بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
ناول
دشتِ الفت
شازین زینب
Ep # 19
جزا تم کہنا
کیا چاہتی ہو۔۔۔ بیسٹ اس کو ناسمجھی سے دیکھتا پوچھ رہا تھا۔ جبکہ ولف لیو اور گل
جزا کی شکل دیکھ رہے تھے۔۔۔۔
میں چاہتی
ہوں یہ پلین چینج کیا جائے۔۔۔ جزا بیسٹ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولی تھی ۔۔۔
جزا یہ
پلین چینج نہیں ہو گا۔۔ بیسٹ یہ کہہ کر
موڑنے لگا تھا۔۔۔ جب جزا نے اس کو اس کے بازو سے پکڑ کر روکا تھا اور اس کا روخ اپنی
طرف کیا تھا۔۔۔ جزا کی اس جرات پر لیو اور ولف نے ایک دوسرے کو دیکھا تھا۔۔۔
میں نے
کچھ بولا ہے بیسٹ۔۔۔۔ جزا سخت نظروں سے اس کو دیکھتے بولی تھی۔۔۔ جبکہ اس کی نظروں
کی سختی بیسٹ کو بھا گئی تھی۔۔۔
کیا چینج
کرنا ہے بتاو۔۔۔ بیسٹ اپنی جگہ پر جا کر کھڑا ہوا تھا۔۔۔ جبکہ ولف ، لیو اور گل پر
آسمان ٹوٹا تھا۔۔۔ وہ جس کو اپنے کام میں کیسی کی دخل اندازی پسند نہ تھی وہ آج
اپنے پلین کو چینج کر رہا تھا اپنی بیوی کی وجہ سے ۔۔
میں اور
گل جائیں گے اندر۔۔۔۔ تم اور ولف سیکورٹی ہیک کرو گے۔۔ اور لیو لڑکیوں کو محفوظ
مقام پر لے کر جائے گا۔ مگر لڑکیوں کو محفوظ مقام پر لے جانے کے لیے بیک سائیڈ کو
یوز کریں گے جہاں لیو سارا راستہ کلیر کرے گا اندر میں اور گل دیکھ لیں گی۔۔۔۔
جزا چلتے ہوئے ٹیبل کر دوسرے سرے پر بیسٹ
کے بلکل سامنے کھڑی ہو گئی تھی۔۔
جزا اندر
خطرہ ہو سکتا ہے یہ بے وقوفی ہے۔۔ ولف فوراً بولا تھا۔۔۔۔
میں کیسی
خطرے سے نہیں ڈرتی ولف۔۔ ڈر ان کو لگتا ہے جن کے پاس کھونے کے لیے کچھ ہو۔۔ میرے
پاس جو کچھ تھا کھو چکی ہوں۔۔ اور اب کچھ کھونے سے ڈرتی نہیں ہوں۔۔ اب مجھ سے کوئی
کچھ چھینا چاہیے گا تو بدلے میں اپنی درد ناک موت کو دعوت دے گا۔۔۔ اور میں جزا
نہیں الپائن ہوں یاد رکھنا یہ بات۔۔۔ جزا ولف کی طرف دیکھتے بولی تھی۔۔۔۔
مگر ۔۔۔
لیو نے کچھ بولنا چاہا تھا۔۔۔
لیو۔۔۔۔ خاموش۔۔۔۔ بیسٹ نے لیو کی طرف دیکھ کر کہا تھا
اور اب روخ جزا کی طرف کیا تھا۔۔۔
ٹھیک ہے
تم اور گل جاو ۔۔۔ میں اور ولف سیکورٹی ہیک کریں گے۔۔۔ مگر جزا ایک بات یاد رکھنا
میری۔۔۔ مجھے صفدر ہاشمی کی موت چاہیے ہے۔۔۔۔
وہ اور اس کا گروپ زندہ نہیں بچنا چاہیے ۔۔۔۔ بیسٹ ٹیبل کے دوسرے سرے پر کھڑی جزا کی طرف باغود
دیکھتا بولا تھا۔۔۔
تم
دیکھتے جاؤ ادھر ہو گا کیا۔۔۔ ان کو لگتا ہے عورت کی عزت کے ساتھ کھیلنا، دل
بھیلانا بہت آسان ہے۔۔۔ صفدر ہاشمی کے گمان میں بھی نہ ہو گا آج اس کی موت لکھی کس
کے ہاتھوں ہیں۔۔ جزا یہ کہہ کر بیسمنٹ سے
باہر کی طرف بڑھی تھی اور گل اس کے پیچھے
لپکی تھی۔۔۔۔
جبکہ
بیسٹ ولف سیکورٹی ہیک کرنے کے لیے اپنے اپنے لیپ ٹاپ ان کر چکے تھے۔۔۔ اور لیو
فوراً سے لڑکیوں کے لیے ایک محفوظ مقام کو تیار کرنے کے لیے نکلا تھا۔ کیونکہ اس
کے بعد اس کو فورا صفدر ہاشمی کے منشن پر جا کر بیک سائیڈ کے سکیورٹی گارڈز کو
مارنا تھا۔
urudnovelnests••••••••••••
لڑکیوں
کے چیخنے چلانے کی آوازیں باہر تک سنائی دے رہی تھی۔۔۔۔ کچھ لڑکیاں لاؤنج میں ڈری سہمی زمین پر بیٹھی
ہوئی تھی۔۔۔ جن کے آس پاس چار گارڈز کھڑے تھے ۔۔۔۔
جزا اور
گل اس وقت صفدر ہاشمی کے عالیشان محل سے
کچھ ہی دوری پر تھی۔۔۔
الپائن ،
گل بات سنوں میری۔۔۔ ابھی وہ لوگ کوئی قدم بڑھاتی جب جزا اور گل کے کانوں کے ساتھ
لگے بیلو ٹوٹھ میں سے ولف کی آواز آئی تھی۔۔۔
بولو ولف
ساری سکیورٹی ہیک ہو گئی؟۔۔۔ جزا فوراً سے بولی تھی ۔۔۔
ساری
سیکورٹی ہیک ہو گئی ہے ۔۔۔ دروازے کے پاس جو دو گارڈز تھے وہ اب سکیورٹی روم میں بیٹھے ہیں۔۔ مین ڈور کھول
دیا گیا ہے دونوں میں سے ایک سکیورٹی روم میں بیٹھے گارڈز کو ٹھکانے لگاؤ ۔۔ اور
ایک اندر کی طرف بڑھو۔۔۔ اندر کے دروازے کے سا منے چھ گارڈز ہیں کچھ لڑکیاں لاؤنج
میں ہیں ان کے آس پاس چار گارڈز ہیں نیچھے کل پندرہ گارڈز ہیں ، اور اوپر ایک کمرے
کے باہر دو گارڈز سمیت پندرہ گارڈز ہیں کیونکہ ایک کمرے کے باہر چار گارڈز بھی ہیں
اب صفدر ہاشمی کا کمرا کون سا ہے سمجھنا مشکل ہے تو زرہ احتیاط کرنا اور دس گارڈز
بیک سائیڈ پر ہیں جن کو لیو مینج کر لے گا۔۔۔
ولف نے کمیرا میں ان کو سارے اندر کی سکیورٹی بتا دی تھی۔۔۔
بس اتنے
سے۔۔۔ تعجب ہے۔۔۔ گل کی قینچی جیسی زبان میں ہلچل پیدا ہوئی تھی۔۔۔
صفدر
ہاشمی کے علاوہ اور کون کون ہے ادھر ۔۔۔گل کو سخت نظروں سے گھورتی جزا بولی تھی۔۔۔
اس کا اکلوتا
بیٹا ۔۔۔ فیروز ۔۔۔ ولف سامنے سکرین کی طرف دیکھتا بولا تھا۔۔۔ اور ساتھ ہی ایک
نظر اس نے بیسٹ پر ڈالی تھی جو دونوں ہاتھ سر کے پیچھے رکھے آنکھیں موندے کرسی کی پیشت سے ٹیک لگائے اور ٹانگوں کو سامنے
پڑی کرسی پر رکھے نیم دراز تھا بلکل لاپرواہ سا۔۔۔
شکریہ
ولف۔۔۔۔ جزا آگے بڑھتی بولی تھی۔۔۔
اپنا
خیال رکھنا دونوں اور اگر کوئی پرابلم ہو تو فوراً بتانا ۔۔۔ ولف نے سائیڈ اپنے طرف سے میوٹ کر دی تھی۔۔
اور ساتھ ہی جزا نے بھی سائیڈ اپنی طرف سے میوٹ کی تھی ۔۔
مین ڈور
کھولا تھا۔۔ وہ دونوں احتیاط سے اندر داخل ہوئی تھی۔۔۔ اس وقت ادھر کوئی گارڈ نہیں
تھا جبکہ سیکورٹی روم میں سے آوازیں آ رہی تھی۔۔۔
گل تم
سکیورٹی روم کی طرف جاو۔۔۔ اور ہاں ہوش سے کام لینا جوش سے نہیں ساتھ اس زبان کو قابو رکھنا ورنہ کاٹ دوں گی۔۔۔
جزا گل کو سیکورٹی روم کی طرف جانے کا کہہ کر اندر کی طرف بڑھنے لگی تھی ۔۔
جزا کے
ارڈر پر وہ سکیورٹی روم کی طرف گئی تھی۔۔ اس نے پہلے کھڑکی سے اندر بیٹھے آدمیوں
کو دیکھا تبا جو کہ پانچ تھے۔۔ اور نشے کی حالت میں دھت تھے۔۔۔ یہ موقع اچھا تھا۔۔
گل نے فوراً سے دروازہ کھولا تھا ۔۔ وہ پانچوں گارڈز نشے میں جھول رہے تھے۔۔۔ گل
کو سامنے دیکھ کر کیسی میں اٹھنے کی بھی ہمت نہ تھی۔۔۔۔
ہو۔۔۔۔
یو۔۔۔ ار۔۔۔ ایک گارڈ بامشکل بولا تھا ۔ کیونکہ شراب کا نشہ اس پر مکمل طور پر چڑا
ہوا تھا۔۔۔
یور ڈیتھ۔۔۔
گل نے یہ کہتے ساتھ اس کی طرف گن کی تھی اور اگلے ہی لمحے گولی اس گارڈ کے سینے کے
آر پار تھی گل کی گن سائلنٹ پہ لگی ہوئی تھی جس کی وجہ سے کسی قسم کا کوئی شور
نہیں ہوا تھا۔ ایک لمحے کی بھی دیر لگائے بغیر گل نے باقی چار کی طرف بھی نشانہ
کیا تھا اور باری باری ایک ایک کو مارتی وہ وہاں سے بھاگی تھی۔۔۔
دوسری
طرف جزا جو کے اندر کی طرف بڑھ رہی تھی سامنے کھڑے چھ گارڈز کو دیکھ کر ایک لمحے
کے لیے رکی تھی۔۔۔ رن وے کہ ایک طرف لگی کیاریوں میں خود کو چھپاتی ایک گارڈ کے سر
کی طرف نشانہ بنا چکی تھی۔۔ اور اگلے ہی لمحے اس نے گولی چلائی تھی ۔۔ گولی گارڈ
کے سر کے ار پار ہوئی تھی جو کہ اس کے سر سے نکلتی دوسرے گارڈ کے سر میں جا کے لگی
تھی دونوں گارڈ ایک لمحے میں بغیر کوئی اواز کیے زمین پہ ڈھیر ہوئے تھے۔۔ ان کو
زمین پر ڈھیر ہوتا دیکھ باقی کے چار گارڈز اگے کی طرف پڑے تھے۔۔ اب کی بار جزا نے
ایک کے سینے کے مقام پر نشانہ بنایا تھا اور اگلے ہی لمحے اس نے اپنی گن چلا دی
تھی۔۔۔ وہ گارڈ بھاگتا بھاگتا زمین بوس ہوا تھا۔۔۔ ایک گارڈ نے نشانہ بنایا تھا
لیکن اگلے ہی لمحے جزا کی بندوق سے نکلتی گولی اس کے سر کے آر پار ہوئی تھی اور وہ
وہیں کا وہیں ڈھیر ہو گیا تھا۔۔۔ ایک لمحے کی بھی دیر کیے بغیر جزا نے باقی دونوں
کی طرف بھی نشانہ بنایا تھا ایک کے سر میں گولی ماری تھی اور ایک کے سینے میں گولی
ماری اور وہ دونوں موقع پہ مرے تھے۔۔۔۔
اب وہ
اندر کی طرف بڑھنے لگی تھی جب اس کو اپنے پیچھے کسی کے قدموں کی آواز سنائی تھی اس
نے مڑ کر دیکھا تو گل اسی طرف آ رہی تھی۔۔۔
کوئی بچا
تو نہیں ۔۔۔ جب گل جزا کے قریب آئی تھی تو
جزا نے فورا اس سے پوچھا تھا۔۔۔۔
پانچوں
نشے میں دھت تھے مارنے میں وقت نہیں لگا۔۔ گل شان بے نیازی سے بولتی آگے کی ظرف
بڑھی تھی۔۔۔۔
urudnovelnests•••••••••••
ولف جو
جزا اور گل کو کافی دیر سے مونیٹر کر رہا تھا ان کی شوٹنگ کو دیکھ کے امپریس ہوئے
بغیر نہ رہ سکا کیونکہ ان دونوں کا کوئی
ایک نشانہ بھی خطا نہ ہوا تھا۔۔۔۔۔
ائی کانٹ
بلیو بیسٹ ۔۔۔۔ ولف کی آواز بیسمنٹ میں گونجی تھی۔۔۔
کیوں کیا
ہوا ہے۔۔۔۔ ولف کی آواز سن کر بیسٹ ویسے ہی آنکھیں موندے بولا تھا۔۔۔۔
ان دونوں
کی شوٹینگ سکیلز کتنی اچھی ہیں ۔۔۔۔۔ ولف سامنے سکرین کی طرف دیکھتے بولا تھا ۔۔
جہاں جزا اور گل اندر کی طرف بڑھ رہی تھی۔۔۔
میں
جانتا ہوں ولف۔۔۔ ابھی تو دیکھنے کو بہت کچھ باقی ہے ۔۔ بیسٹ مدہم آواز میں بولا
تھا۔۔۔ جبکہ ولف کی نظر ایک لمحے کے لیے بھی سکرین سے نہ ہٹی تھی۔۔۔
urudnovelnests••••••••••••
گل اور
جزا اس بڑے سے دروازے کے سامنے کھڑی تھی۔۔۔ دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا تھا اور
پھر وہ دونوں اندر کی طرف بڑھی تھی۔۔
بھاری
بوٹوں کی آواز سن کر ایک دفعہ سب آدمی چکانا ہوئے تھے۔۔۔
یہ آواز
کیسی ہے۔۔ ایک آدمی نے اپنے ساتھی سے پوچھا تھا۔۔۔۔
جہاں تک
میں جانتا ہوں یہ آواز میں نے تب تب سنی ہے جب جب بیسٹ کو دیکھا ہے۔۔ مجھے تو لگتا
ہے یہ اس کے قدموں کی آواز ہے۔۔۔ دوسرا آدمی قپنے تھوک نگلتا بولا تھا۔۔۔
اگر بیسٹ
ادھر آ گیا تو آج سب مارے جائیں گے۔۔ ان آدمیوں میں سے ایک اور بولا تھا۔۔۔
بیسٹ کا
تو پتا نہیں لیکن اس بار الپائن ضرور آئی ہے۔۔ جزا ان کی باتیں سن چکی تھی تبھی
دروازے کے پاس کھڑی بولی تھی۔۔
جب ان سب
کی نظر دروازے کی طرف گئی تھی جہاں گل اور جزا کھڑی تھی۔۔۔۔ دونوں نے بلیک کلر کی
