرف اشارہ کر رہی تھی۔۔۔۔

مگر بیسٹ جزا کا کچھ پتا نہیں  چل رہا۔۔ رحیان پریشان سا بیسٹ کی طرف دیکھتے بولا تھا۔۔۔۔

ہمممممم ۔۔۔۔ شہزاد کے پاس نہیں ہے وہ؟؟  بیسٹ رحیان کو سوالیہ نظروں سے دیکھتا بولا تھا۔۔۔

نہیں وہ نہیں ہے اس کے پاس۔۔۔ رحیان مایوسی  سے بولا تھا۔۔۔۔

بیسٹ تم نے کس لیے بلایا تھا اتنی جلدی میں ۔۔۔ اب کی بار ولف بولا تھا ۔۔

ایک خاص کام تھا اس لیے بلایا ہے تم سب کو۔۔۔ بیسٹ ان تینوں کو دیکھتا بولا تھا۔۔۔

یار بتا دو کیا بات ہے کیا کام ہے۔ سوچ سوچ کر طبیعت خراب ہو گئی ہے۔۔ لیو بےتابی سے بولا تھا۔۔ اور اس کی بےتابی دیکھ کر بیسٹ کو ہنسی آنے لگی تھی جس کا وہ گلا گھونٹ چکا تھا۔۔

میں نکاح کر رہا ہوں۔۔۔۔  بیسٹ کے الفاظ نہیں تھے دھماکہ تھا جو ان تینوں پر ہوا تھا۔۔۔وہ تینوں منہ کھولے بیسٹ کو دیکھ رہے تھے۔۔ جو پر سکون سا سربراہی صوفے پر بیٹھا تھا ۔۔

کیا کہا تم نے پھر سے بولنا ۔۔ ولف بامشکل خود کو نارمل رکھ کر بولا تھا ۔۔۔

میں نکاح کر رہا ہوں۔۔۔ بیسٹ نے اپنے الفاظ پھر سے دہرائے تھے۔۔۔

یا تو مجھے سنے میں کوئی غلطی ہوئی ہے یا میرے کان بج رہے ہیں یا یہ آج آخری دن ہے میری سماعت کا ۔۔ ولف اپنا سر نفی میں ہلاتا بولا تھا ۔ آنکھوں میں بے یقینی ہی بے یقینی تھی ۔۔ جبکہ لیو اور رحیان تو سن ہو گئے تھے ۔۔۔

تم واقع ہی نکاح کر رہے ہو۔۔۔ رحیان اور لیو کو اپنی آواز کھائی سے آتی محسوس ہوئی تھی۔۔۔

ہاں  بلکل ۔۔۔ بیسٹ بہت ریلیکس سا بولا تھا۔۔۔

تم مذاق کر رہے ہو نہ ۔ ولف اس کو دیکھ رہا تھا کہ شاید وہ ابھی بول دے وہ مذاق کر رہا ہے۔۔۔

میں مذاق نہیں کر رہا میں واقع ہی نکاح کر رہا ہوں۔۔۔ بیسٹ ولف کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولا تھا ۔۔۔ اور یہاں ولف کو لگا تھا کہ آج وہ واقع ہی آخری بار سن رہا ہے۔۔ وہ شخص نکاح کرنے لگا ہے جو شادی کے نام سے بھاگتا ہے۔۔۔ جو عورتوں سے بھاگتا ہے ۔۔

تم نکاح کر کس سے رہے ہو ۔ خود میں ہمت پیدا کر کے ولف بولا تھا۔۔۔

جزا شاہد الف۔۔۔ بیسٹ نے ان تینوں پر ایک اور دھماکہ کیا تھا وہ تینوں اپنی جگہ سے کھڑے ہو گئے تھے۔۔۔۔ اور بے یقینی سے سامںے بیٹھے اس شخص کو دیکھ رہے تو جو صوفے پر ایسے برائے جمان تھا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں ۔۔۔

جزا تمہارے پاس ہے ؟؟ سب سے پہلے رحیان ہوش میں آیا تھا۔۔

ہاں میرے پاس ہے ۔۔ بیسٹ رحیان کی طرف دیکھتا بولا تھا۔۔۔

کب سے؟؟ ولف بس اتنا ہی بول پایا تھا ۔۔ جبکہ لیو تو بس ساکت سا بیسٹ کو دیکھ رہا تھا جیسے اس کی روح پرواز کر گئی ہو۔۔۔

