Urdu Novel Dasht-e-Ulfat by Shazain Zainab Episode 26


 

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

 ناول

دشتِ الفت

شازین زینب


 

Ep # 26

 

اس لڑکی کی آنکھوں میں ایک طویل اذیت تھی جیسے وہ کافی وقت سے کانٹوں پر چل رہی تھی۔۔ جبکہ اس کی حالت دیکھ کر اس شخص کے دل کو کچھ ہوا تھا۔۔ اس لڑکی کی آنکھیں مکمل ویران تھی اس نے ایک میرون چادر لے رکھی تھی۔ جس نے اس شخص کو حیرت میں مبتلا کیا تھا اس نے کبھی سوچا بھی نہ تھا وہ اس لڑکی کو ایسے چادر میں لپٹے دیکھے گا۔۔۔

تم ادھر کیا کر رہی ہو لینا۔ نوریز اس کے سامنے گھوٹنوں کے بل بیٹھ گیا تھا۔۔

پتا نہیں ۔۔ لینا بھیگے لہجے میں بولی تھی۔۔

تم اس وقت اپنے گھر میں کیوں نہیں ہو لینا ۔۔۔ نوریز کو اس کی آنکھوں کے دیکھ کر تکلیف ہوئی تھی اس کا دل کٹا تھا۔

اس گھر کی عالیشان زندگی نے مجھے دو کوری کا بھی نہ چھوڑا  نوریز۔ میرا دم گھوٹنے لگا تھا اس کی عالیشان درو دیوار میں ۔ میں چھوڑ آئی وہ عالیشان محل ۔مجھے عیش و عشرت کی زندگی نے برباد کر ڈالا نوریز ۔۔ لینا کی آنکھ سے ایک آنسو گرا تھا۔۔

اس کے الفاظ نے نوریز کو مزید حیران کیا تھا۔ نوریز اس کو دیکھ رہا تھا۔ وہ اس وقت ایک مختلف لینا لغاری کو دیکھ رہا تھا۔ اس کو یقین نہ آ رہا تھا ۔۔وہ خود سے سوال کر رہا تھا کیا چند لمحوں کی اذیت انسان کو بدل دیتی ہے؟ ۔۔ جواب دل سے آیا تھا۔۔  ہاں چند لمحوں کی اذیت انسان کو بدل دیتی ہے جو اذیت انسان کی روح تک جھنجھوڑ ڈالے وہ اس کو بدل دیتی ہے۔ لینا لغاری اس کے سوال کا جیتا جاگتا جواب تھی۔۔

لینا اندر چلو۔۔نوریز کھڑا ہوا تھا۔ لینا نے ایک نظر اس کو دیکھا تھا۔۔

لینا گھر میں چلو۔۔ نوریز نے اس کو مضبوط لہجے میں اب کی بار کہا تھا لینا خاموشی سے اٹھی تھی اور اس کے پیچھے چلی تھی۔۔

وہ دونوں اس وقت ٹی وی لاؤنج میں بیٹھے تھے نوریز خاموشی سے لینا کو دیکھ رہا تھا۔ اس کو سمجھ نہ آ رہا تھا بات کو شروع کہاں سے کرے۔۔۔

پانی پیو لینا۔۔ نوریز نے آخری کار بولنا مناسب سمجھا ۔

پیاس نہیں ۔ جواب مختصر تھا ۔۔

تم کب اپنے گھر سے نکلی ؟ نوریز نے اس کو سوالیہ نظروں سے دیکھا تھا۔

تمہارے چھوڑ جانے کے کچھ وقت بعد ۔۔ لینا نے سر جھکا کر جواب دیا تھا۔

انکل نے نے تمہیں نہیں روکا؟ کیا ان کو نہیں پتا کہ کیا ہوا ہے؟ کیا انہوں نے رابطہ نہیں کیا تم سے؟ نوریز نے اس سے ایک ساتھ بہت سے سوال کیے تھے۔ 

ان کو بتایا کیا ہوا ہے میرے ساتھ ان کی نظر میں میرے ساتھ کچھ نہیں ہوا میں نے آج تک جو کیا ٹھیک کیا۔۔ لینا نے ایک سوال کا جواب دیا تھا۔۔

انہوں نے روکا نہیں ؟ نوریز نے ایک سوال دہرایا تھا۔

رکا مگر میں روکی نہیں ۔۔ کیونکہ مجھے روکنا نہیں تھا۔  لینا نے ایک سرد آہ بھری تھی۔۔

رابطہ کیا انہوں نے؟ اگلا سوال پوچھا گیا تھا ۔۔

یہ فون سامنے پڑا ہے کال لوگ دیکھ لو۔۔ فون اس کے سامنے آن لوک کر کے رکھا تھا اس  نے۔۔

آدھی رات کو گھر سے کیوں نکلی لینا؟ اس نے فکر مندی سے اس کی طرف دیکھا تھا۔۔

اگر میں اس گھر سے نہ نکلتی نوریز تو اس گھر کی گھوٹن مجھے مار ڈالتی  اور اگلے دن میرا مرا وجود نکلتا اس گھر سے ۔۔ اور میں مرنا نہیں چاہتی ۔ میرے پاس سوائے گناہ کے کچھ نہیں نوریز ۔ مجھے ابھی نہیں مرنا نوریز مجھے جینا ہے اپنی غلطیاں سوارنی ہیں ۔ وہ رو پڑی تھی ۔

لینا ۔۔ نوریز نے بےبسی سے اس کو دیکھا تھا ۔ رات کے ان چند لمحات نے اس کے ساتھ کیا کیا تھا ۔

نوریز میرے باپ نے میرے ہر غلط کو صحیح کہا انہوں نے مُجھے کبھی غلط کام سے نہ روکا ۔ لینا روتے ہوئے بولی تھی۔۔

کیا ساری غلطی صرف تمہارے باپ کی ہے؟  کیا تمہاری کوئی غلطی نہیں ؟ نوریز نے اس کو دیکھا تھا ۔

میری بھی غلطی ہے نوریز مگر میری غلطیوں پر مجھے روکا نہ گیا؟ اولاد کی غلطیوں پر ماں باپ ہی روکتے ہیں نوریز ۔ انہوں نے کبھی میری زندگی میں دلچسپی نہ دیکھائی۔۔ لیںا نے سر جھکا لیا تھا۔۔

میں سب جانتا ہوں لینا سب کچھ جانتا ہوں۔ میں اس وقت سے جانتا ہوں تمہیں جب تمہاری موم کی دیتھ کے بعد تمہارے ڈیڈ نے تم پر صرف پیسوں کی بارش کی تھی کبھی تم پر توجہ نہ دی اور تمہاری الیٹ کلاس کے فرینڈ گورپ نے رہی سہی کسر پوری کر دی۔  اس سب کی وجہ سے تم ایک بگڑی ہوئی ریئس زادی بنتی چلی گئی ۔ نوریز نے اس کو سر سے پیر تک دیکھا تھا۔ جبکہ لینا مکمل خاموش رہی ۔۔

لینا تم باشعور تھی ہر فیصلے میں خودمختار تھی تم اپنے مذہب سے دور کیسے چلی گئی ۔ تمہیں بار بار روکتا رہا کہ تم جو کر رہی ہو غلط ہے مگر تم نے کبھی میری بات کی طرف دھیان نہ دیا اور ۔۔ نوریز نے افسوس سے سر جھٹکا تھا اور اپنی بات اُدھوری چھوڑ دی تھی۔

اور میں کبھی بھی نہ سمجھ سکی نہ تمہاری بات کو نہ تمہاری پرواہ کو اور۔۔۔ لینا نے نوریز کی بات کو جاری رکھا تھا اور بولتے ہوئے ایک لمحے کو روکی تھی۔۔

اور نہ تمہارے پیار کو سمجھ سکی نوریز ۔۔ لینا نے شرمندگی سے سر جھکا لیا تھا ۔ اور اس کا آج شرمندگی سے جھکا سر نوریز کو تکلیف دے رہا تھا ۔

لینا ابھی بھی وقت تمہارے ہاتھ میں ہے تم خود کو ابھی بھی سنبھالا سکتی ہو۔ اس دلدل سے نکلنے کا فیصلہ تم تب تک نہیں کر سکتی تھی جب تک اللہ نہ چاہتا ۔۔ نوریز نے اس کو دیکھا تھا جس نے اس کی بات پر سر اٹھا کر اس کو دیکھا تھا۔

مطلب اللہ چاہتے ہیں میں اس دلدل سے نکل آؤ؟ لینا کو اپنی سماعت پر یقین نہ آیا تھا۔۔

لینا اگر اللّٰہ نہ چاہے تو انسان کے دل میں ہدایت کی طرف لوٹ آنے لا خیال بھی نہ آئے دل سے کفر کا جال اللّٰہ ہی اتارتا ہے۔ اور جب دل پر کفر کی مہر وہ لگا دے تو کوئی اس شخص کو ہدایت کی طرف نہیں لا سکتا ۔ نوریز نے لینا کو سمجھنا چاہا تھا۔

مگر میں مسلمان ہو کر کفر بن گئی کبھی دیکھی ہے مجھ سے بدنصیب تم نے۔ لینا کی آنکھ سے ایک انسوں نکلا تھا۔

تمہارے پاس لوٹ آنے کا دورازہ کھولا ہے ۔۔ اس سے پہلے یہ دروازے بند ہو جائے لوٹ آؤ ۔ نوریز اپنی جگہ سے اٹھا تھا ۔

مجھے معاف کر دو نوریز ۔۔ لینا نے اس کو دیکھا تھا۔

کس لیے؟ نوریز موڑا تھا اور ناسمجھی سے لینا کو دیکھا تھا اس نے۔

تمہاری دل آزاری کی ،  تمہاری محبت کو دھتکارا ، تمہارے بار بار روکنے پر نہ روکی ، تم میرے خیر خواہ تھے میں نے تمہاری تزلزل کی۔۔ لینا نے اپنے آنسوں سختی سے صاف کیے تھے۔

تمہیں نہیں لگتا کہ معافی اللّٰہ سے مانگنی چاہیے ؟ میرے دل کی خیر ہے لینا ۔ معافی اس ذات سے مانگوں جس کے حکم کے خلاف تمہارا ہر عمل تھا۔ جس نے جس کام سے روکا تم نے ہر وہ کام کیا۔۔ اور اللہ سے بڑا کوئی خیرخواہ نہیں لینا۔  نوریز نے ہموار لہجے میں کہا تھا اور کچن کی طرف بڑھا تھا۔۔

جبکہ اس کی باتیں لینا کو اندر تک ہلا گئی تھی۔۔ آنسوں اس کی آنکھوں سے بہتے چلے جا رہے تھے ۔ اس کو سینے میں ٹھیس اٹھتی محسوس ہوئی تھی ۔۔ اس نے اپنا چہرہ  ہاتھوں میں گرا لیا تھا اور پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی تھی۔۔

کچن میں کھڑا نوریز یہ سارا منظر دیکھ رہا تھا ۔ اس کا دل چاہا تھا وہ لینا کو اپنی آغوش میں سمیٹ لے مگر نوریز سلطان کو ابھی لیںا لغاری پر کوئی حق ںہ تھا۔۔

•••••••••••••••

عمران لغاری ٹی وی لاؤنج میں خاموش بیٹھے تھے مکمل خاموش آنکھیں سرخ تھی صاف گواہ تھی کہ وہ بہت روے تھے۔۔۔

آپ دوسروں کی بیٹیوں کے سودے کرتے ہیں کہ وہ مردوں کا دل بھلائیں ۔۔ اس نے آپ کی بیٹی اپنے بیٹے کا دل بھلانے کے لیے کڈینپ کی۔ یہ الفاظ  عمران لغاری کے کان میں ایک بار پھر سے گونجنے لگے تھے انہوں نے سختی سے آنکھیں بینچ لی تھی۔

ایک سوال پوچھوں آپ سے ڈیڈ؟ عزت کیا ہے؟ حیا کیا ہے؟۔۔ان الفاظوں پر عمران صاحب کے ہاتھ کانپے تھے انہوں نے ہاتھ اپنے چہرے پر پھیرا تھا۔ آنسوں آنکھوں سے نکل رہے تھے ۔۔

میں بھی کتنی پاگل ہوں نہ آپ سے یہ سوال کر رہی ہوں۔۔ جو خود ایک بیٹی کے باپ ہونے کے باوجود نہ جاننے کتنوں کہ بیٹیوں کے عزت کا سودا کر چکے ہیں۔۔۔ ان الفاظ پر عمران صاحب نے اپنے ہاتھوں کو دیکھا تھا۔۔  اور انسوں ان کی آنکھوں سے شدت سے گرنے لگے تھے۔۔

کہا بیٹیوں کی تربیت ایسے کی جاتی ہے ڈیڈ؟ عمران صاحب نے اپنے بال موٹھی میں جکڑ لیے تھے۔۔

آپ کو ایک بار خوف نہ آیا کہ اگر سب کچھ پلٹ کر آپ کے گھر کی دہلیز پر آ گیا تو۔ آنا کیا آ گیا ہے ؟ ۔۔ الفاظ تھے یا تھپڑ عمران صاحب کو سمجھ نہ آ رہی تھی ۔۔۔

آپ ایک بیٹی کی تربیت میں ناکام ہو گئے ڈیڈ ۔۔ یہ الفاظ عمران صاحب کا ضبط توڑ گئے تھے اور وہ ایسے ہی سر پکڑے پھوٹ پھوٹ کر کیسی بچے کی طرح رونے لگے تھے ۔ صوفے سے گر کر زمین پر بیٹھے تھے ۔ ساری رات لینا کے الفاظ ان کے کانوں میں گونجتے رہے تھے ساری رات وہ ایک تلخ حقیقت سے منہ موڑتے رہے تھے ۔۔ ساری رات ایک ایسی اذیت میں گزاری تھی کے اس وقت وجود تھک گیا تھا۔ ساری رات ان لڑکیوں کو خیال ذہین میں آیا جن کو بےابرو کیا تھا۔۔

زمین پر گرے وہ کانپتے ہاتھوں کو اپنے سامنے کیے آنسوں بہاتی آنکھوں سے ان ہاتھوں کو دیکھ رہے تھے ۔  

میں کیسے بتاؤ لینا ۔۔۔۔ ان۔۔۔ ہاتھ۔۔۔۔ ان کے الفاظ آدا نہ ہو پائے تھے۔

ان۔۔۔ ہاتھ ۔ ہاتھوں نے صرف ۔۔۔ دوسروں کی۔۔ بیٹیوں کے۔۔ سودے۔۔ نہیں کیے ۔۔ ان ہاتھ ۔۔ ہاتھوں نے ۔ عزتیں ۔۔۔ بھی پامال کی۔۔۔ ہیں ۔۔ وہ روتے ہوئے بولے تھے۔۔

ہاں ۔۔ میں ناکام رہا۔۔ ایک بیٹی کی۔۔ تربیت نہ کر سکا ۔۔ مجھ جیسا شخص بیٹی ۔ کیا۔۔۔ بیٹا بھی برباد کر۔۔۔ دیتا۔۔۔ ایک تکلیف دل میں اٹھی تھی۔۔

میں ۔۔ تمہارا مجرم ہوں ۔۔۔ میری بچی۔۔۔ مجھے انصاف کے دن ۔۔۔ معاف نہ کرنا ۔ وہ بے تحاشہ رو رہے تھے ۔۔

میں نے ۔ خود کو برباد کیا تو کیا۔۔ بیٹی کو ساتھ اس بربادی کی۔۔ دلدل میں آتار لیا۔۔ ایک زور دار تھپڑ عمران صاحب نے اپنے منہ پر مارا تھا۔۔

یہ کیا کیا میں نے۔۔ ایک اور تپھڑ انہوں نے خود کے منہ پر مارا تھا۔۔

لینا مجھے تم وہ آئنیہ دیکھا گئی جو میں ۔۔۔ میں کبھی نہ دیکھنا چاہتا ۔۔ عمران صاحب نے اپنے بال موٹھی میں جکڑ لیے تھے ۔  اس وقت ان کا دل نہیں روح جیسے اس تکلیف میں تھی۔۔۔

ساری رات وہ اس درد کو جھیل رہے تھے جیسے اب ان کا جسم اس تکلیف کو مزید برداشت نہیں کر سکتا تھا۔۔ وہ کافی دیر تک ادھر بیٹھے روتے رہے تھے پھر اٹھ کر شیکستہ قدم اُٹھاتے اپنے کمرے کی طرف بڑھے تھے۔۔۔  اپنے کمرے میں جا کر دورازہ بن کرنا بھی یاد نہ رہا تھا۔۔

آنکھوں سے آنسوں مسلسل بہہ رہے تھے انہوں نے روکنے اور صاف کرنے کی بھی زحمت نہ کی تھی ۔ کانپتے ہاتھوں سے الماری کو کھولا تھا اور سامنے پڑی گن کو کانپتے ہاتھوں سے اٹھایا تھا ۔۔۔

وہ قدم قدم چلتے بیڈ پر جا کر بیٹھ گئے تھے ۔ ایک رات ایک رات نے سب بدل ڈالا تھا وہ جو کل اپنے ہر کام پر نازہ تھا آج اس کو اس سب کاموں سے گھین آ رہی تھی آج اس کو اپنے وجود سے نفرت پو رہی تھی۔۔۔ ایک رات زندگی کا وہ بدصورت روپ دیکھا گیا تھا کہ عمران لغاری کا دل کر رہا تھا کے زمین پھیٹے اور اس میں سما جائے ۔ انہوں نے آنکھیں سختی سے بند کی تھی اور گن کن پٹی پر رکھ لی تھی۔۔

اب تک کی ساری زندگی ایک فیلم کی طرح ان کی نظروں کے سامنے سے گزر رہی تھی۔۔ آنسوں آنکھوں سے بہہ رہے تھے ۔۔ ایسا کون سا جرم تھا جو انہوں نے نہ کیا تھا ایسی کون سے خطا تھی جس سے دمن خالی تھا۔۔  وہ بس روتے چلے جا رہے تھے آنسوں ان کے چہرے سے پھسل کر ان کے دامن میں گر رہے تھے۔۔ وہ اس وقت ایک ایسے ہارے ہوئے جواڑی تھے جس نے اپنا سب کچھ لوٹایا تھا ایک دولت کے لیے یہاں تک کہ اولاد کی زندگی بھی اس ہی کی نظر کر دی۔۔ ان کے پاس اب کچھ نہ تھا کچھ بھی نہ۔

مجھے معاف کر دینا لینا میں تمہارا مجرم ہو۔۔۔ ہر لحاظ سے تمہارا مجرم ہوں۔۔ خود کے ساتھ ساتھ تمہیں بھی بربادی کی راہ پر لے آیا ۔۔ عمران صاحب بھر آئی آواز میں بولے تھے۔۔

میں نہیں بن سکا اچھا باپ نہ دی تمہیں توجہ ، نہ روکا تمہیں غلط سے۔ تمہیں نہ بتایا کہ عورت کی عزت کتنی نازک چیز ہے۔ کیسے بتاتا تمہیں کیسے سیکھاتا تمہیں میں نے خود کبھی عورت کو عزت کی نظر سے نہ دیکھا لینا ۔۔ میں خود ایک ایسا درندہ تھا جو۔ جسم نوچتا تھا۔۔۔ ان کی آواز بہت بلند تھی بہت بلند وہ کیسی بچے کی طرح رو رہے تھے بے تحاشہ رو رہے تھے۔۔ گن پر اپنی گرفت مضبوط کی تھی انہوں نے۔۔

اور اگلے لمحے ہی گولی چلنے کی آواز آئی تھی۔۔ گن ہاتھ سے گری تھی اسی کے ساتھ عمران صاحب کا بےجان وجود بیڈ پر ایک طرف گرا تھا بیڈ شیٹ ساری خون سے بھرتی چلی گئی تھی۔ آنکھیں ویسے کی ویسے کھولی تھی اور آنسوں آنکھوں میں ویسے ہی موجود تھے ۔۔

ساری زندگی جس شخص نے گناہ میں کاٹی تھی۔ نہ جانے کتنے گھروں کو برباد کر چکا تھا کتنی لڑکیوں کی عزتوں کو پامال کر چکا۔ کتنے لوگوں کو اذیت میں مبتلا کر چکا تھا۔۔ آج اس کی زندگی میں ایک رات اذیت کی آئی تھی۔ اس کے سب گناہ اس کے سامنے آ کھڑے ہوئے تھے اس کی گھر کی دہلیز پار کر چکے تھے اور وہ یہ  اذیت ایک رات کے لیے بھی برداشت نہ کر سکا ۔  اور اس ایک رات کا اختتام اور اگلے دن کی چڑھتی صبح اس شخص کے باب کے اختتام پر تھی ۔۔۔

•••••••••••••••

 سٹیڈی روم کی کھڑکیوں سے سورج کی نرم گرم کرنیں سٹیڈی روم میں داخل ہو رہی تھی۔۔ نواز ہاتھ میں کچھ ریوپوثس لیے اور تصویر لیے زمین پر بیٹھا تھا۔۔ آنکھیں بے خوابی اور رونے کی وجہ سے سرخ تھی۔ چہرے پر بے یقینی اور حیرت کی مہر لگی ہوئی تھی آواز تھے کے گلے میں دم توڑ گئے تھے۔۔

ساری رات اس نے سٹیڈی میں گزاری تھی۔۔اس کو یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ اس کے باپ نے اس سے اتنا بڑا سچ چھپایا ۔ اس کا باپ دولت کے لالچ میں اس حد تک گر سکتا تھا۔۔ نوریز کا بتایا سچ واقع ہی ایک بہت کڑوا تھا۔۔ حقیقت جب سامنے آ کر کھڑی ہوئی تو آج واقع ہی نواز سے اس کے قدموں پر کھڑا ہونا محال ہو گیا تھا۔ اس کو ایسا تھپڑ پڑا تھا منہ پر کے وہ ہوش میں آ گیا تھا۔۔

میں نے کھول لیے ماضی کے تلخ حقیقت کے پننے نوریز ۔۔ تم ٹھیک تھے ۔ حقیقت جانے کے بعد میں واقع ہی اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں رہ سکا ۔ ایک انسو نواز کی آنکھوں سے اس کے ہاتھ کی پشت پر گرا تھا۔۔

اس نے حیرت سے اس انسو کو دیکھا تھا۔۔ اس کی آنکھوں سے مزید انسوں بہنے لگے تھے جن کو اس نے روکا نہ تھا۔ ایک کے بعد ایک آنسو اس کے ہاتھ کی پشت پر گرتے چلے گئے تھے۔۔ اور کچھ یاد آنے پر وہ اپنی جگہ سے اٹھا تھا اور سٹیڈی سے باہر نکلا تھا۔۔

وہ تیز تیز قدم اٹھاتا ایک کمرے کی طرف بڑھا تھا۔۔ وہ کمرا کیسی اور کا نہیں عثمان سلطان کا کمرا تھا۔۔  نواز نے زور سے کمرے کا دروازہ نوک کیا تھا۔۔

کون ہے۔۔ اندر سے عثمان صاحب کی سخت آواز گونجی تھی ۔

دروازہ کھولیں ڈیڈ مجھے بات کرنی ہے ۔۔ نواز نے اپنا لہجہ نارم رکھنا چاہا تھا مگر وہ چاہا کر بھی ایسا نہ کر سکا تھا۔۔۔

اور کچھ دیر میں  کمرے کا دروازہ کھولنے کی آواز آئی تھی۔۔ اور عثمان صاحب اپنے نائٹ سوٹ میں اس کے سامنے کھڑے تھے۔۔

کیا بات ہے نواز ۔۔ تم ٹھیک ہو۔۔ نواز کی حالت دیکھ کر عثمان صاحب پریشان ہوئے تھے۔۔

آپ میرے کچھ سوالوں کا جواب دیں گے؟ وہ اپنے سامنے کھڑے اپنے باپ کو دیکھتا بولا تھا۔۔ اور کمرے کے اندر گیا تھا ۔

کیسے سوال ؟ عثمان صاحب کو اس کے اس اکھڑے ہوئے روائیے نے پریشان کیا تھا ۔

موم کی ڈیتھ کیسے ہوئی تھی؟ نواز نے جانچتی نظروں سے عثمان صاحب کو دیکھا تھا۔۔

جبکہ نواز کے اس سوال پر عثمان صاحب نے اس کی طرف دیکھا تھا جیسے ان کو آج نواز کی ذہنی حالت پر شک ہو۔۔

تمہیں تمہاری ماں کی موت پر بھی بتایا تھا کہ اس نے خودکشی کی تھی ۔۔ عثمان صاحب چلتے اس کے سامنے آ کر روکے تھے۔۔

خودکشی ؟ واقع ہی؟ نواز نے سوالیہ نظروں سے ان کو سر سے پیر تک دیکھا تھا۔۔۔

ہاں نواز۔  عثمان صاحب نے پر سکون ہو کر جواب دیا تھا۔۔

آپ کے کتنے بچے ہیں ڈیڈ ۔۔ نواز نے اگلا سوال کیا تھا اور یہ وہ سوال تھا کہ عثمان صاحب کو اپنے پاؤں سے زمین نکلتی محسوس ہوئی تھی۔۔ وہ فوراً موڑے تھے اور بیڈ کی سائیڈ پر پڑا پانی کا گلاس اٹھا کر لبوں سے لگایا تھا کہ گلا کچھ تر ہو۔۔ ان کو نواز سے اس سوال کی امید نہ تھی۔

یہ کیسا سوال ہے نواز میری اولاد تو بس تم دو بھائی ہو ۔۔ اور تم آج اچانک یہ سوال کیوں کر رہے ہو۔ عثمان صاحب نے گلاس رکھتے ہوئے اس کو جواب دیا تھا۔۔

مجھے  کچھ پتا چلا تو بس اس لیے پوچھا۔۔ نواز نے ان کا چہرہ غور سے دیکھا تھا۔۔

الٹی سیدھی باتوں پر دھیان نہ دو۔۔ میرے بس دو بیٹے ہیں ۔۔ نوریز اور نواز ۔۔ عثمان صاحب اپنا لہجہ مضبوط کرتے بولے تھے ۔

مگر ان رپورٹس میں تو کچھ اور لکھا ہوا ہے۔۔ نواز نے وہ ریورٹ اگے بڑھ کر ٹیبل ہر پھینکی تھی ۔۔

عثمان صاحب نے ٹیبل پڑ گری اس ریورٹ کو دیکھا تھا اور پھر سامنے کھڑے نواز کو ۔۔ ان کا چہرہ سفید پڑ گیا تھا۔۔ انہوں نے کانپتے ہاتھوں سے وہ ریورٹ اٹھائی تھی ۔