پنٹ شرٹ پر بلیک لونگ کوٹ پہن رکھے تھے۔۔ چہرے پر سیاہ ماسک اور سر پر بلیک کیپ جو
ایسے پہنی گئی تھی کہ سر جھکانے سے پورا چہرہ چھپ جائے اور سر اٹھائیں تو صرف
آنکھیں نظر آئی ۔۔ وہ دونوں اس وقت ایسے ہی ہولیے میں تھی تھی جیسے ہولیے میں اکثر
بیسٹ ، ولف اور لیو ہوتے تھے ۔۔
یہ تو
لڑکیاں ہیں بے۔۔۔ ان میں سے ایک طنزیہ مسکرا کر بولا تھا۔۔ جبکہ گل
اور جزا قہر برساتی نظروں سے ان کو دیکھ رہی تھی۔۔۔ کیونکہ جو لڑکیاں زمین پر
بیٹھی تھی وہ بہت بری حالت میں تھی اور کچھ لڑکیوں کی چیخنے چلانے کے آوازیں بھی آ
رہی تھی۔۔ جزا اور گل نے ایک ایک قدم آگے بڑھایا تھا۔۔۔
کون ہو
تم لوگ ۔۔۔۔ادھر کیا کرنے آئی ہو۔۔۔ ایک آدمی ان کے بڑھتے قدم دیکھ کر گن کی نوک
ان کی طرف کر کے بولا تھا۔۔۔۔
تم لوگوں
کی زبان میں ہمیں موت کہتے ہیں ۔۔۔ اور ان لڑکیوں کو بچانے آئی ہیں ۔۔۔ جزا قہر
برساتی نظروں سے اس کو دیکھتے بولی تھی اور پھر اگلے ہی لمحے اس نے گن نکال کر
چلائی تھی۔۔ اور گولی سامںے والے کے سر کے
بیچوں بیچ لگی تھی۔۔۔۔ باقی سب آدمی آگے
بڑھے تھے ان پر وار کرنے جب گل نے دو آدمیوں کو گولی مار تھی اور ایک کو جزا نے وہ
چاروں آدمی اُدھر پی ڈھیر ہو گئے تھے۔۔۔۔
جلدی
اٹھو تم سب جزا نے ان لڑکیوں کی طرف دیکھا
تھا جو رو رو کے ہلکان ہو چکی تھی۔۔ اور ڈر سے کانپ رہی تھی۔۔۔۔
گل تم ان
سب لڑکیوں کو ایک کمرے میں بند کرو جہاں یہ سیف ہوں۔۔۔ میں باقی کو دیکھتی ہوں۔۔۔
ان لڑکیوں کو کوئی حرکت نہ کرتا دیکھ جزا بولی تھی۔۔۔
مگر
الپائن تم اکیلے کیسے کرو گئی ۔۔۔ گل فکرمندی سے بولی تھی۔۔۔ میری فکر مت کرو گل لڑکیوں
کو سیف کرو۔۔۔ جزا یہ کہہ کر آگے بڑھی تھی۔۔ جبکہ پیچھے گل ان سب لڑکیوں کو ایک
محفوظ کمرے میں لے جانے کی کوشش کر رہی تھی۔۔
جزا
راہداری سے گزار رہی تھی جب تھوڑا آگے بڑھتے ہی اس کو کیسی لڑکی کی چیخنے کی آوازیں آ تھی جزا فورآ آواز کے تعاقب میں آگے بڑھی
تھی۔۔۔ ایک کمرے کے سامنے روکی تھی جہاں سے لڑکی کے چیلانے کی آواز آ رہی تھی۔۔
جزا نے فوراً دروازہ کھولا تھا اور سامنے کا منظر دیکھ کر اس کے پاؤں کے نیچھے سے
زمین نکلی تھی۔۔۔ ایک لڑکی تھی جس کو چار گارڈز اپنی درندگی کا نشانا بنانا چاہتے تھے۔۔۔
اس کے کپڑے ہر جگہ سے پھیٹے پڑے تھے۔۔۔ جزا نے ایک نظر سائیڈ پر کی تھی۔۔۔ جہاں
دیوار پر اس کو دو تلواریں لٹکی ہوئی نظر آئی تھی۔۔ جزا نے ایک نظر ہاتھ میں پکڑی
گن کو دیکھا تھا اس نے فوراً گن واپس رکھی تھی اور فوراً موڑی اور وہ تلواریں نکال لی ۔۔۔
تم لوگ
گن سے نہیں تلوار سے ملی موت کے لائق ہو۔۔
جزا کی سخت آواز کمرے میں گونجی تھی جس سے سب اس کی طرف متوجہ ہوئے تھے۔۔
کون ہے
تو ۔۔۔۔ ایک آدمی اس کی طرف بڑھا تھا۔۔۔۔
لڑکی کو
چھوڑ دو۔۔۔ جزا قہر برساتی نظروں سے سامنے کھڑے شخص کو دیکھتے بولی تھی۔۔۔
دیکھ اگر
اپنی جان بچانا چاہتی ہے واپس موڑ جا ورنہ اس سے بری تیری حالت کر ریں گے۔۔۔ وہ
آدمی خباثت سے بولا تھا۔۔۔
اچھا
ایسا ہے۔۔۔۔ جزا نے ایک ائی برو اٹھائی تھی۔۔۔ جبکہ وہ آدمی فوراً اس کی طرف لپکا
تھا۔۔۔
جیسے ہی
وہ جزا کے قریب گیا تھا۔۔ جزا نے اس کے پیٹ میں وہ تلوار ماری تھی۔۔۔۔
میں تم
سب کی موت ہوں۔۔ اور تم لوگوں میں اتنی ہمت نہیں کہ مجھے ہاتھ بھی لگا سکو۔۔۔ جزا
نے اس کے پیٹ میں تلوار گھوما دی تھی۔۔۔ اور فوراً باہر نکالی تھی۔۔ جبکہ اس آدمی
کے پیٹ اور منہ سے خون نکل رہا تھا۔۔۔ جزا نے ایک وار اور کیا تھا اور یہاں اس
آدمی کا سر تن سے جدا ہوا تھا۔۔۔
باقی تینوں
جزا کے اس وار پر ذرہ ڈرے تھے۔۔۔ ایک آگے بڑھا تھا۔۔۔ جزا نے پہلا وار اس کے ہوا
میں بدل ہوئے ہاتھ پر کیا تھا جو کٹ کر اس
کے جسم سے جدا ہوا تھا۔۔۔ اور پھر اس کے سر پر وار کیا تھا۔۔ تلوار کی دھار اس کے
سر کو دو حصوں میں تقسیم کر چکی تھی۔۔
باقی دو
کے وجود میں جان نہ ہونے کے برابر تھی۔۔۔ ایک نے اپنی گن نکال کر جزا کی طرف گن کا
روخ کیا تھا۔۔ اس سے پہلے وہ گن چلاتا جزا تھوڑا سا گھومی تھی اور ایک وار میں اس
آدمی کی بھی گردن سر سے جدا کر چکی تھی۔۔۔ اب باری دوسرے کی تھی۔۔۔۔۔ وہ جو پہلے ہی ڈر سے کانپ رہا تھا۔۔۔ جزا کی
سرخ ہوتی آنکھوں میں وہ قہر دیکھ چکا تھا۔۔ اس نے جس ہاتھ میں گن پکڑ رکھی تھی وہ
ہاتھ مکمل کانپ رہا تھا۔۔۔۔ جزا دونوں ہاتھوں میں تلواریں پکڑے کھڑی تھی۔۔ اور قہر
برساتی نظر سامنے کھڑے شخص پر ڈالی اور ایک قدم اس کی طرف بڑھایا تھا۔۔۔ جزا کے
بڑھتے قدم دیکھ کر وہ آدمی فوراً پیچھے ہوا تھا۔۔۔۔
ہاتھ
لگاؤ اس لڑکی کو ۔۔ جزا کے قہر برساتی آواز اس کمرے میں گونجی تھی ۔۔۔
آ۔۔۔گے۔۔
مت آنا ۔۔۔ وہ ادمی ہکلاتا ہوا بولا تھا۔۔۔ مگر جیسے جزا پر اس کی بات کا اثر نہیں
ہوا تھا۔۔
جزا آگے بڑھی تھی۔۔۔ اس نے سب سے پہلے اس آدمی کے
ہاتھ سے گن گرائی تھی۔۔۔۔اور آگلے ہی لمحے اس نے اس آدمی کی گردن کے نیچھے تلوار
کی نوک رکھی تھی۔۔۔۔
صفدر
ہاشمی کدھر ہے۔۔۔ اس کی آنکھوں اور آواز میں موجود قہر سے سامنے کھڑا شخص خوف کھا
چکا تھا۔۔۔۔
وہ ۔۔۔
او۔۔ اوپر اپنے کمرے میں ہے۔۔۔ وہ آدمی کانپتی آواز میں بولا تھا۔۔۔ وہ جیسے ہی خاموش
ہوا تھا جزا نے اس کے سر کو تن سے جدا کیا تھا۔۔۔
اب وہ اس
لڑکی کی طرف بڑھی تھی جو اس وقت ڈری سہمی
سے بیڈ پر بیٹھی تھی اور خود پر لحاف آور چکی تھی۔ جزا چلتے ہوئے اس کے قریب گئی
تھی۔۔ اس کے ہاتھ خون سے بڑھے ہوئے تھے۔۔۔ اس کے ماتھے پر بھی کچھ خون کے قطروں کے
نشان صاف نظر آ رہے تھے۔۔۔ اس نے تلواریں ایک طرف رکھی تھی۔۔۔ اور پھر ایک الماری
کی طرف بڑھی تھی۔۔ اس کو کھولا تھا جس میں کچھ مردانہ کپڑے تھے۔۔۔
ان کو
پہن کر باہر نکلوں یہاں سے۔۔ جہاں باقی لڑکیاں ہوں ادھر جانا۔۔۔ جزا یہ کہہ کر کمرے سے باہر نکلنے لگی تھی۔۔۔ جب اس نے اپنے ہاتھوں کو دیکھا تھا جو خون سے تر
تھے۔۔۔ ماسک کے پیچھے ہونٹوں پر تلخ مسکراہٹ نے جگہ لی تھی۔ آج جزا جرم کی اس بے
رحم دنیا میں قدم رکھ چکی تھی۔۔ اس کو اتنے آدمیوں کو مارنے میں کوئی خوف نہ آیا
تھا کیونکہ وہ جانتی تھی وہ کیسی کو ناحق نہیں مار رہی تھی یہ درندے بے رحم موت کے
ہی حق دار تھے۔
یہ درندے
اس سے بھی زیادہ بے رحم موت کے حقدار ہیں۔۔۔ مدہم آواز میں خود کلامی کرتے وہ موڑی
تھی اور زمین سے وہ دونوں تلواریں اٹھا کی تھی۔۔۔ اور کمرے سے باہر نکلی تھی۔۔۔
جب دوسری
طرف سے گل آتی نظر آئی تھی۔۔۔ گل کی نظر سامنے سے نکلتی جزا پر گئی تھی۔۔ اس کے
ہاتھوں میں تلوار دیکھ کر اور اس کے ہاتھ خون سے بھرے دیکھ کر اور تلواروں پر خون
دیکھ کر ایک بار گل کا دل حلق میں آیا تھا۔۔۔۔
الپائن
۔۔۔۔ وہ فوراً جزا کے پاس پہنچی تھی ۔۔
اندر ایک اور لڑکی ہے اس کو بھی باقی لڑکیوں کے
پاس لے کر جاو۔۔۔ اور نیچھے جو باقی گارڈز ہیں ان کو ٹھکانے لگاؤ میں اوپر جا رہی ہوں۔۔ نیچھے گارڈز
کو مار کر لڑکیوں کر لے کر بیک گیٹ کی طرف بڑھنا ادھر لیو ویٹ کرے گا۔۔۔۔ جزا یہ
کہہ کر موڑنے لگی تھی جب گل بولی۔۔۔
مگر جو
بیک گیٹ پر گارڈز ہیں ؟؟ گل پریشانی سے بولی تھی۔۔۔
لیو ان
کو ٹھکانے لگا چکا ہو گا۔۔۔ جزا یہ کہہ کر موڑ گئی تھی۔۔اور اوپر کی طرف بڑھی
تھی۔۔۔
جزا
سیڑھیاں چڑھتی اوپر پھنچ چکی تھی۔۔۔۔ جبکہ
گل نیچھے دو گارڈزپر نشانہ تانے کھڑی تھی اور اگلے ہی لمحے اس کی دونوں گنز سے
نکلی گولیاں ان گارڈز کو زمین بوس کر چکی تھی۔۔۔ وہ نیچھے سے ساری لڑکیاں ایک
محفوظ کمرے میں بند کر چکی تھی۔۔۔۔۔
بس اتنی
ہی ہو تم سب یہ کوئی اور بھی ہے؟؟ گل ان سب کی طرف دیکھتی ہانپتی سانسوں کے ساتھ
بولی تھی۔۔۔
د۔۔ دو
لڑکیاں اور ہیں ۔۔ و۔۔وہ ۔۔ او۔۔اوپر ہی۔۔ہیں۔۔۔۔ ایک لڑکی بامشکل بولی تھی ۔۔۔
الپائن
۔۔۔ دو لڑکیاں اوپر ہیں ۔۔۔ گل نے فوراً اپنے کان میں لگے بیلو ٹھوتھ سے جزا کو انفورم کر چکی تھی ۔۔
وہ ہداری
سے گزر رہی تھی جب اس کو بیلو ٹوتھ سے گل کی آواز گونجی تھی ۔۔ اس کی ساری بات سن
کر وہ قہر برساتی نظروں سے آگے بڑھی تھی۔۔۔ جب اس کو سامنے سے کچھ گارڈز آتے
دیکھائی دیے تھے۔۔۔ ان کو سوچنے سمجھنے کا موقع دیے بغیر وہ ان کی طرف لپکی تھی
اور چند لمحوں میں وہ ان چاروں گارڈز کو زمین بوس کر چکی تھی۔۔۔۔ وہ اس وقت مکمل
طور پر بیسٹ کا فیملی ورژن لگ رہی تھی ۔۔نہ ڈر، بہادر ، جس کے ایک ایک وار میں قہر
بولتا تھا ۔۔
وہ اس کی
نظر ایک کمرے پر گئی تھی جہاں باہر دو گاررڈز کھڑے تھے۔
یہ ہے
صفدر ہاشمی کا کمرا۔ جزا غصے سے دیکھتے تھوڑا اور آگے بڑھی تھی اور رہداری میں لگے
ایک پیلر کے پیچھے چھپی تھی۔۔۔
تلواروں
کو اس نے ایک طرف رکھا تھا ۔۔ اور اپنی جیب سے گن نکالی تھی۔۔۔ اس نے پیلر کے
پیچھے سے ہی سامنے کھڑے گارڈز کا ںشانہ لیا تھا۔۔۔ اس کی گن سے گولی نکالی تھی۔۔
وہ گولی ایک۔ گارڈ کے سر سے ہوتی دوسری گارڈ کے سر میں لگی تھی اور اس کے سر سے
نکلا کر دیوار میں پیوست ہو گئی تھی۔۔۔ نشانہ بہت قریب سے لیا گیا تھا جس کی وجہ
سے گولی ان دونوں کے سر کے آر پار ہوئی تھی ۔۔ وہ دونوں زمین بوس ہو چکے تھے۔۔۔
جزا نے واپس گن اپنی جیب میں ڈالی تھی اور تلواروں کو اٹھا کر کمرے کی طرف بڑھی
تھی۔۔۔ کمرے کے دروازے پر ہاتھ رکھا تو وہ کھرلا نہ تھا جیسے کمرا لوک تھا۔۔ ایک
گہری سانس لے کر اس نے پھر سے گن نکالی تھی اور لوک کی طرف نشانہ لگایا تھا۔۔۔ وہ
فائر سے لوک توڑ چکی تھی۔۔۔
جیسے ہی
دروازہ کھولا وہ سامنے کا منظر دیکھ کر فوراً نظریں جھکا گئی تھی۔۔۔۔ ایک لڑکی
بستر پر نیم بے ہوشی میں پڑی تھی ۔ اس کے چہرے پر تھپڑوں کے نشان صاف نظر آ رہے
