دشتِ الفت
شازین زینب
بارہ
بجنے میں صرف آدھا گھنٹہ بچا تھا۔۔ جب کار کی خاموشی میں شہزاد کی آواز گونجی تھی
۔۔۔
چلو اٹھو
چلیں ۔۔۔۔ شہزاد نواز کو دیکھتے بولا تھا جو اپنے ہاتھ میں پکڑی شراب کی بوتل
کھولنے لگا تھا شہزاد کی طرف دیکھنے لگا ۔۔۔
کدھر۔۔۔
وہ ایک آئی برو اٹھا کر سوالیہ نظروں سے شہزاد کی طرف دیکھتے بولا تھا۔۔
تمہارا
سرپرائز ۔۔۔ شہزاد آنکھ ونک کر کے بولا تھا جبکہ نواز شراب کی بوتل کو منہ لگا چکا
تھا۔۔۔
اوکے ۔۔ نواز
یہ کہتے ساتھ اپنی سائیڈ کا دروازہ کھول کر نیچے اترا تھا۔۔۔ اور ساتھ ہی شہزاد
بھی نیچے اترا تھا ۔۔
ویسے یار
یہ سرپرائز کس خوشی میں ۔۔۔ نواز اس کے ساتھ چلتے بولا تھا۔۔۔۔
بس دل
کیا تمہیں سرپرائز دینے کا۔۔۔ برتھ ڈے کیسی اور کی ہے گفٹ کیسی اور کے لیے ۔۔۔
شہزاد چہرے پر خباثت سے بھری مسکراہٹ سجائے آگے بڑھ رہا تھا ۔۔۔
اور پانچ
منٹ میں وہ ایک گھر کے سامنے کھڑے تھے ۔۔ جب شہزاد نے آگے قدم بڑھیا تھا ۔۔۔ نواز
اس کے پیچھے ہی چلا تھا۔۔۔۔
••••••••••
جزا بیٹا
یہ بلون ادھر بھی لگاؤ ۔۔ خدیجہ بیگم جزا کی طرف بلون کرتی بولی تھی۔۔ وہ سویرا کی
برتھ ڈے کی وجہ سے اس ٹائم ان کی طرف
موجود تھی ۔ جبکہ سویرا اپنے کمرے میں تیار ہوتی اس بات سے انجان تھی کہ اس کی
پیاری سی پھوپھو اس وقت اس کے گھر میں ہے۔۔۔
پھوپھو
آپ کیوں کر رہی ہیں میں کر لوں گئی سب۔۔ جزا خدیجہ بیگم کے ہاتھ سے بلون لیتے ہوئے
بولی تھی۔۔ جبکہ انعم بیگم سامنے پڑی ٹیبلکو سیٹ کر رہی تھی ۔
یہ
تمہارے بابا کدھر رہ گئے ہیں ۔۔۔ انعم بیگم ٹیبل کی چادر ٹھیک کرتے بولی تھی ۔۔
میری ان
سے بات ہوئے تھی وہ جلدی ا جائیں گئے ۔۔ جزا یہ کہہ کر ہٹی ہی تھی جب اس کے کانوں
میں کیسی کے قدموں کی آواز گونجی تھی ۔۔۔
مجھے
لگتا ہے شاید ڈیڈ آ گئے ہیں ۔۔۔ وہ یہ کہتے موڑی ہی تھی جب اس کے الفاظ منہ میں رہ
گئے تھے ۔۔۔۔ اس کو خاموش دیکھ کر جب انعم بیگم اور خدیجہ بیگم نے سر اٹھایا تھا ۔
سامںے کھڑے ان دونوں کو دیکھ کر خدیجہ بیگم کو حیرت کا دھچکا لگا تھا جبکہ انعم
بیگم نہ سمجھی سے ان دونوں کو دیکھ رہی تھی ۔۔
کیا ہوا
لیڈیز ہمارا آنا اچھا نہیں لگا۔۔۔ شہزاد اپںی مکروہ مسکراہٹ کے ساتھ بولا تھا۔۔
جبکہ نواز اس کے پیچھے کھڑا تھا جس کی شرٹ کا گریبان کھولا تھا۔۔۔
تم ادھر
کیا کر رہے ہو شہزاد ۔۔۔ اور یہ تمہارے ساتھ ادھر کیا کر رہا ہے۔۔ خدیجہ بیگم آگے
آ کر بولی تھی جبکہ ایک چبتی نظر انہوں نے پیچھے کھڑے نواز پر ڈالی تھی۔۔۔
وہ کیا
ہے نہ آنٹی شہزاد مجھے کوئی سرپرائز دینا چاہتا تھا اس لیے ادھر لایا تھا ۔۔ نواز
تھوڑا آگے ہو کر بولا تھا۔۔۔ جبکہ خدیجہ بیگم کی نظر شہزاد کی طرف اٹھی تھی ۔۔ اور
جزا نواز کی بات کا مطلب سمجھنے کی کوشش میں تھی ۔۔ اور انعم بیگم خاموشی سے سارا
تماشا دیکھ رہی تھی۔۔
شہزاد یہ
کیا بکواس کر رہا ہے۔۔۔ خدیجہ بیگم شہزاد کو بازو سے پکڑ کر اس کا روخ اپنی طرف
کرتے غصے میں بولی تھی۔۔۔
سہی تو
کہہ رہا ہے ۔۔ شہزاد اپنی ماں کی آنکھوں میں آنکھیں گاڑتا بولا تھا۔۔۔
مجھے اب
پتہ چلا سویرا اتنی خوبصورت کیوں ہے۔۔۔ کیونکہ اس کی ماں اور بہن بہت خوبصورت ہے۔۔
اور تم نے اس بات کا کبھی ذکر نہیں کیا۔۔ نواز خباثت سے انعم بیگم اور جزا کی ظرف
دیکھتے بولا تھا۔۔ جبکہ اس کی بات نے ادھر کھڑی ان تینوں کے چہرے کو غصے سے سرخ
کیا تھا کیونکہ وہ تینوں اس کی بات کا مطلب بہت اچھے سے سمجھ چکی تھی۔۔۔ مگر جزا
کی انکھوں میں غصے کہ ساتھ نفرت بھی تھی۔۔۔۔۔۔
اس سے
پہلے جزا کچھ بولتی جب خدیجہ بیگم کا ہاتھ ہوا میں اٹھا تھا اور نواز کے منہ پر
نشان چھوڑ گیا تھا۔۔۔
جب اپنے
گھر ماں بہن نہ نہ ہو تو دوسروں کی ماں ، بہن
بیٹی کو عزت کی نظر سے دیکھنا چاہیے مگر تم جیسے کو یہ شرم اور تمیز کون سیکھائے ۔۔۔ خدیجہ بیگم ایک ایک لفظ
چبا چبا کر بولی تھی ۔۔
موم۔۔
اپنے الفاظ کو قابو میں رکھیں ۔۔۔ میں آپ کے ساتھ کوئی بد سلوکی نہیں کرنا چاہتا۔۔
اس لیے بہتر یہ ہی ہے آپ بیچ میں مت آئیں ۔۔ شہزاد مدہم آواز میں اپنی ماں سے بولا
تھا۔۔۔
اپنے اس
اوارہ دوست کو لے کر ادھر سے دفع ہو جاؤ ۔۔ خدیجہ بیگم اس کو سخت نظروں سے دیکھتی
بولی تھی ۔۔
وہ تو ہم
نہیں جائے گئے۔۔۔ شہزاد ڈھٹائی سے بولا تھا جبکہ نواز خدیجہ بیگم کے تھپڑ کا اثر
لیے بغیر خباثت سے مسکرا رہا تھا ۔۔
شہزاد
ابھی کہ ابھی میرے گھر سے دفع ہو جاؤ اس
سے پہلے میں شاہد کو فون کروں ۔۔۔ انعم بیگم شہزاد کو غصے سے دیکھتی بولی تھی۔۔۔
آپ اپنی
بیٹیاں ہمیں دے دیں ہم چلیں جائیں گئے۔۔۔ شہزاد قدم بڑھتا انعم بیگم کے سامنے آ کر
کھڑا ہوتا بولا تھا ۔۔ جبکہ اس کی بات پر اگلے ہی لمحے انعم بیگم کا ہاتھ اس پر
اٹھا تھا۔۔ اور اس کے منہ پر تھپڑ کا نشان چھوڑ گیا تھا۔۔۔
آپ کی
ہمت کیسے ہوئی مجھے پر ہاتھ اٹھانے کی ۔۔۔ شہزاد انعم بیگم کے سامنے کھڑا بلند
آواز میں بولا تھا۔۔۔
شہزاد
اپنی آواز نیچی رکھو ۔۔۔ اس کی بلند آواز پر جزا اس کے سامنے آ کر کھڑی ہوتی بولی
تھی۔۔۔ اس کو کہاں گوارہ تھا کوئی اس کی ماں سے اونچی آواز میں بات کرے۔۔
وہ جو
شیشے کے سامنے بیٹھی اپنے ہونٹوں پر گلوز لگا رہی تھی ۔۔ اچانک ایک زور کی آواز پر
ڈر کر رہ گئی تھی۔۔۔ یہ کیسی آواز ہے۔۔۔ سویرا اپنی جگہ سے اٹھتے بولی تھی ۔۔ اور
کمرے کے دروازے کی طرف بڑھی تھی۔۔۔
دوسری
طرف شہزاد کی بلند آواز پر اب کی بار خدیجہ بیگم نے اس کو بازو سے پکڑ کر پیچھے
کیا تھا۔۔۔
شہزاد
ابھی کہ ابھی دفع ہو جاؤ ادھر سے۔۔ خدیجہ بیگم دروازے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے غصے
سے بولی تھی۔۔۔
نہیں
جاتا کیا کر لیں گئی ۔۔ شہزاد ان کے سامنے کھڑا غصے سے دھاڑا تھا۔۔۔ جب انعم بیگم نے فون
پر کوئی نمبر ملانا شروع کیا تھا۔۔۔ شہزاد
فوراً آگے بڑھا اور وہ فون ان کے ہاتھ میں سے کھینچ کر نیچھے زمین پر پٹھک دیا تھا
۔۔ جب جزا نے آگے بڑھ کر اس کے منہ پر رکھ کر ایک تھپڑ مارا تھا۔۔۔
کتنے
گھٹیا اور گرے ہوئے انسان ہو تم شہزاد ۔۔۔۔ نہ تمہیں اپنی ماں کا حیا ہے نہ ممانی
کا ۔۔۔ ابھی کہ ابھی ادھر سے دفع ہو جاؤ ورنہ اچھا نہیں ہو گا ۔۔ جزا اس کا گریبان
پکڑ کر آنکھوں میں غصہ لیے بولی تھی۔۔۔۔
ہاہاہاہاہا۔۔۔۔
انجام تو آج تم سب کا اچھا نہیں ہو گا ۔۔۔ شہزاد ایک ہاتھ سے اس کے بالوں کو اپنی
مٹھی میں جکڑتے اس کے سر کو پیچھے کی طرف کیے اس کے چہرے پر بے باک نظریں گاڑے
خباثت سے بولا تھا۔۔۔
آہہہہہہہہ
۔۔۔ جزا کے منہ سے آیک سسکی نکلی تھی شہزاد کی گرفت اس کے بالوں پر سخت تھی۔۔۔۔
خدیجہ
بیگم اور انعم بیگم دونوں آگے کی طرف بڑھی تھی وہ جزا کو چھڑانے کی کوشش میں تھی
جب شہزاد نے ان کو ایک ہاتھ سے دور دھکیلا تھا۔۔۔ اسی دوران جزا نے اپنا پاؤں اس کے پاؤں پر مارا تھا
اور اس سے دور ہونے لگی تھی جب شہزاد نے اس کو پھر سے اس کے بالوں سے پکڑا تھا ۔۔۔
بہت ناز
ہے نہ تمہیں اپنی پاک دامنی پر۔۔ آج دیکھنا کیسے تمہاری اور تمہاری اس بہن کی عزت کا
جنازہ نکلاتا ہوں۔۔ شہزاد ایک ایک لفظ چبتا بولا تھا۔۔ جبکہ جزا کی آنکھوں سے ایک
انسوں ٹوٹ کر گرا تھا اس کے سر پر درد کی ایک شدید لہر اٹھی تھی۔۔۔
انعم اور
خدیجہ بیگم کا دل ڈوب کر ابھرا تھا
شہزاد کی بات پر ۔۔ انعم بیگم بامشکل اٹھی
تھی سامںے پڑی ٹیبل پر سے چھڑی اٹھی اور
شہزاد کی بازو پر وہ چھڑی ماری تھی ابھی وہ چھڑی واپس نکالتی جب نواز نے آگے
بڑھ کر ان کا ہاتھ پکڑا تھا اور ایک زور کا تھپڑ ان کے منہ پر مارا تھا وہ خود کو سنبھال نہ سکی فورا نیچھے گری تھی۔۔۔
ماما۔۔
جزا اپنی ماں کی طرف دیکھ کر تڑپ کر بولی تھی۔۔۔
جب خدیجہ
بیگ۔ نے ان کو سنبھالا تھا۔۔ وہ اٹھی اور شہزاد کے سامںے جا کر کھڑی ہوئی تھی۔۔
شہزاد
اللہ کا واسطہ ہے بچیوں پر رحم کرو تمہاری بہنوں جیسی ہیں دونوں چلے جاؤ یہاں
سے۔۔۔ خدیجہ بیگم روتے ہوئے بولی تھی ۔۔
بہنیں
۔۔۔۔ ہاہاہاہاہاہاہا ۔۔۔ اتنی حسین لڑکیوں
کو اپنی بہنیں کون کم بخت سمجھے۔۔ اور ویسے بھی آپ کو کہا تھا نہ جزا کے
لیے بات کریں آپ نے نہیں کی۔۔ اب جو ہو گا چپ کر کے دیکھیں۔۔۔ بہت نیک اور پاک
دامن ہے نہ آپ کی بھتیجی۔۔ آج دیکھنا کیا حال کرتا ہوں آپ کی دونوں بھتیجوں کا۔ وہ
جزا کے چہرے کو خباثت سے دیکھتا بولا تھا جبکہ نواز صوفے پر ٹاںگ پرٹانگ رکھے
بیٹھا تھا۔۔۔
شہزاد۔۔۔
سویرا جو سیڑھیوں میں کھڑی ساری صورتحال دیکھ چکی تھی ۔۔ حیران سی شہزاد کی طرف
دیکھتے بولی تھی۔۔۔۔ اس کو ابھی تک یقین نہیں آ رہا تھا۔۔ کہ یہ وہ ہی شخص ہے جس
سے اس نے محبت کی تھی ۔۔
وہ سفید
رنگ کی لونگ فروک میں اپنے بالوں کو کھولا چھوڑے بے حد حسین لگ رہی تھی۔ مگر اس
بات سے انجان تھی کہ آج اس کی یہ خوبصورتی درندوں کی نظر ہونے والی تھی ۔۔ اس کا
سراپا دیکھ کر ںواز دنگ رہ گیا تھا۔۔۔ ان دو سالوں میں وہ ضرورت سے زیادہ خوبصورت
ہو گئی تھی۔۔۔
سویرا تم
اپنے کمرے میں جاؤ ۔۔۔ سویرا کی آواز پر