آپ کے ہاتھ کیوں کانپ رہے ہیں ڈیڈ۔۔ نواز نے عثمان صاحب کے کانپتے ہاتھوں پر چوٹ کی تھی۔۔۔

یہ سب بکواس ہے۔۔ عثمان صاحب نے وہ ریورٹ ایک طرف پھینکی تھی۔۔۔

یہ بکواس آپ کے سٹیڈی ٹیبل کے دراز سے نکال کر لایا ہوں میں ۔۔ نواز طنزیہ بولا تھا۔۔

یہ بکواس ہے سر آ سر بکواس ہے۔۔ عثمان صاحب نے اس رپورٹ کہ طرف اشارہ کیا تھا۔۔

کدھر ہے وہ؟ نواز خود کو نارمل کرتا عثمان صاحب سے مخاطب ہوا تھا۔۔۔

کون ؟ عثمان صاحب فوراً انجان بنے تھے ۔

آپ کی بیٹی ڈیڈ ۔۔ آپ کی بیٹی کدھر ہے؟ میری بہن کدھر ہے؟ نواز کی آواز بلند ہوئی تھی ۔

میری کوئی بیٹی نہیں ہے اور نہ ہی تمہاری کوئی بہن۔۔۔ عثمان صاحب کی بھی آواز بلند ہوئی تھی۔۔

آپ نے موم کو مارا تھا ڈیڈ آپ موم کے قاتل ہیں ۔۔ نواز نے عثمان صاحب کو افسوس کرتی نظروں سے دیکھا تھا۔۔۔

یہ سب بکواس ہے  صرف اور صرف بکواس ۔۔۔ ایسا کچھ نہیں ہے تمہاری ماں نے خود کو مارا تھا کیونکہ وہ ایک بزدل عورت تھی کمزور عورت تھی۔۔ عثمان صاحب کی آواز بلند ہوئی تھی۔۔

میری ماں بزدل اور کمزور عورت نہیں تھی بلکہ آپ ایک کم ظرف مرد تھے جس نے بیٹی کی پیدائش کا سن کر اس کے پیدا ہونے سے پہلے اس کا سودا کر دیا اور اس کی بیوی نے اس کو روکنا چاہا تھا اس کو مار ڈالا ۔۔ نواز غصے سے ڈھارا تھا اور پاس پڑی ٹیبل کو اس نے زور سے ٹھکر ماری تھی۔۔

جبکہ نواز کے منہ سے وہ سب الفاظ سن کر عثمان صاحب حیرت سے اس کو دیکھنے لگے تھے۔ جس حقیقت کو انہوں نے سالوں سے اس سے چھپا رکھا تھا وہ آج سامنے کیسے آ گئی تھی وہ تو اس بات سے پریشان ہوئے تھے۔

تمہیں یہ سب بکواس اور فضولیات کس نے بتائی ہیں ۔۔ عثمان صاحب اس کو حیرت سے دیکھ رہے تھے۔۔

اس سے جو آپ کو باپ تک نہیں مانتا اپنا ۔۔ جس نے ایک ایک منظر دیکھا تھا ۔۔ جس سے آپ کو بےتحاشہ محبت اور اس کو آپ کی محبت سے بڑھ کر نفرت ہے۔۔ آپ  کے اپنے خون نے۔۔ نواز نے طنزیہ نظروں سے ان کو دیکھا تھا۔۔

اور یہ الفاظ نہیں باریک نوکیلا خنجر تھا جیسے نواز نے عثمان صاحب کے سینے میں مارا تھا۔۔ اس کے الفاظ عثمان صاحب کو اندر تک جھنجھوڑ گئے تھے۔۔ وہ کیسے بھول گئے تھے جب انہوں نے اپنی بیوی کو مارا تھا ایک دس سال کا بچہ ادھر ہی تھا۔ جس نے اپنے چھوٹے ہاتھوں سے دروازہ بجا بجا کر لاتعداد بار اپنی ماں کی زندگی کی بھیک مانگی تھی۔ جس کے سامنے وہ اس کی چھوٹی بہن کو لے کر باہر نکلے تھے۔۔ جو ان کے لوٹنے سے پہلے اپنی ماں کے بےجان وجود کے پاس بیٹھا تھا بلکل خاموش ، اس کی آنکھوں میں انسو نہ تھا اس کے چہرے پر ہنسی نہ تھی وہ بچہ چپ ہو گیا تھا۔ اس دن کے بعد سے عثمان صاحب اس بچے کی ہنسی سنے اس کی باتیں سنے کو ترس گئے تھے۔۔ عثمان صاحب کیسے بھول گئے تھے ان کے گناہ کا گواہ ان کا اپنا خون تھا۔ ایک بیٹے سے انہوں نے حقیقت چھپا لی تھی وہ کیسے بھول گئے دوسرا بیٹا اس حقیقت کے ایک ایک پہلو کو جانتا ہے اس حقیقت کا اک لوتا گواہ ۔۔۔

تمہیں یہ سب ۔۔ ن۔۔۔ نو۔۔۔۔۔نوریز۔۔۔ نے بتایا ہے۔۔ عثمان صاحب کو آج پہلی بار نوریز کا نام مشکل لگا تھا پہلی بار ان کی زبان نے اس کا نام آدا کرنے سے انکار کیا تھا۔۔

ہاں مجھے نوریز نے بتایا ہے۔۔ آپ کے اس بیٹے نے جس کو سنے کو آپ ترستے ہیں جس کی توجہ آپ کو چاہیے جس کی محبت آپ کو چاہیے ۔ مگر افسوس ڈیڈ آپ نے جس دن اس کی ماں کو مارا تھا اس دن اس نے اپنے لیے اپنا باپ مار دیا تھا۔ آپ اس کے لیے کچھ نہیں ہیں ۔۔ نواز عثمان صاحب کو سر سے پیر تک دیکھتا بولا تھا۔۔

ایسا نہیں ہو سکتا۔۔ عثمان صاحب صوفے پر بیٹھتے چلے گئے تھے۔۔

ایسا ہو چکا ہے ڈیڈ۔۔ آپ نے ایسا کیوں کیا ۔۔ بولیں کیوں مارا موم کو کیوں بیچا اپنی بیٹی کو میری بہن کو۔۔ نواز کہ آواز بلند ہوئی تھی ۔

جبکہ عثمان صاحب خاموش تھے مکمل خاموش ان کے دماغ میں کچھ اور چل رہا تھا۔۔ اور شاید بہت کچھ  چل رہا تھا۔۔

جواب دیں ڈیڈ کیوں مارا موم کو  کیوں بیچا میری بہن کو؟ ۔ نواز پھر سے چیخا تھا۔۔

ہاں ہاں میں  نے مارا ہے اس بزدل عورت کو کیونکہ وہ بزدل اور کمزور عورت ایک بچی کی ماں بن گئی تھی۔۔ اور جب میں اس منہوس بچی کو بیچنے لگا تو مجھے روک رہی تھی اور اگر اس دن اس کو نہ بیچتا تو آج جس گھر میں تم کھڑے ہو یہ گھر ہمارا نہ رہتا ۔۔ عثمان صاحب اپنی جگہ سے اٹھے تھے اور غصے میں دھاڑے تھے ۔

کیا مطلب ۔۔۔  نواز نے حیرت سے اپنے باپ کو دیکھا تھا۔۔

مطلب یہ کے مجھے پیسوں کی ضرورت تھی گھر گروی رکھ دیا تھا میں نے اگر میں اس بچی کا سودا نہ کرتا تو یہ گھر ہاتھ سے چلا جاتا۔۔ عثمان صاحب سخت نظروں سے اس کو دیکھتے بولے تھے۔۔

آپ نے اس گھر کے لیے بیٹی بچ دی؟ نواز کو حیرت ہوئی تھی۔۔

ارے بیٹی چاہیے کس کو تھی۔۔ بیٹی کا پیدا ہونا مطلب سر پر بوجھ ۔ اور میں منہوسیت اپنے گھر میں ہر گز نہیں رکھنا چاہتا تھا تو بچ کر جان چھڑا لی ۔  عثمان صاحب نے اپنے منہ سے آج اپنے اندر چھپا زہر اگلا تھا ۔

وہ آپ کا خون تھی ڈیڈ ۔۔ نواز نے حیرت سے اس شخص کو دیکھا تھا جو اپنی بیٹی کے لیے یہ بول رہا تھا۔۔

لعنت بھیجتا ہوں میں اپنے ایسے خون پر ۔۔ بیٹا ہوتا تو ٹھیک تھا بیٹی کا میں نے آچار ڈالنا تھا ۔ عثمان صاحب حقارت سے بولے تھے ۔

اولاد اولاد ہوتی ہے ڈیڈ ۔۔ نواز سخت لہجے میں بولا تھا ۔

مگر بیٹی کی صورت میں بوجھ ہوتی ہے۔۔ اس کی ذرہ سی غلطی اور عزت کی رسوائی۔ جس کام میں میں ہوں اس کام میں صرف عذاب ہے بیٹی ہر وقت ڈر لگا رہے کوئی دشمن اس تک نہ پہنچ جائے ۔۔ کتنی لڑکیوں کی عزت پامال کر چکے ہو تم ابھی بھی معلوم نہیں ہوا عورت ذات  بس کمزوری کا نام ہے ۔ جس گھر میں بیٹی ہو اس گھر پر بس بوجھ ہوتا ہے۔ عثمان صاحب حقارت سے بولے تھے۔۔

جبکہ عثمان صاحب کی سب باتیں سن کر نواز مکمل کانپ گیا تھا۔۔ اور جس بات نے ا سکو جھنجھوڑا تھا وہ بات عزت پامال کرنے کی تھی۔ اس نے حیرت سے اپنے باپ کو دیکھا تھا ۔ ایک تلخ مسکراہٹ نے ہونٹوں پر جگہ لی تھی ۔

شکریہ ڈیڈ ۔ بہت بہت شکریہ ۔۔ آنکھوں پر ایک پٹی جو باندھی تھی اس کو اتارنے کے لیے۔۔ نواز عثمان صاحب کے بلکل سامنے جا کر کھڑا ہوا تھا۔۔

کیا مطلب ۔۔۔ عثمان صاحب نے اس کو دیکھا تھا۔۔

آپ نے جو زہر اگلا۔ وہ سب کافی ہے ہوش میں لانے کے لیے ۔ آپ کو بیٹی اصل میں اس وجہ سے نہیں  چاہیے تھی کہ جو کچھ آپ دوسروں کی بیٹیوں کے ساتھ کر چکے ہیں وہ آپ کی بیٹی کی صورت میں آپ کی دہلیز پر نہ آ جائے۔ اصل میں آپ ایک بیٹی کے باپ بنے کے قابل ہی نہ تھے ڈیڈ ۔۔ نواز نے عثمان صاحب کو افسوس سے بھری نظروں سے دیکھا تھا۔۔

میں ایک بیٹی کا باپ بنے کے قابل نہ تھا ذرہ اپنے گریبان میں بھی جھانکوں نواز ۔۔ عثمان صاحب غصے سے بولے تھے۔۔

جھانک چکا ہوں ڈیڈ جھانک چکا ہوں۔۔ اور خود سے نفرت کء سوا کچھ نہیں ہو رہا اس وقت۔۔۔ نواز افسوس سے بولا تھا۔۔

کمزور ماں کا کمزور بیٹا۔۔ عثمان صاحب ناگواری سے بولے تھے۔۔۔

کمزور موم نہیں تھی ڈیڈ کمزور آپ ہیں۔۔ آپ کو معلوم تھا آپ ایک بیٹی نہیں پال پائیں گے اس کی حفاظت نہیں کر پائیں گے۔ کیونکہ جس کے قہر سے دوسروں کی بیٹیاں محفوظ نہیں وہ اپنی بیٹی کو کیسے محفوظ رکھے گا۔۔ نوریز کی نفرت جائز ہے ڈیڈ ۔۔ اور آج مجھے آپ سے اتنی نفرت نہیں ہو رہی جتںی خود سے ہو رہی ہے اس وقت۔۔ یہ کہہ کر نواز باہر کہ طرف بڑھا تھا۔۔

اور ہاں بیٹی بوجھ بھی ان کے لیے ہوتی ہے جن کے کندھوں پر دوسروں کی بیٹیوں کی بربادی کا بوجھ ہو۔  شکریہ ڈیڈ  بے شک دیر سے ہی سہی مگر آپ آج  ہوش میں لے آئے ۔۔ نواز یہ کہہ کر کمرے سے نکل گیا تھا ۔

عثمان صاحب خاموش بیٹھے اس دروازے کو دیکھ رہے تھے جہاں سے ابھی نواز گیا تھا۔۔

میں کمزور نہیں ہوں ۔۔ بیٹی بوجھ ہی ہوتی ہے میں نے کچھ غلط نہیں کیا ۔۔  تمہاری ماں ایک بزدل عورت تھی ۔۔۔ عثمان صاحب خود کلامی میں بولے تھے ۔۔

نوریز اتںے وقت سے سب جانتا تھا خاموش کیوں رہا اتنے وقت سے۔ عثمان صاحب کچھ سوچتے ہوئے بولے تھے ۔ اور ایک سرد آہ بھر کر رہ گئے تھے۔۔۔ ان کو سمجھ نہ آ رہا تھا کیا کریں وہ ۔۔ انہوں نے سر صوفے کی پیشت سے ٹیکا لیا تھا۔۔

••••••••••••••

 اس کی آنکھ ابھی کھولی تھی جب اس کی نظر بالکہنی میں یٹھی جزا پر گئی تھی۔۔ نور خاموشی سے اپنے بیڈ سے اٹھی تھی اور بالکہنی کی طرف گئی تھی۔۔

کب اٹھی ہو تم ۔۔ نور نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا۔۔۔

بس کچھ وقت ہی ہوا ہے اٹھے۔۔ اس نے سامنے سورج کی پھیلتی کرنوں کو دیکھا تھا۔۔

جزا کیا سوچ رہی ہو۔نور نے اب کی بار اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا تھا۔

یہ ہی کہ پہلے کس بارے میں سوچوں ۔۔ چہرے پر زخمی سی مسکراہٹ نے جگہ لی تھی ۔

تم خود کو کیوں الجھا رہی ہو جزا۔ نور نے اس کو پریشانی سے دیکھا تھا۔۔

میں خود کو نہیں الجھا رہی نور مجھے میری زندگی نے الجھا دیا ہے۔ اس نے ایک سرد آہ بھری تھی ۔

مگر خود پر کچھ تو رحم کھاؤ جزا تم کیا تھی اور کیا ہو گئی ہو۔ نور کی آنکھیں نم ہوئی تھی ۔

مجھے پر زندگی نے رحم کیا؟ جزا نے اس کی طرف دیکھا تھا جبکہ اس کے اس سوال پر نور خاموش ہو گئی تھی ۔

میں جو تھی میں وہ نہیں رہی میں مانتی ہوں۔ کیونکہ جو شخص اپنا سب کچھ کھو دے وہ کبھی بھی وہ نہیں رہتا جو وہ پہلے ہوتا ہے۔۔ تکلیفیں انسان کو وہ بنا دیتی ہیں جو وہ بنانا نہیں چاہتا۔ جزا نے زخمی مسکراہٹ سے نور کو دیکھا تھا۔۔

مگر جزا۔۔ نور نے کچھ بولنا چاہا تھا۔۔

نور میں انتقام کے راستے کی مسافر ہوں۔ مجھے خون کے بدلے خون چاہیے ہے۔ میرا ظرف اتنا بڑا نہیں کے میں اپنے ماں باپ اور پھوپھو، بہن کے ناحق قتل کو معاف کر دوں۔۔ جزا نے کا لہجہ مضبوط تھا۔۔

جزا سویرا کے ساتھ جو کچھ ہوا ۔۔۔ نور نے جزا کو دیکھا تھا۔۔

میری آنکھوں کے سامنے سب کچھ ہوا ہے نور میری بہن کو بے آبرو میری آنکھوں کے سامنے کیا گیا مجھے مجبور کیا گیا اس کی بربادی دیکھنے پر اس کو میرے سامنے مارا گیا۔ میں نے اس کی زندگی کی بھیک مانگی تھی نور ۔۔ میں اس شخص کو آسان موت نہیں دوں گئی نور۔۔ جزا کی آنکھیں سرخ ہوئی تھی۔ لہجہ زخمی ہوا تھا۔۔

جبکہ نور خاموشی سے بس اس کو دیکھ رہی تھی۔ اس کو اندازہ بھی نہ تھا جزا اس اذیت سے گزر چکی ہے۔ جزا کے الفاظوں نے نور کے سب الفاظ منہ میں ہی مار دے تھے ۔ نور خاموش ہو گئی تھی مکمل خاموش ۔

نور میں اس شخص کو معاف نہیں کر سکتی ۔ اتنا ظرف نہیں ہے میرا ۔۔ جزا  کے لہجے میں اس شخص کے لیے نفرت صاف تھی۔

اس کو معاف کرنا بنتا بھی نہیں ہے۔ نور نے اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھا تھا۔۔

اور اب ان کے درمیان خاموشی تھی ۔۔ جس کو نور نے ہی توڑا تھا۔

ویسے ایک بات تو بتاؤ جب ابراہیم انکل کے گھر سے آ رہے تھے تو زوریز بھائی نے کیا کہا تھا۔ نور نے شرارت سے جزا کو دیکھا تھا ۔

دماغ خراب نہ کرو میرا۔ جزا نے اس کو گھورا تھا۔۔

ویسے اتنی ناراضگی اچھی نہیں ۔۔ نور نے کندھے اوچکا کر کہا تھا ۔

مجھے لگتا ہے تمہیں اپنے زوریز بھائی سے کافی ہمدردی ہے۔۔ جزا نے اس کو سخت نظروں سے دیکھا تھا۔۔

اب وہ میری عقل سے پیدل بہن کو جھیل رہے ہیں تو ہمدردی ہی ہو گئی نہ۔ نور نے اپنے قہقہے کا گلا گھونٹا تھا۔۔

نورررررر۔۔۔ جزا نے غصے سے اس کی بازو پر تھپڑ مارا تھا۔۔ اور اس کے ساتھ ہی نور ہسنے لگی تھی۔۔

تم بھار میں جاؤ ۔ جزا اس کو ہستا دیکھ اس کو مکا مار کے اٹھی تھی۔۔

کدھرجا رہی ہو اب۔ نور اس کو جاتا دیکھ کر بولی تھی۔۔

جہنم میں جا رہی ہوں تم بیٹھ کر اپنے زوریز بھائی کے لیے ہمدردی کا کام کرو ۔ جزا دانت پیس کر بولی تھی۔۔

کتنا جلتی ہو اپنے میاں سے تم۔ نور نے اس کو مزید چھیڑ تھا۔

جلتی ہے میری جوتی اس سے۔ جزا یہ کہہ کر کمرے سے باہر نکل گئی تھی۔۔

••••••••••••••••••

نوریز ابھی کچن میں گیا تھا ناشتے کے برتن لے کر اور لینا خاموش سے ڈائینگ پر بیٹھی ہوئی تھی ۔۔ جب اس کا دھیان اس کے فون کی رنگ ٹون نے اپنی طرف کھینچا تھا۔۔

اس نے فون کو اٹھا کر نمبر دیکھا تھا۔۔ اس کے گھر کے لینڈ لائن   سے کال تھی۔۔ اس نے فوراً سے  کال اٹھائی تھی۔۔  

ہیلو ۔۔۔ اس نے فون کان کے ساتھ لگایا تھا۔۔

لینا میم آپ جلدی سے گھر آ جائیں ۔۔ کیسی ملازم کی آواز تھی۔

کیا ہوا ہے۔ لینا اس کی آواز کے لرزش بھانپ گئی تھی۔۔

میم سر نے خودکشی کر لی ہے۔ ملازم کانپتی آواز میں بولا تھا۔۔ اور یہ الفاظ سنتے ہی لینا کے ہاتھ سے فون گرا تھا۔۔

فون گرنے کی آواز پر نوریز نے موڑ کر دیکھا تھا۔۔ لینا کا چہرا سفید تھا۔ اور وہ بلکل ساکت بیٹھی تھی۔ نوریز کو کچھ غلط ہونے کا احساس ہوا تھا۔۔ وہ فوراً لیںا کے پاس باہر آیا تھا۔۔

لینا کیا ہوا ہے۔۔ نوریز نے اس کو مخاطب کیا تھا مگر کوئی جواب نہ ملا تھا۔۔ اس نے فون اٹھا کر دیکھا تھا۔ جہان سکرین پر ایک درار آ گئی تھی۔ نوریز نے سکرین پر پریس کیا تھا مگر سکرین ویسے کی ویسے تھی ۔ نوریز نے فورآ اپنا فون نکال تھا اور نمبر ڈائل کیا تھا ۔

نمبر ڈائل کر کے اس نے فون کان سے لگایا تھا۔۔ اور ساتھ لینا کو پریشانی سے دیکھا تھا جو بلکل ساکت تھی۔۔

لینا کچھ بولو کیا ہوا ہے۔۔ نوریز فکرمندی سے اس کو دیکھ رہا تھا کیونکہ لینا کی آنکھیں نم ہو رہی تھی ۔۔ اس کی آنکھوں سے آنسوں نکل رہے تھے۔۔

ہیلو۔۔۔ دوسری طرف سے کال اٹھا لی گئی تھی ۔

میں  نوریز بات کر رہا ہوں مجھے بتاو کیا ہوا ہے ابھی لینا کو کال پر کیا بتایا ہے۔۔ نوریز فوراً مدعے کی بات پر آیا تھا۔۔

عمران صاحب نے خودکشی کر لی ہے نوریز صاحب ۔ اس ملازم کی آواز فون کے سپیکر پر سے گونجی تھی ۔ نوریز کو اپنی سماعت پر یقین نہ آیا تھا۔۔ وہ جو لینا کے کندھے پر ہاتھ رکھنے لگا تھا ادھر ہی روک گیا تھا۔ اس نے فوراً فون کان سے ہٹایا تھا اور ایک طرف رکھا تھا۔۔

لینا ۔۔۔ نوریز خود کو نارمل کرتے پھر سے اس کو بولا رہا تھا مگر وہ سن کہاں رہی تھی۔۔

لینا تم میری بات سن رہی ہو۔ نوریز نے اب کی بار اس کو جھنجھوڑ ڈالا تھا۔۔۔

لینا نے حیرت سے نوریز کو دیکھا تھا ۔۔ جیسے وہ کیسی اثر سے باہر نکلی ہو ۔ جبکہ نوریز اس کے ساتھ والی کرسی پر بیٹھا تھا ۔۔

نوریز ۔۔ ڈ۔۔۔۔ڈی۔۔۔ڈیڈ۔۔۔۔ لینا کی آنکھ سے ایک آنسو گرا تھا ۔۔

لینا۔۔۔ نوریز اس سے پہلے اس کے آنسو کو صاف کرتا لیںا اس کے گلے لگے تھی اور پھوٹ پھوٹ کے رونے لگی تھی۔۔

لینا  اس کے گلے رو رہی تھی مگر نوریز سلطان تھم گیا تھا جیسے وقت تھم گیا ہو۔۔ نوریز کی دھڑکن بترتیب ہوئی تھی۔ وہ بس ساکت ہو گیا تھا۔ وہ جہاں کا تھا وہ ہی رہ گیا تھا ۔ جبکہ لینا رو رو کر اس کی قمیض کو بھیگو چکی تھی۔۔۔

لینا خود کو سنبھالو ۔۔۔ نوریز خود کو نارمل رکھتے بولا تھا ۔

وہ۔۔۔۔ ایسے ۔۔۔ کیسے ۔۔۔لینا سے آگے کے الفاظ آدا ہونا مشکل ہو گئے تھے۔

وہ ۔۔۔ خود ۔۔۔۔کو۔۔۔ کی ۔۔کیسے ۔۔۔مار۔۔۔۔ سکتے ۔۔۔ ہیں ۔۔۔ لینا روتے ہوئے بولی تھی ۔۔

احساس جرم آپ کی جان لینے کو آئے تب خود کو مارنا آسان لگتا ہے لینا ۔ نوریز کا لہجہ زخمی تھا ۔۔

مجھے ۔۔۔ ان۔۔۔ سے اس۔۔۔۔ اس ۔۔۔قدم۔۔۔ کی ۔۔۔ امید ۔۔۔ نہ تھی۔۔۔  لینا  چہرہ ہاتھوں میں چھپائے پھوٹ پھوٹ کے رو دی تھی۔۔۔

لینا اکثر انسان وہ کر جاتا ہے جس کی امید نہ ہو کیسی کو۔ فلحال میرے ساتھ چلو ۔۔ نوریز نے اس کو اٹھانا چاہا تھا اس کی جگہ سے۔۔

مجھے۔۔ مجھے۔۔۔ نہیں ۔۔ جانا ۔۔ لینا نے اپنا ہاتھ اس سے چھڑانا چاہا تھا ۔۔

مگر کیوں لینا ۔۔ نوریز نے حیرت سے اس کو دیکھا تھا ۔

اس۔۔۔ اس گھر ۔۔۔نے۔۔مج۔۔۔مجھ۔۔ سے میرا۔۔ سب ۔۔۔کچھ چھینا ہے۔۔ لینا روتے ہوئے بولی تھی ۔

لینا اس وقت تمہاری موجودگی ضروری ہے ادھر۔۔ اخری بار اپنے باپ کو دیکھ لو ۔۔نوریز نے اس کو سمجھنا چاہا تھا ۔

نوریز ۔۔ لینا نے اپنا ہاتھ چھڑانا چاہا تھا۔۔ مگر اب کی بار نوریز اس کو زبردستی اس کی جگہ سے اٹھا چکا تھا اور اب اپنے ساتھ لے کر دروازے کی طرف بڑھا تھا ۔

اور اس کو کار میں بیٹھا کر خود ایک نبمر ڈائل کر کے فون کان سے لگا چکا تھا ۔

•••••••••••••••

وہ کب سے اپنے سامنے لیپ ٹاپ اور کچھ فائلز کھول کر بیٹھا ہوا تھا ۔ اس نے سر اپنا ہاتھوں میں گرا رکھا تھا جیسے اس کو سمجھ نہ آ رہی تھی کہ وہ کیا کرے ان سب کا ۔۔