تھے اور زخم بھی صاف دیکھ رہے تھے ۔۔ منہ سے خون نکل رہا تھا۔۔ اس کی بازؤں پر بھی
جگہ جگہ نیل کے نشان تھے۔۔۔ جبکہ ایک نوجوان جو تقریباً اونتس سال کا لگتا تھا ایک
طرف منہ میں سیگریٹ دبائے سر کو صوفے کی پشت سے ٹیکائے آنکھیں موندے بیٹھا تھا۔۔۔
یہ سارا منظر دیکھ کر جزا کا خون کھول چکا تھا۔۔ وہ فوراً کمرے میں داخل ہوئی
تھی۔۔ اس کو لگا تھا یہ کمرا صفدر ہاشمی کا ہے مگر یہ کمرا اس کے بیٹے فیروز کا
تھا۔۔۔
جزا نے
ہاتھ میں پکڑی تلواریں ایک طرف رکھی تھی۔
اور آگے بڑھ کر فیروز کو اس کے بالوں سے پکڑا تھا اور اس کا منہ سامںے پڑی کانچ کی
میز پر مارا تھا۔۔۔ فیروز اس اچانک وار سے
بوکھلا گیا تھا۔۔ اور کانچ کی میز پر منہ لگنے سے وہ میز ٹوٹی تھی اور کچھ
کانچ اس کے چہرے پر چب گیا تھا۔۔ درد کی ایک شدید لہر اس کے وجود میں دوڑی تھی۔۔۔ جزا
نے ایسے ہی اس کو بالوں سے پکڑ رکھا تھا۔۔ اب دوسری میز پر پڑی شراب کی بوتل اٹھا
کر اس نے فیروز کے منہ پر ماری تھی۔۔۔ وہ درد سے بلبلا اٹھا تھا۔۔ اس کے چہرے سے
خون نکل رہا تھا۔۔۔۔
کو۔۔کون
ہو تم۔۔۔۔ فیروز نے اس کی طرف سر اٹھا کر دیکھا تھا۔۔ اس کو ایک لمحے کے لیے لگا
تھا جیسے وہ بیسٹ کے ہاتھ لگ گیا ہو۔۔ فیروز اگلا سانس لینا بھول گیا تھا۔۔۔ جبکہ
جزا خاموشی سے قہر برساتی نظروں سے اس کو
دیکھ رہی تھی۔۔۔
بی۔۔۔۔بیسٹ۔۔۔۔۔
فیروز بامشکل بول پایا تھا۔۔۔۔
بیسٹ
نہیں الپائن ۔۔۔۔ جزا نے یہ کہتے ساتھ فیروز کو بالوں سے کھینچتے زمین پر گھیسٹا
تھا جہاں کانچ ٹوٹ کر گرا ہوا تھا۔۔۔ اس کا بغیر قمیض کے سینا کانچ کے اوپر گرا
تھا۔۔۔
آہ
ہہہہہ۔۔۔۔ ایک درد کی لہر اس کے جیسم میں اٹھی تھی۔۔۔ جبکہ جزا اس کو بے درددی سے اس
کانچ پر گھیسٹ رہی تھی۔۔۔ فیروز کا سارا جسم لہو لہان ہو چکا تھا۔۔۔۔
بہت شوق
ہے نہ تمہیں لڑکیوں کی عزت لوٹنے کا؟؟؟ جزا نے اس کا منہ بالوں سے کھینچ کر اوپر
کیا تھا۔۔۔۔ فیروز رحم طلب نظروں سے اس کو دیکھ رہا تھا۔۔۔
مج۔۔۔مجھے۔۔۔معا۔۔معاف
کر ۔ فیروز نے کچھ بولنا چاہا تھا۔۔۔
معافی لفظ
بھی نہ لینا ۔۔۔ جزا نے اس کی ناک پر مکا مارا تھا۔۔۔۔ خون کی ایک لہر فیروز کی ناک سے نکلی تھی۔۔۔ فیروز کی ناک کی ہڈی ٹوٹ
چکی تھی۔۔۔
جزا اس
کا منہ زور سے زمین پر مارتی اٹھی تھی۔۔۔ فیروز نے اٹھنے کی کوشش کی مگر نہ اٹھ
سکا کیونکہ اس کے سینا اور گھٹنے بری طرح سے زخمی ہوئے پڑے تھے۔۔۔۔
جزا چلتے
چلتے اس جگہ آئی تھی جہاں اس نے تلواریں رکھی تھی۔۔۔ وہ ایک تلوار اٹھا چکی تھی اور چلتے ہوئے فیروز کے پاس آئی
تھی۔۔۔ وہ جو بامشکل سیدھا ہوا تھا۔۔ جزا کے ہاتھ میں خون سے بھری تلوار کو دیکھ
کر بری طرح کانپ گیا تھا۔۔۔ فیروز کی آنکھیں خوف سے پھیل گئی تھی ۔۔
می۔۔میں
۔۔ بو۔۔ بول ۔۔رہ۔۔۔ رہا ہوں۔۔می۔۔میرے ۔۔پ۔۔پاس۔۔ مت ۔۔ آنا ۔۔۔ گارڈز ۔۔۔
گارڈز۔۔۔ فیروز خود کو پیچھے کرتا بدل آواز میں چیلاتا ہوا بولا تھا۔۔ اس سے لفظ
مشکل سے ادا ہو رہے تھے۔۔۔۔
جتنا چیخ
سکتے ہو چیخو۔۔۔ کوئی مدد کو نہیں آئے گا تمہاری ۔۔۔۔ جزا اس کو دیکھتی بےرحمی سے
بولی تھی۔۔۔ اور آگے بڑھ کر اس نے فیروز کے بالوں کو ایک ہاتھ سے پڑا تھا ۔۔۔
صفدر
ہاشمی کدھر ہے؟؟؟ جزا غصے سے ایک ایک لفظ چبا کر بولی تھی۔۔۔
مج۔۔مجھے۔۔۔
فیروز کچھ بولنے لگا تھا۔۔۔
جھوٹ
بولا تو یہ تمہاری حلق میں یہ اتار دوں گئی ۔۔۔ جزا نے اس کے بالوں کو مزید مضبوطی
سے پکڑ کر جھنجھوڑ ڈالا تھا۔۔۔
وہ اپنے
کمرے میں ہے۔۔۔ میرے کمرے سے رائیٹ سائیڈ پر پانچ کمرے چھوڑ کر۔۔۔ فیروز فوراً سے
بولا تھا ۔۔۔ جزا نے اپنی جگہ سے اٹھی
تھی۔۔۔ فیروز نے اپنا روکا ہوا سانس بحال کیا تھا اس کو لگا تھا جزا نے اس کی جان
بخشی کر دی تھی۔۔۔۔
جزا
فوراً موڑی تھی اور اس لڑکی کے پاس گئی
تھی ۔ جزا نے ہاتھ بڑھا کر اس لڑکی کی نبض چیک کی تھی جو بہت مدہم تھی۔۔ جزا کا دل
ڈوب کر ابھرا تھا۔۔۔ اس نے فوراً سے اس کے منہ پر پانی کی چھینٹیں ماری تھی۔۔۔ مگر
اس لڑکی کی پلکوں میں اور وجود میں کوئی لرزش نہ آئی تھی ۔۔ جزا نے ٹھنڈے ہوتے
ہاتھوں سے اس کی نبض کو دوبارہ دیکھا تھا۔۔۔ ایک انسوں جزا کی آنکھوں سے گرا تھا۔۔
اور اس کے ساتھ ہی اس لڑکی کا بازو بھی جزا کے ہاتھ سے گرا تھا ۔۔۔ جزا کے ہاتھ سے
زیادہ اس لڑکی کا وجود سرد تھا۔۔ اس کی روح پرواز کر گئی تھی وہ خود پر ہوا ظلم
برداشت نہ کر سکی تھی۔۔۔ جزا نے اپنی آنکھیں بینچ لی تھی ۔۔ اس کو سویرا کا خون میں
لت پت وجود یاد آیا تھا ۔۔ جزا نے فوراً آنکھیں کھولی تھی اس کی شہد رنگ آنکھیں
سرخ ہو چکی تھی جیسے اس کی آنکھوں میں خون بھر آیا ہو۔۔۔
جزا
فوراً سے فیروز کے پاس گئی تھی جو رنگ رنگ کر دروازے کی طرف بڑھنے کی کوشش کر رہا
تھا ۔جزا فوراً آگے بڑھی تھی اور اس نے
فیروز کی ٹانگ اپنے ہاتھ میں لی تھی اور بے دردی سے اس کی ٹانگ کو موڑا تھا ہڈی
ٹوٹنے کی آواز فیروز کی چیخ میں دب سی گئی تھی۔۔۔ جزا نے کو اسی ٹانگ سے کھینچ کر
ٹیبل پر مارا تھا۔۔۔
م۔۔
مج۔۔مجھے۔۔۔ چ۔۔چھوڑ۔۔ دو۔۔ فیروز کی درد سے بھری ہوئی آواز جزا کی سماعت سے ٹکرائی
تھی۔۔
چھوڑ
دیتی ہوں۔۔۔جزا نے ایک نظر پورے کمرے میں دوڑائی تھی اور اس کو کمرے میں ایک مینی
بار نظر آ گیا تھا وہ فورآ سے اس کی طرف ںڑھتی بولی تھی۔
اس سے
جتنی شراب کی بوتلیں اٹھائی جا سکتی تھی ایک بار میں اٹھا چکی تھی۔۔۔ وہ ایک کے
بعد ایک بوتل فیروز کے وجود پر پوری قوت سے مار رہی تھی۔۔۔ فیروز کے جسم پر جگہ جگہ کانچ چب چکا تھا اس کے
جسم سے خون رس رہا تھا۔۔ اور کمرا اس کی چیخوں سے گونج اٹھا تھا۔۔ جزا کچھ دور جا
کر فیروز کے خون سے اور شراب سے تر وجود
کو قہر برساتی نظروں سے دیکھ رہی تھی۔۔ پھر اپنی جیب سے ایک لائٹر نکال کر اس کو
جلا کر فیروز کو دیکھ رہی تھی۔۔۔
نہیں
ایسا۔۔۔ مت ۔۔ کرنا۔۔ فیروز درد کی شدت برداشت کرتا بولا تھا۔۔۔
وہ معصوم
تمہاری وجہ سے مر گئی ہے ۔۔ تمہیں میں زندہ چھوڑ دوں ۔۔ اس کے ساتھ ناانصافی ہے۔۔۔
جزا سخت نظروں سے بولتی زمین پر بیٹھی تھی۔۔۔
اس نے
لائیڑ جلا کر زمین پر شراب کے نزدیک کیا تھا ۔۔شراب نے آگ کو فوراً اپنی لپیٹ میں
لیا تھا۔۔۔وہ آگ اتنی تیزی سے پھیلی تھی
کہ فیروز کا وجود اس آگ کی لیپٹ میں آگیا تھا۔۔ وہ جلین سے تڑپ رہا تھا چیلا رہا
تھا۔۔۔۔
جزا اس
کو جلتا دیکھ رہی تھی اس کی چیخیں اس کی روح کو سکون دینے لگی تھی۔۔۔ پھر ہاتھ میں
تلوار لے کر وہ کچھ آگے بڑھی تھی۔۔ فیروز کی ٹانگیں اور ہاتھ آگ کی لپیٹ میں آ گئے
تھے ۔۔ جزا نے فوراً وار اس کے سر پر کیا تھا اس کی آواز گونجنا بند ہوئی تھی اور
اس کا سر دروازے کے پاس جا کر گرا تھا۔۔۔ ایک نظر فیروز کے جلتے وجود کو دیکھ کر
وہ دروازے کی طرف بڑھی تھی اور اس کا سر بالوں سے پکڑ کر کمرے سے باہر نکل گئی
تھی۔۔۔
اب اس کے
ایک ہاتھ میں تلوار تھی اور ایک ہاتھ میں فیروز کا سر تھا۔۔۔۔ اس کا روخ صفدر
ہاشمی کے کمرے کی طرف تھا۔۔۔۔ جب اس کو اپنے پیچھے کیسی کی آہٹ محسوس ہوئی تھی ۔۔
اس نے موڑ کر دیکھا تھا کچھ گارڈز اس کے پیچھے کھڑے تھے وہ گارڈز بھاگتے ہوئے آئے تھے جیسے فیروز کی آواز ان تک
پہنچی ہو۔ انہوں نے اس کے ہاتھ میں فیروز کا سر دیکھا تو ایک بار ڈری ہوئی نظر سے
سامنے کھڑی لڑکی کو دیکھا تھا۔۔ جو اس وقت ایک بے رحم شیرنی بن چکی تھی جس کی
آنکھوں میں صرف اور صرف خون تھا جو کوئی بھی اس کے راستے میں آ رہا تھا وہ اس کے
قہر کا نشانہ بن رہا تھا اور مخالف کا خون اس کی تلوار کی پیاس بجھا رہا تھا۔۔۔۔۔۔
ان سب کو
اپنے سامنے دیکھ کر ماسک کے پیچھے چھپے ہونٹ ہلکا سا مسکرائے تھے۔۔۔۔ اور جزا نے
ایک قدم آگے کی طرف بڑھایا تھا۔۔۔ فیروز کا سر وہ
پاس پڑے ایک وال ٹیبل پر رکھ چکی تھی تھی۔۔
اس کے
قدم آگے بڑھانے سے ان آدمیوں نے قدم پیچھے کی طرف اُٹھائے تھے۔۔ جزا کی خاموشی ان
کو کیسی طور ہضم نے ہو رہی تھی۔۔۔۔ اس خاموشی کو جزا کی تلوار کے وار نے توڑا
تھا۔۔ جب اس نے آگے بڑھ کر آگے کھڑے دو گارڈز کے سر ایک ہی وار میں کاٹ گرائے
تھے۔۔۔ پیچھے کھڑے گارڈز ایک لمحے کے لیے کانپ اٹھے تھے ۔ کیونکہ اب تک وہ لوگ صرف
گن کی گولیوں کا سامنا کر چکے تھے تلوار کا سامنا کرںا ان کے لیے نیا تھا۔۔ جبکہ
سامنے کھڑی لڑکی تلوار کو ایسے استعمال کر رہی تھی جیسے شروع سے ہی اس کے ساتھ۔
کھیلتی آئی ہو۔۔۔
جزا نے
فوراً دوسرے ہاتھ سے اپنے گن نکالی تھی جو پہلے ہی لوڈ تھی۔۔۔۔ ایسی دروان ایک
گارڈ نے گن چلائی تھی گولی جزا کے بازو میں لگی تھی۔۔ ایک ہلکی سی سسکی اس کے
ہونٹوں سے نکلی تھی ۔۔ اس نے فورآ گولی چلانے والے کا نشانہ لیا تھا اور اگلے ہی
لمحے وہ اس کو گولیوں سے بھون چکی تھی ۔۔ باقی گارڈز اپنی جان بچا کر بھاگنے لگے
تھے جب پیچھے دو گارڈز اچانک زمین بوس ہوئے تھے۔۔۔ اور ساتھ ہی گل اور جزا کی نظر
ایک دوسرے سے ٹکرائیں تھی۔۔۔ گل دونوں ہاتھ میں گن پکڑے کھڑی تھی اور جزا ایک ہاتھ
میں گن اور ایک ہاتھ میں تلوار پکڑے کھڑی تھی۔۔۔
الپائن
تم جاو یہاں سے صفدر ہاشمی کے کمرے میں ان کو میں دیکھ لوں گئی ۔۔۔۔ گل اس کو
دیکھتے بولی تھی۔۔۔
اس کی
بات سن کر جزا فوراً موڑی تھی۔۔ جب کچھ گارڈز اس کے پیچھے بھاگے تھے۔۔۔ ایک نے اس
کی بازو کو اپنے قابو میں کیا تھا۔۔۔ جزا نے فوراً اس کے پیٹ میں کہنی مار کر اس کی
گرفت سے خود کو آزاد کیا تھا اور ساتھ ہی اس کے سر کی طرف گن کی نوک کی تھی اور
