Urdu Novel Dasht-e-Ulfat by Shazain Zainab Episode 15


بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

 ناول

 

دشتِ الفت

 

شازین زینب

 

  

Ep# 15

urdunovelnests 

 

  آپ ادھر ۔۔ سکندر حیرت سے بولا تھا۔۔۔۔ جبکہ ایم-زی اِدھر اُدھر دیکھ رہا تھا۔۔۔ جیسے سامنے کھڑے شخص سے انجان بنے کی کوشش کر رہا تھا۔۔۔۔

موسم اچھا ہے نہ۔۔۔ سامنے کھڑے شخص نے سخت گھوری سے ایم-زی کو نوازا تھا اور ساتھ ہی پیچھے کھڑے سکندر کو  بھی گھورا تھا۔۔۔

نہیں گزارے لائق ہے۔۔۔ ایم-زی آسمان کی طرف دیکھتا بولا تھا جبکہ سامنے کھڑے ابراہیم صاحب کا دل کیا تھا اس کو دس لگا کر گینے ایک ۔۔۔

تم دونوں مجھے اور تھوڑی دیر میں  ہیڈکوارٹر میں رپورٹ کرو۔۔۔ یہ کہہ کر ابراہیم صاحب سخت تاثرات لیے ادھر  سے چلے گئے تھے۔۔۔۔ جبکہ وہ دونوں فوراً سے بھاگ کر اپنی اپنی بائیک پر بیٹھے تھے۔۔۔۔ اور کچھ دیر میں وہ  دونوں ہیڈ کوارٹر میں تھے۔۔۔

وہ دونوں راہداری میں چل رہے تھے جب سکندر کی آواز گونجی تھی۔۔۔۔

بولا تھا  تمہیں اس ٹائم ادھر جانا ٹھیک نہیں لے لیا مزہ ۔۔۔ آ گیا سکون۔۔۔ سکندر دانت پیس کر بولا تھا۔۔۔

بھائی میرے چپ کر جا۔۔ میرے تو فرشتوں کو بھی نہیں پتا تھا کہ وہ ادھر آ جائیں گے۔۔۔ ایم-زی مدہم آواز میں بولتا سکندر کے ساتھ چلتا جا رہا تھا ۔۔

ہاں مگر وہ اب آ گئے ہیں ۔۔ اب بچنے کے لیے کچھ کر ۔۔ سکندر غصے سے بولا تھا۔۔۔

بچنے کو چھوڑ مجھے تو یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ ان کی بیوی سے یہ قابو نہیں ہوتے۔۔ اس ٹائم بھی گھر سے باہر ہیں مگر ان کو کوئی پرواہ نہیں ۔۔۔ ایم-زی دانت پیس کر بولا تھا۔۔۔۔

ایک کام کر تو جا کر بتا دے ان کو تاکہ وہ اگلی دفعہ  ان پر نظر رکھیں ۔۔۔ سکندر ایم-زی کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بولا تھا۔۔۔

بھائی تو ایک کام کر مجھے خود گولی مار دے۔۔۔  اتنی  محنت کیوں کر رہا ہے مشورہ دے کر ۔۔ ایم-زی ایک ایک لفظ چبا چبا کر بولا تھا۔۔۔ جبکہ سکندر کا قہقہہ پوری راہداری میں گونجا تھا۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی ایم-زی نے ترچھی نظر سے اس کو دیکھا تھا ۔۔۔اور سکندر کی ہنسی کو فوراً بریک لگی تھی ۔۔۔۔

اب وہ دونوں ایک افس کے سامنے کھڑے تھے ۔۔ جب ایم-زی نے آگے بڑھ کر دروازے کو کھولا تھا ۔۔ اور اگلے ہی لمحے وہ اوفس کے اندر تھا جبکہ ابراہیم صاحب اس کو سخت نظروں سے گھور رہے تھے۔۔ جو کبھی بھی اجازت لینے کی زحمت نہیں کرتا تھا۔۔۔

وہ دونوں اس وقت ابراہیم صاحب کے افس میں کھڑے تھے جبکہ ابراہیم صاحب ان دونوں کو سخت نظروں سے گھور رہے تھے۔۔۔۔

گونگوں کی طرح کھڑے ہو گئے ہو بتانے کی زحمت کرو گئے کہ اس ٹائم تم دونوں ادھر کیا کر رہے تھے۔۔۔۔ ابراہیم صاحب کی گرجدار آواز افس میں گونجی تھی۔۔۔۔

اچھا آپ نے ہمیں اس لیے ادھر بولیا ہے؟... ایم-زی سر نیچے کیے تابعداری سے بولا تھا۔۔۔۔

نہیں قوالی سنی تھی تم دونوں سے ۔۔۔۔ کافی بور ہو گیا تھا میں ۔۔۔ ابراہیم صاحب برہمی سے بولے تھے ۔۔۔۔

سر ہم ادھر ۔۔۔۔ سکندر کچھ بولتے بولتے روک گیا تھا جب ابراہیم صاحب بولے تھے۔۔۔

ادھر کیا۔۔۔ آگے بھی کچھ بولو۔۔۔۔ ابراہیم صاحب سخت غصے میں بولے تھے۔۔۔۔

ہم ادھر قتل کی وجہ ڈھونڈنے گئے تھے۔۔۔ آخر ایسی کیا وجہ تھی کہ چار لوگوں کو ایک ساتھ ہی قتل کر دیا ۔۔ اب کی بار ایم-زی مدہم لہجے میں بولا تھا۔۔۔۔۔

تو ایٹ لیسٹ مجھ سے کنٹیکٹ کر لیتے ۔۔۔ ابراہیم صاحب نے ایم-زی کو سخت گھوری سے نوازا تھا۔۔۔۔۔۔

پہلے یہ ہی سوچا  تھا کہ آپ سے کنٹیکٹ کر لوں۔۔ پھر سوچا اس ٹائم کیا ڈسٹرب کرنا آپ کو تو نہیں کیا کنٹیکٹ ۔۔۔ ایم-زی کندھے اوچکتا بولا تھا جبکہ ابراہیم صاحب اس کی اس شان بے نیازی پر منہ کھول کر رہ گئے تھے۔۔ اور سکندر نے سر نیچے کر لیا تھا اپنی ہنسی چھپانے کہ لیے۔۔۔

واہ کیا خوب سوچا ہے تم نے۔ میں تو اش اش اٹھا تمہاری سوچ پر ۔۔ ابراہیم صاحب دانت پس کر بولے تھے۔۔۔

ویسے آپ اس ٹائم ادھر کیا کر رہے تھے۔۔ اب کی بار ایم-زی ابراہیم صاحب کو مشقوق نظروں سے دیکھتا بولا تھا۔۔۔

مجھے سے یہ سوال کرتے تمہیں شرم نہیں آئی ۔۔۔ ابراہیم صاحب نے ایک سخت نظر اس پر ڈالی تھی ۔۔

بلکل نہیں ۔۔۔ جواب سکون بخش تھا۔۔ جبکہ ابراہیم صاحب اس کو سخت گھوری سے دیکھتے رہ گئے تھے۔۔۔

بتائیں نہ آپ اُدھر کیا کر رہے تھے اس ٹائم۔۔ ایم-زی پھر سے بولا تھا۔۔۔

وہ ہی کرنے گیا تھا جو تم دونوں کرنے گئے تھے ۔۔ ابراہیم صاحب ان دونوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولے تھے۔۔۔۔ جبکہ ایم-زی مدہم سا مسکرایا تھا۔۔۔

اب بتاؤ کیا پتا چلا۔۔ کس وجہ سے اُدھر یہ سب ہوا ہے ۔۔ ابراہیم صاحب اپنی کرسی پر بیٹھتے ہوئے بولے تھے ۔۔۔

ایک لاونج میں خون تھا اور ایک سویرا کے کمرے کی حالت خراب تھی۔

باقی سارا گھر ویسے کا ویسا تھا۔۔ نہ کیسی چیز کو چھیڑا گیا۔ نہ کچھ اور۔۔۔ ایم – زی  اور سکندر باری باری بولے تھے۔۔۔

ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟؟ ابراہیم صاحب تھوڑا سا آگے کی طرف جھک کر کہنیاں سامنے پڑی ٹیبل پر ٹیکا کر بولے تھے ان کو یہ بات بہت عجیب لگی تھی۔۔۔

یہ ہی تو بات سمجھ سے پڑے ہے سر۔۔ نہ کیسی قسم کی کوئی چیز اٹھائی انہوں نے بس چار لوگوں کو مارا اور چلے گئے۔۔۔ اب کی بار سکندر بولا تھا۔۔۔

تم کیا سوچ رہے ہو ایم-زی ۔۔۔ سکندر کی بات سن کر ابراہیم صاحب ایم-زی کی طرف متوجہ ہوئے تھے ۔۔

کچھ نہیں ۔۔ سر جہاں تک مجھے لگ رہا ہے۔۔ یہ کیسی بات کا بدلہ تھا۔۔ کیونکہ ایک بدلے کی آگ ہی انسان کو اتنا اندھا کر سکتی ہے کہ اس کو نہ ماں نظر آئے، نہ مامو نہ ممانی اور نہ ہی سامنے تڑپتا معصوم وجود ۔۔۔ ایم-زی ابراہیم صاحب کی طرف دیکھتا بولا تھا۔۔۔

اب یہ سب جزا سے ہی پتا لگ سکتا ہے کہ ہوا کیا ہے۔۔۔ ایم-زی جزا کو ڈھونڈو ہر حال میں۔۔ ابراہیم صاحب کرسی کی پشت سے ٹیک لگائے فکرمندی سے بولے تھے۔۔۔

سر ہر ممکن کوشش کر رہا ہوں۔۔ وہ لاہور میں کہیں بھی نہیں ہے۔۔۔ سمجھ نہیں آ رہی وہ کدھر گئی ہے۔۔۔ ایم-زی پریشان سا بولا تھا۔۔۔

urdunovelnests•••••••••

وہ صبح سے نکلا کب سے اس کو سڑکوں پر ڈھونڈ ڈھونڈ کر خوار ہو گیا تھا۔۔۔۔ اب دوپہر ہونے کو آئی تھی وہ افس گیا تھا۔۔۔ سخت بےزار سا وہ افس داخل ہوا تھا۔۔۔۔۔

افس داخل ہو کر وہ اپنے افس روم کی طرف جا رہا تھا جب اس کے کانوں میں کیسی کی آواز آئی تھی ۔۔

تمہارے باپ کا افس ہے جو دوپہر میں منہ اٹھا کر آ رہے ہو۔۔۔ حدید اپنی سنہری آنکھوں میں قہر لیے شہزاد کی طرف دیکھتے بولا تھا۔۔۔

میں تمہارا پابند نہیں ہوں جب دل کرے گا تب آؤ گا جب دل کرے گا تب جاؤ گا ۔۔۔ شہزاد یہ کہہ کر موڑنے لگا تھا جب حدید دوبارہ بولا تھا۔۔۔

او اچھا۔۔ جن کے پیسوں پر عیش کی جائیں ان کو آنکھیں نہیں دیکھائی جاتی۔۔۔ حدید پرسکون سا بولا تھا جبکہ اس کی بات پر شہزاد کہ تن بدن میں  آگ لگ گئی تھی۔۔

تم اپنی۔۔۔ شہزاد اپنی شہادت کی انگلی اٹھا کر کچھ بولنے لگا تگا جب حدید آگے سے بولا تھا ۔۔

اس انگلی کو اور اپنی آواز کو نیچے رکھو شہزاد ۔۔۔ اگر میں نے تم پر انگلی اٹھائی اور آواز اونچی کی تو تمہیں جواب دینا مشکل ہو جانا ہے ۔۔ حدید اس  کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولا تھا اور ادھر سے چلا گیا تھا۔۔۔ اور شہزاد پیچھے غصے سے اس کو جاتا گھور رہا تھا ۔۔

یہ ایک نئی مصیبت گلے پر گئی ہے۔۔۔۔ شہزاد ایک ایک لفظ چبا چبا کر بولا تھا۔۔۔ اور دروازہ کھول کر اپنے افس میں چلا گیا تھا۔۔۔

وہ اندر آ کر گرنے والے انداز میں اپنی کرسی پر بیٹھا تھا۔۔ سر اس نے اپنے دونوں ہاتھوں میں گرا لیا تھا۔۔۔

کدھر دفع ہو گئی ہے یہ۔۔۔۔ شہزاد غصے سے سر سہلاتا بول رہا تھا۔۔۔۔  جب پاس پڑا اس کا فون بجا تھا۔۔۔۔ نمبر دیکھ کر اس نے ایک منٹ کے اندر کال اٹینڈ کی تھی۔۔۔

بولو ملی کہیں وہ۔۔ کال اٹینڈ کرتے ساتھ وہ بولا تھا۔۔

سر وہ لڑکی کہیں نہیں ہے ۔۔  دوسری طرف سے کال کرنے والا آدمی بولا تھا۔۔۔

کیا مطلب کہیں نہیں ہے۔۔۔ زمین نگل گئی ہے کیا اس کو۔۔۔ شہزاد اونچی آواز میں چیخا تھا۔۔۔

سر وہ لاہور میں کہیں نہیں ہے ہم نے ہر ایک جگہ دیکھ دیا ہے۔۔کوئی بس سٹاپ، ریلوے اسٹیشن، وغیرہ نہ چھوڑی ہم نے ۔ نہ آس پاس کے علاقوں میں ہے۔۔۔ وہ آدمی ڈرتے ہوئے بولا تھا۔۔۔۔

نمک حرام اگر تو نے اس کو نہ ڈھونڈا تو تیری بہن کو اٹھوا کر کوٹھے پر چھوڑ آؤ گا۔۔۔ شہزاد انتہا کے غصے سے بولا تھا۔۔۔ اس کی آواز بہت بلند ہونے کی وجہ سے اس کے افس میں آتے اکرم صاحب اس کی بات بہت آسانی سے سن چکے تھے۔۔۔۔  وہ اکرم صاحب کو دیکھ کر فوراً فون رکھتا سیدھا ہو کر بیٹھا تھا۔۔۔ جبکہ اکرم صاحب سخت تیوروں سے اس کو دیکھ رہے تھے ۔۔۔۔

کس سے بات کر رہے تھے تم۔۔۔ اکرم صاحب غصے سے اس کی طرف دیکھ کر بولے تھے ۔۔۔

کیسی سے نہیں ۔۔۔ اس نے سخت بیزاری سے جواب دیا تھا۔۔۔

شہزاد تم آگے ہی اپنے لیے بہت مصیبت بنا چکے ہو مزید مت بنانا اور جو احمقانہ حرکت تم کر چکے ہو اس کی مجھے تم سے ہر گز امید نہ تھی۔۔ اس لیے مجھے بتاو تم کیا کر رہے ہو۔۔۔ اکرم صاحب اس کے سامنے بیٹھے اس کو سخت نظروں سے گھورتے بولے تھے۔۔۔ جبکہ شہزاد سر کرسی کی پشت سے ٹیکا چکا تھا ۔

جزا کو ڈھونڈنے کے لیے  اپنا ایک آدمی ہائر کیا بس اس سے بات کر رہا تھا۔۔۔ وہ اپنے بالوں میں ہاتھ  پھیرتا بولا تھا۔۔۔۔

وہ ابھی تک نہیں ملی۔۔۔ اکرم صاحب حیران سے بولے تھے ۔۔

نہیں ملی وہ سمجھ نہیں آ رہی گئی کدھر ہے وہ ۔۔  شہزاد پریشان سا بولا تھا۔۔۔

عقل کہ اندھے اگر وہ ہاتھ سے نکل گئی تو سمجھو ہمارے لیے مصیبت بن جائی گئ ۔۔ کیسی بھی طرح اس کو ڈھونڈو اس کو بھی مرنا ہو گا شہزاد ۔۔۔ اکرم صاحب غصے سے شہزاد کو دیکھتے بولے تھے۔۔۔۔