جزا نے سویرا کو موڑ کر دیکھا تھا اس کا
سجا سجا روپ دیکھ کر وہ ایک لمحے میں بولی تھی۔ جبکہ دوسری طرف نواز سویرا پر سے نظریں ہٹا کر فوراً سے خدیجہ بیگم
کو قابو کر چکا تھا جو کہ شہزاد کو مارنے کے لیے آگے بڑھی تھی
کب تک
بچاؤ گئی اپنی بہن کو۔۔ شہزاد اپنا منہ جزا کی طرف جھکائے بولا تھا جبکہ جزا نے
روخ موڑ کیا تھا ۔
انعم بیگم
فوراً آگے بڑھی تھی اور ایک تھپڑ شہزاد کے منہ پر مارنے لگی تھی جب شہزاد نے ان کا
ہاتھ ہوا میں ہی روک لیا تھا اور ان کو دور دھکیلا تھا۔۔ اور جزا کو نواز کی طرف
دھکیلا تھا۔۔۔ نواز جو خدیجہ بیگم کو پہلے ہی باندھ چکا اب جزا کو قابو کر کے کھڑا
تھا ۔۔
آپ بہت
زیادہ پریشان کر رہی ہیں ۔۔۔
شہزاد انعم بیگم کے سامنے کھڑے بولا تھا جو زمین پر گری
ہوئی تھی ۔۔۔ جب سویرا بھاگ کر شہزاد کے
پاس آئی تھی اور اس کو بازو سے پکڑ کر اس کا روخ اپنی طرف موڑ گئی تھی۔۔
یہ سب
کیا کر رہے ہو تم۔۔۔۔ وہ روتے ہوئے بولی
تھی ۔۔
کیوں
بےبی تمہیں پسند نہیں آیا ۔۔۔ شہزاد نے اس کے چہرے کو ہاتھ لگانا چاہا جس کو اس نے
پیچھے ہٹایا تھا۔۔
سویرا تم
اپنے کمرے میں جاو۔۔۔ جزا روتے ہوئے بولی تھی۔۔۔۔ اور مسلسل خود کو چھڑوانے کی
کوششوں میں تھی۔۔۔
سویرا
فورا موڑی تھی اور اپنی ماں کو اٹھانے لگی تھی جب شہزاد نے اس کا بازو پکڑ کر اس
کو ایک طرف پھینکا تھا ۔۔۔ وہ دور ایک ٹیبل کے پاس جا کر گری تھی جبکہ ٹیبل کی نوک
اس کے ماتھے پر لگی تھی۔۔ خون اس کے ماتھے پر سے نکلا تھا درد کی ایک لہر اس کو سر
میں اٹھتی محسوس ہوئی اور اس کا سر چکرانے لگا تھا۔۔۔۔
انعم
بیگم اٹھنے کی کوشش کر رہی تھی مگر ان کی بازو اور ٹانگوں میں درد کی ایک لہر اٹھی
تھی ۔۔
ممانی
جان شرافت سے اپنی بیٹیاں دے دیں ۔۔ یقین کریں بہت محبت سے رکھیں گئے۔۔۔ شہزاد
انعم بیگم کے سامنے بیٹھتا بولا تھا ۔۔
میری بیٹیوں
کا نام بھی مت لینا شہزاد ۔۔۔ انعم بیگم
غصے سے دیکھتے بولی تھی۔۔۔۔
شہزاد
مسکراتا تھوڑا جھکا تھا اور انعم بیگم کے بالوں کو اپنی گرفت میں لیتا بولا
تھا۔۔۔۔
زندگی
پیاری ہے کہ نہیں ۔۔۔ وہ ایک ایک لفظ پر دباؤ ڈالتا بولا تھا۔۔ جبکہ اپنے ہاتھ میں
پکڑی گن انعم بیگم کی ٹھوڑی کے نیچھے ٹکا کر بولا تھا۔۔۔۔
شہزاد میری
بیٹیوں کو ہاتھ بھی مت لگانا۔۔۔ ایک انسوں ٹوٹ کر ان کی آنکھوں سے نکلا تھا ۔۔
انعم بیگم نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ وہ جس کو بیٹا سمجھتی تھی وہ ان کے ہی گھر
کی عزت کا دشمن نکلے گا۔۔۔۔
مجھے
جواب پسند نہیں آیا ۔۔۔ شہزاد گن کی نوک ان کے چہرے پر پھیرتا بولا تھا۔۔۔۔
شہزاد
پلیز میری فیملی کو چھوڑ دو۔۔ تمہاری دشمنی مجھ سے ہے۔۔ جزا روتے ہوئے بولی تھی۔۔
ایک طرف اس کی پھوپھو تھی جس کو اس نے باندھ دیا تھا۔۔۔ ایک طرف اس کی ماں تھی جس
پر وہ بندوق تانے بیٹھا تھا۔۔۔ ایک طرف اس کی بہن جس کی عزت کا وہ دشمن بنا بیٹھا
تھا۔۔۔ خدیجہ بیگم آنسوں بہاتی آنکھوں سے اس کو دیکھ رہی تھی جو ان کا کے وجود کا
حصہ تھا ان کا بیٹا تھا۔۔۔ جبکہ سویرا ایک طرف گیری پڑی تھی۔۔۔ اس کے ماتھے سے خون
نکل رہا تھا اور درد کی شدت اتنی کہ وہ ہوش میں
ہوتے ہوئے بھی ہوش میں نہ تھی اس سے اٹھنا ماحل تھا۔۔
میں نے
تمہیں بولا تھا نہ ہر ایک تھپڑ کا سود سمیت جواب لوں گا۔۔۔ تو تیار ہو جاؤ آج
تم۔۔۔ شہزاد اس کی طرف دیکھتے بولا تھا۔۔۔ جب انعم بیگم نے پاس پڑا واز اس کی کمر
پر مارا تھا۔۔۔
شہزاد
غصے سے انعم بیگم کی طرف موڑا تھا اور جھک کر ان کو ان کے بالوں سے پکڑا تھا۔۔۔
بہت
زیادہ ہاتھ پاؤں نہیں چل رہے ۔۔۔ وہ ایک ایک لفظ چبتا بولا تھا۔۔ اور اپنی گن لوڈ
کی تھی۔۔۔
شہزاد نہیں
۔۔۔ جزا تڑپ اٹھی تھی۔۔۔ جبکہ خدیجہ بیگم نفی میں سر ہلانے لگی تھی ۔۔۔
شہزاد
خدا کا نام ہے ان کو چھوڑ دو۔۔ جزا چیخ اٹھی تھی۔۔۔۔۔۔
اور اگلے
ہی لمحے گولی چلنے کی آواز پورے لاؤنج میں گونجی تھی۔۔۔۔
ماما۔۔۔۔۔
جزا کی چیخ اسی کے ساتھ لاؤنج میں گونجی تھی۔۔۔ سویرا جو بامشکل خود کو سنبھال رہی
تھی۔۔ گن چلنے اور جزا کی چیخ سے ایک دم
ہوش میں آئی تھی۔۔
ماما
۔۔۔۔ جزا کی چیخیں بلند ہوئی تھی۔۔۔ وہ مسلسل خود کو نواز کی گرفت سے آزاد کونے کی
کوشش میں لگی تھی۔۔ آنسوں اس کی آنکھوں سے بہہ رہے تھے۔۔۔ جبکہ دوسری طرف سویرا حیران
سی سامنے کا منظر دیکھ رہی تھی ۔۔ اس کی ماں کا خون میں لت پت وجود شہزاد کے ہاتھ
میں گن جزا کی سسکیوں سے بھری آواز ۔۔۔ اس کی پھوپھو جن کے ہاتھ پاؤں اور منہ باندھا
گیا تھا۔۔۔ سویرا کو بکل یقین نہیں آرہا تھا یہ سب وہ شخص کر رہا ہے جو اس کے وجود
میں سانس کی مانند تھا۔۔۔
ماما۔۔۔
سویرا کی چیخ بلند ہوئی تھی اس کے ساتھ ہی شہزاد نے اس کی طرف دیکھا ۔۔۔ اس کے
چہرے پر ایک مسکراہٹ دور آئی تھی۔۔۔۔
وہ ٹیبل کا سہارا لیے کر اٹھی تھی۔۔۔ اور بھاگ کر
انعم بیگم کی طرف بڑھی تھی جن کا وجود خون سے تر تھا اور سانسیں تھم چکی تھی ۔۔۔
اس سے پہلے وہ اپنی ماں کے پاس پہنچتی ۔۔ شہزاد نے اس کا بازو پکڑ لیا تھا۔۔۔
جیسے ہی
شہزاد نے اس کا بازو پکڑا تھا سویرا نے دوسرے ہاتھ کا تھپڑ اس کے منہ پر مارا
تھا۔۔۔۔ اور اس کے گریبان کو اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا تھا۔۔۔ جبکہ شہزاد حیران سا اس
کو دیکھ رہا تھا کہ اس نازک لڑکی کے وجود میں اتنی طاقت کہاں سے آئی تھی ۔۔
تم ایسا
کیسے کر سکتے ہو شہزاد ۔۔۔ وہ اس کا گریبان پکڑے بولی تھی۔۔ آنکھوں سے آنسوں بہہ
رہے تھے۔۔۔
میں کر
چکا ہوں۔۔۔ وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتا بولا تھا۔۔۔
تم مجھے
سے محبت کرتے ہو تو میرے ہی ساتھ ایسے کیسے کر سکتے ہو۔۔۔ سویرا چیختے ہوئے بولی
تھی ۔۔۔
محبت۔۔۔۔
ہاہاہاہاہہاہا۔۔۔ محبت اور تم سے ۔۔۔ او کم اون سویرا۔۔۔ ایسی محبت مجھے ہر آدھے
گھنٹے بعد ہو جاتی ہے ۔۔۔ شہزاد ہنستا ہوا بولا تھا۔۔۔ جبکہ سویرا آنکھوں میں بے
یقینی لیے اس کو دیکھ رہی تھی۔۔ اس کی آنکھوں میں بے یقینی ہی بے یقینی تھی ۔۔ اور
دوسری طرف خدیجہ بیگم کے کانوں میں جیسے کیسی نے سیسا انڈیلا دیا تھا ۔ ان کو تو
یقین ہی نہ آ رہا تھا کہ ان کا بیٹا ان کی
بھتیجی کو محبت کا فریب دے کر استعمال کرے گا ۔۔
تو وہ سب
کیا تھا۔۔۔۔میں نے تم سے بے انتہا محبت کی ہے شہزاد ۔۔۔ تم ایسے کیسے بول سکتے
ہو۔۔۔ سویرا کو اپنی آواز کھائی سے آتی محسوس ہوئی تھی۔۔۔
وہ سب تو
بس تمہیں چارہ ڈالنے کے لیے تھا۔۔۔ اب تم جیسی معصوم مچھلیوں کو محبت کا چارہ ڈال
کر ہی تو پھیسایا جا سکتا ہے نہ۔۔۔۔ شہزاد اس کو بازو سے پکڑتا بولا تھا۔۔۔جبکہ
سویرا کو اس کا ایک ایک لفظ چبا تھا۔۔
چھوڑو
مجھے۔۔۔ وہ ایک دم چلائی تھی۔۔۔
چھوڑنے
کے لیے تو نہیں پکڑا تمہیں بےبی گرل۔۔۔ آخر دو سال تمہیں محبت کے ساتھ رکھا ہے ۔۔۔
اس کی قیمت تو ادا کرنی ہو گئی نہ۔۔۔۔ شہزاد اس کے قریب ہوتے بولا تھا۔۔۔۔۔
شہزاد اس
سے دور رہو۔۔۔ جزا ایک دم چیخی تھی۔۔۔۔
ارے ارے
اس کے قریب میں نہیں کوئی اور جائے گا۔۔۔ اور پھر پتا نہیں کون کون جائے گا ۔۔۔ شہزاد
ذومعنی الفاظوں میں بولتا نواز کی طرف اشارہ کر چکا تھا۔۔۔
نہ۔۔۔
نہیں ۔ چھوڑو مجھے ۔۔۔ شہزاد کی بات کا مطلب سمجھتے سویرا اپنا آپ اس سے چھڑوانے
کی کوشش میں لگ گئی تھی جبکہ اس کی پکر اس پر بہت مظبوط تھی۔۔۔
اور اگلے
ہی لمحے شہزاد نے سویرا کو نواز کی طرف اور نواز نے جزا کو شہزاد کی طرف دھکیلا
تھا۔۔۔۔ جبکہ خدیجہ بیگم مسلسل اپنے ہاتھ اور پاؤں کر آزاد کرنے کی کوشش میں ہلکان
ہو رہی تھی۔۔۔۔ ان کی آنکھوں سے آنسو نکل رہے تھے۔۔ ان کا اندازہ بھی نہ تھا کہ ان
کا بیٹا اس قدر گھٹیا ہو گا۔۔۔
تم نے
ایک رات کے لیے مانگی تھی۔۔۔۔ یہ تمہاری ہوئی جتنی مرضی راتوں کے لیے رکھو۔۔۔۔
شہزاد کے الفاظ تھے یا چابق سویرا انداذہ نہ لگا پائی تھی۔۔۔ اس کا دل نہ جانے
کتنے حصوں میں ٹوٹا تھا۔۔۔۔
وہ نواز
کے ہاتھوں میں مچھلی کی
طرح مچلی تھی اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کی پکڑ سے آزاد ہوئی تھی۔۔۔ اور اگلے ہی
لمحے شہزاد کا گریبان اس کے ہاتھ میں تھا۔۔۔
تم دھوکہ
باز ہو۔ میں نے تم سے محبت کی تھی تم میرے ساتھ ایسے کیسے کر سکتے ہو۔۔۔ تمہیں حیا
نہ آئی شہزاد ۔۔۔ مجھے سب نے کہا تھا تم صحیح نہیں میں نے کیسی کا یقین نہ کیا تھا
۔۔ میں نے تمہارا یقین کیا اور تم نے میرے یقین کے ساتھ کیا کیا۔۔ایک لمحہ بس ایک
لمحہ کے لیے میری محبت کا خیال کر لتے شہزاد ۔۔۔ کیوں کر رہے ہو ایسے۔۔۔ بول دو نہ
یہ سب مذاق ہے ۔۔ ایک خواب ہے ۔۔۔۔۔ سویرا اس کا گریبان پکڑے روتے ہوئے بول رہی
تھی۔۔۔ مگر اس ظالم پر اس کے ایک انسو کا اثر نہ تھا ۔۔ اس نے سویرا کو دور دھکیلا
تھا۔۔۔ جب نواز نے اس کی بازوؤں کو پکڑ لیا تھا ۔۔
آج سویرا
کو اندازہ ہوا تھا کم ظرف مرد کی محبت صرف اور صرف خسارہ ہے۔۔۔ وہ اس کی محبت میں
آندھی ہو گئی تھی۔۔ اور آج وہ شخص کیسے ایک درندہ بنا اس کے سامنے کھڑا تھا۔۔ وہ
