بِسْمِ
اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
ناول
دشتِ الفت
شازین زینب
Ep # 25
وافیہ ابھی اس کے کمرے میں
آئی تھی جب اس نے بستر پر جزا کو سوتا پایا تھا۔۔۔ وہ فوراً اس کے پاس گئی تھی ۔۔ جبکہ
اس کی آنکھیں کیسی کے قدموں کی آہٹ سے کھول گئی تھی شاید وہ ابھی گہری نیند میں نہ
تھی۔۔
کیسی ہو جزا۔۔ وافیہ اس کو
اٹھ کر بیٹھتا دیکھ کر بولی تھی۔۔۔
ٹھیک ہوں میں ۔۔۔ اس کی آواز
نیند سے بوجھل تھی جیسے رات ساری نیند آنے کے انتظار میں گزاری تھی مگر نیند اس پر
مہربان نہ تھی۔۔۔
تم واپس کب آئی تھی کیسی نے
بتایا بھی نہیں ۔ اور گئی کہاں تھی؟ ۔ وافیہ اس کے پاس بیٹھتے ہوئے بولی تھی جبکہ
جزا اب کی بار اٹھ کر بیٹھ گئی تھی۔۔ جبکہ آنکھوں میں ابھی بھی نیند کا خومار تھا
۔۔۔
میں منہ دھو کر آئی پھر بتاتی
ہوں آپ کو ۔۔ جزا بستر سے اٹھ کر باتھ روم کی طرف بڑھی تھی ۔۔
اور کچھ دیر میں وہ دھولے
ہوئے ہاتھ منہ کے ساتھ باہر ائی تھی اور آ کر وافیہ کے ہاس بیٹھ گئی تھی بیڈ پر۔۔۔
وہ مجھے مکہ لے کر گیا تھا
مسجد الحرام میں ۔۔۔ اپنی سچائی بتانے۔۔۔ جزا نے بات کا آغاز کیا تھا۔۔۔
تم واقع ہی مسجد الحرام میں
گئی ۔۔ مجھے بتاؤ وہ جگہ کیسی ہے ۔ وافیہ بےتابی سے بولی تھی اس کی آنکھوں میں
حسرت چمکی تھی۔۔۔ اور اس ایک بات سے وہ سے وہ دوسری بات بھول چکی تھی۔
اس جگہ کے بارے میں بتانے کی
اوقات مجھے گناہگار کی نہیں ۔۔ میرے پاس وہ الفاظ نہیں وافیہ کے میں اس جگہ کی
خوبصورتی اور سکون کو لفظوں میں پرو سکوں ۔۔۔ وہ جگہ مکمل سکون ہے وافیہ ایک ایسا
سکون جو روح میں اٹھتے غبار کو ، دکھ کو ،تکلیف کو تھاما دے۔۔ جو روح کے درد کو
ایسے ختم کر دے جیسے اس روح کو کبھی تکلیف ہوئی ہی نہ تھی۔۔۔ اس جگہ کا سکون ایسا
ہے کہ لفظوں میں بیاں کر ہی نہ سکوں ۔۔۔ جزا کے چہرے پر مدہم سی مسکراہٹ تھی
آنکھوں میں نمی تھی۔۔
تم کتنی خوش نصیب ہو تم اس
جگہ کو دیکھ کر آئی ہو۔۔ وافیہ نے اس کو نم آنکھوں سے دیکھا تھا۔۔۔ اس کی آنکھوں
میں حسرت ہی حسرت تھی۔۔۔
میری دل سے دعا ہے وافیہ آپ
بھی اس جگہ جاؤ ۔۔۔ جزا نے اس کی نم ہوتی آنکھوں کو دیکھ کر اس کو گلے لگایا
تھا۔۔۔
آمین ۔۔ وہ مجھے بولا لے اپنے
گھر بس مجھے اور کچھ نہیں چاہیے ۔۔ ایک
آنسوؤں اس کی آنکھوں سے گرا تھا۔۔
وہ ضرور بلائے گا۔ وہ تڑپنے
والوں کی تڑپ کو بہتر جانتا ہے۔ جزا بھیگی آنکھوں کو صاف کرتے بولی تھی۔
مجھے اب یہ بتاؤ وہ اچانک
تمہیں کیوں لے گیا۔۔ خود کو نارمل کرنے کے بعد وافیہ نے پھر سے بات کا سلسلہ جوڑا
تھا۔۔۔
وہ مجھے اپنے بارے میں سب سچ
بتانے لگا تھا میں نے بول دیا مجھے تمہارے کیسی الفاظ پر یقین نہیں ۔۔۔ جزا نے سر
جھکا لیا تھا ۔۔
وہ تمہیں اپنی صفائی دینے کے
لیے ادھر لے کر گیا ؟ اپنا سچ بتانے کے لیے ادھر لے کر گیا ؟ وافیہ نے حیرت سے جزا
کو دیکھا تھا۔۔۔
ہاں ۔۔۔ وہ بس اتنا ہی بول
پائی تھی۔۔ آگے کے الفاظ جیسے حلق میں اٹک سے گئے تھے۔۔۔
تم نے اس کو معاف کیا جزا؟ وافیہ
بس اس کو دیکھتے جا رہی تھی
معاف؟۔ ایک تلخ مسکراہٹ نے ہونٹوں پر جگہ لی تھی۔۔۔۔
ہاں معاف کیا تم نے اس کو۔۔۔
اس نے اپنا سوال دہرایا تھا۔۔۔
مجھے لگتا تھا زندگی صرف میرے
لیے تلخ تھی صرف میرا نقصان ہوا صرف مجھے تکلیف اور اذیت دی گئی۔۔ مجھے سے میرا سب
کچھ چھیان لیا گیا۔۔ مجھے اس مقام پر لا کر کھڑا کیا گیا جہاں میرے عمر کے لوگ ٹوٹ
کر بکھر جائیں یا مر ڈالیں خود کو اس تکلیف کو سہتے ہوئے۔۔ مجھے لگتا تھا زندگی
صرف میرے لیے تپتی ہوئی ریت کا دشت بنی ۔۔ مگر میں غلط تھی سر آ سر غلط تھی۔۔۔ وہ
بولتے ہوئے روکی تھی۔۔ آنکھوں کو سختی سے بھینچ لیا تھا۔۔ سینے میں ایک تکلیف سی
اٹھی تھی۔۔۔
وافیہ زندگی کی اس تلخی نے
کیسی اور کا بھی نقصان کیا اور مجھ سے زیادہ کیا ۔ میرے سے پہلے تکلیف اور اذیت کے
اس چکر میں کوئی اور بھی پستا رہا۔۔ انتقام کے اس سفر پر کوئی اور بھی چل رہا ہے
اور سالوں سے چل رہا ہے۔ کوئی اور بھی ہے جس سے اس کا سب کچھ چھینے کی پہلے بھی
کوشش کی گئی۔ مجھے سے بھی پہلے کوئی کم عمری میں اس مقام پر کھڑا تھا مگر وہ ٹوٹا
نہیں وہ تو ان درندوں کو مارنے والا بھیڑیا بن گیا۔ میرے سے پہلے ہی کوئی اس تپتی
ریت کے دشت کا مسافر تھا ۔ اس کی اواز
بھاری ہوئی تھی نظروں کے سامنے نیلی نم آنکھیں آئی تھی اور ساتھ ہی اس کے دل میں
ایک درد سا اٹھا تھا جیسے کیسی نے موٹھی میں جکڑا ہو۔۔۔
مجھے تو اس دشت میں اس کی
ساتھی بنایا گیا ۔ مجھے اس سب اذیتوں سے شاید گزرنا تھا تاکہ میں اس کی اذیت سمجھ
پاتی اس کو سمجھ پاتی ۔۔۔ اور جب میں اس کو سمجھی تو مجھے احساس ہوا مجھے سے زیادہ
نقصان تو اس کا ہوا ہے وہ تو پھر بھی مضبوط بنا کھڑا رہا۔۔ یہ اذیت شاید میرے مقدر
میں لکھی گئی تھی کیونکہ نصیب نے مجھے اس سے جوڑنا تھا۔۔ اس کی آنکھ سے ایک آنسو پھیسلا تھا۔۔۔ جبکہ
وافیہ بس خاموشی سے اس کو دیکھ رہی تھی۔۔۔۔ اور آنکھیں اس کی بھی نم تھی ۔۔
کیا وہ شخص معافی مانگتا اچھا
لگتا؟ اتنے نقصان کے بعد بھی وہ معافی مانگتا ؟ کیا وہ اس کا حقدار ہے؟ جزا نے نم آنکھوں سے
وافیہ کی طرف دیکھا تھا۔ جبکہ وافیہ نے نفی میں سر ہلایا تھا اس کے منہ سے الفاظ
ادا ہونے سے انکاری تھے۔۔
میرے باپ نے اس کو اپنے سائے
کی طرح جوان کیا ہے وافیہ۔۔۔ اس کے چہرے پر ایک مدہم مسکراہٹ نے جگہ لی تھی۔۔۔
مطلب اب سب ٹھیک ہے نہ۔۔
وافیہ نے ا سکے ہاتھ پر ہاتھ رکھا تھا ۔
نہیں میں ناراض ہوں اس سے۔۔۔
جزا نے اپنے بھیگے چہرے کو صاف کیا تھا۔۔۔
کیوں ۔۔ یہ آواز مزمل بیگم کی
تھی۔۔۔
آپ کب آئی ۔۔ جزا اپنی جگہ سے
اٹھی تھی اور ساتھ ہی وافیہ بھی اٹھی تھی۔۔
جب میری بیٹی ساری بات بتا
رہی تھی تب۔۔۔ مزمل بیگم اندر داخل ہوئی تھی۔۔۔
آپ چھپ کر باتیں سن رہی
تھی۔۔۔ جزا نے منہ پھولایا تھا۔۔۔
نہیں میں خاموش کھڑی سن رہی
تھی۔۔ مزمل بیگم نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اس کو اپنے پاس بیٹھیا تھا۔۔۔ جبکہ وافیہ مسکرا
اٹھی تھی۔۔۔
اب بتاؤ اس سے ناراض کیوں
ہو۔۔ معاف تو کر دیا ہے تم نے ناراضگی کس بات کی ہے ۔۔ مزمل بیگم نے جزا کے دودھیا
چہرے کو پیار سے دیکھا تھا۔۔۔
اس نے میری ساتھ اپنی جھوٹی
موت کا کھیل کھیلا مجھے اتنے ماہ اس تکلیف میں رکھا۔۔ جزا روٹھے ہوئے انداز میں
بولی تھی۔۔
ان لڑکوں نے تو عقل ہی بیچ
کھائی ہے۔ ذرہ جو عقل ہو ان میں ۔ مزمل بیگم مدہم آواز میں بولی تھی۔
باقی سب کا پتا نہیں میرے والا
نے واقع ہی بیچ کھائی ہے۔ جزا جھٹ سے بولی تھی جبکہ اس کی اس بات پر مزمل بیگم
ہنسی تھی۔
لگتا ہے بہت زیادہ ناراض ہو۔
مزمل بیگم نے اس کو دیکھا تھا۔
آپ کو کیا لگتا ہے اس نے ٹھیک
کیا ہے مجھے ناراض نہیں ہونا چاہیے ۔ جزا نے ان سے سوال کیا تھا۔
اس نے صحیح نہیں کیا میں
جانتی ہوں بیٹا۔ مزمل بیگم ںے اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھا تھا۔
یہ اس نے واقع ہی غلط کیا ہے
اس کو اپنی موت کی جھوٹی خبر نہیں دینی چاہیے تھے۔۔ وافیہ نے جزا کی بات پر اتفاق
کیا تھا۔۔۔
میرا ایک ایک لمحہ مر مر کر
گزرا ہے ۔۔ میں ایک ایک لمحہ روئی ہوں اس کے لیے کہ میں نے اس کو کھو دیا اور اس بات
کی گواہ آپ دونوں ہیں ۔۔ میری تکلیف آپ دونوں کے سامنے تھی۔۔ تو کیا میں ناراض ہونے کا حق نہیں رکھتی ۔۔ جزا
نے مزمل بیگم کو دیکھا تھا۔۔
اس نے یہ غلط کیا ہے اس کو
اپنی موت کا جھوٹا کھیل تمہارے ساتھ نہیں کھیلنا چاہیے تھا۔۔ تم ناراض ہو سکتی ہو
بیوی ہو اس کی۔۔مگر بس ایک بات یاد رکھنا ۔۔مزمل بیگم نے اس کو کچھ سمجھانا چاہا
تھا ۔
کیا؟ جزا نے ان کی طرف دیکھا
تھا۔
کیسی سے اتنا بھی ناراض نہ
ہونا کہ وہ مناتے مناتے تھک جائے ۔ اور جب اس سے راضی ہو جاؤ تو دل میں کھوٹ نہ
رکھنا۔۔ بے رخی ناراضگی اپنی جگہ مگر رشتے کا احترام رکھنا جو بھی ہے وہ شوہر ہے
تمہارا۔ بھولنا مت جب تم ٹوٹ رہی تھی تب اس نے ہی سنبھالا تھا تمہیں۔ مزمل بیگم کا
لہجہ ہموار تھا ۔۔
مگر میں آسانی سے نہیں مانو
گئی اس نے بہت رولا ہے مجھے۔ جزا دھیمی
لہجے میں بولی تھی۔ جبکہ اس کی اس بات پر مزمل بیگم ہلکا سا مسکرائی تھی ۔
اس کو تنہا کبھی مت چھوڑنا میری
بچی۔ اس نے تمہیں ہر جگہ سپورٹ دیا اس نے تمہیں ایک مضبوط لڑکی بنایا ہے۔۔ اس نے
تمہاری کوئی بات کبھی رد نہ کی۔۔ تم ناراض ہو تمہارا حق ہے وہ تمہیں منائے گا اس کا
فرض ہے۔۔ مگر میری جان اپنے شوہر کو اس کی مشکلات میں تنہا نہ کرنا ورنہ ساری
زندگی کے لیے اپنا مقام اس کی نظر میں گرا بیٹھو گئی ۔۔ جیسے وہ ہر جگہ تمہارے
ساتھ کھڑا رہا خود موت کے منہ میں ہونے کے باوجود تمہاری فکر میں رہا اس نے اپنا
حقِ وفا آدا کیا اس کے ساتھ کھڑی رہ کر اب اپنا حقِ وفا آدا کرنا ۔۔ مزمل بیگم نے
اس کے نرم ہاتھوں کو اپنے بوڑھے ہاتھوں میں لیا تھا۔۔۔
اور وافیہ تم بھی ہمیشہ حدید
کی وفادار رہنا جس طرح وہ تمہارے لیے رہا ہے۔۔ مزمل بیگم نے اب کی بار وافیہ کو
دیکھا تھا۔۔
جیسے عورت کے ساتھ مرد وفادار
ہو تو عورت کو کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا ایسی طرح اگر مرد کے پاس وفادار ہمسفر ہو جو
اس کے دکھ اور سکھ ، خوشحالی اور برے وقت میں اس کے ساتھ ہے اس مرد کو دنیا مل کر
بھی نہیں ہرا سکتی۔۔ ہمیشہ اپنے اپنے ہمسفر کی طاقت بنا کمزوری نہیں ۔۔ مزمل بیگم
نے ان دونوں کو دیکھا تھا جو ان کی ایک ایک بات کو اچھے سے سن رہی تھی۔۔۔
جزا جیسے اس نے تمہیں ایک
مضبوط لڑکی بنایا ہے ہمیشہ اس کے ساتھ ویسے ہی مضبوط لڑکی بن کر کھڑی رہنا ۔ اس کی
کمزوری مت بنا ۔ جو سپورٹ اس نے ایک شوہر ہو کر تمہیں دیا ہے وہ بہت کم مرد دیتے
ہیں اپنی بیوی کو ۔۔ بیوی کے لیے اس کے شوہر کا سپورٹ کیسی بھی جگہ بہت معنی رکھتا
ہے اور اس نے تمہیں وہ سپورٹ ہمیشہ دیا ۔ اس نے تمہیں خود انتقام کے لیے تیار کیا
ہے ۔ مزمل بیگم اج اس کو ماں بن کر سمجھا رہی تھی جبکہ جزا نم آنکھوں سے ان کو
دیکھ رہی تھی ۔
ضرور ۔۔جزا نے نم آنکھوں سے
ان کو دیکھا تھا۔۔ اور اب وافیہ اور جزا دونوں ان کے گلے لگی ہوئی تھی۔۔۔
•••••••••••••••••
ہیلو۔۔۔۔ کام کا کیا بنا
ہے۔۔۔ اس کی روب دار آواز کمرے کی خاموشی میں گونجی تھی۔۔۔۔
سر بس صارم کی ڈیڈ باڈی کنگ
کو بھیجنے لگے ہیں ۔۔۔ مخالف دوسری طرف سے بولا تھا۔۔۔
ایک کام کرو اس کا سر کاٹ کر
رکھ دو ۔۔۔ اور کنگ کو ابھی باڈی نہ بیجھو ۔۔۔ وہ کچھ سوچ کر بولا تھا۔۔ اس کی
نیلی آنکھوں میں موجود سرخی اس کی آنکھوں کو اور بھی پر اسرار بنا رہی تھی۔۔۔
جی ٹھیک ہے سر۔۔۔ جیسا آپ کا
حکم ۔۔ اس کا آدمی بس اتنا ہی بول سکا تھا۔۔ اس کی بات کے آگے کیسے کو اپنی رائے
رکھنے کی ہمت نہ تھی یہ ہمت صرف ایک لڑکی میں تھی جو اس سے ناراض بیٹھی تھی۔۔۔
اس نے کال کاٹ کر فون ایک طرف
رکھا تھا اور بیڈ پر گرا تھا ۔۔ اس نے اپنی نیلی آنکھوں کو سختی سے بند کیا تھا۔۔
اور ساتھ ہی بھورے سیلکی بالوں میں ہاتھ پھیرا تھا جو ابھی بھی کچھ گلے تھے۔۔۔ وہ
اب خاموشی سے اپنے کمرے کی سیلنگ کو دیکھ رہا تھا۔۔
اس کی نیلی آنکھیں مکمل خاموش
تھی ۔۔ ایسی خاموشی جیسے سمندر میں کوئی طوفان آنے سے پہلے کی خاموشی ہو۔۔۔ ناجانے
اس کا اگلا قدم کس قیامت کی نوید سنانے والا تھا۔۔۔ وہ اپنی سوچوں میں گم تھا جب اس کے کمرے کا
دروازہ نوک ہوا تھا۔۔۔
آ جاؤ حدید اور دوراب ۔۔۔ وہ
سیلنگ کو دیکھتا بولا تھا۔۔۔ جب دروازہ کھولا تھا۔۔۔
ہمیں لگا تم سو رہے ہو گے ۔۔۔
حدید اور دوراب ایک ساتھ بولے تھے اندر آنے کے بعد۔۔۔
جب زندگی ناراض ہو تو کس
کمبخت کو نیند آتی ہے۔۔۔ زوریز کے ہونٹوں پر زخمی مسکراہٹ تھی۔۔۔ جبکہ حدید اور دوراب اس کی بات کا مطلب بہت
آسانی سے سمجھ گئے تھے۔۔
تمہیں اس وقت بھی بولا تھا یہ
جھوٹی خبر اس تک مت پہنچاؤ مگر تم سنتے کہاں ہو ۔۔۔ دوراب یہ کہتے ہوئے اس کے ایک
طرف جا کر بیٹھ گیا تھا جبکہ حدید دوسری طرف ۔۔
میں جانا چاہتا تھا کہ میری موت
کا سن کر اس کا ردعمل کیا ہو گا۔۔۔ زوریز اوٹھ کر بیٹھا تھا۔۔۔
ہاں تو کیسا لگا ردِعمل ؟؟
حدید نے اپنی ہنسی چھپائی تھی۔۔
تمہیں بہت
ہنسی آ رہی ہے۔۔ زوریز نے اس کو سخت نظروں سے دیکھا تھا۔۔۔
ویسے میں تو کہتا ہوں ایک دو اور
ایسے کام کر لو پھر زیادہ اچھا ردعمل مل جائے گا۔۔۔ دوراب نے اپنے قہقہہ کا گلا
گھونٹا تھا ۔۔۔
ہاں بلکل بہت اچھا ملے گا ۔۔۔
پھر تم لوگوں کو میں نظر نہیں آؤ گا کبھی۔۔۔ زوریز نے دوراب کی گردن کے گرد بازو
حائل کی تھی اور اس کو آگے کی طرف جھکا کر زور سے دبایا تھا ۔۔۔ جبکہ حدید کا
قہقہہ کمرے میں گونجا تھا۔۔۔
معاف کر دے۔۔ جان لے گا کیا
میری۔۔۔ دوراب نے اپنی گردن اس کی پکڑ سے آزاد کروانا چاہی تھی ۔۔۔
جب دورازہ کھولا تھا اور
رحیان اور آیان بھی کمرے میں داخل ہوئے تھے ۔۔ آیان صاحب تو آتے ساتھ بیڈ پر
چھلانگ مار کر لیٹے تھے۔۔ جبکہ رحیان دوراب کی حالت دیکھ کر اپنی ہنسی دبا رہا
تھا۔۔۔
تمہیں کیا ہو گیا ہے تم کیوں
فوت ہونے والے ہو گئے ہو؟؟ دوراب کی گردن کو آزاد کرتے ہوئے زوریز نے آیان کو
دیکھا تھا۔۔
مجھے اگر اور کچھ دیر میں کچھ
کھانے کو نہ ملا تو میں نے واقع ہی فوت ہو جانا ہے۔۔۔ ایان سستی اداکاری کے سارے ریکارڈ
توڑتا بولا تھا۔۔ جبکہ اس کی بات پر جہاں زوریز نے اس کو گھور کر دیکھا تھا وہاں
حدید ، رحیان اور دوراب کا قہقہہ گونجا تھا۔۔۔
دوراب نے ایسے ہی ہستے ہوئے
اپنا فون نکلا تھا۔۔ جب اس کو ایک نوٹیفیکیشن شو ہوا تھا۔۔۔ نمبر ابراہیم صاحب کا
تھا۔۔ اس نے فوراً وہ نوٹیفکیشن اوپن کیا تھا اور اس کے بعد اس کا فون اس کے ہاتھ
سے گرتے ہوئے بچا تھا۔۔۔
اپنا اپنا فون مت دیکھ لیںا
ورنہ تم سب ہارٹ اٹیک سے فوت ہو جاؤ گے۔۔۔ دوراب صدمہ میں بولا تھا۔۔۔ جبکہ اس کی
بات پر باقی چاروں نے اس کو دیکھا تھا اور فورآ سے اپنے فون نکالے تھے۔۔۔
اور ابراہیم صاحب کی طرف سے
ملنے والے میسیج نے ان سب کا منہ کھولا کا کھولا رکھ دیا تھا۔۔ زوریز فوراً اپنی
جگہ سے اٹھا تھا۔۔ اور اس نے جوتا بھی نہ پہنا تھا ایسے ہی باہر نکلا تھا۔۔۔
Urdunovelnests•••••••••••••••
خدا کا خوف کھاؤ شہزاد وہ ماں ہے تمہاری ۔۔۔۔ ایک
لڑکی روتے ہوئے بولی تھی۔۔
مار دو مجھے شہزاد ۔۔ آج مار
دو مجھے۔۔۔ شاید میرے نصیب میں بیٹے کے ہاتھوں مرنا لکھا تھا۔۔۔ منظر بدلا تھا ۔۔
تمہارے باپ نے میرا دل زخمی
کیا تھا مگر تم نے میری روح تک زخمی کی ہے شہزاد ۔۔۔ وہ عورت روتے ہوئے بول رہی
تھی ۔۔
تمہارے سامنے ہوں میں کر لو
میرا خون۔۔۔۔ مگر یاد رکھنا ۔۔ میری دعا ہے تمہیں تم اور تمہارا باپ اپنے درد ناک
انجام کو پہنچو ۔۔ اپنے ایک ایک ظلم کا حساب اس دنیا میں بھی دو اور انصاف کے دن
بھی۔۔۔ وہ عورت بہت رو رہی تھی ۔۔۔
میں تمہیں کبھی معاف نہیں
کروں گئی۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی گولی چلنی تھی۔۔۔۔ شہزاد کی آنکھ فورآ کھولی تھی۔۔
ٹھنڈے کمرے میں بھی اس کا جسم
پیسنے سے بھرا ہوا تھا۔۔۔ سانس اس کا پھولا ہوا تھا ۔۔۔ دل کی دھڑکنوں کی رفتار
بہت تیز تھی اتنی تیز کہ اس کو کمرے کی خاموشی میں اس کی دھڑکنیں کانوں میں بجتی
محسوس ہو رہی تھی۔۔۔ اس نے فورآ سے لحاف خود پر سے اتارا تھا ۔۔ اور بیڈ سے اترا
تھا۔۔ مگر اس کا وجود کا بوجھ اس کے پاؤں اور ٹانگیں برداشت نہ کر سکی اور وہ
فوراً زمین پر منہ کہ بل گرا تھا۔۔۔ اس کی ٹانگیں شل ہو رہی تھی ۔۔ جسم کانپ رہا
تھا۔۔ ایک خوف تھا جو اس پر طاری تھا۔۔۔
شہزاد نے اپنے ہاتھوں کو
دیکھا تھا وہ کانپ رہے تھے۔۔۔ ایک لمحے کو اس کو لگا اس کے ہاتھوں پر خون ہے ۔۔ اس
نے دیوانہ وار اپنے ہاتھ فرش سے صاف کیے تھے ۔۔ جب اچانک اس کے سر میں شدید درد
اٹھا تھا۔۔ وہ درد اس کی برداشت سے باہر تھا۔۔۔
اہہہہہہہہہہہہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اہہہہہہہہہہہہہ۔ ۔۔۔۔ شہزاد نے اپنا سر دونوں ہاتھوں میں تھام رکھا تھا وہ باقاعدہ
اپنے بالوں کو نوچ رہا تھا۔۔۔۔
میں نے۔۔کچ۔۔۔۔۔
کچھ۔۔۔۔۔نہیں۔۔۔ کیا۔۔۔۔۔۔ میری ۔۔۔۔ جان چھوڑ۔۔۔۔۔ دو۔۔۔۔۔ وہ بلند آواز میں
چلایا تھا۔۔جب اس کے کمرے کا دروازہ نوک ہوا تھا۔۔
شہزاد دروازہ کھولو۔۔۔ اکرم
صاحب کی آواز بند دروازے سے آئی تھی۔۔۔
مار دو مجھے شہزاد ۔۔۔ اج مار
دو مجھے۔۔۔۔ ایک بار پھر سے وہ آواز اس کی سماعت سے ٹکرائی تھی۔۔۔۔
می۔۔میں۔۔ نے نہیں
۔۔۔۔مارا۔۔۔۔۔ وہ بلند آواز میں چیلایا تھا۔۔۔۔۔
شہزاد دورازہ کھولو۔۔۔۔ اکرم
صاحب کی آواز بلند ہوئی تھی۔۔۔ جب کہ ان کے آس پاس ملازمین بھی جمع ہو گئے تھے۔۔۔
میری شکل کیا دیکھ رہے ہو کمرے
کی ڈوبلیکیٹ کی لے کے آؤ ۔۔۔ اکرم صاحب بلند آواز میں ان پر برسے تھے۔۔۔۔
میں نے کیسی کو نہیں مارا۔۔۔۔
میں نے کیسی کو نہیں مارا۔۔۔ شہزاد زور زور سے اپنا ہاتھ زمین پر مار رہا تھا۔۔۔
جب اچانک دورزاہ کھولا
تھا۔۔۔۔ اور اکرم صاحب بھاگ کر اس کے پاس آئے تھے۔۔۔
شہزاد ۔۔۔ادھر دیکھو۔۔۔ اکرم
صاحب نے اس کا چہرا اپنے ہاتھوں کے پیالے میں لیا تھا ۔۔۔۔
میں نے کیسی کو نہیں مارا۔۔۔
شہزاد دیوانوں کی طرح بولا تھا۔۔
تم نے کیسی کو نہیں مارا....