ہاتھ سے نکل جائے؟؟؟ ار یو سیریس ڈیڈ۔۔۔ وہ ہاتھ سے نکل گئی ہے پورے  لاہور میں وہ کہیں نہیں ہے۔۔۔۔ لاہور کہ آس پاس کے علاقوں میں بھی ڈھونڈ لیا ہے ۔۔۔ وہ کہیں نہیں مل رہی۔۔۔۔ شہزاد اکرم صاحب کی طرف دیکھتے ایک ایک لفظ چبا کر بولا تھا۔۔۔

بریلینٹ۔۔۔۔ لوگوں کے پاؤں پر کلہاڑی لگتی ہے اور تم وہ احمق ہو جس نے خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی مار دی ہے ۔۔۔۔ اکرم صاحب غصے سے اپنی جگہ سے اٹھ کھڑے ہوئے تھے ۔۔۔۔

مجھے کیا پتا تھا اس کو ذرہ سی ڈھیل دی تو وہ بھاگ نکلے گئی۔۔۔  شہزاد اکرم صاحب کی طرف دیکھتا بولا تھا۔۔۔

اپنی بکواس ادھر ہی بند کر دو تم۔۔۔ اکرم صاحب یہ کہہ کر اس کے افس سے نکل گئے تھے۔۔۔ جبکہ وہ غصے سے ان کو جاتا دیکھ رہا تھا۔۔

urdunovelnests••••••••••••

سرخ، سوجی ہوئی نم انکھی، بکھرے بال، خاموش اور اداس چہرہ۔۔۔ وہ بیڈ پر لیٹا خاموشی سے سیلنگ کو گھور رہا تھا۔۔۔ آج اس کو دیکھ کر کون مان سکتا تھا کہ یہ رحیان اغا ہے۔۔ جس کو بیٹھے بیٹھے شرارت سوجھتی تھی۔۔۔ شرارت جس کی طبیعت کی خو تھی۔۔۔۔۔ آج وہ کیسے خاموش ہو گیا تھا۔۔ صبح سے اپنے کمرے سے نہ نکلا تھا۔۔۔ ایک ہوا کا جھونکا آیا تھا اور اس ہستے لاپرواہ شہزادے کو خاموش کروا گیا تھا۔۔۔  وہ ایسے ہی خاموش لیٹا سیلنگ کو گھور رہا تھا۔۔۔ جب کمرے کا دروازہ کھول کر عزیزہ اندر آئی تھی۔۔ ان کی اپنی آنکھیں رو رو کر سوجی ہوئی تھی۔۔۔ وہ شاید آج پہلی بار بوڑھی لگ رہی تھی ۔۔

رحیان ۔۔۔ عزیزہ اس کے پاس آ کر بیٹھ گئی تھی اس کے بالوں میں ہاتھ پھرنے لگی تھی۔۔ وہ کل سے اس شخص کے غم میں رہ رہی تھی جس نے ان کو زندگی کا ایک نیا مقصد دیا تھا جو صرف نام سے ہی نہیں عمل سے بھی بھائی بنا تھا۔۔۔ مگر ایک لمحے میں جب ان کو سویرا کا خیال آیا تو ساتھ ہی ان کا دل رحیان کے لیے ڈوب کر ابھرا تھا۔۔۔ جس کو وصل  سے پہلے ہی ہجر کی نوید سنا دی گئی تھی۔۔۔

 رحیان بیٹا۔۔۔۔ عزیزہ نے خوب کو بےحد مضبوط کرتے ہوئے اس کو پھر سے بولیا تھا۔۔۔ مگر آواز میں پھر بھی لرزش آ گئی تھی۔۔۔ وہ جس کی آواز کبھی دشمنوں کہ سامںے بھی نہ لڑکھڑائی تھی آج ان کی آواز لڑکھڑا گئی تھی ۔۔۔

کیا زندگی کہ امتحان اتنے ہی تلخ ہوتے ہیں؟؟ رحیان کی بھاری آواز کمرے میں گونجی تھی۔۔۔۔ جبکہ اس کہ سوال نے عزیزہ کی آنکھیں پھر سے نم کر دی تھی جبکہ وہ خاموش رہی تھی ان کہ پاس اس سوال کا جواب نہ تھا۔۔۔۔

کیا زندگی ایسی کا ہی نام ہے کہ اپنی زندگی میں زندہ رہنے کی وجہ کو کھو کر بھی زندہ رہا جائے؟؟ رحیان پھر سے بولا تھا۔۔۔  جبکہ ایک آنسوں عزیزہ کی آنکھوں سے نکل کر گال پر پھسلا تھا۔۔۔

ہاں رحیان ۔۔۔ زندگی ایسی کا ہی نام ہے۔۔ کہ زندہ رکھنے کی وجہ چھین بھی جائے تو بھی دل پر پتھر رکھ کر زندگی کو جیا جائے ۔۔۔ عزیزہ نم آنکھوں سے بولی تھی ۔۔۔

دل پر پتھر رکھا نہیں جاتا دل پر پتھر رکھ دیا جاتا ہے ۔ اور پتھر رکھنے والی بھی زندگی ہی ہوتی ہے۔۔۔ رحیان بھاری آواز میں بولا تھا۔۔۔ اور ایک آنسو اس کی آنکھوں سے  ٹوٹ کر گرا تھا۔۔۔

رحیان رونا بند کرو میری جان کتنا رو گے۔۔۔۔  عزیزہ نے اس کے انسوں کو صاف کرتے ہوئے کہا تھا۔۔۔

کیسی کہ مر جانے پر کتنے دن کا سوگ ہوتا ہے؟  رحیان نے اب کی بار نظروں کا روخ سیلنگ سے ہٹا کر عزیزہ کی طرف دیکھا تھا۔۔۔

تین دن۔۔۔  عزیزہ بس اتنا ہی بول پائی تھی ۔۔۔

اور دل کہ مر جانے کا زندگی کہ مر جانے کا  سوگ کتںے دن ہوتا ہے۔۔۔ رحیان عزیزہ کی طرف دیکھتا بولا تھا جبکہ وہ بس اس کو دیکھ رہی تھی اس کی آنکھوں میں دیکھ رہی تھی جہاں صرف اور صرف اذیت ہی تھی۔۔۔۔

جواب دیں موم۔۔۔ رحیان پھر سے بولا تھا ۔۔

میرے پاس اس کا جواب نہیں ۔۔۔ عزیزہ نظریں چرا گئی تھی۔۔۔ کیا بولتی وہ اس کو۔۔۔ کیسے بولتی اس کو کہ اس کا جواب تاعمر ہے۔۔۔  مگر جب رحیان بولا تو وہ ایک دم ساکت ہو گئی تھی ۔۔۔۔

میرے پاس ہے اس کا جواب۔۔۔ جب زندگی ہی مر جائے اور دل مر جائے تو سوگ قبر تک چلتا ہے انسان کہ مگر۔۔ تب بس انسان اندر ہی اندر روتا رہتا ہے۔۔۔ دنیا کو لگتا ہے وہ ہیل ہو گیا مگر حقیقت میں وہ اس درد کو اس تکلیف کو خود میں چھپانا سیکھ جاتا ہے۔۔۔ میرے زخم تازے ہیں ۔۔ میرا غم نیا ہے۔۔۔ مجھے وقت لگے گا۔۔۔ مگر میں اس کو بھول نہیں پاؤ گا۔۔ اس کی یادوں سے آزاد نہیں ہو پاؤ گا ۔۔ اور نہ مجھے آزاد چاہیے ہے۔۔ مجھے اس کہ ہجر میں موت چاہیے ہے بس۔۔ رحیان بھاری آواز میں بولتا جا رہا تھا جبکہ عزیزہ بس اس کو ساکت بیٹھے دیکھ رہی تھی ۔۔ کیا نہ تھا اس وقت اس کی آواز میں ۔۔۔ وہ جس کی آواز سے کبھی زندگی بولتی تھی آج کیسے اس کی آواز اتنی زخمی ہو گئی تھی۔۔۔

رحیان مت دو خود کو اتنی تکلیف ۔۔۔ عزیزہ روتے ہوئے بولی تھی۔۔۔۔

میں خود کو تکلیف نہیں دے رہا مجھے تکلیف سوغات میں ملی ہے ۔۔ آپ نے بس اس کو کفن میں دیکھا ہے موم میں نے اس کی بے ابروئی کو بھی دیکھا ہے۔۔۔ میں نے اس کو مرتے دیکھا ہے۔۔۔ میں نے اس کے آخری الفاظوں کو سنا ہے۔۔۔ میں نے اس کو کفن میں دیکھا ہے ۔۔ میں نے اس کی میت اٹھائی ہے۔۔ میں نے اس کو سپردے خاک کیا ہے۔۔۔ مجھے یہ زخم ہماری آخری ملاقات کی سوغات میلے ہیں ۔۔ اور یہ زخم مجھے میری جان سے زیادہ پیارے ہیں ۔۔۔ میں تاعمر ان کو اپنے دل سے لگا کر رکھوں گا۔۔۔ رحیان زخمی مسکراہٹ کہ ساتھ بولا تھا۔۔۔ جبکہ عزیزہ آنسوؤں بہاتی آنکھوں سے اپنے بیٹے کو دیکھ رہی تھی۔۔۔۔

وہ اٹھ کر باتھ روم میں گیا تھا۔۔۔ اور دروازہ بند کر کے ساری ٹوٹیاں کھول چکا تھا اب شاور کہ نیچھے کھڑا  تھا۔۔۔ اس وقت اس کا خود پر اختیار نہ تھا وہ اپنی ماں کے سامنے رونا نہیں چاہتا تھا۔۔ مگر اب وہ باتھ روم میں شاور کہ نیچھے بیٹھا رو رہا تھا۔۔ جبکہ باہر عزیزہ ایسی طرح بیٹھی تھی ان کی آنکھوں سے آنسوں بے تحاشا نکل رہے تھے ۔۔۔

الفا یہ آپ نے میرے ساتھ غلط کیا ایک بہن کو ساتھ لے گئے ایک بہن پر ازمائشوں کا پہاڑ توڑ گئے۔۔۔ ایک طرف بھائی کو کھونے کا دکھ اور ایک طرف بیٹے کا غم۔۔۔ مجھے بھی ساتھ لے جاتے الفا۔۔۔ یا اپنی سویرا کو بچا لیتے۔۔۔ میرا بیٹا ٹوٹ گیا الفا۔۔ میں کیسے جوڑوں اس کو۔۔۔  عزیزہ روتے ہوئے بول رہی تھی۔۔۔ آنسوں بے لگام ہوئے تھے۔۔۔۔

urdunovelnests•••••••••••

یہ منظر ایک بہت خوبصورت کمرے کا ہے جو اپنے مالک کے اچھے ذوق کا منہ بولتا ثبوت تھا ۔۔۔ ایک وسیع کمرا  جس میں جیسے ہی داخل ہوں تو ایک طرف کنگ سائز بیڈ پڑا تھا اور بیڈ کی بیک سائیڈ بلیک کلر کے وال آرٹ سے بنی ہوئی تھی۔۔۔۔ کمرے کی باقی دیواریں ڈارک گرے کلر میں تھے ۔۔ بیڈ کے سامنے ایک بڑی سی ایل-سی-ڈی لگی ہوئے تھی ۔۔ ساتھ کچھ وال ڈیکورز رکھے ہوئے تھے۔۔۔ ایک طرف جدید طرز کا سیاہ رنگ میں صوفے سیٹ رکھا گیا تھا۔۔۔ جبکہ اس کمرے کی بلکہنی میں ایک چھوٹی سے ٹیبل ساتھ  دو کرسیاں رکھی گئی تھی۔۔۔۔ اگر کمرے میں واپس آئیں تو ایک طرف چھوٹا سا سٹیڈی روم بنایا گیا تھا ۔۔۔ اور اس سے تھوڑا آگے جائیں تو ڈریسنگ روم تھا۔۔۔  اگر ڈریسنگ روم کی بات کی جائے تو ایک طرف واشروم کا گیٹ تھا جبکہ ایک طرف مکمل ایک دیوار شیشے کی بنی ہوئیں تھی۔۔۔ اور ایک طرف بڑی سی الماری تھی جس کو کھولے تو اس کہ سارے کمرے بڑی نفاست سے سیٹ کیے ہوئے تھے۔۔ ایک سے بڑھ کر ایک بیش قیمتی مردنہ ڈریسز۔۔۔۔ حیرت انگیز پرفیوم اور ریسٹ واچیز کی کلیکشن ۔۔۔۔ جو اس بات کا ثبوت تھی کہ اس کو پرفیوم اور واچیز پسند ہیں ۔۔۔

شیشے کے سامنے کھڑا کوٹ پہن رہا تھا۔۔ جب اس کی نظر سامنے پڑے پینڈنٹ پر گئی تھی۔۔۔۔ اس نے  اس پینڈنٹ کو اٹھا کر اپنے سامنے کیا تھا۔۔۔۔ ہاتھ میں پکڑے اس پینڈنٹ پر وہ اپنا انگوٹھا پھیر رہا تھا جب اس کے کمرے کا دروازہ نوک ہوا تھا۔۔۔

آ جائیں ۔۔۔۔ زوریز نے مرہم آواز میں اندر آنے کی اجازت دی تھی ۔۔

عائشہ بیگم جو ابھی اس کے کمرے میں داخل ہوئی تھی اس کی تیاری دیکھ کر روکی تھی ۔۔۔

تم کہیں جا رہے ہو؟؟ انہوں نے اس کو سر سے پیر تک دیکھا تھا۔۔۔ وہ آج نظر لگ جانے کی حد تک ہنڈسم لگ رہا تھا ۔۔۔

جی کچھ کام تھا وہ ہی نپٹنا ہے ۔۔۔ زوریز اپنی ماں کے ماتھے کو چومتا بولا تھا ۔۔

تمہارے ڈیڈ بہت پریشان ہے زوریز ۔۔۔ عائشہ بیگم پریشانی سے بولی تھی ۔۔۔

جانتا ہوں موم۔۔۔ دوست کا جدا ہو جانا بہت تکلیف دیتا ہے ۔۔۔ زوریز عائشہ بیگم کو گلے لگا کر بولا تھا ۔۔

تم پلیز ان کے ساتھ ہی رہنا۔۔۔ عائشہ بیگم اس کی طرف دیکھتے بولی تھی جو نہ جانے کہاں گم تھا ۔۔۔

زوریز ۔۔۔ انہوں نے پھر سے اس کو بولایا تھا۔۔۔

جی ۔۔۔ اس نے فوراً روخ ان کی طرف کیا تھا۔۔

اپنے ڈیڈ کا خیال رکھنا ۔۔۔ عائشہ بیگم اس کی طرف دیکھتے بولی تھی۔۔ ان کے چہرے سے اپنے عزیز شوہر کے لیے پریشانی صاف جھلک رہی تھی۔۔۔۔

میں ان کا خیال تو رکھ لوں گا۔۔۔ آپ پہلے اپنے ایک لوتے بیٹے کا خیال تو کر لیں ۔۔ بھوک سے برا حال ہے میرا ۔۔۔ زوریز ان کے چہرے پر مسکراہٹ لانے کے لیے ان کی گال کھنچ کر بولا تھا جس میں وہ کامیاب بھی ہو گیا تھا۔۔۔۔