کیسے اس کا اتنا گھٹیا روپ نہ دیکھ سکی ۔۔۔ کیسے وہ اس کو محبت کے جال میں پھنسا
کر اس کو برباد کرنے کی تیاری کر رہا تھا اس کو علم بھی نہ تھا۔۔۔۔
خدیجہ
بیگم بہتے آنسوں سے یہ سارا منظر دیکھ رہی تھی ۔۔ دل ہی دل میں دعا مانگ رہی تھی
کہ ان کو موت آ جائے کیونکہ وہ یہ دکھ اپنے دامن میں لے کر نہیں جی سکتی تھی۔۔۔
•••••••••••
وہ کار
ڈرائیو کر رہے تھے۔۔ دل کی بے چینی تھی کہ حد سے سوا۔۔۔ مسلسل گھڑی پر ٹائم دیکھ
رہے تھے۔۔۔ نہ جانے آج گھر کا راستہ اتنا بڑھ کیوں گیا تھا۔۔۔۔ بارہ بجنے میں بس
پانچ منٹ رہتے تھے ۔۔۔ وہ ابھی بھی گھر سے کچھ دور تھے۔۔۔۔
یااللہ
یہ بےچینی کم کیوں نہیں ہو رہی۔۔ شاہد صاحب اپنے دل کے مقام پر ہاتھ رکھتے بولے
تھے ۔۔ پھر کچھ چیال آنے پر انہوں نے اپنا فون نکالا تھا۔۔۔
سامنے
سڑک پر ایک نظر ڈال کر گھر کا نمبر ڈائل کیا تھا۔۔مگر دوسری طرف لائن ہی نہ ملی
تھی۔۔۔ پھر کچھ سوچتے ہوئے انہوں نے انعم بیگم کا نمبر ڈائل کیا تھا۔۔۔ ان کا نمبر
بھی بند جا رہا تھا۔۔۔ ان کی بے چینی مزید بڑھتی جا رہی۔۔۔۔
اب کی
بار انہوں نے جزا کا نمبر ملایا تھا۔۔ کال جا رہی تھی مگر کوئی فون اٹھا نہیں رہا
تھا۔۔۔ اب کی بار وہ صحیح معنوں میں بہت زیادہ پریشان کو گئے تھے۔۔۔
یااللہ
سب خیر کرنا وہ ۔۔ وہ دل میں دعا مانگتے ڈرائیو کر رہے تھے ۔۔۔۔
ان کی
کار اب گھر کی طرف جاتی سڑک پر تھی۔۔۔ مگر جیسے جیسے گھر کا راستہ قریب آ رہا تھا
ویسے ویسے دل کا ڈر اور بے چینی بڑھتی جا رہی تھی ۔۔۔۔
••••••••••
چھوڑو
مجھے اس کی آواز پورے لاؤنج میں گونج رہی تھی۔۔۔۔۔ جبکہ سویرا مسلسل نواز کی گرفت
سے خود کو آزاد کرنے کی کوشش میں تھی۔۔۔۔ آنسو اس کی آنکھوں سے بہہ رہے تھے۔۔
آنکھوں میں ڈالا کاجل سارا بہہ چکا تھا۔۔ مسلسل نواز سے خود کو چھڑانے میں اس کی
نازک کلایاں سرخ ہو گئی تھی۔۔۔مگر نواز کی گرفت بہت مظبوط ہونے کی وجہ سے وہ خود کو آزاد نہ کروا سکی ۔۔۔
جب اچانک
جزا نے اپنی کہنی شہزاد کے منہ پر مار کر اس کو خود سے دور دھکیلا تھا۔۔ اس اچانک
وار پر شہزاد سنبھال نہ سکا اور اس کی گرفت جزا پر سے ڈھیلی ہوئی تھی ۔۔۔ دوسری
طرف نواز کا دھیان شہزاد کی طرف دیکھ کر
سویرا اس کے بازو پر
کاٹ چکی تھی درد کی وجہ سے نواز کی گرفت کچھ ڈھیلی ہوئی جس کا فائدہ اٹھا کر سویرا اس کی
پہنچ سے دور بھاگی تھی ۔۔۔
جزا
شہزاد کی پہنچ سے نکل کر فوراً خدیجہ کی طرف بھاگی تھی اور ان کے ہاٹھ پر بندھے
ریبن کی گرہ کو کھولنے لگی تھی۔۔۔ وہ گرہ کافی حد تک ڈھیی کر چکی تھی جب شہزاد نے
اس کو بالوں سے پکڑ کر پیچھے کی طرف گھسیٹا تھا۔۔۔ اور اس کو کھڑا کر کے ایک تھپڑ
رکھ کر اس کے دودھیا گال پر مارا تھا۔۔۔۔۔
ذلیل
عورت سمجھتی کیا ہے خود کو تو۔۔۔ شہزاد انتہا کہ اوباش الفاظ استعمال کرتا جزا کے
بالوں کو اپنی سخت گرفت میں پکڑے دھاڑا تھا۔۔۔
دوسری
طرف نواز سویرا کو اوپر کی طرف بھاگتا دیکھ اس کی طرف لپکا تھا۔۔ اور بیچ سیڑھیوں
میں اس کو جا لیا تھا۔۔۔ سویرا کا نازک وجود اس وقت مکمل طور پر اس کی گرفت میں
تھا۔۔۔۔
جبکہ
خدیجہ بیگم اپنے ریبن سے بندھے ہاتھوں کو آزاد کرنے کی کوشش کر رہی تھی ۔۔ جو اب
کے ڈھیلا ہو چکا تھا۔۔۔
شہزاد
۔۔۔۔ ایک مردانا آواز پورے لاؤنج میں گونجی تھی۔۔۔ جب شہزاد نے جزا کو بالوں سے
پکڑے روخ دروازے کی طرف کیا تھا۔۔۔۔ نواز سویرا کو سیڑھیوں میں قابو کیے کھڑا
تھا۔۔۔ اور خدیجہ بیگم نم آنکھوں سے دروازے کی طرف دیکھ رہی تھی۔۔۔
شاہد
صاحب آنکھوں میں وحشت لیے اپنی گن کی نوک شہزاد کی طرف کیے کھڑے تھے۔۔۔ ان کی
آنکھوں میں خون دیکھ کر ایک لمحے کے لیے شہزاد ڈرا تھا مگر اگلے ہی لمحے خود کو
نارمل کر چکا تھا۔۔۔ کیونکہ شاہد صاحب کی جان اس کی مٹھی میں تھی۔۔۔
گن کو
نیچھے کر دیں مامو جان ۔۔۔ شہزاد جزا کے سر پر گن تان کر بولا تھا۔۔۔
شہزاد
میری بیٹیوں کو چھوڑ دو۔۔۔ شاہد صاحب آنکھوں میں خون لیے بولے تھے۔۔۔ ان کو اندازہ
بھی نہ تھا کہ شہزاد اس حد تک گر جائے گا۔۔۔
مامو جان
گن رکھ دیں ورنہ آپ کی بیٹی جان سے جائے گئی ۔۔ شہزاد جزا کے چہرے پر گن کی نوک کو
رینگتا بولا تھا۔۔۔
بابا میں
مرتی ہو مر جانے دیں ۔۔۔ پھوپھو اور سویرا کو بچا لیں۔۔ اس نے ماما ۔۔۔ اس نے ماما
کو مار دیا بابا۔۔۔ جزا روتے ہوئے بلند آواز میں بولی تھی۔۔ جبکہ کے اس کے آخری الفاظ
نے شاہد صاحب پر آسمان گرا دیا تھا ۔۔ انہوں نے نظریں آس پاس دوڑائی تھی ۔۔ انعم
بیگم کہیں نہیں تھی۔۔۔ جب ان کی نظر ٹیبل کی ایک طرف گئی تو انعم بیگم کا وجود خون
میں لت پت پڑا تھا۔۔۔ ایک آنسوں ٹوٹ کر شاہد صاحب کی آنکھوں سے گرا تھا ۔۔ ان کی
محبوب بیوی اس دنیا میں نہیں رہی تھی۔۔۔
گن نیچھے
رکھ دیں مامو جان ورنہ بیٹیوں سے بھی جائیں گے اور بہن سے بھی۔۔۔ شہزاد چہرے پر
مسکراہٹ سجائے بولا تھا۔۔۔
شہزاد
آخری بار بول رہا ہوں میری بچیوں کو چھوڑ دو۔۔ اور میری بہن کو بھی۔۔۔ شاہد صاحب
گن پر اپنی گرفت مضبوط کیے بولے تھے۔۔۔
کیونکہ
ان میں جزا ، سویرا اور خدیجہ بیگم کو کھونے کی ہمت نہیں تھی۔۔ اپنی جان سے پیاری
بیوی تو وہ کھو چکے تھے۔۔۔۔
آپ گن
نیچھے نہیں رکھیں گئے۔۔۔ یہ کہتے ساتھ شہزاد نے دور کھڑے نواز کی گرفت میں مچلتی سویرا
کی ٹانگ کا نشانہ لیا تھا اور اگلے ہی لمحے گولی چلنے کی آواز کے ساتھ سویرا کی
چیخ لاونج میں گونجی تھی۔۔۔۔ اور ساتھ ہی شاہد صاحب کی گن چلی تھی۔۔ مگر شہزاد
فوراً جھکا تھا جس کی وجہ سے نشانہ خطا ہوا اور گولی سامنے فرم میں جا کر لگی تھی۔۔۔
ویل ویل
مامو جان اب تو گن نیچھے رکھ دیں یہ اب کیسی اور کو گولی مروانی ہیں ۔۔ اب کی بار
شہزاد کی گن کے نشانے پر خدیجہ بیگم تھی۔۔۔
میں گن
رکھتا ہوں تم میری بچیوں کو چھوڑ دو۔۔۔ شاہد صاحب کو شہزاد کے ارادے بلکل ٹھیک
نہیں لگ رہے تھے۔۔۔ اس لیے انہوں نے گن رکھنے کا فیصلہ کیا تھا اس بات سے بےخبر کے
یہ فیصلہ ان کی موت کا فیصلہ بنے گا۔۔۔
جیسے ہی
شاہد صاحب نے گن کا روخ کچھ نیچھے کی طرف کیا ہی تھا کہ شہزاد نے فوراً گن کا روخ
شاہد صاحب کی طرف کیا اور ایک لمحے کے اندر وہ ٹریگر دبا چکا تھا۔۔۔ گن سے گولی
نکالی تھی اور سیدھا جا کر شاہد صاحب کے دل کے مقام پر ایک سوراخ کر گئی تھی ۔ جس سے خون اوبھل کر باہر کی طرف
نکلا تھا اور ساتھ ہی شاہد صاحب کا وجود زمین پر ڈھیر ہو گیا تھا ۔۔ خدیجہ بیگم
پھٹی آنکھوں سے اپنے شیر جیسے بھائی کو زمین پر گرتا دیکھ رہی تھی۔۔۔ جبکہ سویرا
اپنی جگہ جم سی گئی تھی اس کی جیسے کیسی نے جان نکال دی ہو یا جیسے اس کا وجود برف
کا بن گیا ہو۔۔ اور جزا ۔۔۔ جزا شاہد صاحب کے ساتھ ہی زمین پر گری تھی۔۔۔ آنکھیں
پتھرا گئی تھی۔۔۔ آواز ساتھ چھوڑ گئی تھی۔۔۔ وجود نے کھڑے رہنے سے انکار کر دیا تھا۔۔ وہ ساکت نظروں سے
سامنے گرے شاہد صاحب کا وجود دیکھ رہی تھی۔۔۔ ان کے دل کے مقام پر اس کی نظر تھی
جہاں سے ابھی بھی خون نکل رہا تھا۔ اس کی ہمت جواب دے گئی تھی۔۔
خدیجہ
بیگم زور زور سے اپنے ہاتھوں کو کھولنے کی کوشش کر رہی تھی اور اس میں کامیاب بھی
ہو گئی۔۔ ان کے ہاتھ آزاد ہو چکے تھے۔۔ فوراً سے جھکی اور اپنی پاؤں کو آزاد کیا اور
پھر ساتھ ہی منہ کو بھی آزاد کیا تھا۔۔
شاہد ۔۔۔
میرا شاہد الف۔۔۔ خدیجہ بیگم روتی آواز میں بولتی اپنی جگہ سے اٹھی تھی۔۔۔ اور
بھاگ کر شاہد صاحب کی طرف جانے لگی تھی۔۔
جب دوبارہ گولی چلنے کی آواز آئی تھی اور اس کے ساتھ ہی خدیجہ بیگم زمین پر گری
تھی ۔۔ ایک چیخ ان کے منہ سے نکلی تھی۔۔۔ گولی ان کی ٹانگ پر لگی تھی۔۔۔
گولی کی
آواز سے سویرا اور جزا ہوش میں آئی تھی۔۔۔۔۔
خدیجہ
بیگم خود کو گھسٹتے ہوئے شاہد صاحب کے پاس لے جانے لگی تھی۔۔ جب شہزاد جزا کو اس
کے بالوں سے گھسیٹتا ہوا خدیجہ بیگم کی طرف بڑھا تھا جبکہ جزا خود کو چھڑانے کی ہر ممکن کوشش کر رہی تھی وہ
چیخ رہی تھی مگر اس کی آواز شہزاد پر کوئی اثر نہیں کر رہی تھی۔۔ شہزاد خدیجہ بیگم
کے کچھ قریب پہنچا تھا اور پھر اس نے جزا
کو ان کی طرف پھینک تھا۔۔۔
جزا
خدیجہ بیگم کے پہلو میں جا کر گری تھی۔۔
جس کو وہ فوراً اپنی آغوش میں لے چکی تھی۔۔۔ جب شہزاد قدم قدم آگے بڑھا تھا۔۔۔۔
شہزاد ان
کو چھوڑ دو۔۔۔ سویرا کی سسکیوں سے بھری آواز اس سے رحم کی بھیک مانگ رہی تھی۔۔ مگر
وہ جیسے بھرا ہو گیا تھا۔۔۔
آگے بڑھ
کر اس نے جزا کو خدیجہ بیگم سے الگ کیا تھا اور اس کے بالوں سے پکڑ کر اس کا منہ
خدیجہ بیگم کی طرف کیا تھا۔۔۔
یہ ہی
تھی نہ آپ کے بھائی کی وہ لاڈلی جو مانگی تھی میں نے آپ سے اور آپ نے انکار کیا
تھا۔۔۔ شہزاد جزا کے بالوں کو مضبوط سے جکڑے اس کے منہ کو خدیجہ بیگم کے سامنے کیے
بولا تھا۔۔ جبکہ جزا کی دبی دبی سسکیاں نکل رہی تھی۔۔۔
شہزاد
۔۔۔ خدیجہ بیگم نے کچھ بولنا چاہا تھا۔۔
چپ ایک
دم چپ۔۔۔ شہزاد خدیجہ بیگم کو شہادت کی انگلی دیکھتا ورن کرنے والے انداز میں
گھوڑتے بولا تھا۔۔۔
آپ کی یہ
بھتیجی مجھ جیسا ڈیزرو نہیں کرتی نہ۔۔ اس کا میں وہ حال کروں گا اس مقام پر لاؤں