نہیں مارا تم نے۔۔ اکرم صاحب اس کے پسینے سے بھرے چہرے کو دیکھتے بولے تھے۔
اکرم صاحب نے اس کو پانی پیلانا
چاہا تھا مگر شہزاد کی حلق سے وہ پانی بھی
نہ اترا تھا۔۔۔۔
میں ۔۔۔ نے ۔۔ نہیں ۔مارا۔۔۔
وہ بس یہ ہی بولتا جا رہا تھا ۔۔
اکرم صاحب نے اس کے چہرے پر کچھ
پانی پھینکا تھا ۔۔۔ شہزاد ہوش میں آیا تھا۔ اور اب خاموشی سے اپنے باپ کو دیکھ
رہا تھا۔
کیا ہو گیا ہے تمہیں شہزاد
۔۔۔ اکرم صاحب بہت پریشان تھے اس کی حالت دیکھ کر۔۔۔
جبکہ شہزاد خاموشی سے بس ان
کو دیکھ رہا تھا۔۔۔ اور پھر کچھ دیر میں وہ ایسی خاموشی سے اٹھ اتھا ۔۔۔ اور کمرے
سے باہر چلا گیا تھا۔۔۔ جبکہ سب ملازمیں اس کو خاموشی سے دیکھ رہے تھے ۔۔۔ اکرم صاحب بس اس کو جاتا دیکھ رہے تھے ۔۔۔ جبکہ
ان کا دل ڈوب کر ابھرا تھا۔۔۔
کیا دیکھ رہے ہو تم سب ادھر
کوئی تماشا چل رہا ہے ؟؟ اکرم صاحب غصے سے سب ملازمین کو دیکھتے دھاڑے تھے۔۔۔ اور
ان کی اس ایک آواز پر سب ملازم ادھر سے گم ہوئے تھے ۔۔
کیا ہو گیا ہے تمہیں شہزاد ۔۔۔
کیا ہو گیا ہے تمہیں ۔۔۔ اکرم صاحب نے اپنا سر پکڑ لیا تھا اور گرنے والے انداز
میں صوفے پر بیٹھے تھے۔۔۔ اور پھر کچھ دیر
میں انہوں نے اپنا فون نکلا تھا ۔۔ اور ایک نمبر ڈائل کیا تھا ۔۔۔
••••••••••••••••••
ڈیڈ ۔۔۔۔ ڈیڈ ۔۔۔۔ یہ سب کیا
ہے۔۔۔ زوریز ابراہیم صاحب کے کمرے میں داخل ہوا تھا۔۔۔
جبکہ ابراہیم صاحب صوفے پر ٹانگ
پر ٹانگ رکھ کر شان بے نیازی سے بیٹھے تھے ایک ہاتھ میں سگار سلوگ رہا تھا ۔ زوریز
کو اپنے سامنے دیکھ کر ان کے چہرے پر مسکراہٹ
نے جگہ لی تھی ۔۔۔ جیسے ان کو اس کے ہی آنے کا انتظار تھا ۔۔۔۔
ڈیڈ یہ سب کیا ہے۔۔۔ ابراہیم صاحب
کو خاموش بیٹھا دیکھ کر زوریز پھر سے بولا تھا۔۔۔۔
کیا ؟ ابراہیم صاحب نے سگار
منہ سے لگایا تھا۔
انجان نہ بنے ڈیڈ۔ زوریز نے
ابراہیم صاحب کو دیکھا تھا۔
کس بارے میں بات کر رہے ہو؟
ابراہیم صاحب نے اس کو سوالیہ نظروں سے دیکھا تھا جیسے ان کو واقع ہی بات سمجھ نہ
آئی تھی۔
اس بارے میں۔۔ زوریز نے فون
نکال کر ان کے سامنے کیا تھا ۔ جس پر ابراہیم صاحب ںے ایک نئر ڈالی تھی اور واپس
اس کی طرف بڑھایا تھا۔
کیسا لگا جھٹکا؟؟ ابراہیم نے
زوریز کو سر سے پیر تک دیکھا تھا۔۔۔
ڈیڈ ۔۔۔ زوریز بس اتنا ہی بول
پایا تھا۔۔۔
کیا صرف تم ہی جھٹکے دیتے رہو
گے مجھے ؟؟؟ ابراہیم صاحب نے طنزیہ مسکراہٹ زوریز کی طرف اوچھالی تھی ۔۔۔
ڈیڈ یہ ٹھیک نہیں ہے ۔۔۔
زوریز نے ابراہیم صاحب کو بےبسی سے دیکھا تھا ۔۔
میں نے وارننگ دی ہوئی تھی۔۔ ابراہیم صاحب نے لاپرواہی سے بولا تھا۔۔۔۔
ڈیڈ۔۔۔۔ زوریز اس سے پہلے کچھ
بولتا اس کا فون رنگ ہوا تھا ۔۔۔
موم کالنگ لکھا آ رہا تھا اس
نے ابراہیم صاحب کو دیکھا تھا جو اس کو ایسے دیکھ رہے تھے جیسے کہہ رہے ہو آج ہمت ہے تو اٹھا کر دیکھاؤ یہ کال ۔۔۔۔
اس کا فون بج بج کر بند ہو
گیا تھا اور اب پھر سے بج رہا تھا ۔۔ اس نے ایک سرد آہ بھری تھی۔۔۔۔
اسلام وعلیکم موم۔۔۔ زوریز نے
فون اٹھا کر کان سے لگایا تھا۔۔۔۔
ڈونٹ کال می موم۔۔۔۔ عائشہ
بیگم کی غصے سے بھری آواز فون کے سپیکر سے باہر آئی تھی۔۔۔
موم۔۔۔ زوریز کو تو ان کے
لہجے پر حیرت ہوئی تھی۔۔۔۔
جدھر کدھر بھی ہو مجھے تم واپس پاکستان چاہیے ہو ورنہ اپنے انجام کے ذمہ
درا تم خود ہو گئے سمجھ آئی ۔۔۔۔ عائشہ بیگم نے غصے سے ایک ایک لفظ چبا چبا کر
بولا تھا ۔۔۔ اور زوریز کی بات سنے بغیر فون کاٹ دیا تھا ۔۔۔
زوریز نے ابراہیم صاحب کو مدد
طلب نظروں سے دیکھا تھا۔۔۔ جبکہ جزا ابراہیم
صاحب نے ناک سے مکھی اڑائی تھی۔۔۔
ڈیڈ پلیز یار سنبھال لیں ان
کو۔۔۔ زوریز نے منت کی تھی۔۔۔
اتنے سالوں سے سنبھال کر ہی
رکھا تھا۔۔۔ اب لگام کا وقت آ گیا ہے۔۔۔ ابراہیم صاحب کی روب دار آواز گونجی
تھی۔۔۔
ڈیڈ کچھ وقت بعد یہ راز فاش کر لیتے تو کیا جاتا آپ کا۔۔۔۔ زوریز
نے ان کو حیرت سے دیکھا تھا ۔
ہاں تاکہ تم کوئی اور چاند
چڑھا دیتے اورمجھے بعد میں پتا چلتا ۔۔ ابراہیم صاحب دانت پیس کر بولے تھے۔۔۔ جبکہ
ان کی اس بات پر زوریز نے ادھر اُدھر دیکھا تھا جیسے وہ اس بات کو اگنور کر رہا
ہو۔۔۔۔
بیٹا جتنا مرضی آزاد ، اپنی
مرضی کا مالک ، خود فیصلہ کرنے والا ہو جائے ۔۔۔ باپ باپ ہی ہوتا ہے اور باپ کو
پتا ہوتا ہے کب کیسے اور کس طرح لگام کھینچنی ہے۔۔۔ ابراہیم صاحب اپنی جگہ سے کھڑے
ہوئے تھے ۔۔۔۔
مگر میں بھی آپ کا بیٹھا ہوں
خان۔۔۔۔ زوریز سر اٹھا کر بولا تھا۔۔۔۔ اور ابراہیم صاحب سر جھکا کر ہنسے تھے ان
کو اس کا یہ انداز ہمیشہ سے پسند تھا۔۔۔۔۔
ویسے میں نے تمہاری ماں کو
ابھی تمہارے نکاح کا نہیں بتایا یہ بات آمنے سامنے بیٹھ کر بتاؤں گا تاکہ ایکسپریشن
انجوائے کر سکوں ۔۔۔ ابراہیم صاحب نے اس کو دیکھ کر ایک آنکھ ونک کی تھی۔۔۔
تھوڑا خیال کر جائیں باپ ہیں
آپ میرے۔۔۔ زوریز نے افسوس سے نفی میں سر ہلایا تھا۔۔۔۔
اتنے عرصے سے خیال ہی کرتا
آیا تھا۔۔۔ مگر جو کچھ تم سب نے کیا اس سب نے مجھے مجبور کیا ہے۔۔ اور ہاں شکر ادا کرو تمہیں جوتے نہیں مارے میں نے۔۔
ابراہیم صاحب نے سخت نظروں سے زوریز کو دیکھا تھا ۔۔۔
میں اور کچھ وقت میں کنگ کو
مارنے لگا ہوں ۔۔۔۔ زوریز نے ابراہیم صاحب
کو دیکھتے کیا تھا۔۔
رسی جل گئی مگر بل نہیں گیا
۔۔ ابراہیم صاحب نے اس کو غصے سے دیکھتے کہا تھا اور آگے بڑھ گئے تھے ۔۔۔ جبکہ ان
کی اس بات پر زوریز مدہم سا ہنسا تھا۔۔۔۔۔
اپنے دشمن کو اگر مارنے کے
لیے وقت مقرر کر لو تو مقرر کیے وقت سے ایک لمحہ زیادہ اس کو سانس نہ لینے دو۔۔
زوریز ان کی پشت کو دیکھا تھا۔۔
اور اگر اس وقت نہ مار پائے
تو ۔۔ ابراہیم صاحب نے اس کو دیکھا تھا ۔ نظریں سوالیہ تھی۔۔
تو پھر اپنے دشمن کو خود موقع
دیے دیا کہ وہ ہماری سانسیں روک دے۔۔۔ زوریز ایک ایک قدم چلتا ابراہیم صاحب کے
سامنے آ کر روکا تھا۔
تم واقع ہی شاہد جیسے ہو۔ جب
تک دشمن کو مار نہ لو تمہاری روح سکون سے نہیں بیٹھتی ۔ ابراہیم صاحب نے اس کو
دیکھا تھا اور کمرے سے باہر نکل گئے تھے ۔
••••••••••••••••••••
وافیہ اور
جزا کچن میں کھڑی کچھ بنا رہی تھی جبکہ مزمل بیگم ان دونوں کے ساتھ کوئی بات کرتے
ہوئے کچھ سبزیاں کاٹ رہی تھی۔۔۔ جب زوریز کچن کے دروازے کے پاس آ کر کھڑا ہوا
تھا۔۔۔
جزا کو کیسی نظر خود پر محسوس
ہوئی تھی اس نے نظریں اٹھا کر دیکھا تھا زوریز اس کو ہی دیکھ رہا تھا۔۔۔ شہد رنگ
آنکھیں نیلی آنکھوں سے ملی تھی۔۔ اور اگلے ہی لمحے شہد رنگ آنکھیں روٹھے ہوئے
انداز میں پھیر گئی تھی۔۔ جبکہ اس پر نیلی آنکھوں کی چمک بجھ گئی تھی۔۔۔۔
جزا ایک گلاس پانی دیںا۔۔۔
زوریز نے اس کو آخر کار مخاطب کیا تھا جبکہ اس کی اس بات پر جزا نے ایک بار پھر سے
اس کو دیکھا تھا۔۔۔
اور موڑی تھی فریج کھولی
تھی۔۔۔ زوریز کو لگا وہ پانی کی بوتل نکلے گئی مگر اس نے اندر سے جوس نکلا تھا اور گلاس میں انڈیلا
تھا۔۔۔ زوریز کو لگا وہ یہ گلاس اس کو دے گئی۔۔مگر جزا نے گلاس اپنے لبوں سے لگا
لیا تھا ۔۔
اور جوس کا گلاس پینے کے بعد
ایک نظر زوریز کو دیکھا اور پھر سے اپنے
کام میں لگ گئی تھی۔۔۔۔مطلب صاف تھا کہ خود پی لو پانی ۔۔۔۔ جبکہ وافیہ اور
مزمل بیگم اپنی ہنسی دبہ کر یہ ساری کاروائی دیکھ رہی تھی ۔۔
وافیہ نے فریج میں سے پانی کی
بوتل نکالی تھی اور زوریز کے لیے پانی ڈالا تھا۔۔۔ جبکہ زوریز اپنی روٹھی بیوی کو
دیکھ رہا تھا۔۔ جو اس کو بولا بھی نہیں رہی تھی۔۔۔
زوریز بھائی پانی ۔۔۔ وافیہ
زوریز کے سامنے گلاس کرتی مدہم آواز میں بولی تھی ۔۔
شکریہ ۔۔۔ زوریز نے وہ گلاس
لیا تھا۔۔
ناراض ہے مگر مان جائے گئی ۔۔
کچھ کوشش کریں ۔۔ وافیہ مدہم آواز میں یہ کہہ کر پھر سے چولہے کی طرف بڑھی تھی۔۔۔
جبکہ زوریز نے ایک نظر جزا کو
دیکھا تھا اور واپس پلٹ گیا تھا ۔۔۔
Urdunovelnests•••••••••••••••
وہ باہر لاؤن میں حدید اور دوراب کے پاس آ کر بیٹھا
تھا۔ اس کے چہرے پر رقم خاموشی نے حدید کو پریشان کیا تھا۔۔
وہ مان جائے گئی زوریز اس کو
کچھ وقت دو۔ حدید نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا ۔
وہ مجھ پر غصہ کر لے مجھے سے
لڑ لے بے شک مجھے مار لے ۔ مگر مجھے نظر انداز تو نہ کرے، مجھے سے خاموشی اختیار
تو نہ کرے ۔ مجھے دیکھ کر نظریں تو نہ پھیرے ۔ اس کا یہ رؤیہ بہت تکلیف دے رہا ہے
مجھے یار ۔۔ زوریز بےچارگی سے بولا تھا۔۔
میں نے تمہیں اس وقت بھی بولا
تھا زوریز اس تک موت کی جھوٹی خبر مت پہنچاؤ تم نے نہیں سنی۔ کاش اس وقت سن لیتے
تو آج اس قدر سخت رویہ برداشت نہ کرنا پڑتا تمہیں۔۔ دوراب نے افسوس سے اس کو دیکھا
تھا۔
مانتا ہوں یار غلطی ہوئی ہے۔
زوریز نے سر جھکایا تھا ۔۔
غلطی نے بہت بڑی غلطی ہوئی
ہے۔ مزمل بیگم ان کے پاس آتے بولی تھی۔۔
مانتا ہوں ۔۔ زوریز نے سر جھکائے
رکھا تھا۔۔
سر اٹھاؤ زوریز ۔۔ مزمل بیگم
نے اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھا تھا۔۔
آپ اس کو بس ایک بار مجھ سے
بات کرنے کے لیے راضی کر دیں ۔۔ زوریز نے ان کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لیا تھا۔۔
تم نے اس کو بہت تکلیف دی ہے
زوریز ۔ اپنوں کی موت کی خبر جان نکل لیتی ہے ۔ اس نے پہلے ہی اپنے سب رشتے کھو
دیے تھے۔ تمہیں یہ سب نہیں کرنا چاہیے تھا۔ مزمل بیگم نے اس کی طرف شفقت سے دیکھا
تھا۔
میں جانا چاہتا تھا کہ وہ مجھ
سے پیار کرتی ہے کہ نہیں ۔ زوریز نے مدہم آواز میں بولا تھا۔
کیا اس کے کیسی عمل سے تمہیں
نہیں لگا کہ وہ تم سے محبت کرتی ہے؟ مزمل بیگم نے اس کو دیکھا تھا۔ جبکہ دوراب اور
حدید خاموش بیٹھے تھے۔
بہت سے عمل ہیں جو بتاتے ہیں
وہ محبت کرتی ہے۔ مگر وہ اظہار نہیں کرتی۔ زوریز نے ایک سرد آہ بھری تھی ۔۔
عورت محبت میں اظہار آسانی سے
نہیں کرتی۔ اس کو ڈر ہوتا ہے دل کے ٹوٹ جانے کا راز کے عیاں ہو جانے کا۔ وہ تو
اپنی محبت اپنے آپ سے بھی چھپانے کی کوشش کرتی ہے۔ تم کس گمان میں تھے کہ وہ خود آ
کر تم سے اظہارِ محبت کرے گئی۔ مرد عورت کی محبت کا اندازہ کبھی نہیں لگا سکتا عورت
کی محبت بہت خاموش اور چھپی ہوئی ہوتی ہے۔ عورت کے احساسات پہیلی کی طرح ہوتے ہیں
ان کو سمجھ پانا بہت مشکل ہیں۔ مزمل بیگم بولتے
ہوئے روکی تھی ۔
جبکہ ان کی بات پر بے اختیار
زوریز کی نظروں کے سامنے گزرے دنوں کا منظر آیا تھا جب جزا نے لینا کا حشر بیگار دیا
تھا۔۔ بے اختیار اس کے چہرے پر مسکراہٹ آئی تھی ۔
محبت اور نفرت دو ایسے احساس
ہیں جن کے اظہار کے لیے الفاظ کی ضرورت نہیں ہے۔ ان احساسات کا اظہار انسان کا
عمل، اس کی نظریں ، اس کا رؤیہ کر دیتے ہیں ۔ مزمل بیگم نے اپنی بات مکمل کی تھی۔
مجھے بتائیں میں اب اس کو
مناؤ کیسے۔ زوریز نے ان کو مدد طلب نظروں سے دیکھا تھا۔
زوریز میری بیٹی راتوں کو اٹھ
اٹھ کر روئی ہے اس نے ایک ایک لمحہ اس اذیت کو محسوس کیا ہے۔ اس کے پاس کھونے کے
لیے اب بس تم ہو اور کچھ بھی نہیں ۔ اور تم نے اس کا اتنے بڑے امتحان سے دو چار
کیا ۔ اس کا ناراض ہونا جائز ہے۔ وہ حق پر ہے۔ مزمل بیگم نے اس کو دیکھا تھا مطلب
صاف تھا وہ جزا کو مجبور نہیں کریں گئی یہ کام اس کو خود کرنا ہے۔۔
میں کہتا ہوں جب وہ اکیلی ہو
تب اس کے پاس جا کر بات کرو۔ حدید نے مشہورہ دیا تھا ۔۔
تم اپنے مشہورے پاس ہی رکھو۔
خود تو تم سے اتنے سال بعد بولا گیا کہ پیار کرتے ہو ۔چلے ہو مشہورے دیںے۔۔ مزمل
بیگم نے لگے ہاتھ حدید کی طبیعت صاف کی تھی۔۔
جبکہ حدید کی اس بےعزتی پر
جہاں دوراب کا بےاختیار قہقہہ نکلا تھا وہاں زوریز نے اپنے قہقہے کا گلا گھونٹا
تھا۔۔
عزت ہی نہیں ہے۔۔ حدید جبران
مسکرایا تھا ۔
زوریز محبت کے معاملے میں
دماغ کی نہیں سنتے محبت دماغ کا کھیل نہیں دل کا کھیل ہے۔ تم نے اس وقت دماغ سے
فیصلہ لیا تھا اور آج تکلیف دل کو ہو رہی ہے۔ مزمل بیگم یہ کہہ کر اپنی جگہ سے
اٹھی تھی۔ جبکہ پیچھے زوریز کو بہت سے سوالوں میں الجھا گئی تھی۔
••••••••••••••
وہ رات کا گیا ابھی گھر لوٹا
تھا ۔ اکرم صاحب ٹی وی لاؤنج میں ہی بیٹھے تھے۔۔
کدھر گئے تھے تم رات کو ؟
اکرم صاحب نے اس کے آتے ہی اس سے سوال کیا تھا۔۔
ڈیڈ پلیز میں ابھی واپس آیا
ہوں۔ فوراً ہی سوال جواب شروع نہ کر لیں ۔۔وہ بے زار سا بولا تھا۔
شہزاد اپنا حال دیکھو تم ۔۔
اکرم صاحب نے اس کی حالت پر چوٹ کی تھی بال بکھرے ہوئے تھے۔ گریبان کے بٹن کھولے
تھے۔ قمیض کی ایک بازو اوپر کی طرف موڑی ہوئی تھی جبکہ دوسری بازو کا کف کھولا ہوا
تھا۔
میرا حال ٹھیک ہے۔ شہزاد یہ
کہہ کر آگے بڑھا تھا۔ ابھی اس نے پہلی سیڑھی پر قدم رکھا ہی تھا کہ اکرم صاحب کے
الفاظ نے اس کے قدم روکے تھے۔۔
میں نے تمہارا اپوائنٹمنٹ بک
کیا ہے ڈاکٹر کے ساتھ تم آج شام ڈاکٹر کے پاس جا رہے ہو میرے ساتھ ۔۔ اکرم صاحب
اٹل لہجے میں بولے تھے۔۔
میں ایک بار بول چکا ہوں مجھے
نہیں جانا ڈاکٹر کے پاس۔ اور اب بار بار نہیں بول سکتا۔ شہزاد بےذار ہوا تھا۔۔
شہزاد تمہیں سمجھ کیوں نہیں آ
رہی تمہاری کنڈیشن بہت خراب ہے۔ اکرم صاحب فکر مندی سے اس کو دیکھ رہے تھے۔
میری کنڈیشن خراب نہیں ہے ڈیڈ
۔ اور پلیز مجھے اب دوبارہ ڈاکٹر کی طرف جانے کا مت بولیے گا۔ شہزاد یہ کہہ کر سڑھیاں
چڑھنے لگا تھا۔۔
تمہیں سمجھ کیوں نہیں آتی
ہے شہزاد ۔۔ اکرم صاحب اس کی بات سن کر
بہت پریشان ہوئے تھے۔
وہ اپنے کمرے میں آ کر بند ہو گیا تھا۔۔۔ وجود کی بےچینی کیسی صورت
کم نہ تھی ۔۔ اپنے ہاتھوں کو سامنے کیے وہ بس ان کو دیکھتا جا رہا تھا ۔
اپنی جیب سے سگریٹ نکل کر اس
نے لبوں کے ساتھ لگایا تھا ۔ ایک گہرا کش اس نے اپنے اندر اتارا تھا اور پھر
دھوئیں کو بند کمرے میں چھوڑا تھا۔ اس دھوئیں میں اس کو شہد رنگ آنکھوں کی جھلک
محسوس ہوئی تھی ۔ شہزاد نے اپنی آنکھیں سختی سے بھینچ لی تھی۔۔
تمہیں برباد کر کے بھی مجھے
سکون نہ ملا جزا۔۔ شہزاد نے ایک ٹھنڈی سانس لی تھی۔۔
سمجھ نہیں آتا اس رات میں نے
تمہیں برباد کیا تھا یا اس رات میں نے اپنے ہاتھوں اپنی بربادی لکھی تھی۔۔ شہزاد
کا لہجہ زخمی تھی۔
کاش تم دیکھ پاتی میرا حال
جزا کاش۔۔ تمہں برباد کر کے سکون کو ترس گیا ہوں میں ۔ شہزاد نے آنکھیں سختی سے
بند کی تھی۔۔
یہ ذہنی اذیت ، بے سکون نیند
، بےچین روح، خون سے بھرے خیالات ، میری جان کے درپے ہیں ۔ یہ اذیت یہ بے سکونی
میری جان لے رہی یے۔ شہزاد نے آنکھیں بند کی تھی وہ رونا چاہتا تھا مگر رہ نہیں پا
رہا تھا۔
وہ دور بہت دور خیالوں میں کھو
چکا تھا ۔۔ اور ایسے ہی خیالوں میں کھوئے کب اس پر نیند ہاوی ہوئی وہ انجان تھا۔
Urdunovelnests•••••••••••••••••
پرائیویٹ پلین ابھی پاکستان
کے شہر لاہور میں لینڈ کیا تھا۔۔ ابراہیم صاحب سب سے پہلے پلین پر سے اترے تھے ان
کے پیچھے دوراب ، رحیان اور آیان اترے تھے۔
پھر مزمل بیگم پلین سے اتری
تھی اور ایک خوشگوار مسکراہٹ نے ان کے ہونٹوں کو چھوا تھا ۔ اتنے وقت بعد وہ اپنے ملک واپس آئی تھی۔ اپنے
ملک کی سر زمین پر کھڑی تھی اور اس بات کا سکون ان کے چہرے سے ہی پتا چل رہا تھا۔
میرے ملک میں خوش آمدید ۔۔
حدید وافیہ کے ساتھ آ کر کھڑا ہوا تھا جو آج پہلی بار پاکستان آئی تھی۔
بہت شکریہ ۔ وافیہ بس اتنا
کہہ کر اتر گئی تھی۔
یہ بیوی نہیں بنی اور نکھرے