بکھرے ہوئے بال، کہنیوں تک فولڈ آستینین، گریبان کے اوپر کے تین بٹن کھولے ہوئے تھے اور ٹائے کھولی ہوئے گلے میں تھی۔ ایش ٹرے سیگریٹ سے بھرا پڑا تھا۔ سیاہ  آنکھیں سرخ تھی۔۔  وہ جیسے رات سے اب تک اوفس میں ہی تھا ۔

ایک تمہیں توڑنے کی خواہش میں دیکھو کتنا نقصان کر بیٹھا اپنا۔ شہزاد نے ایک گہری سانس لی تھی۔۔۔ اور انکھیں بند کی تھی ایک بار پھر سے شہد رنگ آنکھیں اس کے خیال پر سوار ہو گئی تھی ۔

کیوں نہیں جان چھوڑ رہی میری۔۔ تم مر کر بھی میرے ذہن پر کیوں سوار ہو۔۔ شہزاد غصے سے چیخا تھا ۔ جب اچانک اس کے فون پر کیسی کی کال آئی تھی ۔۔

ڈیڈ اس وقت کیوں کال کر رہے ہیں ۔۔ شہزاد نے فون کی سکرین دیکھتے حیرت سے کہا تھا اور کال اٹینڈ کر لی تھی۔۔۔

تم کدھر ہو شہزاد ۔۔۔ اکرم صاحب کی فکر میں ڈوبی آواز اس کی سماعت سے ٹکرائی تھی۔۔۔

اوفس میں ہوں ڈیڈ کچھ کام تھا تو رات ادھر ہی روک گیا ۔ سب خیریت ہے آپ پریشان لگ رہے ہیں؟ شہزاد اپنی جگہ پر سیدھا ہو کر بیٹھا تھا۔۔

عمران نے خودکشی کر کی ہے فوراً واپس او ادھر جانا ہے۔ اکرم صاحب کی آواز جیسے اس کی سماعت سے ٹکرائی تھی شہزاد اپنی جگہ سے اٹھا تھا۔۔

کیا بول رہے ہیں ۔۔ شہزاد کو حیرت ہوئی تھی۔۔ عمران لغاری جیسا شخص خودکشی کیسے کر سکتا تھا۔۔

میں سچ بول رہا ہوں شہزاد ۔ جلدی او۔۔ یہ کہہ کر اکرم صاحب نے فون رکھا تھا۔۔ جبکہ شہزاد نے فورآ سامنے کھولا لیپ ٹاپ بند کیا تھا اور فائلز بند کی تھی اور اپنے اوفس سے باہر نکلا تھا۔۔۔

وہ کار ڈرائیو کر رہا تھا جب سامنے سگنل بند ہوا تھا۔۔ اس نے فوراً سے کار کو بریک لگائی تھی۔۔ اور وہ اب وینڈ سکریں سے باہر دوسری طرف جاتی گاڑیوں کو دیکھ رہا تھا جب اس کی نظر بائیں جانب والی سڑیک پر پڑی تھی۔۔

اس کے ذہن پر پھر سے اس رات کا منظر آنے لگا تھا وہ ادھر سے ہی تو گزر کر گیا تھا اپنی بےعزتی کے بدلے میں ایک لڑکی کی زندگی جہنم بنانے ۔۔

میری بہن کو چھوڑ دو شہزاد ۔۔۔ ایک لڑکی کی چیخ و پکار اس کے کانوں میں گونجی تھی۔۔ اس کے ماتھے پر پسینہ کے ننے قطرے نمودار ہوئے تھے۔

کار میں چلتے اے سی کی ٹھنڈک میں بھی اس کو گرمی لگ رہی تھی۔۔ اس کے خیالات اس وقت اس پر مکمل ہاوی تھے۔۔  جب پیچھے سے بجتے مسلسل گاڑیوں کے ہارن پر وہ ہوش میں آیا تھا۔۔ اور سامنے سگنل کو دیکھا تھا جہاں اس وقت سبز لائیٹ تھی۔۔ اس نے فوراً کار سٹارٹ کی تھی اور سگنل کارس کرنے کے بعد اس نے کار سڑک پر ایک طرف روک دی تھی۔۔

کیا مصیبت ہے کیوں نہیں نکل رہی وہ رات میرے دماغ میں سے۔۔ شہزاد نے زور سے مکا سٹیرنگ ویل پر مارا تھا۔۔اس کے سر میں شدید درد اٹھنے لگا تھا۔۔۔

اہہہہہہہہ ۔۔۔ یہ خیالات یہ سوچیں میری جان لیں لیں گئی۔۔۔ شہزاد نے اپنا سر دونوں ہاتھوں میں دبا رکھا تھا۔۔

تمہارے ساتھ ساتھ اس رات کے منظر کو بھی مٹ جانا چاہیے تھا جزا۔۔ شہزاد درد برداشت کرتے بولا تھا۔۔اور تنگ آ کر اس نے سر سٹیرنگ پر ٹیکا لیا تھا۔۔ 

کچھ دیر ایسے رہنے کے بعد اس نے کار کو پھر سے سٹارٹ کیا تھا اور اب اس کی کار گھر کے راستے پر تھی ۔۔

••••••••••••••••

نوریز کی گاڑی رن وے سے گزرتی ابھی عمران لغاری کے گھر کے سامنے روکی تھی۔۔۔ گھر کا دروازہ کھولا تھا  نوریز اپنی طرف سے اترا تھا اور اب اس نے لینا کی طرف کا دروازہ کھولا تھا۔۔ جہاں وہ خاموش بیٹھی تھی۔۔

لینا چلو اندر ۔ نوریز نے اس کو نرمی سے بلایا تھا۔۔ لینا نے نم آنکھیں اٹھا کر نوریز کو دیکھا تھا۔۔ اس کی آنکھوں میں تکلیف صاف نظر آ رہی تھی۔۔

نوریز نے اس کا ہاتھ تھاما تھا اور اس کو خود کار سے باہر نکلا تھا۔۔ اور لینا کو اپنے ساتھ اندر کی طرف لے کر بڑھنے لگا تھا جب لینا گھر کی دہلیز پر روکی تھی۔۔

لینا تمہارے باپ کا آخری وقت ہے اس وقت کے لیے بس اس گھر میں آ جاؤ ۔ ان کو رخصت کرنے کے لیے صرف تم ہو۔ وہ جیسے بھی ہیں باپ ہیں تمہارے ان کو رخصت کرو۔ نوریز نے اس کو سمجھانا چاہا تھا۔۔

اس گھر سے۔۔۔ وحشت محسوس ہو رہی ہے نوریز ۔۔ لینا یہ بولتے ہوئے رونے لگی تھی۔۔

لینا یہ وحشت اس گھر کی نہیں ہے یہ وحشت اس زندگی کی ہے جو تم نے جی ہے اس گھر میں ۔ یہ وحشت عیش و عشرت میں کیے ہوئے گناہوں کی ہے۔ نوریز نے اس کو سمجھنا چاہا تھا ۔

مجھے اس گھر میں نہیں جانا نوریز۔۔ لینا نے ایک قدم پیچھے لیا تھا۔

مگر اپنے باپ کو رخصت کرنے کے لیے تمہیں اس گھر میں جانا ہو گا۔ نوریز نے پھر سے اس کے ہاتھ کو مضبوطی سے پکڑا تھا اور اس کو اندر لے کر گیا تھا۔۔۔

اندر آتے ہی ان کی نظر اوپر سے آتے ایک ملازم پر گئی تھی۔۔ جو فوراً لینا کے پاس آیا تھا ۔

لینا بی بی ۔۔۔ اس نے لینا کو بلانا چاہا تھا مگر جیسے وہ سن ہی نہ رہی تھی۔۔

عمران انکل کی ڈیتھ باڈی کدھر ہے۔ نوریز نے اس ملازم سے سوال کیا تھا۔۔

اوپر ان کے کمرے میں ۔۔ وہ ملازم فوراً بولا تھا۔۔ جبکہ نوریز لینا کا ہاتھ تھامے اس کو اوپر کی طرف لے گیا تھا۔۔

وہ دونوں اس وقت عمران صاحب کے کمرے کے سامنے کھڑے تھے آس پاس ملازمین بھی موجود تھے۔۔ لینا خاموشی سے سامنے کھولے دروازے سے منظر دیکھ رہی تھی اور اس کی آنکھوں سے آنسوں بہہ رہے تھے چھوٹے چھوٹے قدم اُٹھاتے وہ آگے بڑھی تھی اور اپنے باپ کی لاش کے پاس جا کر روکی تھی۔۔۔ اس نے کانپتے ہاتھوں کو اگے بڑھیا تھا اور عمران صاحب کی بازو پر ہاتھ رکھا تھا ۔۔ سارا بیڈ خون سے بھڑا ہوا تھا۔ گن زمین پر گری ہوئی تھی ۔ گولی سر کی ایک طرف سے لگی اور دوسری طرف سے نکلی تھی۔

ڈیڈ ۔۔۔ یہ۔۔۔۔ کیا ۔۔۔کیا آپ ۔۔۔ نے۔۔۔ لینا کا وجود مزید اس کا ساتھ نہیں دے سکتا تھا وہ زمین پر بیٹھتی چلی گئی تھی۔ اور اب ایک بار پھر سے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی تھی۔۔ عمران صاحب کا ہاتھ اس کے ہاتھ میں تھا۔۔۔

آپ ۔۔۔ اتنے ۔۔۔ کمزور ۔۔۔کیسے ۔۔۔ہو گئے۔۔۔ لینا روتے ہوئی بولی تھی۔۔

کیوں لی اپنی زندگی ۔۔۔ اس نے اپنے آنسو صاف کیے تھے۔۔۔

اگر ۔۔۔۔احساس۔۔ جرم۔۔۔ تھا۔۔۔۔ تو۔۔۔ غلطیاں ۔۔۔ٹھیک کرتے۔۔۔ لینا نے ان کا ہاتھ اپنے لبوں سے لگایا تھا ۔۔

آپ تو۔۔۔ سا۔۔۔سامناں۔۔۔۔ کرنے والوں ۔۔۔ میں ۔۔۔۔ سے تھے ۔۔۔۔ آپ ۔۔۔۔ نے یہ۔۔۔۔ موت کیوں ۔۔۔۔ چنی ۔۔۔۔ لینا کی آواز رونے سے بھاری ہو رہی تھی ۔۔

کیوں کیا ایسا ڈیڈ ۔۔۔ کیوں؟؟؟؟ لینا نے ان کے بازوؤں کو جھنجھوڑا تھا۔۔۔

مجھ میں یہ دکھ برداشت کرنے کی ہمت نہیں ہے ڈیڈ ۔۔۔ کیوں کیا آپ نے ایسا ۔۔۔ مُجھے جواب دیں ۔۔۔ لینا روتی چلی جا رہی تھی۔۔

جبکہ نوریز دروازے میں خاموش کھڑا تھا۔۔ وہ چاہتا تھا کہ لینا رو لے کیونکہ اگر وہ نہ روتی تو شاید یہ تکلیف اس کی جان کو آ جاتی۔۔

اور تھوڑی دیر میں عمران صاحب کی ڈیتھ باڈی کو ٹی-وی لاؤنج میں رکھ دیا گیا تھا۔۔ اور عثمان صاحب ، نواز ، اکرم صاحب اور شہزاد اور کنگ کی طرف سے دو آدمی اور عمران صاحب کے جاننے والے لوگ ادھر اکٹھے ہو گئے تھے۔۔

لینا خاموش سے میت کے پاس بیٹھی ہوئی تھی رو رو کے اس کی آنکھیں سرخ ہو چکی تھی اور سوجھی ہوئی بھی لگ رہی تھی۔۔

عمران نے خودکشی کیسے کی تمہیں کچھ پتا ہے۔۔ عثمان صاحب نوریز کے پاس ا کر کھڑے ہوئے تھے ۔

جب غلطیوں کا آئینہ دیکھیا جائے اور آپ کو آپ کی ایک ایک غلطی یاد آنے لگے  اورتوبہ کرنے کی بھی ہمت نہ ہو تب خودکشی ان جیسے لوگوں کو آخری حل نظر آتا ہے۔ ویسے آپ کب کر رہے ہیں خود کشی ۔۔ نوریز نے طنزیہ نظروں سے عثمان صاحب کو دیکھا تھا ۔ جبکہ عثمان صاحب نے اس کو غصے سے دیکھا تھا۔۔

بھولو مت  بیٹے ہو تم میرے۔۔ عثمان صاحب دانت پیس کر بولے تھے۔۔

بکل آپ بھی مت بھولے گا میں بیٹا ہوں آپ کا ۔ نوریز نے سر سے پیر تک ان کو دیکھا تھا ۔۔

کیا مطلب ۔۔ عثمان صاحب کو اس کی بات کی سمجھ نہ آئی تھی۔

بہت جلد پتا چل جائے گا۔۔ نوریز یہ کہہ کر ادھر سے ہٹ گیا تھا ۔ اور اب وہ نواز اور شہزاد کے پاس جا کر کھڑا ہوا تھا۔۔ جب اس کا فون وائبیریٹ کیا تھا۔۔ اس نے نمبر دیکھا اور خاموشی سے ایک طرف بڑھ گیا تھا ۔

•••••••••••••••••

کمرا مکمل اندھیرے اور خاموشی میں ڈوبا ہوا تھا۔۔ جب اچانک کمرے کی اس خاموشی کو رنگ ٹون نے توڑا تھا۔۔ بیڈ پر لیٹا اپنی نیند کی مزہ لیتا وجود سخت بےزار ہوا تھا اس نے ہاتھ بڑھا کر اپنا فون اٹھایا تھا۔۔ آنکھیں ملتے اس نے نمبر دیکھا تھا ۔۔

ابراہیم انکل کالینگ لکھا آ رہا تھا ۔۔ وہ فوراً سیدھا ہو کر بیٹھا تھا۔۔ نیند ایک دم آڑ سی گئی تھی۔۔  اس نے جلدی سے کال اٹینڈ کر کے فون کان سے لگایا تھا۔۔

اسلام وعلیکم انکل ۔۔ دوراب نے کال اٹینڈ کرتے ساتھ سلام کیا تھا۔۔

وعلیکم السلام برخوردار ۔۔ دوپہر ہونے کو آئی ہے ادھر تمہارا دن نہیں چڑا ؟ ابراہیم صاحب کی روب دار آواز فون کے سپیکر پر سے گونجی تھی۔۔

نہیں نہیں چڑھ گیا ہے دن ۔۔ آپ بتائیں سب خیریت ہے؟ دوراب فوراً بولا تھا۔۔

کیا تمہیں پتا ہے عمران لغاری نے خودکشی کر لی ہے۔۔ ابراہیم صاحب کی بات دوراب کو مکمل ہوش میں لے آئی تھی۔

کیا مطلب ۔۔ اس کو تو زوریز مارنا چاہتا تھا۔۔ دوراب فوراً بستر پر سے اٹھا تھا۔۔

ہاں مگر اس نے خود کو مار ڈالا ۔۔ ابراہیم صاحب نے سرد آہ بھری تھی ۔۔

مگر اب کیا ہو گا۔۔ دوراب کچھ سوچتے بولا تھا۔۔

مُجھے نہیں لگتا زوریز اب ان سب کو مزید زندہ رہنے دینے والا ہے۔۔  کیونکہ اس نے آج رات اپنی ساری پلاٹون کو اکھٹے ہونے کا بولا ہے۔ ابراہیم صاحب کی آواز دوراب کی سماعت سے ٹکرائی تھی۔۔

میں جانتا ہوں رات کو اس کا میسیج ملا ہے۔۔ دوراب نے فوراً جواب دیا تھا۔۔

دوراب آج شام سے پہلے مُجھے جزا ہیڈ کوارٹر میں چاہیے ہے ۔۔ ابراہیم صاحب مضبوط لہجے میں بولے تھے ۔

میں جزا کو لے آؤں ۔۔ مگر میں زوریز ۔۔ دوراب نے کچھ بولنا چاہا تھا۔۔

زوریز جانتا ہے ۔۔ یہ کہہ کر ابراہیم صاحب نے فون رکھا تھا۔۔  جب دوراب نے کچھ سوچتے ہوئے زوریز کو کال کی تھی ۔

ہیلو دوراب بولو ۔۔ زوریز کی مصروف آواز فون کے سپیکر پر سے گونجی تھی جبکہ دوراب فون ایک طرف رکھ کر الماری کی طرف بڑھا تھا۔۔

جزا کو آج ہیڈ کوارٹر لے کر جانا ہے۔۔ دوراب نے بات کا آغاز کیا تھا۔

ہاں۔۔ کیونکہ وہ اب شہزاد کا چیپٹر کلوز کرنا چاہتی ہے ڈیڈ کو اس لیے اس سے ملنا ہے۔ زوریز کافی جلدی میں بولا تھا۔

تو کر کیا رہا ہے ۔ دوراب کا کپڑے نکلتا ہاتھ روکا تھا۔۔

آج رات ایک اسمگلنگ ہونے والی ہے اس کو روکنے کا کام ۔۔ دوسری طرف سے جواب آیا تھا۔۔

مگر آج تو عمران لغاری کی موت ہوئی ہے تو آج بھی یہ سب کریں گے وہ لوگ؟ دوراب کو حیرت ہوئی تھی۔۔

کبیر خاور کو کیسی کے مرنے سے فرق نہیں پڑتا دوراب اس کو بس اپنے کام اور اپنی اولاد سے فرق پکڑتا ہے اور آج اس کے ساتھ جو ہو گا اس کا اس نے سوچا بھی نہ ہو گا ۔ زوریز کا لہجہ مکمل برف تھا۔۔

تم اس وقت کدھر ہو؟ دوراب نے اس سے اگلا سؤال کیا تھا۔۔

گروپ میں میسیج دیکھو اور باقی سب کو لے کر آؤ ۔۔ زوریز نے فوراً جواب دیا تھا۔۔

اور نوریز ۔۔ دوراب نے کچھ سوچتے پوچھا تھا۔

اس کو بتا چکا ہوں اس نے کیا کرنا ہے۔ اور ٹائم سے سب میرے پاس ہو یہ کہہ کر زوریز فون رکھ چکا تھا۔۔

دوراب نے ایک گہری سانس لی تھی۔۔ اور اٹھ کر باتھ روم چلا گیا تھا۔۔ اور کچھ دیر میں وہ تیار ہو کر نیچھے چلا گیا تھا۔۔ جہاں کچن میں روحا بیگم اور امل بیگم کھانا بنا رہی تھی۔۔  جب ان کی نظر دوراب پر گئی تو ایک لمحے کو ان کے ہاتھ روکے تھے ۔۔

وہ اس وقت آرمی یونیفارم میں تھا۔۔ نفاست سے سیٹ ہوئے ہوئے بال، فیڈیڈ بیرڈ ۔۔وہ اس وقت بہت ہینڈسم لگ رہا تھا۔۔

کیا ہوا جن دیکھ لیا کیا؟ اپنی ماں اور تائی کو خود کی طرف دیکھتا پا کر دوراب مسکرایا تھا۔۔۔

اللہ نظریں بد سے بچائے ۔۔  روحا بیگم نے آگے بڑھ کر اس کا ماتھا چوما تھا۔۔ جبکہ امل بیگم نے کچھ سرخ مرچیں نکال کر اس پر سے واری تھی ۔۔

یہ کیا کر رہی ہے۔۔ اس نے امل بیگم کو دیکھا تھا۔۔

نظر آتار رہی ہوں ۔۔ انہوں نے وہ مرچی جلنے کے لیے رکھ دی تھی۔۔

پھر تو روز اتارنی پڑ جائے گئی کیونکہ میں یہ روز پہنتا ہوں۔ دوراب نے ان کو چھیڑا تھا۔۔

تم بیٹھو تمہارے لیے کھانا لگاتی ہوں ۔۔ روحا بیگم نے اس کو کچن سے باہر نکلا تھا۔۔

وہ ابھی ڈائینگ ٹیبل پر آ کر بیٹھا ہی تھا۔ جب احسن صاحب اور کامران صاحب گھرداخل ہوئے تھے۔۔ اور اس کو دیکھ کر اس کے پاس ہی آ گئے تھے ۔ آج اس کو آرمی یونیفارم میں دیکھ کر کامران صاحب اور احسن صاحب دونوں کا سینا چوڑا ہوا تھا۔۔

کدھر سے آ رہے ہیں دونوں ۔۔ دوراب نے مشکوق نظروں سے دونوں کو دیکھا تھا۔۔

شرم کر اس عمر میں شک کر رہا ہے ہم پر ۔ کامران صاحب نے اس کو گھورا تھا۔۔

اور اب وہ تینوں کی کھانے کے لیے بیٹھ گئے تھے۔۔ جب روحا اور امل بیگم کھانا ڈائننگ پر لگا رہی تھی۔۔

بڑی امی جزا کدھر ہے ۔۔ دوراب نے امل بیگم کو مخاطب کیا تھا۔

سب بچوں کے ساتھ لاؤن میں ہے۔ امل بیگم نے یہ کہتے اس کی پلیٹ میں چاول ڈالے تھے۔

اس کو بولا دیں اس کو میرے ساتھ جانا ہے۔۔ دوراب نے جوس کا گلاس منہ سے لگایا تھا۔

مگر جزا کا کیا کام۔ امل بیگم پریشان ہوئی تھی۔۔

کیونکہ میرا کام ہے انٹی ۔۔ جزا کی آواز پیچھے سے آئی تھی۔۔ وہ شاید ساری بات سن چکی تھی۔۔

مگر جزا بیٹا تمہارا کام کیا ہے ادھر۔۔امل بیگم فکر مندی سے بولی تھی۔۔

خالہ مجھے میرے گھر والوں کا بدلہ لینا ہے اور وہ میں لوں گئی ۔۔ جزا مضبوط لہجے میں بولی تھی۔۔ جبکہ وہاں موجود سب لوگوں نے حیرت سے جزا کو دیکھا تھا۔۔

جزا بیٹا یہ سب ؟ اب کی بار روحا بیگم بولی تھی۔۔

موم ، بڑی آمی ، جزا ہم سب کے ساتھ ہی مافیا کا ایک حصہ ہے اب ۔ اس کو ان سب چیزوں کے لیے تیار کیا گیا ہے۔ دوراب نے اب جواب دیا تھا۔۔

دوراب یہ بچی ہے۔۔۔ روحا بیگم ، امل بیگم ایک ساتھ بولی تھی۔۔

دوراب بچی کو ان سب چیزوں سے دور رکھو تم سب۔ کامران صاحب  سخت لہجے میں بولے تھے۔۔

انکل یہ میرا اپنا انتخاب ہے۔۔ اور میرے بابا بھی مافیا اور آرمی کا ایک حصہ تھے۔ تو میں کیوں نہ بنو ۔۔ میں نے اپنے بابا کی جگہ لی ہے۔ اور میں اپنی فیملی کا بدلہ ضرور لوں گئی۔  جزا کی نہ آواز اونچی تھی نہ اس کا لہجہ سخت تھا مگر اس کے لہجے میں اس کے ارادے کی مضبوطی صاف تھی۔۔

جبکہ احسن صاحب مدہم سا مسکرائے تھے ۔۔ اور جزا کو مسکراتی نظروں سے دیکھا تھا۔۔

بلکل شاہد الف کی طرح بولتی ہے جزا شاہد الف۔۔ احسن صاحب اپنی جگہ سے اٹھے تھے اور جزا کے پاس آ کر اس کے سر پر ہاتھ رکھا تھا۔  جبکہ جزا نے احسن صاحب کو مسکرا کر دیکھا تھا ۔۔

ویسے جزا شاہد الف بولوں؟ یا جزا زوریز ابراہیم خان بولوں ؟ کیونکہ ہماری جزا صرف اپنے باپ جیسی نہیں بلکہ اپنے شوہر جیسی بھی ہے۔۔ احسن صاحب نے اس کا ناک دبایا تھا۔۔  جبکہ جزا اس بات پر سر جھکا گئی تھی۔۔

احسن آپ بات کو سمجھیں ۔۔ امل بیگم نے ان کو سمجھانا چاہا تھا۔۔

امل یہ راستہ اس نے چنا ہے ۔ کچھ سوچ کے چنا ہو گا اس نے۔ اور اس کو پورا حق ہے اپنے خاندان کے ناحق خون کا بدلہ لینے کا۔۔ اور اس کو کوئی نہیں روکے گا۔ اس کا باپ بھی اس کو یہ بنانا چاہتا تھا اور اس کے شوہر کو بھی اعتراض نہیں تو ہمیں بھی نہیں ہونا چاہیے ۔۔ احسن صاحب نے اس موضوع کو سرے سے ختم کیا تھا۔۔مگر امل بیگم فکر مندی سے جزا کو دیکھ  رہی تھی ۔

آپ بے فکر رہیں انٹی مجھے کچھ نہیں ہو گا ۔ جزا امل بیگم کے پاس جا کر کھڑی ہوئی تھی اور ان کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا تھا۔

بس اللّٰہ تمہیں اورتم سب کو اپنی امان میں رکھے۔۔ امل بیگم نے اس کا ماتھا چوما تھا اور دوراب کی طرف دیکھا تھا۔۔ کیونکہ وہ مزید کچھ نہیں کہہ سکتی تھی کہیں نہ کہیں ان کو احسن صاحب کی بات مناسب لگی تھی ۔

جزا میں باہر انتظار کر رہا ہوں آ جاؤ ۔۔ دوراب سب سے ملتا باہر نکلا تھا ۔ جبکہ جزا فورا نور کے کمرے کی طرف بڑھی تھی۔۔

اور کچھ دیر میں وہ آمنہ ، نور اور منساء کو انفورم کرنے کے بعد اور سب کو ملنے کے بعد باہر آ گئی تھی ۔

••••••••••••

لینا خاموشی سے عمران صاحب کی میت سے سر ٹیکا کر بیٹھی ہوئی تھی ۔۔ انکھیں اس کی مکمل سوجھی ہوئی تھی۔ چہرے پر ایک عرصے کی اذیت جیسے رقم تھی ۔  

لینا جنازے کا وقت ہو گیا ہے۔۔ اب اٹھ جاؤ ۔۔ نوریز اس کے پاس ا کر بولا تھا۔۔

نوریز ان کو ایک بار اٹھا دو۔ مجھے بس ایک سوال پوچھنا ہے ان سے۔ کہ یہ اتنے کمزور کیسے ہو گئے کہ انہیں خود کو مارنا آسان لگا ۔۔ لینا بھاری آواز میں روتی ہوئی بولی تھی۔۔

لینا کاش یہ ممکن ہوتا۔ نوریز کے پاس اس وقت اس کو دلاسہ دینے کے لیے الفاظ نہ تھے۔۔