شوٹ کر دیا تھا۔۔۔ اور جو دو گارڈز اور اس کے پیچھے تھے ان کو شوٹ کر کے فیروز کا
سر دوبارہ سے پکڑ کر صفدر ہاشمی کے کمرے
کی طرف بڑھی تھی۔۔ وہ اپنی بازو میں اٹھتی درد کو نظر انداز کر چکی تھی جبکہ خون
اس سے ابھی تک بہہ رہا تھا۔ جبکہ پیچھے گل
باقی گارڈز کو خاک چٹا رہی تھی۔۔۔
ایک گارڈ
نے اس کو گردن سے پکڑ رکھا تھا گن گل کے ہاتھوں سے گر چکی تھی۔۔۔۔ گل بمشکل ہاتھ
بڑھا کر پاس پڑے ڈیکور پیس کو پکڑ چکی تھی۔۔ اور اگلے ہی لمحے اس نے وہ اس گارڈ کے
سر میں مارا تھا۔۔ وہ اس اچانک وار سے پیچھے ہوا تھا اور اس کی گرفت بھی گل پر سے
ہٹ چکی تھی۔۔ گل نے آگے بڑھ کر ایک ٹانگ اس کے سینے میں ماری تھی اور رہداری میں
لگی ریلنگ سے جا لگا تھا۔۔ گل نے آگے بڑھ کر اس کو مزید پیچھے کی طرف دھیلا اور
اپنی دوسری گن نکال کر اس کے سر پر شوٹ کیا تھا۔۔۔ اس کے سر سے خون ابل ابل
کر باہر نکل رہا تھا۔۔ اس کو ایسے ہی نیچے
پھینکتے وہ موڑی تھی۔۔۔
جزا جو
صفدر ہاشمی کے کمرے کے نزدیک کھڑی تھی جہاں اس وقت تین گارڈ مجودہ تھے۔۔۔ اس
نے اپنے چہرے پر ماسک ٹھیک کیا تھا۔۔۔ اور
اپنی جیکٹ سے تین چار بہت چھوٹے سے گیند نکالے تھے اور وہ گیند اس نے رہداری میں
پھینکے تھے۔۔۔۔ ان گارڈز کی نظر ان پر گئی
تو وہ فوراً اپنی جگہ سے ہٹے تھے اور جس طرف سے گیند پھینکے گے تھے اس طرف بڑھنے
لگے تھے۔۔۔ جیسے ہی ایک گارڈ تھوڑا آگے بڑھا جزا نے اس کی جیکٹ سے اس کو اپنی طرف کھینچا اور
گن اس کے منہ میں ڈال کر فائر کیا تھا۔۔۔ دوسرا گارڈ فورآ آگے بڑھا تھا جزا نے اس کے سینے میں گولی ماری
تھی۔۔ جب تیسرا گارڈ اس طرف آیا جزا نے گن
چلانی تو اب کی بار اس کی گن خالی ہو چکی تھی۔۔۔ گارڈ اپنی چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ
سجائے جزا کو دیکھتا اپنی گن اس کے سر پر ٹیکا چکا تھا۔۔۔ جزا نے پھرتی
سے اس گن کو آگے سے پکڑا تھا اور دوسرے ہاتھ سے اس گارڈ کے بازو کو زور سے
جھٹکا دیا تھا۔۔۔ اب گارڈ کا بازو جزا کے ہاتھ میں تھا اور گن بھی جزا کے ہاتھ میں
تھی ۔۔۔ اس نے فوراً اس گارڈ کو آگے کی طرف کھینچا تھا اور اس کو دیوار پر مارا
تھا۔۔۔ اور ساتھ ہی اس نے گن کو اپنے ہاتھ میں ہی اتنی مہارت سے گھومایا تھا کہ اب
گن کی نوک اس گارڈ کی ظرف ہو چکی تھی جو پہلے جزا کے ہاتھ میں تھی ایک لمحے کی دیر
کیے بغیر اس نے گن چلا دی تھی۔۔ گولی گارڈ کے سر کی پیشت سے ہوتے سیدھا دیوار میں
لگی تھی اور وہ گارڈ زمین بوس ہوا تھا۔۔۔
جزا گن
ادھر ہی پیھنکتے اپنا ہاتھ جھاڑتے اور تلوار اور سر کو دوبارہ اپنے گرفت میں لیتی
کمرے کے سامنے جا کر کھڑی ہوئی تھی اور اس نے
دروازے کو تھوڑا سا پوش کیا تھا یہ دیکھنے کے لیے دروازہ کھولا ہے کہ نہیں
۔۔۔ مگر وہ دروازہ لوک تھا۔۔ اور اس
دروازے کو کھولنے کے لیے پین کی ضرورت تھی۔۔۔ کیونکہ دروازے کے ساتھ دیوار پر ایک
ڈیوائس لگی تھی۔۔۔ جزا نے فوراً اپنی جیب سے ایک چیپ نکالی تھی۔۔۔ اور اس نے وہ
چیپ اس ڈیوائس میں لگی یو اس بی پورٹ میں لگا دی تھی۔۔۔ جیسے ہی وہ چیپ اس میں لگی تھی جزا کی جیب میں
پڑا فون وائبریٹ ہوا تھا۔۔۔ اس فوراً اپنا
فون نکالا تھا۔۔ وہ ڈیوائس اس کے فون کے ساتھ کونیکٹ ہو گئی تھی اور صرف پانچ
سیکنڈ میں وہ اس ڈیوائس کی پہن توڑ چکی تھی اور صفدر ہاشمی کے کمرے کا دروازہ
کھولنے لگا تھا جزا نے پھرتی سے چیپ نکال کر اپنے فون کے ساتھ اپنی جیب میں ڈالی
تھی ۔۔۔
جیسے ہی
دروازہ کھولا تو اندر صفدر ہاشمی ایک لڑکی کو قابو کرنے کی کوشش کر رہا تھا جو اس
کی گرفت میں مچھلی کی طرح ترپ رہی تھی۔۔۔۔ دروازہ کھولتے ہی صفدر نے سر اٹھا کر
سامنے دیکھا تھا۔۔۔ اس کی آنکھیں ساکت ہو گئی تھی اس کی گرفت لڑکی پر کمزور پر گئی
تھی وہ لڑکی فورآ خود کو چھوڑا کر دروازے کے طرف بھاگی تھی جہاں جزا کھڑی تھی۔۔۔۔
مج۔۔مجھے۔۔۔
بچ۔۔۔ بچا۔۔ لو۔۔۔ وہ لڑکی ہاتھ جوڑتے روتے ہوئے بولی تھی ۔۔۔
نکلو
کمرے سے باہر۔۔۔ نیچھے جاؤ ۔۔۔ جزا اس کو
باہر بھیجتے اندر کمرے میں آئی تھے۔۔ جہاں صفدر ہاشمی بوت بنا کھڑا تھا اس کی نظر
اپنے بیٹے کے سر پر تھی جو جزا کے ہاتھ میں تھا جس کو وہ بالوں سے پکڑے کھڑی
تھی۔۔۔
کیا ہوا
صفدر ہاشمی۔۔۔ یقین نہیں آ رہا کیا؟؟؟۔ جزا طنزیہ انداز میں بولی تھی۔۔۔ جبکہ وہ
ایسے ہی بوت بنا کھڑا تھا۔۔۔۔
جزا نے
فیروز کا سر صفدر ہاشمی کے منہ پر مارا تھا۔۔۔ وہ ایک قدم پیچھے ہوا تھا۔۔ سر سے
نکلتا خون اس کے چہرے پر لگا تھا۔۔۔ اس نے گردن جھکا کر زمین پر گرے اپنے بیٹے کے
سر کو دیکھا تھا۔۔۔۔
یہ تم نے
اچھا نہیں کیا۔۔۔ میں تمہیں جان سے مار ڈالوں گا۔۔۔ صفدر ہاشمی غصے سے سامنے کھڑی
لڑکی کو دیکھتا بولا تھا۔۔۔
جان بچ
جائے تمہاری تو پھر شوق سے جان سے مارنا مجھے ۔۔۔ جزا ایک ایک قدم آگے بڑھاتے بولی
تھی۔۔۔
کس کے
لیے کام کرتی ہو تم۔۔ صفدر ہاشمی قہر برساتی نظروں سے اس کو دیکھتا بولا تھا۔۔۔۔
میں کیسی
کے لیے کام نہیں کرتی۔۔۔۔ جزا اس کے سامنے کھڑی ہوتی اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال
کر بولی تھی۔۔۔۔
کون ہو
تم۔۔۔ صفدر ہاشمی نے اس کو سخت نظروں سے دیکھتا بولا تھا اس کی آنکھوں میں سرخی
ڈور آئی تھی۔۔۔۔
وہ ہی
جیسے موت کہتے ہیں ۔۔۔۔ جزا نے اس کا گریبان پکڑ کر اس کو اتنی زورئ سے آگے کی
گھسیٹا تھا کہ وہ سیدھا جا کر اپنے عالیشان کمرے میں لگے پیلر سے ٹکرایا تھا اور
اس کا سر گھوم کر رہ گیا تھا۔۔۔
تم نے
میرے بیٹے کو مار ڈالا ۔۔۔ میں تمہیں چھوڑوں گا نہیں ۔۔۔ صفدر ہاشمی جزا کی طرف بڑھا تھا ۔۔۔
تمہیں
پتا ہے میں نے اس کو جلایا ہے صفدر ہاشمی ۔۔۔۔
جزا نے اس کے سینے پر ٹانگ ماری تھی ۔۔ صفدر ہاشمی نیچھے زمین پر گرا
تھا۔۔۔ اس کی آنکھوں سے ایک آنسوں اس کی گال پر گرا تھا۔۔ شاید بیٹے کا دکھ کہ
ساتھ سینے میں اٹھتی ٹھیس کی تکلیف بھی تھی۔۔۔
کیا ہوا
سن کر رونا آ رہا ہے۔۔ جزا نے اپنے بھاری شوز والا پاؤں اس کے سینے پر زور سے مارا تھا۔۔۔۔
کون ہو
تم کس نے بھیجا ہے تمہیں ادھر۔۔۔ صفدر ہاشمی تکلیف کو برداشت کرتا بولا تھا۔۔۔
الپائن ہوں
میں ۔۔۔۔ اور مجھے کیسی نے بھیجا نہیں میں خود آئی ہوں۔۔ کیونکہ معاملہ لڑکیوں کا
تھا ادھر بیسٹ نہیں الپائن ہونی چاہیے ۔۔۔ جزا نے ایک زور کی ٹھوکر دوبارہ اس کو ماری تھی ۔۔۔
بیسٹ
۔۔۔۔ اس ۔۔۔کو ۔۔۔ کی۔۔۔ کیسے ۔۔۔جا۔۔جانتی ہو۔۔۔ صفدر ہاشمی کہراتا ہوا بولا
تھا۔۔۔۔
اس بات
سے تمہیں مطلب نہیں ہونا چاہیے میں اس کو جیسے بھی جانتی ہوں مگر آج تمہاری موت بن
کر میں آئی ہوں۔۔۔۔۔ جزا نے اس کی گردن پر پاؤں رکھا تھا۔۔۔۔۔
مجھ۔۔۔مجھے
۔۔۔ معا۔۔ معاف کر دو۔۔۔ صفدر ہاشمی بامشکل بول پایا تھا۔۔۔
جتنی
آسانی سے تم معصوم لڑکیوں کی عزت لوٹتے ہو نہ اتنی ہی بے رحم موت میں تمہیں دوں گی
۔۔۔ تمہیں لگتا ہے نہ لڑکیوں کی عورتوں کی
عزت لوٹ لینا بہت آسان ہے کیونکہ وہ کمزور ہوتی ہیں ۔۔۔ آج تمہاری موت ہی ایک لڑکی
کے ہاتھوں ہو گئی۔۔۔ جزا نے اس کے ہاتھ پر
اپنے بھاری شوز والا پاؤں رکھا تھا ۔۔۔ صفدر ہاشمی کی فلک شگاف چیخ کمرے میں گونجی
تھی۔۔۔
جزا نے
اب کی بار پاؤں اس کے سینے پر بہت زور سے مارا تھا۔۔ اس کے منہ سے خون باہر نکالا
تھا۔۔۔ جزا نے اس کو گریبان سے پکڑ کر کھڑا کیا تھا۔۔۔۔ اور اس کا سر دیوار میں پوری
شدت سے مارا تھا۔۔۔۔ صفدر ہاشمی کا سر چکرا کر رہ گیا تھا۔۔۔
صفدر
ہاشمی خود میں کچھ ہمت پیدا کر کے جزا کی طرف موڑا تھا۔۔ اس نے جزا کو گردن سے
پکڑنے کی کوشش کی تھی جب جزا نے اس کے بڑھے ہاتھ کو ادھر ہی روکا تھا۔۔ اور اس کی
بازو کو مخالف سمت میں گھومایا تھا۔۔ اگلے ہی لمحے کمرے میں ہڈی ٹوٹنے کے ساتھ
صفدر ہاشمی کی چیخ بھی گونجی تھی ۔۔۔۔ ابھی اس کی بازؤں کی درد اس کو بھولی نہ تھی
کہ جزا نے اس کی ٹانگ پر وار کیا تھا وہ لڑکھڑا کر زمین پر گرا تھا اور اس کی ٹانگ
کی ہڈی بھی ٹوٹ چکی تھی۔۔۔
جزا نے
اس کی ٹانگ سے پکڑ کر اس کو گھیسٹا تھا اور اس کو اس جگہ لی کر آئی تھی جہاں اس کے
بیٹے کا کاٹا ہوا سر پڑا تھا ۔ وہ اس وقت مکمل بےحس ہو چکی تھی صفدر ہاشمی کی
چیخیں فریادیں اس پر کوئی اثر نہ کر رہی تھی۔۔۔۔
دیکھو اس
کو صفدر ہاشمی ۔۔۔تمہارے بیٹے کا سر ہے یہ۔۔۔ جزا نےاس کے سر پر اپنا پاؤں رکھا
تھا۔۔ آنسوں صفدر ہاشمی کی آنکھوں سے بہہ رہے تھے ۔۔
تکلیف ہو
رہی ہے نہ۔۔۔ اس سے زیادہ تکلیف ان ماں باپ کو ہوئی ہو گی ۔۔ جن کی عزتوں کو تم
پامال کر چکے ہو اپنے پاؤں تلے روند چکے ہو۔۔۔ جزا نے اپنے پاؤں پر مزید دباؤ ڈالا
تھا۔۔۔
مج۔۔
مجھ۔۔۔ مجھ سے غل۔۔غلطی۔۔ ہ۔۔ہو ۔۔ گئی۔۔۔۔ صفدر ہاشمی بامشکل بول پایا تھا۔۔۔
غلطی
۔۔۔۔ تم نے جو کیا ہے وہ غلطی نہیں گناہ ہے صفدر ہاشمی ۔۔۔ اور موت تمہارا مقدر ہے
اب۔۔۔ جزا نے ایک باریک نوک والا تیز دھار چھوٹا سا چاقو نکلا تھا ۔ اور اس کو صفدر
ہاشمی کے گل پر رینگنے لگی تھی ۔۔ جیسے جیسے وہ چاقو اس کی گال پر چل رہا تھا ویسے
ویسے اس کے چیخنے کی شدت میں اضافہ ہو
جاتا تھا۔۔۔۔
جزا نے
وہ چاقو ایک لمحے کے لیے روکا تھا۔۔۔ اور اگلے ہی لمحے وہ چاقو صفدر ہاشمی کے سینے
پر چلا تھا۔۔۔۔ اس کی باریک تیز دھار اس کی جلد کو جدا کر رہی تھی۔۔۔۔ وہ درد کی شدت سے تڑپ رہا
تھا ۔۔
جزا اپنی
جگہ سے اٹھا تھی اور اب اس نے اس کے زخمی سینے پر زور سے پاؤں رکھا تھا ۔ خون صفدر
ہاشمی کے منہ سے نکلا تھا ۔۔ وہ جو بےہوش
ہو رہا تھا درد کی شدت سے پھر ہوش میں آیا تھا۔۔ اس نے ایک نظر اس بے رحم لڑکی پر