گا جہاں کوئی بھی اس جیسی کو ایکسیپٹ کرنے سے انکار کر دے گا۔۔۔ شہزاد ایک ایک لفظ
پر زور دیتا بولا تھا۔۔۔
شہزاد
خدا کا نام ہے ان بچیوں کو چھوڑ دو۔۔۔ خدیجہ بیگم نے اس کے سامنے ہاتھ جوڑے تھے۔۔۔
چھوڑ دیں
گئے ذرہ ان شریف زادیوں کا حسین تو دیکھ لیں ۔۔ شہزاد اپنی ماں کی آنکھوں میں
آنکھیں ڈال کر بےشرمی سے بولا تھا۔۔۔ وہ غصے ، حواس اور بدلے کی آگ میں اس قدر اندھا
ہو گیا تھا کہ اس کو سامنے ماں تک نظر نہ آ رہی تھی ۔۔ خدیجہ بیگم آنکھوں میں
آنسوں لیے اس کو دیکھ رہی تھی جو ان کی اولاد تھا جس کے لیے انہوں نے اکرم جیسے
آدمی کو ساری زندگی برداشت کیا تھا۔۔
وہ جزا
کو ایسے ہی اپنے ساتھ گھسیٹتا موڑا تھا جب جزا کے منہ سے ایک چیخ نکلی تھی۔۔۔
خدیجہ بیگم اپنے وجود کو گھسیٹتی تھوڑا اور آگے بڑھی تھی اور شاہد صاحب کی گن پکڑ
لی تھی۔۔ ان کا نشانہ شہزاد تھا ۔۔ نواز خدیجہ بیگم کے ہاتھ میں گن دیکھ چکا تھا
اس سے پہلے وہ کچھ بولتا خدیجہ بیگم نے گولی چلا دی تھی۔۔ گولی شہزاد کی بازو میں
لگی تھی۔۔۔ وہ فوراً موڑا تھا۔۔۔ جزا کو ویسے ہی اپنے ساتھ گھسیٹتا جا رہا تھا ۔۔
جبکہ دوسری طرف سویرا نواز کی گرفت میں
رو رو کے
بحال ہو چکی تھی اس کے وجود کی ہمت ختم ہوتی جا رہی تھی۔۔۔
یہ
آپ نے اچھا نہیں کیا ۔ شہزاد خدیجہ بیگم
کے قریب جھکتا بولا تھا۔۔۔
شہزاد
پلیز پھوپھو کو چھوڑ دو۔۔۔ اب کی بار جزا روتے ہوئے ہاتھ جوڑتے بولی تھی۔۔ ماں باپ
کھو چکی تھی اپنی آنکھوں کے سامنے ان کو مرتا دیکھ چکی تھی۔۔ اب وہ اپنی پھوپھو کو
اس حال میں نہیں فیکھ سکتی تھی۔۔ ان کو نہیں کھونا چاہتی تھی ۔۔
بلکل
نہیں ۔۔ شہزاد مسکراتا بولا تھا۔۔
خدا کا
خوف کھاؤ شہزاد وہ ماں ہے تمہاری ۔۔ اس کی بات پر جزا کا دل ڈوب کر ابھرا تھا۔۔۔۔
جبکہ خدیجہ بیگم بیٹے کا یہ وحشی روپ دیکھ رہی تھی ۔۔۔
شہزاد نے
اپنی گن دوبارہ لوڈ کی تھی۔۔۔ جب خدیجہ بیگم بولی تھی۔۔۔
مار دو
مجھے شہزاد ۔۔ آج مار دو مجھے۔۔۔ شاید میرے نصیب میں بیٹے کے ہاتھوں مرنا لکھا
تھا۔۔ مجھے آج افسوس ہو رہا ہے کہ تم وہ ہو جس کو اپنے پاس رکھنے کے لیے اپنی
آنکھوں کے سامنے رکھنے کے لیے میں نے اکرم جیسے درندے کے ساتھ گزارہ کیا تھا۔۔۔ تم
نے آج ثابت کر دیا شہزاد تم نے صرف مجھ سے جنم لیا ہے مگر تمہاری رگوں میں خون
اکرم کا ہی ہے۔۔۔ تم نے میرا سارا خاندان تباہ کر دیا شہزاد ۔۔۔ خدیجہ بیگم بہتے
آنسوں سے بولتی اپنے اس ظالم اور سفاک بیٹے کو دیکھ رہی تھی۔۔۔ جو بے شرم بنا کیسی
بھی بات کا اثر لیے گن ان کی طرف کیے کھڑا تھا۔۔۔۔
میں
تمہیں معاف نہیں کروں گئ شہزاد ۔۔ قیامت کے دن تم خدا کے سامنے مجھے میرے خون کا
حساب دو گے شہزاد ۔۔ نہ میں تمہیں آج معاف کروں گی نہ قیامت کے روز ۔۔۔ تمہارے باپ
نے میرا دل زخمی کیا تھا مگر تم نے تم نے میری روح تک زخمی کی ہے شہزاد ۔۔۔ شہزاد
اکرم تم نے اپنی ماں کا گھر اجاڑ دیا۔۔۔ تمارے سامنے ہوں میں کر لو میرا خون ۔۔
مگر یاد رکھنا۔۔ میری دعا ہے تمہیں تم اور تمہارا باپ اپنے درد ناک انجام کو پہنچو
۔۔ اپنے ایک ایک ظلم کا حساب اس دنیا میں بھی دو اور انصاف کے دن بھی۔۔۔ خدیجہ
بیگم روتے ہوئے بول رہی تھی ۔۔
شہزاد خدا کا نام ہے رحم کرو۔۔ پھوپھو کو کچھ مت کرنا
تمہاری ماں ہیں وہ۔۔۔ جزا روتے ہوئے اس کے سامنے ہاتھ جوڑ رہی تھی۔۔۔
شہزاد
خدا کے لیے پھوپھو کو چھوڑ دو۔۔۔ سویرا کی سدا بھی جزا کی سسکیوں میں شامل ہوئی
تھی۔۔ خدیجہ بیگم بہتے آنسوں سے بیٹے کو دیکھ رہی تھی۔۔ جبکہ جزا اور سویرا بار
بار اس کو واسطے دے رہی تھی ۔۔۔
میں
تمھیں کبھی بھی معاف نہیں کروں گی۔۔ ابھی خدیجہ بیگم کے الفاظ منہ میں ہی تھے جب
شہزاد نے ٹریگر دبا دیا تھا۔۔۔ گولی خدیجہ بیگم کے سینے کے آر پار ہوئی تھی۔۔۔
پھوپھو۔۔۔
جزا اور سویرا کی چیخ ایک بار پھر لاونج میں بلند ہوئی تھی۔۔۔
جزا
فوراً سے خدیجہ بیگم کے قریب گئی تھی۔۔۔۔ جن کی سانسیں مدہم ہو رہی تھی۔۔۔
پھوپھو
۔۔۔ وہ خدیجہ بیگم کے منہ کو تھپتھپاتے بولی تھی۔۔۔
اد۔۔۔
ادھر۔۔۔ س۔۔ سے بھ۔۔ بھاگ ۔۔ جاؤ ۔۔۔ می۔۔میر۔۔ میری ب۔۔بچ۔۔بچی۔۔۔ خدیجہ بیگم یہ
بول کر ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گئی تھی۔۔۔ اپنے سینے میں بھائی اور بھابی کی موت کا
غم لیے۔۔ اپنے بیٹے مے وحشی روپ کو دیکھ کر اس کے ظلم کو دیکھ کر اس کی درندگی کا
زخم قلب پر لیے۔۔ اس کے ہاتھوں میں اپنا خون سجائے عمر بھر کے لیے خاموش ہو گئی
تھی۔۔ اور جاتے جاتے اس بدبخت بیٹے سے اس کی جنت لے گئی تھی۔۔۔
••••••••••••••••
کمرے میں
ہر طرف سگریٹ کا دھواں تھا۔ وہ صوفے پر نیم دراز بیٹھا ہوا تھا۔۔ سر صوفے کی پشت سے ٹیکا رکھا تھا ۔ سیدھے ہاتھ کی
پہلی دو انگلیوں میں دبا سیگریٹ ابھی بھی سلگ رہا تھا۔۔۔ وہ کمرے کی سیلنگ کو دیکھ
رہا تھا۔۔۔ بکھرے بال ، رف حالت میں اپنی بھوری آنکھوں میں نمی لیے وہ کہی سے بھی
رحیان آغا نہیں لگ رہا تھا ۔۔ جس کی شرارتوں سے لوگ تنگ ہوتے تھے ۔ پیچھے کچھ عرصہ
نے کیسے اس کو سنجیدہ کر دیا تھا۔۔۔۔
تم کیوں
نہیں مان جاتی سویرا وہ شخص اچھا نہیں ہے ۔۔ وہ بھر آئی آواز میں بولا تھا۔۔۔ دل
بے چین سا تھا۔۔۔ کیسی طرح اس کو کوئی سکون نہیں مل رہا تھا۔۔۔ وہ سیدھا ہو کر
بیٹھا تھا۔۔ سگریٹ کو آش ٹرے میں مسلا تھا۔۔ اور سر اپنے ہاتھوں میں گرا لیا
تھا۔۔۔
انسوں اس
کی آنکھوں سے نکلے تھے۔۔ اس کی آنکھوں کے سامنے بار بار سویرا کا مسکراتا چہرہ آ
رہا تھا ۔۔ دو سالوں سے اس نے اس سے چھپ کر محبت کی تھی۔۔۔ اس نے اپنی محبت اپنے
آپ سے بھی چھپائی تھی کہ کہیں اس کی ہی بری نظر اس پر نہ لگے۔۔۔۔ یہ جانے کے
باوجود کہ وہ ایک درندے کی محبت میں گرفتار ہو گئی ہے۔۔ وہ اس سے محبت نہیں کرتی وہ
پھر بھی اس کے نام کے دم بھرتا تھا۔۔۔۔
آج صبح سے
اس سے مل کر آنے کے بعد وہ اپنی کمرے میں بند تھا۔۔۔ مگر دل کو ایک پل سکون نہ
تھا۔۔۔ بےچینی تھی کہ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ۔ بڑھتی جا رہی تھی۔۔ اور اوپر سے اس
کا خواب جس نے اس کو ڈرا کر رکھ دیا تھا۔ نہ جانے کیوں دل میں ایک بار اس کو
دیکھنے کی خواہش پیدا ہوئی تھی۔۔۔ دل کی خواہش پر لبیک بولتا وہ اٹھ کھڑا ہوا
تھا۔۔۔۔ اپنی کار کی چابی پکڑی اور رات کے اس پہر وہ اپنے گھر سے نکلا تھا۔۔۔ صرف
اور صرف دیدارے یار کے لیے۔۔ اس بات سے بے خبر کہ کون سی قیامت برپا ہو چکی ہے۔۔۔
•••••••••••
چھوڑو
مجھے خدا کا نام ہے رحم کرو۔۔ چھوڑو مجھے۔۔ جزا میری مدد کرو۔۔ مجھے بچاؤ ۔۔ سویرا
کی سدا پورے گھر میں گونجی تھی۔۔ ساتھ ہی وہ نواز کے ہاتھ پر اپنے نازک ہاتھوں کو
مار رہی تھی جو اس کو گھسیٹتا ہوا اوپر لے کر جا رہا تھا۔۔۔ جبکہ اس کی آواز پر
جزا تڑپ اٹھی تھی۔۔۔
شہزاد اس
سے بولو میری بہن کو چھوڑ دے پلیز۔۔۔ تمہاری دشمنی مجھ سے ہے نہ ۔۔ مجھ سے بدلہ لو
نہ میری بہن کو خدارا چھوڑ دو۔۔ جزا روتے ہوئے شہزاد کے سامنے ہاتھ جوڑ کر بولی
تھی۔۔۔ جس شخص کو وہ کبھی دیکھنا نہیں چاہتی تھی آج زندگی اس کو کس موڑ پر لے آئی
تھی جہاں اپنی بہن کی عزت بچانے کے لیے اس جیسے کم ظرف آدمی کے آگے ہاتھ جوڑ رہی
تھی۔۔ جس نے اس کی زندگی لمحوں میں تباہ کر دی تھی۔۔۔
چھوڑ
دوں۔۔۔ شہزاد جزا کی آنکھوں میں دیکھتا بولا تھا۔۔۔
پلیز ۔۔۔
جزا روتے ہوئے بولی تھی۔۔۔۔
وہ تھپڑ
یاد کرو جزا جو تم نے رستوران میں مارا تھا۔۔۔ وہ تھپڑ یاد کرو جو تم نے گھر میں
مارا تھا۔۔۔ اگر تم اس وقت خود کو مجھے دے دیتی تو آج اس سب کی نوبت ہی نہ آتی
۔۔ تم سے پہلے کہا تھا میں نے تمہیں پل پل
نہ مارا تو پھر کہنا ۔۔ کیسا لگ رہا ہے میرا بدلہ۔۔۔۔ شہزاد اس کے بالوں کو کو
جکڑے بولا تھا۔۔۔ ایک طرف اس کے الفاظ کے نشتر ایک طرف سر میں اٹھتی تکلیف ۔۔۔ جزا
کی آنکھوں سے انسوں نکلے تھے۔۔۔
خدا کا
واسطہ ہے شہزاد ۔۔۔ وہ روتے ہوئے بولی تھی۔۔۔ اس نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ اپنی
زندگی میں وہ کبھی اس حد تک بے بس ہو گی۔۔
رحم کرتا
ہوں نہ تم پر۔۔۔ یہ کہتے ساتھ شہزاد نے اس کے بالوں کو مزید مضبوطی سے جکڑا تھا
اپنے ہاتھ میں اور اس کو کھڑا کرتا اپنے ساتھ گھسیٹتے ہوئے اوپر لے کر جا رہا
تھا۔۔۔ جزا نے خود کو اس سے آزاد کروانے کی کوشش کرنے لگی تھی۔۔ اس نے اپنی کہنی
شہزاد کے پیٹ پر ماری تھی جب شہزاد نے اس کے منہ پر الٹے ہاتھ سے تھپڑ مارا تھا اور وہ تھپڑ اتنی زور کا تھا
کہ جزا کے ہونٹ سے خون نکلانے لگ گیا تھا ۔۔ جبکہ اس کو ایسا لگ رہا تھا کہ اس کا
جبڑا ہل گیا ہو۔۔۔
اب کی
بار شہزاد کی پکڑ اس قدر مضبوط تھی کہ وہ ہل بھی ںہ پائی تھی ۔۔۔
اب منظر
کچھ یہ تھا۔۔ کہ آگے نواز سویرا کو گھسیٹتا لے کر جا رہا تھا جبکہ پیچھے شہزاد جزا
کو گھسیٹتے ہوئے لے کر جا رہا تھا۔۔۔
چھوڑو
مجھے ۔۔ اب کی بار سویرا نے نواز کے ہاتھ پر کاٹا تھا۔۔۔ مگر وہ ڈھیٹ بنا اس کو
اپنے ساتھ گھسیٹتا کے کر جا رہا تھا۔