 جس وقت سے وہ لاپتا ہے ۔۔ بیسٹ انتہا کہ پر سکون انداز میں بولا تھا۔۔۔

بیسٹ تم نے پی تو نہیں لی۔۔جو ایسی باتیں کر رہے ہو؟؟ لیو بولا تو سب نے اس کو دیکھا تھا۔۔۔

یا تو مردہ بولے نہ بولے تو کفن پھاڑے ۔۔۔۔ بیسٹ لیو کی بات سن کر اس کو سخت نظروں سے گھورتا بولا تھا۔۔۔

مگر بیسٹ ۔۔۔ اب ولف نے کچھ بولنا چاہا جب بیسٹ بولا تھا۔۔۔

واپس بیٹھو سب۔۔ اور میری بات سنو۔۔۔ بیسٹ ان سب کو گھورتا بولا تھا۔ جیسے ہی وہ تینوں واپس بیٹھے تھے بیسٹ نے بولنا شروع کیا تھا۔۔۔

جزا میری کار سے ٹکڑائی تھی۔۔ زخمی ہو گئیں تھی ۔۔  اس کے چہرے پر تھپڑوں کے نشان تھے۔۔۔ میں اس کو اپنے ساتھ لے گیا تھا ۔۔ ایک دن  اس کو پاکستان رکھا تھا اور پھر اس کو گل کی نگرانی میں ادھر بھیج دیا اور اپنے کام نپٹانے کے بعد میں اٹلی اس لیے ہی آیا تھا ۔۔ اور اب میں اس سے نکاح کرنے والا ہوں۔۔۔ بیسٹ اپنی بات کر کے خاموش ہوا تھا ۔۔ اور ان سب کو دیکھا تھا ۔

وہ ابھی کدھر ہے کیسی ہے؟؟ رحیان فوراً بولا تھا ۔۔

اپنے کمرے میں ہے ۔۔۔ زخمی شیرنی بن چکی ہے وہ۔۔ انتقام کی آگ اس میں جل چکی ہے۔۔ اس کو خون کا بدلہ چاہیے اور خون کا بدلہ بس خون ہے۔۔۔ وہ رحیان کو دیکھتا بولا تھا ۔۔

مگر بیسٹ اگر وہ بدلہ لینا چاہتی ہے تو وہ یہ سب کیسے کرے گئی؟ ولف سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھتے بولا تھا ۔۔

وہ کرے گئی ۔۔ بیسٹ صوفے کی پشت سے ٹک لگا چکا تھا ۔۔

آج کے لیے کوئی اور دھماکہ تو نہیں ؟؟ لیو نے پریشانی سے بیسٹ کی طرف دیکھا تھا۔۔۔

ہے نہ۔۔ کنگ ترکی سے فرار ہو گیا ہے ۔۔۔ بیسٹ پرسکون سا ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر بیٹھے بولا تھا ۔۔۔۔

بہت خوب ۔۔اور تم اتنے مزے سے بتا رہے ہو؟ لیو کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ کنگ کے فرار ہونے پر وہ اتنا پرسکون کیسے ہے ۔۔۔

یہ کب ہوا؟؟ رحیان منہ کھولے اس کو دیکھتا بول رہا تھا۔۔۔۔

جزا کو تم اٹلی لے آئے ، نکاح کا فیصلہ تم نے کر لیا، کنگ فرار ہو گیا اور ہمیں کچھ پتا بھی نہیں چلا۔۔۔ تو میرے بھائی نکاح کر کے پانچ چھ بچے کر کے کنگ کو مار کر ہمیں بس ایک بار ہی خبر دے دیتے آج بھی بولنے کی زحمت کیوں کی تھی ۔۔ ولف بیسٹ کی بات پر تپ کر بولا تھا۔۔۔