ڈالی تھی جو اس وقت کیسی جلاد سے کم نہ تھی۔۔ جب اس کی نظر جزا کے ہاتھ میں پکڑی تلوار
پر گئی اس کی روح تک کانپ اٹھی تھی ۔۔
نہ۔۔۔نہ۔۔
نہیں ۔۔۔ صفدر ہاشمی بامشکل بول پایا تھا اس نے ہاتھ جوڑنے چاہے مگر اس کا ایک
بازو ٹوٹا ہوا تھا ۔۔ ایک ٹانگ ٹوٹی ہونے کی وجہ س وہ اپنی جگہ سے حل بھی نہ پایا رہا
تھا۔۔۔
وقت ختم
ہو گیا تمہارا صفدر ہاشمی ۔۔ اپنے گناہ یاد کر لو۔۔۔ جزا نے یہ کہتے ساتھ ہی تلوار
اپنے دونوں ہاتھوں میں لی تھی اور ہوا میں بلند کی اور جیسے ہی اس نے تلوار سے وار
کیا صفدر ہاشمی کا سر تن سے جدا ہوا تھا۔۔۔۔
سفید سنگ مرمر کا فرش خون سے سرخ ہو چکا تھا۔۔ ایک طرف صفدر ہاشمی کا سر
تھا اور ایک طرف فیروز کا سر۔۔۔
جزا نے
بیڈ شیٹ اتاری تھی اور اس کا ایک کونا صفدر ہاشمی کے پاؤں کے ساتھ باندھا تھا اور
اس کو گھیسٹتے بالکہنی میں لے گئی اور وہاں لگی ریلنگ سے دوسرا کونا باندھا تھا
اور صفدر ہاشمی کے بغیر سر کے وجود کو اس نے بالکہنی سے باہر کی طرف لٹکا دیا
تھا۔۔۔
صفدر
ہاشمی کے کمرے کی بالکہنی بیک سائیڈ کی طرف تھی تبھی لیو یہ منظر صاف دیکھ سکتا
تھا اور ایک لمحے کے لیے اس کے اپنے ہاتھ ٹھنڈے پر گئے تھے۔۔۔ گل جو سب لڑکیوں کو
ایک گاڑی میں سوار کروا چکی تھی اور جزا کی مدد کے لیے اندر آ رہی تھی۔۔ سامنے
لٹکی صفدر ہاشمی کی بغیر سر کے لاش دیکھ کر ادھر ہی روک گئی تھی۔۔۔۔
بیسٹی
۔۔۔۔ گل کے منہ سے بے ساختہ یہ الفاظ نکلے
تھی۔۔۔ جبکہ بالکہنی میں وہ ہاتھ میں تلوار لے کر کھڑی بلیک پینٹ شرٹ پر بلیک لونگ
کوٹ پینے بلیک ماسک لگائے اور بلیک کیپ پہنے روم کی ایک نہ ڈر شہزادی لگ رہی تھی
جو آج صحیح معنوں میں انتقام کے لیے تیار
کھڑی تھی۔۔۔
انڈر
ورلڈ کی دنیا میں وہ واحد ایسی لڑکی تھی۔۔ جس نے تلوار کی دھار پر دشمنوں کو مارا
تھا۔۔۔۔۔
جزا کے
ایک ہاتھ میں بلیک کلر کا بیگ تھا اور دوسرے ہاتھ میں تلوار تھی اور وہ اندر سے
نکل آئی تھی اب اس کا روخ بیک ڈور کی طرف تھا جہاں لیو اور گل اس کا انتظار کر رہے
تھے۔۔۔۔
urudnovelnests••••••••••••
ٹیبل پر
کچھ زور سے گرنے کی آواز پر بیسمنٹ میں پھیلی خاموشی میں خلل پڑا تھا۔۔ وہ جو ابھی
تک آنکھیں موندے اپنی کرسی پر بیٹھا تھا اس آواز سے شدید بد مزہ ہوا تھا۔۔۔۔
کیا ہوا
ہے ولف۔۔۔۔ وہ ایسے ہی آنکھیں موندے بولا تھا۔۔۔۔
تم نے
کیا بنا دیا ہے اس لڑکی کو۔۔ ولف چیخ اٹھا تھا۔۔۔ بیسٹ کی کائی جمی سبز آنکھیں
ہلکا سا مسکرائی تھی۔۔۔
کیا بنا دیا
ہے میں نے اس کو؟؟ بیسٹ نے ایک آئی برو اٹھا کر سوالیہ نظروں سے دیکھا تھا ولف
کو۔۔۔
تمہیں اندازہ
بھی ہے وہ ادھر کیا کہرام مچا کر آ رہی ہے۔۔۔ ولف سخت نظروں سے بیسٹ کو دیکھ کر
بولا تھا۔۔۔
اپنے
الفاظ درست کرو ولف۔۔۔ وہ کہرام نہیں وہ قیامت برپا کر کے آ رہی ہے ۔۔۔ اس کے
سامنے انڈر ورلڈ کا کوئی گینگسٹر نہیں ٹک سکتا۔۔۔ بیسٹ سیدھا ہو کر بیٹھا تھا۔۔۔
تم نے
کیوں کیا ہے ایسا بیسٹ ۔۔۔ وہ معصوم تھی۔۔ اتنی بےرحم نہیں بننا تھا اس کو۔۔۔ ولف
اس کے سامنے کرسی خینچ کر بیٹھا تھا ۔۔
یاد کرو
ولف میں نے بولا تھا لوگ اس کو میری
کمزروی سمجھیں گئے مگر میرا اصل ہتھیار یہ ہو گی ۔۔۔ تو کیا میں اپنا ہتھیار کمزور
رکھو گا۔۔۔ بیسٹ نے ولف کی آنکھوں میں
آنکھیں ڈال کر دیکھا تھا۔۔
مگر بیسٹ
۔۔۔۔ ولف نے کچھ بولنا چاہا تھا۔۔۔
ولف یہ
فیصلہ اس کا تھا۔۔۔ اس کو ہر ہو چیز سیکھنی تھی جو میں جانتا تھا۔۔۔ میں اس کو سب کچھ
سیکھا چکا ہوں۔۔ اگر کوئی یہ کہہ دے کہ وہ بیسٹ کا دوسرا روپ ہے تو یقین کرو میں
حیران نہ ہوں گا۔۔ کیونکہ وہ اپنے ہر انداز سے میری ہونے کی میرے وجود کے ہونے کی
گواہی دے رہی ہے۔۔۔ بیسٹ کی آنکھوں میں ایک الگ سی چمک تھی۔۔۔
ایک بات
بولوں ۔۔۔ وہ تم سے زیادہ بے رحم ثابت ہو گی۔۔۔ ولف نے سخت نظروں سے اس کو دیکھا تھا۔۔۔
مجھ سے
بہتر کون جانتا ہے وہ کتنی ظالم ہے اور
کتنی نہیں۔۔ بیسٹ نے ایک آنکھ ونک کی تھی ۔۔۔
یہ تم کب
سے عاشق مزاج ہو گے ۔۔ بیسٹ کی بات سن کر ولف چیخ اٹھا تھا۔۔۔
جب سے ان
کی نظروں کے غلام ہو گئے ۔۔۔ بیسٹ بہت
مدہم آواز میں بولا تھا۔۔ مگر ولف کے باریک کان سن چکے تھے۔۔۔ تبھی اس نے نظریں
اٹھا کر بیسٹ کو دیکھا تھا۔۔۔ جو اب ایک الگ انداز میں چمکتی تھی۔۔ یا یہ کہا جائے
کہ ان آنکھوں میں اب کوئی شہد رنگ آنکھوں والی بستی تھی تو بہتر ہو گا۔۔
ولف اپنی
کرسی کی پشت سے سر ٹیکا چکا تھا۔۔۔ جبکہ بیسٹ اب اٹھ کر بیسمنٹ میں رکھے چیس میٹ
کے پاس گیا تھا۔۔۔ ولف اس کی ساری کاروائی
خانوشی سے دیکھ رہا تھا۔۔۔
تمہیں
پتا ہے ولف شطرنج کا ایک اصول ہے بادشاہ کبھی بھی سیدھا میدان میں نہیں آتا ۔۔۔
جبکہ رانی بادشاہ سے آگے رہتی ہے اور اس کو پروٹیکٹ کرتی ہے ۔۔۔ بلکل ایسے ہی میری رانی بھی آگے رہے گئی۔۔۔ مگر اس کو بیک
اینڈ پروٹیکشن میں دوں گا۔۔۔ بیسٹ کوئین کو اپنے ہاتھ میں لے کر غور سے دیکھتا
بولا تھا ۔۔۔
اور اگر
اس سب میں اس کو کوئی نقصان ہوا تو ؟؟ ولف کرسی پر تھوڑا آگے کی طرف جھک کر بیٹھا
تھا اس کے دونوں بازوں اس کے گھوٹنے پر تھے اور ہاتھ ایک دوسرے میں پیوست تھے۔۔۔
وہ بیسٹ کو غور سے دیکھتا بولا تھا۔۔۔
اس کو ذرہ
برابربھی خروچ آئی میں سارا انڈر ورلڈ صفحہ ہستی سے مٹا ڈالوں گا۔۔۔ بیسٹ ایک
سیفد رانی کی جگہ سیاہ رانی رکھتا بولا تھا۔۔ اور اس وقت شطرنج کے میٹ پر
صرف ایک ہی کوئین موجود تھی۔۔۔
urudnovelnests•••••••••••••••
ایک
پرائیویٹ جیٹ کچھ وقت پہلے پاکستان کی سرحد پار کر کے اسلام آباد میں لینڈ کر چکا
تھا۔۔۔
ایک
ادھیڑ عمر آدمی تھری پیس سوٹ پہنے اس پلین سے نیچے اترا تھا اور اس کے پیچھے ہی
ایک نوجوان بھی اترا تھا جس کا گریبان ہمیشہ کی طرح آج بھی کھولا تھا۔۔۔ آنکھوں پر
سن گلاسز لگائے گلے میں سونے کی تین چار چین ڈالے بکھرے بالوں اور بےزار سی شکل بنائے صارم کیبر اس وقت کیبر خاور کے
پیچھے چل رہا تھا۔۔ اس کا کوٹ اس کی بازو پر تھہ لگا ہوا تھا۔۔۔ کیبر خاور ابھی کچھ آگے بڑھا ہی تھا جب اس کو
سامنے سے عثمان صاحب ، اکرم صاحب ، اور عمران صاحب آتے دیکھائے دیے تھے۔۔۔
ویلکم
بیک کنگ۔۔۔ اکرم صاحب نے سب سے پہلے کنگ کے پاس پہنچ کر کہا تھا۔۔۔۔
سلیم
آفندی نہیں آیا ؟؟ کنگ اپنی آنکھوں سے سن
گلاسز اتارتے بولا تھا۔۔ جبکہ اس کی بات پر اکرم صاحب کی مسکراہٹ سمٹ گئی تھی۔۔۔
جواب
دو؟؟ مجھے لگا تھا میں اتنے وقت بعد لوٹ
رہا ہیوں وہ مجھے لینے آئے گا ۔۔۔ کدھر ہے وہ؟ کنگ کچھ غصے سے بولا تھا۔۔۔
کنگ سب
کچھ بتا دیتے ہیں پہلے چلو۔۔۔ عثمان صاحب آگے بڑھ کر بولا تھے۔۔
کیبر
خاور نے ایک سخت نظر ان سب پر ڈالی تھی اور آگے کی طرف بڑھ گئے تھے۔۔۔ جبکہ صارم
بےزار سا ساتھ چل رہا تھا جیسے اس کو زبردستی پاکستان لایا گیا ہو اور یہاں ہونے
والی گفتگو سے اس کا کوئی لینا دینا نہیں۔۔۔
کچھ دیر
کی ڈرائیو کے بعد وہ سب اس وقت سفید حویلی میں موجود تھے۔۔۔ کیبر خاور غصے سے اکرم صاحب ،
عثمان صاحب اور عمران صاحب کو دیکھ رہا تھا۔۔۔
میں تم
لوگوں سے آخری بار پوچھ رہا ہوں مجھے بتاؤ سلیم آفندی کدھر ہے ایک عرصہ ہو گیا ہے
اس آدمی سے میرا کوئی کونٹیکیٹ نہیں ہوا اس کو زمین کھا گئی ہے یا آسان نگل گیا
۔۔۔کیبر خاور کی سرخ ہوتی آنکھیں اس وقت سامنے کھڑے تینوں آدمیوں پر مرکوز تھی۔۔۔
تین سال
ہونے والے ہیں سلیم آفندی کو مرے۔۔ اکرم صاحب ہمت کر کے بولے تھے۔۔۔ جبکہ ان کی
بات سن کر کیبر خاور کے ہاتھ سے شراب کا گلاس گرا تھا۔۔۔ وہ ساکت نظروں سے ان کو
دیکھ رہا تھا۔۔۔
کیا
بکواس ہے یہ۔۔۔ کیبر خاور اپنی جگہ سے اٹھا تھا اور سخت غصے سے اکرم صاحب کی طرف
بڑھا تھا۔۔۔
سچ ہے یہ
کنگ ۔۔۔ اکرم صاحب اپنے سامنے کھڑے کیبر خاور کو دیکھ کر بولے تھے۔۔۔
میں نہیں
مانتا بکواس کرتے ہو تم لوگ۔۔ بک رہے ہو تم لوگ۔۔۔ کنگ غصے سے بے قابو ہوتا بولا
تھا۔۔
کنگ کوئی
اپنے بھائی کی موت کا جھوٹ کیوں بولے گا۔۔ میں نے خود سلیم کی لاش کو دفن کیا
تھا۔۔۔ آپ سے رابطے کی کوشش بھی کی مگر سب رابطے سلیم کے ساتھ ہی ختم ہو گئے
تھے۔۔۔ اکرم صاحب تھوک نگلتے بولے تھے۔۔
کس
نےمارا ہے اس کو؟ کون ہے اس کے پیچھے نام بتاؤ اس کا مجھے۔۔ میں اس کو جہنم سے بھی ڈھونڈ نکالوں گا۔۔ اس نے میرا
بازو توڑا ہے۔۔۔ کیبر خاور نے اکرم صاحب
کے گریبان کو اپنی موٹھی میں جکڑا تھا۔۔۔
زیک دبئی
کا ڈون ۔۔۔۔۔ اکرم صاحب بس اتنا ہی بول پائے تھے۔۔۔
سلیم
آفندی جیسا ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنے والا بندہ زیک کے ہاتھ کیسے لگا؟؟ کیبر
خاور نے اکرم صاحب کو دور دھکیلا تھا۔۔۔
میں نہیں
جانتا کنگ۔۔۔ میرا بیٹا گیا تھا اس کے ارگنائز کی ہوئی پارٹی پر۔۔۔ وہاں اس کو پتا
چلا تھا سلیم زیک کے پاس ہے وہ فوراً پاکستان آ گیا تھا اس نے سب بتایا تھا مجھے
مگر تب دیر بہت ہو چکی تھی۔۔ اگلے دن سلیم کی لاش ہمیں ملی تھی ۔۔ اکرم صاحب سر
جھکا کر بولے تھے۔۔ جبکہ کیبر خاور کی آنکھیں مکمل سرد ہو گئی تھی۔۔۔ وہ غصے سے
آگے بڑھا تھا اور اگلے ہی لمحے ہال میں تھپر کی آواز گونجی تھی۔۔۔ اکرم صاحب نے
اپنے منہ پر ہاتھ رکھ لیا تھا۔۔۔ اور بے یقینی سے کنگ کو دیکھ رہے تھے۔۔۔ اس کے
بعد دو اور تھپڑوں کی اوا ائی تھی اب کی بار تھپڑ عمران لغاری ، اور عثمان صاحب کو
پڑے تھے۔۔۔
تف ہے تم
لوگوں پر تف ہے۔۔۔ تھوکتا ہوں میں تم لوگوں پر۔۔۔ صحیح کہتا ہے بیسٹ بےکار بندوں
کی فوج پال رکھی ہے میں نے۔۔ اور تو تیرا بھائی وہ زیک مار گیا تجھے تو شرم سے ڈوب