ان دونوں
بہنوں کی روتی آوازیں پورے گھر میں گونجی رہی تھی مگر ان کے تینوں سائبان گہری
نیند سو چکے تھے۔ جو ان کے آنسوؤں پر تڑپ جاتے تھے۔۔ جبکہ یہ دونوں درندے تھے۔۔ ان
کو بے سہارا کر کہ بھی ان پر رحم ںہ آیا
تھا۔۔۔
نواز نے
آگے بڑھ کر کمرے کے دروازے کو پورا کھولا تھا جو آدھا کھولا ہوا تھا ۔۔ یہ کمرا
سویرا کا تھا۔۔۔ نواز نے سویرا کو اندر کی طرف پھینکا تھا۔۔ اور خود بھی اندر بڑھا
تھا۔۔ جب اس کے پیچھے ہی شہزاد جزا کو لے کر بھی اس ہی کمرے میں آیا تھا۔۔۔
جب نواز
نے اس کو سوالیہ نظروں سے دیکھا تھا۔۔۔
میں اس
کو پل پل مارنا چاہتا ہوں ۔ یہ رحم کرنے کا بول رہی ہے اس کو رحم دیکھنا چاہتا
ہوں۔۔ شہزاد یہ بولتا جزا کو پاس پڑے صوفے پر پھیکتا اس کے ہاتھ پاؤں باندھنے لگا
تھا۔۔۔ جب جزا نے اس کو اپنے پاؤں سے ٹھوکر مار کر پیچھے کیا تھا۔۔ شہزاد جزا کو
غصے سے دیکھتا واپس اس کی طرف بڑھا تھا۔۔۔
دوسری
طرف سویرا اٹھ کر اپنے ڈریسنگ کی طرف بڑھنے لگی تھی جب نواز نے اس کو پھر سے قابو کیا
تھا ۔۔۔
شہزاد نے
ایک ساتھ چھ تھپڑ جزا نے منہ پر مارے تھے۔۔۔ جزا ان تھپڑوں سے ایک بار سن سی ہو
گئی تھی اس کا دماغ گھوم کر رہ گیا تھا۔۔۔ اس پر آج تک اس کے باپ نے ہاتھ نہ
اٹھایا تھا۔۔ آج شہزاد کے تھپڑوں نے اس کو بہت تکلیف دی تھی۔۔ کون مان سکتا تھا کہ
وہ اس کا پھوپھو زاد تھا۔۔۔
شہزاد نے
اس کے ہاتھ پاؤں باندھ دے تھے۔۔۔ جزا نم آنکھوں سے سامنے کا منظر دیکھ رہی تھی
جہاں نواز سویرا کو قابو کرنے کی کوششوں میں تھا۔۔۔۔
سویرا
نواز کو بڑی مشکل سے دور دھکیلا کر آگے کی طرف بڑھی تھی جب شہزاد اس کے سامنے آ کر
کھڑا ہوا تھا۔۔۔
کدھر چلی
ہیں آپ محترمہ ۔۔ شہزاد اس کو خباثت سے دیکھتا بولا تھا۔۔۔ جبکہ جزا کی آنکھوں سے
آنسوں بہہ رہے تھے۔۔۔۔
شہزاد تم
تو مجھے سے محبت کرتے تھے۔۔۔ تم تو کہتے تھے میری طرف کیسی کی نظر نہیں برداشت کر
سکتے ۔۔ اور آج تم میرے ساتھ یہ سب کیسے کر سکتے ہو۔۔۔ سویرا روتے ہوئے بولی تھی ۔
بات سنو
میری۔۔۔ میں تم سے کوئی محبت نہیں کرتا تھا صرف ایک دیکھاوا تھا وہ۔۔۔ اور وہ سب
میں نے کیا ہی اس لیے تھا کیونکہ مجھے تمہیں نواز کو دینا تھا ۔۔ اب چپ کر کے اس
کی ہر خواہش کو پورا کرو ورنہ زبردستی بھی کرنا ہم جانتے ہیں ۔۔۔ شہزاد کے الفاظ
نے سویرا کے پاؤں کے نیچھے سے زمین کھینچنے لی تھی۔۔۔۔
سویرا نے
اپنا ہاتھ شہزاد جو مارنے کے لیے اٹھایا تھا جو اس نے ہوا میں ہی روک لیا تھا۔۔۔۔
سویرا
شرافت سے اس کی ہر خواہش پوری کرو یقین کرو تمھیں اور تمہاری بہن کو چھوڑ دوں
گا۔۔۔ شہزاد مسکراتا بولا تھا۔۔ اور آج زندگی میں پہلی بار سویرا کو اس کا مسکرانا
اس کا بولنا اور اس کی آواز بری لگی تھی۔۔۔۔ اس کی آنکھوں میں بے یقینی ہی بے
یقینی تھی۔۔۔ بار بار اپنی دل میں دعا مانگ رہی تھی کہ یہ بس خواب ہو۔۔ مگر یہ سب
حقیقت تھا ۔
تمہارے
بارے میں جو سنا تھا وہ سب ٹھیک تھا۔ تم قاتل ہو تم ایک برے انسان ہو۔ تم ایک
اندھیری کھائی ہو۔۔ سویرا کو اپنی آواز کھائی
سے آتی محسوس ہوئی تھی۔۔۔۔
ہاں
میں ہوں۔۔ بالکل میں ہوں۔۔۔ اور یہ کہتے
ساتھ شہزاد نے اس کو نواز کی طرف دھکیلا تھا۔۔۔ جزا کے دل پر سویرا کا ایک ایک
آنسوں سوئی کی طرح چب رہا تھا۔۔۔
شہزاد
میری بہن کو چھوڑ دو۔۔ جزا کی روتی ہوئی آواز
کمرے میں گونجی تھی۔۔۔
میں کہہ
رہی ہوں مجھے ہاتھ مت لگانا چھوڑو مجھے۔۔۔ سویرا اپنے آپ کو نواز سے بچانے میں لگی
تھی ۔۔ جب نواز نے اس کو بیڈ پر گرا دیا تھا۔۔۔
اور خود
اپنی شرٹ کے بیٹن کھولنے لگا تھا ۔۔۔ سویرا نے جیسے تیسے ہمت کر کے خود کو اٹھایا
تھا ابھی وہ خود کو بچا پاتی ۔۔ نواز نے ایک
زور کا تھپڑ اس کے نازک گال پر مارا تھا ۔۔ وہ واپس بیڈ پر گری تھی۔
پلیز اس
کو چھوڑ دو ۔۔ جزا کی آواز کمرے میں گونجی
تھی۔۔۔۔
نواز
سویرا کا پورا وجود قابو کر چکا تھا۔۔ وہ اس کی گرفت میں بے آب مچھلی کی طرح تڑپ
رہی تھی۔۔۔
پلیز
مجھے چھوڑ دو میرے قریب مت آنا ۔۔ سویرا
روتے ہوئے بول رہی تھی۔۔۔ جبکہ نواز اس کی فروک کو ایک طرف سے پھاڑ چکا تھا۔۔۔۔۔
پلیز ا
سکو چھوڑ دو وہ معصوم ہے ۔۔ میری بہن کو چھوڑ دو۔ جزا روتے ہوئے بول رہی تھی۔۔
جبکہ سویرا کی رونے اور چیخنے کی۔ آوازیں پورے کمرے میں گونج رہی تھی۔۔۔۔ نواز
پوری طرح سے سویرا کے وجود پر قابض ہو گیا تھا۔۔۔ دوسری طرف جزا رو رو کر بس ایک
ہی بات بولی جا رہی تھی کہ سویرا کو چھوڑ دو مگر ان دونوں درندوں کو اس کی آواز سے
کوئی اثر نہیں پر رہا تھا۔۔۔
کمرے میں
سویرا کی رونے کی آوازیں بلند ہوتی چلی جا رہی تھی۔ اور ساتھ ہی جزا کی آنکھیں
آنسوں سے بھرتی جا رہی تھی۔۔۔ آہستہ آہستہ سویرا کی رونے کی آوازیں چیخوں میں بدلی
تھی اس کے رونے میں مزید شدت آ چکی تھی اس معصوم کی معصومیت ایک درندے کی نظر ہو
گئی تھی۔۔۔
پلیز اس
کو چھوڑ دو ۔۔ جزا بہت شدت سے چیخ کر بولی تھی ۔۔ اس نے آنکھیں بند کر لی تھی وہ
اپنی بہن کو بے آبرو ہوتا نہیں دیکھ سکتی تھی۔۔۔ جب شہزاد نے پھر سے اس کے بالوں
کو اپنی مٹھی میں جکڑا تھا۔۔۔
اپنی
آنکھیں کھولو۔۔ اگر یہ بند کی تو تمہاری بہن کے ساتھ اچھا نہیں ہو گا۔۔۔ شہزاد اس
کو غصے سے دیکھتا ایک ایک لفظ چبا چبا کر بولا تھا۔۔۔
شہزاد نے
اس کے بالوں کو اپنے ہاتھوں میں جکڑے رکھا تھا ۔۔ وہ جیسے آنکھیں بند کرتی وہ اس
کے سر کو ایک زور کا جھٹکا دیتا تھا۔۔۔
پورے
کمرے میں جزا کے رونے کی آوازیں ۔۔ اور سویرا کی سسکیاں اور چیخیں گونج رہی تھی
۔۔۔۔
نواز
کافی دیر اس معصوم پر اپنی حواس پوری کر چکا تھا۔۔۔ سویرا ٹوٹی پھوٹی حالت میں میں
بستر پر پڑی تھی آنکھیں ساکت تھی۔۔۔ نہ آنسوں نہ چمک۔۔ کپڑے ہر جگہ سے پھیٹے پڑے
تھے۔۔۔ سویرا کی حالت دیکھ جزا بلکل خاموش ہو گئی تھی۔۔۔
یہ تو
بہت خوبصورت تھی ۔۔۔ نواز خباثت سے دیکھتا بولا تھا۔۔۔۔
تم یہ
بتاؤ تمہیں یہ چاہیے ہے۔۔۔ شہزاد اس کو دیکھتا مسکرا کر بولا تھا۔۔۔
اب یہ
میرے کس کام کی بس ایک رات کے لیے چاہیے تھی۔۔۔ ہو گیا شوق پورا بس اب میں نے اس
کا کیا کرنا ہے۔۔ نواز یہ کہتا سویرا کی بکھری حالت کو دیکھتا بولا تھا ۔۔
شہزاد
اپنی جگہ سے اٹھا تھا۔۔۔۔
شہزاد اس
کو کچھ مت کرنا۔۔ میری بہن مجھے دے دو شہزاد ۔۔۔۔ اس کو کچھ مت کرنا۔۔۔ جزا شہزاد کو
سویرا کی طرف بڑھتا دیکھ کر بولی تھی۔۔۔
شہزاد اس
کی آواز پر کوئی دھیان نہ دیتے آگے بڑھا تھا۔۔۔۔
کیسی ہو بےبی
گرل۔۔۔ شہزاد سویرا کی افسوس ناک حالت دیکھ کر مسکرا کر بولا تھا۔۔۔
سویرا ویران
آنکھوں سے شہزاد کو دیکھ رہی تھی ۔۔ یہ تھا وہ شخص جس کو اس نے چاہا تھا۔۔ کتںی
بری حقیقت تھی اس شخص تھی۔۔ اس نے اس کو محبت کے نام پر استعمال کیا تھا۔۔۔ اور وہ
بے وقوف اس کو محبت سمجھتی رہی تھی۔۔۔
جب شہزاد
نے پاس پڑی پرفیوم کی ٹوٹی بوتل کو اٹھایا تھا۔۔۔۔
سوری
سویرا۔ اور ہاں ہیپی برتھڈے۔ مگر اب تمہیں مرنا ہو گا۔۔۔ تم میرے کیسی کام کی نہیں
رہی۔۔۔۔ شہزاد اس بوتل کی نوکوں کو دیکھتا سویرا پر قدرے جھک کر بولا تھا۔۔۔۔
شہزاد
میں کہہ رہی ہوں میری بہن مجھے دے دو۔۔ پلیز اس کو کچھ مت کرنا۔۔۔ پلیز سویرا کو چھوڑ
دو۔۔۔ جزا روتے ہوئی بول رہی تھی۔۔۔
جب اچانک
شہزاد نے وہ ٹوٹی بوتل سویرا کے پیٹ میں مار دی تھی۔۔۔ اور موڑ کر جزا کو دیکھا تھا۔۔۔۔
جبکہ جزا
بلکل ساکت ہو گئی تھی۔۔۔۔ اور صحیح معنوں میں ادھر وہ ہمت ہار گئی تھی۔۔۔۔ اس کا
سارا خاندان چند لمحوں میں ختم ہو گیا تھا۔۔۔ اگر وہ کچھ وقت پہلے دیکھتی تو اس کے
پاس سب کچھ تھا اور اگر ابھی دیکھتی تو جزا شاہد الف کے پاس کچھ نہ تھا۔۔ اس کا سب
کچھ ختم کر دیا گیا تھا۔۔۔
سویرا کی
آنکھوں میں سے انسوں بہہ رہے تھے۔۔ اس کو بے آبرو کروانے میں اس کی محبت کا ہاتھ
تھا۔۔ اس کی محبت نے اس کا سارا خاندان تباہ کر دیا تھا۔۔ یہ تکلیف پیٹ سے نکلتے
خون اور گھاؤ کی تکلیف سے زیادہ تھی۔۔۔۔۔
اس کو
اسی حال میں چھوڑ کر شہزاد جزا کی طرف بڑھا تھا اور اس کو بازو سے پکڑ کر کھڑا کیا
تھا۔۔۔ نواز اس کے پاوں پہلے ہی کھو چکا تھا۔۔۔ جبکہ وہ ساکت نظروں سے سویرا کے پیٹ
سے نکلتے خون کو دیکھ رہی تھی۔۔۔۔ اور سویرا کی ہند ہوتی آنکھوں نے اپنی بہن کا
آنسوں سے بھڑا چہرہ دیکھا تھا۔۔ جہاں صرف اور صرف اذیت رقم تھی۔۔۔۔ شہزاد جزا کو
ایسی طرح گھسیٹتا باہر لے آیا تھا ۔۔
چھوڑو
مجھے میری سویرا اندر ہے۔۔ جیسے ہی وہ کمرے سے
نکلی تھی۔۔ وہ چیخ اٹھی تھی ۔۔ شہزاد اس کو گھسیٹتا باہر لے جانے لگا تھا۔۔۔۔۔
جب جزا
خود کو اس کی مضبوط گرفت سے بہت مشکل سے آزاد کرتی اندر کی طرف بھاگی تھی
۔ اور
بھاگ کر سویرا کے پاس بیڈ پر گئی تھی۔۔۔
سویرا
۔۔۔ میری جان۔۔۔ جزا روتے ہوئے بولی تھی۔۔ اور اپنا ہاتھ اس کے پیٹ پر رکھا تھا
جہاں سے خون نکل رہا تھا۔۔۔
تم ۔۔۔
ٹھی۔۔ تھیک ۔۔۔ کہ۔۔کہت۔۔کہتی تھی ۔۔۔ سویرا روتے ہوئے بولی تھی۔۔۔ اس نے اپنا
ہاتھ جزا کی طرف بڑھنا چاہا۔۔
تبھی