تم نیچھے آؤ میں تمہارے لیے ٹوس بناتی ہوں تب تک۔۔۔ یہ کہہ کر عائشہ بیگم وہاں سے چلی گئی تھی جبکہ وہ مدہم مسکراہٹ سجائے اپنی ماں کو جاتا دیکھ رہا تھا۔۔۔

ابراہیم صاحب ناشتہ کر رہے تھے جب زوریز آکر اپنی جگہ پر بیٹھا تھا۔۔۔

کیسے ہیں آپ ۔۔۔ وہ ابراہیم صاحب کی طرف دیکھ کر بولا تھا۔۔۔ جن کی آنکھیں کافی سرخ ہوئی ہوئی تھی جیسے ساری رات  بےخوابی میں گزار دی ہو۔۔۔

میں ٹھیک ہوں تم بتاؤ برخوردار ۔۔۔۔ وہ زوریز کی طرف دیکھ کر بولے تھے۔۔۔

آپ کے سامنے ہوں۔۔ وہ چہرے پر مسکراہٹ سجا کر بولا تھا۔۔ جب ابراہیم صاحب زخمی مسکراہٹ سے اس کی طرف  دیکھ  رہے تھے۔۔۔

ہاں اپنا آپ اور اپنا حال تم سے بہتر کون چھپا سکتا ہے ۔۔ ابراہیم اس کی طرف دیکھ کر بولے تھے جبکہ زوریز بس اپنے باپ کو دیکھ کر رہ گیا تھا ۔۔

آپ آج افس آئیں گے یا اپنے کام سے جا رہے ہیں ۔۔۔ زوریز ابراہیم صاحب کی طرف دیکھ کر بولا تھا جب عائشہ بیگم نے اس کے سامنے ٹوس اور آنڈے رکھ رہی تھی ۔۔۔

ان کو تم سمجھا دو میں سمجھا سمجھا کہ تھک گئی ہوں کہ اب ارمی سے ریٹائرمنٹ لے لیں۔۔۔ عائشہ بیگم زوریز کو جوس کا گلاس دیتی ابراہیم صاحب کو سخت گھوری سے نوازتی بولی تھی۔۔۔

بیگم آپ کو میرے آرمی کو سٹیل جوائن کرنے سے کیا مسلہ ہے۔۔۔ ابراہیم صاحب ان کی طرف دیکھ کر بولے تھے جو ان کو سختی سے گھور رہی تھی ۔۔۔

بہت ٹائم آپ نے سرویس دی ہے اب ریسٹ کر لیں۔۔۔ عائشہ بیگم اب کی بار ذرہ نرم لہجے میں بولی تھی۔۔

میں اپنی آخری سانس تک آرمی میں رہوں گا۔۔۔۔ اور جب تک میں شاہد کا بدلہ نہیں لے لیتا آرمی کو چھوڑنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔۔۔۔ ابراہیم صاحب اٹل لہجے میں بولے تھے۔۔۔

اف۔۔۔۔ آپ آرمی افسر کتنے ضدی ہوتے ہو۔۔ شکر ہے میرا بیٹا آرمی میں نہیں گیا۔۔۔ نہ ہی اس کے کام آپ کے جیسے ہیں ۔۔۔ عائشہ بیگم نے زوریز کے ماتھے پر بوسا دیتے بولا تھا۔۔۔ جبکہ ابراہیم صاحب کا منہ تک کڑوا ہو گیا تھا عائشہ بیگم کو یوں اپنے بیٹے کو پیار کرتا دیکھ کر ۔۔

اس کو گلے سے لگا کر رکھیں ۔۔ میں چلتا ہوں۔۔۔ ابراہیم صاحب اپنی جگہ سے اٹھا کر باہر کی طرف بڑھے تھے اور جاتے جاتے زوریز کو سخت گھوری سے نوازنا نہ بھولے تھے۔۔۔

آگے زندگی میں مشکلات کم ہیں جو یہ بھی ناگ بن کر بیٹھا ہے۔۔۔ ابراہیم صاحب منہ ہی منہ میں بربراتے باہر نکل گئے تھے۔۔۔

اور کچھ دیر میں زوریز بھی اپنے افس کے لیے نکل گیا تھا۔۔۔

urdunovelnests•••••••••

 وہ شخص کچھ گارڈ کے ساتھ آتا دیکھائی دیا تھا۔۔۔۔ اس نے وائیٹ کلر کی پینٹ اور اس پر لائٹ بلو کلر کی  ٹی-شرٹ پہنے۔۔ آنکھوں پر بلیک سن گلاسز پہنے اور سر پر وائٹ کیپ پہنے گولف کلب سے نکالا تھا۔۔ عمر میں پچاس سال کے قریب لگ رہا تھا۔۔ وہ کوئی اور نہیں پاکستان کا جانا مانا سیاستدان سلیم ذولفقار تھا۔۔۔۔

وہ آ کر اپنی کار میں بیٹھا تھا اس کے ساتھ ہی ایک گارڈ ڈرائیونگ سیٹ کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھا تھا جبکہ باقی کے چار گارڈ پیچھے کھڑی گاڑی میں بیٹھے تھے۔۔۔۔ 

دونوں گاڑیاں اگے پیچھے نکلی تھی۔۔ اور اپنی منزل کی طرف گامزن تھی۔۔۔ جبکہ سلیم ذولفقار ہاتھوں میں سگار پکڑے نیوز پیپر دیکھ رہا تھا جب اس کو کیسی گربر کا اندازہ ہوا تھا۔۔۔

کار تیز رفتار سے شہر سے باہر کی طرف نکلی تھی ۔۔۔

کون ہو تم لوگ۔۔۔۔ سلیم ذولفقار اپنی بھاری آواز میں بولا تھا۔۔۔۔

آواز نیچے ذولفقار صاحب ۔۔۔ ورنہ اچھا نہیں ہو گا۔۔۔ بلیک ماسک پہنے فرنٹ سیٹ پر بیٹھا شخص بولا تھا۔۔۔۔

کون ہو تم لوگ کدھر لے کر جا رہے ہو۔۔۔ میں اپنے گارڈز سے تم لوگوں کا حال خراب کروا دوں گا۔۔۔ سلیم ذولفقار صاحب غصے سے ایک ایک لفظ چبا کر بولے تھے۔۔ ساتھ ہی فون اٹھا کر کان سے لگایا تھا۔۔۔

دوسری طرف کال پیک کر لی گئی تھی ۔۔۔

جی ذولفقار صاحب  کس لیے کیا فون۔۔۔۔ فون اٹھانے والا بغیر سلیم ذولفقار کی بات سنے بولا تھا۔۔۔

کون ہو تم میرے آدمی کدھر ہیں ۔۔۔ سلیم ذولفقار چکرا گیا تھا ۔

آپ کے آدمی تو کب کے اوپر پہنچا دے ہیں ذولفقار صاحب ۔۔۔ یہ کہہ کر مقابل فون کاٹ چکا تھا ۔۔

جب اچانک ایک جھٹکے سے کار روکی تھی۔۔۔ ڈرائیونگ سیٹ اور فرنٹ سیٹ سے وہ دونوں جو کوئی بھی تھے اٹھے تھے اور سلیم ذولفقار کو اس کے گریبان سے پکڑ کر کار سے باہر نکال چکے تھے۔۔۔ اس کی آنکھوں پر انہوں نے سیاہ رنگ کی پٹی باندھ دی تھی۔۔۔۔

تم دونوں میرے ساتھ چلو۔۔۔ اور تم  سب ان دونوں گاڑیوں کو آگ لگا کر سارے روٹ کے سی سی ٹی وی کیمرہ سے فوٹیج ڈیلیٹ کرو ۔۔۔  یہ کہہ کر وہ تینوں آگے کھڑی ایک اور کار کی طرف بڑھے تھے۔۔۔۔  جبکہ  باقی تینوں  سامنے کھڑی دونوں سیاہ رنگ کی بی ایم ڈبلیو پر پٹرول پھینک رہے تھے۔۔۔ اب وہ ان گاڑیوں کی طرف ایک لئیٹر  جلا کر پیھنکتے وہ تینوں ادھر سے ایک کار میں بیٹھ کر فوراً نکلے تھے۔۔ جب پیچھے سے ایک ساتھ زوردار دھماکے کی آواز آئی تھی ۔۔۔

urdunovelnests••••••••••••

کون ہو تم لوگ۔۔۔ وہ اس وقت ایک بیسمنٹ میں تھے جہاں صرف ایک ٹیبل اور کرسی پڑی تھی اور اس پر ایک بلب جل رہا تھا ۔۔۔۔

جس ملک کو تم سانپ کی طرح ڈس رہے ہو میں اس ملک کا مارخور ہوں۔۔۔ اس ملک کا محافظ ہوں۔۔۔ وہ دونوں ہاٹھ ٹیبل پر رکھ کر جھک کر سلیم ذولفقار کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولا تھا۔۔۔ نہ جانے کیوں مگر سلیم ذولفقار کو ان  نیلی آنکھوں سے خوف محسوس  ہو رہا تھا۔۔۔ کیونکہ وہ نیلی آنکھوں اس وقت برف کی طرح سرد نظروں سے سلیم ذولفقار کو دیکھ رہی تھی۔۔۔۔ ان آنکھوں کا سرد پن ایسا تھا جیسے موت ہو۔۔۔

تم لوگ۔۔۔۔۔ سلیم ذولفقار نے کچھ بولنے کے لیے منہ کھولا ہی تھا جب کیسی نے اس کے بالوں کو پیچھے سے پکڑا تھا۔۔۔۔

آئی ایس آئی ۔۔۔۔۔ وہ شخص ایک ایک لفظ چبا کر بولا تھا۔۔ جبکہ سلیم ذولفقار کو اپنی جان جاتی محسوس ہوئی تھی۔۔۔۔

میں تم فوج کی جڑیں ہلا دوں گا ۔۔ سمجھ آئی نہ۔۔۔۔ سلیم ذولفقار اپنے کانپتے وجود کو نارمل کرتے غصے سے بولا تھا۔۔۔

فوج کی جڑیں ہلاؤ گے تم ؟؟؟؟ فوج کی؟؟؟؟ سامنے کھڑے شخص نے الٹے ہاتھ کا زناٹے دار تھپڑ سلیم ذولفقار کے منہ پر مارا تھا۔۔ اور ایک لمحے کے لیے سلیم ذولفقار کو لگا تھا کہ وہ بس مر گیا۔۔۔۔

ن۔۔ نام کیا ہے تمہارا ۔۔۔۔۔ وہ بامشکل بول پایا تھا ۔۔۔

ایم -زی۔۔۔ سامنے کھڑا شخص نیلی آنکھوں میں بلا کی سرد مہری لیے بولا تھا۔۔۔

جبکہ سلیم ذولفقار سانس روکے بس ان نیلی آنکھوں کی سرد مہری کو دیکھ رہا تھا۔۔۔۔

چپ کر کہ بتا دو تم نے باقی کا مال کدھر چھپا رکھا ہے ۔۔۔ ایم-زی اس کے بالوں کو اپنی مٹھی میں جکڑ کر  بولا تھا۔۔۔ جبکہ فاروق ایک طرف کھڑا لوہے کے سریہ کو آگ میں ڈال رہا تھا ۔۔۔

میں کچھ نہیں بتاؤ گا۔۔۔۔ سلیم ذولفقار غصے سے بولا تھا۔۔۔

اچھا ۔۔۔ایم-زی نے اس کی شرٹ کو اگے سے پھاڑا اور اتار کر دور پھینکی تھی ۔ اب ایم-زی اپنی جگہ سے ہٹا تھا اور ایک سریہ آگ میں سے نکال کر اس نے سلیم ذولفقار کے سامنے سینے پر رکھا تھا۔۔۔۔ اور اگلے ہی لمحے پورے بیسمنٹ میں سلیم ذولفقار کی آوازیں گونج رہی تھی ۔۔۔۔

کیا اب بھی نہیں بتاؤ گے؟؟  ایم-زی اس کے سامنے کھڑا بولا تھا۔۔۔ بلکل نہیں ۔۔۔۔ وہ درد برداشت کرتا بولا تھا۔۔ جب ایم-زی کے اشارے پر سکندر نے پاس پڑا نمک اس کے جلے ہوئے سینے پر لگا دیا تھا۔۔۔ اور سلیم ذولفقار کی چیخیں ایک بار پھر سے بلند ہوئی تھی ۔۔

اب بتاؤ سارا مال کدھر ہے ۔۔۔ ایم-زی اس کے سامنے کھڑا بولا تھا۔۔۔

میں ۔۔۔ نہ۔۔نہیں۔۔۔۔ بت۔۔۔۔بتاو گا۔۔۔ سلیم ذولفقار بامشکل بول پایا تھا ۔۔

اب کی بار ایم-زی نے ہاتھ میں پکڑے پلاس سے ایک ایک کر کے اس کے باندھے ہوئے ہاتھوں کے ناخن اتارنا شروع کر دے تھے۔۔ اور سلیم ذولفقار کی آوازیں پورے بیسمنٹ میں پھر سے گونج رہی تھی۔۔۔۔ وہ ایک کہ بعد ایک ناخن اس کے وجود سے جدا کر رہا تھا جب سلیم ذولفقار کی آوازیں گونجی تھی۔۔۔

می۔۔میں۔۔۔ س۔۔سب۔۔ بت۔۔بتاتا ہوں۔۔۔۔ سلیم ذولفقار بامشکل بولے تھے۔۔۔۔

بتاؤ ۔۔۔ الف سے شروع کرو سب کہیں بھی ذرا سا بھی جھوٹ ہوا تو انجام کے ذمہ دار تم خود  ہو گے۔۔۔ ایم-زی ایک ایک لفظ پر زور دیتا بولا تھا۔۔۔

سارا مال اس وقت ہم نے ایک جگہ محفوظ کروایا ہے۔۔ اس سب میں صرف میں اکیلا شامل نہیں ۔۔۔ پاکستان کے جانے مانے بزنس مین بھی شامل ہیں ۔۔۔ سلیم افندی بھی اس سب میں شامل تھا۔۔۔ مگر جب سے وہ مرا ہے تب سے اس کی جگہ اکرم اس کام میں شامل ہو گیا ہے۔۔۔ سلیم ذولفقار کچھ وقت کے لیے چپ ہوا تھا۔۔۔

اور کون کون ہے اس سب میں ۔۔۔۔  بولو۔۔۔ سکندر نے اس کے بالوں کو اپنی گرفت میں لیا تھا۔۔۔

اکرم کے دو دوست عثمان اور عمران اور ان کے بچے ۔ ساتھ سندھ کا ایم-ان -اے خظر آفتاب اور ایک انڈیا کا کمانڈر بھی شامل ہے جس کا نام لکشمن ہے ۔۔۔۔ سلیم ذولفقار منہ نیچے کیے بولا تھا۔۔۔۔

اور کون کون ہے۔۔۔ ایم-زی نے ایک اور تھپڑ اس کے منہ پر مارا تھا۔۔

کنگ۔۔۔ سلیم ذولفقار ایم-زی کو دیکھتے ہوئے بولا تھا۔۔۔۔

تم سب کیا کرتے ہو۔۔۔۔۔ اب کی بار فاروق بولا تھا۔۔۔

پاکستان کے سیاسی راز دوسرے ممالک کو فروخت کرتے ہیں ۔۔۔ ادھر سے جوان لڑکیاں دوسرے ممالک میں دیتے ہیں جسم فروشی کے لیے۔۔۔ ساتھ ہی ساتھ ڈرگز اور اسلحہ فروخت کرتے ہیں۔۔۔ اور ساتھ ہی ساتھ غیر قانونی ہیرے جواہرات بھی ۔۔۔ سلیم ذولفقار طوطے کی طرح بولا تھا۔۔