دیکھا رہی ہے بیوی بن گئی تو قابو نہیں آئے گئی۔ حدید صاحب منہ میں بربراتے پلین
سے اترے تھے۔۔
چلیں ؟ زوریز جزا کے سامنے کھڑا
بولا تھا اور اپنا ہاتھ اس کے سامنے پھیلا رکھا تھا۔۔ تاکہ وہ اس کا ہاتھ تھام سکے
مگر جزا اس کے ہاتھ کو نظر انداز کرتے اگے بڑھی تھی۔ جبکہ زوریز خاموشی سے اپنے
ہاتھ کو دیکھ رہا تھا۔
پلین سے اترنے سے پہلے جزا نے
ایک زخمی نظر زوریز پر ڈالی تھی۔ اور ایک سرد آہ بھر کر پلین سے اتری تھی۔۔ جبکہ
زوریز اس کے پیچھے خاموشی سے اترتا اگے بڑھا تھا۔۔ سب گاڑیاں تیار کھڑی تھی۔
ایک میں ابراہیم صاحب ، زوریز
اور جزا تھے ، ایک میں حدید ، مزمل بیگم اور وافیہ تھے جبکہ ایک میں دوراب ، آیان
اور رحیان تھے۔ وہ تینوں گاڑیاں آگے پیچھے ہی منزل کی طرف روانہ ہوئی تھی ۔۔
اور کچھ دیر میں وہ تینوں
گاڑیاں ابراہیم صاحب کے گھر کے سامنے روکی تھی۔۔
چلو اترو سب۔۔ ابراہیم صاحب
کار سے اتر کر بولے تھے۔
بیٹا ایت لکرسی پڑھ لو۔ شیر
کے علاقے میں آئے ہیں سیدھا ۔ خطرے کی بو آ رہی ہے۔ درواب کار سے نکلنے سے پہلے
بولا تھا اور یہ کہہ کر کار سے نکل گیا تھا۔
اب وہ سب کار سے نکل چکے تھے
اور ابراہیم صاحب کے پیچھے ہی اس عالیشان محل نما گھر میں داخل ہوئے تھے۔۔
سامنے ہی ٹی وی لاؤنج میں
عائشہ بیگم ، روحا بیگم ، آمل بیگم ، ابیہا بیگم ، کامران صاحب ، احسن صاحب افضل
صاحب ، عزیزہ ، اغا آفریدی صاحب ، آمنہ، نور ، حور ، ماہر، صائم اور گل سب موجود
تھے ۔۔
جبکہ ان سب کو دیکھ کر دوراب
، آیان ، رحیان اور حدید کے قدم اپنی اپنی جگہ روک گئے تھے ۔ اور ٹی وی لاؤنج میں
موجود سب کی نظریں صرف اس وقت ایک وجود پر تھی۔ اور وہ جزا شاہد تھی۔۔
جزا ۔۔۔ آمنہ اور نور بھاگ کر
جزا کے گلے لگی تھی ۔۔ جبکہ امل بیگم کو ابھی بھی اپنی آنکھوں پر یقین نہ آ رہا
تھا۔۔
تم کہاں چلی گئی تھی۔۔ تمہیں کہاں
کہاں نہ ڈھونڈا جزا۔ نور روتے ہوئے بولی تھی جبکہ جزا کا چہر آنسو سے بھرا ہوا
تھا۔
یہ چند عرصہ کی دوری ان کے
لیے ہزار صدیوں کی دوری کے برابر تھی۔ ان تینوں کے چہرے آنسو سے بڑھے ہوئے تھے
جبکہ پیچھے کھڑے دوراب آیان اور زوریز ان تینوں کو دیکھ رہے تھے جن کی آنکھوں میں
وہ آنسو نہیں دیکھ سکتے تھے وہ تینوں ایک دوسرے کے گلے لگی رو رہی تھی۔۔
مجھے تم دونوں کی ایک ایک
لمحہ یاد آئی ۔ جزا نے آنسوں سے بھری آنکھوں سے ان دونوں کو دیکھا تھا۔۔
دوستی ایک ایسا رشتہ ہے جو
ہمارے وجود کو مکمل کرتا ہے ۔ اور آج صحیح معنوں وہ تینوں مکمل تھی جزا ، نور اور
آمنہ پھر سے ایک ساتھ تھی ایک دوسرے کے
قریب یہ وقت کی دوری بھی ان کی دوستی کو زنگ نہ لگا سکی تھی ۔
اصل دوستی ہوتی ہی وہ ہے جس
کو وقت ، دوری کبھی زنگ نہ لگا سکے جو سدا بہار رہے ایسی دوستی جس میں سالوں کے
بعد بھی ملو تو اپنیت اور خلوص کم نہ ہو اور ایسی دوستیاں آج کے دور میں صرف نصیب
والوں کو ملتی ہے جیسے محبت کے معاملے میں
ہر کوئی خوش قسمت نہیں ہوتا ویسے ہی دوستی کے معاملے میں بھی ہر کوئی خوشی قسمت
نہیں ہوتا۔
وہ صحیح معنوں میں دل سے دوست
تھی ، الگ ماؤں سے جنم لینے والی تین بہنیں تھی۔ وقت نے ان کو کچھ عرصے کے لیے جدا
تو کیا مگر ان کے درمیان محبت کو کم نہ کر سکا تھا۔
تم کدھ تھی ایک بار نہ سوچا
ہمارا کیا ہو گا۔ ہم کس حال میں ہوں گئی۔ ہم تمہارا بچھڑ جانا برداشت کر بھی پائیں
گئی یا نہیں ۔ آمنہ نے اس کو روتے ہوئے غصے سے دیکھا تھا ۔
مجھے وقت اور حالات نے دور
کیا تھا۔ تم لوگوں سے میں چاہا کر بھی کبھی دور نہ ہوں ۔ جزا نے ان دونوں کے آنسوں کو صاف کیا تھا۔ جب دوراب ان کے
قریب آیا تھا۔
تم دونوں بعد میں اپنے شکوے
دور کر لیںا پہلے بڑی ماما کو ملنے دو۔ دوراب نے امنہ اور نور کو اپنے ساتھ لگایا
تھا ۔ اور دور کھڑی امل بیگم کی طرف دیکھا تھا۔۔
جزا خود آگے بڑھی تھی۔۔ انعم
بیگم کی گود کے علاؤ اگر جزا کو کبھی کیسی اور عورت کی گود میں سکون ملا تھا تو وہ
اس کی ماں کی اس دوست کی گود میں ملا تھا۔
جو اس کو شرارتیں سکھاتی تھی۔اس کو اپنے ہاتھ سے کھانا کھلاتی تھی۔ اپنی بیٹی کی
طرح اس کو پیار کرتی تھی۔۔
امل بیگم نے اس کے چہرے کو
کانپتے ہاتھوں سے چھوہا تھا۔۔ جزا نے ان کے ہاتھ کو اپنے نرم ہاتھوں میں ث تھاما
تھا اور بھیگی آنکھوں سے ان کو دیکھا تھا ۔۔ جن کے بال پہلے سفید نہ تھے مگر اب ان
کے بالوں میں بہت بال سفید ہو گئے تھے۔۔۔
خالہ آپ اتنی بوڑھی کب ہو
گئی۔۔ جزا کی آواز بھر آئی تھی۔ امل بیگم کے آنسوں میں اس کے خالہ کہنے پر اور
روانی آئی تھی۔ امل بیگم اس کو ڈانتی تھی کہ وہ ان کو خالہ کیوں نہیں بلاتی ۔ اور
آج وہ ان کو خالہ کہہ کر بولا رہی تھی۔۔
بہن۔۔ جیسی ۔۔ سہیلی
اورجوان۔۔۔ بھانجی کی۔۔موت اور ۔۔ جوان بھانجی ۔ کی گمشدگی ۔۔ کا دکھ ۔۔ تمہاری
خالہ۔ کو بوڑھا کر گیا۔ میری تین بیٹیاں تھی ۔ میں نے ایک ساتھ دو بیٹیاں کھو دی تھی
۔۔ میری ممتا تڑپتی رہی ہے جزا کیسی صورت سکون نہیں ملا ۔ امل بیگم روتے ہولی تھی
۔ اور اس کو گلے لگایا تھا۔۔
ان ہاتھوں میں تم دونوں کو
جوان کیا تھا۔ امل بیگم نے کانپتے ہاتھ اس کے سامنے کیے تھے ۔
تم دونوں کو ایک ساتھ کھویا
میں نے۔ اپنی بہن کھو دی میں نے۔ میرا دکھ کیسے کم ہوتا۔۔ امل بیگم کا چہرہ آنسوں
سے بھر گیا تھا۔۔
اس کو گلے لگائے ایک سیسکی ان
کے ہونٹوں سے نکلی تھی اور پھر وہ پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی تھی۔۔ اور اس وقت کیسی میں
ہمت نہ تھی کہ ان کو اگے بڑھ کر خاموش کروا سکے ادھر موجود سب کی آنکھیں آنسوں سے
تر تھی۔
وہ سب بےشک ایک فیملی نہ تھے
مگر ان کی دوستی ان کو ایک خاندان ہی بناتی تھی ۔ان کا ایک دوسرے کے لیے احساس ۔
ایک دوسرے کے غم اور خوشی میں کھڑا ہونا ان کو ایک خاندان ہی بناتا تھا۔۔
وہ نہ جانے کتنی دیر جزا کو
اپنے گلے لگائے کھڑی رہی تھی آنسو ان دونوں کی آنکھوں سے بے تحاشہ بہہ رہے تھے۔۔ جب احسن صاحب نے آگے بڑھ کر امل بیگم کو سنبھالا
تھا کیونکہ زیادہ رونا ان کی طبعیت خراب کر دیتا تھا ۔ جبکہ اب جزا باری باری سب
سے ملی تھی ۔
میرے بھائی کی بہادر بیٹی
۔۔عزیزہ نم انکھ سے اس کو دیکھتے اپنے گلے لگا چکی تھی۔۔
آپ عزیزہ انٹی ہیں ؟ جزا ان
کے گلے لگے بولی تھی۔
ہاں۔۔ وہ بس اتنا ہی بولی
تھی۔
وہ ہمیشہ مجھے اپ سے
ملوانا چاہتے تھے۔ جزا بھیگے لہجے میں
بولی تھی۔
جبکہ اس کی بات پر عزیزہ نے
ہھر سے اس کو گلے لگا لیا تھا ۔
اور اب وہ گل کے پاس گئ تھی۔ جو
کب سے کھڑی رو رہی تھی۔
روتی ہی رہو گئی کیا؟ جزا اس
کو دیکھ کر مدہم آواز میں بولی تھی ۔
جب مجھے پتا چلا آپ کو گولیاں
لگی ہیں میری جان نکل گئی تھی۔۔ گل یہ کہہ کر جزا کے گلے لگی مگر اس کے الفاظ اتنے
بلند تھے کہ سب سن چکے تھے۔۔
اب جوتے تم کہا رہے ہو یا ہم
؟ دوراب زوریز کے کان کے پاس جھکا بولا تھا۔
گولیاں میں نے تو نہیں ماری
تھی۔ زوریز گل کو غصے سے دیکھ رہا تھا
تمہارے گلے میں امنہ سے بڑا
سپیکر لگا ہوا ہے ۔جزا اس کو غصے سے دیکھتے بولی تھی۔۔
جبکہ گل کی بات پر سب پریشانی
سے جزا کو دیکھ رہے تھے۔۔
میں ٹھیک ہوں مجھے کچھ نہیں
ہوا۔۔جزا ان سب کے چہرے پر پریشانی دیکھ کر فوراً بولی تھی۔۔ جبکہ اب کی بار سب کہ
نظر بے اختیار پیچھے کھڑے پانچ بےنیاز نمونوں پر گئی تھی۔۔
Urdunovelnests•••••••••••••••••
ٹی وی لاؤنچ میں اس وقت پین
ڈراپ خاموشی تھی۔۔ وہ سب لوگ ان پانچوں کو ایسے دیکھ رہے تھے جیسے وہ بہت بڑا گناہ
کر کے بیٹھے تھے۔اور اتنے سال تک اپنے ماں باپ کی آنکھوں میں دھول جھونکنا بھی تو
گناہ ہی ہے۔
تم لوگ کچھ بولو گے اس بارے میں
؟ عزیزہ بیگم نے ہی ان سب کو دیکھا تھا۔
عزیزہ یہ نہیں بولیں گے ان کا
تو پسندیدہ کام ہے ماں باپ سے باتیں چھپانا یہ کہاں کچھ بولنے لگے۔۔۔ روحا بیگم نے
طنزیہ نظروں سے ان سب کو دیکھا تھا۔ جو خاموشی سے سر جھکائے کھڑے تھے۔
ایک بار بھی شرم نہ آئی یہ
بات چھپاتے ہوئے؟ کیا ہم لوگ تم لوگوں کو اجازت نہ دیتے؟ ابہیا بیگم نے سخت نظروں
سے دیکھا تھا۔۔
کیسی کی بیٹی تو نہیں لے کر
بھاگے جو شرم کریں۔۔ آیان کی زبان کو کھوجلی ہوئی تھی۔
اس کا منہ بند کروا لو سارے
خاندان سے جوتے پڑھ جائیں گے۔ حدید دانت پیس کر بولا تھا۔۔
زبان کاٹ دوں گئی تمہاری آیان
۔ ابہیا بیگم نے جوتی اتاری تھی۔۔
تھوڑی شرم کر لیتے تم پانچویں
تھوڑی سی شرم کر لیتے ۔ اہک ماں نے نہیں پانچ پانچ ماؤں نے تم لوگوں کو جوان کیا
اپنے ہاتھ سے نوالے بنا بنا کر کھلائے کبھی تم لوگوں کے درمیان میں پیار کی کمی نہ
کی اور تم لوگوں نے یہ صلہ دیا۔۔ شرم نہ آئی پانچ ماؤں سے جھوٹ بول رہے تھے۔ کیا
تھا اگر سچ بول دیتے۔ عائشہ بیگم نے افسوس سے ان سب کو دیکھا تھا۔۔
موم میری بات۔۔ زوریز نے کچھ
بولنا چاہا تھا۔
زوریز اپنی زبان سے ایک لفظ
نکلا نہ تو میں بھول جاؤں گئی کہ تم میرے جوان بیٹے ہو اور چالیس گاؤں کے سردار
ہو۔ جوتیاں مار کر تمہارا وہ حشر کروں گئی یاد رکھو گے۔ عائشہ بیگم نے اس کو سخت نظروں سے دیکھتے ہوئے
بولی تھی ۔ جبکہ زوریز خاموش ہو گیا تھا اس نے کبھی اپنی ماں کا غصہ نہ دیکھا تھا
اور آج اس کی ماں کا غصہ اس کو خاموش کروا گیا تھا۔
ایسی کون سی مجبوری تھی جو تم
لوگ ہمیں بتا نہ سکے یہ سب؟ احسن صاحب نے ان سب کو باری باری دیکھا تھا۔
ایک بار بتاتے تو سہی تم لوگ ۔
کیا اتنا یقین بھی نہیں تھا ہم پر؟ کامران صاحب نے ان سب کو افسوس کرتی نظروں سے
دیکھا تھا۔
بہت تکلیف دی ہے تم لوگوں
نے۔۔ سامنے رہ کر نظروں میں دھول جھونکتے رہے تم لوگ۔ آغا صاحب نے ان سب کو سخت
نظروں سے دیکھا تھا۔
کم سے کم مجھے ہی بتا دیتے تم
لوگ کہ تم لوگ کرتے کیا ہو۔ ماہر نے ان سب کوغصے سے دیکھا تھا۔
وہ سب باری باری ان کو کچھ نہ
کچھ بول رہے تھے اور وہ پانچوں خاموشی سے سن رہے تھے۔
اس وجہ سے نہیں بتایا کہ آپ
سب منع کرو گے آپ سب لوگ آرمی کے لیے مان جاتے مگر مافیا کے لیے کبھی بھی نہیں اور
مافیا ہم لوگ چھوڑ نہیں سکتے۔ زوریز مدہم آواز میں بولا تھا۔
اور تم لوگوں کو لگتا ہے کہ
ہم لوگ ظالم ماں باپ ہیں تم لوگوں کی خوشی کو نہیں سمجھیں گے یا ہمیں تم سب پر
یقین نہیں ؟ عزیزہ نے ان سب کو غصے سے
دیکھا تھا۔
ہم لوگ کچھ وقت میں بتا دینا
چاہتے تھے۔ اب کی بار دوراب بولا تھا۔
ہاں ہماری قبروں پر آ کر
بولنا تھا تم سب نے۔ اب کی بار ابہیا بیگم غصے سے بولی تھی۔
موم۔۔ آیان ماں کے الفاظ سن
کر ترپ کر بولا تھا۔
زبان بند کر۔ ابہیا بیگم نے اب
کی بار جوتی آیان کی طرف پھینکی تھی ۔
اتنے پیار سے تم سب کو بڑا
کیا صرف اس دن کے لیے کہ تم لوگ ہم سے چھپ کر اپنی پہچان چھپا کر وطن کی خدمت کرو
اور یہ مافیا میں کیا کرتے پھیر رہے ہو تم
لوگ؟ امل بیگم نے ان سب کو افسوس سے دیکھا
تھا۔
گندگی کو صاف کرنے کے لیے خود
گندگی میں اترے ہیں ۔ حدید امل بیگم کی طرف دیکھا تھا۔۔
کیا تم سب کو ہم لوگ ملک غدار
لگتے تھے؟ آغا صاحب نے ان سب کو دیکھا تھا۔
نہیں ایسا نہیں ہے۔۔۔ وہ سب
ایک ساتھ بولے تھے۔۔
تو پھر کیسا ہے؟ ان سب کے ماں
باپ بھی ایک ساتھ بولے تھے۔
وہ موم ہمیشہ ڈیڈ سے ایک بات
پر ہی لڑتی تھی کہ مافیا چھوڑ دیں آرمی سے اب ریٹائرمنٹ لے لیں ۔ تو مجھے لگتا تھا
وہ کبھی اس بات کے لیے نہیں مانیں گئی۔ کیونکہ میں نے مافیا بہت کم عمر میں سنبھال
لیا تھا اور یہ بات ڈیڈ نے موم سے خود چھپائی تھی۔ تو مجھے لگا اگر موم کو آرمی کا بتایا تو وہ
کبھی نہیں مانیں گئی۔ کیونکہ وہ کبھی نہیں چاہتی تھی کہ میں آرمی میں جاو۔ اور
مجھے چھوڑیں آپ توحدید کو منع کر بھی چکی تھی ۔ زوریز نے اپنی صفائی دی تھی۔۔
میں اس وجہ سے نہیں چاہتی تھی
کیونکہ میں تم دونوں کو گولیوں کے ساتھ
کھیلتے اور زخمی حالت میں نہیں دیکھ سکتی تھی ۔ میں نے حدید کو بھی ماں بن کر ہی
جوان کیا ہے جس کی اجازت تمہیں نہیں دی اس کی اس کو کیوں دیتی۔ اور تم دونوں کو
کون سی شرم آ گئی میری بات کو رد تو کر ہی دیا ہے تم دونوں نے۔ عائشہ بیگم نم
آنکھوں سے ان دونوں کو دیکھ رہی تھی۔
انٹی میری بات تو سنے ۔ حدید نے کچھ بولنا چاہا تھا۔
تم تو میری بات مان جاتے تھے
اس بار تم نے بھی من مرضی کی ۔ عائشہ بیگم نے حدید کو دیکھا تھا۔ جبکہ مزمل بیگم
حدید کو غصے سے گھور رہی تھی۔۔
ان سب کو جوتے پڑھنے چاہیے ۔
جزا ان سب کو دیکھتے ہوئے ہلکی آواز میں بولی تھی جو پاس کھڑی نور، آمنہ ، وافیہ
اور گل سن چکی تھی۔
تم نے کیوں چھپایا دوراب ؟
روحا بیگم نے دوراب کو دیکھا تھا۔
مجھے لگا عائشہ انٹی کی طرح
آپ بھی اجازت نہیں دو گئی ۔ اور اگر آپ کو پتا چلا میں مافیا جوائن کر چکا ہوں تو
زبردستی گھر نہ بیٹھا لو۔ دوراب نے سر جھکایا تھا۔
تم زبردستی گھر بیٹھنے والی
چیز ہو پہلے تو اس بات کا جواب دو؟ روحا بیگم نے اس کے کان کو پکڑا تھا۔
موم یار پلیز ۔۔ دوراب نے
روحا بیگم کو مظلوم بن کر دیکھا تھا ۔
تمہیں کبھی بھی میں نے صحیح
کام سے منع نہیں کیا دوراب ۔ تم سکول میں ایک لڑکے کو مار کر آئے تھے کیونکہ اس نے
آمنہ اور نور کو تنگ کیا تھا۔ میں نے تمہیں تب بھی کچھ نہ کہا تھا کیونکہ تم ایک
کے منگیتر تھے اور ایک کے بھائی ۔ ان کی عزت کی حفاظت تمہارے ذمہ تھی۔ تو کیا میں
تمہیں اس ملک کی بہن بیٹیوں کی عزت کی حفاظت کے لیے منع کرتی؟ روحا بیگم نے اس کو
دیکھا تھا جس نے نظریں جھکا لی تھی ۔
جبکہ آمنہ اورنور اس کو فخر
سر دیکھ رہی تھی بے شک اس نے سچ چھپایا تھا مگر اس کے لیے عزت آج اور بڑھ گئی تھی
ان کی نظروں میں ۔۔۔ اور دوراب روحا بیگم کی بات سن کر خاموش ہو گیا تھا۔
آیان کیا منہ میں دہی جم گیا
ہے ؟ ابہیا بیگم نے اس کو گھورا تھا۔
بھائی نے جب ائیر فورس کے لیے
اپلائے کیا تھا تو ڈیڈ نے ان کو زبردستی بزنس کی فیلڈ میں ڈالا تھا۔ اس لیے میں نے
چھپ کر کرنا بہتر سمجھا ۔ آیان نے کندھے اوچکے تھے۔۔۔
تجھ جیسا نکمہ فوج کے جوتے ہی
ڈیزرو کرتا ہے مجھے بتاتا تو خوشی خوشی بھیجتا ۔ اور رہی بات مافیا کی تو سمجھ سے
باہر ہے تم مافیا میں تم کس کام کے لیے
ہو۔۔۔ افضل صاحب نے غصے سے اس کو دیکھا تھا۔
بس آپ کی ان ہی بتاؤں کی وجہ
سے دل نہیں کرتا بتاؤ آپ کو۔ آیان ناراضگی سے بولا تھا۔
تو تمہاری فطرت کون سا بدل
گئی ہے ۔ جیسے تھے ویسے ہی ہو۔ افضل صاحب نے اس کو گھورا تھا۔
اب آپ بھی بول لیں یا آپ کے لیے
انویٹیشن کارڈ بھیجوں ۔ عزیزہ نے کھا جانے والی نظروں سے رحیان کو دیکھا تھا۔
مجھے مافیا اور آرمی میں
دلچسپی تھی آپ مجھے میڈکل میں بھیج رہی تھی۔ تو مجھے مجبوراً یہ کرنا پڑا ۔ رحیان
نے عزیز کو دیکھا تھا۔
تم میری نظر میں کیوں نہیں
آئے اور نہ تمہارا نام آیا؟ کیونکہ زوریز ، آیان دوراب اور حدید کا تو مُجھے پہلے
ہی پتا تھا ۔ عزیزہ نے اس کو گھورا تھا۔
جب آپ آتی تھی میں ادھر سے
نکل جاتا تھا۔ اور میرا نام آنا بھی نہیں تھا آپ کی نظر میں ۔ کیونکہ مجھے تو ادھر
سب حانی کے نام سے جانتے تھے۔۔ رحیان لاپرواہی سے بولا تھا۔۔
اب گھر نظر نہ انا ٹانگیں توڑ
دوں گئی تمہاری ۔ میں لوگوں کی آنکھوں میں
دھول جھونکتی تھی میرے بیٹے نے میری آنکھوں میں دھول جھونکا۔ عزیزہ غصے سے بولی تھی۔
اب آپ کا بیٹا ہوں کچھ تو آپ