نوریز بس ایک بار ۔۔ لینا نے التجاء کی تھی۔ 

کاش لینا تم کیسی اور کام کے لیے ایسے کہتی نوریز سلطان ایک دنیا تمہارے لیے لے آتا ۔ مگر یہ ممکن ہی نہیں جو تم چاہتی ہو۔ نورہز نے اس کو نرمی سے سمجھانا چاہا تھا۔۔

اپ نے خود کی غلطیوں کو درست کرنے کے بجائے موت کو کیوں ترجیح دی ڈیڈ ۔۔ کیوں ۔۔ لینا نے آنسوں سے بھری آنکھوں سے اپنے باپ کا کفن میں لپٹا چہرہ دیکھا تھا ۔

یہ دکھ ساری زندگی مجھے مارتا رہے گا ۔۔ ڈیڈ کیوں ایک نیا دکھ دے گئے مجھے ۔۔ لینا کے رونے میں شدّت ائی تھی ۔

لینا سنھبالو خود کو۔ نوریز نو اس کو میت سے کچھ دور کیا تھا اور ایک ملازمہ کو اس کو سنبھالنے کا اشارہ کیا تھا۔۔

اب نوریز ، نواز ، شہزاد اور اکرم صاحب نے میت کو کندھا دیا تھا۔۔ اور عمران صاحب کی میت کو ان کے عالیشان گھر سے نکلانے لگے تھے۔۔

آپ کو کیوں خود کو مارنا بہتر لگا ڈیڈ ۔۔ کیوں ۔۔  لینا بلند آواز میں بولی تھی۔۔

خود کو مارنے سے پہلے ایک بار نہ سوچا میرے بارے میں ۔۔ لینا کی نے خود کو ملازمہ کی پکڑ سے چھڑایا تھا۔۔

ڈیڈ خود کو میں بھی مار سکتی تھی مگر میں نے دوسری راہ کو چنا۔ آپ نے کیوں نہ چنی وہ راہ آپ نے کیوں نہ چنا توبہ کا راستہ۔۔ وہ اللّٰہ تو معاف کرتا ہے آپ کیوں بھول گئے ڈیڈ۔۔ لینا جنازے کے پیچھے بھاگی تھی ۔

ڈیڈ ایسے کون تنہا کر کے جاتا ہے۔۔ لینا گھر کی دہلیز سے ٹھکر کھا کر گری تھی ۔  

میں اس گھر کو چھوڑ کر گئی تھی ڈیڈ ۔۔ آپ کو نہیں ۔۔۔ لینا روتے ہوئے سامنے کا منظر دیکھ رہی تھی جہاں عمران صاحب کا جنازہ اب گھر کی مین گیٹ سے باہر نکل رہا تھا۔۔

آپ نے مجھے اور گھر دونوں کو چھوڑ دیا۔۔ لینا نے اپنی آنکھیں صاف کی تھی منظر دھندلا ہو گیا تھا۔۔

ڈیڈ توبہ کا در بھی تو تھا آپ کو وہ نظر کیوں نہ آیا ۔۔۔ لینا پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی تھی ۔ اس کی سسکیاں ہچکیوں میں بدل گئی تھی ۔

ملازمہ اس کو کب سے اٹھانے کی کوشش کر رہی تھی مگر وہ ایسے ہی گھر کے دروازے کے پاس بیٹھی ہوئی تھی خود کے گرد اپنی ماں کی میورون چادر لیپٹ رکھی تھی۔۔ آنسوں تھے کہ وہ تھم نہیں رہے تھے ۔ وہ ایسے ہی دروازے کے ساتھ سر ٹیکا کر بیٹھی تھی۔

لینا میم اندر چلیں ۔۔ اس ملازمہ نے اس کو پھر سے بلایا تھا ۔

اب اس گھر میں میرا کچھ نہیں بچا۔۔ نہ اس کی عیش و عشرت کی نظر کرنے کے لیے میرے پاس اب کچھ بچا ہے ۔۔ لینا اپنی آنکھیں صاف کرتی بولی تھی ۔۔

لینا میم آپ ۔۔ اس ملازمہ نے کچھ بولنا چاہا تھا ۔۔

تم سب چلے جاؤ اب ادھر سے ۔۔ نہ اس گھر کے مقیم رہے نہ اب یہ گھر رہا۔۔ لینا نے خاموش نظر موڑ کر اس گھر پر ڈالی تھی اؤر پھر اس ملازمہ پر۔۔

مگر۔ اس نے پھر سے بولنا چاہا تھا۔۔

جاؤ سب ادھر سے۔۔ لینا اب کی بار کچھ سخت لہجے میں بولی تھی۔

وہ ملازمہ اپنی جگہ سے اٹھی تھی اور اندر کی طرف بڑھی تھی۔ اور اگلے ہی لمحے سب ملازمیں اس گھر سے باہر جا رہے تھے۔۔ اور لینا گھر کی دہلیز پر بیٹھی خاموشی سے ان سب کو جاتا دیکھ رہی تھی ۔۔

ملازمین کو گئے بھی اب بہت دیر ہو چکی تھی ۔ اور کوئی پلٹ کر اس کے پاس اس گھر میں نہ آیا تھا۔۔

کیا ملا آپ کو اس عیش و عشرت کی زندگی سے ڈیڈ ۔۔ الٹا سب کچھ گواہ دیا اس عیش و عشرت کے پیچھے ۔ لینا نے گال پر پھیسلتا آنسو صاف کیا تھا۔۔۔

جن سب کو آپ اپنا دوست بولتے تھے دیکھیں انہوں نے موڑ کر بھی آپ کی بیٹی کی خبر نہ لی۔ اور ان سب کے ساتھ مل کر آپ اپنی جہنم تیار کرتے رہے ۔۔ لینا  کی آنکھیں پھر سے برس پڑی تھی۔

جب مین ڈور سے نوریز آتا نظر آیا تھا۔۔  لینا کو نہ جانے کیوں اس کے آنے سے مزید رونا آیا تھا ۔

ادھر کیوں بیٹھی ہو۔۔ نوریز اس کے سامنے آ کر بیٹھا تھا۔۔

تم ادھر کیوں ائے ہو؟ لینا نے الٹا سوال کیا تھا۔

کیا مطلب کیوں آئے ہو؟ ادھر نہ آتا تو کدھر جاتا ؟ نوریز نے اس کو گھورا تھا۔

تم مجھے چھوڑ نہیں سکتے اکیلا ؟  لینا نے نم آنکھوں سے اس کو دیکھا تھا۔۔

اپنی آخری سانس تک تو  ہر گز نہیں ۔۔ نوریز نے کندھے اوچکے تھے۔

کیا اتنی اہم ہوں میں ۔۔ لینا کی آنکھوں سے آنسوں گرے تھے ۔۔

جس سے محبت ہو وہ بہت اہم ہوتا ہے لینا ۔ اور تم اہم ہو میرے لیے اور بہت زیادہ اہم ہو۔ نوریز نے محبت سے اس کو دیکھا تھا۔۔

تم مجھے سے محبت کیوں کرتے ہوں نوریز میں قابلِ محبت ۔ لینا نے کچھ بولنا چاہا تھا۔

میری محبت کے بارے میں کچھ بولنے کا حق میں تمہیں بھی نہیں دیتا لینا لغاری ۔ نوریز سخت لہجے میں بولا تھا جبکہ لینا خاموش کر گئی تھی۔۔

اٹھو گھر کے اندر چلو ۔۔ نوریز نے اس کو اٹھنے کا بولا تھا۔۔

مجھے اندر نہیں جانا نوریز ۔۔ لینا نے بار بار بولے الفاظ پھر سے بولے تھے۔۔

گھر میں نہیں جاؤ گئی تو کدھر جاؤ گئی؟ نوریز نے اس کو حیرت سے دیکھا تھا۔

تمہارے گھر رہ لوں گئی۔ لینا نے نوریز کو دیکھا تھا۔۔

دیکھو میں جوان جہان لڑکا ہوں ایک جوان جہان لڑکی کے ساتھ اکیلا نہیں رہ سکتا۔  نوریز نے اس کا موڈ ٹھیک کرنے کی کوشش کی تھی۔۔

نوریز ۔۔ لینا کو اس کی بات پر حیرت ہوئی تھی۔۔

لینا میں جانتا ہوں کل رات سے اب تک  بہت کچھ دیکھ چکی ہو ۔۔ اور وہ سب کچھ تمہارے لیے کیسی صدمے سے کم نہیں ہے ۔ مگر زندگی یہاں روک نہیں جاتی اپنی زندگی میں آگے بڑھوں لینا۔ ہر گناہ کی معافی ہے لینا ایک بار سچے دل سے معافی تو مانگو ۔ جو غلطیاں تم سے ہوئی ہیں ان کو ابھی بھی سدھار سکتی ہو تم ۔ نوریز اس کو سمجھاتے ہوئے بولا تھا۔۔

نوریز ایک لمحے دل کیا تھا خود کو مار ڈالوں مگر مجھے ڈیڈ نے کمزور کبھی نہ بنایا تھا میں کیسے مار ڈالتی خود کو ۔ میں نے ٹھان لی تھی جو غلطیاں کی اور گناہ کیےاس سب سے خود کو اور اپنی اولاد کو دور رکھوں گئی مگر ڈیڈ نے ایسا کیوں نہ سوچا کہ توبہ کا در بھی ہے ۔۔ لینا روتے ہوئے بولی تھی۔۔

ان کا احساس جرم ان کی جان کو آیا تھا۔۔ وہ اپنے جرموں کے ساتھ مزید کھڑے نہیں رہ سکتے تھے۔۔ تمہاری حالت نے ان کو وہ آئینہ دیکھایا تھا جس سے انہوں نے ساری زندگی منہ پھیرا تھا۔ ان کے سامنے خود کا وہ روپ آیا تھا جس سے وہ آنکھ نہ ملا سکے ۔ اور شاید یہ ہی وجہ رہی ہو گئی کہ انہوں نے خود کو مار ڈالا ۔۔  نوریز کچھ سوچتے ہوئے بولا تھا۔۔  جبکہ لینا بس اس کو دیکھ رہی تھی۔۔

موت سب کی تہ ہے لینا ۔ اور جس کی موت جیسی ہے اس کو ویسی ہی ملے گئی ۔  نوریز نے مدہم آواز میں کہا تھا۔۔

نوریز کیا توبہ کرنے سے  توبہ قبول ہو جائے گئی ؟ گناہ معاف ہو جائیں گے؟ لینا آنکھیں پھر سے نم ہوئی تھی۔

توبہ اگر دل سے کرو گناہ کا اعتراف دل سے ہو، اپنے ہر گناہ پر شرمندہ ہو تو قبولیت سے کوئی شہ نہیں روک سکتی ۔ اللّٰہ معاف کر دیتا ہے لینا ۔ نوریز ہلکا سا مسکرایا تھا۔

میں ایک بدکار عورت ہوں نوریز میری معافی ہے؟ لینا کی آنکھیں پھر سے چھلکنے لگی تھی۔ 

انسان کے جسم سے روح جدا ہونے تک توبہ کا در کھولا ہے ۔ اس کے لیے معافی ہے۔ اس کے گناہ اگر اتنے زیادہ ہیں کہ جہنم کی آگ کو بھڑکا سکے تو اس انسان کا توبہ کے لیے گرا ایک انسو جہنم کی آگ کو ٹھنڈا کر دیتا ہے لینا ۔ نوریز بولتے ہوئے روکا تھا۔

یہ دنیا گناہ یاد رکھتی ہے معاف نہیں کرتی۔ مگر اللہ ایک توبہ پر راضی ہو جاتا ہے معاف کر دیتا ہے اور افسوس ہم انسان توبہ میں ہی دیر کرتے ہیں ۔ اللّٰہ تو اپنے بندے کو بار بار اپنی طرف بلاتا ہے دیر ہم کرتے ہیں ۔ ہمیں یہ دنیا اتنی پیاری ہو گئی ہے کہ اس کی عیش و عشرت میں رنگینیوں میں ہم نے اپنی آخری کھو دی اور ہمیں ہوش بھی نہیں ۔ اورجب یہ رنگ و رونق ، عیش و عشرت ، حسن و جوانی کا جم ٹوٹتا ہے تب ہمیں پوش آتی ہے اور اس وقت  ہمارے پاس وقت نہیں ہوتا ہم اپنی جہنم تیار کر چکے ہوتے ہیں ۔ نوریز نے سامنے سر سبز لاون کو دیکھتے کہا تھا ۔

تم شکر ادا کرو لینا تمہیں ایک موقع ملا ہے۔ خود کو سنبھل لو ۔ ورنہ صرف پشتاوا رہ جائے گا ہاتھ میں ۔ نوریز نے اس کی طرف دیکھا تھا اب کی بار جبکہ لینا کو اس کی باتوں نے نئے سرے سے حوصلہ دیا تھا۔

نوریز اپنی جگہ سے اٹھا تھا جب لینا نے اس کو پکارا تھا۔

نوریز مجھے ادھر چھوڑ کر مت جاؤ ۔ لینا بھیگے لہجے میں بولی تھی ۔۔

اس کی بات پر نوریز اس کے سامنے پھر سے بیٹھا تھا۔۔ اور اب کی بار اس نے باغور لینا کو دیکھا تھا ۔

لینا تم اور میں نامحرم ہیں ایک دوسرے کے لیے میں تمہیں ایسے اپنے پاس نہیں رکھ سکتا تمہارے کردار کو سوالیہ نشان نہیں بنا سکتا ۔۔  نوریز سر جھکا کر بولا تھا۔۔

مگر مجھے ادھر نہیں روکنا نوریز ۔۔۔ تم میری بات کو سمجھو یہ گھر سب کچھ نگل جاتا ہے۔۔ لینا کی آنکھوں سے آنسوں گرے تھے۔

میں تمہیں ادھر سے ایک شرط پر اپنے ساتھ کے کر جاؤں گا؟ نوریز نے اس کو باغور دیکھا تھا۔۔

جو بھی شرط ہے مجھے قبول ہے مگر مجھے ادھر نہیں روکنا مجھے تمہارے ساتھ جانا ہے۔۔لینا بازد بولی تھی۔۔

تمہیں میری محرم بن کر میری بیوی بن کر میرے ساتھ جانا ہو گا۔ نوریز نے اپنی بات اس کے سامنے رکھی تھی۔

تم  مجھ سے شادی نہیں کر سکتے ۔ لینا نے سر جھکایا تھا۔۔

وجہ جان سکتا ہوں؟ دوٹوک انداز میں پوچھا گیا تھا۔۔

میں اچھی لڑکی نہیں ہوں۔ لینا جھکی نظروں سے بولی تھی۔۔

محبت کا ایک دستور ہے۔۔ محبوب کا اگر سفید قبول ہے تو سیاہ بھی قبول کرو۔ اور مجھے تمہارا ہر رنگ قبول ہے ۔ میرے لیے تم ہی اچھی لڑکی ہو۔ نوریز مضبوط لہجے میں بولا تھا جبکہ لینا نے نظریں اٹھا کر اس کو دیکھا تھا۔۔

کیا تھا وہ شخص اس کے مکمل ماضی کو قریب سے جانتا تھا ۔۔ اس کو قریب سے جانتا تھا اور پھر بھی ادھر بیٹھا تھا اعتراف محبت کر رہا تھا اس کو اپنی بیوی بنانا چاہتا تھا اپنی عزت بنانا چاہتا تھا ۔ لینا کی آنکھیں پھر سے برسنے لگی تھی۔۔

لینا ان آنکھوں کے آنسو صاف کرنے کا حق چاہتا ہوں تم سے۔ تاکہ تمہاری آنکھیں ساری زندگی نہ  نم ہونے دوں۔۔ نوریز سر جھکا کر بولا تھا۔۔

میں تیار ہوں ۔۔ لینا اپنی جگہ سے اٹھی تھی۔۔ نوریز نے اس کو مسکراتی آنکھوں سے دیکھا تھا۔۔

تم اندر چلو میں نکاح خواں اور گواہوں کو لے کر آتا ہوں۔  اور پلیز اب مت بولنا کے تم اندر نہیں جا رہی۔ نوریز نے اس کو وارننگ دی تھی۔

جبکہ وہ اب خاموشی سے اندر چلی گئی تھی۔۔

•••••••••••••••••

ویلکم ویلکم ویلکم ۔۔۔وہ سب ابھی کنگ کی بتائی جگہ پر آئے تھے جب ان کو کنگ کی آواز سنائی دی تھی۔۔

ان سب نے موڑ کر کنگ کو دیکھا تھا جو ہمیشہ کی طرح بیش قیمتی لباس پہنے ہاتھ میں وائن گلاس لیے اور چہرے پر مکروہ مسکراہٹ سجائے ان کی طرف بڑھا تھا۔۔۔

کافی وقت پر آئے ہو تم سب۔ کنگ اپنی جگہ پر جا کر بیٹھا تھا۔۔

کنگ آپ کو شاید جنازے پر آنا چاہیے تھا۔۔ نواز کی آواز کنگ کی سماعت سے ٹکرائی تھی۔۔

کنگ کیسی کے جنازے پر نہیں جاتا۔ اور عمران کی طرح بزدلوں کے جنازے پر رو بلکل نہیں جو خود کو مار ڈالے ۔۔ کنگ نے وائن گلاس ہونٹوں سے لگایا تھا۔۔

نواز خاموشی سے اپنی جگہ پر بیٹھا رہا تھا جبکہ اس کو کنگ کی یہ بات بلکل بھی پسند نہ آئی تھی مگر وہ اس شخص کے منہ نہیں لگنا چاہتا تھا۔۔

کنگ اس وقت کیس لیے بلایا ہے۔۔ کوئی کام ہے؟ شہزاد اپنی جگہ پر سیدھا ہو کر بیٹھا تھا۔۔

لگتا ہے اکرم تمہارے بیٹے کا کام پر آج کل دھیان نہیں ہے۔۔ کنگ نے شہزاد پر ایک نگاہ ڈالی تھی۔۔

کیا مطلب ؟ شہزاد نے آئی برو اٹھا کر کنگ کو دیکھا تھا۔۔

مطلب یہ شہزاد اکرم آج رات کو اسلحہ ، ہیروئن اور لڑکیاں اسمگل ہونی ہے۔ اور تمیں ہتا ہی نہیں کے بلایا کس لیے ہے تم سب کو؟ کنگ نے سخت نظروں سے شہزاد کو گھورا تھا۔۔

یہ کام تو صارم اور عمران  انکل دیکھ رہے تھے نہ؟۔ شہزاد نے کچھ سوچتے ہوئے کہا تھا ۔

صارم ہے کدھر کنگ؟ اب کی بار عثمان صاحب بولے تھے۔۔

پتا نہیں کدھر گیا ہے وہ نالائق ۔۔ کتںے دنوں سے رابطہ کرنے کی کوشش کر رہا ہوں اس سے رابطہ نہیں ہو پا رہا۔۔ کنگ غصے سے بولا تھا۔۔

تو اب کیا کریں گے کنگ؟ اب کی بار شہزاد نے کہنی ٹیبل پر رکھی تھی اور کچھ اگےہو کر بیٹھا تھا۔۔

اب اس کام کو تم سب سنبھالو گے۔۔ کیونکہ صارم ادھر ہے نہیں اور عمران نے خود کو مار ڈالا۔۔ کنگ نے ان سب کی طرف اشارہ کیا تھا۔۔

ہم سب؟  اکرم صاحب کو حیرت ہوئی تھی۔۔

ہاں تم سب ۔۔ اور تمہارا دوسرا بیٹا کدھر ہے عثمان ؟ کنگ نے عثمان صاحب کی طرف دیکھا تھا ۔

وہ کچھ دیر میں آ جائے گا۔۔ عثمان صاحب نے اپنے سے بات بنائی تھی۔۔

ہمممم اور گھنٹے میں سب کنٹینرز تیار ہو جائیں گے ان کو ادھر سے کراچی کی طرف لے کر جانا ہے اور اگے کا کام کراچی میں موجود میرے کچھ آدمی دیکھ لیں گے ۔۔ کنگ نے پاس پڑی بوتل میں سے وائن اپنے گلاس میں ڈالی تھی۔۔

کنٹینرز کتنے ہیں؟ اکرم صاحب نے اپنا سگریٹ ایش ٹرے میں مسلا تھا۔۔

دو ۔۔ دوٹوک جواب تھا۔۔

اور سنو جب کنٹینرز آسلام آباد سے نکل جائیں گارڈز کی نگرانی پر تو واپس وائٹ پیلیس پر آنا ایک پارٹی رکھی ہے تم سب کے لیے ۔۔۔ یہ کہہ کر کنگ اپنی جگہ سے اٹھا تھا۔۔

جبکہ نواز کو آج پہلی بر اس جگہ سے کوفت ہو رہی تھی۔۔ اس نے اپنی شرٹ کے اوپر کے بٹن کھول دیے تھے مگر اس کی گھبراہٹ کم نہ ہو رہی تھی ۔۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا وہ کہیں بھاگ جائے کہیں بہت دور چلا جائے ۔

••••••••••••••

 کبیر خاور کو اب مزید اس ملک کے ساتھ اور اس کی بیٹیوں کی عزت کے ساتھ کھیلنے نہیں دوں گا۔۔ بہت جلد وہ اپنے کیے کا حساب دے گا سود سمیت ۔۔ اس کی نیلی آنکھوں میں قہرئ ڈور رہا تھا۔۔ اور نظریں اس کی سامنے موجود شطرنج پر تھی۔۔۔

زوریز سارا کام ہو گیا ہے۔ دوراب اندر آتے بولا تھا۔۔

کافی وقت لگا ہے۔۔ زوریز نے دوراب کو دیکھا تھا۔۔

ہان کیونکہ پہلے جزا کو چھوڑا اور اس کے بعد تمہارا بتایا کام کیا ہے۔۔  دواب آ کر اپنی جگہ بیٹھا تھا اور سامنے پڑا پانی کا گلاس اٹھا کر لبوں سے لگایا تھا ۔۔

زوریز ساری انفورمیشن اس یو اس بی میں ہے۔ حدید نے ہاتھ میں پکڑی بلیو کلر کی یو اس بی زوریز کی طرف بڑھائی تھی۔۔

میں جانتا ہوں۔۔ زوریز کے چہرے پر پرسکون سی مسکراہٹ تھی۔۔

سارا پلین تیار ہے ۔۔ بس مجھے اب رات کا انتظار ہے ۔۔ ان کا مال کراچی کیا اسلام آباد سے لاہور تک ہی آ گیا تو بڑی بات ہے۔۔  زوریز مسکرا اٹھا تھا اور جب وہ مسکرایا تھا تو اس کے دونوں گالوں میں موجود ڈیمپل کافی نموایا ہوئے تھے جو اس کو اور بھی ہینڈسم بنا رہے تھے۔۔

ویسے زوریز آج رات کو کبیر خاور کو کون سا سرپرائز دینے والے ہو؟؟ آیان کو نہ جانے کیوں اس بات میں بہت زیادہ دلچسپی تھی۔۔

زوریز نے سر سے پیر تک آیان کو دلچسپی سے دیکھا تھا ۔ اور ٹانگ پر ٹانگ رکھی تھی ۔۔ جبکہ رحیان ، دوراب اور حدید اپنی ہنسی روک رہے تھے۔۔

مجھے تم ایسے کیوں دیکھ رہے ہو؟؟ آیان کو زوریز کی نظروں سے کچھ عجیب سا محسوس ہوا تھا تبھی سیدھا ہو کر بیٹھا تھا۔۔

عقل مند کے لیے اشارہ کافی ہے۔ زوریز اپنی جگہ سے اٹھا تھا۔۔

کیا مطلب ۔۔ تم۔۔۔ تم مجھے ۔۔۔ اس کبیر کے حوالے کر رہے ہو؟؟ آیان صدمے میں بولا تھا۔۔

کوئی شک ہے؟ زوریز نے اس کو غور سے دیکھا تھا۔۔

مجھے کیسی نے ہاتھ بھی لگایا تو ہاتھ توڑ دوں گا۔۔ تم لوگوں کو میں گرا پڑا لگتا ہوں کیا ؟ آیان غصے سے دھاڑا تھا۔۔

قابو کرو اس  کو۔۔زوریز نے دوراب اور حدید کو اشارہ کیا تھا۔۔

جبکہ آیان اپنی جگہ سے اٹھا تھا اور غصے سے دوراب اور حدید کو دیکھنے لگا تھا ۔۔  اور دوراب اور حدید کا قہقہہ گونجا تھا ۔۔

یہ نوریز کہاں رہے گیا ہے اس نے بولا تھا وہ کبیر خاور کے پاس جانے سے پہلے ادھر آئے گا۔ زوریز نے گھڑی پر وقت کو فکر مندی سے دیکھا تھا ۔ جب زوریز کا ٹیبل پر پڑا فون بجا تھا۔۔

نوریز کا فون ہے۔۔ دوراب نے سکرین کو دیکھا تھا۔۔

سپیکر پر کرو فون کو۔۔ زوریز کھڑکی کے پاس کھڑا بولا تھا۔۔

ہیلو زوریز ۔۔ نوریز کی آواز فون کے سپیکر پر سے گونجی تھی۔۔

بولو ۔۔ کافی روخا جواب دیا تھا اس نے۔۔

میری جان بعد میں ناراض ہو جانا ابھی بس سب کو لے کر عمران لغاری کے گھر آ جا ۔۔ نوریز کی منت کرتی آواز اس کی سماعت سے ٹکرائی تھی۔۔ جبکہ اب کی بار زوریز کا پورا جسم کان بن گیا تھا ۔ اس جو نوریز کی بات سے کیسی بات کا خدشہ ہوا تھا

تو نکاح تو نہیں کرنے لگا؟ زوریز اپنی جگہ پر بیٹھتا دانت پیس کر بولا تھا جیسے نوریز کی گردن دانتوں کے نیچھے ہو۔۔۔

اب جب تجھے پتا چل ہی گیا ہے تو باقی سب کو لے کر آ جا نہ نکاح خواں میں لے کر جانے لگا ہوں۔۔ نوریز کا خوشگوار لہجہ اس وقت زوریز کا سب سے زیادہ بدمزہ کر گیا تھا ۔۔

چلو جی اب یہ بھی نکاح کر رہا ہے۔۔ آیان کو اس خبر نے دلی تکلیف دی تھی۔۔

آیان اپنی منہوسیت دور رکھی۔۔ نوریز باقاعدہ چیخ اٹھا تھا۔۔

تو ہو گا  منہوس ۔ آیان بھی فورا بولا تھا۔۔

آیان ٹنشن نہ لے تیرا بھی ہو جائے گا نکاح ۔۔ رحیان نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا اس کے حوصلہ بڑھانے کے لیے۔۔

