Urdu Novel Dasht-e-Ulfat by Shazain Zainab Episode 23


بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

 ناول

 

دشتِ الفت

 

شازین زینب

 

 

 

 

 

 

 

 

 

Ep # 23

 

صارم اپنے آدمیوں کے ساتھ واپس اس جگہ پر آیا تھا۔۔۔ وہ اپنی کار سے اترا تھا اور سامنے کا منظر دیکھ رہا تھا جہاں ایک کار نیچھے گر رہی تھی ۔۔ صارم کے چہرے پر مسکراہٹ نے جگہ لی تھی ۔۔ اور گرتے گرتے اس کار کو آگ لگی تھی۔۔ صارم کی مسکراہٹ گہری ہوئی تھی۔۔۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک زور دار دھماکہ سے کار بلاسٹ ہوئی تھی ۔۔۔  صارم کے چہرے کی مسکراہٹ اور گہری ہوئی تھی۔۔۔۔  جبکہ اس کا ایک آدمی اس منظر کو ریکارڈ کر رہا تھا۔۔

موت مبارک ہو بیسٹ ۔۔۔ صارم بلند آواز میں بولا تھا۔۔۔ اس کی آواز سے اس کی خوشی صاف ظاہر ہو رہی تھی ۔۔

صارم ہنستے ہوئے اپنی کار کی طرف بڑھا تھا۔۔ اس کو جلد اذ جلد یہ خبر جا کر اپنے باپ کو دینی تھی۔۔۔۔ وہ اب اپنی کار میں بیٹھ کر ادھر سے نکل چکا تھا۔۔ اور کچھ دیر میں وہ اپنے باپ کے سامںے تھا ۔۔

کدھر تھے تم اتنی دیر سے ۔۔۔ کنگ اس کو اندر آتا دیکھ کر بولا تھا۔۔۔ جبکہ اس کی ہنسی کنگ کو پریشان کر رہی تھی۔۔۔

کچھ نہیں آپ کے سب سے بڑے مسئلہ کا حل نکالنے گیا تھا۔۔۔ صارم مسکراتے ہوئے بولا تھا۔۔ اور اپنا ہاتھ اپنے ایک آدمی کی طرف بڑھایا تھا۔۔ جس نے اس کو فون پکڑیا تھا۔۔۔ صارم نے ویڈیو پلے کر کے کنگ کی طرف بڑھائی تھی۔۔

یہ دیکھیں ڈیڈ ۔۔ وہ فون کنگ کی طرف بڑھاتا بولا تھا۔۔۔ جبکہ کنگ ناسمجھی سے فون پر چلتے منظر کو دیکھ رہا تھا جس میں ایک کار گر رہی تھی ۔۔

کیا ہے یہ؟ کنگ صارم کی طرف دیکھتا بولا تھا ۔۔

غور سے دیکھیں یہ کار کس کی ہے۔۔ صارم ہنستا ہوا بولا تھا۔۔۔

کنگ نے دوبارہ وہ ویڈیو پلے کی تھی اور اب کی بار وہ اس ویڈیو کو  کافی گھور سے دیکھ رہا تھا جب اس کار کو غور سے دیکھنے پر کنگ نے بے یقینی سے صارم کو دیکھا تھا۔۔۔

یہ کار۔۔۔ کنگ حیرت سے بولا تھا۔۔۔

بیسٹ کی ہے۔۔۔ مبارک ہو ڈیڈ آپ کے راستے کا ایک کنٹا تو ہٹا دیا میں نے اب دوسرے کی باری ہے۔۔۔ صارم ہنستا ہوا بولا تھا۔۔۔

کب کیسے ۔۔۔ یہ سب ۔ کنگ کو مارے خوشی کے سمجھ ہی نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا بولے۔۔۔

بس ہو گیا ہے۔۔ صارم ہنستے ہوئے بولا تھا۔۔

مجھے بتاؤ تو سہی یہ ہوا کیسے ہے۔۔ کنگ صارم کو ہنستے ہوئے دیکھتے بولا تھا۔۔۔

وہ اپنے عالیشان سے محل سے جب باہر نکلا تھا مجھے میرے آدمیوں نے خبر دے دی تھی۔۔۔ موقع سے فایدہ اُٹھاتے اس پر گولیاں چلا دی۔۔ سیدھا سینے میں گولی ماری ہے اس کے۔ صارم مسکرا کر بولا تھا۔۔۔۔

بہت خوب بہت ہی خوب۔۔تم نے مجھے آج کے دن کی سب سے بڑی خبر دی ہے۔۔ اب اس کی بیوی کو اپنی رکھیل بنا کر اس کے سامنے بیسٹ کے مرنے کا  جشن مناؤ گا۔۔۔  کنگ خوشی سے جوش میں بولا تھا۔۔۔

ڈیڈ ایک بری خبر بھی ہے اس خوشی کی خبر کے ساتھ۔۔۔ صارم ہچکچاہٹ سے بولا تھا۔۔۔

کیسی بری خبر ۔۔ اس خوشی کہ خبر کے ساتھ کوئی بھی بری خبر ہو کنگ آج سن لے گا۔۔۔ کنگ ہنستے ہوئے بولا تھا۔۔۔

وہ لڑکی ساتھ مر گئی ہے۔۔۔ صارم ہمت کر کے بولا تھا۔۔۔

کیا بکواس ہے۔۔۔ صارم کی بات پر کنگ نے اس کو غصے سے دیکھا تھا۔۔

اس لڑکی کو ہم نے بے ہوش کرنے  لے لیے ٹرانکوئلائزر ڈارٹ گن کا یوز کی تھا تا کہ وہ بےہوش ہو جائے ۔۔تب ہی کیسی نے ہم پر حملہ کر دیا ۔۔ تو میں ادھر سے اپنے دو آدمیوں کے ساتھ بھاگا تھا جان بچا کر اور جب واپس ادھر گیا تو وہ کار مرگلہ ہیلز کی سڑک سے نیچھے گر رہی تھی۔۔۔ صارم ساری بات بتا چکا تھا۔۔ جبکہ کنگ اب کی بار اس کو غصے میں دیکھ رہا تھا۔۔۔

تمیں لگتا کے بیسٹ اس کار میں تھا۔۔۔ کنگ صارم کو غصے سے دیکھتا بولا تھا۔۔۔

اس کے سینے میں گولی ماری ہے میں نے۔۔ صارم مضبوط لہجے میں بولا تھا۔۔۔

مجھے وہ لڑکی چاہیے تھی صارم۔۔۔ کنگ غصے سے بولا تھا۔۔۔

آپ ایک لڑکی کی بات کر رہے ہیں ایک سے بڑھ کر ایک لڑکی آپ کے سامنے رکھ دوں گا۔۔صارم اپنے باپ کو افسوس کرتی نظروں سے دیکھتا بولا تھا۔۔

مگر ان میں وہ بات نہیں ہو گئی نہ۔۔ کنگ بےزار سا بولا تھا ۔۔۔

کیا بات نہیں ہو گئی۔۔۔ صارم ناسمجھی سے بولا تھا۔۔

تم نہیں سمجھو گے صارم۔۔ کنگ سرد آہ بھر کر رہ گیا تھا۔۔۔۔

•••••••••••••••

وہ رش ڈرائیو کر رہا تھا جب اس کے فون پر ایک پرائیویٹ نمبر سے میسج آیا تھا۔۔۔  ولف نے فوراً اس میسج کو اوپن کیا تھا۔۔۔

بیسٹ کو بچا لو۔۔۔ جزا کی فکر مت کرنا وہ میرے پاس ہے۔۔ اس میسج کو پڑھتے ساتھ ولف کا دل ڈوب کے ابھرا تھا۔۔ مطلب کچھ بہت غلط ہوا تھا۔۔۔

ولف نے فوراً لیو کو کال لی تھی۔۔۔ جو دوسری بل پر ہو پیک کر لی گئی تھی۔۔

کدھر ہو تم۔۔۔ ولف غصے سے بولا تھا۔۔۔

اپنے ساتھ چلتی کار کی طرف دیکھو۔۔۔ لیو کی آواز سپیکر پر سے گونجی تھی۔۔۔۔ ولف نے فوراً گردن موڑ کر دیکھا تھا۔۔۔ لیو کی کار اس کی کار کے ساتھ ہی تھی۔۔۔ ولف کال کاٹ چکا تھا۔ 

دو گاڑیاں ایک ساتھ روکی تھی ایک میں سے ولف نکلا تھا اور ایک میں سے لیو۔۔ اور وہ دونوں دیوانہ وار سڑک پر بھاگے تھے۔۔۔۔

بیسٹ ۔۔۔۔۔ الپائن ۔۔۔ لیو بلند آواز میں بولا تھا۔۔۔ مگر کوئی جواب نہ ملا تھا۔۔۔ اتفاق سے سڑک پر آج ایک دو گاڑیاں ہی گزر رہی تھی۔۔۔

الپائن محفوظ ہے لیو ہمیں بیسٹ کو بچانا ہے ۔ ولف آگے بڑھتے بولا تھا ۔ سڑک مکمل صاف تھی۔۔ کیسی کار کا کوئی ناموں نشان نہ تھا۔۔۔

ولف۔۔۔۔ لیو ایک طرف کھڑا بولا تھا۔۔ اس کی نظر نیچھے کی طرف تھی۔ جبکہ آواز میں درد اور تکلیف صاف محسوس کی جا سکتی تھی ۔۔

کیا ہوا ہے لیو۔۔۔ ولف اس کے پاس جاتا بولا تھا۔۔ جب لیو نے اپنی بھیگی ہوئی آنکھیں اٹھائی تھی۔۔۔

ادھر ۔۔۔ لیو نے ایک طرف اِشارہ کیا تھا ۔۔

ولف نے لیو کے اشارہ کی سیدھ میں دیکھا تھا ۔۔۔ اور سامنے کا منظر دیکھ کر اس سے اس کا پاؤں پر کھڑا رہنا دوبھر ہو گیا تھا ۔۔۔  اس کو لگا تھا کہ اس کو اگر کیسی نے بھی ہاتھ لگایا تو وہ ادھر ہی گر جائے گا ۔۔۔ ایک آنسوؤں اس کی پلکوں کا بندھ توڑ کر گرا تھا۔۔۔

نہیں ایسا نہیں ہو سکتا۔۔۔۔ یہ کار بیسٹ کہ نہیں ہو سکتی۔۔۔ ولف کو اپنی آواز خائی سے آتی لگی تھی۔۔۔ جبکہ لیو نیچھے اترنے کی کوشش کر رہا تھا۔۔۔

ولف مرے مرے قدم اٹھا کر  اگے بڑھا تھا۔۔۔ اس کی آنکھوں سے آنسوں متواتر بہہ رہے تھے ۔۔۔ وہ اب لیو کے ساتھ مل کر نیچھے اترنے کی کوشش کر رہا تھا۔۔ اور کچھ دیر میں وہ دونوں اس کار کے پاس تھے۔۔۔ جو مکمل تباہ ہو چکی تھی۔۔۔ 

بیسٹ ۔۔۔ ولف بھر آئی ہوئی آواز میں بولا تھا۔۔۔

ولف یہ کار۔۔۔ لیو کچھ بولنے لگا تھا۔۔۔

یہ کار خالی ہے۔۔۔ ولف نے پہلے اس کار کو غور سے دیکھا تھا اور پھر آس پاس نظر دوڑائی تھی۔۔۔۔

ہمیں اس پورے ایریا کو دیکھنا چاہیے۔۔ لیو ایک طرف بھاگا تھا اور بھاگتے ہوئے اپنے بھیگی ہوئی آنکھیں صاف کی تھی۔۔ جبکہ ولف بیسٹ کو دوسری طرف دیکھنے بھاگا تھا۔۔۔

بیسٹ کدھر ہو تم۔۔۔ لیو بلند آواز میں بولا تھا۔۔۔ جبکہ آنسو آنکھوں سے بہہ رہے تھے۔۔۔

بیسٹ کہاں ہو یار آواز دو۔۔۔ ولف  تیز چلتے ہوئے اچانک گرا تھا۔۔ اس نے موڑ کر دیکھا تھا اور اگلا سانس اس کی حلق میں ہی اٹیک گیا تھا۔۔ 

اس نے ہاتھ بڑھا کر اس وجود کے ادھر ہونے کو یقینی بنایا تھا ۔۔ جس کے سر سے خون نکل رہا تھا۔۔۔ شرٹ خون سے بھری ہوئی ہوئی تھی اور جگہ جگہ سے پہٹی ہوئی تھی۔۔۔ جیسے وہ  بہت بری طرح  سے گرا تھا ۔۔ چہرے پر ہاتھ پر جگہ جگہ خروچے آئیں ہوئی تھی۔۔۔

بیسٹ ۔۔۔ ولف نے آگے بڑھ کر اس کو اپنے حصار میں لیا تھا اور اس کے چہرے کو تھپتپایا تھا۔۔

بیسٹ آنکھیں کھولو۔۔۔ ولف اس کے چہرے کو دیوانہ وار تھپتھپا رہا تھا۔۔۔  ساتھ ہی وہ ہاتھ لگا کر اس کے زخم کو دیکھ رہا تھا جب اس کا ہاتھ اس کے سینے پر رکا تھا جہاں ایک سوراخ ہوا ہوا تھا ۔۔

لیو۔۔ ادھر او میری مدد کرو۔۔۔۔۔ ولف بلند آواز میں چلایا تھا۔۔

لیو فوراً ولف کی آواز پر اس کی طرف بڑھا تھا۔۔۔  مگر جب وہ اس کے پاس پہنچا تو سامنے پڑے وجود کر دیکھ کر ساکت ہو گیا تھا۔۔۔

بیسٹ ۔۔۔ وہ فوراً زمین پر اس کے قریب بیٹھا تھا۔۔۔

لیو اس کو میرے ساتھ اٹھاؤ ۔۔ کندھوں پر بازو پر اور سینے پر گولی لگی ہے۔۔ خون بہت بہہ چک ہے ہاسپٹل لے کر چلنا ہر گا۔۔۔ ولف بیسٹ کے وجود کو اپنے سہارے پر اٹھائے بولا تھا۔۔ جبکہ دوسری طرف سے لیو نے اس کو اپنے سہارے پر لیا تھا۔۔۔   وہ دونوں بہت مشکل سے بیسٹ کے نیم بےجان وجود کو اوپر لے کر ائے تھے ۔۔ اس کو کار کی بیک سیٹ پر ڈالا تھا اور ولف ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا تھا۔۔ جبکہ لیو اپنے کار میں جا کر بیٹھا تھا۔۔  اب وہ دونوں گاڑیاں تیز رفتار سے ادھر سے نکلی تھی۔۔۔

انہیں بیسٹ کو جلد اذ جلد ہاسپٹل لے کر جانا تھا۔ چند لمحوں کی دیر ناجانے اس کی سانسوں کے حق میں کیا فصلہ کر سکتی تھی۔  قدرت نے اس کی زندگی لکھی تھی یا وہ اپنی موت کے قریب تھا۔۔۔ کیا جزا اس کو کھو دینے والی تھی اس کا اصل جاننے سے پہلے ۔۔ آخر کیا لکھا تھا اس کا انجام ۔۔

••••••••••••••••

ڈاکٹر ۔۔۔۔۔۔ وہ شخص جزا کو اپنی باہوں میں اٹھائے ہاسپٹل میں داخل ہوا تھا۔۔۔

ایک ڈاکٹر اس کے پاس آئی تھی۔۔ جزا کو فوری توڑ پر سیچڑ پر ڈالا گیا تھا۔۔۔

سر یہ ہمیں  پہلے پولیس کو انفورم کرنا پڑے گا کیونکہ مرڈر کیس ہے آپ کو پولیس کو بولنا ۔۔۔ وہ ڈاکٹر کچھ بولنے لگی تھی۔۔۔

کیا اب بھی پولیس کی ضرورت ہے؟؟ اس شخص نے اپنی جیب سے اپنا والٹ نکلا تھا اور اس کو کھول کر اس  ڈاکٹر کے سامنے کیا تھا۔۔۔

ان کو جلدی سے اوپریسشنن تھیٹر میں لے کر چلو۔۔۔ وہ ڈاکٹر جزا کو اوپریسشنن تھیٹر میں بھیجتی اس شخص کی طرف موڑی تھی۔۔

ہم اپنی ہر ممکن کوشش کریں گے ان کو بچانے کی۔۔۔ وہ اپنے پروفشنل انداز میں بولی تھی۔۔۔

ہر ممکن نہیں آپ کو اس کو بچانا ہو گا۔۔۔ وہ شخص ایک ایک لفظ پر زور دیتا بولا تھا۔۔۔

اوپریسشنن تھیٹر کی سرخ لائیٹ چل گئی تھی اور دروازہ بند کر دیا گیا تھا۔۔۔ جزا کا علاج شروع ہو چکا تھا۔۔۔ وہ شخص باہر ایک چیر پر بیٹھ گیا تھا۔۔ اور سر اس نے ہاتھ میں گرا لیا تھا۔۔ اس کی سنہری آنکھیں میں سرخی دور آئی تھی۔۔۔ اس کی آنکھوں میں تکلیف صاف نظر آ رہی تھی۔۔ اپنی جیب سے اس نے فون نکلا تھا۔۔ اور میسج اوپن کئے تھے۔۔۔ ایک نمبر پر کلیک کرتے کرتے روکا تھا۔۔۔ آنکھ سے ایک آنسوؤں نکل کر فون کی سکرین پر گرا تھا۔۔۔  فون کی سکرین اوف کر کے وہ فون واپس اپنی جیب میں ڈال چکا تھا۔۔۔۔

•••••••••••••••••

اوپریشن تھیٹر میں وہ وجود سچیڑ پر پڑا تھا۔۔۔ ڈاکٹر کا ایک پورا عملہ اس کے اردگرد  کھڑا تھا۔۔ اس کا سفید چوڑا سینا اس وقت بغیر کیسی شرٹ کے تھا۔۔۔ ایک ڈاکٹر نے کوٹن سے اس کی گردن پر لگا خون صاف کیا تھا۔۔ اس کا سیاہ چھوٹا سا تل اس کی سفید بےداغ گردن پر چمکا تھا۔۔۔

ایک ڈاکٹر نے اس کی انکھ کو تھوڑا سا کھولا تھا۔۔۔  اور لینز  ٹیوزیر کی مدد سے اس کی دونوں آنکھوں میں سے کچھ نکالا تھا۔۔۔

ڈاکٹر بلڈ بہت زیادہ ویسٹ ہو گیا ہے۔۔۔۔ ایک ڈاکٹر اپنے سینر سے بولا تھا۔۔۔

جلدی سے بلڈ بینک سے بلڈ منگواو ۔ ڈاکٹر اس کے انیسھیسز دیتے ہوئے بولا تھا۔۔۔  ایک ڈاکٹر باہر نکلا تھا جب ولف اور لیو اپنی اپنی جگہ سے اٹھے تھے۔۔۔

وہ ٹھیک ہے ۔۔ ولف بےچینی سے بولا تھا۔۔۔

خون بہت زیادہ نکل چکا ہے آپ بہت دیر سے ان کو لے کر آئیں ہیں ۔۔ ہم اپنی کوشش پوری کر رہے ہیں ۔۔ کیونہ ان کے بچنے کے چانس کم ہیں ۔۔ فلحال ہمیں بلڈ کی ضرورت ہے۔۔ اور ان کے سر پر بہت بری طرح سے پتھر بھی لگا ہے۔۔ ان کی کنڈیشن بہت بری ہے اس وقت۔۔۔ یہ کہہ کر وہ ڈاکٹر ادھر سے چلا گیا۔۔۔

جبکہ لیو اپنے ہاتھ میں سر گرا کر بیٹھ گیا تھا اس کی آنکھوں سے آنسوں نکل کر زمین پر گر رہے تھے جبکہ اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ اور ولف اس کے الفاظ اس کے منہ میں ہی دم توڑ گئے تھے۔۔۔ اس سے کھڑا رہنا مشکل ہو گیا تھا۔۔۔ جو بھی تھا وہ اس کا  دوست تھا ایک ایسا دوست جو اس کے لیے بھائیوں سے بڑھ کر تھا۔۔ اور جب ایسے دوستوں پر مصیبت آتی ہے تو دل بے چین ہوتا ہے۔۔ مگر یہاں تو اس کا وہ بھائیوں جیسا دوستوں زندگی اور موت کے دوراہے پر تھا۔۔۔ اور وہ کچھ نہیں کر سکتا تھا۔۔ بےبسی کس کو کہتے ہیں کوئی آج ولف سے پوچھتا۔  ولف بس زمین پر بیٹھتا چلا گیا تھا۔۔۔