سے لوں گا ہی۔ رحیان لاپرواہی سے بولا تھا۔
اس لیے بولتی تھی اس پر نظر
رکھیں ۔ عزیزہ نے آغا صاحب کو دیکھا تھا۔
بیٹا تمہارا کچھ بھی کرے
بھڑاس مجھ پر ہی نکالنا آ کر۔ آغا صاحب بےذار ہوئے تھے۔
اور آپ نے ان سب کا راز کیوں
رکھا ابراہیم ۔۔ عائشہ بیگم اب ابراہیم صاحب کی طرف موڑی تھی۔
کیونکہ آپ کا بیٹا بہت اچھا
بلیک میلر ہے۔ ابراہیم صاحب دانت پیس کر بولے تھے ۔
اب معافی دے دیں پلیز ۔ وہ سب
ایک ساتھ بولے تھے۔
زبان سے دوبارہ معافی کا لفظ
بھی نہ نکلنا ۔ وہ سب ایک ساتھ بولی تھی۔
ویسے اب اس سب کا فائدہ نہیں
جو ہونا تھا ہو گیا ہے بچوں کو اپنی غلطی کا احساس ہے معافی دے دو سب۔ احسن صاحب
نے ان سب کو سمجھنا چاہا تھا۔
بچے؟؟ یہ آپ کو بچے لگتے ہیں
؟ ان کی بچے پیدا کرنے کی عمر ہے اور حرکتیں دیکھیں ان کی ماں باپ سے باتیں چھپاتے
پھر رہے ہیں ۔ امل بیگم احسن صاحب کو دیکھتے بولی تھی۔
باقی سب کو معاف کر دیں ان سب
نے تو آپ سے بس یہ ہی چھپایا ہے کہ وہ آرمی اور مافیا میں ہیں ۔ اٹلیسٹ انہوں نے
نکاح کر کے تو نہیں چھپایا ہوا۔ ابراہیم صاحب نے زوریز کو سر سے پیر تک دیکھا
تھا۔۔
کیا مطلب؟ وہ سب ایک ساتھ بولے
تھے۔۔
جزا گم نہیں ہوئی تھی۔ زوریز
کے پاس تھی اس تمام عرصے میں ۔ ابراہیم صاحب نے بات کا آغاز کیا تھا۔
اتںے وقت سے جزا تمہارے پاس
کیا کر رہی تھی زوریز ۔ عائشہ بیگم نے زوریز کو سخت نظروں سے دیکھا تھا۔
وہ موم۔۔ وہ میں ۔ زوریز اس
اچانک وار کے لیے تیار نہ تھا۔
وہ موم۔ وہ میں کیا ؟ جواب دو
جزا تمہارے پاس کیسے تھی ؟ عائشہ بیگم نے اس کو گھورا تھا۔
میں جزا کو ڈھونڈنے نکلا تھا
مجھے ڈیڈ نے بھیجا تھا۔ مگر جزا میری کار سے ٹکرائی تھی اور اس وقت جو صورت حال
ادھر تھی اس وجہ سے میں جزا کو منظر سے ہٹا چکا تھا۔ اگر اس کی موجودگی کی کیسی کو
بھنک بھی لگ جاتی تو اس کی جان کو خطرہ تھا۔ زوریز نے عائشہ بیگم کو دیکھا تھا ۔۔
تو کچھ وقت بعد لے آتے اس کو
۔ اب کی بار ایک اور سوال کیا گیا تھا۔
وہ میں اس کو اس کے انتقام کے
لیے ٹرینڈ کر رہا تھا۔ زوریز ہموار لہجے میں بولا تھا۔
آگے بھی بتاؤ یا میں باتوں ؟
ابراہیم صاحب نے اس کو دیکھا تھا۔
کیا بتانا ہے مزید ؟ عائشہ
بیگم کی جیسے اب بس ہو گئی تھی۔
وہ میں نے جزا سے نکاح کر لیا
تھا اس کو پاکستان سے لے کر جانے کے کچھ وقت بعد ہی۔ وہ میری بیوی ہے ۔ زوریز نے مضبوط لہجے میں بولا تھا۔
جبکہ آمنہ ، نور اور حور نے جزا کو دیکھا تھا۔
تھوڑا اور جلدی بتا دینا تھا
یہ ابھی صحیح وقت نہیں جب تم نے بتایا ہے۔ عائشہ بیگم نے اس کو غصے سے دیکھا تھا۔
پھر کب بتاتا ؟ زوریز حیرت سے
ان کو دیکھ رہا تھا۔
دو تین بچے پیدا کر کے بتا
دیتے کہ ماں میں نے نکاح کر لیا ہے۔۔ عائشہ بیگم اپنی جگہ سے اٹھی تھی ۔۔
وہ پھر بہت زیادہ لیٹ ہو جانا
تھا ۔ زوریز ڈھیٹ بنا بولا تھا۔۔ جبکہ اس
کی بات پر جزا نے اس کو گھورا تھا۔۔
دفع ہو جاو میرے گھر سے زوریز
ابراہیم احمد خان ۔ ورنہ بہت برا پیش آؤ گئی تم سے۔۔ عائشہ بیگم یہ کہہ کر اپنے
کمرے کی طرف گئی تھی جبکہ زوریز ان کے پیچھے بھاگا تھا ان کو منانے کے لیے۔۔
••••••••••••••••
ہیپی بڑتھ ڈے ٹو یو ۔۔ ہیپی
بڑتھ ڈے ڈیر ۔۔ اس کے آگے کے الفاظ اس کے منہ میں دم توڑ گئے تھے الفاظ بھاری ہوئے
تھے۔ آواز گلے میں دب گئی تھی۔۔ آنکھیں نم ہو گئی تھی۔۔
نوریز تم کیا کر رہے ہو ادھر۔
نواز اس کے پاس آ کر بیٹھا تھا اور سامنے
پڑا کیک دیکھا تھا۔۔
کچھ نہیں ۔۔ نوریز نے سامنے
پڑے کیک پر سے نظریں اٹھا کر کہا تھا ۔۔
اور پھر خاموشی سے اس کیک کو
کاٹا تھا اور ایک چوٹا سا ٹکڑا نواز کی طرف بڑھایا تھا جبکہ نواز نے نوریز کی طرف دیکھتے
ہوئے منہ کھولا تھا۔ اس کو کھلانے کے بعد نوریز نے خود اس کیک کا چھوٹا سا ٹکڑا
کھایا تھا۔
اور اپنی جگہ سے اٹھا تھا جب
نواز کے سوال نے اس کے قدم اسی جگہ برف کر دیے تھے۔
تم ہر سال اس دن کیک کیوں
کاٹتے ہو ؟ کیونکہ نہ اس دن میری برتھ ڈے ہے نہ تمہاری نہ موم ڈیڈ کی تو تم کس کی
بڑتھ ڈے کے لیے کیک لاتے ہو ۔ نواز نے نوریز کو دیکھا جو ایک جگہ تھم سا گیا تھا ۔
یہ تم آج اچانک سے یہ سوال
کیوں کر رہے ہو۔ خود کو نارمل کرتے ہوئے نوریز نے روخ موڑ کر نواز کو دیکھا تھا۔۔
میں بہت عرصے سے کرنا چاہتا
تھا مگر کر نہ سکا ۔ نواز نے سچ بولا تھا۔
اس سوال کا جواب تم نہ ہی
جانو تو بہتر ہو گا نواز ۔۔ نوریز نے ہموار لہجے میں کہا تھا۔
مگر مجھے جاننا ہے نوریز اور
صرف یہ ہی نہیں مجھے بہت کچھ جاننا ہے ایک عرصے سے کچھ باتیں پریشان کیے ہوئے ہیں
ڈیڈ سے بار بار پوچھا کبھی تسیلی بخش جواب
نہ ملا مجھے نوریز ۔ نواز اپنی جگہ سے اٹھ کر اس کے سامنے آیا تھا۔
کیا جاننا چاہتے ہو تم۔ اور
کس کس بات کے بارے میں جاننا چاہتے ہو۔ مت
کھوریدو ماضی کی تلخ حقیقت کے پینے کو جو سچ سامنے آئے گا وہ سنے کے بعد اپنے پاؤں
پر کھڑے نہیں رہ پاؤ گے۔ نوریز اس کی آنکھوں میں اپنی آنکھیں گاڑ کر بولا تھا دو
اوشن گرین آنکھیں ایک دوسرے کو دیکھ رہی تھی ۔ ایک طرف قہر تھا تو دوسری طرف سوال
ہی سوال ۔
مجھے فرق نہیں پڑتا نوریز مجھے
جاننا ہے سب کچھ جاننا ہے آج مجھے میرے سوالوں کا جواب دو نوریز ۔۔ نواز جیسے آج اپنی ضد پر آڑ گیا تھا ۔۔
کیا جاننا ہے تم نے پوچھو ۔۔
نوریز ایک چیڑ کھینچ کر بیٹھ گیا تھا۔
تم ڈیڈ سے ٹھیک سے بات نہیں
کرتے ۔ میں نے بہت بار نوٹ کیا ہے تم ڈیڈ سے بہت کھینچے کھینچے رہتے ہو جیسے کہ تم
ان کو بلانا نہیں چاہتے ۔ نواز نے نوریز کو دیکھا تھا اوراس کے بلکل سامنے بیٹھ
گیا تھا۔
ہاں میں نہیں بلانا چاہتا ان کو
،انفیکٹ میں ان کو باپ بھی نہیں مانتا اپنا۔ اگر مجھ سے کوئی پوچھے کہ میری نظر
میں اس دنیا میں سب سے برا انسان کون ہے جس سے مجھے بے انتہا نفرت ہے ۔ میں عثمان
سلطان کا نام لوں گا۔ نوریز کا لہجہ سخت تھا اس کے لہجے سے اس کی نفرت کا اندازہ
ہو رہا تھا۔
مگر کیوں ایسا کیا ہوا ہے۔
نواز کو حیرت ہوئی تھی۔
بہت کچھ ہوا ہے نواز بہت کچھ
ہوا ہے جس وقت تم پاکستان میں نہ تھے اس وقت بہت کچھ ہو گیا تھا نواز بہت کچھ۔
نوریز کی آنکھوں میں سرخی دور آئی تھی۔
ہوا کیا تھا؟ مجھے بتاؤ نوریز
پلیز ۔۔ نواز نے نوریز کو دیکھا تھا۔۔
تمہیں کیا لگتا ہے موم کی
ڈیتھ کیسے ہوئی؟ نوریز نے نواز کی آنکھوں میں آنکھیں گاڑ کر سوال کیا تھا۔
موم نے سوسائیڈ کی تھی۔ وہ
اپنی ڈپریشن اور انزائٹی سے کم اوور نہ کر سکی وہ نفسیاتی ہو رہی تھی وہ خود کو
بہت بار مارںے کی کوشش کر چکی تھی اور آخر انہوں نے خود کو مار دیا۔ نواز بولتا چلا
گیا ۔
اور یقیناً تمہیں یہ ساری
کہانی عثمان سلطان نے بتائی ہو گئی رائیٹ ؟
نوریز نے ایک آئی برو اٹھائی تھی۔
ہاں مجھے یہ سب ڈیڈ نے بتایا
جب میں نے ان سے موم کی ڈیتھ کا پوچھا۔ نواز نے فوراً اعتراف کیا تھا۔
جب تم پاکستان میں نہیں تھے۔
اور تمہارا ایڈمشن امریکہ کا ایک سکول میں کروا کر تمہیں ادھر پاکستان سے بھیج دیا
گیا تھا ۔ اس وقت عثمان سلطان اس غلاظت میں اتر چکا جس دلدل میں آج تم بھی بہت بری
طرح پھنس گے ہو۔ موم کو یہ سب پاتا چل گیا تھا انہوں نے ان کو روکنا چاہا مگر ہر
بار انہوں نے موم پر ہاتھ اٹھایا موم کو بہت بری طرح مارا ۔ میں موم کی چیخیں سنتا
تھا دورازہ بجاتا رہتا تھا کہ موم کو مت ماریں ۔ مگر وہ نہیں روکتے تھے۔ نوریز
بولتے ہوئے روکا تھا جیسے خود کو آگے کے الفاظ کے لیے تیار کر رہا ہو۔
پھر ؟ نواز نے اس کو خاموش
دیکھ کر اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھا تھا۔
اس وقت موم پریگننٹ تھی ۔ ان
سب مار پیٹ میں موم میس گریج سے تو بچ گئی تھی کیونکہ عثمان سلطان جانتا تھا کہ وہ
باپ بنے والا ہے وہ اپنا بچہ نہیں کھونا چاہتا تھا۔ عثمان سلطان کو ایک اور وارث
چاہیے تھا مگر۔ نوریز کی آواز بھاری ہوئی تھی۔
مگر کیا نوریز ۔ نواز کا دل
بے چین ہوا تھا۔
مگر جب معلوم ہوا کہ بیٹی ہے تو
اس گھٹیا آدمی نے بیٹی کے پیدا ہونے سے پہلے ہی اس کا سودا تہ کر دیا تھا۔ اس کی
قیمت لے لی تھی۔ اور جب وہ پیدا ہوئی موم اس کو لے کر بھاگ جانا چاہتی تھی۔ مگر اس
ظالم شخص نے ایک ماں کی گود سے اس کی بیٹی چھینی تھی جس کو ابھی اس ماں نے اپنے
سینے سے بھی نہ لگایا تھا ٹھیک سے۔ موم ان کے پیچھے بھاگی تھی اپنی بیٹی لینے کے
لیے ۔ نوریز کی انکھیں نم ہوئی تھی۔ جبکہ نواز اپنی جگہ سے اٹھا چکا تھا اس کو
یقین نہیں آ رہا تھا کیسی ایک بات پر بھی ۔۔
اس نے موم کے گلے میں دوپٹہ
باندھ دیا تھا۔۔ میں دورازہ نوک کرتا رہا تھا مسلسل میں موم کو نہیں بچا سکا تھا ۔
اس نے موم پر رحم نہ کیا تھا اس کو اپنے گھر پیدا ہوئی چھوٹی کلی پر ترس نہ آیا
تھا ۔ جب کمرے کا دروازہ کھولا میں موم کے بےجان پڑے وجود کے پاس گیا تھا۔ ان کا
جسم ٹھنڈا پڑ چکا تھا نواز۔ مگر عثمان سلطان کو اس سے کیا فرق پڑھتا تھا وہ میری
بہن کو ان لوگوں کے ہاتھ دے چکا تھا جن کو اس نے بیچا تھا۔ نوریز کی آنکھوں سے گرم
سیسا نکل رہا تھا جو اس کا چہرہ جلا رہا تھا اس کی آنکھوں کو سرخ کر رہا تھا۔
میں اپنی ماں اور بہن نہیں
بچا سکا تھا ۔ میں اس وقت لاچار تھا بے بس تھا۔۔ میری ماں نے خودکشی نہیں کی تھی میری
ماں کا قتل ہوا تھا اور قاتل عثمان سلطان ہے۔۔ نوریز کی آواز بھاری ہوئی تھی آنسو
اس کے گلے میں پھیس گئے تھے۔
دنیا کی نظر میں میں نے صرف
ماں کھوئی ہے ۔ مگر حقیقت تو یہ ہے اس دن صرف میری ماں کا قتل نہیں ہوا تھا اس دن
میرا باپ میرے لیے مر گیا تھا اس دن بس وہ میری ماں کا قاتل اور میری بہن کا
سوداگر تھا جس نے میری بہن بیچی تھی ۔ میں نے ماں بہن اور باپ ایک ہی لمحے میں کھو
دیا۔ نوریز نے اپنے آنسوں سختی سے صاف کیے
تھے۔
مگر نواز مکمل خاموش تھا جیسے
کیسی نے اس کے منہ سے زبان کھینچ کی تھی یا کیسی نے اس کے الفاظ کا گلا گھونٹا دیا
تھا۔۔ آنکھوں میں بے یقینی ہی بے یقینی تھی۔۔
تمہیں پتا ہے میں کیوں اس شخص
سے ٹھیک سے بات نہیں کرتا۔ کیونکہ میں ان کا پسندیدہ بیٹا ہوں میرا بات نہ کرنا
نظر انداز کرنا ان کو تکلیف دیتا۔ ہے اذیت دیتا ہے۔اور مجھے تب تب سکون ملتا ہے مجھے
اس شخص کو اذیت دے دے کے مارنا ہے۔ نوریز نے نواز کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا
تھا ۔۔ جبکہ نواز بے چینی اور بے یقینی سے اس کو دیکھ رہا تھا۔
میں ہر سال اس لیے اس دن کیک
کاٹتا ہوں کیونکہ میری بہن اس دن پیدا ہوئی تھی۔ میں نہیں جانتا وہ کہاں ہے کہاں نہیں
مگر میرا دل کہتا ہے وہ ایک دن مجھے مل جائے گئی۔ نوریز مضبوط لہجے میں بولا تھا۔
یہ سب جھوٹ ہے نوریز ایسا کچھ
نہیں ۔۔نواز میں مزید بولنے کی ہمت نہیں تھی۔۔
اگر ایسا کچھ نہیں تو ایک بار
سٹیڈی میں جا کر اپنے باپ کی ٹیبل کے دراز دیکھ لینا ۔ یا پھر اپنے باپ سے خود
پوچھ لینا۔ یہ کہہ کر نوریز ادھر روکا نہ تھا اپنے کمرے میں واپس چلا گیا تھا۔
جبکہ نواز فوراً سٹیڈی کی طرف بھاگا تھا۔
•••••••••••••••••
وہ اس وقت شوپنگ مال سے باہر
نکلی تھی ۔ اس نے بلیک سکین فٹ پینٹ پر میرون کلر کا شوٹ ٹوپ پہن رکھا تھا جو کہ سلیولیس
تھا۔ وہ اپنی کار کے آنے کا ویٹ کر رہی تھی جب اچانک کیسی نے پیچھے سے اس کے چہرے
پر اپنا ہاتھ رکھا تھا ۔۔ اس کے ہاتھ میں ایک رومال تھا۔ جس کی وجہ سے وہ بے ہوش ہوتی
چلی گئی تھی۔۔
گاڑی میں ڈالو اس کو جلدی ۔۔
وہ آدمی فوراً سے اس کے بےہوش وجود کو سنبھالتا بولا تھا۔ اور اگلے ہی لمحے وہ لوگ
اس کو کار میں ڈال چکے تھے۔
بوس لڑکی ہمارے پاس ہے۔ اس آدمی نے ایک نمبر ڈائل کیا تھا اور جیسے ہی
کال اٹھائی گئی تھی وہ فوراً بولا تھا۔
بہت خوب بہت ہی خوب۔ اب بتائی
گئی جگہ پر اس کو لے کر جاؤ ۔ اس آدمی نے یہ کہہ کر فون رکھ دیا تھا۔۔
جبکہ وہ اب کار سٹارٹ کر کے
آگے بڑھے تھے۔۔ مگر دور اندھیرے میں کھڑا ایک سایہ یہ منظر دیکھ چکا تھا اور ان کے
تعاقب میں آگے بڑھا تھا ۔
•••••••••••••
موم ایک بار بات تو سن لیں
۔۔وہ کب سے اپنی ماں کو منانے کی کوشش کر رہا تھا۔
زوریز دفع ہو جاؤ اپنی شکل
بھی نہ دیکھاؤ ۔ عائشہ بیگم غصے سے بولی تھی۔
موم ایک بار میری بات سن لیں
۔ زوریز نے التجاء کی تھی۔
کیا سنوں زوریز ۔ اپنی ماں سے
کون سا بیٹا ایسے راز چھپاتا ہے۔ عائشہ بیگم کی آنکھیں نم ہوئی تھی ۔
موم اگر آپ اس سب کے خلاف نہ
ہوتی تو کبھی نہ چھپاتا ۔ زوریز نے سر جھکا لیا تھا۔
مجھے سب سے زیادہ اس بات نے
تکلیف دی کے تم نے جزا کو اپنے پاس رکھا اس سے نکاح کر لیا اور بتایا بھی نہیں ۔
عائشہ بیگم نے شکوہ کیا تھا۔
موم جزا کو منظر سے ہٹانے کے
لیے مجھے اس کو لے کر جانا پڑا اور میں جزا کو زیادہ عرصہ بغیر کیسی جائز رشتے کہ
اپنے پاس نہیں رکھ سکتا تھا ۔ اس لیے مجھے نکاح کرنا پڑا۔ زوریز نے اپنی صفائی دی تھی۔ جبک ایک لمحے کو
عائشہ بیگم کا دل نرم پڑا تھا اس کے لیے ۔
جزا کو کیا پتا تھا کہ تم کون
ہو؟ تمہاری حقیقت کیا ہے۔ انہوں نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا تھا۔
نہیں ۔۔ زوریز نے مختصر سا
جواب دیا تھا۔
کیا مطلب نہیں سے؟ عائشہ بیگم
نے حیرت سے اس کو دیکھا تھا ۔
موم میں مجبور تھا میں سچ
نہیں بتا سکتا تھا نہ اپ کو نہ جزا کو ۔ زوریز ان کو دیکھتا بولا تھا۔۔
تم نے اس بچی سے بھی سب
چھپایا ؟ عائشہ بیگم نے صدمے سے اس کو دیکھا تھا۔ جبکہ زوریز نے بس سر ہاں میں
ہلایا تھا۔
موم اگر میں اس وقت اس کو سچ
بتاتا وہ کبھی بھی مجھے قبول نہ کرتی یقین نہ کرتی ۔ زوریز ان کے سامنے بیٹھا بولا
تھا۔
کیا وہ اس نکاح کے لیے رضامند
تھی ؟ عائشہ بیگم نے ایک اور سوال کیا تھا۔
آپ مجھے سے ناراض ہو کر آئی
تھی۔ زوریز نے ان کو یاد دلایا تھا۔
زوریز میں ماں ہوں تمہاری اور
ماں اولاد سے زیادہ عرصہ خفا نہیں رہ سکتی ۔ تم نے سچ چھپایا مجھے تکلیف ہوئی مگر
میں اس بات کے لیے تمہیں معاف کرتی ہوں کیونکہ جو ہونا تھا ہو چکا ہے مگر۔عائشہ
بیگم ایک لمحے کو روکی تھی ۔
مگر کیا؟ زوریز نے ان کو غور
سے دیکھا تھا ۔
مگر مجھے جاننا ہے وہ بچی
تمہارے ساتھ خوش ہے کہ نہیں ۔ میں اس کے مستقبل میں اس کو تکلیف میں نہیں دیکھ
سکتی ۔ عائشہ بیگم نے اس کے سامنے اپنا خدشہ رکھا تھا۔
آپ کو آپ کی تربیت پر یقین
نہیں ؟ زوریز کے چہرے پر ہلکی سے مسکراہٹ ائی تھی۔
تربیت پر یقین ہے مگر ہمسفر
کا آپ کے ساتھ بنے رشتے میں دلی لگاؤ ہونا ضروری ہے محبت ہونا ضروری ہے ورنہ ساری
زندگی بس ایک سمجھوتے کی نظر ہو جاتی ۔عائشہ بیگم نے زوریز کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں
لیا تھا۔
وہ نکاح کے لیے رضامند نہ تھی
مگر کچھ وجوہات کی بنا پر اس کو نکاح کرنا پڑا ۔ زوریز نے ہموار لہجے میں سچ بتایا
تھا۔
کیا وہ تم سے محبت کرتی ہے ؟
عائشہ بیگم نے اگلا سوال کیا تھا۔
کرتی ہے مگر وہ اظہار نہیں
کرتی ۔ اور اس کے منہ سے اظہارِ محبت سنے کے چکر میں اس کو ناراض کر بیٹھا ہوں۔
زوریز کے ہونٹوں پر زخمی مسکراہٹ نے جگہ لی تھی۔ وہ آج اپنی ماں سے مزید کوئی بات
نہیں چھپانا چاہتا تھا اس لیے اس نے یہ بات کی تھی۔
ایسا کیا کیا کہ وہ ناراض ہو
گئی ۔ عائشہ بیگم نے ناسمجھی سے اس کو دیکھا تھا۔
ایک شرط پر بتاؤ گا۔ زوریز نے