تمہیں ذرہ شرم نہ آئی ملک کے دشمنوں سے ہاتھ ملاتے ۔۔۔ ایم-زی نے اس کو بالوں سے پکڑ رکھا تھا۔۔۔۔

مجھے معاف کر دو۔۔۔۔ مجھ پر رحم کرو ۔۔۔  سلیم ذولفقار روتے ہوئے بولا تھا۔۔۔

معافی تو تمہیں ہر گز نہ ملے گئ۔۔۔۔ تم فوج کی جڑیں ہلانا چاہتے تھے نہ ۔۔۔ تم نے دشمنوں سے ہاتھ ملایا ۔۔۔۔ آج تمہیں پتا چلے گا ملک غداروں کے ساتھ ہوتا کیا ہے۔۔۔  ایم-زی ںے اس کو سخت گھوری سے نوازا تھا۔۔۔ اور پھر اگلے ہی لمحے ہاتھ میں ایک نوکیلا اور تیز دھار  چاقو نکالا تھا۔۔۔۔

مجھے معاف کر دو ۔۔۔۔ سلیم ذولفقار روتے ہوئے بولا تھا۔۔۔

ملک غدار کے لیے میرے پاس معافی نہیں ۔۔۔ ایم-زی نے اس کے منہ پر ایک وار کیا تھا۔۔۔ سلیم ذولفقار درد سے تڑپ اٹھا تھا۔۔۔۔۔

اور دیکھتے ہی دیکھتے ایم-زی اس کے چہرے سے اس تیز دھار چاقو کی لائن کو کھینچتا سلیم ذولفقار کی شہ رگ کے پاس آ کر روکا تھا۔۔۔

اتنے آسان موت نہیں ہو گئی تمہاری ذولفقار صاحب ۔۔۔۔ایم-زی سخت نظروں سے اس کو دیکھتا بولا تھا اس کی آنکھوں میں بس وحشت تھی اور کچھ نہیں ۔۔۔۔ وہ موڑا تھا اور قدم قدم بڑھاتا ایک کیبنیٹ کے پاس روکا تھا اور اس کے اندر سے۔ ایک بڑا چاقو نکالا تو جو قصائی ہڈیوں والے گوشت کے ٹکڑے کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں ۔۔۔ اور واپس سلیم ذولفقار کی طرف آیا تھا ۔۔۔

نہ۔۔۔نہی۔۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔ سلیم بس اتنا ہی بول پایا تھا۔۔۔۔

ایم-زی نے اس چاقو کو ہوا میں بلند کیا تھا اور اگلے ہی لمحے پوری قوت سے اس چاقو کی ضرب  سلیم ذولفقار کے سیدھ ہاتھ پر ماری تھی اس کا ہاتھ فوراً جسم سے جدا ہوا تھا۔۔۔ اور ساتھ ہی سلیم ذولفقار کی چیخیں بیسمنٹ میں بلند ہوئی تھی ۔۔ اور خون کا ایک فوارہ زمین پر  گرا تھا۔۔۔۔

ایم-زی نے اب کی بار ضرب سلیم ذولفقار کے سیدھے بازوؤں پر لگائے تھی۔۔۔ اس کا بازوؤں بھی اس کے تن سے جدا ہوا تھا۔۔۔ اس کی  چیخوں سے پورا بیسمٹ گونجی رہا تھا۔۔۔

اب کی بار ایم-زی نے اس کے بائیں ہاتھ پر ضرب لگائی تھی اور فوراً ہی بائیں بازوؤں پر بھی ضرب لگا دی تھی۔۔ سارا فرش سلیم ذولفقار کے خون سے بھرا ہوا تھا۔۔ وہ چیخ چیخ کر نیم مردہ ہو گیا تھا۔۔۔ جب ایم-زی نے  جھک کر اس کے   دونوں پاؤں کو بھی جسم سے جدا کیا تھا۔۔۔۔

سلیم ذولفقار کا چہرہ خون اور انسوں سے تر ایک خوفناک صورت اختیار کر چکا تھا۔۔۔  وہ ابھی  مکمل  بے ہوش بھی نہ ہوا تھا جب ایم-زی نے اس کے بالوں کو جکڑا تھا۔۔۔

تو اس ملک کی فوج کی جڑیں ہلائے گا۔۔۔ تو اس ملک کے رازوں کا اس ملک کی بچیوں کا سودا کرے گا۔۔۔ اور ہم چپ کر کے دیکھتے رہیں گے۔۔۔ بولا کیسی کو آ کر تیری مدد کرے۔۔ ہلا پاکستان کی فوج کی جڑوں کو۔۔۔۔ ہلا۔۔۔ اٹھ نہ ہلا اس ملک کی فوج کی جڑوں کو۔۔ کر اس ملک کی بچیوں کے سودے۔۔۔۔ ایم-زی کے ہوتے ہوئے تو اس ملک کی فوج چھوڑ اس ملک کی فوج کی  جڑوں تک پہنچ بھی نہیں سکتا ۔۔ اور جتنی بچیوں کے تو نے سودے کیے ہیں آج ہر سودے کی وصولی لو گا میں تجھ سے۔۔۔ ایم-زی اپنی نیلی آنکھوں میں قہر و غضب لیے بولا تھا۔۔۔ جبکہ  اس کا غصہ دیکھ کر آج فاروق ایک کونے میں کھڑا تھا۔۔۔ جبکہ سکندر جانتا تھا۔۔۔ اس کے اندر کے بھیڑے کو جاگنے میں منٹ نہیں لگتا اور جب وہ جاگ جائے تو دشمن کو نست و نابود کیے بغیر نہیں سوتا۔۔۔۔

سلیم ذولفقار کے وجود میں ابھی بھی زندگی کی امید تھی وہ سانسیں لے رہا تھا۔۔۔۔ مگر وہ کیا جانتا تھا ان چلتی  سانسوں میں اس نے کون سی تکلیف محسوس کرنے ہے۔۔۔ ابھی اس پر بے ہوشی غالب آ رہی تھی جب ایم-زی نے اپنی ٹانگ کے ساتھ لگا خنجر نکالا تھا۔۔۔ اس نے جیسے ہی خنجر نکلا تھا۔۔ فاروق نے اپنا منہ موڑ لیا تھا کیونکہ اب جو وہ کرنے جا رہا تھا وہ فاروق کی برداشت سے باہر تھا جبکہ سکندر اب  ایک کرسی پر خاموش بیٹھ گیا تھا اس نے فون نکال کر ایک ٹیکسٹ کیا اور واپس فون اپنی جیب میں ڈال لیا تھا ۔۔۔

ایم-زی نے اس خنجر کو سلیم ذولفقار کی خال پر رکھا تھ اور اگلے ہی لمحے وہ اس کے وجود سے اس کی خال کو الگ کر رہا تھا جبکہ سلیم ذولفقار کی چیخیں بیسمنٹ میں گونجتی چلی جا رہی تھی۔۔۔۔ اور ایم-زی اس کے وجود پر سے خال ادھیڑ رہا تھا۔۔۔۔  سلیم ذولفقار کی آوازیں بیسمنٹ میں دم توڑ گئی تھی۔۔۔ جبکہ ایم-زی اس کی خال مسلسل ادھیڑ رہا تھا۔۔۔ اور کچھ دیر میں وہ اس کی ساری خال ادھیڑ چکا تھا۔۔۔ اور اب  وہ اپنی شرٹ کی سلیوز کو فولڈ کر رہا تھا۔۔۔ اب کی بار سکندر نے اپنا سر ہاتھوں میں گرا لیا تھا۔۔۔۔

او بھائی میرے کیوں قصائی بن رہا ہے۔۔۔ بلآخر سکندر ہمت کر کے بولا تھا۔۔۔

تیری دوبارہ آواز آئی تو اس سے پہلے تیری بوٹیاں کروں گا۔ اور تیری بوٹیاں کر کے کتوں کو ڈال دوں گا۔۔ ایم-زی اس کو چاقو دیکھتا سخت نظروں سے بولا تھا۔۔۔۔ جبکہ سکندر منہ موڑ کر بیٹھ گیا تھا کیونکہ اس سے آگے وہ نہیں دیکھ سکتا تھا۔۔ ایم-زی کا یہ روپ۔۔۔۔

اب منظر یہ تھا کہ ایم-زی بیسمنٹ کے بیچو بیچ بیٹھا ہوا تھا۔۔ اس کے اطراف میں صرف خون ہی خون تھا۔۔۔ وہ بڑی مہارت سے سلیم ذولفقار کے جسم کی ہڈیوں کو جسم سے جدا کر رہا تھا۔۔۔ وہ اس وقت ایک آئی اس آئی افسر کم اور قصائی زیادہ لگ رہا تھا۔۔۔۔ کہیں پر ہاتھ تھا کہیں بازو کہیں کٹی ٹانگ کہیں پاؤں کہیں سر اور کہیں جسم کے دوسرے آزا ۔۔۔ سلیم ذولفقار کا دل اپنے ہاتھ میں لیے وہ اپنا کام مکمل کر کے اٹھ کھڑا ہوا تھا۔۔۔ اس کے کپڑے خون سے۔ بھرے ہوئے تھے۔۔ ہاتھ خون سے تر اور ایک ہاتھ میں دل تھا۔۔۔ جس کو وہ لے کر اس جگہ آکر کھڑا ہوا تھا جہاں لوہے کے سریے گرم کیے جا رہے تھے۔۔۔ اس نے جلتی آگ میں سلیم ذولفقار کا دل پھینک دیا تھا۔۔۔۔

فاروق۔۔۔۔ گردن موڑ کر اس نے کونے میں منہ کر کے کھڑے فاروق کو بولیا تھا۔۔۔۔

بولا۔۔۔ وہ ایسے ہی کھڑا بولا تھا۔۔۔

اس کے ٹکڑے ادھر سے اٹھواؤ اور کتوں کو ڈالوا دو۔۔۔ ایم-زی آگ میں جلتے دل کو دیکھ کر بولا تھا۔۔۔ اس کی آنکھیں  بے تاثر تھی۔۔۔ صرف اور صرف سرد مہری تھی ان میں ۔۔۔۔

جب فاروق نے گردن موڑ کے سلیم ذولفقار کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کو دیکھا اس کو فوراً سے قہہ آئی تھی ۔۔ وہ جلدی سے بیسمنٹ کا دروازہ کھول کر باہر نکالا تھا۔۔  اور کچھ دیر بعد فاروق تو نہ آیا پھر دو آدمی اندر ضرور آئے تھے ۔

اس کا کچھ نہیں ہو سکتا۔۔۔۔ ایم-زی بولتا دروازے کی طرف بڑھا تھا۔۔۔ جبکہ سکندر بھی اس کے ساتھ اٹھ گیا تھا۔۔۔

وہ ایک اور درندے کا باب بند کرتا اپنے ساتھی کے ساتھ باہر نکالا تھا۔۔ وہ ایک ایسا مارخور تھا جو جب تک سانپ کو  مار نہیں لیتا تھا سکون سے نہیں بیٹھتا تھا۔۔۔ وہ ایک ایسا بھیڑیا تھا جو جب تک دشمن کو ایک درد ناک موت نہیں دے دیتا تھا اس کو سکون نہ ملتا تھا۔۔۔

urdunovelnests•••••••••••••

وہ تینوں اس وقت آرمی ہیڈ کوارٹر میں آئے تھے۔۔ کیونکہ ابراہیم صاحب نے ان تینوں کو فون کر کے فوراً ادھر آنے کا بولا تھا۔۔ وہ اس وقت ابراہیم صاحب کے افس کے سامنے کھڑے تھے جب ایم-زی نے آگے بڑھ کر دروازہ کھولا تھا۔۔۔ اس نے کبھی بھی دروازہ نوک کر کے آنے کی اجازت نہ لی تھی وہ ہمیشہ دروازہ کھول کر اندر داخل ہو جاتا تھا۔۔۔ جبکہ ابراہیم صاحب اس کو سر تا پیر دیکھ رہے تھے ۔۔۔

بال ماتھے پر بکھرے ہوئے جن میں سے پانی کی کچھ بوندے گر رہی تھی۔۔۔ نیلی پراسرار آنکھیں وحشت اور سرد مہری کا تاثر دے رہی تھی ۔۔ چہرے پر ماسک تھا مگر صاف پتا چل رہا تھا وہ خود میں اٹھتے غصے کو ابھی بھی کم کرنے کی کوشش میں ہے۔۔۔ ہاتھ اور بازوؤں کی وین اس وقت کافی زیادہ ابھری ہوئی تھی۔۔ چھ فٹ سے نکلتا قد چوڑا سیانا۔۔۔ وہ ایک لاجواب اور پراسرار وجہات کا ملک  تھا۔۔۔

ایم-زی سلیم ذولفقار کدھر ہے ۔۔ ابراہیم صاحب اس کو دیکھتے ہوئے بولے تھے۔۔۔

جو بات آپ پہلے سے جانتے ہیں وہ پوچھنا بےبنیاد ہے۔۔۔ ایم-زی ٹھہرے ہوئے لہجے میں بولا تھا۔۔۔ آواز ایسی تھی کہ سنے والا بس سنا چاہے ۔۔ آواز میں ایک الگ سا روب بولتا تھا اس کی۔۔۔

میں تمہارے منہ سے سنا چاہتا ہوں۔۔۔۔ سلیم ذولفقار کا کیا کیا ہے تم نے ۔۔ ابراہیم صاحب اس کو سخت نظروں سے دیکھتے ہوئے بولے تھے ۔۔

ٹکڑے کر کے کتوں کو ڈال دیا ہے۔۔۔۔ ایم-زی ابراہیم صاحب کو دیکھتا بولا تھا۔۔۔۔

ایم- زی ۔۔۔۔ تم ہوش میں تو ہو۔۔۔ ابراہیم صاحب دانت پیس کر اس کو دیکھتے بولے تھے ۔۔۔

جی بلکل ۔۔۔۔ یک لفظی اور مطمئن جواب تھا۔۔۔

تم ایک بات کلیر کرو گے ۔۔۔ ابراہیم صاحب نے اس کی طرف دیکھتے بولا تھا۔۔ اور ایک نظر ہاتھ میں پکڑے فون کو دیکھا  جہاں سکرین میں کچھ دیر پہلے کا منظر صاف نظر آ رہا تھا۔۔ کیسے ایم-زی سلیم ذولفقار کے جسم کے ٹکڑے کر رہا تھا۔۔۔۔

جی ۔۔۔ ایم-زی ابراہیم صاحب کی طرف غور سے دیکھتے بولا تھا۔۔۔۔

تم آئی اس آئی کے ایجنٹ ہو یا قصائی ہو؟ یا الفا نے تمہیں ایجنٹ کی ٹریننگ کے بجائے قصائی کی ٹریننگ فی ہے ۔۔۔ ابراہیم صاحب کافی سنجیدگی سے اس کو دیکھ رہے تھے ۔۔

ان جیسے کے لیے قصائی ہی ہوں۔ اور الفا نے مجھے بہت کچھ سیکھا رکھا ہے یہ تو بس ایک چھوٹا سا نمونہ تھا ۔۔ ایم-زی نے ناک پر سے مکھی اڑانے والے انداز میں بولا تھا۔۔۔

بہت ظالم ہو تم یار۔۔۔ ابراہیم صاحب سر نفی میں ہلاتے بولے تھے۔۔۔

کوئی شک ہے تو یقین میں بدل دوں۔۔۔ ایم-زی سامںے رکھی چیر پر بیٹھتا ڈھٹائی سے بولا تھا۔۔