جیسے اس کی حرکتیں ہیں اس کو لڑکی دینے سے پہلے کوئی سو بار سوچھے ۔۔ نوریز دانت پیس کر بولا تھا۔۔

کیوں میں خواجہ سرا بن کر محفلیں لگتا ہوں یا سڑک کنارے پیسے مانگتا ہوں؟ جو میری حرکتیں تمہیں چب رہی ہیں ۔۔ آیان تو جیسے تپ ہی گیا تھا۔۔

جبکہ اس کی بات پر جہاں رحیان اس کو حیرت سے دیکھ رہا تھا۔ وہاں دوراب اور حدید خاموش تماشائی بنے بیٹھے اپنے قہقہے کو روکنے کی کوشش کر رہے تھے۔۔ اور زوریز کا بس نہیں چل رہا تھا نوریز کو فون سے نکال کر آیان اور نوریز دونوں کو گولی مار دے۔۔

واہ آیان کیا سائیڈ بزنس ڈھونڈا ہے۔۔ آیان کی بات پر نوریز نے اس جو مزید تپایا تھا ۔

کتوں کی طرح لڑنا بند کرو اب ۔ اس سے پہلے آیان مزید کوئی جواب دیتا زوریز کی ایک بلند آواز ںے ان دونوں کو چپ کروایا تھا۔

اب تم دونوں لڑتے نظر آئے تو دونوں کی بوٹیاں کر کے چیل کوؤں کو ڈال دوں گا ۔۔ زوریز غصے سے بولا تھا۔

اور اب کیسی میں ہمت نہ تھی کہ وہ زوریز کے سامنے بولے

مجھے حیرت ہو رہی ہے تجھے اس موقع پر نکاح سوجھ کیسے گیا ہے ؟ زوریز کو اس عقل کے اندھے پر غصہ آ رہا تھا ۔

جیسے تجھے جزا سے نکاح کرنا سوجھ گیا تھا۔۔ وہ بھی آگے سے نوریز تھا ۔

اٹلیسٹ میں قبرستان سے آتے ساتھ نکاح کرنے نہیں بیٹھ گیا تھا تیری طرح۔۔۔ زوریز دانت پیس کر بولا تھا جبکہ اب کی بار نوریز کی چلتی  زبان کو بریک لگی تھی۔۔

اچھا اب نکاح کے لیے آ رہے ہو یا گواہ میں کرایے پر لے آؤں ۔۔ نوریز کچھ دیر خاموش رہنے کا بعد بولا تھا۔۔

آج کے میشن کے بعد میرے ہاتھ سوچ سمجھ کر لگی ۔۔ زوریز نے یہ کہہ کر فون بند کیا تھا۔۔۔

جب اس کا فون دوبارہ سے بجا تھا۔۔

اب کیا ہے ؟ زوریز بےزار سا بولا تھا۔۔

زوریز ابراہیم خان آپ کی طرف اللہ حافظ بولنے کا رواج نہیں ۔۔ نوریز کی آواز سپیکر پر سے گونجی تھی ۔۔

تو اس وقت کیا سنا چاہتا ہے؟؟ زوریز سنجیدگی سے بولا تھا جبکہ اس کے چہرے کے تاثرات دیکھ کر دوراب اور حدید اپنی جگہ سے اٹھے تھے۔۔

اچھا اچھا اللہ حافظ ۔۔ یہ کہہ کر نوریز نے فون رکھا تھا اب کی بار۔۔ جب زوریز نے ان سب کو دیکھا تھا جو کب سے خاموش تھے۔۔

چلیں ؟؟ آیان نے گلا صاف کر کے اس سے پوچھا تھا۔

عجیب نمونوں کو پال رکھا ہے میں نے۔۔ زوریز سر نفی میں ہلاتا اپنی جگہ سے اٹھا تھا اور دروازے کی طرف بڑھا تھا۔۔

•••••••••••••••••

لینا لغاری بنت عمران لغاری آپ کا نکاح نوریز سلطان ولد عثمان سلطان کے ساتھ سیکہ راج الوقت ایک کروڑ حق مہر تہ کیا جاتا ہے کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے؟  مولوی صاحب لینا کی طرف روخ کر کے بیٹھے اس سے پوچھ رہے تھے جس نے اپنی ماں کی میرون چادر سر پر اچھے سے لے رکھی تھی ۔۔

لینا جواب دو۔۔ لینا سے کچھ فاصلے پر بیٹھا نوریز بولا تھا۔۔

ق۔۔۔ قبول ہے۔۔ بلآخر لینا نے ایجاب قبول کر لیا تھا۔۔

مولوی صاحب نے اس دو بار اور پوچھا تھا اور اب وہ نوریز کے پاس آ کر بیٹھے تھے۔۔۔

نوریز سلطان ولد عثمان سلطان آپ کا نکاح لینا لغاری بنت عمران لغاری کے ساتھ سیکہ راج الوقت ایک کروڑ حق مہر تہ کیا جاتا ہے کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے؟  مولوی صاحب نے نوریز کی طرف دیکھا تھا۔۔

ایک بار سوچ لے ۔ حدید اس کے کان کے پاس جھک کر بولا تھا۔جب پاس کھڑے زوریز نے اس کے کندھے کو زور سے دبایا تھا۔۔

لینا لغاری مجھے تم اپنے تمام تر سیاہ اور سفید کے ساتھ قبول ہو۔۔ نوریز نے یہ الفاظ بہت مدہم آواز میں بولے تھے کہ صرف اس تک ہی آواز رہی تھی ۔

کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے؟ مولوی صاحب نے سوال دہرایا تھا۔۔

مجھے یہ نکاح قبول ہے ۔۔ نوریز نے ایک  نظر میرون چادر سے خود کو لپٹے بیٹھی لیںا پر ڈالی تھی۔

مولوی صاحب نے ایک بار پھر سے اپنے الفاظ دہرائے تھے۔۔  ان دونوں کا نکاح ہو چکا تھا۔۔ لینا ، لینا لغاری سے لینا نوریز کا سفر چند منٹوں میں تہ کر چکی تھی۔۔ نوریز سلطان نے اپنی محبت اپنے لیے حلال کر لی تھی ۔

اب وہاں موجود سب کے ہاتھ دعا کے لیے بلند تھے۔۔۔ لینا کا دعا میں اٹھا ہاتھ کانپ رہا تھا انسو خود با خود آنکھوں سے نکل رہے تھے۔۔

مجھے دعا مانگنا نہیں آتی ، مگر سنا ہے نکاح کا وقت قبولیت کا وقت ہوتا ہے، مجھے میرے ہر گناہ کے لیے معاف کر دیں اللہ اور مجھے میرے شوہر کے لائق بنا دے۔۔ وہ مدہم آواز میں دعا مانگتی رونے لگی تھی۔۔ لینا کو آج سے پہلے خود سے کبھی اتنی نفرت نہ ہوئی تھی وہ خود کو کبھی اتنی بری نہ لگی تھی۔

یا اللّٰہ تیرا شکر آج جتنا بھی آدا کرؤں وہ کم ہے تو نے مجھے وہ دیا جس کو میں ہر نماز میں مانگتا تھا۔ بے شک تو ہی عطا کرنے والا ہے۔۔ ہم دونوں کو ایک دوسرے کے حق میں بہتر لکھ دے میرے اللّٰہ ۔۔ نوریز کی آنکھوں سے آنسوں بہہ رہے تھے۔۔۔ اس نے اپنا چہرہ اپنے ہاتھوں میں چھپا لیا تھا جب حدید نے اپنا ہاتھ اس کے کندھے پر رکھا تھا۔۔

مگر آج ایک اور شخص کی آنکھیں بھی بھیگی ہوئی تھی۔۔ اور اس کی آنکھوں کے کونوں کی نمی حدید اور دوراب کی آنکھوں سے نہ چھپ سکی تھی۔۔

اللہ میں نے آج تک آپ سے جو مانگا آپ نے دیا ۔ آپ کے علاؤہ کوئی اور ذات ہے ہی نہیں جو مجھے ان سب سے نواز سکے۔ آج آپ سے بس اس ایک عورت کی محبت مانگ رہا ہوں جس کی دل آزاری کر بیٹھا ہوں اس کو تکلیف دینے کا کبھی خوب میں بھی تصور نہ کیا تھا۔ انسان ہوں خطا میری فطرت ہے میری غلطی کی مجھے اتنی بڑی سزا نہ ملنے دینا مجھے سے میری محبت جدا نہ ہونے دینا ۔ زوریز کا دل بے اختیار بھر آیا تھا۔۔ اس نے فوراً چہرے پر ہاتھ پھیرا تھا۔  اور آنکھوں کے کونے صاف کیے تھے۔۔

بہت شکریہ تم سب کا یار۔۔ نوریز ان سب کے سامنے کھڑا بولا تھا۔۔ وہ سب ابھی اس کو مبارکباد دے کر ہٹے تھے اور رحیان آیان مولوی صاحب کو چھوڑنے گئے تھے ۔

بکواس کر لی یا ابھی کوئی کسر رہتی ہے؟ زوریز اس کو گھورتے ہوئے بولا تھا۔۔

نہیں نہیں بس اتنی بہت ہے۔ نوریز نے دانتوں کا اشتہار دیا تھا ۔

چل بھائی اب تو بھی کام پر لگ اور ہم بھی کام پر لگنے لگے ہیں ۔ دوراب نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا جبکہ لینا ان سب کو ایک ساتھ کھڑے کھوسر پھوسر کرتے دیکھ رہی تھی۔

آج چھٹی نہیں مل سکتی۔ نوریز نے ایک نظرئ زوریز پر ڈالی تھی۔۔

مستقل چھٹی کا کیا خیال ہے؟ زوریز بےنیازی سے بولا تھا۔

ایک تو یہ بندا بات بات پر سڑک پر لانے والی حالت کا بتا دیتا ہے۔ نوریز نے ناک منہ بنایا تھا جبکہ حدید اور دوراب ہنس پڑے تھے۔

تیرا کچھ نہیں ہو سکتا ۔ زوریز نے اس کے پیٹ میں مکا مارا تھا آخر کو بھڑاس بھی تو نکالنی تھی۔۔

میں لینا کو چھوڑ کر کبیر خاور کی بتائی جگہ پر پہنچ  کر آپ ڈیٹ دیتا رہوں گا ان کے ہر ایکٹیوٹی  کی ۔ نوریز ان تینوں کو دیکھتے ہوئے بولا تھا۔۔

اور اب شاید ہمیں نکالنا چاہیے ۔ زوریز نے دوراب اور حدید کو دیکھا تھا۔ اور وہ تینوں نوریز سے مل کر اور لینا کو اس کے والد کا افسوس کر کے اور نکاح کی مبارک باد دے کر نکل گئے تھے۔۔

•••••••••••••

جزا فیصلہ تو لے لیا ہے مگر یہ بتاؤ کیا تیار ہو اس کے لیے ؟ ابراہیم صاحب نے اپنے سامنے بیٹھی جزا کو باغور دیکھا تھا۔۔

تیار اس دن ہی ہو گئی تھی جس دن زوریز سے نکاح کے لیے ہامی بھرلی تھی۔۔ جواب سنجیدگی سے دیا گیا تھا۔۔

کس حد تک ٹرینڈ ہو ؟ ابراہیم صاحب کو جواب اس کا دلچسپ لگا تگا تبھی اگلا سوال کیا تھا ۔۔

ایک وقت میں دو تلواریں تھامے رکھ سکتی ہوں۔ سر کاٹ سکتی ہوں۔ ہڈیاں توڑ سکتی ہوں۔۔ اس کا لہجہ دھیما تھا مگر اس کا حوصلہ بلند تھا۔۔

تلوار ۔۔۔ ابراہیم صاحب کو حیرت ہوئی تھی۔۔

جی تلوار بازی بھی سیکھی ہے میں نے۔ وہ بےنیازی سے بولی تھی۔

دلچسپ ۔۔ ابراہیم صاحب کے چہرے پر مسکراہٹ آئی تھی۔۔

انکل مجھے گھر کی سی سی ٹی وی فوٹیج نکالنی ہے۔ جزا نے اپنی بات کا آغاز کیا تھا۔۔

وہ سب میرے پاس ہے۔۔ ابراہیم صاحب نے فوراً جواب دیا تھا۔۔

آپ کے پاس مگر کیسے ۔۔۔ مکمل حیرانی تھی۔۔

میرے  دوست کا نہیں بھائی کا گھر ہے اس گھر کی ایک ایک اینٹ سے واقف ہوں مجھے۔۔ یہ تو بس سی سی ٹی وی کیمراز تھے۔  ابراہیم صاحب نے کرسی کی پشت سے ٹیک لگائی تھی ۔

مجھے وہ سب ریکارڈنگز چاہیے ہیں ۔۔ جزا سیدھی ہو کر بیٹھی تھی۔۔۔

جزا کرنا کیا چاہتی ہو؟ ابراہیم صاحب کو جزا کی آنکھوں میں موجود قہر نے پریشان کیا تھا یہ قہر انہوں نے اج تک الفا کی آنکھ میں بھی نہ دیکھا تھا۔۔

اس کو اتنا مجبور کے وہ  خود چل کر اپنی موت کے پاس آئے ۔۔۔ جزا کے چہرے پر ایک الگ مسکراہٹ تھی ۔۔

جزا۔۔۔ ابراہیم صاحب نے اس کو غور سے دیکھا تھا ۔۔ اور آج ان کو پہلی بار احساس ہوا تھا کہ واقع ہی عورت کے انتقام سے ڈرنا چاہیے ۔ کیونکہ وہ وہ سب کر سکتی ہے جس کا گمان بھی نہ کیا جائے ۔۔

اس نے میرے خاندان کی موت کی کہانی ایک رات میں لکھی تھی ۔ میں نے ہر رات اس کی موت کی کہانی لکھی ہے۔۔ میں اس کو آسان موت نہیں دوں گی۔۔ اس کو خون کے آنسوں نہ رولایا تو میں بھی جزا شاید نہیں ۔۔ جزا کی آنکھوں میں نفرت کا ایک طوفان اٹھا تھا ۔

جزا خون کا انتقام نسل تک آ جاتا ہے ۔ ابراہیم صاحب نے نہ جانے کیوں مگر اس کو سمجھانا چاہا تھا۔۔

نسل بچے گئی تو نسل تک آئے گا ۔۔ میرے خاندان کا خون اتنا سستا نہیں تھا جتنا سستا سمجھ کے اس نے مارا ہے۔۔ اس کے خون کا ایک ایک قطرہ حساب دے گا مجھے میرے خاندان کے خون کا ۔ جزا اپنی جگہ سے اٹھی تھی۔۔

الپائن ۔۔۔ ابراہیم صاحب نے اس کو اس کی جگہ سے اٹھتے دیکھ مخاطب کیا تھا ۔

آپ کو یہ نام کیسے پتا؟ جزا مدہم سا مسکرائی تھی۔۔

میں نے ایک الفا سے اس کے الفا کے لیے کیسی وقت میں ایک الپائن مانگی تھی ۔۔ مجھے معلوم نہ تھا وہ اتنی خطر ناک ہو گئی ۔۔ ابراہیم صاحب اپنی جگہ سے اٹھے تھے اور اس کے ناک دبایا تھا۔۔

ایک الفا نے دوسرا الفا ٹرین کیا اور اس الفا نے ایک الپائن کو تو اتنا خطرناک ہونا نارمل ہے۔۔ جزا کندھے اوچکے تھے ۔۔

جبکہ اس کی اس بات ہر ابراہیم صاحب دل کھول کے مسکرائے تھے ۔۔ اور شاید آج وہ ایک عرصے بعد ایسے مسکرائے تھے ۔۔ شاہد الف کی موت کے بعد ابراہیم صاحب تو جیسے مسکرانا بھول گئے تھے۔۔

اور اس الفا کو معاف کب کرو گئی۔۔ ابراہیم صاحب نے اس کو دیکھا تھا۔۔

میرے باپ نے اس کے بہت نخرے اٹھائیں ہیں اب ذرہ تھوڑے میرے بھی تو اٹھائے وہ۔۔ جزا بےنیازی سے بولی تھی ۔ جبکہ ابراہیم صاحب کا قہقہہ سن کے پورے اوفس میں گونجا تھا ۔

ویسے ایک چھوٹا سا کام ہے ؟ ابراہیم صاحب نے جزا کو دیکھا تھا۔۔

الپائن حاضر ہے۔۔ جزا نے سر اٹھا کر ان کو دیکھا تھا۔۔

••••••••••••••

عزیزہ انٹی لڑکیاں تیار ہیں ۔۔زوریز ابھی ابھی ان کے این جی او کے اوفس میں داخل ہوا تھا۔۔

سانس لے لو ہوا پر سوار لڑکے۔۔ عزیزہ نے عینک کے پیچھے سے اس کو گھورا تھا۔۔

کاش اس وقت سکون سے سانس لینے کا وقت ہوتا میرے پاس ۔۔ زوریز نے سرد آہ بھری تھی۔۔

لڑکیاں بھیج دی ہیں رحیان کے ساتھ۔۔۔ عزیزہ نے اس کو بیٹھنے کا اشارہ کیا تھا۔۔

لڑکیاں سب ٹھیک ہیں ؟؟ زوریز نے عزیزہ کا چہرہ گھور سے دیکھا تھا ۔

زوریز بے فکر رہو ۔۔ وہ جانتی ہیں انہوں نے کیا کرنا ہے ۔ عزیزہ نے اس کو تسلی دی تھی ۔

رحیان سے ناراض تو نہیں ؟ زوریز نے اپنی کیپ آتار کے ایک طرف رکھی تھی۔۔

ماں ہوں کتنی دیر ناراض رہتی وہ کچھ غلط تو نہیں کر رہا جو ناراض ہوتی زیادہ دیر ۔ اس نے بات چھپائی اس کو شرمندگی ہے میں نے معاف کر دیا۔۔ عزیزہ نے مسکرا کر کہا تھا ۔

یہ تو اچھی بات ہے۔۔ زوریز نے کرسی سے ٹیک لگائے تھی ۔۔ جبکہ عزیزہ اس کو جانچتی نظروں سے دیکھ رہی تھی تبھی زوریز سیدھا ہو کر بیٹھا تھا۔

چلیں میں چلتا ہوں بہت سے کام پڑے ہیں ۔۔زوریز اپنی جگہ سے اٹھا تھا۔ 

پریشان نہ ہو وہ مان جائے گئی وہ الفا سے بھی زیادہ دیر تک ناراض نہ رہتی تھی ۔۔ عزیزہ نے اس کو جاتے ہوئے دیکھا تھا۔۔

الفا نے کبھی اس کو تکلیف نہ دی تھی دل نہ دکھایا تھا۔۔ میں اس کی آنکھوں کے آنسوں کا مجرم ہوں اس کو تکلیف دے بیٹھا ہوں ۔۔ سزا کا حقدار ہوں ۔ وہ روٹھی ہے اس کا حق ہے میں مناؤ گا یہ میرا فرض ہے ۔۔ زوریز نرم لہجے میں بولا تھا۔۔

ویسے اپنے آغا انکل سے ٹیپ لے سکتے ہو۔ عزیزہ نے اس کو چھیرا تھا ۔

ائیڈیا برا نہیں ہے ۔ زوریز مسکرایا تھا اور باہر نکل گیا تھا۔۔۔

••••••••••••••

وہ اپنے کمرے میں  شیشے کے سامنے کھڑا اپنی شرٹ کے بٹن بند کر رہا تھا۔۔ اور ساتھ ہی ایک بیگ اس نے بیڈ پر کھول رکھا تھا۔۔جب اس کے کمرے کا دروازہ نوک ہوا تھا۔۔

آ جاؤ ۔۔ وہ شیشے کے سامنے کھڑا بولا تھا۔۔

تم کہیں جا رہے ہو نوریز ۔۔۔ لینا اس کے کمرے میں آئی تھی اور اس کو تیار ہوتا دیکھ پوچھے بنا نہ رہ سکی تھی۔۔

ہاں کچھ ضروری کام ہے اور جانا ہے۔۔ صبح تک واپس آ جاؤں گا پریشان نہ ہونا ۔۔ نوریز مصروف سا بولا تھا۔۔ جب لینا کی نظر اس کے کھولے ہوئے بیگ پر گئی تھی ۔

یہ آرمی یونیفارم ۔۔۔ لینا نے حیرت سے نوریز کو دیکھا تھا۔۔ جبکہ نوریز کا ایک دراز میں کچھ ڈھونڈتا ہاتھ رکا تھا۔۔

میرا ہے ۔ وہ ہمورا لہجے میں بولا تھا۔۔

تم آرمی اوفیسر ہو۔۔ لینا کو حیرت ہوئی تھی۔۔

ہاں ۔۔ مختصر جواب تھا۔۔

تو تم ادھر کنگ کے پاس کیا کر اور۔۔ لینا کو سمجھ نہ آئی تھی وہ کیا بولے ۔۔

اکثر غلاظت میں اتر کر اس کی جڑوں کو ختم کرنا مجبوری بن جانتی ہے تو بس ہم لوگ وہ ہی کر رہے ہیں ۔۔نوریز اس کے سامنے آ کر کھڑا ہوا تھا۔۔

مگر تم نے کبھی۔۔۔کبھی بتایا کیوں نہیں ۔۔  لینا کو حیرت ہوئی تھی ۔

اگر بتا دیتا تو آج ہم لوگ کنگ کی بربادی کے اتنا قریب نہ ہوتے ۔۔

ہم لوگ کون ۔۔ اور یہ سب کیوں ؟ لینا کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔۔

کیونکہ اس ملک کی معصوم بچیوں کو درندوں کی پہنچ سے بچانا ہے۔۔ اس ملک کی نوجوان نسل کو بچانا ہے جس کو اس کی دی گئی ڈرگز دیمک کی طرح ختم کر رہی ہے۔۔  اس وائٹ پیلیس میں ہر وقت کیسی نہ کیسی کی عزت کا سودا ہوتا تھا کیسی نہ کیسی کی موت لکھی جاتی تھی اور نہ جانے کتنے گھروں کو ساخت کو تباہ کر دیا جاتا تھا ان کے بیٹوں کو ڈرگز پر لگا کر۔۔ وہ ایک ایسی دلدل ہے جس کو ختم نہ کیا گیا تو اس ملک کو برباد کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑے ۔۔ نوریز لینا کو دیکھتے بولا تھا۔۔

تم اس برائی میں رہ کر بھی اس کے گند سے پاک رہے اور میں نے خود کو سر تا پیر اس دلدل میں  ڈوبا دیا۔۔ لینا افسوس سے بولی تھی۔۔

تمہارے پاس موقع ہے۔۔ تم بچ چکی ہو۔۔ نوریز نے اس کی آنکھ کا انسو اپنی پور پر چن لیا تھا ۔

اب مجھے اجازت دو۔ باقی سب کچھ تمہیں آ کر بتا دوں گا۔ نوریز نے اس کی گال کھینچی تھی جبکہ لینا مدہم سا مسکرائی تھی۔۔

نوریز میں ساتھ چلوں ؟ لینا اس کو جاتا دیکھ بولی تھی۔۔

میں تمہیں خطرے میں نہیں لے کر جا سکتا لینا ۔۔کیونکہ ہمیں آج کی اسمگلنگ کو کیسی بھی حال ہی روکنا ہے۔ پلیز تم گھر پر رہو۔ نوریز نے اس کو سمجھانا چاہا تھا۔۔

نوریز اس بار لڑکیاں نہیں بچیاں ہیں ۔۔ لینا بھیگی آنکھوں سے بولی تھی ۔۔

کیا مطلب ۔۔ نوریز مکمل پریشان ہوا تھا ۔

نوریز اس بار جوان لڑکیاں نہیں دس ، گیارہ سال کی بچیاں ہیں ۔۔ پلیز ان کو بچا لو۔۔ لینا رہ پڑی تھی ۔۔

تمہیں یہ کیسے پتا؟ نوریز نے لینا کو بیڈ پر بیٹھایا تھا۔

کیونکہ میں نے ڈیڈ کے سٹیڈی ٹیبل پر اس پلین کی ڈیٹل دیکھی تھی یہ پلین کنگ کے بیٹے اور ڈیڈ کو ہینڈل کرنا تھا۔۔ لینا نے ساری بات کھول کر سامنے رکھی تھی۔۔

کچھ اور جو تم جانتی ۔۔ نوریز اپنی جگہ سے اٹھا تھا۔۔

نہیں بس یہ ہی جانتی ہوں ۔۔ اور یہ کہ وہ اسلام آباد سے لاہور اور پھر آگے کراچی کی طرف لے کر جائیں گے۔۔ لینا نے ساری تفصیل بتائی تھی ۔

تم پلیز اپنا خیال رکھنا ۔۔ اور بہت شکریہ ۔۔ نوریز یہ کہہ کر اپنا بیگ اٹھا چکا تھا۔۔

نوریز مجھے بھی ان بچیوں کو بچانا ہے مجھے ساتھ جانے دو۔۔ وہ اس کے راستے میں ائی تھی۔

تم ان بچیوں کو بچا چکی ہو لینا انفورمیشن دے کر۔۔ تم نے اپنا فرض ادا کر دیا اب ہمیں ہمارا کام کرنا ہے ۔ اپنا خیال رکھو۔۔ پلیز۔۔ نوریز نے اس کا گال تھپتھپایا تھا اور باہر نکل گیا تھا۔۔

جبکہ لینا باہر نکل کر اس کو سڑھیاں اترتے دیکھ رہی تھی۔۔ نہ جانے کیوں مگر اس کو آج پہلی بار نوریز کے لیے اپنے دل میں کچھ محسوس ہوا تھا یہ احساس اس کے لیے بلکل نیا تھا۔۔

••••••••••••••••••

نواز کیا کر رہے ہو تم دھیان کہاں ہے تمہارا ۔۔ شہزاد اس کے پاس آ کر کھڑا ہوا تھا۔۔

پتا نہیں بس ایسے ہی۔۔ نواز الجھا ہوا سا بولا تھا۔۔

نواز کیا بات ہے؟ شہزاد نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا۔۔

شہزاد کیا یہ ٹھیک ۔۔ نواز نے ایک کنٹینر کی طرف اِشارہ کیا تھا۔۔

سب ٹھیک ہے۔۔ شہزاد نے اس کے کندھے پر دباؤ ڈالا تھا ۔

ہوش میں آؤ شہزاد ۔۔۔ یہ بچیاں ہیں  ۔۔۔ بہت چھوٹی ہیں یہ ابھی شہزاد ۔۔ نواز چیخا تھا۔۔۔