ان کے ہاتھوں کو مضبوطی سے تھاما تھا۔
کیسی شرط ؟ دوٹوک انداز میں
سوال کیا گیا تھا۔
آپ مجھے ماریں گئی نہیں ۔
زوریز نے ان کو دیکھتے کہا تھا۔
تم مجھے یہ بتاؤ تم نے کیا
کیا ہے؟ عائشہ بیگم نے اس کو سخت نظروں سے دیکھا تھا۔
وہ میں نے اپنی جھوٹی موت کی
خبر دی تھی۔ زوریز چور نظروں سے ماں کو دیکھتے ہوئے بولا تھا ۔
کیا بکواس کر رہے ہو ؟ تم
اپنے ہوش میں ہو؟ عائشہ بیگم نے اس کو غصے سے دیکھا تھا۔
میں سچ بول رہا ہوں۔ اور مکمل
ہوش میں ہوں۔ زوریز نے شرمندگی سے کہا تھا ۔
تم اظہارِ محبت سنے کے لیے
جھوٹی موت کی خبر بھیج رہے ہو ۔ اتنا گھٹیا مشورہ تمہیں دیا کس نے؟ عائشہ بیگم نے
اس کو غصے سے گھورا تھا ان کا بس نہیں چل رہا تھا جوتی اتار کر اس کو مارنا شروع
کر دیں ۔
پتا نہیں کیا ہو گیا تھا اس
وقت۔ زوریز نے اپنا سر پکڑ لیا تھا۔ وہ ابھی تک اس وقت کو کوس رہا تھا جب اس نے
جزا کو جھوٹی خبر پہنچائی تھی اپنی موت کی۔
وہ بلکل ٹھیک ناراض ہے تم سے
انفیکٹ اس کو تمہیں شوٹ کر دینا چاہیے ۔۔ جناب کو اظہارِ محبت سنا ہے موت کی جھوٹی
خبر بھیج کر۔ عائشہ بیگم نے اس کو غصے سے دیکھتے ایک ایک لفظ چبا چبا کر بولا تھا۔
موم ۔۔۔ زوریز عائشہ بیگم کی
بات پر ان کو حیرت سے دیکھ رہا تھا۔
دفع ہو جاؤ یہاں سے اپنی شکل
بھی نہ دیکھانا مجھے۔ اور جب تک تمہیں جزا معاف نہ کرے تب تک مجھ سے معافی کی امید
بھی نہ رکھنا۔ عائشہ بیگم یہ کہہ کر کمرے سے باہر نکل گئی تھی۔ جبکہ وہ بس خاموشی
سے ادھر بیٹھا رہا تھا۔۔
وہ سلجھا ہوا مرد آج رشتوں
میں الجھ گیا تھا۔اس نے سوچا بھی نہ تھا کہ اس کا یہ ایک عمل اس کے گلے کا پھندہ بن جائے گا ۔ انسان جتنا بھی شاطر اور چالاک
کیوں نہ ہو جائے کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی غلط قدم اٹھا ہی لیتا ہے کوئی بھی
انسان مکمل پرفیکٹ نہیں ہو سکتا ۔ غلطیاں ،
کوتاہیاں انسان کی فطرت ہے اور اس فطرت کے بغیر انسان مکمل نہیں ہو سکتا جب
تک وہ غلطی نہیں کرتا تب تک وہ سیکھ نہیں سکتا غلطی سے ملی سیکھ انسان کو بہتر
طریقے سے بدلتی ہے۔ اور زوریز کی زندگی کا سب سے بڑا غلط عمل اس کی جھوٹی موت کی
خبر تھی۔
کدھر جاؤں میں ۔ کس طرح تمہیں
مناؤں جزا ۔ ایسا کیا کروں کے تم مان جاؤ ۔ مانتا ہوں غلطی کر بیٹھا ہوں تمہارے ساتھ ساتھ ماں کو بھی ناراض کر بیٹھا
ہوں۔ زوریز نے اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرا تھا۔
•••••••••••••••
یا اللہ تیرا شکر ہے۔ آیان
ابھی باہر ان سب کے پاس آ کر بیٹھا تھا۔ اور آسمان کی طرف دیکھتا بولا تھا۔
انکل انٹی مان گئے؟ درواب
رحیان اور حدید ایک ساتھ بولے تھے۔
بڑی مشکل سے مانے ہے مگر مان
گئے ہیں موم ڈیڈ ۔ آیان نے سرد آہ بھری تھی۔
ویسے تم لوگ بتاؤ کیا سین ہے؟
آیان نے ان سب کو دیکھا تھا۔
میری طرف سب ٹھیک ہے ۔ دوراب
فورآ بولا تھا۔
ال گڈ ۔۔ رحیان نے کرسی کی پیشت
سے ٹیک لگائی تھی۔
موم کو تو پہلے ہی بتا دیا
تھا۔ مگر عائشہ انٹی کچھ ناراض ہیں ابھی بھی حدید نے سرد آہ بھری تھی۔
جب ان کو زوریز باہر لاؤن میں
آتا نظر آیا تھا ۔ اور آ کر خاموشی سے بیٹھ گیا تھا۔۔
کیا ہوا ؟ حدید نے اس کے
کندھے پر ہاتھ رکھا تھا۔
بہت برا پھس گیا ہوں یار۔
زوریز نے اپنے ہونٹ سختی سے بھینچ لیے تھے۔
ہوا کیا ہے انٹی نہیں مانی ؟
دوراب اپنی جگہ سے کچھ آگے کو ہوا تھا۔
جب تک جزا معاف نہیں کرے گئی
تب تک موم بھی نہیں معاف کریں گئی۔ میری زندگی میں دو ہی عورتیں مجھے جان سے عزیز
ہیں اور دونوں ہی مجھ سے خفا ہیں ۔ زوریز کے چہرے پر تلخ مسکراہٹ نے جگہ لی تھی۔
تو نے انٹی کو کیوں بتایا اس
بارے میں ۔۔ آیان اس کو دیکھتے بولا تھا ۔
میں ان سے اب مزید کچھ نہیں
چھپا سکتا یار۔ اور اپنی زندگی کی سب سے
بڑی غلطی تو ہر گز نہیں۔ یہ بات ان کو بعد میں پتا چلی تو واقع ہی مار دیں گئی
مجھے۔ زوریز نے آیان کو دیکھا تھا۔
تو کہہ تو جزا سے میں بات
کروں؟ دوراب نے زوریز کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا تھا۔ جب زوریز نے اس کو دیکھا تھا
اور پھر رحیان ، آیان اور حدید کو ۔۔ ایک سکون اس کے دل میں اترا تھا ۔ وہ دوستوں
کے معاملے میں واقع ہی خوش نصیب تھا۔ وہ چاروں اس وقت اس کے لیے اس سے زیادہ
پریشان تھے اور ان کی آنکھیں اس بات کی گواہ تھی۔
غلطی میری ہے دوراب دل آزاری
میں نے کی ہے تکلیف میں نے دی ہے۔ تو معافی بھی میں ہی مانگو گا۔ وہ روٹھی ہے اس
کو میں ہی مناؤ گا۔ زوریز مضبوط لہجے میں
بولا تھا۔ جب اس کا فون بجا تھا۔
نمبر دیکھ کر اس نے فوراً کال
اٹھائی تھی۔ اور آگے کے الفاظ سن کر وہ اپنی جگہ سے کھڑا ہوا تھا۔ کال کاٹنے کے
بعد اس نے ایک نمبر ڈائل کیا تھا۔ کال دوسری
بل پر اٹھا لی گئی تھی۔
تمہارا دوسرا نمبر بند کیوں
ہے؟ زوریز غصے سے بولا تھا۔
پتا نہیں یار دیکھتا ہوں۔
مقابل کی اوازاس کی سماعت سے ٹکرائی تھی۔
اس نمبر کو گولی مارو فلحال
میری بھیجی گئی لوکیشن پر پہنچو ۔ زوریز سخت
لہجے میں بولا تھا۔
مگر ہوا کیا ہے۔ وہ آدمی
پریشان ہوا تھا۔
ساری ڈیٹیل ساتھ بھیج رہا
ہوں۔ یہ کہہ کر زوریز ںے کال کاٹی تھی اور ایک میسیج سینڈ کرنے کے بعد فورآ موڑا
تھا۔۔
کیا ہوا ہے؟ حدید اپنی جگہ سے
اٹھا تھا۔
ساتھ چلو بتاتا ہوں۔ زوریز یہ
کہہ کر گھر کی بیک سائیڈ پر بنے بیسمنٹ کی طرف بڑھا تھا۔۔
Urdunovelnests••••••••••••••••
اور تم یہ بتاؤ تم نے ہمیں
میس نہیں کیا۔ نور جزا کی بازو میں بازو ڈال کر بیٹھی تھی جیسے وہ ابھی بھاگ جائے
گئی ۔۔
بہت میس کیا تھا میں نے ۔ مگر
میں ملنے نہیں آ سکتی تھی۔ جزا نے اپنا سر اس کے کندھے پر ٹیکایا تھا۔۔
زوریز بھائی کے ساتھ خوش ہو تم؟
آمنہ نے اس سے اب کی بار ایک اور سوال کیا تھا جبکہ پاس بیٹھی وافیہ نے اس کو
دیکھا تھا۔
ہاں خوش ہوں ۔۔ جزا نے ایک
لمبی سانس لی تھی۔
کچھ ہوا ہے ؟ آمنہ اور نور
ایک ساتھ بولی تھی۔۔
میں اس سے ناراض ہوں کچھ وقت
کے لیے ۔ جزا نے سر جھکایا تھا۔
اور تم ناراض ہونا نہیں چاہتی
تھی۔ نور نے اس کو دیکھا تھا ۔
ہاں ۔۔ جزا نے اس کی طرف
دیکھا تھا ۔
اور جو کچھ ہوا تھا اس نے
مجبور کیا ہے اس کو ناراض ہونے پر۔ اب وافیہ بولی تھی۔
ویسے ایک بات ہے بیوی کو کیسے
ناراض کرنا ہے شعہروںے اس بات میں پی ایچ
ڈی کر رکھی ہے۔ حور فوراً بولی تھی۔
بلکل میں اس بات پر سہمت ہوں
۔جزا فوراً بولی تھی۔
ویسے مجھے بھی دوراب پر غصہ
ہے وہ کم سے کم مجھے تو بتا سکتے تھے کہ وہ آرمی آفیسر ہیں ۔ نور منہ بنا کر بولی
تھی۔
واقع ہی بھائی کو تمہیں تو
بتا دینا چاہیے تھا۔ میں ساتھ ہوں تمہارے ۔ آمنہ نے نور کے کندھے پر ہاتھ رکھا
تھا۔
اور اب وہ سب سر کے ساتھ سر جوڑے
بیٹھی باتیں کر رہی تھی ۔ جس کا اختتام یہ
ہوا تھا کہ حور اب ماہر پر غصہ تھی نور دوراب پر وافیہ حدید پر اور جزا تو خیر پہلے
ہی زوریز سے ناراض تھی۔ اور آمنہ جلتی پر تیل کا کام اچھے سے کر رہی تھی ۔
جب گل بھی ادھر آئی تھی ۔۔
جزا نے اس کو دیکھ کر اپنی باہیں اس کے لیے کھولی تھی گل بھاگ کر اس کے گلے آ کر
لگی تھی۔
میں ڈر گئی تھی ایک لمحے کے
لیے۔۔ گل آنسوں سے بھاری ہوتی آواز میں بولی تھی۔۔
گل رونا مت بہت بری لگتی ہو۔
جزا نے اس کو چھیڑا تھا۔
میرا نام منساء ہے۔ گل نے جزا
کو دیکھتے کہا تھا۔
مگر تمہیں سب گل۔ جزا نے حیرت
سے اس کو دیکھا تھا۔
گل مجھے زوریز بھائی بلاتے
ہیں ۔ وہ ہنستے ہوئے بولی تھی۔
تمہارا اس کے علاوہ بھی کوئی
نام ہے تو بتا دو۔ جزا نے اس کے کان کھینچے تھے۔
نہیں میرا نام منساء ہے بس۔
گل تو نک نیم ہے۔ اس نے دانتوں کا اشتہار دیا تھا۔
اب ہم تمہیں گل بلائیں یا
منساء؟ اب کی بار آمنہ بولی تھی۔ اور اس
نے گل کی گال کھینچی تھی اس کو وہ بہت پسند آئی تھی ۔
منساء ۔ وہ چہک کر بولی تھی۔
جب ساری عورتیں بھی ادھر آ گئی تھی۔
کیا چل رہا ہے بھائی ادھر ۔
عائشہ بیگم جزا کے پاس بیٹھتے اس کو اپنے سینے سے لگاتے بولی تھی۔
کچھ نہیں باتیں کر رہے تھے ہم
سب۔ جزا ان کے سینے سے لگی بولی تھی۔
ویسے عائشہ انٹی کیا جزا ادھر
ہی رہے گئی اب؟ نور کچھ سوچتے بولی تھی۔
جی بلکل میری بیٹی اب میرے
پاس رہے گئی۔ عائشہ بیگم مسکرائی تھی۔
نہیں عائشہ جزا میرے ساتھ
جائے گئی۔ امل بیگم فوراً بولی تھی۔
مگر کیوں ۔ عائشہ بیگم نے امل
بیگم کو دیکھا تھا۔
دیکھو عائشہ بےشک زوریز نے
نکاح کیا ہے مگر میں اپنی بیٹی کی رخصتی ابھی نہیں دے رہی اپنے بیٹے کو بولو بارات
کے ساتھ آئے اور سارے رسم ورواج کے ساتھ میری بیٹی کو رخصت کروا کر لے کر جائے۔
امل بیگم نے ایک نخرے سے کہا تھا۔ جبکہ ان کی اس بات ہر سب ہی ہسنے لگی تھی۔
ویسے دیکھا جائے تو رخصتی
ابھی نہیں ہوئی ۔ عزیزہ بیگم نے بھی لکما دیا تھا۔
چلو پھر دوراب سے پہلے زوریز
اور جزا کی شادی کرواتے ہیں ۔ روحا بیگم بھی فوراً بولی تھی۔
ابھی حدید اور وافیہ کی بھی شادی
ہونی ہے۔ مزمل بیگم نے بھی اپنی بات رکھی تھی۔
صبر کر جاؤ مجھے میرے آیان کے
لیے لڑکی تو ڈھونڈ لینے دو۔ ابہیا بیگم نے سر پکڑا تھا۔
جبکہ جزا، نور، آمنہ ، وافیہ
، حور اور منساء ان سب کو پریشانی سے دیکھ رہی تھی۔ اور فوراً اپنی جگہ سے اٹھی
تھی۔
تم سب کو کیا ہوا اب۔ عزیزہ
بیگم نے ان سب کو کھڑا دیکھ کر بولا تھا۔
سوری لیڈیز یہ والا ٹوپیک
ہمارے لیے اؤٹ اف سلیبس ہے اور جہاں ٹوپیک اوٹ اوف سلیبس ہو ہم ادھر نہیں بیٹھتے۔۔
آمنہ ان سب کو دیکھتے بولی تھی۔ جبکہ اس کی بات پر سب ہنسے لگی تھی مگر ابہیا بیگم
اس کو غور سے دیکھ رہی تھی۔
یہ کہہ کر اب وہ لوگ تو ادھر
سے نکل گئی تھی مگر پیچھے وہ سب عورتیں ہھر سے شادی کا موضوع لے کر بیٹھ گئی تھی۔
ایک عرصے بعد اج پھر سے وہ سب اکھٹے ہوئے تھے۔
•••••••••••••••
کون ہو تم لوگ چھوڑو مجھے۔ اس
کو ہوش میں آئے کافی وقت ہو گیا تھا۔
وہ ایک انجان جگہ پر انجان
کمرے میں تھی ۔ اور جب جب اس نے کمرے سے باہر نکلنے کی کوشش کہ تھی تب تب کمرے میں
موجود دو سانڈ جیسی جسامت کے آدمیوں نے اس کو واپس بیڈ پر پھینکا تھا۔
وہ پھر سے اپنی جگہ سے اٹھی
تھی جب اس کی سماعت سے بھاری بوٹوں کی آواز ٹکرائی تھی۔۔
لینا لغاری کتنا اونچی چیخ
رہی ہو تم باہر تک آواز آ رہی ہے۔ وہ آدمی کمرے میں داخل ہوتا بولا تھا۔
کون ہو تم؟ مجھے کیسے جانتے
ہو۔ لینا غصے سے اس کو دیکھ رہی تھی ۔
تربیت واقع ہی تمہارے باپ نے
اچھی نہیں کی ۔ اس نے تو تمہیں اتنا بھی نہیں سیکھایا کہ اپنے سے بڑوں سے عزت سے
بات کرتے ہیں ۔ مگر فکر مت کرو ہم سیکھائے گا نہ۔ وقار صاحب نے اس کے سرخ رخسار پر انگلی پھیری
تھی۔۔
اپنے ہاتھ مجھے سے دور رکھو بوڈھے ۔۔ لینا غصے سے بولی
تھی۔
زبان کو لگام دے ورنہ حلق سے
زبان کھینچ لوں گا۔ اسفند نے آگے بڑھ کر لینا کا منہ سختی سے دبوچا تھا۔۔
اسفند چھوڑو اس کو۔ وقار صاحب
نے اسفند کے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا۔ جبکہ اسفند نے ایک جھٹکے سے اس کا منہ چھوڑا
تھا۔
مجھے کیوں لائے ہو یہاں تم
لوگ۔ لینا ان دونوں کو گھورتے دھاری تھی۔
تمہارے باپ نے میرے کام کو
مکمل نہ کیا تھا مجھ سے پیسے لے کر لڑکیاں نہ بھیجی اس نے میری بےعزتی کی۔ اب رقم
تو وہ دے چکا ہے مگر لڑکیوں والا کام تو رہتا تھا نہ۔ وقار ہستے ہوئے بولا تھا
جبکہ لینا اس کو خوف سے دیکھ رہی تھی۔
تو ان لڑکیوں کے بدلے ہم نے
اس کی لڑکی لے لی ۔۔ میں وقار چوہدری ہوں سود سمیت حساب برابر کرتا ہوں۔۔ وقار
لینا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولا تھا۔
میرا باپ تم لوگوں کو مار
ڈالے گا۔ لینا خود کو نارمل کرتے غصے سے بولی تھی۔
اور تمہارے باپ کو بتائے گا
کون کے تم میرے بیٹے کے پاس ہو اب ۔ وقار صاحب ہنستے ہوئے اس کو دیکھ رہے تھے۔
کیا مطلب ۔ لینا کا وجود مکمل
کان بن گیا تھا۔
تمہارا باپ لڑکیوں کے سودے
کرتا ہے مردوں کے دل بھلانے کے لیے آج اس کی بیٹی میرے بیٹے کا دل بھلانے کا سامان
بنے گئی۔ وقار صاحب یہ کہہ کر کمرے سے باہر نکل گئے تھے اور ساتھ ہی وہ دو آدمی
بھی ںاہر نکلے تھے۔
جبکہ وقار کے الفاظ نے لینا
کی روح تک جھنجھوڑ دی تھی۔ اس کا وجود کانپ گیا تھا۔
تمہارا باپ لڑکیوں کے سودے
کرتا ہے مردوں کے دل بھلانے کے لیے آج اس کی بیٹی میرے بیٹے کا دل بھلانے کا سامان
بنے گئی۔ وہ الفاظ اس کے کانوں میں پھر سے گونجے تھے۔ آنکھیں اس کی حیرت سے کھولی
تھی ۔
جب کیسی کا ہاتھ اس کو اپنے وجود
پر محسوس ہوا تھا۔ اج پہلی بار اس کو کیسی مرد کے ہاتھ لگانے سے چوبھن ہوئی تھی وہ
فوراً پیچھے کو ہٹی تھی۔۔
میرے پاس مت آنا ۔ لینا کو
پہلی بار بند کمرے میں ایک مرد کے ساتھ گھوٹن ہوئی تھی ۔
کم اون لینا لڑکوں کو ڈیٹ
کرنا تمہارے لیے تو نارمل ہے سمجھو تم مجھے ڈیٹ کر رہی ہو۔ اسفند اس کو خباثت سے
دیکھتا اس کے اور قریب ہوا تھا۔
میں کہہ رہی ہوں میرے پاس مت
آنا ۔ لینا نے کی آنکھوں سے آنسوں نکلے تھے۔
تم تو اپنے بوئے فرینڈز کے
ساتھ نائیٹ ہینگ اوٹ کرتی ہو تو ایک نائیٹ ہینگ اوٹ میرے ساتھ بھی کر لو نہ۔ اسفند
نے اس کے بازو کو پکڑ کر اس کو اپنے قریب کیا تھا۔
میرے سے دور رہو سمجھ آئی ۔
لینا نے اسفند کے منہ پر تھپڑ مارا تھا۔
تھپڑ مار کر اچھا نہیں کیا تم
نے۔ اسفند نے اس کے ہاتھ کو جکڑا تھا۔
لینا نے اس کو خود سے دور
دھکیلا تھا ۔ اور اپنی جگہ سے اٹھ کر دروازے کی طرف بھاگنے لگی تھی جب اسفند نے اس
کے ٹوپ کو ہیچھے سے پکڑا تھا۔ اور زیادہ کھیچنے کی وجہ سے اس کا ٹوپ پیچھے سے کچھ پٹھا
تھا۔
لینا فوراً سے روکی تھی اور اور
موڑ کر اسفند کو دیکھا تھا۔۔ اسفند قدم
قدم چلتا اس کے قریب ا رہا تھا۔۔ اور ویسے ہی وہ پیچھے کی طرف قدم اٹھا رہی تھی۔۔
ادھر ہی روک جاؤ ۔۔ لینا اپنے
لہجے کو مضبوط رکھنے کی کوشش کرتے ہوئے اس کو دیکھ رہے تھی۔ مگر وہ ہنستے ہوئے اس
کے پاس ا رہا رہا تھا۔
ادھر۔۔ ہی روک ۔۔۔ جاو۔۔ لینا
کی اواز لڑکھڑائی تھی۔۔
تم بہت اچھی لگ رہی ہو ۔۔
اسفند اس کے قریب کھڑا ہوتے ہوئے اس کی آنکھوں میں دیکھتے بولا تھا۔۔
مجھ سے دور رہو۔۔ لینا نے
اپنا چہرا ایک طرف پھیڑا تھا۔۔
ہمت ہے تو خود سے دور کر کے
دیکھاؤ مجھے۔۔ اسفند نے اس کے گلے کو اپنے پکڑ میں لیا تھا اور زور سے دبایا تھا۔
اور اگلے ہی لمحے وہ اس کو
پاس پڑے صوفے پر پھینک چکا تھا۔۔
•••••••••••••••
رات کی سیاہی میں سیاہ لباس
میں ملبوس اس سیاہی کا حصہ بنے وجود وقار چوہدری کے فارم ہاؤس میں داخل ہوئے تھے۔۔
سب سے آگے کھڑے شخص نے سامنے کھڑے دو گارڈز پر نشانہ لگایا تھا۔
آیان، رحیان ، بیک سائیڈ کی
طرف جاؤ ۔۔ زوریز نے گردن موڑ کر ان دونوں کو آگے بھیجا تھا۔۔
اب دوراب، حدید اور زوریز آگے
کی طرف بڑھے تھے۔ وہ ایک ایک قدم پھونک پھونک کر رکھ رہے تھے۔۔ جب ایک شخص ان کو اپنی
طرف آتا دیکھائی دیا تھا ان کو۔
بہت جلدی آ گئے ہو۔ زوریز اس
کو دیکھ کر دانت پیس کر بولا تھا۔
اس سائیڈ کے گارڈز مار کر آیا
ہوں۔ سامنے کھڑے سلطان نے فوراً کہا تھا۔
زوریز تم دونوں اندر جاؤ ۔۔
میں اور دوراب باہر دیکھ لیں گے۔ حدید نے ان دونوں کو دیکھا تھا۔۔
اور وہ دونوں ایک لمحے کی دیر
کیے بغیر اندر کی طرف بڑھے تھے۔۔
مین ڈور کروس کر کے وہ راہ