ڈھیٹ ۔۔۔ ابراہیم صاحب اس کو دیکھ کر دانت پیس کر بولے تھے۔۔۔

پیدائشی ۔۔۔ وہ کرسی کی پشت سے ٹک لگا کر بولا تھا۔۔۔ جبکہ سکندر اور فاروق ابراہیم صاحب اور ایم-زی کو آمنے سامنے دیکھ کر بس سر پکڑ کر رہے گئے تھے ۔۔۔ ان دونوں کو بس الفا ہی خاموش کروا سکتا تھا۔۔ مگر افسوس آج وہ ادھر نہ تھا۔۔۔ ایک طرف الفا کا جگری دوست اور ایک طرف الفا کا لاڈلا سٹوڈنٹ ۔۔۔۔

•••••••••••

وہ آج دو سال بعد دبئی آیا تھا۔۔۔۔ اس کی کار اس وقت اس کے گھر کے مین گیٹ کے سامنے تھی ۔۔۔ سیکورٹی گارڈ کار کو دیکھ کر فوراً سے دروازہ کھول چکا تھا۔۔۔ کار اس وقت گھر میں بنے رن وے پر سے گزرتی ایک بڑے سے دروازے کے سامنے روکی تھی۔۔۔۔ وہ اپنی کار سے نکالا تھا۔۔۔ اور اپنی سنہری آنکھوں پر سے سیاہ رنگ کی سن گلاسز اتار کر اندر کی طرف بڑھا تھا۔۔۔۔

وہ ابھی اندر داخل ہوا ہی تھا جب مزمل بیگم اس کو سامنے صوفے پر بیٹھی کیسی کتاب کا مطالعہ کرتی نظر آئی تھی۔۔۔ اس نے گھڑی کی طرف دیکھا تھا جہاں رات کے اٹھ بج چکے تھے ۔۔

اسلام و علیکم ۔۔۔ حدید کی آواز لاونج میں گونجی تھی۔۔ جس کے ساتھ ہی مزمل بیگم نے سر اٹھایا تھا۔۔۔

میرا حادی۔۔۔ میرا بیٹا ۔۔ مزمل بیگم اپنی جگہ سے اٹھی تھی۔۔۔ اور اپنی باہیں اس کے لیے کھولی تھی ۔ حدید فوراً سے آگے بڑھا تھا اور ان کو گلے لگا لیا تھا۔۔۔

کیسی ہیں آپ ۔۔۔ اس نے ان کی طرف دیکھتے بولا تھا۔۔۔

تمہیں دیکھ لیا۔۔۔ بس بلکل ٹھیک ہوں میں ۔۔ مزمل بیگم اس کے چہرے کو محبت سے دیکھتے بولی تھی ۔۔

اور۔۔۔۔ ابھی حدید کچھ بولتا جب مزمل بیگم بولی تھی۔۔۔

وہ بھی ٹھیک ہے۔۔۔ بس آج سونے جلدی چلی گئی ہے۔۔۔  مزمل بیگم ہلکی سی مسکراہٹ چہرے پر سجائے بولی تھی۔۔۔۔

میں اس کا تو نہیں پوچھنے لگا تھا۔۔۔ حدید نے چور نظروں سے مزمل بیگم  کی طرف دیکھ کر بولا تھا۔۔۔

ہاں تم ملازمہ کے بارے میں پوچھنے لگے تھے ۔۔۔ مزمل بیگم اپنی ہنسی کا گلا گھونٹتے بولی تھی۔۔۔۔

آپ کو شاید مجھے چھڑنے کا مزہ آتا ہے ۔۔ حدید شکوہ کرتے بولا تھا۔

اب اتنا تو مجھے حق ہے ۔۔ مزمل بیگم اس کی گال کھینچ جر بولی تھی۔۔۔ جبکہ  وہ منہ پھولا چکا تھا۔   اور اس کی شکل دیکھ کر مزمل بیگم کی ہسنے کی آواز لاؤنج میں گونجی تھی ۔۔

تم  فرش ہو کر آؤ میں تمہارے لیے کھانا لگاتی ہوں۔۔۔ مزمل بیگم اس کے بالوں کو خراب کرتی  کچن کی طرف بڑھی تھی۔۔۔ جبکہ وہ سیڑھیاں چڑھتا اپنے کمرے کی طرف جانے لگا تھا۔۔۔۔

اور کچھ دیر میں وہ فریش ہو کر کھانا کھانے نیچے آ گیا تھا ۔۔ ساتھ وہ کھانا کھا رہا تھا ساتھ وہ مزمل بیگم سے یہاں وہاں کی باتیں کر رہا تھا۔۔۔۔ تقریباً گیارہ بجے کے قریب مزمل بیگم  اپنے کمرے میں آرام کرنے گئی تھی اور حدید کافی کا مگ لیے باہر لون کی طرف آیا تھا۔۔۔

وہ کافی کے مگ سے ایک ایک گھونٹ بڑھتا نا جانے کن خیالوں میں گم تھا۔۔۔ جب اس کی نظر اوپر والے پورشن کی ایک کھڑی کی طرف گئی تھی ۔۔۔۔ دل میں آئی خواہش پر ہاں بولتا وہ اپنی جگہ سے اٹھا تھا اور بے آواز قدم بڑھتا وہ سیڑھیاں چڑھنے لگا تھا۔۔۔۔ وہ اس وقت اس کے کمرے کے سامنے کھڑا تھا۔۔ اس نے دروازے کے ہینڈل ہر ہاتھ رکھا تھا ۔۔ ڈھرکنوں کی رفتار بے ترتیب ہوئی تھی۔۔ دل کو سنبھالتا وہ بہت احتیاط سے دروازہ کھولتے  کمرے میں داخل ہوا تھا۔۔۔

کمرے میں نائٹ بلب کی مدہم روشنی تھی۔۔۔ اے-سی چلنے کی وجہ سے کمرا مکمل ٹھنڈا تھا۔۔ بیڈ پر لیٹا وجود خود پر سر سے پیر تک کمبل لیپٹے خواب خرگوش کے مزے لے رہا تھا ۔۔ بیڈ کے پیچھے ایک بڑا سا فوٹو فریم تھا۔۔۔ جس میں دو تصویریں تھی۔۔۔ ایک تصویر میں ایک سنہری بالوں والی اور ہلکی نیلی آنکھوں والی پیاری سے لڑکی تھی جس نے پینٹ پر شوٹ شرٹ پہنی ہوئی تھی جس کی سلیوز کی جگہ بس ایک بریک سی سٹریپ تھی اور اس کا پیٹ بھی تھوڑا سا نظر آ رہا تھا۔۔۔

جبکہ دوسری تصویر میں وہ ہی لڑکی ایک لونگ فروک میں تھی جس پر اس نے نفاست سے سکارف لے رکھا تھا۔۔۔ پہلی تصویر کے نیچے خوبصورتی سے آنگلش میں" اولڈ للی" لکھا ہوا تھا۔۔ جبکہ دوسری سکارف والی تصویر کے نیچے "نیو وافیہ" لکھا ہوا تھا۔۔۔

وافیہ ۔۔۔۔ حدید مدہم آواز میں بلوا تھا۔۔ ہونٹوں پر ایک خوبصورت مسکراہٹ نے جگہ لی تھی ۔ مگر جب اس نگ بیڈ پر دیکھا تو دل کے ارمانوں پر کیسی نے بالٹی بجر کے پانی پھینکا تھا۔۔ کیونکہ وافیہ مکمل توڑ سے کمبل خود پر آور کر سو رہی تھی۔۔ وہ جیسی خاموشی سے آیا تھا ویسی خاموشی سے ہی باہر نکل گیا تھا۔۔۔ ابھی وہ دروازہ بند کر کے موڑا ہی تھا کہ اس کا کان مزمل بیگم کے ہاتھ میں تھا۔۔۔۔

اہہہ۔۔۔۔ میرا کان۔۔۔ حدید مزمل بیگم کی طرف دیکھتے ہوئے بولا تھا چہرہ شرمندگی سے سرخ تھا۔۔۔

چلو تم میرے ساتھ ۔۔۔ مزمل بیگم اس کو کان سے پکڑ کر ساتھ لے کر چل رہی تھی اور وہ خاموشی سے سے جھکائے چل رہا تھا۔۔۔

کیا کرنے گئے تھے کمرے میں ؟؟.. مزمل بیگم اس کے سر پر سوار سخت تاثرات چہرے پر سجائے بولی تھی۔۔۔

وہ میں ۔۔۔۔ حدید نے کچھ بولنے کے لیے منہ کھولا ہی تھا کہ مزمل بیگم  پھر سے بولی تھی۔۔۔

خبردار جو یہ بولا کہ تم جانے انجانے میں گئے تھے یا تمہیں روم کا پتا نہیں تھا۔۔۔  اگر تم نے ایسا بولا تو تمہارا سر اور میری جوتی ہو گی۔۔ اب بولو کیا کرنے گئے تھے اس کے کمرے میں ۔۔۔ مزمل بیگم غصے سے اس کو دیکھتے بولی تھی۔۔۔

کیا بولوں ایک بہانا تھا وہ بھی آپ نے چھین لیا ۔۔ حدید منہ نیچھے کیے بولا تھا۔۔۔

حادی۔۔۔ اس کی بات سن کر مزمل بیگم کا منہ کھولا کا کھولا رہ گیا تھا۔۔۔

میں کچھ غلط نہیں کیا نہ ہی کیسی غلط ارادے سے اس کے کمرے میں گیا تھا۔۔۔ حدید نے اپنی صفائی کے لیے منہ کھولا تھا۔۔۔

تو پھر اس کے کمرے میں نائٹ واک کرنے گے تھے۔؟؟ مزمل بیگم اس کو سر سے پیر تک گھورتی بولی تھی۔۔۔  

ایسا نہیں ہے؟ حدید نے شرمندگی سے سر جھکا لیا تھا۔۔ اس کو تو اندازہ بھی نہ تھا کہ وہ رنگے ہاتھوں پکڑا جائے گا۔۔۔

پھر کیسا ہے ذرہ ایکسپلین کرو۔۔ مزمل بیگم اس کے سامنے بیٹھتی بولی تھی ۔۔

یار آپ پلیز اس بات کو چھوڑیں نہ۔۔۔ حدید نے معصوم سی شکل بنا کر مزمل بیگم کی طرف دیکھا تھا۔۔ کون کہہ سکتا تھا یہ  دبئی کے ڈان کا رائیٹ ہینڈ ہے ۔۔ جس کو ایک زمانہ امیل کے نام سے جانتا ہے۔۔۔

ہاں ٹھیک ہے میں یہ بات چھوڑ دیتی ہوں اور جوتی پکڑ لیتی ہوں پھر میں جانوں اور میری جوتی جانے۔۔۔ مزمل بیگم پرسکون انداز میں بولتی اپنی جوتی سے پاؤں نکال چکی تھی۔۔۔

ارے می۔۔۔ می۔۔۔میں بتا رہا ہوں نہ جوتی تو پہنے۔۔۔ حدید فوراً لائن پر آیا تھا۔۔۔  کون مان سکتا تھا امیل اس عورت کی جوتی سے ڈر جائے گا جو اس کی ماں کی سہیلی تھی اور اس کی سوتیلی ماں تھی۔۔۔

جلدی بول۔۔ مزمل بیگم روب سے بولی تھی۔۔۔

وہ ۔۔ میں ۔۔۔ اس۔ کو دیکھنا چاہتا تھا۔  آخر حدید صاحب نے سچ بول ہی دیا تھا۔۔۔

تو صبح تک کا انتظار نہیں ہو سکتا تھا اس کو دیکھنے کے لیے؟؟  ایسی بھی کون سی مجبوری تھی۔۔ مزمل بیگم نے اب کی بار اس کو گھور کر دیکھا تھا۔۔۔

اب یہ میں بتانے سے رہا  بےبی گرل۔۔ یہ کہہ کر حدید مزمل بیگم کی گال  کھینچ کر باہر کی طرف بھاگا تھا ۔۔ جب ساتھ ہی مزمل بیگم نے جوتا ہاتھ میں لیتے ساتھ اس کی طرف پھینکا تھا ۔۔۔ جو اس کو لگتا لگتا رہ گیا تھا ۔۔

بے شرم انسان میری بچی کے کمرے کے آس پاس نظر آئی تو ٹانگیں توڑ دوں گئی تمہاری ۔۔۔۔ مزمل بیگم اونچی آواز میں بولی تھی ۔۔ جبکہ حدید ان کی بات سن کر اولٹے قدم پلٹا تھا اور ان کے کمرے کے دروازے میں سے تھوڑا منہ نکال کر بولا تھا۔۔

آپ اپنی بچی میرے کمرے میں حلال طریقے سے شیفٹ کروا دیں نہ پھر  میں اس کے کمرے کے آس پاس نظر نہیں آؤ گا۔۔۔ حدید مزمل بیگم کی طرف دیکھتا بولا اور فوراً  سے بھاگا تھا کیونکہ مزمل بیگم دوسرا جوتا بھی ہاتھ میں لے چکی تھی۔۔۔

بےشرم انسان کوئی حیا ہے کہ ماں کے سامنے بات کر رہا ہے۔۔۔ مزمل بیگم پھر سے اونچی آواز میں بولی تھی ۔۔ جبکہ اب کی بار حدید نے اپنے  قہقہے کا گلا گھونٹا تھا۔۔ ورنہ اس ٹائم اس کو جوتیاں پکی پڑنے تھی ۔۔

urdunovelnests••••••••••

کہاں مر گیا ہے یہ۔۔۔ کمینے فون اٹھا میرا۔۔۔ کبیر خاور غصے سے بولتا پھر سے ایک نمبر ڈائل کرنے لگا تھا ۔۔ ساتھ ہی ساتھ ایک بیگ میں اپنا کچھ ضروری سامان ، رقم ، گنز ، بلٹس وغیرہ اور کچھ فائیلز رکھ رہا تھا۔۔۔  اب کی بار پھر سے کال نہ اٹھائی گئی تھی۔۔۔۔ اس نے دوبارہ سے نمبر ڈائل کیا تھا۔۔۔۔

ہیلو سر۔۔۔ کال اٹینڈ کر لی گئی تھی اور مقابل فوراً بولا تھا۔۔۔

کدھر مر گیا تھا تو ۔۔۔ میں تیرے باپ کا ملازم ہوں جو بار بار تجھے فون کروں۔۔ کبیر خاور غصے سے چیخ اٹھا تھا۔۔۔

سر آپ نے جو لوکیش دی تھی میں ادھر ہی آ رہا تھا۔۔۔ وہ آدمی ڈرتے ہوئے بولا تھا ۔

تم پہنچے ہو کہ نہیں ۔۔۔ کبیر خاور دانت پیستے بولا تھا۔۔

جی کنگ  میں پہنچ گیا ہوں۔۔۔ وہ آدمی فوراً بولا تھا۔۔۔

میں نکل رہا ہوں بس۔۔۔ یہ کہتے ساتھ اس نے فون رکھا تھا اور اپنے کمرے سے باہر نکل گیا تھا۔۔ ایک ہاتھ میں اس نے اپنا بیگ پکڑ رکھا تھا۔۔۔ راہداری سے ہوتے ہوئے وہ سیڑھیوں کے پاس آ کر روکا تھا۔۔ اس نے ایک نظر آس پاس دوڑائی تھی۔۔۔  اس وقت ادھر کوئی بھی موجود نہ تھا۔۔۔  تو اس بات کا فائدہ اٹھاتا سیڑھیاں اتر گیا تھا ۔۔۔  اس نے سامنے کے دروازے کے بجائے بیک ڈور کو ترجیح دی تھی۔۔۔ اور آس پاس دیکھتا بہت احتیاط سے بیک ڈور کی طرف جانے والی راہداری کی طرف بڑھا تھا۔۔ اس کے ماتھے پر ننھے ننھے پسینے کے قطرے نمودار ہوئے تھے۔۔۔ وہ بار بار پیچھے دیکھتا  آگے بڑھ رہا تھا۔۔۔ ایک  دروازے کے سامنے روک کر اس نے  ایک باد پھر سے پیچھے کی طرف موڑ کر دیکھا تھا اور کچھ مطمئن ہو کر۔ اس نے فوراً دروازہ کھولا تھا ۔۔ ایک نظر پورے گراؤنڈ میں ڈالی تھی۔۔  وہاں کوئی گارڈ نہ تھا۔۔۔