شہزاد نے جزا کو اس کے بالوں اور بازو سے پکڑ کر پیچھے گھیسٹا تھا اور اس کو
گھسیٹتا کمرے سے بار لی گیا۔۔۔ اس کے ہاتھ پر سویرا کا خون لگا تھا۔۔۔
چھوڑو
مجھے ۔۔۔ چھوڑو۔۔۔۔۔۔ جزا چیخ رہی تھی اس کی چیخوں کی پرواہ کس کو تھی۔۔۔ ڈوپٹہ
گلے میں نہ تھا ۔۔ ہونٹ کے پاس سے خون نکل کر جن چکا تھا۔۔۔ چہرے پر تھپڑوں کے
نشان ۔۔ ہاتھ اور بازوؤں زخمی ۔۔ بال سارے بکھرے پڑے ۔۔۔ اس کے حسین چہرے پر ظلمت
کی تحریر رقم کر دی گئی تھی۔۔۔ وہ جس کے چہرے سے ہنسی جدا نہ ہوتی تھی اس کو تقدیر
نے ایک رات کے چند لمحوں میں بار بار رولایا تھا۔ اس کے چہرے سے مسکراہٹ نوچ پھینکی
تھی۔۔ اور ابھی تو رات کا ایک طویل پہلو باقی تھا۔۔۔۔
شہزاد اس
کو گھسیٹتا لاؤنج میں کے آیا تھا۔۔ جہاں ایک طرف انعم بیگم کی لاش تھی۔ ایک طرف
خدیجہ بیگم کی اور ایک طرف شاہد صاحب کی۔۔۔ جزا کی چیخیں ایک لمحے کو روکی تھی ۔
مگر اس کے انسوں نہ روکے تھے۔۔ اوپر سویرا تھی جو مرنے کے قریب تھی آخری سانسوں کے
نزدیک تھی۔۔۔ نیچھے یہ سب تھے جو اپنی سانسوں سے آزاد ہو چکے تھے۔۔۔۔ اس کے انسوں
روکنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔۔
وہ
شہزاد کی گرفت میں ایک بار پھر سے مچلی تھی۔۔۔ وہ اس کے
ہاتھوں کی گرفت سے آزاد ہوتی شاہد صاحب کی لاش کی طرف بھاگی تھی ۔۔جب شہزاد اس کو
پھر سے قابو کرتا ۔ اس روتی تڑپتی کو ایسے
ہی گھسیٹتا باہر لے آیا تھا گھر سے ۔۔۔ آس پاس مکمل خاموش تھی۔۔۔۔ رات بہت ویران
اور خاموش تھی۔۔۔۔ نواز کار سٹارٹ کر چکا
تھا۔۔۔ جب شہزاد نے جزا کی مخصوص رگ کو دبہ کر اس کو بےہوش کر دیا تھا۔۔۔۔ وہ اس
کی باہوں میں جھول گئی تھی۔۔ اس کو اپنی باہوں میں اٹھا کر کار کی طرف بڑھا تھا۔
اور بیک سیٹ کا دروازہ کھول کر جزا کو اند
لٹا دیا تھا۔۔ اور خود فرنٹ سیٹ پر نواز کے ساتھ آ کر بیٹھا تھا۔۔
ابھی وہ
بیٹھا ہی تھا کہ پیچھے سے رحیان کی کار آتی نظر آئی تھی ۔۔
••••••••••••••
رحیان
دور سے یہ منظر دیکھ چکا تھا۔۔۔ اس سے پہلے وہ قریب پہچتا۔۔ نواز اور شہزاد کار لے
کر نکل گئے تھے۔۔۔
رحیان
جیسے ہی گھر کے سامنے روکا تھا۔۔۔ اس کو کچھ گربر کا اندازہ ہوا تھا۔۔۔ وہ فوراً
کار سے نکل کر اندر کی طرف بڑھا تھا۔۔۔ کیونکہ شہزاد جس کیسی کو بھی بیک سیٹ پر
رکھ کر آگے آ کر بیٹھا تھا اس کو وہ مین ڈور سے لے کر نکلا تھا۔۔۔
رحیان دھڑکتے
دل کے ساتھ آگے بڑھ رہا تھا۔۔۔ مگر جیسے ہی اس نے اندر قدم رکھا اس کے سر پر آسمان
گرا تھا۔۔۔
سامنے
زمین پہ شاہد صاحب کی لاش پڑی تھی سب کچھ اگے خدیجہ بیگم کی لاش اور ایک طرف انعم
بیگم کی لاش پڑی تھی۔۔۔
اس نے
باری باری سب کی نبض ٹٹولی تھی مگر وہ سب بے جان تھے۔۔۔۔
اس نے
نظر اٹھا کر سامنے سیڑھیوں کی طرف دیکھا تھا۔۔۔ ایک کمرے کا دروازہ کھلا تھا نہ
چاہتے ہوئے بھی اس کا دل بہت بری طرح سے دھڑکا تھا
۔۔۔۔
وہ فوراً
سے اوپر کی طرف بھاگا تھا ۔ جیسے ہی کمرے کے اندر داخل ہوا تھا۔۔ سامںے بیڈ پر پڑے
وجود کو دیکھ کر اور جو اس کی حالت تھی اس
کو دیکھ کر رحیان زمین پر گرا تھا۔۔۔ وہ سامنے پھٹی آنکھوں سے اس وجود کو دیکھ رہا
تھا۔۔۔
اس نے
ویسی ہی وائٹ فروک پہن رکھی تھی۔۔ جیسے اس نے خواب میں دیکھا تھا مگر وہ فروک جگہ جگہ سے پھٹی ہوئی تھی اور اپنی
آپ بیتی چیخ چیخ کر سنا رہی تھی۔۔ وہ فروک اب خون سے سرخ ہو چکی تھی ۔۔۔ خود میں
ہمت پیدا کرتا وہ اٹھا تھا ۔۔۔ اس کی حالت دیکھ کر اس سے اپنی نظریں اٹھانا ماحل
ہو گیا تھا۔۔ اس نے سویرا کے وجود کو کمبل میں لپیٹا تھا۔۔۔ اس نے سویرا کی نبض
چیک کرنی چاہی مگر اس کہ وجود میں ہمت نہیں تھی۔۔۔ بہتے آنسوں سے اس نے اس کی
کلائی پکڑی تھی۔۔۔ اس کی نبض مدہم سی چل رہی تھی۔۔ اس نے سویرا کے چہرے کو تھپکا
تھا۔۔۔ فوراً باتھ روم میں گیا اور تھوڑا سا پانی لا کر اس نے اس کے منہ پر چھڑکا
تھا۔۔۔ سویرا نے آنکھیں کھولنے کی کوشش کی تھی۔۔۔۔ اس میں جینے کی کچھ کرن باقی
تھی شاید مگر کب تک یہ کون جانتا تھا ۔۔
سویرا
آنکھیں کھولو۔۔۔ رحیان روتے ہوئے بولا تھا۔۔۔ سویرا نے آنکھیں کھولی تھی۔۔ رحیان
جو دیکھ کر زخمی سا مسکرائی تھی۔۔۔
میں ۔۔
نے۔۔آ۔۔آپ۔ک۔کو۔کہ۔۔کہا۔تھ۔۔نہ۔۔ می۔۔میں۔خو۔۔خود کو
سز۔۔سزا۔۔
دوں۔۔ گئی۔۔۔ مگر ۔۔میر۔۔میری قس۔۔قسم۔۔قسمت می۔۔میں۔۔
سز۔۔سزا۔۔پہ۔۔پہلے۔۔ہی۔۔لیک۔۔لکھ۔۔دی۔۔ گئی ۔۔تھ ۔۔تھی۔۔ سویرا بامشکل مدہم آواز
میں بولی تھی ۔ چہرے پر زخمی مسکراہٹ تھی۔۔ اور دوبارہ آنکھیں بند کرنے لگی
تھی۔۔۔۔۔ رحیان نے اگلے ہی لمحے اس جو باہوں میں بھرا تھا اور لے کر۔ باہر کی طرف
بھاگا تھا۔۔
اس کو
اپنی کار کی پیچھلی سیٹ پر ڈالا تھا اور کار کو بھگاتے ہوئے لے کر جا رہا تھا ۔۔
ساتھ ہی اس نے اپنے ڈیڈ کو کال ملا دی
تھی۔۔۔
انہوں نے
جیسے ہی کال پیک کی رحیان فوراً بولا تھا۔۔۔
آپ کدھر
ہیں ڈیڈ۔۔۔ رحیان روتی آواز میں بولا تھا۔۔ سویرا کی حالت نے اس کی ہمت ختم کر دی
تھی اس کو ایسا لگ رہا تھا جیسے کیسی نے اس کے دل پر ہاتھ رکھ دیا ہو۔۔۔
ہاسپٹل
ہوں میں ۔۔ کیا ہوا ہے سب ٹھیک ہے۔۔۔ آغا صاحب پریشان ہو کر بولے تھے۔۔ کیونکہ وجہ
رحیان کا بھیگا اور بے قرار لہجہ تھا۔۔۔
آپ ادھر
ہی رہیں ۔۔۔ گھر نہ جانا۔۔۔ یہ کہتے ساتھ اس نے کال کاٹ دی تھی ۔۔ دوسری طرف آغا
آفریدی صاحب پریشان ہو گئے تھے۔۔۔۔
••••••••••
وہ کار
ڈرائیو کر رہا تھا جب اچانک اس کا فون بجا تھا ۔۔ ایم-زی نے نمبر دیکھا اور فوراً
کال پیک کی تھی ۔۔۔
ہیلو سر
۔۔ کال اٹینڈ کرتے ساتھ وہ بولا تھا ۔۔۔۔
ایم -زی
تم کدھر ہو؟؟ خان نے اس کی بات کو نظر انداز کرتے سوال کیا تھا ۔
میں اس
وقت لاہور سے باہر ہوں ۔۔ سب خیریت ہے؟؟؟ خان کی آواز میں وہ پریشانی صاف محسوس کر
چکا تھا تبھی وہ خود بھی پریشان ہوا تھا ۔۔۔
تم واپس
کب تک آؤ گئے۔۔۔ خان نے اگلا سوال کیا تھا۔۔۔
مجھے کچھ
ٹائم لگ جائے گا۔۔ آپ بتائیں سب خیریت ہے ۔۔ پریشان لگ رہے ہیں آپ ۔۔۔۔ ایم-زی
فکرمندی سے بولا تھا کیونکہ خان کی آواز میں پریشانی وہ آسانی سے محسوس کر چکا
تھا۔۔۔
تم بس
جلدی سے واپس آنے کی کرو ۔۔۔ ادھر لاہور میں تمہارا ہوںا ضروری ہے ۔۔ نہ جانے کیوں
مگر مجھے کچھ اچھا نہیں لگ رہا۔۔ الفا بھی بہت پریشان لگ رہا تھا۔۔۔ تم بس جلدی سے
واپس آؤ ۔۔ خان سامنے دیوار پر لگی ایک تصویر کو دیکھتے ہوئے بولے تھے ۔۔۔
کس بات
کو لے کر پریشان ہیں آپ ؟ ایم-زی کار کو ایک طرف روکتا بولا تھا۔۔۔
پتا نہیں
کیوں مگر ایسے لگ رہا ہے جیسے کچھ برا ہونے والا ہے۔ ۔ تم بس جلدی آنے کی کوشش
کرنا اور اپنا خیال رکھنا۔۔ میں فون رکھ رہا ہوں ۔ یہ کہہ کر خان فون رکھ چکے تھے
جبکہ ایم-زی پریشان سا فون کی سکرین کو دیکھ رہا تھا۔۔
وہ
پریشانی سے فون کی سکرین کر دیکھتا سر سیٹ کی پشت سے ٹیکا چکا تھا ۔۔۔۔ اور پھر
کار سٹارٹ کر کے وہ ڈرائیو کرنے لگا تھا۔۔ کیونکہ
وہ لاہور کی حدود کے قریب تھا۔۔۔
••••••••••••
رحیان اس
نازک سے وجود کو اپنی باہوں میں بھرے کمبل سے مکمل ڈھکے ہاسپٹل میں داخل ہوا
تھا۔۔۔ اس کو آتا دیکھ کر آغا صاحب فوراً اس کی ظرف بڑھے تھے ۔۔
رحیان یہ
کون۔۔ جیسے ہی انہوں نے کمبل منہ پر سے اٹھایا تھا ایک قدیم پیچھے ہوئے تھے ۔۔ اور
اگلے ہی لمحے انہوں نے سویرا کا وجود اس سے لیا تھا اور سٹریچر پر ڈالا تھا۔۔۔
رحیان ساتھ اگے بڑھا تھا۔۔ میں تمہیں کچھ نہیں ہونے
دوں گا۔۔۔ وہ سڑیچر پر پڑھے اس وجود کو دیکھتے بولا تھا۔۔۔۔۔۔
رحیان تم
باہر رہو۔۔۔ آغا صاحب نے بیٹے کو اندر آنے سے روکا تھا۔۔۔
ڈیڈ وہ
۔۔۔ رحیان نے کچھ بولنا چاہا ۔
اللّٰہ
کی آمان میں دو اس کو ۔۔۔ اور اپنی ماں کو بولا لو۔۔۔ آغا صاحب یہ کہہ کر اندر
ایمرجنسی وارڈ میں چلے گئے تھے۔۔ جہاں ابھی سویرا کو لے جایا گیا تھا۔۔۔۔
وہ اپنی
آنکھیں صاحب کرتا کرسی پر بیٹھ گیا تھا۔۔۔۔
یااللہ
۔۔۔ اس کو کچھ نہ ہونے دینا ۔۔۔ وہ روتے ہوئے ہاتھ جوڑے اپنے مالک سے التجاء کر
رہا تھا۔۔۔۔
وہ اٹھا
اور وضو کرنے کے لیے جانے لگا تھا۔۔۔ جب اس کا فون بجا تھا۔۔۔ اس نے نمبر دیکھا
تھا۔۔۔
موم
کالینگ لکھا آ رہا تھا ۔ اس نے کال اٹھا لی تھی۔۔۔
رحیان
کدھر ہو تم ۔۔۔ عزیز کی آواز دوسری سے گونجی تھی۔۔۔۔
وہ خاموش
رہا تھا جب عزیزہ دوبارہ بولی تھی ۔۔
رحیان تم
سے بات کر رہی ہوں۔۔ کدھر ہو تم ۔۔۔ اب کی بار عزیزہ غصے میں بولی تھی۔۔۔
ہاسپٹل
۔۔۔ وہ بس اتنا ہی بول سکا تھا اس سے کچھ اور بولنے کی ہمت نہ ہوئی تھی ۔۔۔
تم ادھر
کیا کر رہے ہو۔۔۔ سب ٹھیک ہے ۔۔ اس کی آواز نے عزیزہ کو پریشان کر دیا تھا۔۔۔۔
کچھ ٹھیک
نہیں ہے موم کچھ بھی نہیں ۔۔ ایک انسو اس کی آنکھ سے نکالا تھا۔۔۔
کیا بات
ہے مجھے بتاؤ ۔۔۔ عزیزہ پریشان سی بولی تھی۔۔۔
اور جو
کچھ رحیان نے ان کو بتایا تھا۔۔۔ دوسری طرف کچھ گرنے کی آواز آئی تھی۔۔۔۔ اور پھر
کال کاٹ دی گئی تھی۔۔۔۔۔ رحیان بہتے انسوں سے ادھر زمین پر بیٹھ گیا تھا۔۔۔
وہ کافی
دیر ایسی طرح بیٹھا خاموش آنسوں بہتہ رہا تھا۔۔۔ پھر اٹھ کر وضو کرنے چلا گیا
تھا۔۔۔
وہ وضو