داری سے گزرے تھے جب سامنے کچھ گارڈ کھڑے ملے تھے۔۔ اور زوریز نے ساتھ کھڑے سلطان
کو دیکھا تھا اور سلطان نے زوریز کو اور اگلے چند لمحوں میں وہ چاروں گارڈز گولیوں
سے چھلنی زمین پر گرے ہوئے تھے ۔
سلطان لینا کو ڈھنونڈ ۔ زوریز
نے اس کو اگے بڑھنے کا بولا تھا۔ جب دوسری طرف سے کچھ اور آدمی ان کو اپنی طرف آتے
نظر آئے تھے۔
مگر زوریز ۔۔ سلطان نے کچھ
بولنا چاہا تھا۔
جاو۔۔ زوریز سخت لہجے میں بولا
تھا۔ جبکہ سلطان دوسری طرف بڑھا تھا۔۔
وہ سب آدمی اگے کی طرف بڑھے
تھے۔ زوریز نے ایک کی کنپٹی پر ہاتھ میں پکڑی گن ماری تھی۔ اور دوسری کے ماتھے پر گولی
کا نشانہ داغہ تھا۔ جب ایک اور آدمی نے اس کے پیٹ میں مکا مارا تھا۔
زوریز نے اس کو ایک نظر دیکھا
تھا۔ اس کہ نیلی آنکھوں میں سمندر کا طوفان دور رہا تھا۔ اس نے آگے بڑھ کر اپنے
دونوں ہاتھوں کو مکمل کھول کر پوری قوت سے اس کے منہ پر ایک ساتھ مارا تھا کہ اس
کا منہ بیچ میں دب سا گیا تھا اس آدمی کے جبڑے ٹوٹ گئے تھے اور اگلے ہی لمحے زوریز
نے اس کی گردن موڑ ڈالی تھی۔ جبکہ پیچھے کھڑے تینوں آدمی اس شخص کی حالت دیکھ کر
روکے تھے۔
زوریز نے ایک قدم اگے بڑھایا
تھا مگر وہ آدمی ڈر کر واپس بھاگے تھے۔ زوریز نے باری باری ان تینوں کا نشانہ لیا
تھا۔
ایک کے سر کے بیچوں بیچ گولی
لگی تھی۔ اور ایک کی کمر کے بائیں طرف لگی تھی جو کہ اگے دل کے مقام سے باہر نکلی
تھی ۔
اور ایک گولی تیسرے کی ٹانگ
پر لگی تھی۔۔ زوریز فوراً اس کے پاس گیا تھا۔۔
مجھے معاف کر دو۔ زوریز کی
نیلی آنکھوں میں قہر کو دیکھتے وہ آدمی ہاتھ جوڑ کر بولا تھا۔
وقار کدھر ہے ۔ اس نے اس
بالوں سے دبوچا تھا۔۔
اپنے کمرے میں وہ آدمی ۔ رحم
کی بھیک مانگتے زوریز کو دیکھتے بولا تھا۔۔
اس کا کمرا کدھر ہے زوریز نے
اس کے سینے پر اپنا گھوٹنا رکھا تھا۔۔
اس طرف سے چھوتھا کمرا ۔۔ اب
مجھے معاف کر دو جانے دو مجھے۔ وہ آدمی ڈرتے بولا تھا ۔۔
جاو معاف کیا۔ یہ کہہ کر
زوریز نے اس کے سر پر نشانہ بنایا تھا
اور اگلے ہی
لمحے بندوق سے نکلی گولی اس کے سر کے آر پار تھی۔۔
Urdunovelnests•••••••••••••
وہ اگے بڑھا تھا جب پیچھے سے
کیسی نے اس کو دبوچا تھا۔ سلطان نے پوری قوت سے اس کے پیٹ میں کہنی مارا تھا۔ اور اس کا ایک بازو مضبوط سے
پکڑا کر اپنے آپ کو اس کی پکڑ سےا آزاد کیا تھا۔ اور دوسرے ہاتھ میں پکڑی گن گن اس
کے منہ میں ڈالی تھی اور ٹریگر دبا دیا تھا۔
وہ اگے بڑھا تھا جب کچھ آدمی
اس کے سامنے آ کر کھڑے ہوئے تھے۔ سلطان کی اوشن گرین انکھوں پر قہر اترا تھا ۔ وہ اپنی گن کو ہاتھ میں مضبوطی سے تھامے اگے بڑھا
تھا۔
جبکہ دوسری طرف زوریز اس وقت
وقار کے کمرے کے سامنے پہنچا تھا۔۔ اس نے ٹانگ مار کر کمرے کا دروازہ توڑا تھا۔
سامنے ہی وقار چوہدری اپنے نائیٹ گاون میں بیٹھا ایل سی ڈی پر فول والیم میں مووی
دیکھ رہا تھا۔۔ جیسے ہی اس کی نظر ایل سی ڈی سے ہٹی اور سامنے کھڑے شخص پر گئی وہ
اپنی جگہ سے اٹھا تھا۔۔
کون ہو تم۔ وقار چوہدری غصے
سے ڈھارا تھا۔
گارڈز ۔۔ اس نے اپنے گارڈز کو
بلند آواز میں بلایا تھا۔۔
لینا کدھر ہے وقار۔زوریز کی
آواز اس سے بھی اونچی تھی۔
کون ہو تم۔ وقار نے پھر سے
اپنا سوال دہرایا تھا ۔
لینا کدھر ہے ۔۔ زوریز نے
اپنی گن نکال کر اس کے ماتھے پر رکھی تھی۔
کون ہو تم ۔۔ وقار سخت لہجے
میں بولا تھا۔۔
تیرا باپ ۔۔ زوریز نے گن اس
کے سر میں ماری تھی اور وقار صوفے پر گرا تھا۔۔ اس کے سر کی ایک طرف سے کچھ خون
نکلا تھا۔۔
اب بتا لینا کدھر ہے۔ زوریز
سخت لہجے میں بولا تھا۔۔
جب وقار نے صوفے سے کچھ آگے
ہو کر اپنی بندوق اٹھانا چاہی تھی زوریز نے فوراً بندوق کا۔ روخ اس کے ہاتھ پر کیا
تھا ۔ اور گولی چلا دی تھی ۔
اہہہہہہ ۔۔ وقار نے فورآ اپنے
دوسرے ہاتھ سے اپنے گولی لگے ہاتھ کو تھاما تھا۔۔
لینا کدھر ہے؟ زوریز نے اس کے
بالوں کو اپنی موٹھی میں دبوچا تھا۔۔
میں ۔ نہیں ۔۔ بتاؤں ۔۔ گا۔۔
وقار ہاتھ کی تکلیف کو برداشت کرتے بولا تھا۔۔۔
اس کی بات سنتے ہی زوریز نے
اس کا سر سامنے پڑی گلاس ٹیبل پر مارا تھا۔۔ اور پھر اس کی ٹانگ کو پکڑ کر اس کو
زور سے کھینچ کر دیوار پر مارا تھا۔۔
اب بتا لینا کہاں ہے ۔ زوریز
اس کے سامنے پاؤں کے بل بیٹھا پوچھ رہا تھا جبکہ وقار کا منہ لہوں لہان تھا۔۔
میں نہیں ۔۔ وقار نے بولنا
چاہا تھا ۔۔ جب زوریز نے اس کے بالوں کو پھر سے پکڑا تھا اور اب کی بار اس کا سر
پوری قوت سے زمین پر مارا تھا۔۔
اہہہہہہ۔۔۔ وقار دود سے بلبلا
اٹھا تھا۔۔
لینا کہاں ہے۔۔ زوریز نے پھر
سے سوال دہرایا تھا۔۔
مجھے ۔۔۔۔ وقار نے اپنے ہاتھ
جوڑے تھے ۔
بکواس کر لینا کہاں ہے ؟
زوریز نے اس کے منہ میں اپنی گن ڈالی تھی۔ جبکہ وقار خوف سے اس کو دیکھ رہا تھا
اور اس نے ہاں میں سر ہلایا تھا۔۔
میرے ۔۔۔ بیٹے کے۔۔۔
کم۔۔کمرے۔۔۔ وقار نے ابھی اتنا ہی بولا تھا۔۔ کہ زوریز نے گن کی نوک اس کے منہ میں
ڈالی تھی۔
شکریہ ۔۔یہ کہہ کر زوریز نے
ٹریگر دبا دیا تھا اور کمرے سے باہر نکلا تھا۔۔
••••••••••••••
چھوڑوں مجھے۔۔۔جانے دو۔۔۔ وہ
راہداری میں سے گزر رہا تھا جب ایک کمرے سے آتی آواز نے اس کا دھیان اپنی طرف کیا
تھا۔ وہ بھاگ کر اس کمرے کی طرف بڑھا تھا ۔
سلطان اس
کمرے کے دروازے کے سامنے روکا تھا دروازہ لوک تھا۔۔ اس نے چند قدم پیچھے کی طرف
اٹھاے تھے اور پھر آگے کی طرف بڑھ کر اس نے زور سے اس دروازے کے لوک والی جگہ پر ٹانگ
ماری تھی اور دروازے کا لوک توڑا تھا۔۔
سامنے کا منظر دیکھ کر اس کی
آنکھوں میں خون اتر آیا تھا۔۔ سارا کمرا تہس نہس ہوا ہوا تھا۔۔ اسفند نے لینا کے
دونوں ہاتھ قابو کر رہے تھے اور لینا کی بازوں پر جگہ جگہ ناخون لگنے کے نشان تھے
چہرے پر تھپڑوں کے نشان تھے ایک طرف سے ہونٹ پھٹا ہوا تھا ۔ اس کی ٹوپ کی ایک
کندھے کا سٹرایپ ایک طرف سے بازو پر آیا
ہوا تھا اور اس کا ٹوپ پیچھے سے پھٹا ہوا تھا۔ اور وہ اسفند کی پکڑ میں مچھلی کی طرح
ترپ رہی تھی خود کو بچانے کی کوشش کر رہی تھی۔ چہرا اس کا آنسوں سے بھرا ہوا تھا۔۔
سلطان نے آؤ دیکھا نہ تاؤ وہ
دیوانہ وار آگے بڑھا تھا اسفند کے کندھے کو اپنی سخت گرفت میں جکڑا تھا اس کو لینا
سے دور دھکیلا تھا اور اس کے منہ پر موکوں کی بارش کر دی تھی۔۔ اسی وقت زوریز لینا
کو ڈھونڈتا ادھر ایا تھا۔ سامنے لینا کی حالت دیکھ کر اس نے نظریں جھکا لی تھی۔
اور اگلے ہی لمحے اس نے اپنی سیاہ ٹی شرٹ اتاری تھی۔
وہ ایسے ہی نظریں جھکائے اندر
کمرے میں گیا تھا اور لینا کے پاس روکا تھا اس کی کمر لینا کی طرف تھی ۔ اس نے
اپنا شرٹ والا ہاتھ اپنی کمر کے پیچھے کیا تھا لینا نے فوراً وہ شرٹ پکڑی تھی اور
بھیگی۔ آنکھوں سے اس نے اس کی کمر کو دیکھا تھا۔ اس کی مسکولر بیک کو دیکھا تھا جب
اس کی نظر تھوڑی اوپر اس کے دونوں کندھوں کے درمیان میں گئی تھی جہاں مسلز بٹر
فلائے بنی ہوئی تھی۔۔
خود کو کور کرو لینا ۔ زوریز
شاید اس کی نظریں خود پر محسوس کر گیا تھا تبھی دانت پیس کر بولا تھا۔۔
لینا نے جلدی سے اس کی شرٹ
پہنی تھی۔۔ جب زوریز فوراً اس کے آگے سے ہٹا تھا۔۔ وہ سلطان کی طرف بڑھنے لگا
تھا۔۔ جب اسفند جو اس وقت سلطان کے قابو میں تھا اس نے صوفے کے پاس لگے ایک ریڈ بٹن
پریس کیا تھا۔ جس سے اس کے کمرے میں ایک اور دروازہ کھولا تھا۔ جس میں سے دو آدمی
باہر نکلے تھے۔۔
زوریز نے ان دونوں آدمیوں کو
دیکھا تھا۔ اور سلطان نے ایک اور زور دار مکا اسفند کے منہ پر مارا تھا۔
تو اس کو دیکھ ان کو میں
دیکھتا ہوں۔ زوریز یہ کہہ کر اگے بڑھا تھا۔۔ ان میں سے ایک آدمی نے ہاتھ کا مکا
بنا کر زوریز کی طرف بڑھایا تھا جس کو زوریز روک چکا تھا جبکہ دوسرے نے زوریز کے
پیٹ کے ایک طرف مکا مارا تھا۔۔ زوریز نے پہلے والے کہ ہاتھ کو زور سے موڑا تھا۔
اور دوسرے کہ پکڑ میں ائے بغیر اس کے منہ پر کیک ماری تھی وہ دور جا کر گرا تھا۔
تیری ہمت کیسی ہوئی اس کو
ہاتھ لگانے کی۔۔ سلطان نے اسفند کا گلا اپنے
بازوں کے درمیان پھیسا رکھا تھا۔۔ اسفند کا منہ خون سے بھڑا ہوا تھا۔ اس کو سانس
نہیں آ رہا تھا۔۔
جبکہ اچانک ایک آدمی اسفند
اور سلطان کے پاس آ کر گرا تھا۔ اس آدمی نے اٹھنے کی کوشش کرنی چاہی تھی مگر اس کے
وجود نے اس کا ساتھ نہ دیا تھا اور وہ ادھر ہی ڈھیر ہو گیا تھا۔۔
تو اپنی سائیڈ پر رہ کر مار
پیٹ کر۔ سلطان غصے سے زوریز کو بولا تھا۔
تو اپنے باپ کے دنگل میں آیا
ہوا ہے جو اپنی سائیڈ پر رہ کر مار پیٹ کروں۔ زوریز نے دوسرے بندے کی گردن موڑی
تھی ۔۔ اور سلطان کی بات کا جواب دیا تھا۔
جبکہ لینا منہ کھولے حیرت سے
ان دونوں کو دیکھ رہی تھی ۔ ایک جو شرٹ لیس کھڑا تھا کیونکہ اس کی شرٹ لینا نے پہن
رکھی تھی اور ایک جس کی قمیض مار پیٹ میں پھٹ کر اس کے وجود سے جدا ہوئی تھی۔۔
مجھ۔۔۔ مجھے۔۔ معا۔۔معاف۔۔۔
اسفند زمین پر پھیچے کی طرف رنگتا بولا تھا۔۔ سلطان اس کی حالت اچھی خاصی خراب کر
چکا تھا۔۔۔
معاف۔۔ جس کو تو نے برباد
کرنا چاہا ہے نہ وہ میرے دل پر راج کرتی ہے ۔۔ سلطان اس کے سامنے بیٹھا بولا تھا۔
اس نے اپنی گن لوڈ کی تھی اور ایک نظر پیچھے
بیٹھی لینا پر ڈالی تھی۔ جس کی آنکھیں روئی ہوئی تھی۔۔
سلطان اس طرف دیکھتا رہا تھا
اور گن ساری اسفند کے سینے میں کھالی کر چکا تھا۔ اور خاموشی سے اپنی جگہ سے اٹھا
تھا۔۔
تم ٹھیک ہو۔۔ سلطان اس کے ہاس
جا کر پاؤں کے بل بیٹھا تھا۔۔ جبکہ لینا اس کی اوشن گرین آنکھوں کو دیکھ رہی تھی
اس نے ایسے ہی وحشت ناک اوشن گرین انکھیں پہلے بھی دیکھی تھی۔
جب نائٹ کلب میں لینا کچھ
لڑکوں کے درمیان ناچ رہی تھی اور کیسی لڑکے نے اس کو ٹچ کیا تھا۔ تب ایک اوشن گرین
آنکھوں والے کی آنکھیں ایسی وحشت ناک ہوئی تھی۔۔
نو۔۔ نوریز عثمان ۔۔ لیںا نے
اس کی آنکھوں کو دیکھتے کہا تھا۔۔ جب سامنے بیٹھے سلطان نے ماسک اتارا تھا۔۔ وہ
واقع ہی نوریز تھا نوریز عثمان ۔۔
مجھے نوریز عثمان بول کر گالی
نہ دو مجھے نوریز سلطان بولو ۔ نوریز نے لینا کو دیکھا تھا۔۔
تم ادھر کیسے ۔۔۔ تمہیں کیسے
پتا چلا۔ لینا کی آنکھیں نم ہوئی تھی۔
راستے میں بتا دوں گا۔ ابھی
چلو ۔۔ نوریز نے اس کی نازک کلائی اپنے ہاتھوں میں تھامی تھی۔۔
اور کچھ دیر میں وہ دونوں
لینا کو لے کر وقار چوہدری کے فارم ہاؤس سے باہر نکلے تھے۔ جب دوراب اور حدید نے نوریز
اور زوریز کو بغیر شرٹ کے دیکھا تھا۔۔ دونوں نے اپنی اپنی جیکٹ اتاری تھی۔
لڑکی کی عزت بچانے گے تھے یہ
اپنی عزت لٹانے گے تھے؟ دوراب نے ان دونوں کو دیکھا تھا۔۔
آ پہلے تیری لوٹ لیں پھر اپنی
کا سوچیں گے۔۔ نوریز نے اور زوریز نے دوراب کا ایک ایک بازو پکڑ لیا تھا۔۔
چھوڑو مجھے ۔۔ ذلیلوں ۔۔
دوراب نے خود کو ان کی پکڑ سے چھوڑایا تھا۔۔
•••••••••••••••••
وہ لوگ ابھی گھر میں داخل
ہوئے تھے جب سامنے ہی سب موجود تھے۔
کہاں سے آ رہے ہو تم سب۔۔۔
ابراہیم صاحب نے غصے سے پوچھا تھا ۔
کام گئے تھے۔ ضروری تھا۔۔
زوریز نے جواب دیا تھا۔
اس وقت۔۔ ابراہیم صاحب نے
گھڑی کی طرف دیکھا تھا۔
مجبوری نا ہوتی تو بتائے بغیر
نہ نکلتے ۔ بے شک نوریز سے پوچھ لیں وہ ساتھ تھا۔ اب کی بار حدید بولا تھا۔
نوریز بھی ساتھ تھا ۔ ابراہیم
صاحب نے حیرت سے ان کو دیکھا تھا۔ کیونکہ وہ جاںتے تھے کہ نوریز آج کل ان کے ساتھ
کم نہیں نکلتا ہے کہ کہیں کیسی کی نظر میں نہ آئیں یہ سب۔
جی ۔ معاملا تھوڑا سیریس تھا۔
اب کی بار دوراب نے جواب دیا تھا۔
تم تینوں ذرہ ادھر آؤ ۔
ابراہیم صاحب اپنی جگہ سے اٹھے تھے اور ساتھ ہی دوراب ، حدید اور زوریز کو بلایا
تھا۔۔
اور اس وقت ہی ایک طرف کھڑی
جزا کی نظر زوریز کی کچھ کھولی زیپ پر گئی تھی۔۔ اور اس کی آنکھیں کھولی کی کھولی
رہ گئی تھی۔ زوریز نے صرف جیکٹ پہن رکھی تھی اس کے نیچھے اس نے شرٹ نہیں ہہنی تھی۔
زوریز گزراتا ہوا جزا کی
نظروں اور اس کے فیس ایکسپریشن کو اچھے سے بھانپ گیا تھا اس کے چہرے پر ہلکی سی
مسکراہٹ آئی تھی۔
سب خیریت ہے کس لیے گئے تھے
تم لوگ ۔۔ ابراہیم صاحب نے ان تینوں کو دیکھا تھا۔
وقار چوہدری نے لینا کو کڈنیپ
کروا لیا تھا ۔ زوریز نے مختصر جواب دیا تھا۔
بچی ٹھیک ہے؟ تم لوگ وقت سے
پہنچ گئے تھے؟ ابراہیم صاحب فکر مند ہوئے تھے۔
سب ٹھیک ہے ۔ وقار اور اس کا
بیٹا مر گیا ہے ان کی لاش فارم ہاؤس پر پڑی ہے۔ زوریز نے مزید تفصیل دی تھی۔۔
تم سب ٹھیک ہو۔ ابراہیم صاحب
نے ان تینوں کو دیکھا تھا۔
ہمم زوریز بس اتنا ہی بولا
تھا اور اندر جانے لگا تھا۔۔ ابراہیم صاحب نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا۔۔ جبکہ
آنکھ کے اشارے سے حدید اور دوراب کو جانے
کا کہا تھا۔۔
ناراض ہو۔ ابراہیم صاحب نے اس
کو دیکھا تھا۔ جو ان کی طرف نہیں دیکھ رہا تھا۔
نہیں ۔جواب مختصر تھا۔
زوریز ۔۔ ابراہیم صاحب نے اس
کا روخ اپنی طرف کیا تھا۔
آپ کو ایسا نہیں کرنا چاہیے
تھا ڈیڈ۔ میں اگے بہت سے مسلوں میں الجھا ہوا تھا ۔ آپ نے مجھے مزید الجھا دیا ڈیڈ
۔ایک گھر میرے لیے سکون تھا۔ آپ نے وہ بھی نہ چھوڑا۔ زوریز کا لہجہ دھیما تھا آواز
مدہم تھی۔ مگر آنکھیں ، اس کی نیلی آنکھیں شکوہ کر رہی تھی ۔
زوریز ۔ ابراہیم صاحب نے اس
کے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا اس کی آنکھوں کے شکوہ کو وہ محسوس کر گئے تھے۔
جزا آگے ہی مجھے سے ناراض ہے
ڈیڈ وہ مجھ سے بات بھی نہیں کرنا چاہتی ۔ اور اب موم بھی مجھ سے بات نہیں کرنا چاہتی
۔اور مجھے پتا ہے آپ جانتے ہیں وجہ کیونکہ موم نے آپ کو بتا دیا ہو گا۔۔ زوریز نے
ابراہیم صاحب کو دیکھا تھا۔
وہ یہ کہہ کر آگے بڑھنے لگا
تھا جب ابراہیم صاحب کے الفاظ نے اس کے قدموں کو روکا تھا۔
وہ شاہد کی بیٹی ہے زوریز ۔ ابراہیم
صاحب نے اس کو دیکھا تھا۔
بھولو مت وہ شاہد الف کی بیٹی
ہے۔ جب تم سے شاہد ناراض ہوتا تھا تو تم کیسے مانتے تھے؟ ابراہیم صاحب نے اس کی
نیلی آنکھوں کو غور سے دیکھا تھا۔
بات کر کے ۔ مگر وہ بات سنا
نہیں چاہتی۔ زوریز کے چہرے پر زخمی مسکراہٹ نے جگہ لی تھی ۔
سنتا تو شاہد بھی نہیں تھا تم
مجبور کرتے تھے اس کو اپنی بات سنے پر۔ ابراہیم صاحب نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا
تھا۔ زوریز نے ان کو دیکھا تھا۔۔
وہ شاہد کی بیٹی ہے زوریز ۔
بھولو مت ۔ وہ اپنے باپ کا فی میل ورژن ہے۔ اس کا غصہ اس کا لہجہ اس کی باتیں اس کی
ناراضگی ۔ وہ بلکل اپنے باپ جیسی ہے۔ وہ نہیں سنے گئی ۔ تمہیں اس کو مجبور کرنا
پڑے گا ۔ شاہد نے تمہارے نخرے اٹھائیں ہیں اب تمہاری باری ہے اس کی بیٹی کے نخرے
اٹھاو۔ ابراہیم صاحب نے اس کے کندھے پر تھپکی دی تھی اور آگے بڑھ گئے تھے۔
ابھی وہ کچھ آگے بڑھے ہی تھے
جب جزا ان کو راستے میں ملی تھی۔
کدھر جا رہی ہے میری الپائن ۔
ابراہیم صاحب نے اس کو روکا تھا۔
آپ کے پاس آ رہی تھی ۔ جزا نے
ان کو دیکھا تھا۔
کیا بات ہے ؟ ابراہیم صاحب نے
اس کو غور سے دیکھا تھا وہ اس کے چہرے کے اتار چڑھاؤ کو دیکھ رہے تھے۔
وہ مجھے یہ کہنا تھا کہ میں
اپنی فیملی کا بدلہ لینا چاہتی ہوں اب ۔ سال ہونے والا ہے ۔ صرف تین دن اور ہیں ۔ وہ
ہی رات مجھے شہزاد اکرم پر قیامت بنانی ہے۔۔ جزا مضبوط لہجے میں بولی تھی۔
کب اور کیسے ؟ جب پہچھے سے
زوریز کی آواز آئی تھی۔