تمہاری کوئی بہن نہیں بیچ میں جو تم اتنا پریشان ہو رہے ہو ۔۔۔ شہزاد ڈھارا تھا۔۔۔

اپنی بکواس بند رکھو شہزاد اکرم۔۔ نواز نے شہزاد کا گریبان پکڑ لیا تھا۔۔

نواز گریبان چھوڑو میرا۔۔ شہزاد دانت پیس کر بولا تھا۔۔

نواز اس کا گریبان چھوڑو ۔۔۔ عثمان صاحب نے آ کر نواز کے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا ۔

جبکہ نواز نے شہزاد کو خود سے دور دھکیلا تھا۔۔ اور ادھر سے چلا گیا تھا۔۔

اس کو کیا ہو گیا ہے ؟ پہلے تو ایسا نہیں تھا؟ شہزاد غصے اور حیرت سے عثمان صاحب کو دیکھ رہا تھا۔۔

میں دیکھتا ہوں اس کو تم یہ کام ہینڈل کرو۔۔ وہ یہ کہہ کر نواز کے پیچھے گئے تھے ۔

نواز روک جاؤ ادھر ہی۔۔ نواز کے بڑھتے قدم ایک لمحے کو روکے تھے۔۔۔

کیا ہے اب آپ کو اور کیا کیا چھینا ہے مجھ سے آپ نے؟؟ میری ماں کو چھین لیا، میری بہن کو چھین لیا،  اتنے سال دھوکے میں رکھا۔۔ اس دلدل میں پھنس دیا جہاں سے نکل پانا ممکن نہیں لگ رہا۔۔ اب اور کیا چاہتے ہیں آپ ؟؟ نواز غصے سے دھاڑا تھا ۔۔

بیوقوف مت بنو نواز۔۔ عثمان صاحب بےزار سا بولے تھے ۔

آج ہی تو عقل سے کام لے رہا ہوں اور آپ بول رہے ہیں بیوقوف بن رہا ہوں۔۔۔ حد کر رہے ہیں ڈیڈ آپ ۔۔ نواز کے چہرے پر زخمی مسکراہٹ تھی ۔۔

آپ کو پتا ہے ڈیڈ ۔۔ ساری زندگی آپ کی توجہ پانے کے لیے میں نے سب کچھ کیا ۔ اوٹ اوف کنٹری بورڈینگ سکول میں رہا کیونکہ آپ چاہتے تھے۔ بزنس اینڈ فینانس کیا کیونکہ آپ چاہتے تھے، آپ کے ساتھ اس کام میں انوالو ہوا کیونکہ آپ چاہتے تھے۔۔ آپ کی خواہش تھی۔۔ساری زندگی اپکی خواہشات کو پورا کرنے کی نظر کرتا رہا کہ آپ کا پیار مل جائے گا، آپ کا سب سے قابل بیٹا میں کہلاؤ ، آپ کی توجہ مجھے ملے، آپ مُجھے ویسا چاہیں جیسا نوریز کو چاہتے ہیں ۔۔ مگر نہیں میں سب کچھ کر کے بھی ناکام رہا ڈیڈ ۔۔۔ نواز کی آنکھوں میں نمی تھی۔۔

میں بڑا بیٹا تھا ڈیڈ میرا بھی حق تھا آپ کی توجہ پر آپ کے پیار پر جس کو پانے کے لیے اپکے اشارے پر چلا مگر مجھے وہ پھر بھی نہ ملی ۔۔ آپ نے ایک پٹی آنکھوں پر باندھی تھی بس اس پٹی کے ساتھ جیتا رہا۔۔ اور جب وہ پٹی اتری تو آپ سے زیادہ اپنے آپ سے نفرت ہونے لگی یے مجھے۔۔ نوریز کی انکھ سے ایک آنسو نکلنے کو بیتاب تھا۔۔

عثمان صاحب مکمل خاموش کھڑے اس کو دیکھ رہے تھے۔۔ ان کو اندازہ بھی نہ تھا وہ کیا کرتے رہے ہیں ۔۔

آپ نے مجھے نہ دیا پیار نہ دی توجہ نہ دی اہمیت مجھے اب چاہیے بھی نہیں کیونکہ آپ کی خواہشات کو پورا کر کے آپ کا پیار پانے کے چکر میں ، میں خود پر وہ موجھ ڈال چکا ہوں جو مر کر بھی نہ اترے ۔۔نواز نے افسوس سے اپنے باپ کو دیکھا تھا۔۔

میری بات سنو نواز احمق مت بنو۔۔ عثمان صاحب نے ایک قدم آگے بڑھایا تھا ۔

میں سب معاف کر دوں گا ڈیڈ سب کچھ ۔ مگر میں اپنی ماں کا خون نہیں معاف کر سکتا ۔۔ اپنی بہن کا سودا نہیں معاف کر سکتا ۔ آپ نے مجھ سے اتنے سال جھوٹ بولا مجھے اندھیرے میں رکھا۔۔ نواز نے ایک قدم آگے بڑھایا تھا۔۔

نواز ۔۔ عثمان صاحب نے کچھ بولنا چاہا تھا۔۔

آج نہیں ڈیڈ ۔۔ آج نہیں ۔۔ نواز نے شہادت کی انگلی اٹھا کر ان کو خاموش کروایا تھا۔۔

ڈیڈ ایک سوال پوچھوں گا بس ایک سوال ؟  کیا اپنی  بیٹی کا سودا کرتے اور اس کو کیسی اور کے ہاتھ  دیتے ایک بار بھی یہ ہاتھ نہ کانپے تھے؟ ایک بار بھی دل میں ٹھیس نہ اٹھی تھی؟ ایک بار بھی روح نہ مچلی تھی؟ نواز کی آنکھوں میں آنسوں تھے۔۔

نہیں ،، وہ بوجھ تھی۔۔ عثمان صاحب سخت لہجے میں بولے تھے۔۔

وہ بوجھ نہیں تھی ڈیڈ ۔ بوجھ آپ کے گناہوں کا تھا۔ آپ نے ناجانے کتنوں کی بیٹیوں کی زندگی برباد کی وہ بوجھ اس احساس جرم کا تھا ڈیڈ۔۔ وہ بوجھ نہیں تھی ڈیڈ۔۔ ہم پر بوجھ ہمارے گناہوں کا ہے ہمارے احساس جرم کا ہے۔۔ نواز کی آواز ان کی آواز سے زیادہ سخت تھی ۔

تو تم خود کیا ہو اپنے گریبان میں بھی جھانکوں نواز۔۔ عثمان صاحب نے اس کا گریبان پکڑا تھا۔۔

جھانک چکا ہو ڈیڈ جھانک چکا ہوں۔ اور قسم سے اس وقت خود سے اپنے وجود سے اور اپنی ہستی سے گھین آ رہی ہے۔۔ اور شکر ادا کر رہوں کہ آج میری بہن میرے پاس نہیں ورنہ کیسے اس کا سامنا کرتے لوگوں کی بہن بیٹیوں کی عزت نیلام کر کے۔ کیسے اس سے یہ نظریں ملاتا جن نظروں نے عورت ذات کو دیکھا ہی صرف حواس سے ہے ، کیسے اس کے سر پر یہ ہاتھ رکھتا جس ہاتھ نے نہ جانے کتنی لڑکیوں کی چادریں اتاری ہیں ۔۔ شکر ادا کرتا ہوں میری بہن میرے پاس نہیں  ہے ڈیڈ ورنہ آج نواز عثمان زمین پر ایسے ڈھہ جاتا جیسے کبھی کھڑا نہ ہوا تھا۔ نواز کے الفاظ اس قدر سخت تھے کہ عثمان صاحب بس اس کا چہرہ دیکھتے رہ گئے تھے۔ 

وہ ادھر سے چلا گیا تھا شاید کبھی نہ اس جگہ پر لوٹ آنے کے لیے ۔۔ عثمان صاحب اس کو جاتا دیکھ رہے تھے۔۔ ان میں ہمت نہ ہوئی تھی کہ اس کو آواز دے کر روک سکیں وہ تو جیسے ان کی آواز لے گیا تھا آج ۔۔

نواز کدھر گیا آنکل ۔۔ شہزاد ان کے پیچھے آ کر کھڑا ہوا تھا۔۔ مگر عثمان صاحب نے دھیان نہ دیا تھا وہ کب سے ادھر کھڑے تھے بلکل خاموش ۔۔

انکل نواز کہاں ہے؟ شہزاد نے اب کی بات ان کے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا جبکہ عثمان صاحب نے کہ نظریں ابھی بھی اس جگہ پر ہی تھی جہاں سے نواز گیا تھا۔۔۔

وہ چلا گیا۔۔ عثمان صاحب بس اتنا ہی بول سکے تھے۔۔۔

کدھر چلا گیا اور کیوں ؟ شہزاد کو حیرت ہوئی تھی۔۔

وہ بس چلا گیا آج ۔۔ عثمان صاحب یہ بول کو واپس پلٹ گئے تھے ۔۔

ان کی چال شکستہ تھی، سر جھکا ہوا تھا، شانے ڈھلک گئے تھے، چہرہ زرد پر گیا تھا، آج عثمان صاحب کو احساس ہوا تھا جب اولاد سامنے کھڑی ہو جائے تو کتنی تکلیف ہوتی ہے۔۔  وہ جو ان کا ساتھ نہ چھوڑتا تھا آج وہ ان کو چھوڑ کر گیا تھا ایک صاف آئنیہ دیکھا گیا تھا کہ عثمان صاحب سے سر اٹھانا مشکل ہو گیا تھا۔۔

•••••••••••••••••

رات کا وقت تھا آج لاہور سے آسلام آباد جانے والی موٹر وے ایم-2 پر معمول سے کم ٹریفک تھی ۔۔ درختوں میں ایک جانب ایک لمحے کے لیے کچھ ہلچل ہوئی تھی مگر اگلے ہی لمحے ساری موٹر وے سنسان تھی۔۔

موٹر وے کے دونوں اطراف میں کچھ جوان سیاہ لباس میں ملبوس چہرے کو سیاہ ماسک سے ڈھکے ہاتھوں میں گنز لیے اندھیرے کا حصہ لگ رہے تھے ۔ ان کا لیڈر ان کو ان کی پوزیشنز کا بتا رہا تھا۔ جب اس کو اپنے پیچھے کیسی کی آہٹ سنائی دی۔۔  اس نے گردن موڑ کر دیکھا تھا۔۔

نیلی آنکھیں اندھیرے میں بھی اس کو پہچان گئی تھی۔۔ وہ اس کی موجودگی کو ایک لمحے میں محسوس کر لیتا تھا ۔ وہ کوئی اور نہیں الپائن تھی۔۔اس کی الپائن ۔۔

الپائن ۔۔۔ وہ ذریعے لب بربرایا تھا۔۔ جبکہ اس کان میں موجود بلو ٹوتھ  یہ آواز دوراب تک پہنچا چکا تھا۔۔

زوریز جزا ادھر کیا کر رہی ہے ۔ دوراب کی آواز بلو ٹوتھ سے آئی تھی ۔

میں نہیں جانتا ۔۔۔ وہ بس اتنا بول کر ایک قدم اگے بڑھا تھا۔۔ اور اب وہ اس کے بلکل سامنے کھڑا تھا۔۔

تم ادھر کیا کر رہی ہو؟ زوریز نے اس کو سر سے پیر تک دیکھا تھا۔ جبکہ اس کی نظر اس کے پاؤں میں موجود بلیک ہیلز پر گئی تھی۔ اور بس پھر وہ اس کے پاوں کو دیکھتا جا رہا تھا۔۔

مجھے خان نے بھیجا ہے ادھر۔۔ جزا کا انداز دوٹوک تھا۔۔ مگر زوریز کا دھیان اس کی بات پر نہیں اس کے پاؤں پر تھا۔۔۔

تم ولیمے پر نہیں آئی جو ہلیز پہن کر آ گئی ہو؟ اس کا منہ حیرت سے کھولا ہوا تھا۔۔

نہیں بارات پر آئی ہوں۔۔ اس کی بات پر جزا نے غصے سے کہا تھا۔۔۔

زوریز نے کچھ اور بولنا شروع کیا تھا جب اس کا فون وائبرٹ ہوا تھا ۔۔ اس نے جلدی سے فون نکلا تھا۔۔ نمبر دیکھ کر اس نے فون فوراً دوسرے کان سے لگایا تھا جہاں بلوٹوتھ نہیں لگا تھا۔۔

ہولو ۔۔ زوریز فوراً مدعے پر آیا تھا ۔

میری بات کان کھول کے سنوں زوریز ۔۔ اس بار جوان لڑکیاں نہیں معصوم بچیاں ہیں جو پاکستان سے باہر بھیجی جا رہی ہیں ۔۔ اور میں اس وقت کنگ کے بتائے پتے پر جا رہا ہوں کیونکہ اور کچھ دیر میں اس کی ایک دعوت شروع ہونے والی  ہے۔ اور کنٹنیزز نکل چکے ہیں۔۔ مقابل نے فوراً بولنا شروع کیا تھا۔۔

اس بار میں ان سب کا اور کبیر خاور کا وہ حال کروں گا کہ دنیا یاد رکھے گئی ۔۔ کل کا سورج طلوع ہونے سے پہلے کبیر خاور کو پر آسمان نہ گریا اور اس کے ساتھیوں کو چہرے بےنقاب نہ کیے تو میرا نام زوریز ابراہیم احمد خان نہیں ۔۔۔ زوریز نے یہ کہہ کر کال کاٹی تھی اور فون اوف کر کے جیب میں ڈالا تھا۔۔

میری بات سنو سب دوراب تم بھی، اس بار لڑکیاں نہیں بچیاں پاکستان سے باہر بھیجی جا رہی ہیں ۔۔ ان کی حلق سے جان نکالنی پڑی وہ بھی نکالیں گے مگر بچیاں یہاں سے آگے نہیں جائیں گئی ۔۔ مرنا پڑا مر جائیں گے بچیوں کو ان درندوں سے بچا کر رہی گے۔۔ وقت آگیا ہر حساب کو بےباک کرنے کا۔۔ آوور اینڈ اوٹ۔۔ یہ کہہ کر زوریز  نے موڑ کر جزا کو دیکھا تھا جبکہ اس کی ساری ٹیم اب اپنی اپنی جگہ پر تھی۔۔

ایک بچی بھی اس جگہ سے آگے نہیں جائے گئی ۔۔ یہ میرا وعدہ ہے۔۔ وہ اگر آگے جائیں گئی تو ہماری نگرانی میں جائیں گئی ۔۔  جزا یہ کہہ کر موڑی تھی اور اپنی گن لوڈ کر کے ایک درخت کے پیچھے کھڑی ہو گئی تھی۔۔

زوریز کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ نے جگہ لی تھی۔۔ اس کو جزا کے اس انداز پر ٹوٹ کر پیار آیا تھا۔۔ وہ اپنا ماسک ٹھیک کرتا جس جگہ جزا کھڑی تھی اس سے تھوڑا آگے ایک درخت کے پیچھے کھڑا ہوا تھا۔۔

دور سے دو کنٹینرز آتے نظر آئے تھے۔۔ زوریز نے گھڑی کو دیکھا تھا۔۔

دس منٹ ۔۔۔ وقت دیکھنے کے بعد زوریز بولا تھا۔۔ جب اس کی ساری ٹیم نے تھیمس آپ کیا تھا۔۔ مطلب صاف تھا کہ دس منٹ کے اندر ان کو ان کنٹینرز کو اپنی کسٹڈی میں لینا ہے۔۔

جیسے ہی وہ ٹرک کچھ قریب ہوئے زوریز کے ایک اشارے پر اس کی ٹیم کی سائلنٹ پر لگی گنز سے گولیاں نکلی تھی۔

دو کیپٹنز نے آگے چلتے کنٹینر کے ڈرائیور اور ڈرائیور کے ساتھ موجود آدمی کا نشانہ لیا تھا اور گولیاں ان کے سینے سے آر پاڑ ہوئی تھی۔۔ کنٹینر اوٹ اوف کنٹرول ہو کر سڑک سے اترا تھا اور کنٹینر کے ویل کچھ پتھروں سے ٹکرائے تے اور اگے جا کر ایک درخت کو کنٹنیر لگا تھا کنٹنیر کی ایک طرف بہت بڑے ڈینٹ  پڑے تھے درخت کے ساتھ لگنے کی وجہ سے۔ جیسے ہی کنٹینر سڑک سے اترا پیچھے آتی گارڈز کی ڈو گاڑیاں روکی تھی جبکہ دوسرے کنٹینر کا ڈرائیور کنٹینز کو موڑنے کی کوشش کرنے لگا تھا۔۔ مگر اس سے پہلے دو کیپٹنز اس ڈرائیور اور اس کے ساتھ بیٹھے آدمی کا نشانہ بنا چکے تھے۔۔

دوسری طرف ایک طرف سے دوراب اور اس کے ساتھ موجود تین افیسرز، جزا زوریز اور ان کے ساتھ موجود دو آفیسرز کے ساتھ مل کر ان گارڈز کی طرف سے کی جانے والی فائرنگ کا مقابلہ کر رہے تھے۔۔  اور دو آفیسرز ان کنٹینرز کو چیک کر رہے تھے۔۔

دوراب نے اپنی گن سے ایک آدمی کا نشانہ لیا تھا جیسے ہی اس نے گولی چلائی گولی اس آدمی کے سر گزری تھی۔۔ اس سب میں ایک آفسیر کی سیدھی بازر میں ایک گولی لگی تھی اس کے بعد بھی وہ مردانہ وار مقابلہ کر رہا تھا۔۔  زوریز نے اپنی گن سے نشانہ بنایا تھا۔۔ اور جیسے ہی گولی اس کہ گن سے نکلی تھی وہ پہلے ایک آدمی کے سر سے آر پار ہوتی اس کے بلکل ساتھ کھڑے آدمی کے سر میں لگی تھی اور وہ  دونوں زمین پر ایک ساتھ گرے تھے ۔۔

جزا نے اپنی گن واپس اپنی جیب میں رکھی تھی اور ایک چھوٹا سا تیز دھاڑ والا چاقو نکالا تھا اور اس کو ہاتھ میں گھومایا تھا۔۔ اور جب اس نے اس چاقو کو پھینکا تو وہ بلکل زوریز کے چہرے کے قریب سے ہوتا ایک آدمی کے سینے پر اس مقام پر جا کر لگا تھا جہاں دل تھا ۔ وہ آدمی اس سے پہلے زوریز پر گولی چلاتا جزا اس کو ڈھیر کر چکی تھی۔۔

یہ لڑکی گولیوں کے مقابلے تلوار ، اور چاقو کیوں نکلتی ہے ۔ زوریز بےبسی سے بولا تھا۔

زوریز نے سامنے کا منظر دیکھا تھا چھ کے چھ گارڈز کی لاشیں زمین پر گری ہوئی تھی ۔۔ اس نے کلائی پر موجود گھڑی پر وقت دیکھا تگا ابھی صرف سات منٹ ہوئے تھے۔۔

ویل ڈین بوائے ۔۔ زوریز نے ان سب کو فخریہ نظروں سے دیکھا تھا۔۔

تم ٹھیک ہو جنید۔۔ جس کیپٹن کو گولی لگی تھی زوریز نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا۔۔

سر افسوس ہو رہا ہے یہ گولی سینے میں کیوں نہ لگی ۔شہادت سے چند لمحے دور تھا۔۔ وہ مُسکراتے ہوئے بولا تھا۔۔

مجھے تمہارا یہ جذبہ سب سے زیادہ پسند ہے جنید ۔۔۔ اللہ ہم سب کو شہادت کی موت دے اپنے ملک اور اپنی قوم اور اپنے دین کی حفاظت کرتے موت کو خوشی خوشی گلے لگائیں ۔۔ زوریز کی آواز میں ایک ایسی خواہش ایک ایسا جذبہ تھا کہ ایک طرف کھڑی جزا نے ایک لمحے اس کو باغور دیکھا تھا۔۔

آمین ۔۔اس کی اس دعا پر وہاں موجود ایک ایک آفیسر بلند آواز میں بولا تھا۔۔

مجھے بھی یہ موت نصیب ہو ۔۔ امین ۔۔ جزا بہت مدہم آواز میں بولا تھی۔۔ ان جوانوں کا جذبہ دیکھ کر آج اس کے دل میں اس ملک کے محافظوں کے لیے عزت اور بھی بڑھ گئی تھی۔۔

بچیاں کس کنٹینر میں ہیں ۔۔ زوریز کی آواز اس کو ہوش میں لائی تھی۔۔

سر اس کنٹینر میں بچیاں ہیں سب بےہوش ہیں ۔۔ اور اس میں اسلحہ اور ہیروئن ہے۔۔ ایک آفسر اس کے سامنے کھڑا بولا تھا۔۔

تم اس کنٹینر کو لے کر آرمی ہیڈ کوارٹر جاؤ ۔ اور تم اس کنٹنرکو لے کر۔۔ زوریز نے دو آفیسرز کو اشارہ کیا تھا جو فوراً کنٹینرز کی طرف بڑھے تھے۔۔ اندر موجود لاشوں کو باہر پھینکا تھا۔۔اور خود ان کنٹینرز پر سوار ہو کر ان کو لے کر نکل گئے تھے۔۔

پیچھے زوریز، دوراب ، جزا اور باقی آفیسرز روڈ پر موجود ان گارڈز کی لاشوں کو سڑک سے ہٹا چکے تھے اور ان کی گاڑیوں کو بھی سڑک سے ہٹا کر اپنی منزل کی طرف روانہ ہوئے تھے ۔۔

••••••••••••••••

وائٹ پیلیس میں شراب اور شباب کا سماں عروج پر تھا۔۔ کنگ کی پسندیدہ رقاصہ اپنا رقص کر رہی تھی ۔ جبکہ بار کے پاس شراب ڈالتی کچھ لڑکیاں جانچتی نظروں سے سارا منظر دیکھ رہی تھی۔۔ اور پھر ایک لڑکی وائن گلاسز کو ایک ٹرے میں رکھے سب مہمانوں کی طرف بڑھی تھی ۔

کنگ تمہارا بیٹا اپنا شوق پورا کر کے ابھی تک نہیں لوٹا ۔۔ ایم ان اے جہانزیب گلاس لبوں سے لگائے ہنستے ہوئے بولے تھے۔۔

کچھ  کہہ نہیں سکتا پتا نہیں کدھر گیا ہے یہ لڑکا نہ فون اٹھا رہا ہے نہ خود رابطہ کر رہا۔۔ کنگ بےذار سا بولا تھا۔۔

کیا ہو گیا ہے کنگ جوان خون ہے کرنے دو اس کو عیش۔۔۔ ادنان عیسی جو کہ  امپورٹ ایکسپورٹ کا کام کرتا تھا ہستے ہوئے بولا تھا۔۔

بس ایسی بات کی وجہ سے تو کچھ بول نہیں رہا۔۔ کنگ مسکراتے ہوئے بولا تھا۔۔

اور تمہارا بھائی کدھر ہے؟ کنگ نے نوریز کی طرف دیکھا تھا۔ اور کنگ کی اس بات پر عثمان صاحب نے نوریز کو دیکھا تھا۔۔

اس کی طبعیت کچھ ٹھیک نہیں تھی اس وجہ سے اس کو واپس بھیجا ہے۔۔ نوریز ہموار لہجے میں بولا تھا۔۔

اچانک سے بھاری بوٹوں اور ہیلز کہ آواز ان کو اندر کی طرف آتی سنائی دی تھی۔۔ کنگ نے ہاتھ میں پکڑا سگار لبوں سے لگایا تھا۔۔ اور سامںے کی طرف سر اٹھا کر دیکھا تھا۔۔ مگر سامنے سے آتے شخص کو دیکھ کر کنگ کے ہاتھ سے سگار زمین پر گرا تھا۔۔

وہ ہمیشہ کی طرح اپنی بےخوف اور شاہنا انداز میں اپنے لیفٹ اور رائیٹ ہنڈئکے ساتھ اندر آیا تھا اس بات اس نے ساتھ ایک شہد رنگ آنکھوں والی لڑکی بھی تھی۔۔ ان چاروں کا لباس ایک جیسا تھا مکمل سیاہ ، سیاہ کیپ سر پر سیاہ ماسک منہ پر۔ اس کی سبز آنکھوں میں قہر تھا۔۔ ایسا قہر کہ وہ ایک لمحے میں ادھر آگ لگا دے۔۔

کنگ حیرت سے پلک جھپکائے بغیر ان کو دیکھ رہا تھا اور یہ ہی حالت وہاں موجود ہر شخص کی تھی۔۔ جس کو وہ مرا ہوا سمجھ رہے تھے وہ ان کے سامنے زندہ سلامت کھڑا تھا ۔

کیا ہوا کبیر خاور ۔۔۔ سانس اٹک گئی کیا؟؟ بیسٹ ایک ایک قدم اُٹھاتا اس کے سامنے آ کر کھڑا ہوا تھا۔۔۔

یہ تم کیسے ہو سکتے ہو۔۔ تم تو۔۔۔ کنگ سے الفاظ ادا کرنا مشکل ہو گیا تھا۔۔

ہاں میں مر گیا تھا۔۔ بقول تمہارے بیٹے کے ۔۔ بیسٹ کا لہجہ طنزیہ تھا۔۔

تم زندہ ۔۔۔ کیسے ۔۔ کنگ اپنی جگہ سے کھڑا ہوا تھا اس کو ابھی بھی یقین نہیں آ رہا تھا۔۔

بیسٹ چلتا ہوا بلکل اس کے سامنے جا کر کھڑا ہوا تھا۔۔ اور جیسے ہی ہال میں زناٹے دار تھپڑ کی آواز گونجی سب اپنی جگہ سے کھڑے ہوئے تھے ۔ جبکہ کنگ اس صوفے پر منہ کے بل گرا تھا جہاں چند لمحے قبل وہ بیٹھا ہوا تھا۔۔

اب یقین آیا کہ میں زندہ ہوں؟؟  بیسٹ جھک کر اس کے چہرے کو اپنے ہاتھوں میں دبوچا تھا۔۔

اس۔۔ اس تھپڑ ۔۔۔کا حساب تیری سو نسلیں دیں گئی ۔۔ کنگ غصے سے چیخا تھا۔۔

تمہاری سو نسلیں مل کر میری ایک نسل کا بھی کچھ نہیں بگار سکتی سو نسلیں تو دور کی بات ہیں ۔۔ بیسٹ نے اس کا منہ ایک جھٹکے سے چھوڑا تھا۔۔