پہلی بات جس سے میرا نکاح ہوںا ہے میں اس کے پاس بھی گیا نہ وہ میرا منہ نوچ ڈالے گئی ۔۔ دوسری بات پانچ چھ بچے میرے خیال سے زیادہ نہیں ہو جائیں گے؟؟ تیسری بات چوہے کو اس کی بل میں سے نکالنا چاہتا تھا تو بس اس کا راستہ صاف کر دیا۔۔ چوتھی بات تم لوگوں کو اس لیے نہیں بتایا تھا کیونکہ میں چاہتا تھا جو کام تم لوگ کر رہے ہو پہلے اس کو کر لو پھر تم لوگوں کو ایک بار ہی جھٹکا دوں گا۔۔ اب کیسی کو کائی شکوہ ؟بیسٹ  ان سب کو دیکھتا بولا تھا جن پر آج  حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹے تھے۔۔۔

معاف کر دے بس ہمیں ۔آج کے لیے اتنا بہت تھا۔ ولف نے اس کے سامنے ہاتھ جوڑ ڈالے تھے ۔۔

مطلب تم چاہتے تھے وہ اب ترکی سے نکلے۔۔۔ رحیان کی سوئی ابھی تک  کنگ پر ہی۔ اٹکی ہوئی تھی ۔ جس کی وجہ سے دوبارہ لیو اور ولف بھی  اس۔ بات کی طرف متوجہ ہوئے تھے۔۔

ہاں میں چاہتا تھا اب وہ نکلے باہر ۔۔ بیسٹ ہموار لہجے میں بولا تھا اور  ان سب کو دیکھ کر ایک آنکھ ونک کی تھی۔۔۔

مگر کیوں؟ وہ تینوں ایک ساتھ بولے تھے۔۔۔

اس کیوں کا جواب بعد میں دوں گا۔۔۔ فلحال نکاح خواں کو لے کر۔ آؤ ۔۔۔ بیسٹ گھڑی دیکھ کر بولا تھا ۔۔

جہاں اتنا سب کچھ کر لیا تھا ادھر نکاح خواں کو بھی خود بولا لینا تھا۔۔۔ لیو منہ بنا کر بولا تھا ۔۔

اس کو بولو زبان بند کر دے رونہ اس کی زبان کاٹ کر بھون کر اس کو ہی کھلا دوں گا۔۔۔ وہ ولف اور رحیان کی طرف دیکھتا بولا تھا جبکہ لیو نے اپنے منہ پر ہاتھ رکھ لیا تھا ۔۔

 urdunovelnests•••••••••••••

وہ ڈریسنگ روم میں شیشے کے سامنے کھڑی تھی ۔۔  شہد رنگ بالوں سے پانی کے قطرے زمین پر گر رہے تھے وہ شاید ابھی فرش ہو کر نکلی تھی ۔۔ اس کی شہد رنگ آنکھوں میں ہلکی ہلکی سرخی تھی جو اس کے رونے کی گواہ تھی ۔۔۔۔ اس نے ہاتھ میں پکڑا ٹاول ایک طرف ہنگ کیا تھا اور واپس کمرے میں آ کر بیڈ پر بیٹھی تھی جب دروازہ نوک ہوا تھا ۔۔

آ جاؤ ۔۔۔ وہ خود کو نارمل کرتے بولی تھی۔ ۔جب گل اس کے کمرے میں داخل ہوئی تھی ۔۔۔۔

جزا کو بیڈ پر بیٹھا دیکھ فوراً اس کے پاس جا کر بیٹھی تھی ۔۔۔

آپ ابھی تک تیار نہیں ہوئی اور کچھ دیر میں نکاح ہے۔۔ گل اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے بولی تھی ۔۔

مجھ میں نہیں ہمت تیار ہونے کی ۔۔ میرا دل نہیں چاہا رہا ۔۔ جزا اپنے انسو کو اندر قید کرتی خود کو نارمل رکھ کر بولی تھی۔۔۔

آپ کا نکاح ہے آج ۔۔ کیسی باتیں کر رہی ہیں آپ ۔۔ یہ دن ہر لڑکی کے لیے بہت خاص ہوتا ہے ۔۔ گل جزا کو دیکھتے بولی تھی۔۔۔