انسو اس کی آنکھوں سے گرنے لگے تھے۔۔ ایک سسکی اس کے لبوں سے نکلی تھی ۔۔ اور پھر وہ روتا چلا گیا تھا۔۔۔ لیو نے اپنے نم آنکھیں اٹھا کر اس کو دیکھا تھا۔۔۔ ولف اپنا سر ہاتھ میں گرائے روتا چلا جا رہا تھا۔۔۔ لیو میں اتنی ہمت بھی نہ تھی کہ وہ اٹھ کر اس کو دلاسہ دیتا۔۔ اندر زندگی اور موت سے لڑتا وجود ان سب کے لیے زندگی کی مانند تھا۔۔ اس کے بغیر وہ لوگ کچھ نہ تھے اس کو کچھ ہو جاتا تو پھر کچھ نہ بچتا تھا پیچھے۔۔۔

ولف۔۔۔ لیو کانپتی آواز میں بولا تھا۔۔۔

مجھے بس ایک بار ایک بار ۔۔۔ کوئی آ کر یہ کہہ دے ۔۔۔ اس کو کچھ نہیں ہو گا۔۔ مجھ سے قسم لے لو اس کے بعد۔۔۔  وہ شخص مجھے بہرا ہونے کا بولے میں دنیا کی ہر آواز  کے لیے بہرا ہو جاؤ گا۔۔ مجھے بس اس کی زندگی کی نوید سنا دے کوئی ۔۔۔ولف روتے ہوئے بولا تھا۔۔۔  جبکہ اس کی بات پر لیو کی آنکھیں مزید آنسوؤں سے بھر گئی تھی۔۔۔

ولف ہم سے غلطی ہو گئی ہمیں اس کو اکیلے نہیں جانے دینا چاہیے تھا۔۔۔ لیو روتے ہوئے بولا تھا۔۔۔

اس  کو کچھ بھی ہوا میں انڈر ورلڈ کو آگ لگا دوں گا۔۔ ولف اپنے آنسو صاف کرتا بولا تھا۔۔۔  اور ساتھ ہی اس نے کانپتے ہاتھوں سے فون نکلا تھا ۔۔

•••••••••••••••••••

وہ اپنی آنکھیں کھولنے کی کوشش کر رہا تھا۔۔ جبکہ سر میں درد اٹھتا محسوس ہوا تھا ۔۔۔ وہ آنکھیں کھولے آس پاس کے ماحول کو سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا۔۔۔ اس کو بہت اچھے سے یاد تھا وہ ولف کو کال کر کے ابھی ہٹا ہی تھا۔۔ جب اس کے سر میں کچھ لگا تھا۔۔ اور اس کے بعد اس کو کچھ نہیں پتا تھا۔۔ رحیان نے نظریں نیچھے کر کے اپنے ہاتھ اور پاؤں کو دیکھا تھا ۔ جو اس وقت کرسی سے باندھے ہوئے تھے۔۔۔

کوئی ہے یہاں ۔۔ مجھے کیوں باندھ رکھا ہے ادھر۔۔۔ رحیان غصے سے بولا تھا۔۔۔ وہ اس وقت ایک چھوٹے سے کمرے میں تھا جس میں صرف ایک چھوٹا سا بلب جل رہا تھا۔۔۔

اگلے ہی لمحے اس کی سماعت سے کیسی کے قدموں کی آواز ٹکرائی تھی۔ جبکہ رحیان نے حیرت سے سر اٹھا کر آنے والے کو دیکھا تھا۔۔ اور اس کے بعد اس کا چہرہ بلکل سفید پڑ گیا تھا ۔۔۔ اور آنے والا اس کے سامنے رکھی کرسی ہر ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر بیٹھ گیا تھا۔۔

میں ایت لکرسی پڑھ لوں۔۔ اس شخص کو دیکھ کر رحیان بس اتنا ہی بول پایا تھا۔۔۔ کیونکہ سامنے بیٹھے ہوئے شخص کی ایش گرے آنکھیں اس کو خطرے کا صاف بتا رہی تھی ۔۔

بیٹا فاتحہ بھی پر لو۔۔۔ سامنے بیٹھا شخص اطمینان سے بولا تھا۔۔ جبکہ رحیان کا رہا سہا سکون بھی غارت ہوا تھا۔۔۔

ابراہیم انکل ۔۔ مجھے یہاں کیوں باندھ رکھا ہے ۔۔ رحیان تھوک نگلتا بولا تھا۔۔

پانچ بھیڑیوں کی ٹولی بے لگام ہوئی پڑی ہے ۔۔ سوچ رہا ہوں اب ان کی لگام کھینچ لوں۔۔۔ ابراہیم صاحب اپنی گن نکلتے بولے تھے۔۔۔

شاید اپ نے ہی سمجھایا تھا بھیڑیوں کو لگام نہیں ڈالی جاتی۔۔ رحیان ان کو دیکھتا بولا تھا۔۔۔

لیکن اولاد کو تو ڈالی جا سکتی ہے نہ؟ ابراہیم صاحب نے رحیان کو سخت نظروں سے دیکھا تھا۔۔ رحیان پریشانی سے ابراہیم صاحب کو دیکھ رہا تھا۔۔

تم جس سے بات کر رہے تھے کون تھا وہ؟؟ ابراہیم صاحب اس کو گھورتے ہوئے بولے تھے ۔۔

ک۔۔۔ کب۔۔۔ ؟ رحیان بامشکل بولا تھا۔۔۔

تم بہتر جانتے ہو۔۔ ابراہیم صاحب نے اس کے سامنے اس کا فون رکھا تھا۔۔۔ جس پر ایک نمبر ولف کے نام سے سیو تھا ۔۔

وہ۔۔۔ می۔۔ میں۔۔۔ رحیان نے کچھ بولنا چاہا تھا ۔۔۔

جھوٹ بولنے سے پہلے سو بار سوچ لینا رحیان آغا ۔۔ ابراہیم صاحب نے اس کے سامنے کچھ تصویریں رکھی تھی۔۔۔ جبکہ ان تصویروں کو دیکھ کر رحیان نے ابراہیم صاحب کو بے یقینی سے دیکھا تھا۔۔۔

یہ میرے پاس سوفٹ فارم میں بھی ہیں ۔۔ اگر تم نے جھوٹ بولا تو سب تصویریں تمہاری ماں کے پاس ہوں گئی۔۔ کے جس بیٹے کو وہ نکما سمجھتی ہیں اصل میں اپنی ہی ماں سے چھپ کر وہ ائی اس ائی ایجینٹ بنا ہے۔ اور ایک ایجنٹ ہونے کے بعد بھی تمہاری ایسی حرکتیں ہیں۔۔۔ باقی تم خود سوچ لو تمہارا انجام کیا ہو گا۔۔۔ یہ کہہ کر ابراہیم صاحب نے کچھ اور تصویر اس کے سامنے رکھی تھی جس میں وہ بیسٹ کے ساتھ تھا ۔۔

انکل میری ۔ رحیان نے کچھ بولنا چاہا تھا۔۔

رحیان سچ بولنا ورنہ لحاظ نہیں رکھوں گا کہ تم میری منہ بولی بہن کے بیٹے ہو۔۔۔ اور جو تمہارے ساتھ کروں گا یاد رکھو گے تم۔۔ بتاؤ مجھے بیسٹ کون ہے۔۔ اور تم ولف سے کیا بات کر رہے تھے۔۔۔ ابراہیم صاحب نے اس کو وارننگ دیتی نظروں سے دیکھا تھا۔۔جبکہ اب کی بار رحیان بس رو دینے کو تھا۔۔ کیونکہ وہ بہت برا پھنسا تھا۔۔۔

وہ میں ولف کو یہ بتا رہا تھا کہ بیسٹ کی جان کو خطرہ ہے۔۔ رحیان بس اتنا بولا تھا۔۔۔

شاید میں نے یہ بھی پوچھا ہے بیسٹ کون ہے۔۔ ابراہیم صاحب نے اس کو سخت نظروں سے دیکھا تھا۔۔

میں اب وہ نہیں بتا سکتا ۔۔ رحیان نے اپنا سر جھکا لیا تھا۔۔

تم مجھے بتا رہے ہو یا باقی سب نمونے بھی اکٹھے کروں میں ۔ ابراہیم صاحب غصے میں ایک ایک لفظ چبا چبا کر بولے تھے۔۔۔

انکل پہلے میرے ہاتھ پاؤں تو کھول دیں بتاتا ہوں نہ۔۔ رحیان رحم طلب نظروں سے ان کو دیکھ کر بولا تھا۔۔۔

پہلے بتاؤ ۔۔ ابراہیم صاحب بھی اپنے سوال پر اٹکے ہوئے تھے۔۔۔

اور جو نام رحیان نے ابراہیم صاحب کو بتایا تھا وہ سن کر ابراہیم صاحب حیرت سے اپنی جگہ سے اٹھے تھے۔۔ ان کو یقین ہی نہیں آ رہا تھا ۔ اس کے بعد وہ رحیان کی ساری بات سنے کے بعد ان کے لیے ان کے قدموں پر کھڑے رہنا مشکل ہو گیا تھا۔۔۔

وہ ابھی کدھر ہے؟؟ ابراہیم صاحب بامشکل بولے تھے۔۔

نہیں پتا انکل کچھ بھی نہیں پتا میں یہ بھی نہیں جانتا وہ ٹھیک ہے کہ نہیں اس کو کچھ ہوا تو نہیں ۔۔۔۔ رحیان بیچارگی سے بولا تھا۔۔۔

•••••••••••••••••

اوپریشن تھیٹر کی سرخ لائیٹ بند ہو گئی تھی۔۔ ایک ڈاکڑ باہر نکلی تھی اس نے اپنے چہرے پر لگا ماسک اتارا تھا۔۔۔

ڈاکٹر وہ کیسی ہے ۔۔۔ وہ سنہری آنکھوں والا فوراً ڈاکٹر کے پاس گیا تھا۔۔ اس کی آنکھوں میں ابھی بھی ہلکی ہلکی سرخی تھی۔۔۔

فلحال ہم کچھ کہہ نہیں سکتے گولیاں لگنے سے خون بہت زیادہ نکلا ہے۔۔ اور ساتھ بےہوش کرنے کے لیے جو ڈاگز یوز ہوا تھا اس نے بہت زیادہ اثر کیا ہے۔۔ اگلے چوبیس گھنٹے میں ہوش آنا ضروری ہے۔۔ ڈاکٹر پروفشنل انداز میں بولی تھی ۔۔

ڈاکٹر پلیز کچھ بھی کریں اس کو کچھ نہیں ہونا چاہیے ۔۔۔ وہ شخص بےبسی سے بولا تھا۔۔۔

ہمارا کام علاج کرنا تھا ہم نے کر دیا ہے اب شفا دینا اور زندگی دینا اس مالک کے ہاتھ  میں ہے ۔۔ڈاکٹر یہ کہہ کر ادھر سے چلی گئی تھی۔۔

جبکہ وہ شخص ایک بار پھر بےبسی سے کرسی پر بیٹھ گیا تھا ۔۔ اس کا دل اگے ہی کیسی کو کھو دینے کے ڈر سے تڑپ رہا تھا۔۔ جبکہ دوسری طرف ایک  شخص کی امانت کی زمیداری اس کو دے دی گئی تھی ۔۔

••••••••••••••

خیر تو ہے کنگ آج بہت خوش لگ رہیں ہیں۔۔ عثمان صاحب میٹنگ روم میں آتے ہوئے بولے تھے ۔۔ جبکہ ان کے پیچھے ہی اکرم صاحب ، عمران صاحب ، شہزاد ، نواز اور نوریز تھے ۔۔۔ جن کو کنگ نے افراتفری میں بولیا تھا۔۔

تم سب کو ایک اہم خبر دینی تھے ۔۔ کنگ مسکراتے ہوئے بولا تھا۔۔

کیسی خبر کنگ۔۔ عمران صاحب کو کنگ کی خوشی ہضم نہ ہوئی تھی ۔

بیسٹ مر گیا ہے۔۔ کنگ ایک دم سے بولا تھا ۔۔

جبکہ کنگ کہ بات پر سب نے بے یقینی سے کنگ کی طرف دیکھا تھا۔۔ جیسے تصدیق چاہا رہے ہوں ۔۔۔

نہیں یقین آیا نہ۔۔ مجھے بھی نہیں آیا تھا۔۔۔ کنگ ہنستے ہوئے بولا تھا۔۔۔

بیسٹ کیسے مر گیا کنگ۔۔ اکرم صاحب حیرت سے بولے تھے ۔۔

مرا نہیں مارا گیا ہے۔ اور میں نے مارا ہے اس کو۔ اب کی بار صارم بولا تھا۔۔۔ جبکہ کنگ نے صارم کو فخریہ نظر سے دیکھا تھا ۔۔

کیسے ۔۔۔ وہ سب ایک ساتھ بولے تھے۔۔۔

گولی اس کے سینے میں مار کر ۔۔ صارم ہنستے ہوئے بولا تھا۔۔۔ اور پھر ہنستا چلا گیا تھا۔۔ اور ساتھ ہی اس نے ایک ویڈیو ایل سی ڈی پر پلے کی تھی۔۔۔ اور سامنے پلے ہوتا منظر دیکھ  سب ہنس رہے تھے مگر ایک شخص ان سب میں ایسا تھا جس کو دم ان سب کے قہقہوں سے گھوٹ رہا تھا ۔۔

مبارک ہو کنگ اصل جشن تو اب بنتا ہے۔۔۔ عثمان صاحب ہنستے ہوئے بولے تھے۔۔۔

ایسا ویسا جشن ۔ اتنا کمال کا جشن ہو گا۔۔ کہ دنیا دیکھے گئی۔۔۔ کنگ ہنستے ہوئے بولا تھا۔۔۔

مگر اب یہ جشن ہو گا کب۔۔۔  صارم نے اب کی بار پوچھا تھا ۔۔

تمہاری برتھ ڈے پارٹی پر۔۔۔ کنگ صارم کو دیکھتا بولا تھا ۔

مگر میری برتھ ڈے پارٹی پر ہی کیوں ؟؟  صارم نہ سمجھی سے بولا تھا۔۔۔

کیونکہ کچھ خاص ہے اس دن ۔۔۔ کنگ کے چہرے سے ہنسی جدا نہ ہو رہی تھی آج۔۔

مگر اس میں ابھی بہت وقت ہے ڈیڈ ۔۔۔  صارم منہ بنا کر بولا تھا۔

تو کوئی بات نہیں ہم انتظار کر لیں گے نا۔۔ کنگ ہنستے ہوئے بولا تھا۔۔

ویسے صارم کمال کا کام کیا ہے تم نے۔۔ اب کی بار نواز صارم کو داد دیتی نظروں سے دیکھتا ہوا بولا تھا۔۔۔

بس کبھی غرور نہیں کیا یار ۔۔ صارم نے سر فخر سے بلند کیا تھا۔۔۔ جبکہ اس کی اس بات پر ایک جاندار قہقہہ پورے میٹنگ روم میں گونجا تھا۔۔

میری بات سنو ۔۔ اٹلی  سے کارامد اسلحہ اور ڈرگز آ رہا ہے پاکستان  اور اس کو وقت پر لینا ہے تو ہر صورت تیار رہنا۔ اورپارٹی کو جاندار بنانے کے لیے کچھ لڑکیوں کا بندوبست کرو مگر یاد رکھنا لڑکیاں نئی ہوں۔۔۔ کیونکہ وہ ہماری پارٹی کی رونق بنے گئی ۔ کنگ ایک سگار کو سلگھاتے بولا تھا۔۔

اسلحہ اور ڈرگز کب تک اسمگل ہو گا ۔۔ اب کی بار شہزاد بولا تھا۔۔

دو ماہ کا وقت لگ جائے گا ان کو پاکستان میں اسلحہ پہنچانے میں ۔ اور یہ سب کراچی کی بندرگاہ سے شہزاد نواز اور صارم اکھٹا کریں گے۔ جبکہ کراچی سے اسلام آباد ان کو نوریز لے کر آئے گا اپنی نگرانی میں ۔  کنگ ان سب کو ہر بات کلیر کر رہا تھا۔۔

مگر کنگ راستے میں جو چیکنگ وغیرہ ہے اس کا کیا۔ نوریز کچھ پریشان سا بولا تھا۔۔

چیکنگ ہو بھی گئی تو کون سا پتا چلنا ہے۔۔ کنگ ہنستے ہوئے بولا تھا۔۔

کیا مطلب ؟ نوریز ، نواز ، شہزاد ،صارم چاروں سیدھے ہو کر بیٹھے تھے۔۔

مطلب یہ کہ اسلحہ بچوں کے کھلونوں کے طور پر آئے گا اوپر اصلی کھولنے ہوں گے۔ اور نیچھے اصلی اسلحہ ۔ اور ڈرگز کنڈیز کے پیکٹ میں آئیں گئی ۔۔ کیسی کو شک بھی نہیں ہو گا۔۔ اور باقی پولیس کا معاملہ بھی دیکھ لوں گا۔ کنگ ہنستے ہوئے بولا تھا۔۔

کیا دماغ پایا ہے ڈیڈ ۔۔ صارم ہنستے ہوئے بولا تھا۔۔

وہ لوگ اب مستقبل میں کیے جانے والے سب کاموں کو ڈیسکس کر رہے تھے۔۔ مگر آنے والے کل کو کون جانتا ہے۔ کس نے دیکھا ہے آنے والا کل۔ آج جو ہم کل کے لیے سپنے سجا رہے یہ جانے بغیر کے کل میں وہ سپنے پوریں ہوں گے بھی کہ نہیں ۔

انسانی فطرت ہے وہ آج میں رہ کے کل کا سوچتا ہے وہ بھی کل کا جانے بغیر کے اس کی زندگی کا کل اس کے لیے سکون ہے یا اس کے لیے کوئی آزمائش ہے۔۔ اور اس کل کی فکر  اور خوشی میں انسان آج کو ہی نظر انداز کر جاتا ہے۔ کچھ لوگ آج کو ضائع کرنے کے بعد کل کو کامیابی کی امید دیکھ رکھتا ہے۔ اور کچھ لوگ آج کیسی کی زندگی عذاب کر کے تباہ کر کے کل کو اپنے لیے ایک پرسکون اور پر آسائش لمحے کے طلب گار ہوتے ہیں یہ جانے بغیر کے دنیا مکافات ہے آج جو کرو گے کل وہ ہی پا لو گے بیشک دیر سے پاؤ مگر مکافات سے سامنا ضرور ہو گا۔۔

•••••••••••••••

کافی وقت ہو گیا تھا ڈاکٹر ابھی تک اس کے اردگرد کھڑے اس کا علاج کر رہے تھے۔۔ ان سب کے گلوز خون سے بھرے ہوئے تھے۔۔  جبکہ ولف اور لیو ایسے ہی باہر بیٹھے تھے خاموش بلکل ۔۔ جیسے کوئی ان کے منہ سے زبان لے گیا ہو۔ جب ایک ڈاکٹر اوپریشن تھیٹر سے باہر آیا تھا۔۔

کیا آپ میں سے کیسی کا خون اےبی نیگٹو ہے۔ وہ ڈاکٹر پریشانی میں بولا تھا۔۔

نہیں ڈاکٹر۔۔ولف فوراً بولا تھا۔۔

دیکھیں ہمیں جلد از جلد اےبی نیگٹو کا ڈونر چاہیے ہے۔ ورنہ ان کا بچانا مشکل ہو جائے گا کیونکہ بینک میں موجود اےبی نیگٹو یوز ہو گیا ہے اور اس بلڈ گروپ کا ڈونر ڈھونڈنا مشکل ہے۔۔ ڈاکٹر یہ کہہ کر واپس چلے گئے تھے۔۔ مگر ولف اور لیو پیچھے خاموش کھڑے رہ گئے تھے۔۔۔۔ اس خاموشی کو ولف کے فون کی بل نے توڑا تھا۔۔ نمبر دیکھ کر اس نے ایک نظر سامنے کمرے کو دیکھا تھا اور پھر لیو کو۔۔