میں تمہیں زندہ نہیں چھوڑوں گا بیسٹ ۔۔ کنگ غصے سے اس کی طرف لپکا تھا ۔

اور میں تمہیں جینے لائق نہ چھوڑوں گا۔۔ تمہیں پل پل ماروی گا میں ۔ بیسٹ قہر برساتی نظروں سے اس کو دیکھتا بولا تھا ۔۔ اور موڑ کر ولف کی طرف بڑھا تھا اور اس کے ہاتھ سے ایک بوکس پکڑا تھا۔۔۔

تمہارے لیے ایک تحفہ لایا ہوں۔۔ بیسٹ چلتا اس کے قریب آیا تھا۔۔ جبکہ وہاں موجود ہر شخص کو سانپ سونگھ ہوا تھا وہ سب خاموش تماشائی بنے اس کو دیکھ رہے تھے ۔

کیا ۔۔ ہے یہ؟ کنگ کو نہ جانے کیوں کچھ غلط ہونے کا احساس ہوا تھا۔۔ وہ بیسٹ سے کیسی بھی بات کی توقع کر سکتا تھا ۔۔

بیسٹ نے وہ بوکس ٹیبل پر رکھ کر کھولا تھا ۔ اور جو اس نے اس بوکس سے نکالا تھا اس نے باقی سب کو پیچھے ہٹ جانے پر مجبور کیا تھا ۔ جبکہ کنگ کی چیخیں نکل گئی تھی۔۔۔

نہ۔۔۔۔ نہیں ۔۔۔۔ میرا۔۔۔ صارم ۔۔۔ کنگ بلند آواز میں بولا تھا۔۔ آنکھوں سے آنسوں نکلنے لگے تھے۔۔ اس نے روتے ہوئے سامنے کھڑے اس شخص کو دیکھا تھا جو اس بیٹے کو سر ہاتھ میں لیے کھڑا تھا۔۔

میرا۔۔۔ صارم ۔۔۔۔۔ لعنت ہو تم پر۔۔۔۔لعنت ہو تم پر بیسٹ ۔۔۔ میرا بیٹا مار ڈالا تم نے۔۔۔ لعنت ہو۔۔۔ کنگ غصے سے آگے بڑھا تھا۔۔۔

بیسٹ نے کنگ کی گردن کو دبوچ کر اس کو ادھر ہی روک لیا تھا۔۔۔

تم لوگوں کے بیٹے مارو خیر ہے۔۔ تم لوگوں کی بیٹیوں کو بے آبرو کروں خیر ہے۔۔ تمہیں ہر گناہ معاف ۔۔ میں نے تمہارے بیٹا مارا تو مجھے پر لعنت ۔۔ یہ کہاں کا انصاف ہے کبیر خاور ۔۔ بیسٹ طنزیہ انداز میں ایک ایک لفظ چبا چبا کر بولا تھا۔۔

میر۔۔۔ میرا۔۔ کنگ کی گردن بیسٹ نے اتنی بری طرح دبوچ رکھی تھی کہ اس سے بولا نہ جا رہا تھا۔۔

تکلیف ہوتی ہے نہ جب جوان بیٹا مرتا ہے۔۔  سوچ یہ تکلیف تو نے کتنوں کو دی ہے۔۔ بیسٹ نے کنگ کو پیچھے کی طرف دھکیل تھا۔۔ وہ لڑکھڑا کر زمین پر گرا تھا۔۔ اور ہاتھ میں پکڑا سر اس نے کنگ کی طرف پھینکا تھا۔۔

کنگ نے فوراً وہ سر اٹھا کر اپنے سینے سے لگایا تھا۔۔ آنسوں اس کی آنکھوں سے متواتر بہہ رہے تھے ۔۔۔

میں اس کو زندہ نہیں چھوڑوں گا۔۔ وہ اس سر کو گلے لگا کر بولا تھا۔۔

تیری الٹی گنتی شروع ہو چکی ہے کبیر خاور۔۔ اب تجھے پتا چلے گا عروج سے زوال ہوتا کیا ہے۔۔ اور جب ظلم کی حد پار ہو جائے تو ظالم کا انجام کیا ہوتا ہے۔۔ بیسٹ اس کے پاس بیٹھا اس کے بالوں کو موٹھی میں دبوچ کر بولا تھا۔۔۔

میرے بیٹے کو مار کر تو نے اچھا نہیں کیا۔۔ کنگ کی آنکھوں میں خون  تھا۔۔

تیرے بیٹے کے ساتھ جو کیا سو کیا مگر جو اب میں تیرے ساتھ کروں گا اچھا وہ بھی نہیں ہو گا۔۔ بیسٹ نے اس کے بالوں کو ایک جھٹکے سے چھوڑا تھا اور اپنی جگہ سے اٹھا تھا واپس موڑنے کے لیے ۔۔

بیسٹ میری ایک بات یاد رکھی کبیر خاور اب تیری قبر خود اپنے ہاتھوں سے کھودوں گا۔۔۔ کنگ فوراً زمین پر سے اٹھ کر غصے سے دھاڑا تھا۔۔۔

اور میں تمہں اسی قبر میں خاموش نیند سولا دوں گا کبیر خاور۔۔ یہ کہہ کر بیسٹ روکا نہ تھا ادھر سے چلا گیا تھا۔۔

وہ جب جب کبیر خاور کے سامنے آیا تھا تب تب اس نے اس کی جان کو عذاب میں ڈالا تھا۔۔ اور آج وہ صحیح معنوں میں کنگ کی جان ساتھ لے کرگیا تھا۔۔ نہ جانے وہ اب آگے کیا کرنے والا تھا۔۔

••••••••••••••••

بچیاں سب کیسی ہیں ؟ وہ لوگ رش ڈرائیو کرتے چار پانچ گھنٹے کا راستہ دو تین گھنٹے میں پورا کر کے اس وقت لاہور پہنچے تھے۔۔ زوریز نے آتے ساتھ بچیوں کے بارے میں سوال کیا تھا۔۔

سر بچیاں انڈر ابزرویشن ہیں ۔۔ کیونکہ ان کو بہت مارا پیٹا گیا ہے اور ساتھ ہی ان کو ہلکی مقدار میں ڈرگز دی جاتی رہی ہے ۔۔ ایک لیڈی آفیسر کھڑی اس کو ساری ریپوٹ دے رہی تھی۔۔

اور یہ سب سنے کے بعد جہاں زوریز، دوراب اور آیان کا خون کھولا تھا ۔ وہاں جزا کا بس نہ چل رہا تھا ابھی کہ ابھی جنگ کے ٹکرے کر آئے ۔۔

ان بچیوں کو تب تک اپنی ذریعے نگرانی رکھو جب تک وہ مکمل ٹھیک نہیں ہو جاتی اور ان سب کے گھر والوں سے رابطہ کرو۔۔ زوریز یہ کہہ کر آگے بڑھا تھا۔۔

کیپٹن سفیر کو بھیجو ۔۔ زوریز اگے بڑھتے ایک افسیرکو کہتا اپنے اوفس کی طرف بڑھا تھا اس کے پیچھے ہی جزا، دوراب اور آیان بھی آئے تھے جبکہ رحیان پہلے سے ہی اس کے اوفس میں موجود تھا۔۔

زوریز تم کیا کرنے لگے ہو۔۔ دوراب فوراً اس کے سامنے جا کر کھڑا ہوا تھا۔۔

اب جو کروں گا وہ صرف پاکستان نہیں بلکہ پوری دنیا دیکھے گئی۔۔ میں ان کو اب مزید ایک لمحہ اور نہیں دوں گا کہ یہ پاکستان کی کیسی بیٹی کیسی بھی نوجوان کی طرف اور اس سر زمین کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھیں ۔۔ زوریز غصے سے ایک ایک لفظ پر زور دیتا بولا تھا ۔۔

مگر تم کرنے کیا والے ہو۔۔ آیان نے اب کی بار اس سے سوال کیا تھا۔۔

تختہ پلٹنے والا ہوں۔۔ کبیر خاور سمیت اس کے تمام مہروں کو کمزور کرنے والا ہوں۔۔ شطرنج کا  پاسا پلٹنے کا وقت آ گیا ہے۔۔ زوریز چلتا ہوا شطرنج کے پاس آیا تھا ۔۔ جس کو دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا جیسے  کوئی اس کو کھیل رہا ہے مگر وقفے وقفے سے۔۔

شطرنج کا ایک اور بھی اصول ہے سب سے پہلے مضبوط مہروں کو مارو ۔۔ جزا نے آگے بڑھ کر سیاہ رانی سفید موہرے کی جگہ رکھی تھی اور سفید موہرا اٹھا کر باہر رکھ دیا تھا۔۔ اور موڑ کر زوریز کو دیکھا تھا ۔۔

مطلب اب کی بار رانی بھی میدان میں آئی ہے؟ رحیان دلچسپی سے ساری گفتگو سن رہا تھا آخر کار بولا تھا۔۔

بلکل ۔۔۔  زوریز اپنی چال چلے گا جو وہ کرنا چاہتا ہے جبکہ میں اپنی چال چالوں گئی ۔۔ کبیر خاور کو ایک ساتھ دو دھچکے ملیں گے۔۔ جزا ایک کرسی پر بیٹھ کر بولی تھی۔۔

تم کیا کرنے والی ہو جزا۔۔ دوراب فکر مندی سے بولا تھا۔۔

اس وقت کبیر خاور کے ساتھ پاس جو سب سے مضبوط موہرا ہے اس کو گرانے والی ہوں ۔۔ جزا نے کرسی  کی پیشتث سے ٹیک لگائی تھی۔۔

ابھی وہ لوگ کوئی اور بات کرتے جب دورازہ نوک ہوا تھا۔۔

آ جاؤ اندر ۔۔ زوریز یہ بول کر اپنی ٹیبل کی طرف بڑھا تھا۔۔

اسلام وعلیکم سر۔۔۔ کیپٹن سفیر نے آتے ساتھ سلیوٹ کیا تھا۔۔

وعلیکم السلام کیپٹن ۔۔۔ ایک کام ہے آپ سے۔۔ زوریز نے اپنے ہاتھ پکڑی یو اس بی کو غور سے دیکھا تھا اور پھر کیپٹن سفیر کو دیکھا تھا۔۔

کام ہو جائے گا۔۔ کیپٹن سفیر نے آگے بڑھ کر وہ یو اس بی پکڑی تھی۔۔

کل کا سورج نکلنے سے پہلے یہ کام ہو جانا چاہیے ۔۔ زوریز نے اس بات پر کافی زور دیا تھا۔۔

سر کل کا سورج ان کی بربادی کو لے کر نکلے گا۔۔ کیپٹن سفیر نے اس یو اس بی کو اپنی موٹھی میں دبا لیا تھا۔۔

بہت خوب ۔۔ اب جاؤ کام پر لگو ۔۔ زوریز نے اس کو جانے کا بولا تھا۔۔ جیسے ہی کیپٹن سفیر اوفس سے باہر نکلے تھے۔۔ ابراہیم صاحب ، حدید ، اور نوریز اس کے اوفس میں آئے تھے۔۔

زوریز۔۔ مجھے ابھی کہ ابھی ایک میٹنگ کرنی ہے۔۔ اور جزا آپ بھی اس میٹنگ میں شامل ہو۔۔ ابراہیم صاحب غصے سے بولے تھے۔۔

 •••••••••••••••••••••••

رات کے اندھیرے میں کوئی اس وقت زمین کی کھدائی کر رہا تھا۔۔ اگر قریب سے دیکھتے تو یہ کبیر خاور تھا ایک طرف سفید کپڑے پر صارم کا سر پڑا ہوا تھا۔۔

وہ روتے ہوئے قبر کھود رہا تھا۔۔۔  زمین میں ایک چھوٹا سا گرا وہ بنا چکا تھا۔۔ اس نے کانپتے ہاتھوں سے صارم کا سر اُٹھایا تھا۔۔

میں نے تو ابھی تمہیں اپنی جگہ بھی نہ دی تھی صارم ۔۔ کبیر خاور کی آواز بھر آئی تھی ۔

اس نے اس سر کو اپنے سینے سے لگایا تھا۔۔ اور پھر اس کو کھودی ہوئی زمین میں رکھا تھا اور مٹی اس پر ڈالنے لگا تھا۔۔ وہ جس کا ہاتھ کبھی کیسی کا قتل کرتے ہوئے کیسی کی زندگی برباد کرتے ہوئے نہ کانپا تھا آج اس کا ہاتھ بیٹے کے سر کو مٹی کی نظر کرتے کانپ رہا تھا۔۔

میں اس کو کتے کی موت ماروی گا۔۔ یہ میرا تم سے وعدہ رہا۔ کبیر خاور کی آنکھوں سے آنسوں اس مٹی میں جذب ہوئے تھے ۔

وہ کب سے اس جگہ بیٹھا رہا تھا جب اچانک کئی برسوں پرانی کیسی کی آواز اس کی سماعت میں گونجی تھی۔۔

اس کام کو چھوڑ دو کبیر یہ نہ ہو یہ تمہاری اولاد کے گلے کو آ جائے ۔۔ ایک عورت اس کے سامنے کھڑی غصے سے بولی تھی ۔

اپنی بکواس بند رکھو اور دوبارہ اپنا یہ منحوس چہرہ میرے پاس نہ لانا ۔ کبیر نے اس کا چہرا اپنے ہاتھ میں دبوچا تھا۔۔

دولت اور شہرت کے نشے نے تمہیں اندھا کر دیا ہے کبیر تم حرام حلال بھول گئے ہو۔۔  وہ عورت کبیر خاور کو دور دھکیلتے بولی تھی۔۔۔

اگلے ہی لمحے تھپڑ کی آواز گونجی تھی۔۔ اس عورت نے اپنے منہ پر ہاتھ رکھ لیا تھا۔۔

تمہاری اولاد نگل جائے گا تمہاری دولت کا لالچ اور یہ کام۔۔ وہ عورت اب کی بار چیخ کر بولی تھی۔۔

کنگ ۔۔۔وہ ایسے ہی اپنے خیالوں میں گم تھا۔۔۔

کنگ ۔۔۔ اس آدمی نے پھر سے اس کو بلایا تھا۔۔

ہاں بولو ۔۔ کبیر خاور نے موڑ کر اس کو دیکھا تھا۔۔

کنگ آپ کے لیے فون ہے۔۔ اس آدمی نے ہاتھ میں پکڑا فون کنگ کی طرف بڑھایا تھا۔۔

کبیر خاور نے فون کان سے لگایا تھا ۔۔ جب مقابل کی غصّے سے بھری آواز فون کے سپیکر سے گونجی تھی۔۔

میں تیرے باپ کا نوکر نہیں ہوں جو پچھلے پانچ گھنٹے سے لاہور کے پاس کھڑا کنٹینر آنے کا انتظار کر رہا ہوں۔۔ اس کی بات سن کر کبیر خاور اپنی جگہ سے اٹھا تھا ۔۔

کیا بکواس کر رہے ہو تم۔۔۔ کب سے کنٹینرز نکلے ہوئے ہیں ۔۔ کبیر خاور سخت لہجے میں بولا تھا۔۔

پتا کر کے بتاؤ مجھے کہاں تک پہنچے ہیں کنٹینرز ۔۔۔  وہ آدمی یہ کہہ کر فون رکھ چکا تھا۔۔ جبکہ اب کبیر خاور کو ایک نئی مشکل گلے کو پڑتی نظر آ رہی تھی وہ فوراً اندر کی طرف بڑھا تھا ۔

•••••••••••••••••

مجھے بس اتنا بتاؤ کہ تم لوگوں کو کتںا وقت چاہیے ہے ان غداروں اور ضمیر فروشوں کو اور ملک دشمنوں کو ختم کرنے میں ۔۔ جنرل ابراہیم اس وقت کافی غصے میں میٹنگ روم میں اپنی جگہ پر بیٹھے سامنے موجود بیٹھے تمام آفیسرز کو دیکھتے بولے تھے۔۔۔

پانچ دن ۔۔۔ زوریز مطمئن سا بولا تھا۔ جبکہ چہرے پر ایک عجیب سی مسکراہٹ تھی۔۔

اور ابراہیم صاحب نے اس کو ایسے دیکھا تھا جیسے ان کو اس کی ذہنی حالت پر شک ہو۔۔

میجر زوریز پانچ دن میں آپ اس کے ولیمے کی تیاری کرنا چاہتے ہیں ۔۔  ابراہیم صاحب نے اس کو غصے سے دیکھا تھا۔۔

تیاری تو کرنی ہے مگر ویلمے کی نہیں اس کی موت کی۔۔ زوریز مضبوط لہجے میں بولا تھا۔۔

اور اتنا وقت کیوں چاہیے؟ سوالیہ نظروں سے اس کو دیکھا تھا ابراہیم صاحب نے۔۔

کیونکہ سکون سے دی ہوئی موت میں مزہ نہ آئے گا۔۔ اس کا ہر سہارا مار گرانا چاہتے ہیں ہم ۔ زوریز نے ایک نظر دوراب ، آیان ، رحیان ، حدید اور نوریز پر ڈالی تھی جبکہ جزا اس کے بلکل سامنے والی چیر پر بیٹھی تھی۔۔

مجھے ساری ڈیٹیل دو یہ سب کس طرح سے ہو گا۔۔ ابراہیم صاحب نے ان سب کو غور سے دیکھا تھا۔۔

میں شروع کروں؟ جزا پہلی بار بولی تھی ۔ جبکہ ابراہیم صاحب اور زوریز نے مل کر اس کو اجازت دی تھی۔۔

تقریباً آدھے گھنٹے کے مذاکرات کے بعد ابراہیم صاحب نے ایک فخریہ نظر ان سب پر ڈالی تھی۔۔

بہت خوب۔۔۔ اور میں تم سب کو اڈر دیتا ہوں ۔۔ شوٹ اون دا سپوٹ ۔۔۔ ابراہیم صاحب یہ کہہ کر میٹنگ روم سے باہر نکلے تھے۔۔

ان کے نکلتے ہی وہ سب بھی اپنی اپنی جگہ سے اٹھے تھے ۔

ہم لوگ فلحال چلتے ہیں رات ۔۔ دوراب زوریز کے گلے لگتا بولا تھا۔۔

اپنا خیال رکھنا ۔۔ زوریز نے پیچھے کھڑی جزا کو غور سے دیکھا تھا جو اس کو ایک نظر دیکھ کر روخ موڑ گئی تھی۔۔

مجھے بول رہا ہے یہ جزا کو۔ دوراب اس کے کان کے قریب سر گوشی میں بولا تھا۔۔

سو ذلیل مریں ہو گے تو تو پیدا ہوا ہو گا ۔ آج اس بات کا یقین ہو گیا ہے۔۔ زوریز نے اس کو دور دھکیلا تھا۔۔ اور دوراب کا قہقہہ سب کو اپنی طرف متوجہ کر گیا تھا۔۔

چلو جزا ۔۔ دوراب جزا کے پاس آ کر کھڑا ہوا تھا۔۔ جزا نے ایک نظر زوریز کو دیکھا تھا اور آگے کو بڑھی تھی۔۔

اب حدید ، آیان ، رحیان ، زوریز اور نوریز ایک ساتھ باہر کی طرف نکلے تھے۔۔ حدید ، ایان اور رحیان تو واپسی کے لیے چلے گے تھے مگر نوریز اور زوریز ابھی بھی ادھر ہی کھڑے تھے۔۔

نوریز بات پوچھ لو جو پوچھنا چاہتے ہو۔۔ زوریز نے سامنے دیکھتے نوریز کو مخاطب کیا تھا۔۔ اور نوریز مدہم سا مسکرایا تھا۔

تم ہمیشہ کیسے جان جاتے ہو۔ نوریز نے اس کو دیکھا تھا۔۔

اگر دوست بھی خاموشی نہ جان سکے تو لعنت ہے دوستی پر۔۔ زوریز یہ کہتا آگے بڑھا تھا۔۔

مجھے ایک سوال پوچھنا ہے زوریز ۔۔ نوریز بھی اس کا ہمقدم ہوا تھا۔۔

تم اپنی بہن کے بارے میں پوچھنا چاہتے ہو؟ زوریز چلتے ہوئے بولا تھا۔۔ جبکہ نوریز کے قدم تھم گئے تھے۔۔

تم کیسے جانتے ہو؟؟۔۔ نوریز حیرت سے اس کو دیکھ رہا تھا۔۔

آؤ بتاتا ہوں۔۔ زوریز نے اس کو اپنے پیچھے آنے کا بولا تھا۔۔

وہ دونوں اب آمنے سامنے بیٹھے تھے۔۔ دونوں کے درمیان کچھ وقت کی خاموشی رہی تھی۔۔

تم میری بہن کے بارے میں جانتے ہو کچھ؟ نوریز نے بات کو پھر سے شروع کیا تھا۔۔

تمہاری بہن کا نام منساء ہے۔ اور وہ ایک وقت سے عزیزہ انٹی کے پاس ہے۔۔ زوریز ںے ایک سرد آہ بھری تھی ۔

تم کب سے جانتے ہو یہ سب؟ نوریز مکمل حیرت میں مبتلا تھا۔

سات سال سے۔۔ زوریز نے نوریز کو دیکھا تھا۔۔

تم نے بتایا کیوں نہیں ؟ تم میرے حال سے واقف تھے زوریز ۔ اور تمہیں  پتا کیسے چلا؟۔ نوریز نے شکوہ کیا تھا۔۔

مجھے اس کی آنکھیں ہمیشہ تمہاری آنکھوں کی یاد دیلاتی تھی۔ وہ کچھ تمہارے جیسے ہے۔۔ مجھے اکثر لگتا تھا وہ تمہارے بہن ہے۔۔ مگر جس دن میں نے اس کا بلڈ سیمپل ڈی ان اے ٹیسٹ کے لیے بھیجا اس دن پتا چلا تھا وہ تمہاری بہن ہے۔۔  زوریز نے ہموار لہجے میں ساری بات اس کے سامنے رکھی تھی۔۔

مُجھے بتایا کیوں نہیں زوریز ۔۔ کیوں اتنا وقت مجھ سے یہ بات چھپا کر رکھی۔۔ نوریز ایک ایک لفظ پر زور دیتا بولا تھا۔۔

مجھے میں ہمت نہ تھی نوریز ۔ زوریز نے سر جھکا لیا تھا۔۔

ایسا کیا تھا جو تم بتا نہیں سکتے تھے۔۔ نوریز نے اس کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لیا تھا۔۔

نوریز خدا کی قسم نہیں بتا سکتا میں ۔۔ مجھ میں نہیں ہے ہمت ۔۔ زوریز کی اواز بھاری ہوئی تھی۔۔

زوریز پلیز مجھے بتاؤ ۔۔ ایسا کیا ہے جو تم مجھے بتا نہ سکے ؟ نوریز نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا تھا۔۔ مگر زوریز خاموش رہا تھا اس سے الفاظ ادا نہ ہو پا رہے تھے ۔

کبھی کبھی انسان کتنا بے بس ہو جاتا ہے وہ بولنا تو چاہتا ہے مگر آواز ساتھ نہیں دیتی الفاظ منہ میں ہی دم توڑنے لگتے ہیں دل میں ایک گہری تکلیف اٹھتی ہے۔۔ آپ بولنا تو چاہتے ہو مگر آپ کا وجود آپ کے الفاظ کا بوجھ اُٹھانے سے قاصر ہوتا ہے۔ وہ الفاظ اتنے وزنی ہوتے ہیں کہ ادا ہو ہی نہیں پاتے آپ بس بےبسی سے سامنے والے کو دیکھ سکتے ہو ۔ یہ بھی نہیں بتا سکتے کے کیسے وہ بات اس کو بتا دے جس نے آپ کے اپنے وجود پر ایک ایسا بوجھ رکھا ہوا ہے جو چاہا کر بھی نہیں آتار سکتے۔۔  

زوریز خدا کے لیے مجھے بتاؤ ایسا کیا ہے جو تم نہیں بتا پا رہے۔۔ نوریز نے اس کے ہاتھوں پر اپنی گرفت مضبوط کی تھی۔۔ جبکہ زوریز اس کو بےبسی سے دیکھ رہا تھا۔۔

اس کی آنکھوں میں موجود بےبسی نے نوریز کو اندر تک ہلا ڈالا تھا۔۔ اس نے پہلی بار زوریز کہ آنکھوں کو حیرت سے دیکھا تھا۔۔

میں ہر بات کے لیے تیار ہو مجھے سچ بتاؤ کیا ہوا ہے۔۔ وہ عزیزہ انٹی کے پاس ایک وقت سے کیوں ہے۔۔ نوریز نے ایک گہری سانس لے کر کہا تھا جیسے وہ زوریز سے زیادہ خود کو اس بات کا یقین دلایا رہا تھا کہ وہ ہر بات کہ لیے تیار ہے۔۔

وہ ریپ ویکٹم ہے نوریز ۔۔ وہ سات سال کی تھی نوریز جب اس کے ساتھ یہ سب ہوا۔۔ زوریز نےسر جھکا لیا تھا اس میں ہمت نہ تھی کہ نوریز کو دیکھ سکتا ۔۔ اور نوریز کے ہاتھ ڈھیلے پر گئے تھے اس کے ہاتھ زوریز کے ہاتھ پر سے گرے تھے۔۔

نوریز ۔۔۔ زوریز نے اس کا ہاتھ تھاما تھا۔۔ جس کی آنکھوں سے آنسوں گر رہے تھے۔۔۔

نوریز مجھے میں ہمت نہ تھی کہ تمہیں بتاتا کہ اس کے ساتھ کیا ہوا ہے۔  زوریز کی آنکھیں نم ہوئی تھی۔۔  جبکہ نوریز کی آنکھیں نم ہونے کسے ساتھ ساتھ سرچ ہوئی تھی جیسے کرچیاں چب گئی ہوں ۔

میرے باپ نے نہ جانے کتنی لڑکیوں کو بے آبرو کیا میرے بھائی نے نہ جانے کتنی لڑکیوں کو کیا۔۔ مگر کیا میری ایک نیکی بھی اس قابل نہ تھی کہ میری بہن کی معصومیت بچ جاتی زوریز ؟۔۔نوریز نے وہ سوال کیا تھا جس کا جواب زوریز کے پاس بھی نہ تھا۔۔