مرنا چاہیے ۔۔ کنگ کی بلند آواز پورے ہال میں گونج رہی تھی۔۔۔
کنگ زیک
کب کیا کرتا پے سمجھانا مشکل ہے اب ایک وقت ہو گیا ہے اس کی طرف سے خاموشی ہے پتا
نہیں وہ اب کیا کرے گا۔۔۔ عثمان صاحب ہمت کر کے بولے تھے ۔۔
زیک نے
اچھا نہیں کیا میرے دوست کو مار کر۔۔ میں اس کے لیے یہ دنیا جہنم بنا دوں گا۔۔میرے
دوست کو مار کر اس نے اچھا نہیں کیا۔۔ اس نے میرا بازو کاٹا ہے۔ اس نے کنگ کے دوست
کو مارا ہے اس کا انجام اس کی موت ہو گا۔۔۔ کیبر خاور غصے سے بول رہا تھا جبکہ ایک
آنسو اس کی آنکھ سے نکلا تھا۔۔۔ جرم کی اس دنیا میں اس کے دو بہترین دوست تھے ایک
سلیم آفندی اور ایک صفدر ہاشمی ۔۔۔۔
کنگ ہم نے تم سے رابطہ کرنے کی بہت کوشش کی تھی مگر
نہیں کر سکے تھے صرف سلیم جانتا تھا تم تک کیسے پہنچنا ہے ۔۔۔ عثمان صاحب اگے بڑھ
کر بولے تھے۔۔
مجھے بتاؤ
سب کچھ ابھی تک کیا کیا ہو گیا ہے۔۔۔۔ کیبر خاور اپنے منہ کے قریب سیگار لے جاتے
بولا تھا۔۔
عثمان
صاحب اکرم صاحب اور عمران صاحب باری باری کنگ کو ساری انفورمیشن دے رہے تھے جبکہ
کنگ سخت نظروں سے ان کو دیکھتا سب باتیں سن رہا تھا وہ شاید اپنے اندر اٹھتے طوفان
کو روک رہا تھا۔۔۔۔۔
urudnovelnests•••••••••••••••
شہزاد
۔۔۔۔۔ شہزاد ۔۔۔۔۔۔ نواز اس کے اپارٹمنٹ میں آتے ساتھ اس کو آوازیں دینے لگ گیا
تھا۔ اور سیڑھیاں چڑھتا اوپر کمرے کی طرف بڑھا تھا۔۔۔۔
کمرا
اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا۔۔۔ اور پورے کمرے میں سگریٹ کی بدبو پھیلی ہوئی تھی۔۔۔۔
شہزاد نے ہاتھ میں ایک تصویر پکڑ رکھی تھی اور اس کی آنکھوں میں نمی تھی ہاتھ میں
سگریٹ جل رہا تھا۔۔۔ جیسے ہی کمرے کا دروازہ کھولا اس نے فوراً تصویر تکیے کے نیچھے
رکھی تھی۔۔ جبکہ نواز کمرے میں داخل ہوا تھا۔۔۔
کتنا
اندھیرا کر کے بیٹھا ہے تو۔۔۔ نواز سوئچ بورڈ کی طرف بڑھتا بولا تھا۔۔ اور اس نے
کمرے کی لائٹ اون کر دی تھی ۔۔
اس کے
اچانک لائٹ اون کرنے سے شہزاد نے فوراً آنکھیں بند کی تھی۔۔۔ نواز نے اس کی حالت
دیکھی تو فوراً اس کی طرف بڑھا تھا۔۔۔
شہزاد یہ
کیا حال کیا ہوا ہے تم نے؟ نواز نے اس کو دیکھا تھا ۔۔ جس کے سیاہ بال بکھر کر
ماتھے پر آئے ہوئے تھے۔۔ سیاہ آنکھوں میں
سرخی ڈور آئی تھی۔۔۔ وہ افسوس کی مورت بنا بیٹھا تھا۔۔
کیسا
حال۔۔۔ شہزاد بھاری آواز میں بولا تھا۔۔۔
یہ جو
حال تم نے کر رکھا ہے اپنا اس کی بات کر رہا ہوں
میں کیا ہوا ہے تمہیں ۔۔۔ نواز اس کے سامنے بیڈ پر بیٹھتا بولا تھا۔۔۔
کچھ نہیں
ہوا نواز ۔۔۔ تم کس لیے آئے ہو ادھر۔۔۔ شہزاد بیڈ کروان سے ٹیک لگاتا بولا تھا۔۔۔
تم اتنے
دنوں سے گھر نہیں گئے فون تم نہیں اٹھا رہے۔۔ اور ادھر اندھیرا کر کے بیٹھے ہو۔۔
آخر ہوا کیا ہے۔۔۔ نواز نے اس کے ہاتھ کی پشت پر اپنا ہاتھ رکھا تھا۔۔۔
کچھ نہیں
بس کچھ دیر کے لیے ہر معاملے سے دور ہونا چاہتا تھا سکون ڈھونڈ رہا تھا۔۔ سوچا کچھ
وقت تنہا گزرا جائے شاید سکون مل جائے۔۔۔۔ شہزاد بیڈ سے اٹھا تھا۔۔۔
شہزاد
کیا مسئلہ ہے بتاؤ یار۔۔ نواز اس کے ساتھ اٹھا تھا۔۔۔اور آگے بڑھ کر اس کے کندھے
پر ہاتھ رکھ چکا تھا۔۔
کچھ نہیں
ہوا نواز۔۔ میں ٹھیک ہوں۔۔ وہ چہرے پر تلخ مسکراہٹ سجا کر بولا تھا۔۔
تم ٹھیک
نہیں ہو شہزاد میں بچہ نہیں ہوں جس کو تم بھیلا رہے ہو۔۔ بات بتاؤ کیا ہوا ہے۔۔۔
نواز اس کے سامنے کھڑا ہوتا بولا تھا۔۔۔
کچھ نہیں
ہوا نواز تم چلے جاؤ یہاں سے شام میں ملتے
ہیں ۔۔۔ وہ نواز کو ٹالتا بولا تھا۔۔ اور واش روم کی طرف جانے لگا تھا۔۔ جب نواز
نے تکیے کے نیچھے کچھ پڑا دیکھا تھا وہ فوراً آگے بڑھ کر تکیے کی نیچھے سے اس چیز کو نکال چکا تھا وہ
کوئی تصویر تھی۔۔۔
شہزاد جو
واش روم میں جا رہا تھا نواز کو آگے بڑھتا دیکھ ادھر ہی روکا تھا۔۔ جیسے ہی نواز
نے تکیے کے نیچھے سے تصویر نکالی تھی شہزاد فوراً اس کی طرف بڑھا تھا ۔۔ مگر نواز
وہ تصویر دیکھ چکا تھا۔۔ نواز بے یقینی سے شہزاد کی طرف موڑا تھا جبکہ شہزاد کے
قدم وہاں ہی روک گئے تھے وہ نظریں چورا گیا تھا جیسے اس کا بہت بڑا راز کھول گیا
ہو۔۔۔
شہزاد
تم۔۔۔ نواز کو سمجھ نہیں آ رہی تھی وہ کیا بولے۔۔۔
نواز یہ
ادھر دو۔۔ شہزاد نے اس کی طرف ہاتھ بڑھایا تھا ۔۔۔
شہزاد تم
کچھ کھول کر کیوں نہیں بتا دیتے کیا کر رہے ہو خود کے ساتھ تم۔۔ کیوں دیکھ رہے ہو
اس کی تصویروں کو اب جب تم یہ جانتے ہو وہ مر گئی ہے۔۔۔ نواز اس تصویر کو بیڈ پر پھینکتا
بولا تھا۔۔
نواز
چھوڑ اس بات کر پلیز ۔۔۔ شہزاد وہ تصویر اُٹھاتا بولا تھا۔۔ جبکہ اس کی آنکھوں کے
کونے پھر سے بھیگنے لگے تھے اور یہ چیز نواز سے چھپ نہیں پائی تھی۔۔
شہزاد ۔۔۔
ادھر دیکھ تو کیوں کر رہا ہے خود کے ساتھ ایسے تو ایسا تھا تو نہیں ۔ تو تو نفرت
کرتا تھا اس سے برباد کرنا چاہتا تھا پھر یہ سب کیا ہے؟۔۔ نواز نے اس کا روخ اپنی
طرف کیا تھا۔۔۔۔
نفرت
نفرت ہی رہتی تو کیا بات تھی ۔۔۔ یہ تو ایک ناگ بن گیا ہے دل پر جو ہر لمحے ڈھستا
ہے۔۔۔ ہر لمحہ تکلیف دیتا ہے۔۔۔ شہزاد نواز کی طرف دیکھ کر بولا تھا۔۔۔
شہزاد
ہوش سے کام لے کیا ہو گیا ہے تجھے۔۔ کیا سوچنے لگا ہوا ہے۔۔ دفع کر اس سب کو۔۔
نواز نے اس کے بازو پر ہاتھ رکھا تھا۔۔
نواز
میرے بس میں نہیں ہے میں کیا کروں کچھ بھی میرے بس میں نہیں ہے جب جب اس کے بارے
میں سوچتا ہوں تب تب میرا دل پھٹ جانے کو
آتا ہے میں نہیں جانتا میرے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔۔۔ جس دن سے معلوم ہوا ہے وہ مر
گئی ہے میرا رہا سہا سکون تباہ ہو گیا ہے نواز۔۔ آنکھیں بند کرتا ہوں منظر پر وہ آ
جاتی ہے میں کیا کروں کدھر جاؤں۔۔ شہزاد چیخ اٹھا تھا۔۔۔ اس کی آنکھیں نم ہونے لگی
تھی۔۔۔
شہزاد
۔۔۔۔ نواز اس کو بس دیکھتا رہ گیا تھا۔۔۔
ہاں میں
مانتا ہوں میں مانتا ہوں میں اس سے انتقام لینا چاہتا تھا۔۔ میں نے اس سے انتقام
لینے کے لیے ہر حد پار کی ۔۔۔ مگر یار میں تھک گیا ہوں یہ بات خود سے تم سب سے
چھپاتا چھپاتا تھک گیا ہوں میں ۔۔۔ میرا دل تڑپ رہا ہے یار۔۔ نفرت تھی مجھے اس سے
مگر چاہت بھی تھی جو بدکے کی نظر کر بیٹھا۔۔ میں اس کو بس خود تک کر دینا چاہتا
تھا سب کچھ چھین کر اس سے مگر دیکھو میں نے تو اپنے ہاتھ بھی خالی کر ڈالے اس کو
برباد کرتے کرتے۔۔۔ میں نے سب کچھ گوا دیا یار میں نے اپنی ماں تک کو مار ڈالا مگر
میں اس کو نہ پا سکا۔۔۔ شہزاد بےبس سا بیڈ
پر بیٹھا تھا۔۔ جبکہ نواز اس کو حیرت سے دیکھ رہا تھا۔ یہ وہ ہی تھا جو ایک وقت
میں اس کو برباد کرنا چاہتا تھا آج وہ کس بات کا اعتراف کر رہا تھا۔۔۔ نواز کا تو
منہ ہی کھولا کا کھولا رہ گیا تھا۔۔۔
شہزاد۔۔۔
نواز اس کو حیرت سے دیکھ رہا تھا۔۔۔ نواز کی حالت ایسے تھی جیسے وہ اس شخص کو جان
ہی نہ پایا ہو کبھی۔۔۔
نواز مجھ
سے قسم لے لو یقین مانو میں اس سے انتقام لینا چاہتا تھا بس اس تذلیل کا جو اس نے
میری کی اس کو میری موجودگی حقیر لگتی تھی ۔۔۔ اس نے جس طرح مجھے دھتکارا تھا میں اس سے بدلہ لینا چاہتا تھا اس کو اس مقام
پر لانا چاہتا تھا جہاں اس کے پاس صرف بس میرے پاس آنے کا اوپشن ہو میں اس پر موت
بھی تنگ کر دینا چاہتا تھا تاکہ وہ موت کو بھی نہ اپنا سکے وہ بس میرے پاس رہے۔۔۔
میں نے لیا بھی بدلہ میں نے اس سے اس کا سب کچھ چھین لیا مگر آج وہ نہیں ہے ۔۔۔ مگر جب جب میں یہ سوچتا ہوں وہ
مر گئی ہے مجھے کچھ ہوتا ہے نواز میرا دل تڑپتا ہے ۔۔۔ میں کیا کروں یار۔۔۔۔ مجھے
سمجھ نہیں آ رہی ۔۔۔ کیوں یہ دل خواہش کر رہا ہے وہ لوٹ آئے وہ میرے پاس آ جائے ۔۔
وہ اپنا سر اپنے ہاتھوں میں گرا چکا تھا جبکہ نواز بس منہ کھولے اس کو دیکھ رہا
تھا۔۔۔
شہزاد
کیا پاگل پن ہے یہ یار۔۔ تو اس لڑکی کو برباد کرنا چاہتا تھا تو نے کیا اس کو
برباد کوئی قصر نہ چھوڑی تم نے ۔۔ اور اب یہ سب ؟
تم ہوش میں ہو؟؟ وہ مر گئی ہے۔۔ اور اگر زندہ بھی ہوتی تو جو تم کر چکے ہو
کیا اس سب کے بعد وہ تمہارے پاس آتی ؟؟ تو اس پاگل پن کو چھوڑوں شہزاد ۔۔۔ نواز اس
کے سامنے بیٹھتا بولا تھا۔۔۔
نواز میں
واقع ہی پاگل ہو رہا ہوں یار۔۔۔ دل کو یقین ہی نہیں آ رہا کیسی طرح کہ وہ مر گئی
ہے۔۔۔ میرا دل کیوں اس کے نام کی فریاد کرنے لگا ہے مجھے سمجھ نہیں آ رہی ۔۔ میں
پاگل ہو رہا ہوں یار۔۔۔ وہ جس کو میں برباد کر چکا ہوں جو مر گئی ہے۔۔ اس کے لیے
میرا دل کیوں دھڑک رہا ہے تڑپ رہا ہے۔ میں اس کو چاہتا تھا اور نہ جانے میں نے
کتنی لڑکیوں کو چاہا ہے مگر یہ اعصاب پر
سوار ہو گئی ہے۔۔ میں نہیں سوچنا چاہتا اس کو مگر میرے ذہین پر سوار ہی وہ ہے اس
کی سوچیں تکلیف دے رہی ہیں مجھے اور یہ تکلیف میری جان لے لے گی۔۔ شہزاد اپنے
بالوں کو موٹھی میں نوچ چکا تھا۔۔۔۔
شہزاد
دماغ چل گیا ہے کیا تمہارا۔۔۔ نواز نے فوراً اس کے ہاتھوں کو سر سے ہٹھایا تھا۔۔۔
نواز میں
اتنے دنوں سے اس اذیت میں ہوں ۔۔۔ یہ تکلیف میری جان لے لے گی ۔۔ میں نہیں اعتراف
کرنا چاہتا کے میرا دل اس کے لیے تڑپ رہا ہے۔۔مگر کیا کرؤں یہ دل کا درد حد سے سوا
ہو گیا ہے۔۔۔ شہزاد کی آنکھوں سے ایک آنسوں نکلا تھا۔۔۔ جو نواز کی نظروں سے اوجھل
نہ رہ سکا ۔۔ نواز اس کو اپنے گلے لگا چکا تھا۔۔ اس نے آج سے پہلے کبھی شہزاد کا
اتںا ٹوٹا بکھرا روپ نہیں دیکھا تھا۔۔ اس نے شہزاد کی یہ حالت اور کیفیت نہیں
دیکھی تھی۔۔
نواز اس
کو سنھبالنے کی ہر ممکن کوشش کر رہا تھا۔۔۔ آج شہزاد اکرم کو وقت اور تقدیر دکھتے