اٹھا لو ولف ۔۔۔ لیو بس اتنا بول سکا تھا۔۔

ہمت نہیں ہے لیو۔۔ ولف ہارے ہوئے انداز میں بولا تھا۔۔۔ جبکہ اس کا فون بج بج کر بند ہو گیا تھا ۔ اور اب پھر سے کال آ رہی تھی۔۔

ولف ان کا حق ہے جاننے کا۔۔  لیو یہ بول کر اپنی جگہ سے اٹھ گیا تھا۔۔ جبکہ ولف نے کال اٹھا لی تھی۔۔

ہیلو ۔۔ وہ اپنی آواز کی لرزش کو قابو کرتے بولا تھا۔۔۔

کدھر ہو۔  مختصر سا سوال کیا گیا تھا مقابل کی طرف سے۔۔

ہاس ۔ ہاسپٹل میں ۔۔۔ ولف کو لگا تھا اس کی آواز گلے میں دب جائے گئی۔ جبکہ دوسری طرف ایک لمبی خاموشی نے جگہ لی تھی۔۔

وہ ۔۔ ٹھ۔۔ٹھیک ۔۔ ہے؟ ۔۔ مقابل بامشکل یہ الفاظ آدا کر پایا تھا ۔۔

نہ۔۔۔ نہیں ۔۔۔ ولف کو لگا تھا وہ اب اس سے زیادہ نہیں بول پائے گا۔۔ جبکہ اس کی الفاظ نے مقابل کی خاموشی کو اور گہرا کیا تھا ۔

کی۔کیا۔۔ ہو۔۔ہوا ہے ۔ مقابل کی آواز آج شاید پہلی بار کانپی تھی ۔ پہلی بار اس آواز میں لرزش تھی درد تھا ڈر تھا۔۔ وہ جس آواز میں رعب بولتا تھا وہ آواز آج کانپ رہی تھی۔۔

س۔۔سر ۔۔۔پتھر سے ۔۔ لگا۔۔ ہے۔۔ گ۔۔گولی۔۔ باز۔۔بازو۔۔ دونوں ۔۔کن۔۔کندھوں۔اور۔۔۔ اس سے زیادہ ولف سے بولا نہ گیا تھا۔۔۔ اس کی آنکھوں سے آنسوں گرنے لگے تھے۔۔ سینے میں شدید درد اٹھا تھا۔۔۔ حلق میں جیسے کانٹے پھس گئے تھے۔۔

او۔۔اور۔۔ مقابل کی بےچین آواز نے ولف کے رونگٹے کھڑے کر دیے تھے وہ سر جھکا گیا تھا وہ کیسے بتا تا کے گولی اور کہاں لگی ہے یقیناً وہ الفاظ مقابل پر پہاڑ توڑ دیتے۔۔

م۔میں کچھ۔۔ پوچھ رہا ہوں۔۔ مقابل اپنے لہجے کو نارمل کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے بولا تھا۔۔۔

س۔ سی۔ سینے میں ۔۔ لگی ہے ۔۔گولی۔۔ یہ صرف اللہ جانتا تھا کہ ولف نے یہ الفاظ کیسے بولے تھے۔ اس کا دل کتنی بار کٹا تھا یہ بولتے وقت ۔۔

جبکہ ولف کے یہ الفاظ سن کر مقابل  کے ہاتھ سے فون گرا تھا۔۔  اور فون کے گرنے کی آواز ولف نے سنی تھی۔۔ اس کے ساتھ ہی کال کٹ گئی تھی۔۔ جبکہ ولف اپنا سر ایک بار پھر سے ہاتھ میں گرا چکا تھا۔۔  اس نےسر اٹھا کر اوپریشن تھیٹر کو دیکھا تھا جس کی سرخ لائٹ پچھلے کچھ گھنٹوں سے چل رہی تھی۔۔

••••••••••••••••

وہ شخص خاموشی سے جزا کے کمرے میں داخل ہوا تھا ۔ جہاں وہ ڈریپس اور دوائیوں کے ذریعے اکثر بے ہوش تھی۔۔۔  ڈاکٹر  نے اس کو چوبیس گھنٹے کا وقت دیا تھا۔۔ مگر ابھی ایک گھنٹا بھی نہیں ہوا تھا۔۔

جب ایک شخص اندر داخل ہوا تھا۔۔ اور ان سنہری آنکھوں والے نے موڑ کر اس کو دیکھا تھا۔۔۔

سر پلین تیار ہے۔ اور دبئی میں ڈاکٹر بھی مل گئی ہے میم کے علاج کے لیے۔ وہ آدمی سر جھکائے بولا تھا۔۔

گڈ ہمیں ابھی نکلنا ہو گا ادھر سے ۔۔ وہ  مدہم لہجے میں بولا تھا۔۔ جبکہ کے وہ خاموش نظروں سے جزا کے زرد پڑے چہرے کو دیکھ رہا تھا۔۔ نہ جانے کتنے سوال تھے جو اس کے دماغ میں اس وقت موجود تھے۔۔ کتنی سوچیں تھی جو اس کے اصحاب پر سوار تھی ۔۔

اس نے آگے بڑھ کر جزا کے جسم پر لگی ڈریپس احتیاط سے اتاری تھی اور پھر اس کو ایک اور سٹریچر پر ڈال کر اس کو بہت احتیاط سے روم سے لے کر نکلا تھا۔۔۔  اس وقت اون ڈیوٹی ڈاکٹر ادھر مجود نہیں تھی تبھی وہ  اس وقت کا فائدہ اٹھائے جزا کو آسانی سے ہاسپٹل سے لے کر نکلا تھا۔۔۔

وہ ہر قدم بہت احتیاط سے اٹھا رہا تھا اس کی ایک غلطی بہت  بڑی مصیبت بن سکتی تھی۔۔ اس نے ایک پرائیویٹ ایمبولینس کا ارینج پہلے ہی کر لیا تھا۔۔ جزا کو اس ہاسپٹل سے نکل کر اس ایمبولینس میں ڈال کر وہ اس ایمبولینس کو بھیج چکا تھا ۔ اور اب اپنی کار میں جا کر بیٹھا تھا ۔۔

کس مشکل میں پھیسا دیا ہے مجھے تم نے ۔۔نہ میں تمہارے پاس آ سکتا ہوں نہ تمہاری امانت کو تنہا چھوڑ سکتا ہوں۔۔ اس نے سر ڈرائیونگ سیٹ کی پشت سے ٹکا لیا تھا۔۔  گلے میں جیسے کچھ چبا تھا۔۔ وہ رونا نہیں چاہتا تھا مگر آنسو آنکھوں سے نکلے تھے۔۔

زندگی اتنی عجیب کیوں ہو گئی ہے۔۔ کیوں آج مجھے اپنی مجبوری سے نفرت ہو رہی ہے۔۔ میں تمہارے پاس آنا چاہتا ہوں بیسٹ ۔۔ مگر تمہاری امانت کو تنہا نہیں چھوڑ سکتا ۔۔ وہ بے بسی سے بولا تھا۔۔

•••••••••••••

ولف بلڈ ارینج ہو گیا ہے ۔ لیو ولف کے پاس آتا بولا تھا۔۔ جبکہ اس کا سانس مکمل پھولا ہوا تھا۔۔

کدھر ہے ڈونر ۔۔ ولف بےچینی سے بولا تھا۔۔

ڈونر نہیں ملا مگر ایک بلڈ بینک سے اےبی نیگٹو بلڈ مل گیا ہے وہ ڈاکٹرز کو دے دیا ہے۔۔ لیو ولف کو دیکھتا بولا تھا۔۔

شکر الحمدللہ ۔۔ ولف اپنی جگہ پر پھر سے بیٹھا تھا۔۔

ڈاکٹر نے کچھ بتایا ہے ۔ لیو اس کے پاس بیٹھتا بولا تھا۔۔

فلحال کچھ کہا نہیں جا سکتا لیو۔۔ وہ زندگی اور موت کے بھیچ ہے لیو۔۔ جسم سے خون بہت نکلا ہے اور دیر سے پوچھنے کی وجہ سے گولیوں سے کچھ انفیکشن ہو گئی ہے۔۔ ولف بے بسی سے بولا تھا۔۔

میرا بس نہیں چل رہا کے مجھے اس شخص کا پتا چلے جس نے یہ سب کیا ہے میں اس کو جان سے مار ڈالوں ۔۔ لیو اپنے غصے کو قابو کرتا بولا تھا۔۔

پتا نہیں جزا کس حال میں ہے۔۔ ولف سر میں ہاتھ پھیرتا بولا تھا۔۔

اور میں سوچ رہا ہوں کہ اگر اس نے ہوش میں آنے کے بعد بیسٹ کا پوچھا تو ۔ لیو نے ایک اور تلخ حقیقت کا آئینہ سامنے رکھا تھا جبکہ ولف اپنی آنکھیں سختی سے بند کر چکا تھا۔۔

اس لڑکی نے آگے اپنا سب کچھ کھو دیا ہے لیو ۔۔ وہ یہ برداشت نہیں کر پائے گئی اس کو سنبھالنا مشکل ہو جائے گا۔۔ ولف بھیگے لہجے میں بولا تھا۔۔

میرا دل کہتا ہے بیسٹ کو کچھ نہیں ہو گا۔۔ لیو ایک امید سے بولا تھا۔۔

وہ دونوں  ایسے ہی بات کر رہے تھے جب آپریشن تھیٹر کی لائیٹ اوف ہوئی تھی اور سب ڈاکٹر باہر آئے تھے۔۔

ڈاکٹر وہ ٹھیک ہے؟ ولف فوراً بے چینی سے بولا تھا۔۔

جبکہ ڈاکٹر بکل خاموش کھڑا تھا۔۔ اور جب وہ بولا تو ولف اور لیو کے لیے اپنے قدموں پر کھڑے رہنا مشکل ہو گیا تھا۔۔۔

•••••••••••

یہ کس کا گھر ہے اور اس نے ہمیں ادھر کیوں بولیا ہے۔۔ وافیہ (للی) سوالیہ نظروں سے اس انجان جگہ کو دیکھتے بولی تھی۔ اس نے وائیٹ کلر کا کرتا اور ٹروزار پہن رکھ تھا اور کرتے پر بنے ریڈ کلر کے نفیس سے ڈیزائن سے ملتا ڑیڈ کلر کا دوپٹہ لے رکھا تھا ۔۔

پتا نہیں بیٹا ۔۔۔مگر میرا دل پریشان ہو رہا ہے کہ سب ٹھیک ہو کیونکہ میں نے اس کی آواز میں پریشانی کو صاف محسوس کیا ہے۔۔ مزمل بیگم فکر مندی سے بولی تھی۔۔

اللّٰہ کرے ۔ وافیہ کو بھی اب کہ بار فکر ہوئی تھی۔۔ مگر پھر اس کے ذہین پر اس سے آخری ملاقات یاد آئی تھی جب وہ اس کو شادی کی پیش کش کر کے گیا تھا۔۔ اور اس تمام عرصے میں اس نے صرف خود کو ذہنی طور پر اس سے شادی کے لیے تیار کیا تھا۔ اور مزمل بیگم کے پوچھنے پر وہ ان کو اپنی رضامندی بھی دے چکی تھی۔۔۔ اس کا دل اس شخص کی محبت کو قبول کر چکا تھا جو اس کو اس کے سیاہ اور سفید کے ساتھ اپنانے کے لیے تیار تھا۔۔

وہ اپنے ہی خیالوں میں گم تھی۔۔ جب اس کی نظر دروازے سے آتے شخص پر گئی تھی ۔ اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ ںے جگہ لی تھی مگر جیسے ہی نظر اس کی باہوں میں موجود وجود پر گئی اس کی مسکراہٹ سیمٹ گئی تھی۔۔ وہ بس اس لڑکی کو دیکھ رہی تھی جس کی رنگت زرد تھی ۔ اور وہ ہاسپٹل کے کپڑوں میں  تھی مگر اس سب کے باوجود وہ انتہا کی خوبصورت لگ رہی تھی وہ لڑکی ابھی ہیمار تھی ذریعے علاج تھی اور اتنی خوبصورت تھی اگر وہ مکمل ٹھیک ہوتی تو کتںی خوبصورت ہوتی ۔۔۔  

مگر سب سے زیادہ پریشان وافیہ کو مقابل کی آنکھوں نے کیا تھا ان آنکھوں میں فکر مندی تھی اور وہ فکر مندی صرف اس لڑکی کے لیے تھی ۔۔ وہ ان دونوں سے ملے بغیر سیڑھیاں چڑھتا اوپر گیا تھا اور ایک ملازم نے آگے جا کر کمرے کا دروازہ کھولا تھا۔۔ جبکہ اس کے پیچھے دو ڈاکٹر  اور دو نرس اس کمرے میں داخل ہوئی تھی۔۔

وہ جزا کو بیڈ پر لیٹا چکا تھا۔۔ جب ایک ڈاکٹر آگے آئی تھی۔۔ سر آپ باہر جائیں ہمیں ہمارا کام کرنے دیں ۔۔ وہ ڈاکٹر صاف اُردو بولتے آگے بڑھی تھی۔۔ جبکہ ڈاکٹر کی بات پر وہ فوراً کمرے سے باہر نکلا تھا۔ جب اس کی نظر سامنے سے آتی مزمل بیگم اور وافیہ پر گئی تھی ۔۔

یہ بچی کون ہے ۔۔ کیا ہوا ہے اس کو؟ مزمل بیگم پریشانی سے بولی تھی۔۔

اس کو گولیاں لگی ہیں ۔ ڈاکٹر نے گولیاں نکل لی ہے مگر علاج چل رہا ہے۔۔ وہ مدہم لہجے میں بولا تھا۔۔

مگر یہ ہے کون؟ مزمل بیگم کو گولیوں کے ذکر نے مزید پریشان کیا تھا۔۔ حدیجہ چچی کی بھتیجی ہے یہ۔۔

امیل  یہ خدیجہ کے بھائی کی۔۔ مزمل بیگم حیرت سے اپنی بات پوری بھی نہ کر سکی۔۔

جی یہ ان کے بھائی کی بیٹی جزا ہے۔۔  امیل ان کو دیکھتا بولا تھا۔۔

مگر بچی کو ہوا کیا ہے ۔۔ اور حدیجہ کیسی ہے۔ تم اس کو ادھر کیوں لائے ہو آخر پاکستان میں کیا ہو رہا ہے؟ بتاؤ کچھ۔۔ مزمل بیگم اس کو دیکھتے بولی تھی۔۔

آپ میرے ساتھ چلیں آپ کو کچھ بتانا ہے۔۔ امیل ان کا ہاتھ تھام کر ان کو ساتھ والے کمرے میں لے گیا تھا۔۔ جبکہ وافیہ بس خاموشی سے ادھر ہی کھڑی تھی ۔۔

کچھ بتاؤ امیل ۔۔۔  مزمل بیگم بےچین ہوئی تھی ۔۔

مجھے اس بات کے لیے معاف کر دیجیے گا کہ میں نے یہ بات آپ سے چھپائی ۔۔ امیل ان کو صوفے پر بیٹھتا  بولا تھا ۔۔

کیا چھپایا ہے تم نے۔۔ مجھے بتا دو میرا دل بے چین ہو رہا ہے۔۔ مزمل بیگم اس کو دیکھتے بولی تھی۔۔

خدیجہ چچی کا قتل ہو گیا تھا بہت وقت پہلے ۔۔ امیل نظریں جھکا کر بولا تھا۔۔

کیا۔۔۔ کیا بول رہے ہو تم۔۔ مزمل بیگم نے اپنے سینے پر ہاتھ رکھا تھا۔۔ جبکہ آنسو ان کی آنکھوں سے بہہ رہے تھے۔۔

میں سچ بول رہا ہوں۔ اس نے سر جھکایا تھا وہ مزمل بیگم کی آنکھوں میں آنسوں نہیں دیکھ سکتا تھا۔۔

کس نے کیا ہے یہ سب بتاو مجھے امیل۔۔ کیا بات ہے سب بتاؤ ۔۔ مزمل بیگم روتے ہوئے بولی تھی۔۔

اور یہاں امیل کا اپنے آنسوں پر اختیار ختم ہوا تھا۔۔ وہ جو اتنے وقت سے خود کو مضبوط کر کے چل رہا تھا ۔۔ اج مزمل بیگم کو گزرے ہوئے تمام ماہ میں ہوئے واقعات کو بتاتے رو رہا تھا۔۔ وہ کب سے خدیجہ بیگم کی موت کا دکھ اپنے اندر چھپا کر بیٹھا تھا ۔ جبکہ اس کی بات سن کر مزمل بیگم کی آنکھوں سے آنسوں مسلسل بہہ رہے تھے۔۔۔

مجھے یقین نہیں آ رہا شہزاد ایسا کر سکتا ہے۔۔مزمل بیگم روتے ہوئے بولی تھی۔۔

وہ ایسا کر چکا ہے۔۔امیل اذیت سے بولا تھا۔۔

جس بیٹے کے پیچھے خدیجہ نے اپنی زندگی اس جہنم میں گزاری وہ ہی اس کی موت کی وجہ بنا۔۔ مزمل بیگم کانپتے ہاتھوں سے سر پکڑ کر بیٹھ گئی تھی۔۔

لعنت ہو تم پر شہزاد ۔۔ تو کتںا بدنصیب بیٹا نکلا ۔۔تجھے دنیا میں سکون نہ ملے۔۔ تو نے اس ماں کو مار ڈالا جس نے تیرے پیچھے اپنی جوانی تباہ کر  ڈالی۔۔ مزمل بیگم روتے ہوئے مدہم آواز میں بولی تھی۔۔ جبکہ امیل ان کے الفاظ بہت آسانی سے سن چکا تھا۔۔

وہ سکون میں ہے بھی نہیں ۔۔ امیل اپنی جگہ سے اٹھتا بولا تھا۔۔

آپ سے ایک چھوٹا سا کام تھا۔۔امیل ایک سرد آہ بھرتا بولا تھا۔۔

بولا ۔۔ مزمل بیگم بھیگے لہجے میں بولی تھی۔۔

پلیز جزا کا خیال رکھئے گا ۔۔ اس کو کچھ نہیں ہونا چاہیے ۔۔ میں اس کے معاملے میں ذرہ سی بھی لاپرواہی برداشت نہیں کر سکتا ۔۔ کیونکہ  مجھے جلد ہی واپس جانا ہے اور آنے میں شاید وقت لگ جائے ۔۔ اس لیے یہ زمہ داری آپ کو دے رہا ہوں۔۔ امیل مزمل بیگم کو مدد طلب نظروں سے دیکھتا بولا تھا۔۔ جبکہ اندر آتی وافیہ کے پاؤں امیل کی اس بات کو سن کر ادھر ہی روک گئے تھے۔۔ اور ایک لمحے کے لیے اس کے دل میں ٹھیس اٹھی تھی۔۔ نہ جانے یہ تکلیف کیوں ہو رہی تھی دل میں ۔۔

اس کو ادھر گھوٹن ہونے لگی تھی وہ فوراً واپس پلٹی تھی۔۔ جبکہ امیل کی نظر بے اختیار دروازے کی طرف گئی تھی اس کو وافیہ کا سرخ دوپٹہ نظر آیا تھا۔۔ حدید نے بےاختیار اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرا تھا۔۔

لگتا ہے آج کل ستارے ٹھیک ٹھاک گردش میں ہیں ۔۔ امیل یہ بول کر دروازے کی طرف بڑھنے لگا تھا۔۔ جبکہ مزمل بیگم نے اس کو بھیگی آنکھوں سے دیکھا تھا۔۔

اب کیا ہوا ہے۔۔ مزمل بیگم بھیگے لہجے میں بولی تھی۔۔

وافیہ ابھی کمرے کے دروازے سے پلٹی ہے اور یقیناً اس نے آدھی ادھوری بات سنی ہو گئی۔۔ امیل مزمل بیگم کو دیکھتا بولا تھا۔۔