گل میرے لے خاص نہیں ہے۔۔۔ میں ایک ایسے شخص کے ساتھ جڑنے جا رہی ہوں جس کے بارے میں میں کچھ نہیں جانتی اس کا اصل کیا ہے وہ کیا ہے کیا نہیں ۔۔ میرے گھر والے میرے ساتھ نہیں میرا نکاح ہے مگر میرے سر پر ہاتھ رکھنے کے لیے میرے ماں باپ نہیں ہیں ۔ یہ نکاح میرے پاس آخری اوپشن ہے مجھے میرے گھر والوں کا بدلہ لینا ہے۔۔ مجھے میرے بابا سے جوڑا وہ راز جانا ہے جو بیسٹ جانتا ہے۔۔ ہوتا ہو گا یہ دن لڑکیوں کے لیے خاص مگر جس کے پاس اس دن میں ساتھ کھڑا ہونے کے لیے کوئی رشتہ نہ ہو جس کو دعا دینے کے لیے ماں باپ نہ ہوں جس کا نکاح صرف انتقام کے کیے ہو رہا ہو اس کے لیے یہ دن کیسے خاص ہو سکتا ہے؟۔   جزا اپنے جذبات کو قابو کرتی بول رہی تھی وہ رونا نہیں چاہتی تھی مگر پھر بھی آنکھیں نم ہو گئی تھی ۔۔

آپ کے پاس کیوں نہیں ہے کوئی رشتہ میں ہوں نہ آپ کے پاس آپ کی چھوٹی بہن ۔۔  گل بھیگی آنکھوں سے جزا کو دیکھتے اس کے ہاتھ پر اپنے ہاتھ کی گرفت مضبوط کر کے بولی تھی ۔۔

جزا نے ایک لمحے کے لیے سر اٹھا کر گل کی طرف دیکھا تھا۔ جس کی اوشن گرین آنکھیں نم تھی انسو اس کی  گل پر بہہ رہے تھے۔۔ جزا نے ہاتھ بڑھا کر اس کے انسو صاف کیے تھے۔ جب گل اس کے گلے لگ گئی  تھی۔۔۔

مت کہیں آپ کا کوئی نہیں ہے۔۔  میں ہوں نہ آپ کی بہن بن کے رہوں گئی۔۔ گل اس کے گلے لگ کر بھیگی آواز میں بولی تھی ۔ جزا کو نہ جانے کیوں گل بہت پیاری لگتی تھی اور اس کے انسو اس کو تکلیف دے رہے تھے ۔۔

رونہ بند کرو گل۔۔تم مسکراتی اچھی لگتی ہو ۔۔  جزا نے اس کو خود سے الگ کیا اور اس کے انسو صاف کرتی بولی تھی ۔۔ جب گل تھوڑا سا مسکرائی تھی ۔۔

اللہ بہت تھوڑا وقت رہ گیا جلدی اٹھو تیار ہو آپ۔۔۔ گل کی جیسے ہی نظر گھڑی کی طرف گئی فوراً اٹھی اور جزا کو بھی اٹھایا تھا۔۔

جزا کے لاکھ منع کرنے کے باوجود وہ اس کو وہ میرون میکسی پہنوا چکی تھی ۔۔۔  اور اب اس کو میک آپ کرنے کی منت کر رہی تھی ۔۔

میں اب تھپر لگا دو گی گل میں میک آپ نہیں کر رہی ۔۔ جزا عاجز آ کر بولی تھی ۔۔

تھپر لگا لینا جتنے مرضی لگا لینا بس یہ ایک لیپ سٹیک لگا لیں ۔۔۔ گل نے ہاتھ میں پکڑی  ڈیپ ریڈ شیڈ کی لیپ سٹیک جزا کے ہونٹوں کے پاس کی تھی ۔۔

گل۔۔۔ جزا نے اس کو سخت گھوری سے نوازہ تھا۔۔۔

مانا آپ کا آپ کے ہونے والے شوہر سے اختلاف ہے مگر پلیز آپ کو میری قسم لگا لیں ۔۔۔ گل آنکھیوں پٹپٹا کر بولی تھی۔ ۔۔

تم بہت پیٹو گئی میرے ہاتھوں ۔۔ جزا دانت پیس کر رہ گئی تھی ۔ اور گل کے ہاتھ سے لیپ سٹیک لے کر لگائے تھی ۔۔