انگاروں پر گھیسٹ لائی تھی۔۔۔ اس کے تڑپنے کا مرحلہ شروع ہو چکا تھا۔۔۔ اب اس کا
انجام کیا ہوںا تھا وہ اس بات سے بےخبر تھا۔۔۔۔۔
urudnovelnests••••••••••••••••
وہ تینوں
بسمنٹ میں آئے تھے۔۔ جہاں ولف اور بیسٹ پہلے سے ہی موجود تھے۔۔۔۔ بیسٹ کی سب سے پہلی نظر جزا کے بازو پر باندھی
پٹی پر گئی تھی۔۔۔
یہ کیا
ہوا ہے۔۔۔ اس سے پہلے وہ لوگ کچھ بولتے بیسٹ کی فکر میں ڈوبی آواز بیسمنٹ میں
گونجی تھی۔۔۔
کچھ نہیں
بس ایک گولی لگ گئی۔۔۔ جزا لاپرواہی سے بولتی آگے بڑھی تھی اور سیاہ بیگ بیسٹ کے
سامنے رکھ چکی تھی ۔۔۔
گولی
نکالی ہے تم نے کے نہیں ۔۔۔ بیسٹ اس بیگ کو نظر انداز کرتا اور ولف، لیو اور گل کی
موجودگی کو کیسی خاطر میں نہ لاتا آگے بڑھ کر جزا کی پٹی کھولنے لگا تھا۔۔۔
بیسٹ میں
ٹھیک ہوں صرف ایک گولی تھی ۔۔ خون روکنے کے لیے فوراً پٹی کی تھی ۔۔۔ جزا بیسٹ کو
دیکھتے بولی تھی جو اس کو نہیں اس کے بازو پر لگی پٹی کو دیکھ رہا تھا ۔۔
پاگل
لڑکی گولی ابھی تک بازو میں ہے انفیکشن ہو جائے گی۔۔۔ بیسٹ غصے سے دھاڑا تھا۔۔۔ اس
کو جزا سے اس قسم کی بے وقوفی کی امید نہیں تھی۔۔
ہمت کیسے
ہوئی تمہاری مجھے پاگل بولنے کی پاگل ہو گے تم۔۔۔ اور ادھر میرے پاس اتنا وقت نہیں
تھا کے اپنے بازو سے گولی نکالنے بیٹھ جاتی۔۔۔ جزا اپنا بازو اس کے ہاتھ سے آزاد
کرواتی غصے سے اس کی طرف دیکھتے بولی تھی ۔۔
یہ لوگ
پھر سے شروع پو گئے۔۔ گل اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گئی تھی۔۔۔ جبکہ ولف اور لیو کافی دلچسپی سے سامنے کا منظر دیکھ رہے تھے۔۔۔
یہ ٹوم
اینڈ جیری شو روز چلتا ہے؟؟ ولف کے کان کے قریب جھک کر سوال کیا تھا ۔۔ جبکہ لیو
جزا اور بیسٹ کو دیکھا ان کی طرف متوجہ ہوا تھا۔۔۔
ہاں روز
صبح ، دوپہر ، شام اور رات۔۔۔ گل اپنی ہنسی چھپا کر بول تھی۔۔
چلو کل
سے پوپ کارن کا ارینج کر کے آئیں گے۔۔ لیو مزے سے بولا تھا جب ان تینوں کا دھیان
بیسٹ کی آواز نے اہنی طرف کیا تھا وہ جو جزا کے ساتھ الجھا ہوا تھا غصے سے بول رہا
تھا۔۔۔
جزا بحث
مت کرو۔۔ بیسٹ دانت پیس کر بولا تھا۔۔۔
مجھے
کوئی شوق نہیں تم جیسے کریلے سے بحث کرنے کا۔۔ جزا سخت نظروں سے اس کو دیکھتے بولی
تھی۔۔۔
جزا میں
تمہیں کہہ۔۔۔ بیسٹ نے کچھ بولنا چاہا تھا جب جزا دوبارہ بولی تھی۔۔۔
پہلے کیا
ہم لوگ یہ سب کچھ ڈیسکس کر لیں میرے زخم کو بعد میں دیکھ لیں گے ۔۔۔۔ جزا سیاہ بیگ
کی طرف اشارہ کرتے ایک ایک لفظ چبا کر بولی تھی۔۔ اور اپنے ہاتھ میں پکڑے بلیک لونگ کوٹ کو ایک طرف رکھ
چکی تھی ۔۔۔ جبکہ اس کے اس روپ پر بیسٹ کی زبان کو آج صحیح معنوں میں تالا لگا
تھا۔۔۔
چلو کوئی
تو ہے جس کے سامنے اس کی نہیں چلتی۔۔ ولف لیو کے کان کے پاس جھک کر بولا تھا۔۔۔
میرے دل
کو تو سکون ملا ہے۔۔۔ لیو اپنی ہنسی کا گلا دباتا بولا تھا۔۔۔ جب بیسٹ کے الفاظ
بیسمنٹ میں گونجی تھے۔۔۔
اس بیگ
میں کیا ہے؟؟ وہ جزا اور گل کو دیکھتا بولا تھا۔۔ کیونکہ اندر کا سارا معاملہ ان
دونوں نے اپنے ہاتھ لیا تھا۔۔۔
کھول کر
دیکھ لو۔۔۔ جزا ایک کرسی کھینچ کر بیٹھ گئی تھی۔۔۔
بیسٹ نے
آگے بڑھ کر اس بیگ کی زیپ کھولی تھی اور جیسے ہی وہ بیگ کھولا تھا بیسٹ نے نظریں
اٹھا کر سامنے بیٹھی جزا کو دیکھا تھا۔۔۔ اس کو حیرت کا دھچکا لگا تھا۔۔
جزا
یہ۔۔۔ بیسٹ نے سامنے بیٹھی جزا کو دیکھا
تھا جو ایسے بیٹھی تھی جیسے کچھ کیا ہی نہ ہو۔۔۔
صفدر
ہاشمی اور اس کے بیٹے کا سر۔۔۔ تم نے ہی بولا تھا تمہیں یہ مردہ چاہیے تو ثبوت کے
طور پر لے کر آئی ہوں ان کے سر۔۔ جزا لاپرواہی سے بولی تھی ۔۔
ان کی باڈیز
کہاں ہیں ؟؟ بیسٹ اس کے سامنے آتا بولا تھا۔۔۔
صفدر
ہاشمی کی باڈی اس کے منشن کے باہر لٹک رہی ہے۔۔۔ جزا اتنا بولا کر خاموش ہو گئی
تھی۔۔۔
اور
فیروز؟؟؟ بیسٹ اس کو سوالیہ نظروں سے دیکھ رہا تھا۔۔۔
جلا دی
اس کی باڈی۔۔۔ جزا نے اپنی شہد رنگ آنکھیں بیسٹ کی آنکھوں میں ڈال کر کہا تھا ۔۔
اور آج بیسٹ کو وہ آنکھیں کیسی کی آنکھیوں سے ملتی معلوم ہوئی تھی۔۔
اس کی
آنکھیوں کی یہ سفاقی اور بے رحمی کیسی اور کی آنکھوں سے ملتی تھی ۔۔۔ اور جواب اس
کے سامنے تھا مگر وہ نظریں چورا رہا تھا۔۔۔ مگر نہ چورا سکا ۔۔ اس کے اس سوال کا
جواب اس کی اپنی آنکھیں تھی۔۔۔۔ ماسک کے پیچھے چھپے ہونٹ مدہم سا مسکرائے تھے۔۔۔
اس کو
کیوں جلایا ۔۔۔ بیسٹ اس کے سامنے بیٹھتا بولا تھا۔۔ اس کو لہجہ نرم تھا اس کے لہجے
میں تھوڑی سے تیپش تھی ۔۔۔ جو جزا محسوس کر گئی تھی۔۔۔
جو اس نے
کیا تھا اس کے لیے یہ سزا بھی کم تھی۔۔۔ جزا سرخ ہوتی آنکھوں سے بولی تھی۔۔۔
لڑکیاں
سب محفوظ ہیں ؟؟ بیسٹ نے اب کی بار لیو اور گل کو بھی دیکھا تھا۔۔۔
ایک لڑکی
کو نہیں بچا پائی میں ۔۔۔ وہ میرے سامنے دم توڑ گئی وہ اپنے اوپر ہوا ظلم برداشت
نہ کر سکی۔۔۔ جزا کی آنکھوں کے کونے بھیگے تھے۔۔۔ اس کو ایک بار پھر سے سویرا یاد
آئی تھی۔۔ اور پر اس لڑکی کا چہرہ اس کے سامنے آیا تھا۔۔۔
الپائن
۔۔۔۔ بیسٹ نے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ پر رکھا تھا۔۔۔ جزا نے ایک نظر اس کو دیکھا
تھا۔۔۔ اور پھر اس کے ہاتھ کو دیکھا تگا جو جزا کے ہاتھ پر تھا۔۔۔ اس کی انکھی
بھیگی تھی۔۔۔ وہ فوراً اپنی جگہ سے اٹھی تھی۔۔ اور بیسمنٹ سے باہر چلی گئی تھی۔۔۔
جبکہ اس کے جاتے ہی بیسمنٹ میں پن ڈراپ خاموش ہو گئی تھی۔۔۔
ولف یہ
کیبر خاور کا تحفہ ہے سنبھال کر رکھو اس کو۔۔ لیو اور گل تم دونوں آرام کرو۔۔ اور
ہاں لیو گل کو پین کلر دے دینا تا کہ سو سکے یہ۔۔ بیسٹ اپنی جگہ سے اٹھا تھا اور
ان تینوں کو ہدایات دیتا بیسمنٹ سے باہر چلا گیا تھا۔۔۔
urudnovelnests••••••••••••••
وہ اپنے
کمرے کی بالکہنی میں بیٹھی تھی۔۔۔ خاموش آنسوں اس کی آنکھوں سے بہہ رہے تھے۔۔۔ وہ
اپنے ہاتھوں کو دیکھ رہی تھی۔۔۔ جب اس کے کمرے کا دروازہ کھولا تھا۔۔ اس نے فوراً
ہاتھوں کی پشت سے اپنے انسو صاف کیے تھے۔۔۔ مگر اندر آنے والا اس کے اس عمل کر
دیکھ چکا تھا۔۔۔
رونہ چاہتی
ہو تو رو لو ایک بار۔۔۔ وہ اس کے قریب زمین پر بیٹھتا بولا تھا۔۔ اور ہاتھ میں
پکڑا فرسٹ ایڈ بوکس سامنے رکھا تھا ۔۔
میں رو
تو نہیں رہی تھی۔۔۔ وہ صاف موکر گئی تھی ۔۔
جزا
تمہاری آنکھیں شکایت کر رہی ہیں ۔۔۔ بیسٹ نے اس کی آنکھوں کی طرف اشارہ کیا تھا۔۔
اس کی اس بات پر جزا نے سخت نظروں سے اس کو گھورا تھا۔۔
اوف بیسٹ
تمہاری نظریں میری آنکھوں پر ہی کیوں ہوتی ہیں ۔۔۔ وہ آج واقع ہی چیر گئی تھی۔۔۔۔
انسان کی
نظر قابلِ دید منظر پر ہی ٹھہرتی ہیں ہمیشہ۔۔ اور تمہاری آنکھوں کو دیکھنا میری
زندگی کا سب سے خوبصورت منظر ہے ۔۔ بیسٹ نے
اپنی سبز آنکھیں جزا کی شہد رنگ آنکھوں پر مرکوز کر دی تھی ۔۔۔ اس کا ایک ایک لفظ
اس کے جذبات کی سچائی کی گواہی دے رہا تھا۔۔۔
تم میرے
کمرے میں کیا کر رہے ہو۔۔ وہ اس سے نظریں چورا کر موضوع بدل چکی تھی۔۔
تمہاری
بازو سے گولی نکالنے آیا ہوں۔۔۔ بیسٹ نے فرسٹ ایڈ بوکس کھولا تھا۔۔۔۔
میں ٹھیک
ہو بیسٹ ۔۔۔۔ جزا مدہم لہجے میں بولی تھی۔۔۔
ہاں تم
ٹھیک ہو۔۔۔ نظر آ رہا ہے تم کتنی ٹھیک ہو۔۔ ویل جیکٹ اتارو اپنی۔۔۔ بیسٹ نے اس کی سرخ ہوتی آنکھوں پر چوٹ کی تھی۔۔۔
اور ساتھ ہی اس کو جیکٹ اتارنے کا بولا تھا ۔۔ جزا نے اپنی جیکٹ اتار کر ایک طرف
رکھی تھی اور بیسٹ کو دیکھا تھا۔۔۔۔ جب اس کی نظر اس کی گردن پر ایک طرف بنے باریک
سے تل پر گئی تھی جو اس کی گردن پر لگ بھی بہت خوبصورت رہا تھا وہ خاموش سے اس تل
کو دیکھ رہی تھی۔۔۔
جزا جب
کبھی رونے کا دل کرے تو رو لینا چاہیے ۔۔۔ بیسٹ اس کی شرٹ کی سلیوز اوپر کرتا بولا
تھا۔۔۔ اور اس کے زخم کا جائزہ لینے لگا تھا۔۔ وہ جو اس کی گردن کے تل کا جائزہ لے
رہی تھی ایک دم ہوش میں آئی تھی۔ بیسٹ اس
کے زخم کو غور سے دیکھ رہا تھا جب اس نے ایک زخمی نظر جزا کی طرف ڈالی تھی۔۔۔ جزا
کے زخم کی تکلیف اس کو محسوس ہوئی تھی۔۔۔ مگر خاموش ہو گیا تھا۔۔۔
میں رونا
نہیں چاہتی بیسٹ۔۔۔ جزا سامنے سیاہ آسمان
کو دیکھتے بولی تھی۔۔
اور اس
کی وجہ۔۔ بیسٹ نے کوٹن سے اس کا زخم صاف کیا تھا۔۔۔ اور ایک انجیکشن بنانے لگا
تھا۔۔۔
بیسٹ اینستھیزیا
یوز مت کرو تم ایسے ہی بولیٹ نکال لو۔۔ جزا اس کی بات کا جواب دے بغیر بولی تھی۔۔۔
بیسٹ نے انجیکشن واپس رکھ دیا تھا۔۔۔
سیدھی
طرح بولو درد محسوس کرنا چاہتی ہو۔۔ بیسٹ کوٹن پر اینٹی سپٹک لگتا بولا تھا۔۔۔ جزا
لاجواب نظروں سے اس کو دیکھ رہی تھی ۔ وہ شخص کیسے اس کی ہر بات کا مطلب جان جاتا
تھا۔۔۔
تم نے
میری پہلے والی بات کا جواب نہیں دیا کہ تم رونا کیوں نہیں چاہتی ۔۔۔ بیسٹ کوٹن کو
اس کے زخم پر رکھتا بولا تھا۔۔
تم بات
بھول نہیں سکتے ؟ جزا اس کو دیکھتے بولی تھی۔۔۔
بات اگر
تم سے جوڑی ہے تو بھولنا مشکل نہیں ناممکن ہے جزا۔۔ اب میرے سوال کا جواب دو۔۔
بیسٹ اس کے زخم کے پاس سے خون صاف کرتا بولا تھا۔۔ جبکہ جزا کے پاس اب جواب دینے
کے علاؤہ کوئی چارہ نہ تھا۔۔
مجھے
لگتا ہے میں روں گی تو کمزور پر جاؤ گئی میرا درد پھر سے تازہ ہو جائے گا۔۔۔۔۔ جزا
بھیگی آنکھوں سے بولی تھی ۔۔
کبھی
کبھی رو لینا چاہے کیونکہ کچھ آنسوں کا نکل جانا بہتر ہوتا ہے ورنہ وہ وبال
جان بن جاتے ہیں اور کچھ زخم ہم چاہا کر
بھی نہیں بھولا سکتے۔۔ ان کا درد ان کی تکلیف ان سے نکلتے خون کی روانی ہمیشہ پہلے
جیسی ہوتی ہے۔۔ ہم چاہا کر بھی ان کو بھر نہیں سکتے ہمیں ان زخموں کو بھی اپنی
زندگی میں جگہ دے کر زندگی جینی پڑھتی ہے۔۔۔ بیسٹ انگوٹھے سے اس جگہ پر دباوڈال