وہ تمہارے پرپوزل میں دلچسپی لے چکی ہے اور تمہاری محبت کو اپنے دل میں جگہ دے چکی ہے۔۔ بس اس بچی کے دل کو اب کی بار ٹوٹنے نہ دینا۔۔ مزمل بیگم نرمی سے بولی تھی۔۔

اس لیے ہی جا رہا ہوں اس کے پاس تا کہ بےتوکی باتیں نہ سوچنے  بیٹھ جائے ۔۔ امیل یہ کہہ کر کمرے سے باہر نکل گیا تھا۔۔

جبکہ پیچھے مزمل بیگم نم آنکھوں سے بس گزرے کل کو یاد کر رہی تھی۔۔ ان کو ایک بار پھر سے خدیجہ بیگم کی موت کے غم نے رولا دیا تھا۔۔

تم سے بڑا بد نصیب بیٹا میں نے اپنی زندگی میں نہیں دیکھا شہزاد ۔۔ آخر تم نے ثابت کر دیا تم اکرم کا خون ہو۔۔ مزمل بیگم روتے ہوئے بولی تھی۔۔ اور انہوں نے دروازے کی طرف دیکھا تھا جہاں سے ابھی امیل گیا تھا۔۔ ایک تلخ حقیقت کا آئینہ سامنے آیا تھا۔۔

امیل اور شہزاد ایک خاندان کے دو بیٹے تھے۔۔ دونوں میں ایک ہی نسل کا خون تھا۔۔ دونوں ہی آفندی خاندان کے بیٹے تھے۔ مگر دونوں ہی مشرق اور مغرب کی طرح ایک دوسرے سے جدا تھے۔۔ ایک امیل تھا جس نے اپنی ماں کے قتل کا بدلہ لیا تھا جس آدمی نے اس کی ماں کا سودا کیا تھا اور پھر اس کے سامنے اس کی ماں کا بےرحمی سے قتل کیا تھا۔۔ اس نے اس شخص کو یعنی کے اپنے باپ کو مارا تھا۔۔ جبکہ دوسری طرف شہزاد تھا جو شروع سے ہی اپنے باپ کے نقشے قدم پر چلا تھا اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس نے اپنی ہی معصوم اور رحم دل ماں کے خون سے اپنے ہاتھ رنگے تھے۔۔ وہ دونوں ایک خاندان کے بیٹے ہونے کے باوجود اتنے جدا تھے۔۔

مزمل بیگم بس بھیگی نظروں سے اس دروازے کو دیکھے جا رہی تھی۔۔

••••••••••••••

کس بات پر رو رہی ہو تم مجھے بھی بتاؤ تاکہ میں تمہیں جوائن کر سکوں۔۔۔ وہ اس کے پیچھے آیا تھا۔ اور جس بات کا اس کو ڈر تھا وہ ہی ہوا تھا۔۔ وافیہ بیک لاون میں کھڑی آنسوں بہہ رہی تھی۔۔

اس کی آواز سن کر بھی اس نے کوئی جواب نہ دیا تھا۔۔ وہ خاموش کھڑی رہی تھی ۔ مگر اس نے ایک ہاتھ سے اپنے آنسو صاف کئے تھے ۔۔

میں نے کچھ پوچھا ہے۔۔ اب کی بار امیل اس کے سامنے جا کر کھڑا ہوا تھا۔۔

کیا پوچھا ہے آپ نے ؟؟ وافیہ نے اپنی سرخ ہوتی آنکھیں اٹھا کر سامنے کھڑے شخص کو دیکھا تھا جو کچھ دیر پہلے اس کا دل دکھا چکا تھا۔۔

یہ ہی کے رو کیوں رہی ہو۔۔ اب کی بار وہ پھر سے بولا تھا۔۔

نہیں رو رہی میں ۔۔ اور اگر رو بھی رہی ہوں تو بتانا ضروری نہیں سمجھتی ۔۔ یہ کہہ کر وہ ادھر سے جانے کے لیے موڑی تھی جب امیل نے اس کی نازک سی کلائی کو پکڑا تھا۔۔

تم جو سمجھ رہی ہو ویسا کچھ بھی نہیں ہے۔۔ امیل مدہم آواز میں بولا تھا۔۔

میں نے کچھ نہیں سمجھا۔۔ وافیہ ہموار لہجے میں بولی تھی۔۔ جبکہ اس کی نظروں میں شکوہ صاف تھا۔۔۔ دل آزاری کا شکوہ تھا اس کی نظروں میں ۔

تم شکوہ کرنے کا حق رکھتی ہو وافیہ۔۔ امیل اس کو مسکرا کر دیکھتا بولا تھا۔۔

اور اس کی اس بات پر وافیہ کا ضبط جواب دے گیا تھا۔۔ اور ایک آنسوؤں اس کی آنکھوں سے نکلا تھا ۔

وہ لڑکی کون ہے حدید ۔۔  بلآخر وافیہ نے دل پر پتھر رکھ کر وہ سوال کر ہی لیا تھا جو وہ نہیں کرنا چاہتی تھی۔۔

میری بہن ۔۔ حدید نرمی سے بولا تھا۔۔

بہن ۔۔ کیسے؟ آنٹی نے کبھی ذکر نہیں کیا کہ تمہاری کوئی بہن ہے۔۔ وافیہ سوالیہ نظروں سے اس کو دیکھتے بولی تھی۔۔

وہ میری  چچی کے بھائی کی بیٹی ہے۔۔ میرے لیے بہن جیسی ہی ہے وہ ۔۔ حدید نرمی سے بولا تھا ۔ جبکہ وافیہ اس کو خاموشی سے دیکھ رہی تھی۔۔

اور ایک اور بات وہ شادی شدہ ہے ۔۔ حدید مسکراتے بولا تھا اور ساتھ شرارت سے اس نے وافیہ کو دیکھا تھا۔۔

ویسے یہ بتانے کی ضرورت تو نہیں تھی۔۔ وافیہ منہ بنا کر بولی تھی ۔

ہاں تاکہ تم ایک نیا خدشہ دل و دماغ میں پال لو ۔۔ حدید ہنستے ہوئے بولا تھا۔۔۔

مگر اس کے ساتھ یہ سب ہوا کیسے ہے حدید ۔۔ وافیہ کچھ سوچتے ہوئے فکر مندی سے بولی تھی۔۔۔

جہاں یہ آخری بات سن لی تھی وہاں پہلی بھی سن لینی تھی۔۔ حدید مدہم سا بولا تھا۔۔

مُجھے بتاو پلیز ۔۔ وافیہ نے اب کی بار ریکوسٹ کی تھی۔

یہ تم اپنی سیکڑیک ریول ڈائری سے پوچھ لیانا ان کو سب کچھ بتا چکا ہوں۔۔ اور میں  کچھ کام سے جا رہا ہوں جلدی آ جاؤں گا۔۔ موم کا بتا دینا۔۔ حدید موڑتا ہوا بولا تھا۔۔ اور باہر کی طرف نکل گیا تھا۔۔

•••••••••••••••••

ابراہیم صاحب خاموشی سے بیٹھے سیلنگ کو دیکھ رہے تھے ان کی آنکھیں نم تھی۔۔

انکل۔۔۔ رحیان نے ان کے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا۔۔

تم لوگ اتنے بڑے کس دن ہو گئے۔۔ ابراہیم صاحب بھیگے لہجے میں بولے تھے۔۔

انکل ۔۔ رحیان نے کچھ بولنا چاہا تھا۔۔۔

مجھے بتاؤ اتنے بڑے کس دن ہو گئے تم لوگ کے ہر کام کو اپنی مرضی سے کرنے لگ جاؤ ۔۔ تم لوگوں کو کیسی بڑے کے مشورے تک کہ ضرورت نہ ہو۔۔ جواب دو مجھے ۔۔ ابراہیم صاحب رحیان کو دیکھتے بولے تھے۔۔ ان کے لہجے میں غم وغصہ دونوں شامل تھا۔۔

انکل ہم سب کچھ بتانا۔۔ رحیان سے الفاظ ادا نہیں ہوئے تھے۔۔

کیا بتانا تھا تم لوگوں نے اور کب بتانا تھا سب کچھ سچ تم لوگوں نے۔۔ کس دن کا انتظار تھا تم لوگوں کو؟؟ ابراہیم صاحب سخت لہجے میں بولے تھے۔۔

مجھے جو تکلیف آج ہو رہی ہے اس کا اندازہ بھی ہے تم لوگوں کو بتاؤ مجھے ؟؟ تم لوگ جان سکتے ہو میرے دل پر کیا گزر رہی ہے۔۔ تو لوگ جانتے بھی ہو کے میرا وجود یہ بوجھ برداشت نہیں کر پائے گا۔۔ ابراہیم صاحب بلند آواز میں بولے تھے۔۔ جبکہ رحیان مکمل خاموش تھا۔۔۔

میں نے تمہارے کہنے پر اپنی بہن سے یہ بات چھپائی کہ تم آرمی اوفیسر ہو۔۔ دوراب آیان کے کہنے پر ان کے ماں باپ سے یہ بات چھپائی ۔۔ زوریز کے کہنے پر اس عورت سے چھپائی جو میری بیوی ہے۔۔ کہ ان کے بیٹے آرمی آفیسر ہیں ۔۔ آئی اس ائی کے ایجنٹ ہیں۔۔ اس لیے کہ وہ تم لوگوں کو روکیں گے۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں وطن کی مٹی محافظوں کا مجاہدوں کا خون مانگتی ہے۔ کوئی ماں باپ نہیں چاہتا کہ اس کے بیٹے کا جنازہ جوانی میں اٹھے ۔۔ کیونکہ جوان بیٹوں کا جنازہ ماؤں کو مار ڈالتا ہے اور ان کے باپ ۔۔ ابراہیم صاحب بولتے ہوئے روکے تھے۔۔ ان کی حلق میں جیسے الفاظ اٹک گئے تھے۔۔ بولنا ان سے مشکل ہو گیا تھا۔۔ یا آگے کے الفاظ بہت بھاری تھے جو ادا کرنے کی ہمت ان میں نہ تھی۔۔

جوان بیٹوں کے جنازے دیکھ کر باپ ڈھ جاتے ہیں ۔۔ وہ زندہ لاش بن جانتے  ہیں ۔۔ اس دن صحیح معنوں میں ان کے باپ بوڑھے ہو جاتے ہیں۔۔ ان کے کندھوں میں اتنی ہمت نہیں ہوتی کہ جوان بیٹے کا جنازہ اٹھا سکیں۔۔ابراہیم صاحب  کی انکھوں سے آنسو گرے تھے۔۔

مائیں تو رو کر اپنے آنسو بہا لیتی ہیں باپ تو رو بھی نہیں پاتے۔۔ وہ کس کو گلے لگا کر روئیں ان کا تو سب سے بڑا سہارا مٹی کی نظر ہو جاتا ہے۔۔ وہ کس کو یار کہہ کر بولیں گے ۔ میں نے بہت سے جوانوں کے جنازے ان کے گھر دیے ہیں اور کچھ کے تو جنازے بھی نہیں ہوتے تھے کیونکہ ہم خود نہیں جانتے تھے کون سی سر زمین کی مٹی ان کی آخری آرام گاہ بنی ہے۔ باپ سینے چورے کر کے پرچم پکڑ تو لیتے ہیں مگر ان کی آنکھوں کی اذیت نہیں دیکھی جاتی وہ خاموش آنکھیں ، وہ خاموش انسوں وہ خاموش ہلکی سی مسکراہٹ جو ان کو اپنے خون پر فخر کی نشانی ہوتی ہے روح تک کو کانپ دینے پر مجبور کر دیتی ہیں۔ شہد کے ماں باپ ایسے ہی قابل عزت اور قابلِ احترام نہیں ہو جاتے۔۔ انہوں نے اپنا خون نہیں اپنی جوانی  دی ہوتی ہے وطن کی حفاظت کے لیے اپنی ایک نسل دیتے ہیں وقت کو۔۔ ابراہیم صاحب ایک لمحے کو روکے تھے۔۔

اپنے جوان بیٹوں کو وطن کے سپرد کرنے کے لیے جگر کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ  آپ خود نہیں جانتے کہ جو اس عید مل کر گیا ہے اگلی عید ہو گا بھی کہ نہیں ۔۔ یہ جگر والوں کا کام ہے اور وہ ہر ایک میں نہیں ہوتا۔۔ ایک فون ایک فون کل گھر پر خاموشی پھیلا دیتی ہے وہ جو خاکی وردی میں گیا تھا۔ سبز پرچم میں لپٹ کر آ رہا ہے۔ تم لوگوں کے لیے میں نے تم لوگوں کے ماں باپ سے یہ سب بات چھپائی کہ ان کے بیٹے  جب جائیں تو ان کے لوٹ کر آنے کی آس مت لگایا کرو کیونک وہ تو جان کو ہاتھ پر رکھ کر نکلتے ہیں ۔۔ اس لیے چھپائی کہ وہ لوگ تم سب کو روک نہ لیں کیونکہ اولاد مرنے جا رہی ہو تو کبھی بھی ماں باپ اجازت نہیں دیتے ۔۔ ہم فوجیوں کے جنازے کب اٹھیں گے یہ کیسی کے گمان میں بھی نہیں ہوتا کون سی سانس آخری ہے کوئی نہیں جنتا۔ تم لوگ ان کو ابھی نہیں بتانا چاہتے تھے میں نے تم لوگوں کا ساتھ دیا تم لوگوں کے راز کو راز رکھا مگر۔۔۔ ابراہیم صاحب بس بولتےہوئے ایک لمحے کو روکے تھے جبکہ رحیان آج سر جھکا کر خاموشی سے سن رہا تھا۔ کیونکہ ابراہیم صاحب اس کے سامنے اپنی اتنی سب باتوں سے وہ آئینہ کھڑا کر چکے تھے جس کو رحیان چاہا کر بھی نہیں دیکھ سکتا تھا۔۔

میں نے تم لوگوں کو اتنی سپورٹ دی ۔ کیا بدلہ میں میں یہ سب ڈیزرو کرتا تھا۔۔ کہ تم لوگ مجھ سے یوں باتیں چھپاؤ ۔۔ ابراہیم صاحب رحیان  کو دیکھتے بولے تھے ۔

بتاؤ رحیان کیوں خاموش ہو مجھے میری بات کا جواب دو۔۔ میں یہ ڈیزرو کرتا تھا۔۔ ابراہیم صاحب نے خاموش کھڑے رحیان کی بازو کو جھنجھوڑا تھا۔۔ مگر اس کے پاس آج الفاظ نہیں تھے۔۔

جو تکلیف میں برداشت کر رہا ہوں تم اس کو جان سکتے ہو؟ ابراہیم صاحب نے رحیان کو جھنجھوڑا تھا۔۔ جبکہ رحیان نے اپنی نم آنکھیں جھکا دی تھی۔۔  وہ آج صحیح معنوں میں شرمندہ تھا۔۔ وہ آج اس شخص کے سامنے نظریں بھی نہیں اٹھا پا رہا تھا جو ہمیشہ ان کے راز رکھتا تھا۔۔ اور انہوں نے اس سے ہی ایک راز رکھا تھا وہ بھی اتںا بڑا۔۔

انکل ہم جانتے ہیں ہم سے غلطی ہوئی ہے ۔۔ رحیان مدہم آواز میں بولا تھا۔۔

غلطی ۔۔ تم ہوش میں ہو یہ غلطی ہے؟ ابراہیم صاحب انتہا کے سخت لہجے میں بولے تھے۔۔۔

ان۔۔۔ رحیان کے الفاظ منہ میں ہی رہ گئے تھے ۔۔ جب ابراہیم صاحب بلند آواز میں بولے تھے۔۔

ایک لفظ اور مت بولنا رحیان ایک لفظ اور مت بولنا۔۔ جتنی تکلیف تم لوگ دینا چاہتے تھے دے چکے ہو۔۔ اب تم لوگوں  کو میں اپنے حساب سے ڈیل کروں گا۔۔ جتنا سر پر نچنا تھا ناچ لیا تم لوگوں نے۔۔ ابراہیم صاحب غصے سے بولتے باہر نکل گئے تھے۔۔۔

••••••••••••••••••

اس کی خمدار پلکوں میں ہلکی سے لرزش پیدا ہوئی تھی۔ شاید وہ اس کو ہوش آ رہا تھا۔۔ آخر کار اس نے آنکھیں کھول لی تھی۔۔ منظر ابھی کچھ دھندلا تھا۔۔ اس نے اپنی آنکھوں کو ایک لمحے کے لیے بند کیا تھا سر میں ٹھیس محسوس ہوئی تںی۔۔ اور پھر سے اپنی آنکھیں کھولی تھی۔۔ منظر پہلے سے کچھ صاف تھا۔۔ اس نے اپنے آس پاس کے منظر کو حیرت سے دیکھا تھا وہ کیسی ہاسپٹل کا روم نہیں تھا تو وہ کدھر تھی؟

اس نے اٹھانا چاہا مگر اس سے اوٹھا نہ گیا۔۔ درد کی ایک لہر سارے جسم میں اٹھی تھی۔۔ اس نے اپنے منہ پر لگے اوسیجن ماسک کو اتارنے کے لیے ہاتھ اوپر کیا تو  اس کے بازوؤں اور کندھے کو بہت تکلیف ہوئی تھی۔۔ اسی وقت ایک ڈاکٹر کمرے میں داخل ہوئی تھی۔۔۔ اس کو ہوش میں دیکھ کر فوراً اس کے قریب آئی تھی۔۔

 اور اس کی نبض اور ہارٹ بیٹ چیک کی تھی جو پہلے سے نارمل تھی۔۔ اس نے اس کا اوسیجن ماسک اتارا تھا۔۔

کیسا محسوس کر رہی ہو۔۔ وہ ڈاکٹر نرمی سے بولی تھی۔۔

بی۔ بیسٹ۔۔ کدھر۔۔ ہے۔۔ جزا بس اتنا ہی بول پائی تھی ۔

کون بیسٹ ۔۔  ڈاکٹر کو اس کے سوال نے پریشان کیا تھا۔۔

میرا شوہر۔۔۔کدھر ہے ۔ جزا بازو اور کندھے کی تکلیف کو برداشت کرتے بولی تھی۔۔

وہ فلحال ادھر نہیں ہے۔۔  ڈاکٹر اس کو دیکھتے بولی تھی اور ایک انجکشن تیار کرنے لگی تھی۔۔

مجھے انجیکشن مت لگانا ۔۔ جزا اس کو دیکھتے بولی تھی۔۔

یہ انستھیسزہیا نہیں ہے۔۔ تمہارے کندھے اور بازو میں درد ہو رہا ہو گا۔۔ اس کے لیے ہے ۔۔ ڈاکٹر اس کو انجیکشن لگاتے ہوئے بولی تھی۔۔ کیونکہ وہ آگے ہی ڈریگز کے افیکٹ کی وجہ سے بہت دیر تک بےہوش رہی تھی۔ تو ڈاکٹر اس کو دربارہ بےہوش نہیں کر سکتی تھی۔۔

ابھی ڈاکٹر اس کو انجکشن لگا کر ہٹی ہی تھی  جب جزا ایک بار پھر سے بولی تھی۔۔

میں کدھر ہوں اس وقت ۔۔ جزا ڈاکٹر کو دیکھتے بولی تھی ۔

آپ دبئی میں  زیک کے مینش میں ہیں اس وقت۔۔ ڈاکٹر اس کی ڈریپ چینج کرتے بولی تھی۔۔۔ جبکہ جزا نے اپنا سر تکیے پر ٹیکا لیا تھا ۔ اس کا چکراتا سر اب پھیلے سے بہتر تھا۔۔ اس کو اب کندھے اور بازو میں درد بھی کچھ کم محسوس ہو رہی تھی۔۔۔ مگر وہ اپنی آنکھیں گھوما کر سارے کمرے کا معائنہ کر رہی تھی۔۔

دبئی میں ۔۔ جزا اس بات پر الجھ گئی تھی۔۔

جب کمرے کا دروازہ کھولا تھا۔۔۔ اور ایک شخص گرے کلر کا تھیری پیس سوٹ پہنے چہرے پر ماسک لگائے کمرے میں داخل ہوا تھا۔۔۔