جگہ اور وقت میں بتا دوں گئی
۔ مجھے بس کچھ ضروری چیزیں چاہیں ہے ۔ جزا نے زوریز کو مکمل اگنور کیا تھا اور ابراہیم
صاحب کو دیکھا تھا۔
مل جائیں گئی ۔ کل اس سب پر
ڈیٹیل سے بات کریں گے۔ ابراہیم صاحب نے اس کے سر پر بوسا دیا تھا۔ اور وہ آگے بڑھ
گئے تھے۔
جزا بات سنو ۔ زوریز نے اس کے
کلائی پکڑی تھی۔
وہ کچھ نہ بولی تھی بس اس نے
گھور کر اس کو دیکھا تھا۔۔ اور اپنی کلائی
اس کے ہاتھ سے آزاد کروائی تھی۔
ایم سوری ۔۔زوریز نے اس نی
شہد رنگ آنکھوں میں دیکھا تھا جہاں صرف سختی تھی ۔
سوری ؟ کیا آپ کی یہ سوری یہ
معافیاں اس سب تکلیف کا ازالہ کر سکتی ہیں جس سے میں گزری ؟ کیا ایک سوری سے وہ سب
ٹھیک ہو جائے گا؟ میری تکلیف ختم ہو جائے گئی ؟ نہیں زوریز کبھی نہیں ۔ جزا بولتے
ہوئے روکی تھی ۔
ایک بار ایک بار بس سوچ کر دیکھیں ۔ جب آپ نے سب
کچھ ہر خون کا رشتہ کھو دیا ہو اور آپ کو ایک رشتے سے نوازہ جائے اور پھر آپ کے
پاس ایک وہی رشتہ سب سے مضبوط سہارا ہو اور آپ کو پتا چلے آپ سے وہ بھی چھین گیا۔ تب
جو تکلیف محسوس کرو تو بتانا اس تکلیف کا
ازالہ ایک سوری سے ہو جائے گا؟ جزا اس کو دیکھتے ہوئے بولی تھی ۔۔ زوریز بس اس کو
دیکھ رہا تھا جزا کی شہد رنگ آنکھوں میں شکوہ ہی شکوہ تھا۔
سوری کہنے سے روح پر لگے زخم
مدہم نہیں پڑتے ۔ وہ تکلیف کم نہیں ہوتی جو وجود نے محسوس کی ہو۔ ان آنکھوں کو ٹھنڈک
نہیں ملتی جو آنکھیں ساری ساری رات آنسوں بہاتے جلی ہوں۔۔ میری تکلیف اس سوری سے
کم نہیں ہو سکتی زوریز ۔ میں اس تکلیف کو نہیں بھول سکتی۔ جزا یہ کہہ کر ادھر سے
چلی گئی تھی۔
جبکہ وہ بس خاموش کھڑا رہا
تھا۔ ایک بار پھر سے تنہا تھا وہ ۔ اس بار وہ خود کا مجرم خود تھا۔ اس بار جزا
شاہد کی آنکھوں کے انسوں کی وجہ وہ بن گیا تھا۔ اور یہ وہ لمحہ تھا جہاں زوریز
ابراہیم احمد خان خود سے نظریں ملانے پر بھی شرمندگی محسوس کر رہا تھا۔ آج پہلی
بار زوریز کو اپنے وجود سے نفرت ہوئی تھی۔۔
••••••••••••••••
نوریز تھنکس ۔۔ لینا نے نوریز
کی طرف دیکھا تھا جو خاموشی سے ڈرائیو کر رہا تھا۔۔
میرا فرض تھا۔ وہ مختصر سا
بولا تھا۔
تم ادھر کیسے آئے تمہیں کیسے
پتا چلا۔ لینا کچھ بولی تھی ۔
یہ تمہارا مسئلہ نہیں ۔ نوریز
نے لینا کی طرف دیکھا تھا۔۔
اگر تم آج نہ آتے تو پتا نہیں
وہ۔ لینا بولتے ہوئے روکی تھی۔
تو پتا نہیں کیا؟ بولو آگے ۔
نوریز نے کار ایک طرف روکی تھی اور اب کی بار لینا کی طرف روخ کیا تھا۔۔
آج پہلی بار۔۔۔ پہلی بار زبردستی
کا مطلب سمجھ ایا۔ عزت کا خیال آیا ۔ لینا کی آنکھیں نم ہوئی تھی۔۔
آج پہلی بار لگا کے میں اپنے
آپ لو کس دلدل میں پہنچا چکی ہوں۔ جہاں میری عزت اب عزت رہی ہی نہیں ۔ ایک آنسو
لینا کی آنکھ سے گرا تھا۔۔
اس کی قصور ور صرف تم نہیں
تمہارا باپ بھی ہے لینا۔ اس نے بس تمہیں
عیش و عشرت دی اس نے تمہیں کبھی بھی حیا کا نہ بتایا عزت کا نہ بتایا اس نے کبھی
تمہیں بتایا ہی نہیں کہ عورت حیا کا پیکر ہے۔
نوریز افسوس سے اس کو دیکھ رہا تھا۔ جبکہ لینا کی آنکھوں سے آنسوں مزید بہہ
تھے۔
میں تمہیں بار بار روکتا تھا
منع کرتا تھا تم نہیں روکتی تھی۔ اور تمہاری یہ بے خوفی سر پر چڑی عیاشی مجھے ڈراتی
تھی۔ نوریز نے اس کو دیکھا تھا۔
کیا تمہیں ایک لمحہ بھی خدا
کا خوف نہ آیا لینا تم کیا کرتی رہی خود کے ساتھ تمہیں کوئی روکنے والا نہ تھا مگر
تم تو باشعور تھی ۔ دیکھو لیںا تم نے کیا کیا ہے خود کے ساتھ ۔ نوریز کو اس کی
حالت اذیت دے رہی تھی۔
کبھی وقت نکل کر سوچنا لیںا تم
نے خود کے ساتھ کیا کیا ہے ۔ اور تمہارے باپ نے کتنوں کے گھروں کی عزت کو اس دلدل
میں ڈالا ہے۔ یہ کہہ کر نوریز نے کار
سٹارٹ کی تھی۔ جبکہ لینا مکمل خاموش تھی۔
تمہارا باپ لڑکیوں کے سودے
کرتا ہے مردوں کے دل بھلانے کے لیے آج اس کی بیٹی میرے بیٹے کا دل بھلانے کا سامان
بنے گئی۔ وقار کے الفاظ اس کے کانوں میں گونجے تھے۔۔ دل پر ایک ٹھیس اٹھی تھی۔
کم اون لینا لڑکوں کو ڈیٹ
کرنا تمہارے لیے تو نارمل ہے سمجھو تم مجھے ڈیٹ کر رہی ہو۔ اسفند کے الفاظ اب کی
بار اس کے کانوں میں گونجے تھے ۔ اس کو ایسا لگا تھا جیسے کیسی نے اس پر گرم
کھولتا پانی پھینکا تھا۔
تم تو اپنے بوئے فرینڈز کے
ساتھ نائیٹ ہینگ اوٹ کرتی ہو تو ایک نائیٹ ہینگ اوٹ میرے ساتھ بھی کر لو نہ۔۔ ان
الفاظ نے اس کا جسم کانپ جانے پر مجبور کر دیا تھا۔۔ انسوں میں مزید روانی آئی
تھی۔
نوریز نے گردن موڑ کر اس کو
دیکھا تھا۔۔ جس کا چہرہ انسوسے تر تھا۔
کار عمران لغاری کے گھر کے
سامنے روکی تھی۔ لینا خاموش کار میں بیٹھی تھی۔۔۔
تمہارا گھر آ گیا ہے۔۔ نوریز
نے لینا کی طرف دیکھا تھا ۔ مگر وہ تو اس کو سن بھی نہ رہی تھی۔۔
لینا۔۔۔ نوریز نے اس کے کندھے
پر ہاتھ رکھا تھا۔۔
ہاں ۔۔۔ لینا جیسے اپنی سوچوں
سے باہر نکلی تھی ۔۔
گھر آ گیا ہے ۔۔ نوریز نے اس
کو دیکھا تھا۔۔ جب لینا نے کار سے باہر دیکھا تھا۔۔
ایک بات پوچھوں نوریز ؟ لینا
کچھ سوچتے بولی تھی۔
ہاں پوچھو ؟ نوریز نے اس کو
دیکھا تھا۔۔
کیا تم واقع ہی مجھ سے محبت
کرتے ہو؟ لینا نے نوریز کی آنکھوں میں
دیکھا تھا۔
تمہیں ابھی بھی یقین نہیں ہے
تو میں کچھ نہیں کہہ سکتا ۔ نوریز نے افسوس سے سر جھٹکا تھا۔۔
اس سب کے باوجود ؟ میرے کردار
کے بارے میں جاننے کے باوجود ؟ لینا اس کو دیکھے جا رہی تھی بس۔
ہاں ہر بات ہر چیز کے باوجود
بھی مجھے تم سے محبت تھی، ہے اور رہے گئی۔ نوریز کا لہجہ مضبوط تھا۔۔
مگر کیوں ؟ لینا آنسوں سے
بھری آنکھوں سے اس کو دیکھ رہی تھی۔
اس کیوں کا جواب میرے پاس بھی
نہیں ہے۔ اب جاو بہت رات ہو گئی ہے ۔ یہ کہہ کر نوریز نے اپنی سائیڈ سے کار کا دروازہ
کھولا تھا۔ اور باہر نکل کر لینا کی سائیڈ پر آیا تھا۔ اور کار کا دروازہ اس کے
لیے کھولا تھا۔
وہ کار سے اتری تھی اور نم
آنکھوں سے اس نے نوریز کو دیکھا تھا۔ جبکہ نوریز اس کی آنکھوں کی نمی کو برداشت نہ
کر سکا تبھی نظریں جھکا گیا تھا۔
اپنی آنکھوں کو صاف کر لو
لینا میرے پاس ابھی ان آنسوں کو صاف کرنے کا حق نہیں ۔ نوریز یہ کہہ کر موڑ گیا تھا اور کار میں بیٹھا
اور اگلے ہی لمحے اس کی کار پلک جھپکتے ادھر سے نکلی تھی ۔۔
••••••••••••••••
رات کافی ہو گئی ہے اب ہمیں
چلنا چاہیے ۔ امل بیگم اپنی جگہ سے اٹھی تھی۔ جبکہ آغا آفریدی اور افضل صاحب کی
فیملی واپس چلی گئی ہو تھی اور حدید ، وافیہ اور مزمل بیگم ابھی ابھی نکلے تھے۔
امل جزا کو کچھ دن میرے پاس
چھوڑ دو۔ عائشہ بیگم نے اسرار کیا تھا۔
اپنے بیٹے کی بارات لے کر آؤ
عائشہ میری بیٹی کے لیے ۔ امل بیگم نے دو ٹوک بات کی تھی۔
کیا بات ہو رہی ہے ادھر۔
زوریز ابھی کچن سے نکلا تھا۔ جب عائشہ بیگم اور امل بیگم کی بات نے اس کو اپنی طرف
متوجہ کیا تھا۔
زوریز بھائی ہم لوگ جزا کو لے
کر جا رہے ہیں ۔ نور زوریز کو دیکھتے بولی تھی۔
مگر کیوں ؟ زوریز نے حیرت سے
اس کو دیکھا تھا۔
کیونکہ مسٹر زوریز میری بیٹی
کا نکاح ہوا ہے رخصتی نہیں آ کر اس کی رخصتی لو اور لے جاؤ ۔ اب کی بار احسن صاحب
بولے تھے۔
مگر احسن انکل ۔ زوریز نے کچھ
بولنا چاہا تھا۔
کوئی اگر مگر نہیں یہ ہم بڑوں
کا فیصلہ ہے۔ احسن صاحب نے اس کی سنی ان سنی کی تھی۔
دوراب ۔۔ تو ہی کچھ بول لے۔
زوریز نے دانت پیس کر اب کی بار دوراب کو بلایا تھا۔
ویسے میں کہہ رہا تھا تین چار
ماہ جزا ہماری طرف رہ لے تو زیادہ بہتر ہے۔ دوراب نے ایک نظر زوریز کو دیکھا تھا
اور پھر بہت پر سکون ہو کر اپنی رائے رکھی تھی۔ جبکہ اب کی بار ابراہیم صاحب نے
اپنے قہقہے کا گلا گھونٹا تھا۔
اس سے بہتر تم خاموش اچھے
تھے۔ زوریز نے سخت نظروں سے اس کو دیکھا تھا۔
کیوں کچھ غلط بولا ہے کیا میں
نے؟ انجان بنے کی مکمل اداکاری کی گئی تھی دوراب کی طرف سے۔۔
اب تمیں نور کی رخصتی ایک
حساب سے ہی ملے گئی ۔ زوریز نے گھور کر دوراب کو دیکھا تھا۔
اچھا تم لوگ یہ سب چھوڑوں ۔
جزا بیٹا آپ بتاؤ ۔ ابراہیم صاحب نے اب کی بار جزا سے اس کی مرضی کا پوچھا تھا۔
میں امل خالہ کے ساتھ جانا
چاہتی ہوں فلحال ۔ مجھے کچھ وقت نور اور آمنہ کے ساتھ گزارنا ہے۔ جزا نے نظریں
جھکا کر کہا تھا۔ جبکہ زوریز کا چہرہ سنجیدہ ہوا تھا۔ دل بےچین ہوا تھا۔
بس تہ ہوا جزا احسن صاحب کے
گھر جا رہی۔ ابراہیم صاحب نے اخری فیصلہ سنایا تھا۔
بہت شکریہ ابراہیم ۔ احسن
صاحب نے مشکور نظروں سے ابراہیم صاحب کی طرف دیکھا تھا۔۔
بہت جلدی اپنی بیٹی لینے آؤ
گا میں ۔ ابراہیم صاحب نے مسکرا کر جزا کی طرف دیکھا تھا۔ مگر اس لمحے کیسی کا دل
تڑپ کر رہ گیا تھا۔
اور پھر وہ سب جانے کے لیے
اٹھے تھے۔۔ جب دوراب زوریز کے پاس آیا تھا
۔
فکر مت کر خیال رکھیں گے اس
کا۔ دوراب زوریز کے گلے لگا بولا تھا۔
دل تو کر رہا ہے تیرا گلا
دوبا دوں ۔ زوریز دانت پیس کر بولا تھا۔ جبکہ دوراب ہستے ہوئے اس سے الگ ہوا تھا ۔
جزا ابراہیم صاحب ، اور عائشہ
بیگم سے مل کر باہر کی طرف بڑھنے لگی تھی جب زوریز کی مدہم سے آواز اس کی سماعت سے
ٹکرائی تھی۔
میری سزا کو اب مختصر کر دو۔ زوریز
کی آواز دہمی تھی مگر اس کے لہجے میں چھپے درد نے جزا کو اس کی طرف دیکھنے پر
مجبور کیا تھا۔۔ ایک بار پھر سے شہد رنگ آنکھیں ان نیلی آنکھوں سے ملی تھی۔ مگر اب
کی بار نیلی آنکھیں نم تںی۔ ان میں تکلیف تھی، درد تھا، ندامت تھی، شرمندگی تھی،
معافی کی طلب گار تھی ۔ جزا کا دل بے چین ہوا تھا۔ جب نور نے اس کو کہنی ماری تھی۔
لگتا ہے جانے کا دل نہیں ہے۔
نور نے شرارت سے اس کو دیکھا تھا۔
نہیں نہیں چلو ۔ جزا نور کا
ہاتھ پکڑ کر آگے بڑھی تھی۔
جبکہ زوریز خاموشی سے اپنے
کمرے کی طرف بڑھا تھا۔ اور کمرے میں جا کر دروازہ لوک کر کے وہ اپنے بیڈ پر اوندھے
منہ گرا تھا۔۔ ایک انسو نے اس کی پلکوں کا بندھ توڑا تھا۔ شاید دل میں اٹھتی تکلیف
اب مزید برداشت نہیں کر سکتا تھا۔۔ اس نے سختی سے اپنی آنکھوں کو صاف کیا تھا۔ اور
اٹھ کر باتھ روم میں بند ہو گیا تھا۔۔
••••••••••••••
آ گئی ہو تم۔ لینا ابھی گھر
میں داخل ہوئی تھی جب لاؤنج میں بیٹھے عمران صاحب نے ایک نظر اس کو دیکھا تھا اور
پھرسے سامنے موجود ایل سی ڈی کی سکرین کہ طرف متوجہ ہوئے تھے۔
لینا نے دیوار کے ساتھ لگے شیشے
میں اپنا حلیہ دیکھا تھا۔ بکھرے بال، چہرے پر تھپڑوں کے نشان ، ہونٹ کے قریب جما خون
، رونے کی وجہ سے سرخ ہوئی ہوئی آنکھیں اوور سائز سیاہ شرٹ۔ اس کی حالت قابلِ
افسوس تھی ۔ اور اس کے باپ اس کی حالت پر دھیان بھی نہ دیا تھا۔
آپ پوچھیں گے نہیں کے میں
کہاں تھی اتنے وقت سے ؟ لینا اپنی آواز کو نارمل کرتے بولی تھی۔
مجھے کیا ضرورت ہے پوچھنے کی
۔ مجھے پتا یے پھر سے نائٹ کلب میں ڈرینک کر رہی ہو گئی یا دوستوں کے ساتھ ہو گئی
نہیں تو کیسی نیو بوائے فرینڈ کے ساتھ ۔۔عمران صاحب ایل سی ڈی پر چلتا شو دیکھ
مصروف سے بولے تھے ۔ جبکہ ان کی باتیں سن کر لینا میں کچھ ٹوٹا تھا ، شاید دل یا
شاید ایک مان ۔
آپ کو کوئی فرق نہیں پڑتا کہ
میں گھر آؤں یا نہ۔۔ لینا کی آنکھیں پھر سے آنسو سے بھرنے لگی تھی۔
لینا تم بڑی ہو آزاد ہو۔۔ جو
جی میں آئے کرو میں نے کبھی نہیں روکا تمہیں ۔ زندگی ہے انجوائے کرو ۔ عمران صاحب
نے سکرین کو دیکھتے ہوئے ہاتھ میں پکڑے سیگریٹ کا ایک گہرا کش لیا تھا ۔
جو جی میں آیا وہ ہی کیا ، آپ
نے مجھے حد سے زیادہ آزادی دے دی۔ آپ نے کبھی نہ روکا ۔ تبھی آج میں یہاں اس حال
میں کھڑی ہوں ڈیڈ۔ ایک بار میری حالت کی طرف دیکھ ڈیڈ۔ لینا کی آواز بھاری ہوئی
تھی
جب عمران صاحب نے گردن موڑ کر
لینا کی طرف دیکھا تھا ۔ ان کے ہاتھ میں موجود سیگریٹ زمین پر گرا تھا۔۔
لینا کیا ہوا ہے ؟ وہ اپنی
جگہ سے اٹھے تھے۔
اپ کو اس سے کیا لگے ڈیڈ ۔
میں تو کیسی کلب میں ڈرینک کر رہی ہوں گئی یا دوستوں کے ساتھ ہوں گی یا کیسی نئے
بوائے فرینڈ کے ساتھ۔ لینا کی انکھوں سے مسلسل آنسو بہہ رہے تھے۔
لینا مجھے بتاؤ یہ سب کس نے
کیا ہے ہوا کیا ہے ۔ عمران صاحب اس کے طرف آئے تھے۔
وقار چوہدری اور اس کے بیٹے
نے۔۔لیںا نے سامنے کھڑے اپنے باپ کی طرف دیکھا تھا۔
کیا کیا ہے اس نے ۔عمران صاحب
اس کے پاس ائے تھے ۔
اس نے وہ ہی سب کرنے کی کوشش
کی جو آپ دوسروں کی بیٹیوں کے ساتھ کرواتے تھے۔ آپ نے اس سے پیسے لیے اس کو لڑکیاں
نہ بھیجی بدلے میں اس نے آپ کہ بیٹی کڈینپ کر لی۔ لینا بولتے ہوئے روکی تھی۔۔
آپ دوسروں کی بیٹیوں کے سودے کرتے
ہیں کہ وہ مردوں کا دل بھلائیں ۔۔ اس نے آپ کی بیٹی اپنے بیٹے کا دل بھلانے کے لیے
کڈینپ کی۔۔ لینا کے آنسوں میں شدت آئی تھی۔ جبکہ عمران صاحب خاموش اس کو دیکھ رہے
تھے۔
ایک سوال پوچھوں آپ سے ڈیڈ؟ عزت
کیا ہے؟ حیا کیا ہے؟ لینا عمران صاحب کے سامنے جا کر کھڑی ہو گئی تھی جبکہ وہ بلکل
خاموش تھے چہرہ لٹھے کی مانند سفید تھا۔
میں بھی کتنی پاگل ہوں نہ آپ
سے یہ سوال کر رہی ہوں۔۔ جو خود ایک بیٹی کے باپ ہونے کے باوجود نہ جاننے کتنوں کہ
بیٹیوں کے عزت کا سودا کر چکے ہیں ۔۔ لینا کی آواز کچھ بلند ہوئی تھی ۔۔
لینا می۔ میری بات سنو ۔
عمران صاحب نے اس کو خاموش کروانا چاہا تھا۔
میں بیٹی ہوں آپ کی لڑکی ہوں میں۔۔
کیا بیٹیوں کی تربیت ایسی ہوتی ہے ؟ آپ نے مجھے صرف پالا ڈیڈ میری پرورش نہ کی ۔ مجھے
صحیح غلط نہ بتایا کبھی۔ میں نے سمکنگ کی آپ نے نہیں روکا میں نے جیسے جی میں آیا
کپڑے پہنے آپ نے نہیں روکا ۔ میں نے ڈرنیک کی آپ نے نہیں روکا میں نے بوائے فرینڈ
بنایا آپ نے نہیں روکا اس کے ساتھ ساری رات رہی آپ جانتے تھے سب کچھ مگر آپ نے
نہیں روکا۔ کیوں ڈیڈ کیوں؟ لینا روتے ہوئے
عمران صاحب کو دیکھ رہی تھی۔
اس وقت ایک تھپڑ مارا ہوتا تو
آج میں اس مقام پر نہ پہنچتی ڈیڈ۔ میں ایسے برباد نہ ہوتی۔ لینا روتی چلی گئی
تھی۔۔
آپ کو پتا ہے سب کی نظر میں
میری عزت کوئی معنی نہیں رکھتی۔ آج اسفند کے الفاظ نہیں چابک تھے ڈیڈ ۔اس نے پتا
کیا کہا ؟ لینا ایک لمحے کو روکی تھی۔۔
اس نے مجھے کہا کہ لڑکوں کو
ڈیٹ کرنا ان کے ساتھ نائٹ ہنگ آؤٹ کرنا میرے لیے نارمل ہے۔۔ لینا کا چہرا آنسوں سے
تر تھا۔
کہا بیٹیوں کی تربیت ایسے کی
جاتی ہے ڈیڈ؟ لینا نے سوالیہ نظروں سے عمران صاحب کو دیکھا تھا جو مکمل خاموش تھے۔
میں تمہیں ایک عیش و عشرت کی
زندگی دینا چاہتا تھا۔ میں تمہیں آزاد خیال بنانا چاہتا تھا۔ تکہ تم ادھر رہ کر
باہر کے ممالک کی زندگی جی سکو ۔ عمران صاحب نے اس کو دیکھ کرکہا تھا۔
عیش و عشرت ؟ یہ عیش و عشرت
نہ تھی ڈیڈ یہ کچھ اور تھا اس عیش و عشرت کی نظر میں نے ساری زندگی کر دی اپنے ایک
اندھیرے راستے پر چلی گئی اور آپ نے روکا تک نہ ۔ لینا چیخی تھی۔۔
لینا میری بات کو سمجھو ۔۔
عمران صاحب نے اس کو قابو کرنا چاہا تھا۔
آپ کی بات کو سمجھوں ۔۔ ارے
مجھے تو آج صحیح معنوں میں عزت کی سمجھ آ گئی کہ عزت ہوتی کیا ہے ایک لڑکی کی۔ زبردستی
کا اصل معنی کیا ہے اس میں صرف ایک لڑکی کی عزت کو تار تار نہیں کیا جاتا بلکہ اس
کو زندہ لاش بنا دیا جاتا ہے ۔ مگر آپ کیسے سمجھیں گے ڈیڈ ۔۔ آپ کا تو کام ہی یہ
ہے لوگوں کی بیٹیوں کو آٹھ کر بیچ دینا ایک بار بھی خوف خدا آیا کہ خود کی بھی
بیٹی ہے۔ لینا کی آواز اونچی ہوئی تھی۔