شاہد آج قسمیت کبیر خاور پر مہربان تھی۔۔ اس نے فوراً باہر قدم نکلا اور اس وسیع گراؤنڈ کو بھاگ کر پار کیا تھا ۔ اب وہ بیک سائیڈ کے دروازے کی طرف تھا جو سڑک پر کھولتا تھا۔۔ اس نے آس پاس نظریں دوڑائی اور دروازہ کھول کر باہر نکل گیا تھا۔۔

وہ سڑک پر بھاگتا ہوا کافی آگے آ گیا تھا۔۔۔ اس کو اور تھوڑے فاصلے پر ایک سفید رنگ کی کار نظر آئی تھی۔۔ وہ فوراً اس کی طرف بڑھا  تھا۔۔ اور کچھ دیر میں وہ اس کار کے پاس کھڑا تھا اس نے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے شخص کو پہلے دیکھا اور پھر بیک سیٹ پر بیٹھ گیا تھا ۔۔ جبکہ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا وہ آدمی باہر نکل کر اس کا بیگ ڈیگی میں رکھ کر واپس آ کر اپنی جگہ پر بیٹھا تھا اور کار وہاں سے بھگا لے گیا تھا۔۔۔

urdunovelnests•••••••••

اس کے بھاری بوٹوں کی آواز اس وقت مکمل راہداری میں گونج رہی تھی۔۔۔ وہ قدم قدم بڑھاتا ایک کمرے کی طرف جا رہا تھا۔۔۔ اس کی چلنے کی رفتار نہ تو تیز تھی نہ ہی کم۔۔ مگر اس کے چلنے کے انداز میں ایک خاص رعب و دبدبہ تھا۔۔۔  وہ کمرے کے دروازے کے سامنے ایک لمحے کے لیے روکا تھا ۔ اور پھر دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا تھا۔۔۔ جہاں ایک لیڈی ڈاکٹر بیڈ پر موجود بے ہوش لڑکی کا معائنہ کر رہی تھی ۔۔۔

Come sta ora?

(اب اس کی طبیعت کیسی ہے؟)۔۔ وہ اپنی سبز آنکھوں سامنے بے ہوش لیٹی لڑکی  پر مرکوز کر کے بولا تھا۔۔۔ اس کی نظر جب جب اس نے زخموں پر پڑتی تھی اس کا خون کھولتا تھا۔۔۔ اور کس وجہ سے کھولتا تھا وہ اس بات سے انجان تھا ۔۔۔

“A causa della ferita alla testa e della forte perdita di sangue, è molto debole. E penso che abbia subito anche uno shock, motivo per cui non ha ancora ripreso conoscenza.”

(سر پر چوٹ لگنے کی وجہ سے اور خون زیادہ بہنے کی وجہ سے یہ کافی کمزور ہیں ۔۔ اور مجھے لگتا ہے ان کو کیسی چیز کا صدمہ بھی پہنچا ہے جس کی وجہ سے یہ ابھی تک ہوش میں نہیں آئی ۔۔۔) وہ لیڈی ڈاکٹر اس کی طرف دیکھتی بولی تھی۔۔۔۔

“Quanto tempo ci vorrà perché riprenda conoscenza?”

(کتنا وقت لگے گا اس کو ہوش میں آنے میں ؟) وہ ڈاکٹر کی طرف دیکھتے بولا تھا۔۔۔۔

Non si può dire nulla a riguardo, potrebbe riprendere conoscenza stanotte, anche subito, oppure potrebbe richiedere uno o due giorni in più.

(اس بارے میں کچھ کہا نہیں جا سکتا آج رات میں بھی ہوش آ سکتا ہے ابھی بھی آ سکتا ہے یا ایک دو دن اور لگ جائے ۔۔۔ ) ڈاکٹر ہاتھ میں پکڑی ریپورٹ کو دیکھتے ہوئے اپنے پیشہ ورانہ انداز میں بولی تھی ۔۔

ہمممم ۔ اس نے سر اثبات میں ہلایا تھا ۔۔ جبکہ ڈاکٹر اور نرس اس کمرے سے باہر کی طرف نکل گئی تھی۔۔۔

وہ بیڈ کے ایک طرف پڑھے صوفے پر بیٹھ گیا تھا۔۔۔  اس کی سبز خاموش آنکھیں سامنے بےہوش پڑی لڑکی پر ٹیکی تھی۔۔۔ جس کے لمبے شہید رنگ بال ایک طرف ڈھلکے ہوئے تھے۔۔ سرخ و سفید رنگت میں کچھ پیلاہٹ دور آئی تھی۔۔۔ آج اس کو ایسے ہی بے ہوش پڑے دو دن گزر چکے تھے۔۔۔ وہ ہر چیز سے بیگانی ہو کر بے ہوش پڑی تھی ۔۔۔

وہ اپنی جگہ وے اٹھا چلتا اس کے بیڈ کے قریب آیا تھا۔۔۔ اس کی بند آنکھوں پر خمدار پلکیں دیکھ کر نہ جانے کیوں اس کا دل کیا تھا ان کو چھونے کا مگر وہ دل کو قابو کرتا واپس صوفے پر جا کر بیٹھ گیا تھا۔۔۔ نظریں مسلسل اس  حسینہ کے چہرے پر تھی ۔۔۔

جس نے تمہیں اتنی تکلیف دی ہے ۔۔ میں اس کی موت کو بے حد تکلیف دہ بنا دوں گا۔۔۔ وہ سبز آنکھوں میں قہر لیے بولا تھا۔۔۔ جب دروازہ نوک ہوا تھا۔۔۔

آ جاؤ ۔۔۔۔  وہ ایسے ہی بیٹھا بولا تھا جب ایک آدمی اندر آیا تھا۔۔۔

بیسٹ ۔۔۔۔ وہ آدمی کافی پریشان لگ رہا تھا اور ڈرا ہوا بھی ۔۔

بولو کیا ہوا۔۔۔ تم اتنا ڈر کیوں رہے ہو۔۔۔ وہ صوفے سے ٹیک لگائے بولا تھا۔۔۔

وہ کینگ۔۔۔۔۔ وہ آدمی بولتے ہوئے روکا تھا۔۔۔

کنگ بھاگ گیا ہے ترکی سے ۔۔ اس کی بات کو بیسٹ نے مکمل کیا تھا جبکہ وہ آدمی منہ کھولے بیسٹ کو دیکھ رہا تھا۔۔۔ کہ اس کو کیسے پتا چلا ۔۔

بیسٹ وہ۔۔۔ اس آدمی نے کچھ بولنا چاہا تھا جب بیسٹ نے اس کو ہاتھ کے اشارے سے خاموش کروا دیا تھا۔۔۔

مجھے پتا ہے کبیر خاور فرار ہو گیا ہے اور وہ صرف بیوک ادا سے ہی نہیں ترکی سے فرار ہو چکا ہے ۔۔ بیسٹ بہت پرسکون انداز میں بولا تھا۔۔۔

مگر سر وہ۔۔۔ اس آدمی نے پھر سے بولنا چاہا تھا۔۔۔

میں سب جانتا ہوں تم بے فکر رہو۔۔۔ اور باقی سب کو بھی کہو پریشان نہ ہوں۔۔  بیسٹ یہ کہہ کر اس کو جانے کا اشارہ کر چکا تھا وہ آدمی خاموشی سے  واپس پلٹ گیا تھا۔۔۔ جبکہ بیسٹ اپنی جگہ سے اٹھا تھا۔۔ اور صوفے پر رکھا اپنا لونگ کوٹ اٹھا کر باہر کی طرف بڑھا تھا۔۔۔ جب ساتھ ہی باہر کھڑی نرس اندر آئی تھی۔۔۔۔

urdunovelnests•••••••••••

ہر طرف خون ہی خون تھا ، اچانک گولی چلنے کی آواز آئی تھی ایک طرف سے۔۔۔۔ جزا مجھے بچاؤ ۔۔۔ کیسی نے اس کو پکارا تھا۔۔۔ پھوپھو کو کچھ مت کرنا۔۔ اس  آواز کے ساتھ ایک اور آواز گونجی تھی۔۔۔ چیخوں کی آوازیں بیڈ پر پڑا وجود جس کے کپڑے ہر جگہ سے پھٹے ہوئے تھے اس کے پیٹ سے نکلتا خون۔۔ ایک شخص نے اس کا گریبان اور اس کی آستین ایک طرف سے پھاڑی تھی۔۔  وہ خود کا دفاع کرتی وہاں سے بھاگی تھی سڑک پر ننگے پاؤں بھاگ رہی تھی جب کیسی گاڑی سے ٹکرائی تھی۔۔۔۔۔  دو عورتوں کا خون میں لت پت وجود ایک لڑکی کا خون میں لت پت وجود ایک آدمی کا خون میں لت پت وجود۔۔۔۔

بابا۔۔۔۔۔۔۔۔ اس  آواز کے ساتھ ہی نے شہد رنگ آنکھوں کو بھی کھولا تھا۔۔۔ اس کی آواز پر پاس بیٹھی نرس فوراً سے اٹھ  کر اس کے پاس آئی تھی۔۔۔ اس نے فوراً اس کی نبض چیک کی وہ کافی بہتر لگ رہی تھی اس نے فون اٹھا کر ڈاکٹر  کو کال کی اور فون رکھتے ساتھ وہ کمرے سے باہر بھاگی تھی۔۔۔۔۔  

اور ایک کمرے کے سامنے جا کر روکی تھی ۔۔۔

وہ اس وقت اپنے کمرے کی بالکہنی میں بیٹھا آسمان کو دیکھ رہا تھا۔۔ آسمان پر چاند آدھا تھا آس پاس ستاروں کا جھرمٹ تھا۔۔ وہ خاموشی سے اس چاند کو تکتا جا رہا تھا۔۔۔

آدھے چاند کی رات۔۔میں جب بھی تمہیں دیکھتا ہوں تم آدھے ہی ہوتے ہو۔۔۔ وہ مدہم آواز میں بولا تھا ہونٹوں پر زخمی مسکراہٹ تھی۔۔۔ جب اچانک اس کے کمرے کا دروازہ نوک ہوا تھا۔۔ وہ سیدھا ہو کر بیٹھا تھا اور اندر آنے کی اجازت دے چکا تھا۔۔۔

Signore, ha ripreso conoscenza۔

(سر ان کو ہوش آ گیا ہے۔۔۔) وہ نرس اندر آتے ساتھ بولی تھی۔۔ اس کی بات کا جواب دے بغیر وہ اپنی جگہ سے اٹھا تھا اور اس کے کمرے کی طرف بڑھا تھا۔۔۔۔

ڈاکٹر ادھر پہلے سے موجود تھی۔۔۔ بیسٹ کو کمرے میں دیکھ کر ڈاکٹر اس سے مخاطب ہوئی تھی ۔۔

“Le avevo detto che avrebbe potuto riprendere conoscenza in qualsiasi momento... Comunque, non c’è da preoccuparsi, la debolezza nel corpo sparirà in pochi giorni. Si prenda cura della sua alimentazione e di lei stessa.”

(میں نے آپ کو کہا تھا یہ کیسی بھی وقت ہوش میں آ سکتی ہیں ۔۔۔ خیر فکر کی بات نہیں کچھ دنوں میں جسم میں جو کمزوری ہے وہ بھی دور ہو جائے گئی ۔۔ ان کے کھانے کا خیال رکھے اور ان کا بھی ۔۔) ۔۔ ڈاکٹر پروفیشنل انداز میں بولی تھی۔۔ جبکہ بیسٹ اس کو ہی دیکھ رہا تھا۔۔۔

Thank you...

وہ بس اتنا ہی بولا تھا۔۔۔ جبکہ ڈاکٹر واپس جانے لگی تھی کہ فوراً پلٹی تھی۔۔۔

“Al momento è mentalmente molto stanca, il suo cervello potrebbe non accettare alcune cose per ora... Quindi sarebbe meglio tenerla lontana dalle preoccupazioni e non farle sforzare troppo la mente.”

(وہ فلحال ذہنی طور پر کافی تھکی ہوئی ہیں ان کا دماغ شاید ابھی کچھ باتوں کو قبول نہ کرے۔۔ تو بہتر یہ ہو گا ان کو  پریشان سے دور رکھا جائے اور یہ اپنے دماغ پر زیادہ زور نہ دیں۔۔۔) وہ لیڈی ڈاکٹر یہ کہہ کر ادھر سے چلی گئی تھی اور ساتھ ہی نرس بھی باہر نکلی تھی۔۔

وہ ہوش میں آ چکی تھی مگر وہ نہیں جانتی تھی وہ کتنی دیر بے ہوش رہی ہے ابھی کدھر ہے اس کو بچانے والا کون تھا ۔۔ مسلسل کمرے کی سیلنگ کو گھور رہی تھی جبکہ اس کے آس پاس نہ جانے کون سی زبان میں وہ لوگ ایک دوسرے سے بات کر رہے تھے۔۔  اس کو کبھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔۔ دماغ بار بار اس ایک خیال کی طرف جا رہا تھا۔۔۔

کیسی ہو جزا۔۔۔۔ بیسٹ اس کے سامنے آ کر کھڑا ہوا تھا۔۔۔ جبکہ وہ خاموش  نظروں سے لاعلمی سے اس کو دیکھ رہی تھی۔۔۔

جزا۔۔۔۔ بیسٹ نے دوبار اس کو بلایا تھا۔۔ اپنے نام پر اس کے چہرے پر ایک تاثر آیا تھا۔۔۔۔

م۔۔میں۔۔ کہ۔۔کہاں۔۔ ہوں۔۔۔ وہ بامشکل بول پائی تھی۔۔۔ آواز میں لرزیش تھی ۔۔ اس سے پہلے بیسٹ کچھ بولتا وہ پھر سے آنکھیں موند گئی تھی ۔۔ بیسٹ نے سائیڈ ٹیبل پر پڑی میڈیس کو دیکھا تھا۔۔ جن میں ایک نیند اور آرام کی تھی۔۔۔  وہ ایک آخری نظر اس پر ڈالتا کمرے سے باہر نکل گیا تھا۔۔۔۔

urdunovelnests••••••••••••

حدید ابھی فرش ہو کر نکلا تھا۔۔ جب اس کا فون بجا تھا۔۔ اس نے نمبر دیکھا تھا۔۔۔ ایک مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر آئی تھی۔۔۔۔

 

ہیلو ۔۔۔ زیک۔۔۔۔۔ کیسے ہو۔۔ حدید فوراً بولا تھا۔۔۔

میں ٹھیک ہوں ۔۔۔ ویسے ایک بات بتاؤ سنے میں آیا ہے رات کیسی کو جوتیاں پڑی ہیں ۔۔۔  زیک چہرے پر شریر مسکراہٹ سجائے بولا تھا۔۔۔

کیا مطلب ۔۔۔ نہیں ۔۔۔ تم ۔۔تمہیں کیسے پتا چلا۔۔۔ حدید  کو حیرت کا دھچکا لگا تھا۔۔۔