کر کے جانماز پر کھڑا ہوا تھا۔۔۔ اور آگلے ہی لمحے وہ جانماز پر گرتا پھوٹ پھوٹ کر
رو دیا تھا۔۔ نہ کوئی نیت کی نہ کوئی رکت ادا کی وہ بس سجدے میں گرا روتا جا رہا
تھا۔۔۔۔
یااللہ میرا
دل۔۔۔ میری محبت ۔۔۔ وہ روتے ہوئے بول رہا تھا۔۔۔ اس کی آواز میں ایسی تڑپ تھی کہ
آس پاس مجود سب اس کی طرف متوجہ ہو گئے تھے۔۔۔ مگر وہ ایسے ہی روتا جا رہا تھا۔۔
جیسے کوئی چھوٹا سا بچہ ہو۔۔۔
اللہ وہ
بہت معصوم ہے۔۔۔ اس کے ساتھ یہ سب کیوں۔۔۔ اللہ اس کی معصومیت کیوں روند دی گئی۔۔۔
وہ ہر مشکل اور تکلیف کا ہنس کرسامنا کرنے وال رحیان آغا ۔۔۔ آج ٹوٹ کر رو رہا تھا
۔۔ وہ جس نے خود سے بھی اپنی محبت چھپئ تھی۔۔۔ اس کی محبت بے آبرو ہو گئی تھی ۔۔
وہ لڑکی جو اس میں دھڑکتی تھی۔۔۔ کیسی نے اس کی دھڑکن پر وار کیا تھا۔۔۔ اس کی
محبت یک طرفہ تھی۔۔۔ مگر تھی تو اس کی محبت ہی نہ ۔۔۔ سویرا کی وہ زخمی مسکراہٹ
بار بار اس کے سامنے آ رہی تھی۔۔ اس کی حالت ۔۔ وہ بےتحاشہ رو رہا تھا۔۔ بچوں کی
طرح رو رہا تھا۔۔۔۔
••••••••••
وہ ابھی
گھر آ کر بیٹھے ہی تھے۔۔۔ عائشہ بیگم ان کے لیے چائے بنا کر لا رہی تھی۔۔۔ جب ابراہیم صاحب کا
فون بجا تھا۔۔۔
انہوں نے
فوراً کال اٹینڈ کی تھی۔۔
بولو
عزیزہ ۔۔۔ ابراہیم صاحب کال اٹینڈ کرتے بولے تھے۔۔ ساتھ ہی عائشہ بیگم سے چائے کا
کپ لینے لگے تھے۔۔۔
دوسری
طرف جو کچھ عزیزہ نے ان کو بتایا تھا۔۔ ان کے ہاتھ سے کپ بھی گرا تھا۔۔ اور فون
بھی ۔۔ وہ بلکل ساکت ہو گئے تھے۔۔۔
کپ گرنے
پر عائشہ بیگم نے موڑ کر ابراہیم صاحب کو دیکھا تھا۔۔ اور ان کے چہرے کو دیکھ کر
وہ پریشان سی ابراہیم صاحب کی طرف بڑھی تھی۔۔۔
ابراہیم
کیا ہوا ہے۔۔۔ انہوں نے ان کا بازو ہلایا تھا۔۔۔ مگر انہوں نے کوئی ریسپونس نہ دیا
عائشہ بیگم نے فوراً فون کان سے لگایا تھا۔۔ دوسری طرف عزیزہ کی روتی ہوئی آواز
اور الفاظ عائشہ بیگم کی سماعت سے ٹکرائے تھے۔۔۔ انہوں نے فورآ ابراہیم صاحب کی
طرف دیکھا تھا۔۔۔ اور کال کاٹ کر ابراہیم صاحب کو پھر سے بولیا تھا۔۔۔۔
ابراہیم
صاحب کچھ نہ بولے تھے۔۔ ان کی آنکھوں سے آنسوں بہہ رہے تھے ۔۔۔۔
میرا
دوست میرا بھائی۔۔ عائشہ میں اکیلا ہو گیا۔۔۔ ابراہیم صاحب کی بھری ہوئی آواز عائشہ
بیگم کی سماعت سے ٹکرائی تھی۔۔۔ عائشہ بیگم نم آنکھوں سے اپنے شوہر کو دیکھ رہی
تھی۔۔۔ وہ بہت اچھے سے جانتی تھی۔۔ شاہد صاحب ابراہیم صاحب کے لیے کیا ہیں ۔۔۔
اور اگلے
ہی لمحے وہ اٹھے تھے اور باہر جانے لگے جب عائشہ پیچھے آئی تھی۔۔۔
ابراہیم
میں ساتھ جاؤ گی۔۔۔ عائشہ روتے ہوئے بولی تھی۔۔
ابراہیم
کچھ نہ بولے اور سر ہلا کر کار کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گئے تھے۔۔ جبکہ دوسری طرف
عائشہ بیگم بیٹھ گئی تھی ۔۔
انہوں نے
اپنا فون نکالا تھا اور ایک گروپ کھول کر انہوں نے ایک ٹیکسٹ کیا تھا اور کار
ڈرائیو کرنے لگے تھے۔۔۔۔
•••••••••
وہ شاہد
صاحب کے گھر پہنچے تھے جہاں۔۔۔ عزیزہ ۔۔ سکندر ، فاروق پہلے سے موجود تھے۔۔۔۔
سکندر ، فاروق کے چہرے اور آنکھیں اس بات کی گواہ تھی وہ بہت روئے تھے۔۔۔۔ عزیزہ کی رونے کی آوازیں ابھی بھی آ رہی تھی۔۔۔۔
ابراہیم صاحب گھر کی دہلیز کے پاس کھڑے تھے ۔۔۔
ایک لمحے
کو ان کو ایک منظر یاد آیا تھا۔۔۔ جب وہ شاہد کے گھر ان کی شادی کے بعد آئے تھے۔۔
تو شاہد صاحب نے دور سے ہی باہیں کھول دی تھی اپنے دوست کے لیے۔۔ اور ایک آج کا دن
تھا وہ اس ہی دہلیز پر کھڑے تھے۔۔۔ مگر آج باہیں کھول کر استقبال کرنے والا آنکھیں
موندے لیٹا تھا۔۔۔۔
خان۔۔۔
عزیزہ نے جیسے ہی ابراہیم صاحب کو دیکھا وہ۔ اٹھی تھی ۔۔۔
خان ،
الفا نہیں اٹھ رہا ۔۔۔۔ یہ آج بھی مذاق کر رہا ہے ۔۔ اس کو بولو نہ اٹھ جائے ۔۔۔
عزیزہ روتے ہوئے بول رہی تھی۔۔ جب عائشہ بیگم نے ان کو گلے لگا لیا تھا۔۔۔۔ اور
ابراہیم صاحب نم آنکھوں سے سامنے کا منظر دیکھ رہے تھے۔۔۔ جبکہ سکندر اور فاروق سر
جھکائے رو رہ تھے۔۔۔
عزیزہ
صبر کرو ۔۔۔ عائشہ بیگم خود بہت ہمت کر کے بولی تھی کیونکہ سامنے کا منظر کیسی
قیامت سے کم نہ تھا۔۔۔
عائشہ
میرا بھائی۔ اس کا خاندان اس کی بیٹی۔۔۔ عزیزہ کا دل پھٹ جانے کو تھا۔۔۔ ان سے
الفاظ ادا نہ ہو سکے تھے۔۔
عائشہ نے
ان کو دوبارہ سے گلے لگا لیا تھا۔۔۔۔
••••••••••
وہ ابھی
تک رو ہی رہا تھا ۔۔ نہ اس کہ آنسوں میں کمی تھی نہ ہی اس کی دعا میں ۔۔۔۔ جب آغا
صاحب اس کے پیچھے آ کر کھڑے ہوئے تھے۔۔ وہ اس کو ڈھونڈتے ادھر آئے تھے۔۔۔ انہوں نے
اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا ۔۔
رحیان نے
سر اٹھا کر دیکھا تھا۔۔ آغا صاحب کو دیکھ کر وہ کھڑا ہوا تھا۔۔۔
سویرا
کیسی ہے ۔۔۔ اس نے فوراً اپنے باپ سے پوچھا تھا۔۔ ایک امید تھی اس کی آنکھوں میں
۔۔۔
آغا صاحب
کچھ بول نہ سکے تھے۔۔ ان میں بولنے کی ہمت نہ تھی۔۔۔۔ کیونکہ ایک لفظ ان کے بیٹے کی
امید توڑ سکتا تھا۔۔۔ مگر تقدیر کو وہ بدل نہیں سکتے تھے۔۔۔۔
بتائیں
نہ وہ کیسی ہے۔۔ رحیان نے پھر سے باپ سے پوچھا تھا۔۔۔۔
رحیان
خود کو سنبھالو۔۔ انہوں نے رحیان کے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا۔۔۔
میں
سنبھال لوں گا ڈیڈ مجھے یہ بتائیں وہ ٹھیک ہے۔۔۔ رحیان پھر سے بولا تھا۔۔۔۔
وہ ایک
ظلم سہہ کر ہمیشہ کے لیے اس دُنیا سے چلی گئی ہے۔۔۔ آغا صاحب بہت ہمت کر کہ بولے تھے۔۔۔
جھوٹ ۔۔۔
جھوٹ بول رہے ہیں آپ ۔۔۔ میں اس کو لایا تھا۔۔ اس کی سانس چل رہی تھی۔۔ وہ کیسے
چلی گئی۔۔۔ میں ادھر ہوں۔۔ وہ کیسے جا سکتی ہے۔۔۔ رحیان بے قابو ہوا تھا۔۔۔
رحیان یہ
ہی اللہ کو منظور تھا۔۔۔۔۔ آغا صاحب نے اس کو سنبھالنا چاہا تھا۔۔۔
مگر میرا
کیا۔۔۔ میرے دل کا کیا ۔۔ میری محبت کا کیا ۔۔۔۔ رحیان روتے ہوئے بولا تھا۔۔۔۔
رحیان وہ
تمہیں آگلے جہاں میں ملے گئی بیٹا۔ کوئی محبت رائیگاہ نہیں جاتی ۔۔ آغا صاحب اس کو
بھلانے لگے تھے ۔۔۔
جھوٹ
جھوٹ ہے سب۔۔۔۔ مجھے سویرا چاہیے ۔۔۔ اس کی سانسیں چل رہی تھی جب میں اس کو لایا
تھا۔۔۔ رحیان بے قابو سا بولا تھا۔۔۔
وہ آخری
سانسیں لے رہی تھی رحیان ۔۔۔ وہ جینے کی امید چھوڑ چکی تھی ۔۔۔ آغا صاحب اس کا
بازو پکڑ کر اس کو جھنجھوڑ کر بولے تھے۔۔۔ جبکہ رحیان کو چپ لگ چکی تھی۔۔۔
وہ نازک
جان تھی کتنی درندگی سہتی آخر ۔۔۔ مر گئی ہے وہ۔۔ وہ درندے وحشی نوچ چکے ہیں اس کی
معصومیت کو ۔۔۔ آغا صاحب اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولے تھے۔۔ کیونکہ اگر وہ
اس کو ابھی بھی نہ بتاتے تو اس کو سنبھالنا مشکل ہو جانا تھا۔۔۔۔
رحیان کی
آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔۔ وہ اپنے ہاتھوں کو دیکھ رہا تھا۔۔۔ جن ہاتھوں کو اس
نے ہمیشہ دعا کے لیے اُٹھایا تھا تو اس کو مانگا تھا۔۔۔ جس کو آج آن ہاتھوں سے
اٹھا کر لایا تھا۔۔۔ جن ہاتھوں سے ابھی اس نے اس کی زندگی کی بھیک مانگی تھی۔۔۔
مگر وہ کہیں بھی اس کے ہاتھ کی لکیروں میں نہیں تھی۔۔۔ اس سے محبت کرنا۔ اس کو ٹوٹ
کر چاہنا، اس سے یک طرفہ محبت اس کے نصیب میں تھی مگر رحیان آغا کے نصیب میں سویرا
کا ساتھ ، اس کی محبت اور سویرا نہیں تھی۔۔۔
یک طرفہ
محبت کتنی تکلیف دہ ہوتی ہے آج کوئی رحیان
آغا سے پوچھے ۔۔ جس نے اظہارِ محبت بھی اس دن کے لیے رکھا تھا جب وہ اس کی محرم بن
کر اس کے گھر آتی ۔۔۔ مگر اس بات کا اس کو علم بھی نہ تھا جس لڑکی کو وہ بے تحاشہ
چاہتا ہے وہ اس کا اظہار محبت سنے بغیر ہی اس دُنیا سے چلی جائے گئی ۔۔۔ وہ اس کو
تاعمر اس یک طرفہ محبت میں چھوڑ کر زندگی سے منہ موڑ جائے گئ۔۔۔
رحیان
ایسے ہی خاموش بیٹھتا چلا گیا تھا۔۔ اس کی آنکھوں سے انسوں بہہ رہے تھے۔۔ وہ اپنے
خالی ہاتھوں کو دیکھ رہا تھا۔۔۔۔
••••••••••••••
وہ ابھی
لاہور آیا تھا۔۔ اس نے آتے ساتھ خان کو فون کیا تھا۔۔۔ کال جا رہی تھی مگر کیسی نے
پیک نہیں کیا تھا ۔۔ اس نے اب سکندر کو کال کی تھی۔۔۔ بل جا رہی تھی اور تیسری بل
پر ہی کال ریسیو کر لی گئی تھی۔۔
کدھر ہو؟
جیسے ہی سکندر نے فون اٹھایا ایم-زی بولا تھا۔۔۔
الفا کہ
گھر آ جاؤ ایم-زی۔۔۔ سکندر کی بھاری ہوئی ہوئی آواز فون میں گونجی تھی ۔۔
سکندر تم
ٹھیک ہو۔۔۔ ایم-زی کو سکندر کی آواز کچھ
عجیب لگی تھی ۔
تم الفا
کی طرف آ جاؤ بس۔۔۔ سکندر نے یہ کہہ کر فون کاٹ دیا تھا۔۔۔ اس میں ہمت نہ تھی کہ
وہ ایم- زی کو ساری حقیقت بتا سکتا۔۔۔
ایم-زی
فوراً سے الفا کے گھر کی طرف نکلا تھا۔۔ وہ رش ڈرائیو کرتا اور کچھ دیر میں الفا
کہ گھر کے سامنے تھا۔۔
ان کے
گھر کے سامنے اس وقت خان، عزیزہ ، سکندر، فاروق، امیل کی گاڑیاں کھڑی تھی ۔۔۔ وہ
اپنی کار سے نکال کر اندر کی طرف بڑھا ہی تھا کہ پیچھے سے ایمبولینس آئی تھی۔۔ وہ
فوراً ایک طرف ہوا۔۔۔ جیسے ہی ایمبولینس کا دروازہ کھولا رحیان غم کی مورت بنا
ایمبولینس سے اترا تھا۔۔ ساتھ اس کہ آغا صاحب بھی تھے۔۔۔ جیسے ہی سڑیچر ایمبولینس
سے اتارا گیا ایم-زی فوراً آگے بڑھا تھا۔۔ اس نے ایک منٹ کی بھی دیر کئے بغیر سفید