ڈاکٹر کیسی طبعیت ہے ان کی؟؟ وہ ڈاکٹر کی طرف متوجہ ہوتے بولا تھا۔۔۔

امیل سر کنڈیشن کافی بہتر ہے ان کی۔۔ اور سب سے بڑھ کر اس ڈرگز نے کوئی برا سائیڈ ایفیکٹ نہیں کیا۔۔ مگر ان کو کافی احتیاط کی ضرورت ہے۔۔ کندھے اور بازو پر گولی لگنے کی وجہ سے یہ فلحال کوئی وزنی چیز نہیں اٹھا سکتی اور نا ہی بازوں کو اپنے حساب سے موو کروا سکتی ہیں ۔۔ ڈاکٹر اس کی ساری سچویشن بتاتے ہوئے کہہ رہی تھی جبکہ جزا بس ڈاکٹر کی باتیں منہ کھولے سن رہی تھی۔۔

کب تک ٹھیک ہو سکتی ہیں یہ۔۔ اب کی بار امیل پہلے سے زیادہ سنجیدگی سے بولا تھا۔۔

دو ماہ لے سکتے ہیں ان کو ریکور ہونے میں ۔۔ کیونکہ بازو پر لگی گولی کا اتنا مسلہ نہیں جتنا کندھے کا ہے۔۔ تو کچھ وقت لگے گا ان کی ریکور ہونے میں اور اگر یہ اپنا خیال رکھتی ہیں اور تھیرپی لیتی ہیں تو یہ جلدی بھی ریکور کر سکتی ہیں ۔۔ کیونکہ ان کی باڈی سٹرونگ ہے۔۔ ڈاکٹر اب کی بار اس کو ساری ریپورٹ دیکھاتے سب بتا رہی تھی۔۔ اور اس کے بعد وہ کمرے سے باہر چلی گئی تھی۔۔

درد تو نہیں ہو رہی؟  اب کی بار امیل نے جزا کو مخاطب کیا تھا۔۔

کون ہو تم۔۔۔ بیسٹ کدھر ہے ۔ ڈاکٹر نے کہہ تھا یہ زیک کا منشن ہے۔۔  جزا اس کو دیکھتے ہوئے بولی تھی۔۔ اور نظریں اس کی سنہری آنکھوں پر تھی۔۔

میں امیل ہوں۔۔ زیک کا رائیٹ ہنڈ۔۔ امیل اس کے بلکل سامنے کھڑے ہوتے بولا تھا۔۔

میں ادھر کیسے آئی ۔۔ اور بیسٹ کدھر ہے۔۔ جزا اس کو دیکھتے بولی تںی۔۔۔

جب امیل نے اپنی کمر کے پیچھے سے ہاتھ نکلا تھا۔۔ اور اس کے ہاتھ میں موجود شرٹ دیکھ کر جزا ساکت ہو گئی تھی ۔۔ اس کی نظر صرف اور صرف اس شرٹ پر تھی۔۔ وہ اس شرٹ کو کیسے بول سکتی تھی۔۔ امیل نے وہ شرٹ اس کی طرف بڑھائی تھی۔۔۔  جزا نے کانپتے ہاتھ سے اس شرٹ کو پکڑا تھا جو خون سے بڑھی ہوئی تھی۔۔

وہ کدھر ہے۔۔ جزا کانپتی ہوئی آواز میں بولی تھی۔۔۔۔

کیا یہ کافی نہیں اس کی حالت کا بتانے کے لیے ۔۔ امیل خود کو نارمل کرتے بولا تھا۔۔ مگر کہیں نہ کہیں اس کی آنکھوں کے کونے نم ہوئے تھے۔۔۔

اس ۔۔ اس کو کچھ نہیں ہو سکتا میرا دل کہتا ہے ۔۔ اس کو کچھ نہیں ہوا۔۔۔۔ جزا بے چینی سے بولی تھی۔۔ اس کی آواز کی کپکپاہٹ سے ایسا لگا تھا جیسے وہ خود کو یقین دی لا رہی تھی۔۔۔

جو ہونا تھا ہو گیا ہے ۔۔ بیسٹ مر گیا ہے جزا۔۔ تم اس کو واپس نہیں لا سکتی۔۔۔امیل کے الفاظ تھے یا پلگلا ہوا سیسہ جو اس نے جزا کے کانوں میں انڈیل دیا تھا۔۔ وہ یہ کہہ کر کمرے سے جا چکا تھا۔۔ مگر جزا بلکل خاموش سی ہو گئی تھی۔۔۔  ایک آنسو اس کی آنکھ سے گرا تھا۔ اور اس کے بعد نا جانے کتنے آنسو اس کی آنکھوں سے گرتے چلے گئے تھے۔۔

 جزا بس اس شرٹ کو پکڑے بیٹھی تھی۔۔ اس نے ایک ہاتھ سے اس شرٹ کو کھولا تھا۔۔۔ دونوں کندھوں پر سوراخ تھا۔۔ اور ایک بازو پر۔۔۔۔ شرٹ جگہ جگہ سے پھٹی ہوئی تھی۔۔ وہ بہتے آنسوں سے اس شرٹ کو دیکھ رہی تھی۔۔۔ جس پر بیسٹ کا خون لگا تھا۔۔ وہ اس شرٹ کو کانپتے ہاتھوں سے چھوتے روتی چلی جا رہی تھی ۔جب ایک جگہ اس کا ہاتھ روکا تھا۔۔ اس نے اوپر اور نیچھے کے بٹن میں گیپ دیکھا تھا جو بہت زیادہ تھا۔۔ اور اس کا رنگ اس وقت سفید پر گیا تھا۔۔ جب اس نے اس شرٹ کو بلکل ٹھیک کر کے سامنے رکھا تھا۔۔ اس کی انگلی اس جگہ پر تھی جہاں شرٹ کے بیچ اوپر کر کے ایک سوراخ تھا۔۔۔ ایک سسکی اس کے منہ سے نکلی تھی۔۔ اور پھر وہ روتی چلی گئی وہ اس قدر روئی تھی۔۔ کے اندر آتی وافیہ اس کی رونے کی آواز سن کر بھاگ کر کمرے میں داخل ہوئی تھی۔۔۔

جزا تم ٹھیک ہو۔۔۔ کیا ہوا تم رو کیوں رہی ہو۔۔۔  وافیہ اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے بولی تھی جب اس کی نظر سامنے پڑی شرٹ پرگئی تھی جو خون سے بھری ہوئی تھی۔۔

کوئی بس مجھے ایک بار بتا دو وہ نہیں مرا ۔۔ میں نے اس کو نہیں کھویا ۔۔ جزا روتے ہوئے بولی تھی۔۔

جزا خود کو سنبھالو ۔۔ وافیہ نے اس کو سنبھالنا چاہا تھا۔۔

میں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا وہ مجھ سے بچھڑ جائے گا۔۔ وہ مجھے تنہا کر جائے گا۔۔ جزا روتے ہوئے بولی جا رہی تھی۔۔ اس نے وافیہ کی طرف دھیان بھی نہ دیا تھا۔۔ جبکہ زیادہ رونے سے اس کی طبیعت خراب ہونے لگ گئی تھی۔۔

یہ جھوٹ بول رہا ہے اس کو کچھ نہیں ہوا ۔۔ میں بیسٹ کے پاس خود جاوگئی۔۔ جزا نے فوراً سے اپنے ہاتھ پر لگی ڈریپ اتاری تھی اور اس جگہ سے خون بہنا شروع ہو گیا تھا۔۔

اس نے بستر سے اترنے کی کوشش کی تھی کہ اس کے کندھے اور بازو میں انتہا کا درد اٹھا تھا۔۔۔

اہہہہ۔۔ اس نے اپنے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا۔۔۔

جزا سنبھالوں خود کو۔۔ وافیہ نے اس کے بازو کو سہلاتے ہوئے اس کو پرسکون کرنے کی کوشش کی تھی۔۔

مجھے جانا ہے ادھر سے مجھے بیسٹ کے پاس جانا ہے۔۔ وہ زخمی ہے اس کو میری ضرورت ہے۔۔ وہ سانسیں لے رہا تھا۔۔۔ میں نے اس کی سانسوں کو محسوس کیا تھا۔۔۔  جزا بامشکل بستر سے اٹھتے بولی تھی۔۔ جبکہ اس کے زخموں سے پھر سے خون بہنے لگا تھا۔۔ مگر اس کو اپنے زخموں کی کہاں پڑی تھی۔۔ کیسی کے بچھڑ جانے کی تکلیف جسم پر لگی گولی کی تکلیف سے کہیں زیادہ تھی۔۔

جزا ہوش میں آؤ تم ابھی ٹھیک نہیں ہوئی ہو۔۔ وافیہ نے اس کو پکڑنا چاہا تھا جو اس کی پکڑ میں بھی نہیں آ رہی تھی۔۔

جزا جو اپنے دھیان میں بغیر آس پاس کی پرواہ کیے آگے کی طرف بھاگی تھی۔۔ سائیڈ پر پڑی ٹیبل سے پاؤں ٹکرانے سے زمین پر گری تھی۔۔

جزا ۔۔ نے فوراً اس کو اُٹھایا تھا۔۔۔  جب جزا کی ڈاکٹر بھی اندر آئی تھی وہ اس کہ کنڈیشن دیکھ کر فوراً انجیکشن بنانے کے لیے بھاگی تھی۔۔ کیونکہ اس کے زخموں سے نکلتا خون اب اس کے کپڑوں پر پھیل گیا تھا۔۔

ڈاکٹر نے اس کو انجکشن لگا تھا جس سے وہ بےہوش ہو گئی تھی۔۔ اب ڈاکٹر نے وافیہ کی مدد سے جزا کو واپس بیڈ پر ڈالا تھا۔۔

آپ باہر جائیں میں ان کی بنڈیج کر لوں گئی۔۔ ڈاکٹر وافیہ کو دیکھتی بولی تھی۔۔

میں بھی ایک ڈاکٹر ہوں۔۔وافیہ ڈاکٹر کو دیکھتے مدہم لہجے میں بولی تھی۔۔ جبکہ ڈاکٹر نے اس کو مسکرا کر دیکھا تھا۔۔ اب وہ دونوں جزا کے زخم صاف کر کے اس کی مرہم پٹی کر رہی تھی ۔۔۔

•••••••••••••

کیا ضرورت تھی اس کو ابھی سچ بتانے کی۔ وافیہ امیل کے سر پر سوار بولی تھی ۔

کیا ہوا ہے۔۔ امیل پریشانی سے اس کو دیکھتا بولا تھا۔۔

شکر ادا کرو کے میں اس کے کمرے میں اس کو دیکھنے گئی تھی۔۔ وہ بے تحاشہ رو رہی تھی اس کو سنبھالنا مشکل ہو گیا تھا۔۔ اپنی ڈریپ اتار کر بغیر اپنے زخموں کی پرواہ کے وہ باہر آنے کو تھی ۔۔ ٹیبل سے پاؤں ٹکرانے پر گری اور اس سب میں اس کا زخم پھر سے خراب ہو گیا۔۔  وافیہ غصے میں امیل کو دیکھتے بولی تھی۔۔ جبکہ یہ سب سنے کے بعد وہ دل ہی دل میں خود کو لعنت ملامت کر رہا تھا۔۔ کہ کیا ضرورت تھی ابھی بتانے کی۔۔۔

ابھی کیسی ہے وہ۔۔ امیل نے پریشانی سے پوچھا تھا۔۔

اگر تم دوبارہ اس کے کمرے میں جا کر کچھ اور نہ بولو تو ٹھیک رہے گئی۔۔ جتںا کر چکے ہو اتنا بہت ہے۔۔ مزید اس کے سامنے کیسی بات کا ذکر بھی مت کرنا۔۔ ورنہ اچھا نہیں ہو گا۔۔۔ وافیہ اس کو غصے سے دیکھتے ہوئے وارننگ دیتے ادھر سے نکل گئی تھی۔۔

ابھی بیوی بنی نہیں ہے اور انگلی دیکھا کر دھمکیاں دے رہی ہے بیوی بن گئی تو پھر کیا کرے گئی۔۔ امیل منہ کھولے اس کو جاتے ہوئے دیکھ رہا تھا ۔

پھر دھمکی نہیں دے گئی سیدھا بندوق نکالے گئی۔۔ مزمل بیگم پیچھے سے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بولی تھی۔۔

آپ ہی اس کو شہ دے رہی ہیں ۔۔ امیل نے ان کو ناراضگی سے دیکھا تھا۔۔۔

ہاں دی ہوئی ہے کوئی مسلئہ ہے؟؟ مزمل بیگم نے اس کو سخت نظروں سے دیکھا تھا۔۔

نہیں نہیں ۔۔ یہ کہہ کر وہ اپنی جگہ سے اٹھا تھا ۔ کیونکہ اس کو پتا لگ گیا تھا مزید ایک اور بات بولنے سے اس کو جوتے پڑھ سکتے تھے۔۔۔

تمہیں جزا بچی کے سامنے ابھی اس بات کا ذکر نہیں کرنا چاہیے تھا۔۔ ابھی اس کے پہلے زخم بھی تارہ تھے۔۔ ایسے میں ایک اور تکلیف۔۔ عورت جتنی بھی مضبوط ہو جائے حدید ہمسفر کا بچھڑ جانا اس کی روح تک کو جھنجھوڑ دیتا ہے۔ مزمل بیگم اس کا جاتا دیکھ بولی تھی۔۔

مگر آج نہیں تو کل یہ تلخ حقیقت اس کو بتانی ہی تھی۔۔ وہ ان کو موڑ کے دیکھتا بولا تھا ۔۔

ہر بات کو کرنے کے لیے موقع کی مناسبت کو دیکھا جاتا ہے حدید۔۔۔۔ مزمل بیگم  نے ہاتھ کے اشارے سے اس کو واپس آ کر بیٹھنے کا کہہ تھا۔۔ وہ خاموشی سے چلتا ان کے پاس جا کر بیٹھ گیا تھا ۔۔۔

ضرب پر ضرب مارنے سے کیا ہوتا ہے؟  مزمل بیگم نے اس کو دیکھتے پوچھا تھا۔۔

ایک چیز ٹوٹ جاتی ہے۔۔۔ حدید نے مختصر سے جواب دیا تھا۔۔

ایسی طرح جب ایک انسان پہلے سے ایک تکلیف میں ہو ایک اذیت میں ہو۔ پھر چاہے وہ تکلیف جسمانی ہے یا روحانی اس کو اس تکلیف کے ساتھ ایک تکلیف اور دے دی جائے تو دوسری تکلیف پہلی تکلیف سے کاری ضرب لگاتی ہے۔۔ وہ تکلیف انسان کو توڑ دیتی ہے ۔ اس تکلیف کی اذیت انسان سے برداشت نہیں ہو پاتی۔۔ مزمل بیگم مدہم لہجے میں بول رہی تھی۔۔

مگر جب انسان کو ایک تلخ حقیقت کا آج یا کل سامنا کرنا ہی ہے تو آج کیوں نہیں ۔۔ حدید کچھ سوچتے بولا تھا۔۔

کیا تمہیں کیسی نے نہیں بتایا انسان کے لفظوں میں طاقت ہوتی ہے۔ لفظ انسان کوجوڑ بھی سکتے ہیں اور توڑ بھی سکتے ہیں۔۔ یہ ہنر صرف انسان کے لفظوں کو حاصل ہے۔۔ ایک لفظ کیسی کو خوشی سے جھوم جانے پر مجبور کر دے اور ایک لفظ کیسی کے گھر صفحہ ماتم بچھا دے ۔۔ اس لیے تو کہتے ہیں وقت،جگہ اور موقع کی مناسبت سے اپنے الفاظوں کا انتخاب کرو کہیں ایسا نہ ہوں کہ تمہارے الفاظ کیسی کی خوشی کو دکھ میں بدل دیں یا کوئی پہلے ہی ہہت تکلیف میں ہے تمہارے الفاظ اس کو مزید تکلیف دیں ۔ اس کی دل آزاری کی وجہ بنے ۔۔  مزمل بیگم اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بولی تھی۔۔

اور ہاں ایک تکلیف پر دوسری تکلیف انسان کے ہیلنگ پروسیس پر بہت اثر کرتی ہے۔ اور اگر ایک تکلیف جسمانی ہو اور ایک تکلیف ذہنی اور روحانی ہو۔۔ تو ہیل ہونا اور بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ کیونکہ انسان کے جسمانی زخم کے لیے اس کا ذہنی سکون میٹر کرتا کے جب اس کا ذہن ہی کیسی اور تکلیف میں الجھا ہو گا تو وہ اس کے زخم کو کیسے ریکور ہونے میں مدد دے گا۔ کیونکہ ہمارے جسم کا نظام چلتا ہی دماغ سے ہے جب وہ ہی پرسکون نہیں رہے گا تو باقی جسم کیسے پرسکون ہو سکتا ہے؟۔۔۔۔ مزمل بیگم یہ کہہ کر اپنی جگہ سے اٹھ گئی تھی۔۔۔

جبکہ وہ ان کی بات کو سمجھاتا اثبات میں سر ہلا چکا تھا۔۔ اس کو شدت سے احساس ہوا تھا اس کہ اس کو جزا کو ابھی نہیں بتانا چاہیے تھا۔۔

اس نے ایک سرد آہ بھری تھی۔۔ اور اپنی آنکھوں کو سختی سے بند کیا تھا۔۔

•••••••••••••

وہ کب سے سیلنگ کو بھیگی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی ۔۔ اس کو خود بھی یاد نہ تھا وہ دوبارہ ہوش میں کب آئی تھی۔۔ اور بازو اور کندھے میں درد کی وجہ سے اس سے اٹھا نہیں جا رہا تھا۔۔ وہ بس سیلنگ کو دیکھے جا رہی تھی۔۔ گزرے سب ماہ اس کی آنکھوں کے سامنے کیسی فلم کی طرف چل رہے تھے۔۔ دماغ ابھی بھی اس بات کو ماننے سے انکاری تھا ۔ کہ بیسٹ مر گیا ہے۔۔

کیسی طبعیت ہے۔۔ وافیہ جو اس کو دیکھنے اس کے کمرے میں آئی تھی اس کو جاگتا دیکھ اس کے قریب آ کر بولی تھی۔۔۔

پتا نہیں ۔۔ وہ بھیگے لہجے میں بولی تھی۔۔

جزا ہمت سے کام لو۔۔ وافیہ اس کے آواز میں درد محسوس کر چکی تھی تبھی اسکے قریب بید پر بیٹھتے بولی تھی۔۔

کتنی ہمت سے کام لوں۔۔ اور کس کس درد کو برداشت کرنے کے لیے ہمت دیکھاؤ ۔۔ جزا کی آنکھوں سے آنسوں ٹوٹ کر گرے تھے۔۔۔

جزا ۔۔ وافیہ نے اس کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لیا تھا۔۔ اور ادھر جزا نے پہلی بار اس کو باغور دیکھا تھا۔۔ وہ ہلکی نیلی انکھوں اور سہنری  بالوں والی ایک خوبصورت لڑکی تھی جس کے لہجے سے مٹھاس ٹپکتی تھی۔

جزا مت رو اتنا رو کے خود کو زیادہ تکلیف مت دو۔۔ وافیہ نے اس کے  ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لیا تھا۔۔

اتنی تکلیف تو کوئی دش۔۔ دشمن بھی نہ دے۔۔ جتنی مجھے میری زندگی نے دی ہے۔۔۔  جزا کی آواز میں کپکپاہٹ تھی۔۔۔

جزا ایسے نہیں بولتے ۔۔وافیہ نے اس کے آنسو کو صاف کیا تھا۔۔

یہ درد میں  برداشت نہیں کر سکتی میں نے کبھی نہ سوچا تھا میں اس شخص کو کھو دوں گئی۔۔ جزا نم آنکھوں سے بولی تھی۔۔

انسان کی زندگی میں بہت حادثے ایسے ہوتے ہیں جن کا وہ گمان بھی نہیں رکھتا۔۔ اور ایسے حالات میں صبر کرنا چاہیے ۔۔ وافیہ اس کو پیار سے سمجھاتی بولی تھی۔۔

کچھ حادثوں پر صبر کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔۔ کچھ حادثے آپ کی روح تک کو ترپا جاتے ہیں ان پر صبر نہیں کیا جا سکتا ۔۔ جزا روتے ہوئے ںولی تھی۔۔