بس چل گیا پتا۔۔۔ زیک پرسکون سا بولا تھا۔۔۔

تم نے میرے گھر میں کیمراز لگوائیں ہیں ؟؟؟  حدید جتنا حیران ہوتا کم تھا۔۔۔

میرے خیال سے تمہارا سوفٹ ویئر آپ ڈیٹ کرنا پڑے گا۔۔۔ زیک مطمئن سا بولا تھا۔۔۔

تو کھول کے بات کرے گا۔۔ حدید بیڈ پر بیٹھتا بولا تھا۔۔۔

تو نے ہی اپنے گھر میں کیمراز لگوائے تھے ۔ اور ان کو اپنے اور میرے فون کے ساتھ کونیکٹ کروایا تھا۔۔۔  زیک  بولتا بولتا چپ ہوا تھا۔۔۔

یار تو آگے بولے گا کہ نہیں ۔۔۔ حدید پریشان سا بولا تھا اس کا تو یہ حال تھا جیسے کیسی نے اس کا بھانڈا بیچ چوراہے  پر پھوڑ دیا ہو۔۔

تو بس کل رات کو فون پر کیسی کیمرا کہ فوٹیج ڈھونڈ رہا تھا جب اچانک تیرے گھر کی لائیو فوٹیج پلے ہو گئی ۔۔۔ زیک نے اپنی ہنسی کا گلا دبایا تھا ۔۔

تو نے  کیا دیکھا ۔۔۔ حدید پریشانی سے بولا تھا۔۔۔

نہیں زیادہ کچھ نہیں دیکھا میں نے بس ایک مجنوں کو اپنی محبوبہ کے کمرے میں گیا اور جب باہر نکلا تو اس کی ماں نے اس کے کان پکڑ لیے اور کچھ دیر بعد مجنوں صاحب کو فلائیگ چیپل رسیو ہوئی تھی۔۔۔  زیک اپنے قہقہے کا گلا گھونٹ رہا تھا۔۔۔ جبکہ حدید شرم سے سرخ ہو گیا تھا۔۔۔

تجھے شرم نہیں آتی لوگوں کی پرسنل لائف پر نظر رکھتے۔۔۔ حدید دبہ دبہ سا چیلایا تھا۔۔۔

دیکھو یار میں ٹھہرا ڈان لوگوں کی پرسنل لائف میں ٹانگ اڑانا مجبوری ہے۔۔ زیک پرسکون سا بولا تھا۔۔۔

تو تجھے میں ہی ملا تھا ۔۔۔۔ حدید  دانت پیس کر  بولا تھا۔۔۔

سوری برو اس ٹائم اویلیبل ہی تو تھا۔۔۔ زیک کا جواب اطمینان بخش تھا۔۔۔

لعنت ہو مجھ پر جس دن میں نے اپنے گھر کے کیمرے تمہارے فون کے ساتھ کونیکٹ کر دے تھے۔۔۔۔ حدید ایک ایک لفاظ چبا چبا کر بولا تھا۔۔۔

لعنتیں بعد میں بھجیانا خود پر۔۔۔ پہلے میری بات سنو ۔۔ زیک اب کی بار سنجیدہ ہو کر بولا تھا ۔۔۔ جبکہ اب کی بار حدید بھی سنجیدہ ہوا تھا۔۔۔

تم جس کام کے لیے دبئی گے ہو وہ شروع کیا یہ صرف جوتیاں کھانے پر دھیان ہے تمہارا ۔۔۔ زیک  رعبدار آواز میں بولا تھا ۔۔۔

اسی کے لیے جا رہا ہوں۔۔۔۔ حدید گھڑی کی طرف دیکھتا بولا تھا۔۔۔

گڈ ۔۔ یہ کہہ کر  وہ فون رکھ چکا تھا۔۔۔ جبکہ حدید اپنی جگہ سے اٹھا تھا ۔۔  اور کچھ دیر میں تیار ہو کر اپنی کار کی چابی اور والٹ لے کر صبح صبح ہی گھر سے نکل گیا تھا۔۔۔۔

urdunovelnests•••••••••••••••

یہ منظر وسیع کمرے کا ہے جس میں ایک کنگ سائز وائٹ کلر کا بیڈ تھا۔۔ جبکہ کمرے کی دیواریں خوبصورت وائٹ اور لیونڈر کلر کے کمبینیشن  کہ بنی ہوئی تھی ۔۔ کمرے کے بیچوں بیچ ایک سفید رنگ کا خوبصورت سا جدید طرز کا  فانوس لگا ہوا تھا ۔۔ بیڈ کے اطراف میں لیونڈر اور وائٹ کلر کمبینیشن کے سائیڈ ڈرا رکھے گے تھے ۔۔ تھوڑا  سا آگے ایک خوبصورت سے وائٹ ٹیبل پڑی تھی جس کے اطراف وائٹ خوبصورت اور جدید طرز کا صوفے سیٹ تھا۔۔۔   بیڈ کے سامنے والی دیوار پر بڑی سی ایل-سی-ڈی لگی ہوئی تھی۔۔۔ جبکہ دوسری طرف ایک خوبصورت  سے بڑی بالکہنی بنائی گئی تھی جہاں بہت خوبصورت پھول لگائے گے تھے۔۔۔ وہ بلکہنی اس وقت بڑے سے وائن کلر کے پردے جن کے اوپر ایک اور وائٹ نیٹ کے پردے کو لگایا گیا تھا بہت خوبصورت امتزاج بنا رہا تھا۔۔ بیڈ کے سیدھے ہاتھ صوفے سیٹ کے ساتھ کچھ فاصلے پر دو خوبصورت سے پیلر بنے ہوئے تھے ان ک درمیان میں ایک خوبصورت سا نفس ڈیزائن کا دروازہ لگا ہوا تھا۔۔ جو کہ ڈریسنگ روم تھا۔۔۔ جہاں ایک سے بڑھ کر ایک خوبصورت سے خوبصورت لباس رکھا گیا تھا اور وہ بھی ہر رنگ میں اس کے ساتھ خوبصورت ہینڈ بیگز ، ہیلز ، سنڈیلز، شوز، کوٹ شوز،  مشرقی طرز کے لباس ، مغربی طرز کے ایسے لباس جن کو پہن کر انکمفرٹیبل محسوس نہ کیا جائے ۔۔۔ ایک سے بڑھ کر ایک ایکسپنسو برینڈ کا میک اپ ، پرفیومز پڑھے تھے ۔۔ خوبصورت اور نفس سی جولری  بھی موجود تھی۔۔۔ اگر کہا جائے کہ اس کمرے کا ڈریسنگ روم لڑکیوں کی ہر کمزور سے بھرا پڑا تھا تو وہ غلط نہ ہو گا۔۔۔ ڈریسنگ روم میں ہی باتھ روم کا بھی گیٹ تھا۔۔۔ باتھ روم مکمل وائٹ  کلر میں تھا جو کہ جدید طرز کو مدنظر رکھتے ہوئے بنایا گیا تھا۔۔۔

 اور بیڈ پر ایک خوبصورت سے لڑکی سوئی ہوئی  تھی وہ حسین اور خوبصورتی میں کیسی ریاست کی شہزادی لگتی تھی۔۔۔مگر اس کے سر پر چوٹ لگی تھی جس کی وجہ سے ادھر پٹی بندھی ہوئی تھی۔۔ چہرے پر شاید کیسی نے زور دار تھپڑ مارا تھا جس کی وجہ سے گال پر نیل کا نشان اور ہونٹ کے قریب زخم ابھی تک تھا۔۔۔ ہاتھ اور بازوؤں پر بھی کہیں کہیں خروچیں تھی۔۔ ایک پاوں بھی زخمی ہوا ہوا تھا۔۔۔

جزا کی آنکھ ابھی ہی کھولی تھی جب اس نے ایک ملازمہ کو کمرے سے جاتے دیکھا تھا۔۔ وہ شاید صفائی کرنے آئی تھی ۔۔  اس کو اپنا سر گھومتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔۔ سائیڈ ڈرا پر سے گلاس اٹھا کر اس نے پانی پیا تھا۔۔  وہ اس انجان کمرے کو غور سے دیکھ رہی تھی ۔ ادھر کی ہر چیز بہت منفرد اور قیمتی معلوم ہوتی تھی ۔۔ اس نے اٹھنے کی ہمت کرنی چاہی جب گھوٹونوں میں درد محسوس ہوا تھا ۔۔۔ اس نے فوراً سے کمبل خود پر سے اتارا تھا وہ اس نے اس وقت لائٹ پیچ کلر کی لونگ فروک پہن رکھی تھی وہ اپنے کپڑوں کو دیکھ کر حیران ہوئی تھی۔۔ کیونکہ اس نے جو قمیض پہن رکھی تھی اس کی بازو اور اس کا گریبان ایک طرف سے پھٹ گیا ہوا تھا۔۔۔ پھر یہ کپڑے کیسے آئے اس کے وجود پر۔۔ اس نے اپنے دونوں گھٹنوں پر اپنے ہاتھ رکھے تھے۔۔ ان پر بینڈیج لگی ہوئی تھی۔۔۔ ابھی وہ بیڈ سے اترنے لگی تھی جب  کمرے میں کیسے کے قدموں کی آہٹ سنائی دی تھی۔۔۔

وہ خاموش کھڑا اس کے شہد رنگ بالوں کو دیکھ رہا تھا جو اس کی قمر سے نیچے اس وقت بیڈ پر بھی پھیلے ہوئے تھے۔۔۔

جزا نے  سامںے کھڑے شخص کو دیکھا تھا۔۔ یہ وہ ہی تھا جو کل اس کے سامنے کھڑا تھا۔۔۔۔

کیسا محسوس  کر رہی ہو۔۔۔  بیسٹ اس کے سامنے کھڑا بولا تھا۔۔۔

کون ہو تم۔۔۔۔ جزا نے اس کو دیکھ کر سوال کیا تھا۔۔۔

راز ۔۔۔۔۔  بیسٹ نے پرسکون سا یک لفظی جواب دیا تھا۔۔۔

نام کیا ہے تمہارا ۔۔۔  کون کو تم۔۔۔ میں ادھر کب سے ہوں۔۔۔  جزا ایک بار پھر سے بولی تھی۔۔۔

نام بھی بتا دیتا ہوں۔۔ تم مجھے پہلے مل چکی ہو جانتی ہو تم مجھے ۔۔۔  اور ادھر تم  تین دن سے ہو۔۔۔  بیسٹ کا لہجہ بہت ٹھہرا ہوا تھا۔۔ وہ ایک کہ بعد ایک سوال کا جواب دے چکا تھا۔۔۔

تین ۔۔ تین۔ دن۔۔۔۔ میرے گھر والے۔۔۔ بابا ماما۔۔ سویرا ۔۔ پھوپھو۔۔۔ جزا فوراً اپنی جگہ سے اٹھی تھی اور باہر کی طرف بڑھنے لگی تھی۔۔۔

تم ٹھیک نہیں ہو ابھی جزا کدھر جا رہی ہو۔۔۔  بیسٹ نے اس کے بازو سے پکڑ کر اس کو روکا تھا۔۔۔

چھوڑو مجھے ۔۔ مجھے جانا ہے۔۔۔ یہاں سے۔۔۔  جزا اس کو دیکھتے ہوئے بولتی جا رہی تھی جب اچانک بولتے ہوئے روکی تھی۔۔   اس کی شہد رنگ آنکھیں ایک بار پھر سے سبز آنکھوں سے ٹکرائی تھی ۔ ایک سالوں پورانی ملاقات کا منظر ذہن میں آیا تھا۔۔۔ 

تم وہ ہی ہو نہ اس دن۔۔۔ اس سے پہلے وہ اپنی بات مکمل کرتی کے بیسٹ بولا تھا ۔۔

چلو شکر ہے تمہیں یاد آیا میں کون ہوں۔۔ ماسک کے پیچھے چھپے ہونٹوں پر مسکراہٹ نے جگہ لی تھی۔۔۔

چھوڑو مجھے۔۔۔ مجھے جانا ہے۔۔ میرے گھر والے ۔۔ مجھے ان کے پاس جانا ہے۔۔۔ جزا اپنی بازو اس کی مضبوط گرفت سے آزاد کروانے کی کوشش کی تھی۔۔۔

جزا۔۔ بیسٹ نے اس کے بازو پر گرفت مضبوط کی تھی۔۔۔

تم میرا نام کیسے جانتے ہو۔۔۔ جزا اس کو حیرت سے دیکھتی بولی تھی۔ اس نے شاید ابھی اس بات پر غور کیا تگا کہ وہ اس کے نام سے اس کو بولا رہا ہے۔

میرے لیے کیسی کا بھی نام پتا جانا مشکل بات نہیں ہے جزا شاہد الف۔۔۔ بیسٹ اس کا مکمل نام لیتا بولا تھا۔۔۔

دیکھو تم جو کوئی بھی ہو مجھے جانے دو۔میرے گھر والے میرا انتظار کر۔۔۔ جزا بولتے بولتے روکی تھی۔۔۔ دماغ اس رات کا منظر تازہ ہوا تھا۔۔۔  اس کی شہد رنگ آنکھوں میں آنسوں دور آئے تھے۔۔۔ اس کا وجود کمزور پڑھ گیا تھا ۔۔ وہ نیچھے زمین پر بیٹھتی چلی جا رہی تھی۔۔۔۔ آنسو اس کی آنکھوں سے بہہ رہے تھے۔۔۔ جبکہ بیسٹ پریشان سا اس کو دیکھ رہا تھا۔۔۔

اس نے مار دیا سب کو ۔۔۔ میرے سامنے اس نے میرا خاندان تباہ کر ڈالا۔ پلیز مجھے جانے دو۔۔ جزا خود سے ہی بولی جا رہی تھی۔۔۔۔ جبکہ اس کی بات نے بیسٹ کو اس کی طرف حیرت سے دیکھنے پر مجبور کیا تھا ۔۔

جزا اٹھو۔۔۔ جزا۔۔۔ بیسٹ نے اس کے بازو سے پکڑ کر اس کو اُٹھانے کی کوشش کی تھی جس میں وہ کامیاب بھی ہو گیا تھا ۔۔۔

چھوڑو مجھے ۔۔ مجھے واپس جانا ہے۔۔ اس نے میرے گھر والوں کو مار ڈالا ۔۔ جزا چیخی تھی۔۔۔

کس نے مار دیا ہوا کیا ہے کچھ بتاؤ گی۔۔۔ بیسٹ اس کو جھنجھوڑ کر بولا تھا جبکہ وہ بس اس کو دیکھ رہی تھی۔۔۔

تم بھی قاتل ہو نہ تم نے بھی تو مال میں ایک آدمی کو گولی ماری تھی۔۔۔۔ چھوڑو مجھے ۔۔۔ جزا چیختے ہوئے بولی تھی۔۔۔اور بار بار خود کو بیسٹ کی گرفت سے آزاد کروانے کی کوشش کر رہی تھی ۔ اس کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کیا بولے اور کیا کرے۔۔۔

جزا ہوش میں آؤ اور سنبھالو خود کو۔۔ وہ بار بار اس کو قابو کرنے کی کوشش کر رہا تھا جو قابو نہیں ہو رہی تھی۔۔۔۔

میں بول رہی ہوں چھوڑو مجھے تمہیں سمجھ نہیں آ رہی ۔۔۔ اس نے میرے گھر والوں کو مار دیا میرے سامنے ۔۔۔ میں اس کی جان نکال لوں گئی۔۔۔ چھوڑو مجھے۔۔۔ وہ روتے ہوئے بول رہی تھی۔۔۔۔  