چادر اس وجود کہ اوپر سے اٹھائی تھی۔۔۔ جیسے ہی چادر ہٹی تھی ایم-زی نے دو قدم پیچھے کو لیے تھے اس کو یقین نہیں آ رہا
تھا کہ جو اس نے دیکھا ہے وہ سچ ہے ۔۔ وہ ایسے ہی اولٹے کے قدم اندر کو بھاگا تھا
۔۔
اندر کا
منظر دیکھ کر ایم-زی ساکت رہ گیا تھا۔۔۔ سامنے الفا کی لاش تھی، خدیجہ بیگم کی لاش
، انعم بیگم کی لاش ، اور اب سویرا کی بھی لاش لا کر رکھ دی گئی تھی ۔۔۔ عزیزہ
بیگم کا رو رو کر برا حال تھا۔۔۔ ابراہیم خان
صاحب ایک جگہ خاموش کھڑے تھے انسوں ان کی آنکھوں میں بھی تھے۔۔ مگر ان کی
آنکھوں میں انتقام کی آگ بھی جل رہی تھی۔۔۔
وہ ایک
ایک قدم اٹھاتا آگئے کی طرف بڑھا تھا۔۔۔ آج زندگی میں پہلی بار ایم-زی کو قدم
بڑھانے میں دشواری ہوئی تھی۔۔۔۔۔
یہ سب
کیسے ہوا ؟؟؟ ایک انسوں اس کی آنکھوں سے نکلا تھا مگر خود پر کنڑول کیے وہ ابراہیم
خان کے سامںے کھڑا پوچھ رہا تھا۔۔۔
میں نہیں
جانتا یہ سب کیسے ہوا ہے ۔۔۔ ایم-زی میں بس یہ جانتا ہوں یہ سب جس نے کیا ہے اس کا
مجھے دردناک انجام چاہیے ہے۔۔۔ ابراہیم صاحب آنکھوں میں خون لیے بولے تھے ۔
آپ فکر
مت کریں جس نے یہ کیا ہے وہ خود موت کی بھیک مانگے گا۔۔۔ ایم-زی کی نیلی آنکھوں
میں خون تھا اس وقت۔۔۔۔
خان جزا
کدھر ہے؟ چاروں لاشیں سامنے تھی۔۔ عزیزہ کو جزا کا خیال آیا تھا۔۔۔۔
وہ اس کو
لی گئے ہیں ۔۔۔ اس سے پہلے ابراہیم صاحب کچھ بولتے رحیان بولا تھا۔۔۔ جبکہ ایم-زی
فوراً اس کے سامنے جا کر کھڑا ہوا تھا۔۔۔
کون ہے
وہ رحیان۔۔ کون ہے اس سب میں ملوث ۔۔۔ ایم-زی آنکھوں میں وحشت لیے بولا تھا۔۔۔
شہزاد
اکرم ۔۔۔ نواز عثمان ۔۔۔ رحیان یہ کہہ کر چپ ہو گیا تھا۔۔ جبکہ ادھر موجود باقی سب
کو کی بھی آواز دم توڑ گئی تھی۔۔۔
شہزاد نے
کیا ہے ۔۔۔ عزیزہ نے کچھ بولنا چاہا تھا۔۔۔
جی موم
اس نے کیا ہے سب۔۔۔ رحیان خود پر ہر ممکن کنڑول کرتا بولا تھا۔۔
ایم-زی
جزا کو ڈھونڈ کر لاؤ ۔۔ ابھی کہ ابھی۔۔ ابراہیم صاحب نے ایک اور حکم جاری کیا
تھا۔۔ جبکہ ایم-زی فورآ ادھر سے نکالا تھا۔۔۔
وہ خود
بھی ادھر کھڑا نہیں ہونا چاہتا تھا۔۔۔ اس کی برداشت جواب دے رہی تھی۔۔ اس کا
آئیڈیل آج مر گیا تھا اس کا قاتل کیا گیا تھا۔۔۔ اور وہ اس کو بچا نہ سکا اذیت ہی
اذیت تھی ایم-زی کی آنکھوں میں ۔۔۔ ایک آنسوں اس کی آنکھ سے نکال تھا جس کو بےدردی
سے صاف کرتا وہ شاہد صاحب کے گھر سے نکالا تھا۔۔۔
••••••••••
اس کی
جیسے ہی آنکھ کھولی تھی وہ ایک اندھیرے کمرے میں تھی۔۔۔ نہ یہاں کوئی کھڑکی تھی نہ
ہی کوئی تیز روشنی بس ایک چھوٹی سی زیرو ولٹ لائیٹ جل رہی تھی ۔۔ کچھ لمحے وہ ایسی
طرف بیٹھی سوچتی رہی کہ وہ کدھر ہے۔۔ اور جیسے ہی کچھ دیر پہلے کا سارا منظر اس کی
آنکھوں کے سامنے سے گزرا وہ کانپ اٹھی تھی ۔۔ فورا سے اٹھی اور دروازے کی طرف بڑھی
تھی۔۔۔۔ دروازے کو اندر سے کھولنے کے لیے نہ تو کوئی لوک تھا نہ ہی کوئی ہینڈل وہ
زور زور سے دروازہ پیٹنے لگ گئی تھی۔۔۔۔
کوئی
ہے۔۔ مجھے ادھر سے باہر نکالو ۔۔۔ کوئی ہے۔۔۔ مجھے سن رہے ہو۔۔ وہ روتے ہوئے بول
رہی تھی۔۔۔
بکھری
حالت، ہونٹ کے قریب جما خون۔ بکھرے بال۔۔ سوجی ہوئی شہد رنگ آنکھیں ۔۔ ڈوپٹہ گلے
میں نہیں نہ جانے کہاں گیرا تھا۔۔۔ وہ جو نازوں سے پلی تھی آج زندگی اس کو کیسے
دھکتے انگاروں پر چلا رہی تھی۔۔۔۔
شہزاد جو
باہر نواز کو سی اوف کر رہا تھا۔۔ بیسمنٹ سے آتی آوازوں پر موڑ کر دیکھا تھا۔۔۔
چلو میں
چلتا ہوں تم اس کو سنبھال لو گئے ۔۔ یہ مدد چاہیے ۔۔ نواز شہزاد کی طرف دیکھاتا خباثت
سے مسکراتا بولا تھا۔۔
تم بے
فکر ہو کر جاؤ اس کو میں سنبھال لوں گا۔۔۔ شہزاد مسکراتا بولا تھا۔۔۔ وہ دونوں اس
وقت شہزاد کے پرسنل گھر میں موجود تھے جو اس نے دوستوں کے ساتھ عیاشیوں اور راتوں
کو رنگ کرنے لے کیے بنایا تھا۔۔۔ اس کھر میں ہر طرح کی ضرورت کا سامان موجود
تھا۔۔۔۔ ہر چیز اپنی قیمت کا ثبوت خود دیتی تھی ۔۔۔ یہ عالیشان سا گھر اس کے تمام
سیاہ کرتوتوں کی حقیقت لیے کھڑا تھا۔۔۔
نواز جا
چکا تھا ۔۔ شہزاد کو جہاں گولی لگی تھی وہاں اس وقت پیٹی بندھی ہوئی تھی۔۔۔
وہ چلتا
بیسمنٹ کے پاس آیا تھا۔۔۔
دوسری
طرف خاموشی چاہا گئی تھی شاید وہ چیلا چیلا کر تھیک گئی تھی۔۔۔
شہزاد نے
دروازے کا لوک اپنے فنگر پرنٹ سے کھولا تھا اور اندر بڑھ گیا۔۔۔۔اور دروازہ کھولے
چھوڑے وہ اس وقت جزا کے بلکل سامنے کھڑا تھا۔۔۔ جو ایک طرف دیوار کے ساتھ لگی
بیٹھی تھی۔۔۔ رو رو کر چہرے پر آنسوں کے نشان بن گئے تھے۔۔۔
تو کیسا
لگا جزا تمہیں میرا جواب؟؟ شہزاد اس کے چہرے کو ہاتھ میں جکڑے فاتحانہ انداز میں
بولا تھا۔۔۔
میں تمہیں
جان سے مار دوں گئ شہزاد ۔۔ جزا زخمی شیرنی بنی اس کے سامنے تھی۔۔۔
میں
تمہیں پل پل ماروں گا جزا شاہد ۔۔ یہ کہہ کر شہزاد نے اس کے بالوں کو مٹھی میں
جکڑا تھا اور اس کو زبردستی کھڑا کیا تھا۔۔۔
شہزاد چھوڑو
مجھے۔۔۔ جزا درد کی شدت کو سہتے بولی تھی۔۔۔
چھوڑ دوں
گا پہلے تم میری پیاس تو بُجھانے دو مجھے ۔۔۔ شہزاد بےباک نظر سے اس کی طرف دیکھتے
بولا تھا۔۔۔
مجھے
سے دور رہو شہزاد ۔۔۔ جزا اپنے آپ کو اس
سے چھڑانے کی کوشش کرتے بولی تھی۔۔۔ جب شہزاد اس کے چہرے کے قریب جھکا تھا۔۔۔
جزا نے
اس کو خود سے دور دھکیلا تھا تب شہزاد نے اس کی قمیض کو ایک طرف سے پکڑ لیا تھا۔۔ جزا
خود کو اس سے چھڑوانے کی کوشش کر رہی تھی۔۔ جب شہزاد نے اس کی ایک طرف کی آستینیں
اور ایک طرف سے گریبان پھاڑ دیا تھا۔۔۔ جزا آنکھوں میں غم و غصہ لیے شہزاد کی طرف
دیکھ رہی تھی۔۔ وہ اس کو دیوار کے ساتھ لگاتا پھر سے اس پر جھکنے لگا تھا۔۔
ابھی وہ
کچھ کرتا۔۔۔ جزا نے پاس پڑا مٹی کا گلاس
اٹھا کر اس کے سر پر مظبوطی سے مارا تھا
کہ وہ گلاس ٹوٹ گیا تھا۔۔۔ شہزاد یہ وار برداشت نہ کر سکا اور فوراً پیچھے کی طرف
گیرا تھا۔۔۔
جزا نے
اب کی بار پاس پڑا لوہے کا سٹول اٹھایا تھا اور وہ شہزاد کی ٹانگوں پر پھینکا کر
وہاں سے بھاگ تھی۔۔۔ شاید قسمت کچھ مہربان ہوئی تھی جو شہزاد دروازہ بند کرنا بھول
گیا تھا ۔۔
وہ جیسے
ہی اس کمرے سے نکلی تھی اوپر جانے کی سیڑھیاں نظر آئی تھی۔۔۔ وہ بھاگتی سیڑھیاں چڑھتی
لاؤنج میں آئی تھی ۔۔ ٹی-وی لاؤنج بالکل خالی اور خاموش تھا اس نے اس چیز کا فائدہ
اٹھایا اور گھر سے باہر کی طرف بھاگی
تھی۔۔۔
دوسری
طرف شہزاد اندر اٹھنے کی کوشش کر رہا تھا ایک طرف سر پر لگی چوٹ دوسری طرف ٹانگوں
پر سٹول گرنے کی درد۔۔۔۔
جبکہ جزا
اپنے پھٹے گریبان پر ہاتھ رکھ کر باہر مین گیٹ کی طرف بھاگی تھی۔۔۔ جہاں ایک بزورگ
آدمی چوکیداری کر رہا تھا۔۔۔
وہ آدمی
اس کو دیکھ کر سیدھا ہوا تھا۔۔۔۔۔
انکل
پلیز پلیز مجھے جانے دیں۔۔۔ جزا نے اس کے سامنے ہاتھ جوڑے تھے۔۔۔۔ اس کی حالت دیکھ
کر اس چوکیدار کو اس پر ترس آ رہا تھا۔۔۔۔
انکل
پلیز دروازہ کھول دیں ۔۔۔۔ مجھے ادھر سے جانا ہے۔۔۔ جزا روتے ہوئے پھر سے بولی
تھی۔۔۔ وہ بزورگ چوکیدار جلدی سی اپنی جگہ سے اٹھا تھا۔۔۔۔ اور اس نے دروازہ کھول
دیا تھا۔۔۔
جزا باہر
کی طرف بڑھنے لگی تھی کہ وہ آدمی پیچھے سے بولا تھا۔۔۔
بیٹا۔۔۔
روکو۔۔۔ وہ چوکیدار یہ بولے آگے کی طرف بڑھا تھا۔
یہ کچھ
پیسے لے لو۔۔۔ اور اس طرف سے جاو تھوڑا آگے جاؤ گی تو بس سٹاپ ہو گا ۔۔ ادھر سے دور نکل جاؤ ۔۔ اس درندے سے بچا
لو خود کو ۔ میرے پاس چادر نہیں ورنہ وہ بھی دے دیتا بیٹا اپنی عزت بچا لو۔ وہ
چوکیدار اس کو کچھ پیسے دیتا اس کے سر پر
ہاتھ رکھ کر بولا تھا۔۔۔
جزا اس
شخص کو دیکھ رہی تھی۔۔۔ وہ اس کا لگتا کیا تھا ۔۔ مگر پھر بھی اس کو اس کی عزت کا
خیال تھا اس کی مدد کر رہا تھا۔۔ اور ایک وہ تھا جو اس کا پھوپھو زاد تھا مگر وہ کیا کر گیا تھا ۔۔۔ اس کے
خاندان کو مار ڈالا اس کی آنکھوں کے سامنے اس کی بہن کو بے آبرو کیا۔۔۔۔ وہ روتے
ہوئے وہاں سے بھاگی تھی۔۔۔۔۔۔
وہ پتھریلی سڑک پر اندھا دھن بھاگ رہی تھی۔۔۔ اس کو
نہیں پتا تھا یہ انجان راستہ اس کو کس موڑ لے کر جانے والا تھا۔۔ بھاگتے ہوئے ہی
پاوں پر کوئی چیز لگی تھی وہ لڑکھڑا کر گری تھی بازوؤں سڑک پر لگنے سے زخمی ہو گئے
تھے۔۔ دونوں گھٹنے بھی چھیل گئے تھے۔۔ پاؤں میں سے خون نکل رہا تھا۔۔ درد کی ایک
لہر اس کے وجود میں اٹھی تھی۔۔ وہ روتے ہوئے خود میں ہمت پیدا کئے پھر سے اٹھی تھی
اور بھاگنے لگی تھی ۔۔۔۔۔
وہ
بھاگتی جا رہی تھی جب سامنے سے آتی ایک بلیک کلر کی کار سے ٹکرائی تھی۔۔۔ اور سڑک پر اوندھے منہ گری اور بے ہوش
ہو گئی تھی۔۔۔۔ جبکہ کار سے ایک شخص باہر نکلا تھا جس نے سیاہ رنگ کی لیدر کی جیکٹ
پہن رکھی تھی وہ قدم قدم بڑھتا جزا کی طرف بڑھا تھا۔۔
•••••••••••
Don’t
copy without my permission ❌ ❌ ❌
Share
with your friends and also share your precious reviews with us......
And
a new update for all dasht-e-ulfat readers. Now dasht-e-ulfat also uploaded in
English .....
For More episode click Here........
Comments
Post a Comment