مگر تمہیں خود کو سنبھالنا ہو گا۔۔ وافیہ نے اس کو سہارا دے کر بیٹھیا تھا۔۔

کس کس بات پر سنبھالوں خود کو۔۔ میرے سامنے میرے ماں باپ مار دیے گئے ، میری پھوپھو مار دی گئی۔ میری بہن بے آبرو کی گئی اس کو مار دیا گیا۔۔ اب میرا شوہر ۔۔۔ میں کس کس بات پر خود کو سمبھالوں کون کون سے دکھ پر صبر کروں۔۔جزا بےتحاشہ روئی تھی۔۔

اتنی مضبوط نہیں ہوں میں ۔۔ نہیں ہے مجھ میں اتنا صبر ۔۔ جزا روتے ہوئے بولی تھی۔۔ جبکہ اب کی بار آنسوں وافیہ کی آنکھوں میں بھی تھے۔۔

کبھی کبھار انسان کے پاس دلاسہ دینے کے لیے بھی الفاظ ختم ہو جاتے ہیں ۔۔ اس وقت بس سامنے والے کا غم سن لینا چاہیے ۔۔ کیونکہ ہر غم کو دلاسے کے چند لفظوں کی ضرورت نہیں ہوتی کچھ غم اس قدر تکلیف دہ ہوتے ہیں کہ ان کو بس سنا جا سکاتا ہے۔

میں ان کچھ ماہ میں وہ سب کھو چکی ہوں جو انسان ایک زندگی گزارتے ہوئے کھوتا ہے۔۔وہ تمام دکھ مجھے ایک ساتھ کچھ ماہ میں مل گئے۔۔ میرے ہاتھ بلکل خالی کر دیے گئے ہر رشتے سے۔۔ جزا اپنے ہاتھوں کو دیکھتے بولی تھی۔۔

میں نے تو ابھی اس کا اصل بھی نہ جانا تھا۔۔ابھی اس کو ڈھونڈا بھی نہ تھا۔۔ اور اس کو کھو دیا ۔۔  جزا سر کو بیڈ کروان سے ٹکاتے بولی تھی۔۔

جبکہ وافیہ نے آگے ہو کر اس کو نرمی سے اپنے گلے لگا لیا تھا۔۔ چہرہ اس کا بھی آنسوں سے بھیگا ہوا تھا۔۔ اس کو اپنے کھوئے ہوئے رشتے یاد ا گئے تھے ۔۔۔

••••••••••••••

تم اس ڈاکٹر کے پاس کیوں نہیں جا رہے ہو۔۔ اکرم صاحب ابھی اس کے کمرے میں آئے تھے۔۔

کیونکہ مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے۔۔ شہزاد نے فون سکرین سے نظر اٹھا کر ان کو دیکھا تھا۔۔

کیا مطلب ضرورت نہیں سمجھتا سے ؟؟ اکرم صاحب غصے سے بولے تھے۔۔

لگتا ہے آپ کی ڈاکٹر سے بات ہوئی ہے تبھی آپ اتںا بھرک رہے ہیں۔۔ شہزاد پرسکون ہو کر بولا تھا۔۔

اپنی بکواس بند کرو شہزاد ۔۔ تمہیں سمجھ کیوں نہیں آتی تمہیں علاج کی ضرورت ہے۔۔ اکرم صاحب اس کو سخت نظروں سے گھورتے ہوئے بولے تھے۔۔

اور میں کہہ رہا ہوں مجھے علاج کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔ شہزاد خود کو نارمل کرتے تحمل سے  بولا تھا ۔۔

تمہیں ہر دوسری جگہ وہ لڑکی نظر آتی ہے اور تم اس کے پیچھے دیوانہ وار بھاگتے ہو۔۔ تم راتوں کو سو نہیں پاتے تمہیں خون نظر آتا ہے ۔۔ تم سکون ڈھونڈنے سڑکوں پر نکل جاتے ہو۔۔ اور ابھی تمہیں ضرورت نہیں ہے۔۔ اکرم صاحب اس کے سامنے بیٹھتے بولے تھے۔۔ جبکہ شہزاد بس ان کو دیکھتا رہ گیا تھا۔۔

ایسا کچھ نہیں ہے۔۔ شہزاد اکرم صاحب کو دیکھتا بولا تھا۔۔

تم کیوں کر رہے ہو اپنے ساتھ ایسے۔۔ اکرم صاحب اب کی بار بے بسی سے بولے تھے۔۔

میں کچھ نہیں کر رہا۔۔ نہ مجھے کچھ ہو رہا ہے آپ بے فکر رہیں ۔۔ وہ بس ایک برا خواب ہے اور کچھ نہیں ۔۔ شہزاد نرمی سے بولا تھا۔۔

شہزاد خود کا خیال رکھو اور اپنے آپ کو ذہنی دباؤ سے دور رکھو۔۔ اپنے ذہن کو پر سکون رکھو بس۔۔ اکرم صاحب اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے بولے تھے جبکہ  شہزاد بس سر اثبات میں ہلا رہا تھا۔۔ اکرم صاحب یہ کہہ کر کمرے سے نکل گئے تھے۔۔ جبکہ وہ اپنی جگہ سے اٹھا تھا۔۔ اور ایک سگیرٹ جلا کر لبوں میں دباتا بلکہنی کی طرف بڑا تھا۔۔

کاش آپ مجھے میری روح کو پرسکون رکھنے کا کہتے ڈیڈ ۔۔ کیونکہ سکون میری روح کو نہیں ہے۔۔ میری روح میرا وجود سکون کی تلاش میں ہے۔۔ اور جب تک اس کو سکون نہیں ملے گا تب تک ذہنی سکون کیسے مل سکتا ہے۔۔ شہزاد مدہم آواز میں بولتا سیگریٹ کا ایک گہرا کش لے چکا تھا۔۔

اس نے اپنی شرٹ اتاری تھی۔۔ اور فرش کی طرف جھکا تھا اور اب وہ پوش آپس کر رہا تھا۔۔ اہستہ اہستہ اس کا جسم پسینے سے بھرنے لگا تھا۔۔ اس کی سانس پھولنے لگی تھی۔۔ اس کے سیٹ ہوئے ہوئے بال اس اس کے ماتھے پر پسینے کی وجہ سے چپیک گئے تھے ۔۔ جب اس کے فون کی بیل نے اس کا دھیان اپنی طرف کھینچا تھا ۔۔  وہ ایک لمحے کے لیے زمین پر بیٹھ گیا تھا۔۔۔ اور پھر اٹھ کر کمرے میں واپس گیا تھا۔۔ اپنا فون اٹھا کر کال اٹھا کے سپیکر پر کی تھی۔۔ اور خود ٹاول سے اپنے جسم سے پیسنے کو صاف کرتا اپنی سانس کو نارمل کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔۔۔

ہیلو برو۔۔ نواز کی اواز اس کی سماعت سے ٹکرائی تھی۔۔

بلو۔۔ شہزاد ٹاول کو ایک طرف رکھتے بیڈ پر بیٹھتا بولا تھا۔۔۔

کلب جا رہا ہوں آجا تو بھی۔۔  نواز کی پر جوش آواز سپیکر پر سے گونجی تھی۔۔۔

ا رہا ہوں۔۔ شہزاد نے یہ کہہ کر کال کاٹ دی تھی۔۔ اور اٹھ کر کپڑے چینج کرنے چلا گیا تھا۔۔

••••••••••••

کلب میں موزیک اونچی آواز چل رہا تھا جبکہ تمام لڑکے لڑکیاں اس آواز پر ناچ رہے تھے۔۔وہ دونوں ابھی کلب میں داخل ہوئے تھے۔۔۔  نواز ہر ایک لڑکی کو غور سے دیکھتا آگے بڑھ رہا تھا جبکہ شہزاد ہر چیز سے بے تعلق سا آگے بڑھتا جا رہا تھا۔۔ وہ دونوں اس وقت چیر پر  بیٹھے اپنے ہاتھ میں وان گلاس لیے اپنے آس پاس کے ماحول کو دیکھ رہے تھی۔۔۔ نواز وان گلاس منہ سے لگائے کچھ لڑکیوں کو غور سے دیکھ رہا تھا۔۔

شہزاد تمہیں نہیں لگتا آج کلب حسیناؤں سے بھرا پڑا ہے۔۔۔ نواز ہنستے ہوئے بولا تھا۔۔

تمہاری ہوس پوری نہیں ہو سکتی لڑکیاں ختم ہو جائیں گئی۔۔ شہزاد ہنستے ہوئے بولا تھا۔۔۔

شہزاد نے اپنا گلاس دوبارہ سے کنٹور پر رکھا تھا۔۔ جبکہ نواز اس کی بات پر اس کی طرف موڑا تھا۔۔۔

جب لڑکیاں ہو ہی اتنی حسین تو کون کمبخت دل کو قابو کرے ۔۔ یہ کہہ کر نواز اپنی جگہ سے اٹھا تھا۔۔ اور لڑکیوں کے ایک گروپ کی طرف بڑا تھا۔

اس کا کچھ نہیں ہو سکتا۔۔۔ شہزاد ہنستے ہوئے بولا تھا۔۔۔  جب اس کی نظر اپنے گلاس میں ڈالتی وائن پر گئی تھی۔۔۔ ایک لمحے کو اس کو لگا تھا وہ خون تھا۔۔ اس نے اپنی آنکھیں بند کر کے دوبارہ کھولی تھی۔۔

یہ تم کیا ڈال رہے ہو میرے گلاس میں ۔۔۔ شہزاد بلند آواز میں چیلایا تھا۔۔

سر آپ کی وائن ۔۔  بار بوائے ڈرتے ہوئے بولا تھا۔۔۔

یہ خون ہے۔۔ شہزاد بلند آواز میں بولا تھا۔۔

جبکہ اب کی بار اس کہ آواز نواز کے کان میں گئی تھی وہ جو پاس ہی ایک گروپ کی لڑکیوں کے ساتھ ڈانس کر رہا تھا۔۔ شہزاد کی آواز کو محسوس کر چکا تھا مگر اس کو اس کے الفاظ کی سمجھ نہ ائی تھی۔۔ اس نے موڑ کر شہزاد کو دیکھا تھا۔۔۔

بکواس کر رہے ہو تم۔۔ شہزاد نے اس لڑکے کو گریبان سے پکڑ رکھا تھا جبکہ اس کے ساتھی اس کو چھڑانے کی کوشش کر رہے تھے۔۔ نواز یہ منظر دیکھ کر فوراً شہزاد کی طرف بھاگا تھا۔۔ جبکہ اب سب لڑکے لڑکیاں ڈانس کو چھوڑ کر شہزاد کو دیکھ رہے تھے۔۔۔

کیا ہو گیا ہے شہزاد ۔۔۔ نواز نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا۔۔

یہ میرے گلاس میں خون ڈال رہا ہے۔۔ شہزاد بلند آواز میں بولا تھا۔۔ جبکہ اس کے چہرے پر غصہ صاف تھا۔۔

کیا بول رہے ہو شہزاد یہ گریپ وائن ہے۔۔۔ نواز شہزاد کو دیکھتا بولا تھا۔۔

نہیں یہ خون ہے۔۔ شہزاد اس گلاس کی طرف اِشارہ کرتے بولا تھا۔۔ جبکہ نواز نے وہ گلاس منہ سے لگا لیا تھا۔۔

یہ خون نہیں ہے شہزاد ۔۔۔ میں نے ابھی اس کو پیا پے یہ گریپ وائن ہے۔۔ نواز اس کو جھنجھوڑتے ہوئے بولا تھا۔۔

مگر نواز ۔۔ شہزاد اس کو حیرت سے دیکھتا رہا تھا اس جو سمجھ نہیں ارہی تھی کہ اپنی بات اس کو کیسے بتائے۔۔۔۔ 

تم چلو میرے ساتھ ۔۔ نواز اس کے بازوؤں کو تھامے اپنے ساتھ لیے باہر کی طرف بڑھا تھا۔۔۔

کیا ہو گیا ہے شہزاد ۔۔ نواز اس کو کار کے پاس کھڑا کرتا بولا تھا۔۔

نواز میرا یقین کرو وہ خون تھا۔۔ شہزاد نے اس کو یقین دلانا چاہا تھا۔۔

میں  نے تمہارے سامنے اس گلاس کو پیا تھا وہ گریپ وائن تھا۔۔۔ نواز نے اس کو ایک بار پھر سے سمجھنا چاہا تھا۔۔۔

شہزاد پلیز ہوش میں آؤ ۔۔ نواز اب کی بار بلند آواز میں بولتا اس کو مکمل جھنجھوڑ چکا تھا۔۔ جبکہ شہزاد خاموشی سے اس کو اب دیکھ رہا تھا۔۔۔

کیا ہو گیا ہے تمہیں شہزاد ؟؟ کیوں تمہیں خون ہر طرف نظر آتا ہے یا پھر جزا۔۔۔ نواز پریشانی سے اس کی طرف دیکھتا بولا تھا۔۔

مُجھے نہیں پتا یہ سب کیا ہے۔۔ شہزاد یہ  کہہ کر آگے بڑھا تھا۔۔۔

کدھر جا رہے ہو اب۔۔۔ نواز اس کے پیچھے بڑھا تھا۔۔

واپس ۔۔ شہزاد یہ کہہ کر اپنی کار میں بیٹھ کر نکل گیا تھا۔۔۔ جبکہ نواز ایک سرد آہ بھر کر رہ گیا تھا۔۔۔

اس کی کار کا روخ گھر کی طرف نہیں تھا۔۔۔  وہ آج پھر سے سڑکوں پر بغیر کیسی مقصد کے  ڈرائیو کر رہا تھا۔۔۔۔۔۔

•••••••••••••

اج تقریباً دو سے تین ہفتے ہونے والے تھے ۔۔ کوئی ایک دن نہ تھا جو اس نے رو کر نہ گزار ہو۔۔۔ اس کی آنکھیں اس شخص کے بچھڑ جانے پر نہ روئی ہوں۔۔۔ وہ اپنے کمرے کی بالکہنی میں کھڑی تھی اس کی آنکھیں نم تھی جب وافیہ اس کے کمرے میں ائی تھی۔۔۔

ان کچھ دنوں میں ہی اس کی وافیہ سے بنے لگی تھی اور مزمل بیگم تو اس کو چھوٹی بچی کی طرح ڈیل کرتی تھی۔۔

جزا میڈم آ جائے آپ کی بندڈیج چینج کرنے کا ٹائم ہے۔۔ وافی اس کے پاس آ کرکھڑی ہوتے بولی تھی۔۔۔

آج نہیں ۔۔جزا مدہم آواز میں بولی تھی۔۔۔

میڈم زخم روز صاف کرنا ہوتا ہے ۔۔ اور اب تو وہ پہلے سے بہت بہتر ہو گیا ہے ۔۔ بہت جلدی تمہارا زخم ریکور کر رہا ہے۔۔ وافیہ اس کا بازو پکڑے اس کو واپس کمرے میں لے جاتی بولی تھی۔۔

یہ سب تمہاری کیر کا نتیجہ ہے۔۔ جزا ہلکا سا مسکرائی تھی۔۔۔ ان دو ہفتوں میں وہ پہلی بار مسکرائی تھی مگر بہت ہلکا سا ۔۔

تم اج پھر روئی ہو۔۔۔ وافیہ اس کے زخم کو صاف کرتے بولی تھی۔۔۔

نہ۔۔ نہیں تو۔۔۔ جزا بامشکل بولی تھی۔۔

جھوٹ۔۔ وافیہ نے یک لفظی جواب دیا تھا۔۔

سچ بول رہی ہوں۔۔ جزا مدہم آواز میں بولی تھی ۔۔

جزا زبان جھوٹ بولتے ہوئے لڑکھڑاتی ہے ۔۔ وافیہ نے ایک نظر اس کو دیکھا تھا۔۔۔

ہاں روئی تھی میں ۔۔ جزا شرمندہ سی بولی تھی۔۔۔ جبکہ وافیہ اب اس کے زخم پر پھر سے پٹی کر رہی تھی۔۔۔

کیوں روتی ہو اتنا جزا ۔۔وافیہ نے اس کے مرجھائے ہوئے چہرے کو دیکھا تھا۔۔ اور اپنے ہاتھ پر سے گلواز اتارتے ہینڈ سینٹازر لگاتے بولی تھی۔۔

اگر زندگی میں سوائے رونے کے کچھ باقی نہ رہے تو انسان کیا کرے۔۔ جزا نم آنکھوں سے بولی تھی۔۔۔

اتنا رونا اچھا نہیں ہوتا جزا۔۔وافیہ نے نرمی سے اس کا ہاتھ تھاما تھا۔۔۔

مجھے سمجھ نہیں اتی اتنی تکلیف اتنی اذیت کیوں۔ مجھے کیوں اتنا آزمایا جا رہا ہے۔جزا آنکھیں سختی سے بند کیے بولی تھی  اس کی آواز میں بے تحاشہ درد تھا جیسے ایک شخص درد برداشت کر کر کے تھک گیا ہو ۔

کیا تم نہیں جانتی اللہ اس کو آزماتا ہے جس کو وہ اپنے  قریب لانا چاہتا ہے ۔ کہ وہ شخص تکلیف کے بہنے ہی سہی مگر اس کے پاس آئے ۔۔ اس کو پکارے ۔۔ وافیہ نے اس کے ہاتھ کو نرمی سے اپنے دونوں ہاتھ میں لے کر کہا تھا۔۔ جبکہ اس بات پر جزا کے آنسوں ایک لمحے کو تھم گئے تھے اس نے وافیہ کو دیکھا تھا۔۔

اپنی اذیت کا گلا مت کرو کیا پتا اللّٰہ چاہتے ہوں کے تم ان کو پکارو ۔۔ ان سے اپنی زندگی میں سکون مانگو ۔۔ اپنے درد کی دوا مانگو ۔۔ کیونکہ اللہ  کو جن کو  اپنے قریب کرنا چاہتا ہے ان کو آزماتا ہے ان کو تکلیف سے گزار کر ان سے ان کی پسندیدہ چیز لے کر یا کیسی بھی طرح ۔۔ وہ ان کو آزماتا ہے تاکہ وہ اس آزمائش میں اللّٰہ کو پکاریں ۔۔ وافیہ نے اس کو خاموش دیکھ کر پھر سے کہا تھا۔۔ جبکہ اب کی بار جزا نے کہ آنکھیں پھر سے بھرنے لگی تھی۔ 

کیا واقع ہی ایسا ہے۔۔ جزا اس کو دیکھتے بولی تھی ۔ 

بلکل ایسا ہے ۔۔۔ وافیہ ندہم سا مسکرائی تھی ۔۔

مگر ہم مسلمان تو اللّٰہ کے قریب ہی ہیں ۔۔ جزا کچھ سوچتے ہوئے بولی تھی ۔۔

تم کیسے کہہ سکتی ہو ہم مسلمان اللّٰہ کے قریب ہی ہوتے ہیں ؟ وافیہ نے اس کو دیکھا تھا۔

جبکہ وافیہ کے اس سوال پر جزا مکمل خاموش تھی۔۔۔  اس کے پاس اس بات کا جواب نہیں تھا۔۔

اچھا یہ بتاؤ اگر ہم چاہتے ہیں کہ کوئی ہم سے محبت کرے ہم اس کے قریب ہو جائیں تو ہم کیا کرتے ہیں ؟؟ وافیہ اس کو نرمی سے دیکھتے ہوئے بولتی اس کے بالکل سامنے بیٹھ گئی تھی۔۔

ہم اس کی ہر بات مانتے ہیں ۔۔ اس کی ایک پکار پر اس کے پاس جاتے ہیں ۔۔ وہ کام کرتے ہیں جو اس کو خوشی دے۔۔ ویسے بنے کی کوشش کرتے ہیں جیسے اس کو پسند ہوں۔ جزا نے وافیہ کو دیکھا تھا جیسے تصدیق چاہا رہی ہو کہ اس نے ٹھیک بولا کہ نہیں ۔۔