رہا تھا جہاں گولی تھی۔۔۔ جبکہ جزا آنکھوں
میں نمی لیے اس کو دیکھ رہی تھی۔۔۔
مگ جب
انسو ان زخموں پر گرتے ہیں تو بہت تکلیف
دیتے ہیں اس تکلیف کا کیا؟ ۔۔۔ جزا اپنی اوازکو نارمل کرتے بولی تھی۔ جب بیسٹ نے ٹیوزر
اس کے زخم پر رکھا تھا۔۔۔۔
ہر زخم
کا علاج کیا جاتا ہے جزا۔۔ ہر زخم لے لیے
الگ مرہم ہوتا ہے۔۔جب آپ صحیح مرہم استعمال کرتے ہو تو تکلیف ختم ہو جاتی ہے ۔۔
ایسی طرح اپنے انسو کو اپنے زخم کا مرہم بناؤ جزا ایک وقت آئے گا جب تکلیف ختم ہو
جائے گی۔۔ بیسٹ نے اچانک گولی اس کی بازو سے نکالی تھی ۔۔۔ ایک سسکی جزا کے منہ سے
نکلی تھی۔۔۔
روح پر
دل پر لگے زخموں کا مرہم کیا ہے بیسٹ ؟؟ ان زخموں کا مرہم کیا ہے جو انسان کو ذہنی
اذیت دینے کے لیے کافی ہیں ۔۔۔ اب کی بار جزا نے اپنے انسو نہ روکے تھے۔۔۔
جیسا کہ
میں بول چکا ہوں آنسو۔۔۔۔ بیسٹ اس کے زخم کو صاف کر رہا تھا ۔۔ جہاں سے خون نکل
رہا تھا۔۔ اس نے فوراً اس پر کوٹن رکھی تھی۔۔۔
انسو ؟۔۔
جزا اپنے زخم کو بھول چکی تھی ۔۔ وہ مکمل اس کی باتوں کی طرف متوجہ ہو گئی تھی ۔۔۔
ہاں انسو کیونکہ ایک انسو ہی ہے جو انسان کو کمزور
بھی کر سکتے ہیں اور اس کو ہیل کر کے اس کی ہمت بھی بن سکتے ہیں۔۔۔ تمہارا مرہم
بھی انسو ہیں جزا ۔ کچھ زخم وقت لیتے ہیں ٹھیک ہونے میں ۔۔ اور اگر وہ زخم اپنوں
سے جوڑے ہوں تو بہت وقت لگتا ہے جزا۔۔ انسان جتنا بھی مضبوط ہو جائے مگر وہ زخم اس
کی آنکھیں نم کرنے کے لیے کافی ہوتے ہیں ۔۔ تب رو لینے سے آپ کمزور نہیں ہوتے بلکہ
آپ خود کو بہتر محسوس کرتے ہو۔ اور اپنے غم کو کبھی کبھی بانٹ لینا چاہیے۔۔۔ بیسٹ اس کی پٹی کر چکا تھا باتوں کے دوران ۔۔۔
اور اب سامان سمیٹ رہا تھا ۔۔۔۔
میں اپنے
غم کو اللہ سے بانٹتی ہوں۔۔ میرا اس کے سوا کوئی اور ہے اس دنیا میں ؟.. جزا سیاہ
آسمان کو دیکھتے بولی تھی۔۔۔
ایک طرف
تم اپنا غم اللہ سے بانٹتی ہوں اور پھر یہ بھی بولتی ہو اس کے سوا تمہارے پاس ہے
کون؟ کیا اس نے تمہیں کوئی اور رشتہ نہیں دیا ؟ جس ذات سے اپنا غم بانٹتی ہو اس
ذات کی ناشکری بھی کرتی ہو کہ اس کے بغیر تمہارا اس دنیا میں کون ہے۔۔ بے شک
اللّٰہ کے سوا کوئی مدد گار نہیں کوئی ہمدرد نہیں ۔۔ مگر اللہ نے انسان کو رشتوں
سے بھی تو نوازہ ہے۔۔ تو تم کیسے سوچ سکتی ہو اس ذات نے تمہیں تنہا چھوڑ دیا اس
دنیا میں ۔۔۔ بیسٹ اب کی بار بالکل اس کے ساتھ بیٹھ گیا تھا دیوار سے ٹیک لگا
کر۔۔۔ جزا نے گردن موڑ کر اس کو دیکھا تھا۔۔۔
کون سا
رشتہ ہے میرے پاس؟؟؟ جزا بھیگے لہجے میں بولی تھی ۔۔۔
میں
تمہارا کیا ہوں جزا؟؟ اس کے سوال پر بیسٹ نے بھی سوال کیا تھا۔۔۔ جزا ایک لمحے کو
خاموش ہو گئی تھی۔۔۔
تمہارے
اور میرے درمیان جو رشتہ ہے وہ سب سے پہلے ہے اس دنیا کے تمام رشتوں سے پہلے وہ
رشتہ ہے۔۔ کیا تمہیں پتا ہے دنیا میں سب سے پہلا رشتہ کون سا تھا؟ بیسٹ نے گردن
موڑ کر اس کو دیکھا تھا جو اپنی بھیگی شہد رنگ آنکھوں سے اس کو دیکھ رہی تھی ۔۔۔
ماں
باپ۔۔۔ جزا کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد بولی تھی۔۔۔
ماشاءاللہ
۔۔کافی عقل مند بیوی پائی ہے میں نے ۔۔ تمہیں دنیا سے بچا کر رکھنا پڑے گا تاکہ
نظر نہ لگ جائے۔۔۔ بیسٹ اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرتا بولا تھا۔۔
صحیح
بتایا ہے نہ میں نے۔۔ وہ نم آنکھوں سے مدہم سا مسکرائی تھی۔۔۔
بلکل غلط
جواب ہے تمہارا۔ گریجویشن میں کس نے بیٹھیا ہے تمہیں؟۔ بیسٹ اس کو افسوس کرتی
نظروں سے دیکھتا بولا تھا۔۔ جبکہ جزا کی مسکراہٹ فوراً غائب ہوئی تھی۔۔
تو تم
بتا دو اتنے جو تم عقلمند ہو۔۔ ائے بڑے ہمممم۔۔ وہ سخت نظروں سے دیکھتے فوراً منہ بنا کر بولی
تھی ۔۔
اس دنیا
میں سب سے پہلا رشتہ رشتہ ازدواج بنایا گیا تھا ۔ جس رشتے سے آگے پوری نسل انسانی
چلی۔۔ کیونکہ جب حضرت آدم علیہ السلام اور اماں حوا کو جنت سے نکالا گیا تھا تب وہ
رشتہ ازدواج میں تھے۔۔۔ دنیا کا پہلا رشتہ شوہر اور بیوی کا رشتہ تھا۔۔ سب سے پاک
سب سے مضبوط رشتہ اس کے بعد ماں باپ اور بہن بھائی اور باقی رشتے بنے۔۔۔ بیسٹ جزا کی عقل پر افسوس کرتا بولا تھا۔۔۔ جبکہ وہ اس کو خاموش سے دیکھ رہی تھی۔۔۔
تمہارے
پاس ایک محرم رشتہ ہے وہ رشتہ جو تمہارا لباس ہے تمہارا تمہاری عزت کا محافظ ہے
تمہارا سائے بان ہے۔۔ بیسٹ اس کے چہرے کو
اپنی آنکھوں میں جذب کرتا بولا تھا۔۔ جبکہ اس کے الفاظ سن کر جزا کا دل بہت زور سے
ڈھرکا تھا۔۔۔۔۔
اور میں اپنے
اس سائے بان کے اصل سے بھی واقف نہیں
۔۔ تم
کیوں نہیں اتار دیتے یہ نقاب ؟ تمہارا اصل کام کیا ہے تم ہو کون۔۔۔۔ جزا سوالیہ
نظروں سے اس کو دیکھ رہی تھی جس کی سبز آنکھیوں اس وقت بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔۔۔۔
مگر نہ جانے کیوں ایک لمحے کو جزا کو لگا تھا وہ ان آنکھوں سے واقف ہے۔۔
جزا جس
دن تم مجھے پہچان جاؤ گئی اس دن تم میرے کام کے متعلق سوال نہیں کرو گی ۔۔۔ اور
ایک بات کہوں تم سے ؟ بیسٹ نے اب کی بار مکمل روخ اس کی طرف موڑ لیا تھا۔۔۔
بولو۔۔۔
جزا اس کی نظروں سے ہچکچاہٹ محسوس کرتے بولی تھی۔۔
مجھے
جلدی ڈھونڈ لیںا جزا۔۔ تاکہ اگر تمہارا کوئی گیلا ہو تو میں اپنی صفائی دے سکوں
۔۔۔ تم خفا ہو تو تمیں منا سکوں ۔۔ تم چھوڑ کر جانا چاہو تو تمہیں روک سکوں۔۔ میں
نہیں جانتا مستقبل میں حالات کیسے ہوں گے میں زندہ رہوں گا بھی کہ نہیں ۔۔ مجھے
میرے مٹنے سے پہلے ڈھونڈ لینا جزا تاکہ مجھے تمہیں اپنی صفائی دینے کا ایک پہلا
اور آخری موقع مل سکے۔۔ مجھے ایک بار اپنی بدگمانی دور کرنے کا موقع دینا۔۔ مجھے
ایک موقع میرے حق میں بولنے کے لیے دینا بس۔۔ بیسٹ مدہم لہجے میں بولا تھا۔۔۔ اس
کے الفاظ اس کے لہجے میں کچھ تھا کچھ ایسا جس نے جزا کو اندر تک ہلا دیا تھا۔۔۔
جزا نے ایک بار پھر سے ان سبز آنکھوں میں دیکھا تھا۔۔۔ اس بار سبز آنکھوں کے کونوں میں اس کو کچھ نمی
نظر آئی تھی۔۔ وہ آنکھیں چمک رہی تھی۔۔ جزا کو ایک لمحے کے لیے الجھ گئی تھی یا تو
یہ آنکھیں اس وقت اس کو زیادہ خوبصورت لگ رہی تھی یا اس نے اس سے پہلے کبھی اتنی
خوبصورت آنکھیں نہ دیکھی تھی۔۔۔
میں
جانتا ہوں میری آنکھیں خوبصورت ہیں ۔۔ اب اس کا مطلب یہ نہیں کے تم مجھے ایسی
نظروں سے دیکھو ۔۔ میں بھی نروس ہو سکتا ہوں ۔۔۔ جزا کو مسلسل اپنی آنکھوں کو
دیکھتا پا کر بیسٹ اس کے کان کے قریب جھک کر بولا تھا۔۔ اس کی آواز میں جزا ہوش
میں آئی تھی اور اپنی شرمندگی بچانے کے لیے تھوڑا دور ہوئی تھی اور غصے سے بیسٹ کو
دیکھنے لگی تھی۔۔
خوش فہمی
اچھی ہے تمہاری۔۔۔ جزا اس کو سخت نظروں سے دیکھتے بولی تھی۔۔ جبکہ اس کی اس بات کو
سن کر وہ سر جھکا کر نفی میں ہلانے لگا تھا۔۔۔
تم کبھی
اپنی چوری پکڑی جانے پر اعتراف نہ کرنا۔۔ بیسٹ اس کو افسوس کرتی نظروں سے دیکھتا
بولا تھا جب جزا نے ناک سے مکھی اڑانے والے انداز میں اس کی بات کو نظر انداز کیا
تھا۔۔۔
وہ دونوں
ایسے ہی بیٹھے نہ جانے کتنی دیر باتیں کرتے رہے تھے۔۔۔ جب بیسٹ کو محسوس ہوا کہ
جزا سو چکی ہے۔۔۔ اس نے گردن موڑ کر دیکھا تو وہ اس وقت اس کی بازو پر سر رکھے سو
رہی تھی۔۔۔ اس کو احتیاط سے اپنی بازو میں
اُٹھائے وہ اس کو کمرے میں لے گیا تھا۔۔ اس کو بیڈ پر لیٹا کر خود اس کے پاس بیٹھ
گیا تھا اس کا ہاتھ تھام کر اور اس کو سوتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔۔۔۔
میری
زندگی کا سب سے خوبصورت باب ہو تم جزا میں تمہیں اپنے خواب میں بھی نہیں کھونا
چاہتا۔۔ بیسٹ اس کے ہاتھ کی انگلیوں کو اپنی انگلیوں سے چھوتے بولا تھا۔۔۔ مگر وہ
ظالم شہزادی نیند کی وادیوں میں اتر چکی تھی اس بات سے بےخبر کوئی آج اس کے سامنے
بیٹھا اعتراف کر رہا ہے اپنی چاہت کا۔۔۔
جزا وقت
نے صرف تمہارا نقصان نہیں کیا۔۔۔ نقصان میرا بھی ہوا ہے۔۔۔ کھو میں نے بھی بہت کچھ
دیا ہے۔۔ سب سے بڑھ کر میں خود کو کھو بیٹھا ہوں جزا۔۔ مجھے ڈھونڈ دو ۔۔ مُجھے مجھ
سے ملا دو جزا۔۔ میرا اصل مجھ تک لے آؤ ۔۔۔ بیسٹ اس کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں
تھامے مدہم آواز میں بولا تھا۔۔ ایک آنسو ٹوٹ کر اس کی آنکھوں سے گرا تھا اور جزا
کے ہاتھ میں جذب ہو گیا تھا۔۔۔
وہ سمجھ
ہی نہیں پا رہا تھا وہ جزا کے سامنے اتنا نرم کیسے ہو جاتا تھا۔۔ آج تک وہ کبھی کسی
لڑکی کے سامنے نرم نہ پڑا تھا کسی لڑکی میں ہمت نہ تھی وہ بیسٹ کے قریب جا کر اس
کو روک سکے یہ ہمت بھی صرف جزا میں تھی۔۔۔
وہ گہری
نظروں سے اس دیکھ رہا تھا جس کا بے داغ دودھیا چہرہ سوتے ہوئے بہت معصوم لگ رہا
تھا۔۔ جیسے کوئی معصوم سا بچہ سو رہا ہو ۔۔ اس پر لحاف ٹھیک کرتے وہ اپنی جگہ سے
اٹھا تھا جزا کے چہرے پر آئی ایک اوارہ لیٹ اس نے پیچھے کی تھی۔۔۔ جس پر وہ کسمسا
گئی تھی۔۔۔ بیسٹ کی آنکھیں مسکرائی تھی۔۔ وہ خاموش سے موڑا تھا۔۔۔ ٹیبل پر پڑی ایک
نوٹ بک کو اٹھایا تھا اور پاس پڑے پن سے اس پر کچھ لکھ کر وہ واپس وہ نوٹ بک ٹیبل
پر رکھے ۔۔ باہر کی طرف بڑھا تھا۔۔۔ دروازے کے پاس پہنچ کر ایک لمےکو روکا تھا۔۔
موڑ کر لاپرواہی سے سوئی جزا کہ طرف دیکھا تھا ۔۔۔ دروازے کو کھولتے وہ کمرے سے باہرنکالا تھا۔۔۔۔ اس کا روخ اپنے کمرے
کی طرف تھا۔۔
urudnovelnests•••••••••••••••••
جاری
ہے۔۔۔۔۔۔۔
Don’t
copy without my permission... Must share your precious reviews and share with
your friend this episode...
Comments
Post a Comment