آپ کو ایک بار خوف نہ آیا کہ
اگر سب کچھ پلٹ کر آپ کے گھر کی دہلیز پر آ گیا تو۔ آنا کیا آ گیا ہے ؟ لینا طنزیہ
ہنسی تھی۔
آپ نے خود تو دلدل کو چنا ہی
چنا مجھے بھی اس دلدل میں کھینچ لیا ۔ لینا کی آواز بھاری ہوئی تھی۔۔
میری بات سنو بیٹا۔ عمران
صاحب نے اس کے چہرے کو اپنے ہاتھ سے چھنا چاہتے تھے۔۔
میرے ساتھ کیا کیا آپ نے ڈیڈ
۔ میں بیٹی تھی آپ کی آپ نے میرے غلط کو بھی صحیح کیوں کہا۔ کیوں مجھے بے حیائی
اور حیا میں فرق نہ بتایا آپ نے۔ آپ کو مجھے اس دن ہی تھپڑ مار کر روک دینا چاہیے
تھا جس دن میں نے پہلی بار غلط قدم اٹھایا تھا۔ لینا نے روتے ہوئے اپنے قدم پیچھے
لیے تھے۔
تم نے کبھی بھی کچھ غلط نہیں
کیا میری بیٹی۔ آج بھی تمہیں کچھ نہیں ہوا۔ عمران صاحب نے اس کو بھلانا چاہا تھا۔۔
آپ کو آج بھی سمجھ نہ آئی ،
آپ کے لیے آج بھی سب ٹھیک ہے۔ آپ کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہے ڈیڈ ۔ مگر آج مجھے ہوش
آ گئی ہے ڈیڈ ۔ اور خلاصہ پتا کیا نکلا ڈیڈ ۔ آپ نے اپنے ساتھ ساتھ میرے گلے میں
بھی پھندہ باندھ دیا۔ لینا عمران صاحب کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولی تھی۔
لینا بیٹا بات کو سمجھو ۔
عمران صاحب نے اس کو سمجھانا چاہا تھا۔۔
آج میرا دل چاہا رہا ہے کہ
میں خود کو مار ڈالوں ڈیڈ ۔ مگر میں خود کو مار کر کمزور نہیں بنانا چاہتی ۔ میں
لینا لغاری ہوں ۔۔میں خود کو مار نہیں سکتی۔ اپنی زندگی جہنم میں نے بنائی ہے۔
میرے ہر خطا کی زمیدار میں ہوں۔ مگر آج لینا لغاری آپ سے ایک وعدہ کرتی ہے ڈیڈ ۔
لینا لغاری اپنی بیٹی کو سیکھائے گئی کہ عورت کی شرم و حیا کیا اپنی بیٹی کو اگر آزادی
بھی دے گئی تو اس کی لگام اپنے ہاتھ میں رکھے گئی۔ اور اپنے بیٹے کو سیکھائے گئی
کہ عورت کی عزت کی حفاظت مر کے بھی کرے اس
کو عورت کی عزت کا سوداگر نہیں بناؤ گئی۔ لینا نے ایک ایک لفظ مضبوط لہجے میں بولا
تھا۔
آپ ایک بیٹی کی تربیت میں
ناکام ہو گئے ڈیڈ ۔۔ آپ نے مجھے کبھی وقت نہ دیا کبھی دلچسپی نہ دیکھائی میری
زندگی میں ۔ میں جو کرتی رہی کبھی نہ روکا۔ میں اپنی جہنم تہار کر رہی تھی مجھے نہ
روکا آپ نے۔ لینا نے سختی سے اپنے آنسو صاف کیے تھے۔
مگر میں اپنی اولاد کی تربیت
اچھے سے کروں گئی۔ آج زندگی نے جو تھپڑ میرے منہ پر مارا ہے اس تھپڑ کو ساری زندگی
یاد رکھوں گئی۔ انسان کو بدل ڈالنے کے لیے چند پل ہی کافی ہوتے ہیں ۔ اور ان چند
لمحوں نے میری روح تک جھنجھوڑ ڈالی ہے مجھے بدلنے کے لیے یہ ایک اذیت کافی ہیں ۔
لینا یہ کہہ کر اپنے کمرے میں چلی گئی تھی۔
جبکہ عمران صاحب صوفے پر ڈھے
سے گئے تھے ۔ آج ان کی بیٹی حقیقت کا وہ
آئنیہ دیکھا گئی تھی جو وہ چاہا کر بھی نہ دیکھتے کبھی ۔
Urdunovelnests••••••••••••••••••
وہ اپنے کمرے میں آ کر بند
ہوئی تھی۔ اور روتے ہوئے زمین پر بیٹھتی چلی گئی۔۔ پہلے اس کی آنکھوں سے آنسوں
گرنے لگے تھے۔ پھر اس کی سسکیاں بنی اور اگلے ہی لمحے اس خاموش کمرے میں لینا
لغاری کی رونے کی آواز گونجنے لگی تھی۔ وہ رو رہی تھی بے تحاشا رو رہی تھی۔ اور آج
شاید زندگی میں پہلی بار لینا لغاری روئی تھی اور آج اس کو خاموش کرونے والا کوئی
نہ تھا۔۔
کتنا اذیت ناک ہوتا ہے ہو
لمحہ جب آپ کو آپ کی تمام تر خطائیں یاد آنے لگے اور تب آپ کے پاس سوائے آنسوں
بہنے اور ندامت کے کچھ نہ ہو۔۔ اور اج
لینا اس ہی لمحے سے گزر رہی تھی۔ عقل پر
حسن اور دولت کی پٹی جو باندھی تھی وہ کھول گئی تھی۔ کل تک جو عیش و عشرت لگ تھی
اج وہ گلے کا پھندہ بن گئی تھی۔ رات کا ایک مختصر سا حصہ لینا لغاری کی زندگی بدل
گیا تھا۔
آپ نے مجھے کیوں نہ روکا ڈیڈ
۔ کیوں شروع سے ہی مجھے ایسے ماحول میں رکھا جہاں ہر گناہ عام تھا۔ لینا روتے ہوئے
بولی تھی۔
کاش آپ مجھے باپ بن کر پلتے
ڈیڈ کاش مجھے بتاتے کیا ٹھیک ہے مجا غلط ۔ مگر آپ کے خود کے لیے ہر گناہ جائز تھا
مجھے کیسے روکتے۔ لینا نے اپنے بال نوچے تھے۔
اس عیش و عشرت سے بھری زندگی
نے اس آزادی اور بے لگام زندگی نے ۔ مجھے کیسی قابل نہ چھوڑا ڈیڈ ۔ لینا نے سر
دیوار سے ٹکا لیا تھا۔
کیوں بنایا مجھے ایسا ڈیڈ ؟
مجھے کیوں اتنا آزاد خیال بنا دیا جہاں غلط بھی صحیح لگا، اور میں غلطیوں کی دلدل
میں اُترتی چلی گئی۔ لینا کے آنسوں ختم نہ ہو رہے تھے۔
آج کہ اس ایک حادثے نے اس کو جھنجھوڑ ڈالا تھا۔۔ یہ ایک حادثہ اس کو ندامت
کی منزل تک لے آیا تھا۔۔
اس دولت کے نشے نے مجھے برباد
کر دیا ہے ڈیڈ ۔ لینا نے اپنا چہرہ صاف کیا تھا مگر انسوں روک نہ رہے تھے۔
اس نے آنسوں صاف کیے تھے۔اپنی
جگہ سے اٹھی تھی اور اپنی وارڈروب کھولی تھی۔ وہ اب سامنے لٹکے اپنے تمام کپڑوں کو
دیکھ رہی تھی۔ شوٹ ٹوپس ، بیک لیس فروکس ، سلیو لیس شارٹس ، ڈیپ نک لائن ڈیس ۔ اس
کی واڈ روب ایسے لاتعداد کپڑوں سے بھری تھی۔
وہ ایک کے بعد ایک ڈریس نکل
نکل کر باہر پھینک رہی تھی۔ اور چند دیر کی محنت کے بعد اس کے تمام بیش قیمتی ڈریس
زمین پر پڑے تھے۔ اس نے آس پاس نظر دوڑائی تھی اور جس چیز کی وہ تلاش میں تھی
وہ اس کو اپنے کمرے میں موجود میلی تھی۔
سائیڈ ٹیبل پر ایک وائن کی
بوتل پڑی تھی پاس ایک سیگریٹ کا ڈبی اور لیٹر ۔ لینا نے آگے بڑھ کر شراب کی بوتلل
اٹھائی تھی اور اس کو کھول کر اپنے زمین پر پڑے کپڑوں پر پھینکا تھا۔ اور اس نے
سیگریٹ کی ڈبی اٹھائی تھی اور ایک سیگریٹ نکل کر دبی اس نے ان کپڑوں پر پھینک دی
تھی۔ اب لیٹر سے وہ اس سیگریٹ کو جالا رہی تھی اور جب وہ آدھے سے زیادہ جل گیا تو
اس نے وہ کپڑوں پر پھینک دیا تھا۔ اور ساتھ ہی لیٹر بھی اس نے کپڑوں پر پھینکا تھا۔
اور کمرے کے ساتھ بنے ٹیریس کے دروازے کو کھول دیا تھا۔ اور واپس ان کپڑوں کے
انبار کے پاس آئی تھی جن کو آگ لگا چکی تھی۔
دیکھتے ہی دیکھتے کپڑوں نے آگ
کو پکڑ لیا تھا۔ وہ خاموشی سے بیڈ کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گئی تھی اور جلتے کپڑوں
کی آگ کو دیکھ رہی تھی۔۔
ماضی کے منظر اس کی آنکھوں کے
سامنے گھومنے لگے تھے۔ کبھی وہ کیسی نائٹ کلب میں لڑکوں کے درمیان ناچ رہی ہے تو
کبھی ڈرنک کر رہی ہے۔ کبھی وہ کیسی لڑکے
کے ساتھ گھومتی نظر آ رہی ہے تو کبھی کیسی کے ساتھ۔۔ وہ کچھ لڑکوں کے درمیان بیٹھی
ہنس رہی تھی۔ منظر ایسے ہی بدلتے جا رہے تھے۔ وقار چوہدری نے اس کو کڈنیپ کیا تھا۔
اس کے بیٹے نے اس کے ساتھ زبردستی کرنے کی کوشش کی تھی۔
ان کے الفاظ تھے یہ پگھلا ہوا
سیسہ ۔ لینا کو ابھی تک یہ ہی سمجھ نہ آیا تھا۔ ان الفاظ کی چھبن ابھی تک اس کو
خود پر محسوس ہو رہی تھی۔ لینا نے آنکھوں کو سختی سے بند کیا تھا۔
کیا کر بیٹھی ہوں میں خود کے
ساتھ۔ ایک آنسوں آنکھوں سے نکلا تھا۔
کیا فائیدہ اس عالیشان زندگی
کا ۔ جس کو جی کر میں نے خود کو بے مول کر ڈالا ۔ اس رہ کہ مسافر بن گئی جس رہ کا
اختتام اتنا درد ناک تھا۔ لینا کا وجود کانپ گیا تھا۔ اس کو اس جگہ پر گھوٹن محسوس
ہونے لگی تھی۔وہ فوراً اپنی جگہ سے اٹھی تھی ایک نظر اپنے لباس پر گئی تھی۔
وہ بھاگ کر اپنی واڈروب کی
طرف گئی تھی اس نے خالی واڈروب جو دیکھا تھا۔ پھر ایک دراز کھولا تھا جس میں
میورون رنگ کی چادر پڑی تھی۔
وہ چادر اس کی ماں کی تھی جو
انہوں نے اپنے نکاح کے وقت لی تھی ۔ اس کی ماں کی موت کے بعد جب ان کا سب سامان غریبوں کو دیا جا رہا تھا تب
اس نے چھپکے سے یہ چادر نکل لی تھی۔
اگر اپ آج میرے ساتھ ہوتی تو
میں کچھ اور ہوتی موم ۔ میری زندگی کچھ اور ہوتی ۔ میں کیسی اور راستے کی مسافر
ہوتی۔ میں اس دلدل میں نہ پھستی ۔۔ وہ اس چادر کو کانپتے ہاتھوں سے پکڑے رو رہی
تھی۔
اس نے اس چادر کو سر پر رکھا
تھا۔ انسو آنکھوں سے گر رہے تھے۔ بے اختیار اس نے اس چادر کے ایک پلو کو اپنے لبوں
سے لگایا تھا۔ اس کو چادر لینی نہ آتی تھی ہھر بھی جیسے تیسے خود پر چادر اوڑھ کر
وہ کمرے سے نکلی تھی۔
عمران صاحب ابھی بھی لاؤنج
میں بیٹھے تھے اس کو میرون چادر میں دیکھ کر اپنی جگہ سے کھڑے ہوئے تھے۔۔ جبکہ وہ
سڑھیاں اترتی ان کے سامنے آئی تھی۔
کدھر جا رہی ہو؟ عمران صاحب
نے اس کو دیکھا تھا ۔
جیسے آپ پہلے میرے معاملے میں
لاپرواہ تھے اب بھی رہیں ۔ میں جہاں بھی جاؤ اب آپ کو اس سے کوئی واسطہ نہیں ہونا
چاہیے ۔ لینا ان کو دیکھتے بولی تھی۔
لینا میں باپ ہوں۔۔ عمران
صاحب کے الفاظ منہ میں ہی تھے۔۔
باپ ۔ آپ سب جانے کے بعد بھی
مجھے یہ بول رہیں ہے کہ میں ٹھیک ہو۔ میں
نے آج تک جو کیا ٹھیک تھا۔ مجھے کچھ نہیں ہوا۔ لینا کی نظروں میں طنز تھا۔ جبکہ ان
کی اس بات پر عمران صاحب نے سر جھکا لیا تھا۔
آپ نے کبھی دلچسپی نہ کی میری
زندگی میں کیا ہو رہا ہے اور کیا نہیں بس ہمیشہ مجھے پیسوں سے بھر دیا۔ اور آپ کی
اس لاپرواہی نے مجھے آج کس مقام پر کھڑا کر دیا ڈیڈ ۔ کاش جتنے آپ مجھے پیسے دیتے
تھے اس سے کچھ وقت میری پرورش پر دے دیتے میری زندگی پر دے دیتے ۔ لینا ان کو
دیکھتے بولی تھی ۔ جبکہ عمران صاحب کے منہ سے الفاظ کھنچ چکی تھی۔
ماں باپ کی لاپرواہی اولاد کو برباد کر دیتی ہے ڈیڈ اور آپ کی
لاپرواہی نے مجھے بہت اچھے سے برباد کیا ۔ لینا کی آنکھ سے ایک آنسو نکلا تھا اس نے
اس کو صاف کیا تھا اور باہر کی طرف بڑھی تھی۔۔۔
••••••••••••••••••••••
وہ خاموشی سے بلکہنی میں
بیٹھی تھی جب منساء اس کے پاس آئی تھی اس نے آج رات کے لیے منساء کو عزیزہ کی طرف
سے بلوا لیا تھا۔ جبکہ آمنہ اور نور اس کے لیے اس کا پسند کا پاستہ بنا رہی تھی کچن
میں اور اس کو کمرے تک رہنے کا کہا تھا۔۔
آپ اکیلی بیٹھی کیا کر رہی
ہیں ادھر؟ منساء اس کے پاس بیٹھی تھی۔
کچھ نہیں بس ایسے ہی۔ جزا نے
کندھے اوچکے تھے اب کیسے بتاتی کیسی کی نیلی آنکھیں بےچین کر گئی تھی۔
زوریز بھائی سے ناراض ہیں ؟
منساء نے اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا تھا۔
سمجھ نہیں آ رہا اس سے ناراض
ہوں یا اپنے آپ سے۔ جزا کی آنکھیں بھیگی تھی ۔
آپ کیوں نہیں مان جاتی کہ آپ
ان سے محبت کرتی ہیں ۔ منساء نے جزا کی آنکھوں کی طرف دیکھا تھا ۔
محبت کرتی ہوں تبھی تو تکلیف
زیادہ محسوس ہوئی ہے اس کے جھوٹ کی۔۔ جزا نے آسمان کی طرف دیکھا تھا جہاں چاند
آدھا نہیں بلکہ نامکمل تھا۔
کیسا جھوٹ ۔۔۔منساء نے حیرت
سے اس کو دیکھا تھا ۔
کچھ نہیں بس ویسے کہہ رہی تھی
۔ تم مجھے یہ بتاؤ تم کب سے ان سب کو جانتی ہو؟
جزا نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا تھا۔
میں بچپن سے جانتی ہوں ۔ جب
میں نو سال کی تھی ۔ منساء نے سامنے کا منظر دیکھا تھا ۔ جہاں رات کی خاموشی تھی ۔
نو سال کی عمر سے۔ جزا کو
حیرت ہوئی تھی۔
ہاں نو سال کی عمر سے ۔ میں
اس وقت ریپ ویکٹم تھی ۔ منساء کے چہرے پر ایک زخمی مسکراہٹ نے جگہ لی تھی۔ مگر اس کے الفاظ سن کر جزا کے ہاتھ
ٹھنڈے پڑ گئے تھے ۔۔۔۔
منساء تم ۔۔ کیا بول رہی ہو۔۔
جزا کو اپنی سماعت پر یقین نہ آیا تھا۔
جو حقیقت ہے ۔ منساء نے سرد
آہ بھری تھی۔
حقیقت ۔۔ جزا نے وہ الفاظ دوہرایا
تھا ۔
ہاں حقیقت ۔ حقیقت کبھی اچھی
نہیں ہوئی ہمیشہ ہی تلخ رہی ہے ۔ ہم خیالوں میں تو جو مرضی خوشی محسوس کر لیں ۔
لیکن حقیقت میں ہمیشہ خوشی ہمارا مقدر ہی ہو یہ ضروری تو نہیں۔ حقیقی زندگی اکثر
وہ زخم وہ اذیت وہ درد دے جاتی ہے جو آپ کا وجود مرتے دم تک محسوس کرتا ہے۔ مگر اس
درد ، اذیت ، اور زخم میں کوئی کمی نہیں آتی وہ زخم کبھی نہیں بھرتے۔۔ حقیقت بہت
بری اور ظالم ہوتی ہے۔ منساء نے انکھ سے بہتا ایک آنسو صاف کیا تھا۔۔
منساء ۔۔ جزا نے اس کو اپنے گلے
لگایا تھا ۔ آج اس کو وہ چلبلی لڑکی زمخوں سے گھیری معلوم ہوئی تھی۔
میں سات سال کی تھی۔ مجھے
آج۔۔ آج بھی یاد ہے۔۔ میرے وجود ۔۔کو درند۔۔ درندگی ۔۔س۔۔سے نوچا ۔۔ جاتا تھا۔۔
منساء کی آواز بھر آئی تھی۔
مجھے ۔۔ زوریز بھائی ۔۔ نے
بچایا تھا۔۔ اور عزیزہ انٹی کے۔۔ پاس لے گئے ۔۔ اور۔۔ میری زندگی مکمل۔۔۔ بدل گئی۔
منساء اس کے گلے لگے بولی تھی۔۔ جبکہ جزا نے اس کا چہرہ اپنی طرف کر کے صاف کیا
تھا۔
تمہاری فیملی کو پتا ہے سب؟
جزا نے اس کو دیکھا تھا۔۔
میں اڈوپٹڈ تھی ۔ اور یہ بات
مجھے چھ سال کی عمر میں پتا چلی تھی۔ جب میرے ماں باپ کے پاس ایک بیٹا پیدا ہوا
تھا۔ وہ مجھے کیسی ملازم سے بھی برا ڈیل کرنے لگ گئے تھے۔ میرے لاپتہ ہونے سے ان کو کیا غرض ہونی تھی۔۔ منساء
کے چہرے پر تلخ مسکراہٹ نے جگہ لی تھی۔
کیا انہوں نے تمہیں ڈھونڈا
نہیں ؟ جزا کا دل تڑپا تھا منساء کی بات سن کر۔
نہیں مگر مجھے یہ ضرور پتا چل
گیا تھا کہ میرے لاپتہ ہونے کے کچھ ماہ بعد ہی ان کا ایک آکسیڈنٹ ہوا تھا جن میں
وہ اور ان کا بیٹا مارا گیا تھا۔ منساء نے جزا کو دیکھا تھا۔
اور تب سے تم عزیزہ انٹی کی
ذمہ داری ہو؟ جزا نے اس کو دیکھا تھا۔
ہاں جب سے میں ان کو ملی ہوں
تب سے انہوں نے مجھے ایک ماں کی طرح پالا ، وہ ہمیشہ مجھے ایک بات بولتی تھی۔ منساء نے ایک
حسرت سے کہا تھا۔
کیا؟ جزا نے اس کو دیکھا
تھا۔۔
ایک دن مجھے میرا ایک خون کا
رشتہ ضرور میلے گا۔ منساء نے خاموش نظروں سے آسمان کی طرف دیکھا تھا۔۔
انشاء اللہ ضرور ملے گا۔۔ جزا
نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا۔۔
وہ دونوں ایسے ہی اب باتوں
میں مگن تھی جب نور اور آمنہ بھی کمرے میں آ گئی تھی۔ اور اب وہ کمرا کم اور پلے
گراونڈ زیادہ لگ رہا تھا۔ کھانے کے برتن ایک طرف پڑھے تھے کمرا تقریباً بکھرا پڑا
تھا۔۔ اور اب وہ چاروں بیڈ ہر لیٹی تھی۔۔
••••••••••••••••••
فون پر لگے الارم سے اس کی
آنکھ کھولی تھی اس نے فون کو دیکھا تھا جہاں اس وقت فجر الارم شو ہو رہا
تھا۔۔ وہ خاموشی سے اپنے بستر سے اٹھا تھا
۔۔ اور باتھ روم گیا تھا۔
اور کچھ دیر میں وہ وضو کر کے
باہر نکال تھا۔ سر ہر سیاہ رنگ کی ٹوپی پہن رکھی تھی ۔ اور ہاتھ میں جائنماز پکڑے
وہ ایک طرف اس کو بھیچھا چکا تھا۔۔
اس نے نماز کی نیت باندھی تھی
۔ اور اب وہ پرسکون سا نماز پڑھ رہا تھا۔ دو سنت پڑھنے کے بعد اب وہ فرض کی دوسری
رکعت میں تھا۔ اور سلام پھرنے کے اب وہ اپنی انگلیوں کی پوروں پر تسبیح پڑھ رہا
تھا۔ اور اب اس نے دعا کے لیے ہاتھ اُٹھائے تھے۔ نہ جانے وہ ایسا کیا مانگ رہا تھا
دعا میں کے اس کا چہرہ آنسوں سے بھیگا ہوا تھا۔ دعا کے لیے اٹھے ہاتھ کانپ رہے تھے
۔ دعا سے فارغ ہونے کے بعد وہ جانماز سے اٹھا تھا اس کو تہ لگا کے ایک طرف رکھا
اور کمرے میں بنی بلکہنی کی طرف بڑھا تھا۔
اس نے پردے ہٹا کر دروازہ
کھولا تھا اور باہر نکل کر پرسکون فضا میں سانس لی تھی ۔ وہ آس پاس نظریں دوڑا رہا
تھا جب نظر ایک جگہ ٹھہرے گئھ تھی ۔ اس نے اپنی آنکھوں کو رگرا تھا جیسے نظر کا
دھوکا ہو مگر وہ نظر کا دھوکا نہیں تھا۔ وہ ایک لمحے کی تاخیر کے بغیر واپس موڑا
تھا اور کمرے سے باہر نکل کر نیچھے کی طرف
بھاگا تھا۔ اس کا پرسنل اپارٹمنٹ مکمل خاموشی میں ڈوبا ہوا تھا۔ وہ بھاگتا باہر
میں ڈور کی طرف بڑھا تھا اور آگلے ہی لمحے وہ اپنے گھر سے نکل کر سامنے موجود سڑیک
کے فوٹ پاتھ پر بیٹھی لڑکی کے پاس تھا۔ جو اس کو ہی آتا دیکھ رہی تھی۔
•••••••••••••••
جاری ہے۔۔۔

Comments
Post a Comment