اس نے میک آپ کے نام  پر بس لیپ سٹیک لگائے تھی ۔۔ یا یہ کہا جائے کے گل نے زبردستی لگوائی تھی تو غلط نہ ہو گا ۔۔ میرون کلر کی میکسی جس کی سلیوز فل تھی ۔ گلا  ب شیپ میں بنا ہوا تھا۔۔۔ گلے میں  اس ڈریس کے ساتھ آیا سیٹ پہنا ہوا تھا جس میں  یاقوت لگایا گیا تھا اور اس کے اطراف میں چھوٹے چھوٹے ہیرے لگے ہوئے تھے ۔  نیکلس کے جیسے ہی چھوٹے سے سٹیڈز اس نے کانوں میں ڈال رکھے تھے ۔۔۔  گل نے  ایک آخری نظر اس پر ڈالی تھی ۔۔ وہ بے انتہا خوبصورت لگ رہی تھی۔۔ 

آپ زبردستی تیار ہونے پر اتنی خوبصورت لگ رہی ہو اگر دل سے تیار ہوئی ہوتی تو کیا ہوتا ۔ میرا دل کر رہا لے کر بھاگ جاؤ آپ کو۔۔ گل جزا کو محبت سے دیکھتے بولی تھی۔۔

ویسے یہ مہربانی کر دو لے کر بھاگ جاؤ ۔۔ جزا اس کو دیکھتے بولی تھی اور مدہم سا مسکرائی تھی۔۔۔

گل نے آگے بڑھ کر اس کے سر پر میرون نیٹ کا ڈوپٹہ رکھا تھا ۔۔  جب کمرے کا دروازہ نوک ہوا تھا۔۔۔

آ جاو اندر۔۔۔ گل ڈریسنگ روم سے نکلتے بولی تھی۔۔۔

نکاح خواں آ گیا ہے آپ دونوں بھی آ جائیں ۔۔۔ ایک ملازمہ اندر آ کر بولی تھی ۔۔

تم جاؤ ہم لوگ آ رہے ہیں ۔۔۔ گل یہ کہہ کر واپس ڈریسنگ روم میں گئی تھی اور جزا کو لے کر باہر آئی تھی ۔۔ گل اس کو زبردستی تیار تو کروا چکی تھی مگر وہ اس کی آنکھوں کی اداسی دور نہ کر پائی تھی ۔۔۔

 urdunovelnests••••••••••••

نکاح باہر اوپن ایریا میں ارینج کیا گیا تھا۔۔۔ بیسٹ بلیک تھری پیس پہنے ایک خوبصورت سی کرسی پر بیٹھا تھا جس کے ساتھ ایک اور کرسی رکھی گئی تھی یقیناً وہ جزا کے لیے تھی ان دونوں کرسیوں کے درمیان ایک ٹیبل رکھی گئی تھی اور سامنے رکھی کرسی پر نکاح خواں بیٹھے ہوئے تھے۔ جبکہ لیو ولف اور رحیان نے بلیک پینٹ پر وائٹ شرٹ پہن رکھی تھی اور اس وقت رحیان سمیت چاروں کے منہ پر ماسک لگا تھا نہ جانے کیوں وہ لوگ بس ایک دوسرے کے سامنے ہی ماسک اترتے تھے مگر کسی اور کے سامنے نہیں ۔۔۔

گل جزا کو لے کر باہر آئی تھی۔۔۔  بیسٹ ایک کرسی پر بیٹھا تھا اور سامنے بیٹھے نکاح خواں سے کوئی بات کر رہا تھا جب اس کی نظر جزا پر گئی تو وہ نظریں ہٹانا بھول گیا تھا۔۔۔ اس کی ہارٹ بیٹ بہت تیز ہو گئی تھی۔۔۔ وہ کسی حور سے کم نہ لگ رہی تھی۔۔۔ اس کو مسلسل جزا کی طرف دیکھتا پا کر ولف نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا۔۔۔

نظروں کو لگام دیں جناب ابھی وہ آپ کی ملکیت مکمل توڑ پر نہیں بنی کچھ لمحے باقی ہیں ابھی۔۔ ولف اس کے کان کے قریب جھک کر بولا تھا۔۔۔

منہ بند کر لو گے؟ بیسٹ نے اس کو ایک سخت گھوری سے نوازا تھا ۔۔

گل جزا کو لا کر بیسٹ کے پاس بیٹھا چکی تھی اور خود اس کے پیچھے کھڑی ہو گئی تھی۔۔۔ وہاں اس وقت کچھ  گاڑڈز اور ملازمین بھی موجود تھے۔۔۔  نکاح شروع کر دیا گیا تھا۔۔۔ سب سے پہہلے بیسٹ سے ایجاب وقبول لیا گیا تھا ۔۔ اب باری جزا کی تھی ۔۔۔