کس نے مارا ہے نام بتاؤ ۔۔ ہوا کیا ہے کچھ بتاو تو ۔۔۔ بیسٹ پریشان سا بولا تھا۔۔۔۔

کیوں بتاؤں تمہیں میں تم بھی قاتل ہو۔۔۔ جزا روتے ہوئے بولی تھی۔۔۔۔

میں تمہاری مدد کروں گا اس سے بدلہ لینے میں مجھے بتاؤ تو ہوا کیا تھا۔۔۔  بیسٹ کی گرجدار آواز کمرے میں گونجی تھی۔۔۔ جزا ایک لمحے کو ساکت ہو کر اس کو دیکھنے لگی تھی۔۔۔۔

بدلہ ۔۔۔ وہ بس اتنا ہی بول پائی تھی ۔۔ انسوں ابھی تک آنکھوں سے بہہ رہے تھے۔۔۔

ہاں اگر تم بدلہ لینا چاہتی ہو تو میں تمہاری مدد کروں گا ۔۔۔ مگر مجھے سب کچھ بتاؤ ہوا کیا تھا کیا کس نے اور کیوں ۔۔ بیسٹ اس کو دیکھتا بولا تھا ۔۔

میرے پھوپھو کے بیٹے نے۔۔۔ جزا روتے ہوئے بولی تھی ۔۔ جبکہ بیسٹ اس کو حیران سا دیکھ رہا تھا۔۔۔۔

کون ہے وہ۔۔۔۔ بیسٹ بس اتنا ہی بول پایا تھا۔۔۔

اس نے مجھ سے بدلہ لینے کے لیے میرے خاندان کو مار ڈالا میری معصوم بہن کی معصومیت سے کھلا ۔۔۔ میں نے اس کو انکار کیا تھا۔۔۔ اس نے میری بہن کا استعمال کیا۔۔۔ میری ماما کو مار ڈالا۔۔ میرے بابا کو مار ڈالا۔۔ اس نے تو اپنی ماں تک کا خیال نہ کیا ان کو بھی مار ڈالا۔۔ میری آنکھوں کے سامنے میری بہن بے آبرو ہوئی۔۔۔۔ جزا روتے ہوئے بولی تھی۔۔ ایک سسکی منہ سے نکلی تھی۔۔۔ اس کی آنکھیں سرخ ہو گئی تھی۔۔۔ روح پر لگی چوٹ کی تکلیف وجود پر لگی چوٹ پر غالب آ گئی تھی۔۔۔۔

نام بتاؤ مجھے۔۔۔۔ بیسٹ آنکھوں میں وحشت لیے بولا تھا۔۔۔

شہزاد اکرم ۔۔۔۔ جزا نے بہتے انسوں سے یہ نام لیا تھا۔۔۔ جبکہ بیسٹ بس اس کی طرف دیکھتا رہ گیا تھا۔۔۔

مجھے جانا ہے یہاں سے۔۔۔ میں اس کو زندہ نہیں چھوڑوں گئی۔ اس نے میرا خاندان مارا ہے میں اس کو مار ڈالو گی میں خون کا بدلہ لوں گی اس سے۔۔ جزا آگے کی طرف بڑھی تھی۔۔۔

کیسے جاؤ گئی تم یہاں سے۔۔۔۔ کیسے لو گی اس سے بدلہ ۔۔ کوئی پلین ہے تمہارے پاس کوئی ہتھیار ہے تمہارے پاس۔۔۔ بیسٹ اس کو بازو سے پکڑ کر اپنے سامنے کھڑا کر چکا تھا۔۔۔ وہ زخمی شیرنی بنی اس کے سامنے کھڑی تھی۔۔ رونے سے آنکھیں اور ناک سرخ ہو گئی تھی ۔۔ ایک لمحے کے لیے بیسٹ کو اپنا دل دھڑکتا محسوس ہوا تھا۔۔۔۔

تم ہوتے کون ہو مجھے روکنے والے۔۔۔ میں جاؤ گئی یہاں سے اور جیسے بھی لوں اس سے بدلہ لے کر رہوں گئی۔۔۔۔ جزا ایک جھٹکے سے اپنی بازو اس سے آزاد کرواتی بولی تھی۔۔۔ اور آگے بڑھنے لگی تھی جب بیسٹ کی آواز نے اس کو روکا تھا۔۔

کیسے جاؤ گئی وہ ہی پوچھ رہا ہوں۔۔۔ بیسٹ موڑ کے اس کو جاتا دیکھ کر بولا تھا۔۔

چل کر چلی جاؤ گئی اور کچھ۔۔۔ وہ قہر برساتی نظروں سے اس کو دیکھتے بولی تھی۔۔۔ اور آگے بڑھ گئی جب ایک بار پھر سے بیسٹ کی آواز نے اس کے قدموں کو جکڑا تھا۔۔۔

ویل اٹلی سے چل کر پاکستان پہنچنے میں کتنا وقت لگے گا ۔۔۔ اور کیسے پہنچا جائے گا پہنچ کر بتانا ضرور ۔۔ تاکہ میں بھی بار بار اپنے پائلٹ کو تنگ نہ کروں۔  بیسٹ سینے پر بازو باندھے کھڑا اس کو دیکھ رہا تھا جو بے یقینی سے اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔۔۔ اس کو یقین ہی نہیں ہو رہا تھا وہ لاہور چھوڑو پاکستان سے ہی باہر ہے۔۔۔

کیا بکواس کر رہے ہو تم۔۔۔ یہ کہہ کر وہ آگے بڑھی تھی اور بلکہنی کا پردہ ہٹایا تھا اس نے ۔۔۔ اور باہر کا منظر دیکھ کر وہ حیران تھی۔۔۔ وہ واقع ہی اس وقت پاکستان میں نہ تھی۔۔۔ اس کے چہرے پر غم کے ساتھ ساتھ پریشانی نے بھی جگہ لی تھی۔۔۔

کدھر لے کر آئے ہو تم مجھے میں تمہیں جان سے مار ڈالوں گئی۔۔ جزا فوراً سے اس کی طرف بڑھی تھی اس سے پہلے بیسٹ اس کو روکتا ۔۔ جزا کے ہاتھ میں اس کا گریبان تھا۔۔۔ اور جزا کے ناخن اس کے سینے پر بھی لگ گئے تھے۔۔۔ وہ جس کے سامنے بڑے بڑے مافیا لینڈرز کانپ جاتے تھے۔۔ آج ایک لڑکی اس کا گریبان پکڑ کر اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کھڑی تھی۔۔۔۔ وہ جتںا حیران ہوتا کم تھا۔۔۔ اور یہ وہ وقت تھا جب بیسٹ کا دل مکمل توڑ پر جزا پر فدا ہو گیا تھا۔۔۔ اس کی جرت پر وہ اپنا دل ہار بیٹھا تھا۔۔ ماسک کے پیچھے چھپے لب ہلکا سا مسکرائے تھے۔۔۔

جواب دو کدھر لے کر آئے ہو تم مجھے ۔۔ جزا نے اس کے گریبان سے اس کو ہلایا تھا۔۔

روم۔۔۔۔ تم اس وقت اٹلی کے شہر روم میں ہو۔۔۔۔ بیسٹ پرسکون سا بولا تھا۔۔۔ جبکہ اس کی بات سن کر جزا کا ہاتھ اس کے گریبان پر سے ہٹا تھا۔۔۔

وہ واپس بلکہنی کی طروف بڑھی تھی۔۔۔ اس کو ابھی بھی یقین نہیں آ رہا تھا۔۔۔

تم یہاں سے نہیں جا سکتی جزا شاہد الف۔۔۔ اور تمہیں اس سے بدلہ لینے کے لیے میری مدد درکار ہو گی ۔۔۔ بیسٹ پر سکون سا اس کو دیکھتے بولا تھا۔۔۔

مجھے تمہاری مدد کی صرورت نہیں میں خود لے لوں گئی اس سے بدلہ ۔۔ جزا غم و غصے سے اس کی طرف دیکھتے بولی تھی ۔۔۔

کیسے لو گئی۔۔۔ اس زخمی وجود کے ساتھ۔۔۔ بغیر کیسی پلان کے۔۔۔ بغیر کیسی تیاری کہ۔۔۔ بیسٹ پرسکون سا بولا تھا جبکہ جزا چپ کر گئی تھی۔۔۔ اس نے واقع ہی نہیں سوچھا تھا وہ اس سے بدلہ کیسے لے گئی ۔۔ اس کے پاس تو کوئی ہتھیار بھی نہ تھا ۔۔۔

بدلہ لینے کے لیے دل کا زخمی ہونا اور غم کا نکل کر بدلہ کی آگ جلنا ، دماغ کا مضبوط اور چکانا ہونا ، ہاتھ میں ہتھیار ہونا، وجود میں طاقت ہونا اور ہر چیز کو مدنظر رکھ کے ایک پلان تیار کرنا ضروری ہوتا ہے ۔۔ مگر تمہارا ابھی صرف دل زخمی ہے۔ غم ابھی تم میں موجود ہے تم نے ابھی وہ غم نکالا نہیں ابھی صرف نفرت ہے بدلہ کی آگ جلنا باقی ہے۔۔ نہ تو تم دماغ طور پر تیار ہو نہ ہی جسمانی طور پر ۔۔ ہاتھ میں ہتھیار تمہارے نہیں اور پلان تمہارے پاس کوئی نہیں ۔۔ کیسے لو گئی بدلہ ۔۔ بیسٹ اس کو دیکھتا بولا تھا۔۔۔ جبکہ وہ بس ساکت کھڑی تھی اور اس کی سبز آنکھوں میں دیکھ رہی تھی۔۔۔ وہ شخص جو کوئی بھی تھا۔۔ مگر وہ اس کو سب کچھ  درست بول رہا تھا۔۔۔

میں تمہیں روکوں گا نہیں رونا چاہتی ہو رو جتںا رونا چاہتی ہو رو لو مگر ایک بات یاد رکھانا وہ تمہارا آخر رونا ہو اس بات پر اس کے بعد تم تب تک نہ رو جب تک تم بدلہ لے نہ لو۔۔ خود کو مضبوط کرو گئی تو بدلہ لینے کے لیے کھڑی ہو پاؤ گئ۔۔۔ وقت ہے تمہارے پاس سوچو تم کرنا کیا چاہتی ہو۔۔۔ مگر سب سے پہلے خود کو مضبوط کرو۔۔۔ اگر دل اور دماغ دونوں میں سے ایک بھی کمزور ہوا تو تم لڑ نہیں پاؤ گئی ۔۔ یہ کہہ کر بیسٹ اس کمرے سے نکل گیا تھا جب کہ وہ ایسے ہی کھڑی اس کی ایک ایک بات  کو سوچ رہی تھی ۔۔ ایک بار آنسوں نے پھر سے آنکھوں میں جگہ لی تھی۔۔۔ وہ ایسے ہی زمین پر بیٹھتی چکی گئی تھی۔۔۔۔

انسوں میں روآنی آ گئی تھی۔۔۔ ایک رات میں صرف ایک رات میں اس نے ہر رشتہ کھو دیا تھا۔۔۔ ماں ، باپ ، پھوپھو اور  بہن ۔۔۔ انسوں میں شدت آئی تھی۔۔۔ اس رات کا سارا منظر اس کی آنکھوں کے سامنے آیا تھا۔۔۔ لبوں  سے ایک سسکی نکلی تھی۔۔۔۔ اور اگلے ہی لمحے وہ خوبصورت کمرا اس کے رونے کی آوازوں سے گونج اٹھا تھا ۔۔۔۔ وہ رو رہی تھی بے تحاشا رو رہی تھی اس کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کس کس کے لیے روئے آج ۔۔ اپنی ماں کے لیے، اپنے باپ کے لیے اپنی پھوپھو کے لیے ، یا اپنی بہن کے لیے۔۔۔  اس کا دل زخمی تھا اس کی روح زخمی تھی۔۔۔ اس کا کوئی اپنا نہ رہا تھا اس دنیا میں صرف ایک رات ایک رات کی بات تھی ایک رات کا ظلم اور جزا شاہد الف اپنا پورا خاندان کھو چکی تھی۔۔۔

ماما۔۔ بابا۔۔۔ پھوپھو ۔۔۔ سویرا۔۔۔۔ مجھے کیوں چھوڑ گے ۔۔۔ وہ روتے ہوئے بولی تھی ۔۔

بابا۔۔۔ کدھر ہیں آپ ۔۔۔۔ آپ کہتے تھے جب کبھی بھی میں اکیلی ہوں گئی آپ تب بھی میرے پاس ہو گے۔۔۔ دیکھ بابا آج آپ کی جزا اکیلی ہے۔۔۔ آپ کدھر ہیں ۔۔۔ آپ میرے پاس کیوں نہیں آپ مجھے اکیلا چھوڑ گے۔۔۔ آپ ہی مجھے اکیلا کر گے بابا ۔۔۔ وہ روتے ہوئے بول رہی تھی۔۔۔ پاؤں پر لگی چوٹ میں سے پھر سے خون نکلنے لگا تھا۔۔ مگر اس کو اس وقت وہ تکلیف محسوس نہیں ہو رہی تھی۔۔۔ دل کی اور روح کی تکلیف ہر درد اور اذیت پر غالب تھی ۔۔۔

اللہ ۔۔۔ کوئی کیسی کے خاندان کو ایک رات میں کیسے ختم کر سکتا ہے۔۔۔ جزا روتے ہوئے بول رہی  تھی۔۔۔

میں نے تمہیں بولا تھا سویرا وہ  گہری کھائی ہے تم نے نہ سنی میری ۔۔۔ دیکھو نہ آج میں تمہیں کھو بیٹھی ہو۔۔۔ سویرا جزا تمہیں کھو بیٹھی وہ تمہیں بچا نہ سکی اس درندے سے۔۔۔۔ جزا بلک بلک کر رہ رہی تھی۔۔۔

اللہ اللہ ۔۔۔۔ آپ کہتے ہیں کیسی کو اس کی برداشت سے زیادہ نہیں آزمایا جاتا۔۔۔ کیا میں یہ سب برداشت کر سکتی تھی ۔ ان آنکھوں نے ماں کو مرتے دیکھا ہے۔۔۔ باپ کو مرتے دیکھا ہے۔۔ پھوپھو کر مرتے دیکھا ہے۔۔۔ اپنی معصوم بہن بےآبرو ہوتے دیکھی ہے ۔۔۔ میں یہ سب برداشت نہیں کر سکتی تھی۔۔۔ میرا دل پھٹ رہا ہے۔۔۔ جزا کی سدا بلند ہوئی تھی چہرہ آنسوں سے تر ہو گیا تھا۔۔۔

تم مر جاو شہزاد اکرم تم مر جاؤ ۔۔ وہ چہرہ ہاتھوں میں چھپائے پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھی۔۔۔۔

وہ مسلسل رو رہی تھی اس کا غم باہر نکل رہا تھا۔۔۔ مگر یہ غم دل سے جانا نہ تھا ایک کونے میں ہی رہنا تھا۔۔۔ کچھ غم ہم بھول نہیں سکتے وہ ہمارے اندر رہتے ہیں مگر ہم ان کے ساتھ جینا سیکھ جاتی ہیں۔۔۔ اپنوں کی  جدائی کا دکھ بھولے نہیں بھولتا۔۔۔ اپنوں کو کھو دینے کے غم پر صبر کرنا بہت مشکل ہوتا ہے ۔۔ اور یہ صبر کا گھونٹ اب اس کو پینا تھا۔۔۔۔

urdunovelnests•••••••••••

 

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Don’t copy without my permission ❌❌❌❌

Must share your reviews and also share with your friends

For reading other episodes of Dasht-e-Ulfat must click on link below

urdunovelnests

️Ep 1, Ep 2

️Ep 3, Ep 4

Ep 5, Ep 6

️Ep 7, Ep 8

Ep 9, Ep 10

️Ep 11, Ep 12

️Ep 13, Ep 14


 

Comments