ہم کیسی کی بیٹی کی زندگی جہنم بنانے سے پہلے یہ کیوں نہیں سوچتے کل کو ہماری بیٹی ہوئی اس کے ساتھ یہ سب ہوا تو؟ ہماری بہن کے ساتھ یہ سب ہوا تو؟ نوریز کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔۔

نوریز پلیز ۔۔ زوریز نے اس کو کندھے پر ہاتھ رکھا تھا ۔۔ وہ اس کے بلکل ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔۔

نوریز نے سر اپنے ہاتھوں میں گرا لیا تھا اور پھوٹ پھوٹ کر رو پڑا تھا۔۔ جبکہ زوریز نے اس کو اپنے گلے لگایا تھا۔۔۔

زوریز میرا دل چاہا رہا ہے آج اس شخص کو مار ڈالوں ۔۔ اس کو زندہ نہ چھوڑوں ۔۔ نوریز روتے ہوئے بولا تھا۔۔

نوریز اس شخص کا اختتام بہت درد ناک ہو گا۔۔ مگر ایک بات اور بھی ہے جو بتانا چاہتا ہوں تمہیں ۔۔ زوریز نے اس کے کندھے پر اپنے ہاتھ سے تھوڑا دباؤ ڈالا تھا ۔۔

کیا ؟ نوریز نے سر اٹھا کر اس کو دیکھا تھا۔

منساء کمزور لڑکیوں میں سے نہیں ہے نوریز ۔۔ وہ اپنے لیے اپنے حق کے لیے اپنے وقار کے لیے لڑنا جانتی ہے۔۔ زوریز نے نوریز کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا تھا۔۔

مجھے اس سے ملنا پے زوریز ۔۔ نوریز بےچین سا بولا تھا۔۔ چہرہ آنسوں سے بھرا ہوا تھا

بہت جلد تمہیں ملواں گا۔۔ بس کچھ وقت انتظار کرو۔ کیونکہ ابھی بہت سا کام پڑا ہے۔۔ زوریز نے بینچ کے ساتھ ٹیک لگائی تھی۔۔ اور نوریز بس اثبات میں سر ہلا گیا تھا ۔ مگر آنکھوں کی نمی ختم نہ ہو رہی تھی ۔  

وہ سر اٹھا کر آسمان کو دیکھ رہا تھا ۔ آسمان ستاروں سے بھرا ہوا تھا۔  مگر اس کو پھر بھی وہ آسمان ویران لگ رہا تھا۔۔ جیسے دل پر آج ایک بہت بری چوٹ لگی تھی۔۔ اس نے کبھی چھوٹا بھی نہ تھا اس کی بہن کہ ساتھ یہ سب ہو گا۔۔

وہ دونوں خاموش بیٹھے تاروں سے سجیے آسمان کو دیکھ رہے تھے ایک گہری خاموشی نے ان کے درمیان جگہ لی تھی ۔۔ دونوں کے پاس فلحال کوئی الفاظ نہ تھے۔۔

گھر جاؤ بیوی اکیلی ہے تمہاری ۔۔ زوریز ہلکی آواز میں بولا تھا۔۔

میں تو یہ بھی نہیں کہہ سکتا تمہیں ۔۔ تمہاری والی تو منہ نہیں لگا رہی تمہیں ۔۔ نوریز مدہم سا مسکرایا تھا۔۔  جبکہ زوریز نے اس کو گھورا تھا ۔۔۔

••••••••••••••••

وہ ایک زمین پر بیٹھا تھا ہر طرف خون  ہی خون تھا ۔۔ اس نے نظر اٹھا کر دیکھا تھا سامنے ایک معصوم سے لڑکی آنکھوں میں آنسوں لیے اس کو دیکھ رہی تھی اس کے سیاہ بال کیسی آبشار کی طرف اس کے کمر پر موجود تھے ۔ اس کے سفید فروک پر جگہ جگہ خون کے دھبے تھے۔۔  وہ افسوس کرتی آنکھوں سے سامنے کھڑے شخص کو دیکھ رہی تھی۔۔

محبت کی تھی تم سے میں نے۔۔ مجھے بےمول اور رسوا کرتے تمہارا دل نہ کانپا۔۔ وہ لڑکی روتے ہوئے بولی تھی ۔

میں نے محبت نہ کی تھی۔۔وہ لڑکا بےزاری سے بولا تھا۔۔

محبت نہ تھی تو بول دیتے کیوں میرے دل میں محبت ڈالی تھی اپنے لیے کیوں مجھے برباد کیا۔۔ وہ لڑکی چیخی تھی۔۔۔

تم میرا پیچھا کیوں نہیں چھوڑ دیتی ۔۔  وہ لڑکا غصے سے اس کی طرف بڑا تھا جب وہ کیسی چیر سے ٹکرا کر گرا تھا۔۔

اس نے موڑ کردیکھا تھا یہ اس لڑکی کی لاش تھی جو اس کے سامنے کھڑی تھی۔۔ اس نے پھر سے اس لڑکی کو دیکھا تھا اب وہ ہنس رہی تھی اس پر۔۔

تم ڈرتے ہو شہزاد اب تم ڈرتے ہو۔۔ وہ ہنستے ہوئے بولی تھی۔۔ اور پھر وہ ہنستی چلی گئی تھی۔۔

میں نہیث ڈرتا ۔۔ وہ غصے سے بولا تھا۔۔

تم ڈرتے ہو ۔۔ تمہارا اختتام بہت برا ہے شہزاد تم اب اس اختتام سے ڈرتے ہو۔۔ وہ لڑکی ہنستے ہوئے بولی تھی۔۔۔

شہزاد ایک جھٹکے سے اٹھا تھا۔۔ اس کا چہرہ پسنے سے بھڑا پڑا تھا۔۔ ہاتھ اس کا کانپ رہا تھا اس کو گھٹن ہونے لگی تھی۔۔ وہ اٹھ کر باتھ روم کی طرف بھاگا تھا۔۔ فوراً سے شاور چلایا اور اس کے نیچھے کھڑا ہو گیا تھا۔۔۔

تم ڈرتے ہو شہزاد اب تم ڈرتے ہو۔۔ شہزاد نے انکھی بند کر رہی تھی مگر مسلسل وہ ہی الفاظ اس کی سماعت میں گونج رہے تھے۔۔

مار دو مجھے شہزاد ۔۔۔ پھر سے ایک اور پرانی آواز اس کی سماعت سے ٹکرائی تھی ۔۔

اس نے اپنے کانوں پر ہاتھ رکھ لیا تھا۔۔ اس کے سر میں درد اٹھنے لگا تھا ۔۔ وہ فوراً شاور بند کر کے باہر نکلا تھا۔۔ اس نے سائیڈ ٹیبل پر پڑی اپنی میڈیسن اٹھائی تھی اور ایک کے بعد ایک گولی لنے لگا تھا۔۔۔

ایسے ہی گلے کپڑوں کے ساتھ وہ بلکہنی کی طرف بڑھا تھا۔۔ اور اب وہ گہری سانس لینے لگا تھا ۔۔ پھر کچھ ذہن میں آیا تھا فوراً واپس کمرے میں گیا تھا ۔ واڈروب سے ایک سوٹ نکلا تھا ۔ اور باتھ روم  میں واپس چلا گیا تھا۔۔

باہر نکل کر اس  نے پہلے جانماز کو ڈھونڈا تھا وہ اس کے کمرے میں نہ تھا۔ وہ کمرے سے باہر نکلا تھا اور نیچھے گیا تھا اس کا روخ گھر میں بنے ایک چھوٹے سے کمرے کی طرف تھی۔ اس نے اس کمرے کو کھولا تھا۔ اور آج نہ جانے کتنی وقت کے بعد وہ کمرا کھولا تھا

وہ ایک جانماز اٹھا کر نفل پڑھنے کے لیے کھڑا ہوا تھا مگر اس سے نیت بھی نہ کی گئی ۔۔ وہ نہ جانے کتنے وقت جانماز پر خاموشی سے کھڑا رہا تھا اس کو سمجھ ہی نہیں آ رہا تھا شروع کیسے کرے۔۔۔

اس نے نماز پڑھنے کی کوشش کرنی چاہی مگر نہ پڑھ سکا وہ بھول چکا تھا نماز کیسے پڑھنی ہے۔۔ اس نے جانماز اٹھا کر واپس رکھا تھا اور اب اس نے ایک طرف شیلف پر پڑا قرآن مجید اٹھا لیا تھا۔۔ اس نے پہلا سپارہ کھولا تھا۔۔ اس سے سورت فاتحہ بھی ٹھیک سے نہ پڑھی جا رہی تھی ۔۔ وہ خاموشی سے اب قرآن مجید کو دیکھ رہا تھا۔۔

وہ رونا چاہتا تھا وہ سب بھول گیا تھا۔۔ اس کی آنکھ سے ایک انسو نہ نکل رہا تھا۔۔ وہ اپنی حالت پر افسوس بھی نہیں کر پا رہا تھا۔۔۔ دل تھا کہ مسلسل بھاری ہو رہا تھا ۔۔  اس نے قرآن مجید کو بند کر کے رکھا تھا۔۔ اور اس کمرے سے باہر نکل گیا تھا اس کا روخ گھر سے باہر کی طرف تھا ۔۔

••••••••••••••••••

کچھ دیر میں اس کی کار سڑک پر تھی وہ بنجاروں کی طرح سڑک پر اپنی کار دوڑا رہا تھا۔۔ خود بھی نہیں جانتا تھا اس کی منزل کہاں ہے وہ کس راہ کا مسافر ہے۔۔ وہ بس کار ڈرائیو کر رہا تھا ۔ جب ایک دم سے اس نے کار کو روکا تھا۔۔ اور ایک لمبی سانس لی تھی ۔ گردن موڑ کر دیکھا تو قبرستان کے باہر اس کی گاڑی روکی ہوئی تھی ۔ اس کو سمجھ نہ آئی تھی وہ کب قبرستان کی طرف کار کو لے آیا تھا ۔

خاموشی سے کار سے اترا تھا اور ویران آنکھوں سے اس قبرستان کو دیکھ رہا تھا۔۔ بے اختیار اس کے قدم آگے بڑھنا شروع ہوئے تھے۔۔ وہ قبرستان کے اندر داخل ہوا تھا اس نے فون کی لائٹ اون کر رکھی تھیی۔۔ وہ چلتے چلتے  کچھ قبروں پر آ کر روکا تھا۔

یہ چار قبریں ایک ساتھ تھی۔۔ سب سے پہلی قبر شاہد الف کی تھی ، اس کے ساتھ والی قبر انعم شاہد کی اور تیسری قبر سویرا شاہد کی تھی۔۔اس قبر کی تختی پڑھتے شہزاد کو بےاختیار وہ معصوم چہرہ یاد آیا تھا۔۔ اور چوتھی قبر خدیجہ اکرم کی تھی۔۔ شہزاد کی نظریں بس ان قبروں پر ٹکی تھی۔۔

وہ  خدیجہ بیگم کی قبر کے قریب بیٹھ گیا تھا ۔۔ اتنے عرصے بعد آج وہ پہلی بار اپنی ماں کی قبر پر آیا تھا۔۔ انکھ سے ایک انسو نہ گرا تھا وہ بس خاموش سے اس قبر کو دیکھ رہا تھا۔۔ اس نے قبر کی مٹی پر ہاتھ رکھ کر موٹھی بند کی تھی۔۔ ایک لمحے کو شہزاد کو لگا تھا اس نے اپنا دل موٹھی میں بند کر دیا ۔۔

آپ کیوں نہیں مجھے آزاد کر رہی اپنے خیالوں سے ۔۔ میں تکلیف میں ہوں۔۔ یہ درد سر میریظ جان لے لے گا۔۔ شہزاد بےبسی سے بولا تھا۔۔

آپ کو منع کیا تھا مت آئیں بیچ میں آپ پھر بھی آئی ۔۔ میں مجبور تھا آپ کو مارنے کے لیے ۔۔ شہزاد نے ایک سرد آہ بھری تھی۔۔

کون ہو تم ۔ پیچھے سے ایک شخص کی آواز آئی تھی۔۔

تم کون ہو؟۔ شہزاد ے الٹا اس بڑھے آدمی  سے سوال کیا تھا جس کے گندے بال اس کے کندھوں تک آ رہے تھے اس نے ایک پھٹا پروانہ لمبا قمیص اور شلوار پہن رکھا تھا کندھوں پر سیاہ رنگ کی گندی سی چادر تھی ۔۔

میں در بدر بھٹکنے والا ہوں ۔۔ آج کہیں کل کہیں جہاں جگہ ملے ادھر رات گزارنے والا ۔ وہ آدمی ایک قبر کے قریب بیٹھ کر بولا تھا۔

شہزاد نے ایک نظر اس کو دیکھا پھر اس سے وہ اپنی ماں کی قبر کو دیکھنے لگ گیا تھا ۔

یہ قبر کس کی ہے؟ اس آدمی نے سوال کیا تھا۔۔

ماں کی۔۔ شہزاد کا لہجہ ہر احساس سے خالی تھا۔۔

ماں کا بچھڑ جانا بہت تکلیف دیتا ہے۔۔ رب تیری تکلیف کم کرے۔۔ اس آدمی نے ہاتھ اٹھا کر دعا دی تھی ۔۔

شہزاد بس خاوش بیٹھا تھا۔۔ اور اس آدمی کی دعا پر حیرت سے اس کو دیکھ رہا تھا۔۔

کیا ہوا ؟ اس آدمی نے اس کی نظروں کو غور سے دیکھا تھا۔۔

کچھ نہیں ۔۔۔ شہزاد یہ کہہ کر اپنی جگہ سے اٹھنے لگا تھا۔۔

دل کا بوجھ جان کو آتا ہے لڑکے ۔۔ وہ جو اپنی جگہ سے اٹھ رہا تھا ویسے ہی بیٹھ گیا تھا۔۔

کون سا بوجھ ؟ شہزاد نے ناسمجھی سے اس کو دیکھا تھا۔۔

وہ ہی جو تیرے اندر ہے؟ اس آدمی نے اس کے دل کے مقام کی طرف اشارہ کیا تھا ۔

کچھ نہیں ہے مجھ میں ۔۔ شہزاد الجھا ہوا بولا تھا۔۔

تیرا چہرہ بتاتا ہے تو کتنا الجھ چکا ہے خود میں ۔۔ ویسے ایک بات پوچھوں ؟  وہ آدمی  شہزاد کو گھور سے دیکھتا بولا تھا۔۔

کیا ؟  انداز ناسمجھی والا تھا۔۔

تم نے اپنی ماں کو کیسے کھویا ؟ ایسا کیا ہے جو تو اپنی ماں کی قبر پر آ کر بھی نہ رو سکا ۔۔  وہ آدمی افسوس سے اس کو دیکھ رہا تھا۔۔

شہزاد ایک لمحے کو چپ ہو گیا تھا مکمل چپ ۔۔ ایسی چپ نے اس کے منہ میں پناہ لی تھی کے الفاظ منہ میں دم توڑ جائیں ۔مگر جیسے آج اس کے الفاظ اس کی چپ سے لڑ رہے تھے ۔۔ اس کے لب کھولے تھے۔۔

میں نے مارا ہے ۔۔  شہزاد کے منہ سے یہ الفاظ بے اختیار نکلے تھے۔۔ اس کو اپنی الفاظ پر حیرت ہوئی تھی اور سامنے بیٹھا وہ بڑھا آدمی اس کو ایسے دیکھ رہا تھا جیسے وہ پاگل ہو گیا ہے۔۔

تو نے اپنی ماں کو مارا ہے؟ اس آدمی کو یقین نہ آ رہا تھا۔۔

ہاں میں نے مارا ہے ۔ اپنے ہاتھوں سے مارا ہے اپنی ماں کو میں نے۔۔ شہزاد نے اپنے ہاتھوں کو دیکھا تھا ۔۔

کتنا کمبخت ہے تو۔ اس آدمی کو اس پر تعیش آیا تھا۔۔

میرے پاس کوئی چارہ نہ تھا۔۔ وہ میرے راستے میں آ رہی تھی ۔ میں نے مار دیا ۔۔ شہزاد بےحسی سے بولا تھا۔۔

لعنت ہے تجھ پر جس عورت نے موت کے منہ میں جا کر تجھے پیدا کیا تو نے اس کو موت کی نیند سلا ڈالا ۔۔ وہ آدمی اس کو نفرت سے دیکھ رہا تھا۔۔

ہاں سلا دیا موت کی نیند ایک بھانجی مانگی تھی ان سے وہ بھی نہ دے سکی وہ۔ میرے راستے میں آ رہی تھی مار ڈالی میں نے۔۔ یہ جو چاروں قبریں ہیں یہ میری بدولت ہیں۔ اور جس کے لیے میں نے ان کو موت کی نیند سلایا ملی وہ بھی نہ مجھے۔۔ شہزاد بولتا چلا گیا۔۔

تجھے ناحق مارتے شرم نہ آئی تیری روح نہ کانپی ۔۔ وہ آدمی حیرت سے اس کو دیکھ رہا تھا۔۔

جو میرے راستے میں آتا ہے میں اس کو مار دیتا ہوں۔۔ شہزاد ایک طرف دیکھتا بولا تھا ۔

وہ ماں تھی تیری کمبخت ۔۔ وہ آدمی غصے سے بولا تھا۔۔

ماں تھی میری ایک خواہش نہ پوری کر سکی وہ۔۔ میرے ساتھ نہ کھڑی ہوئی ۔۔ شہزاد نے سر جھکا لیا تھا۔۔

ایسی کون سی خواہش تھی تیری جو پوری نہ ہوئی اور کیا وجہ تھی ۔۔ وہ آدمی اس کو دیکھتے بولا تھا۔۔

ان کے بھائی کی بیٹی مانگی تھی میں نے ۔ میں برا ہوں بدکردار ہوں لڑکیوں کے ساتھ راتیں رنگین کرنے والا ہوں ۔۔۔وہ اپنی بھانجی کو جہنم میں نہیں ڈالنا چاہتی تھی ۔ شہزاد بولتے ہوئے روکا تھا۔۔

اور مجھے ان کی بھانجی سے اپنی بےعزتی کا بدلہ بھی لینا تھا اس کی بہن کو محبت کے جال میں پھنسا تھا کیونکہ میرے دوست نے مانگی تھی اور اس طرح میں نے اس کو پل پل مارنے کا سوچا تھا۔ وہ ایک رات ہی اس پر قیامت بنا ڈالی ۔۔ اس کے ماں باپ کو مار دیا ، اس کی بہن کو اپنے دوست کو دے کر اس کو بےابرو کروا کر اس کو مارا اپنی ماں کو مارا۔۔ مگر وہ پھر بھی مُجھے نہ ملی وہ میرے ہاتھ سے نکل گئی ۔۔  شہزاد بولتا چلا جا رہا تھا۔۔ وہ جو کبھی نہ خوف سے یہ سب بولا تھا آج بولتا چلا گیا ۔۔ مگر اس کو ابھی بھی ندامت نہ تھی اپنے کیے پو افسوس نہ تھا۔

میں ذہنی اذیت میں مبتلا ہوتا جا رہا ہوں ۔۔ مُجھے خون نظر آتا ہے اپنے ہاتھوں پر اپنے آس پاس ، مجھے وہ لڑکی نظر آتی ہے میری ماں نظر آتی وہ لڑکی نظر آتی ہے جس کو محبت کے جال میں پھنسایا ۔۔ شہزاد نے اپنا سر پکڑا تھا ۔

ماحق قتل کرے گا تو یہ سب تو ہو گا ہی ۔۔ وہ ذات ظلم برداشت نہیں کرتی۔۔ اس آدمی نے آسمان کی طرف اشارہ کیا تھا۔۔

میں نے کوئی ظلم نہیں کیا کوئی ناحق قتل نہیں کیا۔۔ وہ ابھی بھی اپنی بات پر آرا ہوا تھا۔۔

تیری ماں تجھ سے روٹھ کر گئی ہے؟ اس آدمی نے اس سے سوال کیا تھا ۔

پتا نہیں ۔۔وہ تو یہ تک بول کر گئی ہیں کہ میں اور میرا باپ اپنے کیے کا حساب اس دنیا میں بھی دیں گے اور آخرت میں بھی۔۔ شہزاد بےدلی سے ہنسا تھا۔۔

ماں تجھ سے روٹھ کے گئی ۔۔ دل تو نے توڑے بد دعائیں تو نے لی ۔۔ اور پھر تو سکون بھی چاہتا ہے ۔ سکون مانگتے شرم نہ آئی تجھے؟ وہ آدمی غصے سے بولا تھا۔۔

شہزاد خاموشی سے اس کو دیکھ رہا تھا چاند کی مدہم روشنی میں بھی وہ اس آدمی کی آنکھوں میں نفرت دیکھ چکا تھا۔۔

اپنے گناہوں پر توبہ کر لے ندامت کا ایک آنسوؤں انسان کو بخشوا دیتا ہے۔۔ اپنی ماں سے معافی مانگ لے ابھی بھی وقت ہے ۔۔ وہ آدمی اس کو سمجھنا چاہتا تھا۔۔

میں نے کوئی گناہ نہیں کیا سمجھ آئی ۔۔ مُجھے شرمندگی بھی نہیں رونا بھی نہیں آتا ۔۔  شہزاد نے کندھے اوچکے تھے۔۔

نماز پڑھتا ہے قرآن پڑھتا ہے؟ وہ آدمی تھوڑا آگے ہو کر بیٹھا تھا۔۔

پہلے پڑھتا تھا اب نہیں ۔۔ شہزاد نے نہ جانے کیوں مگر سر جھکا لیا تھا۔۔

نہیں پڑھتا یا تو بھول گیا؟ اس آدمی نے اس کو ہنس کے دیکھا تھا۔۔ شہزاد خاموش رہا تھا وہ کچھ نہ بولا تھا

آخری بار کب پڑھی نماز کب پڑھا قرآن ۔۔ ایک اور سوال کیا گیا تھا۔۔

جب چودہ سال کا تھا۔۔ انداز دو ٹوک تھا۔۔

جب دل پر کفر کی مہر لگ گئی ہو دل سے خوف خدا ختم ہو گیا ہو ، معصوموں کے خون سے ہاتھ رنگے ہوں ۔۔ تو کیسے تجھے نماز یاد رہے گئی قرآن یاد رہے گا اللہ یاد رہے گا ۔۔ اللّٰہ بھی ان کو یاد رکھتا ہے جو اس کو یاد رکھتے ہیں اس کے حکم پر عمل کرتے ہیں ۔ اس کے لوگوں کو تکلیف نہیں دیتے۔۔ وہ آدمی ہلکا سا ہنسا تھا ۔

تم ہنس کیوں رہے ہو۔۔ شہزاد کو اس کی مسکراہٹ چھبی تھی۔۔

بہت بہت ظالم اور بدنصیب لوگ دیکھے ہیں ۔۔ مگر تجھے سے بڑا ظالم نہ دیکھا جس نے اپنی ذات پر خود ظلم کیا جس نے اپنی جنت کو خود ٹھکرا دیا ۔ اس آدمی نے شہزاد کو سر تا پیر دیکھا تھا۔۔ شہزاد اپنی جگہ سے اٹھا تھا۔۔

تجھے سکون نہیں ملے گا۔۔ جب تک تو اپنے گناہ کو گناہ نہ مان لے تو معافی نہ مانگ لے تو توبہ نہ کر لے تو واپس ہدایت پر لوٹ نہ آئے ۔  وہ ادمی فورا بولا تھا ۔

میں نے گناہ نہیں کیا ۔۔ اس کا وہ ہی جواب تھا۔۔

تو نے جو کیا گناہ ہے سر آ سر گناہ ہے ۔۔  تو بس یہاں سے اندازہ لگا لے کہ تجھ سا بدقسمت بھی کوئی ہو گا جو کلمہ پڑھنا ہی بھول گیا۔ وہ آدمی اس کی پیشت کو دیکھتے بولا تھا۔۔ جبکہ شہزاد ایک دم سے موڑا تھا۔۔

مجھے کلمہ آتا ہے ۔ شہزاد بولا تھا۔۔

سنا۔۔ انداز بے مروت تھا ۔۔

شہزاد نے منہ کھولا تھا مگر اس سے الفاظ ادا نہ ہوئے تھے ۔۔ وہ بےبسی سے اس کو دیکھنے لگا تھا۔۔

تم ہوتے کون ہو مجھ سے اس معاملے میں امتحان لینے والے ۔ شہزاد غصے سے بولا تھا اور واپس موڑ گیا تھا۔۔

اے خدا تیری یہ مخلوق کتنی ظالم ہے جنت خود تباہ کی ہے انہوں نے۔۔ وہ آدمی ہنستا چلا گیا تھا۔۔ جبکہ اس کی ہنسی شہزاد کو چھبی تھی۔۔

تو ظالم لڑکے تو ظالم ۔۔۔ افسوس تجھے ندامت بھی نہیں ۔۔ تجھے پتا بھی نہیں تو کتنا ظالم ہے۔۔ کمبخت ماؤں کو کون مارتا ہے۔۔ ناحق لوگوں کو کون مارتا ہے۔۔ وہ آدمی بلند آواز میں بولا تھا۔۔

تو ظالم ۔۔۔ توبہ کر لے تو ۔۔۔وہ آدمی اس کے پیچھے اٹھا تھا۔۔

 

مخلوقات میں افضل ہو کر تو اپنی ذات پر ہی ظالم ٹھہرا

مسجودے ملائکہ ہو کر تو تو ابلیس سے بھی بدتر ٹھہرا۔

 (شازین زینب )  

اس آدمی نے شہزاد کو جاتا دیکھ بلند آواز میں کہا تھا ۔۔  اور پھر سے ایک قبر کے پاس بیٹھ گیا تھا۔۔

تیرے بندے کتنے ظالم ہیں اللہ ۔۔ وہ آدمی آسمان کو دیکھتا بولا تھا ۔۔

اس کے الفاظ تھے یا پتا نہیں کیا شہزاد ایک لمحے کو روک گیا تھا جیسے چلتی ہوا روکی ہو۔۔ کچھ تھا ان الفاظ میں ایک لمحے کے لیے اس کی روح تک ہلی تھی۔۔ یہ الفاظ اس کو دور اندر کہیں جا لگے تھے۔۔

وہ خاموشی سے قبرستان سے باہر نکلا تھا مگر اس آدمی کی ہنسی ابھی تک اس کو سنائی دے رہی تھی۔۔ وہ اپنی کار میں بیٹھا تھا اس کو ابھی وہ الفاظ سنائی دے رہے تھے ابھی تک وہ ان الفاظ کے اثر میں تھا۔۔

•••••••••••••••••••

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments

Post a Comment