تو کیا ہم اللہ کے بولنے پر اس کے پاس بھاگے چلے جاتے ہیں ؟؟ وہ ہمیں دن میں پانچ بار بولتا ہے۔۔ہم کتنی بار جاتے ہیں ؟ اور اگر چلیے بھی جائیں تو پہلے اپنے کام کرتے ہیں ۔۔ یا اس کے پاس جانے کے بعد بھی دماغ دنیاوی سوچوں سے بھرا ہوتا ہے۔۔ کیا ایسا نہیں ہے؟ وافیہ نے جزاکو دیکھا تھا۔۔

ایسا ہی ہے ۔جزا بس اس کو دیکھتی رہ گئی تھی ۔

ہم کتنی باتیں مانتے ہیں اللّٰہ کی؟  وال تو بہت کم مانتے ہیں ۔۔ اور جو مانتے ہیں وہ بھی ہمارے مطلب کی مانتے ہیں۔۔ جس باتوں سے ہمارا سروکار ہو۔ ہم ایسے مسلمان ہیں ہم اپنے پروردگار کی بھی وہ باتیں مانتے ہیں جن میں ہمارا اپنا مفاد ہو ورنہ ےو ہم وہ بھی نہ مانے ۔ وافیہ نرمی سے بولی تھی ۔۔

بلکل ایسا ہی ہے۔۔ جزا لاجواب تھی اس وقت۔۔۔

اور پتا ہے ہم اللّٰہ کی خوشی کے لیے اتنے کام نہیں کرتے جیتنے اس کے بندے کو خوش کرنے کے لیے کرتے ہیں ۔۔  اور مزہ کی بات بتاؤ ۔۔وافیہ جزا کو دیکھتی ہلکا سا مسکرائی تھی ۔

بتائیں ۔۔جزا اس کو دیکھتے بولی تھی ۔

اس خلق کی خوشی کے لیے ایک نیکی بھی کر دو تو وہ اس نیکی کے بدلے گناہ معاف کر دیتا ہے۔۔ اپنا کرم ہم پر کرتا ہے ۔۔ ہماری دعاوں کو پر اثر بناتا ہے۔۔ وہ ہمارے عیب نہیں دیکھتا تب وہ بس ہم سے راضی ہو جاتا ہے جزا ۔۔جبکہ دوسری  طرف  بندہ بشر کے لیے آپ اپنا آپ مار ڈالو ۔ اپنی ہستی تباہ کر دیںا اپنی ہر خوشی رد کر دیں۔۔ اس کے لیے اچھے بنتے بنتے تھک جائیں وہ پر بھی آپ کے عیب نکل کر سامنے رکھے گا وہ پھر بھی آپ سے راضی نہ ہو گا وہ آپ اس کے لیے جتنا جھکیں گے وہ آپ کو اور جھکائے گا۔۔ جبکہ اللّٰہ کے سامنے جو جھک جائیں  اللّٰہ ان کو دنیا میں سر بلندی عطا کرتا ہے کہ بندے کے سوچ سے پڑے ہے سب۔۔وافیہ بولتے ہوئے روکی تھی۔۔۔

کیا اللہ کو راضی کرنا اتنا آسان ہے؟ جزا نم آنکھوں سے بولی تھی۔۔

یہ جو دل ہے جب ٹوٹ چکا ہو امید ختم ہو چکی ہو گناہ سے تھک چکے ہو۔۔ مکمل شکست کھا کر جب تم اللہ کے سامنے جاو اس زمانے سے ہار کر تم اللہ کے سامنے جاؤ ۔۔ سر پر گناہوں کا بوجھ لیے تم اللہ کے سامنے جاؤ ۔۔ اور اس وقت تمہاری آنکھوں سے ایک ندامت کا نکلا انسو ۔۔ صرف ایک انسو جو تماہری ندامت ،تمہاری تباہی تمہاری بدحالی کا گواہ تمہاری مغفرت کرو سکتا ہے۔۔ تمہارے اللہ کو راضی کر سکتا ہے۔۔ اللہ تو ایک آنسو سے راضی ہو جاتا ہے معاف کر دیتا ہے جہنم حرام کر دیتا ہے۔ جبکہ انسان کے سامنے ہم گرگرا کر بھی معافی مانگے وہ معاف نہیں کرتا۔۔ میرے اللّٰہ کو منانا بہت آسان ہے جزا۔۔ وافیہ اس کو دیکھتے بولی تھی۔

ہم تو اس مالک کے سمانے سجدہ بھی تب کرتے ہیں جب ہمیں کچھ چاہیے ہو جب ہمیں کچھ مانگنا ہو۔۔ ورنہ کتنے دن ہمارے جانماز تہ لگے رہتے ہیں ۔۔ کیا اب بھی کہو گئی ہم مسلمان اللہ کہ نزدیک ہیں اللہ کہ قریب ہیں ؟؟ وافیہ بھیگی آنکھوں سے اس کو دیکھ رہی تھی۔۔۔

نہیں ۔۔۔ ہم بہت دور ہیں ۔۔ جزا کی آنکھ سے ایک آنسو نکلا تھا۔۔

تو بس اس ہی وجہ سے وہ ہمیں تکلیفوں میں الجھتا ہے ہمیں آزماتا ہے۔۔ تاکہ ہم اس کی طرف لوٹ آئیں اس کو پکارے اس سے مدد مانگے۔ اس دور نہ جائیں ۔۔وافیہ نرمی سے جزا کے ہاتھ کو تھپتھپاتے بولی تھی۔۔

جبکہ جزا خاموش آنسو بہہ رہی تھی اس کے پاس فلحال کوئی الفاظ نہ تھے ۔۔

تم کیوں شکوہ  کرتی ہو۔۔ اللّٰہ ان کو آزمائش میں ڈالتا ہے جن کو وہ اپنے قریب کرنا چاہتا ہے۔۔ تم اللہ کے قریب ہو اللہ تمہاری مشکل آسان کرتا چلا جائے گا۔ وہ ایک سے بڑھ کر ایک راستہ تمہارے لیے نکالے گا۔۔ وافیہ اس نے اس کے بہتے انسو صاف کیے تھے

جبکہ جزا نم آنکھوں سے سر اثبات میں ہلا رہی تھی۔۔ دل میں کہیں سکون اترا تھا۔۔۔

کیا کر رہی ہیں میری بیٹیاں ۔۔ مزمل بیگم اندر آتے بولی تھی۔۔

کچھ نہیں باتیں کر رہی تھی   بس ہم۔۔ وافیہ اور جزا ایک ساتھ بولی تھی اور پھر دونوں مسکرا پڑی تھی۔۔۔

میں سب کے لیے لائیٹ سا کچھ کھانے کے لیے لاتی ہوں۔۔یہ کہہ کر وہ کمرے۔ باہر چلی گئی تھی جبکہ مزمل بیگم جزا پر چاروں قول پڑھ پڑھ کے پھونک رہی تھی۔۔ ان کو وافیہ اور جزا دونوں ہی بہت پیاری لگتی تھی۔۔ اور وہ ان کا خیال بھی ماں کی طرح رکھتی تھی۔۔

••••••••••••••

دیکھ لغاری میں آخری بار کہہ رہا ہوں مجھے میرا پیسہ واپس دے۔۔ وہ ایک ادھیڑ عمر کا آدمی تھا جس نے اس وقت سفید کلر کا پینٹ کوٹ پہن رکھا تھا اور وہ اس وقت عمران لغاری کے اوفس میں تھا۔

وقار صاحب ۔۔ میرا یقین کریں میں آپ کو بہت جلد ساری قیمیت آدا کر دوں گا۔۔ عمران لغاری سامنے کھڑے وقار صاحب کو دیکھتے ہوئے بولے تھے۔۔

میں  بتا رہا ہوں لغاری اگر تو نے میری رقم واپس نہ دی تو میں تیرا حشر بگار دوں گا اور اس رقم کی بھرپائی بھی تجھ سے اچھے سے کرواؤں گا۔۔۔ وقار  صاحب ان کے سامنے کھڑے سخت لہجے میں بولے تھے ۔۔۔

وقار صاحب میں کہہ رہا ہوں نہ آپ کو آج رات تک لڑکیاں ۔۔۔ عمران صاحب کے الفاظ منہ میں ہی رہ گئے تھے۔۔۔

لڑکیاں نہیں چاہیے اب لغاری صاحب لڑکیوں کا توذکر بھی مت کرنا ۔۔۔ مجھے جب چاہیے تھی تب تو نے دی نہیں اب بس مجھے میری رقم واپس چاہیے ہے لغاری ۔۔۔  وقار صاحب ان کو وارننگ دیتے ہوئے بولے تھے۔۔۔

اس ہفتے میں ہی آپ کی رقم واپس ہو جائے گئی وقار صاحب ۔۔۔ عمران صاحب وقار صاحب کو دیکھتے بولے تھے جو ان کی کییس بات کو سمجھنے کو تیار نظر نہیں آ رہے تھے۔۔۔

اور جو چال بزی تو نے میرے ساتھ کھیلی ہے اور جو بےعزتی تو نے میری کی ہے اس کا بدلہ میں تجھ سے اچھے سے وصول کروں گا۔۔ بھول مت وقار وصولی کے معاملے میں بہت سخت ہے۔۔ یہ کہہ کر وقار صاحب ان کے اوفس سے باہر چلے گئے تھے۔۔ جبکہ عمران صاحب اپنی جگہ پر بیٹھتے غصے سے کیسی کو فون کر رہے تھے۔۔۔

میری بات سن اگر اگلے ہفتے تک سارا پیسہ کلیر ہونا چاہیے ورنہ میں تیری خال ادھیڑ کر رکھ دوں گا۔۔ وہ  وقار آج بھی بکواس کر کے گیا ہے۔۔ عمران صاحب فون پر غصے سے کیسی سے بات کر رہے تھے۔۔

سر فکر نہ کریں آج ہی سارا پیسہ کلیر ہو جائے گا۔۔ وہ آدمی فوراً سے بولا تھا ۔۔جبکہ اس کی بات سنے کے بعد عمران صاحب نے فوراً سے فون رکھ دیا تھا۔۔۔

•••••••••••••••••

لغاری کی ایک ایک حرکت پر نظر رکھو اور مجھے یہ بتاؤ اس کی کوئی کمزروی ملی ؟۔۔۔ وقار صاحب اپنے گھر کے لاون میں بیٹھے ہوئے اپنے آدمیوں کو حکم دے رہے تھے۔۔۔

سر  عمران لغاری کی ایک بیٹی ہے۔۔ جوان ہے اور خوبصورت ہے۔۔ اس کا ایک آدمی فوراً بولا تھا۔۔۔

جوان ہے اور خوبصورت ہے؟؟ وقار صاحب کافی دلچسپی سے بولے تھے۔۔۔

جی سر۔۔ اس کا آدمی فوراً سے بولا تھا۔۔۔

کوئی تصویر ۔۔۔ وقار صاحب دلچسپی سے بولا تھا۔۔۔

سر یہ ہے تصویر ۔۔۔ اس آدمی نے فوراً سے ایک تصویر نکلا کر وقار صاحب کے سامنے کی تھی۔۔۔

واقع ہی خوبصورت ہے۔۔۔ وقار صاحب اس تصویر کو باغور دیکھتے بولے تھے۔۔

کون خوبصورت ہے ڈیڈ۔۔ وقار صاحب کا ایک لوتا بیٹا ان کے پاس آ کر بیٹھا تھا۔۔۔

یہ لڑکی۔۔ وقار صاحب اس تصویر کو دلچسپی سے دیکھتے بولے تھے۔۔۔

جب ان کے بیٹے نے ہاتھ اگے بڑھایا تھا اس نے وہ تصویر گھور سے دیکھی تھی۔۔۔ لینا اس کو بہت خوبصورت لگی تھی۔۔۔

ڈیڈ اگر برا نہ مانے تو یہ لڑکی مجھے چاہیے ہے۔۔ ان کا بیٹا کافی دلچسپی سے بولا تھا۔۔۔

جیسا تم چاہو ۔۔ یہ لڑکی میرے بیٹے اسفند کی ہوئی ۔۔۔  وقار صاحب ہنستے ہوئے بولے تھے ۔۔

جیسا حکم سر۔۔ کل ہی یہ لڑکی آپ کے پاس ہو گئی۔۔۔ اس کا آدمی سر اثبات میں ہلاتا بولا تھا۔۔۔

ابھی نہیں جب میں کہوں گا تب۔۔ وقار صاحب کچھ سوچتے بولے تھے۔۔

مگر ابھی کیوں نہیں ۔۔ پاس بیٹھا اسفند اب کی بار بولا تھا۔۔

میری آج کل لغاری سے لین دین خراب ہے۔۔ ابھی اس کی بیٹی کو اُٹھایا تو شک میں ائیں گے۔۔ وقار صاحب شاطر نظروں سے دیکھتے بولے تھے۔۔۔

سمجھ گیا ہو ڈیڈ ۔۔۔ اسفند ہنستے ہوئے بولا تھا۔۔۔

بال ایسے ہی سفید نہیں کیے۔۔ بہت سی بازیاں کھیلی ہیں ہم نے۔۔ تیر مچھلی کی آنکھ میں کب اور کیسے مارنا ہے بہت اچھے سے جانتے ہیں ہم۔۔۔ وہ مغرور لہجے میں بولتے ہنستے چلے گئے تھے۔۔۔۔۔

••••••••••••••

خیر ہے اس وقت ادھر اکیلی بیٹھی ہو۔۔مزمل بیگم اس کے پاس باہر لون میں آ کر بیٹھتے بولی تھی۔۔۔ جبکہ وافیہ اپنے کمرے میں سو رہی تھی ۔۔

نیند نہیں آ رہی تھی ۔۔ جزا مدہم آواز میں بولی تھی۔۔۔

نیند نہیں آ رہی یا تم سونا نہیں چاہتی۔ مزمل بیگم نے اس کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لیا تھا۔۔

انٹی ایک بات بولوں۔۔ جزا ان کو دیکھتے ہوئے مدہم آواز میں بولی تھی ۔۔

بولو بیٹا کیا بات ہے۔۔ انہوں نے اس کے سر پر پیار سے ہاتھ رکھا تھا۔۔۔

مجھے نہ اثر ایسا لگتا ہے جیسے مجھ سے کیسی نے میرا وجود دور کر دیا ہے۔۔ مجھے اس کی بہت یاد آتی ہے۔۔ جزا کی آواز بھر ائی تھی ۔۔

آپ کو پتا ہے میرا دل شدت سے خواہش کرتا ہے کہ وہ بس ایک بار میرے سامنے آ جائے ۔۔ مجھے پکارے ۔۔ مجھے کہہ کے میں تم سے دور نہیں گیا تم نے مجھے نہیں کھویا ۔۔ جزا کی آنکھیں نم ہوئی تھی۔۔ جبکہ مزمل بیگم خاموشی سے  بس اس کو سن رہی تھی وہ چاہتی تھی آج وہ اپنے دل کا حال بول لے۔۔

مگر کہتے ہیں نہ کچھ خواہشیں خواہشیں ہی رہ جاتی ہیں ۔۔ کچھ حسرتیں حسرتیں ہی رہتی ہیں ۔ میرا دل نہیں مانتا وہ مر گیا ہے مگر حالات اس بات کا یقین دلاتے ہیں۔۔ جزا کی آنکھیوں سے اب کی بار آنسو چھلکنے لگے تھے ۔۔

مجھے یہ بات اندر ہی اندر مارتی ہے۔۔ میں نے اس کو ڈھونڈنے سے پہلے ہی مکمل کھو دیا۔۔۔ وہ مجھے کہتا تھا مجھے میرے مٹنے سے پہلے ڈھونڈ لینا جزا تاکہ تم صفائی مانگو تو میں صفائی دے سکوں۔ تم ناراض ہو تو منا سکوں۔چھوڑ کر جانا چاہو تو روک سکوں۔۔ مگر دیکھیں نہ انٹی وہ مجھے چھوڑ گیا۔۔ جیسے بابا مجھے چھوڑ گئے ۔۔ جزا کا چہرہ انسو سے بھیگ چکا تھا۔۔۔

میں اب اس کو کہاں ڈھونڈوں ۔۔۔ وہ میرے ہاتھ خالی کر گیا انٹی ۔۔ وہ مجھے تنہا کر گیا۔۔ جزا اپنے خالی ہاتھوں کو دیکھتے بولی تھی۔۔۔

جس سے محبت ہو ان کو ادھر اس دل میں ڈھونڈا جاتا ہے۔۔ مزمل بیگم نے اس کے دل کی جگہ پر ہاتھ رکھا تھا ۔

محبت ۔۔۔ جزا نے بس یہ ایک لفظ بولا تھا۔۔

کیا محبت نہیں ہے تمہیں ؟؟ مزمل بیگم نے اس کی آنکھوں میں دیکھا تھا۔۔ جبکہ وہ نظریں چورا گئی تھی۔۔۔

تم مجھ سے نہیں خود سے نظریں چورا رہی ہو جزا۔۔ اور کب تک نظریں چوراؤ گئی۔۔۔ مزمل بیگم مدہم سا بولی تھی۔۔۔ جبکہ اس کے آنسوں میں روانی آ گئی تھی۔۔۔

آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں میں خود سے نظریں چورا رہی ہو اور اب تھک گئی ہوں چورا چورا کر۔۔۔ ہاں ہے مجھے اس سے محبت میں کرتی ہوں اس بات کا اعتراف ۔۔ وہ پہلا اور آخری مرد ہے جو میرے دل میں وہ مقام رکھتا ہے جو کوئی اور مرد نہیں لے سکتا ۔۔ جزا بولتے ہوئے ایک لمحے کو روکی تھی۔۔۔  ایک ہلکی سے سسکی اس کے لبوں سے جدا ہوئی  تھی۔۔۔

وہ میری زندگی کے دشت میں الفت کی ایک خوبصورت کرن ہے۔۔۔ جزا سر جھکا کر اپنا منہ ہاتھوں میں چھپا کر رو پڑی تھی۔۔۔

کب میں نے سب کھو دیا تھا وہ تب میرے پاس آیا تھا۔۔۔او۔۔اور اب جب مجھ۔۔۔ مجھے لگنے لگا۔۔۔ کہ میرے لیے وہ ہی کافی ہے۔۔ تو مجھ سے اس کو ہی دور  کر دیا گیا۔۔۔  جزا روتے ہوئے بولی تھی۔۔۔  جب مزمل بیگم نے اس کو اپنی ممتا کے آغوش میں لیا تھا۔۔۔

مت رو میری جان مت رو تمہارے آنسوں تکلیف دے رہے ہیں مجھے۔۔۔ اللہ عنقریب تمہیں بہت سی خوشیوں سے نوازے گا۔۔ مزمل بیگم اس کے سر پر بوسا دیتے بولی تھی۔۔ جبکہ اس کی دبی دبی سسکیاں ابھی بھی گونجی رہی تھی۔۔۔

•••••••••••••••

سنا ہے اکرم صاحب تمہارا علاج کروانے کا سوچ رہے ہیں ۔۔ وہ اس کے کمرے کے دروازے کے پاس کھڑا بولا تھا ۔۔۔ جبکہ شہزاد جو ابھی آ کر بیڈ پر گرنے والے انداز میں بیٹھا تھا اس کو غصے سے دیکھ رہا تھا۔۔

تم اپنے کام سے کام کہوں نہیں رکھتے ہو حدید ۔۔۔ شہزاد دانت پیس کر بولا تھا۔۔۔

میں ابھی اپنے کام سے کام ہی رکھ رہا ہوں شہزاد ۔۔ جس دن اپنے کام سے کام رکھنا چھوڈ دیا اور تمہارے اور تمہارے باپ کے کام میں ٹانگ اڑانا شروع کر دی ۔۔ اس دن تم باپ بیٹے کی گردن میرے ہاتھ میں ہو گئی۔۔۔ حدید سخت نظروں سے سامنے بیٹھے شہزاد کو دیکھ رہا تھا۔۔۔

اپنی بکواس بند رکھو حدید زبان نکل دوں گا۔۔ شہزاد غصے سے ڈھارا تھا۔۔

تمیز سے بات کرو شہزاد بڑا ہوں تم سے میں آئندہ میرے سے اونچی آواز میں بات کی تو ایسی لگام کھینچوں گا ساری زندگی یاد رکھو گے۔۔ وہ بھی حدید تھا کیسی بات کا لحاظ نہیں رکھتا تھا۔۔