نکاح خواں اس کے سامنے بیٹھا کیا بول رہا تھا اس کا دھیان ادھر تھا ہی نہیں وہ ادھر ہوتے ہوئے بھی ادھر نہ تھی ۔۔  اس کی آنکھیں آنسوں سے لبا لب بھری ہوئی تھی ۔۔ انسو اس کی آنکھوں سے چھلک رہے تھے ۔۔ یادوں کی کتاب نے ایک پنا موڑا تھا ۔ اںعم بیگم اور شاہد صاحب  کا چہرہ سامنے آیا تھا۔۔۔ اس کا دل جیسے کسی نے موٹھی میں بند کیا ہو۔۔۔ انسو اس کا خوبصورت سا چہرہ تر کر چکے تھے ۔۔۔

جزا آپی قبول ہے بولیں ۔۔۔ گل جو اس کے پاس کھڑی تھی اس کو مسلسل خاموش دیکھ کر اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اس کے کان کے پاس جھک کر بولی تھی۔۔

ق۔۔۔۔ قبو۔۔قبول ہے۔۔۔۔ جزا کو اپنی آواز کھائی سے آتی محسوس ہوئی تھی ۔۔ یادوں کی کتاب میں منظرِ بدلہ تھا انعم بیگم اس کو ڈانٹ ریی تھی اور شاہد صاحب اپنی بیٹی کا دفاع کر رہے تھے۔۔۔

قبول ہے۔۔۔ وہ اسی طرح بولی تھی ایک اور منظر سامنے آیا تھا۔۔۔ وہ اور سویرا بیٹھی تھی درمیان میں اس کی پھوپھو تھی جو ان کو کوئی کہانی سنا رہی تھی ۔۔ انسو اس کی آنکھوں سے بہہ رہے تھے ۔۔

قبول ہے۔۔۔۔۔۔۔ اب کی بار منظر بہت اذیت ناک تھا۔۔۔ شاہد صاحب ، انعم بیگم ، خدیجہ بیگم کا خون میں لت پت وجود ۔۔۔ سویرا کی نم آنکھیں پھٹا لباس، بےآبرو وجود پیٹ سے نکلتا خون ۔۔ جزا نے اپنی آنکھیں سختی سے بند کر لی تھی۔۔۔ وہ نکاح قبول کر چکی تھی ۔۔

زندگی کی کتاب میں ایک نیا باب شروع ہو گیا تھا۔۔ ایک انچاہا شخص مکمل حقدار بن گیا تھا۔۔ ایک ایسا شخص ہمسفر بن گیا تھا جو ایک راز ایک پہیلی تھی ایک نقاب تھا۔۔۔ یہ نکاح خون کا بدل لینے کے لیا کیا تھا اپنے  باپ سے جوڑا راز جانے کے لیے کیا تھا۔۔۔ مگر یہ نکاح رنگ کیا لانے والا تھا وہ انجان تھی وہ اس بات سے انجان تھی وہ اب خود کو بہت سے رازوں سے الجھا چکی ہے۔۔

جو شخص آج  اس کی زندگی میں قدم رکھ چکا تھا وہ بھی پورے حق سے کیا وہ کبھی اس سے محبت کر پائے گئی کیا اس شخص کے لیے دل میں الفت جاگے گئی۔۔۔ کیا وہ شخص زندگی کے اس ویران دشت میں جہاں وہ اکیلی کھڑی ہے اس کا ساتھ دے گا؟ وہ اس کی کس حد تک مدد کرے گا؟

جزا کو آج اپنی زندگی سوالوں سے بھری لگ رہی تھی۔۔۔ ایجاب و قبول کے بعد وہ فوراً اٹھ کر اندر کی طرف بڑھی تھی ۔۔ اس کو کسی نے روکا بھی نہ تھا۔۔ سب اس کی کیفیت سے واقف تھے اس لیے کسی کو کوئی اعتراض بھی نہ تھا۔۔۔۔۔

 urdunovelnests•••••••••••••

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Don’t copy without my permission ❌

Must share your precious reviews with us and also share this episode with your friends....

For reading other episodes of Dasht-e-Ulfat click at

 link below

urdunovelnests


Comments