ویسے تم یہ تو بتاؤ تم دنوں گھر سے غائب رہتے ہو خیر تو ہے۔۔ شہزاد حدید کو تپا ڈینے والی نظروں سے دیکھتا بولا تھا۔۔۔

تم ہر ایک  دو دن بعد کوٹھوں پر جاتے ہو،  کلب جاتے ہو، شراب کے نشے میں دھت لڑکیوں کے ساتھ  راتیں رنگین کرتے ہو ۔۔ کبھی میں نے  تمہاری غیر موجودگی کا تم سے حساب کتاب لیا؟ نہیں نہ۔۔ تو تم بھی مت لو۔۔ کیونکہ میرا حساب کتاب تو صاف ہو گا ۔۔ تمہارا تو دودھ سے دھول کر بھی صاف نہیں ہونے والا۔۔  حدید ایک ایک قدم آگے اٹھاتا اس کے سامنے جا کر کھڑا ہوا تھا۔۔۔

تمہاری تو۔۔ شہزاد نے اس کا گریبان پکڑنے کی کوشش کی تھی۔۔۔

کیسی کی ذات پر سوالیہ نشان بنانے سے پہلے اپنی ذات پر روشنی ڈال لینی چاہیے تاکہ خود کا داغدار دامن بھی نظروں کے سامنے آ جائے ۔۔ حدید شہزاد کے ہاتھوں کو اپنی سخت گرفت میں دبوچے کھڑا تھا۔۔۔

اور ہاں ایک بات گناہ کرنے سے پہلے اتنا ضرور سوچ لیا کرو ایک ذات ہے جو تنہائی میں کیے گناہ سے بھی واقف ہے اور سرعام کیے گناہ سے بھی۔۔ جس دن اس ذات کی پکڑ میں آ گئے اس دن تمہاری طاقت ، تمہاری یہ دولت کیسی کام نہیں آئے گئی۔۔  حدید نے اس کے ہاتھوں کو ایک جھٹکے سے چھوڑا تھا۔۔۔  جبکہ شہزاد اس کو حیرت سے دیکھ رہا تھا۔۔۔

کیا بکواس کر رہے ہو تم۔۔ میں نے کوئی گناہ نہیں کیا اور نہ ہی میں قاتل ہوں۔۔۔  شہزاد غصے سے ڈھارا تھا۔۔۔

پہلی بات  ہر شخص مومن ہے، ہر شخص دین دار، ہر شخص پرہیزگار ، ہر شخص پارسا، ہر شخص نیک ہے مگر صرف نظر آنے کی حد تک کیونکہ انسان کا اصل تو اس کے اور الل ے درمیان ایک راز ہے۔۔ دوسری بات میں نے تو یہ کہہ ہی نہیں کہ تم قاتل ہو۔۔ حدید اس کو جانچتی نظروں سے دیکھتا بولا تھا۔۔

تم میرے کمرے سے باہر نکلو سمجھ آئی نا۔۔۔ شہزاد نے دروازے کی طرف اِشارہ کیا تھا ۔۔

سوچنا پڑے گا تمہیں کس کا خون نظر آتا ہے۔۔  حدید اس پر ایک سوالیہ نظر ڈال کر کمرے سے باہر نکل گیا تھا۔۔ جبکہ اس کے جانے کے بعد شہزاد فورا سے دروازہ بند کرتا باتھ روم میں بھاگا تھا۔۔

وہ نہ جانے کتنی دیر تک پانی کے نیچھے کھڑا رہا تھا۔۔۔ بار بار انکھوں کے سامنے خدیجہ بیگم، انعم بیگم شاہد صاحب کا چہرہ ا جاتا تھا۔۔۔

تم مجھ سے محبت کرتے ہو تم میرے ساتھ ایسا کیسے کر سکتے ہو۔۔ کیسی کی روتی ہوئی آواز ماضی کے پردے پر گونجی تھی۔۔۔

پھر ایک معصوم سے لڑکی کی بھیگی ہوئی آنکھیں ماضی کے پنے پر نظر ائی ۔۔ پنے بدلتے چلے گئے۔۔ ایک چھوٹا سا بچہ جس کی آنکھیں بلکل شہزاد کے جیسی تھی۔۔۔ دو لڑکیوں کا خون سے تر وجود ۔۔۔

اہہہہہہہ ۔۔۔۔ میرا پیچھا کیوں نہیں چھوڑ دیتے تم سب۔۔۔ وہ دیوار پر  دیوانہ وار مکے مار رہا تھا۔۔۔

میری جان چھوڑ دو۔۔ کیوں میری زندگی کا عذاب بن گئے ہو تم سب۔۔۔ شہزاد زمین پر بیٹھتا چلا گیا تھا۔۔۔

کیوں مجھے تم سب کی آوازیں سنائی دیتی ہیں ۔۔۔ کیوں ۔۔۔ شہزاد زمین پر زور زور سے ہاتھ مارتا رہا تھا۔۔۔  وہ رو رہا تھا اس کی سیاہ آنکھیں سرخ ہو رہی تھی۔۔۔  کافی دیر پانی کے نیچھے کھڑا رہا تھا۔۔ وہ ایسے ہی گیلے کپڑوں میں باہر نکل آیا تھا۔۔۔  اور اپنے بیڈ پر اوندھے منہ لیٹ گیا تھا۔۔۔

••••••••••••••

ڈھیڈ مہینہ ہونے کو آیا تھا۔۔ جزا مزمل بیگم اور وافیہ کے ساتھ کافی حد تک گھول مل گئی تھی۔۔ وہ لوگ اس کو کم اکیلا چھوڑتی تھی کیونکہ تنہائی میں وہ ہمیشہ روئی ہی تھی اس کو بیسٹ یاد آ جاتا تھا۔۔  اس کی بازو اور کندھے کا زخم بھی تقریبا ٹھیک ہو گیا تھا۔۔ اور یہ سب وافیہ کی دن رات کی ڈیوٹی کا نتیجہ تھا۔۔۔

تم ادھر اب سکون سے بیٹھوں میں۔۔ آج میں تمہارے لیے کچھ کھانے کو بناتی ہوں۔۔ وافیہ جزا کو کہتی اپنی جگہ سے اٹھی تھی۔۔

میں بھی ہیلپ کرواتی ہوں۔۔ جزا یہ کہہ کر اٹھنے لگی تھی جب وافیہ نے اس کو غصے سے دیکھا تھا۔۔۔

انٹی کیا اس کے وجود میں سکون نام کی چیز نہیں ؟؟ وافیہ بلند آواز میں مزمل بیگم کو مخاطب کرتے بولی تھی۔۔

جزا بیٹا اس کو کرنے دو آج ۔۔ مزمل بیگم ہنستے ہوئے بولی تھی۔۔

پھر میں کیا کروں گئی اتنی دیر میں ۔۔۔ جزا منہ پھولا کر بولی تھی۔۔

تم نے بتایا تھا نہ تمہیں کتابیں پڑھنا پسند ہیں ۔۔ وافیہ کچن سے بولی تھی ۔۔

ہاں۔۔ کیوں کیا ہوا۔۔ جزا اس کی طرف متوجہ ہوئی تھی۔۔

اوپر اینڈ پر ایک سٹیڈی روم ہے تم ادھر جا کر کوئی بک ہی پڑھ لو۔۔ میں نے کل ہی کھلوایا تھا وہ۔۔ وافیہ مصروف سی بولی تھی۔۔۔

میں چلی۔۔۔ کتابوں کا نام سن کر جزا فوراً اپنی جگہ سے اٹھی تھی اور بھاگتے ہوئے سیڑھیوں کی طرف بڑھی تھی۔۔  مگر راستے میں روکی تھی۔۔

ویسے یہ سٹیڈی اَچانک کیسے کھول گئی۔۔  جزا کچھ سوچتے ہوئے بولی تھی۔۔

مجھے کافی ٹائم سے وہ بند کمرہ کھٹک رہا تھا تو آج ملازمین سے کہہ کر کھولوا دیا ۔۔ وافیہ اس کو دیکھتے بولی تھی۔۔۔

ہممم اور جس کا یہ گھر ہے وہ کیوں نہیں  کے ادھر۔۔ ایک اور سوال جزا کے ذہن میں آیا تھا۔۔

کتنی بار اس سوال کا جواب دیا ہے تمہیں لڑکی وہ کام کے سلسلے میں کہیں اور ہے۔۔ وافیہ نے اس کی عقل پر ماتم کیا تھا

اوکے۔۔ جزا یہ کہہ کر بھاگتے ہوئے سیڑھیاں چڑھتی گئی تھی۔۔

دھیان سے سیڑھیاں چڑھو بیوقوف لڑکی بازو اور کندھے میں درد شروع ہو جائے گئی۔ اور آج رات میں نہیں جاگ رہی سمجھ آئی نہ گھونی میسینی ۔۔ وافیہ اس کو بھاگتا دیکھ کر بلند آواز میں بولی تھی جبکہ  اس کی ایک بات پر بھی جزا نے کان نہیں ڈھرا تھا۔۔

سپیڈ دیکھی ہے اس کی۔۔ وافیہ منہ کھولے بولی تھی۔۔۔

جبکہ مزمل بیگم ہنستے ہوئے ان دونوں کو دیکھ رہی تھی ۔۔

••••••••••••••••

وہ سٹیڈی کا دروازے کے پاس منہ کھولے کھڑی تھی۔۔ کیونکہ سٹیڈی ہسٹری ، اُردو ناولز، انگلیش ناولز ، انسائیکلوپیڈیا ، اُردو اور انگلیش پوئیٹری کی کتابیں ، جنرل نولیج کی کتابیں مطلب کہ اس سٹیڈی میں ہر کیٹیگری کی کتاب تھی۔۔

وہ ایک سیکشن کے پاس کھڑی تھی اور اس نے ایک ناول باہر نکلا تھا ۔۔۔ وہ اس ناول کو ہاتھ میں تھامے ٹیبل کی طرف بڑھی تھی ۔۔ مگر بے دھیانی میں چلتے وہ سامنے پڑے ٹیبل سے ٹکرائی تھی۔ اور ٹیبل سے کچھ سامان نیچھے گرا تھا۔۔۔

اہہہہہ ۔۔۔ جزا تو واقع ہی اندھی ہے۔۔چلنا سیکھ لے دوبارہ ۔۔ وہ خود کو کوستی آگے بڑھی تھی جب اس کی فلیٹ جوتی سے نکلی اس کی سرخ وہ گلابی انگلیوں سے کچھ لگا تھا ۔ اس کے قدم ایک لمحے کے لیے روکے تھے ۔  اس نے جھک کر وہ بوکس اٹھا لیا تھا اور اس کو ٹھیک سے بند کرنے لگی تھی جب اس کی نظر اندر موجود چیز پر گئی تھی۔۔ ناول اس کے ہاتھ سے گرا تھا۔۔ اس نے اس بوکس میں سے وہ چیز نکال لی تھی اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔۔ کیونکہ اس وقت اس کے ہاتھ میں وہ پینڈینٹ تھا جو ایک عرصے پہلے اس سے کھو گیا تھا۔۔۔

یہ پینڈینٹ ۔۔۔ جزا نے کانپتے ہاتھ سے وہ پینڈینٹ کھولا تھا۔۔۔ اس میں اس کی اور شاہد صاحب کی تصویر تھی۔۔۔

یہ پینڈینٹ ادھر کیسے ۔۔ جزا کو سمجھ ہی نہ آ رہی تھی کیا بولے۔۔

وہ اس ٹیبل کے پاس پڑی چیڑ پر بیٹھ گئی تھی ۔۔  اس نے اپنی آنکھیں بند کر لی تھی تو خود کو پرسکون کرنا چاہتی تھی ۔۔ مگر ایک منظر اس کی نظروں کے سامنے آیا تھا۔۔ وہ کالج میں داخل ہوتے کیسی نیلی آنکھوں والے سے ٹکرائی تھی۔۔ اور اسی دن اس کا پینڈینٹ کھو گیا تھا۔۔۔ اور اس دن کے بعد نہ ملا تھا اور آج اس کو وہ یہاں ملا تھا ایک انجان ملک اور انجان جگہ پر۔۔ وہ ایسے ہی انکھی بند کیے اس چیڑ کی پشت سے ٹیک لگا چکی تھی۔۔ وہ پینڈینٹ اس کو بہت پیچھے کہیں دور ماضی میں لے گیا تھا۔۔۔

اس کا نیلی انکھوں والے سے شامنگ مال میں ٹکرانا جو کہ دوراب کا دوست تھا۔۔  پھر بیسٹ سے اس کا ٹکراؤ ۔۔ دوراب کی شادی پر مسلسل کیسی کی نظر خود پر محسوس کرنا،  اس کے گھر والوں کا قتل اس کی آنکھوں کے سامنے ہونا، شہزاد کے پاس سے بھاگنے کے بعد اس کا بیسٹ کی کار سے ٹکرانا ۔۔ پھر اس کا بیسٹ سے نکاح ہونا ، بیسٹ کا اس  کو انڈر ورلڈ کے لیے اور اس کے بدلے کے لیے تیار کرنا، اس کا پہلا میشن ، واپس پاکستان آنا ، اپنی یونیورسٹی کے پہلے دن ہی دہشت گردوں کے حملے میں ایم-زی سے ملنا، ایم-زی کا اس سے رابطہ کرنا،  بیسٹ کا اسمگلنگ کو روکنا ، کنگ کی پارٹی میں زیک سے ملنا ، اور پھر بیسٹ اور اس پر ہوئی کار فائرنگ ۔۔۔ اس کا گزرا تمام ماضی کیسی فلم کی طرح اس کے ذہن کے پردے پر چل رہا تھا۔۔۔

مگر کچھ باتیں ایسی تھی جو اس کو ایک عرصے سے پریشان کر رہی تھی۔۔۔ کبھی منظر پر نیلی آنکھیں آ رہی تھی، کبھی سبز تو کبھی ایش گرے۔۔ اور ایک نشان ، جزا نے فوراً آنکھیں کھولی تھی۔۔۔ اس کے ماتھے پر پسینے کے قطرے تھے۔۔۔ اس نے دوپٹے سے پسینہ صاف کیا تھا۔ اس کی سانس پھول چکی تھی۔۔

 جزا انکھوں کو پہچانا سیکھو۔۔۔

کیونکہ انسان کے سب راز اس کی آنکھوں سے عیاں ہو جاتے ہیں۔۔

بیسٹ کی آواز اس کے کانوں میں گونجی تھی ۔

مطلب میں تمہارا راز تمہاری آنکھوں سے پوچھوں ؟؟؟

ان سے بات کر کے دیکھ لو کیا بتاتی ہیں یہ تمہیں ؟

اس کو اپنی اور بیسٹ کی گفتگو یاد آئی تھی۔۔۔ جزا کانپتے ہاتھوں سے اس پینڈینٹ کو پڑے اس کو دیکھے جا رہی ۔۔۔

ان سے بات کر کے دیکھ لو کیا بتاتی ہیں یہ تمہیں ۔۔۔ ایک بار پھر سے آواز گونجی تھی۔۔۔ اس نے وہ پینڈینٹ ٹیبل پر رکھا تھا۔۔ اپنے شہد رنگ بالوں کو جوڑے میں قید کیا تھا اور اب وہ  سٹیڈی میں ایک نوٹ بک اور کچھ پین ڈھونڈ رہی تھی۔۔ اور کچھ ہی دیر میں اس کو ایک نوٹ بک اور اور مختلف رنگوں میں پین اور کلر پینسلز مل گئی تھی۔۔۔

وہ اب ٹیبل پر اس نوٹ بوک کو رکھے کچھ لائنیں کھینچ رہی تھی ۔۔  جو کے مل کر آنکھیوں کی شیپ بناتی تھی۔۔۔  اب وہ  تین آنکھیں بنا چکی تھی نیلی، سبز اور ایش گرے۔۔۔ ان انکھوں کی بناوٹ کو دیکھنے کے بعد اس کا دل ایک بار دھڑکا تھا۔۔۔  ہاتھ میں پکڑی پنسل ہاتھ سے گری تھی۔۔خود کو نارمل کر کے کانپتے ہاتھوں سے اس نے پھر سے پنسل کو پکڑا تھا۔۔ اورپھر سے اس نوٹ بک پر سکیچنگ کر رہی تھی۔۔۔ پہلے اس نے سبز آنکھوں کے نیچھے ماسک بنایا تھا پھر نیلی کے نیچھے ۔۔۔  اور اب وہ ایش گرے آنکھوں پر آئی ماسک بنا رہی تھی۔۔۔ اور اس کے چہرے کے سکیچ کو کمپلیٹ کر رہی تھی ۔۔

پسینے سے اس کا وجود بھر چکا تھا جبکہ سٹیڈی میں اے سی چل رہا تھا۔۔۔  وہ ان تینوں اسکیچ کو گھور سے دیکھ رہی تھی۔۔۔ آنکھوں کی بناؤ ایک جیسی تھی۔۔۔  اس نے نیلی اور سبز آنکھوں کے نیچھے بنے ماسک اور ایش گرے انکھوں کے ماسک پر ہاتھ رکھا تھا۔  بہت کچھ ان تین چہرے کو شکیچ میں ملتا تھا ۔  جزا نے اس ہی پیپر کے نیچھے دوبارہ سے وہ آنکھیں بنائی تھی۔۔

اب کی بار اس نے ان آنکھوں پر کوئی ماسک نہ لگایا تھا۔۔۔ نہ ان آنکھوں کو کوئی رنگ دیا تھا۔۔ اب وہ ماسک لگی آنکھیوں کے نیچھے بغیر ماسک کے چہرے کو بنا رہی تھی۔۔ اس سکیچ کو مکمل کرنے کے بعد جو چہرہ اس کے سامنے تھا وہ حیرت سے اس کو دیکھ رہی تھی۔۔  اس نے آنکھیں سختی سے بند کی تھی۔۔ سامنے ایک منظر آیا تھا ۔

جب زیک اس سے بات کر رہا تھا بے اختیار اس کی نظر اس کی گردن پر گئی تھی۔۔۔ جہاں ایک تل تھا وہ تل ٹھیک اس جگہ تھا جہاں بیسٹ کو بھی تل تھا۔۔ اس تل نے جزا کو حیرت میں ڈالا تھا تبھی تو وہ اس کو ایسکیوز کر کے ادھر سے ہٹی تھی۔۔ اس نے اپنے دماغ پر اور زور ڈالا تھا یہ تل اس نے بیسٹ کی گردن سے پہلے بھی کیسی کی گردن پر دیکھا تھا۔۔ چند لمحوں میں چند لمحوں میں اس کے سامںے سب صاف تھا۔۔ اس نے ہاتھ میں پکڑی پنسل سے ایک چھوٹا سا تل اس سکیچ کی گردن پر بنایا تھا اور اب وہ آنکھوں میں رنگ بھر رہی تھی۔۔ اس سکیچ کو وہ ساکت نظروں سے دیکھ رہی تھی ۔۔ وہ فوراً موڑی تھی اس نے سٹیڈی کی کھڑکی کھول دی تھی۔۔ تازہ ہوا اس کی سانسوں سے ٹکرائی تھی۔۔ کچھ دیر وہ ایسے ہی کھڑی رہی تھی خود کو پرسکون کرنا چاہتی تھی۔۔  وہ پھر سے موڑ کر اس سکیچ کو دیکھنے لگی تھی ۔۔

 تم اپنے آس پاس کبھی غور کرو تو مجھے ضرور پاؤ گئی۔۔  وہ اس سکیچ جو نم آنکھوں سے دیکھ رہی تھی۔ جب بیسٹ کی آواز اس کو دور گزرے دنوں میں سنائی دی تھی۔۔۔

تم واقع ہی میرے آس پاس رہے ۔۔ اور تم نے مجھے پتا بھی نہ لگنے دیا ۔۔ کہ تم ہو کون۔۔ جزا نم آنکھوں کو صاف کرتے بولی تھی ۔

تم  رنگوں کا کھیل کھیل رہے تھے۔۔ تمہیں معلوم نہیں تھا میں مصوری کا ہنور جانتی ہوں زوریز ۔۔۔ جزا ایک ایک سکیجچ کو غور سے دیکھتے بولی تھی ۔۔

••••••••••••••••••

جاری ہے ۔۔۔۔۔۔

 


Comments

Post a Comment